Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al A'raf

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


المص (۱)

المص‏

حروف مقطعات کے متعلق بیان تفصیل کے ساتھ سورۃ بقرہ کی تفسیر کےشروع میں معہ علماء کے اختلاف کے ہم لکھ آئے ہیں ۔

 ابن عباسؓ سے اس کے معنی میں مروی ہے کہ المص سے مراد انا اللہ افضل ہے  

 سعید بن جبیرؒ سے بھی یہی مروی ہے ،

كِتَابٌ أُنْزِلَ إِلَيْكَ فَلَا يَكُنْ فِي صَدْرِكَ حَرَجٌ مِنْهُ لِتُنْذِرَ بِهِ وَذِكْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ (۲)

یہ ایک کتاب ہے جو آپ کے پاس اس لئے بھیجی گئی ہے کہ آپ اس کے ذریعہ ڈرائیں، سو آپ کے دل میں اس سے بالکل تنگی نہ ہو اور نصیحت ہے ایمان والوں کے لئے۔‏

یہ کتاب قرآن کریم تیری جانب تیرے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے ،  اب اس کی تبلیغ میں تم اپنے دل کے اندر کوئی کوتاہی اور تنگی نہ آنے دو۔

فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُوْلُواْ الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ (۴۶:۳۵)

پس (اے پیغمبر !) تم ایسا صبر کرو جیسا صبر عالی ہمت رسولوں نے کیا

 اس  تنزیل کا مقصد یہ ہے کہ اس کے ذریعے کافروں کو ڈراؤ۔ اور مؤمنین کے لئے یہ قرآن تو نصیحت ہے ہی۔

اتَّبِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ۗ

تم لوگ اس کی پیروی کرو جو تمہارے رب کی طرف سے آئی ہے اور اللہ کو چھوڑ کر من گھڑت سرپرستوں کی پیروی مت کرو

ان مؤمنین نے تو قرآن نازل شدہ کا اتباع کر لیا ہے اور نبی اُمی نے جو کتاب پیش کی ہے اور اس کے نقش قدم پر چل رہے ہیں اب اس کو چھوڑ کر غیر کے پیچھے نہ پڑنا ورنہ اللہ تعالیٰ کے دائرہ حکم سے نکل کر غیر کے حکم میں چلے جاؤ گے۔ لیکن عبرت و نصیحت حاصل کرنے والے بہت کم ہوتے ہیں اور تم سب ہی کو عبرت نہیں دلا سکتےٗ خواہ کتنی ہی کوشش کیوں نہ کرو۔جیسے فرمان ہے:

وَمَآ أَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِينَ  (۱۲:۱۰۳)

گو آپ لاکھ چاہیں۔ لیکن اکثر لوگ ایماندار نہ ہیں نہ ہونگے

 اور آیت میں ہے:

وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِى الاٌّرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ (۶:۱۱۶)

اور دنیا میں زیادہ لوگ ایسے ہیں کہ اگر آپ ان کا کہنا ماننے لگیں تو آپ کو اللہ کی راہ سے بےراہ کر دیں

سورۃ یوسف میں فرمان ہے:

سورۃ یوسف میں فرمان ہے:

ان میں سے اکثر لوگ باوجود اللہ پر ایمان رکھنے کے بھی مشرک ہی ہیں

اور فرمایا کہ اگر تم ہر کسی کوخوش رکھنے کی کوشش کرو گے تو یہ لوگ تم کو اللہ تعالیٰ کی راہ سے بھٹکا دیں گے۔  اکژ لوگ ایمان نہیں لاتے ہیں اور مشرک رہ جاتے ہیں۔

قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ (۳)

 تم لوگ بہت ہی کم نصیحت پکڑتے ہو۔‏

افسوس تم بہت ہی کم نصیحت حاصل کرتے ہو۔

وَكَمْ مِنْ قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَا

اور بہت بستیوں کو ہم نے تباہ کر دیا

کتنی ہی بستیوں کو ہم نے مخالفت رسول کے سبب ہلاک کر دیا ہے اور دنیا اور آخرت کی رسوائی ان کے پیچھے لگا دی جیسے کہ فرمان ہے:

وَلَقَدِ اسْتُهْزِىءَ بِرُسُلٍ مِّن قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِينَ سَخِرُواْ مِنْهُمْ مَّا كَانُواْ بِهِ يَسْتَهْزِءُونَ (۶:۱۰)

اور آپ سے پہلے جو پیغمبر ہوئے ہیں ان کے ساتھ بھی مذاق کیا گیا ہے۔ پھر جن لوگوں نے ان سے مذاق کیا تھا ان کو اس عذاب نے آگھیرا جس کا مذاق اڑاتے تھے۔‏

 تجھ سے اگلے رسولوں سے بھی مذاق کیا گیا ، لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ مذاق نے انہیں تہہ و بالا کر دیا ،ایک اور آیت میں ہے:

فَكَأَيِّن مِّن قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَـهَا وَهِىَ ظَالِمَةٌ فَهِىَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا وَبِئْرٍ مُّعَطَّلَةٍ وَقَصْرٍ مَّشِيدٍ (۲۲:۴۵)

بہت سی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے تہہ و بالا کر دیا اس لئے کہ وہ ظالم تھے پس وہ اپنی چھتوں کے بل اوندھی ہوئی پڑی ہیں اور بہت سے آباد کنوئیں بیکار پڑے ہیں اور بہت سے پکے اور بلند محل ویران پڑے ہیں۔‏

 اور جگہ ارشاد ہے:

وَكَمْ أَهْلَكْنَا مِن قَرْيَةٍ بَطِرَتْ مَعِيشَتَهَا ۔۔۔ وَكُنَّا نَحْنُ الْوَرِثِينَ (۲۸:۵۸)

اور ہم نے بہت سی وہ بستیاں تباہ کر دیں جو اپنی عیش و عشرت میں اترانے لگی تھیں، یہ ہیں ان کی رہائش کی جگہیں جو ان کے بعد بہت ہی کم آباد کی گئیں اور ہم ہی ہیں آخر سب کچھ کے وارث ۔

فَجَاءَهَا بَأْسُنَا بَيَاتًا أَوْ هُمْ قَائِلُونَ (۴)

اور ان پر ہمارا عذاب رات کے وقت پہنچا یا ایسی حالت میں کہ وہ دوپہر کے وقت آرام میں تھے۔‏

 ایسے ظالموں کے پاس ہمارے عذاب اچانک آ گئے اور وہ اپنی غفلتوں اور عیاشیوں میں مشغول تھے کہیں دن کو دوپہر کے آرام کے وقت، کہیں رات کو سونے کے وقت ،  چنانچہ اور آیت میں ہے:

أَفَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرَى ۔۔۔ أَن يَأْتِيَهُمْ بَأْسُنَا ضُحًى وَهُمْ يَلْعَبُونَ (۷:۹۷،۹۸)

کیا پھر بھی ان بستیوں کے رہنے والے اس بات سے بےفکر ہوگئے کہ ان پر ہمارا عذاب شب کے وقت آپڑے جس وقت وہ سوتے ہوں۔‏

اور کیا ان بستیوں کے رہنے والے اس بات سے بےفکر ہوگئے ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب دن چڑھے آ پڑے جس وقت کہ وہ اپنے کھیلوں میں مشغول ہوں۔

اور آیات میں ہے:

أَفَأَمِنَ الَّذِينَ مَكَرُواْ السَّيِّئَاتِ ۔۔۔  أَوْ يَأْخُذَهُمْ عَلَى تَخَوُّفٍ (۱۶:۴۵،۴۷)

بدترین داؤ پیچ کرنے والے کیا اس بات سے بےخوف ہوگئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں زمین میں دھنسا دے یا ان کے پاس ایسی جگہ سے عذاب آجائے جہاں کا انہیں وہم وگمان بھی نہ ہو۔

‏ یا انہیں چلتے پھرتے پکڑلے یہ کسی صورت میں اللہ تعالیٰ کو عاجز نہیں کر سکتے۔‏ یا انہیں ڈرا دھمکا کر پکڑ لے  

فَمَا كَانَ دَعْوَاهُمْ إِذْ جَاءَهُمْ بَأْسُنَا إِلَّا أَنْ قَالُوا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ (۵)

جس وقت ان پر ہمارا عذاب آیا اس وقت ان کے منہ سے بجز اس کے اور کوئی بات نہ نکلی واقعی ہم ظالم تھے۔‏

یہ تو رب کی رحمت ہے جو گنہگار زمین پر چلتے پھرتے ہیں ، عذاب رب آ جانے کے بعد تو یہ خود اپنی زبانوں سے اپنے گناہوں کا اقرار کر لیں گے لیکن اس وقت کیا فائدہ ؟اسی مضمون کو ان آیات میں بھی بیان فرمایا ہے:

وَكَمْ قَصَمْنَا مِنْ قَرْيَةٍ كَانَتْ ظَالِمَةً ۔۔۔ حَتَّى جَعَلْنَاهُمْ حَصِيدًا خَامِدِينَ (۲۱:۱۱،۱۵)

اور بہت سی بستیاں ہم نے تباہ کر دیں جو ظالم تھیں اور ان کے بعد ہم نے دوسری قوم کو پیدا کر دیا۔‏ جب انہوں نے ہمارے عذاب کا احساس کر لیا تو لگے اس سے بھاگنے

بھاگ دوڑ نہ کرو اور جہاں تمہیں آسودگی دی گئی تھی وہیں واپس لوٹو اور اپنے مکانات کی طرف جاؤ تاکہ تم سے سوال تو کر لیا جائے

 کہنے لگے ہائے ہماری خرابی! بیشک ہم ظالم تھے۔‏ پھر تو ان کا یہی قول رہا یہاں تک کہ ہم نے انہیں جڑ سے کٹی ہوئی کھیتی اور بھجی پڑی آگ (کی طرح) کر دیا

ایک حدیث میں آیا ہے:

 جب تک اللہ تعالیٰ بندوں کے عذر ختم نہیں کر دیتا انہیں عذاب نہیں کرتا،

 عبدالملکؒ سے جب اس کے شاگردوں نے پوچھا کہ یہ کیسے ہو گا تو آپ نے یہ آیت فَمَا كَانَ دَعْوَاهُمْ ، پڑھ کر سنائی

فَلَنَسْأَلَنَّ الَّذِينَ أُرْسِلَ إِلَيْهِمْ وَلَنَسْأَلَنَّ الْمُرْسَلِينَ (۶)

پھر ہم ان لوگوں سے ضرور پوچھیں گے جن کے پاس پیغمبر بھیجے گئے تھے اور ہم پیغمبروں سے بھی ضرور پوچھیں گے ۔

فرمایا اُمتوں سے بھی، ان کے رسولوں سے بھی یعنی سب سے قیامت کے دن سوال ہو گا، جیسے فرمان ہے:

وَيَوْمَ يُنَـدِيهِمْ فَيَقُولُ مَاذَآ أَجَبْتُمُ الْمُرْسَلِينَ (۲۸:۶۵)

اس دن ندا کی جائے گی اور دریافت کیا جائے گا کہ تم نے رسولوں کو کیا جواب دیا؟

اس آیت میں اُمتوں سے سوال کیا جانا بیان کیا گیا ہے

 اور آیت میں ہے:

يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ فَيَقُولُ مَاذَآ أُجِبْتُمْ قَالُواْ لاَ عِلْمَ لَنَآ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّـمُ الْغُيُوبِ  (۵:۱۰۹)

جس روز اللہ تعالیٰ تمام پیغمبروں کو جمع کرے گا، پھر ارشاد فرمائے گا کہ تم کو کیا جواب ملا تھا،

وہ عرض کرینگے کہ ہم کو کچھ خبر نہیں تو ہی پوشیدہ باتوں کو پورا جاننے والا ہے

 پس اُمت سے رسولوں کی قبولیت کی بابت اور رسولوں سے تبلیغ کی بابت قیامت کے دن سوال ہو گا،

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 تم میں سے ہر ایک با اختیار ہے اور اپنے زیر اختیار لوگوں کی بابت اس سے سوال کیا جانے والا ہے ۔ بادشاہ سے اسکی رعایا کا ہر آدمی سے اسکے اہل و عیال کا ، ہر عورت سے اس کے خاوند کے گھر کا ، ہر غلام سے اس کے آقا کے مال کا سوال ہو گا ۔

 راوی حدیث حضرت طاؤسؒ نے اس حدیث کو بیان فرما کر پھر اس آیت کی تلاوت کی ۔

فَلَنَقُصَّنَّ عَلَيْهِمْ بِعِلْمٍ ۖ وَمَا كُنَّا غَائِبِينَ (۷)

پھر ہم چونکہ پوری خبر رکھتے ہیں ان کے روبرو بیان کر دیں گے اور ہم کچھ بےخبر نہ تھے۔‏

قیامت کے دن اعمال نامے رکھے جائیں گے اور سارے اعمال ظاہر ہو جائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر دی جائے گی ۔اللہ تعالیٰ ہر شے کو دیکھتا ہے وہ تو چوری سے نظر ڈالنے پر بھی واقف ہے۔ دلوں کے بھیدکو جانتا ہے جیسے فرمایا:

وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلاَّ يَعْلَمُهَا وَلاَ حَبَّةٍ فِى ظُلُمَـتِ الاٌّرْضِ وَلاَ رَطْبٍ وَلاَ يَابِسٍ إِلاَّ فِى كِتَـبٍ مُّبِينٍ (۶:۵۹)

اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر وہ اسکو بھی جانتا ہے اور کوئی دانا زمین کے تاریک حصوں میں پڑتا اور نہ کوئی تر اور نہ کوئی خشک چیز گرتی ہے مگر یہ سب کتاب مبین میں ہیں

وَالْوَزْنُ يَوْمَئِذٍ الْحَقُّ ۚ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (۸)

اور اس روز وزن بھی برحق پھر جس شخص کا پلا بھاری ہوگا سو ایسے لوگ کامیاب ہونگے۔‏

وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوا بِآيَاتِنَا يَظْلِمُونَ (۹)

اور جس شخص کا پلہ ہلکا ہوگا سو یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنا نقصان کر لیا بسبب اس کے کہ ہماری آیتوں کے ساتھ ظلم کرتے تھے

ارشاد ہے کہ اعمال کو قیامت میں وزن کرنا حق ہے تا کہ کسی پر ظلم نہ ہونے پائے ۔ جیسے فرمان ہے:

 وَنَضَعُ الْمَوَزِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَـمَةِ ۔۔۔ وَكَفَى بِنَا حَـسِبِينَ (۲۱:۴۷)

قیامت کے دن ہم درمیان میں لا رکھیں گے ٹھیک ٹھیک تولنے والی ترازو کو۔ پھر کسی پر کچھ ظلم بھی نہ کیا جائے گا۔

اور اگر ایک رائی کے دانے کے برابر بھی عمل ہوگا ہم اسے لا حاضر کریں گے، اور ہم کافی ہیں حساب کرنے والے ۔

اور آیت میں ہے:

إِنَّ اللَّهَ لاَ يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَإِن تَكُ حَسَنَةً يُضَـعِفْهَا وَيُؤْتِ مِن لَّدُنْهُ أَجْراً عَظِيماً (۴:۴۰)

بیشک اللہ تعالیٰ ایک ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا اور اگر نیکی ہو تو اسے دوگنی کر دیتا ہے اور خاص اپنے پاس سے بڑا ثواب دیتا ہے۔‏

سورۃ القاریہ میں فرمایا:

فَأَمَّا مَن ثَقُلَتْ مَوَزِينُهُ فَهُوَ فِى عِيشَةٍ رَّاضِيَةٍ ۔۔۔ وَمَآ أَدْرَاكَ مَا هِيَهْ نَارٌ حَامِيَةٌ (۱۰۱:۶،۱۱)

پھر جس کے پلڑے بھاری ہونگے۔ وہ دل پسند آرام کی زندگی میں ہوگا۔

جن کے پلڑے ہلکے ہونگے۔ اس کا ٹھکانا ہاویہ (جہنم) ہے۔ تجھے کیا معلوم کہ وہ کیا ہے وہ تند تیز آگ ہے

اور آیت میں ہے:

فَإِذَا نُفِخَ فِى الصُّورِ فَلاَ أَنسَـبَ بَيْنَهُمْ ۔۔۔ فِى جَهَنَّمَ خَـلِدُونَ (۲۳:۱۰۱،۱۰۳)

پس جب صور پھونک دیا جائیگا اس دن نہ تو آپس کے رشتے ہی رہیں گے، نہ آپس کی پوچھ گچھ

جن کی ترازو کا پلہ بھاری ہوگیا وہ تو نجات والے ہوگئے۔ اور جن کے ترازو کا پلہ ہلکا ہوگیا یہ ہیں وہ جنہوں نے اپنا نقصان آپ کر لیا جو ہمیشہ جہنم واصل ہوئے۔‏

کبھی اعمال تو لے جائیں گے کبھی نامہ اعمال کبھی خود اعمال کرنے والے ۔ان تینوں باتوں کی دلیلیں بھی موجود ہیں ۔

 پہلے قول کا مطلب یہ ہے کہ اعمال گو ایک بےجسم چیز ہیں لیکن قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انہیں جسم عطا فرمائے گامیزان میں جو چیز تولی جائے گی بعض نے کہا ہے وہ نفس اعمال ہیں۔ اگرچہ وہ اعراض ہیں یعنی غیر مادی چیز ہیں لیکن اللہ تعالیٰ انہیں جسم دے دے گا جیسے کہ صحیح حدیث میں ہے:

 سورۃ بقرہ اور سورۃ آل عمران قیامت کے دن دو سائبانوں کی یا دو ابر کی یا پر پھیلائے ہوئے پرندوں کے دو جھنڈ کی صورت میں آئیں گی

 اور حدیث میں ہے:

 قرآن اپنے قاری اور عامل کے پاس ایک نوجوان خوش شکل نورانی چہرے والے کی صورت میں آئے گا یہ اسے دیکھ کر پوچھے گا کہ تو کون ہے؟ یہ کہے گا میں قرآن ہوں جو تجھے راتوں کی نیند نہیں سونے دیتا تھا اور دن بھر تم سے تعمیل حکم کراتا تھا۔ صوم میں پیاسا رکھا۔

حضرت براء والی حدیث میں جس میں قبر کے سوال جواب کا ذکر ہے اس میں یہ بھی فرمان ہے:

مؤمن کے پاس ایک نوجوان خوبصورت خوشبودار آئے گا یہ اس سے پوچھے گا کہ تو کون ہے؟

 وہ جواب دے گا کہ میں تیرا نیک عمل ہوں اور کافر و منافق کے پاس اس کے برخلاف شخص کے آنے کا بیان ہے

اور حدیث میں ہے:

 ایک شخص کے سامنے اس کے گناہوں کے ننانوے دفتر پھیلائے جائیں گے جس میں سے ہر ایک اتنا بڑا ہو گا کہ جہاں  تک نظر پہنچے ۔ پھر ایک پرچہ نیکی کا لایا جائے گا جس پر لا الہ الا اللہ ہو گا ۔ یہ کہے گا یا اللہ یہ اتنا سا پرچہ ان دفتروں کے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتا ہے؟

 اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو اس سے بےخطر رہ کہ تجھ پر ظلم کیا جائے ،

 اب وہ پرچہ ان دفتروں کے مقابلہ میں نیکی کے پلڑے میں رکھا جائے گا تو وہ سب دفتر اونچے ہو جائیں گے اور یہ سب سے زیادہ وزن دار اور بھاری ہو جائیں گے (ترمذی)

حدیث میں ہے:

 ایک بہت موٹا تازہ گنہگار انسان اللہ کے سامنے لایا جائے گا لیکن ایک مچھر کے پر کے برابر بھی وزن اللہ کے پاس اس کا نہ ہو گا پھر آپ ﷺنے یہ آیت تلاوت فرمائی:

فَلاَ نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَـمَةِ وَزْناً (۱۸:۱۰۵)

پس قیامت کے دن ہم ان کا کوئی وزن قائم نہ کریں گے ۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی تعریف میں جو حدیثیں ہیں ان میں ہے کہ حضور ﷺنے فرمایا :

ان کی پتلی پنڈلیوں پہ نہ جانا اللہ کی قسم اللہ کے نزدیک یہ احد پہاڑ سے بھی زیادہ وزن دار ہیں ۔

ان تینوں قولوں کو اس طرح جمع کرنا بھی ممکن ہے کہ ہم کہیں یہ سب صحیح ہیں کبھی اعمال تو لے جائیں گے کبھی نامہ اعمال کبھی خود اعمال کرنے والے ۔واللہ اعلم

وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَايِشَ ۗ قَلِيلًا مَا تَشْكُرُونَ (۱۰)

اور بیشک ہم نے تم کو زمین پر رہنے کی جگہ دی اور ہم نے تمہارے لئے اس میں سامان رزق پیدا کیا تم لوگ بہت ہی کم شکر کرتے ہو۔‏

اللہ تعالیٰ بندوں پر اپنے احسان کا ذکر فرماتا ہے کہ ہم نے اس قدر تسلط دیا کہ کہ دنیا میں تم حکومت کرنے لگے اور زمین پر اپنی جڑیں مضبوط کر لیںٗ اپنی نہریں جاری کر دیں اپنے گھر اور شاندار محل بنا لئے اور ساری منفعتیں اپنے لئے پیدا کر لیں۔ ہم نے ان کے لئے ابر کو مسخر کر دیا تا کہ پانی برسا کر زمین سے ان کے لئے رزق پیدا کرے اور زمین میں ان کے لئے ذریعہ معاش حاصل ہو۔ تجارت اور کمائی کے طریقے سکھا دیئے ۔ باوجود اس کے اکثر لوگ پوری شکر گزاری نہیں کرتے۔

جیسے کہ فرمایا:

وَإِن تَعُدُّواْ نِعْمَةَ اللَّهِ لاَ تُحْصُوهَا إِنَّ الإنْسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ (۱۴:۳۴)

اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننے بیٹھو تو یہ بھی تمہارے بس کی بات نہیں ۔ لیکن انسان بڑا ہی نا انصاف اور نا شکرا ہے

مَعَايِشَ تو جمہور کی قرأت ہے لیکن عبدالرحمٰن بن ہرمز اعرج مَعَائِشَ پڑھتے ہیں اور ٹھیک وہی ہے جس پر اکثریت ہے اس لئے کہ مَعَايِشَ جمع ہے معیشۃ کی ۔ اس کا باب عاش یعیش عیشا ہے اس مصدر کی اصل مَعِیشَۃ ہے ۔ کسر ہے پر تقلیل تھا نقل کر کے ماقیل کو دیا مَعیِشَۃ ہو گیا لیکن جمع کے وقت پھر کسر ہے پر آ گیا کیونکہ اب ثقل نہ رہا پس مفاعل کے وزن پر (معایش) ہو گیا کیونکہ اس کلمہ میں یا اصلی ہے ۔ بخلاف مدائین، صہائف اور بصائر کے جو مدینہ ، صحیفہ اور بصیرہ کی جمع ہے باب مدن صحف اور ابصر سے ان میں چونکہ یا زائد ہے اس لئے ہمزہ دی جاتی ہے اور مفاعل کے وزن پر جمع آتی ہے ۔ واللہ اعلم ۔

وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ

اور ہم نے تم کو پیدا کیا پھر ہم نے تمہاری صورت بنائی

انسان کے شرف کو اس طرح بیان فرماتا ہے کہ تمہارے باپ آدمؑ کو میں نے خود ہی بنایا

ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ لَمْ يَكُنْ مِنَ السَّاجِدِينَ (۱۱)

پھر ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو سو سب نے سجدہ کیا بجز ابلیس کے وہ سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا۔‏

اللہ تعالیٰ ابلیس کی عداوت کو بیان فرما رہا ہے کہ اس نے تمہارے باپ آدمؑ کا حسد کیا ۔ ہمارے فرمان سے سب فرشتوں نے سجدہ کیا مگر اس نے نافرمانی کی پس تمہیں چاہئے کہ دشمن کو دشمن سمجھو اور اس کے داؤ پیچ سے ہوشیار رہو، اسی واقعہ کا ذکران  آیات میں بھی ہے:

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَـئِكَةِ إِنِّى خَـلِقٌ بَشَرًا ۔۔۔ فَسَجَدَ الْمَلَائِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ (۱۵:۲۸،۲۹)

اور جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں کھنکھناتے سڑے ہوئے گارے سے ایک بشر بنانے والا ہوں۔

تو جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے لئے سجدے میں گر پڑنا ۔

چنانچہ تمام فرشتوں سب کے سب نے سجدہ کیا

حضرت آدمؑ کو پروردگار نے اپنے ہاتھ سے مٹی سے بنایا انسانی صورت عطا فرمائی پھر اپنے پاس سے اس میں روح پھونکی پھر اپنی شان کی جلالت منوانے کیلئے فرشتوں کو حکم دیا کہ انکے سامنے جھک جاؤ سب نے سنتے ہی اطاعت کی لیکن ابلیس نہ مانا

 اس واقعہ کو سورۃ بقرۃکی تفسیر میں ہم خلاصہ وار لکھ آئے ہیں ۔ اس آیت کا بھی یہی مطلب ہے اور اسی کو امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ نے بھی پسند فرمایا ہے ۔

 ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ انسان اپنے باپ کی پیٹھ میں پیدا کیا جاتا ہے اور اپنی ماں کے پیٹ میں صورت دیا جاتا ہے اور بعض سلف نے بھی لکھا ہے کہ اس آیت میں مراد اولاد آدم ہے ۔

ضحاکؒ کا قول ہے کہ آدم کو پیدا کیا پھر اس کی اولاد کی صورت بنائی ۔

 لیکن یہ سب اقوال غور طلب ہیں کیونکہ آیت میں اس کے بعد ہی فرشتوں کے سجدے کا ذکر ہے اور ظاہر ہے کہ سجدہ حضرت آدم علیہ السلام کے لئے ہی ہوا تھا ۔جمع کے صیغہ سے اس کا بیان اس لئے ہوا کہ حضرت آدمؑ تمام انسانوں کے باپ ہیں:

وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ وَأَنزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَى (۲:۵۷)

اور ہم نے تم پر بادل کا سایہ کیا اور تم پر من و سلویٰ اتارا

 یہ آیت اسی کی نظیر ہے یہاں خطاب ان بنی اسرائیل سے ہے جو حضور ﷺکے زمانے میں موجود تھے اور دراصل ابر کا سایہ ان کے سابقوں پر ہوا تھا جو حضرت موسیٰؑ کے زمانے میں تھے نہ کہ ان پر ، لیکن چونکہ ان کے اکابر پر سایہ کرنا ایسا احسان تھا کہ ان کو بھی اس کا شکر گزار ہونا چاہئے تھا اس لئے انہی کو خطاب کر کے اپنی وہ نعمت یاد دلائی ۔

یہاں یہ بات واضح ہے اس کے بالکل برعکس آیت وَلَقَدْ خَلَقْنَا الإِنْسَـنَ مِن سُلَـلَةٍ مِّن طِينٍ (۲۳:۱۲)ہے کہ مراد آدمؑ ہیں کیونکہ صرف وہی مٹی سے بنائے گئے ان کی کل اولاد نطفے سے پیدا ہوئی اور یہی صحیح ہے کیونکہ مراد جنس انان ہے نہ کہ معین۔ واللہ اعلم

قَالَ مَا مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ ۖ

حق تعالیٰ نے فرمایا تو سجدہ نہیں کرتا تو تجھ کو اس سے کونسا امر مانع ہے جب کہ میں تم کو حکم دے چکا ہوں

أَلَّا تَسْجُدَ میں لا بقول بعض نحویوں کے زائد ہے اور بعض کے نزدیک انکار کی تاکید کیلئے ہے ۔ جیسے کہ شاعر کے قول ما ان رایت ولا سمعت بمثلہ میں ما نافیہ پر ان نفی کے لئے صرف تاکیداً داخل ہوا ہے اسی طرح یہاں بھی ہے کہ پہلے آیت لَمْ يَكُنْ مِنَ السَّاجِدِينَ ہے پھر مَا مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ ہے

 امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ ان دونوں قولوں کو بیان کر کے انہیں رد کرتے ہیں

اور فرماتے ہیں مَنَعَكَ ایک دوسرے فعل مقدر کا متضمن ہے تو تقریر عبارت یوں ہوئی ما احوجک والزمک وا ضطرک الا تسجد اذا مرتک یعنی تجھے کس چیز نے بےبس محتاج اور ملزم کر دیا کہ تو سجدہ نہ کرے؟

یہ قول بہت ہی قوی ہے اور بہت عمدہ ہے ۔ واللہ اعلم

قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِنْهُ خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ (۱۲)

کہنے لگا میں اس سے بہتر ہوں آپ نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا اور اس کو آپ نے خاک سے پیدا کیا

ابلیس یہ دلیل پیش کرتا ہے کہ میں آگ سے پیدا شدہ ہوں اور آگ اشرف ہے مٹی سے جس سے کہ آدم پیدا شدہ ہے۔ ابلیس کی نظر اصل عنصر پر ہے لیکن اس نے اس تشریف دہئی آدم پر نظر نہیں ڈالی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھوں کا بنا ہوا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی روح بھری ہوئی ہے۔ اس نے ایک قیاس فاسد قائم کر لیا جو نص کے معاملے میں عارض ہو رہا ہے۔ یعنی قیاسٗ حکم اللہ کے خلاف بیٹھ رہا۔اس نے فرمان الہٰی کے مقابلے میں قیاس فاسد سے کام لیا اور سجدے سے رک گیا اللہ کی رحمتوں سے دور کر دیا گیا اور تمام نعمتوں سے محروم ہو گیا۔

اس ملعون نے اپنے قیاس اور اپنے دعوے میں بھی خطا کی ۔ اس کا دعویٰ تھا نار مٹی سے اشرف ہے۔ لیکن مٹی کی شان تحملٗ حلمٗ بردباریٗ مستقل مزاجیٗ ثابت قدمی ہے۔  اور آگ کی صفت ہے جلدی کرنا، جلا دینا، بےچینی پھیلانا، سرعت ہے۔اسی وجہ سے ابلیس اپنے گناہ پر اڑ گیا اور حضرت آدمؑ نے اپنے گناہ کی معذرت کی ، اس سے توبہ کی اور اللہ کی طرف رجوع کیا ۔ رب کے احکام کو تسلیم کیا، اپنے گناہ کا اقرار کیا، رب سے معافی چاہی، بخشش کے طالب ہوئے۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

فرشتے نور سے پیدا کئے گئے ہیں ، ابلیس آگ کے شعلے سے اور انسان اس چیز سے جو تمہاے سامنے بیان کر دی گئی ہے یعنی مٹی سے (مسلم)

ایک اور روایت میں ہے فرشتے نور عرش سے جنات آگ سے ۔

 ایک غیر صحیح حدیث میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ حور عین زعفران سے بنائی گئی ہیں ۔

 امام حسنؒ فرماتے ہیں ابلیس نے یہ کام کیا اور یہی پہلا شخص ہے جس نے قیاس کا دروازہ کھولا ۔

اس کی اسناد صحیح ہے ۔

حضرت امام ابن سیرین رحمتہ اللہ فرماتے ہیں سب سے پہلے قیاس کرنے والا ابلیس ہے ۔ یاد رکھو سورج چاند کی پرستش اسی کی بدولت شروع ہوئی ہے ۔

قَالَ فَاهْبِطْ مِنْهَا فَمَا يَكُونُ لَكَ أَنْ تَتَكَبَّرَ فِيهَا فَاخْرُجْ إِنَّكَ مِنَ الصَّاغِرِينَ (۱۳)

حق تعالیٰ نے فرمایا تو آسمان سے اتر تجھ کو کوئی حق حاصل نہیں کہ تو آسمان میں رہ کر تکبر کرے سو نکل بیشک تو ذلیلوں میں سے ہے۔

ابلیس کو اسی وقت حکم ملا کہ میری نافرمانی اور میری اطاعت سے رکنے کے باعث اب تو یہاں جنت میں نہیں رہ سکتا ، یہاں سے اتر جا کیونکہ یہ جگہ تکبر کرنے کی نہیں ۔

 بعض نے کہا فِيهَا کی ضمیر کا مرجع منزلت ہے یعنی جن ملکوت اعلیٰ میں تو ہے اس مرتبے میں کوئی سرکش رہ نہیں سکتا۔جا یہاں سے چلا جا تو اپنی سرکشی کے بدلے ذلیل و خوار ہستیوں میں شامل کر دیا گیا ۔ تیری ضد اور ہٹ کی یہی سزا ہے ۔

قَالَ أَنْظِرْنِي إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ (۱۴)

اس نے کہا مجھ کو مہلت دیجئے قیامت کے دن تک۔‏

اب ابلیس  گھبرایا اور اللہ سے مہلت چاہنے لگا کہ مجھے قیامت تک کی ڈھیل دی جائے ۔

 جیسے اور جگہ ہے:

قَالَ رَبِّ فَأَنظِرْنِى إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ (۱۵:۳۶)

کہنے لگا میرے رب! مجھے اس دن تک کی ڈھیل دے کہ لوگ دوبارہ اٹھ کھڑے کئے جائیں۔‏

قَالَ إِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِينَ (۱۵)

اللہ تعالیٰ نے فرمایا تجھ کو مہلت دی گئی ۔

چونکہ جناب باری جل جلالہ کی اس میں مصلحتیں اور حکمتیں تھیں بھلے بروں کو دنیا میں ظاہر کرنا تھا اور اپنی حجت پوری کرنا تھی اس ملعون کی اس درخواست کو منظور فرما لیا ۔

قَالَ فَإِنَّكَ مِنَ الْمُنظَرِينَ (۱۵:۳۷)

فرمایا کہ اچھا تو ان میں سے ہے جنہیں مہلت ملی ہے۔

 اسکے سامنے بولنے کی کسی کو مجال نہیں ، کوئی نہیں جو اس کے ارادے کو ٹال سکے، کوئی نہیں جو اس کے حکم کو بدل سکے ۔ وہ سریع الحساب ہے ۔

قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ (۱۶)

اس نے کہا بسبب اس کے کہ آپ نے مجھ کو گمراہ کیا ہے میں قسم کھاتا ہوں کہ میں ان کے لئے آپ کی سیدھی راہ پر بیٹھوں گا۔‏

ابلیس نے جب عہد الہٰی لے لیا تو اب بڑھ بڑھ کر باتیں بنانے لگا کہ جیسے تو نے میری راہ ماری میں بھی اس کی اولاد کی راہ ماروں گا اور حق و نجات کے سیدھے راستے سے انہیں روکوں گا تیری توحید سے بہکا کر تیری عبادت سے سب کو ہٹا دوں گا ۔

بعض نحوی کہتے ہیں کہ فَبِمَا میں با قسم کے لئے ہے یعنی مجھے قسم ہے میں اپنی بربادی کے مقابلہ میں اس کی اولاد کو برباد کر کے رہوں گا ۔

عون بن عبداللہ کہتے ہیں میں مکے کے راستے پر بیٹھ جاؤں گا لیکن صحیح یہی ہے کہ نیکی کے ہر راستے پر ۔

چنانچہ مسند احمد کی مرفوع حدیث میں ہے :

 شیطان ابن آدم کی تمام راہوں میں بیٹھتا ہے وہ اسلام کی راہ میں رکاوٹ بننے کیلئے اسلام لانے والے کے دل میں وسوسے پیدا کرتا ہے کہ تو اپنے باپ دادا کے دین کو کیوں چھوڑتا ہے ۔ اللہ کو اگر بہتری منظور ہوتی ہے تو وہ اس کی باتوں میں نہیں آتا اور اسلام قبول کر لیتا ہے ۔

ہجرت کی راہ سے روکنے کیلئے آڑے آتا ہے اور اسے کہتا ہے کہ تو اپنے وطن کو کیوں چھوڑتا ہے؟ اپنی زمین و آسمان سے الگ ہوتا ہے؟ غربت و بےکسی کی زندگی اختیار کرتا ہے؟ لیکن مسلمان اس کے بہکاوے میں نہیں آتا اور ہجرت کر گزرتا ہے ۔

پھر جہاد کی روک کے لئے آتا ہے اور جہاد مال سے ہے اور جان سے ۔ اس سے کہتا ہے کہ تو کیوں جہاد میں جاتا ہے؟ وہاں قتل کر دیا جائے گا ، پھر تیری بیوی دوسرے کے نکاح میں چلی جائے گی ، تیرا مال اوروں کے قبضے میں چلا جائے گا لیکن مسلمان اس کی نہیں مانتا اور جہاد میں قدم رکھ دیتا ہے

 پس ایسے لوگوں کا اللہ پر حق ہے کہ وہ انہیں جنت میں لے جائے گو وہ جانور سے گر کر ہی مر جائیں ۔

ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَنْ شَمَائِلِهِمْ

پھر ان پر حملہ کرونگا انکے آگے سے بھی اور انکے پیچھے سے بھی ان کی داہنی جانب سے بھی اور ان کی بائیں جانب سے بھی

اس آیت کی تفسیر میں ابن عباسؓ کا قول ہے کہ آگے سے آنے کا مطلب آخرت کے معاملہ میں شک و شبہ میں پیدا کرنا ہے ۔ اور پیچھے سے آنے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی رغبتیں دلاؤں گا، دائیں طرف سے آنا امر دین کو مشکوک کرنا ہے، بائیں طرف سے آنا گناہوں کو لذیذ بنانا ہے شیطانوں کا یہی کام ہے

 ایک اور روایت میں ہے:

شیطان کہتا ہے میں ان کی دنیا و آخرت ، نیکیاں بھلائیاں سب تباہ کر دینے کی کوشش میں رہوں گا اور برائیوں کی طرف ان کی رہبری کروں گا

 وہ سامنے سے آ کر کہتا ہے کہ جنت دوزخ قیامت کوئی چیز نہیں ۔

وہ پشت کی جانب سے آ کر کہتا ہے دیکھ دنیا کس قدر زینت دار ہے

وہ دائیں سے آ کر کہتا ہے خبردار نیکی کی راہ بہت کٹھن ہے ۔

 وہ بائیں سے آ کر کہتا ہے دیکھ گناہ کس قدر لذیذ ہیں

پس ہر طرف سے  آ کر ہر طرح بہکاتا ہے ہاں یہ اللہ کا کرم ہے کہ وہ اوپر کی طرف سے نہیں آسکتا ۔ اللہ کے بندے کے درمیان حائل ہو کر رحمت الہٰی کو روک نہیں بن سکتا ۔

پس سامنے یعنی دنیا اور پیچھے یعنی آخرت اور دائیں یعنی اس طرح کی دیکھیں اور بائیں یعنی اس طرح نہ دیکھ سکیں یہ اقوال سب ٹھیک ہیں ۔

 امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

 مطلب یہ ہے کہ تمام خیر کے کاموں سے روکتا ہے اور شر کے تمام کام سمجھا جاتا ہے ،

 اوپر کی سمت کا نام آیت میں نہیں وہ سمت رحمت رب کے آنے کیلئے خالی ہے اور وہاں شیطان کی روک نہیں۔

 وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ (۱۷)

 اور آپ ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائیں گے

وہ کہتا ہے کہ اکثروں کو تو شاکر نہیں پائے گا یعنی موحد ۔ابلیس کو یہ وہم ہی وہم تھا لیکن نکلا مطابق واقعہ ۔

جیسے فرمان ہے:

وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَيْهِمْ إِبْلِيسُ ۔۔۔ وَرَبُّكَ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ حَفُيظٌ (۳۴:۲۰،۲۱)

اور شیطان نے ان کے بارے میں اپنا گمان سچا کر دکھایا یہ لوگ سب کے سب اسکے تابعدار بن گئے سوائے مؤمنوں کی ایک جماعت کے۔‏

شیطان کا ان پر کوئی زور (اور دباؤ) نہ تھا مگر اس لئے کہ ہم ان لوگوں کو جو آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ظاہر کر دیں ان لوگوں میں سے جو اس سے شک میں ہیں۔ اور آپ کا رب (ہر) ہرچیز پر نگہبان ہے۔‏

مسند بزار کی ایک حسن حدیث میں ہر طرف سے پناہ مانگنے کی ایک دعا آئی ہے ۔ الفاظ یہ ہیں

اللھم انی اسأالک العفو والعفتہ فی دینی و دنیای و اھلی و مالی

 اللھم استر عورانی وامن روعانی واحفظنی من بین یدی ومن خلقی وعن یمینی وعن شمالی و من فوقی و اعوذ بک اللھم ان افتال من تحتی

مسند احمد میں ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر صبح شام اس دعا کو پڑھتے تھے

اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ،

اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي دِينِي وَدُنْيَايَ وَأَهْلِي وَمَالِي،

اللَّهُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِي وَآمِنْ رَوْعَاتِي،

اللَّهُمَّ احْفَظْنِي مِنْ بَيْنِ يَدَيَّ وَمِنْ خَلْفِي وَعَنْ يَمِينِي وَعَنْ شِمَالِي وَمِنْ فَوْقِي وَأَعُوذُ بِعَظَمتِكَ أَنْ أُغْتَالَ مِنْ تَحْتِي

قَالَ اخْرُجْ مِنْهَا مَذْءُومًا مَدْحُورًا ۖ لَمَنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنْكُمْ أَجْمَعِينَ (۱۸)

اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہاں سے ذلیل و خوار ہو کر نکل جا جو شخص ان میں تیرا کہنا مانے گا میں ضرور تم سب سے جہنم کو بھر دوں گا۔‏

ابلیس  پر اللہ کی لعنت نازل ہوتی ہے، رحمت سے دور کر دیا جاتا ہے ۔ فرشتوں کی جماعت سے الگ کر دیا جاتا ہے ۔ عیب دار کر کے اتار دیا جاتا ہے ،

لفظ مَذْءُومًا ماخوذ ہے ذام اور ذیم سے ، یہ لفظ بہ نسبت لفظ ذم کے زیادہ مبالغے والا ہے، پس اس کے معنی عیب دار کے ہوئے اور مدحور کے معنی دور کئے ہوئے کے ہیں مقصد دونوں سے ایک ہی ہے ۔ پس یہ ذلیل ہو کر اللہ کے غضب میں مبتلا ہو کر نیچے اتار دیا گیا ۔ اللہ کی لعنت اس پر نازل ہوئی اور نکال دیا گیا اور فرمایا گیا کہ تو اور تیرے ماننے والے سب کے سب جہنم کا ایندھن ہیں

جیسے اور آیت میں ہے ۔

قَالَ اذْهَبْ فَمَن تَبِعَكَ مِنْهُمْ ۔۔۔ وَكَفَى بِرَبِّكَ وَكِيلاً (۱۷:۶۳،۶۵)

ارشاد ہوا کہ جا ان میں سے جو بھی تیرا تابعدار ہو جائے گا تو تم سب کی سزا جہنم ہے جو پورا پورا بدلہ ہے

 ان میں سے تو جسے بھی اپنی آواز سے بہکا سکے گا بہکا لے اور ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھالا اور ان کے مال اور اولاد میں سے اپنا بھی حصہ لگا اور انہیں (جھوٹے) وعدے دے لے ان سے جتنے بھی وعدے شیطان کے ہوتے ہیں سب کے سب سراسر فریب ہیں ۔‏

میرے سچے بندوں پر تیرا کوئی قابو اور بس نہیں تیرا رب کار سازی کرنے والا کافی ہے۔

تمہاری سب کی سزا جہنم ہے تو جس طرح چاہ انہیں بہکا لیکن اس سے مایوس ہو جا کہ میرے خاص بندے تیرے وسوسوں میں آ جائیں ان کا وکیل میں آپ ہوں۔

وَيَا آدَمُ اسْكُنْ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَكُلَا مِنْ حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ (۱۹)

اور ہم نے حکم دیا کہ اے آدم! تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو پھر جس جگہ سے چاہو دونوں کھاؤ اور اس درخت کے پاس مت جاؤ ورنہ تم دونوں ظالموں میں سے ہو جاؤ گے۔‏

ابلیس کو نکال کر حضرت آدمؑ و حوا کو جنت میں پہنچا دیا گیا اور بجز ایک درخت کے انہیں ساری جنت کی چیزیں کھانے کی رخصت دے دی گئی ۔ اس کا تفصیلی بیان سورۃ بقرہ کی تفسیر میں گزر چکا ہے ۔

فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطَانُ لِيُبْدِيَ لَهُمَا مَا وُورِيَ عَنْهُمَا مِنْ سَوْآتِهِمَا

پھر شیطان نے ان دونوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالا تاکہ انکی شرمگاہیں جو ایک دوسرے سے پوشیدہ تھیں دونوں کے روبرو بےپردہ کردے

شیطان کو اس سے بڑا ہی حسد ہوا، ان کی نعمتوں کو دیکھ کر لعین جل گیا اور ٹھان لی کہ جس طرح سے ہو انہیں بہکا کر اللہ کے خلاف کر دوں۔

وَقَالَ مَا نَهَاكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ إِلَّا أَنْ تَكُونَا مَلَكَيْنِ أَوْ تَكُونَا مِنَ الْخَالِدِينَ (۲۰)

 اور کہنے لگا کہ تمہارے رب نے تم دونوں کو اس درخت سے اور کسی سبب سے منع نہیں فرمایا مگر محض اس وجہ سے کہ تم دونوں کہیں فرشتے ہو جاؤ یا کہیں ہمیشہ زندہ رہنے والوں میں سے ہو جاؤ۔‏

چنانچہ جھوٹ افتراء باندھ کر ان سے کہنے لگا کہ دیکھو یہ درخت وہ ہے جس کے کھانے سے تم فرشتے بن جاؤ گے اور ہمیشہ کی زندگی اسی جنت میں پاؤ گے ۔ جیسے اور آیت میں ہے:

قَالَ يـَادَمُ هَلْ أَدُلُّكَ عَلَى شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْكٍ لاَّ يَبْلَى (۲۰:۱۲۰)

کہنے لگا کہ کیا میں تجھے دائمی زندگی کا درخت اور بادشاہت بتلاؤں کہ جو کبھی پرانی نہ ہو‏

یہاں ہے کہ ان سے کہا تمہیں اس درخت سے صرف اس لئے روکا گیا ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ ۔ جیسے فرمان ہے:

يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَن تَضِلُّواْ (۴:۱۷۶)

اللہ تعالیٰ تمہارے لئے بیان فرما رہا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ تم بہک جاؤ

یہاں أَن تَضِلُّواْ کا مطلب أَن لَّا  تَضِلُّواْ ہے

 اور آیت میں ہے:

وَأَلْقَى فِى الاٌّرْضِ رَوَاسِىَ أَن تَمِيدَ بِكُمْ (۱۶:۱۵)

اور اس نے زمین میں پہاڑ گاڑ دیئے ہیں تاکہ تمہیں لے کر ہلے نہ

أَن تَمِيدَ بِكُمْیہاں بھی یہی مطلب ہے ۔

مَلَكَيْنِ کی دوسری قرأت مَلِكَيْنِ بھی ہے لیکن جمہور کی قرأت لام کے زبر کے ساتھ ہے۔

وَقَاسَمَهُمَا إِنِّي لَكُمَا لَمِنَ النَّاصِحِينَ (۲۱)

اور ان دونوں کے رو برو قسم کھا لی کہ یقین جانیئے میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں ۔

پھر اپنا اعتبار جمانے کیلئے قسمیں کھانے لگا کہ دیکھو میری بات کو سچ مانو میں تمہارا خیر خواہ ہوں تم سے پہلے سے ہی یہاں رہتا ہوں ہر ایک چیز کے خواص سے واقف ہوں تم اسے کھا لو بس پھر یہیں رہو گے بلکہ فرشتے بن جاؤ گے

قَاسَمَ باب مفاعلہ سے ہے اور اس کی خاصیت طرفین کی مشارکت ہے لیکن یہاں یہ خاصیت نہیں ہے ۔ ایسے اشعار بھی ہیں جہاں قَاسَم آیا ہے اور صرف ایک طرف کے لئے ۔

فَدَلَّاهُمَا بِغُرُورٍ ۚ

سو ان دونوں کو فریب کے نیچے لے آیا

اس قسم کی وجہ سے اس خبیث کے بہکاوے میں حضرت آدمؑ آ گئے ۔ سچ ہے مؤمن اس وقت دھوکا کھا جاتا ہے جب کوئی ناپاک انسان اللہ کو بیچ میں دیتا ہے ۔ چنانچہ سلف کا قول ہے کہ ہم اللہ کے نام کے بعد اپنے ہتھیار ڈال دیا کرتے ہیں ۔

فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِنْ وَرَقِ الْجَنَّةِ ۖ

پس ان دونوں نے جب درخت کو چکھا دونوں کی شرمگاہیں ایک دوسرے کے روبرو بےپردہ ہوگئیں اور دونوں اپنے اوپر جنت کے پتے جوڑ جوڑ کر رکھنے لگے

ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

حضرت آدم علیہ السلام کا قد مثل درخت کھجور کے بہت لمبا تھا اور سر پر بہت لمبے لمبے بال تھے، درخت کھانے سے پہلے انہیں اپنی شرمگاہ کا علم بھی نہ تھا نظر ہی نہ پڑی تھی ۔ لیکن اس خطا کے ہوتے ہی وہ ظاہر ہو گئی ، بھاگنے لگے تو بال ایک درخت میں الجھ گئے ، کہنے لگے اے درخت مجھے چھوڑ دےدرخت سے جواب ملا کہ ناممکن ہے ،

 اسی وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے آواز آئی کہ اے آدم مجھ سے بھاگ رہا ہے؟

 کہنے لگے یا اللہ شرمندگی ہے ، شرمسار ہوں،

گو یہ روایت مرفوع بھی مروی ہے لیکن زیادہ صحیح موقوف ہونا ہی ہے ،

ابن عباسؓ فرماتے ہیں:

درخت کا پھل کھا لیا اور چھپانے کی چیز ظاہر ہو گئی ، جنت کے پتوں سے چھپانے لگے، ایک کو ایک کونے پر چپکا نے لگے،

وَنَادَاهُمَا رَبُّهُمَا أَلَمْ أَنْهَكُمَا عَنْ تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَأَقُلْ لَكُمَا إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُبِينٌ (۲۲)

اور ان کے رب نے ان کو پکارا کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت سے منع نہ کر چکا تھا اور یہ نہ کہہ چکا کہ شیطان تمہارا صریح دشمن ہے ،

حضرت آدمؑ مارے غیرت کے ادھر ادھر بھاگنے لگے لیکن ایک درخت کے ساتھ الجھ کر رہ گئےاللہ تعالیٰ نے ندا دی کہ آدم مجھ سے بھاگتا ہے؟

 آپ ؑنے فرمایا نہیں یا اللہ مگر شرماتا ہوں ۔

جناب باری تعالیٰ نے فرمایا آدم جو کچھ میں نے تجھے دے رکھا تھا کیا وہ تجھے کافی نہ تھا؟

 آپ نے جواب دیا بیشک کافی تھا لیکن یا اللہ مجھے یہ علم نہ تھا کہ کوئی تیرا نام لے کر تیری قسم کھا کر جھوٹ کہے گا۔

 اللہ تعالیٰ نے فرمایا اب تو میری نا فرمانی کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور تکلیفیں اٹھانا ہوں گی ۔

چنانچہ جنت سے دونوں کو اتار دیا گیا، اب اس کشادگی کے بعد کی یہ تنگی ان پر بہت گراں گزری ٗ کھانے پینے کو ترس گئے، پھر انہیں لوہے کی صنعت سکھائی گئی ، کھیتی کا کام بتایا گیا ، آپ نے زمین صاف کی دانے بوئے، وہ آگے بڑھے، بالیں نکلیں، دانے پکے ، پھر توڑے گئے، پھر پیسے گئے ، آٹا گندھا، پھر روٹی تیار ہوئی ، پھر کھائی جب جا کر بھوک کی تکلیف سے نجات پائی ۔ تین کے پتوں سے اپنا آگا پیچھا چھپاتے پھرتے تھے جو مثل کپڑے کے تھے، وہ نورانی پردے جن سے ایک دوسرے سے یہ اعضاء چھپے ہوئے تھے ، نافرمانی ہوتے ہی ہٹ گئے اور وہ نظر آنے لگے،

قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ (۲۳)

دونوں نے کہا اے ہمارے رب! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہو جائیں گے ۔

حضرت آدمؑ اسی وقت اللہ کی طرف رغبت کرنے لگے توبہ استغفار کی طرف جھک پڑے ، بخلاف ابلیس کے کہ اس نے سزا کا نام سنتے ہی اپنے ابلیسی ہتھیار یعنی ہمیشہ کی زندگی وغیرہ طلب کی ۔ اللہ نے دونوں کی دعا سنی اور دونوں کی طلب کردہ چیزیں عنایت فرمائی ۔

مروی ہے کہ حضرت آدمؑ نے جب درخت کھا لیا اسی وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایا اس درخت سے میں نے تمہیں روک دیا تھا ٗ پھر تم نے اسے کیوں کھایا؟ کہنے لگے حواء نے مجھے اس کی رغبت دلائی ٗ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ٗان کی سزا یہ ہے کہ حمل کی حالت میں بھی تکلیف میں رہیں گی بچہ ہونے کے وقت بھی تکلیف اٹھائیں گی، یہ سنتے ہی حضرت حواءنے نوحہ شروع کیا ، حکم ہوا کہ یہی تجھ پر اور تیری اولاد پر لکھ دیا گیا ۔

حضرت آدمؑ نے جناب باری میں عرض کی اور اللہ نے انہیں دعا سکھائی ، انہوں نے دعا کی جو قبول ہوئی ۔

رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ

اے ہمارے رب! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہو جائیں گے ۔

اور اللہ تعالیٰ نے قصور معاف فرما دیا   فالحمد اللہ!

قَالَ اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ (۲۴)

حق تعالیٰ نے فرمایا کہ نیچے ایسی حالت میں جاؤ کہ تم باہم ایک دوسرے کے دشمن ہو گے اور تمہارے واسطے زمین میں رہنے کی جگہ ہے اور نفع حاصل کرنا ہے ایک وقت تک۔‏

بعض کہتے ہیں یہ خطاب حضرت آدمؑ ، حضرت حواء، شیطان ملعون اور سانپ کو ہے ۔بعض سانپ کا ذکر نہیں کرتے ۔ یہ ظاہر ہے کہ اصل مقصد حضرت آدمؑ ہیں اور شیطان ملعون۔جیسے سورۃ طہ میں ہے:

اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيعاً (۲۰:۱۲۳)

تم دونوں یہاں سے اتر جاؤ

حواء حضرت آدم ؑکے تابع تھیں اور سانپ کا ذکر اگر صحت تک پہنچ جائے تو وہ ابلیس کے حکم میں آ گیا ۔

 مفسرین نے بہت سے اقوال ذکر کئے ہیں کہ آدمؑ کہاں اترے ، شیطان کہاں پھینکا گیا وغیرہ ۔ لیکن دراصل ان کا مخرج بنی اسرائیل کی روایتیں ہیں اور ان کی صحت کا علم اللہ ہی کو ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس جگہ کے جان لینے سے کوئی فائدہ نہیں اگر ہوتا تو ان کا بیان قرآن یا حدیث میں ضرور ہوتا ،

قَالَ فِيهَا تَحْيَوْنَ وَفِيهَا تَمُوتُونَ وَمِنْهَا تُخْرَجُونَ (۲۵)

فرمایا تم کو وہاں ہی زندگی بسر کرنا ہے اور وہاں ہی مرنا ہے اور اسی میں سے پھر نکالے جاؤ گے‏

کہہ دیا گیا کہ اب تمہارے قرار کی جگہ زمین ہے وہیں تم اپنی مقررہ زندگی کے دن پورے کرو گے جیسے کہ ہماری پہلی کتاب لوح محفوظ میں اول سے ہی لکھا ہوا موجود ہے ۔

اسی زمین پر جیو گے اور مرنے کے بعد بھی اسی میں دبائے جاؤ گے اور پھر حشر و نشر بھی اسی میں ہو گا ۔جیسے فرمان ہے :

مِنْهَا خَلَقْنَـكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَى (۲۰:۵۵)

اس زمین میں سے ہم نے تمہیں پیدا کیا اور اسی میں پھر واپس لوٹائیں گے اور اسی سے پھر دوبارہ تم سب کو نکال کھڑا کریں گے۔‏

پس اولاد آدم کی زندگی گزارنے کی جگہ بھی یہی ہے اور مرنے کی جگہ بھی یہیٗ قبریں بھی اسی میں اور قیامت کے دن اٹھیں گے بھی اسی سےٗ پھر بدلہ دیئے جائیں گے۔

يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا ۖ

اے آدم ؑ کی اولاد ہم نے تمہارے لئے لباس پیدا کیا جو تمہاری شرم گاہوں کو بھی چھپاتا ہے اور موجب زینت بھی ہے

یہاں اللہ تعالیٰ اپنا احسان یاد دلاتا ہے کہ اس نے لِبَاس اتارا اور رِيش بھی ۔

 لِبَاس تو وہ ہے جس سے انسان اپنا ستر چھپائے اور رِيش وہ ہے جو بطور زینت رونق اور جمال کے پہنا جائے ۔اول تو ضروریات زندگی سے ہے اور ثانی زیادتی ہے۔

 رِيش کے معنی مال کے بھی ہیں اور ظاہری پوشاک کے بھی ہیں اور جمال و خوش لباسی کے بھی ہیں ۔

حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ نے نیا کرتہ پہنتے ہوئے جبکہ گلے تک وہ پہن لیا فرمایا :

الحمد اللہ الذی کسانی ما اواری بہ عورتی و اتجمل بہ فی حیات

پھر فرمانے لگے میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ہے فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

 جو شخص نیا کپڑا پہنے اور اس کے گلے تک پہنچتے ہی یہ دعا پڑھے پھر پرانا کپڑا راہ للہ دے دے تو وہ اللہ کے ذمہ میں، اللہ کی پناہ میں اور اللہ کی حفاظت میں آ جاتا ہے زندگی میں بھی اور بعد از مرگ بھی (ترمذی ابن ماجہ)

مسند احمد میں ہے کہ حضرت علی ؓنے ایک نوجوان سے ایک کرتہ تین درہم کو خریدا اور اسے پہنا جب پہنچوں اور ٹخنوں تک پہنچا تو آپ نے یہ دعا پڑھی

الحمد اللہ الذی رزقنی من ریاش ما اتجمل بہ فی الناس واواری بہ عورتی

یہ دعا سن کر آپ سے کسی نے پوچھا کہ کیا آپ نے اسے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ اسے کپڑا پہننے کے وقت پڑھتے تھے یا آپ از خود اسے پڑھ رہے ہیں؟

 فرمایا میں نے اسے حضور ؐسے سنا ہے

وَلِبَاسُ التَّقْوَى ذَلِكَ خَيْرٌ ۚ ذَلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ (۲۶)

اور تقویٰ کا لباس یہ اس سے بڑھ کر یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ یہ لوگ یاد رکھیں۔‏

لِبَاسُ التَّقْوَى کی دوسری قرأت لِبَاسِ التَّقْوَى سین کے زبر سے بھی ہے ۔

 رفع سے پڑھنے والے اسے مبتدا کہتے ہیں اور اس کے بعد کا جملہ اس کی خبر ہے

 عکرمہؒ  فرماتے ہیں اس سے مراد قیامت کے دن پرہیز گاروں کو جو لباس عطا ہو گا وہ ہے ۔

 ابن جریجؒ  کا قول ہے لباس تقوی ایمان ہے ۔

 ابن عباسؓ فرماتے ہیں عمل صالح ہے اور اسی سے ہنس مکھ ہوتا ہے ،

عروہؒ کہتے ہیں مراد اس سے مشیت ربانی ہے ۔

 عبدالرحمٰنؒ کہتے ہیں اللہ کے ڈر سے اپنی ستر پوشی کرنا لباس تقویٰ ہے ۔

یہ کل اقوال آپس میں ایک دوسرے کے خلاف نہیں بلکہ مراد یہ سب کچھ ہے اور یہ سب چیزیں ملی جلی اور آپس میں ایک دوسرے کے  قریب قریب ہیں ۔

ایک ضعیف سند والی روایت میں حضرت حسنؒ سے مرقوم ہے :

میں نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو منبر نبوی پر کھلی گھنڈیوں کا کرتا پہنے ہوئے کھڑا دیکھا اس وقت آپ کتوں کے مار ڈالنے اور کبوتر بازی کی ممانعت کا حکم دے رہے تھے ۔ پھر آپ نے فرمایا 'لوگو اللہ سے ڈرو خصوصاً اپنی پوشیدگیوں میں اور چپکے چپکے کانا پھوسی کرنے میں' میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ قسم کھا کر بیان فرماتے تھے :

 جو شخص جس کام کو پوشیدہ سے پوشیدہ کرے گا اللہ تعالیٰ اسی کی چادر اس پر اعلانیہ ڈال دے گا اگر نیک ہے تو نیک اور اگر بد ہے تو بد ۔

 پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی اور فرمایا اس سے مراد خوش خلقی ہے ۔

 ہاں صحیح حدیث میں صرف اتنا مروی ہے کہ حضرت عثمانؓ نے جمعہ کے دن منبر پر کتوں کے قتل کرنے اور کبوتروں کے ذبح کرنے کا حکم دیا

يَا بَنِي آدَمَ لَا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ كَمَا أَخْرَجَ أَبَوَيْكُمْ مِنَ الْجَنَّةِ يَنْزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوْآتِهِمَا ۗ

اے اولاد آدم! شیطان تم کو کسی خرابی میں نہ ڈال دے جیسا کہ اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے باہر کر دیا ایسی حالت میں ان کا لباس بھی اتروا دیا تاکہ وہ ان کو ان کی شرم گاہیں دکھائے۔

إِنَّهُ يَرَاكُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ ۗ إِنَّا جَعَلْنَا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاءَ لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ (۲۷)

وہ اور اس کا لشکر تم کو ایسے طور پر دیکھتا ہے کہ تم ان کو نہیں دیکھتے ہو ہم نے شیطانوں کو ان ہی لوگوں کا دوست بنایا ہے جو ایمان نہیں لاتے

 تمام انسانوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ ہوشیار کر رہا ہے کہ دیکھو ابلیس کی مکاریوں سے بچتے رہنا وہ تمہارا بڑا ہی دشمن ہےٗ دیکھو اسی نے تمہارے باپ آدم کو دار سرور سے نکالا اور اس مصیبت کے قید خانے میں ڈالا ان کی پردہ دری کی ۔ پس تمہیں اس کے ہتھکنڈوں سے بچنا چاہئے ۔

جیسے فرمان ہے:

أَفَتَتَّخِذُونَهُ وَذُرِّيَّتَهُ أَوْلِيَآءَ مِن دُونِى وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ بِئْسَ لِلظَّـلِمِينَ بَدَلاً (۱۸:۵۰)

کیا تم ابلیس اور اس کی قوم کو اپنا دوست بناتے ہو؟ مجھے چھوڑ کر ؟ حالانکہ وہ تو تمہارا دشمن ہے ظالموں کا بہت ہی برا بدلہ ہے ۔

وَإِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً قَالُوا وَجَدْنَا عَلَيْهَا آبَاءَنَا وَاللَّهُ أَمَرَنَا بِهَا ۗ

اور وہ لوگ جب کوئی فحش کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طریق پر پایا ہے اور اللہ نے بھی ہم کو یہی بتلایا ہے۔

مشرکین ننگے ہو کر بیت اللہ کا طواف کرتے تھے اور کہتے تھے کہ جیسے ہم پیدا ہوئے ہیں اسی حالت میں طواف کرینگے ۔ عورتیں بھی آگے کوئی چمڑے کا ٹکڑا یا کوئی چیز رکھ لیتی تھیں اور کہتی تھیں ۔

الیوم یبدو بعضہ اوکلہ وما بدا منہ فلا احلہ

آج اس کا تھوڑا سا حصہ ظاہر ہو جائے گا اور جتنا بھی ظاہر ہو میں اسے اس کے لئے جائز نہیں رکھتی ۔

 اس پریہ  آیت وَإِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً نازل ہوئی ہے ۔

یہ دستور تھا کہ قریش کے سوا تمام عرب بیت اللہ شریف کا طواف اپنے پہنے ہوئے کپڑوں میں نہیں کرتے تھےٗ وہ سمجھتے تھے کہ یہ کپڑے جنہیں پہن کر اللہ کی نا فرمانیاں کی ہیں اس قابل نہیں رہے کہ انہیں پہنے ہوئے طواف کر سکیں

 ہاں قریش جو اپنے آپ کو حمس کہتے تھے اپنے کپڑوں میں بھی طواف کرتے تھے اور جن لوگوں کو قریش کپڑے بطور ادھار دیں وہ بھی ان کے دیئے ہوئے کپڑے پہن کر طواف کر سکتا تھا یا وہ شخص کپڑے پہنے طواف کر سکتا تھا جس کے پاس نئے کپڑے ہوں ۔ پھر طواف کے بعد ہی انہیں اتار ڈالتا تھا اب یہ کسی کی ملکیت نہیں ہو سکتے تھے ۔ پس جسکے پاس نیا کپڑا نہ ہو اور حمس بھی اسکو اپنا کپڑا نہ دے تو اسے ضروری تھا کہ وہ ننگا ہو کر طواف کرے ۔ خواہ عورت ہو خواہ مرد

عورت اپنے آگے کے عضو پرذرا سی کوئی چیز رکھ لیتی اور وہ کہتی جس کا بیان اوپر گزرا لیکن عموماً عورتیں رات کے وقت طواف کرتی تھیں یہ بدعت انہوں نے از خود گھڑ لی تھی اس فعل کی دلیل سوائے باپ دادا کی تقلید کے اور ان کے پاس کچھ نہ تھی لیکن اپنی خوش فہمی اور نیک ظنی سے کہہ دیتے تھے کہ اللہ کا بھی یہی حکم ہے ۔ کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اگر یہ فرمودہ رب نہ ہوتا تو ہمارے بزرگ اس طرح نہ کرتے ۔

قُلْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ ۖ أَتَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ (۲۸)

آپ کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ بے حیائی کے  کام کرنے  کی تعلیم نہیں دیتا کیا اللہ کے ذمہ ایسی بات لگاتے ہو جس کی تم سند نہیں رکھتے۔

اس لئے حکم ہوتا ہے کہ اے نبی آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ بےحیائی کے کاموں کا حکم نہیں کرتا ۔ ایک تو برا کام کرتے ہوں دوسرے جھوٹ موٹ اس کی نسبت اللہ کی طرف کرتے ہوٗ  یہ چوری اور سینہ زوری ہے ۔

قُلْ أَمَرَ رَبِّي بِالْقِسْطِ ۖ وَأَقِيمُوا وُجُوهَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ ۚ

آپ کہہ دیجئے کہ میرے رب نے حکم دیا ہے انصاف کا اور یہ کہ تم ہر سجدہ کے وقت اپنا رخ سیدھا رکھا کرو اور اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طور پر کرو کہ اس عبادت کو خاص اللہ ہی کے واسطے رکھو

کہہ دے کہ رب العالمیں کا حکم تو عدل و انصاف کا ہے، استقامت اور دیانت داری کا ہے، برائیوں اور گندے کاموں کے چھوڑنے کا ہے، عبادات ٹھیک طور پر بجا لانے کا ہے جو اللہ کے سچے رسولوں کے طریقہ کے مطابق ہوں، جن کی سچائی ان کے زبردست معجزوں سے اللہ نے ثابت کر دی ہے، ان کی لائی ہوئی شریعت پر اخلاص کے ساتھ عمل کرتے ہوں۔ جب تک اخلاص اور پیغمبر کی تابعداری کسی کام میں نہ ہو اللہ کے ہاں وہ مقبول نہیں ہوتا ۔

كَمَا بَدَأَكُمْ تَعُودُونَ (۲۹)

تم کو اللہ نے جس طرح شروع میں پیدا کیا تھا اسی طرح تم دوبارہ پیدا ہو گے۔

اس نے جس طرح تمہیں اول اول پیدا کیا ہے اسی طرح وہ دوبارہ بھی لوٹائے گا،

كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيدُهُ (۲۱:۱۰۴)

جیسے کہ ہم نے اول دفعہ پیدائش کی تھی اسی طرح دوبارہ کریں گے۔

دنیا میں بھی اسی نے پیدا کیا ٗ آخرت کے دن بھی وہی قبروں سے دوبارہ پیدا کرے گا ٗپہلے تم کچھ نہ تھے اس نے تمہیں بنایا۔ اب مرنے کے بعد پھر بھی وہ تمہیں زندہ کر دے گا ۔ جیسے اس نے شروع میں تمہاری ابتداء کی تھی اس طرح پھر سے تمہارا اعادہ کرے گا

فَرِيقًا هَدَى وَفَرِيقًا حَقَّ عَلَيْهِمُ الضَّلَالَةُ ۗ

‏بعض لوگوں کو اللہ نے ہدایت دی ہے اور بعض پر گمراہی ثابت ہو گئی ہے۔

چنانچہ حدیث میں بھی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک وعظ میں فرمایا:

 لوگو تم اللہ کے سامنے ننگے پیروں ننگے بدنوں بےختنہ جمع کئے جاؤ گے جیسے کہ ہم نے تمہیں پیدائش میں کیا تھا اسی کو پھر دوہرائیں گے یہ ہمارا وعدہ ہے اور ہم اسے کر کے ہی رہنے والے ہیں ۔

یہ روایت بخاری و مسلم میں بھی نکالی گئی ہے ۔

یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ جیسے ہم نے لکھ دیا ہے ویسے ہی تم ہوؤ گے ۔

ایک روایت میں ہے جیسے تمہارے اعمال تھے ویسے ہی تم ہوؤ گے

یہ بھی معنی ہیں کہ جس کی ابتداء میں بدبختی لکھ دی ہے وہ بدبختی اور بداعمالی کی طرف ہی لوٹے گا گو درمیان میں نیک ہو گیا اور جس کی تقدیر میں شروع سے ہی نیکی اور سعادت لکھ دی گئی ہے وہ انجام کار نیک ہی ہو گا گو اس سے کسی وقت برائی کے اعمال بھی سرزد ہو جائیں ۔ جیسے کہ فرعون کے زمانے کے جادوگر کہ ساری عمر سیاہ کاریوں اور کفر میں کٹی لیکن آخر وقت مسلمان اولیاء ہو کر مرے ۔

یہ بھی معنی ہیں کہ اللہ تم میں سے ہر ایک کو ہدایت پر یا گمراہی پر پیدا کر چکا ہے ایسے ہی ہو کر تم ماں کے بطن سے نکلو گے

یہ بھی مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابن آدم کی پیدائش مؤمن و کافر ہونے کی حالت میں کی جیسے فرمان ہے:

هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ فَمِنكُمْ كَافِرٌ وَمِنكُم مُّؤْمِنٌ (۶۴:۲)

 اسی نے تمہیں پیدا کیا سو تم میں سے بعضے تو کافر ہیں اور بعض ایماندار ہیں

پھر انہیں اسی طرح قیامت کے دن لوٹائے گا یعنی مؤمن و کافر کے گروہوں میں ۔

 اسی قول کی تائید صحیح بخاری شریف کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں حضورﷺ فرماتے ہیں:

 اس کی قسم جس کے سوا کوئی اور معبود نہیں کہ تم میں سے ایک شخص جنتیوں کے اعمال کرتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک بام بھر کا یا ہاتھ بھر کا فرق رہ جاتا ہے پھر اس پر لکھا ہوا سبقت کر جاتا ہے اور دوزخیوں کے اعمال شروع کر دیتا ہے اور اسی میں داخل ہو جاتا ہے

 اور کوئی جہنمیوں کے اعمال کرنے لگتا ہے یہاں تک کہ جہنم سے ایک ہاتھ یا ایک بام دور رہ جاتا ہے کہ تقدیر کا لکھا آگے آ جاتا ہے اور وہ جنتیوں کے اعمال کرنے لگتا ہے اور جنت نشین ہو جاتا ہے ،

 دوسری روایت بھی اسی طرح کی ہے اس میں یہ بھی ہے :

اس کے وہ کام لوگوں کی نظروں میں جہنم اور جنت کے ہوتے ہیں ۔ اعمال کا دارو مدار خاتمے پر ہے

 اور حدیث میں ہے:

 ہر نفس اسی پر اٹھایا جائے گا جس پر تھا (مسلم)

ایک اور روایت میں ہے جس پر مرا ۔

 اگر اس آیت سے مراد یہی لی جائے تو اس میں اس کے بعد فرمان آیت فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفاً فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِى فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا (۳۰:۳۰) (پس آپ یک سو ہو کر اپنا منہ دین کی طرف متوجہ کر دیں اللہ تعالیٰ کی وہ فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے) میں اور بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے :

 ہر بچہ فطرت پر پیدا کیا جاتا ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں

 اور صحیح مسلم کی حدیث جس میں فرمان باری ہے:

 میں نے اپنے بندوں کو موحد و حنیف پیدا کیا پھر شیطان نے ان کے دین سے انہیں بہکا دیا ،

اس میں کوئی جمع کی وجہ ہونی چاہیے اور وہ یہ ہے کہ اللہ نے انہیں دوسرے حال میں مؤمن و کافر ہونے کیلئے پیدا کیا ۔ گو پہلے حال میں تمام مخلوق کو اپنی معرفت و توحید پر پیدا کیا تھا کہ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ۔ جیسے کہ اس نے ان سے روز میثاق میں عہد بھی لیا تھا اور اسی وعدے کو ان کی جبلت گھٹی میں رکھ دیا تھا اس کے باوجود اس نے مقدمہ کیا تھا کہ ان میں سے بعض شقی اور بد بخت ہوں گے اور بعض سعید اور نیک بخت ہوں گے ۔

جیسے فرمان ہے'اسی نے تمہیں پیدا کیا پھر تم میں سے بعض کافر ہیں اور بعض مؤمن'

 اور حدیث میں ہے:

 ہر شخص صبح کرتا ہے پھر اپنے نفس کی خرید فروخت کرتا ہے کچھ لوگ ایسے ہیں جو اسے آزاد کرا لیتے ہیں کچھ ایسے ہیں جو اسے ہلاک کر بیٹھتے ہیں ۔ اللہ کی تقدیرٗ اللہ کی مخلوق میں جاری ہےٗ اسی نے مقدر کیا اسی نے ہدایت کی ، اسی نے ہر ایک کو اس کی پیدائش دیٗ پھر رہنمائی کی

بخاری مسلم کی حدیث میں ہے کہ جو لوگ سعادت والوں میں سے ہیں ان پر نیکیوں کے کام آسان ہوں گے اور جو شقاوت والے ہیں ان پر بدیاں آسان ہوں گی ۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہے اس فرقے نے راہ پائی اور ایک فرقے پر گمراہی ثابت ہو چکی ۔

إِنَّهُمُ اتَّخَذُوا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ مُهْتَدُونَ (۳۰)

 ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو دوست بنا لیا اور خیال رکھتے ہیں کہ وہ راست پر ہیں۔‏

پھر اس کی وجہ بیان فرمائی کہ انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر شیطانوں کو دوست بنا لیا ہے ،

اس آیت سے اس مذہب کی تردید ہوتی ہے جو یہ خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی شخص کو کسی معصیت کے عمل پر یا کسی گمراہی کے عقیدے پر عذاب نہیں کرتا تا وقتیکہ اس کے پاس صحیح چیز صاف آ جائے اور پھر وہ اپنی برائی پر ضد اور عناد سے جما رہے ۔ کیونکہ اگر یہ مذہب صحیح ہوتا تو جو لوگ گمراہ ہیں لیکن اپنے تئیں ہدایت پر سمجھتے ہیں اور جو واقعی ہدایت پر ہیں ان میں کوئی فرق نہ ہونا چاہئے تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان دونوں میں فرق کیا انکے نام میں بھی اور انکے احکام میں بھی ۔

آیت آپ کے سامنے موجود ہے پڑھ لیجئے ۔

يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ

اے اولاد آدم! تم مسجد کی ہر حاضری کے وقت پر اپنا لباس پہن لیا کرو

اس آیت میں مشرکین کا رد ہے وہ ننگے ہو کر بیت اللہ کا طواف کرتے تھے جیسے کہ پہلے گزرا ۔

ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ننگے مرد دن کو طواف کرتے اور ننگی عورتیں رات کو ، اس وقت عورتیں کہا کرتی تھیں کہ آج اس کے خاص جسم کا کل حصہ یا کچھ حصہ گو ظاہر ہو لیکن کسی کو وہ اس کا دیکھنا جائز نہیں کرتیں ۔

 پس اس کے برخلاف مسلمانوں کو حکم ہوتا ہے کہ اپنا لباس پہن کر مسجدوں میں جاؤ، اللہ تعالیٰ زینت کے لینے کو حکم دیتا ہے اور زینت سے مراد لباس ہے اور لباس وہ ہے جو اعضاء مخصوصہ کو چھپا لے اور جو اس کے سوا ہو مثلاً اچھا کپڑا وغیرہ ۔

 ایک حدیث میں ہے کہ یہ آیت جوتیوں سمیت نماز پڑھنے کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن ہے یہ غور طلب اور اس کی صحت میں بھی کلام ہے واللہ اعلم۔

یہ آیت اور جو کچھ اس کے معنی میں سنت میں وارد ہے اس سے نماز کے وقت زینت کرنا مستحب ثابت ہوتا ہے ۔ خصوصاً جمعہ کے دن اور عید کے دن اور خوشبو لگانا بھی مسنون طریقہ ہے اس لئے کہ وہ زینت میں سے ہی ہے اور مسواک کرنا بھی ۔ کیونکہ وہ بھی زینت کو پورا کرنے میں داخل ہے ۔

یہ بھی یاد رہے کہ سب سے افضل لباس سفید کپڑا ہے ۔

جیسے کہ مسند احمد کی صحیح حدیث میں ہے حضور ﷺفرماتے ہیں :

سفید کپڑے پہنو وہ تمہارے تمام کپڑوں سے افضل ہیں اور اسی میں اپنے مردوں کو کفن دو ۔ سب سرموں میں بہتر سرمہ اثمد ہے وہ نگاہ کو تیز کرتا ہے اور بالوں کو اگاتا ہے ۔

سنن کی ایک اور حدیث میں ہے:

 سفید کپڑوں کو ضروری جانو اور انہیں پہنو وہ بہت اچھے اور بہت پاک صاف ہیں انہی میں اپنے مردوں کو کفن دو ۔

طبرانی میں مروی ہے کہ حضرت تمیم داری نے ایک چادر ایک ہزار کو خریدی تھی نمازوں کے وقت اسے پہن لیا کرتے تھے ۔

وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ (۳۱)

 اور خوب کھاؤ اور پیؤ اور حد سے مت نکلو۔ بیشک اللہ تعالیٰ حد سے نکل جانے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔

 اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تمام طب کو اور حکمت کو جمع کر دیا ارشاد ہے کھاؤ پیو لیکن حد سے تجاوز نہ کرو ۔

 ابن عباسؓ کا قول ہے کہ جو چاہ کھا جو چاہ پی لیکن دو باتوں سے بچ اسراف اور تکبر ۔

ایک مرفوع حدیث میں ہے:

 کھاؤ پیؤ پہنو اور پڑھو لیکن صدقہ بھی کرتے رہو اور تکبر اور اسراف سے بچتے رہو اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے کہ اپنی نعمت کا اثر اپنے بندے کے جسم پر دیکھے ۔

 آپ ﷺفرماتے ہیں:

 کھاؤ اور پہنو اور صدقہ کرو اور اسراف سے اور خود نمائی سے رکو ،

 فرماتے ہیں:

 انسان اپنے پیٹ سے زیادہ برا کوئی برتن نہیں بھرتا ۔ انسان کو چند لقمے جس سے اس کی پیٹھ سیدھی رہے کافی ہیں اگر یہ بس میں نہ ہو تو زیادہ سے زیادہ اپنے پیٹ کے تین حصے کر لے ایک کھانے کیلئے ایک پانی کیلئے ایک سانس کیلئے ۔

فرماتے ہیں :

یہ بھی اسراف ہے کہ تو جو چاہے کھائے ۔

 لیکن یہ حدیث غریب ہے ۔

مشرکین جہاں ننگے ہو کر طواف کرتے تھے وہاں زمانہ حج میں چربی کو بھی اپنے اوپر حرام جانتے تھے اللہ نے دونوں باتوں کے خلاف حکم نازل فرمایا یہ بھی اسراف ہے کہ اللہ کے حلال کردہ کھانے کو حرام کر لیا جائے ۔ اللہ کی دی ہوئی حلال روزی بیشک انسان کھائے پیئے ۔

 حرام چیز کا کھانا بھی اسراف ہے اللہ کی مقرر کردہ حرام حلال کی حدوں سے گزر نہ جاؤ ۔

نہ حرام کو حلال کرو نہ حلال کو حرام کہو ۔ ہر ایک حکم کو اسی کی جگہ پر رکھو ورنہ مسرف اور دشمن رب بن جاؤ گے ۔

قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ ۚ

آپ فرمادیجیے کہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے اسباب زینت کو جن کو اس نے اپنے بندوں کے واسطے بنایا ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں کو کس شخص نے حرام کیا ہے؟

کھانے پینے پہننے کی ان بعض چیزوں کو بغیر اللہ کے فرمائے حرام کر لینے والوں کی تردید ہو رہی ہے اور انہیں ان کے فعل سے روکا جا رہا ہے ۔

قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ

 آپ کہہ دیجئے کہ یہ اشیاء اس طور پر کہ قیامت کے روز خالص ہونگی اہل ایمان کے لئے، دنیوی زندگی میں مؤمنوں کے بھی ہیں۔

یہ سب چیزیں اللہ پر ایمان رکھنے والوں اور اس کی عبادت کرنے والون کے لئے ہی تیار ہوئی ہیں گو دنیا میں ان کے ساتھ اور لوگ بھی شریک ہیں لیکن پھر قیامت کے دن یہ الگ کر دیئے جائیں گے اور صرف مؤمن ہی اللہ کی نعمتوں سے نوازے جائیں گے ۔

كَذَلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ (۳۲)

ہم اس طرح تمام آیات کو سمجھ داروں کے واسطے صاف صاف بیان کرتے ہیں۔‏

 ابن عباس ؓراوی ہیں کہ مشرک ننگے ہو کے اللہ کے گھر کا طواف کر تے تھے سیٹیاں اور تالیاں بجاتے جاتے تھے پس یہ  آیتیں اتریں ۔

قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ

آپ فرمادیجیے کہ البتہ میرے رب نے صرف حرام کیا ہے ان تمام فحش باتوں کو جو اعلانیہ ہیں اور جو پوشیدہ ہیں

 بخاری مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 اللہ سے زیادہ غیرت والا کوئی نہیں ۔

سورۃ انعام میں چھپی کھلی بےحیائیوں کے متعلق پوری تفسیر گزر چکی ہے

وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَنْ تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ (۳۳)

اور ہر گناہ کی بات کو ناحق کسی پر ظلم کرنے کو اس بات کو کہ اللہ کے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک ٹھہراؤ جس کی اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی اور اس بات کو تم لوگ اللہ کے ذمے ایسی بات نہ لگا دو جس کو تم جانتے نہیں۔‏

اللہ تعالیٰ نے ہر گناہ کو حرام کر دیا ہے اور ناحق ظلم و تعدی ، سرکشی اور غرور کو بھی اس نے حرام کیا ہے

 پس إِثْمَ سے مراد ہر وہ گناہ ہے جو انسان آپ کرے اور بَغْيَ سے مراد وہ گناہ ہے جس میں دوسرے کا نقصان کرے یا اس کی حق تلفی کرے۔ اسی طرح رب کی عبادت میں کسی کو شریک کرنا بھی حرام ہے اور ذات حق پر بہتان باندھنا بھی ۔ مثلاً اس کی اولاد بتانا وغیرہ۔

خلاف واقعہ باتیں بھی جہالت کی باتیں ہیں ۔

جیسے فرمان ہے:

فَاجْتَنِبُواْ الرِّجْسَ مِنَ الاٌّوْثَـنِ (۲۲:۳۰)

پس تمہیں بتوں کی گندگی سے بچتے رہنا چاہیے

وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ ۖ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً ۖ وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ (۳۴)

ہر گروہ کیلئے ایک وقت معین ہے جس وقت انکی میعاد معین آجائے گی اس ایک ساعت نہ پیچھے ہٹ سکیں گے اور نہ آگے بڑھ سکیں گے۔‏

ہر زمانے اور ہر زمانے والوں کے لئے اللہ کی طرف سے انتہائی مدت مقرر ہے جو کسی طرح ٹل نہیں سکتی ۔ ناممکن ہے کہ اس سے ایک منٹ کی تاخیر ہو یا ایک لمحے کی جلدی ہو۔

يَا بَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي ۙ فَمَنِ اتَّقَى وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (۳۵)

اے اولاد آدم! اگر تمہارے پاس پیغمبر آئیں جو تم میں ہی سے ہوں جو میرے احکام تم سے بیان کریں تو جو شخص تقویٰ اختیار کرے اور درستی کرے سو ان لوگوں پر نہ کچھ اندیشہ ہے اور نہ وہ غمگین ہونگے ۔

اللہ تعالیٰ انسانوں کو ڈراتا ہے کہ جب وہ رسولوں سے ڈرانا اور رغبت دلانا سنیں تو بدکاریوں کو ترک کر دیں اور اللہ کی اطاعت کی طرف جھک جائیں ۔ جب وہ یہ کریں گے تو وہ ہر کھٹکے ، ہر ڈر سے ، ہر خوف اور نا امیدی سے محفوظ ہو جائیں گے

وَالَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (۳۶)

اور جو لوگ ہمارے ان احکام کو جھٹلائیں اور ان سے تکبر کریں وہ لوگ دوزخ والے ہونگے اور وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ۔

اور اگر اس کے خلاف کیا نہ دل سے مانا نہ عمل کیا تو وہ دوزخ میں جائیں گے اور وہیں پڑے جھلستے رہیں گے ۔

فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِآيَاتِهِ ۚ أُولَئِكَ يَنَالُهُمْ نَصِيبُهُمْ مِنَ الْكِتَابِ ۖ

سو اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہوگا جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھے یا اس کی آیتوں کو جھوٹا بتائے ان لوگوں کے نصیب کا جو کچھ کتاب سے ہے وہ ان کو مل جائے گا

سب سے بڑا ظالم وہ ہے جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹا بہتان باندھے اور وہ بھی جو اللہ کے کلام کی آیتوں کو جھوٹا سمجھے ۔

 انہیں ان کا مقدر ملے گا اس کے معنی ایک تو یہ ہیں کہ انہیں سزا ہو گی ، ان کے منہ کالے ہوں گے ، ان کے اعمال کا بدلہ مل کر رہے گا ۔ اللہ کے وعدے وعید پورے ہو کر رہیں گے ۔

دوسرے معنی یہ ہیں کہ ان کی عمر، عمل ، رزق جو لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے وہ دنیا میں تو ملے گا ۔

یہ قول قوی معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس کے بعد کا جملہ اس کی تائید کرتا ہے ۔اسی مطلب کی یہ  آیت بھی ہے:

إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ ۔ مَتَاعٌ فِي الدُّنْيَا ثُمَّ إِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ (۱۰:۶۹،۷۰)

جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں وہ کامیاب نہیں ہونگے، دنیا کا چند روزہ فائدہ اٹھا کر، بالآخر ہمارے پاس ہی انہیں لوٹ کر آنا ہے۔

اس وقت ان کے کفر کے بدلے ہم انہیں سخت سزا دیں گے ۔

اور آیت میں ہے:

وَمَن كَفَرَ فَلاَ يَحْزُنكَ كُفْرُهُ إِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ فَنُنَبِّئُهُم بِمَا عَمِلُواْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ـ نُمَتِّعُهُمْ قَلِيلاً (۳۱:۲۳،۲۴)

کافروں کے کفر سے آپ رنجیدہ نہ ہوں آخر ان سب کا لوٹنا تو ہماری جانب ہی ہے پھر ہم ان کو بتائیں گے جو انہوں نے کیا، بیشک اللہ سینوں کے بھید تک سے واقف ہے۔‏ ہم انہیں گو کچھ یونہی فائدہ دے دیں

حَتَّى إِذَا جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا يَتَوَفَّوْنَهُمْ قَالُوا أَيْنَ مَا كُنْتُمْ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ۖ

یہاں تک کہ جب ان کے پاس ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے ان کی جان قبض کرنے آئیں گے تو کہیں گے کہ وہ کہاں گئے جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے تھے

فرمایا کہ ان کی روحوں کو قبض کرنے کیلئے ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے آتے ہیں تو ان کو بطور طنز کہتے ہیں کہ اب اپنے معبودوں کو کیوں نہیں پکارتے کہ وہ تمہیں اس عذاب سے بچا لیں ۔ آج وہ کہاں ہیں؟

قَالُوا ضَلُّوا عَنَّا وَشَهِدُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُوا كَافِرِينَ (۳۷)

وہ کہیں گے کہ وہ سب غائب ہوگئے اور اپنے کافر ہونے کا اقرار کریں گے۔‏

 تو یہ نہایت حسرت سے جواب دیتے ہیں کہ افسوس وہ تو کھوئے گئے، ہمیں ان سے اب کسی نفع کی امید نہیں رہی پس اپنے کفر کا آپ ہی اقرار کر کے مرتے ہیں ۔

قَالَ ادْخُلُوا فِي أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ فِي النَّارِ ۖ

اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جو فرقے تم سے پہلے گزر چکے ہیں جنات میں سے بھی اور آدمیوں میں سے بھی ان کے ساتھ تم بھی دوزخ میں جاؤ۔

اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مشرکوں کو جو اللہ پر افتراء باندھتے تھے، اس کی آیتوں کو جھٹلاتے تھے، فرمائے گا کہ تم بھی اپنے جیسوں کے ساتھ جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں خواہ وہ جنات میں سے ہوں خواہ انسانوں میں سے جہنم میں جاؤ ۔

 فِي النَّارِ یاتو فِي أُمَمٍ کا بدل ہے یا فِي أُمَمٍ میں فِي معنی میں مع کے ہے ۔

كُلَّمَا دَخَلَتْ أُمَّةٌ لَعَنَتْ أُخْتَهَا ۖ

جس وقت بھی کوئی جماعت داخل ہوگی اپنی دوسری جماعت کو لعنت کرے گی

ہر گروہ اپنے ساتھ کے اپنے جیسے گروہ پر لعنت کرے گا  جیسے کہ خلیل اللہ علیہ السلام نے فرمایا ہے :

ثُمَّ يَوْمَ الْقِيَـمَةِ يَكْفُرُ بَعْضُكُمْ بِبَعْضٍ (۲۹:۵)

تم سب قیامت کے دن ایک دوسرے سے کفر کرنے لگو گے

 اور آیت میں ہے:

إِذْ تَبَرَّأَ الَّذِينَ اتُّبِعُواْ مِنَ الَّذِينَ ا ۔۔۔ وَمَا هُم بِخَـرِجِينَ مِنَ النَّارِ (۲:۱۶۶،۱۶۷)

جس وقت پیشوا لوگ اپنے تابعداروں سے بیزار ہوجائیں گے اور عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے اور کل رشتے ناتے ٹوٹ جائیں گے‏

اور تابعدار لوگ کہنے لگیں گے، کاش ہم دنیا کی طرف دوبارہ جائیں تو ہم بھی ان سے ایسے ہی بیزار ہو جائیں جیسے یہ ہم سے ہیں،

اسی طرح اللہ تعالیٰ انہیں ان کے اعمال دکھائے گا ان کو حسرت دلانے کو، یہ ہرگز جہنم سے نہیں نکلیں گے۔‏

حَتَّى إِذَا ادَّارَكُوا فِيهَا جَمِيعًا قَالَتْ أُخْرَاهُمْ لِأُولَاهُمْ رَبَّنَا هَؤُلَاءِ أَضَلُّونَا فَآتِهِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِنَ النَّارِ ۖ

یہاں تک کہ جب اس میں سب جمع ہوجائیں گے تو پچھلے لوگ پہلے لوگوں کی نسبت کہیں گے کہ ہمارے پروردگار ہم کو ان لوگوں نے گمراہ کیا تھا سو ان کو دوزخ کا عذاب دوگنا دے۔

یہاں فرماتا ہے کہ جب یہ سارے کے سارے جہنم میں جا چکیں گے تو پچھلے یعنی تابعدار مرید اور تقلید کرنے والے اگلوں سے یعنی جن کی وہ مانتے رہے ان کی بابت اللہ تعالیٰ سے فریاد کریں گے

 اس سے ظاہر ہے کہ یہ گمراہ کرنے والے ان سے پہلے ہی جہنم میں موجود ہوں کیونکہ ان کا گناہ بھی بڑھا ہوا تھا کہیں گے کہ یا اللہ انہیں دگنا عذاب کرچنانچہ اور آیت میں ہے:

وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا ۔۔۔ وَالْعَنْهُمْ لَعْنًا كَبِيرًا (۳۳:۶۷،۶۸)

جہنمی کہیں گے، اے ہمارے رب! ہم تو اپنے سرداروں اور بڑوں کے پیچھے لگے رہے، پس انہوں نے ہمیں سیدھے راستے سے گمراہ کیا،

یا اللہ ان کو دوگنا عذاب دے اور ان کو بڑی لعنت کر۔

قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَلَكِنْ لَا تَعْلَمُونَ (۳۸)

اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ سب ہی کا دوگنا ہے لیکن تم کو خبر نہیں۔‏

انہیں جواب ملا کہ ہر ایک کیلئے دگنا ہے ۔ یعنی ہر ایک کو اس کی برائیوں کا پورا پورا بدلہ مل چکا ہے ۔جیسے فرمان ہے:

الَّذِينَ كَفَرُواْ وَصَدُّواْ عَن سَبِيلِ اللَّهِ زِدْنَـهُمْ عَذَابًا (۱۶:۸۸)

جنہوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا ہم انہیں عذاب پر عذاب بڑھاتے جائیں گے

اور آیت میں ہے:

وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقَالَهُمْ وَأَثْقَالاً مَّعَ أَثْقَالِهِمْ (۹:۱۳)

البتہ یہ اپنے بوجھ ڈھولیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ ہی اور بوجھ بھی

اور آیت میں ہے:

وَمِنْ أَوْزَارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ (۱۶:۲۵)

یہ لوگ اپنے پورے بوجھ کے ساتھ ہی انکے بوجھ کے حصے دار ہوں گے جنہیں بےعلمی سے گمراہ کرتے رہے

وَقَالَتْ أُولَاهُمْ لِأُخْرَاهُمْ فَمَا كَانَ لَكُمْ عَلَيْنَا مِنْ فَضْلٍ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْسِبُونَ (۳۹)

اور پہلے لوگ پچھلے لوگوں سے کہیں گے کہ پھر تم کو ہم پر کوئی فوقیت نہیں سو تم بھی اپنی کمائی کے بدلے میں عذاب کا مزہ چکھو۔‏

اب وہ جن کی مانی جاتی رہی اپنے ماننے والوں سے کہیں گے کہ جیسے ہم گمراہ تھے تم بھی گمراہ ہوئے اب اپنے کرتوت کا بدلہ اٹھاؤ

 اور آیت میں ہے:

وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّالِمُونَ مَوْقُوفُونَ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۔۔۔ لَوْلَا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ (۳۴:۳۱)

اے دیکھنے والے کاش کہ تو ان ظالموں کو اس وقت دیکھتا جبکہ یہ اپنے رب کے سامنے کھڑے ہوئے ایک دوسرے کو الزام لگا رہے ہونگے کمزور لوگ بڑے لوگوں سے کہیں گے اگر تم نہ ہوتے تو ہم مؤمنوں میں سے ہوتے ۔

وہ جواب دیں گے کہ کیا ہم نے تمہیں ہدایت سے روکا تھا؟ وہ تو تمہارے سامنے کھلی ہوئی موجود تھی بات یہ ہے کہ تم خود ہی گنہگار بد کردار تھے ۔

قَالَ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُواْ لِلَّذِينَ اسْتُضْعِفُواْ أَنَحْنُ صَدَدنَـكُمْ عَنِ الْهُدَى بَعْدَ إِذْ جَآءَكُمْ بَلْ كُنتُمْ مُّجْرِمِينَ ـ

یہ بڑے لوگ ان کمزورں کو جواب دیں گے کہ کیا تمہارے پاس ہدایت آچکنے کے بعد ہم نے تمہیں اس سے روکا تھا؟ (نہیں) بلکہ تم (خود) ہی مجرم تھے ۔

وَقَالَ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُواْ لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُواْ ۔۔۔ إِلاَّ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ (۳۴:۳۲،۳۳)

‏(اس کے جواب میں) یہ کمزور لوگ ان متکبروں سے کہیں گے، (نہیں نہیں) بلکہ دن رات مکرو فریب سے ہمیں اللہ کے ساتھ کفر کرنے اور اس کے شریک مقرر کرنے کا ہمارا حکم دینا ہماری بے ایمانی کا باعث ہوا

اور عذاب کو دیکھتے ہی سب کے سب دل میں پشیمان ہو رہے ہونگے اور کافروں کی گردنوں میں ہم طوق ڈال دیں گے انہیں صرف ان کے کئے کرائے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔

إِنَّ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ

جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے تکبر کیا ان کے لئے آسمان کے دروازے نہ کھولے جائیں گے

کافروں کے نہ تو نیک اعمال اللہ کی طرف چڑھیں ، نہ ان کی دعائیں قبول ہوں، نہ ان کی روحوں کے لئے آسمان کے دروازے کھلیں ۔چنانچہ حدیث شریف میں ہے:

 جب بدکاروں کی روحیں قبض کی جاتی ہیں اور فرشتے انہیں لے کر آسمانوں کی طرف چڑھتے ہیں تو فرشتوں کی جس جماعت کے پاس سے گزرتے ہیں وہ کہتے ہیں یہ خبیث روح کس کی ہے؟

یہ اس کا بد سے بد نام لے کر بتاتے ہیں کہ فلاں کی ۔

یہاں تک کہ یہ اسے آسمان کے دروازے تک پہنچاتے ہیں لیکن ان کے لئے دروازہ کھولا نہیں جاتا ۔

پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ پڑھی

یہ بہت لمبی حدیث ہے جو سنن میں موجود ہے ۔ مسند احمد میں یہ حدیث پوری یوں ہے

 حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک انصاری کے جنازے میں ہم حضور ﷺکے ساتھ تھے جب قبرستان پہنچے تو قبر تیار ہونے میں کچھ دیر تھی سب بیٹھ گئے ہم اس طرح خاموش اور با ادب تھے کہ گویا ہمارے سروں پر پرند ہیں ۔ آپﷺ کے ہاتھ میں ایک تنکا تھا جسے آپ زمین پر پھرا رہے تھے تھوڑی دیر میں آپ نے سر اٹھا کر دو بار یا تین بار ہم سے فرمایا کہ عذاب قبر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرو،پھر فرمایا :

مؤمن جب دنیا کی آخری اور آخرت کی پہلی گھڑی میں ہوتا ہے اس کے پاس آسمان سے نورانی چہروں والے فرشتے آتے ہیں گویا کہ ان کا منہ آفتاب ہے ان کے ساتھ جنت کا کفن اور جنت کی خوشبو ہوتی ہے وہ آ کر مرنے والے مؤمن کے پاس بیٹھ جاتے ہیں اور فرماتے ہیں اے اطمینان والی روح اللہ کی مغفرت اور رضامندی کی طرف چل یہ سنتے ہی وہ روح اس طرح بدن سے نکل جاتی ہے جیسے مشک کے منہ سے پانی کا قطرہ ٹپک جائے ۔ اسی وقت ایک پلک جھپکنے کے برابر کی دیر میں وہ جنتی فرشتے اس پاک روح کو اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں اور جنتی کفن اور جنتی خوشبو میں رکھ لیتے ہیں اس میں ایسی عمدہ اور بہترین خوشبو نکلتی ہے کہ کبھی دنیا والوں نے نہ سونگھی ہو ۔

اب یہ اسے لے کر آسمانوں کی طرف چڑھتے ہیں فرشتوں کی جو جماعت انہیں ملتی ہے وہ پوچھتی ہے کہ یہ پاک روح کس کی ہے؟

یہ اس کا بہتر سے بہتر جو نام دنیا میں مشہور تھا وہ لے کر کہتے ہیں فلاں کی ۔

یہاں تک کہ آسمان دنیا تک پہنچ جاتے ہیں دروازہ کھلوا کر اوپر چڑھ جاتے ہیں یہاں سے اس کے ساتھ اسے دوسرے آسمان تک پہنچانے کے لئے فرشتوں کی اور بڑی جماعت ہو جاتی ہے اس طرح ساتویں آسمان تک پہنچتے ہیں

 اللہ عزوجل فرماتا ہے اس میرے بندے کی کتاب (علیین) میں رکھ کر اور اسے زمین کی طرف لوٹا دو میں نے انہیں اسی سے پیدا کیا ہے اسی میں لوٹاؤں گا اور اسی سے دوبارہ نکالوں گا۔

پس وہ روح لوٹا دی جاتی ہے وہیں اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اسے بٹھاتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں کہ تیرا دین کیا ہے ؟

وہ کہتا ہے میرا دین اسلام ہے ۔

 پھر پوچھتے ہیں کہ وہ شخص جو تم میں بھیجے گئے کون تھے وہ کہتا ہے وہ رسول اللہ تھے صلی اللہ علیہ وسلم ۔

 فرشتے اس سے دریافت کرتے ہیں کہ تجھے کیسے معلوم ہوا؟

 جواب دیتا ہے کہ میں نے اللہ کی کتاب پڑھی اس پر ایمان لایا اور اسے سچا مانا ۔

 وہیں آسمان سے ایک منادی ندا کرتا ہے کہ میرا بندہ سچا ہے اس کیلئے جنت کا فرش بچھا دو ۔ اسے جنتی لباس پہنا دو اور اس کیلئے جنت کا دروازہ کھول دو۔ پس اس کے پاس جنت کی تروتازگی اس کی خوشبو اور وہاں کی حوا آتی رہتی ہے اور اسکی قبر کشادہ کر دی جاتی ہے ۔ جہاں تک اس کی نظر پہنچتی ہے اسے کشادگی ہی کشادگی نظر آتی ہے

اس کے پاس ایک نہایت حسین وجمیل شخص لباس فاخرہ پہنے ہوئے خوشبو لگائے ہوئے آتا ہے اور اس سے کہتا ہے خوش ہو جا یہی وہ دن ہے جس کا تجھے وعدہ دیا جاتا تھا ان سے پوچھتا ہے تو کون ہے؟ تیرے چہرے سے بھلائی پائی جاتی ہے

 وہ جواب دیتا ہے کہ میں تیرا نیک عمل ہوں ۔اب تو مؤمن آرزو کرنے لگتا ہے کہ اللہ کرے قیامت آج ہی قائم ہو جائے تاکہ میں جنت میں پہنچ کر اپنے مال اور اپنے اہل و عیال کو پالوں

اور کافر کی جب دنیا کی آخر گھڑی آتی ہے تو اس کے پاس سیاہ چہرے والے فرشتے آسمان سے آتے ہیں ان کے ساتھ ٹاٹ ہوتا ہے اس کی نگاہ تک اسے یہی نظر آتے ہیں پھر ملک الموت آ کر اس کے سرہانے بیٹھ جاتے ہیں اور فرماتے ہیں

 اے خبیث روح اللہ کی ناراضگی اور اس کے غضب کی طرف چل یہ سن کر وہ روح بدن میں چھپنے لگتی ہے جسے ملک الموت جبراً گھسیٹ کر نکالتے ہیں اسی وقت وہ فرشتے ان کے ہاتھ سے ایک آنکھ جھپکنے میں لے لیتے ہیں اور اس جہنمی ٹاٹ میں لپیٹ لیتے ہیں اور اس سے نہایت ہی سڑی ہوئی بدبو نکلتی ہے یہ اسے لے کر چڑھنے لگتے ہیں فرشتوں کا جو گروہ ملتا ہے اس سے پوچھتا ہے کہ یہ ناپاک روح کس کی ہے؟ یہ اس کی روح جس کا بدترین نام دنیا میں تھا انہیں بتاتے ہیں پھر آسمان کا دروازہ اس کیلئے کھلوانا چاہتے ہیں مگر کھولا نہیں جاتا

پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی یہ آیت لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ تلاوت فرمائی ۔

جناب باری عزوجل کا ارشاد ہوتا ہے اسکی کتاب (سجین) میں سب سے نیچے کی زمین میں رکھو پھر اسکی روح وہاں سے پھینک دی جاتی ہے ۔

پھر آپ ﷺنے یہ آیت تلاوت فرمائی:

وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ (۲۲:۳۱)

سنو! اللہ کے ساتھ شریک کرنے والا گویا آسمان سے گر پڑا، اب یا تو اسے پرندے اچک لے جائیں گے یا ہوا کسی دور دراز کی جگہ پھینک دیگی

 اب اس کی روح اس کے جسم میں لوٹائی جاتی ہے ۔ اور اس کے پاس وہ فرشتے پہنچتے ہیں اسے اٹھا کر بٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں تیرا رب کون ہے؟

یہ کہتا ہے ہائے ہائے مجھے خبر نہیں ۔

 پوچھتے ہیں تیرا دین کیا ہے؟

جواب دیتا ہے افسوس مجھے اس کی بھی خبر نہیں ۔

پوچھتے ہیں بتا اس شخص کی بابت تو کیا کہتا ہے جو تم میں بھیجے گئے تھے ؟

یہ کہتا ہے آہ میں اس کا جواب بھی نہیں جانتا ۔

 اسی وقت آسمان سے ندا ہوتی ہے کہ میرے اس غلام نے غلط کہا اس کیلئے جہنم کی آگ بچھا دو اور جہنم کا دروازہ اس کی قبر کی طرف کھول دو وہاں سے اسے گرمی اور آگ کے جھونکے آنے لگتے ہیں اس کی قبر اس پر تنگ ہو جاتی ہے یہاں تک کہ ادھر کی پسلیاں ادھر اور ادھر کی ادھر ہو جاتی ہیں ،

 اس کے پاس ایک شخص نہایت مکروہ اور ڈراؤنی صورت والا برے کپڑے پہنے بری بدبو والا آتا ہے اور اسے کہتا ہے کہ اب اپنی برائیوں کا مزہ چکھ اسی دن کا تجھ سے وعدہ کیا جاتا تھا

یہ پوچھتا ہے تو کون ہے؟ تیرے تو چہرے سے وحشت اور برائی ٹپک رہی ہے؟

یہ جواب دیتا ہے کہ میں تیرا خبیث عمل ہوں ۔

 یہ کہتا ہے یا اللہ قیامت قائم نہ ہو ۔

اسی روایت کی دوسری سند میں ہے:

مؤمن کی روح کو دیکھ کر آسمان و زمین کے تمام فرشتے دعائے مغفرت و رحمت کرتے ہیں اس کیلئے آسمانوں کے دروازے کھل جاتے ہیں اور ہر دورازے کے فرشتوں کی تمنا ہوتی ہے کہ اللہ کرے یہ روح ہماری طرف سے آسمان پر چڑھے

 اس میں یہ بھی ہے کہ کافر کی قبر میں اندھا بہرا گونگا فرشتہ مقرر ہو جاتا ہے جس کے ہاتھ میں ایک گرز ہوتا ہے کہ اگر اسے کسی بڑے پہاڑ پر مارا جائے تو وہ مٹی ہو جائے پھر اسے جیسا وہ تھا اللہ تعالیٰ کر دیتا ہے ۔

فرشتہ دوبارہ اسے گرز مارتا ہے جس سے یہ چیخنے چلانے لگتا ہے جسے انسان اور جنات کے سوا تمام مخلوق سنتی ہے

ابن جریر میں ہے:

 نیک صالح شخص سے فرشتے کہتے ہیں اے مطمئن نفس جو طیب جسم میں تھا تو تعریفوں والا بن کر نکل اور جنت کی خوشبو اور نسیم جنت کی طرف چل ۔ اس اللہ کے پاس چل جو تجھ پر غصے نہیں ہے ۔

فرماتے ہیں :

جب اس روح کو لے کر آسمانوں کی طرف چڑھتے ہیں دروازہ کھلواتے ہیں تو پوچھا جاتا ہے کہ یہ کون ہے، یہ اس کا نام بتاتے ہیں تو وہ اسے مرحبا کہہ کر وہی کہتے ہیں یہاں تک کہ یہ اس آسمان میں پہنچتے ہیں جہاں اللہ ہے ۔

 اس میں یہ بھی ہے:

 برے شخص سے وہ کہتے ہیں اے خبیث نفس ! جو خبیث جسم میں تھا تو برا بن کر نکل اور تیز کھولتے ہوئے پانی اور لہو پیپ اور اسی قسم کے مختلف عذابوں کی طرف چل ۔ اس کے نکلنے تک فرشتے اسے یہی سناتے رہتے ہیں ۔ پر اسے لے کر آسمانوں کی طرف چڑھتے ہیں

پوچھا جاتا ہے کہ یہ کون ہے؟

 یہ اس کا نام بتاتے ہیں تو آسمان کے فرشتے کہتے ہیں اس خبیث کو مرحبا نہ کہو ۔ یہ تھی بھی خبیث جسم میں بد بن کر لوٹ جا ۔

اس کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھلتے اور آسمان و زمین کے درمیان چھوڑ دی جاتی ہے پھر قبر کی طرف لوٹ آتی ہے ۔

 امام ابن جریر نے لکھا ہے کہ نہ ان کے اعمال چڑھیں نہ ان کی روحیں اس سے دونوں قول مل جاتے ہیں ۔ واللہ اعلم

وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ ۚ وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُجْرِمِينَ (۴۰)

اور وہ لوگ کبھی جنت میں نہ جائیں گے جب تک کہ اونٹ سوئی کے ناکہ کے اندر سے نہ چلا جائے اور ہم مجرموں کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں۔‏

اس جملے میں جمہور کی قرأت تو جَمَلُ ہے جس کے معنی نر اونٹ کے ہیں ۔ لیکن ابن عباسؓ اس لفظ کو جُمَّلُ پڑھتے تھے۔ یعنی ضم جیم اور تشدید میم کے ساتھ، جُمَّلُ موٹی رسی کو کہتے ہی جس سے کشیاں باندھی جاتی ہیں۔

 مطلب بہ ہر دو صورت ایک ہی ہے کہ نہ اونٹ سوئی کے ناکے سے گزر سکے نہ موٹی رسی سے، اسی طرح کافر جنت میں نہیں جا سکتا۔

‎ لَهُمْ مِنْ جَهَنَّمَ مِهَادٌ وَمِنْ فَوْقِهِمْ غَوَاشٍ ۚ وَكَذَلِكَ نَجْزِي الظَّالِمِينَ (۴۱)

ان کے لئے آتش دوزخ کا بچھونا ہوگا اور ان کے اوپر (اسی کا) اوڑھنا ہوگا اور ہم ایسے ظالموں کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں۔‏

 ان کا اوڑھنا بچھونا آگ ہے ظالموں کی یہی سزا ہے ۔

وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ

اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے

اوپر گنہگاروں کا ذکر ہوا یہاں اب نیک بختوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ جن کے دل میں ایمان ہے اور جو اپنے جسم سے قرآن و حدیث کے مطابق کام کرتے ہیں بخلاف بدکاروں کے کہ وہ دل میں کفر رکھتے ہیں اور عمل سے دور بھاگتے ہیں ۔

لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (۴۲)

ہم کسی شخص کو اسکی قدرت سے زیادہ کسی کا مکلف نہیں بناتے وہی لوگ جنت والے ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے‏

 فرمان ہے کہ ایمان اور نیکیاں انسان کے بس میں ہیں اللہ کے احکام انسانی طاقت سے زیادہ نہیں ہیں ۔ ایسے لوگ جنتی ہیں اور ہمیشہ جنت میں ہی رہیں گے ۔

وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهَارُ ۖ

جو کچھ ان کے دلوں میں (کینہ) تھا ہم اس کو دور کر دیں گے ان کے نیچے نہریں جاری ہونگی۔

ان کے دلوں میں سے آپس کی کدورتیں حد بغض دور کر دیئے جائیں گے ۔ چنانچہ صحیح بخاری شریف کی حدیث میں ہے:

 مؤمن آگ سے چھٹکارا حاصل کر کے جنت و دوزخ کے درمیان ایک ہی پل پر روک دیئے جائیں گے وہاں ان کے آپس کے مظالم کا بدلہ ہو جائے گا اور پاک ہو کر جنت میں جانے کی اجازت پائیں گے ۔ واللہ وہ لوگ اپنے اپنے درجوں کو اور مکانوں کو اس طرح پہچان لیں گے جیسے دنیا میں جان لیتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔

 سدی رحمتہ اللہ علیہ سے مروی ہے:

 اہل جنت دروازہ جنت پر ایک درخت دیکھیں گے جس کی جڑوں کے پاس سے دو نہریں بہہ رہی ہوں گی یہ ان میں سے ایک کا پانی پئیں گے جس سے دلوں کی کدورتیں دھل جائیں گی یہ شراب طہور ہے پھر دوسری نہر میں غسل کریں گے جس سے چہروں پر تروتازگی آ جائے گی پھر نہ تو بال بکھریں نہ سرمہ لگانے اور سنگھار کرنے کی ضرورت پڑے ۔

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی اسی جیسا قول مروی ہے جو آیت وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًا (۳۹:۷۳) کی تفسیر میں آئے گا انشاء اللہ ۔

 آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ انشاء اللہ میں اور عثمانؓ اور طلحہؓ اور زبیر ؓان لوگوں میں سے ہوں گے جن کے دل اللہ تعالیٰ صاف کر دے گا ۔

 فرماتے ہیں کہ ہم اہل بدر کے بارے میں یہ آیت اتری ہے ۔

 وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَا أَنْ هَدَانَا اللَّهُ ۖ

 اور وہ لوگ کہیں گے کہ اللہ کا (لاکھ لاکھ) شکر ہے جس نے ہم کو اس مقام تک پہنچایا اور ہماری کبھی رسائی نہ ہوتی اگر اللہ تعالیٰ ہم کو نہ پہنچاتا

ابن مردویہ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 ہر جنتی کو اپنا جہنم کا ٹھکانا دکھایا جائے گا تاکہ وہ اور بھی شکر کرے اور وہ کہے گا کہ اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے ہدایت عنایت فرمائی اور ہر جہنمی کو اس کا جنت کا ٹھکانا دکھایا جائے گا تاکہ اس کی حسرت بڑھے اس وقت وہ کہے گا کاش کہ میں بھی راہ یافتہ ہوتا ۔

لَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ ۖ وَنُودُوا أَنْ تِلْكُمُ الْجَنَّةُ أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (۴۳)

ہمارے رب کے پیغمبر سچی باتیں لیکر آئے تھےاور ان سے پکار کر کہا جائے گا کہ اس جنت کے تم وارث بنائے گئے ہو اپنے اعمال کے بدلے

 پھر جنتیوں کو جنت کی جگہیں دے دی جائیں گی اور ایک منادی ندا کرے گا کہ یہی وہ جنت ہے جس کے تم بہ سبب اپنی نیکیوں کے وارث بنا دیئے گئے یعنی تمہارے اعمال کی وجہ سے تمہیں رحمت رب ملی اور رحمت رب سے تم داخل جنت ہوئے ۔بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے:

حضور ﷺنے فرمایا یاد رکھو! تم میں سے کوئی بھی صرف اپنے اعمال کی وجہ سے جنت میں نہیں جا سکتا

 لوگوں نے پوچھا آپ بھی نہیں؟

 فرمایا ہاں میں بھی نہیں مگر یہ کہ اللہ مجھے اپنی رحمت و فضل میں ڈھانپ لے ۔

وَنَادَى أَصْحَابُ الْجَنَّةِ أَصْحَابَ النَّارِ أَنْ قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا

اور اہل جنت اہل دوزخ کو پکاریں گے کہ ہم سے جو ہمارے رب نے وعدہ فرمایا تھا ہم نے اس کو واقعہ کے مطابق پایا

جنتی جب جنت میں جا کر امن چین سے بیٹھ جائیں گے تو دوزخیوں کو شرمندہ کرنے کیلئے ان سے دریافت فرمائیں گے کہ ہم نے تو اپنے رب کے ان وعدوں کو جو ہم سے کئے گئے تھے صحیح پایا تم اپنی کہو ۔

 أَنْ یہاں پر منسرہ ہے قول محذوف کا اور قَدْ تحقیق کیلئے ہے ۔

فَهَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا ۖ قَالُوا نَعَمْ ۚ

سو تم سے جو تمہارے رب نے وعدہ کیا تھا تم نے بھی اس کو واقعہ کے مطابق پایا؟  وہ کہیں گے ہاں

 اس کے جواب میں مشرکین ندامت سے کہیں گے کہ ہاں ہم نے بھی اپنے رب کے ان وعدوں کو جو ہم سے تھے ٹھیک پایا ۔

اہل جنت میں سے ایک کہے گا کہ میرا ایک ساتھی تھا جو مجھ سے تعجب کے ساتھ سوال کیا کرتا تھا کہ کیا تو بھی ان لوگوں میں سے ہے جو قیامت کے قائل ہیں؟ کیا جب ہم مر کر مٹی ہو جائیں گے اور ہڈیاں ہو کر رہ جائیں گے کیا واقعی ہم دوبارہ زندہ کئے جائیں گے؟ اور ہمیں بدلے دیئے جائیں گے؟ جیسا سورۃ صافات میں فرمان ہے:

فَاطَّلَعَ فَرَءَاهُ فِى سَوَآءِ الْجَحِيمِ ۔۔۔ وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ  (۳۷:۵۵،۵۹)

جھانکتے ہی اسے بیچوں بیچ جہنم میں (جلتا ہوا) دیکھے گا کہے گا واللہ! قریب تھا کہ مجھے (بھی) برباد کردے۔‏

اگر میرے رب کا احسان نہ ہوتا تو میں بھی دوزخ میں حاضر کئے جانے والوں میں ہوتاکیا (یہ صحیح ہے) ہم مرنے والے ہی نہیں؟

بجز پہلی ایک موت کے، اور ہم نہ عذاب کیے جانے والے ہیں۔‏

 اس وقت فرشتے کہیں گے :

هَـذِهِ النَّارُ الَّتِى كُنتُم بِهَا ۔۔۔ إِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ  (۵۲:۱۴،۱۶)

یہی وہ آتش دوزخ ہے جسے تم جھوٹ بتلاتے تھے ۔ (اب بتاؤ) کیا یہ جادو ہے؟ یا تم دیکھتے نہیں

جاؤ دوزخ میں اب تمہارا صبر کرنا اور نہ کرنا تمہارے لئے یکساں ہے۔ تمہیں فقط تمہارے کئے کا بدل دیا جائے گا۔‏

 اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار قریش کے ان مقتولوں کو جو بدر میں کام آئے تھے اور جن کی لاشیں ایک کھائی میں تھیں ڈانٹا تھا اور یہ فرمایا تھا کہ اے ابوجہل بن ہشام ، اے عتبہ بن ربیعہ، اے شیبہ بن ربیعہ اور دوسرے سرداروں کا بھی نام لیا اور فرمایا کیا تم نے اپنے رب کے وعدے کو سچا پایا؟ میں نے تو اپنے رب کے وہ وعدے دیکھ لئے جو اس نے مجھ سے کئے تھے ۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا یا رسول اللہ! آپ ان سے باتیں کر رہے ہیں جو مر کر مردار ہوگئے؟

تو آپﷺ نے فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میری بات کو تم بھی ان سے زیادہ نہیں سن رہے لیکن وہ جواب نہیں دے سکتے ۔

فَأَذَّنَ مُؤَذِّنٌ بَيْنَهُمْ أَنْ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ (۴۴)

پھر ایک پکارنے والا دونوں کے درمیان میں پکارے گا کہ اللہ کی مار ہو ان ظالموں پر۔‏

پھر فرماتا ہے کہ اسی وقت ایک منادی ندا کر کے معلوم کرا دے گا کہ ظالموں پر رب کی ابدی لعنت واقع ہو چکی ۔

الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَيَبْغُونَهَا عِوَجًا وَهُمْ بِالْآخِرَةِ كَافِرُونَ (۴۵)

جو اللہ کی راہ سے روگردانی کرتے تھے اور اس میں کجی تلاش کرتے تھے وہ لوگ آخرت کے بھی منکر تھے۔‏

جو لوگوں کو راہ حق اور شریعت ہدیٰ سے روکتے تھے اور چاہتے تھے کہ اللہ کی شریعت ٹیڑھی کر دیں تاکہ اس پر کوئی عمل نہ کرے ۔ آخرت پر بھی انہیں یقین نہ تھا اللہ کی ملاقات کو نہیں مانتے تھے اسی لئے بےپرواہی سے برائیاں کرتے تھے ۔ حساب کا ڈر نہ تھا اس لئے سب سے زیادہ بد زبان اور بد اعمال تھے ۔

وَبَيْنَهُمَا حِجَابٌ ۚ

اور ان دونوں کے درمیان ایک آڑ ہوگی

جنتیوں اور دوزخیوں کی بات بیان فرما کر ارشاد ہوتا ہے کہ جنت دوزخ کے درمیان ایک اور حجاب حد فاصل اور دیوار ہے کہ دوزخیوں کو جنت سے فاصلے پر رکھے اسی دیوار کا ذکراس  آیت میں ہے ۔

فَضُرِبَ بَيْنَهُم بِسُورٍ لَّهُ بَابٌ بَاطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظَـهِرُهُ مِن قِبَلِهِ الْعَذَابُ (۵۷:۱۳)

ان کے درمیان ایک دیوار ہائل کر دی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہے ۔ اس کے اندر رحمت ہے اور باہر عذاب ہے

اسی کا نام أَعْرَاف ہے۔

وَعَلَى الْأَعْرَافِ رِجَالٌ يَعْرِفُونَ كُلًّا بِسِيمَاهُمْ ۚ

اور اعراف کے اوپر بہت سے آدمی ہونگے وہ لوگ ہر ایک کو انکے قیافہ سے پہچانیں گے

 أَعْرَاف عرفکی جمع ہے ہر اونچی زمین کو عرب میں عرفہ کہتے ہیں اسی لئے مرغ کے سر کی کلنگ کو بھی عرب میں رف الدیک کہا جاتا ہے کیونکہ اونچی جگہ ہوتا ہے ۔

 ابن عباسؓ فرماتے ہیں یہ ایک اونچی جگہ ہے جنت دوزخ کے درمیان جہاں کچھ لوگ روک دیئے جائیں گے ۔

 سدیؒ فرماتے ہیں اس کا نام اعراف اس لئے رکھا گیا ہے کہ یہاں کے لوگ اور لوگوں کو جانتے پہچانتے ہیں۔

یہاں کون لوگ ہوں گے؟ اس میں بہت سے اقوال ہیں سب کا حاصل یہ ہے کہ وہ یہ لوگ ہوں گے جن کے گناہ اور نیکیاں برباد ہوں گی بعض سلف سے بھی یہی منقول ہے ۔ حذیفہؓ ابن عباسؓ اور  ابن مسعودؓ نے یہی فرمایا ہے۔ یہی بعد والے مفسرین کا قول ہے ۔

 ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے لیکن سنداً وہ حدیث غریب ہے

اور سند سے مروی ہے:

 حضور ﷺسے جب ان لوگوں کی بابت جن کی نیکیاں بدیاں برابر ہوں اور جو اعراف والے ہیں سوال کیا گیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ یہ وہ نافرمان لوگ ہیں جو اپنے باپ کی اجازت بغیر پھر اللہ کی راہ میں قتل کر دیئے گئے

 اور روایت میں ہے :

یہ لوگ اپنے والدین کی اجازت کے بغیر جہاد میں شریک ہوئے اور  اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے چونکہ  والدین کے نافرمان تھے تو جنت میں جانے سے باپ کی نافرمانی نے روک دیا اور جہنم میں جانے سے شہادت نے روک دیا ۔

 ابن ماجہ میں بھی یہ روایتیں ہیں ۔اب اللہ ہی کو ان کی صحت کا علم ہے بہت ممکن ہے کہ یہ موقوف روایتیں ہوں ۔بہر صورت ان سے اصحاب اعراف کا حال معلوم ہو رہا ہے ۔

حضرت حذیفہؓ سے جب انکی بابت سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کی نیکیاں بدیاں برابر برابر تھیں ۔ برائیوں کی وجہ سے جنت میں نہ جا سکے اور نیکیوں کی وجہ سے جہنم سے بچ گئے پس یہاں آڑ میں روک دیئے جائیں گے یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ ان کے بارے میں سرزد ہو

 اور آپ سے مروی ہے کہ یہ دوزخیوں کو دیکھ دیکھ کر ڈر رہے ہوں گے اور اللہ سے نجات طلب کر رہے ہوں گے کہ ناگاہ انکا رب ان کی طرف دیکھے گا اور فرمائے گا جاؤ جنت میں داخل ہو جاؤ میں نے تمہیں بخشا ۔

حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں:

 قیامت کے دن لوگوں کا حساب ہو گا ایک نیکی بھی اگر برائیوں سے بڑھ گئی تو داخل جنت ہو گا اور ایک برائی بھی اگر نیکیوں سے زیادہ ہو گئی تو دوزخ میں جائے گا پھر آپ نے آیت فَمَن ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ (۷:۹،۱۰) سے دو آیتوں تک تلاوت کیں اور فرمایا ایک رائی کے دانے کے برابر کی کمی زیادتی ہے میزان کا پلڑا ہلکا بھاری ہو جاتا ہے اور جن کی نیکیاں بدیاں برابر برابر ہوئیں یہ اعراف والے ہیں یہ ٹھہرا لئے جائیں گے اور جنتی دوزخی مشہور ہو جائیں گے

وَنَادَوْا أَصْحَابَ الْجَنَّةِ أَنْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ ۚ لَمْ يَدْخُلُوهَا وَهُمْ يَطْمَعُونَ (۴۶)

اور اہل جنت کو پکار کر کہیں گے السلامُ علیکم! ابھی یہ اہل اعراف جنت میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے اور اس کے امیدوار ہوں گے ۔

وَإِذَا صُرِفَتْ أَبْصَارُهُمْ تِلْقَاءَ أَصْحَابِ النَّارِ قَالُوا رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا مَعَ الْقَوْمِ (۴۷)

جب انکی نگاہیں اہل دوزخ کی طرف پھریں گی تو کہیں گے اے ہمارے رب! ہم کو ان ظالم لوگوں کے ساتھ شامل نہ کر۔‏

یہ جب جنت کو دیکھیں گے تو اہل جنت پر سلام کریں گےاور جب جہنم کو دیکھیں گے تو اللہ سے پناہ طلب کریں گے ۔

نیک لوگوں کو نور ملے گا جو ان کے آگے اور ان کے داہنے موجود رہے گا ہر انسان کو وہ مرد ہوں خواہ عورتیں ہوں ایک نور ملے گا لیکن پل صراط پر منافقوں کا نور چھین لیا جائے گا اس وقت سچے مؤمن اللہ سے اپنے نور کے باقی رہنے کی دعائیں کریں گے ۔ اعراف والوں کا نور چھینا نہیں جائے گا وہ ان کے آگے آگے موجود ہو گا انہیں جنت میں جانے کی طمع ہو گی ، لوگو ایک نیکی دس گنی کر کے لکھی جاتی ہے اور برائی اتنی ہی لکھی جاتی ہے جتنی ہو ، افسوس ان پر جن کی اکائیاں دہائیوں پر غالب آ جائیں ۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ اعراف ایک دیوار ہے جو جنت دوزخ کے درمیان ہے اصحاب اعراف وہیں ہوں گے ۔ جب انہیں عافیت دینے کا اللہ کا ارادہ ہو گا تو حکم ملے گا انہیں ہر حیات کی طرف لے جاؤ اس کے دونوں کناروں پر سونے کے خیمے ہوں گے جو موتیوں سے مرصع ہوں گے اس کی مٹی مشک خالص ہو گی اس میں غوطہ لگاتے ہی ان کی رنگتیں نکھر جائیں گی اور ان کی گردنوں پر ایک سفید چمکیلا نشان ہو جائے گا جس سے وہ پہچان لئے جائیں یہ اللہ کے سامنے لائے جائیں گےاللہ تعالیٰ فرمائے گا جو چاہو مانگو یہ مانگیں گے یہاں تک کہ ان کی تمام تمنائیں اللہ تعالیٰ پوری کر دے گا پھر فرمائے گا ان جیسی ستر گنا اور نعمتیں بھی میں نے تمہیں دیں۔

پھر یہ جنت میں جائیں گے، وہ علامت ان پر موجود ہو گی جنت میں ان کا نام مساکین اہل جنت ہو گا،

 یہی روایت حضرت مجاہد ؒکے اپنے قول سے بھی مروی ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے ۔ واللہ اعلم ۔

 ایک حسن سند کی مرسل حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ سے اعراف والوں کی نسبت دریافت کیا گیا تو آپ ؐ نے فرمایا :

ان کا فیصلہ سب سے آخر میں ہو گا، رب العالمیں جب اپنے بندوں کے فیصلے کر چکے گا تو ان سے فرمائے گا کہ تم لوگوں کو تمہاری نیکیوں نے دوزخ سے تو محفوظ کر لیا لیکن تم جنت میں جانے کے حقدار ثابت نہیں ہوئے اب تم کو میں اپنی طرف سے آزاد کرتا ہوں جاؤ جنت میں رہو سہو اور جہاں چاہو کھاؤ پیو،

 یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ زنا کی اولاد ہیں ۔

ابن عساکر میں فرمان نبیؐ ہے کہ  مؤمن جنات کو ثواب ہے اور ان میں سے جو برے ہیں انہیں عذاب بھی ہو گا ، ہم نے ان کے ثواب اور ان کے ایمانداروں کے بابت حضور سے دریافت کیا تو آپ ﷺنے فرمایا:

 وہ اعراف میں ہوں گے جنت میں میری اُمت کے ساتھ نہ ہوں گے

ہم نے پوچھا یا رسول اللہ اعراف کیا ہے؟

فرمایا جنت کا ایک باغ جہاں نہریں جاری ہیں اور پھل پک رہے ہیں (بیہقی )

حضرت مجاہدؒ فرماتے ہیں یہ صالح دیندار فقہاء علما ءلوگ ہوں گے

 ابو مجاز ؒفرماتے ہیں یہ فرشتے ہیں جنت دوزخ والوں کو جانتے ہیں پھر آپ نے ان آیتوں کے تلاوت کی اور فرمایا  سب جنتی جنت میں جانے لگیں گے تو کہا جائے گا کہ تم امن و امان کے ساتھ بےخوف و خطر ہو کر جنت میں جاؤ ۔

 اس کی سند گو ٹھیک ہے لیکن یہ قول بہت غریب ہے کیونکہ روانی عبارت بھی اس کے خلاف ہے اور جمہور کا قول ہی مقدم ہے کیونکہ آیت کے ظاہری الفاظ کے مطابق ہے۔حضرت مجاہد کا قول بھی جو اوپر بیان ہوا غرابت سے خالی نہیں واللہ اعلم ۔

 قرطبی رحمتہ اللہ علیہ نے اس میں بارہ قول نقل کئے ہیں ۔ صلحاء ، انبیاء ، ملائیکہ وغیرہ ۔

 یہ جنتیوں کو ان کے چہرے کی رونق اور سفیدی سے اور دوزخیوں کو ان کے چہرے کی سیاہی سے پہچان لیں گے یہ یہاں اسی لئے ہیں کہ ہر ایک کا امتیاز کر لیں اور سب کو پہچان لیں یہ جنتیوں سے سلام کریں گے جنتیوں کو دیکھ دیکھ کر اللہ کی پناہ چائیں گے اور طمع رکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں بھی بہشت بریں میں پہنچا دے یہ طمع ان کے دل میں اللہ نے اسی لئے ڈالا ہے کہ اس کا ارادہ انہیں جنت میں لے جانے کا ہو چکا ہے ۔جب وہ اہل دوزخ کو دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ پروردگار ہمیں ظالموں میں سے نہ کر۔

جب کوئی جماعت جہنم میں پہنچائی جاتی ہے تو یہ اپنے بچاؤ کی دعائیں کرنے لگتے ہیں جہنم سے ان کے چہرے کوئلے جیسے ہو جائیں گے لیکن جب جنت والوں کو دیکھیں گے تو یہ چیز چہروں سے دور ہو جائے گی

جنتیوں کے چہروں کی پہچان نورانیت ہو گی اور دوزخیوں کے چہروں پر سیاہی اور آنکھوں میں بھینگا پن ہو گا ۔

وَنَادَى أَصْحَابُ الْأَعْرَافِ رِجَالًا يَعْرِفُونَهُمْ بِسِيمَاهُمْ

اور اہل اعراف بہت سے آدمیوں کو جن کو ان کے قیافہ سے پہچانیں گے

 قَالُوا مَا أَغْنَى عَنْكُمْ جَمْعُكُمْ وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَكْبِرُونَ (۴۸)

پکاریں گے کہیں گے کہ تمہاری جماعت اور تمہارا اپنے کو بڑا سمجھنا تمہارے کچھ کام نہ آیا ۔

کفر کے جن ستونوں کو ، کافروں کے جن سرداروں کو اعراف والے ان کے چہروں سے پہچان لیں گے انہیں ڈانٹ ڈپٹ کر کے پوچھیں گے کہ آج تمہاری کثرت جمعیت کہاں گئی؟

اس نے تو تمہیں مطلقاً فائدہ نہ پہنچایا ۔ آج وہ تمہاری اکڑفوں کیا ہوئی تم تو بری طرح عذابوں میں جکڑ دیئے گئے ۔

أَهَؤُلَاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ لَا يَنَالُهُمُ اللَّهُ بِرَحْمَةٍ ۚ

کیا یہ وہی ہیں جن کی نسبت تم قسمیں کھا کھا کر کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان پر رحمت نہ کرے گا

ان کے بعد ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں فرمایا جائے گا کہ بد بختو انہی کی نسبت تم کہا کرتے تھے کہ اللہ انہیں کوئی راحت نہیں دے گا ۔

ادْخُلُوا الْجَنَّةَ لَا خَوْفٌ عَلَيْكُمْ وَلَا أَنْتُمْ تَحْزَنُونَ (۴۹)

 ان کو یوں حکم ہوگا کہ جاؤ جنت میں تم پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ تم مغموم ہو گے۔

اے اعراف والو میں تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ جاؤ آرام و سکون اور بغیر کسی خطرے کے  جنت میں داخل ہو جاؤ ۔

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اعراف والوں کے اعمال صالحہ اس قابل نہ نکلے کہ انہیں جنت میں پہنچائیں لیکن اتنی برائیاں بھی ان کی نہ تھیں کہ دوزخ میں جائیں تو یہ اعراف پر ہی روک دیئے گئے، لوگوں کو ان کے اندازے سے پہچانتے ہوں گے

جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں فیصلے کر چکے گا شفاعت کی اجازت دے گا لوگ حضرت آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ اے آدم آپ ہمارے باپ ہیں ہماری شفاعت اللہ تعالیٰ کی جانب میں کیجئے ۔

 آپ جواب دیں گے کہ کیا تم نہیں جانتے ہو کہ میرے سوا کسی کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ہو، اپنی روح اس میں پھونکی ہو، اپنی رحمت اس پر اپنے غضب سے پہلے پہنچائی ہو، اپنے فرشتوں سے اسے سجدہ کرایا ہو؟

 سب جواب دیں گے کہ نہیں ایسا کوئی آپ کے سوا نہیں ۔

آپ فرمائیں گے میں اس کی حقیقت سے بےخبر ہوں میں تمہاری شفاعت نہیں کر سکتا ہوں تم میرے لڑکے ابراہیمؑ کے پاس جاؤ ۔

 اب سب لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس پہنچیں گے اور ان سے شفاعت کرنے کی درخواست کریں گے ۔

 آپ جواب دیں گے کہ کیا تم جانتے ہو کہ میرے سوا اور کوئی خلیل اللہ ہوا ہو یا اللہ کے بارے میں اس کی قوم نے آگ میں پھینکا ہو؟

 سب کہیں گے نہیں آپ کے سوا اور کوئی نہیں، فرمائیں گے مجھے اس کی حقیقت معلوم نہیں میں تمہاری درخواست شفاعت نہیں لے جا سکتا تم میرے لڑکے موسیٰؑ کے پاس جاؤ ۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام جواب دیں گے کہ بتاؤ میرے سوا اللہ نے کسی کو اپنا کلیم بنایا ، اپنی سرگوشیوں کے لئے نزدیکی عطا فرمائی ؟

جواب دیں گے کہ نہیں ۔

 فرمائیں گے میں اس کی حقیقت سے بےخبر ہوں میں تمہاری سفارش کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ۔ ہاں تم حضرت عیسیٰؑ کے پاس جاؤ ۔

 لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے ان سے شفاعت طلبی کا تقاضا کریں گے

 یہ جواب دیں گے کہ کیا تم جانتے ہو کہ میرے سوا کسی کو اللہ نے بغیر باپ کے پیدا کیا ہو؟

 جواب ملے گا کہ نہیں ۔ پوچھیں گے جانتے ہو کہ کوئی مادر زاد اندھوں اور کوڑھیوں کو بحکم الہی میرے سوا اچھا کرتا ہو یا کوئی مردہ کو بحکم الہٰی زندہ کر دیتا ہو؟

 کہیں گے کہ کوئی نہیں ۔

 فرمائیں گے کہ میں تو آج اپنے نفس کے بچاؤ میں ہوں ، میں اس کی حقیقت سے بےخبر ہوں ۔ مجھ میں اتنی طاقت کہاں کہ تمہاری سفارش کر سکوں ، ہاں تم سب کے سب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ ۔چنانچہ سب لوگ میرے پاس آئیں گے

میں اپنا سینہ ٹھونک کر کہوں گا کہ ہاں ہاں میں اسی لئے موجود ہوں، پھر میں چل کر اللہ کے عرش کے سامنے ٹھہر جاؤں گا ۔ اپنے رب عزوجل کے پاس پہنچ جاؤں گا اور ایسی ایسی اس کی تعریفیں بیان کروں گا کہ کسی سننے والے نے کبھی نہ سنی ہوں ۔ پھر سجدے میں گر پڑوں گا پھر مجھ سے فرمایا جائے گا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر اٹھاؤ ۔ مانگو دیا جائے گا ۔ شفاعت کرو، قبول کی جائے گی۔

پس میں اپنا سر اٹھا کر کہوں گا میرے رب میری اُمت ۔

 اللہ تعالیٰ فرمائے گا وہ سب تیری ہی ہے ۔

پھر تو ہر ہر پیغمبر اور ہر ایک فرشتہ رشک کرنے لگے گا ۔ یہی مقامٗ مقام محمود ہے ۔

 پھر میں ان سب کو لے کر جنت کی طرف آؤں گا ۔ جنت کا دروازہ کھلواؤں گا اور وہ میرے لئے اور ان کیلئے کھول دیا جائے گا

 پھر انہیں ایک نہر کی طرف لے جائیں گے جس کا نام نہر الحیوان ہے اس کے دونوں کناروں پر سونے کے محل ہیں جو یاقوت سے جڑاؤ کئے گئے ہیں اس میں غسل کریں گے جس سے جنتی رنگ اور جنتی خوشبو ان میں پیدا ہو جائے گی اور چمکتے ہوئے ستاروں جیسے وہ نورانی ہو جائیں گے ہاں ان کے سینوں پر سفید نشان باقی رہ جائیں گے جس سے وہ پہچانے جائیں گے انہیں مساکین اہل جنت کہا جائے گا ۔

وَنَادَى أَصْحَابُ النَّارِ أَصْحَابَ الْجَنَّةِ أَنْ أَفِيضُوا عَلَيْنَا مِنَ الْمَاءِ أَوْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ ۚ

اور دوزخ والے جنت والوں کو پکاریں گے کہ ہمارے اوپر تھوڑا پانی ہی ڈال دو یا اور ہی کچھ دے دو جو اللہ نے تم کو دے رکھا ہے

دوزخیوں کی ذلت و خواری اور ان کا بھیک مانگنا اور ڈانٹ دیا جانا بیان ہو رہا ہے کہ وہ جنتیوں سے پانی یا کھانا مانگیں گے ۔ اپنے نزدیک کے رشتے کنبے والے جیسے باپ بیٹے بھائی بہن وغیرہ سے کہیں گے کہ ہم جل بھن رہے ہیں، بھوکے پیاسے ہیں، ہمیں ایک گھونٹ پانی یا ایک لقمہ کھانا دے دو ۔

قَالُوا إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُمَا عَلَى الْكَافِرِينَ (۵۰)

جنت والے کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے دونوں چیزوں کی کافروں کے لئے بندش کر دی ہے ۔‏

وہ بحکم الہٰی انہیں جواب دیں گے کہ یہ سب کچھ کفار پر حرام ہے ۔

ابن عباسؓ سے سوال ہوتا ہے کہ کس چیز کا صدقہ افضل ہے؟

 فرمایا حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ سب سے افضل خیرات پانی ہے ۔ دیکھو جہنمی اہل جنت سے اسی کا سوال کریں گے

مروی ہے کہ جب ابو طالب موت کی بیماری میں مبتلا ہوا تو قریشیوں نے اس سے کہا کسی کو بھیج کر اپنے بھتیجے سے کہلواؤ کہ وہ تمہارے پاس جنتی انگور کا ایک خوشہ بھجوا دے تاکہ تیری بیماری جاتی رہے ۔

جس وقت قاصد حضور ﷺکے پاس آتا ہے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ کے پاس موجود تھے ۔ سنتے ہی فرمانے لگے اللہ نے جنت کی کھانے پینے کی چیزیں کافروں پر حرام کر دی ہیں ۔

‎ الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَهُمْ لَهْوًا وَلَعِبًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا ۚ

جنہوں نے دنیا میں اپنے دین کو لہو و لعب بنا رکھا تھا اور جن کو دنیاوی زندگی نے دھوکے میں ڈال رکھا تھا

پھر ان کی بد کرداری بیان فرمائی کہ یہ لوگ دین حق کو ایک ہنسی کھیل سمجھے ہوئے تھے دنیا کی زینت اور اس کے بناؤ چناؤ میں ہی عمر بھر مشغول رہے ۔

فَالْيَوْمَ نَنْسَاهُمْ كَمَا نَسُوا لِقَاءَ يَوْمِهِمْ هَذَا وَمَا كَانُوا بِآيَاتِنَا يَجْحَدُونَ (۵۱)

 سو ہم (بھی) آج کے روز ان کا نام بھول جائیں گے جیسا کہ وہ اس دن بھول گئے اور جیسا یہ ہماری آیتوں کا انکار کرتے تھے‏

یہ چونکہ اس دن کو بھول بسر گئے تھے اس کے بدلے ہم بھی ان کے ساتھ ایسا معاملہ کریں گے جو کسی بھول جانے والے کا معاملہ ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ بھولنے سے پاک ہے اس کے علم سے کوئی چیز نکل نہیں سکتی ۔فرماتا ہے:

لاَّ يَضِلُّ رَبِّى وَلاَ يَنسَى (۲۰:۵۲)

، نہ تو میرا رب غلطی کرتا ہے نہ بھولتا ہے

یہاں جو فرمایا یہ صرف مقابلہ کیلئے ہےجیسے فرمان ہے:

 نَسُواْ اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ (۹:۶۷)

یہ اللہ کو بھول گئے اللہ نے انہیں بھلا دیا

اور جیسے دوسری آیت میں ہے:

كَذَلِكَ أَتَتْكَ آيَـتُنَا فَنَسِيتَهَا وَكَذلِكَ الْيَوْمَ تُنْسَى (۲۰:۱۲۶)

اسی طرح ہونا چاہیے تھا تو میری آئی ہوئی آیتوں کو بھول گیا تو آج تو بھی بھلا دیا جاتا ہے‏

فرمان ہے:

وَقِيلَ الْيَوْمَ نَنسَاكُمْ كَمَا نَسِيتُمْ لِقَآءَ يَوْمِكُمْ هَـذَا (۴۵:۳۴)

اور کہہ دیا گیا کہ آج ہم تمہیں بھلا دیں گے جیسے کہ تم نے اپنے اس دن سے ملنے کو بھلا دیا تھا

پس یہ بھلائیوں سے بالقصد بھلا دیئے جائیں گے ۔ ہاں برائیاں اور عذاب برابر ہوتے رہیں گے ۔ انہوں نے اس دن کی ملاقات کو بھلایا ہم نے انہیں آگ میں چھوڑا رحمت سے دور کیا جیسے یہ عمل سے دور تھے ۔صحیح حدیث میں ہے:

قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بندے سے فرمائے گا کیا میں نے تجھے بیوی بچے نہیں دیئے تھے؟

 کیا عزت آبرو نہیں دی تھی ؟

 کیا گھوڑے اور اونٹ تیرے مطیع نہیں کئے تھے؟

 اور کیا تجھے قسم قسم کی راحتوں میں آزاد نہیں رکھا تھا ؟

 بندہ جواب دے گا کہ ہاں پروردگار بیشک تو نے ایسا ہی کیا تھا ۔

 اللہ تعالیٰ فرمائے گا پھر کیا تو میری ملاقات پر ایمان رکھتا تھا؟

 وہ جواب دے گا کہ نہیں۔

 اللہ تعالیٰ فرمائے گا پس میں بھی آج تجھے ایسا ہی بھول جاؤں گا جیسے تو مجھے بھول گیا تھا۔

وَلَقَدْ جِئْنَاهُمْ بِكِتَابٍ فَصَّلْنَاهُ عَلَى عِلْمٍ هُدًى وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (۵۲)

اور ہم نے ان لوگوں کے پاس ایک ایسی کتاب پہنچا دی جس کو ہم نے اپنے علم کامل سے بہت واضح کر کے بیان کر دیا وہ ذریعہ ہدایت اور رحمت ان لوگوں کے لئے ہے جو ایمان لائے ہیں۔‏

اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کے کل عذر ختم کر دیئے تھے اپنے رسولوں کی معرفت اپنی کتاب بھیجی جو مفصل اور واضح تھی ۔

جیسے فرمان ہے:

كِتَابٌ أُحْكِمَتْ ءايَـتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ (۱۱:۱)

یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ اس کی آیتیں محکم کی گئی ہیں پھر صاف صاف بیان کی گئی ہیں

 اس کی جو تفصیل ہے وہ بھی علم پر ہے جیسے فرمان ہے :

أَنزَلَهُ بِعِلْمِهِ (۴:۱۶۶)

اسے اپنے علم سے اتارا ہے

 امام ابن جریر فرماتے ہیں یہ آیت اسی آیت پر جاتی ہے جس میں فرمان ہے:

كِتَابٌ أُنزِلَ إِلَيْكَ فَلَا يَكُن فِي صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْهُ (۷:۲)

یہ کتاب تیری طرف نازل فرمائی گئی ہے پس اس سے تیرے سینے میں کوئی حرج نہ ہونا چاہئے ۔

یہاں فرمایا وَلَقَدْ جِئْنَاهُمْ بِكِتَابٍ ، لیکن یہ محل نظر ہے اس لئے کہ فاصلہ بہت ہے اور یہ قول بےدلیل ہے درحقیقت جب ان کے اس خسارے کا ذکر ہوا جو انہیں آخرت میں ہو گا تو بیان فرمایا کہ دنیا میں ہی ہم نے تو اپنا پیغام پہنچا دیا تھا رسول بھی کتاب بھی ۔ جیسے ارشاد ہے:

وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولاً (۱۷:۱۵)

اور ہماری سنت نہیں کہ رسول بھیجنے سے پہلے ہی عذاب کرنے لگیں ۔

اسی لئے اس کے بعد ہی فرمایا ۔

هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا تَأْوِيلَهُ ۚ

ان لوگوں کو اور کسی بات کا انتظار نہیں صرف اس کے اخیر نتیجہ کا انتظار ہے

انہیں تو اب جنت دوزخ کے اپنے سامنے آنے کا انتظار ہے ۔

یا یہ مطلب کہ اس کی حقیقت یکے بعد دیگرے روشن ہوتی رہے گی یہاں تک کہ آخری حقیقت یعنی جنت دوزخ ہی سامنے آ جائیں گی اور ہر ایک اپنے لائق مقام میں پہنچ جائے گا

يَوْمَ يَأْتِي تَأْوِيلُهُ يَقُولُ الَّذِينَ نَسُوهُ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ فَهَلْ لَنَا مِنْ شُفَعَاءَ فَيَشْفَعُوا لَنَا

جس روز اس کا اخیر نتیجہ پہنچ آئے گا اس روز وہ لوگ اس کو پہلے سے بھولے ہوئے تھے یوں کہیں گے کہ واقعی ہمارے رب کے پیغمبر سچی سچی باتیں لائے تھے سو اب کیا کوئی ہمارا سفارشی ہے کہ ہماری سفارش کر دے

قیامت والے دن یہ واقعات رونما ہو جائیں گے اب جو سن رہے ہیں اس وقت دیکھ لیں گے اس وقت اسے فراموش کر کے بیٹھ رہنے والے عمل سے کورے لوگ مان لیں گے کہ بیشک اللہ کے انبیاء سچے تھے رب کی کتابیں برحق تھیں کاش اب کوئی ہمارا سفارشی کھڑا ہو اور ہمیں اس ہلاکت سے نجات دلائے

أَوْ نُرَدُّ فَنَعْمَلَ غَيْرَ الَّذِي كُنَّا نَعْمَلُ ۚ

یا کیا ہم پھر واپس بھیجے جاسکتے ہیں تاکہ ہم لوگ ان اعمال کے جو ہم کیا کرتے تھے برخلاف دوسرے اعمال کریں

یا ایسا ہو کہ ہم پھر سے دنیا کی طرف لوٹا دیئے جائیں تو جو کام کئے تھے اب ان کے خلاف کریں ۔ جیسے فرمان ہے:

فَقَالُواْ يلَيْتَنَا نُرَدُّ وَلاَ نُكَذِّبَ بِـَايَـتِ ۔۔۔ وَإِنَّهُمْ لَكَـذِبُونَ (۶:۲۷،۲۸)

کہیں گے ہائے کیا اچھی بات ہو کہ ہم پھر واپس بھیج دیئے جائیں اور اگر ایسا ہو جائے تو ہم اپنے رب کی آیات کو جھوٹا نہ بتلائیں اور ہم ایمان والوں میں سے ہوجائیں

 بلکہ جس چیز کو اس سے قبل چھپایا کرتے تھے وہ ان کے سامنے آگئی ہے اور اگر یہ لوگ پھر واپس بھیج دیئے جائیں تب بھی یہ وہی کام کریں گے جس سے ان کو منع کیا گیا تھا اور یقیناً یہ بالکل جھو ٹے ہیں

قَدْ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَفْتَرُونَ (۵۳)

بیشک ان لوگوں نے اپنے آپ کو خسارہ میں ڈال دیا اور یہ جو جو باتیں تراشتے تھے سب گم ہوگئیں ۔

 انہوں نے آپ ہی اپنا برا کیا اللہ کے سوا اوروں سے امیدیں رکھتے رہے آج سب باطل ہو گئیں نہ کوئی ان کا سفارشی نہ حمایتی۔

إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ

بیشک تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے سب آسمانوں اور زمین کو چھہ روز میں پیدا کیا ہے

بہت سی آیتوں میں یہ بیان ہوا ہے کہ آسمان و زمین اور کل مخلوق اللہ تعالیٰ نے چھ دن میں بنائی ہے یعنی اتوار سے جمعہ تک ۔ جمعہ کے دن ساری مخلوق پیدا ہو چکی ۔ اسی دن حضرت آدم ؑپیدا ہوئے یا تو یہ دن دنیا کے معمولی دنوں کے برابر ہی تھے جیسے کہ آیت کے ظاہری الفاظ سے فی الفور سمجھا جاتا ہے یا ہر دن ایک ہزار سال کا تھا جیسے کہ حضرت مجاہدؒ کا قول ہے اور حضرت امام احمد بن حنبلؒ کا فرمان ہے اور بروایت ضحاک ابن عباسؓ کا قول ہے ۔

 ہفتہ کے دن کوئی مخلوق پیدا نہیں ہوئی ۔ اسی لئے اس کا نام عربی میں یوم السبت ہے سبت کے معنی قطع کرنے ختم کرنے کے ہیں ۔

 ہاں مسند احمد نسائی اور صحیح مسلم میں جو حدیث ہے کہ اللہ نے مٹی کو ہفتہ کے دن پیدا کیا اور پہاڑوں کو اتوار کے دن اور درختوں کو پیر کے دن اور برائیوں کو منگل کے دن اور نور کو بدھ کے دن اور جانوروں کو جمعرات کے دن اور آدم ؑ کو جمعہ کے دن عصر کے بعد دن کی آخری گھڑی میں عصر سے لے کر مغرب تک ۔ حضور ﷺنے حضرت ابوہریرہؓ کا ہاتھ پکڑ کر یہ گنوایا ۔

 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سات دن تک پیدائش کا سلسلہ جاری رہا حالانکہ قرآن میں موجود ہے کہ چھ دن میں پیدائش ختم ہوئی ۔ اسی وجہ سے امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ زبردست حفاظ حدیث نے اس حدیث پر کلام کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ عبارت حضرت ابوہریرہؓ نے کعب احبار سے لی ہے فرمان رسول نہیں ہے واللہ اعلم ۔

ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ

 پھر عرش پر قائم ہوا

پھر فرماتا ہے کہ وہ اپنے عرش پر مستویٰ ہوا ۔

 اس پر لوگوں نے بہت کچھ چہ میگوئیاں کی ہیں۔ جنہیں تفصیل سے بیان کرنے کی یہ جگہ نہیں ۔ مناسب یہی ہے کہ اس مقام میں سلف صالحین کی روش اختیار کی جائے ۔ جیسے امام مالک، امام اوزاعی ، امام ثوری ، امام لیث ، امام شافعی ، امام احمد ، امام اسحاق بن راہویہ وغیرہ وغیرہ ائمہ سلف وخلف رحمہم اللہ ۔

ان سب بزرگان دین کا مذہب یہی تھا کہ جیسی یہ آیت ہے اسی طرح اسے رکھا جائے بغیر کیفیت کے، بغیر تشبیہ کے اور بغیر مہمل چھوڑنے کے، ہاں شبہ کرنے والوں کے ذہنوں میں جو چیز آ رہی ہے اس سے اللہ تعالیٰ پاک اور بہت دور ہے اللہ کے مشابہ اس کی مخلوق میں سے کوئی نہیں ۔ فرمان ہے:

لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَىْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (۴۲:۱۱)

اس کے مثل کوئی نہیں اور وہ سننے دیکھنے والا ہے ۔

بلکہ حقیقت یہی ہے جو ائمہ کرام رحمتہ اللہ علیہم نے فرمائی ہے انہی میں سے حضرت نعیم بن حماد خزاعی ؒ ہیں ۔ آپ حضرت امام بخاریؒ کے استاد ہیں فرماتے ہیں:

جو شخص اللہ کو مخلوق سے تشبیہ دے وہ کافر ہے اور جو شخص اللہ کے اس وصف سے انکار کرے جو اس نے اپنی ذات پاک کیلئے بیان فرمایا ہے وہ بھی کافر ہے ۔ خود اللہ تعالیٰ نے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اوصاف ذات باری تعالیٰ جل شانہ کے بیان فرمائے ہیں ان میں ہرگز تشبیہ نہیں ۔

 پس صحیح ہدایت کے راستے پر وہی ہے جو آثار صحیحہ اور اخبار صریحہ سے جو اوصاف رب العزت وحدہ لاشریک لہ کے ثابت ہیں انہیں اسی طرح جانے جو اللہ کی جلالت شان کے شیان ہے اور ہر عیب و نقصان سے اپنے رب کو پاک اور مبرا و منزہ سمجھے ۔

يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا

وہ رات سے دن ایسے طور پر چھپا دیتا ہے کہ کہ وہ رات اس دن کو جلدی سے آ لیتی ہے

پھر فرمان ہے کہ رات کا اندھیرا دن کے اجالے سے اور دن کا اجالا رات کے اندھیرے سے دور ہو جاتا ہے ، ہر ایک دوسرے کے پیچھے لپکا چلا آتا ہے یہ گیاوہ آیا وہ گیا یہ آیا ۔ جیسے فرمایا :

وَءَايَةٌ لَّهُمُ الَّيْلُ نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهَارَ ۔۔۔ وَكُلٌّ فِى فَلَكٍ يَسْبَحُونَ  (۳۶:۳۷،۴۰)

ان کے سمجھنے کیلئے ہماری ایک نشانی رات ہے کہ اس میں سے ہم دن کو نکالتے ہیں جس سے یہ اندھیرے میں آ جاتے ہیں ۔

سورج اپنے ٹھکانے کی طرف برابر جا رہا ہے یہ ہے اندازہ اللہ کا مقرر کیا ہوا جو غالب اور باعلم ہے ۔

ہم نے چاند کی بھی منزلیں ٹھہرا دی ہیں یہاں تک کہ وہ کھجور کی پرانی ٹہنی جیسا ہو کر رہ جاتا ہے ۔

نہ آفتاب ماہتاب سے آگے نکل سکتا ہے نہ رات دن سے پہلے آ سکتی ہے ۔ سب کے سب اپنے اپنے مدار میں تیرتے پھرتے ہیں ۔

 رات دن میں کوئی فاصلہ نہیں ایک کا جانا ہی دوسرے کا آجانا ہے ہر ایک دوسرے کے برابر پیچھے ہے

وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ ۗ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ ۗ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ (۵۴)

اور سورج اور چاند اور دوسرے ستاروں کو پیدا کیا ایسے طور پر کہ سب اس کے حکم کے تابع ہیں۔

یاد رکھو اللہ ہی کے لئے خاص ہے خالق ہونا اور حاکم ہونا بڑی خوبیوں سے بھرا ہوا اللہ جو تمام عالم کا پروردگار ہے۔‏

وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ کو بعض نے پیش سے بھی پڑھا ہے ۔ مطلب دونوں صورتوں میں قریب قریب برابر ہے ۔

 یہ سب اللہ کے زیر فرمان، اس کے ماتحت اور اس کے ارادے میں ہیں ۔ ملک اور تصرف اسی کا ہے۔ وہ برکتوں والا اور تمام جہان کا پالنے والا ہے ۔ فرمان ہے :

تَبَارَكَ الَّذِى جَعَلَ فِى السَّمَآءِ بُرُوجاً (۲۵:۶۱)

بابرکت ہے وہ جس نے آسمان میں برج بنائے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

جس کسی نے کسی نیکی پر اللہ کی حمد نہ کی بلکہ اپنے نفس کو سراہا اس نے کفر کیا اور اس کے اعمال غارت ہوئے

 اور جس نے یہ عقیدہ رکھا کہ اللہ نے کچھ اختیارات اپنے بندوں کو بھی دیئے ہیں اس نے اس کے ساتھ کفر کیا جو اللہ نے اپنے نبیوں پر نازل فرمایا ہے کیونکہ اس کا فرمان ہے أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ (ابن جریر)

ایک مرفوع دعا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بھی مروی ہے کہ آپ فرماتے تھے:

اللَّهُمَّ لَكَ الْمُلْكُ كُلُّـهُ وَلَكَ الْحَمْدُ كُلُّهُ وَإِلَيْكَ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ، أَسْأَلُكَ مِنَ الْخَيْرِ كُلِّهِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الشَّرِّ كُلِّه

یا اللہ سارا ملک تیرا ہی ہے سب حمد تیرے لئے ہی ہے سب کام تیری ہی طرف لوٹتے ہیں میں تجھ سے تمام بھلائیاں طلب کرتا ہوں اور ساری برائیوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔

ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ (۵۵)

تم لوگ اپنے پروردگار سے دعا کیا کرو گڑ گڑا کے بھی اور چپکے چپکے بھی واقعی اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو نا پسند کرتا ہے جو حد سے نکل جائیں۔‏

اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دعا کی ہدایت کرتا ہے جس میں ان کی دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے ۔فرماتا ہے کہ اپنے پروردگار کو عاجزی ، مسکینی اور آہستگی سے پکارو جیسے فرمان ہے:

وَاذْكُر رَّبَّكَ فِي نَفْسِكَ (۷:۲۰۵)

اپنے رب کو اپنے نفس میں یاد کر ۔

بخاری و مسلم میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔لوگوں نے دعا میں اپنی آوازیں بہت بلند کر دیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 لوگو اپنی جانوں پر رحم کرو تم کسی بہرے کو یا غائب کو نہیں پکار رہے جسے تم پکار رہے ہو وہ بہت سننے والا اور بہت نزدیک ہے ۔

 ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ پوشیدگی مراد ہے ،

 امام ابن جریرؒ فرماتے ہیں تَضَرُّعًا کے معنی ذلت مسکینی اور اطاعت گزاری کے ہیں اور خُفْيَةً کے معنی دلوں کے خشوع خضوع سے ، یقین کی صحت سے ، اس کی وحدانیت اور ربوبیت کا اس کے اور اپنے درمیان یقین رکھتے ہوئے پکارو نہ کہ ریا کاری کے ساتھ بہت بلند آواز سے ۔

حضرت حسن رحمتہ اللہ علیہ سے مروی ہے:

لوگ حافظ قرآن ہوتے تھے اور کسی کو معلوم بھی نہیں ہوتا تھا، لوگ بہت بڑے فقیہہ ہو جاتے تھے اور کوئی جانتا بھی نہ تھا لوگ لمبی لمبی نمازیں اپنے گھروں میں پڑھتے تھے اور مہمانوں کو بھی پتہ نہ چلتا تھا۔ یہ وہ لوگ تھے کہ جہاں تک ان کے بس میں ہوتا تھا اپنی کسی نیکی کو لوگوں پر ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے ۔ پوری کوشش سے دعائیں کرتے تھے لیکن اس طرح جیسے کوئی سرگوشی کر رہا ہو یہ نہیں کہ چیخیں چلائیں ۔یہی فرمان رب ہے کہ اپنے رب کو عاجزی اور آہستگی سے پکارو۔دیکھو اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک نیک بندے کا ذکر کیا جس سے وہ خوش تھا کہ اس نے اپنے رب کو خفیہ طور پر پکارا ۔

 امام ابن جریج ؒفرماتے ہیں:

 دعا میں بلند آواز، ندا اور چیخنے کو مکروہ سمجھا جاتا تھا بلکہ گریہ وزاری اور آہستگی کا حکم دیا جاتا تھا ۔

ابن عباسؓ فرماتے ہیں دعا وغیرہ میں حد سے گزر جانے والون کو اللہ دوست نہیں رکھتا ۔

 ابو مجازؒ کہتے ہیں مثلاً اپنے لئے نبی بن جانے کی دعا کرنا وغیرہ ۔

 حضرت سعد نے سنا کہ ان کا لڑکا اپنی دعا میں کہہ رہا ہے کہ اے اللہ میں تجھ سے جنت اور اس کی نعمتیں اور اس کے ریشم و حریر وغیرہ وغیرہ طلب کرتا ہوں اور جہنم ، اس کی زنجیروں اور اس کے طوق وغیرہ سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔ تو آپ نے فرمایا تو نے اللہ سے بہت سی بھلائیاں طلب کیں اور بہت سی برائیوں سے پناہ چاہی ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ فرماتے تھے کہ عنقریب کچھ لوگ ہوں گے جو دعا میں حد سے گزر جایا کریں گے ۔

ایک سند سے مروی ہے:

وہ دعا مانگنے میں اور وضو کرنے میں حد سے نکل جائیں گے پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی اور فرمایا تجھے اپنی دعا میں یہی کہنا کافی ہے کہ اے اللہ میں تجھ سے جنت اور جنت سے قریب کرنے والے قول و فعل کی توفیق طلب کرتا ہوں اور جہنم اور اس سے نزدیک کرنے والے قول و فعل سے تیری پناہ چاہتا ہوں (ابو داؤد )

ابن ماجہ میں ہے ان کے صاحبزادے اپنی دعا میں یہ کہہ رہے تھے کہ یا اللہ جنت میں داخل ہونے کے بعد جنت کی دائیں جانب کا سفید رنگ کا عالیشان محل میں تجھ سے طلب کرتا ہوں ۔

وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا ۚ

اور دنیا میں اس کے بعد کہ اس کی درستی کر دی گئی ہے فساد مت پھیلاؤ اور تم اللہ کی عبادت کرو اس سے ڈرتے ہوئے اور امیدوار رہتے ہوئے

پھر زمین پر امن و امان کے بعد فساد کرنے کو منع فرما رہا ہے کیونکہ اس وقت کا فساد خصوصیت سے زیادہ برائیاں پیدا کرتا ہے ۔ پس اللہ اسے حرام قرار دیتا ہے اور اپنی عبادت کرنے کا ، دعا کرنے کا ، مسکینی اور عاجزی کرنے کا حکم دیتا ہے کہ اللہ کو اس کے عذابوں سے ڈر کر اور اس کی نعمتوں کے امیدوار بن کر پکارو ۔

إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ (۵۶)

بیشک اللہ تعالیٰ کی رحمت نیک کام کرنے والوں کے نزدیک ہے ۔

 اللہ کی رحمت نیکو کاروں کے سروں پر منڈلا رہی ہے ۔ جو اس کے احکام بجا لاتے ہیں اس کے منع کردہ کاموں سے باز رہتے ہیں

 جیسے فرمایا :

وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ (۷:۱۵۶)

اور میری رحمت تمام اشیا پر محیط ہے

یعنی یوں تو میری رحمت تمام چیزوں کو گھیرے ہوئے ہے لیکن میں اسے مخصوص کر دونگا پرہیزگار لوگوں کے لئے ۔

 چونکہ رحمت ثواب کی ضامن ہوتی ہے اس لئے قَرِيبٌ کہا قَرِيبۃٌ نہ کہا یا اس لئے کہ وہ اللہ کی طرف مضاف ہے ۔ انہوں نے اللہ کے وعدوں کا سہارا لیا ۔ اللہ نے اپنا فیصلہ کر دیا کہ اس کی رحمت بالکل قریب ہے۔

وَهُوَ الَّذِي يُرْسِلُ الرِّيَاحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ ۖ

اور وہ ایسا ہے کہ اپنی باران رحمت سے پہلے ہواؤں کو بھیجتا ہے کہ وہ خوش کر دیتی ہیں

اوپر بیان ہوا کہ زمین و آسمان کا خالق اللہ ہے ۔ سب پر قبضہ رکھنے والا، حاکم ، تدبیر کرنے والا ، مطیع اور فرمانبردار رکھنے والا اللہ ہی ہے ۔ پھر دعائیں کرنے کا حکم دیا کیونکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ اب یہاں بیان ہو رہا ہے کہ رزاق بھی وہی ہے اور قیامت کے دن مردوں کو زندہ کر دینے والا بھی وہی ہے ۔پس فرمایا کہ بارش سے پہلے بھینی بھینی خوش گوار ہوائیں وہی چلاتا ہے

بُشْرًا کی دوسری قرأت مُبَشِّرَتٍ بھی ہے ۔

وَمِنْ ءَايَـتِهِ أَن يُرْسِلَ الرِّيَـحَ مُبَشِّرَتٍ (۳۰:۴۶)

اس کی نشانیوں میں سے خوشخبریاں دینے والی ہواؤں کو چلانا بھی ہے

رَحْمَتِهِ سے مراد یہاں بارش ہے جیسے فرمان ہے :

وَهُوَ الَّذِى يُنَزِّلُ الْغَيْثَ مِن بَعْدِ مَا قَنَطُواْ وَيَنشُرُ رَحْمَتَهُ وَهُوَ الْوَلِىُّ الْحَمِيدُ (۴۲:۲۸)

اور وہی ہے جو لوگوں کے نا امید ہو جانے کے بعد بارش برساتا ہےاور اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے وہی ہے کارساز اور قابل حمد و ثنا

 ایک اور آیت میں ہے:

فَانظُرْ إِلَى ءَاثَـرِ رَحْمَةِ اللَّهِ كَيْفَ يُحْىِ الاٌّرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَآ إِنَّ ذَلِكَ لَمُحْىِ الْمَوْتَى وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ (۳۰:۵۰)

پس آپ رحمت الہٰی کے آثار دیکھیں کہ زمین کی موت کے بعد کس طرح اللہ تعالیٰ اسے زندہ کر دیتا ہے؟ کچھ شک نہیں کہ وہی مردوں کو زندہ کرنے والا ہے اور وہ ہر ہرچیز پر قادر ہے۔‏

حَتَّى إِذَا أَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا سُقْنَاهُ لِبَلَدٍ مَيِّتٍ

یہاں تک کہ جب وہ ہوائیں بھاری بادلوں کو اٹھا لیتی ہیں تو ہم اس بادل کو کسی خشک سرزمین کی طرف ہانک لے جاتے ہیں

بادل جو پانی کی وجہ سے بوجھل ہو رہے ہیں انہیں یہ ہوائیں اٹھائے چلتی ہیں یہ زمین سے بہت قریب ہوتے ہیں اور سیاہ ہوتے ہیں ۔ چنانچہ حضرت زید بن عمرو بن نفیل رحمہ اللہ کے شعروں میں ہے:

میں اس کا مطیع ہوں جس کے اطاعت گزار میٹھے اور صاف پانی کے بھرے ہوئے بادل ہیں

اور جس کے تابع فرمان بھاری بوجھل پہاڑوں والی زمین ہے ۔

 پھر ہم ان بادلوں کو مردہ زمین کی طرف لے چلتے ہیں جس میں کوئی سبزہ نہیں خشک اور بنجر ہے جیسےاس  آیت میں بیان ہوا ہے:

وَءَايَةٌ لَّهُمُ الاٌّرْضُ الْمَيْتَةُ أَحْيَيْنَـهَا (۳۶:۳۳)

اور ان کے لئے ایک نشانی (خشک) زمین ہے جس کو ہم نے زندہ کر دیا

فَأَنْزَلْنَا بِهِ الْمَاءَ فَأَخْرَجْنَا بِهِ مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ ۚ

پھر اس بادل سے پانی برساتے ہیں پھر اس پانی سے ہر قسم کے پھل نکالتے ہیں

پھر اس سے پانی برسا کر اسی غیر آباد زمین کو سر سبز بنا دیتے ہیں ۔

كَذَلِكَ نُخْرِجُ الْمَوْتَى لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (۵۷)

یوں ہی ہم مردوں کو نکال کھڑا کریں گے تاکہ تم سمجھو ۔

اسی طرح ہم مردوں کو زندہ کر دیں گے حالانکہ وہ بوسیدہ ہڈیاں اور پھر ریزہ ریزہ ہو کر مٹی میں مل گئے ہوں گے ۔

قیامت کے دن ان پر اللہ عزوجل بارش برسائے گا چالیس دن تک برابر برستی رہے گی جس سے جسم قبروں میں اُگنے لگیں گے جیسے دانہ زمین پر اُگتا ہے ۔

وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ ۖ وَالَّذِي خَبُثَ لَا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِدًا ۚ

اور جو ستھری سرزمین ہوتی ہے اس کی پیداوار تو اللہ کے حکم سے خوب نکلتی ہے اور جو خراب ہے اس کی پیداوار بھی کم نکلتی ہے

یہ بیان قرآن کریم میں کئی جگہ ہے ۔ قیامت کی مثال بارش کی پیداوار سے دی جاتی ہے ۔

پھر فرمایا یہ تمہاری نصیحت کے لئے ہے ۔ اچھی زمین میں سے پیداوار عمدہ بھی نکلتی ہے اور جلدی بھی

جیسے فرمان ہے:

وَأَنبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا (۳:۳۷)

اسے بہترین پرورش دی

اور جو زمین خراب ہے جیسے سنگلاخ زمین شور زمین وغیرہ اس کی پیداوار بھی ویسی ہی ہوتی ہے ۔

كَذَلِكَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَشْكُرُونَ (۵۸)

اس طرح ہم دلائل بھی طرح طرح سے بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے لئے جو شکر کرتے ہیں۔‏

 یہی مثال مؤمن وکافر کی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 جس علم و ہدایت کے ساتھ اللہ نے مجھے بھیجا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے زمین پر بہت زیادہ بارش ہوئی زمین کے ایک صاف عمدہ ٹکڑے  نے تو پانی قبول کیا ٗ گھاس اور چارہ بہت سا اس میں سے نکلا ٗ اس میں بعض ٹکڑے ایسے بھی تھے جن میں پانی جمع ہو گیا اور رک گیا پس اس سے بھی لوگوں نے فائدہ اٹھایا ٗ پیا اور پلایا ٗ کھیتیاں کیںٗ باغات تازہ کئے۔

زمین کے جو چٹیل سنگلاخ ٹکڑے تھےٗ ان پر بھی وہ پانی برسا لیکن نہ تو وہاں رکا نہ وہاں کچھ اُگاٗ یہی مثال اس کی ہے جس نے دین حق کی سمجھ پیدا کی اور میری بعثت سے اس نے فائدہ اٹھایا خود سیکھا اور دوسروں کو سکھایا

اور ایسے بھی ہیں کہ انہوں نے سر ہی نہ اٹھایا اور اللہ کی وہ ہدایت ہی نہ لی جو میری معرفت بھیجی گئی (مسلم و نسائی)

لَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ فَقَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ (۵۹)

ہم نے نوحؑ کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو انہوں نے فرمایا اے میری قوم! تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود ہونے کے قابل نہیں مجھ کو تمہارے لئے ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ ہے۔‏

چونکہ سورت کے شروع میں حضرت آدم علیہ السلام کا قصہ بیان ہوا تھا پھر اس کے متعلقات بیان ہوئے اور اس کے متصل اور بیانات فرما کر اب پھر اور انبیاء علیہم السلام کے واقعات کے بیان کا آغاز ہوا اور پے در پے ان کے بیانات ہوئے سب سے پہلے حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر ہوا کیونکہ آدم علیہ السلام کے بعد سب سے پہلے پیغمبر اہل زمین کی طرف آپ ہی آئے تھے ۔ آپ نوح بن ملک بن مقوشلخ بن اخنوخ (یعنی ادریس علیہ السلام یہی پہلے وہ شخص ہیں جنہوں نے قلم سے لکھا) بن برد بن مہلیل بن قنین بن یانشن بن شیث بن آدم علیہ السلام ۔ آپ کا نسب نامہ امام محمد بن اسحاقؒ نے اسی طرح بیان فرمایا ہے۔امام صاحب فرماتے ہیں حضرت نوح جیسا کوئی اور نبی اُمت کی طرف سے ستایا نہیں گیا۔ ہاں انبیاء قتل ضرور کئے گئے ۔انہیں نوح اسی لئے کہا گیا کہ یہ اپنے نفس کا رونا بہت روتے تھے۔

حضرت آدمؑ اور حضرت نوحؑ کے درمیان دس زمانے تھے جو اسلام پر گزرے تھے ۔ اصنام پرستی کا رواج اسی طرح شروع ہوا کہ جب اولیاء اللہ فوت ہوگئے تو ان کی قوم نے ان کی قبروں پر مسجدیں بنا لیں اور ان میں ان بزرگوں کی تصویریں بنا لیں تاکہ ان کا حال اور ان کی عبادت کا نقشہ سامنے رہے اور اپنے آپ کو ان جیسا بنانے کی کوشش کریں لیکن کچھ زمانے کے بعد ان تصویروں کے مجسمے بنا لئے کچھ اور زمانے کے بعد انہی بتوں کو پوجا کرنے لگے اور ان کے نام انہی اولیاء اللہ کے ناموں پر رکھ لئے ۔ ود، سواع، یغوث ، یعوق، نسر وغیرہ ۔

جب بت پرستی کا رواج ہو گیا ، اللہ نے اپنے رسول حضرت نوحؑ کو بھیجا آپ نے انہیں اللہ واحد کی عبادت کی تلقین کی اور کہا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں قیامت کے دن تمہیں عذاب نہ ہو ۔

قَالَ الْمَلَأُ مِنْ قَوْمِهِ إِنَّا لَنَرَاكَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ (۶۰)

ان کی قوم کے بڑے لوگوں نے کہا ہم تم کو صریح غلطی میں دیکھتے ہیں ۔

قوم نوح کے بڑوں نے ، ان کے سرداروں نے اور ان کے چودھریوں نے حضرت نوح ؑ کو جواب دیا کہ تم تو بہک گئے ہو ہمیں اپنے باپ دادا کے دین سے ہٹا رہے ہو ۔ ہر بد شخص نیک لوگوں کو گمراہ سمجھا کرتا ہے ۔قرآن میں ہے:

وَإِذَا رَأَوْهُمْ قَالُواْ إِنَّ هَـؤُلاَءِ لَضَآلُّونَ (۸۳:۳۲)

اور جب انہیں دیکھتے تو کہتے یقیناً یہ لوگ گمراہ (بے راہ) ہیں۔‏

اور کافروں نے ایمانداروں کی نسبت کہا:

لَوْ كَانَ خَيْراً مَّا سَبَقُونَآ إِلَيْهِ وَإِذْ لَمْ يَهْتَدُواْ بِهِ فَسَيَقُولُونَ هَـذَآ إِفْكٌ قَدِيمٌ  (۴۶:۱۱)

اگر یہ (دین) بہتر ہوتا تو یہ لوگ اس کی طرف ہم سے سبقت کرنے نہ پاتے اور چونکہ انہوں نے اس قرآن سے ہدایت نہیں پائی پس یہ کہہ دیں گے کہ قدیمی جھوٹ ہے ۔

قَالَ يَا قَوْمِ لَيْسَ بِي ضَلَالَةٌ وَلَكِنِّي رَسُولٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ (۶۱)

انہوں نے فرمایا کہ اے میری قوم! مجھ میں تو ذرا بھی گمراہی نہیں لیکن میں پروردگار عالم کا رسول ہوں۔‏

حضرت نوح نبی علیہ السلام نے جواب دیا کہ میں بہکا ہوا نہیں ہوں بلکہ میں اللہ کا رسول ہوں

أُبَلِّغُكُمْ رِسَالَاتِ رَبِّي وَأَنْصَحُ لَكُمْ وَأَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ (۶۲)

تم کو اپنے پروردگار کے پیغام پہنچاتا ہوں اور تمہاری خیر خواہی کرتا ہوں اور میں اللہ کی طرف سے ان امور کی خبر رکھتا ہوں جنکی تم کو خبر نہیں‏

تمہیں پیغام رب پہنچا رہا ہوں۔ تمہارا خیر خواہ ہوں اور اللہ کی وہ باتیں جانتا ہوں جنہیں تم نہیں جانتے ۔

 ہر رسول مبلغ ، فصیح ، بلیغ ، ناصح، خیر خواہ اور عالم باللہ ہوتا ہے ۔ ان صفات میں اور کوئی ان کی ہمسری اور برابری نہیں کر سکتا۔صحیح مسلم شریف میں ہے:

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفے کے دن اپنے اصحاب سے فرمایا جبکہ وہ بہت بڑی تعداد میں بہت زیادہ تھے کہ اے لوگو تم میری بابت اللہ کے ہاں پوچھے جاؤ گے تو بتاؤ کیا جواب دو گے؟

 سب نے کہا ہم کہیں گے کہ آپ نے تبلیغ کر دی تھی اور حق رسالت ادا کر دیا تھا اور پوری خیر خواہی کی تھی

 پس آپ نے اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور پھر نیچے زمین کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا یا اللہ تو گواہ رہ ، اے اللہ تو شاہد رہ ، یا اللہ تو گواہ رہ

أَوَعَجِبْتُمْ أَنْ جَاءَكُمْ ذِكْرٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَلَى رَجُلٍ مِنْكُمْ لِيُنْذِرَكُمْ وَلِتَتَّقُوا وَلَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (۶۳)

اور کیا تم اس بات سے تعجب کرتے ہو کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس ایک ایسے شخص کی معرفت جو تمہاری ہی جنس کا ہے کوئی نصیحت کی بات آ گئی تاکہ وہ شخص تم کو ڈرائے اور تاکہ تم ڈر جاؤ اور تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‏

حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم سے فرما رہے ہیں کہ تم اس بات کو انوکھا اور تعجب والا نہ سمجھو کہ اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم سے کسی انسان پر اپنی وحی نازل فرمائے اور اسے اپنی پیغمبری سے ممتاز کر دے تاکہ وہ تمہیں ہو شیار کر دے پھر تم شرک و کفر سے الگ ہو کر عذاب الہٰی سے نجات پا لو اور تم پر گونا گوں رحمتیں نازل ہوں ۔

فَكَذَّبُوهُ فَأَنْجَيْنَاهُ وَالَّذِينَ مَعَهُ فِي الْفُلْكِ وَأَغْرَقْنَا الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا عَمِينَ (۶۴)

سو وہ لوگ ان کو جھٹلاتے ہی رہے تو ہم نے نوح ؑ کو اور ان کو جو ان کے ساتھ کشتی میں تھے بچا لیا اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا ان کو ہم نے غرق کر دیا۔ بیشک وہ لوگ اندھے ہو رہے تھے ۔

 حضرت نوح علیہ السلام کی ان دلیلوں اور وعظوں نے ان سنگدلوں پر کوئی اثر نہ کیا یہ انہیں جھٹلاتے رہے مخالفت سے باز نہ آئے ایمان قبول نہ کیا صرف چند لوگ سنور گئے ۔ پس ہم نے ان نیک لوگوں کو اپنے نبی کے ساتھ کشتی میں بٹھا کر طوفان سے نجات دی اور باقی لوگوں کو تہہ آب غرق کر دیا ۔

 جیسے سورۃ نوح میں فرمایا :

مِّمَّا خَطِيئَـتِهِمْ أُغْرِقُواْ فَأُدْخِلُواْ نَاراً فَلَمْ يَجِدُواْ لَهُمْ مِّن دُونِ اللَّهِ أَنصَاراً (۷۱:۲۵)

یہ لوگ بہ سبب اپنے گناہوں کے ڈبو دیئے گئے اور جہنم میں پہنچا دیئے گئے اور اللہ کے سوا اپنا کوئی مددگار انہوں نہیں پایا۔‏

یہ لوگ حق سے آنکھیں بند کئے ہوئے تھے، نابینا ہوگئے تھے، راہ حق انہیں آخر تک سجھائی نہ دی ۔ پس اللہ نے اپنے نبی کو اپنے دوستوں کو نجات دی ۔ اپنے اور ان کے دشمنوں کو تہہ آب برباد کر دیا ۔ جیسے اس کا وعدہ ہے کہ ہم اپنے رسولوں کی اور ایمانداروں کی ضرور مدد فرمایا کرتے ہیں ۔

إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا (۴۰:۵۱)

یقیناً ہم اپنے رسولوں کی مدد کریں گے

دنیا میں ہی نہیں بلکہ آخرت میں بھی وہ ان کی امداد کرتا ہے ان پرہیز گاروں کیلئے ہی عافیت ہے ۔ انجام کار غالب اور مظفر و منصور یہی رہتے ہیں جیسے کہ نوح علیہ السلام آخر کار غالب رہے اور کفار ناکام و نامراد ہوئے ۔ یہ لوگ تنگ پکڑ میں آ گئے اور غارت کر دئیے گئے۔ صرف اللہ کے رسول ؑکے اسی (۸۰)آدمیوں نے نجات پائی ان ہی میں ایک صاحب جرہم نامی تھے جن کی زبان عربی تھی ۔

ابن ابی حاتم میں یہ روایت حضرت ابن عباسؓ سے متصلاً مروی ہے ۔

وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ هُودًا ۗ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ ۚ أَفَلَا تَتَّقُونَ (۶۵)

اور ہم نے قوم عاد کی طرف ان کے بھائی ہودؑ کو بھیجا ،انہوں نے فرمایا اے میری قوم! تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں سو کیا تم نہیں ڈرتے۔‏

فرماتا ہے کہ جیسے قوم نوح کی طرف حضرت نوحؑ کو ہم نے بھیجا تھا قوم عاد کی طرف حضرت ہود علیہ السلام کو ہم نے نبی بنا کر بھیجا

یہ لوگ عاد بن ارم بن عوص بن سام بن نوح کی اولاد تھے ۔ یہ عاد اولیٰ ہیں ۔ یہ جنگل میں ستونوں میں رہتے تھے۔فرمان ہے:

أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ ۔۔۔  الَّتِى لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُهَا فِى الْبِلَـدِ (۸۹:۶،۸)

کیا تو نے نہیں دیکھا کہ عاد ارم کے ساتھ تیرے رب نے کیا کیا؟ جو بلند قامت تھے دوسرے شہروں میں جن کی مانند لوگ پیدا ہی نہیں کئے گئے ۔

یہ لوگ بڑے قوی طاقتور اور لانبے چوڑے قد کے تھےجیسے فرمان ہے:

فَأَمَّا عَادٌ فَاسْتَكْبَرُواْ فِى الاٌّرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ۔۔۔ وَكَانُواْ بِـَايَـتِنَا يَجْحَدُونَ(۴۱:۱۵)

عادیوں نے زمین میں ناحق تکبر کیا اور نعرہ لگایا کہ ہم سے زیادہ قوی کون ہے؟

 کیا انہیں اتنی بھی تمیز نہیں کہ ان کا پیدا کرنے والا یقیناً ان سے زیادہ طاقت والا ہے ۔ وہ ہماری آیتوں سے انکار کر بیٹھے

 ان کے شہر یمن میں احقاف تھے، یہ ریتلے پہاڑ تھے ۔

حضرت علیؓ نے حضرت موت کے ایک شخص سے کہا کہ تو نے ایک سرخ ٹیلہ دیکھا ہو گا جس میں سرخ رنگ کی راکھ جیسی مٹی ہے اس کے آس پاس پیلو اور بیری کے درخت بکثرت ہیں وہ ٹیلہ فلاں جگہ حضر موت میں ہے

اس نے کہا امیر المؤمنین آپ تو اس طرح کے نشان بتا رہے ہیں گویا آپ نے بچشم خود دیکھا ہے

 آپ نے فرمایا نہیں دیکھا تو نہیں لیکن ہاں مجھ تک حدیث پہنچی ہے کہ وہیں حضرت ہود علیہ السلام کی قبر ہے ۔

 اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان لوگوں کی بستیاں یمن میں تھیں اسی لئے ان کے پیغمبر وہیں مدفون ہیں آپ ان سب میں شریف قبیلے کے تھے اس لئے کہ انبیاء ہمیشہ حسب نسب کے اعتبار سے عالی خاندان میں ہی ہوتے رہے ہیں

قَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَوْمِهِ إِنَّا لَنَرَاكَ فِي سَفَاهَةٍ وَإِنَّا لَنَظُنُّكَ مِنَ الْكَاذِبِينَ (۶۶)

ان کی قوم میں جو بڑے لوگ کافر تھے انہوں نے کہا ہم تم کو کم عقلی میں دیکھتے ہیں اور ہم بیشک تم کو جھوٹے لوگوں میں سمجھتے ہیں۔‏

لیکن آپ کی قوم جس طرح جسمانی طور سے سخت اور زوردار تھی اسی طرح دلوں کے اعتبار سے بھی بہت سخت تھی جب اپنے نبی کی زبانی اللہ کی عبادت اور تقویٰ کی نصیحت سنی تو لوگوں کو بھاری اکثریت اور ان کے سردار اور بڑے بول اٹھے کہ تو تو پاگل ہو گیا ہے ہمیں اپنے بتوں کی ان خوبصورت تصویروں کی عبادت سے ہٹا کر اللہ واحد کی عبادت کی طرف بلا رہا ہے ۔

یہی تعجب قریش کو ہوا تھا ۔ انہوں نے کہا تھا کہ اس نے سارے معبودوں کو عبادت سے ہٹا کر ایک کی عبادت کی دعوت کیوں دی ؟

أَجَعَلَ الاٌّلِهَةَ إِلَـهاً وَحِداً (۳۸:۵)

کیا اس نے اتنے سارے معبودوں کا ایک ہی معبود کر دیا

قَالَ يَا قَوْمِ لَيْسَ بِي سَفَاهَةٌ وَلَكِنِّي رَسُولٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ (۶۷)

انہوں نے فرمایا کہ اے میری قوم! مجھ میں ذرا بھی کم عقلی نہیں لیکن میں پروردگار عالم کا بھیجا ہوا پیغمبر ہوں۔‏

حضرت ہودؑ نے انہیں جواب دیا کہ مجھ میں تو بیوقوفی کی بفضلہ کوئی بات نہیں ۔

أُبَلِّغُكُمْ رِسَالَاتِ رَبِّي وَأَنَا لَكُمْ نَاصِحٌ أَمِينٌ (۶۸)

تم کو اپنے پروردگار کے پیغام پہنچاتا ہوں اور میں تمہارا امانتدار خیر خواہ ہوں۔‏

میں تو تمہیں کلام اللہ پہنچا رہا ہوں تمہاری خیر خواہی کرتا ہوں اور امانت داری سے حق رسالت ادا کر رہا ہوں ۔

یہی وہ صفتیں ہیں جو تمام رسولوں میں یکساں ہوتی ہیں یعنی پیغام حق پہنچانا ، لوگوں کی بھلائی چاہنا اور امانتداری کا نمونہ بننا۔

أَوَعَجِبْتُمْ أَنْ جَاءَكُمْ ذِكْرٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَلَى رَجُلٍ مِنْكُمْ لِيُنْذِرَكُمْ ۚ

اور کیا تم اس بات سے تعجب کرتے ہو کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس ایک ایسے شخص کی معرفت جو تمہاری ہی جنس کا ہے کوئی نصیحت کی بات آ گئی تاکہ وہ شخص تم کو ڈرائے

تم میری رسالت پر تعجب نہ کرو بلکہ اللہ کا شکر بجا لاؤ کہ اس نے تم میں سے ایک فرد کو اپنا پیغمبر بنایا کہ وہ تمہیں عذاب الہٰی سے ڈرادے۔

وَاذْكُرُوا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ مِنْ بَعْدِ قَوْمِ نُوحٍ وَزَادَكُمْ فِي الْخَلْقِ بَسْطَةً ۖ

اور تم یہ حالت یاد کرو کہ اللہ نے تم کو قوم نوح کے بعد جانشین بنایا اور ڈیل ڈول میں تم کو پھیلاؤ زیادہ دیا

تمہیں رب کے اس احسان کو بھی فراموش نہ کرنا چاہئے کہ اس نے تمہیں ہلاک ہونے والوں کے بقایا میں سے بنایا ۔ تمہیں باقی رکھا اتنا ہی نہیں بلکہ تمہیں قوی ہیکل ، مضبوط اور طاقتور کر دیا ۔

الَّتِي لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُهَا فِي الْبِلَادِ (۸۹:۸)

اس جیسی قوت والی قوم پیدا نہیں کی گئی

یہی نعمت حضرت طالوتؑ پر تھی کہ انہیں جسمانی اور علمی کشادگی دی گئی تھی ۔

وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ (۲:۲۴۷)

اسے علمی اور جسمانی برتری بھی عطا فرمائی ہے

فَاذْكُرُوا آلَاءَ اللَّهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (۶۹)

سو اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو تاکہ تم کو فلاح ہو۔‏

تم اللہ کی نعمتوں کو یاد رکھو تاکہ نجات حاصل کر سکو۔

قَالُوا أَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ مَا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا ۖ

انہوں نے کہا کیا ہمارے پاس اس واسطے آئے ہیں کہ ہم صرف اللہ ہی کی عبادت کریں اور جس کو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے ان کو چھوڑ دیں

قوم عاد کی سرکشی ، تکبر ، ضد اور عناد کا بیان ہو رہا ہے انہوں نے حضرت ہود علیہ السلام سے کہا کہ کیا آپ کی تشریف آوری کا مقصد یہی ہے کہ ہم اللہ واحد کے پرستار بن جائیں اور باپ دادوں کے پرانے معبودوں سے روگردانی کر لیں ؟

فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ (۷۰)

پس ہم کو جس عذاب کی دھمکی دیتے ہو اس کو ہمارے پاس منگوا دو اگر تم سچے ہو ۔

سنو اگر یہی مقصود ہے تو اسکا پورا ہونا محال ہے ۔ ہم تیار ہیں اگر تم سچے ہو تو اپنے اللہ سے ہمارے لئے عذاب طلب کرو ۔

یہی کفار مکہ نے کہا تھا کہنے لگے:

اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ هَذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ  فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ (۸:۳۲)

اے اللہ! اگر یہ حق ہے تیری طرف سے تو ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش برسا یا کوئی اور دردناک عذاب ہم پر بھیج دے

قَالَ قَدْ وَقَعَ عَلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ رِجْسٌ وَغَضَبٌ ۖ

انہوں نے فرمایا کہ اب تم پر اللہ کی طرف سے عذاب اور غضب آیا ہی چاہتا ہے

قوم عاد کے بتوں کے نام یہ ہیں صمد ۔ صمودھبا۔

ان کی اس ڈھٹائی کے مقابلے میں اللہ کا عذاب اور اس کا غضب ثابت ہو گیا ۔

 رِجْسٌ سے مراد رجز یعنی عذاب ہے

أَتُجَادِلُونَنِي فِي أَسْمَاءٍ سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ

 کیا تم مجھ سے ایسے ناموں کے باب میں جھگڑتے ہو جن کو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے ٹھہرا لیا ہے؟

پھر فرمایا کہ تم ان بتوں کی بابت مجھ سے جھگڑ رہے ہو جن کے نام بھی تم نے خود رکھے ہیں یا تمہارے بڑوں نے ۔ اور خواہ مخواہ بےوجہ انہیں معبود سمجھ بیٹھے ہو یہ پتھر کے ٹکڑے محض بےضرر اور بےنفع ہیں ۔

مَا نَزَّلَ اللَّهُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ ۚ فَانْتَظِرُوا إِنِّي مَعَكُمْ مِنَ الْمُنْتَظِرِينَ (۷۱)

 ان کے معبود ہونے کی اللہ نے کوئی دلیل نہیں بھیجی۔ سو تم منتظر رہو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کر رہا ہوں۔‏

نہ اللہ نے ان کی عبادت کی کوئی دلیل اتاری ہے ۔

ہاں اگر تم مقابلے پر اتر ہی آئے ہو تو منتظر رہو میں بھی منتظر ہوں ابھی معلوم ہو جائے گا کہ مقبول بارگاہ رب کون ہے اور مردود بارگاہ کون ہے؟ کون مستحق عذاب ہے اور کون قابل ثواب ہے؟

فَأَنْجَيْنَاهُ وَالَّذِينَ مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مِنَّا وَقَطَعْنَا دَابِرَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا ۖ وَمَا كَانُوا مُؤْمِنِينَ (۷۲)

غرض ہم نے ان کو اور ان کے ساتھیوں کو اپنی رحمت سے بچا لیا اور ان لوگوں کی جڑ کاٹ دی جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا اور ایمان لانے والے نہ تھے ۔

آخر ہم نے اپنے نبی کو اور ان کے ایماندار ساتھیوں کو نجات دی اور کافروں کی جڑیں کاٹ دیں ۔

قرآن کریم کے کئی مقامات پر جناب باری عزوجل نے ان کی تباہی کی صورت بیان فرمائی ہے کہ ان پر خیر سے خالی ، تند اور تیز ہوائیں بھیجی گئیں جس نے انہیں اور ان کی تمام چیزوں کو غارت اور برباد کر دیا ۔

ان کی سرکشی کی سزا میں سرکش ہوا ان پر مسلط کر دی گئی جو ان میں سے ایک ایک کو اٹھا کر آسمان کی بلندی کی طرف لے جاتی اور وہاں سے گراتی جس سے سر الگ ہو جاتا دھڑ الگ گر جاتا ۔

وَأَمَّا عَادٌ فَأُهْلِكُواْ بِرِيحٍ صَرْصَرٍ عَاتِيَةٍ ۔۔۔فَهَلْ تَرَى لَهُم مِّن بَاقِيَةٍ (۶۹:۶،۸)

اور عاد بےحد تیز و تند ہوا سے غارت کر دیئے گئے جسے ان پر سات رات اور آٹھ دن تک (اللہ نے) مسلط رکھا

پس تم دیکھتے کہ یہ لوگ زمین پر اس طرح گر گئے جیسے کھجور کے کھوکھلے تنے ہوں۔ کیا ان میں سے کوئی بھی تجھے باقی نظر آرہا ہے۔‏

یہ لوگ یمن کے ملک میں ، عمان اور حضر موت میں رہتے تھے، ادھر ادھر نکلتے اور لوگوں کو مار پیٹ کی جبراً و قہراً ان کے ملک و مال پر غاصبانہ قبضہ کر لیتے ۔ سارے کے سارے بت پرست تھے ۔

 حضرت ہودؑ جو ان کے شریف خاندانی شخص تھے ان کے پاس رب کی رسالت لے کر آئے ، اللہ کی توحید کا حکم دیا، شرک سے روکا لوگوں پر ظلم کرنے کی برائی سمجھائی لیکن انہوں نے اس نصیحت کو قبول نہ کیا ۔ مقابلے پر تن گئے اور اپنی قوت سے حق کو دبانے لگے ۔ گو بعض لوگ ایمان لائے تھے لیکن وہ بھی بیچارے جان کے خوف سے پوشیدہ رکھے ہوئے تھے ۔ باقی لوگ بد ستور اپنی بے ایمانی اور نا انصافی پر جمے رہے، خواہ مخواہ فوقیت ظاہر کرنے لگے ، بیکار عمارتیں بناتے اور پھولے نہ سماتے ۔

أَتَبْنُونَ بِكُلِّ رِيعٍ ءَايَةً تَعْبَثُونَ ۔۔۔ فَاتَّقُواْ اللَّهَ وَأَطِيعُونِ (۲۶:۱۲۸،۱۳۱)

کیا تم ایک ایک ٹیلے پر بطور کھیل تماشہ یادگار (عمارت) بنا رہے ہو ۔اور بڑی صنعت والے (مضبوط محل تعمیر) کر رہے ہو،

گویا کہ تم ہمیشہ یہیں رہو گے  اور جب کسی پر ہاتھ ڈالتے ہو تو سختی اور ظلم سے پکڑتے ہو  اللہ سے ڈرو اور میری پیروی کرو  

وہ کہتے:

قَالُواْ يَهُودُ مَا جِئْتَنَا بِبَيِّنَةٍ ۔۔۔ بَعْضُ ءَالِهَتِنَا بِسُوءٍ (۱۱:۵۳)

انہوں نے کہا اے ہود! تو ہمارے پاس کوئی دلیل تو لایا نہیں اور ہم صرف تیرے کہنے سے اپنے معبودوں کو چھوڑنے والے نہیں اور نہ ہم تجھ پر ایمان لانے والے ہیں

بلکہ ہم تو یہی کہتے ہیں کہ ہمارے کسی معبود کے بڑے جھپٹے میں آگیا ہے

ان سب کاموں کو اللہ کے رسول ناپسند فرماتے ، انہیں روکتے، تقویٰ کی ، اطاعت کی ہدایت کرتے لیکن یہ کبھی تو انہیں بےدلیل بتاتے ، کبھی انہیں مجنوں کہتے ۔آپ اپنی برأت ظاہر کرتے اور ان سے صاف فرماتے  کہ مجھے تمہاری قوت و طاقت کا مطلقاً خوف نہیں‘ جاؤ تم سے جو ہو سکے کر لو‘

إِنِّى تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ رَبِّى وَرَبِّكُمْ (۱۱:۵۶)

 میرا بھروسہ صرف اللہ تعالیٰ پر ہے جو میرا اور تم سب کا پروردگار ہے

اس کے سوا نہ کوئی بھروسے کے لائق‘ نہ عبادت کے قابل‘ ساری مخلوق اس کے سامنے عاجز پست اور لاچار ہے‘ سچی راہ اللہ کی راہ ہے  

آخر جب یہ اپنی برائیوں سے باز نہ آئے تو ان پر بارش نہ برسائی گئی تین سال تک قحط سالی رہی ۔ عاجز ہوگئے تنگ آ گئے آخر یہ سوچا کہ چند آدمیوں کو بیت اللہ شریف بھیجیں وہ وہاں جا کر اللہ سے دعائیں کریں ۔ یہی ان کا دستور تھا کہ جب کسی مصیبت میں پھنس جاتے تو وہاں وفد بھیجتےاس وقت ان کا قبیلہ عمالیق حرم شریف میں بھی رہتا تھا یہ لوگ عملیق بن آدم بن سام بن نوح کی نسل میں سے تھے ان کا سردار اس زمانے میں معاویہ بن بکر تھا۔ اس کی ماں قوم عاد سے تھی جس کا نام جاہدہ بنت خبیری تھا

عادیوں نے اپنے ہاں سے ستر شخصوں کو منتخب کر کے بطور وفد مکے شریف کو روانہ کیا ۔ یہاں آ کر یہ معاویہ کے مہمان بنے ۔ پرتکلف دعوتوں کے اڑانے، شراب خوری کرنے اور معاویہ کی دو لونڈیوں کا گانا سننے میں اس بےخودی سے مشغول ہوگئے کہ کامل ایک مہینہ گزر گیا ۔ انہیں اپنے کام کی طرف مطلق توجہ نہ ہوئی ۔ معاویہ ان کی یہ روش دیکھ کر اور اپنی قوم کی بری حالت سامنے رکھ کر بہت کڑھتا تھا لیکن یہ مہمان نوازی کے خلاف تھا کہ خود ان سے کہتا کہ جاؤ۔ اس لئے اس نے کچھ اشعار لکھے اور ان ہی دونوں کنیزوں کو یاد کرائے کہ وہ یہی گا کر انہیں سنائیں ۔ ان شعروں کا مضمون یہ تھا :

 اے لوگو جو قوم کی طرف سے اللہ سے دعائیں کرنے کے لئے بھیجے گئے ہو کہ اللہ عادیوں پر بارش برسائے جو آج قحط سالی کی وجہ سے تباہ ہوگئے ہیں بھوکے پیاسے مر رہے ہیں بوڑھے بچے مرد عورتیں تباہ حال پھر رہے ہیں یہاں تک کہ بولنا چالنا ان پر دو بھر ہو گیا ہے ۔ جنگلی جانور ان کی آبادیوں میں پھر رہے ہیں کیونکہ کسی آدمی میں اتنی قوت کہاں کہ وہ تیر چلا سکے ۔ لیکن افسوس کہ تم یہاں اپنے من مانے مشغلوں میں منہمک ہوگئے اور بےفائدہ وقت ضائع کرنے لگے۔ تم سے زیادہ برا وفد دنیا میں کوئی نہ ہو گا یاد رکھو اگر اب بھی تم نے مستعدی سے قومی خدمت نہ کی تو تم برباد اور غارت ہو جاؤ گے ۔

یہ سن کر ان کے کان کھڑے ہوئے یہ حرم میں گئے اور دعائیں مانگنا شروع کیں اللہ تعالیٰ نے تین بادل ان کے سامنے پیش کئے ایک سفید ایک سیاہ ایک سرخ اور ایک آواز آئی کہ ان میں سے ایک اختیار کر لوانہوں  نے سیاہ بادل پسند کیا آواز آئی کہ تم نے سیاہ پسند کیا جو عادیوں میں سے کسی کو بھی نہ چھوڑے گا نہ باپ کو نہ بیٹے کو سب کو غارت کر دے گا سوائے بنو لویزیہ کے ۔یہ بنو لویزیہ بھی عادیوں کا ایک قبیلہ تھا جو مکہ میں مقیم تھے ان پر وہ عذاب نہیں آئے یہی باقی رہے اور انہی میں سے عاد اخریٰ ہوئے ۔

 اس وفد کے سردار نے سیاہ بادل پسند کیا تھا جو اسی وقت عادیوں کی طرف چلا ۔ اس شخص کا نام قیل بن غز تھا ۔جب یہ بادل عادیوں کے میدان میں پہنچا جس کا نام مغیث تھا تو اسے دیکھ وہ لوگ خوشیاں منانے لگے کہ اس ابر سے پانی ضرور برسے گا حالانکہ یہ وہ تھا جس کی یہ لوگ نبی کے مقابلہ میں جلدی مچا رہے تھے جس میں المناک عذاب تھا جو تمام چیزوں کو فنا کر دینے والا تھا ۔

 سب سے پہلے اس عذاب الہٰی کو ایک عورت نے دیکھا جس کا نام ممید تھا یہ چیخ مار کر بیہوش ہو گئی ۔ جب ہوش آئی تو لوگوں نے اس سے پوچھا کہ تو نے کیا دیکھا ؟ اس نے کہا آگ کا بگولہ جو بصورت ہوا تھا جسے فرشتے گھسیٹے لئے چلے آتے تھے ۔

برابر سات راتیں اور آٹھ دن تک یہ آگ والی ہوا ان پر چلتی رہی اور عذاب کا بادل ان پر برستا رہا ۔ تمام عادیوں کا ستیاناس ہو گیا ۔

حضرت ہود علیہ السلام اور آپ کے مؤمن ساتھی ایک باغیچے میں چلے گئے وہاں اللہ نے انہیں محفوظ رکھا وہی ہوا ٹھنڈی اور بھینی بھینی ہو کر ان کے جسموں کو لگتی رہی جس سے روح کو تازگی اور آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچتی رہی ۔

 ہاں عادیوں پر اس ہوا نے سنگباری شروع کر دی ، ان کے دماغ پھٹ گئے۔ آخر انہیں اٹھا اٹھا کر دے پٹخا سر الگ ہوگئے دھڑ الگ جا پڑے یہ ہوا سوار کو سواری سمیت ادھر اٹھا لیتی تھی اور بہت اونچے لے جا کر اسے اوندھا دے پٹختی تھی ۔

اس قصہ کا ذکر بہت طویل ہے اور  سیاق عبارت عجیب  ہے اور اس سے کئی نتیجے بھی نکلتے  ہیں ۔

عذاب الہٰی کے آ جانے سے حضرت ہودؑ کو اور مؤمنوں کو نجات مل گئی رحمت حق ان کے شامل حال رہی اور باقی کفار اس بدترین سزا میں گرفتار ہوئے ۔

مسند احمد میں ہے :

حضرت حارث بکری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں اپنے ہاں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں علا بن حضرمی کی شکایت لے کر چلا جب میں ربذہ میں پہنچا تو بنو تمیم کی ایک بڑھیا لا چار ہو کر بیٹھی ہوئی ملی ۔ مجھ سے کہنے لگی اے اللہ کے بندے مجھے سرکار رسالت مآب میں پہنچنا ہے ۔ کیا تو میرے ساتھ اتنا سلوک کرے گا کہ مجھے دربار رسالت میں پہنچا دے؟

 میں نے کہا آؤ چنانچہ میں نے اسے اپنے اونٹ پر بٹھا لیا اور مدینے پہنچا دیکھا کہ مسجد لوگوں سے بھری ہوئی ہے سیاہ جھنڈے لہرا رہے ہیں اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تلوار لٹکائے کھڑے ہیں میں نے پوچھا کیا بات ہے ؟

 لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی ماتحتی میں کہیں لشکر بھیجنے والے ہیں ۔

میں تھوری دیر بیٹھا رہا اتنے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی منزل میں تشریف لے گئے ۔ میں آپ کے پیچھے ہی گیا ۔ اجازت طلب کی اجازت ملی جب میں نے اندر جا کر سلام کیا تو آپ ﷺنے مجھ سے دریافت فرمایا کیا تم میں اور بنو تمیم میں کچھ چشمک ہے؟

میں نے کہا حضور اس کے ذمہ دار وہی ہیں ۔ میں اب حاضر خدمت ہو رہا تھا تو راستے میں قبیلہ تمیم کی ایک بڑھیا عورت مل گئی جس کے پاس سواری وغیرہ نہ تھی اس نے مجھ سے درخواست کی اور میں اسے اپنی سواری پر بٹھا کر یہاں لایا ہوں وہ دروازے پر بیٹھی ہوئی ہے۔آپﷺ نے اسے بھی اندر آنے کی اجازت دی ۔ میں نے کہا یا رسول اللہ ہم میں اور بنو تمیم میں کوئی روک کر دیجئے ۔

 اس پر بڑھیا تیز ہو کر بولی اگر آپﷺ نے ایسا کر دیا تو پھر آپ کے ہاں کے بےبس کہاں پناہ لیں گے؟

میں نے کہا سبحان اللہ! تیری اور میری تو وہی مثل ہوئی کہ بکری اپنی موت کو آپ اٹھا کر لے گئی ، میں نے ہی تجھے یہاں پہنچایا ، مجھے اس کے انجام کی کیا خبر تھی؟ اللہ نہ کرے کہ میں بھی عادی قبیلے کے وفد کی طرح ہو جاؤں۔

 تو حضور ﷺنے مجھ سے دریافت فرمایا کہ عادیوں کے وفد کا قصہ کیا ہے؟

 باوجود یہ کہ آپﷺ کو مجھ سے زیادہ اس کا علم تھا لیکن یہ سمجھ کر کہ اس وقت آپ باتیں کرنا چاہتے ہیں ۔ میں نے قصہ شروع کر دیا کہ حضور جس وقت عادیوں میں قحط سالی نمودار ہوئی تو انہوں نے قیل نامی ایک شخص کو بطور اپنے قاصد کے بیت اللہ شریف دعا وغیرہ کرنے کیلئے بھیجا ۔ یہ معاویہ بن بکر کے ہاں آ کر مہمان بنا ۔ یہاں شراب و کباب اور راگ رنگ میں ایسا مشغول ہوا کہ مہینے بھر تک جام لنڈھاتا رہا اور معاویہ کی دو لونڈیوں کے گانے سنتا رہا ان کا نام جرادہ تھا ۔ مہینے بھر کے بعد مہرہ کے پہاڑوں پر گیا اور اللہ سے دعا مانگنے لگا کہ باری تعالیٰ میں کسی بیمار کی دوا کے لئے یا کسی قیدی کے فدیئے کے لئے نہیں آیا یا اللہ عادیوں کو تو وہ پلا جو پلایا کرتا تھا اتنے میں وہ دیکھتا ہے کہ چند سیاہ رنگ کے بادل اس کے سر پر منڈلا رہے ہیں ان میں سے ایک غیبی صدا آئی کہ ان میں سے جو تجھے پسند ہو قبول کر لے ۔ اس نے سخت سیاہ بادل کو اختیار کیا اسی وقت دوسری آواز آئی کہ لے لے خاک راکھ جو عادیوں میں سے ایک کو بھی نہ چھوڑے۔ عادیوں پر ہوا کے خزانے میں سے صرف بقدر انگوٹھی کے حلقے کے ہوا چھوڑی گئی تھی جس نے سب کو غارت اور تہہ وبالا کر دیا ۔

 ابووائل کہتے ہیں ۔ یہ واقعہ سارے عرب میں ضرب المثل ہو گیا تھا جب لوگ کسی کو بطور وفد کے بھیجتے تھے تو کہہ دیا کرتے تھے کہ عادیوں کے وفد کی طرح نہ ہو جانا ۔

 اسی طرح مسند احمد میں بھی یہ روایت موجود ہے سنن کی اور کتابوں میں بھی یہ واقعہ موجود ہے ۔ واللہ اعلم

وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ۗ

اور ہم نے ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح ؑ  کو بھیجا

ثمودی قبیلے کی طرف ان کے بھائی حضرت صالح علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا گیا ۔

حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام سے پہلےعرب قدیم کے جو قبائل تھے انہیں میں سے ثمود بھی تھے  جو  عادیوں کے بعد ہوئے ان کے شہر حجاز اور شام کے درمیان وادی القریٰ اور اس کے اردگرد مشہور ہیں ۔۹ ہجری میں تبوک جاتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی اجاڑ بستیوں میں سے گزرے تھے ۔

مسند احمد میں ہے  کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم تبوک کے میدان میں اترے لوگوں نے ثمودیوں کے گھروں کے پاس ڈیرے ڈالے اور انہی کے کنوؤں کے پانی سے آٹے گوندھے ہانڈیاں چڑھائیں تو آپ نے حکم دیا کہ سب ہانڈیاں الٹ دی جائیں اور گندھے ہوئے آٹے اونٹوں کو کھلا دیئے جائیں ۔ پھر فرمایا یہاں سے کوچ کرو اور اس کنوئیں کے پاس ٹھہرو جس سے حضرت صالح کی اونٹنی پانی پیتی تھی

 اور فرمایا آئندہ عذاب والی بستیوں میں پڑاؤ نہ کیا کرو ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اسی عذاب کے شکار تم بھی بن جاؤ ۔

 اور روایت میں ہے کہ انکی بستیوں سے روتے اور ڈرتے ہوئے گزرو کہ مبادا وہی عذاب تم پر آ جائیں جو ان پر آئے تھے۔

اور روایت میں ہے کہ غزوہ تبوک میں لوگ بہ عجلت ہجر کے لوگوں کے گھروں کی طرف لپکے ۔ آپ نے اسی وقت یہ آواز بلند کرنے کہا الصلوۃ جامعتہ جب لوگ جمع ہوگئے تو آپ نے فرمایا کہ ان لوگوں کے گھروں میں کیوں گھسے جا رہے ہو جن پر غضب الہٰی نازل ہوا ۔

 راوی حدیث ابو کبشہ فرماتے ہیں رسول اللہ کے ہاتھ میں ایک نیزہ تھا ۔ میں نے یہ سن کر عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم تو صرف تعجب کے طور پر انہیں دیکھنے چلے گئے تھےآپ ﷺنے فرمایا

میں تمہیں اس سے بھی تعجب خیز چیز بتا رہا ہوں تم میں سے ہی ایک شخص ہے جو تمہیں وہ چیز بتا رہا ہے جو گزر چکیں اور وہ خبریں دے رہا ہے جو تمہارے سامنے ہیں اور جو تمہارے بعد ہونے والی ہیں پس تم ٹھیک ٹھاک رہو اور سیدھے چلے جاؤ تمہیں عذاب کرتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ کو کوئی پرواہ نہیں یاد رکھو ایسے لوگ آئیں گے جو اپنی جانوں سے کسی چیز کو دفع نہ کر سکیں گے ۔

حضرت ابو کبشہ کا نام عمر بن سعد ہے اور کہا گیا ہے کہ عامر بن سعد ہے ۔واللہ اعلم

 ایک روایت میں ہے :

ہجر کی بستی کے پاس آتے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا معجزے نہ طلب کرو دیکھو قوم صالح نے معجزہ طلب کیا جو ظاہر ہوا یعنی اونٹنی جو اس راستے سے آتی تھی اور اس راستے سے جاتی تھی لیکن ان لوگوں نے اپنے رب کے حکم سے سرتابی کی اور اونٹنی کی کوچیں کاٹ دیں ایک دن اونٹنی ان کا پانی پیتی تھی اور ایک دن یہ سب اس کا دودھ پیتے تھے اس اونٹنی کو مار ڈالنے پر ان پر ایک چیخ آئی اور یہ جتنے بھی تھے سب کے سب ڈھیر ہوگئے ۔ بجز اس ایک شخص کے جو حرم شریف میں تھا

 لوگوں نے پوچھا اس کا نام کیا تھا؟

 فرمایا ابو غال یہ بھی جب حد حرم سے باہر آیا تو اسے بھی وہی عذاب ہوا۔

یہ حدیث صحاح ستہ میں تو نہیں لیکن ہے مسلم شریف کی شرط پر ۔

قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ ۖ

انہوں نے فرمایا اے میری قوم! تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں۔

تمام نبیوں کی طرح حضرت صالح علیہ السلام نے بھی اپنی اُمت کو سب سے پہلے توحید الہٰی سکھائی کہ فقط اس کی عبادت کریں اس کے سوا اور کوئی لائق عبادت نہیں ۔اللہ کا فرمان ہے :

وَمَآ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلاَّ نُوحِى إِلَيْهِ أَنَّهُ لا إِلَـهَ إِلاَّ أَنَاْ فَاعْبُدُونِ (۲۱:۲۵)

جتنے بھی رسول آئے سب کی طرف یہی وحی کی جاتی رہی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، صرف میری ہی عبادت کرو

 اور ارشاد ہے :

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِى كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللَّهَ وَاجْتَنِبُواْ الْطَّـغُوتَ (۱۶:۳۶)

ہم نے ہر اُمت میں رسول بھیجے کہ اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے سوا اوروں کی عبادت سے بچو ۔

قَدْ جَاءَتْكُمْ بَيِّنَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ ۖ هَذِهِ نَاقَةُ اللَّهِ لَكُمْ آيَةً ۖ

 تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک واضح دلیل آچکی ہے یہ اونٹنی ہے اللہ کی جو تمہارے لئے دلیل ہے

حضرت صالحؑ فرماتے ہیں لوگوں تمہارے پاس دلیل الہٰی آچکی جس میں میری سچائی ظاہر ہے ۔

 ان لوگوں نے حضرت صالحؑ سے یہ معجزہ طلب کیا تھا کہ ایک سنگلاخ چٹان جو ان کی بستی کے ایک کنارے پڑی تھی جس کا نام کاتبہ تھا اس سے آپ ایک اونٹنی نکلالیں جو گابھن ہو (دودھ دینے والی اونٹنی جو دس ماہ کی حاملہ ہو)

حضرت صالحؑ نے ان سے فرمایا کہ اگر ایسا ہو جائے تو تم ایمان قبول کر لوگے؟

 انہوں نے پختہ وعدے کئے اور مضبوط عہد و پیمان کئے ۔

حضرت صالح علیہ السلام نے نماز پڑھی دعا کی ان سب کے دیکھتے ہی چٹان نے ہلنا شروع کیا اور چٹخ گئی اسکے بیچ سے ایک اونٹنی نمودار ہوئی۔ اسے دیکھتے ہی ان کے سردار جندع بن عمرو نے تو اسلام قبول کر لیا اور اس کے ساتھیوں نے بھی ۔ باقی جو اور سردار تھے وہ ایمان لانے کیلئے تیار تھے مگر ذواب بن عمرو بن لبید نے اور حباب نے جو بتوں کا مجاور تھا اور رباب بن ہمر بن جلمس وغیرہ نے انہیں روک دیا ۔

حضرت جندع کا بھتیجا شہاب نامی تھا یہ ثمودیوں کا بڑا عالم فاضل اور شریف شخص تھا اس نے بھی ایمان لانے کا ارادہ کر لیا تھا لیکن انہی بدبختوں نے اسے بھی روکا جس پر ایک مؤمن ثمودی مہوش بن غنمہ نے کہا کہ آل عمرو نے شہاب کو دین حق کی دعوت دی قریب تھا کہ وہ مشرف باسلام ہو جائے اور اگر ہو جاتا تو اس کی عزت سیوا ہو جاتی مگر بد بختوں نے اسے روک دیا اور نیکی سے ہٹا کر بدی پر لگا دیا ۔

 اس حاملہ اونٹنی کو اس وقت بچہ ہوا ایک مدت تک دونوں ان میں رہے ۔ ایک دن اونٹنی ان کا پانی پیتی ۔ اس دن اس قدر دودھ دیتی کہ یہ لوگ اپنے سب برتن بھر لیتے جیسے قرآن میں ہے:

هَـذِهِ نَاقَةٌ لَّهَا شِرْبٌ وَلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَّعْلُومٍ (۲۶:۱۵۵)

یہ ہے اونٹنی اس کے اور تمہارے پانی پینے کے دن تقسیم شدہ اور مقررہ ہیں ۔

فَذَرُوهَا تَأْكُلْ فِي أَرْضِ اللَّهِ ۖ وَلَا تَمَسُّوهَا بِسُوءٍ فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (۷۳)

 سو اس کو چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں کھاتی پھرے اور اسکو برائی کے ساتھ ہاتھ بھی مت لگانا کہ کہیں تم کو دردناک عذاب آ پکڑے۔‏

یہ اونٹنی ثمودیوں کی بستی حجر کے اردگرد چرتی چگتی تھی ایک راہ جاتی دوسری راہ آتی یہ بہت ہی موٹی تازی اور ہیبت والی اونٹنی تھی جس راہ سے گزرتی سب جانور ادھر ادھر ہو جاتے ۔

وَاذْكُرُوا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ مِنْ بَعْدِ عَادٍ وَبَوَّأَكُمْ فِي الْأَرْضِ تَتَّخِذُونَ مِنْ سُهُولِهَا قُصُورًا وَتَنْحِتُونَ الْجِبَالَ بُيُوتًا ۖ

تم یہ حالت یاد کرو کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو عاد کے بعد جانشین بنایا اور تم کو زمین پر رہنے کا ٹھکانا دیا کہ نرم زمین پر محل بناتے ہو اور پہاڑوں کو تراش تراش کر ان میں گھر بناتے ہو

فَاذْكُرُوا آلَاءَ اللَّهِ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ (۷۴)

سو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرو اور زمین میں فساد مت پھیلاؤ ۔

قَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا مِنْ قَوْمِهِ لِلَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِمَنْ آمَنَ مِنْهُمْ أَتَعْلَمُونَ أَنَّ صَالِحًا مُرْسَلٌ مِنْ رَبِّهِ ۚ

ان کی قوم میں جو متکبر سردار تھے انہوں نے غریب لوگوں سے جو کہ ان میں سے ایمان لے آئے تھے پوچھا کیا تم کو اس بات کا یقین ہے کہ صالح ؑاپنے رب کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں؟

قَالُوا إِنَّا بِمَا أُرْسِلَ بِهِ مُؤْمِنُونَ (۷۵)

انہوں نے کہا کہ بیشک ہم تو اس پر پورا یقین رکھتے ہیں جو ان کو دے کر بھیجا ہے ۔

قَالَ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا إِنَّا بِالَّذِي آمَنْتُمْ بِهِ كَافِرُونَ (۷۶)

وہ متکبر لوگ کہنے لگے کہ تم جس بات پر یقین لائے ہوئے ہو ہم تو اس کے منکرین ہیں ۔

فَعَقَرُوا النَّاقَةَ وَعَتَوْا عَنْ أَمْرِ رَبِّهِمْ

پس انہوں نے اس اونٹنی کو مار ڈالا اور اپنے پروردگار کے حکم سے سرکشی کی

کچھ زمانہ گزرنے کے بعد ان اوباشوں نے ارادہ کیا کہ اس کو مار ڈالیں تاکہ ہر دن ان کے جانور برابر پانی پی سکیں ان اوباشوں کے ارادوں پر سب نے اتفاق کیا یہاں تک کہ عورتوں اور بچوں نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملائی اور انہیں شہہ دی کہ ہاں اس پاپ کو کاٹ دو ۔ اس اونٹنی کو مار ڈالو ۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہے:

فَكَذَّبُوهُ فَعَقَرُوهَا فَدَمْدمَ عَلَيْهِمْ رَبُّهُمْ بِذَنبِهِمْ فَسَوَّاهَا (۹۱:۱۴)

انہوں  نے نبی کو جھٹلایا اور اونٹنی کی کوچیں کاٹ کر اسے مار ڈالا تو انکے پروردگار نے انکے گناہوں کے بدلے ان پر ہلاکت نازل فرمائی اور ان سب کو یکساں کر دیا

 ایک اور آیت میں ہے:

وَءَاتَيْنَا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُواْ بِهَا (۱۷:۵۹)

ہم نے ثمودیوں کو اونٹنی دی جو ان کے لئے پوری سمجھ بوجھ کی چیز تھی لیکن انہوں نے اس پر ظلم کیا

یہاں بھی فرمایا کہ انہوں نے اس اونٹنی کو مار ڈالا ۔ پس اس فعل کی اسناد سارے ہی قبیلے کی طرف ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ چھوٹے بڑے سب اس امر پر متفق تھے۔

وَقَالُوا يَا صَالِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِنْ كُنْتَ مِنَ الْمُرْسَلِينَ (۷۷)

اور کہنے لگے کہ اے صالح! جس کی آپ ہم کو دھمکی دیتے تھے اس کو منگوائیے اگر آپ پیغمبر ہیں۔‏

فَأَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَأَصْبَحُوا فِي دَارِهِمْ جَاثِمِينَ (۷۸)

پس ان کو زلزلہ نے آپکڑا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے اوندھے پڑے رہ گئے۔‏

امام ابن جریرؒ کا بیان کرتے ہیں:

 اس کے قتل کی وجہ یہ ہوئی کہ عنیزہ بنت عنم بن مجلز جو ایک بڑھیا کافرہ تھی اور حضرت صالحؒ سے بڑی دشمنی رکھتی تھی اس کی لڑکیاں بہت خوبصورت تھیں اور تھی بھی یہ عورت مالدار ۔ اس کے خاوند کا نام ذواب بن عمرو تھا جو ثمودیوں کا ایک سردار تھا یہ بھی کافر تھا ۔ اسی طرح ایک اور عورت تھی جس کا نام صدقہ بنت محیا بن زہیر بن مختار تھا ۔ یہ بھی حسن کے علاوہ مال اور حسب نسب میں بڑھی ہوئی تھی اس کے خاوند مسلمان ہوگئے تھے ۔ اس سرکش عورت نے ان کو چھوڑ دیا ۔ اب یہ دونوں عورتیں لوگوں کو اکساتی تھیں کہ کوئی آمادہ ہو جائے اور حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کو قتل کر دے،صدقہ نامی عورت نے ایک شخص حباب کو بلایا اور اس سے کہا کہ میں تیرے گھر آ جاؤں گی اگر تو اس اونٹنی کو قتل کر دے لیکن اس نے انکار کر دیا ، اس پر اس نے مصدع بن مہرج کو بلایا جو اس کے چچا کا لڑکا تھا اور اسے بھی اسی بات پر آمادہ کیا ۔ یہ خبیث اس کے حسن و جمال کا مفتوں تھا اس برائی پر آمادہ ہو گیا ۔

ادھر عنیزہ نے قدار بن سالف بن جذع کو بلا کر اس سے کہا کہ میری ان خوبصورت نوجوان لڑکیوں میں سے جسے تو پسند کرے اسے میں تجھے دے دو گی اسی شرط پر کہ تو اس اونٹنی کی کوچیں کاٹ ڈال ۔ یہ خبیث بھی آمادہ ہو گیا یہ تھا بھی زنا کاری کا بچہ ، سالف کی اولاد میں نہ تھا، جیسان نامی ایک شخص سے اس کی بدکار ماں نے زنا کاری کی تھی اسی سے یہ پیدا ہوا تھااب دونوں چلے اور اہل ثمود اور دوسرے شریروں کو بھی اس پر آمادہ کیا  چنانچہ سات شخص اور بھی اس پر آمادہ ہوگئے اور یہ نو فسادی شخص اس بد ارادے پر تل گئے

جیسے قران کریم میں ہے:

وَكَانَ فِى الْمَدِينَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ يُفْسِدُونَ فِى الاٌّرْضِ وَلاَ يُصْلِحُونَ (۲۷:۴۸)

اس شہر میں نو شخص تھے جن میں اصلاح کا مادہ ہی نہ تھا سراسر فسادی ہی تھے ۔

چونکہ یہ لوگ قوم کے سردار تھے ان کے کہنے سننے سے تمام کفار بھی اس پر راضی ہوگئے اور اونٹنی کے واپس آنے کا راستے میں یہ دونوں شریر اپنی اپنی کمین گاہوں میں بیٹھ گئے جب اونٹنی نکلی تو پہلے مصدع نے اسے تیر مارا جو اس کی ران کی ہڈی میں پیوست ہو گیا اسی وقت عنیزہ نے اپنی خوبصورت لڑکی کو کھلے منہ قدار کے پاس بھیجا اس نے کہا قدار کیا دیکھتے ہو اٹھو اور اس کا کام تمام کر دو ۔ یہ اس کا منہ دیکھتے ہی دوڑا اور اس کے دونوں پچھلے پاؤں کاٹ دیئے اونٹنی چکرا کر گری اور ایک آواز نکلالی جس سے اس کا بچہ ہوشیار ہو گیا اور اس راستے کو چھوڑ کر پہاڑی پر چلا گیا یہاں قدار نے اونٹنی کا گلا کاٹ دیا اور وہ مر گئی اس کا بچہ پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گیا اور تین مربتہ بلبلایا ۔

حسن بصریؒ فرماتے ہیں اس نے اللہ کے سامنے اپنی ماں کے قتل کی فریاد کی پھر جس چٹان سے نکلا تھا اسی میں سما گیا ۔

یہ روایت بھی ہے کہ اسے بھی اس کی ماں کے ساتھ ہی ذبح کر دیا گیا تھا ۔ واللہ اعلم۔

حضرت صالح علیہ السلام کو جب یہ خبر پہنچی تو آپ گھبرائے ہوئے موقعہ پر پہنچے دیکھا کہ اونٹنی بےجان پڑی ہے آپ کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور فرمایا بس اب تین دن میں تم ہلاک کر دیئے جاؤ گے، ہوا بھی یہی ۔

 بدھ کے دن ان لوگوں نے اونٹنی کو قتل کیا تھا اور چونکہ کوئی عذاب نہ آیا اس لئے اترا گئے اور ان مفسدوں نے ارادہ کر لیا کہ آج شام کو صالحؑ کو بھی مار ڈالو اگر واقعی ہم ہلاک ہونے والے ہی ہیں تو پھر یہ کیوں بچا رہے؟ اور اگر ہم پر عذاب نہیں آتا تو بھی آئے  روز روز کے اس جھنجھٹ سے پاک ہو جائیں ۔چنانچہ قرآن کریم کا بیان ہے:

قَالُواْ تَقَاسَمُواْ بِاللَّهِ لَنُبَيِّتَنَّهُ وَأَهْلَهُ ۔۔۔ وَمَكَرْنَا مَكْراً وَهُمْ لاَ يَشْعُرُونَ(۲۷:۴۹،۵۰)

ان لوگوں نے مل کر مشورہ کیا اور پھر قسمیں کھا کر اقرار کیا کہ رات کو صالح کے گھر پر چھاپہ مارو اور اسے اور اس کے گھرانے کو تہ تیغ کرو اور صاف انکار کر دو کہ ہمیں کیا خبر کہ کس نے مارا ؟

 اللہ تعالیٰ فرماتے ہے ان کے اس مکر کے مقابل ہم نے بھی مکر کیا اور یہ ہمارے مکر سے بالکل بےخبر رہے اب انجام دیکھ لو کہ کیا ہوا؟

 رات کو یہ اپنی بد نیتی سے حضرت صالحؑ کے گھر کی طرف چلے آپ کا گھر پہاڑی کی بلندی پر تھا ابھی یہ اوپر چڑھ ہی رہے تھے جو اوپر سے ایک چٹان پتھر کی لڑھکتی ہوئی آئی اور سب کو ہی پیس ڈالا ۔

 ان کا تو یہ حشر ہوا ادھر جمعرات کے دن تمام ثمودیوں کے چہرے زرد پڑ گئے جمعہ کے دن ان کے چہرے آگ جیسے سرخ ہوگئے اور ہفتے کے دن جو مہلت کا آخری دن تھا ان کے منہ سیاہ ہوگئے تین دن جب گزر گئے تو چوتھا دن اتوار صبح ہی صبح سورج کے روشن ہوتے ہی اوپر آسمان سے سخت کڑاکا ہوا جس کی ہولناک دہشت انگیز چنگھاڑنے ان کے کلیجے پھاڑ دیئے ساتھ ہی نیچے سے زبردست زلزلہ آیا ایک ہی ساعت میں ایک ساتھ ہی ان سب کا ڈھیر ہو گیا ، مردوں سے مکانات ، بازار، گلی ، کوچے بھر گئے۔ مرد، عورت ، بچے ، بوڑھے اول سے آخر تک سارے کے سارے تباہ ہوگئے

شان رب دیکھئے کہ اس واقعہ کی خبر دنیا کو پہنچانے کے لئے ایک کافرہ عورت بچا دی گئی ، یہ بھی بڑی خبیثہ تھی حضرت صالح علیہ السلام کی عداوت کی آگ سے بھری ہوئی تھی اسکی دونوں ٹانگیں نہیں تھیں لیکن ادھر عذاب آیا ادھر اس کے پاؤں کھل گئے اپنی بستی سے سرپٹ بھاگی اور تیز دوڑتی ہوئی دوسرے شہر میں پہنچی اور وہاں جا کر ان سب کے سامنے سارا واقعہ بیان کر ہی چکنے کے بعد ان سے پانی مانگا ۔ ابھی پوری پیاس بھی نہ بجھی تھی کہ عذاب الہٰی آ پڑا اور وہیں ڈھیر ہو کر رہ گئی ۔

 ہاں ابو دغال نامی ایک شخص اور بچ گیا تھا یہ یہاں نہ تھا حرم کی پاک زمین میں تھا لیکن کچھ دنوں کے بعد جب یہ اپنے کسی کام کی غرض سے حد حرم سے باہر آیا اسی وقت آسمان سے پتھر آیا اور اسے بھی جہنم واصل کیا

 ثمودیوں میں سے سوائے حضرت صالحؑ اور انکے مؤمن صحابہ کے اور کوئی بھی نہ بچا ،

ابو رغال کا واقعہ اس سے پہلے حدیث سے بیان ہو چکا ہے قبیلہ ثقیف جو طائف میں ہے مذکور ہے کہ یہ اسی کی نسل سے ہیں ۔

عبدالرزاق میں ہے کہ اس کی قبر کے پاس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب گزرے تو فرمایا جانتے ہو یہ کس کی قبر ہے؟

لوگوں نے جواب دیا کہ اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے ۔

 آپﷺ نے فرمایا یہ ابو دغال کی قبر ہے ۔ یہ ایک ثمودی شخص تھا اپنی قوم کے عذاب کے وقت یہ حرم میں تھا اس وجہ سے عذاب الہٰی سے بچ رہا لیکن حرم شریف سے نکلا تو اسی وقت اپنی قوم کے عذاب سے یہ بھی ہلاک ہوا اور یہیں دفن کیا گیا اور اس کے ساتھ اس کی سونے کی لکڑی بھی دفنا دی گئی ۔ چنانچہ لوگوں نے اس گڑھے کو کھود کر اس میں سے وہ لکڑی نکال لی

 اور حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا تھا ثقیف قبیلہ اسی کی اولاد ہے ۔

 ایک مرسل حدیث میں بھی یہ ذکر موجود ہے ، یہ بھی ہے  کہ آپﷺ نے فرمایا تھا اس کے ساتھ سونے کی شاخ دفن کر دی گئی تھی یہی نشان اس کی قبر کا ہے اگر تم اسے کھودو تو وہ شاخ ضرور نکل آئے گی چنانچہ بعض لوگوں نے اسے کھودا اور وہ شاخ نکال لی ۔

 ابو داؤد میں بھی یہ روایت ہے اور حسن عزیز ہے

 لیکن میں کہتا ہوں اس حدیث کے وصل کا صرف ایک طریقہ بحیر بن ابی بحیر کا ہے اور یہ صرف اسی حدیث کے ساتھ معروف ہے اور بقول حضرت امام یحییٰ بن معین سوائے اسماعیل بن ابی امیہ کے اسے اس سے اور کسی نے روایت نہیں کیا احتمال ہے کہ کہیں اس حدیث کے مرفوع کرنے میں خطاء نہ ہو یہ عبداللہ بن عمرو ہی کا قول ہو اور پھر اس صورت میں یہ بھی ممکنات سے ہے کہ انہوں نے اسے ان دو دفتروں سے لے لیا ہو جو انہیں جنگ یرموک میں ملے تھے ۔ میرے استاد شیخ ابو الحجاج اس روایت کو پہلے تو حسن عزیز کہتے تھے لیکن جب میں نے انکے سامنے یہ حجت پیش کی تو آپ نے فرمایا بیشک ان امور کا اس میں احتمال ہے ۔ واللہ اعلم

فَتَوَلَّى عَنْهُمْ وَقَالَ يَا قَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلَكِنْ لَا تُحِبُّونَ النَّاصِحِينَ (۷۹)

اس وقت (صالح ؑ ) ان سے منہ موڑ کر چلے گئے اور فرمانے لگے کہ اے میری قوم میں نے تو تم کو اپنے پروردگار کا حکم پہنچا دیا تھا اور میں نے تمہاری خیر خواہی کی لیکن تم لوگ خیر خواہوں کو پسند نہیں کرتے۔‏

قوم کی ہلاکت دیکھ کر افسوس حسرت اور آخری ڈانٹ ڈپٹ کے طور پر پیغمبر حق حضرت صالح علیہ السلام فرماتے ہیں کہ نہ تمہیں رب کی رسالت نے فائدہ پہنچایا نہ میری خیر خواہی ٹھکانے لگی تم اپنی بےسمجھی سے دوست کو دشمن سمجھ بیٹھے اور آخر اس روز بد کو دعوت دے لی

چنانچہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی جب بدری کفار پر غالب آئے وہیں تین دن تک ٹھہرے رہے پھر رات کے آخری وقت اونٹنی پر زین کس کر آپ تشریف لے چلے اور جب اس گھاٹی کے پاس پہنچے جہاں ان کافروں کی لاشیں ڈالی گئی تھیں تو آپ ٹھہر گئے اور فرمانے لگے اے ابوجہل ، اے عتبہ ، اے شیبہ ، اے فلاں، اے فلاں، بتاؤ رب کے وعدے تم نے درست پائے؟ میں نے تو اپنے رب کے فرمان کی صداقت اپنی آنکھوں دیکھ لی ۔ حضرت عمر ؓنے کہا یا رسول اللہ آپ ان جسموں سے باتیں کر رہے ہیں جو مردار ہوگئے؟

 آپﷺ نے فرمایا اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں جو کچھ ان سے کہہ رہا ہوں اسے یہ تم سے زیادہ سن رہے ہیں لیکن جواب کی طاقت نہیں ۔

 سیرت کی کتابوں میں ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا :

تم نے میرا خاندان ہونے کے باوجود میرے ساتھ وہ برائی کی کہ کسی خاندان نے اپنے پیغمبر کے ساتھ نہ کی ۔ تم نے میرے ہم قبیلہ ہونے کے باوجود مجھے جھٹلایا اور دوسرے لوگوں نے مجھے سچا سمجھا ۔ تم نے رشتہ داری کے باوجود مجھے دیس نکالا دیا اور دوسرں نے مجھے اپنے ہاں جگہ دی۔ افسوس تم اپنے ہو کر مجھ سے برسر جنگ رہے اور دوسروں نے میری امداد کی ۔ پس تم اپنے نبی کے بدترین قبیلے ہو ۔

یہی حضرت صالح علیہ السلام اپنی قوم سے فرما رہے ہیں کہ میں نے تو ہمدردی کی انتہا کر دی اللہ کے پیغام کی تبلیغ میں تمہاری خیر خواہی میں کوئی کوتاہی نہیں کی لیکن آہ نہ تم نے اس سے کوئی فائدہ اٹھایا نہ حق کی پیروی کی نہ اپنے خیر خواہ کی مانی ۔ بلکہ اسے اپنا دشمن سمجھا

بعض مفسرین کا قول ہے کہ ہر نبی جب دیکھتا کہ اب میری اُمت پر عام عذاب آنے والا ہے انہیں چھوڑ کر نکل کھڑا ہوتا ہے اور حرم مکہ میں پناہ لیتا ۔ واللہ اعلم

مسند احمد میں ہے کہ حج کے موقعہ پر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وادی عسفان پہنچے تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے دریافت فرمایا کہ یہ کونسی وادی ہے؟آپ نے جواب دیا وادی عسفان

 فرمایا میرے سامنے سے حضرت ہود اور حضرت صالح علیہما السلام ابھی ابھی گزرے اونٹنیوں پر سوار تھے جن کی نکیلیں کھجور کے پتوں کی تھیں کمبلوں کے تہہ بند بندھے ہوئے اور موٹی چادریں اوڑھے ہوئے تھے ۔ لبیک پکارتے ہوئے بیت اللہ شریف کی طرف تشریف لے جا رہے تھے ۔

 یہ حدیث غریب ہے ۔ صحاح ستہ میں نہیں ۔

وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ أَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِنَ الْعَالَمِينَ (۸۰)

اور ہم نے لوط ؑ  کو بھیجا جبکہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم ایسا فحش کام کرتے ہو جوتم سے پہلے کسی نے دنیا جہان والوں میں سے نہیں کیا

فرمان ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام کو بھی ہم نے ان کی قوم کی طرف اپنا رسول بنا کر بھیجا تو ان کے واقعہ کو بھی یاد کر ،

حضرت لوط علیہ السلام ہاران بن آزر کے بیٹے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے آپ ہی کے ہاتھ پر ایمان قبول کیا تھا اور آپ ہی کے ساتھ شام کی طرف ہجرت کی تھی ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنا نبی بنا کر سدوم نامی بستی کی طرف بھیجا

 آپ نے انہیں اور آس پاس کے لوگوں کو اللہ کی توحید اور اپنی اطاعت کی طرف بلایا نیکیوں کے کرنے برائیوں کو چھوڑنے کا حکم دیا ۔ جن میں ایک برائی اغلام بازی تھی جو ان سے پہلے دنیا سے مفقود تھی ۔ اس بدکاری کے موجد یہی ملعون لوگ تھے ۔

عمرو بن دینار یہی فرماتے ہیں ۔

جامع دمشق کے بانی خلیفہ ولید بن عبدالملک کہتے ہیں اگر یہ خبر قرآن میں نہ ہوتی تو میں تو اس بات کو کبھی نہ مانتا کہ مرد مرد سے حاجت روائی کرلے

 اسی لئے حضرت لوط علیہ السلام نے ان حرام کاروں سے فرمایا کہ تم سے پہلے تو یہ ناپاک اور خبیث فعل کسی نے نہیں کیا ۔

إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِنْ دُونِ النِّسَاءِ ۚ بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ مُسْرِفُونَ (۸۱)

تم مردوں کے ساتھ شہوت رانی کرتے ہو عورتوں کو چھوڑ کر بلکہ تم تو حد ہی سے گزر گئے ہو

عورتوں کو جو اس کام کیلئے تھیں چھوڑ کر تم مردوں پر ریجھ رہے ہو؟ اس سے بڑھ کر اسراف اور جہالت اور کیا ہو گی ؟

چنانچہ اور آیت میں ہے:

قَالُواْ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا لَنَا فِى بَنَاتِكَ مِنْ حَقٍّ وَإِنَّكَ لَتَعْلَمُ مَا نُرِيدُ (۱۱:۷۹)

انہوں نے جواب دیا کہ تو بخوبی جانتا ہے کہ ہمیں تو تیری بیٹیوں پر کوئی حق نہیں ہے اور تو اصلی چاہت سے بخوبی واقف ہے  

 آپ نے فرمایا یہ ہیں میری بچیاں یعنی تمہاری قوم کی عورتیں ۔ لیکن انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں ان کی چاہت نہیں ۔ ہم تو تمہارے ان مہمان لڑکوں کے خواہاں ہیں

مفسرین فرماتے ہیں جس طرح مرد مردوں میں مشغول تھے عورتیں عورتوں میں پھنسی ہوئی تھیں ۔

وَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَنْ قَالُوا أَخْرِجُوهُمْ مِنْ قَرْيَتِكُمْ ۖ

اور ان کی قوم سے کوئی جواب نہ بن پڑا بجز اسکے آپس میں کہنے لگے کہ ان لوگوں کو اپنی بستی سے نکال دو۔

قوم لوط پر بھی نبیؑ کی نصیحت کار گر نہ ہوئی بلکہ الٹا دشمنی کرنے لگے اور دیس نکال دینے پر تل گئے ،

 اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو مع ایمانداروں کے وہاں سے صحیح سالم بچا لیا اور تمام بستی والوں کو ذلت و پستی کے ساتھ تباہ و غارت کر دیا ،

إِنَّهُمْ أُنَاسٌ يَتَطَهَّرُونَ (۸۲)

یہ لوگ بڑے پاک صاف بنتے ہیں

ان کا یہ کہنا کہ یہ بڑے پاکباز لوگ ہیں بطور طعنے کے تھا

 اور یہ بھی مطلب تھا کہ یہ اس کام سے جو ہم کرتے ہیں دور ر ہیں پھر ان کا ہم میں کیا کام ؟

 مجاہد ؒاور ابن عباسؓ کا یہی قول ہے ۔

فَأَنْجَيْنَاهُ وَأَهْلَهُ إِلَّا امْرَأَتَهُ كَانَتْ مِنَ الْغَابِرِينَ (۸۳)

سو ہم نے لوطؑ کو اور ان کے گھر والوں کو بچا لیا بجز ان کی بیوی کے کہ وہ ان ہی لوگوں میں رہی جو عذاب میں رہ گئے تھے

حضرت لوط ؑاور ان کا گھرانا اللہ کے ان عذابوں سے بچ گیا جو لوطیوں پر نازل ہوئے بجز آپ کے گھرانے کے اور کوئی آپ پر ایمان نہ لایا  جیسے فرمان رب ہے:

فَأَخْرَجْنَا مَن كَانَ فِيهَا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ـ فَمَا وَجَدْنَا فِيهَا غَيْرَ بَيْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِينَ  (۵۱:۳۵،۳۶)

وہاں جتنے مؤمن تھے ہم نے سب کو نکال دیا ۔ لیکن بجز ایک گھر والوں کے وہاں ہم نے کسی مسلمان کو پایا ہی نہیں ۔

بلکہ خاندان لوط میں سے بھی خود حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی ہلاک ہوئی کیونکہ یہ بد نصیب کافرہ ہی تھی بلکہ قوم کے کافروں کی طرف دار تھی اگر کوئی مہمان آتا تو اشاروں سے قوم کو خبر پہنچا دیتی اسی لئے حضرت لوط ؑسے کہہ دیا گیا تھا کہ اسے اپنے ساتھ نہ لے جانا بلکہ اسے خبر بھی نہ کرنا ۔

 ایک قول یہ بھی ہے کہ ساتھ تو چلی تھی لیکن جب قوم پر عذاب آیا تو اس کے دل میں ان کی محبت آ گئی اور رحم کی نگاہ سے انہیں دیکھنے لگی وہیں اسی وقت وہی عذاب اس بد نصیب پر بھی آ گیا

 لیکن زیادہ ظاہر قول پہلا ہی ہے یعنی نہ اسے حضرت لوطؑ نے عذاب کی خبر کی نہ اسے اپنے ساتھ لے گئے یہ یہیں باقی رہ گئی اور پھر ہلاک ہو گئی۔

غَابِرِينَ کے معنی بھی باقی رہ جانے والے ہیں ۔ جن بزرگوں نے اس کے معنی ہلاک ہونے والے کئے ہیں وہ بطور لزوم کے ہیں ۔ کیونکہ جو باقی تھے وہ ہلاک ہونے والے ہی تھے ۔

وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ مَطَرًا ۖ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِينَ (۸۴)

اور ہم نے ان پر خاص طرح کا مینہ برسایا پس دیکھو تو سہی ان مجرموں کا انجام کیسا ہوا۔

حضرت لوط علیہ السلام اور ان کے مسلمان صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے شہر سے نکلتے ہی عذاب الہٰی ان پر بارش کی طرح برس پڑا وہ بارش پتھروں اور ڈھیلوں کی تھی جو ہر ایک پر بالخصوص نشان زدہ اسی کیلئے آسمان سے گر رہے تھے ۔

وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهَا حِجَارَةً مِّن سِجِّيلٍ مَّنْضُودٍ ـ مُّسَوَّمَةً عِندَ رَبّكَ وَمَا هِى مِنَ الظَّـلِمِينَ بِبَعِيدٍ (۱۱:۸۲،۸۳)

اور ان پر کنکریلے پتھر برسائے جو تہہ بہ تہہ تھے۔‏ تیرے رب کی طرف سے نشان دار تھے اور وہ ان ظالموں سے کچھ بھی دور نہ تھے

گو اللہ کے عذاب کو بے انصاف لوگ دور سمجھ رہے ہوں لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ۔ اے پیغمبر آپ خود دیکھ لیجئے کہ اللہ کی نافرمایوں اور رسول اللہ کی تکذیب کرنے والوں کا کیا انجام ہوتا ہے؟

 امام ابوحنفیہؒ فرماتے ہیں کہ لوطی فعل کرنے والے کو اونچی دیوار سے گرا دیا جائے پھر اوپر سے پتھراؤ کر کے اسے مار ڈالنا چاہیے کیونکہ لوطیوں کو اللہ کی طرف سے یہی سزا دی گئی

 اور علماء کرام کا فرمان ہے کہ اسے رجم کر دیا جائے خواہ وہ شادی شدہ ہو یا بےشادی ہو ۔

 امام شافعیؒ کے دو قول میں سے ایک یہی ہے ۔

 اس کی دلیل مسند احمد، ابوداؤد و ترمذی اور ابن ماجہ کی یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جب تم لوطی فعل کرتے پاؤ اسے اور اس کے نیچے والے دونوں کو قتل کر دو ۔

علماء کی ایک جماعت کا قول ہے کہ یہ بھی مثل زنا کاری کے ہے شادی شدہ ہوں تو رجم ورنہ سو کوڑے ۔ امام شافعیؒ کا دوسرا قول بھی یہی ہے ۔

عورتوں سے اس قسم کی حرکت کرنا بھی چھوٹی لواطت ہے اور بہ اجماع اُمت حرام ہے ۔ بجز ایک شاذ قول کے اور بہت سی احادیث میں اس کی حرمت موجود ہے

 اسکا پورا بیان سورۃ بقرہ کی تفسیر میں گزر چکا ہے ۔

وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا ۗ

اور ہم نے مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب ؑ  کو بھیجا

مشہور مؤرخ حضرت امام محمد بن اسحاق رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں  کہ یہ لوگ مدین بن ابراہیم کی نسل سے ہیں ۔ حضرت شعیب میکیل بن نیشجر کے لڑکے تھے ان کا نام سریانی زبان میں یژون تھا ۔

یہ یاد رہے کہ قبیلے کا نام بھی مدین تھا اور اس بستی کا نام بھی یہی تھا یہ شہر معان سے ہوتے ہوئے حجاز جانے والے کے راستے میں آتا ہے۔ قرآن کی اس آیت میں شہر مدین کے کنویں کا ذکر موجود ہے:

وَلَمَّا وَرَدَ مَآءَ مَدْيَنَ وَجَدَ عَلَيْهِ أُمَّةً مِّنَ النَّاسِ يَسْقُونَ (۲۸:۲۳)

مدین کے پانی پر جب آپ پہنچے تو دیکھا کہ لوگوں کی ایک جماعت وہاں پانی پلا رہی ہے

 اس سے مراد ایکہ والے ہیں جیسا کہ انشاء اللہ بیان کریں گے ۔

قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ ۖ قَدْ جَاءَتْكُمْ بَيِّنَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ ۖ

انہوں نے فرمایا اے میری قوم! تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے واضح دلیل آچکی ہے

آپ نے بھی تمام رسولوں کی طرح انہیں توحید کی اور شرک سے بچنے کی دعوت دی اور فرمایا کہ اللہ کی طرف سے میری نبوت کی دلیلیں تمہارے سامنے آ چکی ہیں ۔

فَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا ۚ

پس تم ناپ اور تول پورا پورا کیا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے مت دو اور روئے زمین میں اس کے بعد اس کی درستی کر دی گئی فساد مت پھیلاؤ

آپ نے خالق کا حق بتا کر پھر مخلوق کے حق کی ادائیگی کی طرف رہبری کی اور فرمایا کہ ناپ تول میں کمی کی عادت چھوڑو لوگوں کے حقوق نہ مارو ۔ کہو کچھ اور کرو کچھ یہ خیانت ہے۔ فرمان ہے:

وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ ـ الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُوا عَلَى النَّاسِ ۔۔۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ (۸۳:۱،۶)

بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی۔‏ کہ جب لوگوں سے ناپ کر لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں۔‏ جب انہیں ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں

 کیا انہیں مرنے کے بعد اٹھنے کا خیال نہیں۔‏ اس عظیم دن کے لئے۔‏ جس دن سب لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے۔‏

ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (۸۵)

یہ تمہارے لئے نافع ہے اگر تم تصدیق کرو۔‏

اللہ اس بدخصلت سے ہر ایک کو بچائے ۔

 پھر حضرت شعیبؑ کا اور وعظ بیان ہوتا ہے ۔ آپ کو بہ سبب فضاحت عبارت اور عمدگی وعظ کے خطیب الانبیاء کہا جاتا تھا

وَلَا تَقْعُدُوا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوعِدُونَ وَتَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِهِ وَتَبْغُونَهَا عِوَجًا ۚ

اور تم سڑکوں پر اس غرض سے مت بیٹھا کرو کہ اللہ پر ایمان لانے والوں کو دھمکیاں دو اور اللہ کی راہ سے روکو اور اس میں کجی کی تلاش میں لگے رہو

فرماتے ہیں کہ مسافروں کے راستے میں دہشت گردی نہ پھیلاؤ ۔ ڈاکہ نہ ڈالو اور انہیں ڈرا دھمکا کر ان کا مال زبردستی نہ چھینو ۔ میرے پاس ہدایت حاصل کرنے کیلئے جو آنا چاہتا ہے اسے خوفزدہ کر کے روک دیتے ہو ۔ ایمانداروں کو اللہ کی راہ پر چلنے میں روڑے اٹکاتے ہو ۔ راہ حق کو ٹیڑھا کر دینا چاہتے ہو ان تمام برائیوں سے بچو ۔

یہ بھی ہو سکتا ہے بلکہ زیادہ ظاہر ہے کہ ہر راستے پر نہ بیٹھنے کی ہدایت سے تو قتل و غارت سے روک کے لئے ہو جو ان کی عادت تھی اور پھر راہ حق سے مؤمنوں کو نہ روکنے کی ہدایت پھر کی ہو ۔

وَاذْكُرُوا إِذْ كُنْتُمْ قَلِيلًا فَكَثَّرَكُمْ ۖ وَانْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ (۸۶)

اور اس حالت کو یاد کرو جب تم کم تھے پھر اللہ نے تم کو زیادہ کر دیا اور دیکھو کہ کیسا انجام ہوا فساد کرنے والوں کا۔‏

تم اللہ کے اس احسان کو یاد کرو کہ گنتی میں قوت میں تم کچھ نہ تھے بہت ہی کم تھے اس نے اپنی مہربانی سے تمہاری تعداد بڑھا دی اور تمہیں زور آور کر دیا رب کی اس نعمت کا شکریہ ادا کرو۔

 عبرت کی آنکھوں سے ان کا انجام دیکھ لو جو تم سے پہلے ابھی ابھی گزرے ہیں جن کے ظلم و جبر کی وجہ سے جن کی بد امنی اور فساد کی وجہ سے رب کے عذاب ان پر ٹوٹ پڑے ۔ وہ اللہ کی نافرمانیوں میں رسولوں کے جھٹلانے میں مشغول رہے دلیر بن گئے جس کے بدلے اللہ کی پکڑ ان پر نازل ہوئی ۔ آج ان کی ایک آنکھ جھپکتی ہوئی باقی نہیں رہی نیست ونابود ہوگئے مر مٹ گئے۔

وَإِنْ كَانَ طَائِفَةٌ مِنْكُمْ آمَنُوا بِالَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ وَطَائِفَةٌ لَمْ يُؤْمِنُوا فَاصْبِرُوا حَتَّى يَحْكُمَ اللَّهُ بَيْنَنَا ۚ

اور اگر تم میں سے کچھ لوگ اس حکم پر جس کو دے کر مجھ کو بھیجا گیا ایمان لے آئے ہیں اور کچھ ایمان نہیں لائے تو ذرا ٹھہر جاؤ! یہاں تک کہ ہمارے درمیان اللہ فیصلہ کئے دیتا ہے ا

 دیکھو میں تمہیں صاف بےلاگ ایک بات بتا دوں تم میں سے ایک گروہ مجھ پر ایمان لا چکا ہے اور ایک گروہ نے میرا انکار اور بری طرح مجھ سے کفر کیا ہے ۔ اب تم خود دیکھ لو گے کہ مدد ربانی کس کا ساتھ دیتی ہے اور اللہ کی نظروں سے کون گر جاتا ہے ؟ تم رب کے فیصلے کے منتظر رہو۔

فَتَرَبَّصُوا إِنَّا مَعَكُمْ مُتَرَبِّصُونَ (۹:۵۲)

پس ایک طرف تم منتظر رہو دوسری جانب تمہارے ساتھ ہم بھی منتظر ہیں۔‏

وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ (۸۷)

ور وہ سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے۔‏

وہ سب فیصلہ کرنے والوں سے اچھا اور سچا فیصلہ کرنے والا ہے ۔ تم خود دیکھ لو کہ اللہ والے با مراد ہوں گے اور دشمنان اللہ نا مراد ہونگے۔

قَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا مِنْ قَوْمِهِ لَنُخْرِجَنَّكَ يَا شُعَيْبُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَكَ مِنْ قَرْيَتِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا ۚ

ان قوم کے متکبر سرداروں نے کہا کہ اے شعیب! ہم آپ کو اور آپ کے ہمراہ جو ایمان والے ہیں ان کو اپنی بستی سے نکال دیں گے الا یہ کہ تم ہمارے مذہب میں پھر آجاؤ

حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم نے آپ کی تمام نصیحتیں سن کر جو جواب دیا اس کا ذکر کیا جا رہا ہے ہوا یہ کہ دلیلوں سے ہار کر یہ لوگ اپنی قوت جتانے پر اتر آئے اور کہنے لگے اب تجھے اور تیرے ساتھیوں کو ہم دو باتوں میں سے ایک کا اختیار دیتے ہیں یا تو جلا وطنی قبول کر یا ہمارے مذہب میں آ جاؤ ۔

قَالَ أَوَلَوْ كُنَّا كَارِهِينَ (۸۸)

شعیب ؑ  نے جواب دیا کہ کیا ہم تمہارے مذہب میں آجائیں گو ہم اس کو مکروہ ہی سمجھتے ہوں۔‏

 جس پر آپ نے فرمایا کہ ہم تو دل سے تمہارے ان مشرکانہ کاموں سے بیزار ہیں ۔ انہیں سخت ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔

قَدِ افْتَرَيْنَا عَلَى اللَّهِ كَذِبًا إِنْ عُدْنَا فِي مِلَّتِكُمْ بَعْدَ إِذْ نَجَّانَا اللَّهُ مِنْهَا ۚ

ہم تو اللہ تعالیٰ پر بڑی جھوٹی تہمت لگانے والے ہوجائیں گے اگر ہم تمہارے دین میں آجائیں اسکے بعد اللہ تعالیٰ نے ہم کو اس سے نجات دی

پھر تمہارے اس دباؤ اور اس خواہش کے کیا معنی؟

 اگر اللہ کرے ہم پھر سے تمہارے کفر میں شامل ہو جائیں تو ہم سے بڑھ کر گناہگار کون ہو گا؟

اسکے تو صاف معنی یہ ہیں کہ ہم نے پہلے محض ایک ڈھونگ رچایا تھا۔ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ اور بہتان باندھ کر نبوت کا دعویٰ کیا تھا ۔

وَمَا يَكُونُ لَنَا أَنْ نَعُودَ فِيهَا إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّنَا ۚ

اور ہم سے ممکن نہیں کہ تمہارے مذہب میں پھر آجائیں، لیکن ہاں یہ کہ اللہ ہی نے جو ہمارا مالک ہے مقدر کیا ہو

خیال فرمائیے کہ اس جواب میں اللہ کے نبی علیہ السلام نے ایمان داروں کو مرتد ہونے سے کس طرح دھمکایا ہے؟ لیکن چونکہ انسان کمزور ہے ۔ نہ معلوم کس کا دل کیسا ہے اور آگے چل کر کیا ظاہر ہونے والا ہے؟

وَسِعَ رَبُّنَا كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا ۚ عَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْنَا ۚ

ہمارے رب کا علم ہرچیز کو محیط ہے، ہم اللہ ہی پر بھروسہ رکھتے ہیں

اس لئے فرمایا کہ اللہ کے ہاتھ سب کچھ ہے اگر وہی کسی کے خیالات الٹ دے تو میرا زور نہیں ۔ ہرچیز کے آغاز انجام کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے ۔ ہمارا توکل اور بھروسہ اپنے تمام کاموں میں صرف اسی کی ذات پاک پر ہے ۔

رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفَاتِحِينَ (۸۹)

اے ہمارے پروردگار ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق کے موافق فیصلہ کردے اور تو سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا ہے۔‏

 اے اللہ تو ہم میں اور ہماری قوم میں فیصلہ فرما ہماری مدد فرما تو سب حاکموں کا حاکم ہے ، سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے ، عادل ہے ، ظالم نہیں ۔

وَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَوْمِهِ لَئِنِ اتَّبَعْتُمْ شُعَيْبًا إِنَّكُمْ إِذًا لَخَاسِرُونَ (۹۰)

اور ان کی قوم کے کافر سرداروں نے کہا اگر تم شعیب ؑ کی راہ پر چلوگے تو بیشک بڑا نقصان اٹھاؤ گے

اس قوم کی سرکشی بد باطنی ملاحظہ ہو کر مسلمانوں کو اسلام سے ہٹانے کیلئے انہیں یقین دلا رہے ہیں کہ شعیب علیہ السلام کی اطاعت تمہیں غارت کر دے گی بڑے نقصان میں اتر جاؤ گے ۔

فَأَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَأَصْبَحُوا فِي دَارِهِمْ جَاثِمِينَ (۹۱)

پس ان کو زلزلے نے آپکڑا سو وہ اپنے گھروں میں اوندھے کے اوندھے پڑے رہ گئے۔‏

ان مؤمنوں کے دلوں کو ڈرانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ آسمانی عذاب بصورت زلزلہ زمین سے آیا اور انہیں سچ مچ لرزادیا اور غارت و برباد ہو کر خود ہی نقصان میں پھنس گئے ۔

یہاں اس طرح بیان ہوا ۔

سورۃ ہود میں بیان ہے کہ آسمانی کڑاکے کی آواز سے یہ ہلاک کئے گئے ۔ وہاں بیان ہے کہ انہوں نے اپنے وطن سے نکل جانے کی دھمکی ایمان داروں کو دی تھی تو آسمانی ڈانٹ کی آواز نے ان کی آواز پست کر دی اور ہمیشہ کیلئے یہ خاموش کر دیئے گئے ۔

وَلَمَّا جَآءَ أَمْرُنَا نَجَّيْنَا شُعَيْبًا ۔۔۔ فَأَصْبَحُواْ فِى دِيَـرِهِمْ جَـثِمِينَ (۱۱:۹۴)

جب ہمارا حکم (عذاب) آپہنچا ہم نے شعیب کو اور ان کے ساتھ (تمام) مؤمنوں کو اپنی خاص رحمت سے نجات بخشی اور ظالموں کو سخت چنگھاڑ کے عذاب نے دھر دبوچا جس سے وہ اپنے گھروں میں اوندے پڑے ہوئے ہوگئے۔‏

سورۃ شعراء میں بیان ہے کہ بادل ان پر سے عذاب بن کر برسا ۔

فَكَذَّبُوهُ فَأَخَذَهُمْ عَذَابُ يَوْمِ الظُّلَّةِ ۚ إِنَّهُ كَانَ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ (۱۱:۱۸۹)

چونکہ انہوں نے اسے جھٹلایا تو انہیں سائبان والے دن کے عذاب نے پکڑ لیا وہ بڑے بھاری دن کا عذاب تھا

کیونکہ وہیں ذکر ہے کہ خود انہوں نے اپنے نبی سے کہا تھا ؛

فَأَسْقِطْ عَلَيْنَا كِسَفًا مِنَ السَّمَاءِ إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ (۲۶:۱۸۷)

 اگر تو سچے لوگوں میں سے ہے تو ہم پر آسمان کے ٹکڑے گرا دے  

واقعہ یہ ہے کہ یہ تینوں عذاب ان پر ایک ساتھ آئے ۔ادھر ابر اٹھا جس سے شعلہ باری ہونے لگی ، آگ برسنے لگی۔ادھر تند اور سخت کڑاکے کی آواز آئی ، ادھر زمین پر زلزلہ آیا۔

الَّذِينَ كَذَّبُوا شُعَيْبًا كَأَنْ لَمْ يَغْنَوْا فِيهَا ۚ الَّذِينَ كَذَّبُوا شُعَيْبًا كَانُوا هُمُ الْخَاسِرِينَ (۹۲)

جنہوں نے شعیبؑ کی تکذیب کی تھی ان کی یہ حالت ہوگئی جیسے ان کے گھروں میں کبھی بسے ہی نہ تھے جنہوں نے شعیب علیہ السلام کی تکذیب کی وہ ہی خسارے میں پڑ گئے۔‏

نیچے اوپر کے عذابوں سے دیکھتے ہی دیکھتے تہہ وبالا کر دیئے گئے ، اپنی اپنی جگہ ڈھیر ہوگئے یا وہ وقت تھا کہ یہاں سے مؤمنوں کو نکالنا چاہتے تھے یا یہ وقت ہے کہ یہ بھی نہیں معلوم ہوتا کہ کسی وقت یہاں یہ لوگ آباد بھی تھے یا مسلمانوں سے کہہ رہے تھے کہ تم نقصان میں اترو گے یا یہ ہے کہ خود برباد ہوگئے ۔

فَتَوَلَّى عَنْهُمْ وَقَالَ يَا قَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَاتِ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ ۖ فَكَيْفَ آسَى عَلَى قَوْمٍ كَافِرِينَ (۹۳)

اس وقت شعیب علیہ السلام ان سے منہ موڑ کر چلے گئے اور فرمانے لگے کہ اے میری قوم! میں نے تم کو اپنے پروردگار کے احکام پہنچا دئیے تھے اور میں نے تو تمہاری خیر خواہی کی۔ پھر میں ان کافر لوگوں پر کیوں رنج کروں ۔

قوم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آ چکنے کے بعد حضرت شعیب علیہ السلام وہاں سے چلے

 اور بطور ڈانٹ ڈپٹ کے فرمایا کہ میں سبکدوش ہو چکا ہوں ۔ اللہ کا پیغام سنا چکا، سمجھا بجھا چکا، غم خواری ہمدردی کر چکا ۔ لیکن تم کافر کے کافر ہی رہے اب مجھے کیا پڑی کہ تمہارے افسوس میں اپنی جان ہلکان کروں؟

وَمَا أَرْسَلْنَا فِي قَرْيَةٍ مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا أَخَذْنَا أَهْلَهَا بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَضَّرَّعُونَ (۹۴)

اور ہم نے کسی بستی میں کوئی نبی نہیں بھیجا وہاں کے رہنے والوں کو ہم نے سختی اور تکلیف میں نہ پکڑا ہوتا کہ گڑگڑائیں  

اگلی اُمتوں میں بھی اللہ تعالیٰ کے رسول آئے اور ان کے انکار پر وہ اُمتیں مختلف بلاؤں میں مبتلا کی گئیں مثلاً بیماریاں، فقیری ، مفلسی ، تنگی ۔ تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اکڑنا چھوڑ دیں اور اس کے سامنے جھک جائیں ۔ مصیبتوں کے ٹالنے کی دعائیں کریں اور اسکے رسول کی مان لیں

ثُمَّ بَدَّلْنَا مَكَانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ حَتَّى عَفَوْا وَقَالُوا قَدْ مَسَّ آبَاءَنَا الضَّرَّاءُ وَالسَّرَّاءُ فَأَخَذْنَاهُمْ بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ (۹۵)

پھر ہم نے اس بد حالی کی جگہ خوش حالی میں بدل دی، یہاں تک کہ ان کو خوب ترقی ہوئی اور کہنے لگے کہ ہمارے آباؤ اجداد کو بھی تنگی اور راحت پیش آئی تھی تو ہم نے ان کو دفعتاً پکڑ لیا اور ان کو خبر بھی نہ تھی۔‏

لیکن انہوں نے اس موقعہ کو ہاتھ سے نکال دیا باوجود بری حالت ہونے کے دل کا کفر نہ ٹوتا، اپنی ضد سے نہ ہٹے تو ہم نے دوسری طرح پھر ایک موقع دیا ۔ سختی کو نرمی سے، برائی کو بھلائی سے ، بیماری کو تندرستی سے ، فقیری کو امیری سے بدل دیا تاکہ شکر کریں اور ہماری حکمرانی کے قائل ہو جائیں لیکن انہوں نے اس موقعہ سے بھی فائدہ نہ اٹھایا ، جیسے جیسے بڑھے ویسے ویسے کفر میں پھنسے، بد مستی میں اور بڑھے اور مغرور ہوگئے اور کہنے لگے کہ یہ زمانہ کے اتفاقات ہیں ۔ پہلے سے یہی ہوتا چلا آیا ہے کبھی کے دن بڑے کبھی کی راتیں بڑی ۔ زمانہ ہمیشہ ایک حالت پر نہیں رہتا ، الغرض اتفاق پر محمول کر کے معمولی سی بات سمجھ کر دونوں موقع ٹال دیئے ۔

 ایمان والے دونوں حالتوں میں عبرت پکڑتے ہیں ۔ مصیبت پر صبر، راحت پر شکر ان کا شیوہ ہوتا ہے ،  بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 مؤمن پر تعجب ہے اس کی دونوں حالتیں انجام کے لحاظ سے اس کےلئے بہتر ہوتی ہیں ۔ یہ دکھ پر صبر کرتا ہے ، انجام بہتر ہوتا ہے ، سکھ پر شکر کرتا ہے ، نیکیاں پاتا ہے ،

پس مؤمن رنج و راحت دونوں میں اپنی آزمائش کو سمجھ لیتا ہے ۔

 ایک اور حدیث میں ہے:

بلاؤں کی وجہ سے مؤمن کے گناہ بالکل دور ہو جاتے ہیں اور وہ پاک صاف ہو جاتا ہے ۔ہاں منافق کی مثال گدھے جیسی ہے جسے نہیں معلوم کہ کیوں باندھا گیا اور کیوں کھولا گیا؟

پس ان لوگوں کو اس کے بعد اللہ کے عذاب نے اچانک آ پکڑا یہ محض بےخبر تھے اپنی خرمستیوں میں لگے ہوئے تھے ۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

اچانک موت مؤمن کے لئے رحمت ہے اور کافروں کے لئے حسرت ہے ۔

وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ

اور اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لے آتے اور پرہیزگاری اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتیں کھول دیتے

لوگوں سے عام طور پر جو غلطی ہو رہی ہے اس کا ذکر ہے کہ عموماً ایمان سے اور نیک کاموں سے بھاگتے رہتے ہیں۔ صرف حضرت یونس علیہ السلام کی پوری بستی ایمان لائی تھی اور وہ بھی اس وقت جبکہ عذابوں کو دیکھ لیا اور یہ بھی صرف ان کے ساتھ ہی ہوا کہ آئے ہوئے عذاب واپس کر دیئے گئے اور دنیا و آخرت کی رسوائی سے بچ گئے

فَلَوْلاَ كَانَتْ قَرْيَةٌ ءَامَنَتْ فَنَفَعَهَآ إِيمَانُهَا ۔۔۔ فِى الْحَيَوةَ الدُّنْيَا وَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَى حِينٍ (۱۰:۹۸)

چنا نچہ کوئی بستی ایمان نہ لائی کہ ایمان لانا اس کو نافع ہوتا سوائے یونس ؑکی قوم کے جب وہ ایمان لے آئے تو ہم نے رسوائی کے عذاب کو دنیاوی زندگی میں ان پر سے ٹال دیا

اور ان کو ایک وقت (خاص) تک کے لئے زندگی سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیا۔‏

یہ لوگ ایک لاکھ بلکہ زائد تھے ۔ اپنی پوری عمر تک پہنچے اور دنیوی فائدے بھی حاصل کرتے رہے

وَأَرْسَلْنَـهُ إِلَى مِاْئَةِ أَلْفٍ أَوْ يَزِيدُونَ ـ فَـَامَنُواْ فَمَتَّعْنَـهُمْ إِلَى حِينٍ (۳۷:۱۴۷،۱۴۸)

اور ہم نے انہیں ایک لاکھ بلکہ اور زیادہ آدمیوں کی طرف بھیجا۔‏ پس وہ ایمان لائے اور ہم نے انہیں ایک زمانہ تک عیش و عشرت دی۔‏

تو فرماتا ہے کہ اگر نبیوں کے آنے پر ان کے اُمتی صدق دل سے ان کی تابعداری کرتے، برائیوں سے رک جاتے اور نیکیاں کرنے لگتے تو ہم ان پر کشادہ طور پر بارشیں برساتے اور زمین سے پیداوار اگاتے ۔

وَلَكِنْ كَذَّبُوا فَأَخَذْنَاهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ (۹۶)

 لیکن انہوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کے اعمال کی وجہ سے ان کو پکڑ لیا۔‏

 لیکن انہوں نے رسولوں کی نہ مانی بلکہ انہیں جھوٹا سمجھا اور روبرو جھوٹا کہا ۔ برائیوں سے حرام کاریوں سے ایک انچ نہ ہٹے ، اس وجہ سے تباہ کر دیے گئے ۔

أَفَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرَى أَنْ يَأْتِيَهُمْ بَأْسُنَا بَيَاتًا وَهُمْ نَائِمُونَ (۹۷)

کیا پھر بھی ان بستیوں کے رہنے والے اس بات سے بےفکر ہوگئے کہ ان پر ہمارا عذاب شب کے وقت آپڑے جس وقت وہ سوتے ہوں۔‏

کیا کافروں کو اس بات کا خوف نہیں کہ راتوں رات ان کی بےخبری میں ان کے سوتے ہوئے عذاب الہٰی آ جائے اور یہ سوئے کے سوئے رہ جائیں ؟

أَوَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرَى أَنْ يَأْتِيَهُمْ بَأْسُنَا ضُحًى وَهُمْ يَلْعَبُونَ (۹۸)

اور کیا ان بستیوں کے رہنے والے اس بات سے بےفکر ہوگئے ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب دن چڑھے آ پڑے جس وقت کہ وہ اپنے کھیلوں میں مشغول ہوں۔‏

کیا انہیں ڈر نہیں لگتا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دن دہاڑے ان کے کھیل کود اور غفلت کی حالت میں اللہ جل جلالہ کا عذاب آ جائے؟

أَفَأَمِنُوا مَكْرَ اللَّهِ ۚ فَلَا يَأْمَنُ مَكْرَ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْخَاسِرُونَ (۹۹)

کیا پس وہ اللہ کی اس پکڑ سے بےفکر ہوگئے۔ سو اللہ کی پکڑ سے بجز انکے جنکی شامت ہی آگئی ہو اور کوئی بےفکر نہیں ہوتا

 اللہ کے عذابوں سے ، اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے، اس کی بےپایاں قدرت کے اندازے سے غافل وہی ہوتے ہیں جو اپنے آپ بربادی کی طرف بڑھے چلے جاتے ہوں ۔

 امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے:

مؤمن نیکیاں کرتا ہے اور پھر ڈرتا رہتا ہے اور فاسق فاجر شخص برائیاں کرتا ہے اور بےخوف رہتا ہے ۔ نتیجے میں مؤمن امن پاتا ہے اور فاجر پیس دیا جاتا ہے ۔

أَوَلَمْ يَهْدِ لِلَّذِينَ يَرِثُونَ الْأَرْضَ مِنْ بَعْدِ أَهْلِهَا أَنْ لَوْ نَشَاءُ أَصَبْنَاهُمْ بِذُنُوبِهِمْ ۚ

اور کیا ان لوگوں کو جو زمین کے وارث ہوئے وہاں کے لوگوں کی ہلاکت کے بعد (ان واقعات مذکور میں ہیں) یہ بات نہیں بتلائی کہ اگر ہم چاہیں تو انکے جرائم کے سبب انکو ہلاک کر ڈالیں

وَنَطْبَعُ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ (۱۰۰)

اور ہم انکے دلوں پر بند لگادیں، پس وہ نہ سن سکیں ۔

ارشاد ہے کہ ایک گروہ نے ہمارا مقابلہ کیا اور ہم نے انہیں تاخت و تاراج کیا ۔ دوسرا گروہ ان کے قائم مقام ہوا تو کیا اس پر بھی یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ اگر وہ بداعمالیاں کریں گے تو اپنے سے اگلوں کی طرح کھو دیئے جائیں گے

 جیسے فرمان ہے:

أَفَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ كَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنَ الْقُرُونِ يَمْشُونَ فِى مَسَـكِنِهِمْ (۲۰:۱۲۸)

کیا انکی رہبری اس بات نے بھی نہیں کی کہ ہم نے ان سے پہلے بہت سی بستیاں ہلاک کر دی ہیں جنکے رہنے سہنے کی جگہ یہ چل پھر رہے ہیں۔

اور اس بیان کے بعد کی آیت میں ہے:

إِنَّ فِى ذَلِكَ لأَيَـتٍ لاٌّوْلِى النُّهَى (۲۰:۱۲۸)

یقیناً اس میں عقلمندوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں۔‏

اسی طرح کی اور  آیت میں فرمایا :

أَوَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ كَمْ أَهْلَكْنَا مِن قَبْلِهِمْ مِّنَ الْقُرُونِ يَمْشُونَ فِى مَسَاكِنِهِمْ إِنَّ فِى ذَلِكَ لاّيَاتٍ أَفَلاَ يَسْمَعُونَ (۳۲:۲۶)

کیا اس بات نے بھی انہیں کوئی ہدایت نہیں دی کہ ہم نے پہلے بہت سی اُمتوں کو ہلاک کر دیا جن کے مکانوں میں یہ چل پھر رہے ہیں اس میں تو بڑی بڑی نشانیاں ہیں، کیا پھر بھی یہ نہیں سنتے؟‏

اور  آیت میں فرمایا :

أَوَلَمۡ تَڪُونُوٓاْ أَقۡسَمۡتُم مِّن قَبۡلُ مَا لَڪُم مِّن زَوَالٍ۬ ـ وَسَكَنتُمۡ فِى مَسَـٰڪِنِ ٱلَّذِينَ ظَلَمُوٓاْ أَنفُسَهُمۡ (۱۴:۴۴،۴۵)

کیا تم اس سے پہلے بھی قسمیں نہیں کھا رہے تھے؟ کہ تمہارے لئے دنیا سے ٹلنا ہی نہیں ۔ اور کیا تم ان لوگوں کے گھروں میں رہتے سہتے نہ تھے جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا

ایک اور آیت میں ہے :

وَكَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّن قَرْنٍ هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِّنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزاً (۱۹:۹۸)

ان سے پہلے ہم نے بہت سی بستیاں تباہ کر دیں نہ ان میں سے اب کوئی نظر آئے نہ کسی کی آواز سنائی دے

 عادیوں کی ہلاکت کا بیان فرما کر ارشاد ہوا کہ ایسے عذاب اچانک آ گئے کہ ان کے وجود کی دھجیاں اڑ گئیں ، کھنڈر کھڑے رہ گئے اور کسی چیز کا نام و نشان نہ بچا ۔ مجرموں کا یہی حال ہوتا ہے ۔ حالانکہ دنیوی و جاہت بھی ان کے پاس تھی آنکھ، کان ، ہاتھ سب تھا لیکن اللہ جل شانہ کی باتوں کا تمسخر کرنے پر اور ان کے انکار پر جب عذاب آیا تو حیران و ششدر رہ گئے ، نہ عقل آئی نہ اسباب بچے ۔ اپنے آس پاس کی ویران بستیاں دیکھ کر عبرت حاصل کرو ۔

 اگلوں نے جھٹلایا تو دیکھ لو کہ کس طرح برباد ہوئے ؟ تم تو ابھی تک ان کے دسویں حصے کو بھی نہیں پہنچے ۔ تم سے پہلے کے منکروں پر میرے عذاب آئے انہیں غور سے سنو ۔ ظالموں کی بستیاں میں نے الٹ دیں اور ان کے محلات کھنڈر بنا دیئے ۔زمین میں چل پھر کر، آنکھیں کھول کر، کان لگا کر ذرا عبرت حاصل کرو ۔ جس کی آنکھیں نہ ہوں وہی اندھا نہیں بلکہ سچ مچ اندھا وہ ہے جس کی دلی آنکھیں بےکار ہوں ۔اگلے نبیوں کے ساتھ بھی مذاق اڑائے گئے لیکن نتیجہ یہی ہوا کہ ایسے مذاق کرنے والوں کا نشان مٹ گیا ۔ ایسے گھیرے آگئے کہ ایک بھی نہ بچا ۔ اللہ تعالیٰ کی باتیں سچی ہیں، اس کے وعدے اٹل ہیں وہ ضرور اپنے دوستوں کی مدد کرتا ہے اور اپنے دشمنوں کو نیچا دکھاتا ہے ۔

تِلْكَ الْقُرَى نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنْبَائِهَا ۚ

ان بستیوں کے کچھ کچھ قصے ہم آپ سے بیان کر رہے ہیں

پہلے قوم نوح، ہود ، صالح ، لوط اور قوم شعیب کا بیان گزر چکا ہے ۔

ذَلِكَ مِنْ أَنْبَآءِ الْقُرَى ۔۔۔ وَمَا ظَلَمْنَـهُمْ وَلَـكِن ظَلَمُواْ أَنفُسَهُمْ (۱۱:۱۰۰،۱۰۱)

بستیوں کی یہ بعض خبریں جنہیں ہم تیرے سامنے بیان فرما رہے ہیں ان میں سے بعض تو موجود ہیں اور بعض (کی فصلیں) کٹ گئی ہیں ۔

ہم نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ خود انہوں نے ہی اپنے اوپر ظلم کیا

وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا بِمَا كَذَّبُوا مِنْ قَبْلُ ۚ

ان سب کے پاس ان کے پیغمبر معجزات لے کر آئے پھر جس چیز کو انہوں نے ابتدا میں جھوٹا کہہ دیا یہ بات نہ ہوئی کہ پھر اس کو مان لیتے

اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ ان سب کے پاس ہمارے رسول حق لے کر پہنچے ، معجزے دکھائے، سمجھایا ، بجھایا ، دلیلیں دیں لیکن وہ نہ مانے اور اپنی بد عادتوں سے باز نہ آئے ۔ جس کی پاداش میں ہلاک ہوگئے ، صرف ماننے والے بچ گئے ۔

 اللہ کا طریقہ اسی طرح جاری ہے کہ جب تک رسول نہ آ جائیں، خبردار نہ کر دیئے جائیں عذاب نہیں دیئے جاتے،

وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولاً (۱۷:۱۵)

اور ہماری سنت نہیں کہ رسول بھیجنے سے پہلے ہی عذاب کرنے لگیں ۔

 ہم ظالم نہیں لیکن جبکہ لوگ خود ظلم پر کمر کس لیں تو پھر ہمارے عذاب انہیں آ پکڑتے ہیں ۔ ان سب نے جن چیزوں کا انکار کر دیا تھا ان پر باوجود دلیلیں دیکھ لینے کے بھی ایمان نہ لائے ۔

آیت بِمَا كَذَّبُوا میں ب سببیہ ہےجیسےاس  آیت میں فرمایا ہے :

وَمَا يُشْعِرُكُمْ أَنَّهَا إِذَا ۔۔۔ يُؤْمِنُوا بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ  (۶:۱۰۹،۱۱۰)

اور تمہیں کیا معلوم ہے یہ تو ایسے (بدبخت) ہیں کہ ان کے پاس نشانیاں بھی آجائیں تب بھی ایمان نہ لائیں

 اور ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو الٹ دیں گے (تو) جیسے یہ اس (قرآن) پر پہلی دفعہ ایمان نہیں لائے (ویسے پھر نہ لائیں گے)۔

كَذَلِكَ يَطْبَعُ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِ الْكَافِرِينَ (۱۰۱)

اللہ تعالیٰ اسی طرح کافروں کے دلوں پر بند لگا دیتا ہے۔‏

یہاں بھی فرمان ہے کہ کفار کے دلوں پر اسی طرح ہم مہریں لگا دیا کرتے ہیں ۔

وَمَا وَجَدْنَا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ ۖ وَإِنْ وَجَدْنَا أَكْثَرَهُمْ لَفَاسِقِينَ (۱۰۲)

اور اکثر لوگوں میں وفائے عہد نہ دیکھا اور ہم نے اکثر لوگوں کو بےحکم ہی پایا۔‏

 ان میں سے اکثر بد عہد ہیں بلکہ عموماً فاسق ہیں ۔

یہ عہد وہ ہے جو روز ازل میں لیا گیا اور اسی پر پیدا کئے گئے اسی فطرت اور جبلت میں رکھا گیا اسی کی تاکید انبیاء علیہم السلام کرتے رہے ۔ لیکن انہوں نے اس عہد کو پس پشت ڈال دیا یا مطلق پروا نہ کی اور اس عہد کے خلاف غیر اللہ کی پرستش شروع کر دی ۔ اللہ کو مالک خالق اور لائق عبادت مان کر آئے تھے لیکن یہاں اس کے سراسر خلاف کرنے لگے اور بےدلیل، خلاف عقل و نقل ، خلاف فطرت اور خلاف شرع ، اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت میں لگ گئے ۔ صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

 میں نے اپنے بندوں کو موحد اور یکطرفہ پیدا کیا لیکن شیطان نے آ کر انہیں بہکا دیا اور میری حلال کردہ چیزین ان پر حرام کر دیں ۔

 بخاری و مسلم میں ہے:

 ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے پھر اسے اس کے ماں باپ یہودی نصرانی مجوسی بنا لیتے ہیں ۔

خود قرآن کریم میں ہے:

وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ (۲۱:۲۵)

تجھ سے پہلے بھی جو رسول ہم نے بھیجا اس کی طرف یہی وحی نازل فرمائی کہ میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں پس تم سب میری ہی عبادت کرو

 اور آیت میں ہے:

وَاسْأَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رُّسُلِنَا أَجَعَلْنَا مِن دُونِ الرَّحْمَـٰنِ آلِهَةً يُعْبَدُونَ (۴۳:۴۵)

اور ہمارے ان نبیوں سے پوچھو! جنہیں ہم نے آپ سے پہلے بھیجا تھا کہ کیا ہم نے سوائے رحمٰن کے اور معبود مقرر کئے تھے جن کی عبادت کی جائے

اور فرمان ہے:

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ (۱۶:۳۶)

ہم نے ہر اُمت میں رسول بھیجا کہ لوگو صرف اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے سوا ہر ایک کی عبادت سے الگ رہو ۔

 اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں ۔

اس جملے کے معنی یہ بھی کئے گئے ہیں کہ چونکہ پہلے ہی سے اللہ کے علم میں یہ بات مقرر ہو گئی تھی کہ انہیں ایمان نصیب نہیں ہوگا ۔ یہی ہو کر رہا کہ باوجود دلائل سامنے آ جانے کے ایمان نہ لائے ۔ میثاق والے دن گو یہ ایمان قبول کر بیٹھے لیکن ان کے دلوں کی حالت اللہ جل شانہ کو معلوم تھی کہ ان کا ایمان جبراً اور نا خوشی سے ہے ۔

جیسے فرمان ہے:

وَلَوْ رُدُّوا لَعَادُوا لِمَا نُهُوا عَنْهُ  (۶:۲۸)

اور اگر یہ لوگ پھر واپس بھیج دیئے جائیں تب بھی یہ وہی کام کریں گے جس سے ان کو منع کیا گیا تھا

ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْ بَعْدِهِمْ مُوسَى بِآيَاتِنَا إِلَى فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ فَظَلَمُوا بِهَا ۖ

پھر ان کے بعد ہم نے موسیٰ ؑ  کو اپنے دلائل دے کر فرعون اور اس کے امراء کے پاس بھیجا

جن رسولون کا ذکر گزر چکا ہے یعنی نوح، ہود، صالح، لوط، شعیب صلوات اللہ و سلامہ علیھم وعلی سائر الانبیاء اجمعین کے بعد ہم نے حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ و السلام کو اپنی دلیلیں عطا فرما کر بادشاہ مصر (فرعون) اور اس کی قوم کی طرف بھیجا ۔

فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ (۱۰۳)

مگر ان لوگوں نے ان کا بالکل حق ادا نہ کیا۔ سو دیکھئے ان مفسدوں کا کیا انجام ہوا ۔

 لیکن انہوں نے بھی جھٹلایا اور ظلم و زیادتی کی اور صاف انکار کر دیا حالانکہ ان کے دلوں میں یقین گھر کر چکا تھا ۔ اب آپ دیکھ لو کہ اللہ کی راہ سے رکنے والوں اور اس کے رسولوں کا انکار کرنے والوں کا کیا انجام ہوا؟

وَجَحَدُواْ بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَآ أَنفُسُهُمْ ظُلْماً وَعُلُوّاً فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَـقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ (۲۷:۱۴)

انہوں نے انکار کر دیا حالانکہ انکے دل یقین کر چکے تھے صرف ظلم اور تکبر کی بنا پر پس دیکھ لیجئے کہ ان فتنہ پرواز لوگوں کا انجام کیسا کچھ ہوا۔‏

وہ مع اپنی قوم کے ڈبو دیئے گئے اور پھر لطف یہ ہے کہ مؤمنوں کے سامنے بےکسی کی پکڑ میں پکڑ لئے گئے  تاکہ ان کے دل ٹھنڈے ہوں اور عبرت ہو۔

وَقَالَ مُوسَى يَا فِرْعَوْنُ إِنِّي رَسُولٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ (۱۰۴)

اور موسیٰ ؑنے فرمایا کہ اے فرعون میں رب العالمین کی طرف سے پیغمبر ہوں۔‏

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اور فرعون کے درمیان جو گفتگو ہوئی اس کا ذکر ہو رہا ہے کہ اللہ کے کلیم نے فرمایا کہ اے فرعون میں رب العالمیں کا رسول ہوں ۔ جو تمام عالم کا خالق و مالک ہے ۔

حَقِيقٌ عَلَى أَنْ لَا أَقُولَ عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ ۚ

میرے لئے یہی شایان ہے کہ بجز سچ کے اللہ کی طرف کوئی منسوب نہ کروں،

مجھے یہی لائق ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بارےمیں وہی باتیں کہوں جو سراسر حق ہوں

ب اور عَلَى یہ متعاقب ہوا کرتے ہیں جیسے رمیت بالقوس اور رمیت علی القوس وغیرہ ۔

 اور بعض مفسرین کہتے ہیں حَقِيقٌ کے معنی حریض کے ہیں ۔

یہ معنی بھی بیان کئے گئے ہیں کہ مجھ پر واجب اور حق ہے کہ اللہ ذوالمنن کا نام لے کر وہی خبر دوں جو حق و صداقت والی ہو کیونکہ میں اللہ عزوجل کی عظمت سے واقف ہوں ۔

قَدْ جِئْتُكُمْ بِبَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ فَأَرْسِلْ مَعِيَ بَنِي إِسْرَائِيلَ (۱۰۵)

میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک بڑی دلیل لایا ہوں سو تو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دے۔‏

میں اپنی صداقت الہٰی کی دلیل بھی ساتھ ہی لایا ہوں ۔ تو قوم بنی اسرائیل کو اپنے مظالم سے آزاد کر دے ، انہیں اپنی زبردستی کی غلامی سے نکال دے، انہیں ان کے رب کی عبادت کرنے دے، یہ ایک زبردست بزرگ پیغمبر کی نسل سے ہیں یعنی حضرت یعقوب بن اسحاق بن حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوۃ والسلام کی اولاد ہیں ۔

قَالَ إِنْ كُنْتَ جِئْتَ بِآيَةٍ فَأْتِ بِهَا إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ (۱۰۶)

فرعون نے کہا، اگر آپ کوئی معجزہ لے کر آئے ہیں تو اس کو اب پیش کیجئے! اگر آپ سچے ہیں‏

فرعون نے کہا میں تجھے سچا نہیں سمجھتا نہ تیری طلب پوری کروں گا اور اگر تو اپنے دعوے میں واقعی سچا ہے تو کوئی معجزہ پیش کر ۔

فَأَلْقَى عَصَاهُ فَإِذَا هِيَ ثُعْبَانٌ مُبِينٌ (۱۰۷)

پس آپ نے اپنا عصا ڈال دیا، سو دفعتاً وہ صاف ایک اژدھا بن گیا۔‏

آپ نے فرعون کی اس طلب پر اپنے ہاتھ کی لکڑی زمین پر ڈال دی جو بہت بڑا سانپ بن گئی اور منہ پھاڑے فرعون کی طرف لپکی ، وہ مارے خوف کے تخت پر سے کود گیا اور فریاد کرنے لگا کہ موسیٰ اللہ کے لئے اسے روک ، اس نے اس قدر اپنا منہ کھولا تھا کہ نیچے کا جبڑا تو زمین پر تھا اور اوپر کا جبڑا محل کی بلندی پر ۔ خوف کے مارے فرعون کی ہوا نکل گئی اور چیخنے لگا کہ موسیٰ اسے روک لے ، میں ایمان لاتا ہوں اور اقرار کرتا ہوں کہ بنی اسرائیل کو تیرے ساتھ کر دونگا ۔

حضرت موسیٰ ؑنے اسی وقت اس پر ہاتھ رکھا اور اسی وقت لکڑی جیسی لکڑی بن گیا ۔

 حضرت وہبؒ فرماتے ہیں :

حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیکھتے ہی فرعون کہنے لگا میں تجھے پہچانتا ہوں۔

 آپ نے فرمایا یقیناً

اس نے کہا تو نے بچپن ہمارے گھر کے ٹکڑوں پر ہی تو گزارا ہے ۔

 اس کا جواب حضرت موسیٰؑ دے ہی رہے تھے کہ اس نے کہا اسے گرفتار کر لو ۔

 آپ نے جھٹ سے اپنی لکڑی زمین پر ڈال دی جس نے سانپ بن کر ان پر حملہ کر دیا اس بد حواسی میں ایک دوسرے کو کچلتے اور قتل کرتے ہوئے وہ سب کے سب بھاگے چنانچہ پچیس ہزار آدمی اسی ہنگامے میں ایک دوسرے کے ہاتھوں مارے گئے اور فرعون سیدھا اپنے گھر میں گھس گیا

لیکن اس واقعہ کے بیان کی سند میں غرابت ہے واللہ اعلم ۔

وَنَزَعَ يَدَهُ فَإِذَا هِيَ بَيْضَاءُ لِلنَّاظِرِينَ (۱۰۸)

اور اپنا ہاتھ باہر نکالا سو وہ یکا یک سب دیکھنے والوں کے روبرو بہت ہی چمکتا ہوا ہوگیا ۔

اسی طرح دوسرا معجزہ آپ نے یہ ظاہر کیا کہ اپنا ہاتھ اپنی چادر میں ڈال کر نکالا تو بغیر اس کے کہ کوئی روگ یا برص یا داغ ہو وہ سفید چمکتا ہوا بن کر نکل آیا جسے ہر ایک نے دیکھا پھر ہاتھ اندر کیا تو جیسا تھا ویسا ہی ہو گیا ۔

وَأَدْخِلْ يَدَكَ فِى جَيْبِكَ تَخْرُجْ بَيْضَآءَ مِنْ غَيْرِ سُوءٍ (۲۷:۱۲)

اور اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈال، وہ سفید چمکیلا ہو کر نکلے گا بغیر کسی عیب کے

قَالَ الْمَلَأُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ إِنَّ هَذَا لَسَاحِرٌ عَلِيمٌ (۱۰۹)

قوم فرعون میں جو سردار لوگ تھے انہوں نے کہا کہ واقعی یہ شخص بڑا ماہر جادوگر ہے

جب ڈر خوف جاتا رہا فرعون پھر سے اپنے تخت پر آ بیٹھا اور درباریوں کے اوسان درست ہوگئے تو فرعون نے کہا بھئی مجھے تو یہ جادوگر لگتا ہے اور ہے بھی بڑا استاد۔

 ان لوگوں نے اس کی تائید کی اور کہا حضور درست فرما رہے ہیں ۔

يُرِيدُ أَنْ يُخْرِجَكُمْ مِنْ أَرْضِكُمْ ۖ فَمَاذَا تَأْمُرُونَ (۱۱۰)

یہ چاہتا ہے کہ تم کو تمہاری سرزمین سے باہر کردے سو تم لوگ کیا مشورہ دیتے ہو۔‏

 اب مشورے کرنے لگے کہ اگر یہ معاملہ یونہی رہا تو لوگ اس کی طرف مائل ہو جائیں گے اور جب یہ قوت پکڑے گا تو ہم سے بادشاہت چھین لے گا ہمیں جلاوطن کر دے گا بتاؤ کیا کرنا چاہئے ؟

اللہ کی شان ہے جس سے خوف کھایا وہی سامنے آیا ۔

وَنُرِىَ فِرْعَوْنَ وَهَـمَـنَ وَجُنُودَهُمَا مِنْهُمْ مَّا كَانُواْ يَحْذَرونَ (۲۸:۶)

اور فرعون اور ہامان اور ان کے لشکروں کو وہ دکھائیں جس سے وہ ڈر رہے ہیں

قَالُوا أَرْجِهْ وَأَخَاهُ وَأَرْسِلْ فِي الْمَدَائِنِ حَاشِرِينَ (۱۱۱)

انہوں نے کہا کہ آپ ان کواور  ان کے بھائی کو مہلت دیجئے اور شہروں میں ہرکاروں کو بھیج دیجئے۔‏

درباریوں نے مشورہ دیا کہ ان دونوں بھائیوں کا معاملہ تو اس وقت رفع دفع کرو ، اسے ملتوی رکھو اور ملک کے ہر حصے میں ہر کارے بھیج دو

يَأْتُوكَ بِكُلِّ سَاحِرٍ عَلِيمٍ (۱۱۲)

کہ وہ سب ماہر جادوگروں کو آپ کے پاس لاکر حاضر کردیں ۔

جو جادوگروں کو جمع کر کے آپ کے دربار میں لائیں۔ تو جب تمام استاد فن جادوگر آ جائیں ان سے مقابلہ کرایا جائے تو یہ ہار جائے گا اور منہ دکھانے کے قابل نہ رہے گا، یہ اگر جادو جانتا ہے تو ہماری رعایا میں جادو گروں کی کیا کمی ہے؟

بڑے بڑے ماہر جادوگر ہم میں موجود ہیں جو اپنے فن میں بےنظیر ہیں اور بہت چست و چالاک ہیں ۔ چنانچہ حضرت موسیٰ ؑسے کہا گیا :

فَلَنَأْتِيَنَّكَ بِسِحْرٍ مِّثْلِهِ فَاجْعَلْ بَيْنَنَا ۔۔۔ فَتَوَلَّى فِرْعَوْنُ فَجَمَعَ كَيْدَهُ ثُمَّ أَتَى  (۲۰:۵۸،۶۰)

اچھا ہم بھی تیرے مقابلے میں اسی جیسا جادو ضرور لائیں گے، پس تو ہمارے اور اپنے درمیان ایک وعدے کا وقت مقرر کر لے کہ نہ ہم اس کا خلاف کریں اور نہ تو، صاف میدان میں مقابلہ ہو۔

 موسیٰ ؑ نے جواب دیا کہ زینت اور جشن کے دن کا وعدہ ہے اور یہ کہ لوگ دن چڑھے ہی جمع ہوجائیں

‏ پس فرعون لوٹ گیا اور اس نے اپنے ہتھکنڈے جمع کئے پھر آگیا

وَجَاءَ السَّحَرَةُ فِرْعَوْنَ قَالُوا إِنَّ لَنَا لَأَجْرًا إِنْ كُنَّا نَحْنُ الْغَالِبِينَ (۱۱۳)

اور جادوگر فرعون کے پاس حاضر ہوئے، کہنے لگے کہ اگر ہم غالب آگئے تو ہم کو کوئی بڑا صلہ ملے گا۔‏

جادو گروں نے پہلے ہی فرعون سے قول و قرار لے لیا تاکہ محنت خالی نہ جائے اور اگر ہم جیت جائیں تو خالی ہاتھ نہ رہ جائیں

قَالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ (۱۱۴)

فرعون نے کہا ہاں اور تم مقرب لوگوں میں داخل ہو جاؤ گے ۔

 فرعون نے وعدہ کیا کہ منہ مانگا انعام اور ہمیشہ کیلئے خاص درباریوں میں داخلہ دوں گا ۔

یہ قول و قرار لے کر میدان میں اتر آئے ۔

قَالُوا يَا مُوسَى إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ (۱۱۵)

ان ساحروں نے عرض کیا اے موسیٰ! خواہ آپ ڈالئے اور یا ہم ہی ڈالیں  

جادوگروں کو اپنی قوت پر بڑا گھمنڈ تھا وہ سب فی الحقیقت اپنے اس فن کے لاجواب استاد تھے اس لئے انہوں نے آتے ہی حضرت موسیٰ کو چیلنج دیا کہ لو ہوشیار ہو جاؤ تمہیں اختیار ہے میدان میں اپنے کرتب پہلے دکھاؤ اور اگر کہو تو پہل ہم کر دیں ۔

وَإِمَّآ أَن نَّكُونَ أَوَّلَ مَنْ أَلْقَى (۲۰:۱۵)

یا ہم پہلے ڈالنے والے بن جائیں۔‏

قَالَ أَلْقُوا ۖ

 (موسیٰ ؑ نے) فرمایا کہ تم ہی ڈالو

آپ نے فرمایا بہتر ہے کہ تمہارے حوصلے نکل جائیں اور لوگ تمہارا کمال فن دیکھ لیں اور پھر اللہ کی قدرت کو بھی دیکھ لیں اور حق و باطل میں دیکھ بھال کر فیصلہ کر سکیں

فَلَمَّا أَلْقَوْا سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ وَجَاءُوا بِسِحْرٍ عَظِيمٍ (۱۱۶)

پس جب انہوں نے ڈالا تو لوگوں کی نظر بندی کردی اور ان پر ہیبت غالب کردی اور ایک طرح کا بڑا جادو دکھایا ۔

وہ تو یہ چاہتے ہی تھے انہوں نے جھٹ سے اپنی رسیاں اور لکڑیاں نکال نکال کر میدان میں ڈالنی شروع کر دین ادھر وہ میدان میں پڑتے ہی چلتی پھرتی اور بنی بنائی سانپ معلوم ہونے لگیں ۔ یہ صرف نظر بندی تھی ۔ فی الواقع خارج میں ان کا وجود بدل نہیں گیا تھا بلکہ اس طرح لوگوں کو دکھائی دیتی تھیں کہ گویا زندہ ہیں ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے دل میں خطرہ محسوس کرنے لگے ۔ اللہ کی طرف سے اسی وقت وحی آئی :

فَأَوْجَسَ فِى نَفْسِهِ خِيفَةً ۔۔۔ وَلاَ يُفْلِحُ السَّـحِرُ حَيْثُ أَتَى (۲۰:۶۷،۶۹)

پس موسیٰؑ نے اپنے دل ہی دل میں ڈر محسوس کیا۔ہم نے فرمایا کچھ خوف نہ کر یقیناً تو ہی غالب اور برتر رہے گا ۔

اور تیرے دائیں ہاتھ میں جو ہے اسے ڈال دے کہ ان کی تمام کاریگری کو وہ نگل جائے، انہوں نے جو کچھ بنایا ہے یہ صرف جادوگروں کے کرتب ہیں اور جادوگر کہیں سے بھی آئے کامیاب نہیں ہوتا۔‏

بڑی موٹی موٹی رسیاں اور لمبی لمبی لکڑیاں انہوں نے ڈالی تھیں جو سب چلتی پھرتی دوڑتی بھاگتی معلوم ہو رہی تھیں ،

یہ جادوگر پندرہ ہزار یا تیس ہزار سے اوپر اوپر تھے یا ستر ہزار کی تعداد میں تھے، ہر ایک اپنے ساتھ رسیاں اور لکڑیاں لایا تھا صف بستہ کھڑے تھے اور لوگ چاروں طرف موجود تھے ہر ایک ہمہ تن شوق بنا ہوا تھا فرعون اپنے لاؤ لشکر اور درباریوں سمیت بڑے رعب سے اپنے تخت پر بیٹھا ہوا تھا ادھر وقت ہوا ادھر سب کی نگاہوں نے دیکھا کہ ایک درویش صفت اللہ کا نبی اپنے ساتھ اپنے بھائی کو لئے ہوئے لکڑی ٹکاتے ہوئے آ رہے ہیں ۔

 یہ تھے جن کے مقابلے کی یہ دھوم دھام تھی ۔ آپ کے آتے ہی جادوگروں نے صرف یہ دریافت کر کے کہ ابتدا کس کی طرف سے ہونی چاہئے خود ابتدا کر دی ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پھر فرعون کی پھر تماشائیوں کی آنکھوں پر جادو کر کے سب کو ہیبت زدہ کر دیا ۔ اب جو اپنی اپنی رسیاں اور لاٹھیاں پھینکیں تو ہزار ہا کی تعداد میں پہاڑوں کے برابر سانپ نظر آنے لگے جو اوپر تلے ایک دوسرے سے لپٹ رہے ہیں ادھر ادھر دوڑ رہے ہیں میدان بھر گیا ہے انہوں نے اپنے فن کا پورا مظاہرہ کر دکھایا ۔

وَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى أَنْ أَلْقِ عَصَاكَ ۖ فَإِذَا هِيَ تَلْقَفُ مَا يَأْفِكُونَ (۱۱۷)

ہم نے موسیٰ ؑ کو حکم دیا کہ اپنا عصا ڈال دیجئے! سو عصا کا ڈالنا تھا کہ اس نے انکے سارے بنے بنائے کھیل کو نگلنا شروع کیا

اسی میدان میں جادوگروں کے اس حملے کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو بذریعہ وحی حکم فرمایا کہ اپنے دائیں ہاتھ سے لکڑی کو صرف زمین پر گرا وہ اسی وقت ان کے سارے ہی لغویات ہضم کر جائے گی ۔

 چنانچہ یہی ہوا ۔ آپ کی لکڑی نے اژدھا بن کر سارے میدان کو صاف کر دیا جو کجھ وہاں تھا سب کو ہڑپ کر گیا ۔ ایک بھی چیز اب میدان میں نظر نہ آتی تھی ۔

پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جہاں اس پہ ہاتھ رکھا ویسی کی ویسی لکڑی بن گئی ۔یہ دیکھتے ہی جادوگر سمجھ گئے کہ یہ جادو نہیں یہ تو سچ مچ اللہ کی طرف سے معجزہ ہے ۔

فَوَقَعَ الْحَقُّ وَبَطَلَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (۱۱۸)

پس حق ظاہر ہوگیا اور انہوں نے جو کچھ بنایا تھا سب جاتا رہا۔‏

حق ثابت ہو گیا باطل دب گیا ۔ تمیز ہو گئی معاملہ صاف ہو گیا ۔

فَغُلِبُوا هُنَالِكَ وَانْقَلَبُوا صَاغِرِينَ (۱۱۹)

پس وہ لوگ اس موقع پر ہار گئے اور خوب ذلیل ہو کر پھرے۔‏

فرعونی بری طرح ہارے اور بری طرح پسپا ہوئے ۔

وَأُلْقِيَ السَّحَرَةُ سَاجِدِينَ (۱۲۰)

اور وہ جو ساحر تھے سجدہ میں گر گئے۔‏

ادھر جادوگر اپنا ایمان چھپا نہ سکے جان کے خوف کے باوجود وہ اسی میدان میں سجدہ ریز ہوگئے

قَالُوا آمَنَّا بِرَبِّ الْعَالَمِينَ (۱۲۱)

کہنے لگے ہم ایمان لائے رب العالمین پر  

اور کہنے لگے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس جادو نہیں ۔ یہ تو اللہ کی طرف سے معجزہ ہے جو خود اللہ نے اسے عطا فرما رکھا ہے ۔ ہم تو اس اللہ پر ایمان لائے ۔ حقیقتاً رب العالمیں وہی ہے ۔

رَبِّ مُوسَى وَهَارُونَ (۱۲۲)

جو موسیٰ اور ہارون کا بھی رب ہے  

پھر کسی کو کچھ اور شبہ نہ ہو یا کوئی کسی طرح کی تاویل نہ کر سکے اور صفائی کر دی کہ ان دونوں بھائیوں اور اللہ کے سچے نبیوں یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہما السلام کے پروردگار کو ہم نے تو مان لیا ۔

حضرت قاسمؒ کا بیان ہے:

 جب یہ سجدے میں گرے تو اٹھنے سے پہلے ہی پروردگار عالم نے دوزخ دکھائی جس سے انہیں بچایا گیا تھا اور جنت دکھائی جو انہیں دی گئی ۔

قَالَ فِرْعَوْنُ آمَنْتُمْ بِهِ قَبْلَ أَنْ آذَنَ لَكُمْ ۖ

فرعون کہنے لگا کہ تم موسیٰ پر ایمان لائے ہو بغیر اس کے کہ میں تم کو اجازت دوں؟

جادوگروں کے اس طرح مجمع عام میں ہار جانے پھر اس طرح سب کے سامنے بےدھڑک اسلام قبول کر لینے سے فرعون آگ بگولا ہو گیا

إِنَّ هَذَا لَمَكْرٌ مَكَرْتُمُوهُ فِي الْمَدِينَةِ لِتُخْرِجُوا مِنْهَا أَهْلَهَا ۖ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ (۱۲۳)

بیشک یہ سازش تھی جس پر تمہارا عمل درآمد ہوا ہے اس شہر میں تاکہ تم سب اس شہر سے یہاں کے رہنے والوں کو باہر نکال دو۔ سو اب تم کو حقیقت معلوم ہوئی جاتی ہے

اور اس اثر کو روکنے کیلئے سب سے پہلے تو ان مسلمانوں سے کہنے لگا تمہارا بھید مجھ پر کھل گیا ہے تم سب مع موسیٰ کے ایک ہی ہو یہ تمہارا استاد ہے تم اس کے شاگرد ہو

إِنَّهُ لَكَبِيرُكُمُ الَّذِى عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ (۲۰:۷۱)

یقیناً تمہارا بڑا بزرگ ہے جس نے تم سب کو جادو سکھایا ہے،

 تم نے آپس میں پہلے یہ طے کیا کہ بھئی تو پہلے چلا جا پھر ہم آجائیں گے اس طرح میدان قائم ہو ہم مصنوعی لڑائی لڑ کر ہار جائینگے اور اس طرح اس ملک کے اصلی باشندوں کو یہاں سے نکال باہر کریں گے ۔

فرعون کے اس جھوٹ پر اللہ کی مار ہے ۔ کوئی بےوقوف انسان بھی اس کے ایک جملہ کو بھی صحیح نہیں سمجھ سکتا ۔ سب کو معلوم تھا موسیٰ علیہ السلام اپنا بچپن فرعون کے محل میں گزارتے ہیں، اس کے بعد مدین میں عمر کا ایک حصہ بسر کرتے ہیں ، مدین سے سیدھے مصر کو پہنچ کر اپنی نبوت کا اعلان کرتے ہیں اور معجزے دکھاتے ہیں جن سے عاجز آ کر فرعون اپنے جادوگروں کو جمع کرتا ہے وہ براہ راست اس کی سپاہ کے ساتھ اس کے دربار میں پیش ہوتے ہیں انعام و اکرام کے لالچ سے ان کے دل بڑھائے جاتے ہیں وہ اپنی فتح مندی کا یقین دلاتے ہیں فرعون انہیں اپنی رضامندی کا یقین دلاتا ہےخوب تیاریاں کر کے میدان جماتے ہیں حضرت موسیٰ ان میں سے ایک سے بھی واقف نہیں کبھی نہ کسی کو دیکھا ہے نہ سنا ہے نہ ملے ہیں نہ جانتے ہیں ۔

 اور فرعون اس بات کو جانتا ہی تھا مگر جاہل عوام کی ذہنیت کو متاثر ہونے سے بچانا چاہتا تھا جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہےکہ فرعون کی قوم اس کی مطیع تھی اور اس کی ہم خیال بنی ہوئی تھی اور وہ لوگ بڑی زبردست گمراہی میں پڑے ہوئے تھےلیکن فرعون نے جب کہا کہ میں رب اعلیٰ ہوں تو سب نے گردنیں جھکا کر کہا بیشک حضور آپ خدا ہیں تو ایسے جہالت کے پلندوں سے کوئی بات منوا لینی کیا مشکل تھی؟

 اس کے رعب میں آ کر ایمان لانے کا ارادہ بدلا اور سمجھ بیٹھے کہ واقعی فرعون ٹھیک کہہ رہا ہے ۔

ایک قول یہ ہے کہ موسیٰ ؑ نے جادوگروں کے امیر سے فرمایا کہ اگر میں غالب آ جاؤں تو کیا تو مجھ پر ایمان لائے گا؟

 اس نے کہا آج میدان میں ہماری جانب جو جادو پیش کیا جائے گا اس کا جواب ساری مخلوق کے پاس نہیں تو اگر اس پر غالب آ گیا تو مجھے بیشک یقین ہو جائے گا کہ وہ جادو نہیں معجزہ ہے ۔

یہ گفتگو فرعون کے کانوں تک پہنچی اسے یہ دوہرا رہا ہے کہ تم نے ملی بھگت کر لی ۔ اس طرح لوگوں کے دل حقانیت سے ہٹا کر انہیں بدظن کرنے کیلئے دوسری چال یہ چلتا اور کہتا ہے کہ تم اپنے ایکے، اتفاق اور پوشیدہ جال سے چاہتے یہ ہو کہ ہماری دولت و شوکت چھین لو ہمیں یہاں سے نکال باہر کرو،

لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلَافٍ ثُمَّ لَأُصَلِّبَنَّكُمْ أَجْمَعِينَ (۱۲۴)

میں تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹوں گا، پھر تم سب کو سولی پر لٹکا دونگا  

 اس طرح اپنی قوم کے دل ان کی طرف سے پھیر کر پھر انہیں خوفزدہ کرنے کیلئے چال چلتا ہے کہ ان نومسلموں سے کہتا ہے کہ دیکھو تو تمہیں ابھی معلوم ہو جائے گا کہ میں تمہیں کیا سزا دینے والا ہوں ۔ مجھے بھی قسم ہے جو تمہارے ہاتھ پاؤں نہ کٹوائے اور وہ بھی الٹی طرح یعنی پہلے اگر سیدھا ہاتھ کاٹا جائے تو پھر بایاں پاؤں اور اگر پہلے سیدھا پاؤں کاٹا گیا تو پھر الٹا ہاتھ ۔ اسی طرح بےدست و پا کر کے کھجوروں کی شاخوں پر لٹکا دوں گا ۔

فِى جُذُوعِ النَّخْلِ (۲۰:۷۱)

کھجور کے تنوں میں سولی پر لٹکوا دوں گا

تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ اس ظالم بادشاہ سے پہلے ان دونوں سزاؤں کا رواج نہ تھا ۔

قَالُوا إِنَّا إِلَى رَبِّنَا مُنْقَلِبُونَ (۱۲۵)

انہوں نے جواب دیا کہ ہم (مر کر) اپنے مالک ہی کے پاس جائیں گے  

یہ دھمکی دے کر وہ سمجھتا تھا کہ اب یہ نرم پڑ جائیں گے لیکن وہ تو ایمان میں اور پختہ ہوگئے ، بالاتفاق جواب دیتے ہیں کہ اچھا ڈرایا ؟ یہاں سے تو واپس اللہ کے پاس جانا ہی ہے

وَمَا تَنْقِمُ مِنَّا إِلَّا أَنْ آمَنَّا بِآيَاتِ رَبِّنَا لَمَّا جَاءَتْنَا ۚ

اور تو نے ہم میں کون سا عیب دیکھا ہے بجز اسکے کہ ہم اپنے رب کے احکام پر ایمان لائے ہیں جب وہ ہمارے پاس آئے۔

اسی کے قبضہ و قدرت میں سب کچھ ہے آج اگر تیری سزاؤں سے بچ گئے تو کیا اللہ کے ہاں کی سزائیں بھی معاف ہو جائیں گی؟ ہمارے نزدیک تو دنیا کی سزائیں بھگت لینا بہ نسبت آخرت کے عذاب کے بھگتنے کے بہت ہی آسان ہے ۔ تو ہم سے اللہ کے نبی کا مقابلہ کراچکا ہے لیکن اب جبکہ ہم پر حق واضح ہو گیا ہم اس پر ایمان لے آئے تو تو چڑ رہا ہے ۔

رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ (۱۲۶)

اے ہمارے رب ہمارے اوپر صبر کا فیضان فرما اور ہماری جان حالت اسلام پر نکال

کہنے کو تو یہ سب کچھ کہہ گئے لیکن پھر خیال آیا کہ کہیں ہمارا قدم پھسل نہ جائے اس لئے دعا میں دل کھول دیا کہ اے اللہ ہمیں صبر عطا فرما، ثابت قدمی دے، ہمیں اسلام پر ہی موت دے ، تیرے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اتباع کرتے ہوئے ہی دنیا سے رخصت ہوں ۔ ایسا نہ ہو اس ظالم کے رعب میں یا اس کی دھمکیوں میں آ جائیں یا سزاؤں سے ڈر جائیں یا ان کے برداشت کی تاب نہ لائیں ۔

 ان دعاؤں کے بعد دل بڑھ جاتے ہیں، ہمتیں دگنی ہو جاتی ہیں فرعون کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتے ہیں تجھے جو کرنا ہے اس میں کمی نہ کر، کسر اٹھا نہ رکھ، جو جی میں ہے کر گزر تو دنیا ہی میں سزائیں دے سکتا ہے ۔ ہم صبر کرلیں گے کیا عجب کہ ہمارے ایمان کی وجہ سے اللہ ہماری خطائیں معاف فرمائے خصوصاً ابھی کی یہ خطا کہ ہم نے جھوٹ سے سچ کا مقابلہ کیا ۔

قَالُواْ لَن نُّؤْثِرَكَ عَلَى مَا جَآءَنَا مِنَ الْبَيِّنَـتِ ۔۔۔ فَأُوْلَـئِكَ لَهُمُ الدَّرَجَـتُ الْعُلَى (۲۰:۷۲،۷۵)

انہوں نے جواب دیا کہ ناممکن ہے کہ ہم تجھے ترجیح دیں ان دلیلوں پر جو ہمارے سامنےآ چکیں ہیں، اور اس اللہ پر جس نے ہمیں پیدا کیا ہے اب تو تو جو کچھ کرنے والا ہے کر گزر، تو جو کچھ بھی حکم چلا سکتا ہے وہ اسی دنیاوی زندگی میں ہی ہے۔‏

ہم (اس امید سے) اپنے پروردگار پر ایمان لائے کہ وہ ہماری خطائیں معاف فرما دے اور جادوگری جس پر تم نے ہمیں مجبور کیا ہے اللہ ہی بہتر اور ہمیشہ باقی رہنے والا ہے ۔

 بات یہی ہے کہ جو بھی گناہ گار بن کر اللہ تعالیٰ کے ہاں حاضر ہوگا اس کے لئے دوزخ ہے، جہاں نہ موت ہوگی اور نہ زندگی

 اور جو بھی اس کے پاس ایماندار ہو کر حاضر ہوگا اور اس نے اعمال بھی نیک کئے ہونگے اس کے لئے بلند و بالا درجے ہیں

وَقَالَ الْمَلَأُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ أَتَذَرُ مُوسَى وَقَوْمَهُ لِيُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ۚ

اور قوم فرعوں کے سرداروں نے کہا کہ کیا آپ موسیٰ ؑ  اور ان کی قوم کو یوں ہی رہنے دیں گے کہ وہ ملک فساد کرتے پھریں اور آپ کو اور آپ کے معبودوں کو ترک کیئے رہیں

فرعون اور فرعونیت نے حضرت موسیٰؑ اور مسلمانوں کے خلاف جو منصوبے سوچے ان کا بیان ہو رہا ہے کہ ایک دوسرے کو ان مسلمانوں کے خلاف ابھارتے رہے کہنے لگے یہ تو آپ کی رعایا کو بہکاتے ہیں بغاوت پھیلا دیں گے ملک میں بد امنی پیدا کریں گے ان کا ضرور اور جلد کوئی انتظام کرنا چاہئے ،اللہ کی شان دیکھئے کیا مصلح بنے ہوئے ہیں کہ اللہ کے رسول اور مؤمنوں کے فساد سے دنیا کو بچانا چاہتے ہیں حالانکہ مفسد اور بد نفس خود ہیں ۔

وَيَذَرَكَ میں بعض تو کہتے ہیں واؤ حالیہ ہے یعنی در آنحالیکہ موسیٰ اور قوم موسیٰ نے تیری پرستش چھوڑ رکھی ہے پھر بھی تو انہیں زندہ رہنے دیتا ہے؟

حضرت ابی بن کعبؒ کی قرأت میں ہے وقد ترکوک ان یعبدوا الھتک اور قول ہے کہ واؤ عاطفہ ہے یعنی تو نے انہیں چھوڑ رکھا ہے ۔ جس فساد کو یہ برپا کر رہے ہیں اور تیرے معبودوں کے چھوڑنے پر اکسا رہے ہیں ۔

 بعض کی قرأت اِلَاهَتَكَہے یعنی تیری عبادت سے،

 بعض کا بیان ہے کہ فرعون بھی کسی کو پوجا کرتا تھا۔

ایک قول ہے کہ اسے وہ پوشیدہ راز میں رکھتا تھا،

 ایک روایت میں ہے کہ اس کا بت اس کی گردن میں ہی لٹکتا رہتا تھا جسے یہ سجدہ کرتا تھا ۔

 یہ بھی کہا گیا ہے کہ کسی بہترین گائے پر فرعون کی نگاہ پڑی جاتی تو لوگوں سے کہہ دیتا کہ اس کی پرستش کرو۔ اسی لئے سامری نے بھی بنی اسرائیل کے لئے بچھڑا نکالا ۔

قَالَ سَنُقَتِّلُ أَبْنَاءَهُمْ وَنَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قَاهِرُونَ (۱۲۷)

فرعون نے کہا ہم ابھی ان لوگوں کے بیٹوں کو قتل کرنا شروع کر دینگے اور عورتوں کو زندہ رہنے دیں گے اور ہم کو ان پر ہر طرح کا زور ہے۔

 الغرض اپنے سرداروں کی بات سن کر فرعون جواب دیتا ہے کہ اب سے ان کے لئے ہم احکام جاری کریں گے کہ ان کے ہاں جو اولاد ہو دیکھ لی جائے ۔ اگر لڑکا ہو تو قتل کر دیا جائے لڑکی ہو تو زندہ چھوڑ دی جائے ۔

 پہلے سرکش فرعون ان مساکین کے ساتھ یہی کر چکا تھا جبکہ اسے یہ منظور تھا کہ حضرت موسیٰ پیدا ہی نہ ہوں ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا ارادہ غالب آیا اور حضرت موسیٰؑ باوجود اس کے حکم کے زندہ و سالم بچے رہے اب دوبارہ اس نے یہی قانون جاری کر دیا تاکہ بنی اسرائیل کی جمعیت ٹوٹ جائے ، یہ کمزور پڑ جائیں اور بالآخر ان کا نام مٹ جائے لیکن قدرت نے اس کا بھی خلاف کر دکھایا ، اسی کو اور اس کی قوم کو غارت کر دیا اور بنی اسرائیل کو اوج و ترقی پر پہنچا دیا ۔

قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ اسْتَعِينُوا بِاللَّهِ وَاصْبِرُوا ۖ

موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا اللہ تعالیٰ کا سہارا حاصل کرو اور صبر کرو،

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس تکبر کے مقابلے میں تحمل اور اس کے ظلم کے مقابلے میں صبر سے کام لیا

إِنَّ الْأَرْضَ لِلَّهِ يُورِثُهَا مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۖ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ (۱۲۸)

یہ زمین اللہ تعالیٰ کی ہے، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے وہ مالک بنا دے اور آخر کامیابی ان ہی کی ہوتی ہے جو اللہ سے ڈرتے ہیں ۔

اپنی قوم کو سمجھایا اور بتایا کہ اللہ فرما چکا ہے کہ لحاظ سے تم ہی اچھے رہو گے تم اللہ سے مدد چاہو اور صبر کرو ۔

قَالُوا أُوذِينَا مِنْ قَبْلِ أَنْ تَأْتِيَنَا وَمِنْ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا ۚ

قوم کے لوگ کہنے لگے کہ ہم تو ہمیشہ مصیبت ہی میں رہے، آپ کی تشریف آوری سے قبل بھی اور آپکی تشریف آوری کے بعد بھی

قوم والوں نے کہا اے اللہ کے نبی آپ کی نبوت سے پہلے بھی ہم اس طرح ستائے جاتے رہے ، اسی ذلت و اہانت میں مبتلا رہے اور اب پھر یہی نوبت آئی ہے ۔

قَالَ عَسَى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَيَسْتَخْلِفَكُمْ فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ (۱۲۹)

موسیٰ ؑ نے فرمایا کہ بہت جلد اللہ تمہارے دشمن کو ہلاک کرے گا اور بجائے انکے تم کو اس سرزمین کا خلیفہ بنا دے گا پھر تمہارا طرز عمل دیکھے گا ۔‏

آپ نے مزید تسلی دی اور فرمایا کہ گھبراؤ نہیں ۔ یقین مانو کہ تمہارا بدخواہ ہلاک ہوگا اور تم کو اللہ تعالیٰ عروج پر پہنچائے گا ۔ اس وقت وہ دیکھے گا کہ کون کتنا شکر بجا لاتا ہے؟

 تکلیف کا ہٹ جانا راحت کامل جانا انسان کو نہال نہال کر دیتا ہے یہ پورے شکریئے کا وقت ہوتا ہے ۔

وَلَقَدْ أَخَذْنَا آلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِينَ وَنَقْصٍ مِنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ (۱۳۰)

ہم نے فرعون والوں کو مبتلا کیا قحط سالی میں اور پھلوں کی کم پیداواری میں، تاکہ وہ نصیحت قبول کریں ۔

اب آل فرعون پر بھی سختی کے مواقع آئے تاکہ ان کی آنکھیں کھلیں اور اللہ کے دین کی طرف جھکیں ، کھیتیاں کم آئیں، قحط سالیاں پڑ گئیں ، درختوں میں پھل کم لگے یہاں تک کہ ایک درخت میں ایک ہی کھجور لگی یہ صرف بطور آزمائش تھا کہ وہ اب بھی ٹھیک ٹھاک ہو جائیں ۔

فَإِذَا جَاءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوا لَنَا هَذِهِ ۖ وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَطَّيَّرُوا بِمُوسَى وَمَنْ مَعَهُ ۗ

سو جب خوشحالی آجاتی تو کہتے یہ تو ہمارے لئے ہونا ہی تھا اور اگر ان کو کوئی بدحالی پیش آتی تو موسیٰ ؑ اور ان کے ساتھیوں کی نحوست بتلاتے

لیکن ان عقل کے اندھوں کو راستی سے دشمنی ہو گئی شادابی اور فراخی دیکھ کر تو اکڑ کر کہتے کہ یہ ہماری وجہ سے ہے اور خشک سالی اور تنگی دیکھ کر آواز لگاتے کہ یہ موسیٰ اور مؤمنوں کی وجہ سے ہے ۔

أَلَا إِنَّمَا طَائِرُهُمْ عِنْدَ اللَّهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ (۱۳۱)

یاد رکھو ان کی نحوست اللہ تعالیٰ کے پاس ہے لیکن ان کے اکثر لوگ نہیں جانتے۔‏

 جب کہ مصیبتیں اور راحتیں اللہ کی جانب سے ہیں لیکن بےعملی کی باتیں بناتے رہے ان کی بد شگونی ان کے بد اعمال تھے جو اللہ کی طرف سے ان پر مصیبتیں لاتے تھے ۔

وَقَالُوا مَهْمَا تَأْتِنَا بِهِ مِنْ آيَةٍ لِتَسْحَرَنَا بِهَا فَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ (۱۳۲)

اور یوں کہتے کیسی ہی بات ہمارے سامنے لاؤ کہ انکے ذریعے سے ہم پر جادو چلاؤ جب بھی تمہاری بات ہرگز نہ مانیں گے

ان کی سرکشی اور ضد دیکھئے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے صاف کہتے ہیں کہ آپ خواہ کتنی ہی دلیلیں پیش کریں کیسے ہی معجزے بتائیں ہم ایمان لانے والے نہیں ۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ سب آپ کے جادو کے کرشمے ہیں ۔

فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الطُّوفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ آيَاتٍ مُفَصَّلَاتٍ فَاسْتَكْبَرُوا وَكَانُوا قَوْمًا مُجْرِمِينَ (۱۳۳)

پھر ہم نے ان پر طوفان بھیجا اور ٹِڈیاں گھن کا کیڑا اور مینڈک اور خون، کہ یہ سب کھلے کھلے معجزے تھے سو وہ تکبر کرتے رہے اور وہ لوگ کچھ تھے ہی جرائم پیشہ۔‏

ان پر طوفان آیا، بکثرت بارشیں برسیں جس سے پھل اور اناج تباہ ہوگئے اور اسی سے وبا اور طاعون کی بیماری پھیل پڑی۔ اسی لئے بعض مفسرین نے کہا ہے طوفان سے مراد موت ہے ۔

 بعض کہتے ہیں کوئی زبردست آسمانی آفت آئی تھی جس نے انہیں گھیر لیا تھا ۔

 ٹڈیوں کی مصیبت ان پر آئی ۔ یہ ایک حلال جانور ہے ۔

 عبداللہ بن ابی اونی سے سوال ہوا تو آپ نے فرمایا سات غزوے میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کئے ہیں۔ ہر ایک میں ہم تو ٹڈیاں کھاتے رہے،

مسند احمد اور ابن ماجہ میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 دو مردے اور دو خون ہمارے لئے حلال کئے گئے ہیں

- مچھلی اور ٹڈی

- کلیجی اور تلی ۔

 ابو داؤد میں ہے:

 حضور ﷺسے ٹڈی کی نسبت سوال ہوا تو آپ نے فرمایا اللہ کے لشکر بہت سے ہیں جنہیں نہ کھاتا ہوں نہ حرام کہتا ہوں ۔حضور ﷺنے جی نہ چاہنے کی وجہ سے اسے چھوڑ دیا جیسے کہ گوہ آپ نے نہیں کھایا حالانکہ دوسروں کو اس کے کھانے کی اجازت مرحمت فرمائی ۔

حافظ ابن عساکر رحمت اللہ علیہ نے ایک مستقل رسالہ اسی میں تصنیف فرمایا ہے اس میں ایک روایت یہ بھی ہے:

 حضورﷺ ٹڈی نہیں کھاتے تھے اور نہ گردے کھاتے تھے اور نہ گوہ ۔ لیکن انہیں آپ نے حرام نہیں کیا ۔

 ٹڈی اس وجہ سے کہ وہ عذاب ہے ،

گردے اس وجہ سے کہ یہ پیشاب کے قریب ہیں

اور گوہ اس وجہ سے کہ آپ کو خوف تھا کہ کہیں یہ مسخ شدہ اُمت نہ ہو ،

 پھر یہ روایت بھی غریب ہے صرف یہی ایک سند ہے ،

 امیر المؤمنین حضرت عمر بن خطاب ؓ ٹڈی کو بڑی رغبت سے کھایا کرتے ، تلاش کر کے منگوایا کرتے ۔ چنانچہ کسی نے آپ سے مسئلہ پوچھا کہ ٹڈی کھائی جائے؟ آپ نے فرمایا کاش کہ ایک دو لپیں  مل جاتیں تو کیسے مزے سے کھاتے ۔

 ابن ماجہ میں ہے کہ امہات المؤمنین تو طباقوں میں لگا کر ٹڈیاں ہدیے اور تحفے کے طور پر بھیجتی تھیں ۔

امام بغویؒ ایک روایت لائے ہیں کہ حضور ﷺنے فرمایا حضرت مریم بنت عمران علیہما السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ ایسا گوشت مجھے کھلا جس میں خون نہ ہواللہ تعالیٰ نے انہیں ٹڈی کھلائی آپ نے ان کے لئے دعا کی کہ اے اللہ اسے بغیر دودھ پینے کے زندگی دے اور اس کی اولاد کو بغیر آواز نکالے اس کے پیچھے لگا دے ۔

 ایک بہت ہی غریب حدیث میں ہے کہ ٹڈیوں کو مارو نہیں یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا لشکر ہے ۔

 مجاہدؒ فرماتے ہیں یہ ٹڈیاں ان کے دروازوں کی کیلیں کھا جاتی تھیں اور لکڑی چھوڑ دیتی تھیں

 اور زاعیؒ کہتے ہیں میں ایک دن جنگل میں تھا کیا دیکھتا ہوں کہ ٹڈیاں بہت سی آسمان کی طرف ہیں اور ان میں سے ایک ٹڈی پر ایک شخص سوار ہے جو ہتھیار بند ہے جو جس طرف اشارہ کرتا ہے ساری ٹڈیاں اس طرف کو جھک جاتی ہیں اور وہ زبان سے برابر کہہ رہا ہے کہ دنیا باطل ہے اور اس میں جو ہے وہ بھی باطل ہے ۔

 شریح قاضی فرماتے ہیں اس جانور میں سات مختلف جانوروں کی شان ہے اس کا سر گو گھوڑے جیسا ہے گردن بیل جیسی ہے سینہ شیر جیسا ہے پر گدھ جیسے ہیں پیر اونٹ جیسے ہیں دم سانپ کی طرح کی ہے ۔ پیٹ بچھو جیسا ہے

 آیت أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ (۵:۹۶) کی تفسیر میں یہ روایت گزر چکی ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج یا عمرے میں جا رہے تھے تو سامنے سے ہمیں ٹڈی دل ملا ہم نے احرام کی حالت میں انہیں لکڑیوں سے مارنا شروع کیا حضور ﷺسے سوال کرنے پر آپ نے فرمایا دریائی شکار میں محرم کو کوئی حرج نہیں ۔

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب ان ٹڈیوں کیلئے بد دعا کرتے تو فرماتے اے اللہ جتنی ان میں سے بڑی ہیں تو انہیں سب کو ہلاک کر ڈال اور جتنی چھوٹی ہیں سب کو قتل کر ڈال ان کے انڈے خراب کر دے ان کی نسل کاٹ دے ان کے منہ ہماری روزی سے روک لے ہمیں روزیاں عطا فرما بیشک تو دعاؤں کا سننے والا ہے ۔

 اس پر حضرت جابر ؓنے عرض کیا یا رسول اللہ اللہ کے ایک لشکر کے غارت و برباد ہو جانے کی آپ دعا کرتے ہیں؟

 تو آپﷺ نے فرمایا کہ یہ تو سمندر کے اندر کی مچھلیوں کا ناک جھاڑن ہے ۔

 چنانچہ بعض لوگوں نے اسے مچھلی میں سے اسی طرح نکلتے دیکھا ہے ۔ جب مچھلی سمندر کے کنارے انڈے دے جاتی ہے وہاں سے جب پانی ہٹ جاتا ہے اور دھوپ پڑنے لگتی ہے تو وہ انڈے سب کے سب پھوٹ جاتے ہیں اور ان میں سے ٹڈیاں نکلتی ہیں جو پرواز کر جاتی ہیں ۔

آیت قرآن إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُم (۶:۳۸) کی تفسیر میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وہ حدیث ہم نے بیان کر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ہزار اُمتیں پیدا کی ہیں جن میں سے چھ سو تری میں ہیں اور چار سو خشکی میں ۔ سب سے پہلے ہلاکت ٹڈیوں کی ہوگی ۔

 امام ابوبکر بن ابو داؤد ایک حدیث لائے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 لکڑی تلوار کے مقابلے پر کچھ نہیں اور درخت کی چھال ٹڈی کے مقابلے میں کچھ نہیں

یہ حدیث غریب ہے ۔

قُمَّلَ کے بارے میں ابن عباسؓ سے منقول ہے یہ وہ سیاہ رنگ کے چھوٹے چھوٹے جانور ہیں جو گیہوں میں سے نکلتے ہیں

 اور قول ہے کہ یہ بھی ایک قسم کی بےپر کی ٹڈیاں ہیں ۔

 سعید کہتے ہیں سیاہ رنگ کے چھوٹے سے کیڑے ہیں ۔

 اس کا واحد قملہ ہے ۔ یہ جانور جب اونٹ کو چمٹ جاتے ہیں تو اسے ہلاک کر دیتے ہیں ۔

وَلَمَّا وَقَعَ عَلَيْهِمُ الرِّجْزُ قَالُوا يَا مُوسَى ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِنْدَكَ ۖ

اور جب کوئی عذاب ان پر واقع ہوتا تو یوں کہتے کہ اے موسیٰ ہمارے لئے رب سے اس بات کی دعا کر دیجئے! جس کا اس نے آپ سے عہد کر رکھا ہے،

لَئِنْ كَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ لَنُؤْمِنَنَّ لَكَ وَلَنُرْسِلَنَّ مَعَكَ بَنِي إِسْرَائِيلَ (۱۳۴)

اگر آپ اس عذاب کو ہم سے ہٹا دیں تو ہم ضرور ضرور آپ کے کہنے سے ایمان لے آئیں گے اور ہم بنی اسرائیل کو بھی (رہا کر کے) آپ کے ہمراہ کر دیں گے۔‏

فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُمُ الرِّجْزَ إِلَى أَجَلٍ هُمْ بَالِغُوهُ إِذَا هُمْ يَنْكُثُونَ (۱۳۵)

پھر جب ان سے عذاب کو ایک خاص وقت تک کہ اس تک ان کو پہنچنا تھا ہٹا دیتے، تو وہ فوراً عہد شکنی کرنے لگتے ۔

الغرض ایسے ہی موذی جانور بصورت عذاب فرعونیوں کے لئے بھیجے گئے تھے ۔ فرعون کی سرکشی اور انکار پر طوفان آیا جس سے انہیں یقین ہو گیا کہ یہ اللہ کا عذاب ہے ۔ گڑ گڑا کر حضرت موسیٰؑ سے عرض کرنے لگے کہ اللہ سے دعا کیجئے یہ موسلا دھار پانی رک جائے تو ہم آپ پر ایمان لائیں گے اور بنی اسرائیل کو آپ کے ساتھ کر دیں گے ۔آپ نے دعا کی طوفان ہٹ گیا تو یہ اپنے وعدے سے پھر گئے ۔

 پھر اللہ کی شان ہے کہ کھیتیاں اور باغات اس قدر پھلے کہ اس سے پہلے کبھی ایسے نہیں پھلے تھے جب تیار ہوگئے تو ٹڈیوں کا عذاب آیا اسے دیکھ کر پھر گھبرائے اور موسیٰ علیہ السلام سے عرض کرنے لگے کہ اللہ سے دعا کیجئے کہ یہ عذاب ہٹا لے اب ہم پختہ وعدہ کرتے ہیں آپ کی دعا سے یہ عذاب بھی ہٹ گیا لیکن انہوں نے پھر وعدہ شکنی کی ۔ فصلیں کاٹ لائے کھلیان اٹھا لئے ۔

لیکن اللہ تعالیٰ کا عذاب پھر اور شکل میں آیا تمام اناج وغیرہ میں کیڑا لگ گیا اس قدر بکثرت یہ جانور پھیل گئے کہ دس پیمانے لے کر کوئی شخص پسوانے نکلتا تو پسوائے تک وہ جانور سات پیمانے کھا لیتے۔ گھبرا کر نبی ؑ کی طرف متوجہ ہوئے پھر وعدے کئے آپ پھر دعا کی اللہ تعالیٰ نے اس آفت کو بھی ہٹا لیا ۔ لیکن انہوں نے پھر بے ایمانی کی ۔ نہ بنی اسرائیل کو رہا کیا نہ ایمان قبول کیا ۔

 اس پر مینڈکوں کا عذاب آیا ۔ دربار میں فرعون بیٹھا ہوا ہے تو وہیں مینڈک ظاہر ہو کر ٹرانے لگا سمجھ گئے کہ یہ نئی شکل کا عذاب الہٰی ہے ۔ اب یہ پھیلنے اور بڑھنے شروع ہوئے یہاں تک کہ آدمی بیٹھتا تو اس کی گردن تک آس پاس سے اسے مینڈک گھیر لیتے ۔ جہاں بات کرنے کیلئے کوئی منہ کھولتا کہ مینڈک تڑپ کر اس کے منہ میں گھس جاتا ۔

پھر تنگ آکر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اس عذاب کے ہٹنے کی درخواست کی اور اقرار کیا کہ ہم خود ایمان لائیں گے اور بنی اسرائیل کو بھی آزاد کر دیں گے آپ نے دعا کی اللہ تعالیٰ نے اس مصیبت کو بھی دفع کر دیا لیکن پھر مکر گئے ۔

 چنانچہ ان پر خون کا عذاب آیا تمام برتنوں میں خون کھانے پینے کی چیزوں میں خون کنویں میں سے پانی نکلالیں تو خون ۔ تالاب سے پانی لائیں تو خون ۔ پھر تڑپ اٹھے فرعون نے کہا یہ بھی جادو ہے لیکن جب تنگ آ گئے تو آخر حضرت موسیٰ سے مع وعدہ درخواست کی کہ ہم تو پانی سے ترس گئے ۔

چنانچہ آپ نے قول قرار لے کر پھر دعا کی اور اللہ نے اس عذاب کو بھی ہٹا لیا لیکن یہ پھر منکر ہوگئے ۔

فرعون جب میدان سے ناکام واپس لوٹا تھا اس نے ٹھان لی تھی کہ خواہ کچھ بھی ہو میں ایمان نہ لاؤں گا۔ چنانچہ طوفان کی وجہ سے بھوکوں مرنے لگے پھر ٹڈیوں کا عذاب آیا تو درخت تو کیا گھر کی چوکھٹیں اور دروازوں تک وہ کھا گئیں مکانات گرنے لگے پھر حضرت موسیٰؑ نے اللہ کے حکم سے ایک پتھر پر لکڑی ماری ۔ جس میں سے بیشمار چچڑیاں نکل پڑیں اور پھیل گئیں ۔ کھانا ، پینا ، سونا ، بیٹھنا ، سب بند ہو گیا ۔ پھر مینڈکوں کا عذاب آیا جہاں دیکھو مینڈک نظر آنے لگے ۔ پھر خون کا عذاب آیا نہریں ، تالاب ، کنویں ، مٹکے گھڑے وغیرہ غرض بجائے پانی کے خون ہی خون سب چیزیں ہو گئیں۔

عبید اللہ بن عمرو فرماتے ہیں:

 مینڈک کو نہ مارو یہ جب بصورت عذاب فرعونیوں کے پاس آئے تو ایک نے اللہ کی رضا جوئی کے لئے تنور میں چھلانگ ماری ۔ اللہ نے اس کے بدلے انہیں پانی کی ٹھنڈک عطا فرمائی اور ان کی آواز کو اپنی تسبیح بنایا ۔

یہ بھی مروی ہے کہ خون سے مراد نکسیر پھوٹنا ہے

 الغرض ہر عذاب کو دیکھ کر اقرار کرتے لیکن جب حضرت موسیٰ ؑ کی دعا سے وہ ہٹ جاتا تو پھر انکار کر جاتے ۔

فَانْتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْنَاهُمْ فِي الْيَمِّ بِأَنَّهُمْ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَكَانُوا عَنْهَا غَافِلِينَ (۱۳۶)

پھر ہم نے ان سے بدلہ لیا یعنی ان کو دریاؤں میں غرق کر دیا اور اس سبب سے کہ وہ ہماری آیتوں کو جھٹلاتے تھے اور ان سے بالکل غفلت کرتے تھے ۔

جب یہ لوگ اپنی سرکشی اور خود پسندی میں اتنے بڑھ گئے کہ باری تعالیٰ کی بار بار کی نشانیاں دیکھتے ہوئے بھی ایمان لانے سے برابر انکار کرتے رہے تو قدرت نے اپنے زبر دست انتقام میں انہیں پھانس لیا اور سب کو دریا برد کر دیا ۔

بنی اسرائیل بحکم اللہ تعالیٰ ہجرت کر کے چلے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے دریا ان کے لئے خشک ہو گیا پھر فرعون اور اس کے ساتھی اس میں اترے تو دریا میں پھر روانی آ گئی اور پانی کا ریلہ آیا اور وہ سب ڈوب گئے ۔یہ تھا انجام اللہ کی باتوں کو جھوٹ سمجھنے اور ان سے غافل رہنے کا ۔

وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِينَ كَانُوا يُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا ۖ

اور ہم نے ان لوگوں کو جو بالکل کمزور شمار کئے جاتے تھے اس سرزمین کے پورب پچھم کا مالک بنادیا جس میں ہم نے برکت رکھی

پھر پروردگار نے بنو اسرائیل جیسے کمزور ناتواں لوگوں کو اس زمین کا وارث بنا دیا ۔ مشرق و مغرب ان کے قبضے میں آگیا

 جیسے فرمان ہے:

وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُواْ فِى الاٌّرْضِ ۔۔۔ وَجُنُودَهُمَا مِنْهُمْ مَّا كَانُواْ يَحْذَرونَ (۲۸:۵،۶)

پھر ہماری چاہت ہوئی کہ ہم ان پر کرم فرمائیں جنہیں زمین میں بیحد کمزور کر دیا گیا تھا، اور ہم انہیں کو پیشوا اور (زمین) کا وارث بنائیں

اور یہ بھی کہ ہم انہیں زمین میں قدرت و اختیار دیں اور فرعون اور ہامان اور ان کے لشکروں کو وہ دکھائیں جس سے وہ ڈر رہے ہیں ۔

فرعونیوں سے ہرے بھرے باغات ،  چشمے ،  کھیتیاں ، عمدہ مقامات ، فراواں نعمتیں چھڑوا کر ہم نے دوسری قوم کے سپرد کر دیں۔ یہ ہماری قدرت کی نشانیوں میں سے ہے ۔ سر زمین شام برکت والی ہے ۔

وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنَى عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ بِمَا صَبَرُوا ۖ

اور آپ کے رب کا نیک وعدہ بنی اسرائیل کے حق میں ان کے صبر کی وجہ سے پورا ہوگیا

بنی اسرائیل کا صبر نیک نتیجہ لایا

وَدَمَّرْنَا مَا كَانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهُ وَمَا كَانُوا يَعْرِشُونَ (۱۳۷)

اور ہم نے فرعون کے اور اس کی قوم کے ساختہ پرداختہ کارخانوں کو اور جو کچھ وہ اونچی اونچی عمارتیں بنواتے تھے سب کو درہم برہم کر دیا ۔

فرعون اور اس کی قوم کی بنی بنائی چیزیں غارت ہوئیں ۔

وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ فَأَتَوْا عَلَى قَوْمٍ يَعْكُفُونَ عَلَى أَصْنَامٍ لَهُمْ ۚ

اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار اتار دیا۔ پس ان لوگوں کا ایک قوم پر گزر ہوا جو اپنے چند بتوں سے لگے بیٹھے تھے،

اتنی ساری اللہ کی قدرت کی نشانیاں بنی اسرائیل دیکھ چکے لیکن دریا پار اترتے ہی بت پرستوں کے ایک گروہ کو اپنے بتوں کے آس پاس اعتکاف میں بیٹھے دیکھتے ہیں

قَالُوا يَا مُوسَى اجْعَلْ لَنَا إِلَهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ ۚ

کہنے لگے اے موسیٰ! ہمارے لئے بھی ایک معبود ایسا ہی مقرر کر دیجئے! جیسے ان کے معبود ہیں۔

حضرت موسیٰؑ سے کہنے لگے کہ ہمارے لئے بھی کوئی چیز مقرر کر دیجئے تاکہ ہم بھی اس کی عبادت کریں جیسے کہ ان کے معبود ان کے سامنے ہیں ۔

یہ کافر لوگ کنعانی تھے ایک قول ہے کہ لحم قبیلہ کے تھے

یہ گائے کی شکل کے  بنائے ہوئے بت  کی پوجا کر رہے تھے ۔

قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ (۱۳۸)

آپ نے فرمایا کہ واقعی تم لوگوں میں بڑی جہالت ہے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسکے جواب میں فرمایا تم اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال سے محض نا واقف ہو ۔

إِنَّ هَؤُلَاءِ مُتَبَّرٌ مَا هُمْ فِيهِ وَبَاطِلٌ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (۱۳۹)

یہ لوگ جس کام میں لگے ہیں یہ تباہ کیا جائے گا اور ان کا یہ کام محض بےبنیاد ہے ۔

تم نہیں جانتے کہ اللہ شریک وتمثیل سے پاک اور بلند تر ہے ۔ یہ لوگ جس کام میں مبتلا ہیں وہ تباہ کن ہے اور ان کا عمل باطل ہے ۔

 ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:

 جب لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکے شریف سے حنین کو روانہ ہوئے تو راستے میں انہیں بیری کا وہ درخت ملا جہاں مشرکین مجاور بن کر بیٹھا کرتے تھے اور اپنے ہتھیار وہاں لٹکایا کرتے تھے اس کا نام ذات انواط تھا تو صحابؓہ نے حضور سے عرض کیا کہ ایک ذات انواط ہمارے لئے بھی مقرر کر دیں ۔

آپ ﷺنے فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری ذات ہے کہ تم نے قوم موسیٰ جیسی بات کہہ دی کہ ہمارے لئے بھی معبود مقرر کر دیجئے جیسا ان کا معبود ہے ۔ جس کے جواب میں حضرت کلیم اللہ نے فرمایا تم جاہل لوگ ہو یہ لوگ جس شغل میں ہیں وہ ہلاکت خیز ہے اور جس کام میں ہیں وہ باطل ہے (ابن جریر)

مسند احمد کی روایت میں ہے کہ یہ درخواست کرنے والے حضرت ابو واقد لیثی تھے

جواب سے پہلے یہ سوال سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ اکبر کہنا بھی مروی ہے اور یہ بھی کہ آپ ﷺنے فرمایا کہ تم بھی اپنے اگلوں کی سی چال چلنے لگے ۔

قَالَ أَغَيْرَ اللَّهِ أَبْغِيكُمْ إِلَهًا وَهُوَ فَضَّلَكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ (۱۴۰)

فرمایا کیا اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کو تمہارا معبود تجویز کردوں؟ حالانکہ اس نے تم کو تمام جہان والوں پر فوقیت دی ہے  

انہیں اس گمراہ خیالی سے روکنے کیلئے آپ اللہ تعالیٰ کے احسانات یاد دلا رہے ہیں کہ فرعونیوں کی غلامی سے اللہ نے تمہیں آزادی دلوائی، ذلت و رسوائی سے چھٹکارا دیا ۔ پھر اوج و عزت عطا فرمائی

وَإِذْ أَنْجَيْنَاكُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ ۖ يُقَتِّلُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ ۚ

اور وہ وقت یاد کرو جب ہم نے تم کو فرعون والوں سے بچالیا جو تم کو بڑی سخت تکلیفیں پہنچاتے تھے۔تمہارے بیٹوں کو قتل کر ڈالتے تھے اور تمہاری عورتوں کو زندہ چھوڑ دیتے تھے

تمہارے دیکھتے ہوئے تمہارے دشمنوں کو غارت کر دیا ۔ ایسے رب کے سوا اور کوئی لائق عبادت کیسے ہو سکتا ہے؟ فرعون کے وقت کی اپنی ابتری کو بھول گئے جس سے اللہ نے نجات دی ۔

وَفِي ذَلِكُمْ بَلَاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ (۱۴۱)

اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی بھاری آزمائش تھی

 اس کی پوری تفسیر سورۃ بقرہ میں گزر چکی ہے ۔

وَوَاعَدْنَا مُوسَى ثَلَاثِينَ لَيْلَةً وَأَتْمَمْنَاهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقَاتُ رَبِّهِ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً ۚ

اور ہم نے موسیٰ ؑسے تیس راتوں کا وعدہ کیا اور دس رات مزید سے ان تیس راتوں کو پورا کیا۔ سو ان کے پروردگار کا وقت پورے چالیس رات کا ہوگیا

اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کو اپنا وہ احسان یاد دلاتا ہے جس کی وجہ سے موسیٰ کو شرف ہم کلامی حاصل ہوا اور تورات ملی جو ان سب کے لئے باعث ہدایت و نور تھی جس میں ان کی شریعت کی تفصیل تھی اور اللہ کے تمام احکام موجود تھے ۔ تیس راتوں کا وعدہ ہوا، آپ نے یہ دن روزوں سے گزارے ۔ وقت پورا کر کے ایک درخت کی چھال کو چبا کر مسواک کی ۔ حکم ہوا کہ دس اور پورے کر کے پورے چالیس کرو ۔

 کہتے ہیں کہ ایک مہینہ تو ذوالقعدہ کا تھا اور دس دن ذوالحجہ کے ۔ تو عید والے دن وہ وعدہ پورا ہوا اور اسی دن اللہ کے کلام سے آپ کو شرف ملا اسی دن دین محمدی بھی کامل ہوا ہے ۔

جیسے اللہ کا فرمان ہے:

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ (۵:۳)

آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا

وعدہ پورا کرنے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام نے طور کا قصد کیا جیسے اور آیت میں ہے:

يبَنِى إِسْرَءِيلَ قَدْ أَنجَيْنَـكُمْ مِّنْ عَدُوِّكُمْ وَوَاعَدْنَـكُمْ جَانِبَ الطُّورِ الاٌّيْمَنَ (۲۰:۸۰)

اے بنی اسرائیل! دیکھو ہم نے تمہیں تمہارے دشمن سے نجات دی اور تم سے کوہ طور کی دائیں طرف کا وعدہ

وَقَالَ مُوسَى لِأَخِيهِ هَارُونَ اخْلُفْنِي فِي قَوْمِي وَأَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِيلَ الْمُفْسِدِينَ (۱۴۲)

اور موسیٰ ؑ نے اپنے بھائی ہارون ؑ سے کہا کہ میرے بعد ان کا انتظام رکھنا اور اصلاح کرتے رہنا اور بد نظم لوگوں کی رائے پر عمل مت کرنا

آپ نے جاتے ہوئے اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو اپنا خلیفہ بنایا اور انہیں اصلاح کی اور فساد سے بچنے کی ہدایت کی ۔ یہ صرف بطور وعظ کے تھا ورنہ حضرت ہارون علیہ السلام بھی اللہ کے شریف و کریم اور ذی عزت پیغمبر تھے ۔

وَلَمَّا جَاءَ مُوسَى لِمِيقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ قَالَ رَبِّ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْكَ ۚ

اور جب موسیٰ ؑ ہمارے وقت پر آئے اور ان کے رب نے ان سے باتیں کیں تو عرض کیا کہ اے میرے پروردگار اپنا دیدار مجھ کو کرا دیجئے کہ میں ایک نظر تم کو دیکھ لوں

حسب وعدہ حضرت موسیٰؑ طور پہاڑ پر پہنچے ، اللہ کا کلام سنا تو دیدار کی آرزو کی ، جواب ملا کہ یہ تیرے لئے نا ممکن ہے ۔

 اس سے معتزلہ نے استدلال کیا ہے کہ دنیا اور آخرت میں اللہ کا دیدار نہ ہوگا کیونکہ لَنْ ابدی نفی کے لئے آتا ہے

لیکن یہ قول بالکل ہی بودا ہے کیونکہ متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ مؤمنوں کو قیامت کے دن اللہ کا دیدار ہوگا۔ وہ حدیثیں آیت وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ ـ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ (۷۵:۲۲،۲۳) اور آیت كَلَّا إِنَّهُمْ عَن رَّبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُونَ (۸۳:۱۵) کی تفسیر میں آئیں گی انشاء اللہ تعالیٰ،

ایک قول اس آیت کی تفسیر میں یہ ہے کہ یہ نفی ابدی ہے لیکن دنیاوی زندگی کے لئے نہ کہ آخرت کے لئے بھی ۔ کیونکہ آخرت میں دیدار باری تعالیٰ مؤمنوں کو قطعاً ہوگا جیسے کہ آیات و احادیث سے ثابت ہے اس طرح کوئی معارضہ بھی باقی نہیں رہتا ۔

 یہ آیت مثل لَّا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ (۶:۱۰۳) کے ہے جس کی تفسیر سورۃ انعام میں گزر چکی ہے ۔

 اگلی کتابوں میں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اس درخواست پر ان سے کہا گیا تھا کہ اے موسیٰ مجھے جو زندہ شخص دیکھ لے وہ مر جائے ۔ میرے دیدار کی تاب کوئی زندہ لا نہیں سکتا ۔ خشک چیزیں بھی میری تجلی سے تھرا اٹھتی ہیں چنانجہ پہاڑ کا حال خود کلیم اللہ نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور خود بھی بےہوش ہوگئے ۔

 امام ابو جعفر طبریؒ نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے :

حضور ﷺفرماتے ہیں کہ جب اس کے رب نے پہاڑ پر تجلی ڈالی ، اپنی انگلی سے اشارہ کیا تو وہ چکنا چور ہو گیا ۔

 راوی حدیث ابواسماعیل نے اپنے شاگردوں کو اپنی شہادت کی انگلی سے اشارہ کر کے بتایا ، لیکن اس حدیث کی سند میں ایک راوی مبہم ہے جس کا نام واضح نہیں کیا گیا

ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺنے اپنے انگوٹھے کو اپنی چھنگلیا کی اوپر کی پور پر رکھ کر بتایا کہ اتنے سے جمال سے پہاڑ زمین کے ساتھ ہموار ہو گیا ۔

مسند کی روایت میں ہے کہ حمید نے اپنے استاد سے کہا اس سے آپ کی کیا مراد ہے؟ تو استاد نے ان کے سینے پر ہاتھ مار کر فرمایا کہ یہ میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا بلکہ حضرت انس بن مالکؓ سے میں نے یہ سنا اور انہوں نے آنحضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے ۔

 ترمذی میں بھی یہ روایت  ہے اور امام صاحب نے اسے حسن صحیح غریب فرمایا ہے ۔

 مستدرک میں اسے وارد کر کے کہا ہے کہ یہ شرط مسلم پر ہے اور صحیح ہے ۔

 خلال کہتے ہیں اس کی سند صحیح ہے اس میں کوئی علت نہیں ۔ ابن مردویہ میں بھی مرفوعاً مروی ہے لیکن اس کی بھی سند صحیح نہیں ۔

 ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ صرف بقدر چھنگلی انگلی کے تجلی ہوئی تھی جس سے وہ مٹی کی طرح چور چور ہو گیا اور کلیم اللہ بھی بےہوش ہوگئے ۔

 کہتے ہیں وہ پہاڑ دھنس گیا سمندر میں چلا گیا اور حضرت موسیٰؑ بےہوش ہو کر گر پڑے

 بعض بزرگ فرماتے ہیں وہ پہاڑ اب قیامت تک ظاہر نہ ہوگا بلکہ زمین میں اترتا چلا جاتا ہے ۔

 ایک حدیث میں ہے کہ اس تجلی سے چھ پہاڑ اپنی جگہ سے اڑ گئے جن میں سے تین مکے میں ہیں اور تین مدینے میں ۔ احد رقان اور رضوی مدینے میں ۔ حرا ، ثبیر اور ثور مکے میں ۔

لیکن یہ حدیث بالکل غریب ہے بلکہ منکر ہے ۔

کہتے ہیں کہ طور پر تجلی کے ظہور سے پہلے پہاڑ بالکل صاف تھے اس کے بعد ان میں غار اور کھڈ اور شاخیں قائم ہوگئیں ۔

قَالَ لَنْ تَرَانِي وَلَكِنِ انْظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَانِي ۚ

ارشاد ہوا کہ تم مجھ کو ہرگز نہیں دیکھ سکتے لیکن تم اس پہاڑ کی طرف دیکھتے رہو وہ اگر اپنی جگہ پر برقرار رہا تو تم بھی مجھے دیکھ سکو گے۔

جناب کلیم اللہ کی آرزو کے جواب میں انکار ہوا اور پھر مزید تشفی کے لئے فرمایا گیا کہ میری ادنیٰ سی تجلی کی برداشت تجھ سے تو کیا بہت زیادہ قوی مخلوق میں بھی نہیں ۔ دیکھ پہاڑ کی جانب خیال رکھ

فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَخَرَّ مُوسَى صَعِقًا ۚ

پس جب ان کے رب نے پہاڑ پر تجلی فرمائی تو تجلی نے اس کے پرخچے اڑا دیئے اور موسیٰ ؑ بےہوش ہو کر گر پڑے

پھر اس پر اپنی تجلی ڈالی جس سے پہاڑ جھک گیا اور موسیٰؑ بیہوش ہوگئے صرف اللہ کی نظر نے پہاڑ کو ریزہ ریزہ کر دیا وہ بالکل مٹی ہو کر ریت کا میدان ہو گیا ۔بعض قرأتوں میں اسی طرح ہے اور ابن مردویہ میں ایک مرفوع حدیث بھی ہے

 حضرت موسیٰؑ کو غشی آگئی یہ ٹھیک نہیں کہ موت آ گئی گولغتاً یہ بھی ہو سکتا ہے جیسے آیت فَصَعِقَ مَن فِي السَّمَاوَاتِ (۳۹:۶۸) میں موت کے معنی ہیں ۔ لیکن وہاں قرینہ موجود ہے جو اس لفظ سے اسی معنی کے ہونے کی تائید کرتا ہے اور یہاں کا قرینہ بےہوشی کی تائید کرتا ہے کیونکہ آگے فرمان ہے فَلَمَّا أَفَاقَ ظاہر ہے کہ افاقہ بیہوشی سے ہوتا ہے ۔

فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَكَ

پھر جب ہوش میں آئے تو عرض کیا، بیشک آپ کی ذات پاک ہے

حضرت موسیٰؑ ہوش میں آتے ہی اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی اور تعظیم و جلال بیان فرمانے لگے کہ واقعی وہ ایسا ہی ہے کہ کوئی زندہ اس کے جمال کی تاب نہیں لا سکتا ۔

تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ (۱۴۳)

 میں آپ کی جناب میں توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلے آپ پر ایمان لانے والا ہوں

 پھر اپنے سوال سے توبہ کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ سب بنی اسرائیل سے پہلے میں ایمان لانے والا بنتا ہوں ۔ میں اس پر سب سے پہلے ایمان لاتا ہوں کہ واقعی کوئی زندہ آنکھ تجھے دیکھ نہیں سکتی ۔

یہ مطلب نہیں کہ آپ سے پہلے کوئی مؤمن ہی نہ تھا بلکہ مراد یہ ہے کہ اللہ کا دیدار زندوں کے لئے نا ممکن ہے ۔

 ابن جریر میں اس آیت کی تفسیر میں محمد بن اسحاق بن یسار کی روایت سے ایک عجیب وغریب مطول اثر نقل کیا گیا ہے عجب نہیں کہ یہ اسرائیلی روایتوں میں سے ہو واللہ اعلم ۔

صحیح بخاری شریف میں ہے:

 ایک یہود کو کسی نے ایک تھپڑ مارا تھا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شکایت لایا کہ آپ کے فلاں انصاری صحابی نے مجھے تھپڑ مارا ہے ۔ آپ نے اسے بلوایا اور اس سے پوچھا ۔ اس نے کہا سچ ہے ۔ وجہ یہ ہوئی کہ یہ کہہ رہا تھا اس اللہ کی قسم ہے جس نے موسیٰ کو تمام جہاں پر فضیلت دی تو میں نے کہا کیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ؟ اور غصے میں آ کر میں نے اسے تھپڑ مار دیا ۔

 آپ ﷺنے فرمایا سنو نبیوں کے درمیان تم مجھے فضیلت نہ دیا کرو۔ قیامت میں سب بیہوش ہوں گے سب سے پہلے مجھے ہوش آئے گا تو میں دیکھوں گا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام عرش الہٰی کا پایہ تھامے ہوئے ہیں ۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ انہیں مجھ سے پہلے افاقہ ہوا ؟ یا طور کی بیہوشی کے بدلے یہاں بیہوش ہی نہیں ہوئے؟

یہ حدیث بخاری شریف میں کئی جگہ ہے اور مسلم شریف میں بھی ہے اور ابوداؤد میں بھی ہے ۔

بخاری و مسلم کی ایک اور روایت میں ہے:

ایک مسلمان اور ایک یہودی کا جھگڑا ہو گیا اس پر مسلمان نے کہا اس کی قسم جس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہان پر فضیلت دی اور یہودی نے کہا اس کی قسم جس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تمام جہان پر فضیلت دی ۔ اس پر مسلمان نے اسے تھپڑ مارا ۔

 اس روایت میں ہے کہ شاید موسیٰؑ ان میں سے ہوں جن کا اللہ تعالیٰ نے بیہوشی سے استثنا کر لیا ۔

 حافظ ابوبکر ابن ابی الدنیا ؒ کی روایت میں ہے کہ یہ تھپڑ مارنے والے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے ۔ لیکن بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ یہ کوئی انصاری رضی اللہ عنہ تھے ۔ یہی زیادہ صحیح اور زیادہ صریح ہے۔ واللہ اعلم

 اس حدیث میں یہ فرمان کہ تم نبیوں کے درمیان مجھے فضیلت نہ دو ایسا ہی ہے جیسے اور حدیث میں بھی فرمان ہے :

 نبیوں میں مجھے فضیلت نہ دو ۔ نہ حضرت یونس بن متی علیہ السلام پر فضیلت دو ۔

یہ فرمان بطور تواضع کے ہے یا یہ فرمان اس سے پہلے ہے کہ آپ کو اپنی فضیلت کا علم اللہ کی طرف سے ہوا ہو ۔

 یا یہ مطلب ہے کہ غصے میں آ کر یا تعصب کی بنا پر مجھے فضیلت نہ دو یا یہ کہ صرف اپنی رائے سے میری فضیلت قائم نہ کرو۔ واللہ اعلم

لوگ قیامت کے دن بیہوش ہوں گے یہ بیہوشی میدان قیامت کی بعض ہولناکیوں کی وجہ سے ہوگی واللہ اعلم ۔

 بہت ممکن ہے یہ اس وقت کا حال ہو جب الٰہ الملک و دیان تبارک و تعالیٰ لوگوں کے درمیان حق فیصلے کرنے کیلئے تشریف لائے گا تو اس کی تجلی سے لوگ بیہوش ہو جائیں گے ۔ جیسے حضرت موسیٰ اللہ کے جمال کی برداشت کو طور پر نہ لا سکے ۔ اسی لئے آپﷺ کا فرمان ہے کہ نہ معلوم مجھ سے پہلے انہیں افاقہ ہوا یا طور کی بیہوشی کے بدلے یہاں بیہوش نہ ہوئے ۔

قاضی عیاض رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب الشفا کے شروع میں لکھتے ہیں:

 دیدار الہٰی کی اس تجلی کی وجہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام اس چیونٹی کو بھی دیکھ لیا کرتے تھے جو دس فرسخ دور رات کے اندھیرے میں کسی پتھر پر چل رہی ہو اور بہت ممکن ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان چیزوں سے جن کا ہم نے ذکر کیا معراج کے واقعہ کے بعد مخصوص ہوئے ہوں اور آپ نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں ملاحظہ فرمائیں ۔

 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گویا قاضی صاحب کے نزدیک یہ روایت صحیح ہے حالانکہ اس کی سند غور طلب ہے ۔ اس میں مجہول راوی ہیں اور ایسی باتیں جب تک ثقہ راویوں کے سلسلے نہ ثابت ہوں قابل قبول نہیں ہوتیں ۔ واللہ اعلم ۔

قَالَ يَا مُوسَى إِنِّي اصْطَفَيْتُكَ عَلَى النَّاسِ بِرِسَالَاتِي وَبِكَلَامِي فَخُذْ مَا آتَيْتُكَ وَكُنْ مِنَ الشَّاكِرِينَ (۱۴۴)

ارشاد ہوا اے موسیٰ! میں نے پیغمبری اور اپنی ہم کلامی سے اور لوگوں پر تم کو امتیاز دیا ہے تو جو کچھ تم کو میں نے عطا کیا ہے اسکو لو اور شکر کرو

حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جناب باری تعالیٰ  فرماتا ہے کہ دوہری نعمت آپ کو عطا ہوئی یعنی رسالت اور ہم کلامی ۔

مگر چونکہ ہمارے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام اول و آخر نبیوں کے سردار ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے رسالت ختم کرنے والا آپ کو بنایا کہ قیامت تک آپ ہی کی شریعت جاری رہے گی اور تمام انبیاء اور رسولوں سے آپ کے تابعدار تعداد میں زیادہ ہوں گے

 فضیلت کے اعتبار سے آپ کے بعد سب سے افضل حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں جو خلیل اللہ تھے ۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام ہیں جو کلیم اللہ تھے ۔

 اے موسیٰ جو مناجات اور کلام تجھے میں نے دیا ہے وہ لے لے اور اس پر استقامت رکھ اور اس پر جتنا تجھ سے ہو سکے شکر بجا لایا کر۔

وَكَتَبْنَا لَهُ فِي الْأَلْوَاحِ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَوْعِظَةً وَتَفْصِيلًا لِكُلِّ شَيْءٍ فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ وَأْمُرْ قَوْمَكَ يَأْخُذُوا بِأَحْسَنِهَا ۚ

اور ہم نے چند تختیوں پر ہر قسم کی نصیحت اور ہرچیز کی تفصیل ان کو لکھ کر دی تم ان کو پوری طاقت سے پکڑ لو اور اپنی قوم کو حکم کرو کہ ان کے اچھے اچھے احکام پر عمل کریں

کہا گیا ہے کہ تورات کی تختیاں جواہر کی تھیں اور ان میں اللہ تعالیٰ نے تمام احکام حلال حرام کے تفصیل کے ساتھ لکھ دیئے تھے ان ہی تختیوں میں تورات تھی جس کے متعلق فرمان ہے :

وَلَقَدْ ءَاتَيْنَا مُوسَى الْكِتَـبَ مِن بَعْدِ مَآ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ الاٍّولَى بَصَآئِرَ لِلنَّاسِ (۳۸:۴۳)

اور ان اگلے زمانے والوں کو ہلاک کرنے کے بعد ہم نے موسیٰ ؑ کو ایسی کتاب عنایت فرمائی جو لوگوں کے لئے دلیل اور ہدایت و رحمت ہو کر آئی تھی

یہ بھی مروی ہے کہ تورات سے پہلے یہ تختیاں ملی تھیں واللہ اعلم ۔

الغرض دیدار الہٰی جس کی تمنا آپ نے کی تھی اس کے عوض یہ چیز آپ کو ملی۔ کہا گیا اسے ماننے کے ارادے سے لے لو اور اپنی قوم کو ان اچھائیوں پر عمل کرنے کی ہدایت کرو ۔ آپ کو زیادہ تاکید ہوئی اور قوم کو ان سے کم ۔

سَأُرِيكُمْ دَارَ الْفَاسِقِينَ (۱۴۵)

اب بہت جلد تم لوگوں کو ان بےحکموں کا مقام دکھلاتا ہوں ۔

 تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ میری حکم عدولی کرنے والے کا کیا انجام ہوتا ہے؟ جیسے کوئی کسی کو دھمکاتے ہوئے کہے کہ تم میری مخالفت انجام بھی دیکھ لو گے ۔

یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ میں تمہیں شام کے بدکاروں کے گھروں کا مالک بنا دوں گا یا مراد اس سے فرعونیوں کا ترکہ ہو

 لیکن پہلی بات ہی زیادہ ٹھیک معلوم ہوتی ہے کیونکہ یہ فرمان تیہ کے میدان سے پہلے اور فرعون سے نجات پا لینے کے بعد کا ہے ۔ واللہ اعلم

سَأَصْرِفُ عَنْ آيَاتِيَ الَّذِينَ يَتَكَبَّرُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ

میں ایسے لوگوں کو اپنے احکام سے برگشتہ ہی رکھوں گا جو دنیا میں تکبر کرتے ہیں، جس کا ان کو کوئی حق نہیں

تکبر کا نتیجہ ہمیشہ جہالت ہوتا ہے ایسے لوگوں کو حق سمجھنے ، اسے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق نصیب نہیں ہوتی ۔

وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصَـرَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُواْ بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ (۶:۱۱۰)

اور ہم بھی ان کے دلوں کو اور ان کی نگاہوں کو پھیر دیں گے جیسا کہ یہ لوگ اس پر پہلی دفعہ ایمان نہیں لائے

ان کے بے ایمانی کی وجہ سے ان کے دل الٹ جاتے ہیں ، آنکھ کان بےکار ہو جاتے ہیں ۔ ان کی کجی ان کے دلوں کو بھی کج کر دیتی ہے ۔

فَلَمَّا زَاغُواْ أَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ (۶۱:۵)

پس جب وہ لوگ ٹیڑھے ہی رہے تو اللہ نے انکے دلوں کو (اور) ٹیڑھا کر دیا   

علماء کا مقولہ ہے کہ متکبر اور پوچھنے سے جی چرانے والا کبھی عالم نہیں ہو سکتا ۔ جو شخص تھوڑی دیر کے لئے علم کے حاصل کرنے میں اپنے آپ کو دوسرے کے سامنے نہ جھکائے وہ عمر بھر ذلت و رسوائی میں رہتا ہے ۔

متکبر لوگوں کو قرآن کی سمجھ کہاں؟ وہ تو رب کی آیتوں سے بھاگتے رہتے ہیں ۔ اس اُمت کے لوگ ہوں یا اور اُمتوں کے سب کے ساتھ اللہ کا طریقہ یہی رہا ہے کہ تکبر کی وجہ سے حق کی پیروی نصیب نہیں ہوتی

وَإِنْ يَرَوْا كُلَّ آيَةٍ لَا يُؤْمِنُوا بِهَا وَإِنْ يَرَوْا سَبِيلَ الرُّشْدِ لَا يَتَّخِذُوهُ سَبِيلًا وَإِنْ يَرَوْا سَبِيلَ الْغَيِّ يَتَّخِذُوهُ سَبِيلًا ۚ

اور اگر تمام نشانیاں دیکھ لیں تب بھی وہ ان پر ایمان نہ لائیں اور اگر ہدایت کا راستہ دیکھیں تو اس کو اپنا طریقہ نہ بنائیں اور اگر گمراہی کا راستے دیکھ لیں تو اس کو اپنا طریقہ بنالیں

چونکہ یہ لوگ اللہ کے عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں اگرچہ یہ بڑے بڑے معجزے بھی دیکھ لیں انہیں ایمان نصیب نہیں ہوگا ۔ گو نجات کے راستے ان پر کھل جائیں لیکن اس راہ پر چلنا ان کے لئے دشوار ہے ۔ ہاں بری راہ سامنے آتے ہی یہ بےطرح اس پر لپکے ۔

إِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَةُ ۔۔۔ حَتَّى يَرَوُاْ الْعَذَابَ الاٌّلِيمَ (۱۰:۹۶،۹۷)

یقیناً جن لوگوں کے حق میں آپ کے رب کی بات ثابت ہو چکی ہے وہ ایمان نہ لائیں گے۔ گو ان کے پاس تمام نشانیاں پہنچ جائیں جب تک وہ دردناک عذاب کو نہ دیکھ لیں ۔

ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَكَانُوا عَنْهَا غَافِلِينَ (۱۴۶)

یہ اس سبب سے ہے کہ انہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے غافل رہے ۔

اس لئے کہ ان کے دلوں میں جھٹلانا ہے اور اپنے اعمال کے نتیجوں سے بےخبر ہیں ۔

وَالَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَلِقَاءِ الْآخِرَةِ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ ۚ

اور یہ لوگ جنہوں نے ہماری آیتوں کو اور قیامت کے پیش آنے کو جھٹلایا ان کے سب کام غارت گئے۔

جو لوگ ہماری آیتوں کو جھٹلائیں ، آخرت کا یقین نہ رکھیں ، اسی عقیدے پر مریں ان کے اعمال اکارت ہیں ۔

هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (۱۴۷)

 ان کو وہی سزا دی جائے گی جو کچھ یہ کرتے تھے ۔

 ہم کسی پر ظلم نہیں کرتے بدلہ صرف کئے ہوئے اعمال کا ہی ملتا ہے ۔ بھلے کا بھلا اور برے کا برا، جیسا کر وگے ویسا بھرو گے

وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوسَى مِنْ بَعْدِهِ مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَهُ خُوَارٌ ۚ

اور موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے ان کے بعد اپنے زیوروں کا ایک بچھڑا معبود ٹھہرا لیا جو کہ ایک قالب تھا جس میں ایک آواز تھی۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام تو اللہ کے وعدے کے مطابق تورات لینے گئے ادھر فرعونیوں کے جو زیور بنی اسرائیل کے پاس رہ گئے تھے سامری نے انہیں جمع کیا اور اپنے پاس سے اس میں خاک کی مٹھی ڈال دی جو حضرت جبرائیل علیہ السلام کے گھوڑے کی ٹاپ تلے سے اس نے اٹھالی تھی اللہ کی قدرت سے وہ سونا گل کر مثل ایک گائے کے جسم کے ہو گیا اور چونکہ کھو کھلا تھا اس میں سے آواز بھی آنے لگی اور وہ بالکل ہو بہو گائے کی سی آواز تھی ۔اس نے بنی اسرائیل کو بہکا کر اسکی عبادت کرانی شروع کر دی بہت سے لوگ اسے پوجنے لگے ۔ اللہ تعالیٰ نے طور پر حضرت موسیٰؑ کو اس فتنے کی خبر دی

قَالَ فَإِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَكَ مِن بَعْدِكَ وَأَضَلَّهُمُ السَّامِرِىُّ (۲۰:۸۵)

فرمایا! ہم نے تیری قوم کو تیرے پیچھے آزمائش میں ڈال دیا اور انہیں سامری نے بہکا دیا ہے

یہ بچھڑا یا تو سچ مچ خون گوشت کا بن گیا تھا یا سونے کا ہی تھا مگر شکل گائے کی تھی یہ اللہ ہی جانے ۔ بنی اسرائیل تو آواز سنتے ہی ناچنے لگے اور اس پر ریجھ گئے ۔ سامری نے کہہ دیا کہ اللہ تو یہی ہے موسیٰ ؑبھول گئے ہیں ۔

أَلَمْ يَرَوْا أَنَّهُ لَا يُكَلِّمُهُمْ وَلَا يَهْدِيهِمْ سَبِيلًا ۘ اتَّخَذُوهُ وَكَانُوا ظَالِمِينَ (۱۴۸)

کیا انہوں نے یہ نہ دیکھا کہ وہ ان سے بات نہیں کرتا تھا اور نہ کوئی راہ بتلاتا تھا اس کو انہوں نے معبود قرار دیا اور بڑی بے انصافی کا کام کیا

انہیں اتنی بھی تمیز نہ آئی کہ وہ اللہ تو کسی بات کا جواب بھی نہیں دے سکتا اور کسی نفع نقصان کا اختیار بھی نہیں رکھتا ۔

أَفَلاَ يَرَوْنَ أَلاَّ يَرْجِعُ إِلَيْهِمْ قَوْلاً وَلاَ يَمْلِكُ لَهُمْ ضَرّاً وَلاَ نَفْعاً (۲۰:۸۹)

کیا یہ گمراہ لوگ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ وہ تو ان کی بات کا جواب بھی نہیں دے سکتا اور نہ ان کے کسی برے بھلے کا اختیار رکھتا ہے

اس بچھڑے کو اس اللہ کو چھوڑ کر پوجو جو سب کا مالک اور سب کا خالق ہے ۔ اس کی وجہ سوائے اندھے پن اور بےعقلی کے اور کیا ہو سکتی ہے؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا کسی چیز کی محبت انسان کو اندھا بہرا کر دیتی ہے

وَلَمَّا سُقِطَ فِي أَيْدِيهِمْ وَرَأَوْا أَنَّهُمْ قَدْ ضَلُّوا قَالُوا لَئِنْ لَمْ يَرْحَمْنَا رَبُّنَا وَيَغْفِرْ لَنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ (۱۴۹)

اور جب نادم ہوئے اور معلوم ہوا کہ واقعی وہ لوگ گمراہی میں پڑ گئے تو کہنے لگے کہ اگر ہمارا رب ہم پر رحم نہ کرے اور ہمارا گناہ معاف نہ کرے تم ہم بالکل گئے گزرے ہوجائیں گے۔‏

 پھر جب اس محبت میں کمی آئی آنکھیں کھلیں تو اپنے اس فعل پر نادم ہونے لگے اور یقین کر لیا کہ واقعی ہم گمراہ ہوگئے تو اللہ سے بخشش مانگنے لگے ۔ جان گئے کہ اگر معافی نہ ملی تو بڑے نقصان سے دو جار ہو جائیں گے ۔

غرض اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ سے جھکے اور التجا کرنے لگے

بعض نے يَرْحَمْنَا کی بجائے ت سے تَرْحَمْنَا اور تَغْفِرْلَنَا پڑھا ہے اس طرح رَبُّنَا فاعل ہونے کی بجائے منادی ہو جاتا ہے۔

وَلَمَّا رَجَعَ مُوسَى إِلَى قَوْمِهِ غَضْبَانَ أَسِفًا قَالَ بِئْسَمَا خَلَفْتُمُونِي مِنْ بَعْدِي ۖ

اور جب موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کی طرف واپس آئے غصہ اور رنج میں بھرے ہوئے تو فرمایا کہ تم نے میرے بعد یہ بڑی بری جانشینی کی؟

حضرت موسیٰ علیہ السلام کو چونکہ طور پر ہی اپنی قوم کا یہ کفر معلوم ہو چکا تھا اس لئے سخت غضبناک ہو کر واپس آئے اور فرمانے لگے کہ تم نے تو میرے بعد سخت نالائقی کی ۔

أَعَجِلْتُمْ أَمْرَ رَبِّكُمْ ۖ

کیا اپنے رب کے حکم سے پہلے ہی تم نے جلد بازی کر لی

تم نے میرا انتظار بھی نہ کیا میری ذرا سی تاخیر میں یہ ظلم ڈھایا

وَأَلْقَى الْأَلْوَاحَ وَأَخَذَ بِرَأْسِ أَخِيهِ يَجُرُّهُ إِلَيْهِ ۚ

اور جلدی سے تختیاں ایک طرف رکھیں اور اپنے بھائی کا سر پکڑ کر ان کو اپنی طرف گھسیٹنے لگے۔

غصے کے مارے تختیاں ہاتھ سے پھینک دیں ۔

 کہا گیا ہے کہ یہ زمرد یا یا قوت یا کسی اور چیز کی تھیں ۔

سچ ہے جو حدیث میں ہے کہ دیکھنا سننا برابر نہیں، اپنی قوم پر غصے ہو کر الواح ہاتھ سے گرا دیں ۔

ٹھیک بات یہی ہے جمہور سلف و خلف کا قول بھی یہی ہے لیکن ابن جریر نے قتادہ سے ایک عجیب قول نقل کیا ہے جس کی سند بھی صحیح نہیں ۔ ابن عطیہ وغیرہ نے اس کی بہت تردید کی ہے اور واقعی وہ تردید کے قابل بھی ہے ۔

بہت ممکن ہے کہ قتادہ نے یہ اہل کتاب سے لیا ہو اور ان کا کیا اعتبار ہے؟ ان میں جھوٹے ، بناوٹ کرنے والے، گھڑ لینے والے ، بد دین ، بےدین ہر طرح کے لوگ ہیں اس خوف سے کہ کہیں حضرت ہارون علیہ السلام نے انہیں باز رکھنے کی پوری کوشش نہ کی ہو آپ نے ان کے سر کے بالوں کے بل انہیں گھسیٹ لیا اور فرمانے لگے انہیں گمراہ ہوتے ہوئے دیکھ کر بھی تونے میری ما تحتی میں انہیں کیوں نہ روکا؟

 کیا تو بھی میرے فرمان کا منکر بن گیا؟

موسیٰ ؑ  کہنے لگے اے ہارون! انہیں گمراہ ہوتا ہوا دیکھتے ہوئے تجھے کس چیز نے روکا تھا۔‏ کہ تو میرے پیچھے نہ آیا۔ کیا تو بھی میرے فرمان کا نافرمان بن بیٹھا

ہارونؑ نے کہا اے میرے ماں جائے بھائی! میری داڑھی نہ پکڑ اور سر کے بال نہ کھینچ، مجھے تو صرف یہ خیال دامن گیر ہوا کہ کہیں آپ یہ (نہ) فرمائیں کہ تو نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا اور میری بات کا انتظار نہ کیا۔

قَالَ ابْنَ أُمَّ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي وَكَادُوا يَقْتُلُونَنِي فَلَا تُشْمِتْ بِيَ الْأَعْدَاءَ وَلَا تَجْعَلْنِي مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ (۱۵۰)

ہارونؑ نے کہا کہ اے میرے ماں جائے ان لوگوں نے مجھ کو بےحقیقت سمجھا اور قریب تھا کہ مجھ کو قتل کر ڈالیں تو تم مجھ پر دشمنوں کو مت ہنساؤ اور مجھ کو ان ظالموں کے ذیل میں مت شمار کرو۔‏

اس پر حضرت ہارون علیہ السلام نے جواب دیا کہ بھائی جان میرے سر کے اور داڑھی کے بال نہ پکڑیں میں نے تو ہر ممکن طریقے سے انہیں روکا زیادہ اس لئے نہ الجھا کہ کہیں آپ یہ نہ فرما دیں کہ تو نے بنی اسرائیل میں تفریق ڈال دی ؟ تو نے میرا انتظار کیوں نہ کیا؟ ورنہ میں تو ان گمراہوں سے اب تک زمین کو پاک کر چکا ہوتا ۔ انہوں نے تو مجھے کچھ بھی نہ سمجھا بلکہ میرے قتل کے درپے ہوگئے ۔ آپ مجھے ان ہی کی طرح نہ سمجھیں نہ ان میں ملائیں ۔

وَلَقَدْ قَالَ لَهُمْ هَـرُونُ مِن قَبْلُ يقَوْمِ إِنَّمَا فُتِنتُمْ بِهِ وَإِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمَـنُ فَاتَّبِعُونِى وَأَطِيعُواْ أَمْرِى (۲۰:۹۰)

اور ہارونؑ نے اس سے پہلے ہی ان سے کہہ دیا تھا اے میری قوم والو! اس بچھڑے سے صرف تمہاری آزمائش کی گئی ہے، تمہارا حقیقی پروردگار تو اللہ رحمٰن ہی ہے، پس تم سب میری تابعداری کرو۔ اور میری بات مانتے چلے جاؤ ۔

حضرت ہارونؑ کا یہ فرمانا کہ اے میرے ماں جائے بھائی یہ صرف اس لئے تھا کہ حضرت موسیٰؑ کو رحم آ جائے ، ماں باپ دونوں کے ایک ہی تھے ۔

قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِأَخِي وَأَدْخِلْنَا فِي رَحْمَتِكَ ۖ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ (۱۵۱)

موسیٰؑ نے کہا کہ اے میرے رب! میری خطا معاف فرما اور میرے بھائی کی بھی اور ہم دونوں کو اپنی رحمت میں داخل فرما اور تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔‏

جب آپ کو اپنے بھائی ہارونؑ کی برأت کی تحقیق ہو گئی اللہ کی طرف سے بھی ان کی پاک دامنی اور بےقصوری معلوم ہو گئی کہ انہوں نے اپنی قوم سے پہلے ہی یہ فرما دیا تھا کہ افسوس تم فتنے میں پڑ گئے اب بھی کچھ نہیں بگڑا پروردگار بڑا ہی رحیم و کریم ہے تم میری مان لو اور پھر سے میرے تابع دار بن جاؤ تو آپ اللہ سے دعائیں کرنے لگے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 اللہ تعالیٰ موسیٰؑ پر رحم کرے واقعی دیکھنے والے میں اور خبر سننے والے میں بہت فرق ہوتا ہے ۔ قوم کی گمراہی کی خبر سنی تو تختیاں ہاتھ سے نہ گرائیں لیکن اسی منظر کو دیکھ کر قابو میں نہ رہے تختیاں پھینک دیں ۔

إِنَّ الَّذِينَ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ سَيَنَالُهُمْ غَضَبٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَذِلَّةٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۚ

بیشک جن لوگوں نے گئو سالہ پرستی کی ہے ان پر بہت جلد ان کے رب کی طرف سے غضب اور ذلت اس دنیاوی زندگی ہی میں پڑے گی

ان گئو سالہ پر ستوں پر اللہ کا غضب نازل ہوا ۔ جب تک ان لوگوں نے آپس میں ایک دوسرے کو قتل نہ کر لیا ان کی توبہ قبول نہ ہوئی جیسے کہ سورۃ بقرہ کی تفسیر میں تفصیل وار بیان ہو چکا ہے کہ انہیں حکم ہوا تھا :

فَتُوبُواْ إِلَى بَارِئِكُمْ ۔۔۔ فَتَابَ عَلَيْكُمْ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ (۲:۵۴)

اب تم اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع کرو، اپنے آپ کو آپس میں قتل کرو، تمہاری بہتری اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسی میں ہے، تو اس نے تمہاری توبہ قبول کی، وہ توبہ قبول کرنے والا اور رحم و کرم کرنے والا ہے۔

 اسی طرح دنیا میں بھی ان یہودیوں پر ذلت نازل ہوئی ۔

وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُفْتَرِينَ (۱۵۲)

اور ہم جھوٹی تہمت لگانے والوں کو ایسی سزا دیا کرتے ہیں ۔

ہر بدعتی کی جو اللہ کے دین میں جھوٹا طوفان اٹھائے یہی سزا ہے ۔ رسول کی مخالفت اور بدعت کا بوجھ اس کے دل سے نکل کر اس کے کندھوں پر آپڑتا ہے ۔حسن بصریؒ فرماتے ہیں گو وہ دنیوی ٹھاٹھ رکھتا ہو لیکن ذلت اس کے چہرے پر برستی ہے ۔قیامت تک یہی سزا ہر جھوٹے افترا باز کی اللہ کی طرف سے مقرر ہے ۔

حضرت سفیان بن عینیہؒ فرماتے ہیں کہ ہر بدعتی ذلیل ہے ۔

پھر فرماتے ہیں کہ اللہ توبہ قبول کرنے والا ہے خواہ کیسا ہی گناہ ہو لیکن توبہ کے بعد وہ معاف فرما دیتا ہے گو کفر و شرک اور نفاق و شفاق ہی کیوں نہ ہو ۔

وَالَّذِينَ عَمِلُوا السَّيِّئَاتِ ثُمَّ تَابُوا مِنْ بَعْدِهَا وَآمَنُوا إِنَّ رَبَّكَ مِنْ بَعْدِهَا لَغَفُورٌ رَحِيمٌ (۱۵۳)

اور جن لوگوں نے گناہ کے کام کئے اور پھر ان کے بعد توبہ کرلیں اور ایمان لے آئیں تو تمہارا رب اس توبہ کے بعد گناہ معاف کر دینے والا، رحمت کرنے والا ہے

فرمان ہے کہ جو لوگ برائیوں کے بعد توبہ کرلیں اور ایمان لائیں تو اے رسول تیرا رب اس فعل کے بعد بھی غفور و رحیم ہے ۔

حضرت ابن مسعود ؓ سے سوال ہوا کہ اگر کوئی شخص کسی عورت سے زناکاری کرے پھر اس سے نکاح کر لے تو؟

 آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی ایک بار نہیں بلکہ  دس دس مرتبہ اسے تلاوت کیا اور کوئی حکم یا منع نہیں کیا ۔

وَلَمَّا سَكَتَ عَنْ مُوسَى الْغَضَبُ أَخَذَ الْأَلْوَاحَ ۖ

اور جب موسیٰ ؑ  کا غصہ فرو ہوا تو ان تختیوں کو اٹھا لیا

حضرت موسیٰؑ کو اپنی قوم پر جو غصہ تھا جب وہ جاتا رہا تو سخت غصے کی حالت میں جن تختیوں کو انہوں نے زمین پر ڈال دیا تھا اب اٹھا لیں ۔ یہ غصہ صرف اللہ کی راہ میں تھا کیونکہ آپ کی قوم نے بچھڑے کی پوجا کی تھی ۔

وَفِي نُسْخَتِهَا هُدًى وَرَحْمَةٌ لِلَّذِينَ هُمْ لِرَبِّهِمْ يَرْهَبُونَ (۱۵۴)

 اور ان کے مضامین میں ان لوگوں کے لئے جو اپنے رب سے ڈرتے تھے ہدایت اور رحمت تھی ۔

 ان تختیوں میں ہدایت و رحمت تھی ۔

 کہتے ہیں کہ جب کلیم اللہ نے تختیاں زمین پر ڈال دیں تو وہ ٹوٹ گئیں پھر انہیں جمع کیا ۔ تو ان میں رہبری اور رحم پایا اور تفصیل اٹھا لی گئی تھی ۔

کہتے ہیں کہ ان تختیوں کے ٹکڑے شاہی خزانوں میں بنی اسرائیل کے پاس دولت اسلامیہ کے ابتدائی زمانے تک محفوظ رہے واللہ اعلم ۔

 اس کی صحت کا کوئی پتہ نہیں حالانکہ یہ بات مشہور ہے کہ وہ تختیاں جنتی جوہر کی تھیں اور اس آیت میں ہے کہ پھر حضرت موسیٰؑ نے خود ہی انہیں اٹھا لیا اور ان میں رحمت و ہدایت پائی

چونکہ رھبت متضمن ہے خشوع و خضوع کو اس لئے اسے لام سے متعدی کیا ۔

قتادہؒ کہتے ہیں :

ان میں آپ نے لکھا دیکھا کہ ایک اُمت تمام اُمتوں سے بہتر ہوگی جو لوگوں کے لئے قائم کی جائے گی جو بھلی باتوں کا حکم کرے گی اور برائیوں سے روکے گی تو حضرت موسیٰؑ نے دعا کی کہ اے اللہ میری اُمت کو یہی اُمت بنا دے جواب ملا کہ یہ اُمت اُمت احمد ہے (صلی اللہ علیہ وسلم )

پھر پڑھا کہ ایک اُمت ہوگی جو دنیا میں سب سے آخر آئے گی اور جنت میں سب سے پہلے جائے گی تو بھی آپ نے یہی درخواست کی اور یہی جواب پایا

پھر پڑھا کہ ایک اُمت ہوگی جن کی کتاب ان کے سینوں میں ہوگی جس کی وہ تلاوت کریں گےیعنی حفظ کریں گے اور دوسرے لوگ دیکھ کر پڑھتے ہیں ۔ اگر ان کی کتابیں اٹھ جائیں تو علم جاتا رہے کیونکہ انہیں حفظ نہیں ۔ اس طرح کا حافظہ اسی اُمت کیلئے مخصوص ہے کسی اور اُمت کو نہیں ملا ۔

 اس پر بھی آپ نے یہی درخواست کی اور یہی جواب پایا ۔

 پھر دیکھا کہ اس میں لکھا ہوا ہے کہ ایک اُمت ہوگی جو اگلی پچھلی تمام کتابوں پر ایمان لائے گی اور گمراہوں سے جہاد کرے گی یہاں تک کہ کانے دجال سے جہاد کرے گی ۔ اس پر بھی آپ نے یہی دعا کی اور یہی جواب پایا ۔

 پھر ان تختیوں میں آپ نے پڑھا کہ ایک اُمت ہوگی جو خود بھی شفاعت کرے گی اور ان کی شفاعت دوسرے بھی کریں گے آپ نے پھر یہی دعا کی کہ اے اللہ یہ مرتبہ میری اُمت کو دے ۔ جواب ملا یہ اُمت اُمت احمد ہے (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہے اس پر آپ نے تختیاں لے لیں اور کہنے لگے اے اللہ مجھے اُمت احمد میں کر دے ۔

وَاخْتَارَ مُوسَى قَوْمَهُ سَبْعِينَ رَجُلًا لِمِيقَاتِنَا ۖ

اور موسیٰ ؑنے ستر آدمی اپنی قوم میں سے ہمارے وقت معین کے لئے منتخب کئے،

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حسب فرمان الہٰی اپنی قوم سے ستر شخصوں کو منتخب کیا اور جناب باری سے دعائیں مانگنا شروع کیں ۔

فَلَمَّا أَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ قَالَ رَبِّ لَوْ شِئْتَ أَهْلَكْتَهُمْ مِنْ قَبْلُ وَإِيَّايَ ۖ

 سو جب ان کو زلزلہ نے آپکڑا تو موسیٰ ؑعرض کرنے لگے کہ اے میرے پروردگار اگر تجھ کو یہ منظور ہوتا تو اس سے قبل ہی ان کو اور مجھ کو ہلاک کر دیتا،

لیکن یہ لوگ اپنی دعا میں حد سے تجاوز کر گئے کہنے لگے اللہ تو ہمیں وہ دے جو نہ ہم سے پہلے کسی کو دیا ہو نہ ہمارے بعد کسی کو دے ۔ یہ دعا اللہ تعالیٰ کو ناپسند آئی اور ان پر بھونچال آ گیا جس سے گھبرا کر حضرت موسیٰؑ اللہ سے دعا کرنے لگے ۔

سدیؒ کہتے ہیں:

 انہیں لے کر آپ اللہ تعالیٰ سے بنی اسرائیل کی گئو سالہ پرستی کی معذرت کرنے کیلئے گئے تھے ۔ یہاں جب وہ پہنچے تو کہنے لگے ہم تو جب تک خود اللہ تعالیٰ کو کھلم کھلا اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں ایمان نہ لائیں گے ۔ ہم کلام سن رہے ہیں لیکن دیکھنا چاہتے ہیں ۔

اس پر کڑاکے کی آواز ہوئی اور یہ سب مر کھپ گئے

 حضرت موسیٰؑ نے رونا شروع کیا کہ اللہ میں بنی اسرائیل کو کیا منہ دکھاؤں گا؟ان کے یہ بہترین لوگ تھے اگر یہی منشا تھی تو اس سے پہلے ہی ہمیں ہلاک کر دیا ہوتا ۔

 امام محمد بن اسحاقؒ کا قول :

 انہیں اس بت پرستی سے توبہ کرنے کیلئے بطور وفد کے آپ لے چلے تھے ۔ ان سے فرما دیا تھا کہ پاک صاف ہو جاؤ پاک کپڑے پہن لو اور روزے سے چلو یہ اللہ کے بتائے ہوئے وقت پر طور سینا پہنچے ۔ مناجات میں مشعول ہوئے تو انہوں نے خواہش کی کہ اللہ سے دعا کیجئے کہ ہم بھی اللہ کا کلام سنیں

 آپ نے دعا کی جب حسب عادت بادل آیا اور موسیٰ علیہ السلام آگے بڑھ گئے اور بادل میں چھپ گئے قوم سے فرمایا تم بھی قریب آ جاؤ

یہ بھی اندر چلے گئے اور حسب معمول حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیشانی پر ایک نور چمکنے لگا جو اللہ کے کلام کے وقت برابر چمکتا رہتا تھا اس وقت کوئی انسان آپ کے چہرے پر نگاہ نہیں ڈال سکتا تھا آپ نے حجاب کر لیا

 لوگ سب سجدے میں گر پڑے اور اللہ کا کلام شروع ہوا جو یہ لوگ بھی سن رہے تھے کہ فرمان ہو رہا ہے یہ کر یہ نہ کر وغیرہ ۔

 جب باتیں ہو چکیں اور ابر اٹھ گیا تو ان لوگوں نے کہا ہم تو جب تک اللہ کو خود خوب ظاہر نہ دیکھ لیں ایمان نہیں لائیں گے تو ان پر کڑاکا نازل ہوا اور سب کے سب ایک ساتھ مر گئے

موسیٰ علیہ السلام بہت گھبرائے اور مناجات شروع کر دی اس میں یہاں تک کہا کہ اگر ہلاک ہی کرنا تھا تو اس سے پہلے ہلاک کیا ہوتا ۔

ایک روایت یہ بھی ہے:

 حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت ہارون علیہ السلام کو اور شبر و شبیر کو لے کر پہار کی گھاٹی میں گئے ۔ ہارونؑ ایک بلند جگہ کھڑے تھے کہ ان کی روح قبض کر لی گئی جب آپ واپس بنی اسرائیل کے پاس پہنچے تو انہوں نے کہا کہ چونکہ آپ کے بھائی بڑے ملنسار اور نرم آدمی تھے آپ نے ہی انہیں الگ لے جا کر قتل کر دیا اس پر آپ نے فرمایا اچھا تم اپنے میں سے ستر آدمی چھانٹ کر میرے ساتھ کر دو انہوں نے کر دیئے جنہیں لے کر آپ گئے اور حضرت ہارونؑ کی لاش سے پوچھا کہ آپ کو کس نے قتل کیا ؟

 اللہ کی قدرت سے وہ بولے کسی نے نہیں بلکہ میں اپنی موت مرا ہوںانہوں نے کہا بس موسیٰؑ اب سے آپ کی نافرمانی ہرگز نہ کی جائے گی اسی وقت زلزلہ آیا جس سے وہ سب مر گئےاب تو حضرت موسیٰؑ بہت گھبرائے دائیں بائیں گھومنے لگے اور وہ عرض کرنے لگے جو قرآن میں مذکور ہے ۔پس اللہ تعالیٰ نے آپ کی التجا قبول کر لی ان سب کو زندہ کر دیا اور بعد میں وہ سب انبیاء بنے

لیکن یہ اثر بہت ہی غریب ہے اس کا ایک راوی عمارہ بن عبد غیر معروف ہے ۔

أَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَهَاءُ مِنَّا ۖ

کیا تو ہم میں سے چند بیوقوفوں کی حرکت پر سب کو ہلاک کردے گا؟

 یہ بھی مروی ہے کہ ان پر اس زلزلے کے آنے کی وجہ یہ تھی کہ یہ بچھڑے کی پرستش کے وقت خاموش تھے ان پجاریوں کو روکتے نہ تھے اس قول کی دلیل میں حضرت موسیٰؑ کا یہ فرمان بالکل ٹھیک اترتا ہے کہ اے اللہ ہم میں سے چند بیوقوفوں کے فعل کی وجہ سے تو ہمیں ہلاک کر رہا ہے؟

إِنْ هِيَ إِلَّا فِتْنَتُكَ تُضِلُّ بِهَا مَنْ تَشَاءُ وَتَهْدِي مَنْ تَشَاءُ ۖ

 یہ واقعہ محض تیری طرف سے امتحان ہے، ایسے امتحانات سے جس کو تو چاہے گمراہی میں ڈال دے اور جس کو چاہے ہدایت پر قائم رکھے۔

پھر فرماتے ہیں یہ تو تیری طرف کی آزمائش ہی ہے تیرا ہی حکم چلتا ہے اور تیری ہی چاہت کامیاب ہے ۔ ہدایت و ضلالت تیرے ہی ساتھ ہے جس کو تو ہدایت دے اسے کوئی بہکا نہیں سکتا اور جسے تو بہکائے اس کی کوئی رہبری نہیں کر سکتا ۔ تو جس سے روک لے اسے کوئی دے نہیں سکتا اور جسے دے دے اس سے کوئی چھین نہیں سکتا ۔ ملک کا مالک تو اکیلا ، حکم کا حاکم صرف تو ہی ہے۔ خلق و امر تیرا ہی ہے

أَنْتَ وَلِيُّنَا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۖ وَأَنْتَ خَيْرُ الْغَافِرِينَ (۱۵۵)

 تو ہی ہمارا کارساز ہے پس ہم پر مغفرت اور رحمت فرما اور تو سب معافی دینے والوں سے زیادہ اچھا ہے ۔

تو ہمارا ولی ہے ، ہمیں بخش ، ہم پر رحم فرما ، تو سب سے اچھا معاف فرمانے والا ہے ۔

 غفِر کے معنی ہیں چھپا دینا اور پکڑ نہ کرنا جب رحمت بھی اس کے ساتھ مل جائے تو یہ مطلب ہوتا ہے کہ آئندہ اس گناہ سے بچاؤ ہو جائے ۔ گناہوں کا بخشنے والا صرف تو ہی ہے ۔ پس جس چیز سے ڈر تھا اس کا بچاؤ طلب کرنے کے بعد اب مقصود حاصل کرنے کیلئے دعا کی جاتی ہے کہ ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما اسے ہمارے نام لکھ دے واجب و ثابت کر دے۔

وَاكْتُبْ لَنَا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ إِنَّا هُدْنَا إِلَيْكَ ۚ

اور ہم لوگوں کے نام دنیا میں بھی نیک حالی لکھ دے اور آخرت میں بھی ہم تیری طرف رجوع کرتے ہیں

حَسَنَةً کی تفسیر سورۃ بقرہ میں گزر چکی ہے ۔

 ہم تیری طرف رجوع کرتے ہیں، رغبت ہماری تیری ہی جانب ہے ، ہماری توبہ اور عاجزی تیری طرف ہے ۔

 حضرت علی ؓسے مروی ہے کہ چونکہ انہوں نے هُدْنَا کہا تھا اس لئے انہیں یہودی کہا گیا ہے

 لیکن اس روایت کی سند میں جابر بن یزید جعفی ہیں جو ضعیف ہیں ۔

قَالَ عَذَابِي أُصِيبُ بِهِ مَنْ أَشَاءُ ۖ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ۚ

اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں اپنا عذاب اسی پر واقع کرتا ہوں جس پر چاہتا ہوں اور میری رحمت تمام اشیا پر محیط ہے

چونکہ کلیم اللہ علیہ السلام نے اپنی دعا میں کہا تھا کہ یہ محض تیری طرف سے آزمائش ہے اس کے جواب میں فرمایا جارہا ہے کہ عذاب تو صرف گنہگاروں کو ہی ہوتا ہے اور گنہگاروں میں سے بھی انہی کو جو میری نگاہ میں گنہگار ہیں نہ کہ ہر گنہگار کو ۔ میں اپنی حکمت عدل اور پورے علم کے ذریعے سے جانتا ہوں کہ مستحق عذاب کون ہے ؟صرف اسی کو عذاب پہنچاتا ہے ۔ہاں البتہ میری رحمت بڑی وسیع چیز ہے جو سب پر شامل ، سب پر حاوی اور سب پر محیط ہے ۔ چنانچہ عرش کے اٹھانے والے اور اس کے ارد گرد رہنے والے فرشتے فرماتے رہا کرتے ہیں:

رَبَّنَا وَسِعْتَ كُـلَّ شَىْءٍ رَّحْمَةً وَعِلْماً (۴۰:۷)

اے رب تو نے اپنی رحمت اور اپنے علم سے تمام چیزوں کو گھیر رکھا ہے ۔

مسند امام احمد میں ہے:

 ایک اعرابی آیا اونٹ بٹھا کر اسے باندھ کر نماز میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑا ہو گیا نماز سے فارغ ہو کر اونٹ کو کھول کر اس پر سوار ہو کر اونچی آواز سے دعا کرنے لگا کہ اے اللہ مجھ پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رحم کر اور اپنی رحمت میں کسی اور کو ہم دونوں کا شریک نہ کر ۔

آپﷺ یہ سن کر فرمانے لگے بتاؤ یہ خود راہ گم کردہ ہونے میں بڑھا ہوا ہے یا اس کا اونٹ؟

تم نے سنا بھی اس نے کیا کہا؟

 صحابہؓ نے عرض کیا ہاں حضور سن لیا

 آپﷺ نے فرمایا اے شخص تو نے اللہ کی بہت ہی کشادہ رحمت کو بہت تنگ چیز سمجھ لیا سن اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے سو حصے کئے جن میں سے صرف ایک ہی حصہ دنیا میں اتارا اسی سے مخلوق ایک دوسرے پر ترس کھاتی ہے اور رحم کرتی ہے ، اسی سے حیوان بھی اپنی اولاد کے ساتھ نرمی اور رحم کا برتاؤ کرتے ہیں باقی کے ننانوے حصے تو اس کے پاس ہی ہیں جن کا اظہار قیامت کے دن ہو گا

 اور روایت میں ہے:

 بروز قیامت اسی حصے کے ساتھ اور ننانوے حصے جو مؤخر ہیں ملا دیئے جایں گے

 ایک اور روایت میں ہے کہ اسی نازل کردہ ایک حصے میں پرند بھی شریک ہیں ۔

 طبری میں ہے:

 قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ جو اپنے دین میں فاجر ہے جو اپنی معاش میں احمق ہے وہ بھی اس میں داخل ہے ۔

 اس کی قسم جو میری جان اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے وہ بھی جنت میں جائے گا جو مستحق جہنم ہوگا ۔

 اس کی قسم جس کے قبضے میں میری روح ہے قیامت کے دن اللہ کی رحمت کے کرشمے دیکھ کر ابلیس بھی امیدوار ہو کر ہاتھ پھیلا دے گا ۔

یہ حدیث بہت ہی غریب ہے اس کا راوی سعد غیریمعروف ہے ۔

پس میں اپنی اس رحمت کو ان کے لئے واجب کر دونگا اور یہ بھی محض اپنے فضل و کرم سے جیسے فرمان ہے:

كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ (۶:۱۲)

تمہارے رب نے اپنی ذات پر رحمت کو واجب کر لیا ہے ۔

فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُمْ بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ (۱۵۶)

تو وہ رحمت ان لوگوں کے نام ضرور لکھوں گا جو اللہ سے ڈرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں‏

پس جن پر رحمت رب واجب ہو جائے گی ان کے اوصاف بیان فرمائے

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مراد اس سے اُمت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہے جو تقویٰ کریں یعنی شرک سے اور کبیرہ گناہوں سے بچیں زکوٰۃ دیں یعنی اپنے ضمیر کو پاک رکھیں اور مال کی زکوٰۃ بھی ادا کریں ـکیونکہ یہ آیت مکی ہے اس لئے ہو سکتا ہے مراد دونوں ہی ہوں اور ہماری آیتوں کو مان لیں ان پر ایمان لائیں اور انہیں سچ سمجھیں ۔

الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ

جو لوگ ایسے رسول نبی امی کا اتباع کرتے ہیں جن کو وہ لوگ اپنے پاس تورات وانجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں

سابقہ کتابوں میں آخری پیغمبر خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے جو اوصاف بیان ہوئے تھے جس سے ان نبیوں کی اُمت آپ کو پہچان جائے وہ بیان ہو رہے ہیں سب کو حکم تھا کہ ان صفات کا پیغمبر اگر تمہارے زمانے میں ظاہر ہو تو تم سب ان کی تابعداری میں لگ جانا ۔

 مسند احمد میں ہے:

 ایک صاحب فرماتے ہیں میں کچھ خرید و فروخت کا سامان لے کر مدینے آیا جب اپنی تجارت سے فارغ ہوا تو میں نے کہا اس شخص سے بھی مل لوں میں چلا تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکرؓ و عمر ؓکے ساتھ کہیں جا رہے ہیں میں بھی پیچھے پیچھے چلنے لگا آپ ایک یہودی عالم کے گھر گئے اس کا نوجوان خوبصورت تنومند بیٹا نزع کی حالت میں تھا اور وہ اپنے دل کو تسکین دینے کیلئے تورات کھولے ہوئے اس کے پاس بیٹھا ہوا تلاوت کر رہا تھا۔

 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت فرمایا کہ تجھے اس کی قسم جس نے یہ تورات نازل فرمائی ہے کیا میری صفت اور میرے معبوث ہونے کی خبر اس میں تمہارے پاس ہے یا نہیں؟

 اس نے اپنے سر کے اشارے سے انکار کیا ۔

 اسی وقت اس کا وہ بچہ بول اٹھا کہ اس کی قسم جس نے تورات نازل فرمائی ہے ہم آپ کی صفات اور آپ کے آنے کا پورا حال اس تورات میں موجود پاتے ہیں اور میری تہہ دل سے گواہی ہے کہ معبود برحق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور آپ اس کے سچے رسول ہیں ۔

 آپ ﷺنے فرمایا اس یہودی کو اپنے بھائی کے پاس سے ہٹاؤ پھر آپ ہی اس کے کفن دفن کے والی بنے اور اس کے جنازے کی نماز پڑھائی ۔

مستدرک حاکم میں ہے:

 حضرت ہشام بن عاص امویؓ فرماتے ہیں کہ میں اور ایک صاحب روم کے بادشاہ ہرقل کو دعوت اسلام دینے کیلئے روانہ ہوئے ۔ غوطہ دمشق میں پہنچ کر ہم حیلہ بن ایم غسانی کے ہاں گئے اس نے اپنا قاصد بھیجا کہ ہم اس سے باتیں کرلیں ۔ ہم نے کہا واللہ ہم تم سے کوئی بات نہ کریں گے ہم بادشاہ کے پاس بھیجے گئے ہیں اگر وہ چاہیں تو ہم سے خود سنیں اور خود جواب دیں ورنہ ہم قاصدوں سے گفتگو کرنا نہیں چاہتے ۔

قاصدوں نے یہ خبر بادشاہ کو پہنچائی اس نے اجازت دی اور ہمیں اپنے پاس بلا لیا چنانچہ میں نے اس سے باتیں کیں اور اسلام کی دعوت دی ۔ وہ اس وقت سیاہ لباس پہنے ہوئے تھا کہنے لگا کہ دیکھ میں نے یہ لباس پہن رکھا ہے اور حلف اٹھایا ہے کہ جب تک تم لوگوں کو شام سے نہ نکال دوں گا اس سیاہ لبادے کو نہ اتاروں گا ۔

قاصد اسلام نے یہ سن کر پھر کہا بادشاہ ہوش سنبھالو اللہ کی قسم یہ آپ کے تخت کی جگہ اور آپ کے بڑے بادشاہ کا پائے تخت بھی انشاء اللہ عنقریب ہم اپنے قبضے میں کرلیں گے ۔ یہ کوئی ہماری ہوس نہیں بلکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمیں یہ پختہ خبر مل چکی ہے ۔

 اس نے کہا تم وہ لوگ نہیں ہاں ہم سے ہمارا یہ تخت و تاج و ہ قوم چھینے گی جو دنوں کو روزے سے رہتے ہوں اور راتوں کو تہجد پڑھتے ہوں۔ اچھا تم بتاؤ تمہارے روزے کے احکام کیا ہیں؟

 اب جو ہم نے بتائے تو اس کا منہ کالا ہو گیا ۔ اس نے اسی وقت ہمارے ساتھ اپنا ایک آدمی کر دیا اور کہا انہیں شاہ روم کے پاس لے جاؤ جب ہم اس کے پائے تخت کے پاس پہنچے تو وہ کہنے لگا تم اس حال میں تو اس شہر میں نہیں جا سکتے اگر تم کہو تو میں تمہارے لئے عمدہ سواریاں لا دوں ان پر سوار ہو کر تم شہر میں چلو

 ہم نے کہا نا ممکن ہے ہم تو اسی حالت میں انہی سواریوں پر چلیں گے انہوں نے بادشاہ سے کہلوا بھیجا وہاں سے اجازت آئی کہ اچھا انہیں اونٹوں پر ہی لے آؤ ہم اپنے اونٹوں پر سوار گلے میں تلواریں لٹائے شاہی محل کے پاس پہنچے وہاں ہم نے اپنی سواریاں بٹھائیں بادشاہ دریچے میں سے ہمیں دیکھ رہا تھا ہمارے منہ سے بےساختہ لا الہ الا اللہ و اللہ اکبر  کا نعرہ نکل گیا ۔ اللہ خوب جانتا ہے کہ اسی وقت شام اور روم کا محل تھرا اٹھا اس طرح جس طرح کسی خوشے کو تیز ہوا کا جھونکا ہلا رہا ہو اسی وقت محل سے شاہی قاصد دوڑتا ہوا آیا اور کہنے لگا آپ کو یہ نہیں چاہئے کہ اپنے دین کو اس طرح ہمارے سامنے اعلان کرو، چلو تم کو بادشاہ سلامت یاد کر رہے ہیں

چنانچہ ہم اس کے ساتھ دربار میں گئے دیکھا کہ چاروں طرف سرخ مخمل اور سرخ ریشم ہے خود بھی سرخ لباس پہنے ہوئے ہے تمام دربارپادریوں اور ارکان سلطنت سے بھرا ہوا ہے ۔ جب ہم پاس پہنچ گئے تو مسکرا کر کہنے لگا جو سلام تم میں آپس میں مروج ہے تم نے مجھے وہ سلام کیوں نہ کیا؟

 ترجمان کی معرفت ہمیں بادشاہ کا یہ سوال پہنچا تو ہم نے جواب دیا کہ جو سلام ہم میں ہے اس کے لائق تم نہیں اور جو آداب کا دستور تم میں ہے وہ ہمیں پسند نہیں ۔

 اس نے کہا اچھا تمہارا سلام آپس میں کیا ہے؟

 ہم نے کہا السلام علیکم

 اس نے کہا اپنے بادشاہ کو تم کس طرح سلام کرتے ہو؟

 ہم نے کہا صرف ان ہی الفاظ سے ۔

 پوچھا اچھا وہ بھی تمہیں کوئی جواب دیتے ہیں ہم نے کہا یہی الفاظ وہ کہتے ہیں ۔

بادشاہ نے دریافت کیا کہ تمہارے ہاں سب سے بڑا کلمہ کون سا ہے؟

 ہم نے کہا لا الہ الا اللہ و اللہ اکبر

اللہ عزوجل کی قسم ادھر ہم نے یہ کلمہ کہا ادھر پھر سے محل میں زلزلہ پڑا یہاں تک کہ سارا دربار چھت کی طرف نظریں کر کے سہم گیا۔ بادشاہ ہیبت ذدہ ہو کر پوچھنے لگا کیوں جی اپنے گھروں میں بھی جب کبھی تم یہ کلمہ پڑھتے ہو تمہارے گھر بھی اس طرح زلزلے میں آ جاتے ہیں؟

 ہم نے کہا کبھی نہیں ہم نے تو یہ بات یہیں آپ کے ہاں ہی دیکھی ہے ۔

بادشاہ کہنے لگا کاش کہ تم جب کبھی اس کلمے کو کہتے تمام چیزیں اسی طرح ہل جاتیں اور میرا آدھا ملک ہی رہ جاتا ۔

 ہم نے پوچھا یہ کیوں؟

 اس نے جواب دیا اس لئے کہ یہ آسان تھا بہ نسبت اس بات کے کہ یہ امر نبوت ہو ۔

 پھر اس نے ہم سے ہمارا ارادہ دریافت کیا ہم نے صاف بتایا ۔ اس نے کہا اچھا یہ بتاؤ کہ تم نماز کس طرح پڑھتے ہو اور روزہ کس طرح رکھتے ہو؟ ہم نے دونوں باتیں بتا دیں اس نے اب ہمیں رخصت کیا اور بڑے اکرام و احترام سے ہمیں شاہی معزز مہمانوں میں رکھا ۔

 تین دن جب گزرے تو رات کے وقت ہمیں قاصد بلا نے آیا ہم پھر دربار میں گئے تو اس نے ہم سے پھر ہمارا مطلب پوچھا ہم نے اسے دہرایا پھر اس نے ایک حویلی کی شکل کی سونا منڈھی ہوئی ایک چیز منگوائی جس میں بہت سارے مکانات تھے اور ان کے دروازے تھے اس نے اسے کنجی سے کھول کر ایک سیاہ رنگ کا ریشمی جامہ نکالا ہم نے دیکھا کہ اس میں ایک شخص ہے جس کی بڑی بڑی آنکھیں ہیں بڑی رانیں ہیں ۔ بڑی لمبی اور گھنی داڑھی ہے اور سر کے بال دو حصوں میں نہایت کو خوبصورت لمبے لمبے ہیں ہم سے پوچھا انہیں جانتے ہو؟ ہم نے کہا نہیں ۔

کہا یہ حضرت آدم علیہ السلام ہیں ان کے جسم پر بال بہت ہی تھے ۔

 پھر دوسرا دروازہ کھول کر اس میں سے سیاہ رنگ ریشم کا پارچہ نکالا جس میں ایک سفید صورت تھی جس کے گھونگر والے بال تھے سرخ رنگ آنکھیں تھیں بڑے کلے کے آدمی تھے اور بڑی خوش وضع داڑھی تھی ہم سے پوجھا انہیں پہچانتے ہو؟

 ہم نے انکار کیا تو کہا یہ حضرت نوح علیہ السلام ہیں ۔

 پھر ایک دروازہ کھول کر اس میں سے سیاہ ریشمی کپڑا نکالا اس میں ایک شخص تھا نہایت ہی گورا چٹا رنگ ، بہت خوبصورت آنکھیں ، کشادہ پیشانی، لمبے رخسار، سفید داڑھی ، یہ معلوم ہوتا تھا کہ گویا وہ مسکرا رہے ہیں ۔ ہم سے پوچھا انہیں پہچانا؟

 ہم نے انکار کیا تو کہا یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں ۔

 پھر ایک دروازہ کھولا اس میں سے ایک خوبصورت سفید شکل دکھائی دی جو ہو بہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی ۔ ہم سے پوچھا انہیں پہچانتے ہو؟ہم نے کہا یہ حضرت محمد ہیں صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ یہ کہا اور ہمارے آنسو نکل آئے ۔

 بادشاہ اب تک کھڑا ہوا تھا اب وہ بیٹھ گیا اور ہم سے دوبارہ پوچھا کہ یہی شکل حضور کی ہے ہم نے کہا واللہ یہی ہے اسی طرح کہ گویا تو آپ کو آپ کی زندگی میں دیکھ رہا ہے ۔ پس وہ تھوڑی دیر تک غور سے اسے دیکھتا رہا پھر ہم سے کہنے لگا کہ یہ آخری گھر تھا لیکن میں نے اور گھروں کو چھوڑ کر اسے بیچ میں ہی اس لئے کھول دیا کہ تمہیں آزما لوں کہ تم پہچان جاتے ہو یا نہیں ۔

 پھر ایک اور دروازہ کھول کر اس میں سے بھی سیاہ رنگ ریشمی کپڑا نکالا جس میں ایک گندم گوں نرمی والی صورت تھی ۔ بال گھنگھریالے آنکھیں گہری نظریں تیز تیور تیکھے دانت پر دانت ہونٹ موٹے ہو رہے تھے جیسے کہ غصے میں بھرے ہوئے ہیں ۔ ہم سے پوچھا انہیں پہنچانا ؟ ہم نے انکار کیا بادشاہ نے کہا یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ہیں ۔

 اسی کے متصل ایک اور صورت تھی جو قریب قریب اسی کی سی تھی ۔ مگر ان کے سر کے بال گویا تیل لگے ہوئے تھے ۔ ماتھا کشادہ تھا، آنکھوں میں کچھ فراخی تھی ہم سے پوچھا انہیں جانتے ہو؟ ہمارے انکار پر کہا یہ حضرت ہارون بن عمران علیہ السلام ہیں ۔

 پھر ایک دروازہ کھول کر اس میں سے ایک سفید رنگ ریشم کا ٹکڑا نکالا جس میں ایک گندم گوں رنگ میانہ قد سیدھے بالوں والا ایک شخص تھا گویا وہ غضبناک ہے پوچھا انہیں پہچانا ؟ ہم نے کہا نہیں ۔کہا یہ حضرت لوط علیہ السلام ہیں ۔

 پھر ایک دروازہ کھول کر اس میں سے ایک سفید ریشمی کپڑا نکال کر دیکھایا جس میں سنہرے رنگ کے ایک آدمی تھے جن کا قد طویل نہ تھا رخسار ہلکے تھے چہرہ خوبصورت تھا ہم سے پوچھا انہیں جانتے ہو؟ ہم نے کہا نہیں ،

 کہا یہ حضرت اسحاق علیہ السلام ہیں ۔

 پھر ایک دروازہ کھول کر اس میں سے سیاہ رنگ کا ریشمی کپڑا نکالا جس میں ایک شکل تھی سفید رنگ خوبصورت اونچی ناک والے اچھے قامت والے نورانی چہرے والے جس میں خوف اللہ ظاہر تھا رنگ سرخی مائل سفید تھا پوجھا انہیں جانتے ہو؟ ہم نے کہا نہیں،

کہا یہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا حضرت اسماعیل علیہ السلام ہیں ۔

 پھر اور دروازہ کھول کر سفید ریشمی کپڑے کا ٹکڑا نکال کر دکھایا جس میں ایک صورت تھی جو حضرت آدم علیہ السلام کی صورت سے بہت ہی ملتی جلتی تھی اور چہرہ تو سورج کی طرح روشن تھا، پوچھا انہیں پہچانا؟ ہم نے لا علمی ظاہر کی تو کہا یہ حضرت یوسف علیہ السلام ہیں ۔

 پھر ایک دروازہ کھول کر اس میں سے سفید ریشم کا پارچہ نکال کر ہمیں دکھایا جس میں ایک صورت تھی سرخ رنگ بھری پنڈلیاں کشادہ آنکھیں اونجا پیٹ قدرے چھوٹا قد تلوار لٹکائے ہوئے۔ پوچھا انہیں جانتے ہو؟ ہم نے کہا نہیں۔

 کہا یہ حضرت داؤد علیہ السلام ہیں

 پھر اور دروازہ کھول کر سفید ریشم نکالا جس میں ایک صورت تھی موٹی رانوں والی لمبے پیروں والی گھوڑے سوار۔ پوچھا انہیں پہنچانا؟ ہم نے کہا نہیں،

 کہا یہ حضرت سلیمان علیہ السلام ہیں ۔

 پھر ایک اور دروازہ کھولا اور اس میں سے سیاہ رنگ حریری پارچہ نکالا جس میں ایک صورت تھی ۔ سفید رنگ نوجوان سخت سیاہ داڑھی بہت زیادہ بال خوشنما آنکھیں خوبصورت چہرہ ۔ پوچھا انہیں جانتے ہو؟ ہم نے کہا نہیں کہا یہ حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام ہیں ۔

 ہم نے پوچھا آپ کے پاس یہ صورتیں کہاں سے آئیں؟ یہ تو ہمیں یقین ہو گیا ہے کہ یہ تمام انبیاء کی اصلی صورت کے بالکل ٹھیک نمونے ہیں ۔ کیونکہ ہم نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت کو بالکل ٹھیک اور درست پایا ۔

 بادشاہ نے جواب دیا بات یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے رب العزت سے دعا کی کہ آپ کی اولاد میں سے جو انبیاء علیہم السلام ہیں ان سب کو دکھایا جائے پس ان کی صورتیں آپ پر نازل ہوئیں جو حضرت آدم علیہ السلام کے خزانے میں جو سورج کے غروب ہونے کی جگہ پر تھا محفوظ تھیں ذوالقرنین نے انہیں وہاں سے لے لیا اور حضرت دانیال کو دیں ۔

 پھر بادشاہ کہنے لگے کہ میں تو اس پر خوش ہوں کہ اپنی بادشاہت چھوڑ دوں میں اگر غلام ہوتا تو تمہارے ہاتھوں بک جاتا اور تمہاری غلامی میں اپنی پوری زندگی بسر کرتا ۔ پھر اس نے ہمیں بہت کچھ تحفے تحائف دے کر اچھی طرح رخصت کیا ۔

 جب ہم خلیفہ المسلمین امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دربار میں پہنچے اور یہ سارا واقعہ بیان کیا تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روئے اور فرمانے لگے اس مسکین کے ساتھ اللہ کی توفیق رفیق ہوتی تو یہ ایسا کر گزرتا ۔ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا ہے کہ نصرانی اور یہودی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف اپنی کتابوں میں برابر پاتے ہیں ۔

یہ روایت امام بیہقی کی کتاب دلائل النبوۃ میں بھی ہے ۔ اس کی اسناد بھی خوف و خطر سے خالی ہے۔

حضرت عطاء بن یسارؒ فرماتے ہیں میں نے حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو صفتیں تورات میں ہوں وہ مجھے بتاؤ تو انہوں نے فرمایا ہاں واللہ آپﷺ کی صفتیں تورات میں ہیں جو قرآن میں بھی ہیں :

-  اے نبی ہم نے آپ کو گواہ اور خوشخبری سنانے والا اور آگاہ کرنے والا اور ان پڑھوں کو گمراہی سے بچانے والا بنا کر بھیجا ہے ۔

-  آپ میرے بندے اور رسول ہیں،

-  آپ کا نام متوکل ہے ، آپ بدگو اور بد خلق نہیں ہیں ۔

-  اللہ تعالیٰ آپ کو قبض نہ کرے گا جب تک کہ آپ کی وجہ سے لوگوں کی زبان سے لا الہ الا اللہ کہلوا کر ٹیڑھے دین کو درست نہ کر دے ۔

- بند دلوں کو کھول دے گا، بہرے کانوں کو سننے والا بنا دے گا، اندھی آنکھوں کو دیکھتی کر دے گا ۔

یہ روایت صحیح بخاری شریف میں بھی ہے ۔

حضرت عطاؒ فرماتے ہیں پھر میں حضرت کعبؒ سے ملا اور ان سے بھی یہی سوال کیا تو انہوں نے بھی یہی جواب دیا ایک حرف کی بھی کمی بیشی دونوں صاحبوں کے بیان میں نہ تھی یہ اور بات ہے کہ آپ نے اپنی لغت میں دونوں کے الفاظ بولے ۔

بخاری شریف کی اس روایت میں اس ذکر کے بعد کہ آپ بدخلق نہیں یہ بھی ہے کہ آپ بازاروں میں شور وغل کرنے والے نہیں ، آپ برائی کے بدلے برائی کرنے والے نہیں بلکہ معافی اور درگزر کرنے والے ہیں ۔ عبداللہ بن عمروؓ کی حدیث کے ذکر کے بعد ہے کہ سلف کے کلام میں عموماً تورات کا لفظ اہل کتاب کی کتابوں پر بولا جاتا ہے ۔

اس کے مشابہ اور بھی روایتیں ہیں واللہ اعلم ۔

طبرانی میں حضرت جبیر بن مطعم سے مروی ہے:

 میں تجارت کی غرض سے شام میں گیاوہاں میری ملاقات اہل کتاب کے ایک عالم سے ہوئی ۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ نبی تم میں ہوئے ہیں؟ میں نے کہا ہاں،

اس نے کہا اگر تمہیں ان کی صورت دکھائیں تو تم پہچان لو گے؟ میں نے کہا ضرور

چنانچہ وہ مجھے ایک گھر میں لے گیا جہاں بہت سی صورتیں تھیں لیکن ان میں میری نگاہ میں حضورﷺ کی کوئی شبیہ نہ آئی ،

 اسی وقت ایک اور عالم آیا ہم سے پوچھا کیا بات ہے؟ جب اسے ساری بات معلوم ہوئی تو وہ ہمیں اپنے مکان لے گیا وہاں جاتے ہی میری نگاہ آپ کی شبیہ پر پڑی اور میں نے دیکھا کہ گویا کوئی آپ کے پیچھے ہی آپ کو تھامے ہوئے ہے، میں نے یہ دیکھ کر اس سے پوچھا یہ دوسرے صاحب پیچھے کیسے ہیں؟

 اس نے جواب دیا کہ جو نبی آیا اس کے بعد بھی نبی آیا لیکن اس نبی کے بعد کوئی نبی نہیں اس کے پیچھے کا یہ شخص اس کا خلیفہ ہے ۔

 اب جو میں نے غور سے دیکھا تو وہ بالکل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شکل تھی ۔

 امیر المؤمنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ اپنے مؤذن اقرع کو ایک پادری کے پاس بھیجا آپ اسے بلا لائے امیر المؤمنین نے اس سے پوچھا کہ بتاؤ تم میری صفت اپنی کتابوں میں پاتے ہو؟

 اس نے کہا ہاں،

 کہا کیا؟

اس نے جواب دیا کہ قرن ۔

 آپ نے کوڑا اٹھا کر فرمایا قرن کیا ہے؟

 اس نے کہا گویا کہ وہ لوہے کا سینگ ہے وہ امیر ہے دین میں بہت سخت ۔

فرمایا اچھا میرے بعد والے کی صفت کیا ہے؟

 اس نے کہا کہ خلیفہ تو وہ نیک صالح ہے لیکن اپنے قرابتداروں کو وہ دوسروں پر ترجیح دے گا ۔

آپ نے فرمایا اللہ عثمانؓ پر رحم کرے تین بار یہ فرمایا

پھر فرمایا اچھا ان کے بعد؟

 اس نے کہا لوہے کے ٹکڑے جیسا ۔

 حضرت عمر ؓنے اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھ لیا اور افسوس کرنے لگے

 اس نے کہا اے امیر المؤمنین ہوں گے تو وہ نیک خلیفہ لیکن بنائے ہی اس وقت جائیں گے جب تلوار کھچی ہوئی ہو اور خون بہہ رہا ہو ( ابو داؤد)

يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ

وہ ان کو نیک باتوں کا حکم فرماتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ہیں

ان کتابوں میں آنحضرت ﷺ  کی ایک صفت یہ بھی تھی کہ آپ نیکیوں کا حکم دیں گے برائیوں سے روکیں گے ۔

 فی الواقع آپ ایسے ہی تھے کونسی بھلائی ہے جس کا آپ نے حکم نہ دیا ہو؟

 کونسی برائی ہے جس سے آپ نے نہ روکا ہو؟

جیسے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ  فرماتے ہیں:

 تم جب قرآن کے یہ لفظ سنو کہ اے ایمان والو تو اسی وقت ہمہ تن گوش ہو جاؤ کیونکہ یا تو کسی خیر کا تمہیں حکم کیا جائے گا یا کسی شر سے تمہیں بچایا جائے گا۔ ان میں سب سے زیادہ تاکید اللہ کی وحدانیت تھی جس کا حکم برابر ہر نبی کو ہوتا رہا ۔ قرآن شاہد ہے:

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِى كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللَّهَ وَاجْتَنِبُواْ الْطَّـغُوتَ (۱۶:۳۶)

ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگو) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو۔

 مسند احمد میں فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے :

جب تم میری کسی حدیث کو سنو جسے تمہارے دل پہچان لیں تمہارے جسم اس کی قبولیت کے لئے تیار ہو جائیں اور تمہیں یہ معلوم ہو کہ وہ میرے لائق ہے تو میں اس سے بہ نسبت تمہارے زیادہ لائق ہوں

 اور جب تم میرے نام سے کوئی ایسی بات سنو جس سے تمہارے دل انکار کریں اور تمہارے جسم نفرت کریں اور تم دیکھو کہ وہ تم سے بہت دور ہے پس میں بہ نسبت تمہارے بھی اس سے بہت دور ہوں ۔

 اس کی سند بہت پکی ہے ۔

مسند احمد کی ایک اور روایت میں حضرت علیؓ کا قول ہے:

 جب تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول کوئی حدیث سنو تو اس کے ساتھ وہ خیال کرو جو خوب راہ والا بہت مبارک اور بہت پرہیزگاری والا ہو ۔

وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ ۚ

اور پاکیزہ چیزوں کو حلال بناتے ہیں اور گندی چیزوں کو ان پر حرام فرماتے ہیں اور ان لوگوں پر جو بوجھ اور طوق تھے انکو دور کرتے ہیں۔

پھر حضورﷺ کی ایکاور  صفت بیان ہو رہی ہے کہ آپ کل پاک صاف اور طیب چیزوں کو حلال کرتے ہیںبہت سی چیزیں ان میں ایسی تھیں جنہیں لوگوں نے از خود حرام قرار دے لیا تھا جیسے جانوروں کو بتوں کے نام کر کے نشان ڈال کر انہیں حرام سمجھنا وغیرہ

 اور خبیث اور گندی چیزیں آپ لوگوں پر حرام کرتے ہیں جیسے سؤر کا گوشت سود وغیرہ اور جو حرام چیزیں لوگوں نے از خود حلال کر لی تھیں ۔ بعض علماء کا فرمان ہے:

اللہ کی حلال کردہ چیزیں کھاؤ وہ دین میں بھی ترقی کرتی ہیں اور بدن میں بھی فائدہ پہنچاتی ہیں اور جو چیزیں حرام کر دی ہیں ان سے بچو کیونکہ ان سے دین کے نقصان کے علاوہ صحت میں بھی نقصان ہوتا ہے ۔

 اس آیت کریمہ سے بعض لوگوں نے استدلال کیا ہے کہ چیزوں کی اچھائی برائی دراصل عقلی ہے۔ اس کے بہت سے جواب دیئے گئے ہیں لیکن یہ جگہ اس کے بیان کی نہیں

 اسی آیت کو زیر نظر رکھ کر بعض اور علماء نے کہا ہے کہ جن چیزوں کا حلال حرام ہونا کسی کو نہ پہنچا ہو اور کوئی آیت حدیث اس کے بارے میں نہ ملی ہو تو دیکھنا چاہئے کہ عرب اسے اچھی چیز سمجھتے ہیں یا اس سے کراہت کرتے ہیں اگر اسے اچھی چیز جان کر استعمال میں لاتے ہیں تو حلال ہے اور اگر بری چیز سمجھ کر نفرت کر کے اسے نہ کھاتے ہوں تو وہ حرام ہے ۔ اس اصول میں بھی بہت کچھ گفتگو ہے ۔

فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنْزِلَ مَعَهُ ۙ أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (۱۵۷)

سو جو لوگ اس نبی پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں اور اس نور کا اتباع کرتے ہیں جو ان کے ساتھ بھیجا گیا ہے، ایسے لوگ پوری فلاح پانے والے ہیں

پھر فرماتا ہے کہ آپ بہت صاف آسان اور سہل دین لے کر آئیں گے ۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے:

 میں ایک طرف آسان دین دے کر معبوث کیا گیا ہوں ۔

حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ اور حضرت معاذ بن جبلؓ کو جب حضور ﷺ یمن کا امیر بنا کر بھیجتے ہیں تو فرماتے ہیں:

 تم دونوں خوش خبری دینا، نفرت نہ دلانا ، آسانی کرنا، سختی نہ کرنا، مل کر رہنا ، اختلاف نہ کرنا ۔

 آپ کے صحابی ایوبرزہ اسلمیؓ فرماتے ہیں میں حضور ﷺکے ساتھ رہا ہوں اور آپ کی آسانیوں کا خوب مشاہدہ کیا ہے پہلی اُمتوں میں بہت سختیاں تھیں لیکن پروردگار عالم نے اس اُمت سے وہ تمام تنگیاں دور فرما دیں ۔ آسان دین اور سہولت والی شریعت انہیں عطا فرمائی ۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 میری اُمت کے دلوں میں جو وسوسے گزریں ان پر انہیں پکڑ نہیں جب تک کہ زبان سے نہ نکالیں یا عمل نہ لائیں ۔

 فرماتے ہیں:

 میری اُمت کی بھول چوک اور غلطی سے اور جو کام ان سے جبراً کئے کرائے جائیں ان سے اللہ تعالیٰ نے قلم اٹھا لیا ہے ۔

 یہی وجہ ہے کہ اس اُمت کو خود اللہ تعالیٰ نے یہ تعلیم فرمائی کہ کہو:

رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ۚ ۔۔۔  أَنْتَ مَوْلَانَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ

اے ہمارے رب اگر ہم بھول گئے ہوں یا خطا کی ہو تو ہمیں نہ پکڑنا اے ہمارے رب ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جو ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا

 اے ہمارے رب ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جس کی ہمیں طاقت نہ ہو اور ہم سے درگزر فرما اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر

 تو ہی ہمارا مالک ہے، ہمیں کافروں کی قوم پر غلبہ عطا فرما۔‏

صحیح مسلم شریف میں ہے:

 جب مسلمانوں نے یہ دعائیں کیں تو ہر جملے پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں نے یہ قبول فرمایا ۔

 پس جو لوگ اس نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں اور آپ کا ادب عزت کریں اور جو وحی آپ پر اتری ہے اس نور کی پیروی کریں وہی دنیا آخرت میں فلاح پانے والے ہیں۔

قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي

آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف سے اس اللہ کا بھیجا ہوا ہوں،

اللہ تعالیٰ اپنے نبی و رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرماتا ہے کہ تمام عرب عجم گوروں کالوں سے کہہ دو کہ میں تم سب کی طرف اللہ کا بھیجا ہوا ہوں ۔ آپ کی شرافت و عظمت ہے کہ آپ خاتم الانبیاء ہیں اور تمام دنیا کے لئے صرف آپ ہی نبی ہیں ۔ جیسے فرمان قرآن ہے :

قُلِ اللَّهِ شَهِيدٌ بِيْنِى وَبَيْنَكُمْ وَأُوحِىَ إِلَىَّ هَـذَا الْقُرْءَانُ لاٌّنذِرَكُمْ بِهِ وَمَن بَلَغَ (۶:۱۹)

اعلان کر دے کہ مجھ میں تم میں اللہ گواہ ہے اس پاک قرآن کی وحی میری جانب اس لئے اتاری گئی ہے کہ میں اس سے تمہیں اور جن لوگوں تک یہ پہنچے سب کو ہوشیار کر دوں

 اور آیت میں ہے:

وَمَن يَكْفُرْ بِهِ مِنَ الاٌّحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهُ (۱۱:۱۷)

مخلوق کے مختلف گروہ میں سے جو بھی آپ سے انکار کرے اس کی وعدہ گاہ جہنم ہے

 اور آیت میں ہے:

وَقُلْ لِّلَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَـبَ وَالاٍّمِّيِّينَ ءَأَسْلَمْتُمْ فَإِنْ أَسْلَمُواْ فَقَدِ اهْتَدَواْ وَّإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَـغُ (۳:۲۰)

اہل کتاب اور غیر اہل کتاب سے کہہ دو کہ کیا تم مانتے ہو؟ اگر تسلیم کرلیں مسلمان ہو جائیں تو راہ پر ہیں ورنہ تیرے ذمے تو صرف پہنچا دینا ہے

 اس مضمون کی اور بھی قرآنی آیتیں بکثرت ہیں اور حدیثیں تو اس بارے میں بیشمار ہیں ۔

 دین اسلام کی ذرا سی بھی سمجھ جسے ہے وہ بالیقین جانتا اور مانتا ہے کہ آپ تمام جہان کے لوگوں کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔

اس آیت کی تفسیر میں صحیح بخاری شریف میں ہے:

اتفاق سے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر ؓمیں کچھ چشمک ہو گئی ۔ حضرت صدیق ؓنے حضرت فاروقؓ کو ناراض کر دیا حضرت فاروق ؓاسی حالت میں چلے گئے حضرت صدیقؓ نے درخواست کی کہ آپ معاف فرمائیں اور اللہ سے میرے لئے بخشش چاہیں لیکن حضرت عمر ؓراضی نہ ہوئے بلکہ کواڑ بند کر لئے ۔

 آپ لوٹ کر دربار محمدی میں آئے اس وقت اور صحابہ بھی حضور ﷺکی مجلس میں موجود تھے آپ ﷺنے فرمایا تمہارے اس ساتھی نے انہیں ناراض اور غضبناک کر دیا ۔

 حضرت عمر ؓحضرت صدیقؓ کی واپسی کے بعد بہت ہی نادم ہوئے اور اسی وقت دربار رسالت مآب میں حاضر ہو کر تمام بات کہہ سنائی ۔

حضورﷺ ناراض ہوئے ۔

 ابوبکر صدیقؓ بار بار کہتے جاتے تھے کہ یارسول اللہ زیادہ ظلم تو مجھ سے سر زد ہوا ہے ۔

حضور ﷺنے فرمایا کیا تم میرے ساتھی کو میری وجہ سے چھوڑتے نہیں؟ سنو جب میں نے اس آواز حق کو اٹھایا کہ لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا پیغمبر بنا کر بھیجا گیا ہوں تو تم نے کہا تو جھوٹا ہے لیکن اس ابوبکرؓ نے کہا آپ سچے ہیں۔

 ابن عباس سے مرفوعاً مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں ۔ یاد رہے کہ میں اسے فخراً نہیں کہتا

- میں تمام سرخ و سیاہ لوگوں کی جانب بھیجا گیا ہوں

- اور میری مدد مہینے بھر کے فاصلے سے صرف رعب کے ساتھ کی گئی ہے

-  اور میرے لئے غنیمتوں کے مال حلال کئے گئے ہیں حالانکہ مجھ سے پہلے وہ کسی کیلئے حلال نہیں کئے گئے تھے

-  اور میرے لئے ساری زمین مسجد اور وضو کے لئے حلال کر دی گئی ہے

-  اور مجھے اپنی اُمت کی شفاعت عطا فرمائی گئی ہے جسے میں نے ان لوگوں کے لئے مخصوص کر رکھا ہے جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں ۔ (مسند امام احمد)

روایت ہے:

 غزوہ تبوک والے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تہجد کی نماز کے لئے کھڑے ہوئے پس بہت سے صحابہؓ آپ کے پیچھے جمع ہوگئے کہ آپ کی چوکیداری کریں نماز کے بعد آپﷺ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا :

اس رات مجھے پانچ چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے اور کسی کو نہیں دی گئیں

-  میں تمام لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں مجھ سے پہلے کے تمام رسول صرف اپنی اپنی قوم کی طرف ہی نبی بنا کر بھیجے جاتے رہے

- مجھے اپنے دشمنوں پر رعب کے ساتھ مدد دی گئی ہے گو وہ مجھ سے مہینے بھر کے فاصلے پر ہوں وہیں وہ مرعوب ہو جاتے ہیں ۔

-  میرے لئے مال غنیمت حلال کئے گئے ہیں حالانکہ مجھ سے پہلے کے لوگ ان کی بہت عظمت کرتے تھے وہ اس مال کو جلا دیا کرتے تھے

- اور میرے لئے ساری زمین مسجد اور وضو کی پاک چیز بنادی گئی ہے جہاں کہیں میرے اُمتی کو نماز کا وقت آ جائے وہ تیمم کر لے اور نماز ادا کر لے مجھ سے پہلے کے لوگ اس کی عظمت کرتے تھے سوائے ان جگہوں کے جو نماز کے لئے مخصوص تھیں اور جگہ نماز نہیں پڑھ سکتے تھے

-  اور پانچویں خصوصیت یہ ہے کہ مجھ سے فرمایا گیا آپ دعا کیجئے مانگئے کیا مانگتے ہیں؟ ہر نبی مانگ چکا ہے تو میں نے اپنے اس سوال کو قیامت پر اٹھا رکھا ہے پس وہ تم سب کے لئے ہے اور ہر اس شخص کیلئے جو لا الہ الا اللہ کی گواہی دے ۔

اس کی اسناد بہت پختہ ہے اور مسند احمد میں یہ حدیث موجود ہے ۔

مسند کی اور حدیث میں ہے:

 میری اس اُمت سے جس یہودی یا نصرانی کے کان میں میرا ذکر پڑے اور وہ مجھ پر ایمان نہ لائے وہ جنت میں نہیں جا سکتا

یہ حدیث اور سند سے صحیح مسلم شریف میں بھی ہے ۔

 مسند احمد میں ہے:

 اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میرا ذکر اس اُمت کے ذریعے  جس یہودی نصرانی کے پاس پہنچے اور وہ مجھ پر اور میری وحی پر ایمان نہ لائے اور مر جائے وہ جہنمی ہے ۔

 مسند کی ایک اور حدیث میں آپ نے ان پانچوں چیزوں کا ذکر فرمایا جو صرف آپ کو ہی ملی ہیں پھر فرمایا:

 ہر نبی نے شفاعت کا سوال کر لیا ہے اور میں نے اپنے سوال کو چھپا رکھا ہے اور ان کے لئے اٹھا رکھا ہے جو میری اُمت میں سے توحید پر مرے ۔

یہ حدیث جابر بن عبداللہ کی روایت سے بخاری و مسلم میں بھی موجود ہے:

 مجھے پانچ چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کے انبیاء کو نہیں دی گئیں

- مہینے بھر کی مسافت تک رعب سے امداد و نصرت ،

-  ساری زمین کا مسجد و طہور ہونا کہ میری اُمت کو جہاں وقت نماز آ جائے ادا کر لے ،

-  غنیمتوں کا حلال کیا جانا جو پہلے کسی کے لئے حلال نہ تھیں ۔

- شفاعت کا دیا جانا،

- تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا جانا حالانکہ پہلے کے انبیاء صرف اپنی قوم کی طرف ہی بھیجے جاتے تھے ۔

لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ

جس کی بادشاہی تمام آسمانوں پر اور زمین میں ہے اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہی زندگی دیتا ہے اور وہی موت دیتا ہے

پھر فرماتا ہے کہ کہو مجھے اس اللہ نے بھیجا ہے جو زمین و آسمان کا بادشاہ ہے سب چیزوں کا خالق مالک ہے جس کے ہاتھ میں ملک ہے جو مارنے جلانے پر قادر ہے جس کا حکم چلتا ہے ۔

فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (۱۵۸)

 سو اللہ تعالیٰ پر ایمان لاؤ اور اس کے نبی امی پر جو کہ اللہ تعالیٰ پر اور اس کے احکام پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کی پیروی کرو تاکہ تم راہ پر آجاؤ

پس اے لوگو تم اللہ پر اور اس کے رسول و نبی پر ایمان لاؤ جو ان پڑھ ہونے کے باوجود دنیا کو پڑھا رہے ہیں انہی کا تم سے وعدہ تھا اور ان ہی کی بشارت تمہاری کتابوں میں بھی ہے ۔ انہی کی صفتیں اگلی کتابوں میں ہیں ۔

یہ خود اللہ کی ذات پر اور اس کے کلمات پر ایمان رکھتے ہیں۔ قول و فعل سب میں اللہ کے کلام کے مطیع ہیں ۔ تم سب ان کے ماتحت اور فرمانبردار ہو جاؤ ۔ انہی کے طریقے پر چلو انہی کی فرمانبرداری کرو، تم راہ راست پر آ جاؤ گے ۔

وَمِنْ قَوْمِ مُوسَى أُمَّةٌ يَهْدُونَ بِالْحَقِّ وَبِهِ يَعْدِلُونَ (۱۵۹)

اور قوم موسیٰ میں ایک جماعت ایسی بھی ہے جو حق کے مطابق ہدایت کرتی ہے اور اسی کے مطابق بھی کرتی ہے ۔

اللہ تعالیٰ خبر دیتے ہیں  ہے کہ اُمت موسیٰ میں بھی ایک گروہ حق کا ماننے والا ہے ۔ جیسے فرمان ہے:

مِّنْ أَهْلِ الْكِتَـبِ أُمَّةٌ قَآئِمَةٌ يَتْلُونَ ءَايَـتِ اللَّهِ ءَانَآءَ الَّيْلِ وَهُمْ يَسْجُدُونَ (۳:۱۱۳)

اہل کتاب میں سے ایک جماعت حق پر قائم ہے ، راتوں کو اللہ کے کلام کی تلاوت کرتی رہتی ہے اور برابر سجدے کیا کرتی ہے

 اور آیت میں ہے :

وَإِنَّ مِنْ أَهْلِ الْكِتَـبِ لَمَن يُؤْمِنُ بِاللَّهِ ۔۔۔ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ (۳:۱۹۹)

یقیناً اہل کتاب میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں اور تمہاری طرف جو اتارا گیا اور ان کی طرف جو نازل ہوا اس پر بھی اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں

اور اللہ تعالیٰ کی آیتوں کو تھوڑی تھوڑی قیمت پر بیچتے بھی نہیں ان کا بدلہ ان کے رب کے پاس ہے یقیناً اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے والا ہے۔‏

 اور آیت میں ہے:

الَّذِينَ ءَاتَيْنَـهُمُ الْكِتَـبَ ۔۔۔ أُوْلَـئِكَ يُؤْتُونَ أَجْرَهُم مَّرَّتَيْنِ بِمَا صَبَرُواْ (۲۸:۵۲،۵۴)

اہل کتاب میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ پر اور اس پر جو تمہاری طرف نازل کیا گیا ہے

اور اس پر جو ان کی طرف اتارا گیا ہے ایمان کا اور اس کی حقانیت کا اعلان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم اس سے پہلے ہی مسلمان تھے نہیں ان کے صبر کا دوہرا اجر ہے

 اور فرمان ہے:

إِنَّ الَّذِينَ أُوتُواْ الْعِلْمَ مِن قَبْلِهِ ۔۔۔ وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعًا (۱۷:۱۰۷،۱۰۹)

جو لوگ پہلے علم دیئے گئے ہیں وہ ہمارے پاک قرآن کی آیتیں سن کر سجدوں میں گر پڑتے ہیں ۔

ہماری پاکیزگی کا اظہار کر کے ہمارے وعدوں کی سچائی بیان کرتے ہیں ۔

اپنی ٹھوڑیوں کے بل روتے ہوئے سجدے کرتے ہیں اور عاجزی اور اللہ سے خوف کھانے میں سبقت لے جاتے ہیں

 امام ابن جریرؒ نے اپنی تفسیر میں اس جگہ ایک عجیب خبر لکھی ہے کہ ابن جریجؒ فرماتے ہیں:

 جب بنی اسرائیل نے کفر کیا اور اپنے نبیوں کو قتل کیا ان کے بارہ گروہ تھے ان میں سے ایک گروہ اس نالائق گروہ سے الگ رہا اللہ تعالیٰ سے معذرت کی اور دعا کی کہ ان میں اور ان گیارہ گروہوں میں وہ تفریق کر دے۔ چنانچہ زمین میں ایک سرنگ ہو گئی یہ اس میں چلے گئے اور چین کے پرلے پار نکل گئے وہاں پر سچے سیدھے مسلمان انہیں ملے جو ہمارے قبلہ کی طرف نمازیں پڑھتے تھے۔

 کہتے ہیں کہ آیت وَقُلْنَا مِن بَعْدِهِ لِبَنِي إِسْرَائِيلَ اسْكُنُوا الْأَرْضَ (۱۷:۱۰۴) کا یہی مطلب ہے ۔

 اس آیت میں جس دوسرے وعدے کا ذکر ہے یہ آخرت کا وعدہ ہے ۔

کہتے ہیں اس سرنگ میں ڈیڑھ سال تک وہ چلتے رہے۔ کہتے ہیں اس قوم کے اور تمہارے درمیان ایک نہر ہے ۔

وَقَطَّعْنَاهُمُ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ أَسْبَاطًا أُمَمًا ۚ

اور ہم نے ان کو بارہ خاندانوں میں تقسیم کرکے سب کی الگ الگ جماعت مقرر کردی

وَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى إِذِ اسْتَسْقَاهُ قَوْمُهُ أَنِ اضْرِبْ بِعَصَاكَ الْحَجَرَ ۖ

اور ہم نے موسیٰ ؑ  کو حکم دیا جب کہ ان کی قوم نے ان سے پانی مانگا کہ اپنے عصا کو فلاں پتھر پر مارو

فَانْبَجَسَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا ۖ قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَشْرَبَهُمْ ۚ

پس فوراً اس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے۔ ہر ہر شخص نے اپنے پانی پینے کا موقع معلوم کر لیا۔

وَظَلَّلْنَا عَلَيْهِمُ الْغَمَامَ وَأَنْزَلْنَا عَلَيْهِمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَى ۖ كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ ۚ

اور ہم نے ان پر ابر کا سایہ فگن کیا اور ان کو من و سلوٰی (ترنجبین اور بیٹریں) پہنچائیں، کھاؤ نفیس چیزوں سے جو کہ ہم نے تم کو دی ہیں

وَمَا ظَلَمُونَا وَلَكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ (۱۶۰)

 اور انہوں نے ہمارا کوئی نقصان نہیں کیا لیکن اپنا ہی نقصان کرتے تھے۔‏

وَإِذْ قِيلَ لَهُمُ اسْكُنُوا هَذِهِ الْقَرْيَةَ وَكُلُوا مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ

اور جب ان کو حکم دیا گیا کہ تم لوگ اس آبادی میں جا کر رہو اور کھاؤ اس سے جس جگہ تم رغبت کرو

وَقُولُوا حِطَّةٌ وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا نَغْفِرْ لَكُمْ خَطِيئَاتِكُمْ ۚ سَنَزِيدُ الْمُحْسِنِينَ (۱۶۱)

اور زبان سے یہ کہتے جانا کہ توبہ ہے اور جھکے جھکے دروازہ میں داخل ہونا ہم تمہاری خطائیں معاف کر دیں گے۔

جو لوگ نیک کام کریں گے ان کو مزید برآں اور دیں گے۔‏

فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ

سو بدل ڈالا ان ظالموں نے ایک اور کلمہ جو خلاف تھا اس کلمہ کے جس کی ان سے سفارش کی گئی تھی۔

فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِجْزًا مِنَ السَّمَاءِ بِمَا كَانُوا يَظْلِمُونَ (۱۶۲)

 اس پر ہم نے ان پر ایک آسمانی آفت بھیجی اس وجہ سے کہ وہ حکم کو ضائع کرتے تھے ۔

یہ سب آیتیں سورۃ بقرہ میں گزر چکی ہیں اور وہیں ان کی پوری تفسیر بھی بحمد اللہ ہم نے بیان کر دی ہے وہ سورت مدنیہ ہے اور یہ مکیہ ہے ۔ ان آیتوں اور ان آیتوں کا فرق بھی مع لطافت کے ہم نے وہیں ذکر کر دیا ہے دوبارہ کی ضرورت نہیں۔

وَاسْأَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ

اور آپ ان لوگوں سے اس بستی والوں کا جو کہ دریائے (شور) کے قریب آباد تھے

پہلے آیت وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِينَ اعْتَدَوْا مِنكُمْ فِي السَّبْتِ (۲:۶۵) گزر چکی ہے اسی واقعہ کا تفصیلی بیان اس آیت میں ہے

إِذْ يَعْدُونَ فِي السَّبْتِ إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتَانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَيَوْمَ لَا يَسْبِتُونَ ۙ لَا تَأْتِيهِمْ ۚ

 اس وقت کا حال پوچھئے! جب کہ وہ ہفتہ کے بارے میں حد سے نکل رہے تھے جب کہ انکے ہفتہ کے روز تو ان کی مچھلیاں ظاہر ہو ہو کر ان کے سامنے آتی تھیں،

اور وہ ہفتہ کے دن نہ ہوتا تو ان کے سامنے نہ آتی تھیں،

اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلوات اللہ وسلامہ علیہ کو حکم دیتا ہے کہ آپ اپنے زمانے کے یہودیوں سے ان کے پہلے باپ دادوں کی بابت سوال کیجئے جنہوں نے اللہ کے فرمان کی مخالفت کی تھی پس ان کی سرکشی اور حیلہ جوئی کی وجہ سے ہماری اچانک پکڑ ان پر مسلط ہوئی ۔

 اس واقعہ کو یاد دلا کہ یہ بھی میری ناگہانی سزا سے ڈر کر اپنی اس ملعون صفت کو بدل دیں اور آپ کے جو اوصاف ان کی کتابوں میں ہیں انہیں نہ چھپائیں ایسا نہ ہو کہ ان کی طرح ان پر بھی ہمارے عذاب ان کی بےخبری میں برس پڑیں۔

 ان لوگوں کی یہ بستی بحر قلزم کے کنارے واقع تھی جس کا نام آئلہ تھا ۔ مدین اور طور کے درمیان یہ شہر تھا ۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس بستی کا نام مدین تھا ۔

 ایک قول یہ ہے کہ اس کا نام متنا تھا ۔ یہ مدین اور عینوں کے درمیان تھا ۔

 انہیں حکم ملا کہ یہ ہفتہ کے دن کی حرمت کریں اور اس دن شکار نہ کھیلیں ، مچھلی نہ پکڑیں ۔

 ادھر مچھلیوں کی بحکم الہٰی یہ حالت ہوئی کہ ہفتے والے دن تو چڑھی چلی آتیں کھلم کھلا ہاتھ لگتیں تیرتی پھرتیں سب طرف سے سمٹ کر آ جاتیں اور جب ہفتہ نہ ہوتا ایک مچھلی بھی نظر نہ آتی بلکہ تلاش پر بھی ہاتھ نہ لگتی ۔

كَذَلِكَ نَبْلُوهُمْ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ (۱۶۳)

ہم ان کی اس طرح پر آزمائش کرتے تھے اس سبب سے کہ وہ بےحکمی کیا کرتے تھے ۔

یہ ہماری آزمائش تھی کہ مچھلیاں ہیں تو شکار منع اور شکار جائز ہے تو مچھلیاں ندارد۔

 چونکہ یہ لوگ فاسق اور بےحکم تھے اس لئے ہم نے بھی ان کو اس طرح آزمایا آخر ان لوگوں نے حیلہ جوئی شروع کی ایسے اسباب جمع کرنے شروع کئے جو باطن میں اس حرام کام کا ذریعہ بن جائیں ۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 یہودیوں کی طرح حیلے کر کے ذرا سی دیر کے لئے اللہ کے حرام کو حلال نہ کر لینا ۔

اس حدیث کو امام ابن بطو لائے ہیں اور اس کی سند نہایت عمدہ ہے اس کے راوی احمد ہیں ۔ محمد بن مسلم کا ذکر امام خطیب رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی تاریخ میں کیا ہے اور انہیں ثقہ کہا ہے باقی اور سب راوی بہت مشہور ہیں اور سب کے سب ثقہ ہیں ایسی بہت سی سندوں کو امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ نے صحیح کہا ہے ۔

وَإِذْ قَالَتْ أُمَّةٌ مِنْهُمْ لِمَ تَعِظُونَ قَوْمًا ۙ اللَّهُ مُهْلِكُهُمْ أَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا ۖ

اور جب کہ ان میں سے ایک جماعت نے یوں کہا کہ تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جن کو اللہ بالکل ہلاک کرنے والا ہے یا ان کو سخت سزا دینے والا ہے ؟

جس بستی کے لوگوں کا ذکر ہو رہا ہے ان کے تین گروہ ہوگئے تھے ایک تو حرام شکار کھیلنے والا اور حیلے حوالوں سے مچھلی پکڑنے والا ۔ دوسرا گروہ انہیں روکنے والا اور ان سے بیزاری ظاہر کر کے ان سے الگ ہو جانے والا اور تیسرا گروہ چپ چاپ رہ کر نہ اس کام کو کرنے والا نہ اس سے روکنے والا جیسے کہ سورہ بقرہ کی تفسیر میں ہم خلاصہ وار بیان کر آئے ہیں ۔

جو لوگ خاموش تھے نہ برائی کرتے تھے نہ بروں کو برائی سے روکتے تھے انہوں نے روکنے والوں کو سمجھانا شروع کیا کہ میاں ان لوگوں کو کہنے سننے سے کیا فائدہ؟ انہوں نے تو اللہ کے عذاب مول لے لئے ہیں رب کے غضب کیلئے تیار ہوگئے ہیں اب تم ان کے پیچھے کیوں پڑے ہو؟

قَالُوا مَعْذِرَةً إِلَى رَبِّكُمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ (۱۶۴)

انہوں نے جواب دیا کہ تمہارے رب کے روبرو عذر کرنے کے لئے اور اس لئے کہ شاید یہ ڈر جائیں۔‏

تو اس پاک گروہ نے جواب دیا کہ اس میں دو فائدے ہیں ایک تو یہ کہ اللہ کے پاس ہم معذرت خواہ ہو جائیں کہ ہم اپنا فرض برابر ادا کرتے رہے انہیں ہر وقت سمجھاتے بجھاتے رہے ۔

معذرت کے پیش سے بھی ایک قرأت ہے تو گوایا ھذا کا لفظ یہاں مقرر مانا یعنی انہوں نے کہا یہ ہماری معذرت ہے اور زبر کی قرأت پر یہ مطلب ہے کہ ہم جو انہیں روک رہے ہیں یہ کام بطور اس کے کر رہے ہیں کہ اللہ کے ہاں ہم پر الزام نہ آئے کیونکہ اللہ کا حکم ہے کہ ہمیشہ نیکی کا حکم کرتے رہو اور برائی سے روکتے رہو ،

 دوسرا فائدہ اس میں یہ ہے کہ بہت ممکن ہے کسی وقت کی نصیحت ان پر اثر کر جائے یہ لوگ اپنی اس حرام کاری سے باز آ جائیں اللہ سے توبہ کریں تو اللہ تعالیٰ بھی ان پر مہربانی کرے اور ان کے گناہ معاف فرما دے ۔

فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ أَنْجَيْنَا الَّذِينَ يَنْهَوْنَ عَنِ السُّوءِ

سو جب وہ اس کو بھول گئے جو ان کو سمجھایا جاتا تھا تو ہم نے ان لوگوں کو تو بچالیا جو اس بری عادت سے منع کیا کرتے تھے

آخر کار ان کی نصیحت خیر خواہی بھی بےنتیجہ ثابت ہوئی ۔ ان بدکاروں نے ایک نہ مانی تو ہم نے اس مسلم گروہ کو تو جو برابر ان سے نالاں رہا ان سے الگ رہا اور انہیں سمجھاتابجھاتا  رہا ، نجات دے دی

وَأَخَذْنَا الَّذِينَ ظَلَمُوا بِعَذَابٍ بَئِيسٍ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ (۱۶۵)

 اور ان لوگوں کو جو کہ زیادتی کرتے تھے ایک سخت عذاب میں پکڑ لیا اس وجہ سے کہ وہ بےحکمی کیا کرتے تھے ۔

اور باقی کے ظالموں کو جو ہماری نافرمانیوں کے مرتکب تھے اپنے بدترین عذابوں سے پکڑ لیا۔

عبارت کی عمدگی ملاحظہ ہو کہ روکنے والوں کی نجات کا کھلے لفظوں میں اعلان کیا ظالموں کی ہلاکت کا بھی غیر مشتبہ الفاظ میں بیان کیا اور چپ رہنے والوں کے حالات سے سکوت کیا گیا ، اس لئے کہ ہر عمل کی جزا اسی کی ہم جنس ہے ۔

یہ لوگ نہ تو اس ظلم عظیم میں شریک تھے کہ ان کی مذمت اعلانیہ کی جائے نہ دلیری سے روکتے تھے کہ صاف طور پر قابل تعریف ٹھہریں ۔

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں :

جو گروہ ممانعت کرنے کے بعد تھک کر بیٹھ گیا تھا اور پھر روکنا چھوڑ دیا تھا اللہ کا عذاب جب آیا تو یہ گروہ بھی اس عذاب سے بچ گیا صرف وہی ہلاک ہوئے جو گناہ میں مبتلا تھے ۔

 آپ کے شاگرد حضرت عکرمہؒ کا بیان ہے:

 پہلے حضرت ابن عباسؓ کو اس میں بڑا تردد تھا کہ آیا یہ لوگ ہلاک ہوئے یا بچ گئے یہاں تک کہ ایک روز میں آیا تو دیکھا کہ قرآن گود میں رکھے ہوئے رو رہے ہیں ۔ اول اول تو میرا حوصلہ نہ پڑا کہ سامنے آؤں لیکن دیر تک جب یہی حالت رہی تو میں نے قریب آکر سلام کیا بیٹھ گیا اور رونے کی وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا دیکھو یہ سورہ اعراف ہے اس میں ایلہ کے یہودیوں کا ذکر ہے کہ انہیں ہفتے کے روز مچھلی کے شکار کی ممانعت کر دی گئی اور ان کی آزمائش کے لئے مچھلیوں کو حکم ہوا کہ وہ صرف ہفتے کے دن ہی نکلیں ہفتے کے دن دریا مچھلیوں سے بھرے رہتے تھے ۔ ترو تازہ موٹی اور عمدہ بکثرت مچھلیاں پانی کے اوپر اجھلتی کودتی رہتی تھیں اور دنوں میں سخت کوشش کے باوجود بھی نہ ملتی تھیں ۔

کچھ دنوں تو ان کے دلوں کے اندر حکم الہٰی کی عظمت رہی اور یہ ان کے پکڑنے سے رکے رہے لیکن پھر شیطان نے ان کے دل میں یہ قیاس ڈال دیا کہ اس دن منع کھانے سے ہے تم نے آج کھانا نہیں ۔ پکڑ لو اور جائز دن کھا لینا ۔

سچے مسلمانوں نے انہیں اس حیلہ جوئی سے ہر چند روکا اور سمجھایا کہ دیکھو شکار کھیلنا شروع نہ کرو شکار اور کھانا دونوں ممنوع ہیں ۔

 اگلے جمعہ کے دن جو جماعت شیطانی پھندے میں پھنس چکی تھی وہ اپنے بال بچوں سمیت شکار کو نکل کھڑی ہوئی ۔ باقی کے لوگوں کی دو جماعتیں بن گئیں ایک ان کے دائیں ایک بائیں ۔دائیں جانب والی تو برابر انہیں روکتی رہی کہ اللہ سے ڈرو اور اللہ کے عذابوں کے لئے تیاری نہ کرو ۔بائیں والوں نے کہا میاں تمہیں کیا پڑی ؟ یہ تو خراب ہونے والے ہیں اب تم انہیں نصیحت کر کے کیا لو گے؟

 انہوں نے جواب دیا کہ خیر اللہ کے ہاں ہم تو چھوٹ جائیں گے اور ہمیں تو اب تک مایوسی بھی نہیں کیا عجب کہ یہ لوگ سنور جائیں تو ہلاکت اور عذاب سے محفوظ رہیں ۔ ہماری تو عین منشا یہ ہے

 لیکن یہ بدکار اپنی بے ایمانی سے باز نہ آئے اور نصیحت انہیں کار گر نہ ہوئی تو دائیں طرف کے لوگوں نے کہا تم نے ہمارا کہا نہ مانا ۔ اللہ کی نا فرمانی کی ، ارتکاب حرمت کیا ۔ عجب نہیں راتوں رات تم پر کوئی عذاب رب آئے ۔ اللہ تمہیں زمین میں دھنسا دے یا تم پر پتھر برسا دے یا کسی اور طرح تمہیں سزا دے ۔ رات ہم تو یہیں گزاریں گے تمہارے ساتھ شہر میں نہیں رہیں گے ۔

 جب صبح ہو گئی اور شہر کے دروازے نہ کھلے تو انہوں نے کواڑ کھٹ کھٹائے ، آوازیں دیں لیکن کوئی جواب نہ آیا آخر سیڑھی لگا کر ایک شخص کو قلعہ کی دیوار پر چڑھایا اس نے دیکھا تو حیران ہو گیا کہ سب لوگ بندر بنا دیئے گئے ۔

 اس نے ان سب مسلمانوں کو خبر دی ۔ یہ دروازے توڑ کر اندر گئے تو دیکھا کہ سب دم دار بندر بن گئے ہیں یہ تو کسی کو پہچان نہ سکے لیکن وہ پہچان گئے ہر بندر اپنے اپنے رشتے دار کے قدموں میں لوٹنے لگا ان کے کپڑے پکڑ پکڑ کر رونے لگا تو انہوں نے کہا دیکھو ہم تو تمہیں منع کر رہے تھے لیکن تم نے مانا ہی نہیں ۔ وہ اپنا سر ہلاتے تھے کہ ہاں ٹھیک ہے ہمارے اعمال کی شامت نے ہی ہمیں برباد کیا ہے ۔

 تو اب یہ تو قرآن میں ہے کہ روکنے والے نجات یافتہ ہوئے لیکن یہ بیان نہیں کہ جو روکنے والوں کو منع کرتے تھے ان کا کیا حشر ہوا؟اب ہم بھی بہت سی خلاف باتیں دیکھتے ہیں اور کچھ نہیں کر سکتے،

 میں نے آپ سے یہ سن کر کہا اللہ مجھے آپ پر نثار کر دے آپ یہ تو دیکھئے کہ وہ لوگ ان کے اس فعل کو برا سمجھتے رہے تھے ان کی مخالفت کرتے تھے جانتے تھے کہ یہ ہلاک ہونے والے ہیں ظاہر ہے کہ یہ بچ گئے ،

آپ کی سمجھ میں آ گیا اور اسی وقت حکم دیا کہ مجھے دو چادریں انعام میں دی جائیں ۔

 الغرض اس بیچ کی جماعت کی نسبت ایک قول تو یہ ہے کہ عذاب سے بچ گئی دوسرا قول یہ ہے کہ عذاب ان پر بھی آیا۔

 ابن رومان فرماتے ہیں :

 ہفتے والے دن خوب مچھلیاں آتیں پانی ان سے بھر جاتا پھر بیچ کے کسی دن نظر نہ آتیں دوسرے ہفتے کو پھر یہی حال ہوتا ، سب سے پہلے ایک شخص نے یہ حیلہ نکالا کہ ڈور اور کانٹا تیار کیا، مچھلی کو اس میں ہفتے کے دن پھنسا لیا اور پانی میں ہی چھوڑ دیا اتوار کی رات کو جا کر نکال لیں بھونا لوگوں کو مچھلی کی خوشبو پہنچی تو سب نے گھیر لیا ۔ ہر چند پوچھا لیکن اول تو یہ سختی سے انکار کرتا رہا آخر اسنے بات بنا دی کہ دراصل ایک مچھلی کا چھلکا مجھے مل گیا تھا میں نے اسے بھونا تھا ،

 دوسرے ہفتے کے دن اس نے اسی طرح دو مچھلیاں پھانس لیں اتوار کی رات کو نکال کر بھوننے لگا لوگ آ گئے تو اس نے کہا میں نے ایک ترکیب نکال لی ہے جس سے نا فرمانی بھی نہ ہو اور کام بھی نہ رکے اب جو حیلہ بیان کیا تو ان سب نے اسے پسند کیا اور اکثر لوگ یونہی کرنے لگے ۔

یہ لوگ رات کو شہر پناہ کے پھاٹک بند کر کے سوتے تھے جس رات عذاب آیا حسب دستور یہ شہر پناہ کے پھاٹک لگا کر سوئے تھے۔ صبح کو جب باہر والے شہر میں داخل ہونے کو آئے تو خلاف معمول اب تک دروازے بند پائے آوازیں دیں کوئی جواب نہ ملا قلعہ پر چڑھ گئے دیکھا تو بندر بنا دیئے گئے ہیں کھول کر اندر گئے تو بندر اپنے اپنے رشتہ داروں کے قدموں میں لوٹنے لگے

 اس سے پہلے سورہ بقرہ کی ایسی ہی آیت کی تفسیر کے موقعہ پرتفصیلاً ان واقعات کو اچھی طرح بیان کر چکے ہیں وہیں دیکھ لیجئے ۔ فالحمد اللہ،

دوسرا قول یہ ہے کہ جو چپ رہے تھے وہ بھی ان گنہگاروں کے ساتھ ہلاک ہوئے ،

 ابن عباسؓ سے منقول ہے :

 پہلے ہفتہ کے دن کی تعظیم بطور بدعت خود ان لوگوں نے نکالی اب اللہ کی طرف سے بطور آزمائش کے وہ تعظیم ان پر ضروری قرار دے دی گئی اور حکم ہو گیا کہ اس دن مجھلی کا شکار نہ کرو پھر مچھلیوں کا اس دن نمایاں ہونا اور دنوں میں نہ نکلنا وغیرہ بیان فرما کر فرمایا کہ پھر ان میں سے ایک شخص نے ایک مچھلی ہفتے کے دن پکڑی اس کی ناک میں سوراخ کرکے ڈور باندھ کر ایک کیل کنارے گاڑ کر اس میں ڈور اٹکا کر مچھلی کو دریا میں ڈال دیا دوسرے دن جا کر پانی میں سے نکال لایا اور بھون کر کھالی

 سوائے اس پاک باز حق گو جماعت کے لوگوں کے کسی نے نہ اسے روکا نہ منع کیا نہ سمجھایا لیکن ان کی نصیحت کا ان پر کوئی اثر نہ ہوا ۔

 اس ایک کی دیکھا دیکھی اور بھی یہی کام کرنے لگے یہاں تک کہ بازاروں میں مچھلی آنے لگی اور اعلانیہ یہ کام ہونے لگا ۔

 ایک اور جماعت کے لوگوں نے اس حق والی جماعت سے کہا کہ تم ان لوگوں کو کیوں وعظ کرتے ہو اللہ تو انہیں ہلاک کرنے والا سخت عذاب کرنے والا ہے تو انہوں نے وہ جواب دیا یعنی اللہ کا فرمان دہرایا ۔

لیکن لوگ فرمان ربانی کو بھول بیٹھے اور عذاب رب کے خود شکار ہوگئے ۔ یہ تین گروہوں میں بٹ گئے تھے ایک تو شکار کھیلنے والا، ایک منع کرنے والا ، ایک ان منع کرنے والوں سے کہنے والا کہ اب نصیحت بیکار ہے ۔

 بس وہ تو بچ گئے جو برابر روکتے رہے تھے اور دونوں جماعتیں ہلاک کر دی گئیں ۔

 سند اس کی نہایت عمدہ ہے لیکن حضرت ابن عباس کا حضرت عکرمہ کے قول کی طرف رجوع کرنا اس قول کے کہنے سے اولیٰ ہے اس لئے کہ اس قول کے بعد ان پر ان کے حال کی حقیقت کھل گئی واللہ اعلم ۔

فرمان ہے کہ پھر ہم نے ظالموں کو سخت عذابوں سے دبوچ لیا ۔ مفہوم کی دلالت تو اس بات پر ہے کہ جو باقی رہے بچ گئے

بَئِيسٍ کی کئی ایک قرأتیں ہیں اس کے معنی سخت کے ، دردناک کے ، تکلیف دہ کے ہیں اور سب کا مطلب قریب قریب یکساں ہے ۔

فَلَمَّا عَتَوْا عَنْ مَا نُهُوا عَنْهُ قُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِينَ (۱۶۶)

یعنی جب، جس کام سے ان کو منع کیا گیا تھا اس میں حد سے نکل گئے تو ہم نے ان کو کہہ دیا تم ذلیل بندر بن جاؤ ۔

ان کی سرکشی اور انکے حد سے گزر جانے کے باعث ہم نے ان سے کہہ دیا کہ تم ذلیل حقیر اور ناقدرے بندر بن جاؤ چنانچہ وہ ایسے ہی ہوگئے ۔

وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكَ لَيَبْعَثَنَّ عَلَيْهِمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَنْ يَسُومُهُمْ سُوءَ الْعَذَابِ ۗ

اور وہ وقت یاد کرنا چاہیے کہ آپ کے رب نے یہ بات بتلادی کہ وہ ان یہود پر قیامت تک ایسے شخص کو ضرور مسلط کرتا رہے گا جو ان کو سزائے شدید کی تکلیف پہنچاتا رہے گا

اللہ تعالیٰ نے یہود کو اطلاع کر دی کہ ان کی اس سخت نا فرمانی و بار بار کی بغاوت اور ہر موقعہ پر نافرمانی ، رب سے سرکشی اور اللہ کے حرام کو اپنے کام میں لانے کیلئے حیلہ جوئی کر کے اسے حلال کی جامہ پوشی کا بدلہ یہ ہے کہ قیامت تک تم دبے رہو ذلت میں رہو لوگ تمہیں پست کرتے چلے جائیں ۔

 خود حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی ان پر تاوان مقرر کر دیا تھا سات سال یا تیرہ سال تک یہ اسے ادا کرتے رہے ، سب سے پہلے خراج کاطریقہ آپ نے ہی ایجاد کیا

پھر ان پر یونانیوں کی حکومت ہوئی پھر کسرانیوں کلدانیوں اور نصرانیوں کی ۔ سب کے زمانے میں ذلیل اور حقیر رہے ان سے جزیہ لیا جاتا رہا اور انہیں پستی سے ابھرنے کا کوئی موقعہ نہ ملا ۔

پھر اسلام آیا اور اس نے بھی انہیں پست کیا جزیہ اور خراج برابر ان سے وصول ہوتا رہا ۔

غرض یہ ذلیل رہے اس اُمت کے ہاتھوں بھی حقارت کے گڑھے میں گرے رہے ۔

بالآخر یہ دجال کے ساتھ مل جائیں گے لیکن مسلمان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ جا کر ان کی تخم ریزی کر دیں گے،

إِنَّ رَبَّكَ لَسَرِيعُ الْعِقَابِ ۖ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَحِيمٌ (۱۶۷)

بلاشبہ آپ کا رب جلدی ہی سزا دے دیتا ہے اور بلاشبہ وہ واقعی بڑی مغفرت اور بڑی رحمت والا ہے ۔

جو بھی شریعت الٰہ کی مخالفت کرتا ہے ، اللہ کے فرمان کی تحقیر کرتا ہے اللہ اسے جلدی ہی سزا دے دیتا ہے ۔ ہاں جو اس کی طرف رغبت و رجوع کرے ، توبہ کرے، جھکے تو وہ بھی اس کے ساتھ بخشش و رحمت سے پیش آتا ہے چونکہ ایمان نام ہے خوف اور امید کا اسی لئے یہاں اور اکثر جگہ عذاب و ثواب، پکڑ دکڑ اور بخشش اور لالچ دونوں کا ایک ساتھ بیان ہوا ہے ۔

وَقَطَّعْنَاهُمْ فِي الْأَرْضِ أُمَمًا ۖ مِنْهُمُ الصَّالِحُونَ وَمِنْهُمْ دُونَ ذَلِكَ ۖ

اور ہم نے دنیا میں ان کی مختلف جماعتیں کردیں۔ بعض ان میں نیک تھے اور بعض ان میں اور طرح کے تھے

بنی اسرائیل مختلف فرقے اور گروہ کر کے زمین میں پھیلا دیئے گئے ۔

جیسے فرمان ہے:

وَقُلْنَا مِن بَعْدِهِ لِبَنِى إِسْرَءِيلَ اسْكُنُواْ الاٌّرْضَ فَإِذَا جَآءَ وَعْدُ الاٌّخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيفًا (۱۷:۱۰۴)

اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے فرما دیا کہ اس سرزمین پر رہو سہو۔ ہاں جب آخرت کا وقت آئے گا ہم سب کو سمیٹ کر لے آئیں گے

 ان میں کچھ تو نیک لوگ تھے کجھ بد تھے، جنات میں بھی یہی حال ہے جیسے سورہ جن میں ان کا قول ہے :

وَأَنَّا مِنَّا الصَّـلِحُونَ وَمِنَّا دُونَ ذَلِكَ كُنَّا طَرَآئِقَ قِدَداً (۷۲:۱۱)

اور یہ کہ (بیشک) بعض تو ہم میں نیکوکار ہیں اور بعض اس کے برعکس بھی ہیں، ہم مختلف طریقوں سے بٹے ہوئے ہیں۔‏

وَبَلَوْنَاهُمْ بِالْحَسَنَاتِ وَالسَّيِّئَاتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ (۱۶۸)

 اور ہم ان کو خوش حالیوں اور بد حالیوں سے آزماتے رہے شاید باز آجائیں ۔

پھر فرمان ہے کہ میں نے انہیں سختی نرمی سے ، لالچ اور خوف سے ، عافیت اور بلا سے غرض ہر طرح پر کھ لیا تاکہ وہ اپنے کرتوت سے ہٹ جائیں

فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ وَرِثُوا الْكِتَابَ يَأْخُذُونَ عَرَضَ هَذَا الْأَدْنَى

پھر انکے بعد ایسے لوگ ان کے جانشین ہوئے کہ کتاب کو ان سے حاصل کیا وہ اس دنیائے فانی کا مال متاع لے لیتے ہیں

جب یہ زمانہ بھی گزرا جس میں نیک بد ہر طرح کے لوگ تھے ان کے بعد تو ایسے ناخلف اور نالائق آئے جن میں کوئی بھلائی اور خیریت تھی ہی نہیں ۔ یہ اب تورات کی تلاوت والے رہ گئے ممکن ہے اس سے مراد صرف نصرانی ہوں اور ممکن ہے کہ یہ خبر عام نصرانی غیر نصرانی سب پر مشتمل ہو وہ حق بات کو بدلنے اور مٹانے کی فکر میں لگ گئے جیب بھر دو جو چاہو کہلوا لو ۔ پس ہوس یہ ہے کہ ہے کیا؟ توبہ کرلیں گے معاف ہو جائے گا پھر موقع آیا پھر دنیا لے کر اللہ کی باتیں بدل دیں ۔ گناہ کیا توبہ کی پھر موقعہ ملتے ہی لپک کر گناہ کر لیا ۔

وَيَقُولُونَ سَيُغْفَرُ لَنَا وَإِنْ يَأْتِهِمْ عَرَضٌ مِثْلُهُ يَأْخُذُوهُ ۚ

اور کہتے ہیں ہماری ضرور مغفرت ہو جائے گی حالانکہ اگر ان کے پاس ویسا ہی مال متاع آنے لگے تو اس کو بھی لے لیں گے

مقصود ان کا دنیا طلبی ہے حلال سے ملے چاہے حرام سے ملے پھر بھی مغفرت کی تمنا ہے ۔ یہ ہیں جو وارث رسول کہلواتے ہیں اور جن سے اللہ نے عہد لیا ہے جیسے دوسری آیت میں ہے:

فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُواْ الصَّلَـوةَ (۱۹:۵۹)

پھر ان کے بعد ایسے اطاعت نہ کرنے والے پیدا ہوئے کہ انہوں نے نماز ضائع کر دی

بنی اسرائیل کا آوے کا آوا بگڑ گیا آج ایک کو قاضی بناتے ہیں وہ رشوتیں کھانے اور احکام بدلنے لگتا ہے وہ اسے ہٹا کر دوسرے کو قائم کرتے ہیں اس کا بھی یہی حال ہوتا ہے پوچھتے ہیں بھئی ایسا کیوں کرتے ہو؟

 جواب ملتا ہے اللہ غفور و رحیم ہے

 پھر وہ ان لوگوں میں سے کسی کو اس عہدے پر لاتے ہیں جو اگلے قاضیوں حاکموں اور ججوں کا شاکی تھا لیکن وہ بھی رشوتیں لینے لگتا ہے اور ناحق فیصلے کرنے لگتا ہے

أَلَمْ يُؤْخَذْ عَلَيْهِمْ مِيثَاقُ الْكِتَابِ أَنْ لَا يَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ وَدَرَسُوا مَا فِيهِ ۗ

 کیا ان سے اس کتاب کے اس مضمون کا عہد نہیں لیا گیا کہ اللہ کی طرف سے بجز حق بات کے اور کسی بات کی نسبت نہ کریں اور انہوں نے اس کتاب میں جو کچھ تھا اس کو پڑھ لیا

پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ایسا کیوں کرتے ہو؟ حالانکہ تم سے مضوبط عہد و پیمان ہم نے لے لیا ہے کہ تم حق کو ظاہر کیا کرو اسے نہ چھپاؤ لیکن ذلیل دنیا کے لالچ میں آ کر عذاب رب مول لے رہے ہواسی وعدے کا بیان اس  آیت میں ہے

وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَـقَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَـبَ ۔۔۔ فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُونَ (۳:۱۸۷)

اور اللہ تعالیٰ نے جب اہل کتاب سے عہد لیا کہ تم اسے سب لوگوں سے ضرور بیان کرو گے اور اسے چھپاؤ گے نہیں

تو پھر بھی ان لوگوں نے اس عہد کو اپنی پیٹھ پیچھے ڈال دیا اور اسے بہت کم قیمت پر بیچ ڈالا۔ ان کا یہ بیوپار بہت برا ہے۔‏

 یہ بھی اس کے خلاف تھا کہ گناہ کرتے چلے جائیں توبہ نہ کریں اور بخشش کی امید رکھیں

وَالدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ ۗ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (۱۶۹)

اور آخرت والا گھر ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو تقویٰ رکھتے ہیں، پھر کیا تم نہیں سمجھتے۔‏

پھر اللہ تعالیٰ انہیں اپنے پاس کے اجرو ثواب کی لالچ دکھاتا ہے کہ اگر تقویٰ کیا حرام سے بچے خواہش نفسانی کے پیچھے نہ لگے رب کی اطاعت کی تو آخرت کا بھلا تمہیں لے گا جو اس فانی دنیا کے ٹھاٹھ سے بہت ہی بہتر ہے ۔

کیا تم میں اتنی بھی سمجھ نہیں کہ گراں بہا چیز کو چھوڑ کر ردی چیز کے پیچھے پڑے ہو؟

وَالَّذِينَ يُمَسِّكُونَ بِالْكِتَابِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ إِنَّا لَا نُضِيعُ أَجْرَ الْمُصْلِحِينَ (۱۷۰)

اور جو لوگ کتاب کے پابند ہیں اور نماز کی پابندی کرتے ہیں ہم ایسے لوگوں کو جو اپنی اصلاح کریں ثواب ضائع نہ کریں گے

 پھر جناب باری عزوجل ان مؤمنوں کی تعریف کرتا ہے جو کتاب اللہ پر قائم ہیں اور اس کتاب کی راہنمائی کے مطابق اس پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہیں ، کلام رب پر جم کر عمل کرتے ہیں ، احکام الہٰی کو دل سے مانتے ہیں اور بجا لاتے ہیں اس کے منع کردہ کاموں سے رک گئے ہیں، نماز کو پابندی ، دلچسپی ، خشوع اور خضوع سے ادا کرتے ہیں

 حقیقتاً یہی لوگ اصلاح پر ہیں ناممکن ہے کہ ان نیک اور پاکباز لوگوں کا بدلہ اللہ ضائع کر دے ۔

وَإِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَهُمْ كَأَنَّهُ ظُلَّةٌ وَظَنُّوا أَنَّهُ وَاقِعٌ بِهِمْ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُمْ بِقُوَّةٍ وَاذْكُرُوا مَا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (۱۷۱)

اور جب ہم نے پہاڑ کو اٹھا کر سائبان کی طرح انکے اوپر معلق کر دیا اور انکو یقین ہوگیا کہ اب ان پر گرا اور کہا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی ہے اسے مضبوطی کے ساتھ قبول کرو اور یاد رکھو جو احکام اس میں ہیں اس سے توقع ہے کہ تم متقی بن جاؤ

اسی طرح کی آیت  وَرَفَعْنَا فَوْقَهُمُ الطُّورَ (۴:۱۵۴) ہے یعنی ہم نے ان کے سروں پر طور پہاڑ لا کھڑا کیا ۔ اسے فرشتے اٹھا لائے تھے۔

حضرت ابن عباسؓ کا بیان ہے:

 جب موسیٰ علیہ السلام انہیں ارض مقدس کی طرف لے چلے اور غصہ اتر جانے کے بعد تختیاں اٹھا لیں اور ان میں جو حکم احکام تھے، وہ انہیں سنائے تو انہیں وہ سخت معلوم ہوئے اور تسلیم و تعمیل سے صاف انکار کر دیا تو بحکم الہٰی فرشتوں نے پہاڑ اٹھا کر ان کے سروں پر لا کھڑا کر دیا

نسائی میں مروی ہے :

جب کلیم اللہ علیہ صلوات نے فرمایا کہ لوگو اللہ کی کتاب کے احکام قبول کرو تو انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں سناؤ اس میں کیا احکام ہیں؟ اگر آسان ہوئے تو ہم منظور کرلیں گے ورنہ نہ مانیں گے

 حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بار بار کے اصرار پر بھی یہ لوگ یہی کہتے رہےآخر اسی وقت اللہ کے حکم سے پہاڑ اپنی جگہ سے اٹھ کر ان کے سروں پر معلق کھڑا ہو گیا اور اللہ کے پیغمبر نے فرمایا بو لو اب مانتے ہو یا اللہ تعالیٰ تم پر پہاڑ گرا کر تمہیں فنا کر دے؟

 اسی وقت یہ سب کے سب مارے ڈر کے سجدے میں گر پڑے لیکن بائیں آنکھ سجدے میں تھی اور دائیں سے اوپر دیکھ رہے تھے کہ کہیں پہاڑ گر نہ پڑے ۔چنانچہ یہودیوں میں اب تک سجدے کا طریقہ یہی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ اسی طرح کے سجدے نے ہم پر سے عذاب الہٰی دور کر دیا ہے ۔

 پھر جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان تختیوں کو کھولا تو ان میں کتاب تھی جسے خود اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے لکھا تھا اسی وقت تمام پہاڑ درخت پتھر سب کانپ اٹھے ۔

 آج بھی یہودی تلاوت تورات کے وقت کانپ اٹھتے ہیں اور ان کے سر جھک جاتے ہیں ۔

وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنْفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۖ

اور جب آپ کے رب نے اولاد آدم کی پشت سے ان کی اولاد کو نکالا اور ان سے ان ہی کے متعلق اقرار لیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟

اولاد آدم سے اللہ تعالیٰ نے ان کی نسلیں ان کی پیٹھوں سے روز اول میں نکالیں ۔ پھر ان سب سے اس بات کا اقرار لیا کہ رب ، خالق، مالک ، معبود صرف وہی ہے ۔ اسی فطرت پر پھر دنیا میں ان سب کو ان کے وقت پر اس نے پیدا کیا ۔ یہی وہ فطرت ہے جس کی تبدیلی نا ممکن ہے ،

فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفاً فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِى فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لاَ تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ (۳۰:۳۰)

پس آپ یک سو ہو کر اپنا منہ دین کی طرف متوجہ کر دیں اللہ تعالیٰ کی وہ فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے اس اللہ تعالیٰ کے بنائے کو بدلنا نہیں

بخاری و مسلم میں ہے:

 ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے ۔

 ایک روایت میں ہے :

 اس دین پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں جیسے کہ بکری کا بچہ صحیح سالم پیدا ہوتا ہے لیکن پھر لوگ اس کے کان کاٹ دیتے ہیں ۔

حدیث قدسی میں ہے:

 میں نے اپنے بندوں کو موحد و مخلص پیدا کیا پھر شیطان نے آ کر انہیں ان کے سچے دین سے بہکا کر میری حلال کردہ چیزیں ان پر حرام کر دیں ۔

قبیلہ بن سعد کے ایک صحابی حضرت اسود بن سریع ؓفرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چار غزوے کئے لوگوں نے لڑنے والے کفار کے قتل کے بعد ان کے بچوں کو بھی پکڑ لیا جب آپ کو اس کا علم ہوا تو بہت ناراض ہوئے اور فرمایا لوگ ان بچوں کو کیوں پکڑ رہے ہیں؟کسی نے کہا حضور وہ بھی تو مشرکوں کے ہی بچے ہیں؟

 فرمایا سنو تم میں سے بہتر لوگ مشرکین کی اولاد میں ہیں یاد رکھو ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے پھر زبان چلنے پر اس کے ماں باپ یہودیت یا نصرانیت کی تعلیم دینے لگتے ہیں ۔

 راوی حضرت حسنؒ فرماتے ہیں اسی کا ذکر اس آیت میں ہے کہ اللہ نے اولاد آدم سے اپنی توحید کا اقرار لیا ہے (ابن جریر)

اس اقرار کے بارے میں کئی ایک حدیثیں مروی ہیں ۔

مسند احمد میں ہے :

قیامت کے دن دوزخی سے کہا جائے گا اگر تمام دنیا تیری ہو تو کیا تو خوش ہے کہ اسے اپنے فدئیے میں دے کر میرے عذابوں سے آج بچ جائے ؟

 وہ کہے گا ہاں۔

 اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے تو اس سے بہت ہی ہلکے درجے کی چیز تجھ سے طلب کی تھی اور اس کا وعدہ بھی تجھ سے لے لیا تھا کہ میرے سوا تو کسی اور کی عبادت نہ کرے لیکن تو عہد توڑے بغیر نہ رہا اور دوسرے کو میرا شریک عبادت ٹھہرایا ۔

 مسند میں ہے :

نعمان نامی میدان میں اللہ تعالیٰ نے پشت آدم میں سے عرفے کے دن ان کی تمام اولاد ظاہر فرمائی سب کو اس کے سامنے پھیلا دیا اور فرمایا کیا میں تم سب کا رب نہیں ہوں؟

سب نے کہا ہاں ہم گواہ ہیں

 پھر آپ نے الْمُبْطِلُونَ (۷:۱۷۴)  تک تلاوت فرمائی ۔

یہ روایت موقوف ابن عباس ؓسے بھی مروی ہے واللہ اعلم ۔

اس وقت لوگ چیونٹیوں کی طرح تھے اور تر زمین پر تھے ۔

حضرت ضحاک بن مزاحم کے چھ دن کی عمر کے صاحبزادے کا انتقال ہو گیا تو آپ نے فرمایا جابر اسے دفن کر کے اس کا منہ کفن سے کھول دینا اور گرہ بھی کھول دینا کیونکہ میرا یہ بچہ بٹھا دیا جائے گا اور اس سے سوال کیا جائے گا

جابر نے حکم کی بجا آوری کی ،

 پھر میں نے پوچھا کہ آپ کے بچے سے کیا سوال ہو گا اور کون سوال کرے گا؟

 فرمایا اس میثاق کے بارے میں جو صلب آدم میں لیا گیا ہے سوال کیا جائے گا ۔

 میں نے پوچھا وہ میثاق کیا ہے؟

 فرمایا میں نے حضرت ابن عباسؓ سے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا تو جتنے انسان قیامت تک پیدا ہونے والے ہیں سب کی روحیں آ گئیں اللہ نے ان سے عہد و پیمان لیا کہ وہ اسی کی عبادت کریں گے اس کے سوا کسی اور کو معبود نہیں مانیں گے خود ان کے رزق کا کفیل بنا پھر انہیں صلب آدم میں لوٹا دیا ۔

 پس یہ سب قیامت سے پہلے ہی پہلے پیدا ہوں گے۔جس نے اس وعدے کو پورا کیا اور اپنی زندگی میں اس پر قائم رہا اسے وہ وعدہ نفع دے گا اور جس نے اپنی زندگی میں اس کی خلاف ورزی کی اسے پہلے کا وعدہ کجھ فائدہ نہ دے گا ۔بچپن میں ہی جو مر گیا وہ میثاق اول پر اور فطرت پر مرا ۔

 ان آثار سے بھی بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ اوپر والی حدیث کا موقوف ہونا ہی اکثر اور زیادہ ثبوت والا ہے ۔

 ابن جریر کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 بنی آدم کی پیٹھ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی نسلیں ایسی نکالیں جیسے کنگھی بالوں میں سے نکلتی ہے ان سے اپنی ربوبیت کا سوال کیا انہوں نے اقرار کیا فرشتوں نے شہادت دی اس لئے کہ یہ لوگ قیامت کے دن اس سے غفلت کا بہانہ نہ کریں ۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اس آیت کی تفسیر پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا یہی سوال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا تھا تو آپ نے میرے سنتے ہوئے فرمایا:

 اللہ عزوجل نے حضرت آدمؑ کو پیدا کیا اپنے داہنے ہاتھ سے ان کی پیٹھ کو چھوا اس سے اولاد نکلی فرمایا میں نے انہیں جہنم کیلئے پیدا کیا ہے یہ جہنمیوں کے اعمال کریں گے تو آپ سے سوال ہوا کہ پھر عمل کس گنتی میں ہیں؟

 آپﷺ نے فرمایا جو جنتی ہے اس سے مرتے دم تک جنتیوں کے ہی اعمال سرزد ہوں گے اور جنت میں جائیں گے ہاں جو جہنم کیلئے پیدا کیا گیا ہے اس سے وہی اعمال سرزد ہوں گے انہی پر مرے گا اور جہنم میں داخل ہو گا (ابوداؤد)

اور حدیث میں ہے:

اولاد آدم کو نکال کر ان کی دونوں آنکھوں کے درمیان ایک نور رکھ کر حضرت آدمؑ کے سامنے پیش کیا

حضرت نے پوچھا کہ یا اللہ یہ کون ہیں؟

فرمایا یہ تیری اولاد ہے

 ان میں سے ایک کے ماتھے کی چمک کو حضرت آدمؑ کے سامنے پیش کیاحضرت نے پوچھا کہ یا اللہ یہ کون ہیں؟

 فرمایا یہ تیری اولاد میں سے بہت دور جا کر ہیں ان کا نام داؤد ہے

پوچھا ان کی عمر کیا ہے؟

 فرمایا ساٹھ سال

 کہا یا اللہ میں نے اپنی عمر میں سے چالیس سال اس کو دیئے  پس جب حضرت آدمؑ کی روح کو قبض کرنے کیلئے فرشتہ آیا تو آپ نے فرمایا میری عمر میں سے تو ابھی چالیس سال باقی ہیں،

فرشتے نے کہا آپ کو یاد نہیں کہ آپ نے یہ چالیس سال اپنے بچے حضرت داؤدؑ کو ہبہ کر دیئے ہیں ۔

 بات یہ ہے چونکہ آدمؑ نے انکار کیا تو ان کی اولاد بھی انکار کی عادی ہے آدمؑ خود بھول گئے ان کی اولاد بھی بھولتی ہے آدم ؑنے خطا کی ان کی اولاد بھی خطا کرتی ہے،

یہ حدیث ترمذی میں ہے امام ترمذی اسے حسن صحیح لکھتے ہیں

اور روایت میں ہے :

 جب آدم علیہ السلام نے دیکھا کہ کوئی ان میں جذامی ہے کوئی کوڑھی ہے کوئی اندھا ہے کوئی بیمار ہے تو پوچھا کہ یا اللہ اس میں کیا مصلحت ہے ؟

فرمایا یہ کہ میرا شکرادا  کیا جائے ۔

حضرت آدم علیہ السلام نے پوچھا کہ یا اللہ ان میں یہ زیادہ روشن اور نورانی چہروں والے کون ہیں؟

 فرمایا یہ انبیاء ہیں۔

 کسی شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ہم جو کچھ کرتے ہیں یہ ہمارا ذاتی عمل ہے یا کہ فیصل شدہ ہے؟

 آپ ﷺنے فرمایا:

 اللہ تعالیٰ نے آدم کی اولاد کو ان کی پیٹھوں سے نکالا انہیں گواہ بنایا پھر اپنی دونوں مٹھیوں میں لے لیا اور فرمایا یہ جنتی ہیں اور یہ جہنمی ۔ پس اہل جنت پر تو نیک کام آسان ہوتے ہیں اور دوزخیوں پر برے کام آسان ہوتے ہیں

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا اور قضیہ ختم کیا تو جن کے دائیں ہاتھ میں نامہ اعمال ملنے والا ہے انہیں اپنی داہنی مٹھی میں لیا اور بائیں والوں کو بائیں مٹھی میں لیا پھر فرمایا اے دائیں طرف والو

 انہوں نے کہا لبیک وسعد یک

 فرمایا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟

 سب نے کہا ہاں

پھر سب کو ملا دیا

 کسی نے پوچھا یہ کیوں کیا؟

 فرمایا اس لئے کہ ان کے لئے اور اعمال ہیں جنہیں یہ کرنے والے ہیں یہ تو صرف اس لئے کہلوایا گیا ہے کہ انہیں یہ عذر نہ رہے کہ ہم اس سے غافل تھے ۔

 پھر سب کو صلب آدم میں لوٹا دیا ۔

حضرت ابی بن کعبؒ فرماتے ہیں:

اس میدان میں اس دن سب کو جمع کیا ، صورتیں دیں ، بولنے کی طاقت دی، پھر عہد و میثاق لیا اور اپنے رب ہونے پر خود انہیں گواہ بنایا اور ساتوں آسمانوں ، ساتوں زمینوں اور حضرت آدمؑ کو گواہ بنایا کہ قیامت کے دن کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہمیں علم نہ تھا جان لو کہ میرے سوا کوئی اور معبود نہیں نہ میرے سوا کوئی اور مربی ہے ۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا میں اپنے رسولوں کو بھیجوں گا جو تمہیں یہ وعدہ یاد دلائیں گے میں اپنی کتابیں اتاروں گا تاکہ تمہیں یہ عہد و میثاق یاد دلاتی رہیں

سب نے جواب میں کہا ہم گواہی دیتے ہیں کہ تو ہی ہمارا رب ہے تو ہی ہمارا معبود ہے تیرے سوا ہمارا کوئی مربی نہیں ۔

پس سب سے اطاعت کا وعدہ لیا

اب جو حضرت آدم علیہ السلام نے نظر اٹھا کر دیکھا تو امیر غریب اور اس کے سوا مختلف قسم کے لوگوں پر نظر پڑی تو آپ کہنے لگے کیا اچھا ہوتا کہ سب برابر ایک ہی حالت کے ہوتے تو جواب ملا کہ یہ اس لئے ہے کہ ہر شخص میری شکر گزاری کرے ۔

 آپ نے دیکھا کہ ان میں اللہ کے پیغمبر بھی ہیں ان سے پھر علیحدہ ایک اور میثاق لیا گیا جس کا بیان آیت وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ (۳۳:۷)  میں ہے ۔ اسی عام میثاق کا بیان آیت فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا (۳۰:۳۰) میں ہے اسی لئے فرمان ہے آیت هَـٰذَا نَذِيرٌ مِّنَ النُّذُرِ الْأُولَىٰ (۵۳:۵۶) اسی کا بیان اس آیت میں ہے وَمَا وَجَدْنَا لِأَكْثَرِهِم مِّنْ عَهْدٍ (۷:۱۰۲)  ( مسند احمد)

حضرت مجاہدؒ ، حضرت عکرمہؒ ، حضرت سعید بن جبیرؒ ، حضرت حسنؒ ، حضرت قتادہؒ ، حضرت سدیؒ اور بہت سے سلف سے ان احادیث کے مطابق اقوال مروی ہیں جن سب کے وارد کرنے سے بہت طول ہو جائے گا ماحصل سب کا یہی ہے جو ہم نے بیان کر دیا ۔

 اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو آپ کی پیٹھ سے نکالا جنتی دوزخی الگ الگ کئے اور وہیں ان کو اپنے رب ہونے پر گواہ کر لیا

یہ جن دو احادیث میں ہے وہ دونوں مرفوع نہیں بلکہ موقوف ہیں اسی لئے سلف و خلف میں اس بات کے قائل گزرے ہیں کہ اس سے مراد فطرت پر پیدا کرنا ہے جیسے کہ مرفوع اور صحیح احادیث میں وارد ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ مِن بَنِي آدَمَ (۷:۱۷۲) فرمایا اور مِن ظُهُورِهِمْ (۷:۱۷۲)  کہا ورنہ مِن آدَمَ اور مِن ظُهُرِهِ ہوتا ۔ ان کی نسلیں اس روز نکالی گئیں جو کہ یکے بعد دیگرے مختلف قرنوں میں ہونے والی تھیں ۔ جیسے فرمان ہے وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلَائِفَ الْأَرْضِ (۶:۱۶۵) اللہ ہی نے تمہیں زمین میں دوسروں کا جانشین کیا ہے اور جگہ ہے وہی تمہیں زمین کے خلیفہ بنا رہا ہے اور آیت میں ہے جیسے تمہیں دوسرے لوگوں کی اولاد میں کیا ۔

 الغرض حال و قال سے سب نے اللہ کے رب ہونے کا اقرار کیا ۔ شہادت قولی ہوتی ہے جیسے آیت قَالُواْ شَهِدْنَا عَلَى أَنفُسِنَا (۶:۱۳۰) میں اور شہادت کبھی حال سے ہوتی ہے جیسے آیت مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِينَ أَن يَعْمُرُواْ مَسَاجِدَ الله شَاهِدِينَ عَلَى أَنفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ (۹:۱۷) میں یعنی ان کا حال ان کے کفر کی کھلی اور کافی شہادت ہے اس طرح کی آیت وَإِنَّهُ عَلَى ذَلِكَ لَشَهِيدٌ (۱۰۰:۷) ہے ۔ اسی طرح سوال بھی کبھی زبان سے ہوتا ہے کبھی حال سے ۔

جیسے فرمان ہے وَآتَاكُم مِّن كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ (۱۴:۳۴) اس نے  تمہیں  تمہارا  منہ مانگا دیا ۔

 کہتے ہیں کہ اس بات پر یہ دلیل بھی ہے کہ ان کے شرک کرنے پر یہ حجت ان کے خلاف پیش کی ۔ پس اگر یہ واقع میں ہوا ہوتا جیساکہ ایک قول ہے تو چاہئے تھا کہ ہر ایک کو یاد ہوتا تاکہ اس پر حجت رہے ۔

 اگر اس کا جواب یہ ہو کہ فرمان رسول سے خبر پا لینا کافی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ جو رسولوں کو ہی نہیں مانتے وہ رسولوں کی دی ہوئی خبروں کو کب صحیح جانتے ہیں؟ حالانکہ قرآن کریم نے رسولوں کی تکذیب کے علاوہ خود اس شہادت کو مستقل دلیل ٹھہرایا ہے

 پس اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ اس سے مراد فطرت ربانی ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے ساری مخلوق کو پیدا کیا ہے اور وہ فطرت توحید باری تعالیٰ ہے ۔

قَالُوا بَلَى ۛ شَهِدْنَا ۛ أَنْ تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِينَ (۱۷۲)

سب نے جواب دیا کیوں نہیں! ہم سب گواہ بنتے ہیں۔ تاکہ تم لوگ قیامت کے روز یوں نہ کہو کہ ہم تو اس سے محض بےخبر تھے۔‏

اسی لئے فرماتا ہے کہ یہ اس لئے کہ تم قیامت کے دن یہ نہ کہہ سکو کہ ہم توحید سے غافل تھے

أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا أَشْرَكَ آبَاؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِنْ بَعْدِهِمْ ۖ

یا یوں کہو کہ پہلے پہلے شرک تو ہمارے بڑوں نے کیا اور ہم ان کے بعد ان کی نسل میں ہوئے

 اور یہ بھی نہ کہہ سکو کہ شرک تو ہمارے اگلے باپ دادوں نے کیا تھا

أَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ (۱۷۳)

سو کیا ان غلط راہ والوں کے فعل پر تو ہم کو ہلاکت میں ڈال دے گا؟

 ان کے اس ایجاد کردہ گناہ پر ہمیں سزا کیوں ؟

وَكَذَلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ وَلَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ (۱۷۴)

ہم اسی طرح آیات کو صاف صاف بیان کرتے ہیں تاکہ وہ باز آجائیں۔‏

 پھر تفصیل وار آیات کے بیان فرمانے کا راز ظاہر کیا کہ اس کو سن کر برائیوں سے باز آ جانا ممکن ہو جاتا ہے۔

وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ الَّذِي آتَيْنَاهُ آيَاتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْهَا

اور ان لوگوں کو اس شخص کا حال پڑھ کر سنایئے کہ جس کو ہم نے اپنی آیتیں دیں پھر وہ ان سے نکل گیا،

مروی ہے کہ جس کا واقعہ ان آیتوں میں بیان ہو رہا ہے اس کا نام بلعم بن باعورا ہے ۔

 یہ بھی کہ کہا گیا ہے کہ اس کا نام ضفی بن راہب تھا ۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ بلقاء کا ایک شخص تھا جو اسم اعظم جانتا تھا اور جبارین کے سات ہی بیت المقدس میں رہا کرتا تھا ۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ یمنی شخص تھا جس نے کلام اللہ کو ترک کر دیا تھا ، یہ شخص بنی اسرائیل کے علماء میں سے تھا، اس کی دعا مقبول ہو جایا کرتی تھی ۔ بنی اسرائیل سختیوں کے وقت اسے آگے کر دیا کرتے تھے ۔ اللہ اس کی دعا مقبول فرما لیا کرتا تھا ۔اسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مدین کے بادشاہ کی طرف اللہ کے دین کی دعوت دینے کیلئے بھیجا تھا اس عقلمند بادشاہ نے اسے مکرو فریب سے اپنا کر لیا ۔ اس کے نام کئی گاؤں کر دیئے اور بہت کجھ انعام و اکرام دیا ۔ یہ بد نصیب دین موسوی کو چھوڑ کر اس کے مذہب میں جا ملا ۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا نام بلعام تھا ۔

یہ بھی ہے کہ یہ امیہ بن ابوصلت ہے ۔ ممکن ہے یہ کہنے والے کی یہ مراد ہو کہ یہ امیہ بھی اسی کے مشابہ تھا ۔ اسے بھی اگلی شریعتوں کا علم تھا لیکن یہ ان سے فائدہ نہ اٹھا سکا ۔

خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کو بھی اس نے پایا آپ کی آیات بینات دیکھیں ، معجزے اپنی آنکھوں سے دیکھ لئے ، ہزارہا کو دین حق میں داخل ہوتے دیکھا ، لیکن مشرکین کے میل جول ، ان میں امتیاز ، ان میں دوستی اور وہاں کی سرداری کی ہوس نے اسے اسلام اور قبول حق سے روک دیا ۔ اسی نے بدری کافروں کے ماتم میں مرثیے کہے ، لعنتہ اللہ ۔

 بعض احادیث میں وارد ہے کہ اس کی زبان تو ایمان لا چکی تھی لیکن دل مؤمن نہیں ہوا تھا

کہتے ہیں کہ اس شخص سے اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا کہ اس کی دعائیں جو بھی یہ کرے گا مقبول ہوں گی اس کی بیوی نے ایک مرتبہ اس سے کہا کہ ان تین دعاؤں میں سے ایک دعا میرے لئے کر ۔

اس نے منظور کر لیا اور پوچھا کیا دعا کرانا چاہتی ہو؟

 اس نے کہا یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس قدر حسن و خوبصورتی عطا فرمائے کہ مجھ سے زیادہ حسین عورت بنی اسرائیل میں کوئی نہ ہو ۔

 اس نے دعا کی اور وہ ایسی ہی حسین ہو گئی ۔

 اب تو اس نے پر نکالے اور اپنے میاں کو محض بےحقیقت سمجھنے لگی بڑے بڑے لوگ اس کی طرف جھکنے لگے اور یہ بھی ان کی طرف مائل ہو گئی اس سے یہ بہت کڑھا اور اللہ سے دعا کی کہ یا اللہ اسے کتیا بنا دے ۔

یہ بھی منظور ہوئی وہ کتیا بن گئی ۔

 اب اس کے بچے آئے انہوں نے گھیر لیا کہ آپ نے غضب کیا لوگ ہمیں طعنہ دیتے ہیں اور ہم کتیا کے بچے مشہور ہو رہے ہیں ۔

 آپ دعا کیجئے کہ اللہ اسے اس کی اصلی حالت میں پھر سے لا دے ۔

 اس نے وہ تیسری دعا بھی کر لی تینوں دعائیں یوں ہی ضائع ہوگئیں اور یہ خالی ہاتھ بےخیر رہ گیا ۔

 مشہور بات تو یہی ہے کہ بنی اسرائیل کے بزرگوں میں سے یہ ایک شخص تھا ۔

بعض لوگوں نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ یہ نبی تھا ۔ یہ محض غلط ہے ، بالکل جھوٹ ہے اور کھلا افترا ہے ۔

مروی ہے:

 حضرت موسیٰ علیہ السلام جب قوم جبارین سے لڑائی کے لئے بنی اسرائیل کی ہمراہی میں گئے انہی جبارین میں بلغام نامی یہ شخص تھا اس کی قوم اور اس کے قرابت دار چچا وغیرہ سب اس کے پاس آئے اور کہا کہ موسیٰ اور اس کی قوم کے لئے آپ بد دعا کیجئے ۔

 اس نے کہا یہ نہیں ہو سکتا اگر میں ایسا کروں گا تو میری دنیا آخرت دونوں خراب ہو جائیں گی لیکن قوم سر ہوگئی ۔ یہ بھی لحاظ مروت میں آ گیا ۔ بد دعا کی، اللہ تعالیٰ نے اس سے کرامت چھین لی اور اسے اس کے مرتبے سے گرا دیا ۔

سدی کہتے ہیں :

جب بنی اسرائیل کو وادی تیہ میں چالیس سال گزر گئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا انہوں نے فرمایا کہ مجھے حکم ہوا ہے کہ میں تمہیں لے کر جاؤں اور ان جبارین سے جہاد کروں ۔ یہ آمادہ ہوگئے ، بیعت کر لی ۔

 انہی میں بلعام نامی ایک شخص تھا جو بڑا عالم تھا اسم اعظم جانتا تھا۔ یہ بد نصیب کافر ہو گیا ، قوم جبارین میں جا ملا اور ان سے کہا تم نہ گھبراؤ جب بنی اسرائیل کا لشکر آ جائے گا میں ان پر بد دعا کروں گا تو وہ دفعتاًہلاک ہو جائے گا ۔

اس کے پاس تمام دنیوی ٹھاٹھ تھے لیکن عورتوں کی عظمت کی وجہ سے یہ ان سے نہیں ملتا تھا بلکہ ایک گدھی پال رکھی تھی ۔ اسی بد قسمت کا ذکر اس آیت میں ہے ۔ شیطان اس پر غالب آ گیا اسے اپنے پھندے میں پھانس لیا جو وہ کہتا تھا یہ کرتا تھا آخر ہلاک ہو گیا ۔

مسند ابو یعلی موصلی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

 میں تم سب سے زیادہ اس سے ڈرتا ہوں جو قرآن پڑھ لے گا جو اسلام کی چادر اوڑھے ہوئے ہوگا اور دینی ترقی پر ہوگا کہ ایک دم اس سے ہٹ جائے گا، اسے پس پشت ڈال دے گا، اپنے پڑوسی پر تلوار لے دوڑے گا اور اسے شرک کی تہمت لگائے گا ۔

حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر دریافت کیا کہ یا رسول اللہ مشرک ہونے کے زیادہ قابل کون ہوگا؟

یہ تہمت لگانے والایا  وہ جسے تہمت لگا رہا ہے

 فرمایا نہیں بلکہ تہمت دھرنے والا ۔

فَأَتْبَعَهُ الشَّيْطَانُ فَكَانَ مِنَ الْغَاوِينَ (۱۷۵)

پھر شیطان اس کے پیچھے لگ گیا سو وہ گمراہ لوگوں میں شامل ہوگیا

پھر فرماتا ہے کہ اگر ہم چاہتے تو قادر تھے کہ اسے بلند مرتبے پر پہنچائیں ، دنیا کی آلائشوں سے پاک رکھیں، اپنی دی ہوئی آیتوں کی تابعداری پر قائم رکھیں لیکن وہ دنیوی لذتوں کی طرف جھک پڑا یہاں تک کہ شیطان کا پورا مرید ہوگیا ۔ اسے سجدہ کر لیا ۔

وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاهُ بِهَا وَلَكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ ۚ

اگر ہم چاہتے تو اس کو ان آیتوں کی بدولت بلند مرتبہ کر دیتے لیکن وہ تو دنیا کی طرف مائل ہوگیا اور اپنی نفسانی خواہش کی پیروی کرنے لگا

ابن سیار سے مروی ہے:

 موسیٰؑ نے بنی ا سرائیل کو لے کر اس سر زمین کا رخ کیا جس میں بلعام رہتا تھا یا شام کا رخ کیا۔ فوج کشی سے وہاں کے لوگ گھبرا گئے اور بلعام سے لوگوں نے درخواست کی کہ آپ حضرت موسیٰؑ اور بنی اسرائیل کے حق میں بد دعا کیجئے ۔ اس نے کہا اچھا میں اللہ سے حکم لے لوں ۔ جب اس نے اللہ تعالیٰ سے مناجات کی تو اسے معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل مسلمان ہیں اور ان میں اللہ کے نبی موجود ہیں اس نے سب سے کہا کہ مجھے بد دعا کرنے سے روک دیا گیا ہے

 انہوں نے بہت سارے تحفے تحائف جمع کر کے اسے دیئے اس نے سب رکھ لئے ۔

 پھر دوبارہ درخواست کی کہ ہمیں ان سے بہت خوف ہے آپ ضرور ان پر بد دعا کیجئے

اس نے جواب دیا کہ جب تک میں اللہ تعالیٰ سے اجازت نہ لے لوں میں ہرگز یہ نہ کروں گا اس نے پھر اللہ سے مناجات کی لیکن اسے کچھ معلوم نہ ہو سکا

 اس نے یہی جواب انہیں دیا تو انہوں نے کہا دیکھو اگر منع ہی مقصود ہوتا تو آپ کو روک دیا جاتا جیساکہ اس سے پہلے روک دیا گیا ۔ اس کی بھی سمجھ میں آ گیا اٹھ کر بد دعا شروع کی ۔

 اللہ کی شان ہے بد دعا ان پر کرنے کے بجائے اس کی زبان سے اپنی ہی قوم کے لئے بد دعا نکلی اور جب اپنی قوم کی فتح کی دعا مانگنا چاہتا تو بنی اسرائیل کی فتح و نصرت کی دعا نکلتی ۔

قوم نے کہا آپ کیا غضب کر رہے ہیں؟

 اس نے کہا کیا کروں؟ میری زبان میرے قابو میں نہیں ۔ سنو اگر سچ مچ میری زبان سے ان کے لئے بد دعا نکلی بھی تو قبول نہ ہوگی ۔ سنو اب میں تمہیں ایک ترکیب بتاتا ہوں اگر تم اس میں کامیاب ہوگئے تو سمجھ لو کہ بنی اسرائیل برباد ہو جائیں گے تم اپنی نوجوان لڑکیوں کو بناؤ سنگھار کرا کے ان کے لشکروں میں بھیجو اور انہیں ہدایت کر دو کہ کوئی ان کی طرف جھکے تو یہ انکار نہ کریں ممکن ہے بوجہ مسافرت یہ لوگ زناکاری میں مبتلا ہو جائیں اگر یہ ہوا تو چونکہ یہ حرام کاری اللہ کو سخت نا پسند ہے اسی وقت ان پر عذاب آ جائے گا اور یہ تباہ ہو جائیں گے ۔

 ان بےغیرتوں نے اس بات کو مان لیا اور یہی کیا ۔ خود بادشاہ کی بڑی حسین و جمیل لڑکی بھی بن ٹھن کر نکلی اسے ہدایت کر دی گئی تھی کہ سوائے حضرت موسیٰؑ کے اور کسی کو اپنا نفس نہ سونپے۔

یہ عورتیں جب بنی اسرائیل کے لشکر میں پہنچیں تو عام لوگ بےقابو ہوگئے حرام کاری سے بچ نہ سکے ۔ شہزادی بنی اسرائیل کے ایک سردار کے پاس پہنچی ۔ اس سردار نے اس لڑکی پر ڈورے ڈالے لیکن اس لڑکی نے انکار کیا ۔ اس نے بتایا کہ میں فلاں فلاں ہوں، اس نے اپنے باپ سے یا بلعام سے پچھوایا اس نے اجازت دی ۔ یہ خبیث اپنا منہ کالا کر رہا تھا جسے حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے کسی صاحب نے دیکھ لیا اپنے نیزے سے ان دونوں کو پرودیا ۔

 اللہ تعالیٰ نے اس کے دست و بازی قوی کر دیئے اس نے یونہی ان دونوں کو چھدے ہوئے اٹھا لیا لوگوں نے بھی انہیں دیکھا ۔ اب اس لشکر پر عذاب رب بشکل طاعون آیا اور ستر ہزار آدمی فوراً ہلاک ہوگئے ۔

بلعام اپنی گدھی پر سوار ہو کر چلا وہ ایک ٹیلے پر چڑھ کر رک گئی اب بلعام اسے مارتا پیٹتا ہے لیکن وہ قدم نہیں اٹھاتی ۔ آخر گدھی نے اس کی طرف دیکھا اور کہا مجھے کیوں مار رہا ہے سامنے دیکھ کون ہے؟

 اس نے دیکھ تو شیطان لعین کھڑا ہوا تھا یہ اتر پڑا اور سجدے میں گر گیا ۔

 الغرض ایمان سے خالی ہو گیا اس کا نام یا تو بلعام تھا۔ یا بلعم بن با عورا یا ابن ابر بار بن باعور بن شہوم بن قوشتم بن مآب بن لوط بن ہارون یا ابن مران بن آزر۔ یہ بلقا کا رئیس تھا، اسم اعظم جانتا تھا لیکن اخیر میں دین حق سے ہٹ گیا ۔ واللہ اعلم ۔

ایک روایت میں ہے:

قوم کے زیادہ کہنے سننے سے جب یہ اپنی گدھی پر سوار ہو کر بد دعا کے لئے چلا تو اس کی گدھی بیٹھ گئی ۔ اس نے اسے مار پیٹ کر اٹھایا کچھ دور چل کر پھر بیٹھ گئی ۔ اس نے اسے پھر مار پیٹ کر اٹھایا ، اسے اللہ نے زبان دی ۔ اس نے کہا تیرا ناس جائے تو کہاں اور کیوں جا رہا ہے اللہ کے مقابلے اس کے رسول سے لڑنے اور مؤمنوں کو نقصان دلانے جا رہا ہے؟ دیکھ تو سہی فرشتے میری راہ روکے کھڑے ہیں ۔ اس نے پھر بھی کچھ خیال نہ کیا آگے بڑھ گیا ۔ حبان نامی پہاڑی پر چڑھ گیا جہاں سے بنو اسرائیل کا لشکر سامنے ہی نظر آتا تھا ۔اب ان کیلئے بددعا اور اپنی قوم کے لئے دعائیں کرنے لگا لیکن زبان الٹ گئی دعا کی جگہ بد دعا اور بد دعا کی جگہ دعا نکلنے لگی ۔

قوم نے کہا کیا کر رہے ہو؟

 کہا بےبس ہوں ۔ اسی وقت اس کی زبان نکل پڑی سینے پر لٹکنے لگی اس نے کہا لو میری دنیا بھی خراب ہوئی اور دین تو بالکل برباد ہو گیا

 پھر اس نے خوبصورت لڑکیاں بھیجنے کی ترکیب بتائی جیسے کہ اوپر بیان ہوا اور کہا کہ اگر ان میں سے ایک نے بھی بدکاری کر لی تو ان پر عذاب رب آ جائے گا

ان عورتوں میں سے ایک بہت ہی حسین عورت جو کنانیہ تھی اور جس کا نام کستی تھا جو صور نامی ایک رئیس کی بیٹی تھی وہ جب بنی اسرائیل کے ایک بہت بڑے سردار زمری بن شلوم کے پاس سے گزری جو شمعون بن یعقوب کی نسل میں سے تھا وہ اس پر فریفتہ ہوگیا ۔ دلیری کے ساتھ اس کا ہاتھ تھامے ہوئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس گیا اور کہنے لگا آپ تو شاید کہہ دیں گے کہ یہ مجھ پر حرام ہے؟آپ نے کہا بیشک ۔

 اس نے کہا اچھا میں آپ کی یہ بات تو نہیں مان سکتا ، اسے اپنے خیمے میں لے گیا اور اس سے منہ کالا کرنے لگا ۔ وہیں اللہ تعالیٰ نے ان پر طاعون بھیج دیا ۔

 موسیٰ علیہ السلام کےایک  سردار حضرت فحاص بن غیرار بن ہارون اس وقت لشکر گاہ سے کہیں باہر گئے ہوئے تھے جب آئے اور تمام حقیقت سنی تو بیتاب ہو کر غصے کے ساتھ اس بد کردار کے خیمے میں پہنچے اور اپنے نیزے میں ان دونوں کو پرو لیا اور اپنے ہاتھ میں نیزہ لئے ہوئے انہیں اوپر اٹھائے ہوئے باہر نکلے کہنی کوکھ پر لگائے ہوئے تھے کہنے لگے یا اللہ ہمیں معاف فرما ہم پر سے یہ وبا دور فرما دیکھ لے ہم تیرے نافرمانوں کے ساتھ یہ کرتے ہیں ۔

 ان کی دعا اور اس فعل سے طاعون اٹھ گیا لیکن اتنی دیر میں جب حساب لگایا گیا تو ستر ہزار آدمی اور ایک روایت کی رو سے بیس ہزار مر چکے تھے ۔

 دن کا وقت تھا اور کنانیوں کی یہ چھوکریاں سودا بیچنے کے بہانے صرف اس لئے آئی تھیں کہ بنو اسرائیل بدکاری میں پھنس جائیں اور ان پر عذاب آ جائیں ۔

 بنو اسرائیل میں اب تک یہ دستور چلا آتا ہے کہ وہ اپنے ذبیحہ میں سے گردن اور دست اور سری اور ہر قسم کا سب سے پہلا پھل فحاص کی اولاد کو دیا کرتے ہیں ۔ اسی بلعام بن باعورا کا ذکر ان آیتوں میں ہے ۔

فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِنْ تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَثْ ۚ

سو اس کی حالت کتے کی سی ہوگئی کہ اگر تو اس پر حملہ کرے تب بھی وہ ہانپے یا اسکو چھوڑ دے تب بھی ہانپے

فرمان ہے کہ اس کی مثال کتے کی سی ہے کہ اس پر مشقت ڈالو تو بھی زبان لٹکائے ہوئے ہانپتا ہے اور اگر چھوڑ دو تو بھی ہانپتا ہےیا تو اس مثال سے یہ مطلب ہے کہ بلعام کی زبان نیچے کو لٹک پڑی تھی جو پھر اندر کو نہ ہوئی کتے کی طرح ہانپتا رہتا تھا اور زبان باہر لٹکائے رہتا تھا ۔

یہ بھی معنی ہیں کہ اس کی ضلالت اور اس پر جمے رہنے کی مثال دی کہ اسے ایمان کی دعوت، علم کی دولت غرض کسی چیز نے برائی سے نہ ہٹایا جیسے کتے کی اس کی زبان لٹکنے کی حالت برابر قائم رہتی ہے خواہ اسے پاؤں تل روندو خواہ چھوڑ دو۔ جیسے بعض کفار مکہ کی نسبت فرمان ہے:

سَوَآءٌ عَلَيْهِمْ ءَأَنذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لاَ يُؤْمِنُونَ (۲:۶)

آپ کا ڈرانا، یا نہ ڈرانا برابر ہے، یہ لوگ ایمان نہ لائیں گے۔

 اور جیسے بعض منافقوں کی نسبت فرمان ہے:

اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لاَ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِن تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ (۹:۸۰)

ان کے لئے تو استغفار کر یا نہ کر۔ اگر تو ستر مرتبہ بھی ان کے لئے استغفار کرے تو بھی اللہ انہیں ہرگز نہ بخشے گا

 یہ بھی مطلب اس مثال کا بیان کیا گیا ہے کہ ان کافروں منافقوں اور گمراہ لوگوں کے دل بودے اور ہدایت سے خالی ہیں یہ کبھی مطمئن نہیں ہوتے ۔

ذَلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا ۚ فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ (۱۷۶)

یہی حالت ان لوگوں کی ہے جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا۔ سو آپ اس حال کو بیان کر دیجئے شاید وہ لوگ کچھ سوچیں

پھر اللہ عزوجل اپنے نبی کو حکم دیتا ہے کہ تو انہیں پند و نصیحت کرتا رہ تاکہ ان میں سے جو عالم ہیں، وہ غور و فکر کر کے اللہ کی راہ پر آ جائیں یہ سوچیں کہ بلعام ملعون کا کیا حال ہوا دینی علم جیسی زبردست دولت کو جس نے دنیا کی سفلی راحت پر کھو دیا ۔ آخر نہ یہ ملا نہ وہ ۔ دونوں ہاتھ خالی رہ گئے ۔

 اسی طرح یہ علماء یہود جو اپنی کتابوں میں اللہ کی ہدایتیں پڑھ رہے ہیں، آپ کے اوصاف لکھے پاتے ہیں، انہیں چاہئے کہ دنیا کی طمع میں پھنس کر اپنے مریدوں کو پھانس کر پھول نہ جائیں ورنہ یہ بھی اس کی طرح دنیا میں کھو دیئے جائیں گے انہیں چاہئے کہ اپنی علمیت سے فائدہ اٹھائیں۔

سب سے پہلے تیری اطاعت کی طرف جھکیں اور اوروں پر حق کو ظاہر کریں ۔ دیکھ لو کہ کفار کی کیسی بری مثالیں ہیں کہ کتوں کی طرح صرف نگلنے اگلنے اور شہوت رانی میں پڑے ہوئے ہیں ۔ پس جو بھی علم و ہدایت کو چھوڑ کر خواہش نفس کے پورا کرنے میں لگ جائے وہ بھی کتے جیسا ہی ہے ۔

حضور ﷺفرماتے ہیں:

 ہمارے لئے بری مثالیں نہیں اپنی ہبہ کی ہوئی چیز کو پھر لے لینے والا کتے کی طرح ہے جو قے کر کے چاٹ لیتا ہے ۔

سَاءَ مَثَلًا الْقَوْمُ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَأَنْفُسَهُمْ كَانُوا يَظْلِمُونَ (۱۷۷)

اور ان لوگوں کی حالت بھی بری حالت ہے جو ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں اور اپنا نقصان کرتے ہیں‏

 پھر فرماتا ہے کہ گنہگار لوگ اللہ کا کچھ بگاڑتے نہیں یہ تو اپنا ہی خسارہ کر تے ہیں ۔ طاعت مولیٰ، اتباع ہدی سے ہٹا کر خواہش کی غلامی دنیا کی چاہت میں پڑ کر اپنے دونوں جہان خراب کرتے ہیں ۔

مَنْ يَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِي ۖ وَمَنْ يُضْلِلْ فَأُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ (۱۷۸)

جس کو اللہ ہدایت کرتا ہے سو ہدایت پانے والا وہی ہوتا ہے اور جسے وہ گمراہ کردے سو ایسے ہی لوگ خسارے میں پڑنے والے ہیں ۔

رب جنہیں راہ دکھائے انہیں کوئی بےراہ نہیں کر سکتا اور جسے وہ ہی غلط راہ پر ڈال دے اس کی شومی قسمت میں کیا شک ہے ؟اللہ کا چاہا ہوتا ہے اس کا نہ چاہا کبھی نہیں ہو سکتا ۔

 ابن مسعودؓ کی حدیث میں ہے:

 سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں ہم اس کی حمد بیان کرتے ہیں اور اسی سے مدد چاہتے ہیں اور اسی سے ہدایت طلب کرتے ہیں اور اسی سے بخشش مانگتے ہیں ۔ ہم اپنے نفس کی شرارتوں سے اللہ کی پناہ لیتے ہیں اور اپنے اعمال کی برائیوں سے بھی ۔اللہ کے راہ دکھائے ہوئے کو کوئی بہکا نہیں سکتا اور اس کے گمراہ کئے ہوئے کو کوئی راہ راست پر لا نہیں سکتا ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ معبود صرف اللہ ہی ہے وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میری گواہی ہے کہ محمد (ﷺ) اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ (مسند احمد)

وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ ۖ

اور ہم نے ایسے بہت سے جن اور انسان دوزخ کے لئے پیدا کئے ہیں   

بہت سے انسان اور جن جہنمی ہونے والے ہیں اور ان سے ویسے ہی اعمال سرزد ہوتے ہیں ۔

 مخلوق میں سے کون کیسے عمل کرے گا؟ یہ علام الغیوب کو ان کی پیدائش سے پہلے ہی معلوم ہوتا ہے ۔ پس اپنے علم کے مطابق اپنی کتاب میں آسمان و زمین کی پیدائش سے پچاس ہزار برس پہلے ہی لکھ لیا ۔ جبکہ اس کا عرش پانی پر تھا چنانچہ صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ حضور ﷺایک انصاری نابالغ بچے کے جنازے پر بلوائے گئےحضرت عائشہؓ فرماتی ہیں  کہ  میں نے کہا مبارک ہو اس کو یہ تو جنت کی چڑیا ہے نہ برائی کی نہ برائی کا وقت پایا

 آپ ﷺنے فرمایا کچھ اور بھی؟ سن اللہ تعالیٰ نے جنت کو اور جنت والوں کو پیدا کیا ہے اور انہیں جنتی مقرر کر دیا ہے حالانکہ ابھی تو وہ اپنے باپوں کی پیٹھوں میں ہی تھے اسی طرح اس نے جہنم بنائی ہے اور اس کے رہنے والے پیدا کئے ہیں انہیں اسی لئے مقرر کر دیا ہے درآں حالیکہ اب تک وہ اپنے باپوں کی پشت میں ہی ہیں ۔

اس بارے میں کشرت سے احادیث وارد ہیں اور تقدیر کا مسئلہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں کہ یہاں پورا بیان ہو جائے ۔

لَهُمْ قُلُوبٌ لَا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَا يَسْمَعُونَ بِهَا ۚ

جن کے دل ایسے ہیں جن سے نہیں سمجھتے اور جن کی آنکھیں ایسی ہیں جن سے نہیں دیکھتے اور جن کے کان ایسے ہیں جن سے نہیں سنتے۔

یہاں مقصد یہ ہے کہ ایسے خالی از خیر محروم قسمت لوگ کسی چیز سے فائدہ نہیں اٹھاتے تمام اعضاء ہوتے ہیں لیکن قوتیں سب سے چھن جاتی

 ارشاد ہوتا ہے کہ ان کے دل تو ہیں لیکن وہ نہیں سمجھ سکتے ، اندھے بہرے گونگے بن کر زندگی گڑھے میں ہی گزار دیتے ہیں جیسے فرمایا:

وَجَعَلْنَا لَهُمْ سَمْعاً وَأَبْصَـراً ۔۔۔ إِذْ كَانُواْ يَجْحَدُونَ بِـَايَـتِ اللَّهِ (۴۶:۲۶)

اور ہم نے انہیں کان آنکھیں اور دل بھی دے رکھے تھے۔ لیکن ان کے کانوں اور آنکھوں اور دلوں نے انہیں کچھ بھی نفع نہ پہنچایا جبکہ اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکار کرنے لگے

جیسے اور جگہ فرمایا:

صُمٌّ بُكْمٌ عُمْىٌ فَهُمْ لاَ يَرْجِعُونَ  (۲:۱۸)

بہرے، گونگے، اندھے ہیں۔ پس وہ نہیں جانتے

اور جگہ فرمایا:

صُمٌّ بُكْمٌ عُمْىٌ فَهُمْ لاَ يَعْقِلُونَ (۲:۱۷۱)

وہ بہرے گونگے اور اندھے ہیں، انہیں عقل نہیں ۔

اگر ان میں خیر باقی ہوتی تو اللہ اپنی باتیں انہیں سناتا بھی۔ یہ تو خیر سے بالکل خالی ہوگئے سنتے ہیں اور ان سنی کر جاتے ہیں جیسے اور جگہ فرمایا:

وَلَوْ عَلِمَ اللَّهُ فِيهِمْ خَيْرًا لأَسْمَعَهُمْ وَلَوْ أَسْمَعَهُمْ لَتَوَلَّواْ وَّهُم مُّعْرِضُونَ (۸:۲۳)

اور اگر اللہ تعالیٰ ان میں کوئی خوبی دیکھتا تو انکو سننے کی توفیق دے دیتا اور اگر انکو اب سنادے تو ضرور روگردانی کریں گے بےرخی کرتے ہوئے

 آنکھیں ہی نہیں بلکہ دل کی آنکھین اندھی ہو گئی ہیں ۔

فَإِنَّهَا لاَ تَعْمَى الاٌّبْصَـرُ وَلَـكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِى فِى الصُّدُورِ (۲۲:۴۶)

بات یہ ہے کہ صرف آنکھیں ہی اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں

رحمٰن کے ذکر سے منہ موڑ نے کی سزا یہ ملی ہے کہ شیطان کے بھائی بن گئے ہیں، راہ حق سے دور جا پڑے ہیں مگر سمجھ یہی رہے ہیں کہ ہم سچے اور صحیح راستے پر ہیں ۔

وَمَن يَعْشُ عَن ذِكْرِ الرَّحْمَـنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطَاناً فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ ـ وَإِنَّهُمْ لَيَصُدُّونَهُمْ عَنِ السَّبِيلِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُم مُّهْتَدُونَ  (۴۳:۳۶،۳۷)

اور جو شخص رحمٰن کی یاد سے غفلت کرے ہم اس پر شیطان مقرر کر دیتے ہیں وہی اس کا ساتھی رہتا ہے اور وہ انہیں راہ سے روکتے ہیں اور یہ اسی خیال میں رہتے ہیں کہ یہ ہدایت یافتہ ہیں ۔‏

أُولَئِكَ كَالْأَنْعَامِ

یہ لوگ بھی چوپاؤں کی طرح ہیں

ان میں اور چوپائے جانوروں میں کوئی فرق نہیں ۔ نہ یہ حق کو دیکھیں ، نہ ہدایت کو دیکھیں ، نہ اللہ کی باتوں کو سوچیں ۔ چوپائے بھی تو اپنے حواس کو دنیا کے کام میں لاتے ہیں اسی طرح یہ بھی فکر عقبیٰ سے ، ذکر رب سے، راہ مولا سے غافل ، گونگے اور اندھے ہیں ۔

جیسے فرمان ہے:

وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُواْ كَمَثَلِ الَّذِى يَنْعِقُ بِمَا لاَ يَسْمَعُ إِلاَّ دُعَآءً وَنِدَآءً (۲:۱۷۱)

کفار کی مثال ان جانوروں کی طرح ہے جو اپنے چرواہے کی صرف پکار اور آواز ہی سنتے ہیں (سمجھتے نہیں)

بَلْ هُمْ أَضَلُّ ۚ  أُولَئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ (۱۷۹)

 بلکہ یہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں یہی لوگ غافل ہیں۔‏

پھر ترقی کر کے فرماتا ہے کہ یہ ظالم تو چوپایوں سے بھی بدترین ہیں کہ چوپائے گو نہ سمجھیں لیکن آواز پر کان تو کھڑے کر دیتے ہیں، اشاروں پر حرکت تو کرتے ہیں، یہ تو اپنے مالک کو اتنا بھی نہیں سمجھتے ۔اپنی پیدائش کی غایت کو آج تک معلوم ہی نہیں کیا، جبھی تو اللہ سے کفر کرتے ہیں اور غیر اللہ کی عبادت کرتے ہیں ۔

 اس کے برخلاف جو اللہ کا مطیع انسان ہو وہ اللہ کے اطاعت گزار فرشتے سے بہتر ہےاور کفار انسان سے چوپائے جانور بہتر ہیں ایسے لوگ پورے غافل ہیں۔

وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا ۖ

اور اچھے اچھے نام اللہ ہی کیلئے ہیں سو ان ناموں سے اللہ ہی کو موسوم کیا کرو

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 اللہ تعالیٰ کے ایک کم ایک سو نام ہیں انہیں جو محفوظ کر لے وہ جنتی ہے وہ وتر ہے طاق کو ہی پسند فرماتا ہے ( بخاری)

ترمذی میں ہے ننانوے نام اس طرح ہیں:

الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى

هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ

الْقُدُّوسُ

الْمَلِكُ

الرَّحِيمُ

الرَّحْمَنُ

الْعَزِيزُ

الْمُهَيْمِنُ

الْمُؤْمِنُ

السَّلَامُ

الْبَارِئُ

الْخَالِقُ

الْمُتَكَبِّرُ

الْجَبَّارُ

اَلْوَهَّابُ

اَلْقَهَّارُ

اَلْغَفَّارُ

الْمُصَوِّرُ

اَلْقَابِضُ

اَلْعَلِيمُ

اَلْفَتَّاحُ

الرَّزَّاقُ

اَلْمُعِزُّ

الرَّافِعُ

اَلْخَافِضُ

اَلْبَاسِطُ

اَلْحَكَمُ

اَلْبَصِيرُ

السَّمِيعُ

اَلْمُذِلُّ

اَلْحَلِيْمُ

اَلْخَبِيْرُ

اللَّطِيْفُ

اَلْعَدَلُ

اَلْعَلِىُّ

اَلْشَكُوْرُ

اَلْغَفُورُ

اَلْعَظِيْمُ

اَلْحَسِيْبُ

اَلْمُقِيتُ

اَلْحَفِيظُ

اَلْكَبِيْرُ

الْمُجِيبُ

الرَّقِيبُ

اَلْكَرِيمُ

اَلْجَلِيْلُ

اَلْحَمِيْدُ

اَلْوَدُودُ

اَلْحَكِيْمُ

اَلْوَاسِعُ

اَلْحَقُّ

اَلشَّهِيْدُ

اَلْبَاعِثْ

اَلْمَجِيدُ

اَلْوَلِىّ

اَلْمَتِيْنُ

اَلْقَوَِىُّ

اَلْوَكِيْلُ

اَلْمُحْىِ

اَلْمُعِيدُ

اَلْمُبْدِئُ

اَلْمُحْصِىْ

اَلْوَاجِدُ

اَلْقَيُّوْمُ

اَلْحَيَىُ

اَلْمُمِيْتُ

اَلصَّمَدُ

اَلْأَحَدُ

اَلْوَاحِدُ

اَلْمَاجِدُ

اَلْمُؤَخِّرٌ

اَلْمُقَدِّمُ

اَلْمُقْتَدِرُ

اَلْقَادِرُ

اَلْبَاطِنُ

اَلظَّاهِرُ

اَلْآخِرُ

اَلْأَوَّلُ

اَلتَّوَابُ

اَلْبَرُّ

اَلْمُتَعَالِىْ

اَلْوَالِىْ

الْمَالِكَ الْمُلْكِ

اَلْعَفُوٌ

اَلْرَؤُفُ

اَلْمُنْتَقِمُ

اَلْغَنِىُّ 

اَلْجَامِعُ

اَلْمُقْسِطُ

ذِي الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ

اَلنَّافَعُ

اَلضَّارُ

اَلمَانِعُ

اَلمُغْنِىُ

اَلْبَاقِىْ

اَلْبَدِيْعُ

اَلْهَادِىُ

اَلنُّورُ

اَلصَّبُوْرُ

اَلرَّشِيْدُ

اَلْوَارِثْ

یہ حدیث غریب ہے کچھ کمی زیادتی کے ساتھ اسی طرح یہ نام ابن ماجہ کی حدیث میں بھی وارد ہیں ۔

بعض بزرگوں کا خیال ہے کہ یہ نام راویوں نے قرآن میں چھانٹ لئے ہیں ۔ واللہ اعلم۔

یہ یاد رہے کہ یہی ننانوے نام اللہ کے ہوں اور نہ ہوں یہ بات نہیں ۔

مسند احمد میں ہے:

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جسے کبھی بھی کوئی غم و رنج پہنچے اور وہ یہ دعا کرے:

اللَّهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ، ابْنُ أَمَتِكَ، نَاصِيَتِي بِيَدِكَ مَاضٍ فِيَّ حُكْمُكَ، عَدْلٌ فِيَّ قَضُاؤُكَ، أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ أَوْ أَنْزَلْتَهُهِفي كِتَابِكَ أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ أَوِ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ أَنْ تَجْعَلَ الْقُرآنَ الْعَظِيمَ رَبِيعَ قَلْبِي، وَنُورَ صَدْرِي، وَجَلَاءَ حُزْنِي، وَذَهَابَ هَمِّي، إِلَّا أَذْهَبَ اللهُ حُزْنَهُ وَهَمَّهُ وَأَبْدَلَ مَكَانَهُ فَرَحًا

تو اللہ تعالیٰ اس کے غم و رنج کو دور کر دے گا اور اس کی جگہ راحت و خوشی عطا فرمائے گا ۔

 آپ سے سوال کیا گیا کہ پھر کیا ہم اسے اوروں کو بھی سکھائیں؟

 آپ ﷺنے فرمایا ہاں بیشک جو اسے سنے اسے چاہئے کہ دوسروں کو بھی سکھائے ۔

 امام ابو حاتم بن حبان بستی بھی اس روایت کو اسی طرح اپنی صحیح میں لائے ہیں ۔

 امام ابوبکر بن عربی بھی اپنی کتاب الاحوذی فی شرح الترمذی میں لکھتے ہیں کہ بعض لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی کتاب و سنت سے جمع کئے ہیں جن کی تعداد ایک ہزار تک پہنچ گئی ہے ، واللہ اعلم

وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ ۚ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (۱۸۰)

اور ایسے لوگوں سے تعلق بھی نہ رکھو جو اسکے ناموں میں کج روی کرتے ہیں ان لوگوں کو انکے کئے کی ضرور سزا ملے گی۔‏

 اللہ کے ناموں سے الحاد کرنے والوں کو چھوڑ دو جیسے کہ لفظ اللہ سے کافروں نے اپنے بت کا نام لات رکھا اور عزیز سے مشتق کر کے عزیٰ نام رکھا ۔

یہ بھی معنی ہیں کہ جو اللہ کے ناموں میں شریک کرتے ہیں انہیں چھوڑو۔ جو انہیں جھٹلاتے ہیں ان سے منہ موڑ لو ۔

 الحاد کے لفظی معنی ہیں درمیانہ سیدھے راستے سے ہٹ جانا اور گھوم جانا ۔ اسی لئے بغلی قبر کو لحد کہتے ہیں کیونکہ سیدھی کھدائی سے ہٹا کر بنائی جاتی ہے ۔

وَمِمَّنْ خَلَقْنَا أُمَّةٌ يَهْدُونَ بِالْحَقِّ وَبِهِ يَعْدِلُونَ (۱۸۱)

اور ہماری مخلوق میں ایک جماعت ایسی بھی ہے جو حق کے موافق ہدایت کرتی ہے اور اسکے موافق انصاف بھی کرتی ہے‏

یعنی بعض لوگ حق وعدل پر قائم ہیں ۔ حق بات ہی زبان سے نکالتے ہیں ، حق کام ہی کرتے ہیں، حق کی طرف ہی اوروں کو بلاتے ہیں، حق کے ساتھ ہی انصاف کرتے ہیں

 اور بعض آثار میں مروی ہے کہ اس سے مراد اُمت محمد یہ ہے چنانجہ حضرت قتادہ ؒفرماتے ہیں مجھے یہ روایت پہنچی ہے:

 نبی ﷺ جب اس آیت کی تلاوت فرماتے تو فرماتے کہ یہ تمہارے لئے ہے تم سے پہلے یہ وصف قوم موسیٰؑ کا تھا ۔

 ربیع بن انسؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ کا ارشاد ہے:

 میری اُمت میں سے ایک جماعت حق پر قائم رہے گی یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ ؑبن مریم اتریں وہ خواہ کبھی بھی اتریں ۔

 بخاری و مسلم میں ہے آپﷺ فرماتے ہیں:

 میری اُمت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر ظاہر رہے گا انہیں ان کی دشمنی کرنے والے کچھ نقصان نہ پہنچا سکیں گے یہاں تک کہ قیامت آ جائے

ایک اور روایت میں ہے یہاں تک کہ اللہ کا امر آ جائے وہ اسی پر رہیں گے ۔

 ایک روایت میں ہے (اس وقت ) وہ شام میں ہوں گے ۔

وَالَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُونَ (۱۸۲)

اور جو لوگ ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں ہم انکو بتدریج (گرفت میں) لئے جا رہے ہیں اس طور پر کہ انہیں خبر بھی نہیں‏

یعنی ایسے لوگوں کو روزی میں کشادگی دی جائے گی ، معاش کی آسانیاں ملیں گی، وہ دھوکے میں پڑ جائیں گے اور حقانیت کو بھول جائیں گے ۔ جب پورے مست ہو جائیں گے اور ہماری نصیحت کو گئی گزری کر دیں گے تو ہم انہیں ہر طرح کے آرام دیں گے یہاں تک کہ وہ مست ہو جائیں تب انہیں ہم ناگہانی پکڑ میں پکڑ لیں گے ۔ اس وقت وہ مایوسی کے ساتھ منہ تکتے رہ جائیں گے اور ان ظالموں کی رگ کٹ جائے گی ۔ حقیقتاً تعریفوں کے لائق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔

فَلَمَّا نَسُواْ مَا ذُكِّرُواْ بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ ۔۔۔ وَالْحَمْدُ للَّهِ رَبِّ الْعَـلَمِينَ (۶:۴۴،۴۵)

پھر جب وہ لوگ ان چیزوں کو بھولے رہے جس کی ان کو نصیحت کی جاتی تھی تو ہم نے ان پر ہرچیز کے دروازے کشادہ کر دیئے یہاں تک کہ جب ان چیزوں پر جو کہ انکو ملی تھیں وہ خوب اترا گئے ہم نے ان کو دفعتاً پکڑ لیا، پھر تو وہ بالکل مایوس ہوگئے۔

‏ پھر ظالم لوگوں کی جڑ کٹ گئی اور اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جو تمام عالم کا پروردگار ہے۔

وَأُمْلِي لَهُمْ ۚ إِنَّ كَيْدِي مَتِينٌ (۱۸۳)

میں ان کو مہلت دیتا ہوں بیشک میری تدبیر بڑی مضبوط ہے

 انہیں میں تو ڈھیل دونگا اور یہ میرے اس داؤ سے بےخبر ہوں گے ۔ میری تدبیر کبھی ناکام نہیں ہوتی وہ بڑی مضبوط اور مستحکم ہوتی ہے ۔

أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا ۗ مَا بِصَاحِبِهِمْ مِنْ جِنَّةٍ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ (۱۸۴)

کیا ان لوگوں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ ان کے ساتھی کو ذرا بھی جنون نہیں وہ تو صرف ایک صاف صاف ڈرانے والے ہیں

کیا ان کافروں نے کبھی اس بات پر غور کیا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں جنون کی کوئی بات بھی ہے؟

وَمَا صَـحِبُكُمْ بِمَجْنُونٍ (۸۱:۲۲)

اور تمہارا ساتھی دیوانہ نہیں

جیسے فرمان ہے:

قُلْ إِنَّمَآ أَعِظُكُمْ بِوَحِدَةٍ أَن تَقُومُواْ لِلَّهِ ۔۔۔ بَيْنَ يَدَىْ عَذَابٍ شَدِيدٍ (۳۴:۴۶)

کہہ دیجیئے! کہ میں تمہیں صرف ایک ہی بات کی نصیحت کرتا ہوںکہ تم اللہ کے واسطے (ضد چھوڑ کر) دو دو مل کر یا تنہا تنہا کھڑے ہو کر سوچو تو سہی’

تمہارے اس رفیق کو کوئی جنون نہیں’وہ تمہیں ایک بڑے (سخت) عذاب کے آنے سے پہلے ڈرانے والا ہے۔

آؤ میری ایک بات تو مان لو ذرا سی دیر خلوص کے ساتھ اللہ کو حاضر جان کر اکیلے و کیلے غور تو کرو کہ مجھ میں کونسا دیوانہ پن ہے ؟ میں تو تمہیں آنے والے سخت خطرے کی اطلاع دے رہا ہوں کہ اس سے ہوشیار رہو ۔

جب تم یہ کرو گے تو خود اس نتیجے پر پہنچ جاؤ گے کہ میں مجنوں نہیں بلکہ اللہ کا پیغام دے کر تم میں بھیجا گیا ہوں ۔

 حضور ﷺنے ایک مرتبہ صفا پہاڑ پر چڑھ کر قریشیوں کے ایک ایک قبیلے کا الگ الگ نام لے کر انہیں اللہ کے عذابوں سے ڈرایا اور اسی طرح صبح کر دی تو بعض کہنے لگے دیوانہ ہو گیا ہے اس پر یہ آیت اتری ۔

أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللَّهُ مِنْ شَيْءٍ

اور کیا ان لوگوں نے غور نہیں کیا آسمانوں اور زمین کے عالم میں اور دوسری چیزوں میں جو اللہ نے پیدا کیں ہیں

وَأَنْ عَسَى أَنْ يَكُونَ قَدِ اقْتَرَبَ أَجَلُهُمْ ۖ

 اور اس بات میں کہ ممکن ہے کہ ان کی اجل قریب ہی آپہنچی ہو

اللہ تعالیٰ جل شانہ کی اتنی بڑی وسیع بادشاہت میں سے اور زمین و آسمان کی ہر طرح کی مخلوق میں سے کسی ایک چیز نے بھی بعد از غور وفکر انہیں یہ توفیق نہ دی کہ یہ با ایمان ہو جاتے ؟ اور رب کو بےنظیر و بےشبہ واحد و فردا مان لیتے ؟ اور جان لیتے کہ اتنی بڑی خلق کا خالق اتنے بڑے ملک کا واحد مالک ہی عبادتوں کے لائق ہے؟پھر یہ ایمان قبول کر لیتے اسی کی عبادتوں میں لگ جاتے اور شرک و کفر سے یکسو ہو جاتے ؟انہیں ڈر لگنے لگتا کہ کیا خبر ہماری موت کا وقت قریب ہی آ گیا ہو؟ ہم کفر پر ہی مر جائیں تو ابدی سزاؤں میں پڑ جائیں؟

فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ (۱۸۵)

پھر قرآن کے بعد کون سی بات پر یہ لوگ ایمان لائیں گے

جب انہیں اتنی نشانیوں کے دیکھ لینے کے بعد، اس قدر باتیں سمجھا دینے کے بعد بھی ایمان و یقین نہ آیا، اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کے آ جانے کے بعد بھی یہ راہ رست پر نہ آئے تو اب کس بات کو مانیں گے؟

مسند کی ایک حدیث میں ہے:

 معراج والی رات جب میں ساتویں آسمان پر پہنچا تو میں نے دیکھا کہ گویا اوپر کی طرف بجلی کڑک اور کھڑ کھڑاہٹ ہو رہی ہے ، میں کچھ ایسے لوگوں کے پاس پہنچا جن کے پیٹ بڑے بڑے گھروں جتنے اونچے تھے جن میں سانپ بھر رہے تھے جو باہر سے ہی نظر آتے تھے میں نے حضرت جبرائیلؑ سے دریافت کیا کہ یہ کون لوگ ہیں؟

 انہوں نے بتلایا یہ سود خور ہیں

جب میں وہاں سے اترنے لگا تو آسمان اول پر آکر میں نے دیکھا کہ نیچے کی جانب دھواں ، غبار اور شورو  غل ہے میں نے پوچھا یہ کیا ہے؟

 جبرائیلؑ نے کہا یہ شیاطین ہیں جو اپنی خرمستیوں اور دھینگا مشتیوں سے لوگوں کی آنکھوں پر پردے ڈال رہے ہیں کہ وہ آسمان و زمین کی بادشاہت کی چیزوں میں غورو فکر نہ کر سکیں اگر یہ بات نہ ہوتی تو وہ بڑے عجائبات دیکھتے ۔

 اس کے ایک راوی علی بن زید بن جادعان کی بہت سی روایات منکر ہیں ۔

مَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ ۚ وَيَذَرُهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ (۱۸۶)

جس کو اللہ تعالیٰ گمراہ کردے اس کو کوئی راہ پر نہیں لا سکتا۔ اور اللہ تعالیٰ ان کو انکی گمراہی میں بھٹکتے ہوئے چھوڑ دیتا ہے۔‏

جس پر گمراہی لکھ دی گئی ہے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا ۔ وہ چاہے ساری نشانیاں دیکھ لے لیکن سب بےسود ۔

وَمَن يُرِدِ اللَّهُ فِتْنَتَهُ فَلَن تَمْلِكَ لَهُ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً (۵:۴۱)

اور جس کا خراب کرنا اللہ کو منظور ہو تو آپ اس کے لئے خدائی ہدایت میں سے کسی چیز کے مختار نہیں۔

اللہ کا ارادہ جس کے لئے فتنے کا ہو تو اس کا کوئی اختیار نہیں رکھتا ۔

قُلِ انظُرُواْ مَاذَا فِى السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ وَمَا تُغْنِى الآيَـتُ وَالنُّذُرُ عَن قَوْمٍ لاَّ يُؤْمِنُونَ (۱۰:۱۰۱)

آپ کہہ دیجئے کہ تم غور کرو کہ کیا کیا چیزیں آسمانوں میں اور زمین میں ہیں اور جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کو نشانیاں اور دھمکیاں کچھ فائدہ نہیں پہنچاتیں۔‏

يَسْأَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا ۖ

یہ لوگ آپ سے قیامت کے متعلق سوال کرتے ہیں کہ اس کا وقوع کب ہوگا

یہ اس آیت جیسی ہے:

يَسْـَلُكَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَةِ (۳۳:۶۳)

لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہیں

یہ دریافت کرنے والے قریشی بھی تھے اور یہودی بھی لیکن چونکہ یہ آیت مکی ہے اس لئے ٹھیک یہی ہے کہ قریشیوں کا سوال تھا چونکہ وہ قیامت کے قائل ہی نہ تھے اس لئے اس قسم کے سوال کیا کرتے تھے کہ اگر سچے ہو تو اس کا ٹھیک وقت بتا دو ۔

وَيَقُولُونَ مَتَى هَـذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَـدِقِينَ  (۱۰:۴۸)

اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ وعدہ کب ہوگا؟ اگر تم سچے ہو۔‏

ادھر بے ایمان اس کی جلدی مچا رہے ہیں ۔ ادھر ایماندار اسے حق جان کر اس سے ڈر رہے ہیں ۔ بات یہ ہے کہ جنہیں اس میں بھی شک ہے دو ر دراز کی گمراہی میں تو وہی ہیں ۔

يَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ بِهَا ۔۔۔ فَى السَّاعَةِ لَفِى ضَلَـلَ بَعِيدٍ (۴۲:۱۸)

اس کی جلدی انہیں پڑی ہے جو اسے نہیں مانتے اور جو اس پر یقین رکھتے ہیں وہ تو اس سے ڈر رہے ہیں انہیں اس کے حق ہونے کا پورا علم ہے

 یاد رکھو جو لوگ قیامت کے معاملہ میں لڑ جھگڑ رہے ہیں وہ دور کی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں

قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّي ۖ لَا يُجَلِّيهَا لِوَقْتِهَا إِلَّا هُوَ ۚ

آپ فرما دیجئے اس کا علم صرف میرے رب ہی کے پاس ہے اس کے وقت پر اس کو سوائے اللہ کے کوئی ظاہر نہ کرے گا

پوچھا کرتے تھے کہ قیامت واقع کب ہوگی؟

جواب سکھایا گیا کہ اس کے صحیح وقت کا علم سوائے اللہ کے کسی کو نہیں وہی اس کے صحیح وقت سے واقف ہے بجز اس کے کسی کو اس کے واقع ہونے کا وقت معلوم نہیں ۔ اس کا علم زمین و آسمان پر بھی بھاری ہے ، ان کے رہنے والی ساری مخلوق اس علم سے خالی ہے ۔ وہ جب آئے گی سب پر ایک ہی دقت واقع ہوگی ، سب کو ضرر پہنچے گا ۔

ثَقُلَتْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ

 وہ آسمانوں اور زمین میں بڑا بھاری (حادثہ) ہوگا

آسمان پھٹ جائے گا ستارے جھڑ جائیں گے سورج بےنور ہو جائیں گے پہاڑ اڑنے لگیں گے اسی لئے وہ ساری مخلوق پر گراں گزر رہی ہے ۔ اس کے واقع ہونے کے صحیح وقت کا علم ساری مخلوق پر بھاری ہے ۔ زمین و آسمان والے سب اس سے عاجز اور بےخبر ہیں ۔

لَا تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً ۗ يَسْأَلُونَكَ كَأَنَّكَ حَفِيٌّ عَنْهَا ۖ

وہ تم پر محض اچانک آپڑے گی۔ وہ آپ اس طرح پوچھتے ہیں جیسے گویا آپ اس کی تحقیقات کر چکے ہیں

وہ تو اچانک سب کی بےخبری میں ہی آئے گی ۔ کوئی بزرگ سے بزرگ فرشتہ ، کوئی بڑے سے بڑا پیغمبر بھی اس کے آنے کے وقت کا عالم نہیں ۔ وہ تو سب کی بےخبری میں ہی آ جائے گی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 دنیا کے کل کام حسب دستور ہو رہے ہوں گے، جانوروں والے اپنے جانوروں کے پانی پلانے کے حوض درست کر رہے ہوں گے، تجارت والے تول تال میں مشغول ہوں گے جو قیامت آ جائے گی ۔

صحیح بخاری شریف میں ہے:

 قیامت قائم ہونے سے پہلے سورج مغرب کی طرف سے نکلے گا اسے دیکھتے ہی سب لوگ ایمان قبول کرلیں گے لیکن اس وقت کا ایمان ان کے لئے بےسود ہوگا۔ جو اس سے پہلے ایمان نہ لائے ہوں اور جنہوں نے اس سے پہلے نیکیاں نہ کی ہوں ۔

قیامت اس طرح دفعتاً آ جائے گی کہ ایک شخص کپڑا پھیلائے دوسرے کو دکھا رہا ہوگا اور دوسرا دیکھ رہا ہوگا بھاؤ تاؤ ہو رہا ہوگا کہ قیامت ہو جائے گی نہ یہ خرید و فروخت کر سکیں گے نہ کپڑے کی تہہ کر سکیں گے کوئی دودھ دوھ کر لے آ رہا ہوگا پی نہ سکے گا کہ قیامت آ جائے گی کوئی حوض درست کر رہا ہوگا ابھی جانوروں کو پانی نہ پلا چکا ہوگا کہ قیامت آ جائے گی کوئی لقمہ اٹھائے ہوئے ہوگا ابھی منہ میں نہ ڈالا ہوگا کہ قیامت آ جائے گی ۔

صحیح مسلم شریف میں ہے:

 آدمی دودھ کا کٹورا اٹھا کر پینا چاہتا ہی ہوگا ابھی منہ سے نہ لگ پائے گا کہ قیامت قائم ہو جائے گی کپڑے کے خریدار بھی سودا نہ کر چکے ہوں گے کہ قیامت آ جائے گی حوض والے بھی لیپاپوتی کر رہے ہوں گے کہ قیامت برپا ہو جائے گی۔

قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللَّهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (۱۸۷)

آپ فرما دیجئے کہ اس کا علم خاص اللہ ہی کے پاس ہے۔ لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔‏

تجھ سے اس طرح پوچھتے ہیں گویا تو ان کا سچا رفیق ہے یہ تیرے پکے دوست ہیں ۔ اس طرح پوچھتے ہیں گویا کہ تجھے اس کا حال معلوم ہے حالانکہ کسی مقرب فرشتے یا نبی یا رسول کو اس کا علم ہرگز نہیں۔

 قریشیوں نے یہ بھی کہا تھا کہ حضور ہم تو آپ کے قرابتدار ہیں ہمیں تو بتا دیجئے کہ قیامت کب اور کس دن کس سال آئے گی؟ اس طرح پوچھا کہ گویا آپ کو معلوم ہے حالانکہ اس کا علم صرف اللہ کے پاس ہی ہےجیسے فرمان ہے:

إِنَّ اللَّهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ (۳۱:۳۴)

قیامت کا علم صرف اللہ کو ہی ہے

 یہی معنی زیادہ ترجیح والے ہیں واللہ اعلم۔

حضرت جبرائیل علیہ السلام نے بھی جب اعرابی کا روپ دھار کر سائل کی وضع میں آپ کے پاس بیٹھ کر آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھا تو آپ نے صاف جواب دیا کہ اس کا علم نہ مجھے ہے نہ تجھے ۔

 اس سے پہلے کے سوالات آپ بتا چکے تھے اس سوال کے جواب میں اپنی لا علمی ظاہر کر کے پوری سورہ لقمان کی آخری آیت پڑھی کہ ان پانچ چیزوں کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ یعنی علم قیامت، بارش کا آنا ، مادہ کے پیٹ کے بچے کا حال، کل کے حالات ، موت کی جگہ ۔ ہاں جب آپ نے اس کی علامتیں پوچھیں تو حضور ﷺنے بتا دیں ۔ پھر اسی آیت کو تلاوت فرمایا

جبرائیل آپ کے ہر جواب پر یہی فرماتے جاتے تھے کہ آپ نے سچ فرمایا

ان کے چلے جانے کے بعد صحابہ نے تعجب سے پوچھا کہ حضور یہ کون صاحب تھے؟

 آپﷺ نے فرمایا جبرائیل تھے تمہیں دین سکھانے آئے تھے۔ جب کبھی وہ میرے پاس جس ہیئت میں آئے میں نے انہیں پہچان لیا لیکن اب کی مرتبہ تو میں خود اب تک نہ پہچان سکا تھا ۔

 الحمد اللہ میں نے اس کے تمام طریقے کل سندوں کے ساتھ پوری بحث کر کے بخاری شریف کی شرح کے اول میں ہی ذکر کر دیئے ہیں ۔

 ایک اعرابی نے آ کر با آواز بلند آپ کا نام لے کر آپ کو پکارا آپﷺ نے اسی طرح جواب دیا ۔

 اس نے کہا قیامت کب ہوگی؟آپ ﷺنے فرمایا وہ آنے والی تو قطعاً ہے ، تو بتا تو نے اس کے لئے کیا تیاری کی ہے؟

 اسنے جواب دیا کہ روزے نماز تو میرے پاس زیادہ نہیں البتہ میں اللہ اور اسکے رسول کی محبت سے اپنے دل کو پر پاتا ہوں

 آپ ﷺنے فرمایا انسان اسی کے ہمراہ ہوگا جس سے محبت رکھتا ہو،

مؤمن اس حدیث کو سن کر بہت ہی خوش ہوئے کہ اس قدر خوشی انہیں اور کسی چیز پر نہیں ہوئی تھی ۔

 آپﷺ کی عادت مبارک ہی تھی کہ جب کوئی آپ سے ایسا سوال کرے جس کی ضرورت نہ ہو تو آپ اسے وہ بات بتاتے جو اس سے کہیں زیادہ مفید ہو ۔ اسی لئے اس سائل کو بھی فرمایا کہ وقت کا علم کیا فائدہ دے گا؟ ہو سکے تو تیاری کر لو

 صحیح مسلم میں ہے:

 اعراب لوگ حضور ﷺسے جب کبھی قیامت کے بارے سوال کرتے تو آپ جو ان میں سب سے کم عمر ہوتا اسے دیکھ کر فرماتے کہ اگر یہ اپنی طبعی عمر تک پہنچا تو اس کے بڑھاپے تک ہی تم اپنی قیامت کو پالو گے ۔

اس سے مراد ان کی موت ہے جو آخرت کے برزخ میں پہنچا دیتی ہے

بعض روایتوں میں ان کے اس قسم کے سوال پر آنحضرت کا علی الا طلاق یہی فرمانا بھی مروی ہے کہ اس نوعمر کے بڑھاپے تک قیامت آ جائے گی یہ اطلاق بھی اسی تقلید پر مجمول ہوگا یعنی مراد اس سے ان لوگوں کی موت کا وقت ہے ، وفات سے ایک ماہ قبل آپ ﷺنے فرمایا :

تم مجھ سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہو اس کے صحیح وقت کا علم تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے ، میں قسمیہ بیان کرتا ہوں کہ اس وقت روئے زمین پر جتنے متنفس ہیں ان میں سے ایک بھی سو سال تک باقی نہ رہے گاـ(مسلم)

مطلب اس سے یہ ہے کہ سو سال تک اس زمانے کے موجود لوگوں سے یہ دنیا خالی ہو جائے گی ۔

 آپﷺ فرماتے ہیں:

 معراج والی شب میری ملاقات حضرت موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام سے ہوئی وہاں قیامت کے وقت کا ذکر چلا تو حضرت ابراہیمؑ کی طرف سب نے بات کو جھکا دیا ۔ آپ نے جواب دیا کہ مجھے تو اس کا علم نہیں سب حضرت موسیٰؑ کی طرف متوجہ ہوئے یہی جواب وہاں سے ملا پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف متوجہ ہوئے تو آپ نے فرمایا:

 اس کے واقع ہونے کا وقت تو بجز اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا ۔ ہاں مجھ سے میرے رب نے فرما رکھا ہے کہ دجال نکلنے والا ہے میرے ساتھ دو شاخیں ہوں گی وہ مجھے دیکھ کر سیسے کی طرح پگھلنے لگے گا آخر اللہ اسے میرے ہاتھوں ہلاک کرے گا یہاں تک کہ درخت اور پتھر بھی بولنے لگیں گے کہ اے مسلمان یہاں میرے نیچے ایک کافر چھپا ہوا ہے آ اور اسے قتل کر ڈال

جب اللہ تعالیٰ ان سب کو ہلاک کر دے گا تب لوگ اپنے شہروں اور وطنوں کو لوٹیں گے ۔ اس وقت یاجوج ماجوج نکلیں گے جو کودتے پھلانگتے چاروں طرف پھیل جائیں گے جہاں سے گزریں گے تباہی پھیلا دیں گے جس پانی سے گزریں گے سب پی جائیں گے۔ آخر لوگ تنگ آ کر مجھ سے شکایت کریں گے میں اللہ سے دعا کروں گا اللہ تعالیٰ سب کو ہلاک کر دے گا

 ان کی لاشوں کا سڑاند پھیلے گی جس سے لوگ تنگ آ جائیں گے اللہ تعالیٰ بارش برسائے گا جو انکی لاشوں کو بہا کر سمندر میں ڈال آئے گی

پھر تو پہاڑ اڑنے لگیں گے اور زمین سکڑنے لگے گی ۔ جب یہ سب کچھ ظاہر ہوگا اس وقت قیامت ایسی قریب ہوگی جیسی پورے دن والی حاملہ عورت کے بچہ ہونے کا زمانہ قریب ہوتا ہے کہ گھر کے لوگ ہوشیار رہتے ہیں کہ نہ جانیں دن کو ہوجائے یا رات کو ـ(ابن ماجہ مسند)

اس سے معلوم ہوا کہ قیامت کا علم کسی رسول کو بھی نہیں ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی اس کی علامات بیان فرماتے ہیں نہ کہ مقررہ وقت ۔ اس لئے کہ آپ احکام رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جاری کرنے اور دجال کو قتل کرنے اور اپنی دعا کی برکت سے یاجوج ماجوج کو ہلاک کرنے کیلئے اس اُمت کے آخر زمانے میں نازل ہوں گے جس کا علم اللہ نے آپ کو دے دیا ہے ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قیامت کی بابت سوال ہوا تو آپ نے فرمایا:

 اس کا علم اللہ کے پاس ہی ہے سوائے اس کے اسے اور کوئی نہیں جانتا ہاں میں تمہیں اس کی شرطیں بتلاتا ہوں اس سے پہلے بڑے بڑے فتنے اور لڑائیاں ہوں گی لوگوں کے خون ایسے سفید ہو جائیں گے کہ گویا کوئی کسی کو جانتا پہچانتا ہی نہیں (مسند)

آپ اس آیت کے اترنے سے پہلے بھی اکثر قیامت کا ذکر فرماتے رہا کرتے تھے پس غور کر لو کہ یہ نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم جو سید الرسل ہیں خاتم الانبیاء ہیں نبی الرحمہ ہیں نبی اللہ ہیں الملحمہ ہیں عاقب ہیں مقفی ہیں حاشر ہیں جن کے قدموں پر لوگوں کا حشر ہوگا جن کا فرمان ہے کہ میں اور قیامت اس طرح آئے ہیں اور آپ نے اپنی دونوں انگلیاں جوڑ کر بتائیں یعنی شہادت کی انگلی اور اس کے پاس کی انگلی لیکن باوجود اس کے قیامت کا علم آپ کو نہ تھا۔

 آپ ﷺسے جب سوال ہوا تو یہی حکم ملا جواب دو کہ اس کا علم صرف اللہ ہی کو ہے لیکن اکثر لوگ بےعلم ہیں ۔

قُلْ لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۚ

آپ فرما دیجئے کہ میں خود اپنی ذات خاص کیلئے کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ کسی ضرر کا، مگر اتنا ہی کہ جتنا اللہ نے چاہا

اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرماتا ہے کہ آپ تمام کام سپرد اللہ کریں اور صاف کہدیں کہ غیب کی کسی بات کا مجھے علم نہیں ۔ میں تو صرف وہ جانتا ہوں جو اللہ تعالیٰ مجھے معلوم کرا دے ۔ جیسے سورہ جن میں ہے:

عَـلِمُ الْغَيْبِ فَلاَ يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَداً (۷۲:۲۶)

عالم الغیب اللہ تعالیٰ ہی ہے وہ اپنے غیب پر کسی کو آگاہ نہیں کرتا ۔

وَلَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ ۚ

اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو میں بہت منافع حاصل کرلیتا اور کوئی نقصان مجھے نہ پہنچتا

مجھے اگر غیب کی اطلاع ہوتی تو میں اپنے لئے بہت سی بھلائیاں سمیٹ لیتا۔

مجاہدؒ سے مروی ہے کہ اگر مجھے اپنی موت کا علم ہوتا تو نیکیوں میں بھی سبقت لے جاتا ۔

 لیکن یہ قول غور طلب ہے کیونکہ حضور ﷺکے اعمال دائمی تھے جو نیکی ایک بار کرتے پھر اسے معمول بنالیتے ۔ ساری زندگی اور زندگی کا ہر ایک دن بلکہ ہر ایک گھڑی ایک ہی طرح کی تھی ۔ گویا کہ آپ کی نگاہیں ہر وقت اللہ تعالیٰ کی طرف لگتی رہتی تھیں ۔ زیادہ سے زیادہ یہ بات یوں ہو سکتی ہے کہ دوسروں کو میں ان کی موت کے وقت سے خبردار کر کے انہیں اعمال نیک کی رغبت دلاتا واللہ اعلم ۔

اس سے زیادہ اچھا قول اس کی تفسیر میں حضرت ابن عباسؓ کا ہے  کہ میں مال جمع کر لیتا مجھے معلوم ہو جاتا کہ اس چیز کے خریدنے میں نفع ہے میں اسے خرید لیتا ۔ جانتا کہ اس کی خریداری میں نقصان ہے نہ خریدتا ۔ خشک سالی کے لئے ترسالی میں ذخیرہ جمع کر لیتا ۔ ارزانی کے وقت گرانیے علم سے سودا جمع کر لیتا ۔ کبھی کوئی برائی مجھے نہ پہنچتی کیونکہ میں علم غیب سے جان لیتا کہ یہ برائی ہے تو میں پہلے سے ہی اس سے جتن کر لیتا ۔ لیکن میں علم غیب نہیں جانتا اس لئے فقیری بھی مجھ پر آتی ہے تکلیف بھی ہوتی ہے ۔ مجھ میں تم یہ وصف نہ مانو ۔

إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (۱۸۸)

میں تو محض ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں۔‏

سنو مجھ میں وصف یہ ہے کہ میں برے لوگوں کو عذاب الہٰی سے ڈراتا ہوں ایمانداروں کو جنت کی خوش خبری سناتا ہوں

جیسے فرمان ہے:

فَإِنَّمَا يَسَّرْنَـهُ بِلَسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِهِ الْمُتَّقِينَ وَتُنْذِرَ بِهِ قَوْماً لُّدّاً (۱۹:۹۷)

ہم نے اسے تیری زبان پر آسان کر دیا ہے کہ تو پرہیز گاروں کو خوشخبری سنا دے اور بروں کو ڈرا دے۔

هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا ۖ

اور اللہ تعالیٰ ایسا ہے جس نے تم کو ایک تن واحد سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ وہ اس اپنے جوڑے سے انس حاصل کرے

تمام انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے صرف حضرت آدم علیہ السلام سے ہی پیدا کیا ۔ انہی سے ان کی بیوی حضرت حوا کو پیدا کیا پھر ان دونوں سے نسل انسان جاری کی ۔ جیسے فرمان ہے:

يأَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَـكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَـكُمْ شُعُوباً وَقَبَآئِلَ لِتَعَـرَفُواْ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عَندَ اللَّهِ أَتْقَـكُمْ (۴۹:۱۳)

لوگو ہم نے تمہیں ایک ہی مرد و عورت سے پیدا کیا ہے پھر تمہارے کنبے اور قبیلے بنا دیئے تاکہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچانتے رہو۔ اللہ کے ہاں سب سے زیادہ ذی عزت وہ ہے جو پرہیزگاری میں سب سے آگے ہے ۔

سورۃ نساء کے شروع میں ہے :

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً  (۴:۱)

اے لوگو اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم سب کو ایک ہی شخص (حضرت آدمؑ) سے پیدا کیا ہے انہی سے ان کی بیوی کو پیدا کیا پھر ان دونوں میاں بیوی سے بہت سے مرد و عورت پھیلا دیئے ۔

یہاں فرماتا ہے کہ انہی سے ان کی بیوی کو بنایا تاکہ یہ آرام اٹھائیں

چنانچہ ایک اور آیت میں ہے :

وَمِنْ ءايَـتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَجاً لِّتَسْكُنُواْ إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً (۳۰:۲۱)

اور اسکی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم آرام پاؤ اس نے تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی قائم کر دی

 پس یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے چاہت ہے جو میاں بیوی میں وہ پیدا کر دیتا ہے ۔ اسی لئے جادوگروں کی برائی بیان کرتے ہوئے قرآن نے فرمایا کہ وہ اپنی مکاریوں سے میاں بیوی میں جدائی ڈلوا دیتے ہیں ۔

فَلَمَّا تَغَشَّاهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيفًا فَمَرَّتْ بِهِ ۖ

پھر جب بیوی سے قربت حاصل کی اس کو حمل رہ گیا ہلکا سا۔

عورت مرد کے ملنے سے بحکم الہٰی عورت کو حمل ٹھہر جاتا ہے جب تک وہ نطفے ، خون اور لوتھڑے کی شکل میں ہوتا ہے ہلکا سا رہتا ہے

فَلَمَّا أَثْقَلَتْ دَعَوَا اللَّهَ رَبَّهُمَا لَئِنْ آتَيْتَنَا صَالِحًا لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ (۱۸۹)

سو وہ اس کو لئے ہوئے چلتی پھرتی رہی پھر جب وہ بوجھل ہوگئی تو دونوں میاں بیوی اللہ سے جو ان کا مالک ہے دعا کرنے لگے اگر تم نے ہم کو صحیح سلامت اولاد دے دی تو ہم خوب شکر گزاری کریں گے ۔

وہ برابر اپنے کام کاج میں آمد و رفت میں لگی رہتی ہے کوئی ایسی زیادہ تکلیف اور بار نہیں معلوم ہوتا اور اندر ہی اندر وہ برابر بڑھتا رہتا ہے اسے تو یونہی سا کچھ وہم کبھی ہوتا ہے کہ شاید کچھ ہو ۔کچھ وقت یونہی گزر جانے کے بعد بوجھ معلوم ہونے لگتا ہے حمل ظاہر ہو جاتا ہے بچہ پیٹ میں بڑا ہو جاتا ہے طبیعت تھکنے لگتی ہے اب ماں باپ دونوں اللہ سے دعائیں کرتے ہیں کہ اگر وہ ہمیں صحیح سالم بیٹا عطا فرمائے تو ہم شکر گزاری کریں گے ۔ ڈر لگتا ہے کہ کہیں کچھ اور بات نہ ہو جائے

فَلَمَّا آتَاهُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَهُ شُرَكَاءَ فِيمَا آتَاهُمَا ۚ

سو جب اللہ نے دونوں کو صحیح سلامت اولاد دے دی تو اللہ کی دی ہوئی چیز میں وہ دونوں اللہ کے شریک قرار دینے لگے

 اب جبکہ اللہ تعالیٰ نے مہربانی فرمائی اور صحیح سالم انسانی شکل و صورت کا بچہ عطا فرمایا تو اللہ کے ساتھ شرک کرنے لگتے ہیں

مفسرین نے اس جگہ بہت سے آثار و احادیث بیان کئے ہیں جنہیں میں یہاں نقل کرتا ہوں اور ان میں جو بات ہے وہ بھی بیان کروں گا پھر جو بات صحیح ہے اسے بتاؤں گا انشاء اللہ ۔

 مسند احمد میں ہے کہ جب حضرت حوا کو اولاد ہوئی تو ابلیس گھومنے لگا ان کے بچے زندہ نہیں رہتے تھے شیطان نے سکھایا کہ اب اس کا نام عبدالحارث رکھ دے تو یہ زندہ رہے گا چنانچہ انہوں نے یہی کیا اور یہی ہوا اور اصل میں یہ شیطانی حرکت تھی اور اسی کا حکم تھا ۔

 امام ترمذی نے بھی اسے وارد کیا ہے پھر فرمایا ہے حسن غریب ہے ،

 میں کہتا ہوں اس حدیث میں تین علتیں ہیں ایک تو یہ کہ اس کے ایک راوی عمر بن ابراہیم مصری کی بابت امام ابو حاتم رازی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ راوی ایسا نہیں کہ اس سے حجت پکڑی جائے گو امام ابن معین نے اس کی توثیق کی ہے لیکن ابن مردویہ نے اسے معمر سے اس نے اپنے باپ سے اس نے سمرہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے واللہ اعلم

دوسرے یہ کہ یہی روایت موقوفاً حضرت سمرہ کے اپنے قول سے مروی ہوئی ہے جو کہ مرفوع نہیں ابن جرید میں خود حضرت عمرہ بن جندب کا اپنا فرمان ہے کہ حضرت آدم ؑنے اپنے لڑکے کا نام عبدالحارث رکھا ۔

تیسرے اس آیت کی تفسیر اس کے راوی حضرت حسنؒ سے بھی اس کے علاوہ بھی مروی ہے ۔ ظاہر ہے کہ اگر یہ مرفوع حدیث ان کی روایت کردہ ہوتی تو یہ خود اس کے خلاف تفسیر نہ کرتے ۔

چنانچہ ابن جرید میں ہے حضرت حسنؒ فرماتے ہیں یہ حضرت آدم کا واقعہ نہیں بلکہ بعض مذاہب والوں کا واقعہ ہے اور روایت میں آپ کا یہ فرمان منقول ہے کہ اس سے مراد بعض مشرک انسان ہیں جو ایسا کرتے ہیں ، فرماتے ہیں کہ یہ یہود و نصاریٰ کا فعل بیان ہوا ہے کہ اپنی اولادوں کو اپنی روش پر ڈال لیتے ہیں ۔ یہ سب اسنادیں حضرت حسنؒ تک بالکل صحیح ہیں اور اس آیت کو جو کچھ تفسیر کی گئی ہے اس میں سب سے بہتر تفسیر یہی ہے ۔

 خیر مقصد یہ تھا کہ اتنا بڑا متقی اور پرہیزگار آدمی ایک آیت کی تفسیر میں ایک مرفوع حدیث قول پیغمبر روایت کرے پھر اس کے خلاف خود تفسیر کرے یہ بالکل ان ہونی بات ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ حدیث مرفوع نہیں بلکہ وہ حضرت سمرہ کا اپنا قول ہے ۔ اس کے بعد یہ بھی خیال ہوتا ہے کہ بہت ممکن ہے کہ حضرت سمرہ نے اسے ہل کتاب سے ماخوذ کیا ہو جیسے کعب و ہب وغیرہ جو مسلمان ہوگئے تھے انشاء اللہ اس کا بیان بھی عنقریب ہوگا بہر صورت اس روایت کا مرفوع ہونا ہم تسلیم نہیں کرتے واللہ اعلم ۔

اب اور آثار جو اس بارے میں ہیں انہیں سنئے ۔

 ابن عباسؓ کہتے ہیں :

حضرت حوا کے جو بچے پیدا ہوتے تھے ان کا نام عبداللہ عبید اللہ وغیرہ رکھتی تھیں وہ بچے فوت ہو جاتے تھے پھر ان کے پاس ابلیس آیا اور کہا اگر تم کوئی اور نام رکھو تو تمہارے بچے زندہ رہیں گے چنانچہ ان دونوں نے یہی کیا جو بچہ پیدا ہوا اس کا نام عبدالحارث رکھا اس کا بیان ان آیتوں میں ہے

 اور روایت میں ہے:

 ان کے دو بجے اس سے پہلے مر چکے تھے اب حالت حمل میں شیطان ان کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ تمہیں معلوم بھی ہے کہ تمہارے پیٹ میں کیا ہے؟ ممکن ہے کوئی جانور ہی ہو ممکن ہے صحیح سالم نہ پیدا ہو ممکن ہے اگلوں کی طرح یہ بھی مر جائے تم میری مان لو اور اب جو بچہ پیدا ہو اس کا نام میرے نام پر رکھو تو انسان ہوگا صحیح سالم ہوگا زندہ رہے گا یہ بھی اس کے بہکاوے میں آ گئے اور عبدالحارث نام رکھا ۔ اسی کا بیان ان آیتوں میں ہے

 اور روایت میں ہے:

 پہلی دفعہ حمل کے وقت یہ آیا اور انہیں ڈرایا کہ میں وہی ہوں جس نے تمہیں جنت سے نکلویا اب یا تم میری اطاعت کرو ۔ ورنہ میں اسے یہ کر ڈالوں گا وہ کر ڈالوں گا وغیرہ ہر چند ڈرایا مگر انہوں نے اس کی اطاعت نہ کی ۔ اللہ کی شان وہ بچہ مردہ پیدا ہوا دوبارہ حمل ٹھہرا پھر یہ ملعون پہنچا اور اسی طرح خوف زدہ کرنے لگا اب بھی انہوں نے اس کی اطاعت نہ کی چنانچہ یہ دوسرا بچہ بھی مردہ ہوا ۔ تیسرے حمل کے وقت یہ خبیث پھر آیا اب کی مرتبہ اولاد کی محبت میں آ کر انہوں نے اس کی مان لی اور اس کا نام عبدالحارث رکھا اسی کا بیان ان آیتوں میں ہے ۔

 ابن عباس ؓسے اس اثر کو لے کر ان کے شاگردوں کی ایک جماعت نے بھی یہی کہا ہے جیسے حضرت مجاہد حضرت سعید بن جبیر حضرت عکرمہ اور دوسرے طبقے میں سے قتادہ سدی وغیرہ اسی طرح سلف سے خلف تک بہت سے مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں یہی کہا ہے ۔ لیکن ظاہر یہ ہے کہ یہ اثر اہل کتاب سے لیا گیا ہے ۔ اس کی بڑی دلیل یہ ہے کہ ابن عباسؓ اسے ابی ابن کعب سے روایت کرتے ہیں جیسے کہ ابن ابی حاتم میں ہے پس ظاہر ہے کہ یہ اہل کتاب کے آثار سے ہے ۔جن کی بابت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ان کی باتوں کو نہ سچی کہو نہ جھوٹی ۔

 ان کی روایتیں تین طرح کی ہیں ۔

-  ایک تو وہ جن کی صحت ہمارے ہاں کسی آیت یا حدیث سے ہوتی ہے ۔

-  ایک وہ جن کی تکذیب کسی آیت یا حدیث سے ہوتی ہو ۔

-  ایک وہ جس کی بابت کوئی ایسا فیصلہ ہمارے دین میں نہ ملے تو بقول حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس روایت کے بیان میں تو کوئی حرج نہیں لیکن تصدیق تکذیب جائز نہیں ۔

میرے نزدیک تو یہ اثر دوسری قسم کا ہے یعنی ماننے کے قابل نہیں اور جن صحابہ اور تابعین سے یہ مروی ہے انہوں نے اسے تیسری قسم کا سمجھ کر بیان کر دیا ہے ۔ لیکن ہم تو وہی کہتے ہیں جو حضرت امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مشرکوں کا اپنی اولاد کے معاملے میں اللہ کے ساتھ کرنے کا بیان ان آیتوں میں ہے نہ کہ حضرت آدمؑ و حوا کا ۔

فَتَعَالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ (۱۹۰)

سو اللہ پاک ہے ان کے شرک سے۔‏

 پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ اس شرک سے اور ان کے شریک ٹھہرانے سے بلند و بالا ہے

 ان آیتوں میں یہ ذکر اور ان سے پہلے آدمؑ و حوا کا ذکر مثل تمہید کے ہے کہ ان اصلی ماں باپ کا ذکر کر کے پھر اور ماں باپوں کا ذکر ہوا اور ان ہی کا شرک بیان ہوا ۔ ذکر شخص سے ذکر جنس کی طرف استطراد کے طور پر جیسے آیت میں ہے :

وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَجَعَلْنَاهَا رُجُومًا لِلشَّيَاطِينِ (۶۷:۵)

ہم نے دنیا کے آسمان کو ستاروں سے زینت دی اور انہیں شیطانوں پر انگارے برسانے والا بنایا

اور یہ ظاہر ہے کہ جو ستارے زینت کے ہیں وہ جھڑتے نہیں ان سے شیطانوں کو مار نہیں پڑتی ۔ یہاں بھی استطراد تاروں کی شخصیت سے تاروں کی جنس کی طرف ہے اس کی اور بھی بہت سی مثالیں قرآن کریم میں موجود ہیں ، واللہ اعلم

أَيُشْرِكُونَ مَا لَا يَخْلُقُ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ (۱۹۱)

کیا ایسوں کو شریک ٹھہراتے ہو جو کسی کو پیدا نہ کر سکیں اور وہ خود ہی پیدا کئے گئے ہوں۔‏

جو لوگ اللہ کے سوا اوروں کو بوجتے ہیں وہ سب اللہ کے ہی بنائے ہوئے ہیں وہی ان کا پالنے والا ہے وہ بالکل بے اختیار ہیں کسی نفع نقصان کا انہیں اختیار نہیں وہ اپنے پجاریوں کو کوئی نفع نہیں پہنچا سکتے بلکہ وہ تو ہل جل بھی نہیں سکتے دیکھ اور سن بھی نہیں سکتے ۔ ان بتوں سے تو ان کے پجاری ہی توانا تندرست اور اچھے ہیں کہ ان کی آنکھیں بھی ہیں کان بھی ہیں یہ بیوقوف تو انہیں پوجتے ہیں جنہوں نے ساری مخلوق میں سے ایک چیز کو بھی پیدا نہیں کیا بلکہ وہ خود اللہ تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے ہیں ۔ جیسے اور جگہ ہے:

إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ ۔۔۔ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِىٌّ عَزِيزٌ  (۲۲:۷۳،۷۴)

اللہ کے سوا جن جن کو تم پکارتے رہے ہو وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے گو سارے کے سارے ہی جمع ہوجائیں، بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز لے بھاگے تو یہ تو اسے بھی اس سے چھین نہیں سکتے،

بڑا بزدل ہے طلب کرنے والا اور بڑا بزدل ہے وہ جس سے طلب کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے اللہ کے مرتبہ کے مطابق اس کی قدر جانی ہی نہیں اللہ تعالیٰ بڑا ہی زور و قوت والا اور غالب و زبردست ہے۔‏

وَلَا يَسْتَطِيعُونَ لَهُمْ نَصْرًا وَلَا أَنْفُسَهُمْ يَنْصُرُونَ (۱۹۲)

اور وہ ان کو کسی قسم کی مدد نہیں دے سکتے اور وہ خود بھی مدد نہیں کر سکتے۔‏

حضرت خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ أَتَعْبُدُونَ مَا تَنْحِتُونَ (۳۷:۸۵)  کیا تم ان کی عبادت کرتے ہو جنہیں تم خود ہی گھڑتے اور بناتے ہو؟وہ نہ تو اپنے پجاریوں کی مدد کر سکتے ہیں نہ خود اپنی ہی کوئی مدد کر سکتے ہیں ۔ یہاں تک کہ حضرت خلیل اللہ علیہ السلام نے انہیں توڑ توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا فَرَاغَ عَلَيْهِمْ ضَرْبًا بِالْيَمِينِ (۳۷:۹۳)  لیکن ان سے یہ نہ ہو سکا کہ اپنے آپ کو ان کے ہاتھ سے بچا لیتے ۔ ہاتھ میں تبر لے کر سب کو چورا کر دیا اور ان معبود ان باطل سے یہ بھی نہ ہو سکا کہ کسی طرح اپنا بچاؤ کر لیتے ،

 خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی حضرت معاذ بن عمرو بن جموح اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہما یہی کام کرتے تھے کہ رات کے وقت چپکے سے جا کر مشرکین کے بت توڑ آتے اور جو لکڑی کے ہوتے انہیں توڑ کر بیوہ عورتوں کو دے دیتے کہ وہ اپنا ایندھن بنالیں اور قوم کے بت پرست عبرت حاصل کریں ۔

خود حضرت معاذ کا باپ عمرو بن جموح بھی بت پرست تھا یہ دونوں نوجوان دوست وہاں بھی پہنچتے اور اس بت کو پلیدی سے آلودہ کر آتے ۔

جب یہ آتا تو اپنے خدا کو اس حالت میں دیکھ کر بہت پیچ و تاب کھاتا، پھر دھوتا، پھر اس پر خوشبو ملتا ۔ ایک مرتبہ اس نے اس کے پاس تلوار رکھ دی اور کہا دیکھ آج تیرا دشمن آئے تو اس تلوار سے اس کا کام تمام کر دینا ۔ یہ اس رات بھی پہنچے اور اس کی درگت کر کے پاخانے سے لیپ کر کے چلے آئے مگر تاہم اسے اثر نہ ہوا صبح کو اسی طرح اس نے دھو دھا کر ٹھیک ٹھاک کر کے خوشبو لگا کر بیٹھا کر ڈنڈوت کی یعنی (اٹھک بیٹھک) کی ۔ جب ان دونوں نے دیکھا کہ کسی طرح یہ نہیں مانتا تو ایک رات اس بت کو اٹھا لائے اور ایک کتے کا پلا جو مرا پڑا تھا اس کے گلے میں باندھ دیا اور محلے کے ایک کنویں میں ڈال دیا صبح اس نے اپنے بت کو نہ پا کر تلاش کی تو کنویں میں اسے نظر آیا کہ کتے کے مردہ بچے کے ساتھ پڑا ہوا ہے اب اسے بت سے اور بت پرستی سے نفرت ہو گئی اور اس نے کہا

تاللہ لو کنت الھا مستدن لم تک والکلب جمیعافی قرن

یعنی اگر تو سچ مچ اللہ ہوتا تو کنوئیں میں کتے کے پلے کے ساتھ پڑا ہوا نہ ہوتا

پھر حاضر حضور سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوئے اور مشرف بہ اسلام ہوگئے پھر تو اسلام میں پورے پکے ہوگئے ۔ احد کی لڑائی میں شریک ہوئے اور کفار کو قتل کر تے ہوئے شہید ہوگئے رضی اللہ عنہ وارضاہ وجعل جنت الفردوس ماوا۔

وَإِنْ تَدْعُوهُمْ إِلَى الْهُدَى لَا يَتَّبِعُوكُمْ ۚ سَوَاءٌ عَلَيْكُمْ أَدَعَوْتُمُوهُمْ أَمْ أَنْتُمْ صَاُمتونَ (۱۹۳)

اگر تم ان کو کوئی بات بتلانے کو پکارو تو تمہارے کہنے پر نہ چلیں تمہارے اعتبار سے دونوں امر برابر ہیں خواہ تم ان کو پکارو یا خاموش رہو۔‏

انہیں اگر بلا یا جائے تو یہ قبول کرنا تو درکنار سن بھی نہیں سکتے محض پتھر ہیں، بےجان ہیں، بےآنکھ اور بےکان ہیں جیسے کہ حضرت خلیل اللہ علیہ السلام نے فرمایا:

يأَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لاَ يَسْمَعُ وَلاَ يَبْصِرُ وَلاَ يُغْنِى عَنكَ شَيْئاً  (۱۹:۴۲)

میرے والد! آپ انکی پوجا پاٹ کیوں کر رہے ہیں جو نہ سنیں نہ دیکھیں؟ نہ آپ کو کچھ بھی فائدہ پہنچا سکیں‏

آپ ان کی عبادت کیوں کرتے ہیں جو نہ سنیں نہ دیکھیں نہ تجھے کوئی نفع پہنچا سکیں نہ تیرے کسی کام آ سکیں ۔

 انہیں پکارنا نہ پکارنا دونوں برابر ہیں ۔

إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ ۖ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (۱۹۴)

واقعی تم اللہ کو چھوڑ کر جنکی عبادت کرتے ہو وہ بھی تم جیسے ہی بندے ہیں سو تم ان کو پکارو پھر ان کو چاہیے کہ تمہارا کہنا کر دیں اگر تم سچے ہو۔‏

یہ تو تم جیسے ہی بےبس اور اللہ کی مخلوق ہیں بتاؤ تو کبھی انہوں نے تمہاری فریاد رسی کی ہے؟ یا کبھی تمہاری دعا کا جواب دیا ہے؟

أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِهَا ۖ أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا ۖ أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا ۖ أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا ۗ

کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے وہ چلتے ہوں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے وہ کسی چیز کو تھام سکیں، یا ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے ہوں، یا ان کے کان ہیں جن سے سنتے ہوں

حقیقت میں ان سے افضل و اعلیٰ تو تم خود ہو۔ تم سنتے دیکھتے چلتے پھرتے بولتے چالتے ہو یہ تو اتنا بھی نہیں کر سکتے ۔

قُلِ ادْعُوا شُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ كِيدُونِ فَلَا تُنْظِرُونِ (۱۹۵)

آپ کہہ دیجئے! تم اپنے سب شرکا کو بلا لو، پھر میری ضرر رسانی کی تدبیر کرو پھر مجھ کو ذرا مہلت مت دو ۔

اچھا تم ان سے میرا کچھ بگاڑ نے کی درخواست کرو میں اعلان کرتا ہوں کہ اگر ان سے ہو سکے تو بلا تامل اپنی پوری طاقت سے جو میرا بگاڑ سکتے ہوں بگاڑ لیں ۔

إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ الَّذِي نَزَّلَ الْكِتَابَ ۖ وَهُوَ يَتَوَلَّى الصَّالِحِينَ (۱۹۶)

یقیناً میرا مددگار اللہ تعالیٰ ہے جس نے یہ کتاب نازل فرمائی اور وہ نیک بندوں کی مدد کرتا ہے۔‏

سنو میں تو اللہ کو اپنا حمایتی اور مددگار سمجھتا ہوں وہی میرا بچانے والا ہے اور وہ مجھے کافی وافی ہے اسی پر میرا بھروسہ ہے اسی سے میرا لگاؤ ہے ۔

 میں ہی نہیں ہر نیک بندہ یہی کرتا ہے اور وہ بھی اپنے تمام سچے غلاموں کی نگہبانی اور حفاظت کرتا رہتا ہے اور کرتا رہے گا ۔ میرے بعد بھی ان سب کا نگراں اور محافظ وہی ہے ۔

حضرت ہود علیہ السلام سے آپ کی قوم نے کہا کہ ہمارا تو خیال ہے کہ تو جو ہمارے معبودوں پر ایمان نہیں رکھتا اسی سبب سے انہوں نے تجھے ان مشکلات میں ڈال دیا ہے ۔

إِن نَّقُولُ إِلاَّ اعْتَرَاكَ بَعْضُ ءَالِهَتِنَا بِسُوءٍ

بلکہ ہم تو یہی کہتے ہیں کہ ہمارے کسی معبود کے بڑے جھپٹے میں آگیا ہے

اس کے جواب میں اللہ کے پیغمبر نے فرمایا :

قَالَ إِنِّى أُشْهِدُ اللَّهِ وَاشْهَدُواْ أَنِّى بَرِىءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ ۔۔۔۔ مَّا مِن دَآبَّةٍ إِلاَّ هُوَ ءاخِذٌ بِنَاصِيَتِهَآ (۱۱:۵۴،۵۶)

اس نے جواب دیا کہ میں اللہ کو گواہ کرتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ میں ان سب سے بیزار ہوں، جنہیں تم شریک بنا رہے ہو ۔

اللہ کے سوااچھا تم سب ملکر میرے خلاف چالیں چل لو مجھے بالکل مہلت بھی نہ دو ۔

میرا بھروسہ صرف اللہ تعالیٰ پر ہے جو میرا اور تم سب کا پروردگار ہےجتنے بھی پاؤں دھرنے والے ہیں سب کی پیشانی وہی تھامے ہوئے ہے

 حضرت خلیل اللہ علیہ السلام نے بھی یہی فرمایا تھا:

قَالَ أَفَرَءَيْتُمْ مَّا كُنْتُمْ تَعْبُدُونَ ۔۔۔  الَّذِى خَلَقَنِى فَهُوَ يَهْدِينِ (۲۶:۷۵،۷۸)

آپ نے فرمایا کچھ خبر بھی ہے جنہیں تم پوج رہے ہو؟‏

تم اور تمہارے اگلے باپ دادا،‏وہ سب میرے دشمن ہیں بجز سچے اللہ تعالیٰ کے جو تمام جہان کا پالنہار ہے

جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور وہی میری رہبری فرماتا ہے

آپ نے اپنے والد اور قوم سے بھی یہی فرمایا :

وَإِذْ قَالَ إِبْرَهِيمُ لاًّبِيهِ وَقَوْمِهِ إِنَّنِى بَرَآءٌ مِّمَّا تَعْبُدُونَ ۔۔ ۔ وَجَعَلَهَا كَلِمَةً بَـقِيَةً فِى عَقِبِهِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُون (۳:۲۶،۲۸)

اور جبکہ ابراہیمؑ نے اپنے والد سے اور اپنی قوم سے فرمایا کہ میں ان چیزوں سے بیزار ہوں جن کی تم عبادت کرتے ہو۔

‏بجز اس ذات کے جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور وہی مجھے ہدایت بھی کرے گا

اور (ابراہیم علیہ السلام)اسی کو اپنی اولاد میں بھی باقی رہنے والی بات قائم کرے گا تاکہ لوگ (شرک سے) باز آتے رہیں ۔

وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَكُمْ وَلَا أَنْفُسَهُمْ يَنْصُرُونَ (۱۹۷)

اور جن لوگوں کو اللہ چھوڑ کر عبادت کرتے ہو وہ تمہاری کچھ مدد نہیں کرسکتے ہیں

پہلے تو غائبانہ فرمایا تھا پھر اور تاکید کے طور پر خطاب کر کے فرماتا ہے کہ جن جن کو اللہ کے سوا تم پکارتے ہو وہ تمہاری امداد نہیں کر سکتے اور نہ وہ خود اپنا ہی کوئی نفع کر سکتے ہیں ۔

وَإِنْ تَدْعُوهُمْ إِلَى الْهُدَى لَا يَسْمَعُوا ۖ وَتَرَاهُمْ يَنْظُرُونَ إِلَيْكَ وَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ (۱۹۸)

اور ان کو اگر کوئی بات بتلانے کو پکارو تو اس کو نہ سنیں اور ان کو آپ دیکھتے ہیں کہ گویا وہ آپ کو دیکھ رہے ہیں اور وہ کچھ بھی نہیں دیکھتے۔‏

یہ تو سن ہی نہیں سکتے تجھے تو یہ آنکھوں والے دکھائی دیتے ہیں لیکن دراصل ان کی اصلی آنکھیں ہی نہیں کہ کسی کو دیکھ سکیں ۔ جیسے فرمان ہے :

إِن تَدْعُوهُمْ لاَ يَسْمَعُواْ دُعَآءَكُمْ (۳۵:۱۴)

اگر تم انہیں پکارو تو وہ سنتے نہیں

چونکہ وہ تصاویر اور بت ہیں ان کی مصنوعی آنکھیں ہیں محسوس تو یہ ہوتا ہے کہ وہ دیکھ رہے ہیں لیکن دراصل دیکھ نہیں رہے چونکہ وہ پتھر بصورت انسان ہیں اس لئے ضمیر بھی ذوی العقول کی لائے ۔

 یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد کفار ہیں لیکن اول ہی اولیٰ ہے یہی امام ابن جریرؒ اور قتادہؒ کا قول ہے ۔

خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ

آپ درگز اختیار کریں نیک کام کی تعلیم دیں

ابن عباسؓ فرماتے ہیں :

خُذِ الْعَفْوَ کا مطلب یہ ہے کہ ان سے وہ مال لے جو ان کی ضرورت سے زیادہ ہوں اور جسے یہ بخوشی اللہ کی راہ میں پیش کریں ۔ پہلے چونکہ زکوٰۃ کے احکام بہ تفصیل نہیں اترے تھے اس لئے یہی حکم تھا ۔

 یہ بھی معنی کئے گئے ہیں کہ ضرورت سے زائد چیز اللہ کی راہ میں خرچ کر دیا کرو ۔

 یہ بھی مطلب ہے کہ مشرکین سے بدلہ نہ لے دس سال تک تو یہی حکم رہا کہ درگزر کرتے ہو پھر جہاد کے احکام اترے۔

یہ بھی مطلب ہے کہ لوگوں کے اچھے اخلاق اور عمدہ عادات جو ظاہر ہوں انہی پر نظریں رکھ ان کے باطن نہ ٹٹول ، تجسس نہ کرو ۔

 حضرت عبداللہ بن زبیر ؓسے بھی یہی تفسیر مروی ہے یہی قول زیادہ مشہور ہے

حدیث میں ہے کہ اس آیت کو سن کر حضرت جبرائیلؑ سے آپ نے دریافت کیا کہ اس کا کیا مطلب ہے؟

 آپ ﷺنے فرمایا یہ کہ

-  جو تجھ پر ظلم کرے تو اس سے درگزر کر۔

- جو تجھے نہ دے تو اس کے ساتھ بھی احسان و سلوک کر ۔

- جو تجھ سے قطع تعلق کرے تو اس کے ساتھ بھی تعلق رکھ ۔

مسند احمد میں ہے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا اور آپ کا ہاتھ تھام کر درخواست کی کہ مجھے افضل اعمال بتائیے آپ ﷺنے فرمایا :

- جو تجھ سے توڑے تو اس سے بھی جوڑ،

- جو تجھ سے روکے تو اسے دے،

- جو تجھ پر ظلم کرے تو اس پر بھی رحم کر ۔

 اوپر والی روایت مرسل ہے اور یہ روایت ضعیف ہے ۔

عُرْفِ سے مراد نیک ہے ۔

صحیح بخاری شریف میں ہے:

 عینیہ بن حصن بن حذیفہ اپنے بھائی حر بن قیس کے ہاں آ کے ٹھہرا ۔ حضرت حر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے خاص درباریوں میں تھے آپ کے درباری اور نزدیکی کا شرف صرف انہیں حاصل تھا جو قرآن کریم کے ماہر تھے خواہ وہ جوان ہوں خواہ بوڑھے ۔ اس نے درخواست کی کہ مجھے آپ امیر المؤمنین عمر ؓکے دربار میں حاضری کی اجازت دلوا دیجئے۔ آپ نے وہاں جا کر ان کے لئے اجازت چاہی امیر المؤمنین نے اجازت دے دی ۔

یہ جاتے ہی کہنے لگے کہ اے ابن خطاب تو ہمیں بکثرت مال بھی نہیں دیتا اور ہم میں عدل کے ساتھ فیصلے بھی نہیں کرتا ۔

 آپ کو یہ کلام بھی برا لگا ، ممکن تھا کہ اسے اس کی اس تہمت پر سزا دیتے لیکن اسی وقت حضرت حر نے کہا اے امیر المؤمنین اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرمایا ہے کہ عفودرگزر کی عادت رکھ، اچھائیوں کا حکم کرتا رہ اور جاہلوں سے چشم پوشی کر ۔ امیر المؤمنین یقین کیجئے کہ یہ نرا جاہل ہے

 قرآن کریم کی اس آیت کا کان میں پڑنا تھا کہ آپ کا تمام رنج و غم غصہ و غضب جاتا رہا ۔ آپ کی یہ تو عادت ہی تھی کہ ادھر کلام اللہ سنا ادھر گردن جھکا دی ۔

 امیرالمؤمنین رضی اللہ عنہ کے پوتے حضرت سالم بن عبداللہ رحمہ اللہ کا ذکر ہے کہ آپ نے شامیوں کے ایک قافلے کو دیکھا ، جس میں گھنٹی تھی تو آپ نے فرمایا یہ گھنٹیاں منع ہیں ۔ انہوں نے کہ ہم اس مسئلے کو آپ سے زیادہ جانتے ہیں بڑی بڑی گھنٹیوں سے منع ہے اس جیسی چھوٹی گھنٹیوں میں کیا حرج ہے؟ حضرت سالم نے اسی آیت کا آخری جملہ پڑھ کر ان جاہلوں سے چشم پوشی کرلی ۔

عرف معروف عارف عارفہ سب کے ایک ہی معنی ہیں ۔ اس میں ہر اچھی بات کی اطاعت کا ذکر آ گیا

وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ (۱۹۹)

 اور جاہلوں سے ایک کنارہ ہوجائیں ۔

 پھر حکم دیا کہ جاہلوں سے منہ پھیر لیا کر گو یہ حکم آپ کو ہے لیکن دراصل تمام بندوں کو یہی حکم ہے ۔

مطلب یہ ہے ظلم برداشت کر لیا کرو تکلیف دہی کا خیال بھی نہ کرو ۔یہ معنی نہیں کہ دین حق کے معاملے میں جو جہالت سے پیش آئے تم اس سے کچھ نہ کہو ، مسلمانوں سے جو کفر پر جم کر مقابلہ کرے تم اسے کجھ نہ کہنا ۔ یہ مطلب اس جملے کا نہیں ۔

یہ وہ پاکیزہ اخلاق ہیں جن کا مجسم عملی نمونہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے کسی نے اسی مضمون کو اپنے شعروں میں باندھا ہے ۔

خذا لعفو وامربالعرف کما امرت واعرض عن الجاھلین      

ولن فی الکلام بکل الانام فمستحسن من ذوی الجاھلین

یعنی درگزر کیا کر، بھلی بات بتا دیا کر جیسے کہ تجھے حکم ہوا ہے ، نا دانوں سے ہٹ جا یا کر،

ہر ایک سے نرم کلامی سے پیش آ۔ یاد رکھ کہ عزت و جاہ پر پہنچ کر نرم اور خوش اخلاق رہنا ہی کمال ہے ۔

 بعض مسلمانوں کا مقولہ ہے کہ لوگ دو طرح کے ہیں

-  ایک تو بھلے اور محسن جو احسان و سلوک کریں قبول کر لے اور ان کے سر نہ ہو جا کہ ان کی وسعت سے زیادہ ان پر بوجھ ڈال دے ۔

- دوسرے بد اور ظالم انہیں نیکی اور بھلائی کا حکم دے پھر بھی اگر وہ اپنی جہالت پر اور بد کرداری پر اڑے رہیں اور تیرے سامنے سرکشی اختیار کریں تو تو ان سے روگردانی کر لے یہی چیز اسے اس کی برائی سے ہٹا دے گی

جیسے کہ اللہ کا فرمان ہے:

وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۚ ۔۔۔ وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ (۴۱:۳۴،۳۵)

 برائی کو بھلائی سے دفع کرو پھر وہی جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی ہے ایسا ہو جائے گا جیسے دلی دوست

اور یہ بات انہیں نصیب ہوتی ہے جو صبر کریں اور اسے سوائے بڑے نصیبے والوں کے کوئی نہیں پا سکتا

وَإِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ ۚ إِنَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (۲۰۰)

آپکو اگر کوئی وسوسہ شیطان کی طرف سے آنے لگے تو اللہ کی پناہ مانگ لیا کیجئے بلاشبہ وہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے‏

یہاں  شیطانی و سوسوں سے اللہ کی پناہ مانگنے کا حکم ہوا اس لئے کہ وہ سخت ترین دشمن ہے اور ہے بھی احسان فراموش۔ انسانی دشمنوں سے بچاؤ تو عضو درگزر اور سلوک و احسان سے ہو جاتا ہے لیکن اس ملعون سے سوائے اللہ کی پناہ کے اور کوئی بچاؤ نہیں ۔

یہ تینوں حکم جو سورہ اعراف کی ان تین آیتوں میں ہیں یہی سورہ مؤمنون میں بھی ہیں اور سورہ حم السجدہ میں بھی ۔

ادْفَعْ بِالَّتِى هِىَ أَحْسَنُ السَّيِّئَةَ ۔۔۔ وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَن يَحْضُرُونِ (۲۳:۹۶،۹۸)

برائی کو اس طریقے سے دور کریں جو سراسر بھلائی والا ہو، جو کچھ بیان کرتے ہیں ہم بخوبی واقف ہیں۔

‏ اور دعا کریں کہ اے میرے پروردگار! میں شیطانوں کے وسوسوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔

 اور اے میرے رب! میں تیری پناہ چاہتا ہوں کہ وہ میرے پاس آجائیں  

وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۚ ۔۔۔ وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ (۴۱:۳۴،۳۵)

 برائی کو بھلائی سے دفع کرو پھر وہی جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی ہے ایسا ہو جائے گا جیسے دلی دوست

اور یہ بات انہیں نصیب ہوتی ہے جو صبر کریں اور اسے سوائے بڑے نصیبے والوں کے کوئی نہیں پا سکتا

وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ  إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (۴۱:۳۶)

اور اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آئے تو اللہ کی پناہ طلب کرو یقیناً وہ بہت ہی سننے والا جاننے والا ہے

شیطان تو حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے دشمن انسان ہے ۔ یہ جب غصہ دلائے جوش میں لائے فرمان الہٰی کے خلاف ابھارے جاہلوں سے بدلہ لینے پر آمادہ کرے تو اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگ لیا کرو ۔ وہ جاہلوں کی جہالت کو بھی جانتا ہے اور تیرے بچاؤ کی ترکیبوں کو بھی جانتا ہے ۔

ساری مخلوق کا اسے علم ہے وہ تمام کاموں سے خبردار ہے ۔

 کہتے ہیں کہ جب اگلے تین حکم سنے تو کہا اسے اللہ ان کاموں کے کرنے کے وقت تو شیطان ان کے خلاف بری طرح آمادہ کر دے گا اور نفس تو جوش انتقام سے پر ہوتا ہی ہے کہیں ان کی خلاف ورزی نہ ہو جائے تو یہ پچھلی آیت نازل ہوئی کہ ایسا کرنے سے شیطانی وسوسہ دفع ہو جائے گا اور تم ان اخلاق کریمانہ پر عامل ہو جاؤ گے ۔

میں نے اپنی اسی تفسیر کے شروع میں ہی أَعُوذُ کی بحث میں اس حدیث کو بھی وارد کیا ہے :

 دو شخص لڑ جھگڑ رہے تھے جن میں سے ایک سخت غضبناک تھا حضورﷺ نے فرمایا مجھے ایک ایسا کلمہ یاد ہے اگر یہ کہہ لے تو ابھی یہ بات جاتی رہے۔ وہ کلمہ اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم ہے

 کسی نے اس کو بھی ذکر کیا تو اس نے کہا کہ کیا میں کوئی دیوانہ ہو گیا ہوں؟

نَزْغٌ کے اصلی معنی فساد کے ہیں وہ خواہ غصے سے ہو یا کسی اور وجہ سے ۔

 فرمان قرآن ہے :

وَقُل لِّعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنزَغُ بَيْنَهُمْ ۚ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلْإِنسَانِ عَدُوًّا مُّبِينًا (۱۷:۵۳)

 اور میرے بندوں سے کہہ دیجئے کہ وہ بہت ہی اچھی بات منہ سے نکالا کریں کیونکہ شیطان آپس میں فساد ڈلواتا ہے۔

 بیشک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔‏

عیاذ کے معنی التجا اور استناد کے ہیں اور لاذ کا لفظ طلب خیر کے وقت بولا جاتا ہے جیسے حسن بن ہانی کا شعر ہے ۔

بامن الوذبہ فیما اوملہ ومن اعوذ بہ مما احاذرہ

لا یجبر الناس عظماانت کا سرہ ولا یھیضون عظما انت جابرہ

یعنی اے اللہ تو میری آرزوؤں کا مرکز ہے اور میرے بچاؤ اور پناہ کا مسکن ہے

مجھے یقین ہے کہ جس ہڈی کو تو توڑنا جاہے اسے کوئی جوڑ نہیں سکتا اور جسے تو جوڑنا چاہے اسے کوئی توڑ نہیں سکتا ۔

باقی حدیثیں جو أَعُوذُ کے متعلق تھیں وہ ہم اپنی اس تفسیر کے شروع میں ہی لکھ آئے ہیں ۔

إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُوا فَإِذَا هُمْ مُبْصِرُونَ (۲۰۱)

یقیناً جو لوگ خدا ترس ہیں جب ان کو کوئی خطرہ شیطان کی طرف سے آجاتا ہے تو وہ یاد میں لگ جاتے ہیں یکایک ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں

طَائِفٌ کی دوسری قرأت طَایِفٌ ہے ۔ یہ دونوں مشہور قرأتیں ہیں دونوں کے معنی ایک ہیں بعض نے لفظی تعریف بھی کی ہے ۔

 فرمان ہے کہ وہ لوگ جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں جنہیں اللہ کا ڈر ہے جو نیکیوں کے عامل اور برائیوں سے رکنے والے ہیں انہیں جب کبھی غصہ آ جائے ، شیطان ان پر اپنا کوئی داؤ چلانا چاہے ، ان کے دل میں کسی گناہ کی رغبت ڈالے، ان سے کوئی گناہ کرانا چاہے تو یہ اللہ کے عذاب سے بچنے میں جو ثواب ہے اسے بھی یاد کر لیتے ہیں رب کے وعدے وعید کی یاد کرتے ہیں اور فوراً چوکنے ہو جاتے ہیں، توبہ کر لیتے ہیں، اللہ کی طرف جھک جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے شیطانی شر سے پناہ مانگنے لگتے ہیں اور اسی وقت اللہ کی جناب میں رجوع کر تے ہیں اور استقامت کے ساتھ صحت پر جم جاتے ہیں ۔

 ابن مردویہ میں ہے کہ ایک عورت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی جسے مرگی کا دورہ پڑا کرتا تھا ۔ اس نے درخواست کی کہ میرے لئے آپ دعا کیجئے

آپ ﷺنے فرمایا اگر تم چاہو تو میں دعا کروں اور اللہ تمہیں شفا بخشے اور اگر چاہو تو صبر کرو اور اللہ تم سے حساب نہ لے گا ۔اس نے کہا حضور میں صبر کرتی ہوں کہ میرا حساب معاف ہو جائے ۔

سنن میں بھی یہ حدیث ہے:

 اس عورت نے کہا تھا کہ میں گر پڑتی ہوں اور بیہوشی کی حالت میں میرا کپڑا کھل جاتا ہے جس سے بےپردگی ہوتی ہے اللہ سے میری شفا کی دعا کیجئے ۔آپﷺ نے فرمایا تم ان دونوں باتوں میں سے ایک کو پسند کر لو یا تو میں دعا کروں اور تمہیں شفا ہو جائے یا تم صبر کرو اور تمہیں جنت ملے اس نے کہا میں صبر کرتی ہوں کہ مجھے جنت ملے ۔ لیکن اتنی دعا تو ضرور کیجئے کہ میں بےپردہ نہ ہو جایا کروں ۔

آپ ﷺنے دعا کی چنانچہ ان کا کپڑا کیسی ہی وہ تلملاتیں اپنی جگہ سے نہیں ہٹتا تھا ۔

حافظ ابن عساکر رحمتہ اللہ اپنی تاریخ میں عمر و بن جامع کے حالات میں نقل کرتے ہیں :

ایک نوجوان عابد مسجد میں رہا کرتا تھا اور اللہ کی عبادت کا بہت مشتاق تھا ایک عورت نے اس پر ڈورے ڈالنے شروع کئے یہاں تک کہ اسے بہکا لیا قریب تھا کہ وہ اس کے ساتھ کوٹھڑی میں چلا جائے جو اسے یہ آیت إِذَا مَسَّهُمْ یاد آئی اور غش کھا کر گر پڑا

بہت دیر کے بعد جب اسے ہوش آیا اس نے پھر اس آیت کو یاد کیا اور اس قدر اللہ کا خوف اس کے دل میں سمایا کہ اس کی جان نکل گئی

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے والد سے ہمدردی اور غم خواری کی ۔ چونکہ انہیں رات ہی کو دفن کر دیا گیا تھا آپ ان کی قبر پر گئے آپ کے ساتھ بہت سے آدمی تھے ۔ آپ نے وہاں جا کر ان کی قبر پر نماز جنازہ ادا کی اور اسے آواز دے کر فرمایا اے نوجوان ! وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ (۵۵:۴۶) جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا ڈر رکھے اس کیلئے دو دو جنتیں ہیں ۔

 اسی وقت قبر کے اندر سے آواز آئی کہ مجھے میرے رب عزوجل نے وہ دونوں دو دو مرتبے عطا فرما دیئے ۔

یہ تو تھا حال اللہ والوں اور پرہیزگاروں کا کہ وہ شیطانی جھٹکوں سے بچ جاتے ہیں اس کے فن فریب سے چھوٹ جاتے ہیں

وَإِخْوَانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الْغَيِّ ثُمَّ لَا يُقْصِرُونَ (۲۰۲)

اور جو شیاطین کے طابع ہیں وہ ان کو گمراہی میں کھینچے لے جاتے ہیں پس وہ باز نہیں آتے

 اب ان کا حال بیان ہو رہا ہے جو خود شیطان کے بھائی بنے ہوئے ہیں ۔ جیسے فضول خرچ لوگوں کو قرآن نے شیطان کے بھائی قرار دیا ہے

إِنَّ الْمُبَذرِينَ كَانُواْ إِخْوَنَ الشَّيَـطِينِ (۱۷:۲۷)

بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں

 ایسے لوگ اس کی باتین سنتے ہیں، مانتے ہیں اور ان پر ہی عمل کرتے ہیں ۔شیاطین ان کے سامنے برائیاں اچھے رنگ میں پیش کرتے ہیں، ان پر وہ آسان ہو جاتی ہیں اور یہ پوری مشغولیت کے ساتھ ان میں پھنس جاتے ہیں ۔

أَلَمْ تَرَ أَنَّآ أَرْسَلْنَا الشَّيَـطِينَ عَلَى الْكَـفِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزّاً  (۱۹:۸۳)

کیا تو نے نہیں دیکھا کہ ہم کافروں کے پاس شیطانوں کو بھیجتے ہیں جو انہیں خوب اکساتے ہیں

 دن بدن اپنی بدکاری میں بڑھتے جاتے ہیں ، جہالت اور نادانی کی حد کر دیتے ہیں۔ نہ شیطان ان کے بہکانے میں کوتاہی برتتے ہیں نہ یہ برائیاں کرنے میں کمی کرتے ۔ یہ ان کے دلوں میں وسو سے ڈالتے رہتے ہیں اور وہ ان وسوسوں میں پھنستے رہتے ہیں یہ انہیں بھڑکاتے رہتے ہیں اور گناہوں پر آمادہ کرتے رہتے ہیں وہ برے عمل کئے جاتے ہیں اور برائیوں پر مداومت اور لذت کے ساتھ جمے رہتے ہیں ۔

وَإِذَا لَمْ تَأْتِهِمْ بِآيَةٍ قَالُوا لَوْلَا اجْتَبَيْتَهَا ۚ

اور جب آپ کوئی معجزہ ان کے سامنے ظاہر نہیں کرتے تو وہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ یہ معجزہ کیوں نہ لائے

یہ لوگ کوئی معجزہ مانگتے اور آپ اسے پیش نہ کرتے تو کہتے کہ نبی ہوتا تو ایسا کر لیتا ، بنا لیتا، اللہ سے مانگ لیتا، اپنے آپ گھڑ لیتا، آسمان سے گھسیٹ لاتا ۔ الغرض معجزہ طلب کرتے اور وہ طلب بھی سرکشی اور عناد کے ساتھ ہوتی ۔

 جیسے فرمان قرآن ہے:

إِن نَّشَأْ نُنَزِّلْ عَلَيْهِمْ مِّنَ السَّمَآءِ ءَايَةً فَظَلَّتْ أَعْنَـقُهُمْ لَهَا خَـضِعِينَ (۲۶:۴)

اگر ہم چاہتے تو ان پر آسمان سے کوئی ایسی نشانی اتارتے کہ جس کے سامنے ان کی گردنیں خم ہوجاتیں

 وہ لوگ حضور سے کہتے رہتے تھے کہ جو ہم مانگتے ہیں وہ معجزہ اپنے رب سے طلب کر کے ہمیں ضرور دکھا دیجئے ۔

قُلْ إِنَّمَا أَتَّبِعُ مَا يُوحَى إِلَيَّ مِنْ رَبِّي ۚ

آپ کہہ دیجئے! کہ میں اس کی پیروی کرتا ہو جو مجھ پر میرے رب کی طرف سے حکم بھیجا گیا ہے

حکم دیا کہ ان سے فرما دیجئے کہ میں تو اللہ کی باتیں ماننے والا اور ان پر عمل کرنے والا وحی الہٰی کا تابع ہوں ۔ میں اس کی جناب میں کوئی گستاخی نہیں کر سکتا، آگے نہیں بڑھ سکتا ، جو حکم دے صرف اسے بجا لاتا ہوں ۔ اگر کوئی معجزہ وہ عطا فرمائے دکھا دوں ۔ جو وہ ظاہر نہ فرمائے میں اسے لا نہیں سکتا میرے بس میں کچھ نہیں میں اس سے معجزہ طلب نہیں کیا کرتا مجھ میں اتنی جرأت نہیں ہاں اگر اس کی اجازت پالیتا ہوں تو اس سے دعا کرتا ہوں وہ حکمتوں والا اور علم والا ہے ۔

هَذَا بَصَائِرُ مِنْ رَبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (۲۰۳)

 یہ گویا بہت سی دلیلیں ہیں تمہارے رب کی طرف سے اور ہدایت اور رحمت ہے ان لوگوں کے لئے جو ایمان رکھتے ہیں

میرے پاس تو میرے رب کا سب سے بڑا معجزہ یہ قرآن کریم ہے جو سب سے زیادہ واضح دلیل سب سے زیادہ سچی حجت اور سب سے زیادہ روشن برہان ہے جو حکمت ہدایت اور رحمت سے پر ہے اگر دل میں ایمان ہے تو اس اچھے سچے عمدہ اور اعلیٰ معجزے کے بعد دوسرے معجزے کی طلب باقی ہی نہیں رہتی ۔

وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (۲۰۴)

اور جب قرآن پڑھا جایا کرے تو اس کی طرف کان لگا دیا کرو اور خاموش رہا کرو امید ہے کہ تم پر رحمت ہو ۔

چونکہ اوپر کی آیت میں بیان تھا کہ یہ قرآن لوگوں کے لئے بصیرت و بصارت ہے اور ساتھ ہی ہدایت و رحمت ہے اس لئے اس آیت میں اللہ تعالیٰ جل و علا حکم فرماتا ہے کہ اس کی عظمت اور احترام کے طور پر اس کی تلاوت کے وقت کان لگا کر اسے سنو ایسا نہ کرو جیسا کفار قریش نے کیا کہ وہ کہتے تھے:

لاَ تَسْمَعُواْ لِهَـذَا الْقُرْءَانِ وَالْغَوْاْ فِيهِ (۴۱:۲۶)

اس قران کو نہ سنو اور اس کے پڑھے جانے کے وقت شور غل مچا دو ۔

 اس کی اور زیادہ تاکید ہو جاتی ہے جبکہ فرض نماز میں امام با آواز بلند قرأت پڑھتا ہو۔جیسے کہ صحیح مسلم شریف میں حضرت ابو موسیٰ اشعری کی روایت سے ہے:

 امام اقتدا کے کئے جانے کیلئے مقرر کیا گیا ہے ۔ جب وہ تکبیر کہے تم تکبیر کہو اور جب وہ پڑھے تم خاموش رہو ۔

 اس طرح سنن میں بھی یہ حدیث بروایت حضرت ابوہریرہؓ مروی ہے ۔

 امام مسلم بن حجاج رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے صحیح کہا ہے اور اپنی کتاب میں نہیں لائے ـ

یہ یاد رہے کہ اس حدیث میں جو خاموش رہنے کا حکم ہے یہ صرف اس قرأت کیلئے ہے جو الحمد کے سوا ہو۔ جیسے کہ طبرانی کبیر میں صحیح حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

  من صلی خلف الا مام فلیقرا بفا تحۃ الکتاب

جو شخص امام کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہو وہ سورہ فاتحہ ضرور پڑھ لے ۔

پس سورہ فاتحہ پڑھنے کا حکم ہے اور قرأت کے وقت خاموشی کا حکم ہے، واللہ اعلم۔ مترجم

اس آیت کے شان نزول کے متعلق حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

 لوگ پہلے نماز پڑھتے ہوئے باتیں بھی کر لیا کرتے تھے تب یہ آیت اتری اور دوسری آیت میں چپ رہنے کا حکم کیا گیا ۔

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نماز پڑھتے ہوئے ہم آپس میں ایک دوسرے کو سلام کیا کرتے تھے پس یہ آیت اتری ۔

آپ نے ایک مرتبہ نماز میں لوگوں کو امام کے ساتھ ہی ساتھ پڑھتے ہوئے سن کر فارغ ہو کر فرمایا کہ تم میں اس کی سمجھ بوجھ اب تک نہیں آئی کہ جب قرآن پڑھا جائے تو اسے سنو اور چپ رہو جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے ۔

واضح رہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی رائے میں اس سے مراد امام کے با آواز بلند الحمد کے سوا دوسری قرأت کے وقت مقتدی کا خاموش رہنا ہے نہ کہ پست آواز کی قرأت والی نماز میں ، نہ بلند آواز کی قرأت والی نماز میں الحمد سے خاموشی ۔ امام کے پیچھے الحمد تو خود آپ بھی پڑھا کرتے تھے جیسے کہ جزاء القراۃ بخاری میں ہے :

انہ قرا فی العصر خلف الا مام فی الرکعتین الاولیین بام القران و سورۃ

یعنی آپ نے امام کے پیچھے عصر کی نماز کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ الحمد بھی پڑھی اور دوسری سورت بھی ملائی ۔

 پس آپ کے مندرجہ بالا فرمان کا مطلب صرف اسی قدر ہے کہ جب امام اونچی آواز سے قرأت کرے تو مقتدی الحمد کے سوا دوسری قرأت کے وقت سنے اور چپ رہے واللہ اعلم ۔ مترجم

حضرت زہری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت اس انصاری نوجوان کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس کی عادت تھی کہ جب کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن سے کچھ پڑھتے یہ بھی اسے پڑھتا پس یہ آیت اتری ۔

 مسند احمد اور سنن میں حضرت ابوہریرہ ؓسے مروی ہے:

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس نماز سے فارغ ہو کر پلٹے جس میں آپ نے باآواز بلند قرأت پڑھی تھی پھر پوچھا کہ کیا تم میں سے کسی نے میرے ساتھ پڑھا تھا؟ایک شخص نے کہا ہاں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔

 آپ ﷺنے فرمایا میں کہہ رہا تھا کہ یہ کیا بات ہے کہ مجھ سے قرآن کی چھینٹا جھپٹی ہو رہی ہے؟

راوی کا کہنا ہے کہ اس کے بعد لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان نمازوں میں جن میں آپ اونچی آواز سے قرأت پڑھا کرتے تھے قرأت سے رک گئے جبکہ انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ۔

 امام ترمذی اسے حسن کہتے ہیں اور ابوحاتم رازی اس کی تصحیح کرتے ہیں

مطلب اس حدیث کا بھی یہی ہے کہ امام جب پکار کر قرأت پڑھے اس وقت مقتدی سوائے الحمد کے کچھ نہ پڑھے کیونکہ ایسی ہی روایت ابو داؤد ، ترمذی ، نسائی، ابن ماجہ، موطا امام مالک، مسند احمد میں ہے جس میں ہے کہ جب آپﷺ کے سوال کے جواب میں یہ کہا گیا ہے کہ ہم پڑھتے ہیں تو آپ ﷺنے فرمایا :

لا تفعلوا الابفاتحۃ الکتاب فانہ لاصلوۃ لمن لم یقراء بھا

یعنی ایسا نہ کیا کرو صرف سورہ فاتحہ پڑھو کیونکہ جو اسے نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی ۔

پس لوگ اونچی آواز والی قرأت کی نماز میں جس قرأت سے رک گئے وہ الحمد کے علاوہ تھی کیونکہ اسی سے روکا تھا اسی سے صحابہ رک گئے ۔ الحمد تو پڑھنے کا حکم دیا تھا ۔ بلکہ ساتھ ہی فرمادیا تھا کہ اس کے بغیر نماز ہی نہیں واللہ اعلم۔ مترجم

زہری کا قول ہے کہ امام جب اونچی آواز سے قرأت پڑھے تو انہیں امام کی قرأت کافی ہے امام کے پیچھے والے نہ پڑھیں گو انہیں امام کی آواز سنائی بھی نہ دے ۔ ہاں البتہ جب امام آہستہ آواز سے پڑھ رہا ہو اس وقت مقتدی بھی آہستہ پڑھ لیا کریں اور کسی کو لائق نہیں کہ اس کے ساتھ ساتھ پڑھے خواہ جہری نماز ہو خواہ سری ۔

 اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو تم اسے سنو اور چپ رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔

علماء کے ایک گروہ کا مذہب ہے کہ جب امام اونچی آواز سے قرأت کرے تو مقتدی پر نہ سورہ فاتحہ پڑھنا واجب ہے نہ کچھ اور ۔

 امام شافعیؒ کے اس بارے میں دو قول ہیں جن میں سے ایک قول یہ بھی ہے لیکن یہ قول پہلے کا ہے جیسے کہ امام مالک کا مذہب ، ایک اور روایت میں امام احمدؒ کا بہ سبب ان دلائل کے جن کا ذکر گزر چکا ۔ لیکن اس کے بعد کا آپ کا یہ فرمان ہے کہ مقتدی صرف سورہ فاتحہ امام کے سکتوں کے درمیان پڑھ لے ۔ صحابہ تابعین اور انکے بعد والے گروہ کا یہی فرمان ہے

 امام ابو حنیفہؒ اور امام احمدؒ فرماتے ہیں:

 مقتدی پر مطلقاً قرأت واجب نہیں نہ اس نماز میں جس میں امام آہستہ قرأت پڑھے نہ اس میں جس میں بلند آواز سے قرأت پڑھے اس لئے کہ حدیث میں ہے امام کی قرأت مقتدیوں کی بھی قرأت ہے ۔اسے امام احمد نے اپنی مسند میں حضرت جابر سے مرفوعاً روایت کیا ہے ۔

 یہی حدیث موطاء امام مالک میں موقوفا ًمروی ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے یعنی یہ قول حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا ہونا زیادہ صحیح ہے نہ کہ فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا

لیکن یہ بھی یاد رہے کہ خود حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ابن ماجہ میں مروی ہے کہ

کنا نقرا فی الظھر والعصر خلف الا مام فی الرکعتین الالیین بفاتحتہ الکتاب و سورۃ وفی الاخریین بفاتحۃ الکتاب

 یعنی ہم ظہر اور عصر کی نماز میں امام کے پیچھے پہلی دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ بھی پڑھتے تھے اور کوئی اور سورت بھی اور پچھلی دور کعتوں میں صرف سورۃ فاتحہ پڑھا کرتے تھے

 پس معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے جو فرمایا کہ امام کی قرأت اسے کافی ہے اس سے مراد الحمد کے علاوہ قرأت ہے ۔ واللہ اعلم ، مترجم

یہ مسئلہ اور جگہ نہایت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے ۔ اسی خاص مسئلے پر حضرت امام ابو عبداللہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مستقل رسالہ لکھا ہے اور اس میں ثابت کیا ہے کہ ہر نماز میں خواہ اس میں قرأت اونچی پڑھی جاتی ہو یا آہستہ مقتدیوں پر سورہ فاتحہ کا پڑھنا فرض ہے واللہ اعلم ۔

ابن عباسؓ فرماتے ہیں یہ آیت فرض نماز کے بارے میں ہے ۔

طلحہؒ کا بیان ہے کہ عبید بن عمر اور عطاء بن ابی رباح کو میں نے دیکھا کہ واعظ و عظ کہہ رہا تھا اور وہ آپس میں باتیں کر رہے تھے تو میں نے کہا تم اس وعظ کو نہیں سنتے اور وعید کے قابل ہو رہے ہو؟

 انہوں نے میری طرف دیکھا پھر باتوں میں مشغول ہوگئے ۔

میں نے پھر یہی کہا انہوں نے پھر میری طرف دیکھ اور پھر اپنی باتوں میں لگ گئے ، میں نے پھر تیسری مرتبہ ان سے یہی کہا ۔ تیسری بار انہوں نے میری طرف دیکھ کر فرمایا یہ نماز کے بارے میں ہے ۔

 حضرت مجاہدؒ فرماتے ہیں نماز کے سوا جب کوئی پڑھ رہا ہو تو کلام کرنے میں کوئی حرج نہیں اور بھی بہت سے بزرگوں کافرمان ہے کہ مراد اس سے نماز میں ہے ۔

حضرت مجاہدؒ سے مروی ہے کہ یہ آیت نماز اور جمعہ کے خطبے کے بارے میں ہے ۔ حضرت عطاء ؒسے بھی اسی طرح مروی ہے ۔ حسنؒ فرماتے ہیں نماز میں اور ذکر کے وقت ،

 سعید بن جبیرؒ فرماتے ہیں بقرہ عید اور میٹھی عید اور جمعہ کے دن اور جن نمازوں میں امام اونچی قرأت پڑھے ۔

 ابن جریرؒ بھی یہی کہتے ہیں کہ مراد اس سے نماز میں اور خطبے میں چپ رہنا ہے جیسے کہ حکم ہوا ہے امام کے پیچھے خطبے کی حالت میں چپ رہو۔

مجاہد ؒنے اسے مکروہ سمجھا کہ جب امام خوف کی آیت یا رحمت کی آیت تلاوت کرے تو اس کے پیچھے سے کوئی شخص کچھ کہے بلکہ خاموشی کے لئے کہا

حدیث میں ہے:

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی کسی خوف کی آیت سے گزرتے تو پناہ مانگتے اور جب کبھی کسی رحمت کے بیان والی آیت سے گزرتے تو اللہ سے سوال کرتے ۔ مترجم

حضرت حسن ؒفرماتے ہیں جب تو قرآن سننے بیٹھے تو اس کے احترام میں خاموش رہا کر ۔

 مسند احمد میں فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے :

 جو شخص کان لگا کر کتاب اللہ کی کسی آیت کو سنے تو اس کے لئے کثرت سے بڑھنے والی نیکی لکھی جاتی ہے اور اگر اسے پڑھے تو اس کے لئے قیامت کے دن نور ہوگا ۔

وَاذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَا تَكُنْ مِنَ الْغَافِلِينَ (۲۰۵)

اور اے شخص! اپنے رب کی یاد کیا کر اپنے دل میں عاجزی کے ساتھ اور خوف کے ساتھ اور زور کی آواز کی نسبت کم آوازکے ساتھ صبح اور شام اور اہل غفلت میں سے مت ہونا۔‏

اللہ تعالیٰ حکم فرماتا ہے کہ صبح شام اس کی بکثرت یاد کر ۔ یہاں بھی یہ فرمایا اور جگہ بھی ہے:

وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ (۵۰:۳۹)

اپنے رب کی تسبیح اور حمد بیان کیا کرو سورج طلوع اور سورج غروب ہونے سے پہلے ۔

یہ آیت مکیہ ہے اور یہ حکم معراج سے پہلے کا ہے

 غُدُوِّ کہتے ہیں دن کے ابتدائی حصے کو

آصَالِ جمع ہے اصیل کی ۔ جیسے کہ ایمان جمع ہے یمین کی ۔

 حکم دیا کہ رغبت، لالچ اور ڈر خوف کے ساتھ اللہ کی یاد اپنے دل میں اپنی زبان سے کرتے رہو چیخنے چلانے کی ضرورت نہیں ۔اسی لئے مستحب یہی ہے کہ پکار کے ساتھ اور چلا چلا کر اللہ کا ذکر نہ کیا جائے ۔

 صحابہؓ نے جب حضور سے سوال کیا کہ کیا ہمارا رب قریب ہے کہ ہم اس سے سرگوشی چپکے چپکے کر لیا کریں یا دور ہے کہ ہم پکار پکار کر آوازیں دیں ؟

تو اللہ تعالیٰ جل و علا نے یہ آیت اتاری:

وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ (۲:۱۸۶)

جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب بھی وہ مجھے پکارے قبول کرتا ہوں

بخاری و مسلم میں ہے:

 لوگوں نے ایک سفر میں باآواز بلند دعائیں کرنی شروع کیں تو آپ ﷺنے فرمایا:

 لوگو اپنی جانوں پر ترس کھاؤ تم کسی بہرے کو یا کسی غائب کو نہیں پکار رہے جسے تم پکارتے ہو وہ تو بہت ہی پست آواز سننے والا اور بہت ہی قریب ہے تمہاری سواری کی گردن جتنی تم سے قریب ہے اس سے بھی زیادہ وہ تم سے نزدیک ہے ،

 ہو سکتا ہے کہ مراد اس آیت سے بھی وہی ہو جو آیت وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَ‌ٰلِكَ سَبِيلًا (۱۷:۱۱۰) سے ہے ۔

مشرکین قرآن سن کر قرآن کو جبرائیلؑ کو ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور خود اللہ تعالیٰ کو گالیاں دینے لگتے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ نہ تو آپ اس قدر بلند آواز سے پڑھیں کہ مشرکین چڑ کر بکنے جھکنے لگیں نہ اس قدر پست آواز سے پڑھیں کہ آپ کے صحابہ بھی نہ سن سکیں بلکہ اس کے درمیان کا راستہ ڈھونڈ نکالیں یعنی نہ بہت بلند نہ بہت آہستہ ۔

یہاں بھی فرمایا کہ بہت بلند آواز سے نہ ہو اور غافل نہ بننا ۔

 امام ابن جریرؒ اور ان سے پہلے حضرت عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم ؒنے فرمایا ہے :

 مراد اس سے یہ ہے کہ اوپر کی آیت میں قرآن کے سننے والے کو جو خاموشی کا حکم تھا اسی کو دہرایا جا رہا ہے کہ اللہ کا ذکر اپنی زبان سے اپنے دل میں کیا کرو ۔لیکن یہ بعید ہے اور انصاف کے منافی ہے جس کا حکم فرمایا گیا ہے اور یہ کہ مراد اس سے یا تو نماز میں ہے یا نماز اور خطبے میں اور یہ ظاہر ہے کہ اس وقت خاموشی بہ نسبت ذکر ربانی کے افضل ہے ۔ خواہ وہ پوشیدہ ہو خواہ ظاہر پس ان دونوں کی متابعت نہیں کی گئی ۔ پس مراد اس سے بندوں کو صبح شام ذکر کی کثرت کی رغبت دلانا ہے تاکہ وہ غافلوں میں سے نہ ہو جائیں ۔

 ان دونوں بزرگوں کے علاوہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ وغیرہ کا بھی یہی فرمان ہے ۔

تفسیر بیضاوی میں بھی یہی ہے دونوں آیتوں کے ظاہری ربط کا تقاضا بھی یہی ہے واللہ اعلم

اسی لئے  فرشتوں کی تعریف بیان ہوئی کہ وہ رات دن اللہ کی تسبیح میں لگے رہتے ہیں بالکل تھکتے نہیں ۔

إِنَّ الَّذِينَ عِنْدَ رَبِّكَ لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَيُسَبِّحُونَهُ وَلَهُ يَسْجُدُونَ (۲۰۶)  ۩

یقیناً جو تیرے رب کے نزدیک ہیں وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے اور اس کی پاکی بیان کرتے ہیں اور اس کو سجدہ کرتے ہیں۔‏

 پس فرماتا ہے کہ جو تیرے رب کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے ۔

 ان کا ذکر اس لئے کیا کہ اس کثرت عبادت و اطاعت میں ان کی اقتدا کی جائے ، اسی لئے ہمارے لئے بھی شریعت نے سجدہ مقرر کیا فرشتے بھی سجدہ کرتے رہتے ہیں ۔

حدیث شریف میں ہے:

 تم اسی طرح صفیں کیوں نہیں باندھتے جیسے کہ فرشتے اپنے رب کے پاس صفیں باندھتے ہیں کہ وہ پہلے اول صف کو پورا کرتے ہیں اور صفوں میں ذرا سی بھی گنجائش اور جگہ باقی نہیں چھوڑتے ۔

 اس آیت پر اجماع کے ساتھ سجدہ واجب ہے پڑھنے والے پر بھی اور سننے والے پر بھی ۔ قرآن میں تلاوت کا پہلا سجدہ یہی ہے ۔

 ابن ماجہ میں حدیث ہے:

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کو سجدے کی آیتوں میں سے گنا ۔

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter