Tafsir Ibn Kathir (Urdu)Surah Al An'amAlama Imad ud Din Ibn KathirTranslated by Muhammad Sahib Juna Garhi |
For Better Viewing Download Arabic / Urdu Fonts
شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے
الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمَاتِ وَالنُّورَ ۖ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لائق ہیں جس نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا اور تاریکیوں اور نور کو بنایا اللہ تعالیٰ اپنے نفس کریمہ کی مدح فرماتاہے کہ اس نے آسمانوں کو زمینوں کو پیدا کیا۔ گویا کہ بندوں کو حمد کرنا سکھلا رہا ہے۔ دن میں نور کو اور رات میں تاریکی کو اپنے بندوں کو ایک منفعت قرار دیتا ہے ۔ یہاں لفظ نور کو واحد لایا گیا ہے اور ظلمات کو جمع لایا گیا ہےکیونکہ اشرف چیز کو واحد ہی لاتے ہیں جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے ظِلَـلُهُ عَنِ الْيَمِينِ (۱۶:۴۸) میں اور اس سورت کے آخری حصے کی آیت وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُم بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُم بِالنَّهَارِ (۶:۶۰) میں یہاں بھی راہ راست کو واحد رکھا اور غلط راہوں کو جمع کے لفظ سے بتایا ۔ ثُمَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ پھر بھی کافر لوگ (غیر اللہ کو) اپنے رب کے برابر قرار دیتے ہیں۔ (۱) اللہ ہی قابل حمد ہے، کیونکہ وہی خالق کل ہے مگر پھر بھی کافر لوگ اپنی نادانی سے اس کے شریک ٹھہرا رہے ہیں کبھی بیوی اور اولاد قائم کرتے ہیں کبھی شریک اور ساجھی ثابت کرنے بیٹھتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان تمام باتوں سے پاک ہے ، هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ طِينٍ ثُمَّ قَضَى أَجَلًا ۖ وَأَجَلٌ مُسَمًّى عِنْدَهُ ۖ ثُمَّ أَنْتُمْ تَمْتَرُونَ وہ ایسا ہے جس نے تم کو مٹی سے بنایا پھر ایک وقت معین کیا اور دوسرا معین وقت خاص اللہ ہی کے نزدیک ہے پھر بھی تم شک رکھتے ہو۔ (۲) اس رب نے تمہارے باپ حضرت آدم کو مٹی سے پیدا کیا اور پھر تمہیں اس کی نسل سے مشرق مغرب میں پھیلا دیا، موت کا وقت بھی اسی کا مقرر کیا ہوا ہے ، آخرت کے آنے کا وقت بھی اسی کا مقرر کیا ہوا ہے ، پہلی اجل سے مراد دنیاوی زندگی دوسری اجل سے مراد قبر کی رہائش ، گویا پہلی اجل خاص ہے یعنی ہر شخص کی عمر اور دوسری اجل عام ہے یعنی دنیا کی انتہا اور اس کا خاتمہ ، ابن عباسؓؓ اور مجاہد وغیرہ سے مروی ہے کہ قَضَى أَجَلًا سے مراد مدت دنیا ہے اور أَجَلٌ مُسَمًّى سے مراد عمر انسان ہے۔ بہت ممکن ہے کہ اس کا استدلال آنے والی آیت وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ (۶:۶۰) سے ہو ، ابن عباسؓؓ سے مروی ہے کہ ثُمَّ قَضَى أَجَلًا سے مراد نیند ہے جس میں روح قبض کی جاتی ہے ، پھر جاگنے کے وقت لوٹا دی جاتی ہے اور أَجَلٌ مُسَمًّى سے مراد موت ہے یہ قول غریب ہے عِنْدَهُ سے مراد اس کے علم کا اللہ ہی کے ساتھ مخصوص ہونا ہے جیسے فرمایا : إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّي لاَ يُجَلِّيهَا لِوَقْتِهَآ إِلاَّ هُوَ آپ فرما دیجئے اس کا علم صرف میرے رب ہی کے پاس ہے اس کے وقت پر اس کو سوائے اللہ کے کوئی ظاہر نہ کرے گا (۷:۱۸۷) سورہ نازعات میں بھی فرمان ہے : يَسۡـَٔلُونَكَ عَنِ ٱلسَّاعَةِ أَيَّانَ مُرۡسَٮٰهَا ـ فِيمَ أَنتَ مِن ذِكۡرَٮٰهَآ ـ إِلَىٰ رَبِّكَ مُنتَہَٮٰهَآ لوگ آپ سے قیامت کے واقع ہونے کا وقت دریافت کرتے ہیں آپ کو اس کے بیان کرنے سے کیا تعلق؟ (۷۹:۴۲،۴۴) یعنی لوگ تجھ سے قیامت کے صحیح وقت کا حال دریافت کرتے ہیں حالانکہ تجھے اس کا علم کچھ بھی نہیں وہ تو صرف اللہ ہی کو معلوم ہے، باوجود اتنی پختگی کے اور باوجود کسی قسم کا شک شبہ نہ ہونے کے پھر بھی لوگ قیامت کے آنے نہ آنے میں تردد اور شک کر رہے ہیں وَهُوَ اللَّهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَفِي الْأَرْضِ ۖ يَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَجَهْرَكُمْ وَيَعْلَمُ مَا تَكْسِبُونَ اور وہی ہے معبود برحق آسمانوں میں بھی اور زمین میں بھی، وہ تمہارے پوشیدہ احوال کو بھی اور تمہارے ظاہر احوال کو بھی جانتا ہے اور تم جو کچھ عمل کرتے ہو اس کو بھی جانتا ہے ۔ (۳) آیت زیر ذکر میں ارشاد ہوتا ہے کہ تم قیامت کے بارے میں شک کرتے ہو وہ تمہارے پوشیدہ احوال کو بھی اور تمہارے ظاہر احوال کو بھی جانتا ہے اور تم جو کچھ عمل کرتے ہو اس کو بھی جانتا ہے ۔ یہ جو ارشاد جناب باری نے فرمایا ہے ، اس میں مفسرین کے کئی ایک اقوال ہیں لیکن کسی کا بھی وہ مطلب نہیں جو جہمیہ لے رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات سے ہر جگہ ہے ، نعوذ باللہ اللہ کی برتر و بالا ذات اس سے بالکل پاک ہے، آیت کا بالکل صحیح مطلب یہ ہے کہ آسمانوں میں بھی اسی کی ذات کی عبادت کی جاتی ہے اور زمینوں میں بھی ، اسی کی الوہیت وہاں بھی ہے اور یہاں بھی ، اوپر والے اور نیچے والے سب اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں ، سب کی اسی سے امیدیں وابستہ ہیں اور سب کے دل اسی سے لرز رہے ہیں جن و انس سب اسی کی الوہیت اور بادشاہی مانتے ہیں جیسے اور آیت میں ہے: وَهُوَ الَّذِى فِى السَّمآءِ إِلَـهٌ وَفِى الاٌّرْضِ إِلَـهٌ ( وہی آسمانوں میں معبود برحق ہے اور وہی زمین میں معبود برحق ہے ، ۴۳:۸۴) یعنی آسمانوں میں جو ہیں، سب کا معبود وہی ہے اور اسی طرح زمین والوں کا بھی سب کا معبود وہی ہے ، اب اس آیت کا اور جملہ يَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَجَهْرَكُمْ خبر ہو جائے گا یا حال سمجھا جائے گا اور یہ بھی قول ہے کہ اللہ وہ ہے جو آسمانوں کی سب چیزوں کو اس زمین کی سب چیزوں کو چاہے وہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ ، جانتا ہے ۔ پس يَعْلَمُ متعلق ہو گا فِي السَّمَاوَاتِ وَفِي الْأَرْضِ کا اور تقدیر آیت یوں ہو جائے گی وَهُوَ اللَّهُ يَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَجَهْرَكُمْ فِي السَّمَاوَاتِ وَفِي الْأَرْضِ وَيَعْلَمُ مَا تَكْسِبُونَ ایک قول یہ بھی ہے کہ وَهُوَ اللَّهُ فِي السَّمَاوَاتِ پر وقف تام ہے اور پھر جملہ مستانفہ کے طور پر خبر ہے کہ وَفِي الْأَرْضِ يَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَجَهْرَكُمْ امام ابن جریر اسی تیسرے قول کو پسند کرتے ہیں ۔ پھر فرماتا ہے تمہارے کل اعمال سے خیر و شر سے وہ واقف ہے ۔ وَمَا تَأْتِيهِمْ مِنْ آيَةٍ مِنْ آيَاتِ رَبِّهِمْ إِلَّا كَانُوا عَنْهَا مُعْرِضِينَ اور ان کے پاس کوئی نشانی بھی ان کے رب کی نشانیوں میں سے نہیں آتی مگر وہ اس سے اعراض ہی کرتے ہیں (۴) مشرکین معاندین کے بارے میں اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ جب کبھی اللہ تعالیٰ کی کوئی آیت ان کے پاس آتی ہے یعنی کوئی معجزہ یا اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر کوئی واضح دلیل یا رسول اللہ ﷺ کی کوئی نشانی۔ تو یہ لوگ اس سے اعراض کرتے ہیں اور اس کی پرواہ تک نہیں کرتے۔ فَقَدْ كَذَّبُوا بِالْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ ۖ فَسَوْفَ يَأْتِيهِمْ أَنْبَاءُ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ انہوں نے اس سچی کتاب کو بھی جھٹلایا جب کہ وہ ان کے پاس پہنچی، سو جلد یہی ان کو خبر مل جائے گی اس چیز کی جس کے ساتھ یہ لوگ مذاق کیا کرتے تھے ۔ (۵) اور جب حق بات ان کے پاس آئی تو انکار کرنے لگے۔ اس کے بارے میں انہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا۔ یہ بات ان کے لئے تہدید اور وعید شدید ہے۔ کیونکہ انہوں نے حق کو جھٹلا دیا۔ اب تکذیب کا نتیجہ انہیں دیکھنا ضروری ہے۔ أَلَمْ يَرَوْا كَمْ أَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ مِنْ قَرْنٍ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ مَا لَمْ نُمَكِّنْ لَكُمْ کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ ہم ان سے پہلے کتنی جماعتوں کو ہلاک کر چکے ہیں جن کو ہم نے دنیا میں ایسی قوت دی تھی کہ تم کو وہ قوت نہیں دی اللہ تعالیٰ انہیں سمجھا رہا ہے اور ڈرا رہا کہ پہلے کے لوگوں نے بھی جو ان سے زیادہ قوی اور کثیر التعداد تھے اور اموال و اولاد بھی زیادہ رکھتے تھے ۔ دولت و حکومت بھی حاصل تھی۔ پھر بھی انہیں کیسا عذاب پہنچا تھا اسی قسم کے عذاب سے تمہیں بھی سابقہ پڑ سکتا ہے وَأَرْسَلْنَا السَّمَاءَ عَلَيْهِمْ مِدْرَارًا وَجَعَلْنَا الْأَنْهَارَ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمْ اور ہم نے ان پر خوب بارشیں برسائیں اور ہم نے ان کے نیچے سے نہریں جاری کیں۔ بارشیں پے درپے حسب ضرورت ان پر برابر برسا کرتی تھیں، زمین ہر وقت ترو تازہ رہتی تھی چاروں طرف پانی کی ریل پیل کی وجہ سے آبشاریں اور چشمے صاف شفاف پانی کے بہتے رہتے تھے ۔ فَأَهْلَكْنَاهُمْ بِذُنُوبِهِمْ وَأَنْشَأْنَا مِنْ بَعْدِهِمْ قَرْنًا آخَرِينَ پھر ہم نے ان کو گناہوں کے سبب ہلاک کر ڈالا اور ان کے بعد دوسری جماعتوں کو پیدا کر دیا ۔ (۶) جب وہ تکبر میں آ گئے، ہماری نشانیوں کی حقارت کرنے لگے تو آخر نتیجہ یہ ہوا کہ برباد کر دیئے گئے ۔ تہس نہس ہو گئے ، بھوسی اڑ گئی ۔ لوگوں میں ان کے فسانے باقی رہ گئے اور ان میں سے ایک بھی نہ بچا حرف غلط کی طرح صفحہ ہستی سے مٹا دیئے گئےاور ان کے بعد ان کے قائم مقام اور زمانہ آیا ۔ اگر وہ بھی اسی روش پر چلتے تو یہی سلوک ان کے ساتھ بھی ہوتا، اتنی نظیریں جب تمہاری آنکھوں کے سامنے موجود ہیں پھر بھی تم عبرت حاصل نہیں کرتے، یہ کس قدر تمہاری غفلت ہے ، یاد رکھو تم کچھ اللہ کے ایسے لاڈلے نہیں ہو کہ جن کاموں کی وجہ سے اوروں کو وہ تباہ کر دے وہ کام تم کرتے رہو اور تباہی سے بچ جاؤ ۔ اسی طرح جن رسولوں کو جھٹلانے اور ان کو نہ ماننے کی وجہ سے وہ ہلاک ہوئے ان رسولوں سے کسی طرح یہ رسول کم درجے کے نہیں بلکہ ان سے زیادہ اللہ کے ہاں یہ با عزت ہیں ۔ یقین مانو کہ پہلوں سے بھی سخت اور نہایت سخت عذاب تم پر آئیں گے، پس تم اپنی اس غلط روش کو چھوڑ دو ، یہ صرف اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم ہے کہ اس نے تمہاری بدترین اور انتہائی شرارتوں کے باوجود تمہیں ڈھیل دے رکھی ہے ۔ وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ كِتَابًا فِي قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوهُ بِأَيْدِيهِمْ لَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَذَا إِلَّا سِحْرٌ مُبِينٌ اور اگر ہم کاغذ پر لکھا ہوا کوئی نوشتہ آپ پر نازل فرماتے پھر اس کو یہ لوگ اپنے ہاتھوں سے چھو بھی لیتے تب بھی یہ کافر لوگ یہی کہتے کہ یہ کچھ بھی نہیں مگر صریح جادو ہے (۷) کفار کی ضد اور سرکشی بیان ہو رہی ہے کہ یہ تو حق کے دشمن ہیں ۔ بالفرض یہ کتاب اللہ کو آسمان سے اترتی ہوئی اپنی آنکھوں دیکھ لیتے اور اپنے ہاتھ لگا کر اسے اچھی طرح معلوم کر لیتے پھر بھی ان کا کفر نہ ٹوٹتا اور یہ کہہ دیتے کہ یہ تو کھلا جادو ہے ، محسوسات کا انکار بھی ان سے بعید نہیں ، جیسے اور جگہ ہے: وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَابًا مِنَ السَّمَاءِ فَظَلُّوا فِيهِ يَعْرُجُونَ ـ لَقَالُوا إِنَّمَا سُكِّرَتْ أَبْصَارُنَا بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ اگر ہم ان پر آسمان کا کوئی دروازہ کھول دیں اور یہ اس پر چڑھنے بھی لگ جائیں تب بھی کہیں گے آنکھیں متوالی ہوگئی ہیں بلکہ ہم پر جادو کر دیا گیا ہے (۱۵:۱۴،۱۵) اور آیت میں ہے: وَإِنْ يَرَوْا كِسْفًا مِنَ السَّمَاءِ سَاقِطًا يَقُولُوا سَحَابٌ مَرْكُومٌ اور اگر وہ آسمان سے گرتا ہوا ٹکڑا بھی دیکھ لیں تو کہیں گے کہ تہہ بہ تہہ بادل ہیں۔ (۵۲:۴۴) غرض کہ جن باتوں کے ماننے کے عادی نہیں انہیں ہوتے ہوئے دیکھ کر بھی ایمان نصیب نہیں ہونے کا، وَقَالُوا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ مَلَكٌ ۖ اور یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا یہ کہتے ہیں کہ اگر حضور سچے رسول ہیں تو ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے کسی فرشتے کی ڈیوٹی کیوں نہیں لگائی؟ وَلَوْ أَنْزَلْنَا مَلَكًا لَقُضِيَ الْأَمْرُ ثُمَّ لَا يُنْظَرُونَ اور اگر ہم فرشتہ بھی بھیج دیتے تو سارا قصہ ہی ختم ہو جاتا۔ پھر ان کو ذرا مہلت نہ دی جاتی ۔ (۸) اللہ تعالیٰ جواب دیتا ہے کہ ان کی اس بے ایمانی پر اگر فرشتے آ جاتے تو پھر تو کام ہی ختم کر دیا جاتا، چنانچہ اور آیت میں ہے: مَا نُنَزِّلُ الْمَلَـئِكَةَ إِلاَّ بِالحَقِّ وَمَا كَانُواْ إِذًا مُّنظَرِينَ فرشتوں کو ہم حق کے ساتھ ہی اتارتے ہیں ۔ اگریہ آ جائیں تو پھر مہلت و تاخیر ناممکن ہے (۱۵:۸) اور جگہ ہے : يَوْمَ يَرَوْنَ الْمَلَـئِكَةَ لاَ بُشْرَى يَوْمَئِذٍ لِّلْمُجْرِمِينَ جس دن یہ لوگ فرشتوں کو دیکھ لیں گے اس دن گنہگار کو کوئی بشارت نہیں ہو گی، (۲۵:۲۲) وَلَوْ جَعَلْنَاهُ مَلَكًا لَجَعَلْنَاهُ رَجُلًا وَلَلَبَسْنَا عَلَيْهِمْ مَا يَلْبِسُونَ اور اگر ہم اس کو فرشتہ تجویز کرتے تو ہم اس کو آدمی ہی بناتے اور ہمارے اس فعل سے پھر ان پر وہی اشکال ہوتا جو اب کا اشکال کر رہے ہیں (۹) پھر فرماتا ہے بالفرض رسول کے ساتھ کوئی فرشتہ ہم اتارتے یا خود فرشتے ہی کو اپنا رسول بنا کر انسانوں میں بھیجتے تو لا محالہ اسے بصورت انسانی ہی بھیجتے تاکہ یہ لوگ اس کے ساتھ بیٹھ اٹھ سکیں، بات چیت کر سکیں اس سے حکم احکام سیکھ سکیں ۔ یکجہتی کی وجہ سے طبیت مانوس ہو جائے اور اگر ایسا ہوتا تو پھر انہیں اسی شک کا موقعہ ملتا کہ نہ جانیں یہ سچ مچ فرشتہ ہے بھی یا نہیں ؟ کیونکہ وہ بھی انسان جیسا ہےاور آیت میں ہے: قُل لَوْ كَانَ فِى الاٌّرْضِ مَلَـئِكَةٌ يَمْشُونَ مُطْمَئِنِّينَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِم مِّنَ السَّمَآءِ مَلَكًا رَّسُولاً آپ کہہ دیں کہ اگر زمین میں فرشتے چلتے پھرتے اور رہتے بستے ہوتے تو ہم بھی ان کے پاس کسی آسمانی فرشتے ہی کو رسول بنا کر بھیجتے (۱۷:۹۵) پس درحقیقت اس رب محسن کا ایک احسان یہ بھی ہے کہ انسانوں کی طرف انہی کی جنس میں سے انسان ہی کو رسول بنا کر بھیجا تاکہ اس کے پاس اٹھ بیٹھ سکیں اس سے پوچھ گچھ لیں اور ہم جنسی کی وجہ سے خلط ملط ہو کر فائدہ اٹھا سکیں ۔چنانچہ ارشاد ہے: لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ بیشک مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ انہیں میں سے ایک رسول ان میں بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے (۳:۱۶۴) مطلب یہ ہے کہ اگر فرشتہ ہی اترتا تو چونکہ اس نور محض کو یہ لوگ دیکھ ہی نہیں سکتے اس لئے اسے انسانی صورت میں ہی بھیجتے تو پھر بھی ان پر شبہ ہی رہتا ، وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِينَ سَخِرُوا مِنْهُمْ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ اور واقع آپ سے پہلے جو پیغمبر ہوئے ہیں ان کے ساتھ بھی مذاق کیا گیا ہے۔ پھر جن لوگوں نے ان سے مذاق کیا تھا ان کو اس عذاب نے آگھیرا جس کا مذاق اڑاتے تھے۔ (۱۰) پھر اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو تسکین اور تسلی دیتا ہے کہ آپ دل گرفتہ نہ ہوں آپ سے پہلے بھی جتنے انبیاء آئے ان کا بھی مذاق اڑایا گیا لیکن بالآخر مذاق اڑانے والے تو برباد ہو گئے اسی طرح آپ کے ساتھ بھی جو لوگ بے ادبی سے پیش آتے ہیں ایک رو پیس دیئے جائیں گے ، قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ ثُمَّ انْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ آپ فرما دیجئے کہ ذرا زمین میں چلو پھرو پھر دیکھ لو کہ تکذیب کرنے والے کا کیا انجام ہوا۔ (۱۱) لوگو! ادھر ادھر پھر پھرا کر عبرت کی آنکھوں سے ان کے انجام کو دیکھو جنہوں نے تم سے پہلے رسولوں کے ساتھ بد سلوکی کی ، ان کی نہ مانی اور ان پر پھبتیاں کسیں دنیا میں بھی وہ خراب ہوئے اور آخرت کی مار ابھی باقی ہے ، رسولوں کو اور ان کے ماننے والوں کو ہم نے یہاں بھی ترقی دی اور وہاں بھی انہیں بلند درجے عطا فرمائے ۔ قُلْ لِمَنْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ قُلْ لِلَّهِ ۚ كَتَبَ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ۚ آپ کہئے کہ جو کچھ آسمانوں میں اور زمین میں موجود ہے یہ سب کس کی ملکیت ہے، آپ کہہ دیجئے سب اللہ ہی کی ملکیت ہے، اللہ نے مہربانی فرمانا اپنے اوپر لازم فرما لیا ہے آسمان و زمین اور جو کچھ ان میں ہے ، سب اللہ کا ہے ، اس نے اپنے نفس مقدس پر رحمت لکھ لی ہے ، جیسے فرمایا: وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُمْ بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ اور میری رحمت تمام اشیا پر محیط ہےتو وہ رحمت ان لوگوں کے نام ضرور لکھوں گا جو اللہ سے ڈرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں۔ (۷:۱۵۶) بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے : اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو جب پیدا کیا تو ایک کتاب لکھی جو اس کے پاس اس کے عرش کے اوپر ہے کہ میری رحمت غضب پر غالب ہے ، لَيَجْمَعَنَّكُمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا رَيْبَ فِيهِ ۚ تم کو اللہ قیامت کے روز جمع کرے گا، اس میں کوئی شک نہیں، پھر اپنے پاک نفس کی قسم کھا کر فرماتا ہے کہ وہ اپنے بندوں کو قیامت کے دن ضرور جمع کرے گا اور وہ دن یقیناً آنے والا ہے شکی لوگ چاہے شک شبہ کریں لیکن وہ ساعت اٹل ہے ، حضور ﷺسے سوال ہوا کہ کیا اس دن پانی بھی ہو گا؟ آپ ﷺنے فرمایا اس اللہ کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے اس دن پانی ہو گا، اولیاء اللہ ان حوضوں پر آئیں گے جو انبیاء کی ہوں گی ۔ ان حوضوں کی نگہبانی کیلئے ایک ہزار فرشتے نور کی لکڑیاں لئے ہوئے مقرر ہوں گے جو کافروں کو وہاں سے ہٹا دیں گے ، یہ حدیث ابن مردویہ میں ہے لیکن ہے غریب، ترمذی شریف کی حدیث میں ہے: ہر نبی کے لئے حوض ہو گا مجھے امید ہے کہ سب سے زیادہ لوگ میرے حوض پر آئیں گے ، الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ جن لوگوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈالا ہے اور وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ (۱۲) جو لوگ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور اس دن کو نہیں مانتے وہ اپنی جانوں سے خود ہی دشمنی رکھتے ہیں اور اپنا نقصان آپ ہی کرتے ہیں، وَلَهُ مَا سَكَنَ فِي اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ اور اللہ ہی کی ملک ہیں وہ سب کچھ جو رات میں اور دن میں رہتی ہیں اور وہی بڑا سننے والا بڑا جاننے والا ہے۔ (۱۳) زمین و آسمان کی ساکن چیزیں یعنی کل مخلوق اللہ کی ہی پیدا کردہ ہے اور سب اس کے ماتحت ہے، سب کا مالک وہی ہے ، وہ سب کی باتیں سننے والا اور سب کی حرکتیں جاننے والا ہے ، چھپا کھلا سب اس پر روشن ہے ۔ پھر اپنے نبی کو جنہیں توحید خالص کے ساتھ اور کامل شریعت کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے حکم دیتا ہے کہ قُلْ أَغَيْرَ اللَّهِ أَتَّخِذُ وَلِيًّا فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ يُطْعِمُ وَلَا يُطْعَمُ ۗ آپ کہئے کہ کیا اللہ کے سوا، جو کہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے جو کہ کھانے کو دیتا ہے اور اس کو کوئی کھانےکو نہیں دیتا اور کسی کو معبود قرار دوں آپ اعلان کر دیں کہ آسمان و زمین پیدا کرنے والے اللہ کے سوا میں کسی اور کو اپنا دوست و مددگار نہیں جانتا، وہ ساری مخلوق کا رازق ہے سب اس کے محتاج ہیں اور وہ سب سے بےنیاز ہے ، قُلْ أَفَغَيْرَ اللَّهِ تَأْمُرُونِّى أَعْبُدُ أَيُّهَا الْجَـهِلُونَ آپ کہہ دیجئے اے جاہلو! کیا تم مجھ سے اللہ کے سوا اوروں کی عبادت کو کہتے ہو ۔ (۳۹:۶۴) فرماتا ہے میں نے تمام انسانوں جنوں کو اپنی غلامی اور عبادت کیلئے پیدا کیا ہے ، وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإِنسَ إِلاَّ لِيَعْبُدُونِ میں نے جنات اور انسانوں کو محض اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں۔ (۵۱:۵۶) ایک قرأت میں وَلَا يَطْعَمُ بھی ہے یعنی وہ خود نہیں کھاتا، قبا کے رہنے والے ایک انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں، ہم بھی آپ کے ساتھ گئے، جب حضور کھانا تناول فرما کر ہاتھ دھو چکے تو آپ نے فرمایا اللہ کا شکر ہے جو سب کو کھلاتا ہے اور خود نہیں کھاتا، اس کے بہت بڑے احسان ہم پر ہیں کہ اس نے ہمیں ہدایت دی اور کھانے پینے کو دیا اور تمام بھلائیاں عطا فرمائیں اللہ کا شکر ہے جسے ہم پورا ادا کر ہی نہیں سکتے اور نہ اسے چھوڑ سکتے ہیں ، ہم اس کی نا شکری نہیں کرتے، نہ اس سے کسی وقت ہم بےنیاز ہو سکتے ہیں، الحمد للہ اللہ نے ہمیں کھانا کھلایا، پانی پلایا ، کپڑے پہنائے ، گمراہی سے نکال کر رہ راست کھائی ، اندھے پن سے ہٹا کر آنکھیں عطا فرمائیں اور اپنی بہت سی مخلوق پر ہمیں فضیلت عنایت فرمائی ۔اللہ ہی کے لئے سب تعریفیں مختص ہیں جو تمام جہان کا پالنہار ہے ، قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ ۖ آپ فرما دیجئے کہ مجھ کو یہ حکم ہوا ہے کہ سب سے پہلے میں اسلام قبول کروں پھر فرماتا ہے کہ اے پیغمبر اعلان کر دو کہ مجھے حکم ملا ہے کہ اس اُمت میں سب سے پہلے اللہ کا غلام میں بن جاؤں، وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِينَ اور تو مشرکین میں سے ہرگز نہ ہونا۔ (۱۴) پھر فرماتا ہے خبردار ہرگز ہرگز مشرکوں سے نہ ملنا ، قُلْ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ آپ کہہ دیجئے کہ میں اگر اپنے رب کا کہنا نہ مانوں تو میں ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں ۔ (۱۵) یہ بھی اعلان کر دیجئے کہ مجھے خوف ہے اگر میں اللہ کی نافرمانی کروں تو مجھے قیامت کے دن عذاب ہوں گے مَنْ يُصْرَفْ عَنْهُ يَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمَهُ ۚ وَذَلِكَ الْفَوْزُ الْمُبِينُ جس شخص سے اس روز وہ عذاب ہٹا دیا جائے تو اس پر اللہ نے بڑا رحم کیا اور یہ صریح کامیابی ہے۔ (۱۶) جو اس روز عذابوں سے محفوظ رکھا گیا یقین ماننا کہ اس پر رحمت رب نازل ہوئی، سچی کامیابی یہی ہے اور آیت میں فرمایا ہے: فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ پس جو شخص آگ سے ہٹا دیا جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے بیشک وہ کامیاب ہوگیا (۳:۱۸۵) وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِنْ يَمْسَسْكَ بِخَيْرٍ فَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ اور اگر تجھ کو اللہ تعالیٰ کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کا دور کرنے والا سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں۔ اور اگر تجھ کو اللہ تعالیٰ کوئی نفع پہنچائے تو وہ ہرچیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے ۔ (۱۷) اللہ تعالیٰ خبر دے رہا ہے کہ نفع و نقصان کا مالک وہی ہے اپنی مخلوق میں جیسی وہ چاہے تبدیلیاں کرتا ہے اس کے احکام کو کوئی ٹال نہیں سکتا اس کے فیصلوں کو کوئی رد نہیں کر سکتا، اسی آیت جیسی یہ آیت ہے : مَّا يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِن رَّحْمَةٍ فَلاَ مُمْسِكَ لَهَا وَمَا يُمْسِكْ فَلاَ مُرْسِلَ لَهُ مِن بَعْدِهِ اللہ تعالیٰ جو رحمت لوگوں کیلئے کھول دے سو اس کا کوئی بند کرنے والا نہیں اور جس کو بند کردے تو اسکے بعد اس کا کوئی جاری کرنے والا نہیں (۳۵:۲) اس آیت میں خاص اپنے نبی کو خطاب کر کے بھی یہی فرمایا ، صحیح حدیث میں ہے: رسول ﷺ فرمایا کرتے تھے اے اللہ جسے تو دے اسے کوئی روک نہیں سکتا اور جس سے تو روک لے اسے کوئی دے نہیں سکتا ، وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ ۚ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُ اور وہی اللہ اپنے بندوں کے اوپر غالب ہے برتر ہے اور وہی بڑی حکمت والا اور پوری خبر رکھنے والا ہے۔ (۱۸)(۱۸) فرماتا ہے وہ اپنے بندوں پر قاہر و غالب ہے ، سب کی گردنیں اس کے سامنے پست ہیں، سب بڑے اس کے سامنے چھوٹے ہیں ، ہر چیز اس کے قبضے اور قدرت میں ہے تمام مخلوق اس کی تابعدار ہے اس کے جلال اسکی کبریائی اس کی عظمت اسکی بلندی اس کی قدرت تمام چیزوں پر غالب ہے ہر ایک کا مالک وہی ہے ، حکم اسی کا چلتا ہے ، حقیقی شہنشاہ اور کامل قدرت والا وہی ہے ،اپنے تمام کاموں میں وہ باحکمت ہے ، وہ ہر چھوٹی بڑی چھپی کھلی چیز سے با خبر ہے ، وہ جسے جو دے وہ بھی حکمت سے اور جس سے جو روک لے وہ بھی حکمت سے، قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً ۖ آپ کہیں کہ سب سے بڑی چیز گواہی دینے کے لئے کون ہے، پھر فرماتا ہے پوچھو تو سب سے بڑا اور زبردست اور بالکل سچا گواہ کون ہے؟ قُلِ اللَّهُ ۖ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۚ آپ کہیں کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے جواب دے کہ مجھ میں تم میں اللہ ہی گواہ ہے ، وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَذَا الْقُرْآنُ لِأُنْذِرَكُمْ بِهِ وَمَنْ بَلَغَ ۚ اور میرے پاس یہ قرآن بطور وحی کے بھیجا گیا ہے تاکہ میں اس قرآن کے ذریعہ سے تم کو اور جس جس کو یہ قرآن پہنچے ان سب کو ڈراؤں جو میں تمہارے پاس لایا ہوں اور جو تم مجھ سے کر رہے ہو اسے وہ خوب دیکھ بھال رہا ہے اور بخوبی جانتا ہے ،میری جانب اس قرآن کی وحی کی گئی ہے تاکہ میں تم سب حاضرین کو بھی اس سے آگاہ کر دوں اور جسے بھی یہ پہنچی اس تک میرا پیغام پہنچ جائے ، جیسے اور آیت میں ہے: وَمَن يَكْفُرْ بِهِ مِنَ الاٌّحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهُ اور تمام فرقوں میں سے جو بھی اس کا منکر ہو اس کے آخری وعدے کی جگہ جہنم ہے (۱۱:۱۹)(۱۱:۱۹) حضرت محمد بن کعب فرماتے ہیں جسے قرآن پہنچ گیا اس نے گویا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیا بلکہ گویا آپ سے باتیں کر لیں اور اس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا دین پیش کر دیا ۔ حضرت قتادہ کا قول ہے اللہ کا پیغام اس کے بندوں کو پہنچاؤ جسے ایک آیت قرآنی پہنچ گئی اسے اللہ کا امر پہنچ گیا ۔ حضرت ربیع بن انس کا قول ہے: اللہ کے نبی کے تمام تابعی لوگوں پر حق ہے کہ وہ مثل دعوت رسول کے لوگوں کو دعوت خیر دیں اور جن چیزوں اور کاموں سے آپ نے ڈرا دیا ہے یہ بھی اس سے ڈراتے رہیں أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ اللَّهِ آلِهَةً أُخْرَى ۚ قُلْ لَا أَشْهَدُ ۚ کیا تم سچ مچ یہی گواہی دو گے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کچھ اور معبود بھی ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ میں تو گواہی نہیں دیتا۔ مشرکو تم چاہے اللہ کے ساتھ اور معبود بھی بتاؤ لیکن میں تو ہرگز ایسا نہیں کروں گا جیسے اور آیت میں ہے: فَإِن شَهِدُواْ فَلاَ تَشْهَدْ مَعَهُمْ پھر اگر وہ گواہی دے دیں تو آپ اس کی شہادت نہ دیجئے (۶:۱۵۰) قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَهٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِي بَرِيءٌ مِمَّا تُشْرِكُونَ آپ فرما دیجئے کہ بس وہ تو ایک ہی معبود ہے اور بیشک میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں۔ (۱۹) یہاں فرمایا تم صاف کہہ دو کہ اللہ تو ایک ہی ہے اور تمہارے تمام معبودان باطل سے میں الگ تھلگ ہوں ۔ میں ان سب سے بیزار ہوں کسی کا بھی روادار نہیں الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمُ ۘ جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ لوگ رسول کو پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں، پھر فرماتا ہے یہ اہل کتاب اس قرآن کو اور اس نبی کو خوب جانتے ہیں جس طرح انسان اپنی اولاد سے واقف ہوتا ہے اسی طرح یہ لوگ آپ سے اور آپ کے دین سے واقف اور با خبر ہیں کیونکہ خود ان کی کتابوں میں یہ سب خبریں موجود ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کی آپ کی نبوت کی خبریں ان کی آسمانی کتابوں میں لکھی ہوئی ہیں آپ کی صفتیں ، آپ کا وطن، آپ کی ہجرت، آپ کی اُمت کی صفت ، ان تمام چیزوں سے یہ لوگ آگاہ ہیں اور ایسے صاف طور پر کہ جس میں کسی قسم کا شک شبہ نہیں ، الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ جن لوگوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈالا ہے سو وہ ایمان نہیں لائیں گے ۔ (۲۰) پھر ایسے ظاہر باہر صاف شفاف کھلم کھلا امر سے بے ایمانی کرنا انہی کا حصہ ہے جو خود اپنا برا چاہنے والے ہوں اور اپنی جانوں کو ہلاک کرنے والے ہوں ، حضور کی آمد سے پہلے ہی نشان ظاہر ہو چکے جو نبی آپ سے پہلے آپ کی بشارتیں دیتا ہوا آیا ، پھر انکار کرنا سورج چاند کے وجود سے انکار کرنا ہے ، وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِآيَاتِهِ ۗ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ اور اس سے زیادہ بے انصاف کون ہوگا جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بہتان باندھے یا اللہ کی آیات کو جھوٹا بتلائے ایسے بے انصافوں کو کامیابی نہ ہوگی ۔ (۲۱) اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ باندھ لے ؟ اور فی الواقع اس سے بھی زیادہ ظالم کوئی نہیں جو سچ کو جھوٹ کہے اور اپنے رب کی باتوں اور اس کی اٹل حجتوں اور روشن دلیلوں سے انکار کرے، ایسے لوگ فلاح سے، کامیابی سے ، اپنا مقصد پانے سے اور نجات و آرام سے محروم محض ہیں۔ وَيَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِينَ أَشْرَكُوا أَيْنَ شُرَكَاؤُكُمُ الَّذِينَ كُنْتُمْ تَزْعُمُونَ وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جس روز ہم ان تمام خلائق کو جمع کریں گے، پھر ہم مشرکین سے کہیں گے کہ تمہارے وہ شرکا، جن کے معبود ہونے کا تم دعویٰ کرتے تھے کہاں گئے۔ (۲۲) قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کا حشر اپنے سامنے کرے گا پھر جو لوگ اللہ کے سوا اوروں کی پرستش کرتے تھے انہیں لا جواب شرمندہ اور بےدلیل کرنے کے لئے ان سے فرمائے گا کہ جن جن کو تم میرا شریک ٹھہراتے رہے آج وہ کہاں ہیں؟سورۃ قصص کی اس آیت میں بھی یہ موجود ہے ۔ وَيَوْمَ يُنَـدِيهِمْ فَيَقُولُ أَيْنَ شُرَكَآئِىَ الَّذِينَ كُنتُمْ تَزْعُمُونَ اور جس دن اللہ تعالیٰ انہیں پکار کر فرمائے گا کہ تم جنہیں اپنے گمان میں میرا شریک ٹھہرا رہے تھے کہاں ہیں (۲۸:۶۲) ثُمَّ لَمْ تَكُنْ فِتْنَتُهُمْ إِلَّا أَنْ قَالُوا وَاللَّهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِينَ پھر ان کے شرک کا انجام اس کے سوا اور کچھ بھی نہ ہوگا کہ وہ یوں کہیں گے کہ قسم اللہ کی اپنے پروردگار کی ہم مشرک نہ تھے ۔ (۲۳) اس آیت میں جو لفظ فِتْنَتُهُمْ ہے اس کا مطلب فتنہ ہے اور اس سے مراد حجت و دلیل ، عذرو معذرت ، ابتلا ءاور جواب ہے ۔ حضرت ابن عباسؓؓ سے کسی نے مشرکین کے اس انکار شرک کی بابت سوال کیا تو آپ نے جواب دیا کہ جب مشرکین دیکھیں گے کہ اہل صلاۃ کے سوا کوئی جنت میں داخل نہیں ہو رہا ہے تو آپس میں کہیں گے کہ آؤ ہم شرک کا انکار کر دیں۔ چنانچہ وہ اپنے مشرک ہونے کا انکار کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی زبانوں پر مہر لگا دے گا تو پھر ان کے ہاتھ پاؤں گواہیاں دینے لگیں گے تو اب کوئی بات اللہ سے نہ چھپائیں گے ۔ یہ توجیہ بیان فرما کر حضرت عبداللہ نے فرمایا اب تو تیرے دل میں کوئی شک نہیں رہا ؟ سنو بات یہ ہے کہ قرآن میں ایسی چیزوں کا دوسری جگہ بیان و توجیہ موجود ہے لیکن بےعلمی کی وجہ سے لوگوں کی نگاہیں وہاں تک نہیں پہنچتیں ۔ یہ بھی مروی ہے کہ یہ آیت منافقوں کے بارے میں ہے ۔ لیکن یہ کچھ ٹھیک نہیں۔ اس لئے کہ آیت مکی ہے اور منافقوں کا وجود مکہ شریف میں تھا ہی نہیں ۔ ہاں منافقوں کے بارے میں آیت يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعًا فَيَحْلِفُونَ لَهُ كَمَا يَحْلِفُونَ لَكُمْ (۵۸:۱۸) ہے ۔ انْظُرْ كَيْفَ كَذَبُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ ۚ ذرا دیکھو تو انہوں نے کس طرح جھوٹ بولا اپنی جانوں پر دیکھ لو کہ کس طرح انہوں نے خود اپنے اوپر جھوٹ بولا؟ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَفْتَرُونَ اور جن چیزوں کو وہ جھوٹ موٹ تراشا کرتے تھے وہ سب غائب ہوگئے ۔ (۲۴) اور جن جھوٹے معبودوں کا افترا انہوں نے کر رکھا تھا کیسے ان سے خالی ہاتھ ہو گئے؟ چنانچہ دوسری جگہ ہے: ثُمَّ قِيلَ لَهُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ تُشْرِكُونَ ـ مِن دُونِ اللَّهِ قَـالُواْ ضَـلُّواْ عَنَّا بَل لَّمْ نَكُنْ نَّدْعُواْ مِن قَبْلُ شَيْئاً پھر ان سے پوچھا جائے گا کہ جنہیں تم شریک کرتے تھے وہ کہاں ہیں؟ جو اللہ کے سوا تھے وہ کہیں گے کہ وہ تو ہم سے بہک گئے بلکہ ہم تو اس سے پہلے کسی کو بھی پکارتے ہی نہ تھے (۴۰:۷۳،۷۴) وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ ۖ اور ان میں بعض ایسے ہیں کہ آپ کی طرف کان لگاتے ہیں فرماتا ہے بعض ان میں وہ بھی ہیں جو قرآن سننے کو تیرے پاس آتے ہیں لیکن اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتے ۔ وَجَعَلْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَنْ يَفْقَهُوهُ وَفِي آذَانِهِمْ وَقْرًا ۚ اور ہم نے ان کے دلوں پر پردہ ڈال رکھا ہے اس سے کہ وہ اسکو سمجھیں اور ان کے کانوں میں ڈاٹ دے رکھی ہے ان کے دلوں پر پردے ہیں وہ سمجھتے ہی نہیں ان کے کان انہیں یہ مبارک آوازیں اس طرح سناتے ہی نہیں کہ یہ اس سے فائدہ اٹھا سکیں اور احکام قرآنی کو قبول کریں، جیسے اور جگہ ان کی مثال ان چوپائے جانوروں سے دی گئی: وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُواْ كَمَثَلِ الَّذِى يَنْعِقُ بِمَا لاَ يَسْمَعُ إِلاَّ دُعَآءً وَنِدَآءً کفار کی مثال ان جانوروں کی طرح ہے جو اپنے چرواہے کی صرف پکار اور آواز ہی سنتے ہیں (سمجھتے نہیں) (۲:۱۷۱) وَإِنْ يَرَوْا كُلَّ آيَةٍ لَا يُؤْمِنُوا بِهَا ۚ اور اگر وہ لوگ تمام دلائل کو دیکھ لیں تو بھی ان پر کبھی ایمان نہ لائیں، یہ وہ لوگ ہیں جو بکثرت دلائل و براہن اور معجزات اور نشانیاں دیکھتے ہوئے بھی ایمان قبول نہیں کرتے، ان ازلی بد قسمتوں کے نصیب میں ایمان ہے ہی نہیں، یہ بے انصاف ہونے کے ساتھ ہی بےسمجھ بھی ہیں، اگر اب ان میں بھلائی دیکھتا تو ضرور انہیں سننے کی توفیق کے ساتھ ہی توفیق عمل و قبول بھی مرحمت فرماتا، وَلَوْ عَلِمَ اللَّهُ فِيهِمْ خَيْرًا لأَسْمَعَهُمْ اور اگر اللہ تعالیٰ ان میں کوئی خوبی دیکھتا تو ان کو سننے کی توفیق دے دیتا (۸:۲۳) حَتَّى إِذَا جَاءُوكَ يُجَادِلُونَكَ يَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ یہاں تک کہ جب یہ لوگ آپ کے پاس آتے ہیں تو آپ سے خواہ مخواہ جھگڑتے ہیں یہ لوگ جو کافر ہیں یوں کہتے ہیں کہ یہ تو کچھ بھی نہیں صرف بےسند باتیں ہیں جو پہلوں سے چلی آرہی ہیں (۲۵) ہاں انہیں اگر سوجھتی ہے تو یہ کہ اپنے باطل کے ساتھ تیرے حق کو دبا دیں تجھ سے جھگڑتے ہیں اور صاف کہہ جاتے ہیں کہ یہ تو اگلوں کے فسانے ہیں جو پہلی کتابوں سے نقل کر لئے گئے ہیں وَهُمْ يَنْهَوْنَ عَنْهُ وَيَنْأَوْنَ عَنْهُ ۖ اور یہ لوگ اس سے دوسروں کو بھی روکتے ہیں اور خود بھی اس سے دور دور رہتے ہیں اس آیت کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ یہ کفار خود بھی ایمان نہیں لاتے ہیں اور دوسروں کو بھی ایمان لانے سے روکتے ہیں حضور ﷺکی حمایت کرتے ہیں آپ کو برحق جانتے ہیں اور خود حق کو قبول نہیں کرتے ، جیسے کہ ابو طالب جو حضور ﷺکا بڑا ہی حمایتی تھا لیکن ایمان نصیب نہیں ہوا ۔ آپ کے دس چچا تھے جو علانیہ تو آپ کے ساتھی تھے لیکن خفیہ مخالف تھے ۔ لوگوں کو آپ کے قتل وغیرہ سے روکتے تھے لیکن خود آپ سے اور آپ کے دین سے دور ہوتے جاتے تھے۔ وَإِنْ يُهْلِكُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ اور یہ لوگ اپنے ہی کو تباہ کر رہے ہیں اور کچھ خبر نہیں رکھتے ۔ (۲۶) افسوس اس اپنے فعل سے خود اپنے ہی تئیں غارت کرتے تھے لیکن جانتے ہی نہ تھے کہ اس کرتوت کا وبال ہمیں ہی پر پڑ رہا ہے ۔ وَلَوْ تَرَى إِذْ وُقِفُوا عَلَى النَّارِ فَقَالُوا يَا لَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِآيَاتِ رَبِّنَا وَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اور اگر آپ اس وقت دیکھیں جب دوزخ کے پاس کھڑے کئے جائیں تو کہیں گے ہائے کیا اچھی بات ہو کہ ہم پھر واپس بھیج دیئے جائیں اور اگر ایسا ہو جائے تو ہم اپنے رب کی آیات کو جھوٹا نہ بتلائیں اور ہم ایمان والوں میں سے ہوجائیں (۲۷) کفار کا حال اور ان کا برا انجام بیان ہو رہا ہے کہ جب یہ جہنم کو وہاں کے طرح طرح کے عذابوں وہاں کی بدترین سزاؤں طوق و زنجیر کو دیکھ لیں گے اس وقت ہائے وائے مچائیں گے اور تمنا کریں گے کہ کیا اچھا ہو کہ دنیا کی طرف لوٹائے جائیں تاکہ وہاں جا کر نیکیاں کریں اللہ کی باتوں کو نہ جھٹلائیں اور پکے سچے موحد بن جائیں، بَلْ بَدَا لَهُمْ مَا كَانُوا يُخْفُونَ مِنْ قَبْلُ ۖ بلکہ جس چیز کو اس سے قبل چھپایا کرتے تھے وہ ان کے سامنے آگئی ہے حقیقت یہ ہے کہ جس کفر و تکذیب کو اور سختی و بے ایمانی کو یہ چھپا رہے تھے وہ ان کے سامنے کھل گئی ،جیسے اس سے اوپر کی آیتوں میں گزرا : ثُمَّ لَمْ تَكُن فِتْنَتُهُمْ ... وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُواْ يَفْتَرُونَ پھر ان کے شرک کا انجام اس کے سوا اور کچھ بھی نہ ہوگا کہ وہ یوں کہیں گے کہ قسم اللہ کی اپنے پروردگار کی ہم مشرک نہ تھے ۔ (۶:۲۳،۲۴) ذرا دیکھو تو انہوں نے کس طرح جھوٹ بولا اپنی جانوں پر اور جن چیزوں کو وہ جھوٹ موٹ تراشا کرتے تھے وہ سب غائب ہوگئے ۔ اپنے کفر کا تھوڑی دیر پہلے انکار تھا اب یہ تمنا گویا اس انکار کے بعد کا اقرار ہے اور اپنے جھوٹ کا خود اعتراف ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جس سچائی کو دنیا میں چھپاتے رہے اسے آج کھول دیں گے ، چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون سے کہا تھا کہ تو بخوبی جانتا ہے کہ یہ تمام نشانیاں آسمان و زمین کے رب کی اتاری ہوئی ہیں ۔ لَقَدْ عَلِمْتَ مَآ أَنزَلَ هَـؤُلاءِ إِلاَّ رَبُّ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ بَصَآئِرَ یہ تو تجھے علم ہو چکا ہے کہ آسمان و زمین کے پروردگار ہی نے یہ معجزے دکھانے، سمجھانے کو نازل فرمائے ہیں، (۱۷:۱۰۲) خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: وَجَحَدُواْ بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَآ أَنفُسُهُمْ ظُلْماً وَعُلُوّاً انہوں نے انکار کر دیا حالانکہ ان کے دل یقین کر چکے تھے صرف ظلم اور تکبر کی بنا پر (۲۷:۱۴) اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس سے مراد منافق ہوں جو ظاہراً مؤمن تھے اور دراصل کافر تھے اور یہ خبر جماعت کفار سے متعلق ہو ۔اگرچہ منافقوں کا وجود مدینے میں پیدا ہوا لیکن اس عادت کے موجود ہونے کی خبر مکی سورتوں میں بھی ہے ۔ ملاحظہ ہو سورۃ عنکبوت جہاں صاف فرمان ہے: وَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْمُنَافِقِينَ جو لوگ ایمان لائے انہیں بھی ظاہر کر کے رہے گا اور منافقوں کو بھی ظاہر کر کے رہے گا (۲۹:۱۱) پس یہ منافقین دار آخرت میں عذابوں کو دیکھ لیں گے اور جو کفر و نفاق چھپا رہے تھے وہ آج ان پر ظاہر ہو جائیں گے ، واللہ اعلم، وَلَوْ رُدُّوا لَعَادُوا لِمَا نُهُوا عَنْهُ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ اور اگر یہ لوگ پھر واپس بھیج دیئے جائیں تب بھی یہ وہی کام کریں گے جس سے ان کو منع کیا گیا تھا اور یقیناً یہ بالکل جھو ٹے ہیں (۲۸) اب ان کی تمنا ہو گی کاش کہ ہم دنیا کی طرف لوٹائے جائیں رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْهَا فَإِنْ عُدْنَا فَإِنَّا ظَالِمُونَ قَالَ اخْسَئُوا فِيهَا وَلَا تُكَلِّمُونِ اے ہمارے رب ہمیں اس جہنم سے نکال لے اگر ہم دوبارہ تیری نافرمانی کریں تو یقیناً ظالم ہیں اللہ تعالیٰ فرمائے گا اسی میں ذلیل و خوار پڑے رہو مجھ سے بات نہ کرو (۲۳:۱۰۷،۱۰۸) یہ بھی دراصل طمع ایمانی کی وجہ سے نہیں ہو گی بلکہ عذابوں سے چھوٹ جانے کے لئے ہو گی ، رَبَّنَا أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا إِنَّا مُوقِنُونَ اے ہمارے رب ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا پس ہمیں دوبارہ دنیا میں بھیج دے تاکہ ہم نیک عمل کریں اب ہمیں یقین آ گیا ہے۔ (۳۲:۱۲) چنانچہ عالم الغیب اللہ فرماتا ہے کہ اگر یہ لوٹا دیئے جائیں جب بھی ان ہی نافرمانیوں میں پھر سے مشغول ہو جائیں گے ۔ وَقَالُوا إِنْ هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِينَ اور یہ کہتے ہیں کہ صرف یہی دنیاوی زندگی ہماری زندگی ہے اور ہم زندہ نہ کئے جائیں گے (۲۹) ان کا یہ قول کہ وہ رغبت ایمان کر رہے ہیں اب بھی غلط ہے ۔ نہ یہ ایمان لائیں گے نہ جھٹلانے سے باز رہیں گے بلکہ لوٹنے کے بعد بھی وہی پہلا سبق رٹنے لگیں گے کہ بس اب تو یہی دنیا ہی زندگانی ہے ، دوسری زندگی اور آخرت کوئی چیز نہیں ۔ نہ مرنے کے بعد ہم اٹھائے جائیں گے وَلَوْ تَرَى إِذْ وُقِفُوا عَلَى رَبِّهِمْ ۚ قَالَ أَلَيْسَ هَذَا بِالْحَقِّ ۚ اور اگر آپ اس وقت دیکھیں جب یہ اپنے رب کے سامنے کھڑے کئے جائیں گے۔ اللہ فرمائے گا کیا یہ امر واقعی نہیں ہے؟ پھر ایک اور حال بیان ہو رہا ہے کہ یہ اللہ عزوجل کے سامنے کھڑے ہو نگے ۔اس وقت جناب باری ان سے فرمائے گا کہو اب تو اس کا سچا ہونا تم پر ثابت ہو گیا؟اب تو مان گئے کہ یہ غلط اور باطل نہیں؟ قَالُوا بَلَى وَرَبِّنَا ۚ قَالَ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ وہ کہیں گے بیشک قسم اپنے رب کی۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو اب اپنے کفر کے عوض عذاب چکھو ۔ (۳۰) اس وقت سرنگوں ہو کر کہیں گے کہ ہاں اللہ کی قسم یہ بالکل سچ اور سراسر حق ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اب اپنے جھٹلانے اور نہ ماننے اور کفر و انکار کا خمیازہ بھگتو اور عذابوں کا مزہ چکھو۔ أَفَسِحْرٌ هَـذَا أَمْ أَنتُمْ لاَ تُبْصِرُونَ (اب بتاؤ) کیا یہ جادو ہے؟ یا تم دیکھتے نہیں (۵۲:۱۵) قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِلِقَاءِ اللَّهِ ۖ حَتَّى إِذَا جَاءَتْهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً بیشک خسارے میں پڑے وہ لوگ جس نے اللہ سے ملنے کی تکذیب کی، یہاں تک کہ جب وہ معین وقت ان پر دفعتاً آپہنچے گا، قَالُوا يَا حَسْرَتَنَا عَلَى مَا فَرَّطْنَا فِيهَا وَهُمْ يَحْمِلُونَ أَوْزَارَهُمْ عَلَى ظُهُورِهِمْ ۚ کہیں گے کہ ہائے افسوس ہماری کوتاہی پر جو اس کے بارے میں ہوئی، اور حالت ان کی یہ ہوگی کہ وہ اپنے بار (بوجھ)اپنی پیٹھوں پر لادے ہونگے، قیامت کو جھٹلانے والوں کا نقصان ان کا افسوس اور ان کی ندامت و خجالت کا بیان ہو رہا ہے جو اچانک قیامت کے آ جانے کے بعد انہیں ہو گا ۔ نیک اعمال کے ترک افسوس الگ، بد اعمالیوں پر پچھتاوا جدا ہے ۔ فِيهَا کی ضمیر کا مرجع ممکن ہے حیاۃ ہو اور ممکن ہے اعمال ہو اور ممکن ہے دار آخرت ہو ، یہ اپنے گناہوں کے بوجھ سے لدے ہوئے ہوں گے، اپنی بد کرداریاں اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ أَلَا سَاءَ مَا يَزِرُونَ خوب سن لو کہ بری ہوگی وہ شے جس کو وہ لادیں گے (۳۱) آہ! کیا برا بوجھ ہے؟ حضرت ابو مرزوق فرماتے ہیں: کافر یا فاجر جب اپنی قبر سے اٹھے گا اسی وقت اس کے سامنے ایک شخص آئے گا جو نہایت بھیانک ، خوفناک اور بد صورت ہو گا اس کے جسم سے تعفن والی سڑاند کی سخت بد بو آ رہی ہو گی وہ اس کے پاس جب پہنچے گا یہ دہشت و وحشت سے گھبرا کر اس سے پوچھے گا تو کون ہے ؟ وہ کہے گا خوب! کیا تو مجھے پہچانتا نہیں؟ یہ جواب دے گا ہرگز نہیں صرف اتنا جانتا ہوں کہ تو نہایت بد صورت کریہہ منظر اور تیز بد بو والا ہے تجھ سے زیادہ بد صورت کوئی بھی نہ ہو گا ، وہ کہے گا سن میں تیرا خبیث عمل ہوں جسے تو دنیا میں مزے لے کر کرتا رہا ۔ سن تو دنیا میں مجھ پر سوار رہا اب کمر جھکا میں تجھ پر سوار ہو جاؤں گا چنانچہ وہ اس پر سوار ہو جائے گا یہی مطلب ہے اس آیت کا کہ وہ لوگ اپنے بد اعمال کو اپنی پیٹھ پر لادے ہوئے ہوں گے، حضرت سدی فرماتے ہیں: جو بھی ظالم شخص قبر میں جاتا ہے اس کی لاش کے قبر میں پہنچتے ہی ایک شخص اس کے پاس جاتا ہے سخت بد صورت سخت بد بودار سخت میلے اور قابل نفرت لباس والا یہ اسے دیکھتے ہی کہتا ہے تو تو بڑا ہی بد صورت ہے بد بو دار ہے یہ کہتا ہے تیرے اعمال ایسے ہی گندے تھے وہ کہتا ہے تیرا لباس نہایت متعفن ہے ، یہ کہتا ہے تیرے اعمال ایسے ہی قابل نفرت تھے وہ کہتا ہے اچھا بتا تو سہی اے منحوس تو ہے کون؟ یہی معنی ہیں اس آیت کے اس جملے کے ہیں ۔ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَعِبٌ وَلَهْوٌ ۖ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ ۗ أَفَلَا تَعْقِلُونَ اور دنیاوی زندگانی تو کچھ بھی نہیں بجز لہو لعب کے اور دار آخرت متقیوں کے لئے بہتر ہے، کیا تم سوچتے سمجھتے نہیں۔ (۳۲) دنیا کی زندگانی بجز کھیل تماشے کے ہے ہی کیا ، آنکھ بند ہوئی اور خواب ختم ، البتہ اللہ سے ڈرنے والے لوگوں کیلئے آخرت کی زندگانی بڑی چیز ہے اور بہت ہی بہتر چیز ہے تمہیں کیا ہو گیا کہ تم عقل سے کام ہی نہیں لیتے ؟ قَدْ نَعْلَمُ إِنَّهُ لَيَحْزُنُكَ الَّذِي يَقُولُونَ ۖ فَإِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُونَكَ وَلَكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ ہم خوب جانتے ہیں کہ آپ کو انکے اقوال مغموم کرتے ہیں، سو یہ لوگ آپ کو جھوٹا نہیں کہتے لیکن یہ ظالم تو اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں ۔ (۳۳) اللہ تعالیٰ اپنے نبی محترم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتا ہے کہ آپ اپنی قوم کو جھٹلانے نہ ماننے اور ایذائیں پہنچانے سے تنگ دل نہ ہوں ،فرماتا ہے کہ ہمیں ان کی حرکت خوب معلوم ہے، آپ ان کی اس لغویت پر ملال نہ کرو ، کیا اگر یہ ایمان نہ لائیں تو آپ ان کے پیچھے اپنی جان کو روگ لگا لیں گے ؟ فَلاَ تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَرَتٍ پس آپ ان پر غم کھا کھا کر اپنی جان ہلاکت میں نہ ڈالیں (۳۵:۸) کہاں تک ان کے لئے حسرت و افسوس کریں گے؟ سمجھا دیجئے اور ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کیجئے ۔ لَعَلَّكَ بَـخِعٌ نَّفْسَكَ أَلاَّ يَكُونُواْ مُؤْمِنِينَ ان کے ایمان نہ لانے پر شاید آپ تو اپنی جان کھو دیں گے (۲۶:۳) یہ لوگ دراصل آپ کو جھوٹا نہیں جانتے بلکہ یہ تو حق کے دشمن ہیں ۔ فَلَعَلَّكَ بَـخِعٌ نَّفْسَكَ عَلَى ءَاثَـرِهِمْ إِن لَّمْ يُؤْمِنُواْ بِهَـذَا الْحَدِيثِ أَسَفاً پس اگر یہ لوگ اس بات پر ایمان نہ لائیں تو کیا آپ ان کے پیچھے اس رنج میں اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے ( ۱۸:۶) چنانجہ ابوجہل نے صاف کہا تھا کہ ہم تجھے نہیں جھٹلاتے لیکن تو جو لے کر آیا ہے اسے نہیں مانتے ، حکم کی روایت میں ہے کہ اسی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ، ابن ابی حاتم میں ہے: ابوجہل کو حضور ﷺسے مصافحہ کرتے ہوئے دیکھ کر کسی نے اس سے کہا کہ اس بےدین سے تو مصافحہ کرتا ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم مجھے خوب علم ہے اور کامل یقین ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے سچے نبی ہیں ۔ ہم صرف خاندانی بناء پر ان کی نبوت کے ماتحت نہیں ہوتے ۔ ہم نے آج تک نبی عبد عناف کی تابعداری نہیں کی ۔ الغرض حضور کو رسول اللہ مانتے ہوئے آپ کی فرمانبرداری سے بھاگتے تھے، امام محمد بن اسحق رحمتہ اللہ علیہ نے بیان فرمایا ہے: حضرت زہری رحمتہ اللہ علیہ اس قصے کو بیان کرتے ہوئے جس میں ابوجہل ، ابو سفیان، صحر بن حرب، اخنس بن شریق کا رات کے وقت پوشیدہ طور پر آن کر ایک دوسرے کی بےخبری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زبانی قرآن سننا ہے کہتے ہیں کہ ان لوگوں نے صبح تک قرآن سنا روشنی ذرا سی نمودار ہوئی تھی تو یہ واپس چلے ۔ اتفاقاً ایک چوک میں ایک دوسرے سے ملاقات ہو گئی حیرت سے ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ اس وقت یہاں کہاں؟ پھر ہر ایک دوسرے سے صاف صاف کہہ دیتا ہے کہ حضور سے قرآن سننے کے لئے چپ چاپ آ گئے تھے۔ اب تینوں بیٹھ کر معاہدہ کرتے ہیں کہ آئندہ ایسا نہ کرنا ورنہ اگر اوروں کو خبر ہوئی اور وہ آئے تو وہ تو سچے پکے مسلمان ہو جائیں گے ۔ دوسری رات کو ہر ایک نے اپنے طور یہ گمان کر کے کہ کل رات کے وعدے کے مطابق وہ دونوں تو آئیں گے نہیں میں تنہا کیوں نہ جاؤں؟ میرے جانے کی کسے خبر ہو گی؟ اپنے گھر سے پچھلی رات کے اندھیرے میں ہر ایک چلا اور ایک کونے میں دب کر اللہ کے نبی کی زبانی تلاوت قرآن کا مزہ لیتا رہا اور صبح کے وقت واپس چلا ۔ اتفاقاً آج بھی اسی جگہ تینوں کا میل ہو گیا ۔ ہر ایک نے ایک دوسرے کو بڑی ملامت کی بہت طعن ملامت کی اور نئے سرے سے عہد کیا کہ اب ایسی حرکت نہیں کریں گے ۔ لیکن تیسری شب پھر صبر نہ ہو سکا اور ہر ایک اسی طرح پوشیدہ طور پر پہنچا اور ہر ایک کو دوسرے کے آنے کا علم بھی ہو گیا ، پھر جمع ہو کر اپنے تئیں برا بھلا کہنے لگے اور بڑی سخت قسمیں کھا کر قول قرار کئے کہ اب ایسا نہیں کریں گے۔ صبح ہوتے ہی اخنس بن شریق کپڑے پہن کر تیار ہو کر ابو سفیان بن حرب کے پاس اس کے گھر میں گیا اور کہنے لگا اے ابو حنظلہ ایمان سے بتاؤ سچ سچ کہو جو قرآن تم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنا اس کی بابت تمہاری اپنی ذاتی رائے کیا ہے؟ اس نے کہا ابو ثعلبہ سنو! واللہ بہت سی آیتوں کے الفاظ معنی اور مطلب تو میں سمجھ گیا اور بہت سی آیتوں کو ان کی مراد کو میں جانتا ہی نہیں ۔ اخنس نے کہا واللہ یہی حال میرا بھی ہے ، اب یہاں سے اٹھ کر اخنس سیدھا ابوجہل کے پاس پہنچا اور کہنے لگا ابو الحکم تم سچ بتاؤ جو کچھ تم حضور سے سنتے ہو اس میں تمہارا خیال کیا ہے؟ اس نے کہا سن جو سنا ہے اسے تو ایک طرف رکھ دے بات یہ یہ کہ بنو عبد مناف اور ہم میں چشمک ہے وہ ہم سے اور ہم ان سے بڑھنا اور سبقت کرنا چاہتے ہیں اور مدت سے یہ رسہ کشی ہو رہی ہے ، انہوں نے مہمانداریاں اور دعوتیں کیں تو ہم نے بھی کیں انہوں نے لوگوں کو سواریاں دیں تو ہم نے بھی یہی کیا ۔ انہوں نے عوام الناس کے ساتھ احسان و سلوک کئے تو ہم نے بھی اپنی تھیلیوں کے منہ کھول ڈالے گویا ہم کسی معاملہ میں ان سے کم نہیں رہے ، اب جبکہ برابر کی ٹکر چلی جا رہی تھی تو انہوں نے کہا ہم میں ایک نبی ہے ، سنو چاہے ادھر کی دنیا ادھر ہو جائے نہ تو ہم اس کی تصدیق کریں گے نہ مانیں گے ۔ اخنس مایوس ہو گیا اور اٹھ کر چل دیا ۔ اسی آیت کی تفسیر میں ابن جریر میں ہے: بدر والے دن اخنس بن شریق نے قبیلہ بنو زہرہ سے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری قرابت کے ہیں تم ان کی ننھیال میں ہو تمہیں چاہئیے کہ اپنے بھانجے کی مدد کرو، اگر وہ واقعی نبی ہے تو مقابلہ بےسود ہی نہیں بلکہ سراسر نقصان دہ ہے اور بالفرض نہ بھی ہو تو بھی وہ تمہارا ہے ، اچھا ٹھہرو دیکھو میں ابو الحکم (یعنی ابوجہل) سے بھی ملتا ہوں سنو! اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم غالب آ گئے تو وہ تمہیں کچھ نہیں کہیں گے تم سلامتی کے ساتھ واپس چلے جاؤ گے اور اگر تمہاری قوم غالب آ گئی تو ان میں تو تم ہی ہو ، اسی دن سے اس کا نام اخنس ہوا اصل نام ابی تھا، اب اخنس تنہائی میں ابوجہل سے ملا اور کہنے لگا سچ بتا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) تمہارے نزدیک سچے ہیں یا جھوٹے؟ دیکھو یہاں میرے اور تمہارے سوا کوئی اور نہیں دل کی بات مجھ سے نہ چھپانا ، اس نے کہا جب یہی بات ہے تو سو اللہ کی قسم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) بالکل سچے اور یقیناً صادق ہیں عمر بھر میں کسی چھوٹی سی چھوٹی بات میں کبھی بھی آپ نے جھوٹ نہیں بولا ۔ ہمارا رکنے اور مخالفت کرنے کی وجہ ایک اور صرف ایک ہی ہے وہ یہ کہ جب بنو قصی کے خاندان میں جھنڈے اور پھر یرے چلے گئے جب حج کے حاجیوں کے اور بیت اللہ شریف کے مہتمم و منتظم یہی ہو گئے پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ نبوت بھی اسی قبیلے میں چلی گئی تو اب اور قریشیوں کے لئے کون سی فضیلت باقی رہ گئی؟ اسی کا ذکر اس آیت میں ہے ، پس آیات اللہ سے مراد ذات حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہے ۔ وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِكَ فَصَبَرُوا عَلَى مَا كُذِّبُوا وَأُوذُوا حَتَّى أَتَاهُمْ نَصْرُنَا ۚ اور بہت سے پیغمبر جو آپ سے پہلے ہوئے ہیں ان کی بھی تکذیب کی جاچکی ہے سو انہوں نے اس پر صبر ہی کیا، ان کی تکذیب کی گئی اور ان کو ایذائیں پہنچائی گئیں یہاں تک کہ کہ ہماری امداد ان کو پہنچی پھر دوبارہ تسلی دی جاتی ہے کہ آپ اپنی قوم کی تکذیب ایذاء رسانی وغیرہ پر صبر کیجئے جیسے اولوالعزم پیغمبروں نے صبر کیا اور یقین مانئے کہ جس طرح انجام کار گزشہ نبیوں کا غلبہ رہا اور ان کے مخالفین تباہ و برباد ہوئے اسی طرح اللہ تعالیٰ آپ کو غالب کرے گا اور آپ کے مخالفین مغلوب ہوں گے ۔ دونوں جہان میں حقیقی بلندی آپ کی ہی ہو گی ۔ وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِ اللَّهِ ۚ اور اللہ کی باتوں کا کوئی بدلنے والا نہیں رب تو یہ بات فرما چکا ہے اور اللہ کی باتوں کو کوئی بدل نہیں سکتاجیسے اور آیت میں ہے: وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِينَ ـ إِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنصُورُونَ ـ وَإِنَّ جُندَنَا لَهُمُ الْغَـلِبُونَ اور البتہ ہمارا وعدہ پہلے ہی اپنے رسولوں کے لئے صادر ہو چکا ہے۔ کہ یقیناً وہ ہی مدد کئے جائیں گے۔ اور ہمارا ہی لشکر غالب رہے گا ۔ (۳۷:۱۷۱،۱۷۳) اور آیت میں فرماتا ہے: كَتَبَ اللَّهُ لاّغْلِبَنَّ أَنَاْ وَرُسُلِى إِنَّ اللَّهَ قَوِىٌّ عَزِيزٌ اللہ تعالیٰ یہ لکھ چکا ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب آئیں گے یقیناً اللہ تعالیٰ قوت ولا اور غلبہ والا ہے ، (۵۸:۲۱) وَلَقَدْ جَاءَكَ مِنْ نَبَإِ الْمُرْسَلِينَ اور آپ کے پاس بعض پیغمبروں کی بعض خبریں پہنچ چکی ہیں ۔ (۳۴) ان نبیوں کے اکثر قصے آپ کے سامنے بیان ہو چکے ہیں ان کے حالات آپ کو پہنچ چکے ہیں، آپ خوب جانتے ہیں کہ کس طرح ان کی نصرت و تائید ہوئی اور مخالفین پر انہیں کامیابی حاصل ہوئی ، وَإِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَيْكَ إِعْرَاضُهُمْ فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَبْتَغِيَ نَفَقًا فِي الْأَرْضِ أَوْ سُلَّمًا فِي السَّمَاءِ فَتَأْتِيَهُمْ بِآيَةٍ ۚ اگر آپ کو ان کا اعراض گراں گزرتا ہے تو اگر آپ کو یہ قدرت ہے کہ زمین میں کوئی سرنگ یا آسمان میں کوئی سیڑھی ڈھونڈ لو اور پھر کوئی معجزہ لے آؤ پھر فرماتا ہے اگر ان کی یہ بےرخی تجھ پر گراں گزرتی ہے اگر تجھ سے ہو سکے تو زمین میں کوئی سرنگ کھو دلے اور جو معجزہ یہ تجھ سے مانگتے ہیں لا دے یا تیرے بس میں ہو تو کوئی زینہ لگا کر آسمان پر چڑھ جا اور وہاں سے ان کی چاہت کی کوئی نشانی لے آ ۔ میں نے تجھے اتنی نشانیاں اس قدر معجزے دیئے ہیں کہ ایک اندھا بھی شک نہ کرسکے ۔ اب ان کی طلب معجزات محض مذاق ہے اور عناد و ضد ہے کوئی ضرورت نہیں کہ تو انہیں ان کی چاہت کے معجزے ہر وقت دیکھتا پھرے، وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَى الْهُدَى ۚ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْجَاهِلِينَ تو اور اگر اللہ کو منظور ہو تو ان سب کو جمع کر دینا سو آپ نادانوں میں سے نہ ہو جایئے ۔ (۳۵) یا اگر وہ تیرے بس کے نہ ہوں تو غم کر کے رہو، اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو ہدایت پر متفق کر دیتا، تجھے نادانوں میں نہ ملنا چاہیےجیسے اور آیت میں ہے : وَلَوْ شَاء رَبُّكَ لآمَنَ مَن فِي الأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا اگر رب چاہتا تو روئے زمین کی مخلوق کو مؤمن بنا دیتا، (۱۰:۹۹) آپ کی حرص تھی کہ سب لوگ ایماندار بن کر آپ کی تابعداری کریں تو رب نے فرما دیا کہ یہ سعادت جس کے حصے میں ہے توفیق اسی کی رفیق ہو گئی ۔ إِنَّمَا يَسْتَجِيبُ الَّذِينَ يَسْمَعُونَ ۘ وہ ہی لوگ قبول کرتے ہیں جو سنتے ہیں پھر فرمایا کہ آپ کی دعوت پر لبیک کہنا اسے نصیب ہو گی جو کان لگا کر آپ کے کام کو سنے سمجھے یاد رکھے اور دل میں جگہ دے ، جیسے اور آیت میں ہے: لِّيُنذِرَ مَن كَانَ حَيّاً وَيَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَى الْكَـفِرِينَ ( یہ اسے آگاہ کرتا ہے جو زندگی ہو ، کفار پر تو کلمہ عذاب ثابت ہو چکا ہے ۔ ۳۶:۷۰) وَالْمَوْتَى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ ثُمَّ إِلَيْهِ يُرْجَعُونَ اور مردوں کو اللہ زندہ کر کے اٹھائے گا پھر سب اللہ ہی کی طرف لائے جائیں گے (۳۶) اللہ تعالیٰ مردوں کو اٹھا کر بٹھائے گا پھر اسی کی طرف سب کے سب لوٹائے جائیں گے ۔ مردوں سے مراد یہاں کفار ہیں کیونکہ وہ مردہ دل ہیں تو انہیں مردہ جسموں سے تشبیہ دی ۔ جس میں ان کی ذلت و خواری ظاہر ہوتی ہے ۔ وَقَالُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِنْ رَبِّهِ ۚ اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ ان پر کوئی معجزہ کیوں نہیں نازل کیا گیا ان کے رب کی طرف سے کافر لوگ بطور اعتراض کہا کرتے تھے کہ جو معجزہ ہم طلب کرتے ہیں یہ کیوں نہیں دکھاتے ؟ مثلاً عرب کی کل زمین میں چشموں اور آبشاروں کا جاری ہو جانا وغیرہ ، لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الاٌّرْضِ يَنْبُوعًا انہوں نے کہا کہ ہم آپ پر ہرگز ایمان لانے کے نہیں تا وقتیکہ آپ ہمارے لئے زمین سے کوئی چشمہ جاری نہ کر دیں۔ (۱۷:۹۰) قُلْ إِنَّ اللَّهَ قَادِرٌ عَلَى أَنْ يُنَزِّلَ آيَةً وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ آپ فرما دیجئے کہ اللہ تعالیٰ کو بیشک پوری قدرت ہے اس پر کہ وہ معجزہ نازل فرما دے لیکن ان میں اکثر بےخبر ہیں (۳۷) فرماتا ہے کہ قدرت الہٰی سے تو کوئی چیز باہر نہیں لیکن اس وقت حکمت الہٰیہ کا تقاضا یہ نہیں ۔ اس میں ایک ظاہری حکمت تو یہ ہے کہ تمہارے چاہے ہوئے معجزے کو دیکھ لینے کے بعد بھی اگر تم ایمان نہ لائے تو اصول الہٰیہ کے مطابق تم سب کو اسی جگہ ہلاک کر دیا جائے گا جیسے تم سے اگلے لوگوں کے ساتھ ہوا، ثمودیوں کی نظیر تمہارے سامنے موجود ہے وَمَا مَنَعَنَآ أَن نُّرْسِلَ بِالاٌّيَـتِ ... وَمَا نُرْسِلُ بِالاٌّيَـتِ إِلاَّ تَخْوِيفًا ہمیں نشانات (معجزات) کے نازل کرنے سے روک صرف اسی کی ہے کہ اگلے لوگ انہیں جھٹلا چکے ہیں ہم نے ثمودیوں کو بطور بصیرت کے اونٹنی دی لیکن انہوں نے اس پر ظلم کیا ہم تو لوگوں کو دھمکانے کے لئے ہی نشانی بھیجتے ہیں۔ (۱۷:۵۹) ہم تو جو چاہیں نشان بھی دکھا سکتے ہیں اور جو چاہیں عذاب بھی کر سکتے ہیں، إِن نَّشَأْ نُنَزِّلْ عَلَيْهِمْ مِّنَ السَّمَآءِ ءَايَةً فَظَلَّتْ أَعْنَـقُهُمْ لَهَا خَـضِعِينَ اگر ہم چاہتے تو ان پر آسمان سے کوئی ایسی نشانی اتارتے کہ جس کے سامنے ان کی گردنیں خم ہوجاتیں (۲۶:۴) وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ ۚ مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ ۚ اور جتنے قسم کے جاندار زمین پر چلنے والے ہیں اور جتنے قسم کے پرند جانور ہیں کہ اپنے دونوں بازؤں سے اڑتے ہیں ان میں کوئی قسم ایسی نہیں جو کہ تمہاری طرح کے گروہ نہ ہوں ہم نے دفتر میں کوئی چیز نہیں چھوڑی چرنے چگنے والے جانور اڑنے والے پرند بھی تمہاری طرح قسم قسم کے ہیں مثلاً پرند ایک اُمت ، انسان ایک اُمت، جنات ایک اُمت وغیرہ، یا یہ کہ وہ بھی سب تمہاری ہی طرح مخلوق ہیں ،سب پر اللہ کا علم محیط ہے ، سب اس کی کتاب میں لکھے ہوئے ہیں، نہ کسی کا وہ رزق بھولے نہ کسی کی حاجت اٹکے نہ کسی کی حسن تدبیر سے وہ غافل خشکی تری کا ایک ایک جاندار اس کی حفاظت میں ہے ۔ جیسے فرمان ہے : وَمَا مِن دَآبَّةٍ فِي الاٌّرْضِ إِلاَّ عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا كُلٌّ فِى كِتَابٍ مُّبِينٍ زمین پر چلنے پھرنے والے جتنے جاندار ہیں سب کی روزیاں اللہ تعالیٰ پر ہیں وہی ان کے رہنے سہنے کی جگہ کو جانتا ہے اور ان کے سونپے جانے کی جگہ کو بھی، سب کچھ واضح کتاب میں موجود ہے۔ (۱۱:۶) ان کے نام، ان کی گنتی ، ان کی حرکات و سکنات سب سے وہ واقف ہے اس کے وسیع علم سے کوئی چیز خارج اور باہر نہیں اور مقام پر ارشاد ہے: وَكَأَيِّن مِّن دَآبَّةٍ لاَّ تَحْمِلُ رِزْقَهَا اللَّهُ يَرْزُقُهَا وَإِيَّاكُمْ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيم بہت سے وہ جاندار ہیں جن کی روزی تیرے ذمہ نہیں انہیں اور تم سب کو اللہ ہی روزیاں دیتا ہے وہ باریک آواز کو سننے والا ہے اور ہر چھوٹی بڑی چیز کا جاننے والا ہے ، (۲۹:۶۰) ابو یعلی ٰمیں حضرت جابر بن عبداللہ سے مروی ہے : حضرت عمر ؓکی دو سال کی خلافت کے زمانہ میں سے ایک سال ٹڈیاں دکھائی ہی نہیں دیں تو آپ کو بہت خیال ہوا اور شام عراق یمن وغیرہ کی طرف سوار دوڑائے کہ دریافت کر آئیں کہ ٹڈیاں اس سال کہیں نظر بھی پڑیں یا نہیں؟ یمن و الا قاصد جب واپس آیا تو آپ نے ساتھ مٹھی بھر ٹڈیاں بھی لیتا آیا اور حضرت فاروق اعظم کے سامنے ڈال دیں آپ نے انہیں دیکھ کر تین مرتبہ تکبیر کہی اور فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ اللہ عزوجل نے ایک ہزار اُمتیں پیدا کی ہیں جن میں سے چھ سو تری میں ہیں اور چار سو خشکی میں ۔ ان تمام اُمتوں میں سے سب سے پہلے ٹڈی ہلاک ہو گی اس کے بعد تو ہلاکت کا سلسلہ شروع ہو جائے گا بالکل اس طرح جیسے کسی تسبیح کا دھاگہ ٹوٹ گیا اور موتی یکے بعد دیگرے جھڑنے لگ گئے ، ثُمَّ إِلَى رَبِّهِمْ يُحْشَرُونَ پھر سب اپنے پروردگار کے پاس جمع کئے جائیں گے ۔ (۳۸) پھر فرماتا ہے سب کا حشر اللہ کی طرف ہے یعنی سب کو موت ہے ، چوپایوں کی موت ہی ان کا حشر ہے ، ایک قول تو یہ ہے ، دوسرا قول یہ ہے کہ میدان محشر میں بروز قیامت یہ بھی اللہ جل شانہ کے سامنے جمع کئے جائیں گے جیسے فرمایا: وَإِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَتْ اور جب وحشی جانور اکھٹے کئے جائیں گے (۸۱:۵) مسند احمد میں ہے: دو بکریوں کو آپس میں لڑتے ہوئے دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوذر ؓسے دریافت فرمایا کہ جانتے ہو یہ کیوں لڑ رہی ہیں؟ جواب ملا کہ میں کیا جانوں؟ فرمایا لیکن اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور ان کے درمیان وہ فیصلہ بھی کرے گا ، ابن جریر کی ایک اور روایت میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ اڑنے والے ہر ایک پرند کا علم بھی ہمارے سامنے بیان کیا گیا ہے ، مسند کی اور روایت میں ہے کہ بےسینگ بکری قیامت کے دن سینگ والی بکری سے اپنا بدلہ لے گی ۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے: تمام مخلوق چوپائے بہائم پرند وغیرہ غرض تمام چیزیں اللہ کے سامنے حاضر ہوں گی ۔ پھر ان میں یہاں تک عدل ہو گا کہ بےسینگ والی بکری کو اگر سینگ والی بکری نے مارا ہو گا تو اس کا بھی بدلہ دلوایا جائے گا پھر ان سے جناب باری فرمائے گا تم مٹی ہو جاؤ ۔ اس وقت کافر بھی یہی آرزو کریں گے کہ کاش ہم بھی مٹی ہو جاتے ۔ صور والی حدیث میں یہ مرفوعاً بھی مروی ہے ۔ وَالَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا صُمٌّ وَبُكْمٌ فِي الظُّلُمَاتِ ۗ اور جو لوگ ہماری آیتوں کی تکذیب کرتے ہیں وہ تو طرح طرح کی ظلمتوں میں بہرے گونگے ہو رہے ہیں کافر اپنی کم علمی اور کج فہمی میں ان بہروں گونگوں کے مثل ہیں جو اندھیروں میں ہوں ۔ بتاؤ تو وہ کیسے راہ راست پر آ سکتے ہیں؟ نہ کسی کی سنیں نہ اپنی کہیں نہ کچھ دیکھ سکیں ۔ جیسے سورہ بقرہ کی ابتداء میں ہے: مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِى اسْتَوْقَدَ نَاراً ... فَهُمْ لاَ يَرْجِعُونَ ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی، پس آس پاس کی چیزیں روشنی میں آئی ہی تھیں کہ اللہ ان کے نور کو لے گیا اور انہیں اندھیروں میں چھوڑ دیا، جو نہیں دیکھتے۔ بہرے، گونگے، اندھے ہیں۔ پس وہ نہیں لوٹیں گے (سیدھے راستے کی طرف) (۲:۱۷،۱۸) اور آیت میں ہے: أَوْ كَظُلُمَـتٍ فِى بَحْرٍ لُّجِّىٍّ يَغْشَـهُ مَوْجٌ مِّن فَوْقِهِ ... لَهُ نُوراً فَمَا لَهُ مِن نُورٍ یا مثل ان اندھیروں کے ہے جو نہایت گہرے سمندر کی تہہ میں ہوں جسے اوپر تلے کی موجوں نے ڈھانپ رکھا ہو پھر اوپر سے بادل چھائے ہوئے ہوں۔ الغرض اندھیریاں ہیں جو اوپر تلے پے درپے ہیں۔ جب اپنا ہاتھ نکالے تو اسے بھی قریب ہے کہ نہ دیکھ سکے اور بات یہ ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ ہی نور نہ دے اس کے پاس کوئی روشنی نہیں ہوتی۔ (۲۴:۴۰) مَنْ يَشَإِ اللَّهُ يُضْلِلْهُ وَمَنْ يَشَأْ يَجْعَلْهُ عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ اللہ جس کو چاہے بے راہ کر دے’جس کو چاہے سیدھی راہ پر لگا دے۔ (۳۹) پھر فرمایا ساری مخلوق میں اللہ ہی کا تصرف ہے وہ جسے چاہے صراط مستقیم پر کر دے ۔ قُلْ أَرَأَيْتَكُمْ إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ أَغَيْرَ اللَّهِ تَدْعُونَ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ آپ کہئے کہ اپنا حال تو بتلاؤ کہ اگر تم پر اللہ کا کوئی عذاب آپڑے یا تم پر قیامت ہی آپہنچے تو کیا اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے۔ اگر تم سچے ہو۔ (۴۰) مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے تمام مخلوق اس کے آگے پست و لا چار ہے جو چاہتا ہے حکم کرتا ہے ، اس کا کوئی ارادہ بدلتا نہیں، اس کا کوئی حکم ٹلتا نہیں کوئی نہیں جو اس کی چاہت کے خلاف کر سکے یا اس کے حکم کو ٹال سکے یا اس کی قضا کو پھیر سکے وہ سارے ملک کا تنہا مالک ہے اس کی کسی بات میں کوئی شریک یا دخیل نہیں جو اسے مانگے وہ اسے دیتا ہے ، جس کی چاہے دعا قبول فرماتا ہے بَلْ إِيَّاهُ تَدْعُونَ فَيَكْشِفُ مَا تَدْعُونَ إِلَيْهِ إِنْ شَاءَ وَتَنْسَوْنَ مَا تُشْرِكُونَ بلکہ خاص اسی کو پکارو گے، پھر جس کے لئے تم پکارو گے اگر وہ چاہے تو اس کو ہٹا بھی دے اور جن کو شریک ٹھہراتے ہو ان سب کو بھول بھال جاؤ گے (۴۱) پس فرماتا ہے خود تمہیں بھی ان تمام باتوں کا علم و اقرار ہے یہی وجہ ہے کہ آسمانی سزاؤں کے آ پڑنے پر تم اپنے تمام شریکوں کو بھول جاتے ہو اور صرف اللہ واحد کو پکارتے ہو، اگر تم سچے ہو کہ اللہ کے ساتھ اس کے کچھ اور شریک بھی ہیں تو ایسے کٹھن موقعوں پر ان میں سے کسی کو کیوں نہیں پکارتے؟ بلکہ صرف اللہ واحد کو پکارتے ہو اور اپنے تمام معبودان باطل کو بھول جاتے ہو، چنانچہ اور آیت میں ہے: وَإِذَا مَسَّكُمُ الْضُّرُّ فِى الْبَحْرِ ضَلَّ مَن تَدْعُونَ إِلاَ إِيَّاهُ اور سمندروں میں مصیبت پہنچتے ہی جنہیں تم پکارتے تھے سب گم ہو جاتے ہیں صرف وہی اللہ باقی رہ جاتا ہے (۱۷:۶۷) وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَى أُمَمٍ مِنْ قَبْلِكَ فَأَخَذْنَاهُمْ بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ اور ہم نے اور اُمتوں کی طرف بھی جو کہ آپ سے پہلے گزر چکی ہیں پیغمبر بھیجے تھے، سو ہم نے ان کو تنگدستی اور بیماری سے پکڑا، تاکہ وہ اظہار عجز کر سکیں۔ (۴۲) ہم نے اگلی اُمتوں کی طرف بھی رسول بھیجے پھر ان کے نہ ماننے پر ہم نے انہیں فقرو فاقہ میں تنگی ترشی میں بیماریوں اور دکھ درد میں مبتلا کر دیا کہ اب بھی وہ ہمارے سمانے گریہ و زاری کریں عاجزانہ طور پر ہمارے سامنے جھک جائیں، ہم سے ڈر جائیں اور ہمارے دامن سے چمٹ جائیں، فَلَوْلَا إِذْ جَاءَهُمْ بَأْسُنَا تَضَرَّعُوا سو جب ان کو ہماری سزا پہنچتی تھی تو انہوں نے عاجزی کیوں اختیار نہیں کی، پھر انہوں نے ہمارے عذابوں کے آ جانے کے بعد بھی ہمارے سامنے عاجزی کیوں نہ کی؟مسکینی کیوں نہ جتائی ؟ وَلَكِنْ قَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ لیکن ان کے قلوب سخت ہوگئے اور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے خیال میں آراستہ کر دیا (۴۳) بلکہ انکے دل سخت ہو گئے ، شرک ، دشمنی ، ضد ، تعصب ، سرکشی ، نافرمانی وغیرہ کو شیطان نے انہیں بڑا حسن میں دکھایا اور یہ اس پر جمے رہے، فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ پھر جب وہ لوگ ان چیزوں کو بھولے رہے جس کی ان کو نصیحت کی جاتی تھی تو ہم نے ان پر ہرچیز کے دروازے کشادہ کر دیئے جب یہ لوگ ہماری باتوں کو فراموش کر گئے ہماری کتاب کو پس پشت ڈال دیا ہمارے فرمان سے منہ موڑ لیا تو ہم نے بھی انہیں ڈھیل دے دی کہ یہ اپنی برائیوں میں اور آگے نکل جائیں ، ہر طرح کی روزیاں اور زیادہ سے زیادہ مال انہیں دیتے رہے حَتَّى إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُمْ بَغْتَةً فَإِذَا هُمْ مُبْلِسُونَ یہاں تک کہ جب ان چیزوں پر جو کہ ان کو ملی تھیں وہ خوب اترا گئے ہم نے ان کو دفعتاً پکڑ لیا، پھر تو وہ بالکل مایوس ہوگئے۔ (۴۴) یہاں تک کہ مال اولاد و رزق وغیرہ کی وسعت پر وہ بھولنے لگے اور غفلت کے گہرے گڑھے میں اتر گئے تو ہم نے انہیں ناگہاں پکڑ لیا، اس وقت وہ مایوس ہو گئے ، امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کا صوفیانہ مقولہ ہے: جس نے کشادگی کے وقت اللہ تعالیٰ کی ڈھیل نہ سمجھی وہ محض بےعقل ہے اور جس نے تنگی کے وقت رب کی رحمت کی امید چھوڑ دی وہ بھی محض بیوقوف ہے ۔ پھر آپ اسی آیت کی تلاوت فرماتے ہیں رب کعبہ کی قسم ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی چاہتوں کو پوری ہوتے ہوئے دیکھ کر اللہ کو بھول جاتے ہیں اور پھر رب کی گرفت میں آ جاتے ہیں ، حضرت قتادہ کا فرمان ہے: جب کوئی قوم اللہ کے فرمان سے سر تابی کرتی ہے تو اول تو انہیں دنیا خوب مل جاتی ہے جب وہ نعمتوں میں پڑ کر بد مست ہو جاتے ہیں تو اچانک پکڑ لئے جاتے ہیں لوگو اللہ کی ڈھیل کو سمجھ جایا کرو نا فرمانیوں پر نعمتیں ملیں تو غافل ہو کر نا فرمانیوں میں بڑھ نہ جاؤ ۔ اس لئے کہ یہ تو بدکار اور بےنصیب لوگوں کا کام ہے ، زہری فرماتے ہیں ہر چیز کے دروازے کھول دینے سے مراد دنیا میں آسائش و آرام کا دینا ہے ، مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : جب تم دیکھو کہ کسی گنہگار شخص کو اس کی گنہگاری کے باوجود اللہ کی نعمتیں دنیا میں مل رہی ہیں تو اسے استدراج سمجھنا یعنی وہ ایک مہلت ہے ، پھر حضور نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی اور حدیث میں ہے: جب کسی قوم کی بربادی کا وقت آ جاتا ہے تو ان پر خیانت کا دروازہ کھل جاتا ہے یہاں تک کہ وہ ان دی گئی ہوئی چیزوں پر اترانے لگتے ہیں تو ہم انہیں نا گہاں پکڑ لیتے ہیں اور اس وقت وہ محض نا امید ہو جاتے ہیں۔ (مسند) فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا ۚ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ پھر ظالم لوگوں کی جڑ کٹ گئی اور اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جو تمام عالم کا پروردگار ہے۔ (۴۵) پھر فرمایا ظالموں کی باگ ڈور کاٹ دی جاتی ہے ۔ تعریفوں کے لائق وہ معبود بر حق ہے جو سب کا پالنہار ہے قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَخَذَ اللَّهُ سَمْعَكُمْ وَأَبْصَارَكُمْ وَخَتَمَ عَلَى قُلُوبِكُمْ مَنْ إِلَهٌ غَيْرُ اللَّهِ يَأْتِيكُمْ بِهِ ۗ آپ کہئے کہ یہ بتلاؤ اگر اللہ تعالیٰ تمہاری سماعت اور بصارت بالکل لے لے اور تمہارے دلوں پر مہر کر دے تو اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی معبود نہیں ہے کہ یہ تم کو پھیر دے۔ فرمان ہے کہ ان مخالفین اسلام سے پوچھو تو کہ اگر اللہ تعالیٰ تم سے تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں چھین لے جیسے کہ اس نے تمہیں دیئے ہیں جیسے فرمان ہے: هُوَ الَّذِى أَنشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالاٌّبْصَـرَ اللہ خالق کل وہ ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور تمہیں سننے کو کان اور دیکھنے کو آنکھیں دیں، (۶۷:۲۳) یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مراد چھین لینے سے شرعی نفع نہ پہنچانا ہو اس کی دلیل اس کے بعد کا جملہ دل پر مہر لگا دینا ہے ، جیسے فرمان ہے: أَمَّن يَمْلِكُ السَّمْعَ والاٌّبْصَـرَ وہ کون ہے جو کانوں اور آنکھوں پر پورا اختیار رکھتا ہے (۱۰:۳۱) اور فرمان ہے: وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ جان لو کہ اللہ تعالیٰ انسان کے اور اس کے دل کے درمیان حائل ہے ، (۸:۲۴) انْظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ ثُمَّ هُمْ يَصْدِفُونَ آپ دیکھئے تو ہم کس طرح دلائل کو مختلف پہلوؤں سے پیش کر رہے ہیں پھر بھی یہ اعراض کرتے ہیں ۔ (۴۶) یہاں ان سے سوال ہوتا ہے کہ بتلاؤ تو کہ اللہ کے سوا اور کوئی ان چیزوں کے واپس دلانے پر قدرت رکھتا ہے؟ یعنی کوئی نہیں رکھتا ، دیکھ لے کہ میں نے اپنی توحید کے کس قدر زبردست، پرزور صاف اور جچے تلے دلائل بیان کر دیئے ہیں اور یہ ثابت کر دیا کہ میرے سوا سب بےبس ہیں لیکن یہ مشرک لوگ باوجود اس قدر کھلی روشن اور صاف دلیلوں کے حق کو نہیں مانتے بلکہ اوروں کو بھی حق کو تسلیم کرنے سے روکتے ہیں ، قُلْ أَرَأَيْتَكُمْ إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ بَغْتَةً أَوْ جَهْرَةً هَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الظَّالِمُونَ آپ کہئے کہ یہ بتلاؤ اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آپڑے خواہ اچانک یا اعلانیہ تو کیا بجز ظالم لوگوں کے اور بھی کوئی ہلاک کیا جائے گا ۔ (۴۷) پھر فرماتا ہے ذرا اس سوال کا جواب بھی دو کہ اللہ کا عذاب تمہاری بےخبری میں یا ظاہر کھلم کھلا تمہارے پاس آ جائے تو کیا سوا ظالموں اور مشرکوں کے کسی اور کو بھی ہلاکت ہو گی؟ یعنی نہ ہو گی ۔ اللہ کی عبادت کرنے والے اس ہلاکت سے محفوظ رہیں گےجیسے اور آیت میں ہے: الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ جو لوگ ایمان رکھتے ہیں اور اپنے ایمان کو شرک کے ساتھ مخلوط نہیں کرتے۔ ایسوں ہی کے لئے امن ہے اور وہی راہ راست پر چل رہے ہیں (۶:۸۲) وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ ۖ اور ہم پیغمبروں کو صرف اس واسطے بھیجا کرتے ہیں کہ وہ بشارت دیں اور ڈرائیں پھر فرمایا کہ رسولوں کا کام تو یہی ہے کہ ایمان والوں کو ان کے درجوں کی خوشخبریاں سنائیں اور کفار کو اللہ کے عذاب سے ڈرائیں، فَمَنْ آمَنَ وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ پھر جو ایمان لے آئے وہ درستی کر لے سو ان لوگوں پر کوئی اندیشہ نہیں اور نہ وہ مغموم ہوں گے ۔ (۴۸) جو لوگ دل سے آپ کی بات مان لیں اور اللہ کے فرمان کے مطابق اعمال بجا لائیں ، انہیں آخرت میں کوئی ڈر خوف نہیں اور دنیا کے چھوڑنے پر کوئی ملال نہیں، ان کے بال بچوں کا اللہ والی ہے اور ان کے ترکے کا وہی حافظ ہے وَالَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا يَمَسُّهُمُ الْعَذَابُ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ اور جو لوگ ہماری آیتوں کو جھوٹا بتلائیں عذاب پہنچے گا بوجہ اس کے کہ وہ نافرمانی کرتے ہیں ۔ (۴۹) کافروں کو اور جھٹلانے والوں کو ان کے کفر و فسق کی وجہ سے بڑے سخت عذاب ہوں گے کیونکہ انہوں نے اللہ کے فرمان چھوڑ رکھے تھے اور اس کی نافرمانیوں میں مشغول تھے۔ اس کے حرام کردہ کاموں کو کرتے تھے اور اس کے بتائے ہوئے کاموں سے بھاگتے تھے ۔ قُلْ لَا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَيَّ ۚ آپ کہہ دیجئے کہ نہ تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔ میں تو صرف جو کچھ میرے پاس ہے وحی آتی ہے اس کا اتباع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ لوگوں میں اعلان کر دو کہ میں اللہ کے خزانوں کا مالک نہیں نہ مجھے ان میں کسی طرح کا اختیار ہے ، نہ میں یہ کہتا ہوں کہ میں غیب کا جاننے والا ہوں، رب نے جو چیزیں خاص اپنے علم میں رکھی ہیں مجھے ان میں سے کچھ بھی معلوم نہیں، ہاں جن چیزوں سے خود اللہ نے مجھے مطلع کر دے ان پر مجھے اطلاع ہو جاتی ہے ، میرا یہ بھی دعویٰ نہیں کہ میں کوئی فرشتہ ہوں، میں تو انسان ہوں، اللہ تعالیٰ نے مجھے جو شرف دیا ہے یعنی میری طرف جو وحی نازل فرمائی ہے میں اسی کا عمل پیرا ہوں، اس سے ایک بالشت ادھر ادھر نہیں ہٹتا ۔ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَى وَالْبَصِيرُ ۚ أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ آپ کہئے کہ اندھا اور بینا کہیں برابر ہو سکتے ہیں سو کیا تم غور نہیں کرتے۔ (۵۰) کیا حق کے تابعدار جو بصارت والے ہیں اور حق سے محروم جو اندھے ہیں برابر ہو سکتے ہیں؟ کیا تم اتنا غور بھی نہیں کرتے ؟ اور آیت میں ہے: أَفَمَن يَعْلَمُ أَنَّمَآ أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَ أَعْمَى إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُوْلُواْ الأَلْبَـبِ کیا وہ شخص جو جانتا ہے کہ جو کچھ تیری طرف تیرے رب کی جانب سے اترا ہے حق ہے اس شخص جیسا ہو سکتا ہے جو نابینا ہے؟ نصیحت تو صرف وہی حاصل کرتے ہیں جو عقلمند ہیں؟ (۱۳:۱۹) وَأَنْذِرْ بِهِ الَّذِينَ يَخَافُونَ أَنْ يُحْشَرُوا إِلَى رَبِّهِمْ ۙ لَيْسَ لَهُمْ مِنْ دُونِهِ وَلِيٌّ وَلَا شَفِيعٌ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ اور ایسے لوگوں کو ڈرائیے جو اس بات سے اندیشہ رکھتے ہیں کہ اپنے رب کے پاس ایسی حالت میں جمع کئے جائیں گے کہ جتنے غیر اللہ ہیں نہ ان کا کوئی مددگار ہوگا اور نہ کوئی شفاعت کرنے والا، اس امید پر کہ وہ ڈر جائیں ۔ (۵۱) اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ قرآن کے ذریعہ انہیں راہ راست پر لائیں جو رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف دل میں رکھتے ہیں، الَّذِينَ هُم مِّنْ خَشْيةِ رَبِّهِمْ مُّشْفِقُونَ یقیناً جو لوگ اپنے رب کی ہیبت سے ڈرتے ہیں۔ (۲۳:۵۷) یعنی حساب کا کھٹکار رکھتے ہیں، جانتے ہیں کہ رب کے سامنے پیش ہونا ہے يَخْشَوْنَ رَبَّهُموَيَخَافُونَ سُوءَ الحِسَابِ اور وہ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں اور حساب کی سختی کا اندیشہ رکھتے ہیں (۱۳:۲۱) اس دن اس کے سوا اور کوئی ان کا قریبی یا سفارشی نہ ہو گا، وہ اگر عذاب کرنا چاہے تو کوئی شفاعت نہیں کر سکتا ۔ یہ تیرا ڈرانا اس لئے ہے کہ شاید وہ متقی بن جائیں حاکم حقیقی سے ڈر کر نیکیاں کریں اور قیامت کے عذابوں سے چھوٹیں اور ثابت کے مستحق بن جائیں ، وَلَا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ ۖ اور ان لوگوں کو نہ نکالئے جو صبح شام اپنے پروردگار کی عبادت کرتے ہیں، خاص اسکی رضامندی کا قصد رکھتے ہیں پھر فرماتا ہے یہ مسلمان غرباء جو صبح شام اپنے پروردگار کا نام جپتے ہیں خبردار انہیں حقیر نہ سمجھنا انہیں اپنے پاس سے نہ ہٹانا بلکہ انہی کو اپنی صحبت میں رکھ کر انہی کے ساتھ بیٹھ اٹھ ۔ جیسے اور آیت میں ہے: وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ ... كَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا اور اپنے آپ کو انہیں کے ساتھ رکھا کر جو اپنے پروردگار کو صبح شام پکارتے ہیں اور اسی کے چہرے کے ارادے رکھتے(رضا مندی چاہتے) ہیں خبردار! تیری نگاہیں ان سے نہ ہٹنے پائیں کہ دنیاوی زندگی کے ٹھاٹھ کے ارادے میں لگ جا۔ دیکھ اس کا کہنا نہ ماننا جسکے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کر دیا ہے اور جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہے اور جس کا کام حد سے گزر چکا ہے ۔ (۱۸:۲۸) بلکہ ان کا ساتھ دے جو صبح شام اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور اسی سے دعائیں مانگتے ہیں بعض بزرگ فرماتے ہیں مراد اس سے فرض نمازیں ہیں اور آیت میں ہے: وَقَالَ رَبُّكُـمْ ادْعُونِى أَسْتَجِبْ لَكُمْ تمہارے رب کا اعلان ہے کہ مجھ سے دعائیں کرو میں قبول کروں گا (۴۰:۶۰) ان اطاعتوں اور عبادتوں سے ان کا ارادہ اللہ کریم کے دیدار کا ہے ، محض خلوص اخلاص والی ان کی نیتیں ہیں ، مَا عَلَيْكَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِنْ شَيْءٍ وَمَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَيْهِمْ مِنْ شَيْءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُونَ مِنَ الظَّالِمِينَ ان کا حساب ذرا بھی آپ کے متعلق نہیں اور آپ کا حساب ذرا بھی ان کے متعلق نہیں کہ آپ ان کو نکال دیں۔ ورنہ آپ ظلم کرنے والوں میں سے ہوجائیں گے۔ (۵۲) ان کا کوئی حساب تجھ پر نہیں نہ تیرا کوئی حساب ان پر ، جناب نوح علیہ السلام سے جب ان کی قوم کے شرفا نے کہا تھا کہ ہم تجھے کیسے مان لیں تیرے ماننے والے تو اکثر غریب مسکین لوگ ہیں تو آپ نے یہی جواب دیا : قَالَ وَمَا عِلْمِي بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ـ إِنْ حِسَابُهُمْ إِلَّا عَلَى رَبِّي لَوْ تَشْعُرُونَ آپ نے فرمایا! مجھے کیا خبر کہ وہ پہلے کیا کرتے رہے ان کا حساب تو میرے رب کے ذمہ ہے اگر تمہیں شعور ہو تو۔ (۲۶:۱۱۲،۱۱۳) پھر بھی تم نے ان غریب مسکین لوگوں کو اپنی مجلس میں نہ بیٹھنے دیا ان سے ذرا بھی بےرخی کی تو یاد رکھنا تمہارا شمار بھی ظالموں میں ہو جائے گا مسند احمد میں ہے کہ قریش کے بڑے لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اس وقت آپ کی مجلس مبارک میں حضرت صہیب رضی اللہ عنہ ، حضرت بلال رضی اللہ عنہ ، حضرت خباب رضی اللہ عنہ، حضرت عمار رضی اللہ عنہ تھے، انہیں دیکھ کر یہ لوگ کہنے لگے دیکھو تو ہمیں چھوڑ کر کن کے ساتھ بیٹھے ہیں؟ تو آیت وَأَنذِرْ بِهِ سے بِالشَّاكِرِينَ (۶:۵۱،۵۳) تک اتری ۔ ابن جریر میں ہے: ان لوگوں اور ان جیسے اوروں کو حضور کی مجلس میں دیکھ کر مشرک سرداروں نے یہ بھی کہا تھا کہ کیا یہی لوگ رہ گئے ہیں کہ اللہ نے ہم سب میں سے چن چن کر انہی پر احسان کیا؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ یہ بے سہارا لوگ بھی ہم امیروں رئیسوں کے برابر بیٹھیں دیکھئے حضرت اگر آپ انہیں اپنی مجلس سے نکال دیں تو وہ آپ کی مجلس میں بیٹھ سکتے ہیں اس پر آیت وَلَا تَطْرُدِ الَّذِينَ سے بِالشَّاكِرِينَ (۶:۵۲،۵۳) تک اتری ۔ ابن ابی حاتم میں قریش کے ان معززین لوگوں میں سے دو کے نام یہ ہیں اقرع بن حابس تیمی، عینیہ بن حصن فزاری ، اس روایت میں یہ بھی ہے: تنہائی میں مل کر انہوں نے حضورﷺ کو سمجھایا کہ ان غلام اور گرے پڑے بےحیثیت لوگوں کے ساتھ ہمیں بیٹھتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے ، آپ کی مجلس میں عرب کا وفد آیا کرتے ہیں وہ ہمیں ان کے ساتھ دیکھ کر ہمیں بھی ذلیل خیال کریں گے تو آپ کم سے کم اتنا ہی کیجئے کہ جب ہم آئیں تب خاص مجلس ہو اور ان جیسے گرے پڑے لوگ اس میں شامل نہ کئے جائین، ہاں جب ہم نہ ہوں تو آپ کو اختیار ہے جب یہ بات طے ہو گئی اور آپ نے بھی اس کا اقرار کر لیا تو انہوں نے کہا ہمارا یہ معاہدہ تحریر میں آ جانا چاہیے آپ ﷺنے کاغذ منگوایا اور حضرت علیؓ کو لکھنے کیلئے بلوایا،مسلمانوں کا یہ غریب طبقہ ایک کونے میں بیٹھا ہوا تھا اسی وقت حضرت جبرائیل اترے اور یہ آیت نازل ہوئی حضور ﷺنے کاغذ پھینک دیا اور ہمیں اپنے پاس بلا لیا اور ہم نے پھر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے حلقے میں لے لیا ، لیکن یہ حدیث غریب ہے آیت مکی ہے اور اقرع اور عینیہ ہجرت کے بہت سارے زمانے کے بعد اسلام میں آئے ہیں حضرت سعدؓ فرماتے ہیں کہ یہ آیت چھ اصحاب نبی ﷺ کے بارے میں اتری ہے جن میں سے ایک حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے ہم لوگ سب سے پہلے خدمت نبوی میں جاتے اور آپ کے اردگرد بیٹھتے تاکہ پور طرح اور شروع سے آخر تک آپ کی حدیثیں سنیں ۔ قریش کے بڑے لوگوں پر یہ بات گراں گزرتی تھی اس کے برخلاف یہ آیت اتری (مستدرک حاکم) وَكَذَلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لِيَقُولُوا أَهَؤُلَاءِ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنْ بَيْنِنَا ۗ اور اسی طرح ہم نے بعض کو بعض کے ذریعہ سے آزمائش میں ڈال رکھا ہے تاکہ یہ لوگ کہا کریں، کیا یہ وہ لوگ ہیں کہ ہم سب میں سے ان پر اللہ تعالیٰ نے فضل کیا (۱۱:۲۷) پھر فرماتا ہے اسی طرح ہم ایک دوسرے کو پرکھ لیتے ہیں اور ایک سے ایک کا امتحان لے لیتے ہیں کہ یہ امرا ءان غرباء سے متعلق اپنی رائے ظاہر کر دیں کہ کیا یہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے احسان کیا اور ہم سب میں سے اللہ کو یہی لوگ پسند آئے ؟ حضور ﷺ کو سب سے پہلے تسلیم کرنے والے یہی بیچارے بےمایہ غریب غرباء لوگ تھے مرد عورت لونڈی غلام وغیرہ، بڑے بڑے اور ذی وقعت لوگوں میں سے تو اس وقت یونہی کوئی اِکا دُکا آ گیا تھا ۔ یہی لوگ دراصل انبیاء علیہم السلام کے مطیع اور فرمانبردار ہوتے رہے ۔ قوم نوح نے کہا تھا: مَا نَرَاكَ إِلاَّ بَشَرًا مِّثْلَنَا وَمَا نَرَاكَ اتَّبَعَكَ إِلاَّ الَّذِينَ هُمْ أَرَاذِلُنَا بَادِيَ الرَّأْيِ ہم تو تجھے اپنے جیسا انسان ہی دیکھتے ہیں اور تیرے تابعداروں کو بھی ہم دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ واضح طور پر سوائے نیچ لوگوں کے شاہ روم ہرقل نے جب ابو سفیان سے حضور ﷺ کی بابت یہ دریافت کیا کہ شریف لوگوں نے اس کی پیروی اختیار کی ہے یا ضعیف لوگوں نے ؟ تو ابو سفیان نے جواب دیا تھا کہ ضعیف لوگوں نے، بادشاہ نے اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ فی الواقع تمام نبیوں کا اول پیرو کار یہی طبقہ ہوتا ہے ، الغرض مشرکین مکہ ان ایمان داروں کا مذاق اڑاتے اور انہیں ستاتے تھے جہاں تک بس چلتا انہیں سزائیں دیتے اور کہتے کہ یہ ناممکن ہے کہ بھلائی انہیں تو نظر آ جائے اور ہم یونہی رہ جائیں؟ قرآن میں ان کا قول یہ بھی ہے: لَوْ كَانَ خَيْرًا مَا سَبَقُونَا إِلَيْهِ اگر یہ بہتر چیز ہوتی تو اس کے قبول کرنے میں یہ ہم سے سبقت نہ کرتے (۴۶:۱۱) اور آیت میں ہے: وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ ءَايَـتُنَا بِيِّنَـتٍ قَالَ الَّذِينَ كَفَرُواْ لِلَّذِينَ ءَامَنُواْ أَىُّ الْفَرِيقَيْنِ خَيْرٌ مَّقَاماً وَأَحْسَنُ نَدِيّاً جب انکے سامنے ہماری صاف اور واضح آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں تو یہ کفار ایمانداروں سے کہتے یہی کہ بتاؤ تو مرتبے میں عزت میں حسب نسب میں کون شریف ہے (۱۹:۷۳) اس کے جواب میں رب نے فرمایا: وَكَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّن قَرْنٍ هُمْ أَحْسَنُ أَثَاثاً وَرِءْياً ان سے پہلے ہم نے بہت سی بستیاں تباہ کر دی ہیں جو باعتبار سامان و اسباب کے اور باعتبار نمود و ریا کے ان سے بہت ہی آگے بڑھی ہوئی تھیں ، (۱۹:۷۴) أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِالشَّاكِرِينَ کیا یہ بات نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ شکرگزاروں کو خوب جانتا ہے (۵۳) چنانچہ یہاں بھی ان کے ایسے ہی قول کے جواب میں فرمایا گیا کہ شکر گزاروں تو اللہ کو رب جانتا ہے جو اپنے اقوال و افعال اور ولی ارادوں کو درست رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں سلامتیوں کی راہیں دکھاتا ہے اور اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے اورصحیح راہ کی رہنمائی کرتا ہے ، جیسے فرمان ہے: وَالَّذِينَ جَـهَدُواْ فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ لوگ ہماری فرمانبرداری کی کوشس کرتے ہیں ہم انہیں اپنی صحیح رہ پر لگا دیتے ہیں اللہ تعالیٰ نیک کاروں کا ساتھ دیتا ہے، (۲۹:۶۹) صحیح حدیث میں ہے: اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور رنگوں کو نہیں دیکھتا بلکہ نیتوں اور اعمال کو دیکھتا ہے ، عکرمہ فرماتے ہیں: ربیعہ کے دونوں بیٹے عتبہ اور شیبہ اور عدی کا بیٹا مطعم اور نوفل کا بیٹا حارث اور عمرو کا بیٹا قرطہ اور ابن عبد مناف کے قبیلے کے کافر سب کے سب جمع ہو کر ابو طالب کے پاس گئے اور کہنے لگے دیکھ آپ کے بھتیجے اگر ہماری ایک درخواست قبول کر لیں تو ہمارے دلوں میں ان کی عظمت و عزت ہو گی اور پھر ان کی مجلس میں بھی آمدو رفت شروع کر دیں گے اور ہو سکتا ہے کہ ان کی سچائی سمجھ میں آ جائے اور ہم بھی مان لیں ، ابو طالب نے قوم کے بڑوں کا یہ پیغام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچایا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اس وقت اس مجلس میں تھے فرمانے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کرنے میں کیا حرج ہے؟ اللہ عزوجل نے وَأَنذِرْ بِهِ سے بِالشَّاكِرِينَ (۶:۵۱،۵۳) تک آیتیں اتریں ۔ یہ غرباء جنہیں یہ لوگ فیض صحبت سے محروم کرنا چاہتے تھے یہ تھے بلال، عمار، سالم صبیح ، ابن مسعود، مقداد، مسعود، واقد ، عمرو ذوالشمالین، یزید اور انہی جیسے اور حضرات رضی اللہ عنہم اجمعین، انہی دونوں جماعتوں کے بارے میں آیت وَكَذَٰلِكَ فَتَنَّا (۶:۵۳) بھی نازل ہوئی ۔ حضرت عمر ؓان آیتوں کو سن کر عذر معذرت کرنے لگے اس پر یہ اگلی آیت وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ نازل ہوئی ، وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ ۖ یہ لوگ جب آپ کے پاس آئیں جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں تو (یوں) کہہ دیجئے کہ تم پر سلامتی ہے اس آیت میں حکم ہوتا ہے کہ ایمان والے جب تیرے پاس آ کر سلام کریں تو ان کے سلام کا جواب دو كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ۖ تمہارے رب نے مہربانی فرمانا اپنے ذمہ مقرر کر لیا ہے ان کا احترام کرو اور انہیں اللہ کی وسیع رحمت کی خبر دو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اپنے نفس کریمہ پر رحمت کو واجب کر لیا ہے ، أَنَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوءًا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَصْلَحَ فَأَنَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ کہ جو شخص تم میں سے برا کام کر بیٹھے جہالت سے پھر وہ اس کے بعد توبہ کر لے اور اصلاح رکھے تو اللہ (کی یہ شان ہے کہ وہ) بڑی مغفرت کرنے والا ہے (۵۴) بعض سلف سے منقول ہے کہ گناہ ہر شخص جہالت سے ہی کرتا ہے ، عکرمہ فرماتے ہیں دنیا ساری جہالت ہے ، غرض جو بھی کوئی برائی کرے پھر اس سے ہٹ جائے اور پورا ارادہ کر لے کہ آئندہ کبھی ایسی حرکت نہیں کرے گا اور آگے کیلئے اپنے عمل کی اصلاح بھی کر لے تو وہ یقین مانے کہ غفور و رحیم اللہ اسے بخشے گا بھی اور اس پر مہربانی بھی کرے گا ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے جب مخلوق کی قضا و قدر مقرر کی تو اپنی کتاب میں لکھا جو اس کے پاس عرش کے اوپر ہے کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے ۔ ابن مردویہ میں حضور کا فرمان ہے: جس وقت اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے فیصلے کر دے گا اپنے عرش کے نیچے سے ایک کتاب نکالے گا جس میں یہ تحریر ہے کہ میرا رحم و کرم میرے غصے اور غضب سے زیادہ بڑھا ہوا ہے اور میں سب سے زیادہ رحمت کرنے والا ہوں پھر اللہ تبارک و تعالیٰ ایک بار مٹھیاں بھر کر اپنی مخلوق کو جہنم میں سے نکالے گا جنہوں نے کوئی بھلائی نہیں کی ان کی پیشانیوں پر لکھا ہوا ہو گا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے آزاد کردہ ہیں۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : توراۃ میں ہم لکھا دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور اپنی رحمت کے سو حصے کئے پھر ساری مخلوق میں ان میں سے ایک حصہ رکھا اور ننانوے حصے اپنے پاس باقی رکھے اسی ایک حصہ رحمت کا یہ ظہور ہے کہ مخلوق بھی ایک دوسرے پر مہربانی کرتی ہے اور تواضع سے پیش آتی ہے اور آپس کے تعلقات قائم ہیں، اونٹنی گائے بکری پرند مچھلی وغیرہ جانور اپنے بچوں کی پرورش میں تکلیفیں جھیلتے ہیں اور ان پر پیار و محبت کرتے ہیں ، روز قیامت میں اس حصے کو کامل کرنے کے بعد اس میں ننانوے حصے ملا لئے جائیں گے فی الواقع رب کی رحمت اور اس کا فضل بہت ہی وسیع اور کشادہ ہے، یہ حدیث دوسری سند ہے مرفوعاً بھی مروی ہے اور ایسی ہی اکثر حدیثیں آیت وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ (۷:۱۵۶) کی تفسیر میں آئیں گی ان شاء اللہ تعالیٰ ایسی ہی احادیث میں سے ایک یہ بھی ہے : حضورﷺ نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے پوجھا جانتے ہو اللہ کا حق بندوں پر کیا ہے؟ وہ یہ ہے کہ وہ سب اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں ۔ پھر فرمایا جانتے ہو بندے جب یہ کر لیں تو ان کا حق اللہ تعالیٰ کے ذمہ کیا ہے؟ یہ ہے کہ وہ انہیں عذاب نہ کرے، مسند احمد میں یہ حدیث بروایت حضرت ابوہریرہ مروی ہے ۔ وَكَذَلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ وَلِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ اسی طرح ہم آیات کی تفصیل کرتے رہتے ہیں اور تاکہ مجرمین کا طریقہ ظاہر ہو جائے۔ (۵۵) یعنی جس طرح ہم نے اس سے پہلے ہدایت کی باتیں اور بھلائی کی راہیں واضح کر دیں نیکی بدی کھول کھول کر بیان کر دی اسی طرح ہم ہر اس چیز کا تفصیلی بیان کرتے ہیں جس کی تمہیں ضرورت پیش آنے والی ہے ۔ اس میں علاوہ اور فوائد کے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ مجرموں کا راستہ نیکوں پر عیاں ہو جائے ۔ ایک اور قرأت کے اعتبار سے یہ مطلب ہے تاکہ تو گنہگاروں کا طریقہ واردات لوگوں کے سامنے کھول دے ۔ قُلْ إِنِّي نُهِيتُ أَنْ أَعْبُدَ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ۚ آپ کہہ دیجئے کہ مجھ کو اس سے ممانعت کی گئی ہے کہ ان کی عبادت کروں جن کو تم لوگ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر پکارتے ہو۔ قُلْ لَا أَتَّبِعُ أَهْوَاءَكُمْ ۙ قَدْ ضَلَلْتُ إِذًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُهْتَدِينَ آپ کہہ دیجئے کہ میں تمہاری خواہشات کی اتباع نہ کروں گا کیونکہ اس حالت میں تو میں بےراہ ہو جاؤں گا اور راہ راست پر چلنے والوں میں نہ رہوں گا ۔ (۵۶) اے نبی ﷺ کہہ دو جو وحی اللہ تعالیٰ نے میری طرف بھیجی ہے اس پر بصیرت رکھتے ہوئے قائم ہوں’ تم نے تو حق کو جھٹلا دیا ہے قُلْ إِنِّي عَلَى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّي وَكَذَّبْتُمْ بِهِ ۚ مَا عِنْدِي مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِهِ ۚ آپ کہہ دیجئے کہ میرے پاس تو ایک دلیل ہے میرے رب کی طرف سے اور تم اس کی تکذیب ہو، جس چیز کی تم جلد بازی کر رہے ہو وہ میرے پاس نہیں اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں اعلان کر دو کہ میرے پاس الہٰی دلیل ہے میں اپنے رب کی دی ہوئی سچی شریعت پر قائم ہوں ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے میرے پاس وحی آتی ہے ، افسوس کہ تم اس حق کو جھٹلا رہے ہو ، تم اگرچہ عذابوں کی جلدی مچا رہے ہو لیکن عذاب کا لانا میرے اختیار کی چیز نہیں ۔ یہ سب کچھ اللہ کے حکم کے ماتحت ہے ۔ اس کی مصلحت وہی جانتا ہے اگر چاہے دیر سے لائے اگر چاہے تو جلدی لائے، إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۖ يَقُصُّ الْحَقَّ ۖ وَهُوَ خَيْرُ الْفَاصِلِينَ حکم کسی کا نہیں بجز اللہ تعالیٰ کے اللہ تعالیٰ واقعی بات کو بتلا دیتا ہے اور سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا وہی ہے۔ (۵۷) وہ حق بیان فرمانے والا اور اپنے بندوں کے درمیان بہترین فیصلے کرنے والا ہے ، قُلْ لَوْ أَنَّ عِنْدِي مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِهِ لَقُضِيَ الْأَمْرُ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۗ آپ کہہ دیجئے کہ اگر میرے پاس وہ چیز ہوتی جس کا تم تقاضا کر رہے ہو تو میرا اور تمہارا باہمی قصہ فیصل ہو چکا ہوتا سنو اگر میرا ہی حکم چلتا میرے ہی اختیار میں ثواب و عذاب ہوتا ، میرے بس میں بقا اور فنا ہوتی تو میں جو چاہتا ہو جایا کرتا اور میں تو ابھی اپنے اور تمہارے درمیان فیصلہ کر لیتا اور تم پر وہ عذاب برس پڑتے جن سے میں تمہیں ڈرا رہا ہوں ، بات یہ ہے کہ میرے بس میں کوئی بات نہیں، اختیار والا اللہ تعالیٰ اکیلا ہی ہے ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِالظَّالِمِينَ اور ظالموں کو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔ (۵۸) وہ ظالموں کو بخوبی جانتا ہے، بخاری و مسلم کی ایک حدیث میں ہے : حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ احد سے زیادہ سختی کا تو آپ پر کوئی دن نہ آیا ہو گا؟ آپﷺ نے فرمایا عائشہ کیا پوچھتی ہو کہ مجھے اس قوم نے کیا کیا ایذائیں پہنچیں ؟ سب سے زیادہ بھاری دن مجھ پر عقبہ کا دن تھا جبکہ میں عبدالیل بن عبد کلال کے پاس پہنچا اور میں نے اس سے آرزو کی کہ وہ میرا ساتھ دے مگر اس نے میری بات نہ مانی ، واللہ میں سخت غمگین ہو کر وہاں سے چلا مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں کدھر جا رہا ہوں، قرن ثعالب میں آ کر میرے حواس ٹھیک ہوئے تو میں نے دیکھا کہ اوپر سے ایک بادل نے مجھے ڈھک لیا ہے ، سر اٹھا کر دیکھتا ہوں تو حضرت جبرائیل ؑ مجھے آواز دے کر فرما رہے ہیں اللہ تعالیٰ نے تیری قوم کی باتیں سنیں اور جو جواب انہوں نے تجھے دیا وہ بھی سنا ۔ اب پہاڑوں کے داروغہ فرشتے کو اس نے بھیجا ہے آپ جو چاہیں انہیں حکم دیجئے یہ بجا لائیں گے، اسی وقت اس فرشتے نے مجھے پکارا سلام کیا اور کہا اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کی باتیں سنیں اور مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ ان کے بارے میں جو ارشاد آپ فرمائیں میں بجا لاؤں ، اگر آپ حکم دیں تو مکہ شریف کے ان دونوں پہاڑوں کو جو جنوب شمال میں ہیں میں اکٹھے کر دوں اور ان تمام کو ان دونوں کے درمیان پیس دوں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جواب دیا کہ نہیں میں یہ نہیں چاہتا بلکہ مجھے تو امید ہے کہ کیا عجب ان کی نسل میں آگے جا کر ہی کچھ ایسے لوگ ہوں جو اللہ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں، ہاں یہاں یہ بات خیال میں رہے کہ کوئی اس شبہ میں نہ پڑے کہ قرآن کی اس آیت میں تو ہے کہ اگر میرے بس میں عذاب ہوتے تو ابھی ہی فیصلہ کر دیا جاتا جبکہ حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ نے بس میں کر دیئے پھر بھی آپ نے ان کیلئے تاخیر طلب کی ۔ اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ حدیث سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ عذاب طلب کرتے اس وقت اگر آپ کے بس میں ہوتا تو اسی وقت ان پر عذاب آ جاتا اور آیت میں یہ نہیں کہ اس وقت انہوں نے کوئی عذاب مانگا تھا ۔ حدیث میں تو صرف اتنا ہے کہ پہاڑوں کے فرشتے نے آپ کو یہ بتلایا کہ بحکم الٰہ میں یہ کر سکتا ہوں صرف آپ کی زبان مبارک کے ہلنے کا منتظر ہوں لیکن رحمتہ للعالمین کو رحم آ گیا اور نرمی برتی ، پس آیت و حدیث میں کوئی معارضہ نہیں۔ واللہ اعلم وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ ۚ اور اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہیں غیب کی کنجیاں (خزانے) ان کو کوئی نہیں جانتا بجز اللہ تعالیٰ کے حضور کا فرمان ہے : غیب کی کنجیاں پانچ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا پھر آپ نے آیت إِنَّ اللَّهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ ….. (۳۱:۳۴) تک پڑھی ، یعنی قیامت کا علم ، بارش کا علم، پیٹ کے بچے کا علم، کل کے کام کا علم، موت کی جگہ کا علم۔ اس حدیث میں جس میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کا بصورت انسان آ کر حضورﷺ سے ایمان اسلام احسان کی تفصیل پوچھنا بھی مروی ہے یہ بھی ہے کہ جب قیامت کے صحیح وقت کا سوال ہوا تو آپ نے فرمایا یہ ان پانچ چیزوں میں سے ہے جن کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو نہیں ۔ پھر آپ نے آیت إِنَّ اللَّهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ ….. (۳۱:۳۴) تلاوت فرمائی ۔ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۚ اور وہ تمام چیزوں کو جانتا ہے جو کچھ خشکی میں ہے اور جو کچھ دریاؤں میں ہے پھر فرماتا ہے اس کا علم تمام موجودات کو احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ بری بحری کوئی چیز اس کے علم سے باہر نہیں ۔ آسمان و زمین کا ایک ذرہ اس پر پوشیدہ نہیں ۔ صرصری کا کیا ہی اچھا شعر ہے ۔ فلا یحفی علیہ الذراما یترای للنواظر او تواری کسی کو کچھ دکھائی دے نہ دے رب پر کچھ بھی پوشیدہ نہیں، وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُهَا اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر وہ اس کو بھی جانتا ہے وہ سب کی حرکات سے بھی واقف ہے ، جمادات کا ہلنا جلنا یہاں تک کہ پتے کا جھڑنا بھی اس کے وسیع علم سے باہر نہیں ۔ پھر بھلا جنات اور انسان کا کونسا علم اس پر مخفی رہ سکتا ہے؟ جیسے فرمان عالی شان ہے: يَعْلَمُ خَآئِنَةَ الاٌّعْيُنِ وَمَا تُخْفِى الصُّدُورُ آنکھوں کی خیانت اور دلوں کے پوشیدہ بھید بھی اس پر عیاں ہیں ۔ (۴۰:۱۹) حضرت ابن عباسؓؓ فرماتے ہیں: خشکی تری کا کوئی درخت ایسا نہیں جس پر اللہ کی طرف سے کوئی فرشتہ مقرر نہ ہو جو اس کے جھڑ جانے والے پتوں کو بھی لکھ لے ، وَلَا حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ اور کوئی دانا زمین کے تاریک حصوں میں پڑتا اور نہ کوئی تر اور نہ کوئی خشک چیز گرتی ہے مگر یہ سب کتاب مبین میں ہیں (۵۹) پھر فرماتا ہے زمین کے اندھیروں کے دانوں کا بھی اس اللہ کو علم ہے ۔ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: تیسری زمین کے اوپر اور چوتھی کے نیچے اتنے جن بستے ہیں کہ اگر وہ اس زمین پر آ جائیں تو ان کی وجہ سے کوئی روشنی نظر نہ پڑے ، زمین کے ہر کونے پر اللہ کی مہروں میں سے ایک مہر اور ہر مہر پر ایک فرشتہ مقرر ہے اور ہر دن اللہ کی طرف سے ہے اس کے پاس ایک اور فرشتے کے ذریعہ سے حکم پہنچتا ہے کہ تیرے پاس جو ہے اس کی بخوبی حفاظت کر ۔ حضرت عبداللہ بن حارث فرماتے ہیں: زمین کے ہر ایک درخت وغیرہ پر فرشتے مقرر ہیں جو ان کی خشکی تری وغیرہ کی بابت اللہ کی جناب میں عرض کر دیتے ہیں ۔ ابن عباسؓؓ سے مروی ہے اللہ تعالیٰ نے نون یعنی دوات کو پیدا کیا اور تختیاں بنائیں اور اس میں دنیا کے تمام ہونے والے امور لکھے ۔ کل مخلوق کی روزیاں، حلال حرام نیکی بدی سب کچھ لکھ دیا ہے پھر یہی آیت پڑھی ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ لِيُقْضَى أَجَلٌ مُسَمًّى ۖ اور وہ ایسا ہے کہ رات میں تمہاری روح کو (ایک گونہ) قبض کر دیتا ہے اور جو کچھ تم دن میں کرتے ہو اس کو جانتا ہے پھر تم کو جگا اٹھاتا ہے تاکہ میعاد معین تمام کر دی جائے اللہ پاک فرماتا ہے کہ وہ اپنے بندوں کو رات کے وقت خواب وفات دیتا ہے۔ اور یہ وفات اصغر ہے جیسے اس آیت میں ہے: إِذْ قَالَ اللَّهُ يعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَىَّ جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے عیسیٰ میں تجھے فوت کرنے والا ہوں اور اپنی طرف چڑھا لینے والا ہوں (۳:۵۵) اور جیسے اس آیت میں ہے: اللَّهُ يَتَوَفَّى الاٌّنفُسَ حِينَ مِوْتِـهَا ... وَيُرْسِلُ الاٍّخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّ اللہ ہی روحوں کو ان کی موت کے وقت اور جن کی موت نہیں آئی انہیں ان کی نیند کے وقت قبض کر لیتا ہے پھر جن پر موت کا حکم لگ چکا ہے انہیں تو روک لیتا ہے اور دوسری (روحوں) کو ایک مقرر وقت تک کے لئے چھوڑ دیتا ہے ى (۳۹:۴۲) اس آیت میں دونوں وفات بیان کر دی ہیں ۔ وفات کبریٰ اور وفات صغریٰ اور جس آیت کی اس وقت تفسیر ہو رہی ہے اس میں بھی دونوں وفاتوں کا ذکر ہے ، وفات صغری ٰ یعنی نیند کا پہلے پھر وفات کبریٰ یعنی حقیقی موت کا ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ وہ رات کے وقت تم کو وفات دے دیتا ہے تم کاروبار سے رک جاتے ہو لیکن دن میں تم اپنے کام میں لگے رہتے ہو اور وہ تمہارے دن بھر کے اعمال کو جانتا ہے۔ یہ ایک جملہ معترضہ ہے جس سے اللہ کے وسیع علم کی دلالت ہو رہی ہے کہ وہ دن رات کے کسی وقت اپنی مخلوق کی کسی حالت سے بےعلم نہیں ، ان کی حرکات و سکنات سب جانتا ہے ، جیسے فرمان ہے: سَوَآءٌ مِّنْكُمْ مَّنْ أَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَهَرَ بِهِ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍ بِالَّيْلِ وَسَارِبٌ بِالنَّهَارِ تم میں سے کسی کا اپنی بات کو چھپا کر کہنا اور بآواز بلند اسے کہنا اور جو رات کو چھپا ہوا ہو اور جو دن میں چل رہا ہو، سب اللہ پر برابر و یکساں ہیں۔ (۱۳:۱۰) اور آیت میں ہے: وَمِن رَّحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ لِتَسْكُنُواْ فِيهِ وَلِتَبْتَغُواْ مِن فَضْلِهِ یہ بھی رب کی رحمت ہے کہ اس نے تمہارے سکون کا وقت رات کو بنایا اور دن کو تلاش معاش کا وقت بنایا (۲۸:۷۳) اور آیت میں ارشاد ہے: وَجَعَلْنَا الَّيْلَ لِبَاساً ـ وَجَعَلْنَا النَّهَارَ مَعَاشاً رات کو ہم نے لباس اور دن کو سبب معاش بنایا (۷۸:۱۰،۱۱) یہاں فرمایا رات کو وہ تمہیں سلا دیتا ہے اور دنوں کو جو تم کرتے ہو اس سے وہ آگاہ ہے ، پھر دن میں تمہیں اٹھا بٹھا دیتا ہے ۔ ایک معنی یہ بھی بیان کئے گئے ہیں کہ وہ نیند میں ( خواب ) تمہیں اٹھا کھڑا کرتا ہےلیکن اول معنی ہی اولیٰ ہیں، ابن مردویہ کی ایک مرفوع روایت میں ہے: ہر انسان کے ساتھ ایک فرشتہ مقرر ہے جو سونے کے وقت اس کی روح کو لے جاتا ہے پھر اگر قبض کرنے کا حکم ہوتا ہے تو وہ اس روح کو نہیں لوٹاتا ورنہ بحکم الہٰی لوٹا دیتا ہے، یہی معنی اس آیت کے جملے وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ کا ہے تاکہ اس طرح عمر کا پورا وقت گزرے اور جو اجل مقرر ہے وہ پوری ہو، ثُمَّ إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ يُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ پھر اسی کی طرف تم کو جانا ہے پھر تم کو بتلائے گا جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔ (۶۰) قیامت کے دن سب کا لوٹنا اللہ ہی کی طرف ہے پھر وہ ہر ایک کو اس کے اعمال کا بدلہ دے گا نیکوں کو نیک اور بدوں کو برا، وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ ۖ اور وہی اپنے بندے کے اوپر غالب ہے برتر ہے وہی ذات ہے جو ہر چیز پر غالب و قادر ہے اس کی جلالت عظمت عزت کے سامنے ہر کوئی پست ہے بڑائی اس کی ہے اور سب اس کے سامنے عاجز و مسکین ہیں وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُونَ اور تم پر نگہداشت رکھنے والا بھیجتا ہے یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت آپہنچتی ہے، اس کی روح ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے قبض کر لیتے ہیں اور وہ ذرا کوتاہی نہیں کرتے ۔ (۶۱) وہ اپنے محافظ فرشتوں کو بھیجتا ہے جو انسان کی دیکھ بھال رکھتے ہیں جیسے فرمان عالیشان ہے: لَهُ مُعَقِّبَـتٌ مِّن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ اس کے پہرے دار انسان کے آگے پیچھے مقرر ہیں، جو اللہ کے حکم سے اس کی نگہبانی کرتے ہیں۔ (۱۳:۱۱) پس یہ فرشتے تو وہ ہیں جو انسان کی جسمانی حفاظت رکھتے ہیں اور دائیں بائیں آگے پیچھے سے اسے بحکم الہٰی بلاؤں سے بچاتے رہتے ہیں ، دوسری قسم کے وہ فرشتے ہیں جو اس کے اعمال کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور ان کی نگہبانی کرتے رہتے ہیں جیسے فرمایا: وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَـفِظِينَ یقیناً تم پر نگہبان عزت والے۔ (۸۲:۱۰) ان ہی فرشتوں کا ذکران آیات میں ہے: إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌ ـ مَّا يَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلاَّ لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ جس وقت دو لینے والے جا لیتے ہیں ایک دائیں طرف اور ایک بائیں طرف بیٹھا ہوا ہے۔(انسان) منہ سے کوئی لفظ نکال نہیں پاتا مگر اس کے پاس نگہبان تیار ہے ۔ (۵۰:۱۷،۱۸) پھر فرمایا یہاں تک کہ تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جاتا ہے تو سکرات کے عالم میں اس کے پاس ہمارے وہ فرشتے آتے ہیں جو اسی کام پر مقرر ہیں ۔ حضرت ابن عباسؓؓ فرماتے ہیں ملک الموت کے کئی مددگار فرشتے ہیں جو روح کو جسم سے نکالتے ہیں اور حلقوم تک جب روح آ جاتی ہے پھر ملک الموت اسے قبض کر لیتے ہیں ۔اس کا مفصل بیان آیت يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ (۱۴:۲۷) میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ پھر فرمایا وہ کوئی کمی نہیں کرتے یعنی روح کی حفاظت میں کوتاہی نہیں کرتے۔ اسے پوری حفاظت کے ساتھ یا تو علین میں نیک روحوں سے ملا دیتے ہیں یا سجبین میں بری روحوں ڈال دیتے ہیں ۔ ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلَاهُمُ الْحَقِّ ۚ پھر سب اپنے مالک حقیقی کے پاس لائے جائیں گے پھر وہ سب اپنے سچے مولیٰٰ کی طرف بلا لئے جائیں گے ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:b مرنے والے کی روح کو نکالنے کے لئے فرشتے آتے ہیں اور اگر وہ نیک ہے تو اس سے کہتے ہیں اے مطمئن روح جو پاک جسم میں تھی تو نہایت اچھائیوں اور بھلائیوں سے چل تو راحت و آرام کی خوشخبری سن تو اس رب کی طرف چل جو تجھ پر کبھی خفا نہ ہو گا ، وہ اسے سنتے ہی نکلتی ہے اور جب تک وہ نکل نہ چکے تب تک یہی مبارک صدا اسے سنائی جاتی ہے پھر اسے آسمانوں پر لے جاتے ہیں اس کیلئے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور فرشتے اس کی آؤ بھگت کرتے ہیں مرحبا کہتے ہوئے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں اور جو موت کے فرشتوں نے کہا تھا وہی خوشخبری یہ بھی سناتے ہیں یہاں تک کہ اسی طرح نہایت تپاک اور گرم جوشی سے فرشتوں کے استقبال کے ساتھ یہ نیک روح اس آسمان تک پہنچتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ ہے ، (اللہ تعالیٰ ہماری موت بھی نیک پر کرے ) اور جب کوئی برا آدمی ہوتا ہے تو موت کے فرشتے اس سے کہتے ہیں کہ اے خبیث روح جو گندے جسم میں تھی تو بری بن کر چل گرم کھولتے ہوئے پانی اور سڑی بھسی غذا اور طرح طرح کے عذابوں کی طرف چل ، پھر وہ اس روح کو نکالتے ہیں اور یہی کہتے رہے ہیں پھر اسے آسمان کی طرف چڑھاتے ہیں دروازہ کھولنا چاہتے ہیں ، آسمان کے فرشتے پوچھتے ہیں کون ہے؟ یہ اس کا نام بتاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں اس خبیث نفس کے لئے مرحبا نہیں ، یہ تھا بھی ناپاک جسم میں تو برائی کے ساتھ لوٹ جا، تیرے لئے آسمانوں کے دروازے نہیں کھلتے ، چنانچہ اسے زمین کی طرف پھینک دیا جاتا ہے ، پھر قبر پر لائی جاتی ہے ، پھر قبر میں ان دونوں روحوں سے سوال جواب ہوتے ہیں جیسے پہلی حدیثیں گزر چکیں ۔ پھر اللہ کی طرف لوٹائے جاتے ہیں اس سے مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ فرشتے لوٹائے جاتے ہیں ۔ یا یہ کہ مخلوق لوٹائی جاتی ہے یعنی قیامت کے دن، أَلَا لَهُ الْحُكْمُ وَهُوَ أَسْرَعُ الْحَاسِبِينَ خوب سن لو فیصلہ اللہ ہی کا ہوگا اور وہ بہت جلد حساب لے گا۔ (۶۲) پھر جناب باری ان میں عدل و انصاف کرے گا اور احکام جاری فرمائے گا، جیسے فرمایا: قُلْ إِنَّ الاٌّوَّلِينَ وَالاٌّخِرِينَ ـ لَمَجْمُوعُونَ إِلَى مِيقَـتِ يَوْمٍ مَّعْلُومٍ آپ کہہ دیجئے کہ یقیناً سب اگلے اور پچھلے۔ ضرور جمع کئے جائیں گے ایک مقرر دن کے وقت۔ (۵۶:۴۹،۵۰) اور آیت میں ہے: وَحَشَرْنَاهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ أَحَدًا ہم سب کو جمع کریں گے اور کسی کو بھی باقی نہ چھوڑیں گے (۱۸:۴۷) یہاں بھی فرمایا کہ اپنے سچے مولیٰ کی طرف سب کو لوٹنا ہے ۔ جو بہت جلدی حساب لینے والا ہے ۔ اس سے زیادہ جلدی حساب میں کوئی نہیں کر سکتا ۔ قُلْ مَنْ يُنَجِّيكُمْ مِنْ ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ آپ کہئے کہ وہ کون ہے جو تم کو خشکی اور دریا کی ظلمات سے نجات دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنا احسان بیان فرماتا ہے کہ جب تم خشکی کے بیابانوں اور لق و دق سنسان جنگلوں میں راہ بھٹکے ہوئے قدم قدم پر خوف و خطر میں مبتلا ہوتے ہو اور جب تم کشتیوں میں بیٹھے ہوئے طوفان کے وقت سمندر کے تلاطم میں مایوس و عاجز ہو جاتے ہو ۔ اس وقت اپنے دیوتاؤں اور بتوں کو چھوڑ کر صرف اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہو ۔ یہی مضمون قرآن کریم کی ان آیات میں بھی بیان ہوا ہے ۔ وَإِذَا مَسَّكُمُ الْضُّرُّ فِى الْبَحْرِ ضَلَّ مَن تَدْعُونَ إِلاَ إِيَّاهُ اور سمندروں میں مصیبت پہنچتے ہی جنہیں تم پکارتے تھے سب گم ہو جاتے ہیں صرف وہی اللہ باقی رہ جاتا ہے (۱۷:۶۷) هُوَ الَّذِى يُسَيِّرُكُمْ فِى الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ... مِنْ هَـذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّـكِرِينَ وہ اللہ ایسا ہے کہ تم کو خشکی اور دریا میں چلاتا ہے یہاں تک کہ جب تم کشتی میں ہوتے ہو اور وہ کشتیاں لوگوں کو موافق ہوا کے ذریعے سے لے کر چلتی ہیں اور وہ لوگ ان سے خوش ہوتے ہیں ان پر ایک جھونکا سخت ہوا کا آتا ہے اور ہر طرف سے ان پر موجیں اٹھتی چلی آتی ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ (برے) آگھرے (اس وقت) سب خالص اعتقاد کرکے اللہ ہی کو پکارتے ہیں کہ اگر تو ہم کو اس سے بچا لے تو ہم ضرور شکر گزار بن جائیں گے۔ (۱۰:۲۲) أَمَّن يَهْدِيكُمْ فِى ظُلُمَـتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ... أَءِلَـهٌ مَّعَ اللَّهِ تَعَالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ یا وہ جو تمہیں خشکی اور تری کی تاریکیوں میں راہ دکھاتا ہے اور جو اپنی رحمت سے پہلے ہی خوشخبریاں دینے والی ہوائیں چلاتا ہے کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے جنہیں یہ شریک کرتے ہیں ان سب سے اللہ بلند و بالا تر ہے۔ (۲۷:۶۳) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے باوجود اس عہد و پیمان کے ادھر ہم نے انہیں تنگی اور مصیبت سے چھوڑا اور ادھر یہ آزاد ہوتے ہی ہمارے ساتھ شرک کرنے لگے اور اپنے جھوٹے معبودوں کو پھر پکارنے لگے ، تَدْعُونَهُ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً لَئِنْ أَنْجَانَا مِنْ هَذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ تم اس کو پکارتے ہو تو گڑگڑا کر اور چپکے چپکے کہ اگر تو ہم کو ان سے نجات دے دے تو ہم ضرور شکر کرنے والوں میں سے ہوجائیں گے۔ (۶۳) تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً کے معنی بلند آواز اور پست آواز کے ہیں ۔ الغرض اس وقت صرف اللہ کو ہی پکارتے ہیں اور وعدہ کرتے ہیں کہ اگر تو ہمیں اس وقت سے نجات دے گا تو ہم ہمیشہ تیرے شکر گزار رہیں گے ۔ قُلِ اللَّهُ يُنَجِّيكُمْ مِنْهَا وَمِنْ كُلِّ كَرْبٍ ثُمَّ أَنْتُمْ تُشْرِكُونَ آپ کہہ دیجئے کہ اللہ ہی تم کو ان سے نجات دیتا ہے اور ہر غم سے، تم پھر بھی شرک کرنے لگتے ہو۔ (۶۴) قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُمْ بَأْسَ بَعْضٍ ۗ آپ کہئیے کہ اس پر بھی وہی قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب تمہارے لئے بھیج دے یا تو تمہارے پاؤں تلے سے یا کہ تم کو گروہ گروہ کر کے سب کو بھڑا دے اور تمہارے ایک کو دوسرے کی لڑائی چکھا دے پھر فرماتا ہے کیا تم نہیں جانتے کہ جس اللہ نے تمہیں اس وقت آفت میں ڈالا تھا وہ اب بھی قادر ہے کہ تم پر کوئی اور عذاب اوپر سے یا نیچے سے لے آئے جیسے کہ سورۃ سبحان بیان فرمایا ۔ رَّبُّكُمُ الَّذِى يُزْجِى لَكُمُ الْفُلْكَ فِى الْبَحْرِ ... ثُمَّ لاَ تَجِدُواْ لَكُمْ عَلَيْنَا بِهِ تَبِيعًا تمہارا پروردگار وہ ہے جو تمہارے لئے دریا میں کشتیاں چلاتا تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو۔ وہ تمہارے اوپر بہت مہربان ہے اور سمندروں میں مصیبت پہنچتے ہی جنہیں تم پکارتے تھے سب گم ہو جاتے ہیں صرف وہی اللہ باقی رہ جاتا ہے پھر جب تمہیں خشکی کی طرف بچا لاتا ہے تو تم منہ پھیر لیتے ہو اور انسان بڑا ہی ناشکرا ہے ۔ تو کیا تم اس سے بےخوف ہوگئے ہو کہ تمہیں خشکی کی طرف (لے جا کر زمین) میں دھنسا دے یا تم پر پتھروں کی آندھی بھیج دے پھر تم اپنے لئے کسی نگہبان کو نہ پا سکو۔ کیا تم اس بات سے بےخوف ہوگئے ہو کہ اللہ تعالیٰ پھر تمہیں دوبارہ دریا کے سفر میں لے آئے اور تم پر تیز و تند ہواؤں کے جھونکے بھیج دے اور تمہارے کفر کے باعث تمہیں ڈبو دے۔ پھر تم اپنے لئے ہم پر اس کا (پیچھا) کرنے والا کسی کو نہ پاؤ گے ۔ (۱۷:۶۶،۶۹) حضرت حسن فرماتے ہیں اوپر نیچے کے عذاب مشرکوں کیلئے ہیں حضرت مجاہد فرماتے ہیں اس آیت میں اسی اُمت کو ڈرایا گیا تھا لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے معافی دے دی ۔ ہم یہاں اس آیت سے تعلق رکھنے والی حدیثیں اور آثار بیان کرتے ہیں ملاحظہ ہوں ۔ اللہ تعالیٰ پر ہمارا بھروسہ ہے اور اس سے ہم مدد چاہتے ہیں بخاریؒ نے اس آیت کے بارے میں فرمایا کہ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا یعنی تم فرقے فرقے بن کر آپس میں تفرقہ بندیاں کرنے لگو اور ایک دوسرے سے لڑ بیٹھو۔ یعنی اللہ تعالیٰ چاہے تو ایسے عذاب میں بھی تمہیں مبتلا فرما سکتا ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت اتری کہ اللہ قادر ہے کہ تمہارے اوپر سے عذاب نازل فرمائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ یا اللہ میں تیرے پر عظمت و جلال چہرہ کی پناہ میں آتا ہوں اور جب یہ سنا کہ نیچے سے عذاب لے آئے تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی ۔ پھر یہ سن کر کہ یا وہ تم میں اختلاف ڈال دے اور تمہیں ایک دوسرے سے تکلیف پہنچے تو حضور نے فرمایا یہ بہت زیادہ ہلکا ہے ، ابن مردویہ کی اس حدیث کے آخر میں حضرت جابر کا یہ فرمان بھی مروی ہے کہ اگر اس آپ کی ناچاقی سے بھی پناہ مانگتے تو پناہ مل جاتی ۔ مسند میں ہے : حضور ﷺسے جب اس آیت کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا یہ تو ہونے والا ہی ہے اب تک یہ ہوا نہیں ۔ یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور امام ترمذی اسے غریب بتاتے ہیں، مسند احمد میں حضرت سعد بن ابی وقاص سے مروی ہے : ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آ رہے تھے آپ مسجد بنی معاویہ میں گئے اور دور رکعت نماز ادا کی ہم نے بھی آپ کے ساتھ پڑھی پھر آپ نے لمبی مناجات کی اور فرمایا : میں نے اپنے رب سے تین چیزیں طلب کیں - ایک تو یہ کہ میری تمام اُمت کو ڈبوئے نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ چیز عطا فرمائی ، - پھر میں نے دعا کی کہ میرے عام اُمت کو قحط سالی سے اللہ تعالیٰ ہلاک نہ کرے اللہ تعالیٰ نے میری یہ دعا بھی قبول فرمائی - پھر میں نے دعا کی کہ ان میں آپس میں پھوٹ نہ پڑے میری یہ دعا قبول نہ ہوئی ۔ صحیح مسلم وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے ۔ مسند احمد میں ہے : حضرت عبداللہ بن عبداللہ فرماتے ہیں ہمارے پاس عبداللہ بن عمر بنی معاویہ کے محلے میں آئے اور مجھ سے دریافت فرمایا کہ جانتے ہو تمہاری اس مسجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کس جگہ پڑھی ؟ میں نے مسجد کے ایک کونے کو دکھا کر کہا یہاں پھر پوچھا جانتے ہو یہاں تین دعائیں حضور نے کیا کیا کیں؟ میں نے کہا ایک تو یہ کہ آپ کی اُمت پر کوئی غیر مسلم طاقت اس طرح غالب نہ آ جائے کہ ان کو پیس ڈالے دوسرے یہ کہ ان پر عام قحط سالی ایسی نہ آئے کہ یہ سب تباہ ہو جائیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کی یہ دونوں دعائیں قبول فرمائیں پھر تیسری دعا یہ کی کہ ان میں آپس میں لڑائیاں نہ ہوں لیکن یہ دعا قبول نہ ہوئی یہ سن کر حضرت عبداللہ نے فرمایا تم نے سچ کہا یاد رکھو قیامت تک یہ آپس کی لڑائیاں چلتی جائیں گی ، ابن مردویہ میں ہے: حضور ﷺ بنو معاویہ کے محلے میں گئے اور وہاں آٹھ رکعت نماز ادا کی ، بڑی لمبی رکعت پڑھیں پھر میری طرف توجہ فرما کر فرمایا میں نے اپنے رب سے تین چیزیں مانگیں اللہ پاک نے دو تو دیں اور ایک نہ دی ،میں نے سوال کیا کہ میری اُمت پر ان کے دشمن اس طرح نہ چھا جائیں کہ انہیں برباد کر دیں اور ان سب کو ڈبو یا نہ جائے ، اللہ نے ان دونوں باتوں سے مجھے امن دیا پھر میں نے آپ سے لڑائیاں نہ ہونے کی دعا کی لیکن اس سے مجھے منع کر دیا ، ابن ماجہ اور مسند احمد میں ہے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: میں رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو مجھے معلوم ہوا کہ آپ تشریف لے گئے اب دریافت کرتا کرتا حضور جہاں تھے وہیں پہنچا دیکھا تو آپ نماز پڑھ رہے ہیں میں بھی آپ کے پیچھے نماز میں کھڑا ہو گیا ، آپ نے بڑی لمبی نماز پڑھی، جب فارغ ہوئے تو میں کہا حضور بڑی لمبی نماز تھی پھر آپ نے اپنی تینوں دعاؤں کا ذکر کیا ، نسائی میں حضرت انسؓ سے مروی ہے: ایک سفر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز کی آٹھ رکعت پڑھیں اور حضرت انس کے سوال پر اپنی دعاؤں کا ذکر کیا اس میں عام قحط سالی کا ذکر ہے ، نسائی میں ہے: حضور نے ایک مرتبہ ساری رات نماز میں گزار دی صبح کے وقت سلام پھیرا تو حضرت خباب بن ارث رضی اللہ عنہ نے جو بدری صحابی ہیں پوچھا کہ ایسی طویل نماز میں تو میں نے آپ کو کبھی نہیں دیکھا آپ نے اس کے جواب میں وہی فرمایا جو اوپر مذکور ہوا ، اس میں ایک دعا یہ ہے کہ اگلی اُمتوں پر جو عام عذاب آئے وہ میری اُمت پر عام طور پر نہ آئیں ۔ تفسیر ابن جریر میں ہے: حضور ﷺنے نماز پڑھی جس کے رکوع سجود پورے تھے اور نماز ہلکی تھی پھر سوال و جواب وہی ہیں جو اوپر بیان ہوئے مسند احمد میں ہے رسول اکرام صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: میرے لئے زمین لپیٹ دی گئی یہاں تک کہ میں نے مشرقین مغربین دیکھ لئے جہاں جہاں تک یہ زمین میری لئے لپیٹ دی گئی تھی وہاں وہاں تک میری اُمت کی بادشاہت پہنچے گی ، مجھے دونوں خزانے دیئے گئے ہیں سفید اور سرخ،میں نے اپنے رب عزوجل سے سوال کیا کہ میری اُمت کو عام قحط سالی سے ہلاک نہ کر اور ان پر کوئی ان کے سوا ایسا دشمن مسلط نہ کر جو انہیں عام طور پر ہلاک کر دے یہاں تک کہ یہ خود آپس میں ایک دوسروں کو ہلاک کرنے لگیں اور ایک دوسروں کو قتل کرنے لگیں اور ایک دوسروں کو قید کرنے لگیں اور حضور نے فرمایا: میں اپنی اُمت پر کسی چیز سے نہیں ڈرتا بجز گمراہ کرنے والے اماموں کے پھر جب میری اُمت میں تلوار رکھ دی جائے گی تو قیامت تک ان میں سے اٹھائی نہ جائے گی ، ابن مردویہ میں ہے : جب آپ لوگوں میں نماز پڑھتے تو نماز ہلکی ہوتی ، رکوع و سجود پورے ہوتے ایک روز آپ بہت دیر تک بیٹھے رہے یہاں تک کہ ہم نے ایک دوسرے کو اشارے سے سمجھا دیا کہ شاید آپ پر وحی اتر رہی ہے خاموشی سے بیٹھے رہو ۔ جب آپ فارغ ہوئے تو بعض لوگوں نے کہا حضور آج تو اس قدر زیادہ دیر تک آپ کے بیٹھے رہنے سے ہم نے یہ خیال کیا تھا اور آپس میں ایک دوسرے کو اشارے سے یہ سمجھایا تھا آپﷺ نے فرمایا نہیں یہ بات تو نہ تھی بلکہ میں نے یہ نماز بڑی رغبت و یکسوئی سے ادا کی تھی ، میں نے اس میں تین چیزیں اللہ تبارک و تعالیٰ سے طلب کی تھیں جن میں سے دو تو اللہ تعالیٰ نے دے دیں اور ایک نہیں دی۔ - میں نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا کہ وہ تمہیں وہ عذاب نہ کرے جو تم سے پہلی قوموں کو کئے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے اسے پورا کیا - میں نے پھر کہا کہ یا اللہ میری اُمت پر کوئی ایسا دشمن چھا نہ جائے جو ان کا صفایا کر دے تو اللہ تعالیٰ نے میری یہ مراد بھی پوری کر دی ، - پھر میں نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ تم میں پھوٹ نہ ڈالے کہ ایک دوسرے کو ایذاء پہنچائیں مگر اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول نہ فرمائی ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے: میں نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے چار دعائیں کیں تو تین پوری ہوئیں اور ایک رد ہو گئی ۔ چوتھی دعا اس میں یہ ہے کہ میری اُمت گمراہی پر جمع نہ ہو جائے اور حدیث میں ہے: دو چیزیں اللہ نے دیں دو نہ دیں آسمان سے پتھروں کا سب پر برسانا موقوف کر دیا گیا زمین کے پانی کے طوفان سے سب کا غرق ہو جانا موقوف کر دیا گیا لیکن قتل اور آپس کی لڑائی موقوف نہیں کی گئی (ابن مردویہ) ابن عباسؓ ؓفرماتے ہیں: جب یہ آیت اتری تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وضو کر کے اٹھ کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ میری اُمت پر نہ تو ان کے اوپر سے عذاب اتار نہ نیچے سے انہیں عذاب چکھا اور نہ ان میں تفرقہ ڈال کر ایک دوسرے کی مصیبت پہنچا، اسی وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام اترے اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے آپ کی اُمت کو اس سے پناہ دے دی کہ ان کے اوپر سے یا ان کے نیچے سے ان پر عام عذاب اتارا جائے (ابن مردویہ) ابن ابی کعب سے مروی ہے دو چیزیں اس اُمت سے ہٹ گئیں اور دور رہ گئیں اوپر کا عذاب یعنی پتھراؤ اور نیچے کا عذاب یعنی زمین کا دھنساؤ ہٹ گیا اور آپس کی پھوٹ اور ایک کا ایک کو ایذائیں پہنچانا رہ گیا ، آپ فرماتے ہیں کہ اس آیت میں چار چیزوں کا ذکر ہے جن میں سے دو تو حضورﷺ کی وفات کے پجیس سال بعد ہی شروع ہو گئیں یعنی پھوٹ اور آپس کی دشمنی ۔ دو باقی رہ گئیں وہ بھی ضرور ہی آنے والی ہیں یعنی رجم اور خسف آسمان سے سنگباری اور زمین میں دھنسایا جانا (احمد ) حضرت حسن اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: گناہ سے لوگ بچے ہوئے تھے عذاب رکے ہوئے تھے جب گناہ شروع ہوئے عذاب اتر پڑے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ با آواز بلند مجلس میں یا منبر پر فرماتے تھے لوگو تم پر آیت قُلْ هُوَ الْقَادِرُ اتر چکی ہے اگر آسمانی عذاب آ جائے ایک بھی باقی نہ بچے اگر تمہیں وہ زمین میں دھنسا دے تو تم سب ہلاک ہو جاؤ اور تم میں سے ایک بھی نہ بچے لیکن تم پر آپس کی پھوٹ کا تیسرا عذاب آ چکا ہے ، ابن عباسؓ ؓسے مروی ہے: اوپر کا عذاب برے امام اور بد بادشاہ ہیں نیچے کا عذاب بد باطن غلام اور بد دیانت نو کر چاکر ہیں یہ قول بھی گو صحیح ہو سکتا ہے لیکن پہلا قول ہی زیادہ ظاہر اور قوی ہے ، اس کی شہادت میں آیت أَأَمِنتُم مَّن فِي السَّمَاءِ (۶۷:۱۶) پیش ہو سکتی ہے ، ایک حدیث میں ہے میری اُمت میں سنگ باری اور زمین میں دھنس جانا اور صورت بدل جانا ہو گا، اس قسم کی بہت سی حدیثیں ہیں جو قیامت کے قرب کی علامتوں کے بیان میں اس کے موقعہ پر جابجا آئیں گی ۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ آپس کی پھوٹ سے مراد فرقہ بندی ہے ، خواہشوں کو پیشوا بنانا ہے ،ایک حدیث میں ہے: یہ اُمت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی سب جہنمی ہوں گے سوائے ایک کے ، ایک دوسرے کی تکلیف کا مزہ چکھے اس سے مراد سزا اور قتل ہے ، انْظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ آپ دیکھئے تو سہی ہم کس طرح دلائل مختلف پہلوؤں سے بیان کرتے ہیں۔ شاید وہ سمجھ جائیں۔ (۶۵) دیکھ لے کہ ہم کس طرح اپنی آیتیں وضاحت کے ساتھ بیان فرما رہے ہیں ۔ تاکہ لوگ غورو تدبر کریں سوچیں سمجھیں ۔اس آیت کے نازل ہونے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو! میرے بعد کافر بن کر نہ لوٹ جانا کہ ایک دوسروں کی گردنوں پر تلواریں چلانے لگو، اس پر لوگوں نے کہا حضور کیا ہم اللہ کی واحدانیت اور آپ کی رسالت کو مانتے ہوئے ایسا کر سکتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا ہاں ہاں یہی ہو گا ۔ کسی نے کہا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم مسلمان رہتے ہوئے مسلمانوں ہی کو قتل کریں اس پر آیت کا آخری حصہ اور اس کے بعد کی آیت وَكَذَّبَ بِهِ اتری ( ابن ابی حاتم اور ابن جریر) وَكَذَّبَ بِهِ قَوْمُكَ وَهُوَ الْحَقُّ ۚ قُلْ لَسْتُ عَلَيْكُمْ بِوَكِيلٍ اور آپ کی قوم اس کی تکذیب کرتی ہے حالانکہ وہ یقینی ہے۔ آپ کہہ دیجئے کہ میں تم پر تعینات نہیں کیا گیا ہوں (۶۶) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس قرآن کو اور جس ہدایت و بیان کو تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے لایا ہے اور جسے تیری قوم قریش جھٹلا رہی ہے حقیقتاً وہ سرا سر حق ہے بلکہ اس کے سوا اور کوئی حق ہے ہی نہیں ان سے کہہ دیجئے میں نہ تو تمہارا محافظ ہوں نہ تم پر وکیل ہوں، جیسے اور آیت میں ہے: وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَن شَآءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَآءَ فَلْيَكْفُرْ اور اعلان کر دے کہ یہ سراسر برحق قرآن تمہارے رب کی طرف سے ہے۔ اب جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے۔ (۱۸:۲۹) یعنی مجھ پر صرف تبلیغ کرنا فرض ہے ، تمہارے ذمہ سننا اور ماننا ہے ماننے والے دنیا اور آخرت میں نیکی پائیں گے اور نہ ماننے والے دونوں جہان میں بد نصیب رہیں گے، لِكُلِّ نَبَإٍ مُسْتَقَرٌّ ۚ وَسَوْفَ تَعْلَمُونَ ہر خبر (کے وقوع) کا ایک وقت ہے جلد ہی تم کو معلوم ہو جائے گا۔ (۶۷) ہر خبر کی حقیقت ہے وہ ضرور واقع ہونے والی ہے اس کا وقت مقرر ہے ، وَلَتَعْلَمُنَّ نَبَأَهُ بَعْدَ حِينِ یقیناً تم اس کی حقیقت کو کچھ ہی وقت کے بعد (صحیح طور پر) جان لو گے ۔ (۳۸:۸۸) لِكُلِّ أَجَلٍ كِتَابٌ ہر مقررہ وعدے کی ایک لکھت ہے (۱۳:۳۸) تمہیں عنقریب حقیقت حال معلوم ہو جائے گی، واقعہ کا انکشاف ہو جائے گا اور جان لو گے ، وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ ۚ اور جب آپ ان لوگوں کو دیکھیں جو ہماری آیات میں عیب جوئی کر رہے ہیں تو ان لوگوں سے کنارہ کش ہوجائیں یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں لگ جائیں پھر فرمایا جب تو انہیں دیکھے جو میری آیتوں کو جھٹلاتے ہیں اور ان کا مذاق اڑاتے ہیں تو تو ان سے منہ پھیر لے اور جب تک وہ اپنی شیطانیت سے باز نہ آ جائیں تو ان کے ساتھ نہ اٹھو نہ بیٹھو ، اس آیت میں گو فرمان حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے لیکن حکم عام ہے ۔ آپﷺ کی اُمت کے ہر شخص پر حرام ہے کہ وہ ایسی مجلس میں یا ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھے جو اللہ کی آیتوں کی تکذیب کرتے ہوں ان کے معنی الٹ پلٹ کرتے ہوں اور ان کی بےجا تاویلیں کرتے ہوں ، وَإِمَّا يُنْسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَى مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ اور اگر آپ کو شیطان بھلا دے تو یاد آنے کے بعد پھر ایسے ظالم لوگوں کے ساتھ مت بیٹھیں (۶۸) اگر بالفرض کوئی شخص بھولے سے ان میں بیٹھ بھی جائے تو یاد آنے کے بعد ایسے ظالموں کے پاس بیٹھنا ممنوع ہےحدیث شریف میں ہے: اللہ تعالیٰ نے میری اُمت کو خطا اور بھول سے درگزر فرما لیا ہے اور ان کاموں سے بھی جو ان سے زبر دستی مجبور کر کے کرائے جائیں ۔ اس آیت کے اسی حکم کی طرف اشارہ اس آیت میں ہے: وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِى الْكِتَـبِ ... حَتَّى يَخُوضُواْ فِى حَدِيثٍ غَيْرِهِ إِنَّكُمْ إِذاً مِّثْلُهُمْ تم پر اس کتاب میں یہ فرمان نازل ہو چکا ہے کہ جب اللہ کی آیتوں کے ساتھ کفر اور مذاق ہوتا ہوا سنو تو ایسے لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھو اور اگر تم نے ایسا کیا تو تم بھی اس صورت میں ان جیسے ہی ہو جاؤ گے (۴:۱۴۰) ہاں جب وہ اور باتوں میں مشغول ہوں تو خیر ، مطلب یہ ہے کہ اگر تم ان کے ساتھ بیٹھے اور ان کی باتوں کو برداشت کر لیا تو تم بھی ان کی طرح ہی ہو، وَمَا عَلَى الَّذِينَ يَتَّقُونَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِنْ شَيْءٍ وَلَكِنْ ذِكْرَى لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ اور جو لوگ پرہیزگار ہیں ان پر انکی باز پرس کا کوئی اثر نہ پہنچے گا اور لیکن ان کے ذمہ نصیحت کر دینا ہے شاید وہ بھی تقویٰ اختیار کریں ۔ (۶۹) پھر فرمان ہے کہ جو لوگ ان سے دوری کریں ان کے ساتھ شریک نہ ہوں ان کی ایسی مجلسوں سے الگ رہیں وہ بری الذمہ ہیں ان پر ان کا کوئی گناہ نہیں ، ان پر اس بدکرداری کا کوئی بوجھ ان کے سر نہیں ، دیگر مفسرین کہتے ہیں کہ اس کے یہ معنی ہیں کہ اگرچہ ان کے ساتھ بیٹھیں لیکن جبکہ ان کے کام میں اور ان کے خیال میں ان کی شرکت نہیں تو یہ بےگناہ ہیں لیکن یہ حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ حکم سورۃ نساء مدنی کی آیت إِنَّكُمْ إِذًا مِّثْلُهُمْ (۴:۱۴۰) سے منسوخ ہے ۔ مفسرین کی اس تفسیر کے مطابق آیت کے آخری جملے کے یہ معنی ہوں گے کہ ہم نے تمہیں ان سے الگ رہنے کا حکم اس لئے دیا ہے کہ انہیں عبرت حاصل ہو اور ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے گناہ سے باز آ جائیں اور ایسا نہ کریں۔ وَذَرِ الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَهُمْ لَعِبًا وَلَهْوًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا ۚ اور ایسے لوگوں سے بالکل کنارہ کش رہیں جنہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشہ بنا رکھا ہے اور دنیوی زندگی نے انھیں دھوکا میں ڈال رکھا ہے یعنی بےدینوں سے منہ پھیر لو ان کا انجام نہایت برا ہے وَذَكِّرْ بِهِ أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِمَا كَسَبَتْ لَيْسَ لَهَا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلِيٌّ وَلَا شَفِيعٌ وَإِنْ تَعْدِلْ كُلَّ عَدْلٍ لَا يُؤْخَذْ مِنْهَا ۗ اور اس قرآن کے ذریعے سے نصیحت بھی کرتے ہیں تاکہ کوئی شخص اپنے کردار میں (اس طرح) پھنس نہ جائے کہ کوئی غیر اللہ اس کا نہ مددگار ہو اور نہ سفارشی اور یہ کیفیت ہو کہ اگر دنیا بھر کا معاوضہ بھی دے ڈالے تب بھی اس سے نہ لیا جائے اس قرآن کو پڑھ کر سنا کر لوگوں کو ہوشیار کر دو اللہ کی ناراضگی سے اور اس کے عذابوں سے انہیں ڈرا دو تاکہ کوئی شخص اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے ہلاک نہ ہو پکڑا نہ جائے رسوا نہ کیا جائے اپنے مطلوب سے محروم نہ رہ جائے، جیسے فرمان ہے: كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ رَهِينَةٌ ـ إِلاَّ أَصْحَـبَ الْيَمِينِ ہر شخص اپنے اعمال کا گروی ہوا ہے مگر داہنے ہاتھ والے، (۷۴:۳۸،۳۹) یاد رکھو کسی کا کوئی والی اور سفارشی نہیں جیسے ارشاد فرمایا: مِّن قَبۡلِ أَن يَأۡتِىَ يَوۡمٌ۬ لَّا بَيۡعٌ۬ فِيهِ وَلَا خُلَّةٌ۬ وَلَا شَفَـٰعَةٌ۬ۗ اس سے پہلے کہ کہ وہ دن آئے جس میں نہ تجارت ہے نہ دوستی نہ شفاعت (۲:۲۵۴) کافر پورے ظالم ہیں اگر یہ لوگ قیامت کے دن تمام دنیا کی چیزیں فدئیے یا بدلے میں دے دینا چاہیں تو بھی ان سے نہ فدیہ لیا جائے گا نہ بدلہ۔ کسی چیز کے بدلے وہ عذابوں سے نجات نہیں پا سکتے ۔ جیسے فرمان ہے: إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ وَمَاتُواْ وَهُمْ كُفَّارٌ فَلَن يُقْبَلَ مِنْ أَحَدِهِم مِّلْءُ الاٌّرْضِ ذَهَبًا جو لوگ کفر پر جئے اور کفر پر ہی مرے یہ اگر زمین بھر کر سونا بھی دیں تو ناممکن ہے کہ قبول کیا جائے اور انہیں چھوڑا جائے (۳:۹۱) أُولَئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِمَا كَسَبُوا ۖ ایسے ہی ہیں کہ اپنے کردار کے سبب پھنس گئے، پس فرما دیا گیا کہ یہی وہ لوگ ہیں جو اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے رسوا کر دیئے گئے لَهُمْ شَرَابٌ مِنْ حَمِيمٍ وَعَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْفُرُونَ ان کے لئے نہایت گرم پانی پینے کے لئے ہوگا اور دردناک سزا ہوگی اپنے کفر کے سبب۔ (۷۰) انہیں گرم کھولتا ہوا پانی پینے کو ملے گا اور انہیں سخت المناک عذاب ہو گا کیونکہ یہ کافر تھے ۔ قُلْ أَنَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنْفَعُنَا وَلَا يَضُرُّنَا آپ کہہ دیجئے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا ایسی چیز کو پکاریں کہ وہ نہ ہم کو نفع پہنچائے اور نہ ہم کو نقصان پہنچائے مشرکوں نے مسلمانوں سے کہا تھا کہ ہمارے دین میں آ جاؤ اور اسلام چھوڑ دو اس پر یہ آیت اتری کہ کیا ہم بھی تمہاری طرح بےجان و بےنفع و نقصان معبودوں کو پوجنے لگیں ؟ وَنُرَدُّ عَلَى أَعْقَابِنَا بَعْدَ إِذْ هَدَانَا اللَّهُ کیا ہم الٹے پھر جائیں اسکے بعد کہ ہم کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کر دی ہے، اور جس کفر سے ہٹ گئے ہیں کیا پھر لوٹ کر اسی پر آ جائیں؟ اور تم جیسے ہی ہو جائیں؟ بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اب تو ہماری آنکھیں کھل گئیں صحیح راہ مل گئی اب اسے کیسے چھوڑ دیں؟ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّيَاطِينُ فِي الْأَرْضِ حَيْرَانَ لَهُ أَصْحَابٌ يَدْعُونَهُ إِلَى الْهُدَى ائْتِنَا ۗ جیسے کوئی شخص ہو کہ اس کو شیطان نے کہیں جنگل میں بےراہ کر دیا ہو اور وہ بھٹکتا پھرتا ہو اس کے ساتھی بھی ہوں کہ ہمارے پاس آ۔ اگر ہم ایسا کر لیں تو ہماری مثال اس شخص جیسی ہو گی جو لوگوں کے ساتھ سیدھے راستے پر جا رہا تھا مگر راستہ گم ہو گیا شیطان نے اسے پریشان کر دیا اور ادھر ادھر بھٹکانے لگا اس کے ساتھ جو راستے پر تھے وہ اسے پکارنے لگے کہ ہمارے ساتھ مل جا ہم صحیح راستے پر جا رہے ہیں یہی مثال اس شخص کی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جان اور پہچان کے بعد مشرکوں کا ساتھ دے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی پکارنے والے ہیں اور اسلام ہی سیدھا اور صحیح راستہ ہے ، ابن عباسؓؓ فرماتے ہیں : یہ مثال اللہ تعالیٰ نے معبودان باطل کی طرف بلانے والوں کی بیان فرمائی ہے اور ان کی بھی جو اللہ کی طرف بلاتے ہیں ، ایک شخص راستہ بھولتا ہے وہیں اس کے کان میں آواز آتی ہے کہ اے فلاں ادھر آ سیدھی راہ یہی ہے لیکن اس کے ساتھی جس غلط راستے پر لگ گئے ہیں وہ اسے تھپکتے ہیں اور کہتے ہیں یہی راستہ صحیح ہے اسی پر چلا چل۔ اب اگر یہ سچے شخص کو مانے گا تو راہ راست لگ جائے گا ورنہ بھٹکتا پھرے گا ۔ اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت کرنے والے اس امید میں ہوتے ہیں کہ ہم بھی کچھ ہیں لیکن مرنے کے بعد انہیں معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ کچھ نہ تھے اس وقت بہت نادم ہوتے ہیں اور سوائے ہلاکت کے کوئی چیز انہیں دکھائی نہیں دیتی ، یعنی جس طرح کسی جنگ میں گم شدہ انسان کو جنات اس کا نام لے کر آوازیں دے کر اسے اور غلط راستوں پر ڈال دیتے ہیں جہاں وہ مارا مارا پھرتا ہے اور بالآخر ہلاک اور تباہ ہو جاتا ہے اسی طرح جھوت معبودوں کا پجاری بھی برباد ہو جاتا ہے ، ہدایت کے بعد گمراہ ہونے والے کی یہی مثال ہے جس راہ کی طرف شیطان اسے بلا رہے ہیں وہ تو تباہی اور بربادی کی راہ ہے اور جس راہ کی طرف اللہ بلا رہا ہے اور اس کے نیک بندے جس راہ کو سجھا رہے ہیں وہ ہدایت ہے گو وہ اپنے ساتھیوں کے مجمع میں سے نہ نکلے اور انہیں ہی راہ راست پر سمجھتا رہے اور وہ ساتھی بھی اپنے تئیں ہدایت یافتہ کہتے رہیں ۔ لیکن یہ قول آیت کے لفظوں سے مطابق نہیں کیونکہ آیت میں موجود ہے کہ وہ اسے ہدایت کی طرف بلاتے ہیں پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ ضلالت ہو ؟ حَيْرَانَ پر زبر حال ہونے کی وجہ سے ہے صحیح مطلب یہی ہے کہ اس کے ساتھی جو ہدایت پر ہیں اب اسے غلط راہ پر دیکھتے ہیں تو اس کی خیر خواہی کے لئے پکار پکار کر کہتے ہیں کہ ہمارے پاس آ جا سیدھا راستہ یہی ہے لیکن یہ بد نصیب ان کی بات پر اعتماد نہیں کرتا بلکہ توجہ تک نہیں کرتا ، قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَى ۖ آپ کہہ دیجئے کہ یقینی بات ہے کہ راہ راست وہ خاص اللہ ہی کی راہ ہے سچ تو یہ ہے کہ ہدایت اللہ کے قبضے میں ہے ، وَمَن يَهْدِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِن مُّضِلٍّ وہ جسے اللہ راہ دکھائے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، (۳۹:۳۷) چنانچہ خود قرآن میں ہے: إِن تَحْرِصْ عَلَى هُدَاهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ لاَ يَهْدِى مَن يُضِلُّ وَمَا لَهُمْ مِّن نَّـصِرِينَ تو چاہے ان کی ہدایت پر حرص کرے لیکن جسے اللہ بھٹکا دے اسے وہی راہ پر لا سکتا ہے ایسوں کا کوئی مددگار نہیں ، (۱۶:۳۷) وَأُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ اور ہم کو یہ حکم ہوا ہے کہ ہم پروردگار عالم کے مطیع ہوجائیں۔ (۷۱) ہم سب کو یہی حکم کیا گیا ہے کہ ہم خلوص سے ساری عبادتیں محض اسی وحدہ لا شریک لہ کے لئے کریں وَأَنْ أَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَاتَّقُوهُ ۚ اور یہ کہ نماز کی پابندی کرو اور اس سے ڈرو اور یہ بھی حکم ہے کہ نمازیں قائم رکھیں اور ہر حال میں اس سے ڈرتے رہیں وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ یہ چیز شاق ہے، مگر ڈر رکھنے والوں پر۔ (۲:۴۶) وَهُوَ الَّذِي إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ اور وہی ہے جس کے پاس تم جمع کئے جاؤ گے۔ (۷۲) قیامت کے دن اسی کے سامنے حشر کیا جائے گا سب وہیں جمع کئے جائیں گے، وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ۖ وَيَوْمَ يَقُولُ كُنْ فَيَكُونُ ۚ اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا اور جس وقت اللہ تعالیٰ اتنا کہہ دے گا تو ہوجا وہ ہو پڑے گا اسی نے آسمان و زمین کو عدل کے ساتھ پیدا کیا ہے وہی مالک اور مدبر ہے قیامت کے دن فرمائے گا ہو جا تو ہو جائے گا ایک لمحہ بھی دیر نہ لگے گی يَوْمَ کا زبر یا تو وَاتَّقُوهُ پر عطف ہونے کی وجہ سے ہے یعنی اس دن سے ڈرو جس دن اللہ فرمائے گا ہو اور ہو جائے گا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ يَوْمَ کا زبر خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ پر عطف ہونے کی بنا ءپر ہو تو گویا ابتدا پیدائش کو بیان فرما کر پھر دوبارہ پیدائش کو بیان فرمایا یہی زیادہ مناسب ہے ، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ فعل مضمر ہو یعنی اذکر اور اس وجہ سے يَوْمَ پر زبر آیا ہو ، اس کے بعد کے دونوں جملے محلاً مجرور ہیں، پس یہ دونوں جملے بھی محلاً مجرور ہیں ۔ قَوْلُهُ الْحَقُّ ۚ وَلَهُ الْمُلْكُ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ ۚ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ۚ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُ اس کا کہنا حق اور با اثر ہے اور ساری حکومت خاص اس کی ہوگی جب کہ صور میں پھونک ماری جائے گی وہ جاننے والا ہے پوشیدہ چیزوں کا اور ظاہر چیزوں کا اور وہی ہے بڑی حکمت والا پوری خبر رکھنے والا۔ (۷۳) ان میں پہلی صفت یہ ہے کہ اللہ کا قول حق ہے رب کے فرمان سب کے سب سچ ہیں ، تمام ملک کا وہی اکیلا مالک ہے ، سب چیزیں اسی کی ملکیت ہیں يَوْمَ يُنْفَخُ میں يَوْمَ ممکن ہے کہ يَوْمَ يَقُولُ کا بدل ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وَلَهُ الْمُلْكُ کا ظرف ہو جیسے اور آیت میں ہے: لِّمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ لِلَّهِ الْوَحِدِ الْقَهَّارِ آج کس کی بادشاہی ہے؟ فقط اللہ واحد و قہار کی۔ (۴۰:۱۶) اور جیسے اس آیت میں ارشاد ہوا ہے: الْمُلْكُ يَوْمَئِذٍ الْحَقُّ لِلرَّحْمَـنِ وَكَانَ يَوْماً عَلَى الْكَـفِرِينَ عَسِيراً اور اس دن صحیح طور پر ملک صرف رحمٰن کا ہی ہوگا اور یہ دن کافروں پر بڑا بھاری ہوگا (۲۵:۲۶) اور بھی اس طرح کی اور اس مضمون کی بہت سی آیتیں ہیں بعض کہتے ہیں صُورِ جمع ہے صُورۃ کی جیسے سورہ شہر پناہ کو کہتے ہیں اور وہ جمع ہے سورۃ کی لیکن صحیح یہ ہے کہ مراد صُورِ سے قرن ہے جسے حضرت اسرافیل پھونکیں گے، امام ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں حضورﷺ کا ارشاد ہے: حضرت اسرافیل صور کو اپنے منہ میں لئے ہوئے اپنی پیشانی جھکائے ہوئے حکم الہٰی کے منتظر ہیں ۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک صحابیؓ کے سوال پر حضورﷺ نے فرمایا : صور ایک نر سنگھے جیسا ہے جو پھونکا جائے گا، طبرانی کی مطولات میں ہے حضورﷺ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کی پیدائش کے بعدصور کو پیدا کیا اور اسے حضرت اسرافیل کو دیا وہ اسے لئے ہوئے ہیں اور عرش کی طرف نگاہ جمائے ہوئے ہیں کہ کب حکم ہو اور میں اسے پھونک دوں ۔ حضرت ابوہریرہ ؓفرماتے ہیں میں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صور کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا ایک نرسنگھا ہے میں نے کہا وہ کیسا ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا بہت ہی بڑا ہے واللہ اس کے دائرے کی چوڑائی آسمان و زمین کے برابر ہے اس میں سے تین نفخے پھونکے جائیں گے ، پہلا گھبراہٹ کا دوسرا بیہوشی کا تیسرا رب العالمیں کے سامنے کھڑے ہونے کا ۔ اول اول جناب باری حضرت اسرافیلؑ کو صور پھونکنے کا حکم دے گا وہ پھونک دیں گے جس سے آسمان و زمین کی تمام مخلوق گھبرا اٹھے گی مگر جسے اللہ چاہے یہ صور بحکم رب دیر تک برابر پھونکا جائے گااسی طرف اشارہ اس آیت میں ہے: وَمَا يَنظُرُ هَـٰٓؤُلَآءِ إِلَّا صَيۡحَةً۬ وَٲحِدَةً۬ مَّا لَهَا مِن فَوَاقٍ۬ انہیں صرف ایک چیخ کا انتظار ہے جس میں کوئی توقف (اور ڈھیل) نہیں ہے (۳۸:۱۵) پہاڑ اس صور سے مثل بادلوں کے چلنے پھرنے لگیں گے پھر ریت ریت ہو جائیں گے زمین میں بھونچال آ جائے گا اور وہ اس طرح تھر تھرانے لگے گی جیسے کوئی کشتی دریا کے بیچ زبردست طوفان میں موجوں سے ادھر ادھر ہو رہی ہو اور غوطے کھا رہی ہو ۔ مثل اس ہانڈی کے جو عرش میں لٹکی ہوئی ہے جسے ہوائیں ہلا جلا رہی ہیںاسی کا بیان اس آیت میں ہے: يَوۡمَ تَرۡجُفُ ٱلرَّاجِفَةُ جس دن کاپنے والی کانپے گی ، (۷۹:۶) یعنی اس دن زمین جنبش میں آ جائے گی اور بہت ہی ہلنے لگے گی اس کے پیچھے ہی پیچھے لگنے والی آ جائے گی دل دھڑکنے لگیں گے اور کلیجے الٹنے لگیں گے لوگ ادھر ادھر گرنے لگیں گے مائیں اپنے دودھ پیتے بچوں کو بھول جائیں گی ، حاملہ عورتوں کے حمل گر جائیں گے بجے بوڑھے ہو جائیں گے شیاطین مارے گھبراہٹ اور پریشانی کے بھاگتے بھاگتے زمین کے کناروں پر آ جائیں گے ، یہاں سے فرشتے انہیں مار مار کر ہٹائیں گے، لوگ پریشان حال حواس باختہ ہوں گے کوئی جائے پناہ نظر نہ آئے گی امر الہٰی سے بچاؤ نہ ہو سکے گا ایک دوسرے کو آوازیں دیں گے لیکن سب اپنی اپنی مصیبت میں پڑے ہوئے ہوں گے کہ ناگہاں زمین پھٹنی شروع ہو گی کہیں ادھر سے پھٹی کہیں ادھر سے پھٹی اب تو ابتر حالت ہو جائے گی کلیجہ کپکپانے لگے گا دل الٹ جائے گا اور اتنا صدمہ اور غم ہو گا جس کا اندازہ نہیں ہو سکتا ، جو آسمان کی طرف نظر اٹھائیں گے تو دیکھیں گے کہ گھل رہا ہے اور وہ بھی پھٹ رہا ہے ستارے جھڑ رہے ہیں سورج چاند بےنور ہو گیا ہے ، ہاں مردوں کو اس کا کچھ علم نہ ہو گا حضرت ابوہریرہ ؓنے سوال کیا کہ یا رسول اللہ قران کی آیت میں جو فرمایا گیا ہے وَيَوۡمَ يُنفَخُ فِى ٱلصُّورِ فَفَزِعَ مَن فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَمَن فِى ٱلۡأَرۡضِ إِلَّا مَن شَآءَ ٱللَّهُ (۲۷:۸۷) یعنی زمین و آسمان کے سب لوگ گھبرا اٹھیں گے لیکن جنہیں اللہ چاہے اس سے مراد کون لوگ ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا یہ شہید لوگ ہیں کہ وہ اللہ کے ہاں زندہ ہیں روزیاں پاتے ہیں اور سب زندہ لوگ گھبراہٹ میں ہوں گے لیکن اللہ تعالیٰ انہیں پریشانی سے محفوظ رکھے گا یہ تو عذاب ہے جو وہ اپنی بدترین مخلوق پر بھیجے گا، اسی کا بیان ان آیات میں ہے: يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ ٱتَّقُواْ رَبَّڪُمۡۚ ... وَلَـٰكِنَّ عَذَابَ ٱللَّهِ شَدِيدٌ۬ لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو! بلاشبہ قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہے۔جس دن تم اسے دیکھ لو گے ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے کو بھول جائیگی اور تمام حمل والیوں کے حمل گر جائیں گے اور تو دیکھے گا کہ لوگ مد ہوش، دکھائی دیں گے، حالانکہ درحقیقت وہ متوالے نہ ہونگے لیکن اللہ کا عذاب بڑا سخت ہے (۲۲:۱،۲) یہی حالت رہے گی جب تک اللہ چاہے بہت دیر تک یہی گھبراہٹ کا عالم رہے گا پھر اللہ تبارک و تعالیٰ حضرت جبرائیل کو بیہوشی کے نفخے کا حکم دے گا اس نفخہ کے پھونکتے ہی زمین و آسمان کی تمام مخلوق بیہوش ہو جائیں گی مگر جسے اللہ چاہے اور اچانک سب کے سب مر جائیں گے ۔ حضرت ملک الموت اللہ تعالیٰ کے حضور میں حاضر ہو کر عرض کریں گے کہ اے باری تعالیٰ زمین آسمان کی تمام مخلوق مر گئی مگر جسے تو نے چاہا ، اللہ تعالیٰ باوجود علم کے سوال کرے گا کہ یہ بتاؤ اب باقی کون کون ہے؟ وہ جواب دیں گے تو باقی ہے تو حی و قیوم ہے تجھ پر کبھی فنا نہیں اور عرش کے اٹھانے والے فرشتے اور جبرائیل و میکائیل اس وقت عرش کو زبان ملے گی اور وہ کہے گا اے پروردگار کیا جبرئیل وہ میکائیل بھی مریں گے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے اپنے عرش سے نیچے والوں پر سب پر موت لکھ دی ہے چنانچہ یہ دونوں بھی فوت ہو جائیں گے پھر ملک الموت رب جبار و قہار کے پاس آئیں گے اور خبر دیں گے کہ جبرائیل و میکائیل بھی انتقال کر گئے ۔ جناب اللہ علم کے باوجودہ پھر دریافت فرمائے گا کہ اب باقی کون ہے؟ ملک الموت جواب دیں گے کہ باقی ایک تو تو ہے ایسی بقا ولا جس پر فنا ہے ہی نہیں اور تیرے عرش کے اٹھانے والے اللہ فرمائے گا عرش کے اٹھانے والے بھی مر جائیں گے اس وقت وہ بھی مر جائیں گے، پھر اللہ کے حکم سے حضرت اسرافیل سے صور کو عرش لے لے گا ، ملک الموت حاضر ہو کر عرض کریں گے کہ یا اللہ عرش کے اٹھانے والے فرشتے بھی مر گئے اللہ تعالیٰ دریافت فرمائے گا حالانکہ وہ خوب جانتا ہے کہ اب باقی کون رہا؟ ملک الموت جواب دیں گے کہ ایک تو جس پر موت ہے ہی نہیں اور ایک تیرا غلام میں ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرمائے گا تو بھی میری مخلوق میں سے ایک مخلوق ہے تجھے میں نے ایک کام کیلئے پیدا کیا تھا جسے تو کر چکا اب تو بھی مرجا چنانچہ وہ بھی مر جائیں گے۔ اب اللہ تعالیٰ اکیلا باقی رہ جائے گا جو غلبہ والا یگانگت والا بےماں باپ اور بے اولاد کے ہے ۔ جس طرح مخلوق کے پیدا کرنے سے پہلے وہ یکتا اور اکیلا تھا ۔ پھر آسمانوں اور زمینوں کو وہ اس طرح لپیٹ لے گا جیسے دفتری کاغذ کو لپیٹتا ہے پھر انہیں تین مرتبہ الٹ پلٹ کرے گا اور فرمائے گا میں جبار ہوں میں کبریائی والا ہوں ۔ پھر تین مرتبہ فرمائے گا آج ملک کا مالک کون ہے؟ کوئی نہ ہو گا جو جواب دے تو خود ہی جواب دے گا اللہ واحد وقہار۔ پھر دوسرے آسمان و زمین پیدا کرے گا۔ اللہ تعالیٰ انہیں پھیلا دے گا اور دراز کر دے گا جس طرح چمڑا کھینچا جاتا ہے کہیں کوئی اونچ نیچ باقی نہ رہے گی ، پھر ایک الہٰی آواز کے ساتھ ہی ساری مخلوق اس تبدیل شدہ زمین میں آ جائے گی اندر والے اندر اور اوپر ولے اوپر پھر اللہ تعالیٰ اپنے عرش تلے سے اس پر بارش برسائے گا پھر آسمان کو حکم ہو گا اور وہ چالیس دن تک مینہ برسائے گا یہاں تک کہ پانی ان کے اوپر بارہ ہاتھ چڑھ جائے گا ، پھر جسموں کو حکم ہو گا کہ وہ اُگیں اور وہ اس طرح اُگنے لگیں گے جیسے سبزیاں اور ترکاریاں اور وہ پورے پورے کامل جسم جیسے تھے ویسے ہی ہو جائیں گے پھر حکم فرمائے گا کہ میرے عرش کے اٹھانے والے فرشتے جی اٹھیں چنانچہ وہ زندہ ہو جائیں گے پھر اسرافیل کو حکم ہو گا کہ صور لے کر منہ سے لگالیں ۔ پھر فرمان ہو گا کہ جبرائیل و میکائیل زندہ ہو جائیں یہ دونوں بھی اٹھیں گے ، پھر اللہ تعالیٰ روحوں کو بلائے گا مؤمنوں کو نورانی ارواح اور کفار کی ظلماتی روحیں آئیں گی انہیں لے کر اللہ تعالیٰ صور میں ڈال دے گا، پھر اسرافیل کو حکم ہو گا کہ اب صور پھونک دو چنانچہ بعث کا صور پھونکا جائے گا جس سے ارواح اس طرح نکلیں گی جیسے شہید کی مکھیاں ۔ تمام خلا ان سے بھر جائے گا پھر رب عالم کا ارشاد ہو گا کہ مجھے اپنی عزت و جلال اکی قسم ہے ہر روح اپنے اپنے جسم میں چلی جائے ، چنانجہ سب روحیں اپنے اپنے جسموں میں نتھنوں کے راستے چلی جائیں گی اور جس طرح زہر رگ وپے میں اثر کر جاتا ہے روہ روئیں روئیں میں دوڑ جائے گی ، پھر زمین پھٹ جائے گی اور لوگ اپنی قبروں سے نکل کھڑے ہوں گے ، سب سے پہلے میرے اوپر سے زمین شق ہو گی ، لوگ نکل کر دوڑ تے ہوئے اپنے رب کی طرف چل دیں گے، اس وقت کافر کہیں گے کہ آج کا دن بڑا بھاری ہے ، سب ننگے پیروں ننگے بدن بےختنہ ہوں گے ایک میدان میں بقدر ستر سال کے کھڑے رہیں گے، نہ ان کی طرف نگاہ اٹھائی جائے گی نہ ان کے درمیان فیصلے کئے جائیں گے، لوگ بےطرح گریہ وزاری میں مبتلا ہوں گے یہاں تک کہ آنسو ختم ہو جائیں گے اور خون آنکھوں سے نکلنے لگے گا، پسینہ اس قدر آئے گا کہ منہ تک یا ٹھوڑیوں تک اس میں ڈوبے ہوئے ہوں گے، آپس میں کہیں گے آؤ کسی سے کہیں کہ وہ ہماری شفاعت کرے، ہمارے پروردگار سے عرض کرے کہ وہ آئے اور ہمارے فیصلے کرے تو کہیں گے کہ اس کے لائق ہمارے باپ حضرت آدم e سے بہتر کون ہو گا؟ جنہیں اللہ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا، اپنی روح ان میں پھونکی اور آمنے سامنے ان سے باتین کیں۔ چنانچہ سب مل کر آپ کے پا س جائیں گے اور سفارش طلب کریں گے لیکن حضرت آدم علیہ السلام صاف انکار کر جائیں گے اور فرمائیں گے مجھ میں اتنی قابلیت نہیں پھر وہ اسی طرح ایک ایک نبی کے پاس جائیں گے اور سب انکار کر دیں گے ۔ حضورﷺ فرماتے ہیں پھر سب کے سب میرے پاس آئیں گے ، میں عرش کے آگے جاؤں گا اور سجدے میں گر پڑوں گا، اللہ تعالیٰ میرے پاس فرشتہ بھیجے گا وہ میرا بازو تھام کر مجھے سجدے سے اٹھائے گا ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) میں جواب دوں گا کہ ہاں اے میرے رب ، اللہ عزوجل باو وجود عالم کل ہونے کے مجھے سے دریافت فرمائے گا کہ کیا بات ہے؟ میں کہوں گا یا اللہ توے مجھ سے شفاعت کی قبولیت کا وعدہ فرمایا ہے اپنی مخلوق کے بارے میں میری شفاعت کو قبول فرما اور ان کے فیصلوں کے لئے تشریف لے آ ۔ رب العالمیں فرمائے گا میں نے تیری سفارش قبول کی اور میں آ کر تم میں فیصلے کئے دیتا ہوں ۔ میں لوٹ کر لوگوں کے ساتھ ٹھہر جاؤں گا کہ ناگہاں آسمانوں سے ایک بہت بڑا دھماکہ سنائی دے گا جس سے لوگ خوفزدہ ہو جائیں گے اتنے میں آسمان کے فرشتے اترنے شروع ہوں گے جن کی تعداد کل انسانوں اور سارے جنوں کے برابر ہو گی ۔ جب وہ زمین کے قریب پہنچیں گے تو ان کے نور سے زمین جگمگا اٹھے گی وہ صفیں باندھ کر کھڑے ہو جائیں گے ہم سب ان سے دریافت کریں گے کہ کیا تم میں ہمارا رب آیا ہے ؟ وہ جواب دیں گے نہیں پھر اس تعداد سے بھی زیادہ تعداد میں اور فرشتے آئیں گے ۔ آخر ہمارا رب عزوجل ابر کے سائے میں نزول فرمائے گا اور فرشتے بھی اس کے ساتھ ہوں گے اس کا عرش اس دن آٹھ فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے اس وقت عرش کے اٹھانے والے جار فرشتے ہیں ان کے قدم آخری نیچے والی زمین کی تہہ میں ہیں زمین و آسمان ان کے نصف جسم کے مقابلے میں ہے ان کے کندھوں پر عرش الہٰی ہے ۔ ان کی زبانین ہر وقت اللہ تبارک و تعالیٰ کی پاکیزگی کے بیان میں تر ہیں ۔ ان کی تسبیح یہ ہے: سبحان ذی العرش والجبروت سبحان ذی الملک والملکوت سبحان الحی الذی لا یموت سبحان الذی یمیت الخلائق ولا یموت سبوح قدوس قدوس قدوس سبہان ربنا الاعلی رب الملا ئکتہ والروہ سبحان ربنا الا علی الذی یمیت الخلائق ولا یموت پھر اللہ جس جگہ چاہے گا پانی کرسی زمین پر رکھے گا اور بلند آواز سے فرمائے گا اے جنوں اور انسانوں میں نے تمہیں جس دن سے پیدا کیا تھا اس دن سے آج تک میں خاموش رہا تمہاری باتیں سنتا رہا تمہارے اعمال دیکھتا رہا سنو تمہارے اعمال نامے میرے سامنے پڑھے جائیں گے جو اس میں بھلائی پائے وہ اللہ کی حمد کرے اور جو اس میں اور کچھ پائے وہ اپنی جان کو ملامت کرے، پھر بحکم اللہ جہنم میں سے ایک دیکھتی ہوئی گردن نکلے گی اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے آدم کی اولاد کیا میں نے تم سے عہد نہیں لیا تھا کہ شیطان کی پوجانہ کرنا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے؟ اور صرف میری ہی عبادت کرتے رہنا یہی سیدھی راہ ہے ، شیطان نے تو بہت سی مخلوق کو گمراہ کر دیا ہے کیا تمہیں عقل نہیں؟ یہ ہے وہ جہنم جس کا تم وعدہ دیئے جاتے تھے اور جسے تم جھٹلاتے رہےاے گنہگارو ! آج تم نیک بندوں سے الگ ہو جاؤ، اس فرمان کے ساتھ ہی بد لوگ نیکوں سے الگ ہو جائیں گے تمام اُمتیں گھٹنوں کے بل گر پڑیں گی جیسے قران کریم میں ہے کہ تو ہر اُمت کو گھٹنوں کے بل گرے ہوئے دیکھے گا ہر اُمت اپنے نامہ اعمال کی طرف بلائی جائے گی، پھر اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں فیصلے کرے گا پہلے جانوروں میں فیصلے ہوں گے یہاں تک کہ بےسینگ والی بکری کا بدلہ سینگ والی بکری سے لیا جائے گا، جب کسی کا کسی کے ذمہ کوئی دعویٰ باقی نہ رہے گا تو اللہ تعالیٰ انہیں فرمائے گا تم سب مٹی ہو جاؤ، اس فرمان کے ساتھ ہی تمام جانور مٹی بن جائیں گے، اس وقت کافر بھی یہی آرزو کریں گے کہ کاش ہم بھی مٹی ہو جاتے ، پھر اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کے فیصلے شروع کرے گا سب سے پہلے قتل و خون کا فیصلہ ہو گا، اللہ تعالیٰ اپنی راہ کے شہیدوں کو بھی بلائے گا ان کے ہاتھوں سے قتل شدہ لوگ اپنا سر اٹھائے ہوئے حاضر ہوں گے رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا کہیں گے کہ باری تعالیٰ دریافت فرما کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا؟ پس باوجود علم کے اللہ عزوجل مجاہدین سے پوچھے گا کہ تم نے انہیں کیوں قتل کیا؟ وہ جواب دیں گے اس لئے کہ تیری بات بلند ہو اور تیری عزت ہو اللہ عالی فرمائے گا تم سچے ہو اسی وقت ان کا چہرہ نورانی ہو جائے گا سورج کی طرح چمکنے لگے گا اور فرشتے انہیں اپنے جھرمٹ میں لے کر جنت کی طرف چلیں گے پھر باقی کے اور تمام قاتل و مقتول اسی طرح پیش ہوں گے اور جو نفس ظلم سے قتل کیا گیا ہے اس کا بدلہ ظالم قاتل سے دلوایا جائے گا اسی طرح ہر مظلوم کو ظالم سے بدلہ دلوایا جائے گا یہاں تک کہ جو شخص دودھ میں پانی ملا کر بیچتا تھا اسے فرمایا جائے گا کہ اپنے دودھ سے پانی جدا کر دے، ان فیصلوں کے بعدایک منادی باآواز بلند ندا کرے گا جسے سب سنیں گے ، ہر عابد اپنے معبود کے پیچھے ہولے اور اللہ کے سوا جس نے کسی اور کی عبادت کی ہے وہ جہنم میں چل دے ، سنو اگر یہ سچے معبود ہوتے تو جہنم میں واردنہ ہوتے یہ سب تو جہنم میں ہی ہمیشہ رہیں گے اب صرف با ایمان لوگ باقی رہیں گے ان میں منافقین بھی شامل ہوں گے اللہ تعالیٰ ان کے پاس جس ہیئت میں چاہے تشریف لائے گا اور ان سے فرمائے گا کہ سب اپنے معبودوں کے پیچھے چلے گئے تم بھی جس کی عبادت کرتے تھے اس کے پاس چلے جاؤ ۔ یہ جواب دیں گے کہ واللہ ہمارا تو کوئی معبود نہیں بجزالہ العالمین کے ۔ ہم نے کسی اور کی عبادت نہیں کی ۔ اب ان کے لئے پنڈلی کھول دی جائے گی اور اللہ تعالیٰ اپنی عظمت کی تجلیاں ان پر ڈالے گا جس سے یہ اللہ تعالیٰ کو پہچان لیں گے اور سجدے میں گر پڑیں گے لیکن منافق سجدہ نہیں کر سکیں گے یہ اوندھے اور الٹے ہو جائیں گے اور اپنی کمر کے بل گر پڑیں گے۔ ان کی پیٹھ سیدھی کر دی جائے گی مڑ نہیں سکیں گے ۔ پھر اللہ تعالیٰ مؤمنوں کو سجدے سے اٹھنے کا حکم دے گا اور جہنم پر پل صراط رکھی جائے گی جو تلوار جیسی تیز دھار والی ہو گی اور جگہ جگہ آنکڑے اور کانٹے ہوں گے بڑی پھسلنی اور خطرانک ہو گی ایماندار تو اس پر سے اتنی سی دیر میں گزر جائیں گے جتنی دیر میں کوئی آنکھ بند کر کے کھول دے جس طرح بجلی گزرجاتی ہے اور جیسے ہوا تیزی سے چلتی ہے ۔ یا جیسے تیز روگھوڑے یا اونٹ ہوتے ہیں یا خوب بھاگنے والے آدمی ہوتے ہیں بعض صحیح سالم گزر جائیں گے بعض زخمی ہو کر پار اتر جائیں گے بعض کٹ کر جہنم میں گر جائیں گے جتنی لوگ جب جنت کے پاس پہنچیں گے تو کہیں گے کون ہمارے رب سے ہماری سفارش کرے کہ ہم جنت میں چلے جائیں؟ دوسرے لوگ جواب دیں گے اس کے حقدار تمہارے باپ حضرت آدم علیہ السلام سے زیادہ اور کون ہوں گے؟ جنہیں رب ذوالکریم نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور اپنی روح ان میں پھونکی اور آمنے سامنے باتیں کیں پس سب لوگ آپ کے پاس آئیں گے اور آپ سے سفارش کرانی جاہیں گے لیکن اپنا گناہ یاد کر کے جواب دیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں تم نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ وہ اللہ کے پہلے رسول ہیں ، لوگ حضرت نوح کے پاس آ کر ان سے یہ درخواست کریں گے لیکن وہ بھی اپنے گناہ کو یاد کر کے یہی فرمائیں گے اور کہیں گے کہ تم سب حضرت نوح کے پاس آ کر ان سے یہ درخواست کریں گے لیکن وہ بھی اپنے گناہ کو یاد کر کے یہی فرمائیں گے اور کہیں گے کہ تم سب حضرت ابراہیم کے پاس جاؤ وہ خلیل اللہ ہیں لوگ آپ کے پاس آئیں گے اور یہی کہیں گے آپ بھی اپنے گناہ کو یاد کر کے یہی جواب دیں گے اور حضرت موسیٰ کے پاس جانے کی ہدایت کریں گے کہ اللہ نے انہیں سرگوشیاں کرتے ہوئے نزدیک کیا تھا وہ کلیم اللہ ہیں ان پر تورات نازل فرمائی گئی تھی لوگ آپ کے پاس آئیں گے اور آپ سے طلب سفارش کریں گے آپ بھی اپنے گناہ کا ذکر کریں گے اور روح اللہ اور کلمتہ اللہ حضرت عیسیٰ ابن مریم کے پاس بھیجیں گے لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے میں اس قابل نہیں تم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ ۔ حضورﷺ فرماتے ہیں پس سب لوگ میرے پاس آئیں گے، میں اللہ کے سامنے تین شفاعتیں کروں گا میں جاؤں گا جنت کے پاس پہنچ کر دروازے کا کنڈا پکڑ کر کھٹکھٹاؤں گا مجھے مرحبا کہا جائے گا اور خوش آمدید کہا جائے گا میں جنت میں جا کر اپنے رب کو دیکھ کر سجدے میں گر پڑوں گا اور وہ وہ حمد و ثنا جناب باری کی بیان کروں گا جو کسی نے نہ کی ہو ، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنا سر اٹھاؤ شفاعت کرو قبول کی جائے گی مانگو ملے گا میں سر اٹھاؤں گا اللہ تعالیٰ تو دلوں کے بھید بھی جانتا ہے تاہم وہ دریافت فرمائے گا کہ کیا کہنا چاہتے ہو؟ میں کہوں گا اے اللہ تو نے میری شفاعت کے قبول فرمانے کا وعدہ کیا ہے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ میری شفاعت ان جنتیوں کے بارے میں قبول فرمائے گا اور انہیں جنت کے داخلے کی اجازت ہو جائے گی ۔واللہ جیسے تم اپنے گھر سے اپنے بال بچوں سے آگاہ ہو اس سے بہت زیادہ یہ جنتی اپنی جگہ اور اپنی بیویوں سے واقف ہوں گے ہر ایک اپنے اپنے ٹھکانے پہنچ جائے گا ستر ستر حوریں اور دو دو عورتیں ملیں گی، یہ دونوں عورتیں اپنی کی ہوئی نیکیوں کے سبب پر فضیلت چہروں کی مالک ہوں گی جتنی ان میں سے ایک کے پاس جائے گا جو یاقوت کے بالا خانے میں سونے کے جڑاؤ تخت پر ستر ریشمی حلے پہنے ہوئے ہو گی اس کا جسم اس قدر نورانی ہو گا کہ ایک طرف اگر جنتی اپنا ہاتھ رکھے تو دوسری طرف سے نظر آئے گا اس کی صفائی کی وجہ سے اس کی پنڈلی کا گودا گوشت پوست میں نظر آ رہا ہو گا اس کا دل اس کا آئینہ ہو گا نہ یہ اس سے بس کرے نہ وہ اس سے اکتائے ، جب کبھی اس کے پاس جائے گا باکرہ پائے گا ، نہ یہ تھکے نہ اسے تکلیف ہو ، نہ کوئی مکرو چیز ہو، یہ اپنی اسی مشغولی میں مزے میں اور لطف و راحت میں اللہ جانے کتنی مدت گزار دے گا جو ایک آواز آئے گی کہ مانا نہ تمہارا دل اس سے بھرتا ہے نہ ان کا دل تم سے بھرے گا ۔ لیکن اللہ نے تمہارے لئے اور بیویاں بھی رکھی ہوئی ہیں ۔اب یہ اوروں کے پاس جائے گا جس کے پاس جائے گا بےساختہ زبان سے یہی نکلے گا اللہ کی قسم کی ساری جنت میں تم سے بہتر کوئی چیز نہیں مجھے تو جنت کی تمام چیزوں سے زیادہ تم سے محبت ہے ، ہاں جنہیں ان کی بد عملیوں اور گناہوں نے تباہ کر رکھا ہے وہ جہنم میں جائیں گے اپنے اپنے اعمال کے مطابق آگ میں جلیں گے، بعض قدموں تک بعض آدھی پنڈلی تک بعض گھٹنے تک بعض آدھے بدن تک بعض گردن تک، صرف چہرہ باقی رہ جائے گا کیونکہ صورت کا بگاڑنا اللہ نے آگ پر حرام کر دیا ہے ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے اپنی اُمت کے گنہگار دوزخیوں کی شفاعت کریں گے اللہ تعالیٰ فرمائے گا جاؤ جنہیں پہچانو انہیں نکال لاؤ، پھر یہ لوگ جہنم سے آزاد ہوں گے یہاں تک کہ ان میں سے کوئی باقی نہ رہے گا پھر تو شفاعت کی عام اجازت مل جائے گی کل انبیاء اور شہداء شفاعت کریں گے، جناب باری کا ارشاد ہو گا کہ جس کے دل میں ایک دینار برابر بھی ایمان پاؤ اسے نکال لاؤ، پس یہ لوگ بھی آزاد ہوں گے اور ان میں سے بھی کوئی باقی نہ رہے گا، پھر فرمائے گا انہیں بھی نکال لاؤ جس کے دل میں دو ثلث دینار کے برابر ایمان ہو ، پھر فرمائے گا ایک ثلث والوں کو بھی، پھر ارشاد ہو گا چوتھائی دینار کے برابر والوں کو بھی، پھر فرمائے گا ایک قیراط کے برابر والوں کو بھی، پھر ارشاد ہو گا انہیں بھی جہنم سے نکال لاؤ جن کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہو ، پس یہ سب بھی نکل آئیں گے اور ان میں سے ایک شخص بھی باقی نہ بچے گا، بلکہ جہنم میں ایک شخص بھی ایسا نہ رہ جائے گا جس نے خلوص کے ساتھ کوئی نیکی بھی اللہ کی فرمانبرداری کے ماتحت کی ہو ، جتنے شفیع ہوں گے سب سفارش کر لیں گے یہاں تک کہ ابلیس کو بھی امید بندھ جائے گی اور وہ بھی گردن اٹھا اٹھا کر دیکھے گا کہ شاید کوئی میری بھی شفاعت کرے کیونکہ وہ اللہ کی رحمت کا جوش دیکھ رہا ہو گا اس کے بعد اللہ تعالیٰ ارحم الراحمین فرمائے گا کہ اب تو صرف میں ہی باقی رہ گیا اور میں تو سب سے زیادہ رحم و کرم کرنے والا ہوں، پس اپنا ہاتھ ڈال کر خود اللہ تبارک و تعالیٰ جہنم میں سے لوگوں کو نکالے گا جن کی تعداد سوائے اس کے اور کوئی نہیں جانتا وہ جلتے جھلستے ہوئے کوئلے کی طرح ہو گئے ہوں گے، انہیں نہر حیوان میں ڈالا جائے گا جہاں وہ اس طرح اُگیں گے جس طرح دانہ اگتا ہے جو کسی دریا کے کنارے بویا گیا ہو کہ اس کا دھوپ کا رخ تو سبز رہتا ہے اور سائے کا رخ زرد رہتا ہے ان کی گردنوں پر تحریر ہو گا کہ یہ رحمٰن کے آزاد کردہ ہیں، اس تحریر سے انہیں دوسرے جنتی پہچان لیں گے ۔ ایک مدت تک تو یونہی رہیں گے پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے کہ اے اللہ یہ حروف بھی مٹ جائیں اللہ عزوجل یہ بھی مٹا دے گا یہ حدیث اور آگے بھی ہے اور بہت ہی غریب ہے اور اس کے بعض حصوں کے شواہد متفرق احادیث میں ملتے ہیں، اس کے بعض الفاظ منکر ہیں ۔اسماعیل بن رافع قاضی اہل مدینہ اس کی روایت کے ساتھ منفرد ہیں ان کو بعض محدثین نے تو ثقہ کہا ہے اور بعض نے ضعیف کہا ہے اور ان کی حدیث کی نسبت کئی ایک محدثین نے منکر ہونے کی صراحت کی ہے ، جیسے امام احمد امام ابو حاتم امام عمرو بن علی، بعض نے ان کے بارے میں فرمایا ہے کہ یہ متروک ہیں ، امام ابن عدی فرماتے ہیں ان کی سب احادیث میں نظر ہے مگر ان کی حدیثیں ضعیف احادیث میں لکھنے کے قابل ہیں ، میں نے اس حدیث کی سندوں میں نے جو اختلاف کئی وجوہ سے ہے اسے علیحدہ ایک جزو میں بیان کر دیا ہے اس میں شک نہیں کہ اس کا بیان بہت ہی غریب ہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ بہت سی احادیث کو ملا کر ایک حدیث بنا لی ہے اسی وجہ سے اسے منکر کہا گیا ہے ، میں نے اپنے استاد حافظ ابو الحجاج مزی سے سنا ہے کہ انہوں نے امام ولید بن مسلم کی ایک کتاب دیکھی ہے جس میں ان باتوں کے جو اس حدیث میں ہی ہیں شواہد بیان کئے ہیں واللہ اعلم ۔ وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لِأَبِيهِ آزَرَ أَتَتَّخِذُ أَصْنَامًا آلِهَةً ۖ إِنِّي أَرَاكَ وَقَوْمَكَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ اور وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جب ابراہیم ؑ نے اپنے باپ آزر سے فرمایا کہ کیا تو بتوں کو معبود قرار دیتا ہے؟ بیشک میں تجھ کو اور تیری ساری قوم کو صریح گمراہی میں دیکھتا ہوں۔ (۷۴) حضرت عباسؓ کا قول ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام آزر نہ تھا بلکہ تارخ تھا ۔ آزر سے مراد بت ہے ۔ آپ کی والدہ کا نام مثلے تھا آپ کی بیوی صاحبہ کا نام سارہ تھا ۔ حضرت اسماعیل کی والدہ کا نام ہاجرہ تھا یہ حضرت ابراہیم کی کنیز تھیں ۔ علماء نسب میں سے اوروں کا بھی قول ہے کہ آپ کے والد کا نام تارخ تھا ۔ مجاہد اور سدی فرماتے ہیں آزر اس بت کا نام تھا جس کے پجاری اور خادم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد تھے ہو سکتا ہے کہ اس بت کے نام کی وجہ سے انہیں بھی اسی نام سے یاد کیا جاتا ہو اور یہی نام مشہور ہو گیا ہو ۔ واللہ اعلم ابن جریر فرماتے ہیں کہ آزر کا لفظ ان میں بطور عیب گیری کے استعمال کیا جاتا تھا اس کے معنی ٹیڑھے آدمی کے ہیں ۔ لیکن اس کلام کی سند نہیں نہ امام صاحب نے اسے کسی نے نقل کیا ہے ۔ سلیمان کا قول ہے کہ اسکے معنی ٹیڑھے پن کے ہیں اور یہی سب سے سخت لفظ ہے جو خلیل اللہ کی زبان سے نکلا ۔ ابن جریر کا فرمان ہے کہ ٹھیک بات یہی ہے کہ حضرت ابراہیم کے والد کا نام آزر تھا اور یہ جو عام تاریخ داں کہتے ہیں کہ ان کا نام تارخ تھا اس کا جواب یہ ہے کہ ممکن ہے دونوں نام ہوں یا ایک تو نام ہو اور دوسرا لقب ہو۔ بات تو یہ ٹھیک اور نہایت قوی ہے واللہ اعلم ۔ آزَر اور آزُر دونوں قرأتیں ہیں پچھلی قرأت یعنی راء کے زبر کے ساتھ تو جمہور کی ہے ۔ پیش والی قرأت میں ندا کی وجہ سے پیش ہے اور زبر والی قرأت لابیہ سے بدل ہونے کی ہے اور ممکن ہے کہ عطف بیان ہو اور یہی زیادہ مشابہ ہے ۔ یہ لفظ علمیت اور عجمیت کی بناء پر غیر منصرف ہے بعض لوگ اسے صفت بتلاتے ہیں اس بنا پر بھی یہ غیر منصرف رہے گا جیسے احمر اور اسود ۔ بعض اسے أَتَتَّخِذُ کا معمول مان کر منصوب کہتے ہیں ۔ مقصود یہ ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے اپنے باپ کو نصیحت کی ’ عبادت اصنام پر انکی مخالفت کی۔ انہیں اس سے روکا لیکن ان کے باپ باز نہ آئے۔ انہوں نے کہا کیا تم نے صنم کو رب بنا لیا ؟ میں تو تم کو اور تمہارے مسلک پر چلنے والوں کو بڑی گمراہی میں پاتا ہوں۔ اس سے بھٹکتے رہو گے بلکہ حیرت و جہل میں رہو گے۔ ان کی جہالت و گمراہی میں قرار دینا ہر صاحب عقل سلیم کے لئے ایک دلیل واضح ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَٱذۡكُرۡ فِى ٱلۡكِتَـٰبِ إِبۡرَٲهِيمَۚ إِنَّهُ ۥ كَانَ صِدِّيقً۬ا نَّبِيًّا ... وَأَدۡعُواْ رَبِّى عَسَىٰٓ أَلَّآ أَكُونَ بِدُعَآءِ رَبِّى شَقِيًّ۬ا اس کتاب میں ابراہیم ؑ کا قصہ بیان کر، بیشک وہ بڑی سچائی والے پیغمبر تھے ۔ جب کہ انہوں نے اپنے باپ سے کہا کہ ابا جان! آپ انکی پوجا پاٹ کیوں کر رہے ہیں جو نہ سنیں نہ دیکھیں؟ نہ آپ کو کچھ بھی فائدہ پہنچا سکیں میرے مہربان باپ! آپ دیکھیے میرے پاس وہ علم آیا ہے جو آپ کے پاس آیا ہی نہیں، تو آپ میری ہی مانیں میں بالکل سیدھی راہ کی طرف آپ کی رہبری کروں گا ۔ میرے ابا جان آپ شیطان کی پرستش سے باز آجائیں شیطان تو رحم و کرم والے اللہ تعالیٰ کا بڑا ہی نافرمان ہے ۔ ابا جان! مجھے خوف لگا ہوا ہے کہ کہیں آپ پر کوئی عذاب الہٰی نہ آپڑے کہ آپ شیطان کے ساتھی بن جائیں اس نے جواب دیا کہ اے ابراہیم! کیا تو ہمارے معبودوں سے روگردانی کر رہا ہے۔ سن اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے پتھروں سے مار ڈالوں گا، جا ایک مدت دراز تک مجھ سے الگ رہ ۔ کہا اچھا تم پر سلام ہو میں تو اپنے پروردگار سے تمہاری بخشش کی دعا کرتا رہوں گا وہ مجھ پر حد درجہ مہربان ہے۔ میں تو تمہیں بھی اور جن جن کو تم اللہ تعالیٰ کے سوا پکارتے ہو انہیں بھی سب کو چھوڑ رہا ہوں۔ صرف اپنے پروردگار کو پکارتا رہوں گا، مجھے یقین ہے کہ میں اپنے پروردگار سے دعا مانگ کر محروم نہ رہوں گا۔ (۱۹:۴۱،۴۸) چنانچہ حضرت ابراہیمؑ تا حیات اپنے باپ کے ئے استغفار کرتے رہےاور جب باپ شرک پر ہی مر گیا اور حضرت ابراہیمؑ کو معلوم ہو گیا کہ شرک کے لئے استغفار کام نہیں دیتا تو استغفار کرنا چھوڑ دیا۔جیسا کہ اللہ پاک نے فرمایا: وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَهِيمَ لاًّبِيهِ إِلاَّ عَن مَّوْعِدَةٍ ... إِنَّ إِبْرَهِيمَ لأَوَّاهٌ حَلِيمٌ اور ابراہیم ؑ کا اپنے باپ کے لئے دعائے مغفرت کرنا وہ صرف وعدہ کے سبب تھا جو انہوں نے ان سے وعدہ کر لیا تھا۔ پھر جب ان پر یہ بات ظاہر ہوگئی کہ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے محض بےتعلق ہوگئے و اقعی ابراہیم ؑ بڑے نرم دل اور بردبار تھے (۹:۱۱۴) حدیث صحیح میں ہے: قیامت کے رو ز حضرت ابراہیمؑ اپنے باپ سے ملیں گے تو آزر ان سے کہے گا اے بیٹے! آج میں تمہاری نافرمانی نہ کروں گاتو ابراہیمؑ اپنے رب سے عرض کریں گے کہ اے رب! کیا تو نے مجھ سے وعدہ نہ فرمایا تھا کہ مجھے قیامت کے دن ذلیل نہ کرے گا۔ اورآج میرلئے اس سے بڑی اور کونسی رسوائی ہو سکتی ہے کہ میرا باپ اس حال میں ہے تو ارشاد فرمایا جائے گا کہ اے ابراہیم تم اپنے پیچھےدیکھوتو وہ اپنے باپ کو دیکھنے کی بجائے ایک بجو کو دیکھیں گے۔ جو کیچڑ میں لتھڑاہوا ہےاور اس کی ٹانگیں پکڑ کر اس کو دوزخ کی طرف کھینچ کر لے جایا جا رہا ہے۔ وَكَذَلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ ہم نے ایسے ہی طور پر ابراہیم ؑ کو آسمانوں اور زمین کی مخلوقات دکھلائیں اور تاکہ کامل یقین کرنے والوں سے ہوجائیں ۔ (۷۵) پھر فرمایاکہ ہم اس طرح ابراہیم علیہ السلام کو آسمان و زمین کے ملکوت پیش نظر کر دیتے ہیں اور اس کی نظر میں یہ دلیل کر دیتے ہیں کہ کس طرح وحدانیت اللہ عز و جل پر زمین و آسمان کے خلق کی بنیاد ہے جس سے یہ دلیل لی جا سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور رب نہیں۔ ایسی ہی دلالت فی النظر کو ملکوت کہتے ہیں ہیں۔ کیونکہ دلالت فی النظر سب سے پہلے حضرت ابراہیمؑ ہی کو حاصل رہی۔ جیسا کہ فرمایا: أَوَلَمۡ يَنظُرُواْ فِى مَلَكُوتِ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلۡأَرۡضِ وَمَا خَلَقَ ٱللَّهُ مِن شَىۡءٍ۬ اور کیا ان لوگوں نے غور نہیں کیا آسمانوں اور زمین کے عالم میں اور دوسری چیزوں میں جو اللہ نے پیدا کیں ہیں (۶:۱۸۵) أَفَلَمْ يَرَوْاْ إِلَى مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ ... إِنَّ فِى ذَلِكَ لاّيَةً لِّكُلِّ عَبْدٍ مُّنِيبٍ کیا پس وہ اپنے آگے پیچھے آسمان و زمین کو دیکھ نہیں رہے ہیں؟ اگر ہم چاہیں تو انہیں زمین میں دھنسا دیں یا ان پر آسمان کے ٹکڑے گرا دیں یقیناً اس میں پوری دلیل ہے ہر اس بندے کے لئے جو (دل سے) متوجہ ہو۔ (۳۴:۹) لیکن ملکوت کے بارے میں ابن جریرؒ نے بیان کیا ہے کہ ابراہیمؑ کی نگاہوں کے سامنے آسمان پھٹ گئے تھے اور ابراہیمؑ آسمان کی سب چیزوں کو دیکھ رہے تھے۔ یہاں تک کہ ان کی نظر عرش تک پہنچی اور ساتوں زمینیں ان کے لئے کھل گئیں اور وہ زمین کے اندر کی چیزیں دیکھنے لگے ۔ بعض نے اس مضمون کا کا بھی اضافہ کیا ہے کہ وہ لوگوں کے معاص کو بھی دیکھنے لگے تھے اور ان گنہگاروں پر بد دعا کرنے لگے تھے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نہیں اے ابراہیم میں تم سے زیادہ اپنے بندوں پر کریم ہوں’ کیا عجب کہ بعد کو وہ توبہ کر لیں اور رجوع کر لیں۔ ابن عباسؓؓ اس آیت کے بارے میں کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے ابراہیمؑ کو اپنی قدرت سے آسمان و زمین کی چھپی ہوئی اور علانیہ ساری چیزیں دکھلا دیں’ ان میں کچھ بھی چھپا نہ رہا۔ اور جب وہ اصحاب گناہ پر لعن کر رہے تھے تو فرمایا کہ ایسا نہیں اور ان کی بد دعا کو رد کر دیا۔ پھر وہ حسب سابق ہو گئے۔اس لئے محتمل ہے کہ ان کی نگاہوں پر سے پردہ ہٹ گیا ہو جہاں ان کے لئے عیاں ہو گیا ہو۔ اور یہ بھی محتمل ہے کہ اس کو دل کی آنکھوں سے دیکھا ہو۔چنانچہ اللہ تعالیٰ کی حکمت باہرہ اور دلالت قاطعہ کو معلوم کر لیا ہو۔ جیسا کہ امام احمدؒ اور امام ترمذیؒ سے مروی ہے: عالم خواب میں اللہ تعالیٰ ایک بہترین شکل میں میرے پاس آیا اور فرمانے لگا اے محمد املا اعلیٰ میں کیا بحث ہو رہی ہے؟ میں نے کہا یا رب میں نہیں جانتا تو اس نے اپنا ہاتھ میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھ دیا کہ اس کی انگلیوں کی ٹھنڈک میں پنے سینے میں پانے لگا۔ پھر تو تمام چیزیں میرے سامنے کھل گئیں اور میں نے اسے پہچان لیا وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ کا واؤ زائد ہے ۔ اس کی تقدیر یوں ہوئی کہ وَكَذَٲلِكَ نُرِىٓ إِبۡرَٲهِيمَ مَلَكُوتَ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلۡأَرۡضِ لِيَكُونَ مِنَ ٱلۡمُوقِنِينَ یعنی بغیر واؤ کے جیسے کہ اس آیت وَكَذَٲلِكَ نُفَصِّلُ ٱلۡأَيَـٰتِ وَلِتَسۡتَبِينَ سَبِيلُ ٱلۡمُجۡرِمِينَ (۶:۵۵) میں۔ اس میں ٱلۡأَيَـٰتِ کے بعد واؤ زائد ہے اوریہ بھی کہا گیا ہے کہ زائد نہیں ہے بلکہ سابقہ بات کی بنیاد پر بات کو اٹھایا گیا ہے۔ یعنی ہم نے اس پر ملکوت ظاہر کر دیا تا ک وہ دیکھے اور یقین بھی کر لے۔ فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأَى كَوْكَبًا ۖ قَالَ هَذَا رَبِّي ۖ پھر جب رات کی تاریکی ان پر چھا گئی تو انہوں نے ایک ستارہ دیکھا آپ نے فرمایا کہ یہ میرا رب ہے رات کے اندھیرے میں خلیل اللہ ستارے کو دیکھ کر فرماتے ہیں کہ یہ میرا رب ہے فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَا أُحِبُّ الْآفِلِينَ لیکن جب وہ غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا کہ میں غروب ہو جانے والوں سے محبت نہیں رکھتا (۷۶) جب وہ غروب ہو جاتا ہے تو آپ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ پروردگار نہیں کیونکہ رب دوام والا ہوتا ہے وہ زوال اور انقلاب سے پاک ہوتا ہے ۔ فَلَمَّا رَأَى الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هَذَا رَبِّي ۖ پھر جب چاند کو دیکھا تو فرمایا یہ میرا رب ہے پھر جب چاند چڑھتا ہے تو یہی فرماتے ہیں فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَئِنْ لَمْ يَهْدِنِي رَبِّي لَأَكُونَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّالِّينَ لیکن جب وہ غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا اگر مجھ کو میرے رب نے ہدایت نہ کی تو میں گمراہ لوگوں میں شامل ہو جاؤں گا۔ (۷۷) جب وہ بھی غروب ہو جاتا ہے تو اس سے بھی یکسوئی کر لیتے ہیں ۔ فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَذَا رَبِّي هَذَا أَكْبَرُ ۖ پھر جب آفتاب کو دیکھا چمکتا ہوا تو فرمایا کہ یہ میرا رب ہے یہ تو سب سے بڑا ہے پھر سورج کے طلوع ہونے پر اسے سب سے بڑا پا کر سب سے زیادہ روشن دیکھ کر یہی کہتے ہیں فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِمَّا تُشْرِكُونَ پھر جب وہ بھی غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا بیشک میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں ۔ (۷۸) جب وہ بھی ڈھل جاتا ہے تو اللہ کے سوا تمام معبودوں سے بیزار ہو جاتے ہیں ۔ إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا ۖ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ میں اپنا رخ اس کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا یکسو ہو کر اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ (۷۹) اور پکار اٹھتے ہیں کہ میں تو اپنی عبادت کے لئے اللہ کی ذات کو مخصوص کرتا ہوں جس نے ابتداء میں بغیر کسی نمونے کے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیاہے میں شرک سے ہٹ کر توحید کی طرف لوٹتا ہوں اور میں مشرکوں میں شامل رہنا نہیں چاہتا، مفسرین ان آیتوں کی بابت دو خیال ظاہر کرتے ہیں ۔ ایک تو یہ کہ یہ بطور نظر اور غور و فکر کے تھا دوسرے یہ کہ یہ سب بطور مناظرہ کے تھا۔ابن عباسؓؓ سے دوسری بات ہی مروی ہے ابن جریر میں بھی اسی کو پسند کیا گیا ہے اس کی دلیل میں آپ کا یہ قول لاتے ہیں کہ اگر مجھے میرا رب ہدایت نہ کرتا تو میں گمراہ میں ہو جاتا ۔ امام محمد بن اسحاق رحمتہ اللہ علیہ نے ایک لمبا قصہ نقل کیا ہے جس میں ہے: نمرود بن کنعان بادشاہ سے یہ کہا گیا تھا کہ ایک بچہ پیدا ہونے والا ہے جس کے ہاتھوں تیرا تخت تارج ہو گا تو اس نے حکم دے دیا تھا کہ اس سال میری مملکت میں جتنے بچے پیدا ہوں سب قتل کر دیئے جائیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی والدہ نے جب یہ سنا تو کجھ وقت قبل شہر کے باہر ایک غار میں چلی گئیں ، وہیں حضرت خلیل اللہ پیدا ہوئے ، تو جب آپ اس غار سے باہر نکلے تب آپ نے یہ سب فرمایا تھا جس کا ذکر ان آیتوں میں ہے ، بالکل صحیح بات یہ ہے کہ یہ گفتگو اللہ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مناظرانہ تھی اپنی قوم کی باطل پرستی کا احوال اللہ کو سمجھا رہے تھے، اول تو آپ نے اپنے والد کی خطا ظاہر کی کہ وہ زمین کے ان بتوں کی پوجا کرتے تھے جنہیں انہوں نے فرشتوں وغیرہ کی شکل پر بنا لیا تھا اور جنہیں وہ سفارشی سمجھ رہے تھے ۔ یہ لوگ بزعم خود اپنے آپ کو اس قابل نہیں جانتے تھے کہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں ۔ اس لئے بطور وسیلے کے فرشتوں کو پوجتے تھے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ان کے بارےمیں کہہ سن کر ان کی روزی وغیرہ بڑھوا دیں اور ان کی حاجتیں پوری کرا دیں پھر جن آسمانی چیزوں کو یہ پوجتے تھے ان میں ان کی خطا بیان کی ۔ یہ ستارہ پرست بھی تھے ساتوں ستاروں کو جو چلنے پھرنے والے ہیں ۔ پوجتے تھے، چاند، عطارد، زہرہ ، سورج ، مریخ ، مستری ، زحل ۔ ان کے نزدیک سب سے زیادہ روشن سورج ہے، پھر چاند پھر زہرہ پس آپ نے ادنیٰ سے شروع کیا اور اعلیٰ تک لے گئے۔پہلے تو زہرہ کی نسبت فرمایا کہ وہ پوجا کے قابل نہیں کیونکہ یہ دوسرے کے قابو میں ہیں یہ مقررہ چال سے چلتا اور مقررہ جگہ پر چلتا ہے دائیں بائیں ذرا بھی کھسک نہیں سکتا ۔ تو جبکہ وہ خود بیشمار چیزوں میں سے ایک چیز ہے ۔ اس میں روشنی بھی اللہ کی دی ہوئی ہے یہ مشرق سے نکلتا ہے پھر چلتا پھرتا رہتا ہے اور ڈوب جاتا ہےپھر دوسری رات اسی طرح ظاہر ہوتا ہے تو ایسی چیز معبود ہونے کی صلاحیت کیا رکھتی ہے؟ پھر اس سے زیادہ روشن چیز یعنی چاند کو دیکھتے ہیں اور اس کو بھی عبادت کے قابل نہ ہونا ظاہر فرما کر پھر سورج کو لیا اور اس کی مجبوری اور اس کی غلامی اور مسکینی کا اظہار کیا اور کہا کہ لوگو میں تمہارے ان شرکاء سے ، ان کی عبادت سے، ان کی عقیدت سے، ان کی محبت سے دور ہوں ۔ سنو اگر یہ سچے معبود ہیں اور کچھ قدرت رکھتے ہیں تو ان سب کو ملا لو اور جو تم سب سے ہو سکے میرے خلاف کر لو ۔ میں تو اس اللہ کا عابد ہوں جو ان مصنوعات کا صانع جو ان مخلوقات کا خالق ہے جو ہر چیز کا مالک رب اور سچا معبود ہے جیسے قرآنی ارشاد ہے: إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِى خَلَقَ السَمَـوَتِ وَالاٌّرْضَ ... وَالاٌّمْرُ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَـلَمِينَ تمہارا رب صرف وہی ہے جس نے چھ دن میں آسمان و زمین کو پیدا کیا پھر عرش پر مستوی ہو گیا رات کو دن سے دن کو رات سے ڈھانپتا ہے ایک دوسرے کے برابر پیچھے جا آ رہا ہے سورج چاند اور تارے سب اس کے فرمان کے تحت ہیں خلق و امر اسی کی ملکیت میں ہیں وہ رب العالمین ہے بڑی برکتوں والا ہے، (۷:۵۴) یہ تو بالکل ناممکن سا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ سلام کے یہ سب فرمان بطور واقعہ کے ہوں اور حقیقت میں آپ اللہ کو پہچانتے ہی نہ ہوں ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَلَقَدْ ءَاتَيْنَآ إِبْرَهِيمَ رُشْدَهُ مِن قَبْلُ ... أَنتُمْ لَهَا عَـكِفُونَ ہم نے پہلے سے حضرت ابراہیم کو سیدھا راستہ دے دیا تھا اور ہم اس سے خوب واقف تھے جبکہ اس نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے فرمایا یہ صورتیں کیا ہیں جن کی تم پرستش اور مجاورت کر رہے ہو؟ (۲۱:۵۱،۵۲) إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لِلَّهِ حَنِيفًا... وَمَا كَانَ مِنَ ٱلۡمُشۡرِڪِينَ بیشک ابراہیم پیشوا اور اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار اور ایک طرفہ مخلص تھے۔ وہ مشرکوں میں نہ تھے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے شکر گزار تھے، اللہ نے انہیں اپنا برگزیدہ کر لیا تھا اور انہیں راہ راست سمجھا دی تھی۔ ہم نے اس دنیا میں بھی بہتری دی تھی اور بیشک وہ آخرت میں بھی نیکوکاروں میں ہیں۔ پھر ہم نے آپ کی جانب وحی بھیجی کہ آپ ملت ابراہیم حنیف کی پیروی کریں، جو مشرکوں میں سے نہ تھے۔ (۱۶:۱۲۰،۱۲۳) بخاری و مسلم میں ہے ، حضور علیہ السلام فرماتے ہیں : ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے ۔ صحیح مسلم کی حدیث قدسی میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میں نے اپنے بندوں کو موحد پیدا کیا ہے ۔ کتاب اللہ میں ہے: فِطۡرَتَ ٱللَّهِ ٱلَّتِى فَطَرَ ٱلنَّاسَ عَلَيۡہَاۚ لَا تَبۡدِيلَ لِخَلۡقِ ٱللَّهِۚ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو فطرت اللہ پر پیدا کیا ہے ، اللہ کی خلق کی تبدیلی نہیں (۳۰:۳۰) اور آیت میں ہے : وَإِذۡ أَخَذَ رَبُّكَ مِنۢ بَنِىٓ ءَادَمَ مِن ظُهُورِهِمۡ ... قَالُواْ بَلَىٰۛ شَهِدۡنَآۛ اور جب آپ کے رب نے اولاد آدم کی پشت سے ان کی اولاد کو نکالا اور ان سے ان ہی کے متعلق اقرار لیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا کیوں نہیں! ہم سب گواہ بنتے ہیں۔ (۷:۱۷۲) پس یہی فطرت اللہ ہے جیسے کہ اس کا ثبوت عنقریب آئے گا ان شاء اللہ پس جبکہ تمام مخلوق کی پیدائش دین اسلام پر اللہ کی سچی توحید پر ہے تو ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام جن کی توحید اور اللہ پرستی کا ثنا خواں خود کلام رحمٰن ہے ان کی نسبت کون کہہ سکتا ہے کہ آپ اللہ جل شانہ سے آگاہ نہ تھے اور کبھی تارے کو اور کبھی چاند سورج کو اپنا اللہ سمجھ رہے تھے ۔ نہیں نہیں آپ کی فطرت سالم تھی آپ کی عقل صحیح تھی آپ اللہ کے سچے دین پر اور خالص توحید پر تھے ۔ آپ کا یہ تمام کلام بحیثیت مناظرہ تھا اور اس کی زبر دست دلیل اس کے بعد کی آیت ہے ۔ وَحَاجَّهُ قَوْمُهُ ۚ اور ان سے ان کی قوم نے حجت کرنا شروع کر دی ابراہیم علیہ السلام کی سچی توحید کے دلائل سن کر پھر بھی مشرکین آپ سے بحث جاری رکھتے ہیں قَالَ أَتُحَاجُّونِّي فِي اللَّهِ وَقَدْ هَدَانِ ۚ آپ نے فرمایا کہ تم اللہ کے معاملے میں مجھ سے حجت کرتے ہو حالانکہ کہ اس نے مجھے طریقہ بتلایا ہے تو آپ ان سے فرماتے ہیں تعجب ہے کہ تم مجھ سے اللہ جل جلالہ کے بارے میں جھگڑا کر رہے ہو؟ حالانکہ وہ یکتا اور لا شریک ہے اس نے مجھے راہ دکھا دی ہے اور دلیل عطا فرمائی ہے وَلَا أَخَافُ مَا تُشْرِكُونَ بِهِ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ رَبِّي شَيْئًا ۗ اور میں ان چیزوں سے جن کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک بناتے ہو نہیں ڈرتا میں یقیناً جانتا ہوں کہ تمہارے یہ سب معبود محض بےبس اور بےطاقت ہیں ، میں نہ تو تمہاری فضول اور باطل باتوں میں آؤں گا نہ تمہاری دھمکیاں سچی جانوں گا، جاؤ تم سے اور تمہارے باطل معبودوں سے جو ہو سکے کر لو ۔ ہرگز ہرگز کمی نہ کرو بلکہ جلدی کر گزرو اگر تمہارے اور ان کے قبضے میں میرا کوئی نقصان ہے تو جاؤ پہنچا دو ۔ وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا ۗ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ ہاں اگر میرا پروردگار ہی ہرچیز کو اپنے علم میں گھیرے ہوئے ہے، کیا تم پھر بھی خیال نہیں کرتے۔ (۸۰) میرے رب کی منشا بغیر کچھ بھی نہیں ہو سکتا ضرر نفع سب اسی کی طرف سے ہے تمام جیزیں اسی کے علم میں ہیں اس پر چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی پوشیدہ نہیں ۔ افسوس اتنی دلیلیں سن کر بھی تمہارے دل نصیحت حاصل نہیں کرتے ۔ حضور ہود علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کے سامنے یہی دلیل پیش کی تھی ۔ قرآن میں موجود ہے: قَالُواْ يَهُودُ مَا جِئْتَنَا بِبَيِّنَةٍ ... إِنَّ رَبِّى عَلَى صِرَطٍ مُّسْتَقِيمٍ انہوں نے کہا اے ہود! تو ہمارے پاس کوئی دلیل تو لایا نہیں اور ہم صرف تیرے کہنے سے اپنے معبودوں کو چھوڑنے والے نہیں اور نہ ہم تجھ پر ایمان لانے والے ہیں بلکہ ہم تو یہی کہتے ہیں کہ ہمارے کسی معبود کے بڑے جھپٹے میں آگیا ہے اس نے جواب دیا کہ میں اللہ کو گواہ کرتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ میں ان سب سے بیزار ہوں، جنہیں تم شریک بنا رہے ہو ۔ اللہ کے سوا اچھا تم سب ملکر میرے خلاف چالیں چل لو مجھے بالکل مہلت بھی نہ دو ۔ میرا بھروسہ صرف اللہ تعالیٰ پر ہے جو میرا اور تم سب کا پروردگار ہے جتنے بھی پاؤں دھرنے والے ہیں سب کی پیشانی وہی تھامے ہوئے ہے یقیناً میرا رب بالکل صحیح راہ پر ہے ۔ (۱۱:۵۳،۵۶) وَكَيْفَ أَخَافُ مَا أَشْرَكْتُمْ وَلَا تَخَافُونَ أَنَّكُمْ أَشْرَكْتُمْ بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا ۚ اور میں ان چیزوں سے کیسے ڈروں جن کو تم نے شریک بنایا ہے حالانکہ تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ تم نے اللہ کے ساتھ ایسی چیزوں کو شریک ٹھہرایا ہے جن پر اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نہیں فرمائی، سمجھو اور سوچو تو سہی کہ میں تمہارے ان باطل معبودوں سے کیوں ڈروں گا؟ جبکہ تم اس اکیلے اللہ وحدہ لا شریک سے نہیں ڈرتے اور کھلم کھلا اس کی ذات کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہرا رہے ہو ۔ فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِالْأَمْنِ ۖ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ سو ان دو جماعتوں میں سے امن کا زیادہ مستحق کون ہے اگر تم خبر رکھتے ہو۔ (۸۱) تم ہی بتلاؤ کہ ہم تم میں سے امن کا زیادہ حقدار کون ہے؟ دلیل میں اعلیٰ کون ہے؟ یہ آیت مثل ان آیات کے ہے : أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُواْ لَهُمْ مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ اللَّهُ کیا ان لوگوں نے ایسے (اللہ کے) شریک (مقرر کر رکھے) ہیں جنہوں نے ایسے احکام دین مقرر کر دیئے جو اللہ کے فرمائے ہوئے نہیں (۴۲:۲۱) إِنْ هِىَ إِلاَّ أَسْمَآءٌ سَمَّيْتُمُوهَآ أَنتُمْ وَءَابَآؤُكُم مَّآ أَنزَلَ اللَّهُ بِهَا مِن سُلْطَـنٍ دراصل یہ صرف نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے ان کے لئے رکھ لئے ہیں اللہ نے ان کی کوئی دلیل نہیں اتاری۔ (۵۳:۲۳) مطلب یہ ہے کہ اس کا بندہ جو خیرو شر کا، نفع و ضر کا مالک ہے امن والا ہوگا یا اس کا بندہ جو محض بےبس اور بےقدرت ہے قیامت کے دن کے عذابوں سے امن میں رہے گا الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ جو لوگ ایمان رکھتے ہیں اور اپنے ایمان کو شرک کے ساتھ مخلوط نہیں کرتے۔ ایسوں ہی کے لئے امن ہے اور وہی راہ راست پر چل رہے ہیں (۸۲) جناب باری تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ صرف اللہ ہی کی عبادت کریں اور خلوص کے ساتھ دینداری کریں رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں امن و امان اور راہ راست والے یہی لوگ ہیں جب یہ آیت اتری تو صحابہؓ ظلم کا لفط سن کر چونک اٹھے اور کہنے لگے یا رسول اللہ ہم میں سے ایسا کون ہے جس نے کوئی گناہ ہی نہ کیا ہو؟ اس پر آیت إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ (۳۱:۱۳) نازل ہوئی یعنی یہاں مراد ظلم سے شرک ہے (بخاری شریف) اور روایت میں ہے کہ حضور نے ان کے اس سوال پر فرمایا کہ کیا تم نے اللہ کے نیک بندے کا یہ قول نہیں سنا يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ اے میرے پیارے بچے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا شرک بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (۳۱:۱۳) پس مراد یہاں ظلم سے شرک ہے اور روایت میں ہے کہ آپ ﷺنے یہ بھی فرمایا تم جو سمجھ رہے ہو وہ مقصد نہیں اور حدیث میں آپ کا خود بِظُلْمٍ کی تفسیر شرک سے کرنا مروی ہے ۔ بہت سے صحابیوں سے بہت سی سندوں کے ساتھ بہت سی کتابوں میں یہ حدیث مروی ہے ۔ مروی ےک جب یہ آیت الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اتری تو حضور ﷺ نے فرمایاکہ مجھ سے کہا گیا ہے کہ تو ان ہی ایماندار لوگوں میں سے ہو ۔ جریر ابن عبداللہ کہتے ہیں: ایک وقت ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے جب ہم مدینہ شریف سے باہر نکل گئے تو ہم نے دیکھا کہ ایک اونٹ سوار بہت تیزی سے اپنے اونٹ کو دوڑتا ہوا آ رہا ہے حضور ﷺنے فرمایا تمہاری طرف ہی آ رہا ہے اس نے پہنچ کر سلام کیا ہم نے جواب دیا حضور ﷺنے اس سے پوچھا کہاں سے آ رہے ہو؟ اس نے کہا اپنے گھر سے، اپنے بال بچوں میں سے، اپنے کنبے قبیلے میں سے ۔ دریافت فرمایا کیا ارادہ ہے؟ کیسے نکلے ہو؟ جواب دیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جستجو میں۔ آپ ﷺنے فرمایا پھر تو تم اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے میں ہی اللہ کا رسول ہوں ۔ اس نے خوش ہو کر کہا یا رسول اللہ مجھے سمجھائیے کہ ایمان کیا ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا یہ کہہ دو کہ اللہ ایک ہے اور محمد اللہ کے رسول ہیں اور نمازوں کو قائم رکھے اور زکوٰۃ ادا کرتا رہے اور رمضان کے روزے رکھے اور بیت اللہ کا حج کرے اس نے کہا مجھے سب باتیں منظور ہیں میں سب اقرار کرتا ہوں، اتنے میں ان کے اونٹ کا پاؤں ایک سوراخ میں گر پڑا اور اونٹ ایک دم سے جھٹکالے کر جھک گیا اور وہ اوپر سے گرے اور سر کے بل گرے اور اسی وقت روح پرواز کر گئی حضورﷺ نے ان کے گرتے ہی فرمایا کہ دیکھو انہیں سنبھالو اسی وقت حضرت عمار بن یاسر اور حضرت حذیفہ بن یمان اپنے اونٹوں سے کود پڑے اور انہیں اٹھا لیا دیکھا تو روح جسم سے علیحدہ ہو چکی ہے حضور سے کہنے لگے یا رسول اللہ یہ تو فوت ہو گئے آپﷺ نے منہ پھیر لیا پھر ذرا سی دیر میں فرمانے لگے تم نے مجھے منہ موڑتے ہوئے دیکھا ہو گا اس کی وجہ یہ تھی کہ میں نے دیکھا دو فرشتے آئے تھے اور مرحوم کے منہ میں جنت کے پھول دے رہے تھے اس سے میں نے جان لیا کہ بھوکے فوت ہوئے ہیں۔ سنو یہ انہیں لوگوں میں سے ہیں جن کی بابت اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو ظلم سے نہ ملایا ان کے لئے امن و امان ہے اور وہ راہ یافتہ ہیں۔ اچھا اپنے پیارے بھائی کو دفن کرو چنانچہ ہم انہیں پانی کے پاس اٹھا لے گئے غسل دیا خوشبو ملی اور قبر کی طرف جنازہ لے کر چلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قبر کے کنارے بیٹھ گئے اور فرمانے لگے بغلی قبر بناؤ سیدھی نہ بناؤ بغلی قبر ہمارے لئے ہے اور سیدھی ہمارے سوا اوروں کے لئے ہے ، لوگو یہ وہ شخص ہے جس نے عمل بہت ہی کم کیا اور ثواب زیادہ پایا ۔ یہ ایک اعرابی تھے انہوں نے یہ بھی کہا تھا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سلسلہ کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں اپنے گھر سے اپنے بال بچوں سے اپنے مال سے اپنے کنبے قبیلے سے اس لئے اور صرف اس لئے الگ ہوا ہوں کہ آپ کی ہدایت کو قبول کروں آپ کی سنتوں پر عمل کروں آپ کی حدیثیں لوں۔یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں گھاس پھونس کھاتا ہوا آپ تک پہنچا ہوں ۔ آپ مجھ اسلام سکھائیے حضور ﷺنے سکھایا اس نے قبول کیا ہم سب ان کے ارد گرد بھیڑ لگائے کھڑے تھے اتنے میں جنگلی چوہے کے بل میں ان کے اونٹ کا پاؤں پڑ گیا یہ گر پڑے اور گردن ٹوٹ گئی آپ ﷺنے فرمایا اس اللہ کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا یہ سچ مچ فی الواقع اپنے گھر سے اپنی اہل و عیال سے اور اپنے مال مویشی سے صرف میری تابعداری کی دھن میں نکلا تھا اور وہ اس بات میں بھی سچے تھے کہ وہ میرے پاس نہیں پہنچے یہاں تک کہ ان کا کھانا صرف سبز پتے اور گھاس رہ گیا تھا تم نے ایسے لوگ بھی سنے ہوں گے جو عمل کم کرتے ہیں اور ثواب بہت پاتے ہیں۔ یہ بزرگ انہی میں سے تھے ۔ تم نے سنا ہو گا کہ باری تعالیٰ فرماتا ہے جو ایمان لائیں اور ظلم نہ کریں وہ امن و ہدایت والے ہیں یہ انہی میں سے تھے (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) عبداللہ بن سنجرہؓ سے روایت ہے کہ حضرت ﷺ نے فرمایا: جس کو دیا گیا اور اس نے شکر کیا’ اور جس کو نہ دیا اور اس نے صبر کیا’ اور جس نے ظلم کیا پھر مغفرت طلب کی’ اور جس پر ظلم ہوا اور اس نے بخش دیااتنا کہہ کر آپ ﷺ خاموش ہو گئے تو لوگوں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ! اس کو کیا ملے گاتو آپ ﷺ نے فرمایاکہ یہی لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے امن کے اندر آ گئے’ ہدایت یافتہ یہی ہیں۔ وَتِلْكَ حُجَّتُنَا آتَيْنَاهَا إِبْرَاهِيمَ عَلَى قَوْمِهِ ۚ اور ہماری حجت تھی وہ ہم نے ابراہیم ؑ کو ان کی قوم کے مقابلہ میں دی تھی ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو اپنی قوم سے مناظرہ کرنا اور دلیلیں لانا سکھایا۔ یعنی یہ حجت ابراہیمی کہ میں تمہارے معبودوں سے کیوں ڈروں جب کہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے سے نہیں ڈرتے جس کی کوئی سند اور دلیل ہی نہیں۔ اب خود جان لو کہ دونوں میں ے کس اپنا زیادہ بچاؤکر لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو امن و ہدایت کا نام دیا ہے۔ نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَنْ نَشَاءُ ۗ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ ہم جس کو چاہتے ہیں مرتبوں میں بڑھا دیتے ہیں۔ بیشک آپ کا رب بڑا حکمت والا بڑا علم والا ہے۔ (۸۳) یہاں درجات کا لفظ بالاضافتہ اور بلا ضافتہ دونوں طرح پڑھا گیا ہے جیسا کہ سورہ یوسف میں ہے اور بات دونوں طرح یکساں ہے وہ اپنے اقوال میں حکیم ہے اور انے افعال میں علیم ہے یعنی جس کو چاہے ہدایت کرے اور جس کو چاہے گمراہ ہونے دےجیسے کہ فرمایا: إِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ ـ وَلَوْ جَآءَتْهُمْ كُلُّ ءايَةٍ حَتَّى يَرَوُاْ الْعَذَابَ الاٌّلِيمَ یقیناً جن لوگوں کے حق میں آپ کے رب کی بات ثابت ہو چکی ہے وہ ایمان نہ لائیں گے۔ گو ان کے پاس تمام نشانیاں پہنچ جائیں جب تک وہ دردناک عذاب کو نہ دیکھ لیں ۔ (۱۰:۹۶،۹۷) وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ ۚ اور ہم نے ان کو اسحاق دیا اور یعقوب اللہ تعالیٰ اپنا احسان بیان فرما رہا ہے کہ خلیل الرحمٰن کو اس نے ان کے بڑھاپے کے وقت بیٹا عطا فرمایا جن کا نام اسحٰق ہے اس وقت آپ بھی اولاد سے مایوس ہو چکے تھے اور آپ کی بیوی صاحبہ حضرت سارہ بھی مایوس ہو چکی تھیں جو فرشتے بشارت سنانے آتے ہیں وہ قوم لوط کی ہلاکت کیلئے جا رہے تھے ۔ ان سے بشارت سن کر مائی صاحبہ سخت متعجب ہو کر کہتی ہیں: يوَيْلَتَا ءَأَلِدُ وَأَنَاْ عَجُوزٌ ... إِنَّهُ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ ہائے میری کم بختی! میرے ہاں اولاد کیسے ہوسکتی ہے میں خود بڑھیا اور یہ میرے خاوند بھی بہت بڑی عمر کے ہیں یہ یقیناً بڑی عجیب بات ہے فرشتوں نے کہا کیا تو اللہ کی قدرت سے تعجب کر رہی ہے؟ تم پر اے اس گھر کے لوگوں اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں بیشک اللہ حمد و ثنا کا سزاوار اور بڑی شان والا ہے۔ (۱۱:۷۲،۷۳) اتنا ہی نہیں کہ تمہارے ہاں بچہ ہو گا بلکہ وہ نبی زادہ خود بھی نبی ہو گا اور اس سے تمہاری نسل پھیلے گی اور باقی رہے گی ، قرآن کی اور آیت میں بشارت کے الفاظ میں نبیا کا لفظ بھی ہے: وَبَشَّرْنَـهُ بِإِسْحَـقَ نَبِيّاً مِّنَ الصَّـلِحِينَ اور ہم نے اس کو اسحاق (علیہ السلام) نبی کی بشارت دی جو صالح لوگوں میں سے ہوگا (۳۷:۱۱۲) پھر لطف یہ ہے کہ اولاد کی اولاد بھی تم دیکھ لو گے اسحٰق کے گھر یعقوب پیدا ہوں گے اور تمہیں خوشی پر خوشی ہو گی اور پھر پوتے کا نام یعقوب رکھنا جو عقب سے مشتق ہے خوشخبری ہے اس امر کی کہ یہ نسل جاری رہے گی ۔ فَبَشَّرْنَاهَا بِإِسْحَاقَ وَمِنْ وَرَاءِ إِسْحَاقَ يَعْقُوبَ تو ہم نے اسے اسحاق کی اور اسحٰق کے پیچھے یعقوب کی خوشخبری دی۔ (۱۱:۷۱) فی الواقع خلیل اللہ علیہ السلام اس بشارت کے قابل بھی تھے قوم کو چھوڑ ان سے منہ موڑا شہر کو چھوڑا ہجرت کی ، اللہ نے دنیا میں بھی انعام دیئے ، اتنی نسل پھیلائی جو آج تک دنیا میں آباد ہے ۔فرمان الہٰی ہے: فَلَمَّا اعْتَزَلَهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ وَهَبْنَا لَهُ إِسْحَـقَ وَيَعْقُوبَ وَكُلاًّ جَعَلْنَا نَبِيّاً جب ابراہیم ؑان سب کو اور اللہ کے سوا ان کے سب معبودوں کو چھوڑ چکے تو ہم نے انہیں اسحٰق و یعقوب ؑعطا فرمائے، اور دونوں کو نبی بنا دیا۔ (۱۹:۴۹) كُلًّا هَدَيْنَا ۚ وَنُوحًا هَدَيْنَا مِنْ قَبْلُ ۖ ہر ایک کو ہم نے ہدایت کی اور پہلے زمانے میں ہم نے نوح کو ہدایت کی یہاں فرمایا ان سب کو ہم نے ہدایت دی تھی اور ان کی بھی نیک اولاد دنیا میں باقی رہی ، طوفان نوح میں کفار سب غرق ہو گئے پھر حضرت نوح کی نسل پھیلی انبیاء انہی کی نسل میں سے ہوتے رہے، حضرت ابراہیم کے بعد تو نبوت انہی کے گھرانے میں رہی جیسے فرمان ہے: وَجَعَلْنَا فِى ذُرِّيَّتِهِمَا النُّبُوَّةَ وَالْكِتَـبَ اور ہم نے نبوت اور کتاب ان کی اولاد میں ہی کر دی (۲۹:۲۷) اور آیت میں ہے: وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحاً وَإِبْرَهِيمَ وَجَعَلْنَا فِى ذُرِّيَّتِهِمَا النُّبُوَّةَ وَالْكِتَـبَ بیشک ہم نے نوح اور ابراہیم (علیہما السلام) کو (پیغمبر بنا کر) بھیجا اور ہم نے دونوں کو اولاد پیغمبری اور کتاب جاری رکھی (۵۷:۲۶) اور آیت میں ہے: أُولَـئِكَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم ... خَرُّواْ سُجَّداً وَبُكِيّاً یہی وہ انبیاء ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے فضل و کرم کیا جو اولاد آدم میں سے ہیں اور ان لوگوں کی نسل سے ہیں جنہیں ہم نے نوح ؑکے ساتھ کشتی میں چڑھا لیا تھا، ا ور اولاد ابراہیم و یعقوب سے اور ہماری طرف سے راہ یافتہ اور ہمارے پسندیدہ لوگوں میں سے۔ ان کے سامنے جب اللہ رحمٰن کی آیتوں کی تلاوت کی جاتی تھی یہ سجدہ کرتے روتے گڑ گڑاتے گر پڑتے تھے ۔ (۱۹:۵۸) سجدہ وَمِنْ ذُرِّيَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ وَأَيُّوبَ وَيُوسُفَ وَمُوسَى وَهَارُونَ ۚ وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ (۸۴) اور ان کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان کو اور ایوب کو اور یوسف کو اور موسیٰ کو اور ہارون کواور اسی طرح ہم نیک کام کرنے والوں کو جزا دیا کرتے ہیں۔ فرمایا ہم نے اس کی اولاد میں سے داؤد و سلیمان کو ہدایت کی ، اس میں اگر ضمیر کا مرجع نوح کو کیا جائے تو ٹھیک ہے اس لئے کہ ضمیر سے پہلے سب سے قریب نام یہی ہے ۔امام ابن جریر اسی کو پسند فرماتے ہیں اور ہے بھی یہ بالکل ظاہر جس میں کوئی اشکال نہیں ہاں اسے حضرت ابراہیم کی طرف لوٹانا بھی ہے تو اچھا اس لئے کہ کلام انہی کے بارے میں ہے قصہ انہی کا بیان ہو رہا ہے لیکن بعد کے ناموں میں سے لوط کا نام اولاد ابراہیم میں ہونا ذرا مشکل ہے اس لئے کہ حضرت لوط خلیل اللہ کی اولاد میں نہیں بلکہ ان کے والد کا نام ماران ہے وہ آزر کے لڑکے تھے تو وہ آپ کے بھتیجے ہوئے ہاں اس کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ باعتبار غلبے کے انہیں بھی اولاد میں شامل کر لیا گیا جیسے کہ اس آیت میں حضرت اسمٰعیل کو جو اولاد یعقوب کے چچا تھا باپوں میں شمار کر لیا گیا ہے: أَمْ كُنتُمْ شُهَدَآءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ ... وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ کیا یعقوب ؑکے انتقال کے وقت تم موجود تھے؟ جب انہوں نے اپنی اولاد کو کہا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے؟ تو سب نے جواب دیا کہ آپ کے معبود کی اور آپ کے آباؤ اجداد ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ اور اسحاق ؑ کے معبود کی جو معبود ایک ہی ہے اور ہم اسی کے فرمانبردار رہیں گے۔ تو سب نے جواب دیا کہ آپ کے معبود کی اور آپ کے آباؤ اجداد ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ اور اسحاق ؑ کے معبود کی جو معبود ایک ہی ہے اور ہم اسی کے فرمانبردار رہیں گے۔ (۲:۱۳۳) ہاں یہ بھی خیال رہے کہ حضرت عیسیٰ کو اولاد ابراہیم یا اولاد نوح میں گننا اس بناء پر ہے کہ لڑکیوں کی اولاد یعنی نواسے بھی اولاد میں داخل ہیں کیونکہ حضرت عیسیٰ بن باپ کے پیدا ہوئے تھے، روایت میں ہے کہ حجاج نے حضرت یحییٰ بن یعمر کے پاس آدمی بھیجا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تو حسنؓ حسینؓ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں گنتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ قرآن سے ثابت ہے لیکن میں تو پورے قرآن میں کسی جگہ یہ نہیں پاتا ، آپ نے جواب دیا کیا تونے سورۃ انعام میں آیت وَمِنْ ذُرِّيَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ نہیں پڑھی اس نے کہا ہاں یہ تو پڑھا ہے کہا پھر دیکھو اس میں حضرت عیسیٰ کا نام ہے اور ان کا کوئی باپ تھا ہی نہیں تو معلوم ہوا کہ لڑکی کی اولاد بھی اولاد ہی ہے حجاج نے کہا بیشک آپ سچے ہیں اسی لئے مسئلہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنی ذریت کے لئے وصیت کرے یا وقف کرے یا ہبہ کرے تو لڑکیوں کی اولاد بھی اس میں داخل ہے ہاں اگر اس نے اپنے لڑکوں کو دیا ہے یا ان پر وقف کیا ہے تو اس کے اپنے صلبی لڑکے اور لڑکوں کے لڑکے اس میں شامل ہوں گے اس کی دلیل عربی شاعر کا یہ شعر سنئے ۔ بنو نا بنوا ابنا ئنا و بنا تنا بنو ھن ابناء الرجال الا جانب ہمارے لڑکوں کے لڑکے تو ہمارے لڑکے ہیں اور ہماری لڑکیوں کے لڑکے اجنبیوں کے لڑکے ہیں اور لوگ کہتے ہیں کہ لڑکیوں کے لڑکے بھی ان میں داخل ہیں کیونکہ صحیح بخاری شریف کی حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی نسبت فرمایا میرا یہ لڑکا سید ہے اور ان شاء اللہ اس کی وجہ سے مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں میں اللہ تعالیٰ صلح کرا دے گا، پس نواسے کو اپنا لڑکا کہنے سے لڑکیوں کی اولاد کا بھی اپنی اولاد میں داخل ہونا ثابت ہوا اور لوگ کہتے ہیں کہ یہ مجاز ہے ، پس نواسے کو اپنا لڑکا کہنے سے لڑکیوں کی اولاد کا بھی اپنی اولاد میں داخل ہونا ثابت ہوا اور لوگ کہتے ہیں کہ یہ مجاز ہے ، وَزَكَرِيَّا وَيَحْيَى وَعِيسَى وَإِلْيَاسَ ۖ كُلٌّ مِنَ الصَّالِحِينَ اور (نیز) زکریا کو یحییٰ کو عیسیٰ اور الیاس کو، سب نیک لوگوں میں شامل تھے۔ (۸۵) وَإِسْمَاعِيلَ وَالْيَسَعَ وَيُونُسَ وَلُوطًا ۚ وَكُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعَالَمِينَ اور نیز اسماعیل کو اور یسع کو اور یونس کو اور لوط کو اور ہر ایک کو تمام جہان والوں پر ہم نے فضیلت دی۔ (۸۶) وَمِنْ آبَائِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ وَإِخْوَانِهِمْ ۖ وَاجْتَبَيْنَاهُمْ وَهَدَيْنَاهُمْ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ اور نیز ان کے کچھ باپ دادوں کو اور کچھ اولاد کو اور کچھ بھائیوں کو اور ہم نے ان کو مقبول بنایا اور ہم نے ان کو راہ راست کی ہدایت کی۔ (۸۷) فرمایا ان کے باپ دادے ان کی اولادیں ان کے بھائی الغرض اصول و فروع اور اہل طبقہ کا ذکر آ گیا کہ ہدایت اور پسندیدگی ان سب کو گھیرے ہوئے ہے ، یہ اللہ کی سچی اور سیدھی راہ پر لگا دیئے گئے ہیں ۔ ذَلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهْدِي بِهِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۚ اللہ کی ہدایت ہی ہے جس کے ذریعہ سے اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے اس کی ہدایت کرتا ہے یہ جو کچھ انہیں حاصل ہوا یہ اللہ کی مہربانی اس کی توفیق اور اس کی ہدایت سے ہے ۔ وَلَوْ أَشْرَكُوا لَحَبِطَ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ اگر فرضاً یہ حضرات بھی شرک کرتے تو جو کچھ یہ اعمال کرتے تھے وہ سب اکارت ہوجاتے۔ (۸۸) فرمایا کہ اگر بالفرض نبیوں کا یہ گروہ بھی شرک کر بیٹھے تو ان کی بھی تمام تر نیکیاں ضائع ہو جائیں جیسے ارشاد ہے: وَلَقَدْ أُوْحِىَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ تجھ پر اور تجھ سے پہلے کے ایک ایک نبی پر یہ وحی بھیج دی گئی کہ اگر تو نے شرک کیا تو تیرے اعمال اکارت ہو جائیں گے (۳۹:۶۵) یہ یاد رہے کہ یہ شرط ہے اور شرط کا واقع ہونا ضروری نہیں جیسے فرمان ہے: قُلْ إِن كَانَ لِلرَّحْمَـنِ وَلَدٌ فَأَنَاْ أَوَّلُ الْعَـبِدِينَ اگر اللہ کی اولاد ہو تو میں تو سب سے پہلے ماننے والا بن جاؤں (۴۳:۸۱) جیسے اور آیت میں ہے: لَوْ أَرَدْنَآ أَن نَّتَّخِذَ لَهْواً لاَّتَّخَذْنَـهُ مِن لَّدُنَّآ إِن كُنَّا فَـعِلِينَ اگر کھیل تماشا بنانا ہی چاہتے ہو تو اپنے پاس سے ہی بنا لیتے (۲۱:۱۷) اور فرمان ہے: لَّوْ أَرَادَ اللَّهُ أَن يَتَّخِذَ وَلَداً لاَّصْطَفَى مِمَّا يَخْلُقُ مَا يَشَآءُ سُبْحَـنَهُ هُوَ اللَّهُ الْوَحِدُ الْقَهَّارُ اگر اللہ تعالیٰ اولاد کا ہی ارادہ کرتا تو اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتا چن لیتا لیکن وہ اس سے پاک ہے اور وہ یکتا اور غالب ہے ، (۳۹:۴) أُولَئِكَ الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ۚ یہ لوگ ایسے تھے کہ ہم نے ان کو کتاب اور حکمت اور نبوت عطا کی تھی پھر فرمایا بندوں پر رحمت نازل فرمانے کیلئے ہم نے انہیں کتاب حکمت اور نبوت عطا فرمائی فَإِنْ يَكْفُرْ بِهَا هَؤُلَاءِ فَقَدْ وَكَّلْنَا بِهَا قَوْمًا لَيْسُوا بِهَا بِكَافِرِينَ سو اگر یہ لوگ نبوت کا انکار کریں تو ہم نے اس کے لئے ایسے بہت سے لوگ مقرر کر دیئے ہیں۔ جو اس کے منکر نہیں ہیں ۔ (۸۹) پس اگر یہ لوگ یعنی اہل مکہ اس کے ساتھ یعنی نبوت کے ساتھ یا کتاب و حکمت و نبوت کے ساتھ کفر کریں یہ اگر ان نعمتوں کا انکار کریں خواہ قریش ہوں خواہ اہل کتاب ہوں خواہ کوئی اور عربی یا عجمی ہوں تو کوئی حرج نہیں ۔ ہم نے ایک قوم ایسی بھی تیار کر رکھی ہے جو اس کے ساتھ کبھی کفر نہ کرے گی ۔ یعنی مہاجرین انصار اور ان کی تابعداری کرنے والے ان کے بعد آنے والے یہ لوگ نہ کسی امر کا انکار کریں گے نہ تحریف یا ردوبدل کریں گے بلکہ ایمان کامل لے آئیں گے ہر ہر حرف کو مانیں گے محکم متشابہ سب کا اقرار کریں گے سب پر عقیدہ رکھیں گے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنے فضل و کرم سے ان ہی باایمان لوگوں میں کر دے ، أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ ۖ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ یہی لوگ ایسے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی تھی، سو آپ بھی ان ہی کے طریق پر چلیئے پھر اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کر کے فرماتا ہے جن انبیاء کرام علیہم السلام کا ذکر ہوا اور جو مجمل طور پر ان کے بڑوں چھوٹوں اور لواحقین میں سے مذکور ہوئے یہی سب اہل ہدایت ہیں تو اب تم ان ہی کی اقتدا اور اتباع کرو اور جب یہ حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے تو ظاہر ہے کہ آپ کی اُمت بطور اولیٰ اس میں داخل ہےصحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں حدیث لائے ہیں ۔ حضرت ابن عباسؓ سے آپ کے شاگرد رشید حضرت مجاہد ؒ نے سوال کیا کہ کیا سورۃ ص میں سجدہ ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں ہے پھر آپ نے یہ یہ آیت تلاوت فرمائی اور فرمایا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی تابعداری کا حکم ہوا ہے ۔ قُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا ۖ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرَى لِلْعَالَمِينَ آپ کہہ دیجیئے کہ میں تم سے اس پر کوئی معاوضہ نہیں چاہتا یہ تو صرف تمام جہان والوں کے واسطے ایک نصیحت ہے (۹۰) پھر فرماتا ہے کہ اے نبی ان میں اعلان کر دو کہ میں تو یہ قرآن پہنچانے کا کوئی معاوضہ یا بدلہ یا اجرت تم سے نہیں چاہتا ۔ یہ تو صرف دنیا کیلئے نصیحت ہے کہ وہ اندھے پن کو چھوڑ کر آنکھوں کا نور حاصل کر لیں اور برائی سے کٹ کر بھلائی پا لیں اور کفر سے نکل کر ایمان میں آ جائیں ۔ وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِذْ قَالُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى بَشَرٍ مِنْ شَيْءٍ ۗ اور ان لوگوں نے اللہ کی جیسی قدر کرنا واجب تھی ویسی قدر نہ کی جب کہ یوں کہہ دیا کہ اللہ نے کسی بشر پر کوئی چیز نازل نہیں کی اللہ کے رسولوں کے جھٹلانے والے دراصل اللہ کی عظمت کے ماننے والے نہیں ۔ عبداللہ بن کثیر کہتے ہیں کفار قریش کے حق میں یہ آیت اتری ہے اور قول ہے کہ یہود کی ایک جماعت کے حق میں ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ فخاص یہودی کے حق میں اور یہ بھی ہے کہ مالک بن صیف کے بارے میں کہا گیا ہے ۔ صحیح بات یہ ہے کہ پہلا قول حق اس لئے ہے کہ آیت مکیہ ہے اور اس لئے بھی کہ یہودی آسمان سے کتاب اترنے کے بالکل منکر نہ تھے ، ہاں البتہ قریشی اور عام عرب حضور کی رسالت کے قائل نہ تھے اور کہتے تھے کہ انسان اللہ کا رسول نہیں ہو سکتا جیسے قران انکا تعجب نقل کرتا ہے أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا أَنْ أَوْحَيْنَا إِلَى رَجُلٍ مِنْهُمْ أَنْ أَنْذِرِ النَّاسَ کیا لوگوں کو اس بات پر اچنبھا ہوا کہ ہم نے انہی میں سے ایک شخص کی طرف وحی نزول فرمائی کہ وہ لوگوں کو ہوشیار کر دے (۱۰:۲) اور آیت میں ہے: وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَن يُؤْمِنُواْ إِذْ جَآءَهُمُ الْهُدَى ۔۔۔ مِّنَ السَّمَآءِ مَلَكًا رَّسُولاً لوگوں کے پاس ہدایت پہنچ چکنے کے بعد ایمان سے روکنے والی صرف یہی چیز رہی کہ انہوں نے کہا کیا اللہ نے ایک انسان کو ہی رسول بنا کر بھیجا؟ آپ کہہ دیں کہ اگر زمین میں فرشتے چلتے پھرتے اور رہتے بستے ہوتے تو ہم بھی ان کے پاس کسی آسمانی فرشتے ہی کو رسول بنا کر بھیجتے (۱۷:۹۴) قُلْ مَنْ أَنْزَلَ الْكِتَابَ الَّذِي جَاءَ بِهِ مُوسَى نُورًا وَهُدًى لِلنَّاسِ ۖ آپ یہ کہئے وہ کتاب کس نے نازل کی ہے جس کو موسیٰ لائے تھے جس کی کیفیت یہ ہے کہ وہ نور ہے اور لوگوں کے لئے وہ ہدایت ہے یہاں بھی کفار کا یہی اعتراض بیان کر کے فرماتا ہے کہ انہیں جواب دو کہ تم جو بالکل انکار کرتے ہو کہ کسی انسان پر اللہ تعالیٰ نے کچھ بھی نازل نہیں فرمایا یہ تمہاری کیسی کھلی غلطی ہے ؟ بھلا بتلاؤ موسیٰؑ پر تورات کس نے اتاری تھی جو سراسر نور و ہدایت تھی تَجْعَلُونَهُ قَرَاطِيسَ تُبْدُونَهَا وَتُخْفُونَ كَثِيرًا ۖ جس کو تم نے ان متفرق اوراق میں رکھ چھوڑا ہے جن کو ظاہر کرتے ہو اور بہت سی باتوں کو چھپاتے ہو الغرض تورات کے تم سب قائل ہو جو مشکل مسائل آسان کرنے والی ، کفر کے اندھیروں کو چھانٹنے ، شبہ کو ہٹانے اور راہ راست دکھانے والی ہے ، تم نے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر رکھے ہیں صحیح اور اصلی کتاب میں سے بہت سا حصہ چھپا رکھا ہے کچھ اس میں سے لکھ لاتے ہو اور پھر اسے بھی تحریف کر کے لوگوں کو بتا رہے ہو ، اپنی باتوں اپنے خیالات کو اللہ کی کتاب کی طرف منسوب کرتے ہو ، وَعُلِّمْتُمْ مَا لَمْ تَعْلَمُوا أَنْتُمْ وَلَا آبَاؤُكُمْ ۖ اور تم کو بہت سی ایسی باتیں بتائی گئی ہیں جن کو تم نہیں جانتے تھے اور نہ تمہارے بڑے۔ قرآن تو وہ ہے جو تمہارے سامنے وہ علوم پیش کرتا ہے جن سے تم اور تمہارے اگلے اور تمہارے بڑے سب محروم تھے، پچھلی سچی خبریں اس میں موجود ، آنے والے واقعات کی صحیح خبریں اس میں موجود ہیں جو آج تک دنیا کے علم میں نہیں آئی تھیں کہتے ہیں اس سے مراد مشرکین عرب ہیں اور بعض کہتے ہیں اس سے مراد مسلمان ہیں ۔ قُلِ اللَّهُ ۖ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ آپ کہہ دیجئے کہ اللہ نے نازل فرمایا پھر ان کو ان کے خرافات میں کھیلتے رہنے دیجئے۔ (۹۱) پھر حکم دیتا ہے کہ یہ لوگ تو اس کا جواب کیا دیں گے کہ تورات کس نے اتاری؟ تو خود کہہ دے کہ اللہ نے اتاری ہے پھر انہیں ان کی جہالت و ضلالت میں ہی کھیلتا ہوا چھوڑ دے یہاں تک کہ انہیں موت آئے اور یقین کی آنکھوں سے خود ہی دیکھ لیں کہ اس جہان میں یہ اچھے رہتے ہیں یا مسلمان متقی ؟ وَهَذَا كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ مُصَدِّقُ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَلِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا ۚ اور یہ بھی ایسی ہی کتاب ہے جس کو ہم نے نازل کیا ہے جو بڑی برکت والی ہے، اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے تاکہ آپ مکہ والوں کو اور آس پاس والوں کو ڈرائیں۔ یہ کتاب یعنی قران کریم ہمارا اتارا ہوا ہے ، یہ بابرکت ہے یہ اگلی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے ہم نے اسے تیری طرف اس لئے نازل فرمایا کہ تو اہل مکہ کو ، اس کے پاس والوں کو یعنی عرب کے قبائل اور عجمیوں کو ہوشیار کر دے اور ڈراوا دے دے ۔ مَنْ حَوْلَهَا سے مراد ساری دنیا ہے اور آیت میں ہے: قُلْ يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّى رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا اے دنیا جہان کے لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا پیغمبر ہوں (۱۷:۱۵۸) اور آیت میں ہے: لاٌّنذِرَكُمْ بِهِ وَمَن بَلَغَ تم کو اور جس جس کو یہ قرآن پہنچے ان سب کو ڈراؤں (۶:۱۹) اور فرمان ہے: وَمَن يَكْفُرْ بِهِ مِنَ الاٌّحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهُ جو بھی اس کے ساتھ کفر کرے اس کا ٹھکانا جہنم ہے (۱۱:۱۷) اور آیت میں فرمایا گیا : تَبَارَكَ الَّذِى نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَـلَمِينَ نَذِيراً اللہ برکتوں والا ہے جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا تاکہ وہ تمام جہان والوں کو آگاہ کر دے (۲۵:۱) اور آیت میں ارشاد ہے: وَقُلْ لِّلَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَـبَ ... وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ اہل کتاب سے اور ان پڑھوں سے سب سے کہہ دو کہ کیا تم اسلام قبول کرتے ہو؟ اگر قبول کر لیں تو راہ راست پر ہیں اور اگر منہ موڑ لیں تو تجھ پر تو صرف پہنچا دینا ہے اللہ اپنے بندے کو خوب دیکھ رہا ہے ، (۳:۲۰) وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۖ وَهُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ اور جو لوگ آخرت کا یقین رکھتے ہیں ایسے لوگ اس پر ایمان لے آتے ہیں اور وہ اپنی نماز پر مداومت رکھتے ہیں۔ (۹۲) بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے پانچ چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں ان کو بیان فرماتے ہوئے ایک یہ بیان فرمایا کہ ہر نبی صرف ایک قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا لیکن میں تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیا ہوں اسی لئے یہاں بھی ارشاد ہوا کہ قیامت کے معتقد تو اسے مانتے ہیں جانتے ہیں کہ یہ قرآن اللہ کی سچی کتاب ہے اور وہ نمازیں بھی صحیح وقتوں پر برابر پڑھا کرتے ہیں اللہ کے اس فرض کے قیام میں اور اس کی حفاظت میں سستی اور کاہلی نہیں کرتے ۔ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ قَالَ أُوحِيَ إِلَيَّ وَلَمْ يُوحَ إِلَيْهِ شَيْءٌ اور اس شخص سے زیادہ کون ظالم ہوگا جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ تہمت لگائے یا یوں کہے کہ مجھ پر وحی آتی ہے حالانکہ اس کے پاس کسی بات کی بھی وحی نہیں آئی اللہ پر جھوٹ باندھنے والوں سے زیادہ ظالم اور کوئی نہیں خواہ اس جھوٹ کی نوعیت یہ ہو کہ اللہ کی اولاد ہے یا اس کے کئی شریک ہیں یا یوں کہے کہ وہ اللہ کا رسول ہے حالانکہ دراصل رسول نہیں ۔ خواہ مخواہ کہہ دے کہ میری طرف وحی نازل ہوتی ہے حالانکہ کوئی وحی نہ اتری ہو وَمَنْ قَالَ سَأُنْزِلُ مِثْلَ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ ۗ اور جو شخص یوں کہے کہ جیسا کلام اللہ نے نازل کیا ہے اسی طرح کا میں بھی لاتا ہوں اور اس سے بڑھ کر بھی کوئی ظالم نہیں ہو جو اللہ کی سچی وحی سے صف آرائی کا مدعی ہو ۔ چنانچہ اور آیتوں میں ایسے لوگوں کا بیان ہے: وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا قَالُواْ قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَاء لَقُلْنَا مِثْلَ هَـذَا اور جب ان کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے سن لیا، اگر ہم چاہیں تو اس کے برابر ہم بھی کہہ دیں (۸:۳۱) وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَائِكَةُ بَاسِطُو أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ ۖ اور اگر آپ اس وقت دیکھیں جب کہ یہ ظالم لوگ موت کی سختیوں میں ہونگے اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھا رہے ہونگے کہ ہاں اپنی جانیں نکالو، کاش کہ تو ان ظالموں کو سکرات موت کی حالت میں دیکھتا جبکہ فرشتوں کے ہاتھ ان کی طرف بڑھ رہے ہوں گے اور وہ مار پیٹ کر رہے ہونگے ، یہ محاورہ مار پیٹ سے ہے ، جیسے ہابیل قابیل کے قصے میں آیت ہے: لَئِن بَسَطتَ إِلَىَّ يَدَكَ لِتَقْتُلَنِى گو تو میرے قتل کے لئے دست درازی کرے (۵:۲۸) اور آیت میں ہے: وَيَبْسُطُواْ إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوءِ اور برائی کے ساتھ تم پر دست درازی اور زبان درازی کرنے لگیں (۶۰:۲) ضحاک اور ابو صالح کہتے ہیں کہ عذاب کے لئے اٹھانا مراد ہے۔ جیسا کہ فرمایا: وَلَوْ تَرَى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُواْ الْمَلَـئِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَـرَهُمْ کاش کہ تو دیکھتا جب کہ فرشتے کافروں کی روح قبض کرتے ہیں انکے منہ پر اور سرینوں پر مار مارتے ہیں (۸:۵۰) یہی بیان یہاں ہے کہ فرشتے ان کی جان نکالنے کیلئے انہیں مار پیٹ کرتے ہیں اور کہتے ہیں اپنی جانیں نکا لو ۔ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنْتُمْ عَنْ آيَاتِهِ تَسْتَكْبِرُونَ آج تمہیں ذلت کی سزا دی جائیگی اس سبب سے کہ تم اللہ تعالیٰ کے ذمہ جھوٹی باتیں لگاتے تھے اور تم اللہ تعالیٰ کی آیات سے تکبر کرتے تھے (۹۳) کافروں کی موت کے وقت فرشتے انہیں عذابوں، زنجیروں، طوقوں کی ، گرم کھولتے ہوئے جہنم کے پانی اور اللہ کے غضب و غصے کی خبر سناتے ہیں جس سے ان کی روح ان کے بدن میں چھپتی پھرتی ہے اور نکلنا نہیں چاہتی ، اس پر فرشتے انہیں مار پیٹ کر جبراً گھسیٹتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب تمہاری بدترین اہانت ہو گی اور تم بری طرح رسوا کئے جاؤ گے جیسے کہ تم اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے اس کے فرمان کو نہیں مانتے تھے اور اس کے رسولوں کی تابعداری سے چڑتے تھے ۔ مؤمن و کافر کی موت کا منظر جو احادیث میں آیا ہے وہ سب آیت يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ (۱۴:۲۷) کی تفسیر میں ہے ، ابن مردویہ نے اس جگہ ایک بہت لمبی حدیث بیان کی ہے لیکن اس کی سند غریب ہے واللہ اعلم، وَلَقَدْ جِئْتُمُونَا فُرَادَى كَمَا خَلَقْنَاكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَتَرَكْتُمْ مَا خَوَّلْنَاكُمْ وَرَاءَ ظُهُورِكُمْ ۖ اور تم ہمارے پاس تن تنہا آگئے جس طرح ہم نے اول بار تم کو پیدا کیا تھا اور جو کچھ ہم نے تم کو دیا تھا اس کو اپنے پیچھے ہی چھوڑ آئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس دن انہیں ان کی قبروں سے اٹھایا جائے گا اس دن ان سے کہا جائے گا کہ تم تو اسے بہت دور اور محال مانتے تھے تو اب دیکھ لو جس طرح شروع شروع میں ہم نے تمہیں پیدا کیا تھا اوب دوبارہ بھی پیدا کر دیا ۔ وَعُرِضُواْ عَلَى رَبِّكَ صَفَا لَّقَدْ جِئْتُمُونَا كَمَا خَلَقْنَـكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ اور سب کے سب تیرے رب کے سامنے صف بستہ حاضر کیے جائیں گے۔یقیناً تم ہمارے پاس اسی طرح آئے جس طرح ہم نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا (۱۸:۴۸) جو کچھ مال متاع ہم نے تمہیں دنیا میں دیا تھا سب تم وہیں اپنے پیچھے چھوڑ آ ئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: انسان کہتا ہے میرا مال میرا مال حالانکہ تیرا مال وہی ہے جسے تو نے کھاپی لیا وہ تو فنا ہو گیا یا تو نے پہن اوڑھ لیا وہ پھٹا پرانا ہو کر ضائع ہو گیا یا تو نے نام مولیٰ پر خیرات کیا وہ باقی رہا اس کے سوا جو کچھ ہے اسے تو تو اوروں کے لئے چھوڑ کر یہاں سے جانے والا ہے ۔ حسن بصری فرماتے ہیں: انسان کو قیامت کے دن اللہ کے سامنے کھڑا کیا جائے گا اور رب العالمین اس سے دریافت فرمائے گا کہ جو تو نے جمع کیا تھا وہ کہاں ہے؟یہ جواب دے گا کہ خوب بڑھا چڑھا کر اسے دنیا میں چھوڑ آیا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے ابن آدم پیچھے چھوڑا ہوا تو یہاں نہیں ہے البتہ آگے بھیجا ہوا یہاں موجود ہے اب جو یہ دیکھے گا تو کچھ بھی نہ پائے گا پھر آپ نے یہی آیت پڑھی ، وَمَا نَرَى مَعَكُمْ شُفَعَاءَكُمُ الَّذِينَ زَعَمْتُمْ أَنَّهُمْ فِيكُمْ شُرَكَاءُ ۚ اور ہم تمہارے ہمراہ تمہارے ان شفاعت کرنے والوں کو نہیں دیکھتے جنکی نسبت تم دعویٰ رکھتے تھے کہ وہ تمہارے معاملہ میں شریک ہیں۔ پھر انہیں ان کا شرک یاد دلا کر دھمکایا جائے گا کہ جنہیں تم اپنا شریک سمجھ رہے تھے اور جن پر ناز کر رہے تھے کہ ہمیں بچا لیں گے اور نفع دیں گے وہ آج تمہارے ساتھ کیوں نہیں؟ أَيْنَ شُرَكَائِيَ الَّذِينَ كُنتُمْ تَزْعُمُونَ تم جنہیں اپنے گمان میں میرا شریک ٹھہرا رہے تھے کہاں ہیں (۲۸:۶۲) حق یہ ہے کہ قیامت کے دن سارے جھوٹ بہتان افترا کھل جائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ سب کو سنا کر ان سے فرمائے گا وَقِيلَ لَهُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ تَعْبُدُونَ ـ مِن دُونِ اللَّهِ هَلْ يَنصُرُونَكُمْ أَوْ يَنتَصِرُونَ اور ان سے پوچھا جائے گا کہ جن کی تم پوجا کرتے رہے وہ کہاں ہیں؟ جو اللہ تعالیٰ کے سوا تھے، کیا وہ تمہاری مدد کرتے ہیں؟ یا کوئی بدلہ لے سکتے ہیں (۲۶:۹۲،۹۳) لَقَدْ تَقَطَّعَ بَيْنَكُمْ وَضَلَّ عَنْكُمْ مَا كُنْتُمْ تَزْعُمُونَ واقع تمہارے آپس میں قطع تعلق تو ہوگیا اور تمہارا دعویٰ سب تم سے گیا گزرا ہوا ہے۔ (۹۴) بَيْنَكُمْ کی ایک قرأت بَيْنُكُمْ بھی ہے یعنی تمہاری یکجہتی ٹوٹ گئی اور پہلی قرأت پر یہ معنی ہیں کہ جو تعلقات تم میں تھے جو وسیلے تم نے بنا رکھے تھے سب کٹ گئے معبودان باطل سے جو غلط منصوبے تم نے باندھ رکھے تھے سب برباد ہو گئے جیسے فرمان باری ہے: إِذْ تَبَرَّأَ الَّذِينَ اتُّبِعُواْ مِنَ الَّذِينَ اتَّبَعُواْ وَرَأَ ... وَمَا هُم بِخَـرِجِينَ مِنَ النَّارِ جس وقت پیشوا لوگ اپنے تابعداروں سے بیزار ہوجائیں گے اور عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے اور کل رشتے ناتے ٹوٹ جائیں گے۔ اور تابعدار لوگ کہنے لگیں گے، کاش ہم دنیا کی طرف دوبارہ جائیں تو ہم بھی ان سے ایسے ہی بیزار ہو جائیں جیسے یہ ہم سے ہیں، اسی طرح اللہ تعالیٰ انہیں ان کے اعمال دکھائے گا ان کو حسرت دلانے کو، یہ ہرگز جہنم سے نہیں نکلیں گے۔ (۲:۱۶۶،۱۶۷) اور آیت میں ہے: فَإِذَا نُفِخَ فِى الصُّورِ فَلاَ أَنسَـبَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَلاَ يَتَسَآءَلُونَ پس جب صور پھونک دیا جائیگا اس دن نہ تو آپس کے رشتے ہی رہیں گے، نہ آپس کی پوچھ گچھ (۲۳:۱۰۱) اور آیت میں ہے: إِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِّن دُونِ اللَّهِ ... وَمَا لَكُمْ مِّن نَّـصِرِينَ (حضرت ابراہیم ؑ نے) کہا کہ تم نے جن بتوں کی پرستش اللہ کے سوا کی ہے انہیں تم نے اپنی آپس کی دنیاوی دوستی کی بنا ٹھہرالی ہے تم سب قیامت کے دن ایک دوسرے سے کفر کرنے لگو گے اور ایک دوسرے پر لعنت کرنے لگو گے اور تمہارا سب کا ٹھکانا دوزخ ہوگا اور تمہارا کوئی مددگار نہ ہوگا۔ (۲۹:۲۵) اور آیت میں ہے: وَقِيلَ ادْعُواْ شُرَكَآءَكُمْ فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ يَسْتَجِيبُواْ لَهُمْ کہا جائے گا کہ اپنے شریکوں کو بلاؤ وہ بلائیں گے لیکن انہیں وہ جواب تک نہ دیں گے (۲۸:۶۴) اور آیت میں ہے: وَيَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِينَ أَشْرَكُوا ... وَضَلَّ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَفْتَرُونَ اور وہ دن بھی قابل ذکر ہے جس روز ہم ان سب کو جمع کریں گے پھر مشرکین سے کہیں گے کہ تم اور تمہارے شریک اپنی جگہ ٹھہرو پھر ہم ان کی آپس میں پھوٹ ڈال دیں گے ا ور ان کے وہ شرکا کہیں گے کہ کیا تم ہماری عبادت نہیں کرتے تھے؟سو ہمارے تمہارے درمیان اللہ کافی ہے گواہ کے طور پر کہ ہم کو تمہاری عبادت کی خبر بھی نہ تھی ۔ اس مقام پر ہر شخص اپنے اگلے کئے ہوئے کاموں کی جانچ کر لے گااور یہ لوگ اللہ کی طرف جو ان کا مالک حقیقی ہے لوٹائے جائیں گے اور جو کچھ جھوٹ باندھا کرتے تھے سب ان سے غائب ہوجائیں گے ۔ (۱۰:۲۸،۳۰) اس بارے کی اور آیتیں بھی بہت ہیں ۔ إِنَّ اللَّهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوَى ۖ بیشک اللہ تعالیٰ دانہ کو اور گٹھلیوں کو پھاڑنے والا ہے دانوں سے کھیتیاں بیج اور گٹھلی سے درخت اللہ ہی اُگاتا ہے تم تو انہیں مٹی میں ڈال کر چلے آتے ہو وہاں انہیں اللہ تعالیٰ پھاڑتا ہے ۔ کونپل نکالتا ہے پھر وہ بڑھتے ہیں قوی درخت بن جاتے ہیں اور دانے اور پھل پیدا ہوتے ہیں ۔ يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَمُخْرِجُ الْمَيِّتِ مِنَ الْحَيِّ ۚ وہ جاندار کو بےجان سے نکال لاتا ہے اور وہ بےجان کو جاندار سے نکالنے والا ہے پھر گویا اسی کی تفسیر میں فرمایا کہ زندہ درخت اور زندہ کھیتی کو مردہ بیج اور مردہ دانے سے وہ نکالتا ہے جیسے سورۃ یٰسین میں ارشاد ہے: وَآيَةٌ لَهُمُ الْأَرْضُ الْمَيْتَةُ ... وَمِنْ أَنْفُسِهِمْ وَمِمَّا لَا يَعْلَمُونَ اور ان کے لئے ایک نشانی (خشک)زمین ہے جس کو ہم نے زندہ کر دیا اور اس سے غلہ نکالا جس میں سے وہ کھاتے ہیں۔ اور ہم نے اس میں کھجوروں کے اور انگور کے باغات پیدا کر دیئے اور جن میں ہم نے چشمے بھی جاری کر دیئے ہیں۔تاکہ (لوگ)اس کے پھل کھائیں اور اس کو ان کے ہاتھوں نے نہیں بنایا پھر کیوں شکر گزاری نہیں کرتے۔ وہ پاک ذات ہے جس نے ہرچیز کے جوڑے پیدا کیےخواہ وہ زمین کی اگائی ہوئی چیزیں ہوں، خواہ خود ان کے نفوس ہوں خواہ وہ (چیزیں)ہوں جنہیں یہ جانتے بھی نہیں (۳۶:۳۳،۳۶) مخرج کا عطف فَالِقُ پر ہے اور مفسرین نے دوسرے انداز سے ان جملوں میں ربط قائم کیا ہے لیکن مطلب سب کا یہی ہے اور اسی کے قریب قریب ہے ، کوئی کہتا ہے مرغی کا انڈے سے نکلنا اور مرغ سے انڈے کا نکلنا مراد ہے ۔ بد شخص کے ہاں نیک اولاد ہونا اور نیکوں کی اولاد کا بد ہونا مراد ہے ۔ ۔ آیت درحقیقت ان تمام صورتوں کو گھیرے ہوئے ہے ۔ ذَلِكُمُ اللَّهُ ۖ فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ اللہ تعالیٰ یہ ہے، سو تم کہاں الٹے چلے جا رہے ہو۔ (۹۵) پھر فرماتا ہے ان تمام کاموں کا کرنے والا اکیلا اللہ ہی ہے پھر کیا وجہ کہ تم حق سے پھر جاتے ہو؟ اور اس لا شریک کے ساتھ دوسروں کو شریک کرنے لگتے ہو؟ فَالِقُ الْإِصْبَاحِ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَنًا وہ صبح کا نکالنے والا اس نے رات کو راحت کی چیز بنایا ہے وہی دن کی روشنی کا لانے والا اور رات کے اندھیرے کا پیدا کرنے والا ہے ۔ جیسے کہ اس سورت کے شروع میں فرمایا تھا کہ وہی نور و ظلمت کا پیدا کرنے والا ہے ۔ رات کے گھٹا ٹوپ اندھیرے کو دن کی نورانیت سے بدل دیتا ہے ۔ رات اپنے اندھیروں سمیت چھپ جاتی ہے اور دن اپنی تجلیوں سمیت کائنات پر قبضہ جما لیتا ہے ، جیسے فرمان ہے: يُغْشِى الَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وہ رات سے دن ایسے طور پر چھپا دیتا ہے کہ کہ وہ رات اس دن کو جلدی سے آ لیتی ہے (۷:۵۴) الغرض چیز اور اس کی ضد اس کے زیر اختیار ہے اور یہ اس کی بے انتہا عظمت اور بہت بڑی سلطنت پر دلیل ہے ۔ دن کی روشنی اور اس کی چہل پہل کی ظلمت اور اس کا سکون وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَنًا اس کی عظیم الشان قدرت کی نشانیاں ہیں ۔جیسے فرمان ہے: وَالضُّحَى ـ وَالَّيْلِ إِذَا سَجَى قسم ہے چاشت کے وقت کی اور قسم ہے رات کی جب چھا جائے۔ (۹۳:۱،۲) اور جیسے اس آیت میں فرمایا: وَالَّيْلِ إِذَا يَغْشَى ـ وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّى قسم ہے رات کی جب چھا جائے، اور قسم ہے دن کی جب روشن ہو۔ (۹۲:۱،۲) اور آیت میں ہے: وَالنَّهَارِ إِذَا جَلَّـهَا ـ وَالَّيْلِ إِذَا يَغْشَـهَا قسم ہے دن کی جب سورج کو نمایاں کرے۔ قسم ہے رات کی جب اسے ڈھانپ لے (۹۱:۳،۴) ان تمام آیتوں میں دن رات کا اور نور و ظلمت روشنی اور اندھیرے کا ذکر ہے حضرت صہیب رومی رحمتہ اللہ علیہ سے ایک بار ان کی بیوی صاحبہ نے کہا کہ رات ہر ایک کے لئے آرام کی ہے لیکن میرے خاوند حضرت صہیب کے لئے وہ بھی آرام کی نہیں اس لئے کہ وہ رات کو اکثر حصہ جاگ کر کاٹتے ہیں ۔ جب انہیں جنت یاد آتی ہے تو شوق بڑھ جاتا ہے اور یاد اللہ میں رات گزار دیتے ہیں اور جب جہنم کا خیال آ جاتا ہے تو مارے خوف کے ان کی نیند اڑ جاتی ہے ۔ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًا ۚ اور سورج اور چاند کو حساب سے رکھا ہے سورج چاند اس کو مقرر کئے ہوئے اندازے پر برابر چل رہے ہیں کوئی تغیر اور اضطراب اس میں نہیں ہوتا ہر ایک کی منزل مقرر ہے جاڑے کی الگ گرمی کی الگ اور اسی اعتبار سے دن رات ظاہر ہوتے ہیں چھوٹے اور بڑے ہوتے ہیں جیسے فرمان ہے: هُوَ الَّذِى جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَآءً وَالْقَمَرَ نُوراً وَقَدَّرَهُ مَنَازِلَ وہ اللہ تعالیٰ ایسا ہے جس نے آفتاب کو چمکتا ہوا بنایا اور چاند کو نورانی بنایااور اس کے لئے منزلیں مقرر کیں (۱۰:۵) اور آیت میں ہے: لاَ الشَّمْسُ يَنبَغِى لَهَآ أَن تدْرِكَ القَمَرَ وَلاَ الَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ وَكُلٌّ فِى فَلَكٍ يَسْبَحُونَ نہ آفتاب کی یہ مجال ہے کہ چاند کو پکڑے اور نہ رات دن پر آگے بڑھ جانے والی ہے اور سب کے سب آسمان میں تیرتے پھرتے ہیں ۔ (۳۶:۴۰) اور جگہ فرمایا : وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَتٍ بِأَمْرِهِ سورج چاند ستارے سب اس کے فرمان کے ما تحت ہیں ۔ (۱۶:۱۲) ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ یہ ٹھہرائی بات ہے ایسی ذات کی جو قادر ہے بڑے علم والا ہے۔ (۹۶) یہاں فرمایا یہ سب اندازے اس اللہ کے مقرر کردہ ہیں جسے کوئی روک نہیں سکتا جس کے خلاف کوئی کچھ نہیں کر سکتا ۔ جو ہر چیز کو جانتا ہے جس کے علم سے ایک ذرہ باہر نہیں ۔ زمین و آسمان کی کوئی مخلوق اس سے پوشیدہ نہیں ۔ عموماً قرآن کریم جہاں کہیں رات دن سورج چاند کی پیدائش کا ذکر کرتا ہے وہاں کلام کا خاتمہ اللہ جل و علا نے اپنی عزت و علم کی خبر پر کیا ہے جیسے اس آیت کے علاوہ ان آیات میں بھی ہے: وَءَايَةٌ لَّهُمُ الَّيْلُ نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهَارَ فَإِذَا هُم مُّظْلِمُونَ ـ وَالشَّمْسُ تَجْرِى لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَـا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ اور ان کے لئے ایک نشانی رات ہے جس سے ہم دن کو کھینچ دیتے ہیں تو یکایک اندھیرے میں رہ جاتے ہیں اور سورج کے لئے جو مقررہ راہ ہے وہ اسی پر چلتا رہتا ہے یہ ہے مقرر کردہ غالب، باعلم اللہ تعالیٰ کا۔ (۳۶:۳۷،۳۸) وَزَيَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنْيَا بِمَصَـبِيحَ وَحِفْظاً ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ اور ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں سے زینت دی اور نگہبانی کی یہ تدبیر اللہ غا لب و دانا کی ہے۔ (۴۱:۱۲) وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِهَا فِي ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۗ اور وہ ایسا ہے جس نے تمہارے لئے ستاروں کو پیدا کیا تاکہ تم ان کے ذریعہ سے اندھیروں میں، خشکی میں اور دریا میں راستہ معلوم کر سکو پھر فرمایا ستارے تمہیں خشکی اور تری میں راہ دکھانے کے لئے ہیں بعض سلف کا قول ہے کہ ستاروں میں ان تین فوائد کے علاوہ اگر کوئی اور کچھ مانے تو اس نے خطا کی اور اللہ پر چھوٹ باندھا - ایک تو یہ کہ یہ آسمان کی زینت ہیں - دوسرے یہ شیاطین پر آگ بن کر برستے ہیں جبکہ وہ آسمانوں کی خبریں لینے کو چڑھیں - تیسرے یہ کہ مسافروں اور مقیم لوگوں کو یہ راستہ دکھاتے ہیں ۔ قَدْ فَصَّلْنَا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ بیشک ہم نے دلائل خوب کھول کھول کر بیان کر دیئے ان لوگوں کے لئے جو خبر رکھتے ہیں۔ (۹۷) پھر فرمایا ہم نے عقلمندوں عالموں اور واقف کار لوگوں کیلئے اپنی آیتیں بالتفصیل بیان فرما دی ہیں ۔ وَهُوَ الَّذِي أَنْشَأَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ ۗ اور وہ ایسا ہے جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا پھر ایک جگہ زیادہ رہنے کی ہے اور ایک جگہ چندے رہنے کی فرماتا ہے کہ تم سب انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے تن واحد یعنی حضرت آدم سے پیدا کیا ہے جیسے اور آیت میں ہے: يَـأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِى خَلَقَكُمْ مِّن نَّفْسٍ وَحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيراً وَنِسَآءً لوگو اپنے اس رب سے ڈور جس نے تمہیں ایک نفس سے پیدا کی اسی سے اس کا جوڑ پیدا کیا پھر ان دونوں سے مرد و عورت خوب پھیلا دیئے (۴:۱) مُسْتَقَرٌّ سے مراد ماں کا پیٹ اور مُسْتَوْدَعٌ سے مراد باپ کی پیٹھ ہے اور قول ہے کہ جائے قرار دنیا ہے اور سپردگی کی جگہ موت کا وقت ہے ۔ سعید بن جبیر فرماتے ہیں ماں کا پیٹ، زمین اور جب مرتا ہے سب جائے قرار کی تفسیر ہے ، حسن بصری فرماتے ہیں جو مر گیا اس کے عمل رک گئے یہی مراد مُسْتَقَرٌّ سے ہے۔ ابن مسعود کا فرمان ہے مُسْتَقَرٌّ آخرت میں ہے لیکن پہلا قول ہی زیادہ ظاہر ہے ، واللہ اعلم، قَدْ فَصَّلْنَا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَفْقَهُونَ بیشک ہم نے دلائل خوب کھول کھول کر بیان کر دیئے ان لوگوں کے لئے جو سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ (۹۸) سمجھداروں کے سامنے نشان ہائے قدرت بہت کچھ آ چکے، اللہ کی بہت سی باتیں بیان ہو چکیں جو کافی وافی ہیں۔ وَهُوَ الَّذِي أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجْنَا بِهِ نَبَاتَ كُلِّ شَيْءٍ اور وہ ایسا ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا پھر ہم نے اس کے ذریعہ سے ہر قسم کے نباتات کو نکالا وہی اللہ ہے جس نے آسمان سے پانی اتارا نہایت صحیح اندازے سے بڑا با برکت پانی جو بندوں کی زندگانی کا باعث بنا اور سارے جہاں پر اللہ کی رحمت بن کر برسا، اسی سے تمام تر تروتازہ چیزیں اُگیں جیسے فرمان ہے: وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ كُلَّ شَىْءٍ حَىٍّ پانی سے ہم نے ہر چیز کی زندگانی قائم کر دی ۔ (۲۱:۳۰) فَأَخْرَجْنَا مِنْهُ خَضِرًا نُخْرِجُ مِنْهُ حَبًّا مُتَرَاكِبًا پھر ہم نے اس سے سبز شاخ نکالی کہ اس سے ہم اوپر تلے دانے چڑھے ہوئے نکالتے ہیں ۔ پھر اس سے سبزہ یعنی کھیتی اور درخت اُگتے ہیں جس میں سے دانے اور پھل نکلتے ہیں، دانے بہت سارے ہوتے ہیں گتھے ہوئے تہہ بہ تہہ چڑھے ہوئے وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِهَا قِنْوَانٌ دَانِيَةٌ وَجَنَّاتٍ مِنْ أَعْنَابٍ اور کھجور کے درختوں سے ان کے گچھے میں سے، خوشے ہیں جو نیچے کو لٹک جاتے ہیں اور انگوروں کے باغ اور کھجور کے خوشے جو زمین کی طرف جھکے پڑتے ہیں ۔ بعض درخت خرما چھوٹے ہوتے ہیں اور خوشے چمٹے ہوئے ہوتے ہیں ۔ قِنْوَانٌ کو قبیلہ تمیم قنیان کہتا ہے اس کا مفرد قنو ہے ، جیسے صنوان صنو کی جمع ہے اور باغات انگوروں کے ۔ پس عرب کے نزدیک یہی دنوں میوے سب میوؤں سے اعلیٰ ہیں کھجور اور انگور اور فی الحقیقت ہیں بھی یہ اسی درجے کے ۔ قرآن کی دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان ہی دونوں چیزوں کا ذکر فرما کر اپنا احسان بیان فرمایا ہے : وَمِن ثَمَرَتِ النَّخِيلِ وَالاٌّعْنَـبِ تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَرًا وَرِزْقًا حَسَنًا اور کھجور اور انگور کے درختوں کے پھلوں سے تم شراب بنا لیتے ہو اور عمدہ روزی بھی۔ (۱۶:۶۷) اس میں جو شراب بنانے کا ذکر ہے اس پر بعض حضرات کہتے ہیں کہ حرمت شراب کے نازل ہونے سے پہلے کی یہ آیت ہے اور آیت میں بھی باغ کے ذکر میں فرمایا : وَجَعَلْنَا فِيهَا جَنَّـتٍ مِّن نَّخِيلٍ وَأَعْنَـبٍ اور ہم نے اس میں کھجوروں کے اور انگور کے باغات پیدا کر دیئے (۳۶:۳۴) وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُشْتَبِهًا وَغَيْرَ مُتَشَابِهٍ ۗ اور زیتوں اور انار کےبعض ملتے جلتے ہوتے ہیں اور کچھ ایک دوسرے سے ملتے جلتے نہیں ہوتے زیتون بھی ہیں انار بھی ہیں آپس میں ملتے جلتے پھل الگ الگ، شکل صورت مزہ حلاوت فوائد و غیرہ ہر ایک کے جداگانہ ، انْظُرُوا إِلَى ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَيَنْعِهِ ۚ إِنَّ فِي ذَلِكُمْ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ہر ایک کے پھل کو دیکھو جب وہ پھلتا ہے اور اس کے پکنے کو دیکھو ان میں دلائل ہیں ان لوگوں کے لئے جو ایمان رکھتے ہیں۔ (۹۹) ان درختوں میں پھلوں کا آنا اور ان کا پکنا ملاحظہ کر اور اللہ کی ان قدرتوں کا نظارہ اپنی آنکھوں سے کرو کہ لکڑی میں میوہ نکالتا ہے ۔ عدم وجود میں لاتا ہے ۔ سوکھے کو گیلا کرتا ہے ۔ مٹھاس لذت خوشبو سب کچھ پیدا کرتا ہے رنگ روپ شکل صورت دیتا ہے فوائد رکھتا ہے ۔ جیسے اور جگہ فرمایا ہے: وَفِى الاٌّرْضِ قِطَعٌ مُّتَجَـوِرَتٌ وَجَنَّـتٌ مِّنْ أَعْنَـبٍ ... وَحِدٍ وَنُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلَى بَعْضٍ فِى الاٍّكُلِ اور زمین میں مختلف ٹکڑے ایک دوسرے سے لگتے لگاتے ہیں اور انگوروں کے باغات ہیں اور کھیت ہیں اور کھجوروں کے درخت ہیں، شاخ دار اور بعض ایسے ہیں جو بےشاخ ہیں سب ایک ہی پانی پلائے جاتے ہیں۔ پھر بھی ہم ایک کو ایک پر پھلوں میں برتری دیتے ہیں (۱۳:۴) پانی ایک زمین ایک کھیتیاں باغات ملے جلے لیکن ہم جسے چاہیں جب چاہیں بنا دیں کھٹاس مٹھاس کمی زیادتی سب ہمارے قبضہ میں ہے یہ سب خالق کی قدرت کی نشانیاں ہیں ۔ اس کو ایماندار لوگ ہی سمجھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اور رسول ﷺ کی تصدیق کرتے ہیں۔ وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ الْجِنَّ وَخَلَقَهُمْ ۖ اور لوگوں نے شیاطین کو اللہ تعالیٰ کا شریک قرار دے رکھا ہے حالانکہ ان لوگوں کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے یہاں مشرکین کا رد ہے جو عبادت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ غیر کو شریک کرتے ہیں اور شیطان کی پرستش کرنے لگتے ہیںاگر کوئی کہے کہ جنوں کی عبادت کیسے ہوئی وہ تو بتوں کی پوجا پاٹ کرتے تھے تو جواب یہ ہے کہ بت پرستی کے سکھانے والے جنات ہی تھےجیسے خود قران کریم میں ہے: إِن يَدْعُونَ مِن دُونِهِ إِلاَّ إِنَـثاً ... وَمَا يَعِدُهُمْ الشَّيْطَـنُ إِلاَّ غُرُوراً یہ تو اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر صرف عورتوں کو پکارتے ہیں اور دراصل یہ صرف سرکش شیطان کو پوجتے ہیں۔جسے اللہ نے لعنت کی ہے اس نے بیڑا اٹھایا ہے کہ تیرے بندوں میں سے میں مقرر شدہ حصہ لے کر رہوں گا ۔اور انہیں راہ سے بہکاتا رہوں گا اور باطل امیدیں دلاتا رہوں گا اور انہیں سکھاؤں گا کہ جانوروں کے کان چیر دیں اور ان سے کہوں گا کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی صورت کو بگاڑ دیں سنو! جو شخص اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا رفیق بنائے گا وہ صریح نقصان میں ڈوبے گا۔وہ ان سے زبانی وعدے کرتا رہیگا، اور سبز باغ دکھاتا رہے گا (مگر یاد رکھو!) شیطان کے جو وعدے ان سے ہیں وہ سراسر فریب کاریاں ہیں۔ (۴:۱۱۷،۱۲۰) اور آیت میں ہے: أَفَتَتَّخِذُونَهُ وَذُرِّيَّتَهُ أَوْلِيَآءَ مِن دُونِى کیا پھر بھی تم اسے (شیطان) اور اس کی اولاد کو مجھے چھوڑ کر اپنا دوست بنا رہے ہو؟ (۱۸:۵۰) حضرت خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنے والد سے فرمایا : يأَبَتِ لاَ تَعْبُدِ الشَّيْطَـنَ إِنَّ الشَّيْطَـنَ كَانَ لِلرَّحْمَـنِ عَصِيّاً میرے ابا جان آپ شیطان کی پرستش سے باز آجائیں شیطان تو رحم و کرم والے اللہ تعالیٰ کا بڑا ہی نافرمان ہے ۔ (۱۹:۴۴) سورۃ یٰسین میں ہے: أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يبَنِى ءَادَمَ أَن لاَّ تَعْبُدُواْ الشَّيطَـنَ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ـ وَأَنِ اعْبُدُونِى هَـذَا صِرَطٌ مُّسْتَقِيمٌ اے اولاد آدم! کیا میں نے تم سے قول قرار نہیں لیا تھا کہ تم شیطان کی عبادت نہ کرنا وہ تمہارا کھلا دشمن ہےاور میری عبادت کرنا سیدھی راہ یہی ہے (۳۶:۶۰،۶۱) قیامت کے دن فرشتے بھی کہیں گے: سُبْحَـنَكَ أَنتَ وَلِيُّنَا مِن دُونِهِمْ بَلْ كَانُواْ يَعْبُدُونَ الْجِنَّ أَكْـثَرُهُم بِهِم مُّؤْمِنُونَ وہ کہیں گے تیری ذات پاک ہے اور ہمارا ولی تو تو ہے نہ کہ یہ بلکہ یہ لوگ جنوں کی عبادت کرتے تھے‘ ان میں کے اکثر کا انہی پر ایمان تھا۔ (۳۴:۴۱) پس یہاں فرمایا ہے کہ انہوں نے جنات کی پرستش شروع کر دی حالانکہ پرستش کے لیے صرف اللہ ہے وہ سب کا خالق ہے ۔ جب خالق وہی ہے تو معبود بھی وہی ہے ۔جیسے حضرت خلیل اللہ نے فرمایا: قَالَ أَتَعْبُدُونَ مَا تَنْحِتُونَ ـ وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ تو آپ نے فرمایا تم انہیں پوجتے ہو جنہیں (خود) تم تراشتے ہوحالانکہ تمہیں اور تمہاری بنائی ہوئی چیزوں کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے (۳۷:۹۵،۹۶) یعنی معبود وہی ہے جو خالق ہے ۔ وَخَرَقُوا لَهُ بَنِينَ وَبَنَاتٍ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۚ اور ان لوگوں نے اللہ کے حق میں بیٹے اور بیٹیاں بلا سند تراش رکھی ہیں پھر ان لوگوں کی حماقت و ضلالت بیان ہو رہی ہے ۔ جو اللہ کی اولاد بیٹے بیٹیاں قرار دیتے تھے ۔ یہودی حضرت عزیرؑ کو اور نصرانی حضرت عیسیٰؑ کو اللہ کا بیٹا جبکہ مشرکین عرب فرشتوں کو اللہ کی لڑکیاں کہتے تھے ۔ یہ سب ان کی من گھڑت اور خود تراشیدہ بات تھی اور محض غلط اور جھوٹ تھا ۔ حقیقت سے بہت دور نرا بہتان باندھا تھا اور بےسمجھی سے اللہ کی شان کے خلاف ایک زبان سے اپنی جہالت سے کہہ دیا تھا بھلا اللہ کو بیٹوں اور بیٹیوں سے کیا واسطہ نہ اس کی اولاد نہ اس کی بیوی نہ اس کی کفو کا کوئی ۔ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يَصِفُونَ اور وہ پاک اور برتر ہے ان باتوں سے جو یہ کرتے ہیں۔ (۱۰۰) وہ سب کا خالق وہ کسی کی شرکت سے پاک وہ کسی کی حصہ داری سے پاک، یہ گمراہ جو کہہ رہے ہیں سب سے وہ پاک اور برتر سب سے دور اور بالا تر ہے ۔ بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے، زمین و آسمان کا موجد بغیر کسی مثال اور نمونے کے انہیں عدم سے وجود میں لانے والا اللہ ہی ہے ۔ بدعت کو بھی بدعت اسی لئے کہتے ہیں کہ پہلے اس کی کوئی نظیر نہیں ہوتی ، أَنَّى يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُنْ لَهُ صَاحِبَةٌ ۖ اللہ تعالیٰ کے اولاد کہاں ہوسکتی ہے حالانکہ اس کے کوئی بیوی تو ہے نہیں بھلا اس کا صاحب اولاد ہونا کیسے ممکن ہے جبکہ اس کی بیوی ہی نہیں، اولاد کیلئے تو جہاں باپ کا ہونا ضروری ہے وہیں ماں کا وجود بھی لازمی ہے ، اللہ کے مشابہ جبکہ کوئی نہیں ہے اور جوڑا تو ساتھ کا اور جنس کا ہوتا ہے پھر اس کی بیوی کیسے؟ اور بیوی نہیں تو اولاد کہاں ؟ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ اور اللہ تعالیٰ نے ہرچیز کو پیدا کیا اور وہ ہرچیز کو خوب جانتا ہے۔ (۱۰۱) وہ ہر چیز کا خالق ہے اور یہ بھی اس کے منافی ہے کہ اس کی اولاد اور زوجہ ہو ۔جیسے فرمان ہے: وَقَالُواْ ٱتَّخَذَ ٱلرَّحۡمَـٰنُ وَلَدً۬ا ... وَكُلُّهُمۡ ءَاتِيهِ يَوۡمَ ٱلۡقِيَـٰمَةِ فَرۡدًا ان کا قول یہ ہے کہ اللہ رحمٰن نے بھی اولاد اختیار کی ہے۔ یقیناً تم بہت بری اور بھاری چیز لائے ہو۔ قریب ہے کہ اس قول کی وجہ سے آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں کہ وہ رحمٰن کی اولاد ثابت کرنے بیٹھے ۔ شان رحمٰن کے لائق نہیں کہ وہ اولاد رکھے۔ آسمان و زمین میں جو بھی ہیں سب کے سب اللہ کے غلام بن کر ہی آنے والے ہیں ۔ ان سب کو اس نے گھیر رکھا ہے اور سب کو پورے گن بھی رکھا ہے یہ سارے کے سارے قیامت کے دن اکیلے اس کے پاس حاضر ہونے والے ہیں (۱۹:۸۸،۸۹) ذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ ۖ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ ۖ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوهُ ۚ یہ اللہ تعالیٰ تمہارا رب! اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، ہرچیز کا پیدا کرنے والا ہے تم اس کی عبادت کرو جس کے یہ اوصاف ہیں یہی تمہارا اللہ ہے ،یہی تمہارا پالنہار ہے، یہی سب کا خالق ہے تم اسی ایک کی عبادت کرو، اس کی وحدانیت کا اقرار کرو ۔ اس کے سوا کسی کو عبادت کے لائق نہ سمجھو ۔ اس کی اولاد نہیں ، اس کے ماں باپ نہیں، اس کی بیوی نہیں، اس کی برابری کا اس جیسا کوئی نہیں، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ اور وہ ہرچیز کا کارساز ہے۔ (۱۰۲) وہ ہر چیز کا حافظ نگہبان اور وکیل ہے ہر کام کی تدبیر وہی کرتا ہے سب کی روزیاں اسی کے ذمہ ہیں ، ہر ایک کی ہر وقت وہی حفاظت کرتا ہے ۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ۖ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ اس کو تو کسی کی نگاہ محیط نہیں ہوسکتی اور وہ سب نگاہوں کو محیط ہو جاتا ہے اور وہی بڑا باریک بین باخبر ہے۔ (۱۰۳) سلف کہتے ہیں دنیا میں کوئی آنکھ اللہ کو نہیں دیکھ سکتی ۔ ہاں قیامت کے دن مؤمنوں کو اللہ کا دیدار ہو گا ، حضرت عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ جو کہے کہ حضور ﷺنے اپنے رب کو دیکھا ہے اس نے جھوٹ کہا پھر آپ نے یہی آیت پڑھی۔ ابن عباسؓؓ سے اس کے بر خلاف مروی ہے انہوں نے روایت کو مطلق رکھا ہے اور فرماتے ہیں اپنے دل سے حضور ﷺنے دو مرتبہ اللہ کو دیکھا سورہ نجم میں یہ مسئلہ پوری تفصیل سے بیان ہو گا انشاء اللہ تعالیٰ ، اسمٰعیل بن علی فرماتے ہیں کہ دنیا میں کوئی شخص اللہ کو نہیں دیکھ سکتااور حضرات فرماتے ہیں یہ تو عام طور پر بیان ہوا ہے پھر اس میں سے قیامت کے دن مؤمنوں کا اللہ کو دیکھنا مخصوص کر لیا ہے ہاں معتزلہ کہتے ہیں دنیا اور آخرت میں کہیں بھی اللہ کا دیدار نہ ہو گا ۔ اس میں انہوں نے اہلسنت کی مخالفت کے علاوہ کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی نادانی برتی ، کتاب اللہ میں موجود ہے: وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ کئی چہرے اس دن ترو تازہ ہوں گے، اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہونگے۔ (۷۵:۲۲،۲۳) اور فرمان ہے: كَلَّا إِنَّهُمْ عَن رَّبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُونَ ہرگز نہیں یہ لوگ اس دن اپنے رب سے اوٹ میں رکھے جائیں گے (۸۳:۱۵) یعنی کفار قیامت والے دن اپنے رب کے دیدار سے محروم ہوں گے ۔ امام شافعی فرماتے ہیں اس سے صاف ظاہر ہے کہ مؤمنوں کے لیے اللہ تعالیٰ کا حجاب نہیں ہو گا متواتر احادیث سے بھی یہی ثابت ہے ۔ حضرت ابو سعید ابوہریرہ انس جریج صہیب بلال وغیرہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : مؤمن اللہ تبارک و تعالیٰ کو قیامت کے میدانوں میں جنت کے باغوں میں دیکھیں گے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے ہمیں بھی انہیں میں سے کرے آمین! یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسے آنکھیں نہیں دیکھ پاتیں یعنی عقلیں ، لیکن یہ قول بہت دور کا ہے اور ظاہر کے خلاف ہے اور گویا کہ ادراک کو اس نے رؤیت کے معنی میں سمجھا ، واللہ اعلم، اور حضرات دیدار کے دیکھنے کو ثابت شدہ مانتے ہوئے لیکن ادراک کے انکار کے بھی مخالف نہیں اس لئے کہ ادراک رؤیت سے خاص ہے اور خاص کی نفی عام کی نفی کو لازم نہیں ہوتی ۔ اب جس ادراک کی یہاں نفی کی گئی ہے یہ ادراک کیا ہے اور کس قسم کا ہے اس میں کئی قول ہیں مثلاً معرفت حقیقت پس حقیقت کا عالم بجز اللہ کے اور کوئی نہیں گو مؤمن دیدار کریں گے لیکن حقیقت اور چیز ہے چاند کو لوگ دیکھتے ہیں لیکن اس کی حقیقت اس کی ذات اس کی ساخت تک کس کی رسائی ہوتی ہے ؟ پس اللہ تعالیٰ تو بےمثل ہے ابن علیؓ فرماتے ہیں نہ دیکھنا دنیا کی آنکھوں کے ساتھ مخصوص ہے ، بعض کہتے ہیں ادراک خاص ہے رؤیت سے کیونکہ ادراک کہتے ہیں احاطہ کر لینے کو اور عدم احاطہ سے عدم رؤیت لازم نہیں آتی جیسے علم کا احاطہ نہ ہونے سے مطلق علم کا نہ ہونا ثابت نہیں ہوتا ۔ احاطہ علم کا نہ ہونا اس آیت سے ثابت ہے کہ آیت وَلَا يُحِيطُونَ بِهِ عِلْمًا (۲۰:۱۱۰) صحیح مسلم میں ہے : اے اللہ میں تیری ثناء کا احاطہ نہیں کر سکتا لیکن ظاہر ہے کہ اس سے مراد مطلق ثنا ءکا نہ کرنا نہیں ، ابن عباسؓؓ کا قول ہے کہ کسی کی نگاہ مالک الملک کو گھیر نہیں سکتی ۔ حضرت عکرمہ سے کہا گیا کہ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ تو آپ نے فرمایا کیا تو آسمان کو نہیں دیکھ رہا؟ اس نے کہا ہاں فرمایا پھر سب دیکھ چکا ہے ؟ قتادہ فرماتے ہیں اللہ اس سے بہت بڑا ہے کہ اسے آنکھیں ادراک کر لیں ۔ چنانچہ ابن جریر میں آیت وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ (۷۵:۲۲) کی تفسیر میں ہے کہ اللہ کی طرف دیکھیں گے ان کی نگاہیں اس کی عظمت کے باعث احاطہ نہ کر سکیں گی اور اس کی نگاہ ان سب کو گھیرے ہوئے ہو گی ۔ اس آیت کی تفسیر میں ایک مرفوع حدیث میں ہے: اگر انسان جن شیطان فرشتے سب کے سب ایک صف باندھ لیں اور شروع سے لے کر آخر تک کے سب موجود ہوں تاہم نا ممکن ہے کہ کبھی بھی وہ اللہ کا احاطہ کر سکیں ۔ یہ حدیث غریب ہے اس کی اس کے سوا کوئی سند نہیں نہ صحاح ستہ والوں میں سے کسی نے اس حدیث کو روایت کیا ہے ۔ واللہ اعلم حضرت عکرمہ فرماتے ہیں : میں نے حضرت ابن عباسؓؓ سے سنا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تبارک و تعالیٰ کو دیکھا تو میں نے کہا کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ اللہ کو آنکھیں نہیں پا سکتیں اور وہ تمام نگاہوں کو گھیر لیتا ہے ، تو آپ نے مجھے فرمایا یہ اللہ کا نور ہے اور وہ جو اس کا ذاتی نور ہے جب وہ اپنی تجلی کرے تو اس کا ادراک کوئی نہیں کر سکتا اور روایت میں ہے اس کے بالمقابل کوئی چیز نہیں ٹھہر سکتی ، اسی جواب کے مترادف معنی وہ حدیث ہے جو بخاری مسلم میں ہے: اللہ تعالیٰ سوتا نہیں نہ اسے سونا لائق ہے وہ ترازو کو جھکاتا ہے اور اٹھاتا ہے اس کی طرف دن کے عمل رات سے پہلے اور رات کے عمل دن سے پہلے چڑھ جاتے ہیں اس کا حجاب نور ہے یا نار ہے اگر وہ ہٹ جائے تو اس کے چہرے کی تجلیاں ہر اس چیز کو جلا دیں جو اس کی نگاہوں تلے ہے ۔ اگلی کتابوں میں ہے کہ حضرت موسیٰ کلیم اللہ نے اللہ تعالیٰ سے دیدار دیکھنے کی خواہش کی تو جواب ملا کہ اے موسیٰ جو زندہ مجھے دیکھے گا وہ مر جائے گا اور جو خشک مجھے دیکھ لے گا وہ ریزہ ریزہ ہو جائے گا، خود قرآن میں ہے: فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا ... وَأَنَاْ أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ پس جب انکے رب نے پہاڑ پر تجلی فرمائی تو تجلی نے اس کے پرخچے اڑا دیئے اور موسیٰ ؑ بےہوش ہو کر گر پڑے پھر جب ہوش میں آئے تو عرض کیا، بیشک آپ کی ذات پاک ہے میں آپ کی جناب میں توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلے آپ پر ایمان لانے والا ہوں (۷:۱۴۳) یاد رہے کہ اس خاص ادراک کے انکار سے قیامت کے دن مؤمنوں کے اپنے رب کے دیکھنے سے انکار نہیں ہو سکتا ۔ اس کی کیفیت کا علم اسی کو ہے ۔ ہاں بیشک اس کی حقیقی عظمت جلالت قدرت بزرگی وغیرہ جیسی ہے وہ بھلا کہاں کسی کی سمجھ میں آ سکتی ہے ؟ حضرت عائشہ ؓفرماتی ہیں آخرت میں دیدار ہو گا اور دنیا میں کوئی بھی اللہ کو نہیں دیکھ سکتا اور یہی آیت تلاوت فرمائی ۔ پس جس ادراک کی نفی کی ہے وہ معنی میں عظمت و جلال کی رؤیت کے ہے جیسا کہ وہ ہے ۔ یہ تو انسان کیا فرشتوں کے لئے بھی نا ممکن ہے ہاں وہ سب کو گھیرے ہوئے ہے جب وہ خالق ہے تو عالم کیوں نہ ہو گا جیسے فرمان ہے : أَلاَ يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ کیا وہی نہ جانے جس نے پیدا کیا پھر وہ باریک بین اور باخبر ہو۔ (۶۷:۱۴) اور ہو سکتا ہے کہ نگاہ سے مراد نگاہ والا ہو یعنی اسے کوئی نہیں دیکھ سکتا اور وہ سب کو دیکھتا ہے وہ ہر ایک کو نکالنے میں لطیف ہے اور ان کی جگہ سے خبیر ہے واللہ اعلم جیسے کہ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو وعظ کہتے ہوئے فرمایا تھا: يبُنَىَّ إِنَّهَآ إِن تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ ... إِنَّ اللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ پیارے بیٹے! اگر کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر ہو پھر وہ (بھی)خواہ کسی چٹان میں ہو یا آسمانوں میں ہو یا زمین میں ہو اسے اللہ تعالیٰ ضرور لائے گااللہ تعالیٰ بڑا باریک بین اور خبردار ہے۔ (۳۱:۱۶) قَدْ جَاءَكُمْ بَصَائِرُ مِنْ رَبِّكُمْ ۖ فَمَنْ أَبْصَرَ فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ عَمِيَ فَعَلَيْهَا ۚ اب بلاشبہ تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے حق بینی کے ذرائع پہنچ چکے ہیں سو جو شخص دیکھ لے گا وہ اپنا فائدہ کرے گ ا اور جو شخص اندھا رہے گا وہ اپنا نقصان کرے گا بصائر سے مراد دلیلیں اور حجتیں ہیں جو قرآن و حدیث میں موجود ہیں جو انہیں دیکھے اور ان سے نفع حاصل کرے وہ اپنا ہی بھلا کرتا ہے جیسے فرمان ہے: فَمَنُ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِى لِنَفْسِهِ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا اس لئے جو شخص راہ راست پر آجائے سو وہ اپنے واسطے راہ راست پر آئے گا اور جو شخص بےراہ رہے گا تو اسکا بےراہ ہونا اسی پر پڑے گا (۱۰:۱۰۸) یہاں بھی فرمایا اندھا اپنا ہی نقصان کرتا ہے کیونکہ آخر گمراہی کا اسی پر اثر پڑتا ہے جیسے ارشاد ہے: فَإِنَّهَا لاَ تَعْمَى الاٌّبْصَـرُ وَلَـكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِى فِى الصُّدُورِ بات یہ ہے کہ صرف آنکھیں ہی اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں ۔ (۲۲:۴۶) وَمَا أَنَا عَلَيْكُمْ بِحَفِيظٍ اور میں تمہارا نگران نہیں ہوں (۱۰۴) میں تم پر نگہبان حافظ چوکیدار نہیں بلکہ میں تو صرف مبلغ ہوں ہدایت اللہ کے ہاتھ ہے ، وَكَذَلِكَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ وَلِيَقُولُوا دَرَسْتَ وَلِنُبَيِّنَهُ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ اور ہم اس طور پر دلائل کو مختلف پہلوؤں سے بیان کرتے ہیں تاکہ یوں کہیں کہ آپ نے کسی سے پڑھ لیا ہے اور تاکہ ہم کو دانشمندوں کے لئے خوب ظاہر کر دیں۔ (۱۰۵) جس طرح توحید کے دلائل واضح فرمائے اسی طرح اپنی آیتوں کو کھول کھول کر تفسیر اور وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا تاکہ کوئی جاہل نہ رہ جائے اور مشرکین مکذبین اور کافرین یہ نہ کہہ دیں کہ تو نے اے نبی اہل کتاب سے یہ درس لیا ہے ان سے پڑھا ہے انہی نے تجھے سکھایا ہے ۔ ابن عباسؓؓ سے یہ معنی بھی مروی ہیں کہ تو نے پڑھ سنایا تو نے جھگڑا کیا تو یہ اسی آیت کی طرح آیت ہو گی جہاں بیان ہے: وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُواْ إِنْ هَـذَا ... تُمْلَى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلاً اور کافروں نے کہا یہ تو بس خود اسی کا گھڑا گھڑایا جھوٹ ہے جس پر اور لوگوں نے بھی اس کی مدد کی ہے، دراصل یہ کافر بڑے ہی ظلم اور سرتاسر جھوٹ کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اور یہ بھی کہا کہ یہ تو اگلوں کے افسانے ہیں جو اس نے لکھا رکھے ہیں بس وہی صبح و شام اس کے سامنے پڑھے جاتے ہیں۔ (۲۵:۴،۵) اور آیتوں میں ان کے بڑے کا قول ہے: إِنَّهُ فَكَّرَ وَقَدَّرَ ـ فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ ... إِنْ هَـذَآ إِلاَّ قَوْلُ الْبَشَرِ اس نے غور کرکے تجویز کی اسے ہلاکت ہو کیسی (تجویز) سوچی؟ وہ پھر غارت ہو کس طرح اندازہ کیا ۔ اس نے پھر دیکھا پھر تیوری چڑھائی اور منہ بنایا پھر پیچھے ہٹ گیا اور غرور کیا اور کہنے لگا یہ تو صرف جادو ہے جو نقل کیا جاتا ہے سوائے انسانی کلام کے کچھ بھی نہیں (۷۴:۱۸،۲۵) رب کی مصلحت وہی جانتا ہے کہ جو ایک گروہ کو ہدایت اور دوسرے کو ضلالت عطا کرتا ہے ، جیسے فرمایا : يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا اس کے ذریعے بیشتر کو گمراہ کرتا ہے اور اکثر لوگوں کو راہ راست پر لاتا ہے۔ (۲:۲۶) اور آیت میں ہے: لِّيَجْعَلَ مَا يُلْقِى الشَّيْطَـنُ فِتْنَةً لِّلَّذِينَ فِى قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَالْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ اور اس لئے بھی کہ جنہیں علم عطا فرمایا گیا ہے وہ یقین کرلیں کہ یہ آپ کے رب ہی کی طرف سے سراسر حق ہی ہے پھر اس پر ایمان لائیں اور ان کے دل اس کی طرف جھک جائیں (۲۲:۵۳) وَإِنَّ اللَّهَ لَهَادِ الَّذِينَ ءَامَنُواْ إِلَى صِرَطٍ مُّسْتَقِيمٍ یقیناً اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو راہ راست پر رہبری کرنے والا ہے۔ (۲۲:۵۴) ... وہ شیطان کے القا کو بیمار دلوں کیلئے سبب فتنہ کر دے اور فرمایا : وَمَا جَعَلْنَآ أَصْحَـبَ النَّارِ ... وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلاَّ هُوَ ہم نے دوزخ کے داروغے صرف فرشتے رکھے ہیں اور ہم نے ان کی تعداد صرف کافروں کی آزمائش کے لئے مقرر کی ہے تاکہ اہل کتاب یقین کرلیں اور ایماندار ایمان میں اور بڑھ جائیں اور اہل کتاب اور مسلمان شک نہ کریں اور جن کے دلوں میں بیماری ہے اور وہ کافر کہیں کہ اس بیان سے اللہ تعالیٰ کی کیا مراد ہے؟ اس طرح اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا (۷۴:۳۱) اور آیت میں ہے: وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْءَانِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ وَلاَ يَزِيدُ الظَّـلِمِينَ إَلاَّ خَسَارًا یہ قرآن جو ہم نازل کر رہے ہیں مؤمنوں کیلئے تو سراسر شفا اور رحمت ہے۔ ہاں ظالموں کو بجز نقصان کے اور کوئی زیادتی نہیں ہوتی (۱۷:۸۲) اور آیت میں ہے: قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ ءَامَنُواْ هُدًى وَشِفَآءٌ وَالَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ فِى ءَاذَانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى أُوْلَـئِكَ يُنَادَوْنَ مِن مَّكَانٍ بَعِيدٍ آپ کہہ دیجئے! کہ یہ تو ایمان والوں کے لئے ہدایت و شفا ہے اور جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں تو (بہرہ پن اور) بوجھ ہے اور یہ ان پر اندھا پن ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو کسی بہت دور دراز جگہ سے پکارے جا رہے ہیں (۴۱:۴۴) اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیتیں ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن سے لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں اور گمراہ بھی ہوتے ہیں ۔ دَرَسْتَ کی دوسری قرأت دَرَسَتَ بھی ہے یعنی پڑھا اور سیکھا اور یہ معنی ہیں کہ اسے تو مدت گزر چکی یہ تو تو پہلے سے لایا ہوا ہے ، یہ تو تو پڑھایا گیا ہے اور سکھایا گیا ہے ۔ ایک قرأت میں درس بھی ہے لیکن یہ غریب ہے ابی بن کعب فرماتے ہیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دَرَسْتَ پڑھایا ہے ۔ اتَّبِعْ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ ۖ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ ۖ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ آپ خود اس طریقہ پر چلتے رہئے جس کی وحی آپ کے رب تعالیٰ کی طرف سے آپ کے پاس آئی ہے، اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں اور مشرکین کی طرف خیال نہ کیجئے۔ (۱۰۶) حضور ﷺ کو اور آپ کی اُمت کو حکم ہو رہا ہے کہ وحی الہٰی کی اتباع اور اسی کے مطابق عمل کرو جو وحی اللہ کی جانب سے اترتی ہے وہ سراسر حق ہے اس کے حق ہونے میں ذرا سا بھی شبہ نہیں ۔ معبود برحق صرف وہی ہے ، مشرکین سے درگزر کر، ان کی ایذاء دہی پر صبر کر، ان کی بد زبانی برداشت کر لے، ان کی بد زبانی سن لے ، یقین مان کر تیری فتح کا تیرے غلبہ کا تیری طاقت و قوت کا وقت دور نہیں ۔ اللہ کی مصلحتوں کو کوئی نہیں جانتا دیر گو ہو لیکن اندھیرا نہیں ۔ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا أَشْرَكُوا ۗ وَمَا جَعَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا ۖ وَمَا أَنْتَ عَلَيْهِمْ بِوَكِيلٍ اگر اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا تو یہ شرک نہ کرتے اور ہم نے آپ کو ان کا نگران نہیں بنایا۔ اور نہ آپ ان پر مختار ہیں ۔ (۱۰۷) اگر اللہ چاہتا تو سب کو ہدایت دیتا اس کی مشیت اس کی حکمت وہی جانتا ہے نہ کوئی اس سے باز پرس کر سکے نہ اس کا ہاتھ تھام سکے وہ سب کا حاکم اور سب سے سوال کرنے پر قادر ہے تو اس کے اقوال و اعمال کا محافظ نہیں تو ان کے رزق وغیرہ امور کا وکیل نہیں تیرے ذمہ صرف اللہ کے حکم کو پہنچا دینا ہے جیسے فرمایا : فَذَكِّرْ إِنَّمَآ أَنتَ مُذَكِّرٌ ـ َّسْتَ عَلَيْهِم بِمُسَيْطِرٍ پس آپ نصیحت کر دیا کریں (کیونکہ) آپ صرف نصیحت کرنے والے ہیں آپ کچھ ان پر دروغہ نہیں ہیں۔ (۸۸:۲۱،۲۲) اور فرمایا : فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَـغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ تو آپ پر تو صرف پہنچا دینا ہی ہے۔ حساب تو ہمارے ہی ذمہ ہی ہے۔ (۱۳:۴۰) وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ اور گالی مت دو ان کو جنکی یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں کیونکہ پھر وہ جاہلانہ ضد سے گزر کر اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کرینگے اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو اور آپ کے ماننے والوں کو مشرکین کے معبودوں کو گالیاں دینے سے منع فرماتا ہے گو کہ اس میں کچھ مصلحت بھی ہو لیکن اس میں مفسدہ بھی ہے اور وہ بہت بڑا ہے یعنی ایسا نہ ہو کہ مشرک اپنی نادانی سے اللہ کو گالیاں دینے لگ جائیں ایک روایت میں ہے کہ مشرکین نے ایسا ارادہ ظاہر کیا تھا اس پر یہ آیت اتری، قتادہ کا قول ہے کہ ایسا ہوا تھا اس لئے یہ آیت اتری اور ممانعت کر دی گئی ۔ ابن ابی حاتم میں سدی سے مروی ہے: ابو طالب کی موت کی بیماری کے وقت قریشیوں نے آپس میں کہا کہ چلو چل کر ابو طالب سے کہیں کہ وہ اپنے بھتیجے (حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کو روک دیں ورنہ یہ یقینی بات ہے کہ اب ہم اسے مار ڈالیں گے تو ممکن ہے کہ عرب کی طرف سے آواز اٹھے کہ چچا کی موجودگی میں تو قریشیوں کو چلی نہیں اس کی موت کے بعد مار ڈالا ۔ یہ مشورہ کر کے ابوجہل ابوسفیان نضیر بن حارث امیہ بن ابی خلف عقبہ بن ابو محیط عمرو بن عاص اور اسود بن بختری چلے ۔ مطلب نامی ایک شخص کو ابو طالب کے پاس بھیجا کہ وہ ان کے آنے کی خبر دیں اور اجازت لیں ۔ اس نے جا کر کہا کہ آپ کی قوم کے سردار آپ سے ملنا چاہتے ہیں ابو طالب نے کہا بلا لو یہ لوگ گئے اور کہنے لگے آپ کو ہم اپنا بڑا اور سردار مانتے ہیں آپ کو معلوم ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ہمیں ستار کھا ہے وہ ہمارے معبودوں کو برا کہتا ہے ، ہم چاہتے ہیں کہ آپ بلا کر منع کر دیجئے ہم بھی اس سے رک جائیں گے ، ابو طالب نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا آپ تشریف لائے ابو طالب نے کہا آپ دیکھتے ہیں آپ کی قوم کے بڑے یہاں جمع ہیں یہ سب آپ کے کنبے قبیلے اور رشتے کے ہیں یہ چاہتے ہیں کہ آپ انہیں اور ان کے معبودوں کو چھوڑ دیں یہ بھی آپ کو اور آپ کے اللہ کو چھوڑ دیں گے ۔ آپ ﷺنے فرمایا خیر ایک بات میں کہتا ہوں یہ سب لوگ سوچ سمجھ کر اس کا جواب دیں ۔ میں ان سے صرف ایک کلمہ طلب کرتا ہوں اور وعدہ کرتا ہوں کہ اگر یہ میری ایک بات مان لیں تو تمام عرب ان کا ماتحت ہو جائے تمام عجم ان کی مملکت میں آ جائے بڑی بڑی سلطنتیں انہیں خراج ادا کریں ، یہ سن کر ابوجہل نے کہا قسم ہے ایک ہی نہیں ایسی دس باتیں بھی اگر آپ کی ہوں تو ہم ماننے کو موجود ہیں فرمائیے وہ کلمہ کیا ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا بس لا الہ الا اللہ کہہ دو ۔ اس پر ان سب نے انکار کیا اور ناک بھوں چڑھائی ۔ یہ بات دیکھ کر ابو طالب نے کہا پیارے بھتیجے اور کوئی بات کہو دیکھو تمہاری قوم کے سرداروں کو تمہاری یہ بات پسند نہیں آئی آپ ﷺنے فرمایا چچا جان آپ مجھے کیا سمجھتے ہیں اللہ کی قسم مجھے اسی ایک کلمہ کی دھن ہے اگر یہ لوگ سورج کو لا کر میرے ہاتھ میں رکھ دیں جب بھی میں کوئی اور کلمہ نہیں کہوں گا یہ سن کر وہ لوگ اور بگڑے اور کہنے لگے بس ہم کہہ دیتے ہیں کہ یا تو آپ ہمارے معبودوں کو گالیاں دینے سے رک جائیں ورنہ پھر ہم بھی آپ کو اور آپ کے معبود کو گالیاں دیں گے اس پر رب العالمین نے یہ آیت اتاری ، اسی مصلحت کو مد نظر رکھ کر رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ ملعون ہے جو اپنے ماں باپ کو گالیاں دے ۔ صحابہؓ نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کوئی شخص اپنے ماں باپ کو گالی کیسے دے گا؟ آپ ﷺنے فرمایا اس طرح کہ یہ دوسرے کے باپ کو گالی دے دوسرا اس کے باپ کو ، یہ کسی کی ماں کو گالی دے وہ اس کی ماں کو، كَذَلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ہم نے اسی طرح ہر طریقہ والوں کو انکا عمل مرغوب بنا رکھا ہے پھر فرماتا ہے اسی طرح اگلی اُمتیں بھی اپنی گمراہی کو اپنے حق میں ہدایت سمجھتی رہیں ۔ یہ بھی رب کی حکمت ہے ثُمَّ إِلَى رَبِّهِمْ مَرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ پھر اپنے رب ہی کے پاس ان کو جانا ہے سو وہ ان کو بتلا دیگا جو کچھ بھی کیا کرتے تھے (۱۰۸) یاد رہے کہ سب کا لوٹنا اللہ ہی کی طرف ہے وہ انہیں انکے سب برے بھلے اعمال کا بدلہ دے گا اور ضرور دے گا ۔ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِنْ جَاءَتْهُمْ آيَةٌ لَيُؤْمِنُنَّ بِهَا ۚ اور ان لوگوں نے قسموں میں بڑا زور لگا کر اللہ تعالیٰ کی قسم کھائی اگر انکے پاس کوئی نشانی آجائے تو وہ ضرور ہی اس پر ایمان لے آئینگے صرف مسلمانوں کو دھوکا دینے کیلئے اور اس لئے بھی کہ خود مسلمان شک شبہ میں پڑ جائیں کافر لوگ قسمیں کھا کھا کر بڑے زور سے کہتے تھے کہ ہمارے طلب کردہ معجزے ہمیں دکھا دیئے جائیں تو واللہ ہم بھی مسلمان ہو جائیں قُلْ إِنَّمَا الْآيَاتُ عِنْدَ اللَّهِ ۖ وَمَا يُشْعِرُكُمْ أَنَّهَا إِذَا جَاءَتْ لَا يُؤْمِنُونَ آپ کہہ دیجئے کہ نشانیاں سب اللہ کے قبضہ میں ہیں اور تم کو اسکی کیا خبر وہ نشانیاں جس وقت آجائیں گی یہ لوگ تب بھی ایمان نہ لائیں گے (۱۰۹) اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو ہدایت فرماتا ہے کہ آپ کہہ دیں کہ معجزے میرے قبضے میں نہیں یہ اللہ کے ہاتھ میں ہیں وہ چاہے دکھائے چاہے نہ دکھائے ابن جریر میں ہے: مشرکین نے حضور ﷺسے کہا کہ آپ فرماتے ہیں حضرت موسیٰ ایک پتھر پر لکڑی مارتے تھے تو اس سے بارہ چشمے نکلے تھے اور حضرت عیسیٰ مردوں میں جان ڈال دیتے تھے اور حضرت ثمود نے اونٹنی کا معجزہ دکھایا تھا تو آپ بھی جو معجزہ ہم کہیں دکھا دیں واللہ ہم سب آپ کی نبوت کو مان لیں گے، آپﷺ نے فرمایا کیا معجزہ دیکھنا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ آپ صفا پہاڑ کو ہمارے لئے سونے کا بنا دیں پھر تو قسم اللہ کی ہم سب آپ کو سچا جاننے لگیں گے ۔ آپ ﷺ کو ان کے اس کلام سے کچھ امید بندھ گئی اور آپ نے کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنی شروع کی وہیں حضرت جبرائیل آئے اور فرمانے لگے سنئے اگر آپ چاہیں تو اللہ بھی اس صفا پہار کو سونے کا کر دے گا لیکن اگر یہ ایمان نہ لائے تو اللہ کا عذاب ان سب کو فنا کر دے گا ورنہ اللہ تعالیٰ اپنے عذابوں کو روکے ہوئے ہے ممکن ہے ان میں نیک سمجھ والے بھی ہوں اور وہ ہدایت پر آ جائیں ، آپ ﷺنے فرمایا نہیں اللہ تعالیٰ میں صفا کا سونا نہیں چاہتا بلکہ میں چاہتا ہوں کہ تو ان پر مہربانی فرما کر انہیں عذاب نہ کر اور ان میں سے جسے چاہے ہدایت نصیب فرما ۔ اسی پر یہ آیتیں وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُونَ (۱۱۱) تک نازل ہوئیں یہ حدیث گو مرسل ہے لیکن اس کے شاہد بہت ہیں چنانچہ قرآن کریم میں اور جگہ ہے: وَمَا مَنَعَنَا أَن نُّرْسِلَ بِالْآيَاتِ إِلَّا أَن كَذَّبَ بِهَا الْأَوَّلُونَ معجزوں کے اتارنے سے صرف یہ چیز مانع ہے کہ ان سے اگلوں نے بھی انہیں جھٹلا یا۔ (۱۷:۵۹) أَنَّهَا کی دوسری قرأت اِنَّهَا بھی ہے اور لَا يُؤْمِنُونَ کی دوسری قرأت لَا تُؤْمِنُونَ ہے اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ اے مشرکین کیا خبر ممکن ہے خود تمہارے طلب کردہ معجزوں کے آ جانے کے بعد بھی تمہیں ایمان لانا نصیب نہ ہو اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس آیت میں خطاب مؤمنوں سے ہے یعنی اے مسلمانو تم نہیں جانتے یہ لوگ ان نشانیوں کے ظاہر ہو چکنے پر بھی بے ایمان ہی رہیں گے ۔ اس صورت میں أَنَّهَا الف کے زیر کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے اور الف کے زبر کے ساتھ بھی يُشْعِرُكُمْ کا معمول ہو کر اور لَا يُؤْمِنُونَ کا لام اس صورت میں صلہ ہو گا جیسے آیت أَلاَّ تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ (۷:۱۲) میں ۔ اور آیت وَحَرَامٌ عَلَى قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَـهَآ أَنَّهُمْ لاَ يَرْجِعُونَ (۲۱:۹۵) میں تو مطلب یہ ہوتا کہ اے مؤمنو تمہارے پاس اس کا کیا ثبوت ہے کہ یہ اپنی من مانی اور منہ مانگی نشانی دیکھ کر ایمان لائیں گے بھی؟ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ أَنَّهَا معنی میں لعلھا کے ہے بلکہ حضرت ابی بن کعب کی قرأت میں أَنَّهَا کے بدلے لعلھا ہی ہے ، عرب کے محاورے میں اور شعروں میں بھی یہی پایا گیا ہے ، امام ابن جرید ؒ اسی کو پسند فرماتے ہیں اور اس کے بہت سے شواہد بھی انہوں نے پیش کئے ہیں ، واللہ اعلم وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوا بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَنَذَرُهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ اور ہم بھی ان کے دلوں کو اور ان کی نگاہوں کو پھیر دیں گے جیسا کہ یہ لوگ اس پر پہلی دفعہ ایمان نہیں لائے اور ہم ان کی سرکشی میں حیران رہنے دیں گے۔ (۱۱۰) پھر فرماتا ہے کہ انکے انکار اور کفر کی وجہ سے ان کے دل اور ان کی نگاہیں ہم نے پھیر دی ہیں ، اب یہ کسی بات پر ایمان لانے والے ہی نہیں ۔ ایمان اور ان کے درمیان دیوار حائل ہو چکی ہے ، روئے زمین کے نشانات دیکھ لیں گے تو بھی بے ایمان ہی رہیں گے اگر ایمان قسمت میں ہوتا تو حق کی آواز پر پہلے ہی لبیک پکار اٹھتے ۔ اللہ تعالیٰ ان کی بات سے پہلے یہ جانتا تھا کہ یہ کیا کہیں گے؟ اور ان کے عمل سے پہلے جانتا تھا کہ یہ کیا کریں گے ؟اسی لئے اس نے بتلا دیا کہ ایسا ہو گا فرماتا ہے: وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ آپ کو کوئی بھی حق تعالیٰ جیسا خبردار خبریں نہ دے گا ۔ (۳۵:۱۴) یعنی اللہ تعالیٰ جو کامل خبر رکھنے والا ہے اور اس جیسی خبر اور کون دے سکتا ہے؟ اس نے فرمایا کہ یہ لوگ قیامت کے روز حسرت و افسوس کے ساتھ آرزو کریں گے کہ اگر اب لوٹ کر دنیا کی طرف جائیں تو نیک اور بھلے بن کر رہیں ۔ لیکن اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے اگر بالفرض یہ لوٹا بھی دیئے جائیں تو بھی یہ ایسے کے ایسے ہی رہیں گے اور جن کاموں سے روکے گئے ہیں انہی کو کریں گے، ہرگز نہ چھوڑیں گے ، أَن تَقُولَ نَفۡسٌ۬ يَـٰحَسۡرَتَىٰ عَلَىٰ مَا فَرَّطتُ فِى جَنۢبِ ٱللَّهِ ... فَأَكُونَ مِنَ ٱلۡمُحۡسِنِينَ (ایسا نہ ہو کہ) کوئی شخص کہے ہائے افسوس، اس بات پر کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے حق میں کوتاہی کی بلکہ میں تو مذاق اڑانے والوں میں رہا۔ یا کہے کہ اگر اللہ مجھے ہدایت کرتا تو میں بھی پارسا لوگوں میں ہوتا یا عذاب کو دیکھ کر کہے کاش! کہ کسی طرح میرا لوٹ جانا ہو جاتا تو میں بھی نیکوکاروں میں ہو جاتا۔ (۳۹:۵۶،۵۸) یہاں بھی فرمایا کہ معجزوں کا دیکھنا بھی انکے لئے مفید نہ ہو گا ان کی نگاہیں حق کو دیکھنے والی ہی نہیں رہیں انکے دل میں حق کیلئے کوئی جگہ خالی ہی نہیں ۔ پہلی بار ہی انہیں ایمان نصیب نہیں ہوا اسی طرح نشانوں کے ظاہر ہونے کے بعد بھی ایمان سے محروم رہیں گے ۔ بلکہ اپنی سرکشی اور گمراہی میں ہی بہکتے اور بھٹکتے حیران و سرگرداں رہیں گے اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو اپنے دین پر ثابت رکھے ۔ آمین ۔ وَلَوْ أَنَّنَا نَزَّلْنَا إِلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةَ وَكَلَّمَهُمُ الْمَوْتَى وَحَشَرْنَا عَلَيْهِمْ كُلَّ شَيْءٍ قُبُلًا مَا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا اور اگر ہم ان کے پاس فرشتوں کو بھی بھیج دیتے اور ان سے مردے باتیں کرنے لگتے اور ہم تمام موجودات کو ان کے پاس ان کی آنکھوں کے روبرو لا کر جمع کر دیتے ہیں تب بھی یہ لوگ ہرگز ایمان نہ لاتے إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ ہاں اگر اللہ ہی چاہے تو اور بات ہے فرماتا ہے کہ یہ کفار جو قسمیں کھا کھا کر تم سے کہتے ہیں کہ اگر کوئی معجزہ وہ دیکھ لیتے تو ضرور ایمان لے آتے ۔ یہ غلط کہتے ہیں تمہیں ان کے ایمان لانے سے مایوس ہو جانا چاہیے ۔ یہ کہتے ہیں کہ اگر فرشتے اتر تے تو ہم مان لیتے لیکن یہ بھی جھوٹ ہے فرشتوں کے آ جانے پر بھی اور ان کے کہہ دینے پر بھی کہ یہ رسول برحق ہیں انہیں ایمان نصیب نہیں ہو گا ، یہ صرف ایمان نہ لانے کے بہانے تراشتے ہیں کہ کبھی کہہ دیتے ہیں اللہ کو لے آ ۔ کبھی کہتے ہیں فرشتوں کو لے آ۔ کبھی کہتے ہیں اگلے نبیوں جیسے معجزے لے آ ، یہ سب حجت بازی اور حیلے حوالے ہیں ، دلوں میں تکبر بھرا ہوا ہے زبان سے سرکشی اور برائی ظاہر کرتے ہیں، اگر مردے بھی قبروں سے اٹھ کر آ جائیں اور کہہ دیں کہ یہ رسول برحق ہیں ان کے دلوں پر اس کا بھی کوئی اثر نہیں ہو گا إِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ ـ وَلَوْ جَآءَتْهُمْ كُلُّ ءايَةٍ حَتَّى يَرَوُاْ الْعَذَابَ الاٌّلِيمَ جن پر تیرے رب کی بات ثابت ہوگئی ہے وہ ایمان نہیں لائیں گے، اگرچہ ان کے پاس ہر قسم کی نشانی آجائے یہاں تک کہ کہ وہ دردناک عذاب دیکھ لیں۔ (۱۰:۹۶،۹۷) وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُونَ لیکن ان میں زیادہ لوگ جہالت کی باتیں کرتے ہیں۔ (۱۱۱) قُبُلًا کی دوسری قرأت قبلاً ہے جس کے معنی مقابلے اور معائنہ کے ہوتے ہیں ایک قول میں قبلاً کے معنی بھی یہی بیان کئے گئے ہیں ہاں مجاہد سے مروی ہے کہ اس کے معنی گروہ گروہ کے ہیں ان کے سامنے اگر ایک اُمت آ جاتی اور رسولوں کی ہدایت دے دے وہ جو کرنا چاہے کوئی اس سے پوچھ نہیں سکتا اور وہ چونکہ حاکم کل ہے ہر ایک سے باز پرس کر سکتا ہے وہ علیم و حکیم ہے ، حاکم و غالب و قہار ہے اور آیت میں ہے: إِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ ـ وَلَوْ جَآءَتْهُمْ كُلُّ ءايَةٍ حَتَّى يَرَوُاْ الْعَذَابَ الاٌّلِيمَ جن لوگوں کے ذمہ کلمہ عذاب ثابت ہو گیا ہے وہ تمام تر نشانیاں دیکھتے ہوئے بھی ایمان نہ لائیں گے جب تک کہ المناک عذاب نہ دیکھ لیں ۔ (۱۰:۹۶،۹۷) وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا ۚ اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن بہت سے شیطان پیدا کئے تھے کچھ آدمی اور کچھ جن جن میں سے بعض بعضوں کو چکنی چپڑی باتوں کا وسوسہ ڈالتے رہتے تھے تاکہ ان کو دھوکا میں ڈال دیں ارشاد ہوتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ تنگ دل اور مغموم نہ ہوں جس طرح آپ کے زمانے کے یہ کفار آپ کی دشمنی کرتے ہیں اسی طرح ہر نبی کے زمانے کے کفار اپنے اپنے نبیوں کے ساتھ دشمنی کرتے رہے ہیں جیسے اور آیت میں تسلی دیتے ہوئے فرمایا: وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّن قَبْلِكَ فَصَبَرُواْ عَلَى مَا كُذِّبُواْ وَأُوذُواْ اور بہت سے پیغمبر جو آپ سے پہلے ہوئے ہیں ان کی بھی تکذیب کی جاچکی ہے سو انہوں نے اس پر صبر ہی کیا، ان کی تکذیب کی گئی اور ان کو ایذائیں پہنچائی گئیں (۶:۳۴) اور آیت میں کہا گیا ہے : مَّا يُقَالُ لَكَ إِلاَّ مَا قَدْ قِيلَ لِلرُّسُلِ مِن قَبْلِكَ إِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةَ وَذُو عِقَابٍ أَلِيمٍ تجھ سے بھی وہی کہا جاتا ہے جو تجھ سے پہلے کے نبیوں کو کہا گیا تھا تیرا رب بڑی مغفرت والا ہے اور سات ہی المناک عذاب کرنے والا بھی ہے (۴۱:۴۳) اور آیت میں ہے: وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِىٍّ عَدُوّاً مِّنَ الْمُجْرِمِينَ ہم نے گنہگاروں کو ہر نبی کا دشمن بنا دیا ہے (۲۵:۳۱) یہی بات ورقہ بن نوفل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہی تھی کہ آپ جیسی چیز جو رسول بھی لے کر آیا اس سے عداوت کی گئی نبیوں کے دشمن شریر انسان بھی ہوتے ہیں اور جنات بھی عَدُوًّا سے بدل شیاطین الانس والجن ہے ، انسانوں میں بھی شیطان ہیں اور جنوں میں بھی، حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ ایک دن نماز پڑھ رہے تھے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کیا تم نے شیاطین انس و جن سے اللہ کی پناہ بھی مانگ لی ؟ صحابی نے پوچھا کیا انسانوں میں بھی شیطان ہیں؟ آپ ﷺنے فرمایا ہاں، یہ حدیث منقطع ہے ، ایک اور روایت میں ہے: میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپﷺ دیر مجھ سے فرمانے لگے ابوذر تم نے نماز پڑھ لی ؟ میں نے کہا یا رسول اللہ نہیں پڑھی آپ نے فرمایا اٹھو اور دو رکعت ادا کر لو ، جب میں فارغ ہو کر آیا تو فرمانے لگے کیا تم نے انسان و جنات شیاطین سے اللہ کی پناہ مانگی تھی؟ میں نے کہا نہیں ، کیا انسانوں میں بھی شیطان ہیں؟ آپ ﷺنے فرمایا ہاں اور وہ جنوں کے شیطانوں سے بھی زیادہ شریر ہیں اس میں بھی انقطاع ہے ، ایک متصل روایت مسند احمد میں مطول ہے اس میں یہ بھی ہے کہ یہ واقعہ مسجد کا ہے اور روایت میں حضور صلی اللہ عیلہ وسلم کا اس فرمان کے بعد یہ پڑھنا بھی مروی ہے: شَيَاطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا (۲۵:۳۱) الغرض یہ حدیث بہت سی سندوں سے مروی ہے جس سے قوت صحت کا فائدہ ہو جاتا ہے واللہ اعلم، عکرمہ سے مروی ہے کہ انسانوں میں شیطان نہیں جنات کے شیاطین ایک دوسرے سے کانا پھوسی کرتے ہیں، آپ سے یہ بھی مروی ہے: انسانوں کے شیطان جو انسانوں کو گمراہ کرتے ہیں اور جنوں کے شیطان جو جنوں کو گمراہ کرتے ہیں جب آپس میں ملتے ہیں تو ایک دوسرے سے اپنی کار گزاری بیان کرتے ہیں کہ میں نے فلاں کو اس طرح بہکا یا تو فلاں کو اس طرح بہکایا ایک دوسرے کو گمراہی کے طریقے بتاتے ہیں اس سے امام ابن جریرتو یہ سمجھے ہیں کہ شیطان تو جنوں میں سے ہی ہوتے ہیں لیکن بعض انسانوں پر لگے ہوئے ہوتے ہیں بعض جنات پر تو یہ مطلب عکرمہ کے قول سے تو ظاہر ہے ہاں سدی کے قول میں متحمل ہے ایک قول میں عکرمہ اور سدی دونوں سے یہ مروی ہے ، ابن عباسؓؓ فرماتے ہیں کہ جنات کے شیاطین ہیں جو انہیں بہکاتے ہیں جیسے انسانوں کے شیطان جو انہیں بہکاتے ہیں اور ایک دوسرے سے مل کر مشورہ دیتے ہیں کہ اسے اس طرح بہکا ۔ صحیح وہی ہے جو حضرت ابوذرؓ والی حدیث میں اوپر گزرا۔ عربی میں ہر سرکش شریر کو شیطان کہتے ہیں صحیح مسلم میں ہے : حضور ﷺنے سیاہ رنگ کے کتے کو شیطان فرمایا ہے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ کتوں میں کا شیطان ہے واللہ اعلم ۔ مجاہد فرماتے ہیں کفار جن کفار انسانوں کے کانوں میں صور پھونکتے رہتے ہیں ۔ عکرمہ فرماتے ہیں: میں مختار ابن ابی عبید کے پاس گیا اس نے میری بڑی تعظیم تکریم کی اپنے ہاں مہمان بنا کر ٹھہرایا رات کو بھی شاید اپنے ہاں سلاتا لیکن مجھ سے اس نے کہا کہ جاؤ لوگوں کو کچھ سناؤ میں جا کر بیٹھا ہی تھا کہ ایک شخص نے مجھ سے پوچھا آپ وحی کے بارے میں کیا فرماتے ہیں ؟ میں نے کہا وحی کی دو قسمیں ہیں ایک اللہ کی طرف سے جیسے فرمان ہے بِبِمَا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ هَـٰذَا الْقُرْآنَ (۱۲:۳) اور دوسری وحی شیطانی جیسے فرمان ہے يَاطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ (۱۱۲) اتنا سنتے ہی لوگ میرے اوپر پل پڑے قریب تھا کہ پکڑ کر مارپیٹ شروع کر دیں میں نے کہا ارے بھائیو! یہ تم میرے ساتھ کیا کرنے لگے؟ میں نے تو تمہارے سوال کا جواب دیا اور میں تو تمہارا مہمان ہوں چنانچہ انہوں نے مجھے چھوڑ دیا ۔ مختار ملعون لوگوں سے کہتا تھا کہ میرے پاس وحی آتی ہے اس کی بہن حضرت صفیہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے گھر میں تھیں اور بڑی دیندار تھیں جب حضرت عبداللہ کو مختار کا یہ قول معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا وہ ٹھیک کہتا ہے قرآن میں ہے وَإِنَّ ٱلشَّيَـٰطِينَ لَيُوحُونَ إِلَىٰٓ أَوۡلِيَآٮِٕهِمۡ لِيُجَـٰدِلُوكُمۡ (۶:۱۲۱) یعنی شیطان بھی اپنے دوستوں کی طرف وحی لے جاتے ہیں ، الغرض ایسے متکبر سرکش جنات و انس آپ میں ایک دوسرے کو دھوکے بازی کی باتیں سکھاتے ہیں وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ ۖ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ اور اگر اللہ ٰ چاہتا تو یہ ایسے کام نہ کر سکتے سو ان لوگوں کو اور جو کچھ یہ الزام تراشی کر رہے ہیں اسکو آپ رہنے دیجئے (۱۱۲) یہ بھی اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر اور چاہت و مشیت ہے وہ ان کی وجہ سے اپنے نبیوں کی اولوالعزمی اپنے بندوں کو دکھا دیتا ہے ، تو ان کی عداوت کا خیال بھی نہ کر، ان کا جھوٹ تجھے کچھ بھی نقصان نہ پہنچا سکے گا تو اللہ پر بھروسہ رکھ اسی پر توکل کر اور اپنے کام اسے سونپ کر بےفکر ہو جا ، وہ تجھے کافی ہے اور وہی تیرا مددگار ہے ، یہ لوگ جو اس طرح کی خرافات کر تے ہیں وَلِتَصْغَى إِلَيْهِ أَفْئِدَةُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَلِيَرْضَوْهُ وَلِيَقْتَرِفُوا مَا هُمْ مُقْتَرِفُونَ اور تاکہ اس طرف ان لوگوں کے قلوب مائل ہوجائیں جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے اور تاکہ اس کو پسند کرلیں اور مرتکب ہوجائیں ان امور کے جن کے وہ مرتکب ہوتے تھے ۔ (۱۱۳) یہ محض اسلئے کہ بے ایمانوں کے دل ان کی نگاہیں اور ان کے کان ان کی طرف جھک جائیں وہ ایسی باتوں کو پسند کریں اس سے خوش ہو جائیں فَإِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ ـ مَآ أَنتُمْ عَلَيْهِ بِفَـتِنِينَ ـ إِلاَّ مَنْ هُوَ صَالِ الْجَحِيمِ یقین مانو کہ تم سب اور تمہارے معبودان (باطل)۔ کسی ایک کو بھی بہکا نہیں سکتے۔ بجز اس کے جو جہنمی ہی ہے (۳۷:۱۶۱،۱۶۳) پس ان کی باتیں وہی قبول کرتے ہیں جنہیں آخرت پر ایمان نہیں ہوتا ، إِنَّكُمْ لَفِى قَوْلٍ مُّخْتَلِفٍ ـ يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ یقیناً تم مختلف بات میں پڑے ہوئے ہو اس سے وہی باز رکھا جاتا ہے جو پھیر دیا گیا ہو۔ (۵۱:۸،۹) ایسے واصل جہنم ہونے والے بہکے ہوئے لوگ ہی ا کی فضول اور چکنی چپڑی باتوں میں پھنس جاتے ہیں پھر وہ کرتے ہیں جو ان کے قابل ہے ۔ أَفَغَيْرَ اللَّهِ أَبْتَغِي حَكَمًا وَهُوَ الَّذِي أَنْزَلَ إِلَيْكُمُ الْكِتَابَ مُفَصَّلًا ۚ تو کیا اللہ کے سوا کسی اور فیصلہ کرنے والے کو تلاش کروں حالانکہ وہ ایسا ہے اس نے ایک کتاب کامل تمہارے پاس بھیج دی اس کے مضامین خوب صاف صاف بیان کئے گئے ہیں حکم ہوتا ہے کہ مشرک جو کہ اللہ کے سوا دوسروں کی پرستش کر رہے ہیں ان سے کہہ دیجئے کہ کیا میں آپس میں فیصلہ کرنے والا بجز اللہ تعالیٰ کے کسی اور کو تلاش کروں؟ اسی نے صاف کھلے فیصلے کرنے والی کتاب نازل فرما دی ہے وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْلَمُونَ أَنَّهُ مُنَزَّلٌ مِنْ رَبِّكَ بِالْحَقِّ ۖ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ اور جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس بات کو یقین کے ساتھ جانتے ہیں کہ یہ آپ کے رب کی طرف سے حق کے ساتھ بھیجی گئی ہے سو آپ شبہ کرنے والوں میں سے نہ ہوں ۔ (۱۱۴) یہود و نصاری جو صاحب کتاب ہیں اور جن کے پاس اگلے نبیوں کی بشارتیں ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ یہ قرآن کریم اللہ کی طرف سے حق کے ساتھ نازل شدہ ہے تجھے شکی لوگوں میں نہ ملنا چاہیے ، جیسے فرمان ہے فَإِن كُنتَ فِي شَكٍّ مِّمَّآ أَنزَلْنَآ إِلَيْكَ ... فَلاَ تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ پھر اگر آپ اس کی طرف سے شک میں ہوں جس کو ہم نے آپ کے پاس بھیجا ہے تو آپ ان لوگوں سے پوچھ دیکھئے جو آپ سے پہلی کتابوں کو پڑھتے ہیں، بیشک آپ کے پاس آپ کے رب کی طرف سے سچی کتاب آئی ہے۔ آپ ہرگز شک کرنے والوں میں سے نہ ہوں ۔ (۱۰:۹۴) یہ شرط ہے اور شرط کا واقع ہونا کچھ ضروری نہیں اسی لئے مروی ہے کہ حضور نے فرمایا : نہ میں شک کروں نہ کسی سے سوال کروں ، تیرے رب کی باتیں صداقت میں پوری ہیں، اس کا ہر حکم عدل ہے ، وہ اپنے حکم میں بھی عادل ہے اور خبروں میں صادق ہے اور یہ خبر صداقت پر مبنی ہے ، جو خبریں اس نے دی ہیں وہ بلا شبہ درست ہیں وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلًا ۚ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ ۚ آپ کے رب کا کلام سچائی اور انصاف کے اعتبار سے کامل ہے اس کلام کا کوئی بنانے والا نہیں اور جو حکم فرمایا ہے وہ سراسر عدل ہے اور جس چیز سے روکا وہ یکسر باطل ہے کیونکہ وہ جس چیز سے روکتا ہے وہ برائی والی ہی ہوتی ہے جیسے فرمان ہے: يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَـهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وہ انہیں بھلی باتوں کا حکم دیتا ہے اور بری باتوں سے روکتا ہے (۷:۱۵۷) کوئی نہیں جو اس کے فرمان کو بدل سکے، اس کے حکم اٹل ہیں ، دنیا میں کیا اور آخرت میں کیا اس کا کوئی حکم ٹل نہیں سکتا ۔ اس کا تعاقب کوئی نہیں کر سکتا ۔ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ اور وہ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے ۔ (۱۱۵) وہ اپنے بندوں کی باتیں سنتا ہے اور ان کی حرکات سکنات کو بخوبی جانتا ہے ۔ ہر عامل کو اس کے برے بھلے عمل کا بدلہ وہ ضرور دے گا ۔ وَإِنْ تُطِعْ أَكْثَرَ مَنْ فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ ۚ اور دنیا میں زیادہ لوگ ایسے ہیں کہ اگر آپ ان کا کہنا ماننے لگیں تو آپ کو اللہ کی راہ سے بےراہ کر دیں اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ اکثر لوگ دنیا میں گمراہ کن ہوتے ہیں جیسے فرمان ہے: وَلَقَدْ ضَلَّ قَبْلَهُمْ أَكْثَرُ الاٌّوَّلِينَ ان سے پہلے بھی بہت سے اگلے بہک چکے ہیں (۳۷:۷۱) اور جگہ ہے: وَمَآ أَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِينَ گو آپ لاکھ چاہیں۔ لیکن اکثر لوگ ایماندار نہ ہیں نہ ہونگے (۱۲:۱۰۳) إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ محض بے اصل خیالات پر چلتے ہیں اور بالکل قیاسی باتیں کرتے ہیں۔ (۱۱۶) پھر یہ لوگ اپنی گمراہی میں بھی کسی یقین پر نہیں صرف باطل گمان اور بیکار خیالوں کا شکار ہیں اندازے سے باتیں بنا لیتے ہیں پھر ان کے پیچھے ہو لیتے ہیں ، وہ ظن باطل میں لگے ہوئے ہیں، تو ہم پرستی میں گھرے ہوئے ہیں إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ مَنْ يَضِلُّ عَنْ سَبِيلِهِ ۖ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ بالیقین آپ کا رب ان کو خوب جانتا ہے اور جو اس کی راہ سے بےراہ ہو جاتا ہے۔ اور وہ ان کو بھی خوب جانتا ہے جو اس کی راہ پر چلتے ہیں۔ (۱۱۷) یہ سب مشیت الہٰی ہے وہ گمراہوں کو بھی جانتا ہے اور ان پر گمراہیاں آسان کر دیتا ہے ، وہ راہ یافتہ لوگوں سے بھی واقف ہے اور انہیں ہدایت آسان کر دیتا ہے ، ہر شخص پر وہی کام آسان ہوتے ہیں جن کیلئے وہ پیدا کیا گیا ہے ۔ فَكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كُنْتُمْ بِآيَاتِهِ مُؤْمِنِينَ جس جانور پر اللہ کا نام لیا جائے اس میں سے کھاؤ! اگر تم اس کے احکام پر ایمان رکھتے ہو ۔ (۱۱۸) حکم بیان ہو رہا ہے کہ جس جانور کو اللہ کا نام لے کر ذبح کیا جائے اسے کھا لیا کرو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس جانور کے ذبح کے وقت اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اس کا کھانا حرام ہے ، جیسے مشرکین از خود مر گیا ہوا اور مردار جانور ، بتوں اور تھانوں پر ذبح کیا ہوا جانور کھا لیا کرتے تھے، وَمَا لَكُمْ أَلَّا تَأْكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَقَدْ فَصَّلَ لَكُمْ مَا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ ۗ اور آخر کیا وجہ ہے کہ تم ایسے جانور میں سے نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان سب جانوروں کی تفصیل بتا دی ہے جن کو تم پر حرام کیا ہے مگر وہ بھی جب تمہیں سخت ضرورت پڑ جائے تو حلال ہے کوئی وجہ نہیں کہ جن حلال جانوروں کو شریعت کے حکم کے مطابق ذبح کیا جائے اس کے کھانے میں حرج سمجھا جائے بالخصوص اس وقت کہ ہر حرام جانور کا بیان کھول کھول کر دیا گیا ہے بعض نے فَصَّلَ کو تشدید کے ساتھ پڑھا اور بعض نے تخفیف کے ساتھ۔ دونوں صورتوں معنی بیان وضوح کے ہیں۔ حرام جانور کھانے ممنوع ہیں سوائے مجبوری اور سخت بےبسی کے کہ اس وقت جو مل جائے اس کے کھا لینے کی اجازت ہے ۔ وَإِنَّ كَثِيرًا لَيُضِلُّونَ بِأَهْوَائِهِمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِينَ اور یہ یقینی بات ہے کہ بہت سے آدمی اپنے خیالات پر بلا کسی سند کے گمراہ کرتے ہیں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ حد سے نکل جانے والوں کو خوب جانتا ہے۔ (۱۱۹) پھر کافروں کی زیادتی بیان ہو رہی ہے کہ وہ مردار جانور کو اور ان جانوروں کو جن پر اللہ کے سوا دوسروں کے نام لئے گئے ہوں حلال جانتے تھے۔ یہ لوگ بلا علم صرف خواہش پرستی کر کے دوسروں کو بھی راہ حق سے ہٹا رہے ہیں ۔ ایسوں کی افتراء پردازی دروغ بافی اور زیادتی کو اللہ بخوبی جانتا ہے ۔ وَذَرُوا ظَاهِرَ الْإِثْمِ وَبَاطِنَهُ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَكْسِبُونَ الْإِثْمَ سَيُجْزَوْنَ بِمَا كَانُوا يَقْتَرِفُونَ اور تم ظاہری گناہ کو بھی چھوڑ دو اور باطنی گناہ کو بھی چھوڑ دوبلاشبہ جو لوگ گناہ کر رہے ہیں ان کو ان کے کئے کی عنقریب سزا ملے گی۔ (۱۲۰) چھوٹے بڑے پوشیدہ اور ظاہر ، ہر گناہ کو چھوڑو ۔ نہ کھلی بدکار عورتوں کے ہاں جاؤ نہ چوری چھپے بدکاریاں کرو، کھلم کھلا ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جو تم پر حرام کر دی گئی ہیں ، غرض ہر گناہ سے دور رہو ، کیونکہ ہر بدکاری کا برا بدلہ ہے ، حضور سے سوال ہوا کہ گناہ کسے کہتے ہیں؟ آپ ﷺنے فرمایا: الْإِثمُ مَا حَاكَ فِي صَدْرِكَ وَكَرِهْتَ أَنْ يَطَّلِعَ النَّاسُ عَلَيْه جو تیرے دل میں کھٹکے اور تو نہ چاہے کہ کسی کو اس کی اطلاع ہو جائے ۔ وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ ۗ اور ایسے جانوروں میں سے مت کھاؤ جن پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اور یہ کام نافرمانی کا ہے یہی آیت ہے جس سے بعض علماء نے یہ سمجھا ہے کہ گو کسی مسلمان نے ہی ذبح کیا ہو لیکن اگر بوقت ذبح اللہ کا نام نہیں لیا تو اس ذبیحہ کا کھانا حرام ہے ، اس بارے میں علماء کے تین قول ہیں پہلا قول ایک تو وہی جو مذکور ہوا، خواہ جان بوجھ کر اللہ کا نام نہ لیا ہو یا بھول کر ،اس کی دلیل یہ آیت ہے: فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ پس جس شکار کو وہ تمہارے لئے پکڑ کر روک رکھیں تو تم اس سے کھا لو اور اس پر اللہ تعالیٰ کا ذکر کر لیا کرو (۵:۴) اس آیت میں اسی کی تاکید کی اور فرمایا کہ یہ کھلی نا فرمانی ہے یعنی اس کا کھانا یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنا ، احادیث میں بھی شکار کے اور ذبیحہ کے متعلق حکم وارد ہوا ہےآپﷺ فرماتے ہیں: جب تو اپنے سدھائے ہوئے کتے کو اللہ کا نام لے کر چھوڑے جس جانور کو وہ تیرے لئے پکڑ کر روک لے تو اسے کھا لے اور حدیث میں ہے: جو چیز خون بہا دے اور اللہ کا نام بھی اس پر لیا گیا ہو اسے کھا لیا کرو، جنوں سے حضور ﷺنے فرمایا تھا : تمہارے لئے ہر وہ ہڈی غذا ہے جس پر اللہ کا نام لیا جائے ، عید کی قربانی کے متعلق آپ کا ارشاد مروی ہے : جس نے نماز عید پڑھنے سے پہلے ہی ذبح کر لیا وہ اس کے بدلے دوسرا جانور ذبح کر لے اور جس نے قربانی نہیں کی وہ ہمارے ساتھ عید کی نماز پڑھے پھر اللہ کا نام لے کر اپنی قربانی کے جانور کو ذبح کر ے، چند لوگوں نے حضور ﷺسے پوچھا کہ بعض نو مسلم ہمیں گوشت دیتے ہیں کیا خبر انہوں نے ان جانوروں کے ذبح کرنے کے وقت اللہ کا نام بھی لیا یا نہیں؟ تو آپ ﷺنے فرمایا تم ان پر اللہ کا نام لو اور کھا لو ، الغرض اس حدیث سے بھی یہ مذہب قومی ہوتا ہے کیونکہ صحابہؓ نے بھی سمجھا کر بسم اللہ پڑھنا ضروری ہے اور یہ لوگ احکام اسلام سے صحیح طور پر واقف نہیں ابھی ابھی مسلمان ہوئے ہیں کیا خبر اللہ کا نام لیتے بھی ہیں یا نہیں؟ تو حضور نے انہیں بطور مزید احتیاط فرما دیا کہ تم خود اللہ کا نام لے لو تا کہ بالفرض انہوں نے نہ بھی لیا ہو تو یہ اس کا بدلہ ہو جائے ، ورنہ ہر مسلمان پر ظاہر احسن ظن ہی ہو گا ، دوسراقول دوسرا قول اس مسئلہ میں یہ ہے کہ بوقت ذبح بسم اللہکا پڑھنا شرط نہیں بلکہ مستحب ہے اگر چھوٹ جائے گووہ عمداً ہو یا بھول کر ، کوئی حرج نہیں ۔ اس آیت میں جو فرمایا گیا ہے کہ یہ فِسْقٌ ہے اس کا مطلب یہ لوگ یہ لیتے ہیں کہ اس سے مراد غیر اللہ کے لئے ذبح کیا ہوا جانور ہےجیسے اور آیت میں ہے: أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ جو غیر اللہ کے لئے نامزد کر دیا گیا ہو (۶:۱۴۵) بقول عطا ان جانوروں سے روکا گیا ہے جنہیں کفار اپنے معبودوں کے نام ذبح کرتے تھے اور مجوسیوں کے ذبیحہ سے بھی ممانعت کی گئی، اس کا جواب بعض متأخرین نے یہ بھی دیا ہے کہ وَإِنَّهُ میں واؤ حالیہ ہے ۔ تو فِسْقٌ فعلیہ حالیہ پر لازم آئے گا، لیکن یہ دلیل اس کے بعد کے جملے وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ سے ہی ٹوٹ جاتی ہے اس لئے کہ وہ تو یقیناً عاطفہ جملہ ہے ۔ تو جس اگلے واؤ کو حالیہ کہا گیا ہے اگر اسے حالیہ مان لیا جائے تو پھر اس پر اس جملے کا عطف ناجائز ہو گا اور اگر اسے پہلے کے حالیہ جملے پر عطف ڈالا جائے تو جو اعتراض یہ دوسرے پر وارد کر رہے تھے وہی ان پر پڑے گا ہاں اگر اس واؤ کو حالیہ نہ مانا جائے تو یہ اعتراض ہٹ سکتا ہے لیکن جو بات اور دعویٰ تھا وہ سرے سے باطل ہو جائے گا ۔ واللہ اعلم ابن عباسؓ ؓکا قول ہے مراد اس سے مردار جانور ہے جو اپنی موت آپ مر گیا ہو ۔ اس مذہب کی تائید ابو داؤد کی ایک مرسل حدیث سے بھی ہو سکتی ہے جس میں حضور کا فرمان ہے: مسلمان کا ذبیحہ حلال ہے اس نے اللہ کا نام لیا ہو یا نہ لیا ہو کیونکہ اگر وہ لیتا تو اللہ کا نام ہی لیتا ۔ اس کی مضبوطی دار قطنی کی اس روایت سے ہوتی ہے کہ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا : جب مسلمان ذبح کرے اور اللہ کا نام نہ ذکر کرے تو کھا لیا کرو کیونکہ مسلمان اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے،اسی مذہب کی دلیل میں وہ حدیث بھی پیش ہو سکتی ہے جو پہلے بیان ہو چکی ہے کہ نو مسلموں کے ذبیحہ کے کھانے کی جس میں دونوں اہتمال تھے آپ نے اجازت دی تو اگر بسم اللہ کا کہنا شرط اور لازم ہوتا تو حضورﷺ تحقیق کرنے کا حکم دیتے ، تیسرا قول اگر بسم اللہ کہنا بوقت ذبح بھول گیا ہے تواس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں اور اگر عمداً چھوڑ دے گا تو جائز نہ ہو گا۔ اسی لئے امام ابو یوسف اور مشائخ نے کہا ہے کہ اگر کوئی حاکم اسے بیچنے کا حکم بھی دے تو وہ حکم جاری نہیں ہو سکتا کیونکہ اجماع کے خلاف ہے لیکن صاحب ہدایہ کا یہ قول محض غلط ہے ، امام شافعی سے پہلے بھی بہت سے ائمہ اس کے خلاف تھے چنانچہ اوپر جو دوسرا مذہب بیان ہوا ہے کہبسم اللہ پڑھنا شرط نہیں بلکہ مستحب ہے یہ امام شافعی کا ان کے سب ساتھیوں کا اور ایک روایت میں امام احمد کا اور امام مالک کا اور اشہب بن عبدالعزیز کا مذہب ہے اور یہی بیان کیا گیا ہے ۔ حضرت ابن عباسؓ حضرت ابوہریرہ حضرت عطاء بن ابی رباح کا اس سے اختلاف ہے۔ پھر اجماع کا دعویٰ کرنا کیسے درست ہو سکتا ہے واللہ اعلم امام ابو جعفر بن جریر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جن لوگوں نے بوقت ذبح بسم اللہ بھول کر نہ کہے جانے پر بھی ذبیحہ حرام کہا ہے انہوں نے اور دلائل سے اس حدیث کی بھی مخالفت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلم کو اس کا نام ہی کافی ہے اگر وہ ذبح کے وقت اللہ کا نام ذکر کرنا بھول گیا تو اللہ کا نام لے اور کھا لے۔ یہ حدیث بیہقی میں ہے لیکن اس کا مرفوع روایت کرنا خطا ہے اور یہ خطا معقل بن عبید اللہ خرزمی کی ہے ، ہیں تو یہ صحیح مسلم کے راویوں میں سے مگر سعید بن منصور اور عبداللہ بن زبیر حمیری اسے عبداللہ بن عباس سے موقوف روایت کرتے ہیں ۔ بقول امام بہیقی یہ روایت سب سے زیادہ صحیح ہے ۔ شعبی اور محمد بن سیرین اس جانور کا کھانا مکروہ جانتے تھے جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو گو بھول سے ہی رہ گیا ہو ۔ ظاہر ہے کہ سلف کراہئیت کا اطلاق حرمت پر کرتے تھے ۔ واللہ اعلم ہاں یہ یاد رہے کہ امام ابن جریر کا قاعدہ یہ ہے کہ وہ ان دو ایک قولوں کو کوئی چیز نہیں سمجھتے جو جمہور کے مخالف ہوں اور اسے اجماع شمار کرتے ہیں ۔ امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ سے ایک شخص نے مسئلہ پوچھا کہ میرے پاس بہت سے پرند ذبح شدہ آئے ہیں ان سے بعض کے ذبح کے وقت بسم اللہ پڑھی گئی ہے اور بعض پر بھول سے رہ گئی ہے اور سب غلط ملط ہو گئے ہیں آپ نے فتوی دیا کہ سب کھا لو ، پھر محمد بن سیرین سے یہی سوال ہوا تو آپ نے فرمایا جن پر اللہ کا نام ذکر نہیں کیا گیا انہیں نہ کھاؤ ۔ اس تیسرے مذہب کی دلیل میں یہ حدیث بھی پیش کی جاتی ہے : حضور علیہ السلام نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے میری اُمت کی خطاء کو بھول کو اور جس کام پر زبردستی کی جائے اس کو معاف فرما دیا ہے لیکن اس میں ضعف ہے ایک حدیث میں ہے: ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا یا رسول اللہ بتائیے تو ہم میں سے کوئی شخص ذبح کرے اور بسم اللہ کہنا بھول جائے ؟ آپ ﷺنے فرمایا اللہ کا نام ہر مسلمان کی زبان پر ہے (یعنی وہ حلال ہے ) لیکن اس کی اسناد ضعیف ہے ، مردان بن سالم ابو عبداللہ شامی اس حدیث کا راوی ہے اور ان پر بہت سے ائمہ نے جرح کی ہے ، میں نے اس مسئلہ پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے اس میں تمام مذاہب اور انکے دلائل تفصیل سے لکھے ہیں اور پوری بحث کی ہے ، عام اہل علم تو کہتے ہیں کہ اس آیت کا کوئی حصہ منسوخ نہیں لیکن بعض حضرات کہتے ہیں اس میں اہل کتاب کے ذبیحہ کا استثناء کر لیا گیا ہے اور ان کا ذبح کیا ہوا حلال جانور کھا لینا ہمارے ہاں حلال ہے تو گو وہ اپنی اصطلاح میں اسے نسخ سے تعبیر کریں لیکن دراصل یہ ایک مخصوص صورت ہے وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَى أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ ۖ اور یقیناً شیاطین اپنے دوستوں کے دل میں ڈالتے ہیں تاکہ یہ تم سے جدال کریں فرمایا کہ شیطان اپنے ولیوں کی طرف وحی کرتے ہیں حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے جب کہا گیا کہ مختار گمان کرتا ہے کہ اس کے پاس وحی آتی ہے تو آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرما کر فرمایا وہ ٹھیک کہتا ہے ۔ شیطان بھی اپنے دوستوں کی طرف وحی کرتے ہیں اور روایت میں ہے کہ اس وقت مختار حج کو آیا ہوا تھا ۔ ابن عباسؓ کے اس جواب سے کہ وہ سچا ہے اس شخص کو سخت تعجب ہوا اس وقت آپ نے تفصیل بیان فرمائی کہ ایک تو اللہ کی وحی جو آنحضرت کی طرف آئی اور ایک شیطانی وحی ہے جو شیطان کے دوستوں کی طرف آتی ہے ۔ شیطانی وساوس کو لے کر لشکر شیطان اللہ والوں سے جھگڑتے ہیں ۔ چنانچہ یہودیوں نے آنحضرت ﷺ سے کہا کہ یہ کیا اندھیر ہے؟ کہ ہم اپنے ہاتھ سے مارا ہوا جانور تو کھا لیں اور جسے اللہ مار دے یعنی اپنی موت آپ مر جائے اسے نہ کھائیں؟اس پر یہ آیت اتری اور بیان فرمایا کہ وجہ حلت اللہ کے نام کا ذکر ہےلیکن ہے یہ قصہ غور طلب اولاً اس وجہ سے کہ یہودی از خود مرے ہوئے جانور کا کھانا حلال نہیں جانتے تھے دوسرے اس وجہ سے بھی کہ یہودی تو مدینے میں تھے اور یہ پوری سورت مکہ میں اتری ہے ۔ تیسرے یہ کہ یہ حدیث ترمذی میں مروی تو ہے لیکن مرسل طبرانی میں ہے کہ اس حکم کے نازل ہونے کے بعد کہ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو اسے کھا لو اور جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اسے نہ کھاؤ تو اہل فارس نے قریشوں سے کہلوا بھیجا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ جھگڑیں اور کہیں کہ جسے تم اپنی چھری سے ذبح کرو وہ تو حلال اور جسے اللہ تعالیٰ سونے کی چھری سے خود ذبح کرے وہ حرام؟ یعنی از خود مرا ہوا جانور ۔ اس پر یہ آیت اتری ، پس شیاطین سے مراد فارسی ہیں اور ان کے اولیاء قریش ہیں اور بھی اس طرح کی بہت سی روایتیں کئی ایک سندوں سے مروی ہیں لیکن کسی میں بھی یہود کا ذکر نہیں پس صحیح یہی ہے کیونکہ آیت مکی ہے اور یہود مدینے میں تھے اور اس لئے بھی کہ یہودی خود مردار خوار نہ تھے ۔ ابن عباسؓ فرماتے ہیں جسے تم نے ذبح کیا یہ تو وہ ہے جس پر اللہ کا نام لیا گیا اور جو از خود مر گیا وہ وہ ہے جس پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا ، مشرکین قریش فارسیوں سے خط و کتابت کر رہے تھے اور رومیوں کے خلاف انہیں مشورے اور امداد پہنچاتے تھے اور فارسی قریشیوں سے خط و کتابت رکھتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف انہیں اکساتے اور ان کی امداد کرتے تھے، اسی میں انہوں نے مشرکین کی طرف یہ اعتراض بھی بھیجا تھا اور مشرکین نے صحابہ سے یہی اعتراض کیا اور بعض صحابہ کے دل میں بھی یہ بات کھٹکی اس پر یہ آیت اتری ۔ وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ اور اگر تم ان لوگوں کی اطاعت کرنے لگو تو یقیناً تم مشرک ہو جاؤ گے۔ (۱۲۱) پھر فرمایا اگر تم نے ان کی تابعداری کی تو تم مشرک ہو جاؤ گے کہ تم نے اللہ کی شریعت اور فرمان قرآن کے خلاف دوسرے کی مان لی اور یہی شرک ہے کہ اللہ کے قول کے مقابل دوسرے کا قول مان لیا چنانچہ قران میں ہے: اتَّخَذُواْ أَحْبَـرَهُمْ وَرُهْبَـنَهُمْ أَرْبَاباً مِّن دُونِ اللَّهِ ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنایا ہے (۹:۳۱) ترمذی میں ہےجب حضرت عدی بن حاتم نے رسول ﷺسے کہا کہ حضور انہوں نے ان کی عبادت نہیں کی تو آپ ﷺنے فرمایا کہ انہوں نے حرام کو حلال کہا اور حلال کو حرام کہا اور انہوں نے ان کا کہنا مانا یہی عبادت ہے أَوَمَنْ كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَاهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُمَاتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِنْهَا ۚ ایسا شخص جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کر دیا اور ہم نے اس کو ایک ایسا نور دیا کہ وہ اس کو لئے ہوئے آدمیوں میں چلتا پھرتا ہے کیا ایسا شخص اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں سے نکل ہی نہیں پاتا ؟ مؤمن اور کافر کی مثال بیان ہو رہی ہے ایک تو وہ جو پہلے مردہ تھا یعنی کفر و گمراہی کی حالت میں حیران و سرگشتہ تھا اللہ نے اسے زندہ کیا ، ایمان و ہدایت بخشی اتباع رسول کا چسکا دیا قرآن جیسا نور عطا فرمایا جس کے منور احکام کی روشنی میں وہ اپنی زندگی گزارتا ہے اسلام کی نورانیت اس کے دل میں رچ گئی ہے ، دوسرا وہ جو جہالت و ضلالت کی تاریکیوں میں گھرا ہوا ہے جو ان میں سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں پاتا کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ اسی طرح مسلم و کافر میں بھی تفاوت ہے نور و ظلمت کا فرق اور ایمان و کفر کا فرق ظاہر ہے اور آیت میں ہے: اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ ءامَنُواْ يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَـتِ إِلَى النُّورِ ... أُوْلَـئِكَ أَصْحَـبُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَـلِدُونَ ایمان لانے والوں کا کارساز اللہ تعالیٰ خود ہے، وہ انہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال لے جاتا ہے اور کافروں کے اولیاء شیاطین ہیں۔ وہ انہیں روشنی سے نکال کر اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں یہ لوگ جہنمی ہیں جو ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔ (۲:۲۵۷) اور آیت میں ہے: أَفَمَن يَمْشِى مُكِبّاً عَلَى وَجْهِهِ أَهْدَى أَمَّن يَمْشِى سَوِيّاً عَلَى صِرَطٍ مُّسْتَقِيمٍ وہ شخص زیادہ ہدایت والا ہے جو اپنے سرکے بل اوندھا ہو کر چلے یا وہ جو سیدھا راہ راست پر چلا ہو۔ (۶۷:۲۲) اور آیت میں ہے: مَثَلُ الْفَرِيقَيْنِ كَالاٌّعْمَى وَالاٌّصَمِّ وَالْبَصِيرِ وَالسَّمِيعِ هَلْ يَسْتَوِيَانِ مَثَلاً أَفَلاَ تَذَكَّرُونَ ان دونوں فرقوں کی مثال اندھے، بہرے اور دیکھنے، سننے والے جیسی ہے کیا یہ دونوں مثال میں برابر ہیں؟ کیا پھر بھی تم نصیحت حاصل نہیں کرتے۔ (۱۱:۲۴) اور جگہ فرمان ہے: وَمَا يَسْتَوِى الاٌّعْمَى وَالْبَصِيرُ ... إِنْ أَنتَ إِلَّا نَذِيرٌ اور اندھا اور آنکھوں والا برابر نہیں۔ اور نہ تاریکی نہ روشنی اور نہ چھاؤں نہ دھوپ اور زندہ اور مردے برابر نہیں ہو سکتے اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے سنا دیتا ہے اور آپ ان کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں۔ تو تو صرف آگاہ کر دینے والا ہے (۳۵:۱۹،۲۳) اور بھی آیتیں اس مضمون کی بہت سی ہیں اس سورت کے شروع میں ظلمات اور نور کا ذکر تھا اسی مناسبت سے یہاں بھی مؤمن اور کافر کی یہی مثال بیان فرمائی گئی بعض کہتے ہیں مراد اس سے وہ خاص معین شخص ہیں جیسے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہ یہ پہلے گمراہ تھے اللہ نے انہیں اسلامی زندگی بخشی اور انہیں نور عطا فرمایا جسے لے کر لوگوں میں چلتے پھرتے ہیں اور کہا گیا ہے کہ اس سے مراد حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں اور ظلمات میں جو پھنسا ہوا ہے اس سے مراد ابوجہل ہے ۔ صحیح یہی ہے کہ آیت عام ہےہر مؤمن اور کافر کی مثال ہے ، كَذَلِكَ زُيِّنَ لِلْكَافِرِينَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ اسی طرح کافروں کو ان کے اعمال خوش نما معلوم ہوا کرتے ہیں۔ (۱۲۲) کافروں کی نگاہ میں ان کی اپنی جہالت و ضلالت اسی طرح آراستہ و پیراستہ کر کے دکھائی جاتی ہے ۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر ہے کہ وہ اپنی برائیوں کو ہی اچھائیاں سمجھتے ہیں ۔مسند کی ایک حدیث میں ہے: اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو اندھیرے میں پیدا کر کے پھر اپنا نور ان پر ڈالا جسے اس نور کا حصہ ملا اس نے دنیا میں آ کر راہ پائی اور جو وہاں محروم رہا وہ یہاں بھی بہکا ہی رہا ، جیسے فرمان ہے: يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَـتِ إِلَى النُّورِ وہ (اللہ) تمہیں اندھیروں سے نور کی طرف لے جاتا ہے (۲:۲۵۷) اور جیسے فرمان ہے: وَمَا يَسْتَوِى الاٌّعْمَى وَالْبَصِيرُ ـ وَلاَ الظُّلُمَاتُ وَلاَ النُّورُ اندھا اور دیکھتا اور اندھیرا اور روشنی برابر نہیں ۔ (۳۵:۱۹،۲۰) وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا فِي كُلِّ قَرْيَةٍ أَكَابِرَ مُجْرِمِيهَا لِيَمْكُرُوا فِيهَا ۖ اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں وہاں کے رئیسوں ہی کو جرائم کا مرتکب بنایا تاکہ وہ لوگ وہاں فریب کریں ان آیتوں میں بھی اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی تسکین فرماتا ہے اور ساتھ ہی کفار کو ہوشیار کرتا ہے ، فرماتا ہے کہ جیسے آپ کی اس بستی میں روسائے کفر موجود ہیں جو دوسروں کو بھی دین برحق سے روکتے ہیں اسی طرح ہر پیغمبر کے زمانے میں اس کی بستی میں کفر کے ستون اور مرکز رہے ہیں لیکن آخر کار وہ غارت اور تباہ ہوتے ہیں اور نتیجہ ہمیشہ نبیوں کا ہی اچھا رہتا ہےجیسے فرمایا: وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِىٍّ عَدُوّاً مِّنَ الْمُجْرِمِينَ اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن گناہگاروں کو بنا دیا ہے (۲۵:۳۱) اور آیت میں ہے: وَإِذَآ أَرَدْنَآ أَن نُّهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُواْ فِيهَا اور جب ہم کسی بستی کی ہلاکت کا ارادہ کر لیتے ہیں تو وہاں کے خوشحال لوگوں کو (کچھ) حکم دیتے ہیں اور وہ اس بستی میں کھلی نافرمانی کرنے لگتے ہیں (۱۷:۱۶) مطلب یہ ہے کہ ہم ان کو اطاعت کا حکم کرتے ہیں لیکن وہ مخالفت کرتے ہیں بنابریں ہم انہیں ہلاک کر دیتے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہم انہیں وہ امر کرتے ہیں جو انکی قسمت میں لکھا ہوتا ہے تا کہ اس میں وہ شیطنت اختیار کریں چنانچہ اور آیتوں میں ہے: وَمَآ أَرْسَلْنَا فِى قَرْيَةٍ مِّن نَّذِيرٍ ... اً وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ اور ہم نے جس بستی میں جو بھی آگاہ کرنے والا بھیجا وہاں کے خوشحال لوگوں نے یہی کیا کہ جس چیز کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو ہم اسکے ساتھ جو کفر کرنے والے ہیں ۔ اور کہا ہم مال اولاد میں بہت بڑے ہوئے ہیں یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم عذاب دیئے جائیں (۳۴:۳۴،۳۵) اور آیت میں ہے: وَكَذَلِكَ مَآ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ ... وَإِنَّا عَلَى ءَاثَـرِهِم مُّقْتَدُونَ اسی طرح آپ سے پہلے بھی ہم نے جس بستی میں کوئی ڈرانے والا بھیجا وہاں کے آسودہ حال لوگوں نے یہی جواب دیا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو (ایک راہ پر اور) ایک دین پر پایا اور ہم تو انہی کے نقش پا کی پیروی کرنے والے ہیں۔ (۴۳:۲۳) مَكْر سے مراد گمراہی کی طرف بلانا ہے اور اپنی چکنی چپڑی باتوں میں لوگوں کو پھنسانا ہے جیسے کہ قوم نوح کے بارے میں یہ آیت ہے: وَمَكَرُواْ مَكْراً كُبَّاراً اور ان لوگوں نے بڑا سخت فریب کیا، (۷۱:۲۲) اور آیت میں ہے: وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُواْ لَن نُّؤْمِنَ بِهَـذَا الْقُرْءَانِ ... وَنَجْعَلَ لَهُ أَندَاداً اے دیکھنے والے کاش کہ تو ان ظالموں کو اس وقت دیکھتا جبکہ یہ اپنے رب کے سامنے کھڑے ہوئے ایک دوسرے کو الزام لگا رہے ہونگے کمزور لوگ بڑے لوگوں سے کہیں گے اگر تم نہ ہوتے تو ہم مؤمنوں میں سے ہوتے ۔ یہ بڑے لوگ ان کمزورں کو جواب دیں گے کہ کیا تمہارے پاس ہدایت آچکنے کے بعد ہم نے تمہیں اس سے روکا تھا؟ (نہیں) بلکہ تم (خود) ہی مجرم تھے ۔ (اس کے جواب میں) یہ کمزور لوگ ان متکبروں سے کہیں گے، (نہیں نہیں) بلکہ دن رات مکرو فریب سے ہمیں اللہ کے ساتھ کفر کرنے اور اس کے شریک مقرر کرنے کا ہمارا حکم دینا ہماری بے ایمانی کا باعث ہوا (۳۴:۳۱،۳۳) مَكْر کے معنی حضرت سفیان نے ہر جگہ عمل کے کئے ہیں وَمَا يَمْكُرُونَ إِلَّا بِأَنْفُسِهِمْ وَمَا يَشْعُرُونَ اور لوگ اپنے ہی ساتھ فریب کر رہے ہیں اور ان کو ذرا خبر نہیں ۔ (۱۲۳) پھر فرماتا ہے کہ ان کے مَكْر کا وبال انہی پر پڑے گا لیکن انہیں اس کا شعور نہیں ، جن لوگوں کو انہوں نے بہکایا ان کا وبال بھی انہیں کے دوش پر ہو گاجیسے فرمان ہے: وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقَالَهُمْ وَأَثْقَالاً مَّعَ أَثْقَالِهِمْ البتہ یہ اپنے بوجھ ڈھولیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ ہی اور بوجھ بھی (۲۹:۱۳) یعنی اپنے بوجھ کے ساتھ ان کے بوجھ بھی ڈھوئیں گے ، جن کو بےعلمی کے ساتھ انہوں نے بہکایا تھا ۔ وَمِنْ أَوْزَارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ أَلاَ سَآءَ مَا يَزِرُونَ انکے بوجھ کے حصے دار ہوں گے جنہیں بےعلمی سے گمراہ کرتے رہے دیکھو تو کیسا برا بوجھ اٹھا رہے ہیں ۔ وَإِذَا جَاءَتْهُمْ آيَةٌ قَالُوا لَنْ نُؤْمِنَ حَتَّى نُؤْتَى مِثْلَ مَا أُوتِيَ رُسُلُ اللَّهِ ۘ اور جب ان کو کوئی آیت پہنچتی ہے تو یوں کہتے ہیں کہ ہم ہرگز ایمان نہ لائیں گے جب تک کہ ہم کو بھی ایسی ہی چیز نہ دی جائے جو اللہ کے رسولوں کو دی جاتی ہے جب کوئی نشان اور دلیل دیکھتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ کچھ بھی ہو جب تک اللہ کا پیغام فرشتے کی معرفت خود ہمیں نہ آئے ہم تو باور کرنے والے نہیں ۔ وَقَالَ الَّذِينَ لاَ يَرْجُونَ لِقَآءَنَا لَوْلاَ أُنزِلَ عَلَيْنَا الْمَلَـئِكَةُ أَوْ نَرَى رَبَّنَا اور جنہیں ہماری ملاقات کی توقع نہیں انہوں نے کہا کہ ہم پر فرشتے کیوں نہیں اتارے جاتے یا ہم دیکھتے اپنے رب کو؟ (۲۵:۲۱) کہا کرتے تھے کہ ہم پر فرشتے کیوں نازل نہیں ہوتے ؟ اللہ ہمیں اپنا دیدار کیوں نہیں دکھاتا؟ حالانکہ رسالت کے مستحق کی اصلی جگہ کو اللہ ہی جانتا ہے ۔ ان کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ ان دونوں بستیوں میں کسی بڑے رئیس پر یہ قرآن کیوں نہ اترا؟ جس کے جواب میں اللہ عز وجل نے فرمایا کیا تیرے رب کی رحمت کے تقسیم کرنے والے وہ ہیں؟ وَقَالُوا لَوْلَا نُزِّلَ هَذَا الْقُرْآنُ عَلَى رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ ـ أَهُمْ يَقْسِمُونَ رَحْمَةَ رَبِّكَ اور کہنے لگے، یہ قرآن ان دونوں بستیوں میں کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہیں کیا گیا کیا آپکے رب کی رحمت کو یہ تقسیم کرتے ہیں؟ (۴۳:۳۱،۳۲) الْقَرْيَتَيْنِ سے مراد مکہ اور طائف ہے۔ پس مکے یا طائف کے کسی رئیس پر قرآن کے نازل نہ ہونے سے وہ آنحضرت کی تحقیر کا ارادہ کرتے تھے جیسے فرمان ہے: وَإِذَا رَأَوْكَ إِن يَتَّخِذُونَكَ إِلاَّ هُزُواً أَهَـذَا الَّذِى بَعَثَ اللَّهُ رَسُولاً اور تمہیں جب کبھی دیکھتے ہیں تو تم سے مسخرہ پن کرنے لگتے ہیں۔ کہ کیا یہی وہ شخص ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے رسول بنا کر بھیجا ہے ۔ (۲۵:۴۱) اور جگہ ہے: وَإِذَا رَآكَ الَّذِينَ كَفَرُواْ إِن يَتَّخِذُونَكَ إِلاَّ هُزُواً أَهَـذَا الَّذِى يَذْكُرُ آلِهَتَكُمْ وَهُمْ بِذِكْرِ الرَّحْمَـنِ هُمْ كَـفِرُونَ یہ منکرین تجھے جب دیکھتے ہیں تو تمہارا مذاق ہی اڑاتے ہیں کیا یہی وہ ہے جو تمہارے معبودوں کا ذکر برائی سے کرتا، اور وہ خود ہی رحمٰن کی یاد کے بالکل ہی منکر ہیں (۲۱:۳۶) اور فرمایا: وَلَقَدِ اسْتُهْزِىءَ بِرُسُلٍ مِّن قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِينَ سَخِرُواْ مِنْهُمْ مَّا كَانُواْ بِهِ يَسْتَهْزِءُونَ اور تجھ سے پہلے رسولوں کے ساتھ بھی ہنسی مذاق کیا گیا پس ہنسی کرنے والوں کو ہی اس چیز نے گھیر لیا جس کی وہ ہنسی اڑاتے تھے ۔ (۲۱:۴۱) حالانکہ ان کمبختوں کو نبی اکرم ﷺ کے فضل و شرف اور نصب کا اعتراف تھا اور آپ ﷺ کے خاندان کی شرافت اور قبیلہ کی عزت ار وطن مکہ کی بزرگی کے معترف تھے’ اور یہ صرف ضد اور تکبر کی بنا پر تھا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ پاک نے اولاد ابراھیم ؑ میں سے اسمٰعیل ؑ کو انتخاب کیا اور بنی اسمٰعیل میں سے بنی کنانہ کو اور بنو کنانہ سے قریش کو قریش میں سے بنو ہاشم کو اور بنو ہاشم میں سے مجھے انتخاب فرمایا۔ فرمان ہے : یکے بعد دیگرے قرنوں میں سے میں سب سے بہتر قرن میں پیغمبر بنایا گیا ۔ ابن عباسؓ سے مروی ہے: ایک مرتبہ جبکہ آپ کو لوگوں کی بعض کہی ہوئی باتیں پہنچیں تو آپ منبر پر تشریف لائے اور لوگوں سے پوچھا میں کون ہوں؟ انہوں نے کہا آپ اللہ کے رسول ہیں ۔ فرمایا میں محمد بن عبداللہ بن عبد المطلب ہوں اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام مخلوق میں مجھے بہتر بنایا ہے مخلوق کو جب دو حصوں میں تقسیم کیا تو مجھے ان دونوں میں جو بہتر حصہ تھا اس میں کیا پھر قبیلوں کی تقسیم کے وقت مجھے سب سے بہتر قیبلے میں کیا پھر جب گھرداریوں میں تقسیم کیا تو مجھے سب سے اچھے گھرانے میں بنایا پس میں گھرانے کے اعتبار سے اور ذات کے اعتبار سے تم سب سے بہتر ہوں ۔صلوات اللہ وسلامیہ علیہ حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: حضرت جبرائیلؑ نے ایک مرتبہ آپ ﷺسے فرمایا میں نے تمام مشرق و مغرب ٹٹول لیا لیکن آپ سے زیادہ افضل کسی کو نہیں پایا (حاکم بیہقی ) اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ ۗ اس موقع کو تو اللہ تعالیٰ ہی خوب جانتا ہے کہ کہاں وہ اپنی پیغمبری رکھے مسند احمد میں ابن مسعودؓ سے روایت ہے: اللہ تعالیٰ نے سب کے دلوں پر نگاہ ڈالی تو سب سے بہتر دل والے اصحاب رسول پائے پس اصحاب کو آپ کے وزیر اور مددگار بنایا جو نبی کے ساتھ دین کے لئے قتال کرتے ہیں پس یہ مسلمان جس چیز کو بہتر سمجھیں وہ اللہ وحدہ لاشریک کے پاس سے اچھا ہوتا ہے اور جسے یہ برا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی بری ہے ۔ ایک باہر کے شخص نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ کو مسجد کے دروازے سے آتا ہوا دیکھ کر مرعوب ہو کر لوگوں سے پوچھا یہ کون بزرگ ہیں؟ لوگوں نے کہا یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے لڑکے حضرت عبداللہ بن عباسؓ ہیں ۔ تو ان کے منہ سے بےساختہ یہ آیت نکلی کہ نبویت کی جگہ کو اللہ ہی بخوبی جانتا ہے ، سَيُصِيبُ الَّذِينَ أَجْرَمُوا صَغَارٌ عِنْدَ اللَّهِ وَعَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا كَانُوا يَمْكُرُونَ عنقریب ان لوگوں کو جنہوں نے جرم کیا اللہ کے پاس پہنچ کر ذلت پہنچے گی اور ان کی شرارتوں کے مقابلے میں سزائے سخت۔ (۱۲۴) إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِى سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَخِرِينَ یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے خود سری کرتے ہیں وہ ابھی ابھی ذلیل ہو کر جہنم پہنچ جائیں گے (۴۰:۶۰) انہیں انکے مکر کی سزا اور سخت سزا ملے گی چونکہ مکاروں کی چالیں خفیہ اور ہلکی ہوتی ہیں اس کے بدلے میں عذاب علانیہ اور سخت ہوں گے ۔ یہ اللہ کا ظلم نہیں بلکہ ان کا پورا بدلہ ہے وَلاَ يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا اور تیرا رب کسی پر ظلم و ستم نہ کرے گا۔ (۱۸:۴۹) اس دن ساری چھپی عیاریاں کھل جائیں گی يَوْمَ تُبْلَى السَّرَآئِرُ جس دن پوشیدہ باتوں کی جانچ پڑتال ہوگی۔ (۸۶:۹) حضور ﷺکا ارشاد ہے: ہر بد عہد کی رانوں کے پاس قیامت کے دن ایک جھنڈا لہراتا ہو گا اور اعلان ہوتا ہو گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی غداری ہے پس اس دنیا کی پوشیدگی اس طرح قیامت کے دن ظاہر ہو گی ۔ اللہ ہمیں بچائے ۔ فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ ۖ سو جس شخص کو اللہ تعالیٰ راستہ پر ڈالنا چاہے اس کے سینہ کو اسلام کے لئے کشادہ کر دیتا ہے اللہ کا ارادہ جسے ہدایت کرنے کا ہوتا ہے اس پر نیکی کے راستے آسان ہو جاتے ہیں جیسے فرمان ہے: أَفَمَن شَرَحَ اللَّهُ صَدْرَهُ لِلإِسْلَـمِ فَهُوَ عَلَى نُورٍ مِّن رَّبِّهِ کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے لئے کھول دیا ہے پس وہ اپنے پروردگار کی طرف سے ایک نور ہے (۳۹:۲۲) اور آیت میں فرمایا: وَلَـكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الايمَـنَ ... أُوْلَـئِكَ هُمُ الرَشِدُونَ لیکن اللہ تعالیٰ نے ایمان کو تمہارے دلوں میں زینت دے رکھی ہےاور کفر کو اور گناہ کو اور نافرمانی کو تمہاری نگاہوں میں ناپسندیدہ بنا دیا ہے، یہی لوگ راہ یافتہ ہیں۔ (۴۹:۷) ابن عباسؓ فرماتے ہیں اس کا دل ایمان و توحید کی طرف کشادہ ہو جاتا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ سب سے زیادہ دان کون سا مؤمن ہے ؟ فرمایا سب سے زیادہ موت کو یاد رکھنے والا اور سب سے زیادہ موت کے بعد کی زندگی کے لئے تیاریاں کرنے والا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کی بابت سوال ہوا تو فرمایا : اس کے دل میں ایک نور ڈال دیا جاتا ہے جس سے اس کا سینہ کھل جاتا ہے لوگوں نے اس کی نشانی درریافت کی تو فرمایا: جنت کی طرف جھکنا اور اس کی جانب رغبت کام رکھنا اور دنیا کے فریب سے بھاگنا اور الگ ہونا اور موت کے آنے سے پہلے تیاریاں کرنا وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقًا حَرَجًا كَأَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاءِ ۚ جس کو بےراہ رکھنا چاہے اس کے سینے کو بہت تنگ کر دیتا ہے جیسے کوئی آسمان پر چڑھتا ہے كَذَلِكَ يَجْعَلُ اللَّهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ اس طرح اللہ تعالیٰ ایمان نہ لانے والوں پر ناپاکی مسلط کر دیتا ہے ۔ (۱۲۵) حَرَجًا کی دوسری قرأت حَرِجًا بھی ہے یعنی گنہگار یا دونوں کے ایک ہی معنی یعنی وہ گمراہ ایسا ہوتا ہے کہ اس کا دل ہدایت کے لئے ذرا بھی کشادہ نہیں’ جو نہ ہدایت کے لئے کھلے اور نہ ایمان اس میں جگہ پائے ، ایک مرتبہ ایک بادیہ نشین بزرگ سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حرجہ کے بارے میں دریافت فرمایا تو اس نے کہا یہ ایک درخت ہوتا ہے جس کے پاس نہ تو چرواہے جاتے ہیں نہ جانور نہ وحشی ۔ آپ نے فرمایا سچ ہے ایسا ہی منافق کا دل ہوتا ہے کہ اس میں کوئی بھلائی جگہ پاتی ہی نہیں ۔ ابن عباسؓ کا قول ہے کہ اسلام باوجود آسان اور کشادہ ہونے کے اسے سخت اور تنگ معلوم ہوتا ہے خود قرآن میں ہے: وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ اللہ نے تمہارے دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی ۔ (۲۲:۷۸) لیکن منافق کا شکی دل اس نعمت سے محروم رہتا ہے اسے لا الہ الا اللہ کا اقرار ایک مصیبت معلوم ہوتی ہے ، جیسے کسی پر آسمان پر جڑھائی مشکل ہو ، جیسے وہ اس کے بس کی بات نہیں اسی طرح توحید و ایمان بھی اس کے قبضے سے باہر ہیں پس مردہ دل والے کبھی بھی اسلام قبول نہیں کرتے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ بے ایمانوں پر شیطان مقرر کر دیتا ہے جو انہیں بہکاتے رہتے ہیں اور خیر سے ان کے دل کو تنگ کرتے رہتے ہیں۔ نحوست ان پر برستی رہتی ہے اور عذاب ان پر اتر آتے ہیں۔ وَهَذَا صِرَاطُ رَبِّكَ مُسْتَقِيمًا ۗ قَدْ فَصَّلْنَا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَذَّكَّرُونَ اور یہی تیرے رب کا سیدھا راستہ ہے ہم نے نصیحت حاصل کرنے والوں کے واسطے ان آیتوں کو صاف صاف بیان کر دیا۔ (۱۲۶) گمراہوں کا طریقہ بیان فرما کر اپنے اس دین حق کی نسبت فرماتا ہے کہ سیدھی اور صاف راہ جو بےروک اللہ کی طرف پہنچا دے یہی ہے مُسْتَقِيمًا کا نصب حالیت کی وجہ سے ہے ۔ پس شرع محمدی کلام باری تعالیٰ ہی راہ راست ہےچنانچہ حدیث میں بھی قرآن کی صفت میں کہا گیا ہے: اللہ کی سیدھی راہ اللہ کی مضبوط رسی اور حکمت والا ذکر یہی ہے (ملاحظہ ہو ترمذی مسند) جنہیں اللہ کی جانب سے عقل و فہم و عمل دیا گیا ہے ان کے سامنے تو وضاحت کے ساتھ اللہ کی آیتیں آ چکیں ۔ لَهُمْ دَارُ السَّلَامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۖ وَهُوَ وَلِيُّهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ان لوگوں کے واسطے ان کے رب کے پاس سلامتی کا گھر ہے اور اللہ تعالیٰ ان سے محبت رکھتا ہے ان کے اعمال کی وجہ سے ۔ (۱۲۷) ان ایمانداروں کیلئے اللہ کے ہاں جنت ہے ، جیسے کہ یہ سلامتی کی راہ یہاں چلے ویسے ہی قیامت کے دن سلامتی کا گھر انہیں ملے گا ۔وہی سلامتیوں کا مالک اللہ تعالیٰ ہے ان کا کار ساز اور دلی دوست ہے ۔ حافظ و ناصر مویدو مولیٰ ان کا وہی ہے ان کے نیک اعمال کا بدلہ یہ پاک گھر ہو گا جہاں ہمیشگی ہے اور یکسر راحت و اطمینان ، سرور اور خوشی ہی خوشی ہے ۔ وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُمْ مِنَ الْإِنْسِ ۖ اور جس روز اللہ تعالیٰ تمام خلائق کو جمع کرے گا (کہے گا) اے جماعت جنات کی! تم نے انسانوں میں سے بہت سے اپنا لئے وہ دن بھی قریب ہے جبکہ اللہ تعالیٰ ان سب کو جمع کرے گا ۔ جنات انسان عابد معبود سب ایک میدان میں کھڑے ہوں گے اس وقت جنات سے ارشاد ہو گا کہ تم نے انسانوں کو خوب بہکایا اور ورغلایا ۔ انسانوں کو یاد دلایا جائے گا: أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يبَنِى ... أَفَلَمْ تَكُونُواْ تَعْقِلُونَ اے اولاد آدم! کیا میں نے تم سے قول قرار نہیں لیا تھا کہ تم شیطان کی عبادت نہ کرنا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور میری عبادت کرنا سیدھی راہ یہی ہے شیطان نے تم میں سے بہت ساری مخلوق کو بہکا دیا۔ کیا تم عقل نہیں رکھتے ۔ (۳۶:۶۰،۶۲) میں نے تو تمہیں پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ شیطان کی نہ ماننا وہ تمہارا دشمن ہے میری ہی عبادت کرتے رہنا یہی سیدھی راہ ہے لیکن تم نے سمجھ سے کام نہ لیا اور شیطانی راگ میں آ گئے وَقَالَ أَوْلِيَاؤُهُمْ مِنَ الْإِنْسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَبَلَغْنَا أَجَلَنَا الَّذِي أَجَّلْتَ لَنَا ۚ جو انسان ان کے ساتھ تعلق رکھنے والے تھے وہ کہیں گے اے ہمارے پروردگار! ہم میں ایک نے دوسرے سے فائدہ حاصل کیا تھا اور ہم اپنی اس معین میعاد تک آپہنچے جو تو نے جو ہمارے لئے معین فرمائی اس وقت جنات کے دوست انسان جواب دیں گے کہ ہاں انہوں نے حکم دیا اور ہم نے عمل کیا دنیا میں ایک دوسرے کے ساتھ رہے اور فائدہ حاصل کرتے رہے، جاہلیت کے زمانہ میں جو مسافر کہیں اترتا تو کہتا کہ اس وادی کے بڑے جن کی پناہ میں میں آتا ہوں ۔ انسانوں سے جنات کو بھی فائدہ پہنچتا تھا کہ وہ اپنے آپ کو ان کے سردار سمجھنے لگے تھے موت کے وقت تک یہی حالت رہی قَالَ النَّارُ مَثْوَاكُمْ خَالِدِينَ فِيهَا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۗ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ اللہ فرمائے گا کہ تم سب کا ٹھکانہ دوزخ ہے جس میں ہمیشہ رہو گے ہاں اگر اللہ ہی کو منظور ہو تو دوسری بات ہے۔ بیشک آپ کا رب بڑی حکمت والا بڑا علم والا ہے۔ (۱۲۸) اس وقت انہیں کہا جائے گا کہ اچھا اب بھی تم ساتھ ہی جہنم میں جاؤ وہیں ہمیشہ پڑے رہنا ۔ یہ استثناء جو ہے وہ راجع ہے برزخ کی طرف بعض کہتے ہیں دنیا کی مدت کی طرف، اس کا پورا بیان سورۃ ہود کی آیت خَالِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ (۱۱:۱۰۷) کی تفسیر میں آئے گا انشا اللہ ۔ اس آیت سے معلوم ہو رہا ہے کہ کوئی کسی کے لئے جنت دوزخ کا فیصلہ نہیں کر سکتا ۔ سب مشیت رب پر موقوف ہے ۔ وَكَذَلِكَ نُوَلِّي بَعْضَ الظَّالِمِينَ بَعْضًا بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ اور اسی طرح ہم بعض کفار کو بعض کے قریب رکھیں گے ان کے اعمال کے سبب (۱۲۹) لوگوں کی دوستیاں اعمال پر ہوتی ہیں مؤمن کا دل مؤمن سے ہی لگتا ہے گو وہ کہیں کا ہو اور کیسا ہی ہو اور کافر کافر بھی ایک ہی ہیں گو وہ مختلف ممالک اور مختلف ذات پات کے ہوں ۔ ایمان تمناؤں اور ظاہر داریوں کا نام نہیں ۔ اس مطلب کے علاوہ اس آیت کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اسی طرح یکے بعد دیگرے تمام کفار جہنم میں جھونک دیئے جائیں گے ۔ مالک بن دینار کہتے ہیں میں نے زبور میں پڑھا ہے اللہ فرماتا ہے کہ میں منافقوں سے انتقام منافقوں کے ساتھ ہی لوں گا پھر سب سے ہی انتقام لوں گا ۔اس کی تصدیق قرآن کی مندرجہ بالا آیت سے بھی ہوتی ہے کہ ہم ولی بنائیں گے بعض ظالموں کا یعنی ظالم جن اور ظالم انس ۔ پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی: وَمَن يَعْشُ عَن ذِكْرِ الرَّحْمَـنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطَاناً فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ اور جو شخص رحمٰن کی یاد سے غفلت کرے ہم اس پر شیطان مقرر کر دیتے ہیں وہی اس کا ساتھی رہتا ہے (۴۳:۳۶) ایک مرفوع حدیث میں ہے جو ظالم کی مدد کرے گا اللہ اسی کو اس پر مسلط کر دے گا ۔ کسی شاعر کا قول ہے ۔ وما من یدالا ید اللہ فوقھا وما ظالم الا سیبلی بظالم ہر ہاتھ ہر طاقت پر اللہ کا ہاتھ اور اللہ کی طاقت بالا ہے اور ہر ظالم دوسرے ظالم کے پنجے میں پھنسنے والا ہے ۔ مطلب آیت کا یہ ہے کہ ہم نے جس طرح ان نقصان یافتہ انسانوں کے دوست ان بہکانے والے جنوں کو بنا دیا اسی طرح ظالموں کو بعض کو بعض کا ولی بنا دیتے ہیں اور بعض بعض سے ہلاک ہوتے ہیں اور ہم ان کے ظلم و سرکشی اور بغاوت کا بدلہ بعض سے بعض کو دلا دیتے ہیں ۔ يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي وَيُنْذِرُونَكُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَذَا ۚ اے جنات اور انسانوں کی جماعت! کیا تمہارے پاس تم میں سے پیغمبر نہیں آئے تھے جو تم سے میرے احکام بیان کرتے اور تم کو آج کے دن کی خبر دیتے؟ یہ اور سرزنش اور ڈانت ڈپٹ ہے جو قیامت کے دن اللہ کی طرف سے انسانوں اور جنوں کو ہو گی ان سے سوال ہو گا کہ کیا تم میں سے ہی تمہارے پاس میرے بھیجے ہوئے رسول نہیں آئے تھے ۔ یہ یاد رہے کہ رسول کل کے کل انسان ہی تھے کوئی جن رسول نہیں ہوا ۔ ائمہ سلف خلف کا مذہب یہی ہے جنات میں نیک لوگ اور جنوں کو نیکی کی تعلیم کرتے تھے ۔ بدی سے روکتے تھے لیکن رسول صرف انسانوں میں سے ہی آتے رہے ۔ ضحاک بن مزاحم سے ایک روایت مروی ہے کہ جنات میں بھی رسول ہوتے ہیں اور ان کی دلیل ایک تو یہ آیت ہے سو یہ کوئی دلیل نہیں اس لئے کہ اس میں صراحت نہیں اور یہ آیت تو بالکل ویسی ہی ہے جیسےیہ آیت مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ سے يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ (۵۵:۱۹،۲۲) تک کی آیتیں صاف ظاہر ہے کہ موتی مرجان صرف کھاری پانی کے سمندروں میں نکلتے ہیں ۔ میٹھے پانی سے نہیں نکلتے لیکن ان آیتوں میں دونوں قسم کے سمندروں میں سے موتیوں کا نکلنا پایا جاتا ہے کہ ان کی جنس میں سے مراد یہی ہے اس طرح اس آیت میں مراد جنوں انسانوں کی جنس میں سے ہے نہ کہ ان دونوں میں سے ہر ایک میں سے اور رسولوں کے صرف انسان ہی ہونے کی دلیل ان آیات میں ہے: إِنَّآ أَوۡحَيۡنَآ إِلَيۡكَ كَمَآ أَوۡحَيۡنَآ إِلَىٰ نُوحٍ۬ ... يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى ٱللَّهِ حُجَّةُۢ بَعۡدَ ٱلرُّسُلِ یقیناً ہم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی کی ہے جیسے کہ نوح ؑ اور ان کے بعد والے نبیوں کی طرف کی، اور ہم نے وحی کی ابرا ہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اولاد پر اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کی طرف ہم نے داؤد ؑ کو زبور عطا فرمائی۔ اور آپ سے پہلے کے بہت سے رسولوں کے واقعات ہم نے آپ سے بیان کئے ہیں اور بہت کے رسولوں کے نہیں بھی کئے اور موسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر کلام کیا ہم نے انہیں رسول بنایا، خوشخبریاں سنانے والے اور آگاہ کرنے والے تاکہ لوگوں کی کوئی حجت اور الزام رسولوں کے بھیجنے کے بعد اللہ تعالیٰ پر رہ نہ جائے (۴:۱۶۳،۱۶۵) اور یہ آیت: وَجَعَلْنَا فِى ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتَـبَ اور ہم نے نبوت اور کتاب ان کی اولاد میں ہی کر دی (۲۹:۲۷) پس ثابت ہوتا ہے کہ خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد نبوت کا انحصار آپ ہی کی اولاد میں ہوتا رہا ۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس انوکھی بات کا قائل ایک بھی نہیں کہ آپ سے پہلے نبی ہوتے تھے اور پھر ان میں سے نبوت چھین لی گئی اور آیت اس سے بھی صاف ہے فرمان ہے: وَمَآ أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِينَ إِلاَّ إِنَّهُمْ لَيَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَيَمْشُونَ فِى الاٌّسْوَاقِ ہم نے آپ سے پہلے جتنے رسول بھیجے سب کے سب کھانا بھی کھاتے تھے اور بازاروں میں بھی چلتے پھرتے تھے (۲۵:۲۰) اور آیت میں ہے اور اس نے یہ مسئلہ بالکل صاف کر دیا ہے فرماتا ہے: وَمَآ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلاَّ رِجَالاً نُّوحِى إِلَيْهِمْ مِّنْ أَهْلِ الْقُرَى آپ سے پہلے ہم نے بستی والوں میں جتنے رسول بھیجے ہیں سب مرد ہی تھے جن کی طرف ہم وحی نازل فرماتے گئے (۱۲:۱۰۹) چنانچہ جنات کا یہی قول قرآن میں موجود ہے: وَإِذْ صَرَفْنَآ إِلَيْكَ نَفَراً مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْءَانَ ... أُوْلَـئِكَ فِى ضَلَـلٍ مُّبِينٍ اور یاد کرو! جبکہ ہم نے جنوں کی ایک جماعت کو تیری طرف متوجہ کیا کہ وہ قرآن سنیں،پس جب (نبی کے) پاس پہنچ گئے تو (ایک دوسرے سے) کہنے لگے خاموش ہو جاؤ پھر جب پڑھ کر ختم ہوگیا تو اپنی قوم کو خبردار کرنے کے لئے واپس لوٹ گئے۔ کہنے لگے اے ہماری قوم! ہم نے یقیناً وہ کتاب سنی ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد نازل کی گئی ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے جو سچے دین کی اور راہ راست کی رہنمائی کرتی ہے۔ اے ہماری قوم! اللہ کے بلانے والے کا کہا مانو، اس پر ایمان لاؤ تو اللہ تمہارے تمام گناہ بخش دے گا اور تمہیں المناک سزا سے پناہ دے گا اور جو شخص اللہ کے بلانے والے کا کہا نہ مانے گا پس وہ زمین میں کہیں (بھاگ کر اللہ کو)عاجز نہیں کر سکتا اور نہ اللہ کے سوا اور کوئی مددگار ہوں گے یہ لوگ کھلی گمراہی میں ہیں۔ (۴۶:۲۹،۳۲) ترمذی کی حدیث میں ہے کہ اس موقعہ پر جنات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ الرحمٰن پڑھ کر سنائی تھی جس میں چند آیات یہ ہیں: سَنَفْرُغُ لَكُمْ أَيُّهَا الثَّقَلاَنِ ـ فَبِأَىِّ ءَالاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (جنوں اور انسانوں کے گروہو!) عنقریب ہم تمہاری طرف پوری طرح متوجہ ہو جائیں گے پھر اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ (۵۵:۳۱،۳۲) الغرض انسانوں اور جنوں کو اس آیت میں نبیوں کے ان میں سے بھیجنے میں بطور خطاب کے شامل کر لیا ہے ورنہ رسول سب انسان ہی ہوتے ہیں ۔ قَالُوا شَهِدْنَا عَلَى أَنْفُسِنَا ۖ وہ سب عرض کریں گے کہ ہم اپنے اوپر اقرار کرتے ہیں نبیوں کا کام یہی رہا کہ وہ اللہ کی آیتیں سنائیں اور قیامت کے دن سے ڈرائیں ۔ اس سوال کے جواب میں سب کہیں گے کہ ہاں ہمیں اقرار ہے تیرے رسول ہمارے پاس آئے اور تیرا کلام بھی پہنچایا اور اس دن سے بھی متنبہ کر دیا تھا ۔ وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَشَهِدُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُوا كَافِرِينَ اور ان کو دنیاوی زندگی نے بھول میں ڈالے رکھا اور یہ لوگ اقرار کرنے والے ہوں گے کہ وہ کافر تھے (۱۳۰) پھر جناب باری فرماتا ہے انہوں نے دنیا کی زندگی دھوکے میں گزاری رسولوں کو جھٹلاتے رہے ۔ معجزوں کی مخالفت کرتے رہے دنیا کی آرائش پر جان دیتے رہے گئے ۔ شہوت پرستی میں پڑے رہے قیامت کے دن اپنی زبانوں سے اپنے کفر کا اقرار کریں گے کہ ہاں بیشک ہم نے نبیوں کی نہیں مانی ۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہم ذَلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرَى بِظُلْمٍ وَأَهْلُهَا غَافِلُونَ اس وجہ سے کہ آپ کا رب کسی بستی والوں کو کفر کے سبب ایسی حالت میں ہلاک نہیں کرتا کہ اس بستی کے رہنے والے بےخبر ہوں ۔ (۱۳۱) جن اور انسانوں کی طرف رسول بھیج کر ، کتابیں اتار کر ان کے عذر ختم کر دیئے اس لئے کہ یہ اللہ کا اصول نہیں کہ وہ کسی بستی کے لوگوں کو اپنی منشاء معلوم کرائے بغیر چپ چاپ اپنے عذابوں میں جکڑ لے اور اپنا پیغام پہنچائے بغیر بلا وجہ ظلم کے ساتھ ہلاک کر دے ،فرماتا ہے: وَإِن مِّنْ أُمَّةٍ إِلاَّ خَلاَ فِيهَا نَذِيرٌ اور کوئی امت ایسی نہیں ہوئی جس میں کوئی ڈر سنانے والا نہ گزرا ہو (۳۵:۲۴) اور آیت میں ہے: وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِى كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللَّهَ وَاجْتَنِبُواْ الْطَّـغُوتَ ہم نے ہر اُمت میں رسول بھیجا کہ (شیطان) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو۔ (۱۶:۳۶) اور جگہ ہے: وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولاً اور ہماری سنت نہیں کہ رسول بھیجنے سے پہلے ہی عذاب کرنے لگیں ۔ (۱۷:۱۵) سورۃ تبارک میں ہے: كُلَّمَا أُلْقِىَ فِيهَا فَوْجٌ سَأَلَهُمْ خَزَنَتُهَآ أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَذِيرٌ ـ قَالُواْ بَلَى قَدْ جَآءَنَا نَذِيرٌ فَكَذَّبْنَا جب کبھی اس میں کوئی گروہ ڈالا جائیگا اس سے جہنم کے دروغے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس ڈرانے والا کوئی نہیں آیا تھا وہ جواب دیں گے کہ بیشک آیا تھا لیکن ہم نے اسے جھٹلایا (۶۷:۸،۹) اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیتیں ہیں اس آیت کے پہلے جملے کے ایک معنی امام ابن جریر نے اور بھی بیان کئے ہیں اور فی الواقع وہ معنی بہت درست ہیں امام صاحب نے بھی اسی کو ترجیح دی ہےیعنی یہ کہ کسی بستی والوں کے ظلم اور گناہوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انہیں اسی وقت ہلاک نہیں کرتا جب تک نبیوں کو بھیج کر انہیں غفلت سے بیدار نہ کر دے ، وَلِكُلٍّ دَرَجَاتٌ مِمَّا عَمِلُوا ۚ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ اور ہر ایک کے لئے ان کے اعمال کے سبب درجے ملیں گے اور آپ کا رب ان کے اعمال سے بےخبر نہیں ہے۔ (۱۳۲) ہر عامل اپنے عمل کے بدلے کا مستحق ہے ۔ نیک نیکی کا اور بد بدی کا ۔ خواہ انسان ہو خواہ جن ہو۔ بدکاروں کے جہنم میں درجے ان کی بدکاری کے مطابق مقرر ہیں جو لوگ خود بھی کفر کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی راہ الہٰیہ سے روکتے ہیں انہیں عذاب پر عذاب ہوں گے اور ان کے فساد کا بدلہ ملے گا الَّذِينَ كَفَرُواْ وَصَدُّواْ عَن سَبِيلِ اللَّهِ زِدْنَـهُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُواْ يُفْسِدُونَ جنہوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا ہم انہیں عذاب پر عذاب بڑھاتے جائیں گے یہ بدلہ ہوگا ان کی فتنہ پردازیوں کا۔ (۱۶:۸۸) ہر عامل کا عمل اللہ پر روشن ہے تاکہ قیامت کے دن ہر شخص کو اس کے کئے ہوئے کا بدلہ مل جائے ۔ وَرَبُّكَ الْغَنِيُّ ذُو الرَّحْمَةِ ۚ اور آپ کا رب بالکل غنی ہی ہے رحمت والا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی تمام مخلوق سے بےنیاز ہے ، اسے کسی کی کوئی حاجت نہیں ۔ اسے کسی سے کوئی فائدہ نہیں وہ کسی کا محتاج نہیں ۔ ساری مخلوق اپنے ہر حال میں اس کی محتاج ہے ۔ وہ بڑی ہی رافت و رحمت والا ہے رحم و کرم اس کی خاص صفتیں ہیں ۔ جیسے فرمان ہے: إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ اللہ تعالیٰ لوگوں کے ساتھ شفقت اور مہربانی کرنے والا ہے۔ (۲:۱۴۳) إِنْ يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَسْتَخْلِفْ مِنْ بَعْدِكُمْ مَا يَشَاءُ كَمَا أَنْشَأَكُمْ مِنْ ذُرِّيَّةِ قَوْمٍ آخَرِينَ اگر وہ چاہے تم سب کو اٹھا لے اور تمہارے بعد جس کو چاہے تمہای جگہ آباد کردے جیسا کہ تم کو ایک دوسری قوم کی نسل سے پیدا کیا ہے۔ (۱۳۳) تو تم جو اس کی مخالفت کر رہے ہو تو یاد رکھو کہ اگر وہ چاہے تو تمہیں ایک آن میں غارت کر سکتا ہے اور تمہارے بعد ایسے لوگوں کو بسا سکتا ہے جو اس کی اطاعت کریں ۔ یہ اس کی قدرت میں ہے تم دیکھ لو اس نے آخر اوروں کے قائم مقام تمہیں بھی کیا ہے ۔ایک قرن کے بعد دوسرا قرن وہی لاتا ہے ایک کو مار ڈالتا ہے دوسرے کو پیدا کر دیتا ہے لانے لے جانے پر اسے مکمل قدرت ہےجیسے فرمان ہے: إِن يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ أَيُّهَا النَّاسُ وَيَأْتِ بِـاخَرِينَ وَكَانَ اللَّهُ عَلَى ذلِكَ قَدِيراً اگر اسے منظور ہو تو اے لوگو! وہ تم سب کو لے جائے اور دوسروں کو لے آئے، اللہ تعالیٰ اس پر پوری قدرت رکھنے والا ہے (۴:۱۳۳) فرمان ہے: يأَيُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَآءُ إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِىُّ الْحَمِيدُ ـ إِن يَشَأْ يُذْهِبْكُـمْ وَيَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِيدٍ ـ وَمَا ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ بِعَزِيزٍ اے لوگو! تم اللہ کے محتاج ہو اور اللہ بےنیاز اور خوبیوں والا ہے اگر وہ چاہے تو تم کو فنا کر دے اور ایک نئی مخلوق پیدا کر دےاور یہ بات اللہ کو مشکل نہیں۔ (۳۵:۱۵،۱۷) اور فرمان ہے: وَاللَّهُ الْغَنِىُّ وَأَنتُمُ الْفُقَرَآءُ وَإِن تَتَوَلَّوْاْ يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ ثُمَّ لاَ يَكُونُواْ اللہ تعالیٰ غنی ہے اور تم فقیر اور محتاج ہو اور اگر تم روگردان ہو جاؤ تو وہ تمہارے بدلے تمہارے سوا اور لوگوں کو لائے گا جو پھر تم جیسے نہ ہونگے (۴۷:۳۸) ذُرِّيَّةِ سے مراد اصل و نسل ہے ، إِنَّ مَا تُوعَدُونَ لَآتٍ ۖ وَمَا أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ بیشک آنے والی چیز ہے تم عاجز نہیں کر سکتے۔ (۱۳۴) اے نبی آپ ان سے کہہ دیجئے کہ قیامت جنت دوزخ وغیرہ کے جو وعدے تم سے کئے جا رہے ہیں وہ یقیناً سچے ہیں اور یہ سب کچھ ہونے والا ہے تم اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے وہ تمہارے اعادے پر قادر ہے ۔ تم گل سڑ کر مٹی ہو جاؤ گے پھر وہ تمہیں نئی پیدائش میں پیدا کرے گا اس پر کوئی عمل مشکل نہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اے بنی آدم اگر تم میں عقل ہے تو اپنے تئیں مردوں میں شمار کرو واللہ اللہ کی فرمائی ہوئی سب باتیں با یقین ہونے والی ہیں کوئی نہیں جو اللہ کے ارادے میں اسے ناکام کر دے، اس کی چاہت کو نہ ہونے دے، قُلْ يَا قَوْمِ اعْمَلُوا عَلَى مَكَانَتِكُمْ إِنِّي عَامِلٌ ۖ آپ یہ فرما دیجئے اے میری قوم! تم اپنی حالت پر عمل کرتے رہو میں بھی عمل کر رہا ہوں لوگوں تم اپنی کرنی کئے جاؤ میں اپنے طریقے پر قائم ہوں فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ مَنْ تَكُونُ لَهُ عَاقِبَةُ الدَّارِ ۗ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ سو اب جلد ہی تم کو معلوم ہوا جاتا ہے کہ اس عالم کا انجام کار کس کیلئے نافع ہوگا یہ یقینی بات ہے کہ حق تلفی کرنے والوں کو کبھی فلاح نہ ہوگی۔ (۱۳۵) ابھی ابھی معلوم ہو جائے گا کہ ہدایت پر کون تھا اور ضلالت پر کون تھا؟ کون نیک انجام ہوتا ہے اور کون گھٹنوں میں سر ڈال کر روتا ہے ۔جیسے فرمایا : وَقُل لِّلَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ اعْمَلُواْ عَلَى مَكَانَتِكُمْ إِنَّا عَامِلُونَ ـ وَانْتَظِرُواْ إِنَّا مُنتَظِرُونَ ایمان نہ لانے والوں سے کہہ دیجئے کہ تم اپنے طور پر عمل کئے جاؤ ہم بھی عمل میں مشغول ہیں۔ اور تم بھی انتظار کرو ہم بھی منتطر ہیں (۱۱:۱۲۱،۱۲۲) یاد رکھو اللہ نے جو وعدے اپنے رسول سے کئے ہیں سب اٹل ہیں ۔ چنانچہ دنیا نے دیکھ لیا کہ وہ نبی جس کا چپہ چپہ مخالف تھا جس کا نام لینا دو بھر تھا جو یکہ وتنہا تھا جو وطن سے نکال دیا گیا تھا جس کی دشمنی ایک ایک کرتا تھا اللہ نے اسے غلبہ دیا لاکھوں دلوں پر اس کی حکومت ہو گئی اس کی زندگی میں ہی تمام جزیرہ عرب کا وہ تنہا مالک بن گیا یمن اور بحرین پر بھی اس کے سامنے اس کا جھنڈا لہرانے لگا، پھر اس کے جانشینوں نے دنیا کو کھنگال ڈالا بڑی بڑی سلطنتوں کے منہ پھیر دیئے، جہاں گئے غلبہ پایا جدھر رخ کیا ، فتح حاصل کی ، یہی اللہ کا وعدہ تھا : كَتَبَ اللَّهُ لاّغْلِبَنَّ أَنَاْ وَرُسُلِى إِنَّ اللَّهَ قَوِىٌّ عَزِيزٌ اللہ تعالیٰ لکھ چکا ہے کہ بیشک میں اور میرے پیغمبر غالب رہیں گے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ زورآور اور غالب ہے ۔ (۵۸:۲۱) فرما دیا تھا: إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ ءَامَنُواْ فِى الْحَيَوةِ الدُّنْيَا ... وَلَهُمُ الْلَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ یقیناً ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان والوں کی مدد زندگانی دنیا میں بھی کریں گے اور اس دن بھی جب گواہی دینے والے کھڑے ہونگے۔ (۴۰:۵۱،۵۲) جس دن ظالموں کو ان کی (عذر) معذرت کچھ نفع نہ دے گی ان کے لئے لعنت ہی ہوگی اور ان کے لئے برا گھر ہوگا رسولوں کی طرف اس نے وحی بھیجی تھی کہ ہم ظالموں کو تہہ وبالا کر دیں گے اور ان کے بعد زمینوں کے سرتاج تمہیں بنا دیں گے کیونکہ تم مجھ سے اور میرے عذابوں سے ڈرنے والے ہو ۔ وہ پہلے ہی فرما چکا تھا کہ تم میں سے ایمانداروں اور نیک کاروں کو میں زمین کا سلطان بنا دوں گا جیسے کہ پہلے سے یہ دستور چلا آ رہا ہے وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِى الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الاٌّرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِىَ الصَّـلِحُونَ ہم زبور میں پندو نصیحت کے بعد یہ لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے (ہی) ہونگے (۲۱:۱۰۵) ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ ان کے دین میں مضبوطی اور کشائش دے گا جس کے دین سے وہ خوش ہے اور ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا کہ وہ میری عبادت کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھرائیں ۔ الحمد اللہ اللہ تعالیٰ نے اس اُمت سے اپنا یہ وعدہ پورا فرمایا ۔ فللہ احمد و المنہ اولا و اخر او ظاہر او باطنا وَجَعَلُوا لِلَّهِ مِمَّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْأَنْعَامِ نَصِيبًا فَقَالُوا هَذَا لِلَّهِ بِزَعْمِهِمْ وَهَذَا لِشُرَكَائِنَا ۖ اور اللہ تعالیٰ نے جو کھیتی اور مویشی پیدا کئے ہیں ان لوگوں نے ان میں سے کچھ حصہ اللہ کا مقرر کیا اور خود کہتے ہیں کہ یہ تو اللہ کا ہے اور یہ ہمارے معبودوں کا ہے مشرکین کی ایک نو ایجاد (بدعت ) جو کفر و شرک کا ایک طریقہ تھی بیان ہو رہی ہے کہ ہر چیز پیدا کی ہوئی تو ہماری ہے پھر یہ اس میں سے نذرانہ کا کچھ حصہ ہمارے نام کا ٹھہراتے ہیں اور کچھ اپنے گھڑے ہوئے معبودوں کا جنہیں وہ ہمارا شریک بنائے ہوئے ہیں، فَمَا كَانَ لِشُرَكَائِهِمْ فَلَا يَصِلُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَا كَانَ لِلَّهِ فَهُوَ يَصِلُ إِلَى شُرَكَائِهِمْ ۗ پھر جو چیز ان کے معبودوں کی ہوتی ہے وہ تو اللہ کی طرف نہیں پہنچتی اور جو چیز اللہ کی ہوتی ہے وہ ان کے معبودوں کی طرف پہنچ جاتی ہے اسی کے ساتھ ہی یہ بھی کرتے ہیں کہ اللہ کے نام کا ٹھہرایا ہوا نذرانہ بتوں کے نام والے میں مل گیا تو وہ تو بتوں کا ہو گیا لیکن اگر بتوں کے لئے ٹھہرائے ہوئے میں سے کچھ اللہ کے نام والے میں مل گیا تو اسے جھٹ سے نکال لیتے تھے ۔ کوئی ذبیحہ اپنے معبودوں کے نام کا کریں تو بھول کر بھی اس پر اللہ کا نام نہیں لیتے سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ کیا برا فیصلہ وہ کرتے ہیں۔ (۱۳۶) یہ کیسی بری تقسیم کرتے ہیں ۔اولاً تو یہ تقسیم ہی جہالت کی علامت ہے کہ سب چیزیں اللہ کی پیدا کی ہوئی اسی کی ملکیت پھر ان میں سے دوسرے کے نام کی کسی چیز کو نذر کرنے والے یہ کون؟ جو اللہ لا شریک ہے انہیں اس کے شریک ٹھہرانے کا کیا مقصد؟ پھر اس ظلم کو دیکھو اللہ کے حصے میں سے تو بتوں کو پہنچ جائے اور بتوں کا حصہ ہرگز اللہ کو نہ پہنچ سکے یہ کیسے بد ترین اصول ہیں ۔ ایسی ہی غلطی یہ بھی تھی: وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَنَـتِ سُبْحَانَهُ وَلَهُمْ مَّا يَشْتَهُونَ اور وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے لئے لڑکیاں مقرر کرتے ہیں اور اپنے لئے وہ جو اپنی خواہش کے مطابق ہو (۱۶:۵۷) أَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الاٍّنثَى ـ تِلْكَ إِذاً قِسْمَةٌ ضِيزَى کیا تمہارے لئے لڑکے اور اللہ کے لئے لڑکیاں ہیں یہ تو اب بڑی بے انصافی کی تقسیم ہے۔ (۵۳:۲۱،۲۲) وَجَعَلُواْ لَهُ مِنْ عِبَادِهِ جُزْءًا إِنَّ الإنسَـنَ لَكَفُورٌ مُّبِينٌ اور انہوں نے اللہ کے بعض بندوں کو جز ٹھہرا دیا یقیناً انسان کھلا ناشکرا ہے۔ (۴۳:۱۵) وَكَذَلِكَ زَيَّنَ لِكَثِيرٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ قَتْلَ أَوْلَادِهِمْ شُرَكَاؤُهُمْ لِيُرْدُوهُمْ وَلِيَلْبِسُوا عَلَيْهِمْ دِينَهُمْ ۖ اور اسی طرح بہت سے مشرکین کے خیال میں ان کے معبودوں نے ان کی اولاد کے قتل کرنے کو مستحسن بنا رکھا ہے تاکہ وہ ان کو برباد نہ کریں اور تاکہ ان کے دین کو ان پر مشتبہ کردیں جیسے کہ شیطانوں نے انہیں راہ پر لگا دیا ہے کہ وہ اللہ کے لئے خیرات کریں تو اپنے بزرگوں کا نام کا بھی حصہ نکالیں اسی طرح انہیں شیطان نے اس راہ پر بھی لگا رکھا ہے کہ وہ اپنی اولادوں کو بےوجہ قتل کر دیں ۔ کوئی اس وجہ سے کہ ہم اسے کھلائیں گے کہاں سے؟ کوئی اس وجہ سے کہ ان بیٹیوں کی بنا پر ہم کسی کے خسر بنیں گے وغیرہ۔ اس شیطانی حرکت کا نتیجہ ہلاکت اور دین کی الجھن ہے ۔ یہاں تک کہ یہ بدترین طریقہ ان میں پھیل گیا تھا کہ لڑکی کے ہونے کی خبر ان کے چہرے سیاہ کر دیتی تھی ان کے منہ سے یہ نکلتا نہ تھا کہ میرے ہاں لڑکی ہوئی ، قرآن نے فرمایا کہ ان بےگناہ زندہ درگور کی ہوئی بچیوں سے قیامت کے دن سوال ہو گا : بِأَيِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ کہ کس گناہ کی وجہ سے وہ قتل کی گئی (۸۱:۹) وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا فَعَلُوهُ ۖ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ اور اگر اللہ کو منظور ہوتا تو ایسا کام نہ کرتے تو آپ نے ان کو اور جو کچھ غلط باتیں بنا رہے ہیں یونہی رہنے دیجئے۔ (۱۳۷) پس یہ سب وسوسے شیطانی تھے لیکن یہ یاد رہے کہ رب کا ارادہ اور اختیار اس سے الگ نہ تھا اگر وہ چاہتا تو مشرک ایسا نہ کر سکتے ۔لیکن اس میں بھی اس کی حکمت ہے ، اس سے کوئی باز پرس نہیں کر سکتا اور اس کی باز پرس سے کوئی بچ نہیں سکتا ۔ پس اے نبی تو ان سے اور ان کی اس افترا پردازی سے علیحدگی اختیار کر لو اللہ خود ان سے نمٹ لے گا ۔ وَقَالُوا هَذِهِ أَنْعَامٌ وَحَرْثٌ حِجْرٌ لَا يَطْعَمُهَا إِلَّا مَنْ نَشَاءُ بِزَعْمِهِمْ اور وہ اپنے خیال پر یہ بھی کہتے ہیں یہ کچھ مویشی ہیں اور کھیت میں جن کا استعمال ہر شخص کو جائز نہیں ان کو کوئی نہیں کھا سکتا سوائے ان کے جن کو ہم چاہیں حِجْرٌ کے معنی حرام کے ہیں ۔ یہ طریقے شیطانی تھے کوئی اللہ کا مقرر کردہ راستہ نہ تھا ۔ اپنے معبودوں کے نام یہ چیزیں کر دیتے تھے ۔ پھر جسے چاہتے کھلاتے ۔ جیسے فرمان ہے: قُلْ أَرَأَيْتُمْ مَّآ أَنزَلَ اللَّهُ لَكُمْ مِّن رِّزْقٍ فَجَعَلْتُمْ مِّنْهُ حَرَامًا وَحَلاَلاً قُلْ ءَآللَّهُ أَذِنَ لَكُمْ أَمْ عَلَى اللَّهِ تَفْتَرُونَ آپ کہیے یہ تو بتاؤ کہ اللہ نے تمہارے لئے جو کچھ رزق بھیجا تھا پھر تم نے اس کا کچھ حصہ حرام اور کچھ حلال قرار دے لیا ۔ آپ پوچھئے کہ کیا تم کو اللہ نے حکم دیا تھا یا اللہ پر بہتان ہی کرتے ہو۔ (۱۰:۵۹) دوسری آیت میں صاف فرمایا: مَا جَعَلَ اللَّهُ مِن بَحِيرَةٍ وَلاَ سَآئِبَةٍ وَلاَ وَصِيلَةٍ وَلاَ حَامٍ وَلَـكِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَأَكْثَرُهُمْ لاَ يَعْقِلُونَ اللہ تعالیٰ نے نہ بحیرہ کو مشروع کیا ہے اور نہ سائبہ کو اور نہ وصیلہ کو اور نہ حام کو لیکن جو لوگ کافر ہیں وہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ لگاتے ہیں اور اکثر کافر عقل نہیں رکھتے۔ (۵:۱۰۳) وَأَنْعَامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُهَا وَأَنْعَامٌ لَا يَذْكُرُونَ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا افْتِرَاءً عَلَيْهِ ۚ اور مویشی ہیں جن پر سواری یا بار برداری حرام کر دی گئی اور کچھ مویشی ہیں جن پر لوگ اللہ تعالیٰ کا نام نہیں لیتے محض اللہ پر افترا (بہتان) باندھنے کے طور پر ۔ بَحِيرَةٍ سَآئِبَةٍ اور حَامٍ نام رکھ کر ان جانوروں کو اپنے معبودان باطل کے نام پر داغ دیتے تھے پھر ان سے سواری نہیں لیتے تھے، جب ان کے بچے ہوتے تھے تو انہیں ذبح کرتے تھے حج کے لئے بھی ان جانوروں پر سواری کرنا حرام جانتے تھے ۔ نہ کسی کام میں ان کو لگاتے تھے نہ ان کا دودھ نکالتے تھے پھر ان کاموں کو شرعی کام قرار دیتے تھے اور اللہ کا فرمان جانتے تھے سَيَجْزِيهِمْ بِمَا كَانُوا يَفْتَرُونَ ابھی اللہ تعالیٰ ان کو ان کے افترا کی سزا دیئے دیتا ہے۔ (۱۳۸) اللہ انہیں ان کے اس کرتوت کا اور بہتان بازی کا بدلہ دے گا ۔ وَقَالُوا مَا فِي بُطُونِ هَذِهِ الْأَنْعَامِ خَالِصَةٌ لِذُكُورِنَا وَمُحَرَّمٌ عَلَى أَزْوَاجِنَا ۖ وَإِنْ يَكُنْ مَيْتَةً فَهُمْ فِيهِ شُرَكَاءُ ۚ اور وہ کہتے ہیں کہ جو چیز مویشی کے پیٹ میں ہے وہ خالص ہمارے مردوں کے لئے ہے اور ہماری عورتوں پر حرام ہیں۔ اور اگر وہ مردہ ہے تو اس میں سب برابر ہیں۔ ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ جاہلیت میں یہ بھی رواج تھا کہ جن چوپایوں کو وہ اپنے معبودان باطل کے نام کر دیتے تھے ان کا دودھ صرف مرد پیتے تھے جب انہیں بچہ ہوتا تو اگر نر ہوتا تو صرف مرد ہی کھاتے اگر مادہ ہوتا تو اسے ذبح ہی نہ کرتے اور اگر پیٹ ہی سے مردہ نکلتا تو مرد عورت سب کھاتے اللہ نے اس فعل سے بھی روکا ۔ شعبی کا قول ہے کہ بحیرہ کا دودھ صرف مرد پیتے اور اگر وہ مر جاتا تو گوشت مرد عورت سب کھاتے ۔ سَيَجْزِيهِمْ وَصْفَهُمْ ۚ إِنَّهُ حَكِيمٌ عَلِيمٌ ابھی اللہ ان کی غلط بیانی کی سزا دیئے دیتا ہے بلاشبہ وہ حکمت والا اور بڑا علم والا ہے۔ (۱۳۹) انکی ان جھوٹی باتوں کا بدلہ اللہ انہیں دے گا کیونکہ یہ سب ان کا جھوٹ اللہ پر باندھا ہوا تھا، فلاح و نجات اسی لئے ان سے دور کر دی گئی تھی ۔ وَلاَ تَقُولُواْ لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ ... عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لاَ يُفْلِحُونَ کسی چیز کو اپنی زبان سے جھوٹ موٹ نہ کہہ دیا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اللہ پر جھوٹ بہتان باندھ لو، سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ پر بہتان بازی کرنے والے کامیابی سے محروم ہی رہتے ہیں۔ یہ اپنی مرضی سے کسی کو حلال کسی کو حرام کر لیتے تھے پھر اسے رب کی طرف منسوب کر دیتے تھے اللہ جیسے حکیم کا کوئی فعل کوئی قول کوئی شرع کوئی تقدیر بےحکمت نہیں تھی وہ اپنے بندوں کے خیر و شر سے دانا ہے اور انہیں بدلے دینے والا ہے ۔ (۱۶:۱۱۶) قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ قَتَلُوا أَوْلَادَهُمْ سَفَهًا بِغَيْرِ عِلْمٍ وَحَرَّمُوا مَا رَزَقَهُمُ اللَّهُ افْتِرَاءً عَلَى اللَّهِ ۚ واقعی خرابی میں پڑ گئے وہ لوگ جنہوں نے اپنی اولاد کو محض برائے حماقت بلا کسی سند کے قتل کر ڈالا اور جو چیزیں ان کو اللہ نے ان کو کھانے پینے کے لئے دی تھیں ان کو حرام کر لیا جو اللہ پر افترا باندھنے کے طور پر۔ اولاد کے قاتل اللہ کے حلال کو حرام کرنے والے دونوں جہان کی بربادی اپنے اوپر لینے والے ہیں ۔ دنیا کا گھاٹا تو ظاہر ہے ان کے یہ دونوں کام خود انہیں نقصان پہنچانے والے ہیں بے اولاد یہ ہو جائیں گے مال کا ایک حصہ ان کا تباہ ہو جائے گا ۔ رہا آخرت کا نقصان سو چونکہ یہ مفتری ہیں، کذاب ہیں، قَدْ ضَلُّوا وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ بیشک یہ لوگ گمراہی میں پڑ گئے اور کبھی راہ راست پر چلنے والے نہیں ہوئے۔ (۱۴۰) وہاں کی بدترین جگہ انہیں ملے گی ، عذابوں کے سزاوار ہوں گے جیسے فرمان ہے: قُلْ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ ... بِمَا كَانُواْ يَكْفُرُونَ آپ کہہ دیجئے کہ جو لوگ اللہ پر جھوٹ افترا کرتے ہیں وہ کامیاب نہ ہونگے۔ یہ دنیا میں تھوڑا سی عیش ہے پھر ہمارے پاس ان کو آنا ہے پھر ہم ان کو ان کے کفر کے بدلے سخت عذاب چکھائیں گے۔ (۱۰:۶۹،۷۰) ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ اگر تو اسلام سے پہلے کے عربوں کی بد خصلتی معلوم کرنا چاہے تو سورۃ انعام کی آیت قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ والی آیت پڑھو (بخاری کتاب مناقب قریش) وَهُوَ الَّذِي أَنْشَأَ جَنَّاتٍ مَعْرُوشَاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشَاتٍ وَالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا أُكُلُهُ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ اور وہی ہے جس نے باغات پیدا کئے وہ بھی جو ٹٹیوں میں چڑھائے جاتے ہیں اور وہ بھی جو ٹٹیوں پر نہیں چڑھائے جاتے اور کھجور کے درخت اور کھیتی جن میں کھانے کی مختلف چیزیں مختلف طور کی ہوتی ہیں اور زیتون اور انار خالق کل اللہ تعالیٰ ہی ہے کھیتیاں پھل چوپائے سب اسی کے پیدا کئے ہوئے ہیں کافروں کو کوئی حق نہیں کہ حرام حلال کی تقسیم از خود کریں ۔ درخت بعض تو بیل والے ہیں جیسے انگور وغیرہ کہ وہ محفوظ ہوتے ہیں بعض کھڑے جو جنگلوں اور پہاڑوں پر کھڑے ہوئے ہیں ۔ مُتَشَابِهًا وَغَيْرَ مُتَشَابِهٍ ۚ جو باہم ایک دوسر کے مشابہ بھی ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے مشابہ نہیں بھی ہوتے دیکھنے میں ایک دورے سے ملتے جلتے مگر پھلوں کے ذائقے کے لحاظ سے الگ الگ۔ كُلُوا مِنْ ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ ۖ ان سب کے پھلوں میں سے کھاؤ جب وہ نکل آئے اور اس میں جو حق واجب ہے وہ اسکے کاٹنے کے دن دیا کرو انگور کھجور یہ درخت تمہیں دیتے ہیں کہ تم کھاؤ مزہ اٹھاؤ لطف پاؤ ۔ اس کا حق اس کے کٹنے اور ناپ تول ہونے کے دن ہی دو یعنی فرض زکوٰۃ جو اس میں مقرر ہو وہ ادا کر دو ۔ پہلے لوگ کچھ نہیں دیتے تھے شریعت نے دسواں حصہ مقرر کیا اور ویسے بھی مسکینوں اور بھوکوں کا خیال رکھنا ۔ چنانچہ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ حضور ﷺنے فرمان صادر فرمایا تھا : جس کی کھجوریں دس وسق سے زیادہ ہوں وہ چند خوشے مسجد میں لا کر لٹکا دے تاکہ مساکین کھا لیں ۔ یہ بھی مراد ہے کہ زکوٰۃ کے سوا اور کچھ سلوک بھی اپنی کھیتیوں باڑیوں اور باغات کے پھلوں سے اللہ کے بندوں کے ساتھ کرتے رہو ، مثلاً پھل توڑنے اور کھیت کاٹنے کے وقت عموماً مفلس لوگ پہنچ جایا کرتے ہیں انہیں کچھ چھوڑ دو تاکہ مسکینوں کے کام آئے ۔ ان کے جانوروں کا چارہ ہو ، زکوٰۃ سے پہلے بھی حقداروں کو کچھ نہ کچھ دیتے رہا کرو،پہلے تو یہ بطور وجوب تھا لیکن زکوٰۃ کی فرضیت کے بعد بطور نفل رہ گیا زکوٰۃ اس میں عشر یا نصف عشر مقرر کر دی گئی لیکن اس سے فسخ نہ سمجھا جائے ۔ پہلے کچھ دینار ہوتا تھا پھر مقدار مقرر کر دی گئی زکوٰۃ کی مقدار ۲ ہجری میں مقرر ہوئی ۔ واللہ اعلم ۔ کھیتی کاٹتے وقت اور پھل اتارتے وقت صدقہ نہ دینے والوں کی اللہ تعالیٰ نے مذمت بیان فرمائی سورۃ نمَا بَلَوْنَا أَصْحَابَ الْجَنَّةِ … لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ (۶۸:۱۷،۳۳) ، میں ان کا قصہ بیان فرمایا : جس طرح ہم نے باغ والوں کو آزمایا تھا جبکہ انہوں نے قسمیں کھائیں کہ صبح ہوتے ہی اس باغ کے پھل اتار لیں گے۔ اور انشاء اللہ نہ کہا۔ پس اس پر تیرے رب کی جانب سے ایک بلا چاروں طرف گھوم گئی اور یہ سو رہے تھے پس وہ باغ ایسا ہوگیا جیسے کٹی ہوئی کھیتی اب صبح ہوتے ہی انہوں نے ایک دوسرے کو آوازیں دیں۔ اگر تمہیں پھل اتارنے ہیں تو اپنی کھیتی پر سویرے ہی سویرے چل پڑو۔ پھر جب یہ چپکے چپکے یہ باتیں کرتے ہوئے چلے کہ آج کے دن کوئی مسکین تمہارے پاس نہ آنے پائے اور لپکے ہوئے صبح صبح گئے (سمجھ رہے تھے) کہ ہم قابو پا گئے جب انہوں نے باغ دیکھا تو کہنے لگے یقیناً ہم راستہ بھول گئے ہیں۔ نہیں نہیں ہماری قسمت پھوٹ گئی ان سب میں جو بہتر تھا اس نے کہا میں تم سے نہ کہتا تھا کہ تم اللہ کی پاکیزگی کیوں نہیں بیان کرتے تو سب کہنے لگے ہمارا رب پاک ہے بیشک ہم ہی ظالم تھے۔ پھر ایک دوسرے کی طرف رخ کر کے آپس میں ملامت کرنے لگے۔ کہنے لگے ہائے افسوس! یقیناً ہم سرکش تھے۔ کیا عجب ہے کہ ہمارا رب ہمیں اس سے بہتر بدلہ دے ہم تو اب اپنے رب سے ہی آرزو رکھتے ہیں یوں ہی آفت آتی ہے اور آخرت کی آفت بہت ہی بڑی ہے کاش انہیں سمجھ ہوتی وَلَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ اور حد سے مت گزرویقیناً وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ہے ۔ (۱۴۱) یہاں اس آیت میں صدقہ دینے کا حکم فرما کر خاتمے پر فرمایا کہ فضول خرچی سے بچو فضول خرچ اللہ کا دوست نہیں ۔ اپنی اوقات سے زیادہ نہ لٹا فخر دریا کے طور پر اپنا مال برباد نہ کرو ۔ حضرت ثابت بن قیس بن شماس نے اپنے کھجوروں کے باغ سے کھجوریں اتاریں اور عہد کر لیا کہ آج جو لینے آئے گا میں اسے دوں گا لوگ ٹوٹ پڑے شام کو ان کے پاس ایک کھجور بھی نہ رہی ۔ اس پر یہ فرمان اترا۔ ہر چیز میں اسراف منع ہے ، اللہ کے حکم سے تجاوز کر جانے کا نام اسراف ہے خواہ وہ کسی بارے میں ہو ۔ اپنا سارا ہی مال لٹا کر فقیر ہو کر دوسروں پر اپنا انبار ڈال دینا بھی اسراف ہے اور منع ہے ، یہ بھی مطلب ہے کہ صدقہ نہ روکو جس سے اللہ کے نافرمان بن جاؤ یہ بھی اسراف ہے گویہ مطلب اس آیت کے ہیں لیکن بظاہر الفاظ یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلے کھانے کا ذکر ہے تو اسراف اپنے کھانے پینے میں کرنے کی ممانعت یہاں ہے کیونکہ اس سے عقل میں اور بدن میں ضرر پہنچا ہے ۔ اور آیت میں ہے: وكُلُواْ وَاشْرَبُواْ وَلاَ تُسْرِفُواْ کھاؤ پیو اور اسراف نہ کرو ۔ (۷:۳۱) صحیح بخاری میں ہے: کھاؤ پیؤ پہنو اوڑھو لیکن اسراف اور تکبر سے بچو وَمِنَ الْأَنْعَامِ حَمُولَةً وَفَرْشًا ۚ اور مویشی میں اونچے قد کے اور چھوٹے قد کے پیدا کیے ہیں اسی اللہ نے تمہارے لئے چوپائے پیدا کئے ہیں ان میں سے بعض تو بوجھ ڈھونے والے ہیں جیسے اونٹ گھوڑے خچر گدھے وغیرہ اور بعض پستہ قد ہیں جیسے بکری وغیرہ، انہیں فَرْش اس لئے کہا گیا کہ یہ قد و قامت میں پست ہوتے ہیں زمین سے ملے رہتے ہیں ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ حَمُولَةً سے مراد سواری کے جانور اور فَرْشًا سے مراد جن کا دودھ پیا جاتا ہے اور جن کا گوشت کھایا جاتا ہےجو سواری کے قابل نہیں ان کے بالوں سے لحاف اور فرش تیار ہوتے ہیں ۔ یہ قول حضرت سدی کا ہے اور بہت ہی مناسب ہے خود قرآن کی سورۃ یٰسین میں موجود ہے: أَوَلَمْ يَرَوْاْ أَنَّا خَلَقْنَا لَهُم مِمَّا عَمِلَتْ أَيْدِينَآ أَنْعـماً فَهُمْ لَهَا مَـلِكُونَ ـ وَذَلَّلْنَـهَا لَهُمْ فَمِنْهَا رَكُوبُهُمْ وَمِنْهَا يَأْكُلُونَ کیا وہ نہیں دیکھتے ہم نے اپنے ہاتھوں بنائی ہوئی چیزوں میں سے انکے لئے چوپائے بھی پیدا کئے جنکے کہ یہ مالک ہوگئے ہیں اور ان مویشیوں کو ہم نے ان کے تابع فرمان کردیا جن میں سے بعض تو ان کی سواریاں ہیں اور بعض کا گوشت کھاتے ہیں۔ (۳۶:۷۱،۷۲) اور آیت میں ہے: وَإِنَّ لَكُمْ فِى الاٌّنْعَـمِ لَعِبْرَةً نُّسْقِيكُمْ مِّمَّا فِى بُطُونِهِ مِن بَيْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَآئِغًا لِلشَّارِبِينَ تمہارے لئے تو چوپایوں میں بھی بڑی عبرت ہے کہ ہم تمہیں اسکے پیٹ میں جو کچھ ہے اسی میں سے گوبر اور لہو کے درمیان سے خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لئے سہتا پچتا ہے ۔ (۱۶:۶۶) اور جگہ ہے: اللَّهُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَنْعَامَ ... فَأَيَّ آيَاتِ اللَّهِ تُنكِرُونَ اللہ وہ ہے جس نے تمہارے لئے چوپائے پیدا کئے جن میں سے بعض پر تم سوار ہوتے ہو اور بعض کو تم کھاتے ہو۔ اور بھی تمہارے لئے ان میں بہت سےفٖائدے ہیں اور تاکہ اپنے سینوں میں چھپی ہوئی حاجتوں کو انہی پر سواری کرکے تم حاصل کر لو اور ان چوپایوں پر اور کشتیوں پر سوار کئے جاتے ہو۔ اللہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا جا رہا ہے پس تم اللہ کی کن کن نشانیوں کا منکر بنتے رہو گے۔ (۴۰:۷۹،۸۱) كُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ جو کچھ اللہ نے تم کو دیا کھاؤ اور شیطان کے قدم بقدم مت چلو بلاشبہ وہ تمہارا صریح دشمن ہے۔ (۱۴۲) پھر فرماتا ہے اللہ کی روزی کھاؤ پھل، اناج ، گوشت وغیرہ ۔ شیطانی راہ پر نہ چلو، اس کی تابعداری نہ کرو جیسے کہ مشرکوں نے اللہ کی چیزوں میں از خود حلال حرام کی تقسیم کر دی تم بھی یہ کر کے شیطان کے ساتھی نہ بنو۔ إِنَّ الشَّيْطَـنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوّاً إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُواْ مِنْ أَصْحَـبِ السَّعِيرِ یاد رکھو ! شیطان تمہارا دشمن ہے’ تم اسے دشمن جانو وہ تو اپنے گروہ کو صرف اس لئے ہی بلاتا ہے کہ وہ سب جہنم واصل ہو جائیں۔ (۳۵:۶) دیکھو کہیں اس کے بہکانے میں نہ آ جانا اسی نے تمہارے باپ آدم کو جنت سے باہر نکلوایا ، اس کھلے دشمن کو بھولے سے بھی اپنا دوست نہ سمجھو ۔ يَـبَنِى آدَمَ لاَ يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطَـنُ كَمَآ أَخْرَجَ أَبَوَيْكُم مِّنَ الْجَنَّةِ يَنزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوْءَتِهِمَآ اے اولاد آدم! شیطان تم کو کسی خرابی میں نہ ڈال دے جیسا کہ اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے باہر کر دیا ایسی حالت میں ان کا لباس بھی اتروا دیا تاکہ وہ ان کو ان کی شرم گاہیں دکھائے۔ (۷:۲۷) اس کی ذریت سے اور اس کے یاروں سے بھی بچو ۔ أَفَتَتَّخِذُونَهُ وَذُرِّيَّتَهُ أَوْلِيَآءَ مِن دُونِى وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ بِئْسَ لِلظَّـلِمِينَ بَدَلاً کیا پھر بھی تم اسے اور اسکی اولاد کو مجھے چھوڑ کر اپنا دوست بنا رہے ہو؟ حالانکہ وہ تم سب کا دشمن ہے ایسے ظالموں کا کیا ہی برا بدلہ ہے (۱۸:۵۰) اس مضمون کی اور بھی آیتیں کلام اللہ شریف میں بہت سی ہیں ۔ ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ ۖ مِنَ الضَّأْنِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَيْنِ ۗ (پیدا کئے) آٹھ نر مادہ یعنی بھیڑ میں دو قسم اور بکری میں دو قسم قُلْ آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ أَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ أَرْحَامُ الْأُنْثَيَيْنِ ۖ نَبِّئُونِي بِعِلْمٍ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ آپ کہئے کہ کیا اللہ نے ان دونوں نروں کو حرام کیا ہے یا دونوں مادہ کو؟ یا اس کو جس کو دونوں مادہ پیٹ میں لئے ہوئے ہے تم مجھ کو کسی دلیل سے بتاؤ اگر سچے ہو ۔ (۱۴۳) اسلام سے پہلے عربوں کی جہالت بیان ہو رہی ہے کہ انہوں نے چوپائے جانوروں میں تقسیم کر کے اپنے طور پر بہت سے حلال بنائے تھے اور بہت سے حرام کر لئے تھے جیسے بحیرہ ، سائبہ ، وسیلہ اور حام وغیرہ ۔ اسی طرح کھیت اور باغات میں بھی تقسیم کر رکھی تھی ۔ اللہ بیان فرماتا ہے کہ سب کا خالق اللہ ہے، کھیت ہوں باغات ہوں، چوپائے ہوں پھر ان چوپایوں کی قسمیں بیان فرمائیں بھیڑ ، مینڈھا ، بکری ، بکرا، اونٹ ، اونٹنی ، گائے ، بیل ۔ اللہ نے یہ سب چیزیں تمہارے کھانے پینے، سواریاں لینے، اور دوری قسم کے فائدوں کے لئے پیدا کی ہیں جیسے فرمان ہے: وَأَنزَلَ لَكُمْ مِّنَ الاٌّنْعَـمِ ثَمَـنِيَةَ أَزْوَجٍ اس نے تمہارے لئے آٹھ قسم کے مویشی پیدا کئے ہیں ۔ (۳۹:۶) بچوں کا ذکر اس لئے کیا کہ ان میں بھی کبھی وہ مردوں کیلئے مخصوص کر کے عورتوں پر حرام کر دیتے تھے پھر ان سے ہی سوال ہوتا ہے کہ آخر اس حرمت کی کوئی دلیل کوئی کیفیت کوئی وجہ تو پیش کرو ۔ وَمِنَ الْإِبِلِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ اثْنَيْنِ ۗ اور اونٹ میں دو قسم اور گائے میں دو قسم قُلْ آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ أَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ أَرْحَامُ الْأُنْثَيَيْنِ ۖ آپ کہئے کہ کیا یہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں نروں کو حرام کیا ہے یا دونوں مادہ کو؟ یا اسکو جس کو دونوں مادہ پیٹ میں لئے ہوئے ہوں؟ چار قسم کے جانور اور مادہ اور نر ملا کر آٹھ قسم کے ہو گئے ، ان سب کو اللہ نے حلال کیا ہے کیا تو اپنی دیکھی سنی کہہ رہے ہو؟ أَمْ كُنْتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ وَصَّاكُمُ اللَّهُ بِهَذَا ۚ کیا تم حاضر تھے جس وقت اللہ تعالیٰ نے تم کو اس کا حکم دیا اس فرمان الہٰی کے وقت تم موجود تھے؟ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا لِيُضِلَّ النَّاسَ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ تو اس سے زیادہ کون ظالم ہوگا جو اللہ تعالیٰ پر بلا دلیل جھوٹی تہمت لگائے تاکہ لوگوں کو گمراہ کرےیقیناً اللہ تعالیٰ ظالم کو راست نہیں دکھلاتا۔ (۱۴۴) کیوں جھوٹ کہہ کر افترا پردازی کر کے بغیر علم کے باتیں بنا کر اللہ کی مخلوق کی گمراہی کا بوجھ اپنے اوپر لاد کر سب سے بڑھ کر ظالم بن رہے ہو؟ اگر یہی حال رہا تو دستور ربانی کے ماتحت ہدایت الہٰی سے محروم ہو جاؤ گے ۔ سب سے پہلے یہ ناپاک رسم عمرو بن لحی بن قمعہ خبیث نے نکالی تھی اسی نے انبیاء کے دین کو سب سے پہلے بدلا اور غیر اللہ کے نام پر جانور چھوڑے ۔ جیسے کہ صحیح حدیث میں آ چکا ہے ۔ قُلْ لَا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ آپ کہہ دیجئے جو کچھ احکام بذریعہ وحی میرے پاس آئے ان میں تو میں کوئی حرام نہیں پاتا کسی کھانے والے کے لئے جو اس کو کھائے، اللہ تعالیٰ عزوجل اپنے بندے اور نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ آپ ان کافروں سے جو اللہ کے حلال کو اپنی طرف سے حرام کرتے ہیں فرما دیں کہ جو وحی الہٰی میرے پاس آئی ہے اس میں تو حرام صرف ان چیزوں کو کیا گیا ہے ، جو میں تمہیں سناتا ہوں، اس میں وہ چیزیں حرمت والی نہیں، جن کی حرمت کو تم رائج کر رہے ہو، کسی کھانے والے پر حیوانوں میں سے سوا ان جانوروں کے جو بیان ہوئے ہیں کوئی بھی حرام نہیں ۔ اس آیت کے مفہوم کا رفع کرنے والی اس آیت کے بعد کی سورۃ مائدہ کی آیتیں ہیں اور دوسری حدیثیں بھی جن میں حرمت کا بیان ہے بعض لوگ اسے نسخ کہتے ہیں اور اکثر متآخرین اسے نسخ نہیں کہتے کیونکہ اس میں تو اصلی مباح کو اٹھا دینا ہے ۔ واللہ اعلم إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنْزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ ۚ مگر یہ کہ وہ مردار ہو یا بہتا ہوا خون ہو یا خنزیر کا گوشت ہو، کیونکہ وہ بالکل ناپاک ہے یا جو شرک کا ذریعہ ہو کر غیر اللہ کے لئے نامزد کر دیا گیا ہو خون وہ حرام ہے جو بوقت ذبح بہہ جاتا ہے ، رگوں میں اور گوشت میں جو خون مخلوط ہو وہ حرام نہیں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا گدھوں اور درندوں کا گوشت اور ہنڈیا کے اوپر جو خون کی سرخی آ جائے ، اس میں کوئی حرج نہیں جانتی تھیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا گدھوں اور درندوں کا گوشت اور ہنڈیا کے اوپر جو خون کی سرخی آ جائے ، اس میں کوئی حرج نہیں جانتی تھیں۔ عمرو بن دینار نے حضرت جابر بن عبداللہ سے سوال کیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ خیبر کے موقعہ پر پالتو گدھوں کا کھانا حرام کر دیا ہے ، آپ نے فرمایا ، ہاں حکم بن عمر تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی روایت کرتے ہیں لیکن حضرت ابن عباسؓ اس کا انکار کرتے ہیں اور آیت قُلْ لَا أَجِدُ تلاوت کرتے ہیں، ابن عباسؓ کا فرمان ہے کہ اہل جاہلیت بعض چیزیں کھاتے تھے بعض کو بوجہ طبعی کراہیت کے چھوڑ دیتے تھے ۔ اللہ نے اپنے نبی کو بھیجا ، اپنی کتاب اتاری، حلال حرام کی تفصیل کر دی ، پس جسے حلال کر دیا وہ حلال ہے اور جسے حرام کر دیا وہ حرام ہے اور جس سے خاموش رہے وہ معاف ہے ۔ پھر آپ نے اسی آیتقُلْ لَا أَجِدُ کی تلاوت کی حضرت سودہ بنت زمعہ کی بکری مر گئی ، جب حضور سے ذکر ہوا تو آپﷺ نے فرمایا تم نے اس کی کھال کیوں نہ اتار لی ؟ جواب دیا کہ کیا مردہ بکری کی کھال اتار لینی جائز ہے؟ آپﷺ نے یہی آیت تلاوت فرما کر فرمایا کہ اس کا صرف کھانا حرام ہے ، لیکن تم اسے دباغت دے کر نفع حاصل کر سکتے ہوں۔ چنانچہ انہوں نے آدمی بھیج کر کھال اتروالی اور اس کی مشک بنوائی جو ان کے پاس مدتوں رہی اور کام آئی ۔ (بخاری) حضرت ابن عمر ؓسے خار پشت یعنی ساہی کے کھانے کی نسبت سوال ہوا تو آپ نے یہی آیت پڑھی اس پر ایک بزرگ نے فرمایا میں نے حضرت ابوہریرہؓ سے سنا ہے کہ ایک مرتبہ اس کا ذکر رسول ﷺ کے سامنے آیا تھا تو آپﷺ نے فرمایا وہ ایک شئہ خبیث ہے خبائث میں سے اسے سن کر حضرت ابن عمر ؓنے فرمایا اگر حضور ﷺنے یہ فرمایا ہے تو وہ یقیناً ویسی ہی ہے جیسے آپ نے ارشاد فرما دیا (ابو داؤد وغیرہ) فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَحِيمٌ پھر جو شخص مجبور ہو جائے بشرطیکہ نہ تو طالب لذت ہو اور نہ تجاوز کرنے والا تو واقع ہی آپکا رب غفور و رحیم ہے (۱۴۵) پھر فرمایا جو شخص ان حرام چیزوں کو کھانے پر مجبور ہو جائے لیکن وہ باغی اور حد سے تجاوز کرنے والا نہ ہو تو اسے اس کا کھا لینا جائز ہے اللہ اسے بخش دے گا کیونکہ وہ غفور و رحیم ہے اس کی کامل تفسیر سورۃ بقرہ میں گزر چکی ہے یہاں تو مشرکوں کے اس فعل کی تردید منظور ہے جو انہوں نے اللہ کے حلال کو حرام کر دیا تھا اب بتا دیا گیا کہ یہ چیزیں تم پر حرام ہیں اس کے علاوہ کوئی چیز حرام نہیں ۔ اگر اللہ کی طرف سے وہ بھی حرام ہوتیں تو ان کا ذکر بھی آ جاتا ۔ پھر تم اپنی طرف سے حلال کیوں مقرر کرتے ہو؟ اس بنا پر پھر اور چیزوں کی حرمت باقی رہتی جیسے کہ گھروں کے پالتو گدھوں کی ممانعت اور درندوں کے گوشت کی اور جنگل والے پرندوں کی جیسے کہ علماء کا مشہور مذہب ہے (یہ یاد رہے کہ ان کی حرمت قطعی ہے کیونکہ صحیح احادیث سے ثابت ہے اور قرآن نے حدیث کا ماننا بھی فرض کیا ہے ۔ مترجم) وَعَلَى الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمْنَا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ ۖ اور یہود پر ہم نے تمام ناخن والے جانور حرام کر دئیے تھے ناخن دار جانور چوپایوں اور پرندوں میں سے وہ ہیں ، جن کی انگلیاں کھلی ہوئی نہ ہوں جیسے اونٹ ، شتر مرغ، بطخ وغیرہ ۔ ان کا کھانا یہودیوں پر حرام تھا ۔ سعید بن جبیر کا قول ہے کہ جو کھلی انگلیوں والا نہ ہو۔ ایک روایت میں ان سے مروی ہے کہ ہر ایک جدا انگلیوں والا اور انہی میں سے مرغ ہے ۔ قتادہ کا قول ہے جیسے اونٹ ، شتر مرغ اور بہت سے پرند ، مچھلیاں، بطخ اور اس جیسے جانور جن کی انگلیاں الگ الگ ہیں ۔ وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ شُحُومَهُمَا إِلَّا مَا حَمَلَتْ ظُهُورُهُمَا أَوِ الْحَوَايَا أَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ ۚ اور گائے اور بکری میں سے ان دونوں کی چربیاں ان پر ہم نے حرام کر دی تھیں مگر وہ جو ان کی پشت پر یا انتڑیوں میں لگی ہو یا ہڈی سے ملی ہو اسی طرح گائے بکری کی چربی بھی ان پر حرام تھی ۔ یہود کا مقولہ تھا کہ اسرائیل نے اسے حرام کر لیا تھا، اس لئے ہم بھی اسے حرام کہتے ہیں ۔ ہاں جو چربی پیٹھ کے ساتھ لگی ہوئی ہو، انتڑیوں ، اوجھڑی کے ساتھ، ہڈی کے ساتھ ہو وہ ان پر حلال تھی، ذَلِكَ جَزَيْنَاهُمْ بِبَغْيِهِمْ ۖ وَإِنَّا لَصَادِقُونَ ان کی شرارت کے سبب ہم نے ان کو یہ سزا دی اور ہم یقیناً سچے ہیں ۔ (۱۴۶) یہ بھی ان کے ظلم ، تکبر اور سرکشی کا بدلہ تھا اور ہماری نا فرمانی کا انجام ، جیسے فرمان ہے: فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِينَ هَادُواْ حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبَـتٍ أُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَن سَبِيلِ اللَّهِ كَثِيراً جو نفیس چیزیں ان کیلئے حلال کی گئی تھیں وہ ہم نے ان پر حرام کر دیں انکے ظلم کے باعث اور اللہ تعالیٰ کی راہ سے اکثر لوگوں کو روکنے کے باعث (۴:۱۶۰) یہودیوں کے ظلم وستم اور راہ حق سے روک کی وجہ سے ہم نے ان پر بعض پاکیزہ چیزیں بھی حرام کر دی تھیں اور اس جزا میں ہم عادل ہی تھے اور جیسی خبر ہم نے تجھے اے نبی دی ہے، وہی سچ اور حق ہے ۔یہودیوں کا یہ کہنا کہ حضرت اسرائیل نے اسے حرام کیا تھا ، اس لئے ہم اسے اپنے آپ پر بھی حرام کرتے ہیں ۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو جب معلوم ہوا کہ سمرہ نے شراب فروشی کی ہے تو آپ نے فرمایا اللہ اسے غارت کرے، کیا یہ نہیں جانتا کہ حضور ﷺنے فرمایا ہے اللہ تعالیٰ نے یہودیوں پر لعنت کی کہ جب ان پر چربی حرام ہوئی تو انہوں نے اسے پگھلا کر بیچنا شروع کر دیا ۔ جابر بن عبداللہ ؓ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فتح مکہ والے سال فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے شراب ، مردار ، سؤر اور بتوں کی خرید و فروخت حرام فرمائی ہے آپ ﷺسے دریافت کیا گیا کہ مردار کی چربیوں کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اس سے چمڑے رنگے جاتے ہیں اور کشتیوں پر چڑھایا جاتا ہے اور چراغ میں جلایا جاتا ہے آپ ﷺنے فرمایا وہ بھی حرام ہے ۔ پھر اس کے ساتھ ہی آپ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ یہودیوں کو غارت کرے ، جب ان پر چربی حرام ہوئی تو انہوں نے اسے پگھلا کر بیچ کر اس کی قیمت کھانا شروع کر دی (بخاری مسلم) ایک مرتبہ آپﷺ خانہ کعبہ میں مقام ابراہیم کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے آسمان کی طرف نظر اٹھائی اور تین مرتبہ یہودیوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا! اللہ نے ان پر چربی حرام کی تو انہوں نے اسے بیچ کر اس کی قیمت کھائی ۔ اللہ تعالیٰ جن پر جو چیز حرام کرتا ہے ان پر اس کی قیمت بھی حرام فرما دیتا ہے ایک مرتبہ آپ مسجد حرام میں حطیم کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھے ہوئے تھے آسمان کی طرف دیکھ کر ہنسے اور یہی فرمایا (ابوداؤد ابن مردویہ مسند احمد) حضرت اسامہ بن زیدؓ رسول ﷺکی بیماری کے زمانے میں آپ کی عیادت کے لئے گئے اس وقت آپ عدن کی چادر اوڑھے ہوئے لیٹے تھے، آپ نے چہرہ سے چادر ہٹا کر فرمایا ، اللہ یہودیوں پر لعنت کرے کہ بکریوں کی چربی کو حرام مانتے ہوئے اس کی قیمت کھاتے ہیں۔ ابوداؤد میں ابن عباسؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ اللہ جب کسی قوم پر کسی چیز کا کھانا حرام کرتا ہے تو اس کی قیمت بھی حرام فرما دیتا ہے ۔ فَإِنْ كَذَّبُوكَ فَقُلْ رَبُّكُمْ ذُو رَحْمَةٍ وَاسِعَةٍ وَلَا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ پھر اگر یہ آپ کو جھوٹا کہیں تو آپ فرما دیجئے کہ تمہارا رب بڑی وسیع رحمت والا ہے اور اس کا عذاب مجرم لوگوں سے نہ ٹلے گا ۔ (۱۴۷) اب بھی اگر تیرے مخالف یہودی اور مشرک وغیرہ تجھے جھوٹا بتائیں تو بھی تو انہیں میری رحمت سے مایوس نہ کر بلکہ انہیں رب کی رحمت کی وسعت یاد دلاتا کہ انہیں اللہ کی رضا جوئی کی تبلیغ ہو جائے ، ساتھ ہی انہیں اللہ کے اٹل عذابوں سے بچنے کی طرف بھی متوجہ کر ۔پس رغبت رہبت امید ڈر دونوں ہی ایک ساتھ سنا دے ۔ قرآن کریم میں امید کے ساتھ خوف اکثر بیان ہوتا ہے اسی سورت کے آخر میں فرمایا تیرا رب جلد عذاب کرنے والا ہے اور غفور و رحیم بھی ہےاور آیت میں ہے: وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ لِّلنَّاسِ عَلَى ظُلْمِهِمْ وَإِنَّ رَبَّكَ لَشَدِيدُ الْعِقَابِ اور بیشک تیرا رب البتہ بخشنے والا ہے لوگوں کے بےجا ظلم پر اور یہ بھی یقینی بات ہے کہ تیرا رب بڑی سخت سزا دینے والا بھی ہے۔ (۱۳:۶) ایک آیت میں ارشاد ہے: نَبِّىءْ عِبَادِى أَنِّى أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ـ وَأَنَّ عَذَابِى هُوَ الْعَذَابُ الاٌّلِيمُ میرے بندوں کو خبر دے دو کہ میں بہت ہی بخشنے والا اور بڑا مہربان ہوں۔ ساتھ ہی میرے عذاب بھی نہایت دردناک ہیں۔ (۱۵:۴۹،۵۰) میرے بندوں کو میرے غفور و رحیم ہونے کی اور میرے عذابوں کے بڑے ہی درد ناک ہونے کی خبر پہنچا دے اور جگہ ہے: غَافِرِ الذَّنبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِيدِ الْعِقَابِ گناہ کو بخشنے والا اور توبہ قبول فرمانے والا سخت عذاب والا (۴۰:۳) وہ گناہوں کا بخشنے والا اور توبہ کا قبول کرنے والاہےاور آیتوں میں ہے: إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ ـ إِنَّهُ هُوَ يُبْدِىءُ وَيُعِيدُ ـ وَهُوَ الْغَفُورُ الْوَدُودُ یقیناً تیرے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے۔ وہی پہلی مرتبہ پیدا کرتا ہے وہی دوبارہ پیدا کرے گا۔ وہ بڑا بخشش کرنے والا اور بہت محبت کرنے والا ہے۔ (۸۵:۱۲،۱۴) اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیتیں ہیں ۔ سَيَقُولُ الَّذِينَ أَشْرَكُوا لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا أَشْرَكْنَا وَلَا آبَاؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِنْ شَيْءٍ ۚ یہ مشرکین (یوں) کہیں گے کہ اگر اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم کسی چیز کو حرام کر سکتے مشرک لوگ دلیل پیش کرتے تھے کہ ہمارے شرک کا حلال کو حرام کرنے کا حال تو اللہ کو معلوم ہی ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ وہ اگر چاہے تو اس کے بدلنے پر بھی قادر ہے ۔ اس طرح کہ ہمارے دل میں ایمان ڈال دے یا کفر کے کاموں کی ہمیں قدرت ہی نہ دے پھر بھی اگر وہ ہماری اس روش کو نہیں بدلتا تو ظاہر ہے کہ وہ ہمارے ان کاموں سے خوش ہے اگر وہ جاہتا تو ہم کیا ہمارے بزرگ بھی شرک نہ کرتے، جیسے ان کا یہی قول آیت وَقَالُواْ لَوْ شَآءَ الرَّحْمَـنُ مَا عَبَدْنَـهُمْ (اور کہتے ہیں اگر اللہ چاہتا تو ہم ان کی عبادت نہ کرتے) (۴۳:۲۰) میں اور سورۃ نحل میں ہے ۔ كَذَلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ حَتَّى ذَاقُوا بَأْسَنَا ۗ اس طرح جو لوگ ان سے پہلے ہو چکے ہیں انہوں نے بھی تکذیب کی تھی یہاں تک کہ کہ انہوں نے ہمارے عذاب کا مزہ چکھا اللہ فرماتا ہے اسی شبہ نے ان سے پہلی قوموں کو تباہ کر دیا اگر یہ بات سچ ہوتی تو ان کے پہلے باپ دادا پر ہمارے عذاب کیوں آتے؟رسولوں کی نافرمانی اور شرک و کفر پر مصر رہنے کی وجہ سے وہ روئے زمین سے ذلت کے ساتھ یوں ہٹا دیئے جاتے ؟ قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنَا ۖ آپ کہیے کیا تمہارے پاس کوئی دلیل ہے تو اس کو ہمارے سامنے ظاہر کرو اچھا تمہارے پاس اللہ کی رضامندی کا کوئی سرٹیفکیٹ ہو تو پیش کرو ۔ إِنْ تَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ أَنْتُمْ إِلَّا تَخْرُصُونَ تم لوگ محض خیالی باتوں پر چلتے ہو اور تم بالکل اٹکل پچو سے باتیں بناتے ہو۔ (۱۴۸) ہم تو دیکھتے ہیں کہ تم وہم پرست ہو فاسد عقائد پر جمے ہوئے ہو اور اٹکل پچو باتیں اللہ کے ذمے گھڑ لیتے ہو ۔ وہ بھی یہی کہتے تھے تم بھی یہی کہتے ہو کہ ہم ان معبودوں کی عبادت اسلئے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ سے ملا دیں حالانکہ وہ نہ ملانے والے ہیں نہ اس کی انہیں قدرت ہے ، ان سے تو اللہ نے سمجھ بوجھ چھین رکھی ہے ، قُلْ فَلِلَّهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ ۖ فَلَوْ شَاءَ لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ آپ کہئے کہ بس پوری حجت اللہ ہی کی ہی رہی۔ پھر اگر وہ چاہتا تو تم سب کو راہ راست پر لے آتا۔ (۱۴۹) ہدایت و گمراہی کی تقسیم میں بھی اللہ کی حکمت اور اس کی حجت ہے ، سب کام اس کے ارادے سے ہو رہے ہیں وہ مؤمنوں کو پسند فرماتا ہے اور کافروں سے ناخوش ہے ،فرمان ہے: وَلَوْ شَآءَ اللَّهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَى الْهُدَى اور اگر اللہ کو منظور ہو تو ان سب کو جمع کر دیتا (۶:۳۵) اور آیت میں ہے: وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَآمَنَ مَنْ فِي الْأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا اور اگر آپ کا رب چاہتا تمام روئے زمین کے لوگ سب کے سب ایمان لے آتے (۱۰:۹۹) اور فرمایا: وَلَوْ شَآءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ ... مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ اگر آپ کا پروردگار چاہتا تو سب لوگوں کو ایک ہی راہ پر ایک گروہ کر دیتا۔ وہ تو برابر اختلاف کرنے والے ہی رہیں گے۔ بجز ان کے جن پر آپ کا رب رحم فرمائے، انہیں تو اس لئے پیدا کیا ہے، اور آپ کے رب کی یہ بات پوری ہے کہ میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سب سے پر کروں گا (۱۱:۱۱۸،۱۱۹) قُلْ هَلُمَّ شُهَدَاءَكُمُ الَّذِينَ يَشْهَدُونَ أَنَّ اللَّهَ حَرَّمَ هَذَا ۖ آپ کہیے کہ اپنے گواہوں کو لاؤ جو اس بات پر شہادت دیں کہ اللہ نے ان چیزوں کو حرام کر دیا ہے حقیقت بھی یہی ہے کہ نافرمانوں کی کوئی حجت اللہ کے ذمہ نہیں بلکہ اللہ کی حجت بندوں پر ہے ، تم نے خواہ مخواہ اپنی طرف سے جانوروں کو حرام کر رکھا ہے ان کی حرمت پر کسی کی شہادت تو پیش کر دو۔ فَإِنْ شَهِدُوا فَلَا تَشْهَدْ مَعَهُمْ ۚ پھر اگر وہ گواہی دے دیں تو آپ اس کی شہادت نہ دیجئے وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَالَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَهُمْ بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ اور ایسے لوگوں کے باطل خیالات کا اتباع مت کیجئے! جو ہماری آیتوں کی تکذیب کرتے ہیں اور وہ جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور وہ اپنے رب کے برابر دوسروں کو ٹھہراتے ہیں ۔ (۱۵۰) اگر یہ ایسی شہادت والے لائیں تو تو ان جھوٹے لوگوں کی ہاں میں ہاں نہ ملانا ۔ ان منکرین قیامت ، منکرین کلام اللہ کے جھانسے میں کہیں تم بھی نہ آ جانا ۔ قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ ۖ آپ کہیے کہ آؤ تم کو وہ چیزیں پڑھ کر سناؤں جن کو تمہارے رب نے تم پر حرام فرما دیا ہے ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وصیت کو دیکھنا چاہتا ہو جو آپ کی آخری وصیت تھی تو وہ ان آیتوں کو ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (۱۵۳) تک پڑھے ، ابن عباسؓ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں سورۃ انعام میں محکم آیتیں ہیں پھر یہی آیتیں آپ نے تلاوت فرمائیں ۔ ایک مرتبہ حضور ﷺنے اپنے اصحاب سے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص ہے جو میرے ہاتھ پر ان تین باتوں کی بیعت کرے، پھر آپ نے یہی آیتیں تلاوت فرمائیں اور فرمایا جو اسے پورا کرے گا، وہ اللہ سے اجر پائے گا اور جو ان میں سے کسی بات کو پورا نہ کرے گا تو دنیا میں ہی اسے شرعی سزا دے دی جائے گی اور اگر سزا نہ دی گئی تو پھر اس کا معاملہ قیامت پر ہے اگر اللہ چاہے تو اسے بخش دے چاہے تو سزا دے (مسند ، حاکم) بخاری مسلم میں ہے: تم لوگ میرے ہاتھ پر بیعت کرو، اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنے کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے نبی ﷺ سے فرماتا ہے کہ ان مشرکین کو جو اللہ کی اولاد کے قائل ہیں اللہ کے رزق میں سے بعض کو اپنی طرف سے حلال اور بعض کو حرام کہتے ہیں اللہ کے ساتھ دوسروں کو پوجتے ہیں کہہ دیجئے کہ سچ مچ جو چیزیں اللہ کی حرام کردہ ہیں انہیں مجھ سے سن لو جو میں بذریعہ وحی الہٰی بیان کرتا ہوں تمہاری طرح خواہش نفس، توہم پرستی اور اٹکل و گمان کی بنا پر نہیں کہتا ۔ أَلَّا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وہ یہ کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت ٹھہراؤ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جس کی وہ تمہیں وصیت کرتا ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا، یہ کلام عرب میں ہوتا ہے کہ ایک جملہ کو حذف کر دیا پھر دوسرا جملہ ایسا کہہ دیا جس سے حذف شدہ جملہ معلوم ہو جائے اس آیت کے آخری جملے ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ سے أَلَّا تُشْرِكُوا اس سے پہلے کے محذوف جملے وَصَّاكُمْ پر دلالت ہو گئی ۔ عرب میں یوں بھی کہہ دیا کرتے ہیں امرتک ان لا تقوم بخاری و مسلم میں ہے ابوذرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: میرے پاس جبرائیلؑ آئے اور مجھے یہ خوشخبری سنائی کہ آپ کی اُمت میں سے جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے وہ داخل جنت ہو گا تو میں نے کہا گو اس نے زنا کیا ہو گو اس نے چوری کی ہو آپ نے فرمایا ہاں گو اس نے زنا اور چوری کی ہو میں نے پھر یہی سوال کیا مجھے پھر یہی جواب ملا پھر بھی میں نے یہ بات پوچھی اب کے جواب دیا کہ گو شراب نوشی بھی کی ہو ۔ بعض روایتوں میں ہے کہ تین دفعہ یہ سوال کرنے والے خود ابوذرؓ تھے اور تیسری مرتبہ سوال سن کر حضور ﷺ نے فرمایا تھا کہ ہاں اور ابوذر کی ناک خاک آلود ہو چنانچہ راوی حدیث جب اسے بیان فرماتے تو یہی لفظ دہرا دیتے ، سنن میں مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے ابن آدم تو جب تک مجھ سے دعا کرتا رہے گا اور میری ذات سے امید رکھے گا میں بھی تیری خطاؤں کو معاف فرماتا رہوں گا خواہ وہ کیسی ہی ہوں کوئی پرواہ نہ کروں گا تو اگر میرے پاس زمین بھر کر خطائیں لائے گا تو میں تیرے پاس اتنی ہی مغفرت اور بخشش لے کر آؤں گا بشرطیکہ تو میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو گو تو نے خطائیں کی ہوں یہاں تک کہ وہ آسمان تک پہنچ گئی ہوں پھر بھی تو مجھ سے استغفار کرے تو میں تجھے بخش دوں گا، اس حدیث کی شہادت میں یہ آیت آ سکتی ہے: إِنَّ اللَّهَ لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَآءُ مشرک کو تو اللہ مطلق نہ بخشے گا باقی گنہگار اللہ کی مشیت پر ہیں جسے چاہے بخش دے ۔ (۴:۱۱۶) صحیح مسلم شریف میں ہے: جو توحید پر مرے وہ جنتی ہے اس بارے میں بہت سی آیتیں اور حدیثیں ہیں ۔ ابن مردویہ میں ہے: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو گو تمہارے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے جائیں یا تمہیں سولی چڑھا دیا جائے یا تمہیں جلا دیا جائے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات باتوں کا حکم دیا : اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا گو تم جلا دیئے جاؤ یا کاٹ دیئے جاؤ یا سولی دے دیئے جاؤ ۔ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۖ اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو اس آیت میں توحید کا حکم دے کر پھر ماں باپ کے ساتھ احسان کرنے کا حکم ہوا وَقَضَى رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّـهُ وَبِالْوَلِدَيْنِ إِحْسَـناً اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے تم اس کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ (۱۷:۲۳) قرآن کریم میں اکثر یہ دونوں حکم ایک ہی جگہ بیان ہوئے ہیں جیسے آیت: وَوَصَّيْنَا الإِنْسَـنَ بِوَلِدَيْهِ ... فَأُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق نصیحت کی ہے، اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کر اسے حمل میں رکھا اور اس کی دودھ چھڑائی دو برس میں ہے کہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کر، (تم سب کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔ ہاں دنیا میں ان کے ساتھ اچھی طرح بسر کرنا اور اس کی راہ چلنا جو میری طرف جھکا ہو تمہارا سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے تم جو کچھ کرتے ہو اس سے پھر میں تمہیں خبردار کردوں گا۔ (۳۱:۱۴،۱۵) اور آیت میں ہے: وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَـقَ بَنِى إِسْرءِيلَ لاَ تَعْبُدُونَ إِلاَّ اللَّهَ وَبِالْوَلِدَيْنِ إِحْسَانًا اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے و عدہ لیا کہ تم اللہ کے سوا دوسرے کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، (۲:۸۳) بخاری و مسلم میں ہے ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور ﷺ سے دریافت کیا کہ کونسا عمل افضل ہے؟ آپﷺ نے فرمایا نماز وقت پر پڑھنا۔ میں نے پوچھا پھر؟ فرمایا ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا، میں نے پوچھا پھر؟ فرمایا اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ۔ میں اگر اور بھی دریافت کرتا تو حضور بتا دیتے ، ابن مردویہ میں عبادہ بن صامت اور ابو درداء سے مروی ہے: مجھے میرے خلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی کہ اپنے والدین کی اطاعت کر اگرچہ وہ تجھے حکم دیں کہ تو ان کیلئے ساری دنیا سے الگ ہو جائے تو بھی مان لے ، اس کی سند ضعیف ہے وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ مِنْ إِمْلَاقٍ ۖ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ ۖ اور اپنی اولاد کو افلاس کے سبب قتل مت کرو ہم تم کو اور ان کو رزق دیتے ہیں باپ داداؤں کی وصیت کر کے اولاد اور اولاد کی اولاد کی بابت وصیت فرمائی کہ انہیں قتل نہ کرو جیسے کہ شیاطین نے اس کام کو تمہیں سکھا رکھا ہے لڑکیوں کو تو وہ لوگ بوجہ عار کے مار ڈالتے تھے اور بعض لڑکوں کو بھی بوجہ اس کے کہ ان کے کھانے کا سامان کہاں سے لائیں گے ، مار ڈالتے تھے، ابن مسعودؓ نے ایک مرتبہ حضور سے دریافت کیا کہ سب سے بڑا گناہ کیا ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا اللہ کے ساتھ شریک کرنا حالانکہ اسی اکیلے نے پیدا کیا ہے ۔ پوچھا پھر کونسا گناہ ہے؟ فرمایا اپنی اولاد کو اس خوف سے قتل کرنا کہ یہ میرے ساتھ کھائے گی ۔ پوچھا پھر کونسا ہے؟ فرمایا اپنی پڑوس کی عورت سے بدکاری کرنا پھر حضور ﷺنےیہ آیت کی تلاوت فرمائی: وَالَّذِينَ لاَ يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَـهَا ءَاخَرَ وَلاَ يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِى حَرَّمَ اللَّهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ وَلاَ يَزْنُونَ اور اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور کسی ایسے شخص کو جسے قتل کرنا اللہ تعالیٰ نے منع کر دیا ہو وہ بجز حق کے قتل نہیں کرتے نہ وہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں (۲۵:۶۸) اور آیت میں ہے: وَلاَ تَقْتُلُواْ أَوْلادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلاقٍ اپنی اولاد کو فقیری کے خوف سے قتل نہ کرو، (۱۷:۳۱) اسی لئے اس کے بعد ہی فرمایا : نَّحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُم ہم انہیں روزی دیتے ہیں اور تمہاری روزی بھی ہمارے ذمہ ہے ۔ (۱۷:۳۱) یہاں چونکہ فرمایا تھا کہ فقیری کی وجہ سے اولاد کا گلا نہ گھونٹو تو ساتھ ہی فرمایا تمہیں روزی ہم دیں گے اور انہیں بھی ہم ہی دے رہے ہیں وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ ۖ اور بےحیائی کے جتنے طریقے ہیں ان کے پاس مت جاؤ خواہ وہ اعلانیہ ہوں خواہ پوشیدہ پھر فرمایا کسی ظاہر اور پوشیدہ برائی کے پاس بھی نہ جاؤ جیسے اور آیت میں ہے: قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا ... وَأَن تَقُولُواْ عَلَى اللَّهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ آپ فرمادیجیے کہ البتہ میرے رب نے صرف حرام کیا ہے ان تمام فحش باتوں کو جو اعلانیہ ہیں اور جو پوشیدہ ہیں اور ہر گناہ کی بات کو ناحق کسی پر ظلم کرنے کو اس بات کو کہ اللہ کے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک ٹھہراؤ جس کی اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی اور اس بات کو تم لوگ اللہ کے ذمے ایسی بات نہ لگا دو جس کو تم جانتے نہیں۔ (۷:۱۳۳) اس کی پوری تفسیر آیت وَذَرُواْ ظَاهِرَ الإِثْمِ وَبَاطِنَهُ (۶:۱۲۰) کی تفسیر میں گزر چکی ہے صحیح حدیث میں ہے: اللہ سے زیادہ غیرت ولا کوئی نہیں اسی وجہ سے تمام بےحیائیاں اللہ نے حرام کر دی ہیں خواہ وہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ ہوں ۔ سعد بن عبادہؓ نے کہا کہ اگر میں کسی کو اپنی بیوی کے ساتھ دیکھ لوں تو میں تو ایک ہی وار میں اس کا فیصلہ کر دوں جب حضور ﷺکے پاس ان کا یہ قول بیان ہوا تو فرمایا : کیا تم سعد کی غیرت پر تعجب کر رہے ہو؟ واللہ میں اس سے زیادہ غیرت والا ہوں اور میرا رب مجھ سے زیادہ غیرت والا ہے ، اسی وجہ سے تمام فحش کام ظاہر و پوشیدہ اس نے حرام کر دیئے ہیں (بخاری و مسلم ) ایک مرتبہ حضورﷺ سے کہا گیا کہ ہم غیرت مند لوگ ہیں آپ ﷺنے فرمایا واللہ میں بھی غیرت والا ہوں اور اللہ مجھ سے زیادہ غیرت والا ہے ۔ یہ غیرت ہی ہے جو اس نے تمام بری باتوں کو حرام قرار دے دیا ہے اس حدیث کی سند ترمذی کی فباء پر ہے ترمذی میں یہ حدیث ہے : میری اُمت کی عمریں ساٹھ ستر کے درمیان ہیں ۔ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ۚ اور جس کا خون کرنا اللہ تعالیٰ نے حرام کر دیا اس کو قتل مت کرو ہاں مگر حق کے ساتھ اس کے بعد کسی کے ناحق قتل کی حرمت کو بیان فرمایا گو وہ بھی فواحش میں داخل ہے لیکن اس کی اہمیت کی وجہ سے اسے الگ کر کے بیان فرما دیا ۔ بخاری و مسلم میں ہے: جو مسلمان اللہ کی توحید اور میری رسالت اقرار کرتا ہو اسے قتل کرنا بجز تین باتوں کے جائز نہیں - یا تو شادی شدہ ہو کر پھر زنا کرے - یا کسی کو قتل کر دے - یا دین کو چھوڑ دے اور جماعت سے الگ ہو جائے ۔ مسلم میں ہے: اس کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں کسی مسلمان کا خون حلال نہیں ۔ ابوداؤد اور نسائی میں تیسرا شخص وہ بیان کیا گیا ہے جو اسلام سے نکل جائے اور اللہ کے رسولوں سے جنگ کرنے لگے اسے قتل کر دیا جائے گا یا صلیب پر چڑھا دیا جائے گا یا مسلمانوں کے ملک سے جلا وطن کر دیا جائے گا ۔ امیر المؤمنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس وقت جبکہ باغی آپ کو محاصرے میں لئے ہوئے تھے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کسی مسلمان کا خون بجز ان تین کے حلال نہیں - ایک تو اسلام کے بعد کافر ہو جانے والا - دوسرا شادی ہو جانے کے بعد زنا کرنے والا - اور بغیر قصاص کے کسی کو قتل کر دینے والا ۔ اللہ کی قسم نہ تو میں نے جاہلیت میں زنا کیا نہ اسلام لانے کے بعد ، اور نہ اسلام لانے کے بعد کبھی میں نے کسی اور دین کی تمنا کی اور نہ میں نے کسی کو بلا وجہ قتل کیا ۔ پھر تم میرا خون بہانے کے درپے کیوں ہو؟ حربی کافروں میں سے جو امن طلب کرے اور مسلمانوں کے معاہدہ امن میں آ جائے اس کے قتل کرنے والے کے حق میں بھی بہت و عید آئی ہے اور اس کا قتل بھی شرعاً حرام ہے ۔ بخاری میں ہے : معاہدہ امن کا قاتل جنت کی خوشبو بھی نہ پائے گا حالانکہ اس کی خوشبو چالیس سال کے راستے تک پہنچ جاتی ہے اور روایت میں ہے کیونکہ اس نے اللہ کا ذمہ توڑا اس میں ہے پچاس برس کے راستے کے فاصلے سے ہی جنت کی خوشبوں پہنچی ہے ۔ ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ان کا تم کو تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم سمجھو۔ (۱۵۱) پھر فرماتا ہے یہ ہیں اللہ کی وصیتیں اور اس کے احکام تاکہ تم دین حق کو، اس کے احکام کو اور اس کی منع کردہ باتوں کو سمجھ لو ۔ وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّهُ ۖ اور یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ مگر ایسے طریقے سے جو کہ مستحسن ہے یہاں تک کہ وہ اپنے سن رشد تک پہنچ جائے ابو داؤد وغیرہ میں ہے: جب آیت وَلَا تَقْرَبُوا اور آیت إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا (۴:۱۰) نازل ہوئیں تو اصحاب رسول نے یتیموں کا کھانا پینا اپنے کھانے پینے سے بالکل الگ تھلگ کر دیا اس میں علاوہ ان لوگوں کے نقصان اور محنت کے یتیموں کا نقصان بھی ہونے لگا اگر بچ رہا تو یا تو وہ باسی کھائیں یا سڑ کر خراب ہو جائے جب حضور سے اس کا ذکر ہوا تو آیت وَيَسْـَلُونَكَ عَنِ الْيَتَـمَى قُلْ إِصْلاَحٌ لَّهُمْ خَيْرٌ وَإِن تُخَالِطُوهُمْ فَإِخْوَنُكُمْ (۲:۲۲۰) نازل ہوئی کہ ان کے لئے خیر خواہی کرو ان کا کھانا پینا ساتھ رکھنے میں کوئی حرج نہیں وہ تمہارے بھائی ہیں اسے پڑھ کر سن کر صحابہ نے ان کا کھانا اپنے ساتھ ملا لیا ۔ یہ حکم ان کے سن بلوغ تک پہنچنے تک ہے گو بعض نے تیس سال بعض نے چالیس سال اور بعض نے ساٹھ سال کہے ہیں لیکن یہ سب قول یہاں مناسب نہیں اللہ اعلم، وَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ ۖ اور ناپ تول پوری پوری کرو، انصاف کے ساتھ پھر حکم فرمایا کہ لین دین میں ناپ تول میں کمی بیشی نہ کرو ، ان کے لئے ہلاکت ہے جو لیتے وقت پورا لیں اور دیتے وقت کم دیں ، ان اُمتوں کو اللہ نے غارت کر دیا جن میں یہ بد خصلت تھی ، وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِينَ ... يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَـلَمِينَ بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی۔ کہ جب لوگوں سے ناپ کر لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں۔ جب انہیں ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں کیا انہیں مرنے کے بعد اٹھنے کا خیال نہیں۔ ا س عظیم دن کے لئے۔ جس دن سب لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے۔ (۸۳:۱،۶) جامع ابوعیسی ترمذی میں ہے کہ حضور نے ناپنے اور تولنے والوں سے فرمایا: تم ایک ایسی چیز کے والی بنائے گئے ہو، جس کی صحیح نگرانی نہ رکھنے والے تباہ ہو گئے، لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۖ ہم کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے پھر فرماتا ہے ، کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ ہم نہیں لادتے یعنی اگر کسی شخص نے اپنی طاقت بھر کوشش کر لی دوسرے کا حق دے دیا، اپنے حق سے زیادہ نہ لیا، پھر بھی نادانستگی میں غلطی سے کوئی بات رہ گئی ہو تو اللہ کے ہاں اس کی پکڑ نہیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے آیت کے یہ دونوں جملے تلاوت کر کے فرمایا : جس نے صحیح نیت سے وزن کیا ، تولا ، پھر بھی واقع میں کوئی کمی زیادتی بھول چوک سے ہو گئی تو اسکا مؤاخذہ نہ ہو گا ۔ یہ حدیث مرسل اور غریب ہے ، وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَى ۖ وَبِعَهْدِ اللَّهِ أَوْفُوا ۚ اور جب تم بات کرو تو انصاف کرو گو وہ شخص قرابت دار ہی ہو اور اللہ تعالیٰ سے جو عہد کیا اس کو پورا کرو ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ان کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے تاکہ تم یاد رکھو۔ (۱۵۲) پھر فرماتا ہے بات انصاف کی کہا کرو کہ قرابت داری کے معاملے میں ہی کچھ کہنا پڑے۔جیسے فرمان ہے: يَـأَيُّهَآ الَّذِينَ ءَامَنُواْ كُونُواْ قَوَّامِينَ للَّهِ شُهَدَآءَ بِالْقِسْطِ اے ایمان والو! تم اللہ کی خاطر حق پر قائم ہو جاؤ، راستی اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ (۵:۸) اور سورۃ نساء میں بھی یہی حکم دیا کہ ہر شخص کو ہر حال میں سچائی اور انصاف نہ چھوڑنا چاہئے ۔ جھوٹی گواہی اور غلط فیصلے سے بچنا چاہئے، اللہ کے عہد کو پورا کرو، اس کے احکام بجا لاؤ، اس کی منع کردہ چیزوں سے الگ رہو، اس کی کتاب اس کے رسول کی سنت پر چلتے رہو، یہی اس کے عہد کو پورا کرنا ہے، انہی چیزوں کے بارے اللہ کا تاکیدی حکم ہے،یہی فرمان تمہارے وعظ و نصیحت کا ذریعہ ہیں تاکہ تم جو اس سے پہلے نکمے بلکہ برے کاموں میں تھے، اب ان سے الگ ہو جاؤ ۔ بعض لوگ تَذَكَّرُونَ کے ذال کو تشدید سے پڑھتے ہیں اور بعض تخفیف ہے۔ وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ ۚ اور یہ کہ دین میرا راستہ ہے جو مستقیم ہے سو اس راہ پر چلو دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کردیں گی۔ یہ اور ان جیسی آیتوں کی تفسیر میں ابن عباسؓ کا قول تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مؤمنوں کو باہم اعتماد کا حکم دیتا ہے اور اختلاف و فرقہ بندی سے روکتا ہے اس لئے کہ اگلے لوگ اللہ کے دین میں پھوٹ ڈالنے ہی سے تباہ ہوئے تھے مسند میں ہے: اللہ کے نبی ﷺنے ایک سیدھی لکیر کھینچی اور فرمایا اللہ کی سیدھی راہ یہی ہے پھر اس کے دائیں بائیں اور لکیریں کھینچ کر فرمایا ان تمام راہوں پر شیطان ہے جو اپنی طرف بلا رہا ہے پھر آپ نے اس آیت کا ابتدائی حصہ تلاوت فرمایا ۔ اسی حدیث کی شاہد وہ حدیث ہے جو مسند میں حضرت جابر سے مروی ہے: ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے جو آپ نے اپنے سامنے ایک سیدھی لکیر کھینچی اور فرمایا یہ شیطانی راہیں ہیں اور بیچ کی لکیر پر انگلی رکھ کر اس آیت کی تلاوت فرمائی ۔ ابن ماجہ میں اور بزار میں بھی یہ حدیث ہے ابن مسعودؓ سے کسی نے پوچھا صراط مستقیم کیا ہے؟ آپ نے فرمایا جس پر ہم نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑا اسی کا دوسرا سرا جنت میں جا ملتا ہے اس کے دائیں بائیں بہت سی اور راہیں ہیں جن پر لوگ چل رہے ہیں اور دوسروں کو بھی اپنی طرف بلا رہے ہیں جو ان راہوں میں سے کسی راہ ہو لیا وہ جہنم میں پہنچا پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ حضور ﷺفرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے صراط مستقیم کی مثال بیان فرمائی: اس راستے کے دونوں طرف دو دیواریں ہیں جن میں بہت سے دروازے ہیں اور سب چوپٹ کھلے پڑے ہیں اور ان پر پردے لٹکے ہوئے ہیں اس سیدھی راہ کے سرے پر ایک پکارنے والا ہے پکارتا رہتا ہے کہ لوگو تم سب اس صراط مستقیم پر آ جاؤ راستے میں بکھر نہ جاؤ، بیچ راہ کے بھی ایک شخص ہے ، جب کوئی شخص ان دروازوں میں سے کسی کو کھولنا چاہتا ہے تو وہ کہتا ہے خبردار اسے نہ کھول، کھولو گے تو سیدھی راہ سے دور نکل جاؤ گے ۔ پس سیدھی راہ اسلام ہے دونوں دیواریں اللہ کی حدود ہیں کھلے ہوئے دروازے اللہ کی حرام کردہ چیزیں ہیں نمایاں شخص اللہ کی کتاب ہے اوپر سے پکارنے والا اللہ کی طرف کا نصیحت کرنے والا ہے جو ہر مؤمن کے دل میں ہے (ترمذی) اس نکتے کو نہ بھولنا چاہئے کہ اپنی راہ کیلئے سَبِيلواحد کا لفظ بولا گیا اور گمراہی کی راہوں کے لئے سُبُل جمع کا لفظ استعمال کیا گیا اس لئے کہ راہ حق ایک ہی ہوتی ہے اور ناحق کے بہت سے طریقے ہوا کرتے ہیں جیسےاس آیت میں الظُّلُمَـتِ کو جمع کے لفظ سے اور النُّورِ کو واحد کے لفظ سے ذکر کیا گیا ہے اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ ءامَنُواْ يُخْرِجُهُم ... مِّنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَـتِ ایمان لانے والوں کا کارساز اللہ تعالیٰ خود ہے، وہ انہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال لے جاتا ہے اور کافروں کے اولیاء شیاطین ہیں۔ وہ انہیں روشنی سے نکال کر اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں (۲:۲۵۷) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ قُلْ تَعَالَوْاْ (۶:۱۵۱) سے تین آیتوں تک تلاوت کر کے فرمایا تم میں سے کون کون ان باتوں پر مجھ سے بیعت کرتا ہے؟ ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ اس کا تم کو اللہ تعالیٰ نے تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم پرہیزگاری اختیار کرو۔ (۱۵۳) پھر فرمایا جس نے اس بیعت کو اپنا لیا اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے اور جس نے ان میں سے کسی بات کو توڑ دیا اس کی دو صورتیں ہیں یا تو دنیا میں ہی اس کی سزا شرعی اسے مل جائے گی یا اللہ تعالیٰ آخرت تک اسے مہلت دے پھر رب کی مشیت پر منحصر ہے اگر چاہے سزا دے اگر چاہے تو معاف فرما دے ۔ ثُمَّ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ پھر ہم نے موسیٰؑ کو کتاب دی تھی امام ابن جریر نے تو لفظ ثُمَّ کو ترتیب کے لئے مانا ہے یعنی ان سے یہ بھی کہہ دے اور ہماری طرف سے یہ خبر بھی پہنچا دے لیکن میں کہتا ہوں ثُمَّ کو ترتیب کیلئے مان کر خبر کا خبر پر عطف کر دیں تو کیا حرج؟ایسا ہوتا ہے اور شعروں میں موجود ہے چونکہ قرآن کریم کی مدح آیت وَأَنَّ هَـذَا صِرَطِي مُسْتَقِيمًا میں گزری تھی اس لئے اس پر عطف ڈال کر توراۃ کی مدح بیان کر دی ۔ جیسے کہ اور بھی بہت سی آیتوں میں ہے ۔ چنانچہ فرمان ہے: وَمِن قَبْلِهِ كِتَـبُ مُوسَى إِمَاماً وَرَحْمَةً وَهَـذَا كِتَـبٌ مُّصَدِّقٌ لِّسَاناً عَرَبِيّاً اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب پیشوا اور رحمت تھی اور یہ کتاب ہے تصدیق کرنے والی عربی زبان میں (۴۶:۱۲) اسی سورت میں ہے: قُلْ مَنْ أَنزَلَ الْكِتَـبَ الَّذِى جَآءَ بِهِ مُوسَى نُوراً وَهُدًى لِّلنَّاسِ تَجْعَلُونَهُ قَرَطِيسَ تُبْدُونَهَا وَتُخْفُونَ كَثِيراً آپ یہ کہئے وہ کتاب کس نے نازل کی ہے جس کو موسیٰ لائے تھے جس کی کیفیت یہ ہے کہ وہ نور ہے اور لوگوں کے لئے وہ ہدایت ہے جس کو تم نے ان متفرق اوراق میں رکھ چھوڑا ہے جن کو ظاہر کرتے ہو اور بہت سی باتوں کو چھپاتے ہو (۶:۹۱) اس آیت میں بھی تورات کے بیان کے بعد اس قرآن کا بیان ہے ، وَهَـذَا كِتَـبٌ أَنزَلْنَـهُ مُبَارَكٌ اور یہ بھی ایسی ہی کتاب ہے جس کو ہم نے نازل کیا ہے جو بڑی برکت والی ہے (۶:۹۲) کافروں کا حال بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: فَلَمَّا جَآءَهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِندِنَا قَالُواْ لَوْلا أُوتِىَ مِثْلَ مَآ أُوتِىَ مُوسَى پھر جب ان کے پاس ہماری طرف سے حق آپہنچا تو کہتے ہیں کہ یہ وہ کیوں نہیں دیا گیا جیسے دیئے گئے تھے موسیٰ ؑ (۲۸:۴۸) جس کے جواب میں فرمایا گیا: أَوَلَمْ يَكْفُرُواْ بِمَآ أُوتِىَ مُوسَى مِن قَبْلُ قَالُواْ سِحْرَانِ تَظَـهَرَا وَقَالُواْ إِنَّا بِكُلٍّ كَـفِرُونَ اچھا تو کیا موسیٰؑ کو جو کچھ دیا گیا تھا اس کے ساتھ لوگوں نے کفر نہیں کیا تھا صاف کہا تھا کہ یہ دونوں جادوگر ہیں جو ایک دوسرے کے مددگار ہیں اور ہم تو ان سب کے منکر ہیں۔ (۲۸:۴۸) جنوں کا قول بیان ہوا ہے: يقَوْمَنَآ إِنَّا سَمِعْنَا كِتَـباً أُنزِلَ مِن بَعْدِ مُوسَى مُصَدِّقاً لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ يَهْدِى إِلَى الْحَقِّ اے ہماری قوم! ہم نے یقیناً وہ کتاب سنی ہے جو موسیٰ ؑکے بعد نازل کی گئی ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے جو سچے دین کی رہنمائی کرتی ہے (۴۶:۳۰) تَمَامًا عَلَى الَّذِي أَحْسَنَ وَتَفْصِيلًا جس سے اچھی طرح عمل کرنےوالوں پر نعمت پوری ہواور سب احکام کی تفصیل ہو جائے وہ کتاب جامع اور کامل تھی ۔ شریعت کی جن باتوں کی اس وقت ضرورت تھی سب اس میں موجود تھیں وَكَتَبْنَا لَهُ فِى الاٌّلْوَاحِ مِن كُلِّ شَىْءٍ اور ہم نے چند تختیوں پر ہر قسم کی نصیحت ان کو لکھ کر دی (۷:۱۴۵) یہ احسان تھا نیک کاروں کی نیکیوں کے بدلے کا ۔ جیسے فرمان ہے: هَلْ جَزَآءُ الإِحْسَـنِ إِلاَّ الإِحْسَـنُ احسان کا بدلہ احسان کے سوا کیا ہے (۵۵:۶۰) اور جیسے فرمان ہے: وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَـتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّى جَـعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا جب ابراہیم ؑ کو انکے رب نے کئی کئی باتوں سے آزمایا اور انہوں نے سب کو پورا کر دیا تو اللہ نے فرمایا کہ میں تمہیں لوگوں کا امام بنا دوں گا، (۲:۱۲۴) وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُواْ وَكَانُواْ بِـَايَـتِنَا يُوقِنُونَ اور جب ان لوگوں نے صبر کیا تو ہم نے ان میں سے ایسے پیشوا بنائے جو ہمارے حکم سے لوگوں کو ہدایت کرتے تھے، اور وہ ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے (۳۲:۲۴) غرض یہ بھی اللہ کا فضل تھا اور نیکوں کی نیکیوں کا صلہ ۔ احسان کرنے والوں پر اللہ بھی احسان پورا کرتا ہے یہاں اور وہاں بھی ۔ امام ابن جریر الَّذِي کو مصدریہ مانتے ہیں ابن رواحہ کا شعر ہے ۔ وثبت اللہ ما اتاک من حسن فی المرسلین و نصر کالذی نصروا اللہ تیری اچھائیاں بڑھائے اور اگلے نبیوں کی طرح تیری بھی مدد فرمائے ۔ بعض کہتے ہیں یہاں الَّذِي معنی میں الَّذِين کا ہے عبداللہ بن مسعود کی قرأت تَمَامًا عَلَى الَّذِين أَحْسَنَوا ہے ۔ بغوی کہتے ہیں مراد اس سے انبیاء اور عام مؤمن ہیں ۔ یعنی ان سب پر ہم نے اسکی فضیلت ظاہر کی جیسے فرمان ہے: يَا مُوسَىٰ إِنِّي اصْطَفَيْتُكَ عَلَى النَّاسِ بِرِسَالَاتِي وَبِكَلَامِي اے موسیٰ! میں نے پیغمبری اور اپنی ہم کلامی سے اور لوگوں پر تم کو امتیاز دیا ہے (۷:۱۴۴) ہاں حضرت موسیٰ کی اس بزرگی سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو خاتم الانبیاء ہیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام جو خلیل اللہ ہیں مستثنیٰ ہیں بہ سبب ان دلائل کے جو وارد ہو چکے ہیں ۔ یحییٰ بن یعمر أَحْسَنَ کو مخذوف مان کر أَحْسَنُ پڑھتے تھے ؟ امام ابن جریر فرماتے ہیں میں اس قرأت کو جائز نہیں رکھوں گا اگرچہ عربیت کی بنا پر اس میں نقصان نہیں۔ آیت کے اس جملے کا ایک مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ پر احسان رب کو تمام کرنے کیلئے یہ اللہ کی کتاب ان پر نازل ہوئی، ان دونوں کے مطلب میں کوئی تفاوت نہیں ۔ لِكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لَعَلَّهُمْ بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُونَ اور رہنمائی ہو اور رحمت ہو تاکہ وہ لوگ اپنے رب کو ملنے پر یقین لائیں۔ (۱۵۴) پھر تورات کی تعریف بیان فرمائی کہ اس میں ہر حکم بہ تفصیل ہے اور وہ ہدایت و رحمت ہے تاکہ لوگ قیامت کے دن اپنے رب سے ملنے کا یقین کر لیں ۔ وَهَذَا كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ اور یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے بھیجا بڑی خیرو برکت والی سو اس کا اتباع کرو اور ڈرو تاکہ تم پر رحمت ہو۔ (۱۵۵) پھر قرآن کریم کی اتباع کی رغبت دلاتا ہے اس میں غوروفکر کی دعوت دیتا ہے اور اس پر عمل کرنے کی ہدایت فرماتا ہے اور اس کی طرف لوگوں کو بلانے کا حکم دیتا ہے برکت سے اس کا وصف بیان فرماتا ہے کہ جو بھی اس پر کار بند ہو جائے وہ دونوں جہان کی برکتیں حاصل کرے گا اس لئے کہ یہ اللہ کی طرف مضبوط رسی ہے ۔ أَنْ تَقُولُوا إِنَّمَا أُنْزِلَ الْكِتَابُ عَلَى طَائِفَتَيْنِ مِنْ قَبْلِنَا وَإِنْ كُنَّا عَنْ دِرَاسَتِهِمْ لَغَافِلِينَ کہیں تم لوگ یوں نہ کہو کہ کتاب تو صرف ہم سے پہلے جو دو فرقے تھے ان پر نازل ہوئی تھی اور ہم انکے پڑھنے پڑھانے سے بےخبر تھے (۱۵۶) فرماتا ہے کہ اس آخری کتاب نے تمہارے تمام عذر ختم کر دیئے جیسے فرمان ہے: وَلَوْلا أَن تُصِيبَهُم مُّصِيبَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ فَيَقُولُواْ رَبَّنَا لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنَا رَسُولاً فَنَتِّبِعَ ءايَـتِكَ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ انہیں ان کے اپنے ہاتھوں آگے بھیجے ہوئے اعمال کی وجہ سے کوئی مصیبت پہنچتی تو یہ کہہ اٹھتے کہ اے ہمارے رب! تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا کہ ہم تیری آیتوں کی تابعداری کرتے (۲۸:۴۷) اگلی دو جماعتوں سے مراد یہود و نصرانی ہیں ۔ اگر یہ عربی زبان کا قرآن نہ اترتا تو وہ یہ عذر کر دیتے کہ ہم پر تو ہماری زبان میں کوئی کتاب نہیں اتری ہم اللہ کے فرمان سے بالکل غافل رہے پھر ہمیں سزا کیوں ہو؟ أَوْ تَقُولُوا لَوْ أَنَّا أُنْزِلَ عَلَيْنَا الْكِتَابُ لَكُنَّا أَهْدَى مِنْهُمْ ۚ یا یوں نہ کہو کہ اگر ہم پر کوئی کتاب نازل ہوتی تو ہم اب سے بھی زیادہ راہ راست پر ہوتے۔ نہ یہ عذر باقی رہا نہ یہ کہ اگر ہم پر آسان کتاب اترتی تو ہم تو اگلوں سے آگے نکل جاتے اور خوب نیکیاں کرتے ۔ وَأَقْسَمُواْ بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَـنِهِمْ لَئِن جَآءَهُمْ نَذِيرٌ لَّيَكُونُنَّ أَهْدَى مِنْ إِحْدَى الاٍّمَمِ اور ان کفار نے بڑی زور دار قسم کھائی تھی کہ اگر انکے پاس کوئی ڈرانے والا آئے تو وہ ہر ایک اُمت سے زیادہ ہدایت قبول کرنے والے ہونگے (۳۵:۴۲) فَقَدْ جَاءَكُمْ بَيِّنَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ ۚ سو اب تمہارے پاس رب کے پاس سے ایک کتاب واضح اور رہنمائی کا ذریعہ اور رحمت آچکی ہے اللہ فرماتا ہے اب تو تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ہدایت و رحمت بھرا قرآن بزبان رسول عربی آ چکا جس میں حلال حرام کا بخوبی بیان ہے اور دلوں کی ہدایت کی کافی نورانیت اور رب کی طرف سے ایمان والوں کیلئے سراسر رحمت و رحم ہے فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَّبَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَصَدَفَ عَنْهَا ۗ ان میں اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہوگا جو ہماری ان آیتوں کو جھوٹا بتائے اور اس سے روکے اب تم ہی بتاؤ کہ جس کے پاس اللہ کی آیتیں آ جائیں اور وہ انہیں جھٹلائے ان سے فائدہ نہ اٹھائے نہ عمل کرے نہ یقین لائے نہ نیکی کرے نہ بدی چھوڑے نہ خود مانے نہ اوروں کو ماننے دے اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے؟ سَنَجْزِي الَّذِينَ يَصْدِفُونَ عَنْ آيَاتِنَا سُوءَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوا يَصْدِفُونَ ہم جلدی ہی ان لوگوں کو جو ہماری آیتوں سے روکتے ہیں ان کے اس روکنے کے سبب سخت سزا دیں گے۔ (۱۵۷) اسی سورت کے شروع میں فرمایا ہے: وَهُمْ يَنْهَوْنَ عَنْهُ وَيَنْأَوْنَ عَنْهُ اور یہ لوگ اس سے دوسروں کو بھی روکتے ہیں اور خود بھی اس سے دور دور رہتے ہیں (۶:۲۶) یعنی اس کے مخالف اوروں کو بھی اسے ماننے سے روکتے ہیں دراصل اپنا ہی بگاڑتے ہیں جیسے فرمایا: إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّهِ قَدْ ضَلُّوا ضَلَالًا بَعِيدًا جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ تعالیٰ کی راہ سے اوروں کو روکا وہ یقیناً گمراہی میں دور نکل گئے۔ (۴:۱۶۷) یعنی جو لوگ خود کفر کرتے ہیں اور راہ الہٰی سے روکتے ہیں انہیں ہم عذاب بڑھاتے رہیں گے ۔ پس یہ لوگ ہیں جو نہ مانتے تھے نہ فرماں بردار ہوتے تھے جیسے فرمان ہے: فَلَا صَدَّقَ وَلَا صَلَّىٰ ـ وَلَـٰكِن كَذَّبَ وَتَوَلَّىٰ اس نے نہ تو تصدیق کی نہ نماز ادا کی بلکہ جھٹلایا اور روگردانی کی ۔ (۷۵:۳۱،۳۲) ان دونوں تفسیروں میں پہلی بہت اچھی ہے یعنی خود بھی انکار کیا اور دوسروں کا بھی انکار پر آمادہ کیا ۔ هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلَائِكَةُ أَوْ يَأْتِيَ رَبُّكَ أَوْ يَأْتِيَ بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ ۗ کیا یہ لوگ اس امر کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا ان کے پاس رب آئے یا آپ کے رب کی کوئی (بڑی) نشانی آئے اللہ تعالیٰ کافروں کو اور پیغمبروں کے مخالفوں کو اور اپنی آیات کے جھٹلانے والوں کو اور اپنی راہ سے روکنے والوں کو ڈرا رہا ہے کہ کیا انہیں قیامت کا انتظار ہے؟ جبکہ فرشتے بھی آئیں گے اور خود اللہ قہار بھی ۔ يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا ۗ جس روز آپ کے رب کی کوئی بڑی نشانی آپہنچے گی کسی ایسے شخص کا ایمان اس کے کام نہیں آئے گا جو پہلے سے ایمان نہیں رکھتا یا اس نے اپنے ایمان میں کوئی نیک عمل نہ کیا ہو وہ بھی وقت ہو گا جب ایمان بھی بےسود اور توبہ بھی بیکار، بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: قیامت قائم نہ ہو گی جب تک کہ سورج مغرب سے نہ نکلے جب یہ نشان ظاہر ہو جائے گا تو زمین پر جتنے لوگ ہوں گے سب ایمان لائیں گے لیکن اس وقت کا ایمان محض بےسود ہے ۔ پھر آپﷺ نے یہی آیت پڑھی اور حدیث ہے: جب قیامت کی تین نشانیاں ظاہر ہو جائیں تو بے ایمان کو ایمان لانا، خیر سے رکے ہوئے لوگوں کو اس کے بعد نیکی یا توبہ کرنا کچھ سود مند نہ ہو گا ۔ سورج کا مغرب سے نکلنا، دجال کا آنا، دابتہ الارض کا ظاہر ہونا۔ ایک اور روایت میں اس کے ساتھ ہی ایک دھویں کے آنے کا بھی بیان ہے اور حدیث میں ہے سورج کے مغرب سے طلوع ہونے سے بیشتر جو توبہ کرے اس کی توبہ مقبول ہے ۔ حضرت ابوذؓر سے ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا جانتے ہو یہ سورج غروب ہو کر کہاں جاتا ہے؟ جواب دیا کہ نہیں فرمایا عرش کے قریب جا کر سجدے میں گر پڑتا ہے اور ٹھہرا رہتا ہے یہاں تک کہ اسے اجازت ملے اور کہا جائے لوٹ جا قریب ہے کہ ایک دن اس سے کہہ دیا جائے کہ جہاں سے آیا ہے وہیں لوٹ جا یہی وہ وقت ہو گا کہ ایمان لانا بےنفع ہو جائے گا۔ ایک مرتبہ لوگ قیامت کی نشانیوں کا ذکر کر رہے تھے اتنے میں حضور ﷺبھی تشریف لے آئے اور فرمانے لگے کہ قیامت قائم نہ ہو گی جب تک تم دس نشانیاں نہ دیکھ لو گے۔ - سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، - دھواں ، - دابتہ الارض ، - یاجوج ماجوج کا آنا، - عیسیٰ بن مریم کا آنا - اور دجال کا نکلنا، - مشرق ، مغرب اور جزیرہ عرب میں تین جگہ زمین کا دھنس جانا - اور عدن کے درمیان سے ایک زبر دست آگ کا نکلنا جو لوگوں کو ہانک لے جائے گی رات دن ان کے پیچھے ہی پیچھے رہیں گے (مسلم) حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ سورج کے مغرب سے طلوع ہونے کا نشان کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا وہ رات بہت لمبی ہو جائے گی بقدر دو راتوں کے لوگ معمول کے مطابق اپنے کام کاج میں ہوں گے اور تہجد گزاری میں بھی ۔ ستارے اپنی جگہ ٹھہرے ہوئے ہوں گے پھر لوگ سو جائیں گے پھر اٹھیں گے کام میں لگیں گے پھر سوئیں گے پھر اٹھیں گے لیکن دیکھیں گے کہ نہ ستارے ہٹے ہیں نہ سورج نکلا ہے کروٹیں دکھنے لگیں گی لیکن صبح نہ ہو گی اب تو گھبرا جائیں گے اور دہشت زدہ ہو جائیں گے منتظر ہوں گے کہ کب سورج نکلے مشرق کی طرف نظریں جمائے ہوئے ہوں گے کہ اچانک مغرب کی طرف سے سورج نکل آئے گا اس وقت تو تمام روئے زمین کے انسان مسلمان ہو جائینگے لیکن اس وقت کا ایمان محض بےسود ہو گا ۔ (ابن مردویہ) ایک حدیث میں حضورﷺ کا اس آیت کے اس جملے کو تلاوت فرما کر اس کی تفسیر میں سورج کا مغرب سے نکلنا فرمانا بھی ہے ، ایک روایت میں ہے سب سے پہلی نشانی یہی ہو گی اور حدیث میں ہے: اللہ تعالیٰ نے مغرب کی طرف ایک بڑا دروازہ کھول رکھا ہے جس کا عرض ستر سال کا ہے یہ توبہ کا دروازہ ہے یہ بند نہ ہو گا جب تک کہ سورج مغرب سے نہ نکلے اور حدیث میں ہے: لوگوں پر ایک رات آئے گی جو تین راتوں کے برابر ہو گی اسے تہجد گزار جان لیں گے یہ کھڑے ہوں گے ایک معمول کے مطابق تہجد پڑھ کر پھر سو جائیں گے پھر اٹھیں گے اپنا معمول ادا کر کے پھر لیٹیں گے لوگ اس لمبائی سے گھبرا کر چیخ پکار شروع کر دیں گے اور دوڑے بھاگے مسجدوں کی طرف جائیں گے کہ نا گہاں دیکھیں گے کہ سورج طلوع ہو گیا یہاں تک کہ وسط آسمان میں پہنچ کر پھر لوٹ جائے گا اور اپنے طلوع ہونے کی جگہ سے طلوع ہو گا، یہی وہ وقت ہے جس وقت ایمان سود مند نہیں اور روایت میں ہے: تین مسلمان شخص مروان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے مروان ان سے کہہ رہا تھا کہ سب سے پہلی نشانی دجال کا خروج ہے یہ سن کر یہ لوگ حضرت عبداللہ بن عمرو کے پاس گئے اور یہ بیان کیا آپ نے فرمایا اس نے کچھ نہیں کہا مجھے حضور کا فرمان خوب محفوظ ہے کہ سب سے پہلی نشانی سورج کا مغرب سے نکلنا ہے اور دآبتہ الارض کا دن چڑھے ظاہر ہونا ہے ۔ ان دونوں میں سے جو بھی پہلے ظاہر ہو اسی کے بعد دوسری ظاہر ہو گی ، حضرت عبداللہ کتاب پڑھتے جاتے تھے فرمایا میرا خیال ہے کہ پہلے سورج کا نشان ظاہر ہو گا وہ غروب ہوتے ہی عرش تلے جاتا ہے اور سجدہ کر کے اجازت مانگتا ہے اجازت مل جاتی ہے جب مشیت الہٰی سے مغرب سے ہی نکلنا ہو گا تو اس کی بار بار کی اجازت طلبی پر بھی جواب نہ ملے گا رات کا وقت ختم ہونے کے قریب ہو گا اور یہ سمجھ لے گا کہ اب اگر اجازت ملی بھی تو مشرق میں نہیں پہنچ سکتا تو کہے گا کہ یا اللہ دنیا کو سخت تکلیف ہو گی تو اس سے کہا جائے گا یہیں سے طلوع ہو چنانچہ وہ مغرب سے ہی نکل آئے گا پھر حضرت عبداللہ نے یہی آیت تلات فرمائی، طبرانی میں ہے : جب سورج مغرب سے نکلے گا ابلیس سجدے میں گر پڑے گا اور زور زور سے کہے گا الہٰی مجھے حکم کر میں مانوں گا جسے تو فرمائے میں سجدہ کرنے کیلئے تیار ہوں اس کی ذریت اس کے پاس جمع ہو جائے گی اور کہے گی یہ ہائے وائے کیسی ہے؟ وہ کہے گا مجھے یہیں تک کی ڈھیل دی گئی تھی، اب وہ آخری وقت آ گیا پھر صفا کی پہاڑی کے غار سے دابتہ الارض نکلے گا اس کا پہلا قدم انطاکیہ میں پڑے گا وہ ابلیس کے پاس پہنچے گا اور اسے تھپڑ مارے گا ۔ یہ حدیث بہت ہی غریب ہے اس کی سند بالکل ضعیف ہے ممکن ہے کہ یہ ان کتابوں میں سے حضرت عبداللہ بن عمرو نے لی ہو جن کے دو تھیلے انہیں یرموک کی لڑائی والے دن ملے تھے ۔ ان کا فرمان رسول ہونا ناقابل تسلیم ہے اللہ اعلم ۔ حضورﷺ فرماتے ہیں: ہجرت منقطع نہ ہو گی جب تک کہ دشمن برسر پیکار رہے ۔ ہجرت کی دو قسمیں ہیں - ایک تو گناہوں کو چھوڑنا - دوسرے اللہ اور اس کے رسول کے پاس ترک وطن کر کے جانا یہ بھی باقی رہے گا جب تک کہ توبہ قبول ہوتی ہے اور توبہ قبول ہوتی رہے گی جب تک کہ سورج مغرب سے نہ نکلے ۔ سورج کے مغرب سے نکلتے ہی پھر جو کچھ جس حال میں ہے اسی پر مہر لگ جائے گی اور اعمال بےسود ہو جائیں گے ۔ ابن مسعودؓ کا فرمان ہے: بہت سے نشانات گزر چکے صرف چار باقی رہ گئے ہیں، سورج کا نکلنا دجال دابتہ الارض اور یاجوج ماجوج کا آنا جس علامت کے ساتھ اعمال ختم ہو جائیں گے وہ طلوع شمس منجانب مغرب ہے ۔ ایک طویل مرفوع غریب منکر حدیث میں ہے کہ اس دن سورج چاند ملے جلے طلوع ہوں گے آدھے آسمان سے واپس چلے جائیں گے پھر حسب عادت ہو جائینگے ۔ اس حدیث کا تو مرفوع ہونے کا دعویٰ اس حدیث کے موضوع ہونے کا ثبوت ہے۔ ہاں ابن عباسؓ یا وہیب بن منبہ پر موقوف ہونے کی حیثیت سے ممکن ہے موضوع کی گنتی سے نکل جائے واللہ اعلم ۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: قیامت کی پہلی نشانی کے ساتھ ہی اعمال کا خاتمہ ہے اس دن کسی کافر کا مسلمان ہونا بےسود ہو گا ، ہاں مؤمن جو اس سے پہلے نیک اعمال والا ہو گا وہ بہتری میں رہے گا اور جو نیک عمل نہ ہو گا اس کی توبہ بھی اس وقت مقبول نہ ہو گی جیسے کہ پہلے حدیثیں گزر چکیں قُلِ انْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ آپ فرما دیجئے کہ تم منتظر رہو ہم بھی منتظر ہیں۔ (۱۵۸) پھر کافروں کو تنبیہ کی جاتی ہے کہ اچھا تم انتظار میں ہی ہوتا آنکہ توبہ کے اور ایمان کے قبول نہ ہونے کا وقت آ جائے اور قیامت کے زبردست آثار ظاہر ہو جائیں ـجیسے اور آیت میں ہے: فَهَلْ يَنظُرُونَ إِلاَّ السَّاعَةَ أَن تَأْتِيَهُمْ بَغْتَةً فَقَدْ جَآءَ أَشْرَاطُهَا فَأَنَّى لَهُمْ إِذَا جَآءَتْهُمْ ذِكْرَاهُمْ تو کیا یہ قیامت کا انتطار کر رہے ہیں کہ ان کے پاس اچانک آجائے یقیناً اس کی علامتیں تو آچکی ہیں پھر جبکہ ان کے پاس قیامت آجائے انہیں نصیحت کرنا کہاں ہوگا (۴۷:۱۸) اور آیت میں ہے: فَلَمَّا رَأَوْاْ بَأْسَنَا قَالُواْ ءَامَنَّا بِاللَّهِ ... فَلَمْ يَكُ يَنفَعُهُمْ إِيمَـنُهُمْ لَمَّا رَأَوْاْ بَأْسَنَا ہمارا عذاب دیکھتے ہی کہنے لگے کہ اللہ واحد پر ہم ایمان لائے اور جن جن کو ہم شریک بنا رہے تھے ہم نے ان سب سے انکار کیا۔ لیکن ہمارے عذاب کو دیکھ لینے کے بعد ان کے ایمان نے انہیں نفع نہ دیا۔ (۴۰:۸۴،۸۵) إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ ۚ بیشک جن لوگوں نے اپنے دین کو جدا جدا کر دیا اور گروہ گروہ بن گئے آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں کہتے ہیں کہ یہ آیت یہود و نصاریٰ کے بارے میں اتری ہے ۔ یہ لوگ حضور کی نبوت سے پہلے سخت اختلافات میں تھے جن کی خبر یہاں دی جا رہی ہے ۔ایک حدیث میں ہے: مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ تک اس آیت کی تلاوت فرما کر حضور ﷺنے فرمایا: وہ بھی تجھ سے کوئی میل نہیں رکھتے ۔ اس اُمت کے اہل بدعت شک شبہ والے اور گمراہی والے ہیں ۔ اس حدیث کی سند صحیح نہیں ۔ یعنی ممکن ہے یہ حضرت ابوہریرہؓ کا قول ہو ۔ ابوامامہ فرماتے ہیں اس سے مراد خارجی ہیں ۔ یہ بھی مرفوعاً مروی ہے لیکن صحیح نہیں ۔ ایک اور غریب حدیث میں ہے حضور فرماتے ہیں کہ مراد اس سے اہل بدعت ہے ۔ اس کا بھی مرفوع ہونا صحیح نہیں ۔ بات یہ ہے کہ آیت عام ہے جو بھی اللہ رسول کے دین کی مخالفت کرے اور اس میں پھوٹ اور افتراق پیدا کرے گمراہی کی اور خواہش پرستی کی پیروی کرے نیا دین اختیار کرے نیا مذہب قبول کرے وہی وعید میں داخل ہے کیونکہ حضورﷺجس حق کو لے کر آئے ہیں وہ ایک ہی ہے کئی ایک نہیں ۔ اللہ نے اپنے رسول کو فرقہ بندی سے بچایا ہے اور آپ کے دین کو بھی اس لعنت سے محفوظ رکھا ہے ۔ اسی مضمون کی دوسری آیت ہے: شَرَعَ لَكُم مِّنَ الِدِينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحاً وَالَّذِى أَوْحَيْنَآ إِلَيْكَ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے وہی دین مقرر کر دیا ہے جسکے قائم کرنے کا اس نے نوح (علیہ السلام) کو حکم دیا تھا اور جو (بذریعہ وحی) ہم نے تیری طرف بھیج دی ہے (۴۲:۱۳) ایک حدیث میں بھی ہے: ہم جماعت انبیاء علاقی بھائی ہیں ۔ ہم سب کا دین ایک ہی ہے ۔ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ بس ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حوالے ہے پھر ان کو ان کا کیا ہوا جتلا دیں گے۔ (۱۵۹) پس صراط مستقیم اور دین پسندیدہ اللہ کی توحید اور رسولوں کی اتباع ہے اس کے خلاف جو ہو ضلالت جہالت رائے خواہش اور بد دینی ہے اور رسول اس سے بیزار ہیں ان کا معاملہ سپرد رب ہے وہی انہیں ان کے کرتوت سے آگاہ کرے گا جیسے اور آیت میں ہے: إِنَّ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَالَّذِينَ هَادُواْ وَالصَّـبِئِينَ وَالنَّصَـرَى وَالْمَجُوسَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُواْ إِنَّ اللَّهَ يَفْصِلُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيـمَةِ ایمان دار اور یہودی اور صابی اور نصرانی اور مجوسی اور مشرکین ان سب کے درمیان قیامت کے دن خود اللہ تعالیٰ فیصلہ کرے گا (۲۲:۱۷) مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا ۖ وَمَنْ جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزَى إِلَّا مِثْلَهَا وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ جو شخص نیک کام کرےگا اسکو اس کے دس گنا ملیں گے جو شخص برا کام کرے گا اس کو اس کے برابر ہی سزا ملے گی اور ان پر ظلم نہ ہو گا۔ (۱۶۰) یہاں اپنے احسان حکم اور عدل کا بیان فرماتا ہے ۔ایک اور آیت میں مجملاً یہ آیا ہے: مَن جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ خَيْرٌ مِّنْهَا جو نیکی لائے اس کیلئے اس سے بہتر بدلہ ہے ۔ (۲۸:۸۴) اسی آیت کے مطابق بہت سی حدیثیں بھی وارد ہوتی ہیں ایک میں ہے: تمہارا رب عزوجل بہت بڑا رحیم ہے نیکی کے صرف قصد پر نیکی کے کرنے کا ثواب عطا فرما دیتا ہے اور ایک نیکی کے کرنے پر دس سے ساٹھ تک بڑھا دیتا ہے اور بھی بہت زیادہ اور بہت زیادہ اور اگر برائی کا قصد ہوا پھر نہ کر سکا تو بھی نیکی ملتی ہے اور اگر اس برائی کو کر گزرا تو ایک برائی ہی لکھی جاتی ہے اور بہت ممکن ہے کہ اللہ معاف ہی فرما دے اور بالکل ہی مٹا دے سچ تو یہ ہے کہ ہلاکت والے ہی اللہ کے ہاں ہلاک ہوتے ہیں (بخاری مسلم نسائی) ایک حدیث قدسی میں ہے: نیکی کرنے والے کو دس گنا ثواب ہے اور پھر بھی میں زیادہ کر دیتا ہوں اور برائی کرنے والے کو اکہرا عذاب ہے اور میں معاف بھی کر دیتا ہوں زمین بھر تک جو شخص خطائیں لے آئے اگر اس نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا تو میں اتنی ہی رحمت سے اس کی طرف متوجہ ہوتا ہوں جو میری طرف بالشت بھر آئے میں اس کی طرف ایک ہاتھ بڑھاتا ہوں اور جو ہاتھ بھر آئے میں اس کی طرف دو ہاتھ بڑھاتا ہوں اور جو میری طرف چلتا ہوا آئے میں اس کی طرف دوڑتا ہوا جاتا ہوں (مسلم مسند) اس سے پہلے گزری ہوئی حدیث کی طرح ایک اور حدیث بھی ہے اس میں فرمایا ہے : برائی کا اردہ کر کے پھر اسے چھوڑ دینے والے کو بھی نیکی ملتی ہے اس سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ کے ڈر سے چھوڑ دے چنانچہ بعض روایات میں تشریح آ بھی چکی ہے ۔ دوسری صورت چھوڑ دینے کی یہ ہے کہ اسے یاد ہی نہ آئے بھول بسر جائے تو اسے نہ ثواب ہے نہ عذاب کیونکہ اس نے اللہ سے ڈر کر نیک نیتی سے اسے ترک نہیں کیا اور اگر بد نیتی سے اس نے کوشش بھی کی اسے پوری طرح کرنا بھی چاہا لیکن عاجز ہو گیا کر نہ سکا موقعہ ہی نہ ملا اسباب ہی نہ بنے تھک کر بیٹھ گیا تو ایسے شخص کو اس برائی کے کرنے کے برابر ہی گناہ ہوتا ہے چنانچہ حدیث میں ہے: جب دو مسلمان تلواریں لے کر ایک دوسرے سے جنگ کریں تو جو مار ڈالے اور جو مار ڈالا جائے دونوں جہنمی ہیں لوگوں نے کہا مار ڈالنے والا تو خیر لیکن جو مارا گیا وہ جہنم میں کیوں جائے گا؟ آپ ﷺنے فرمایا اس لئے کہ وہ بھی دوسرے کو مار ڈالنے کا آرزو مند تھا اور حدیث میں ہے حضور ﷺفرماتے ہیں: نیکی کے محض ارادے پر نیکی لکھ لی جاتی ہے اور عمل میں لانے کے بعد دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں برائی کے محض ارادے کو لکھا نہیں جاتا اگر عمل کر لے تو ایک ہی گناہ لکھا جاتا ہے اور اگر چھوڑ دے تو نیکی لکھی جاتی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس نے گناہ کے کام کو میرے خوف سے ترک کر دیا ۔ حضور ﷺفرماتے ہیں: لوگوں کی چار قسمیں ہیں اور اعمال کی چھ قسمیں ہیں ۔ - بعض لوگ تو وہ ہیں جنہیں دنیا اور آخرت میں وسعت اور کشادگی دی جاتی ہے - بعض وہ ہیں جن پر دنیا میں کشادگی ہوتی ہے اور آخرت میں تنگی - بعض وہ ہیں جن پر دنیا میں تنگی رہتی ہے اور آخرت میں انہیں کشادگی ملے گی ۔ - بعض وہ ہیں جو دونوں جہان میں بد بخت رہتے ہیں یہاں بھی وہاں بھی بےآبرو، اعمال کی چھ قسمیں یہ ہیں - دو قسمیں تو ثواب واجب کر دینے والی ہیں ایک برابر کا، ایک دس گنا اور ایک سات سو گنا ۔ - واجب کر دینے والی دو چیزیں وہ ہیں جو شخص اسلام و ایمان پر مرے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو اس کیلئے جنت واجب ہے اور جو کفر پر مرے اس کیلئے جہنم واجب ہے - اور جو نیکی کا ارادہ کرے گو کہ نہ ہو اسے ایک نیکی ملتی ہے اس لئے کہ اللہ جانتا ہے کہ اس کے دل نے اسے سمجھا اس کی حرص کی - اور جو شخص برائی کا ارادہ کرے اس کے ذمہ گناہ نہیں لکھا جاتا اور جو کر گزرے اسے ایک ہی گناہ ہوتا ہے اور وہ بڑھتا نہیں ہے - اور جو نیکی کا کام کرے اسے دس نیکیاں ملتی ہیں اور جو راہ اللہ عزوجل میں خرچ کرے اسے سات سو گنا ملتا ہے (ترمذی) فرمان ہے: جمعہ میں آنے والے لوگ تین طرح کے ہیں - ایک وہ جو وہاں لغو کرتا ہے اس کے حصے میں تو وہی لغو ہے ، - ایک دعا کرتا ہے اسے اگر اللہ چاہے دے چاہے نہ دے ۔ - تیسرا وہ شخص ہے جو سکوت اور خاموشی کے ساتھ خطبے میں بیٹھتا ہے کسی مسلمان کی گردن پھلانگ کر مسجد میں آگے نہیں بڑھتا نہ کسی کو ایذاء دیتا ہے اس کا جمعہ اگلے جمعہ تک گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے بلکہ اور تین دن تک کے گناہوں کا بھی اس لئے کہ وعدہ الہٰی میں ہے آیت مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا جو نیکی کرے اسے دس گنا اجر ملتا ہے ۔ طبرانی میں ہے: جمعہ جمعہ تک بلکہ اور تین دن تک کفارہ ہے اس لئے کہ اللہ کا فرمان ہے نیکی کرنے والے کو اس جیسی دس نیکیوں کا ثواب ملتا ہے ۔ فرماتے ہیں: جو شخص ہر مہینے میں تین روزے رکھے اسے سال بھر کے روزوں کا یعنی تمام عمر سارا زمانہ روزے سے رہنے کا ثواب دس روزوں کا ملتا ہے (ترمذی ) ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سلف کی ایک جماعت سے منقول ہے کہ اس آیت میں حَسَنَةِ سے مراد کلمہ توحید ہے اور سَيِّئَةِ سے مراد شرک ہے ، ایک مرفوع حدیث میں بھی یہ ہے لیکن اس کی کوئی صحیح سند میری نظر سے نہیں گزری ۔ اس آیت کی تفسیر میں اور بھی بہت سی حدیثیں اور آثار ہیں ۔ قُلْ إِنَّنِي هَدَانِي رَبِّي إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ دِينًا قِيَمًا مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۚ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ آپ کہ دیجئے کہ مجھ کو میرے رب نے ایک سیدھا راستہ بتایا ہے کہ وہ دین مستحکم ہے جو طریقہ ابراہیمؑ کا جو اللہ کی طرف یکسو تھے اور وہ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے۔ (۱۶۱) بے وقوف وہی ہے جو دین حنیف سے منہ موڑ لے ورنہ دین اسلام قدیمی ہے وَمَن يَرْغَبُ عَن مِّلَّةِ إِبْرَهِيمَ إِلاَّ مَن سَفِهَ نَفْسَهُ دین ابراہیمی سے وہ ہی بےرغبتی کرے گا جو محض بیوقوف ہو، (۲:۱۳۰) سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہو رہا ہے کہ آپ پر اللہ کی جو نعمت ہے اس کا اعلان کر دیں کہ اس رب نے آپ کو صراط مستقیم دکھا دی ہے جس میں کوئی کجی یا کمی نہیں وہ ثابت اور سالم سیدھی اور ستھری راہ ہے ۔ ابراہیم حنیف کی ملت ہے جو مشرکوں میں نہ تھے اس دین سے وہی ہٹ جاتا ہے جو محض بےوقوف ہو اور آیت میں ہے: وَجَـهِدُوا فِى اللَّهِ حَقَّ جِهَـدِهِ هُوَ اجْتَبَـكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكمْ فِى الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَهِيمَ اور اللہ کی راہ میں ویسا ہی جہاد کرو جیسے جہاد کا حق ہے اسی نے تمہیں برگزیدہ بنایا ہے اور تم پر دین کے بارے میں کوئی تنگی نہیں ڈالی دین اپنے باپ ابراہیمؑ کا قائم رکھو (۲۲:۷۸) اور آیت میں ہے: إِنَّ إِبْرَهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَـنِتًا لِلَّهِ حَنِيفًا ... وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ بیشک ابراہیم پیشوا اور اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار اور ایک طرفہ مخلص تھے۔ وہ مشرکوں میں نہ تھے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے شکر گزار تھے، اللہ نے انہیں اپنا برگزیدہ کر لیا تھا اور انہیں راہ راست سمجھا دی تھی۔ ہم نے اس دنیا میں بھی بہتری دی تھی اور بیشک وہ آخرت میں بھی نیکوکاروں میں ہیں۔ پھر ہم نے آپ کی جانب وحی بھیجی کہ آپ ملت ابراہیم حنیف کی پیروی کریں، جو مشرکوں میں سے نہ تھے۔ (۱۶:۱۲۰،۱۲۳) یہ یاد رہے کہ حضور کو آپ کی ملت کی پیروی کا حکم ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ خلیل اللہ آپ سے افضل ہیں اس لئے کہ حضورﷺ کا قیام اس پر پورا ہوا اور یہ دین آپ ہی کے ہاتھوں کمال کو پہنچا ، اسی لئے حدیث میں ہے: میں نبیوں کا ختم کرنے والا ہوں اور تمام اولاد آدم کا علی الاطلاق سردار ہوں اور مقام محمود والا ہوں جس سے ساری مخلوق کو امید ہو گی یہاں تک کہ خلیل اللہ علیہ السلام کو بھی ۔ ابن مردویہ میں ہے کہ حضور صبح کے وقت فرمایا کرتے تھے: ہم نے ملت اسلامیہ پر کلمہ اخلاص پر ہمارے نبی کے دین پر اور ملت ابراہیم حنیف پر صبح کی ہے جو مشرک نہ تھے حضور ﷺ سے سوال ہوا کہ سب سے زیادہ محبوب دین اللہ کے نزدیک کونسا ہے ؟ آپ ﷺنے فرمایا وہ جو یکسوئی اور آسانی والا ہے ، مسند کی حدیث میں ہے کہ جس دن حضرت عائشہؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مونڈھوں پر منہ رکھ کر حبشیوں کے جنگی کرتب ملاحظہ فرمائے تھے اس دن آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ یہ اس لئے کہ یہودیہ جان لیں کہ ہمارے دین میں کشادگی ہے اور میں یکسوئی والا آسانی والا دین دے کر بھیجا گیا ہوں قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ آپ فرما دیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے جو سارے جہان کا مالک ہے۔ (۱۶۲) اور حکم ہوتا ہے کہ آپ مشرکوں سے اپنا مخالف ہونا بھی بیان فرما دیں وہ اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت کرتے ہیں دوسروں کے نام پر ذبیحہ کرتے ہیں میں صرف اپنے رب کی عبادت کرتا ہوں اسی کے نام پر ذبیح کرتا ہوں چنانچہ بقرہ عید کے دن حضور نے جب دو بھیڑے ذبح کئے تو إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي (۶:۷۹) کے بعد یہی آیت پڑھی ، لَا شَرِيكَ لَهُ ۖ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھ کو اسی کا حکم ہوا ہے اور میں سب ماننے والوں میں سے پہلا ہوں (۱۶۳) اول المسلمین سے مراد اس اُمت کا پہلا مسلمان۔ تمام انبیاء آپ ﷺ سے پہلے اسلام ہی کی دعوت دیتے تھے۔ اصل اسلام اللہ تعالیٰ کو معبود ماننا ہے اور اس کو واحد لا شریک سمجھنا ہے۔جیسے فرمان ہے: وَمَآ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلاَّ نُوحِى إِلَيْهِ أَنَّهُ لا إِلَـهَ إِلاَّ أَنَاْ فَاعْبُدُونِ تجھ سے پہلے بھی جو رسول ہم نے بھیجا اس کی طرف یہی وحی نازل فرمائی کہ میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں پس تم سب میری ہی عبادت کرو (۲۱:۲۵) حضرت نوح علیہ السلام کا فرمان قرآن میں موجود ہے کہ آپ نے اپنی قوم سے فرمایا : فَمَا سَأَلْتُكُمْ مِّنْ أَجْرٍ إِنْ أَجْرِىَ إِلاَّ عَلَى اللَّهِ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ میں نے تم سے کوئی معاوضہ تو نہیں مانگا میرا معاوضہ تو صرف اللہ ہی کے ذمہ ہے اور مجھ کو حکم کیا گیا ہے کہ میں مسلمانوں میں سے رہوں ۔ (۱۰:۷۲) اور آیت میں ہے: وَمَن يَرْغَبُ عَن مِّلَّةِ إِبْرَهِيمَ إِلاَّ مَن سَفِهَ نَفْسَهُ ... فَلاَ تَمُوتُنَّ إَلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ دین ابراہیمی سے وہ ہی بےرغبتی کرے گا جو محض بیوقوف ہو، ہم نے تو اسے دنیا میں بھی برگزیدہ کیا تھا اور آخرت میں بھی وہ نیکو کاروں میں سے ہے جب کبھی بھی انہیں ان کے رب نے کہا، فرمانبردار ہو جا، انہوں نے کہا، میں نے رب العالمین کی فرمانبرداری کی۔ اس کی وصیت ابراہیمؑ اور یعقوبؑ نے اپنی اولاد کو کی، کہ ہمارے بچو! اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے اس دین کو پسند فرما لیا، خبردار! تم مسلمان ہی مرنا (۲:۱۳۰،۱۳۲) حضرت یوسف علیہ السلام کی آخری دعا میں ہے: رَبِّ قَدْ آتَيْتَنِى مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِى ... وَأَلْحِقْنِى بِالصَّـلِحِينَ اے میرے پروردگار! تو نے مجھے ملک عطا فرمایا اور تو نے مجھے خواب کی تعبیر سکھلائی اے آسمان و زمین کے پیدا کرنے والے تو دنیا و آخرت میں میرا ولی اور کارساز ہے، تو مجھے اسلام کی حالت میں فوت کر اور نیکوں میں ملا دے (۱۲:۱۰۱) حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا: وَقَالَ مُوسَى يقَوْمِ إِن كُنتُمْ ءامَنْتُمْ بِاللَّهِ ... وَنَجِّنَا بِرَحْمَتِكَ مِنَ الْقَوْمِ الْكَـفِرِينَ اور موسیٰؑ نے فرمایا کہ اے میری قوم! اگر تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو تو اسی پر توکل کرو اگر تم مسلمان ہو ۔ انہوں نے عرض کیا کہ ہم نے اللہ ہی پر توکل کیا، اے ہمارے پروردگار! ہم کو ان ظالموں کیلئے فتنہ نہ بنا۔ اور ہم کو اپنی رحمت سے ان کافر لوگوں سے نجات دے (۱۰:۸۴،۸۶) اور آیت میں فرمان باری ہے: إِنَّآ أَنزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُواْ لِلَّذِينَ هَادُواْ وَالرَّبَّانِيُّونَ وَالاٌّحْبَارُ ہم نے تورات نازل فرمائی ہے جس میں ہدایت و نور ہے یہودیوں میں اسی تورات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ماننے والے (انبیاء ؑ) اور اہل اللہ اور علماء فیصلے کرتے (۵:۴۴) اور فرمان ہے: وَإِذْ أَوْحَيْتُ إِلَى الْحَوَارِيِّينَ أَنْ ءَامِنُواْ بِى وَبِرَسُولِى قَالُواْ ءَامَنَّا وَاشْهَدْ بِأَنَّنَا مُسْلِمُونَ اور جبکہ میں نے حواریین کو حکم دیا کہ تم مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ انہوں نے کہا ہم ایمان لائے اور آپ شاہد رہئے کہ ہم پورے فرماں بردار ہیں۔ (۵:۱۱۱) یہ آیتیں صاف بتلا رہی ہیں کہ اللہ نے اپنے نبیوں کو اسلام کے ساتھ ہی بھیجا ہے ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ اپنی اپنی مخصوص شریعتوں کے ساتھ مختص تھے احکام کا ادل بدل ہوتا رہتا تھا یہاں تک کہ حضورﷺ کے دین کے ساتھ پہلے کے کل دین منسوخ ہو گئے اور نہ منسوخ ہونے والا نہ بدلنے والا ہمیشہ رہنے والا دین اسلام آپ کو ملا جس پر ایک جماعت قیامت تک قائم رہے گی اور اس پاک دین کا جھنڈا ابدالآباد تک لہراتا رہے گا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ہم انبیاء کی جماعت علاقی بھائی ہیں ہم سب کا دین ایک ہی ہے ، بھائیوں کی ایک قسم تو علاقی ہے جن کا باپ ایک ہو مائیں الگ الگ ہوں ایک قسم اخیافی جن کی ماں ایک ہو اور باپ جدا گانہ ہوں اور ایک عینی بھائی ہیں جن کا باپ بھی ایک ہو اور ماں بھی ایک ہو ۔ پس کل انبیاء کا دین ایک ہے یعنی اللہ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت اور شریعت مختلف ہیں بہ اعتبار احکام کے ۔ اس لئے انہیں علاتی بھائی فرمایا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر اولیٰ کے بعد نماز میں إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي (۶:۷۹) اور یہ آیت پڑھ کر پھر یہ پڑھتے: اللَّهُمَّ أَنْتَ الْمَلِكُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، أَنْتَ رَبِّي وَأَنَا عَبْدُكَ ظَلَمْتُ نَفْسِي وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي ذُنُوبِي جَمِيعًا لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، وَاهْدِنِي لِأَحْسَنِ الْأَخْلَاقِ لَا يَهْدِي لِأَحْسَنِهَا إِلَّا أَنْتَ، وَاصْرِفْ عَنِّي سَيِّئَهَا لَا يَصْرِفُ عَنِّي سَيِّئَهَا إِلَّا أَنْتَ، تَبَارَكْتَ وَتَعَالَيْتَ، أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْك یہ حدیث لمبی ہے اس کے بعد راوی نے رکوع و سجدہ اور تشہد کی دعاؤں کا ذکر کیا ہے (مسلم) قُلْ أَغَيْرَ اللَّهِ أَبْغِي رَبًّا وَهُوَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ ۚ آپ فرما دیجئے کہ میں اللہ کے سوا کسی اور کو رب بنانے کے لئے تلاش کروں حالانکہ وہ مالک ہے ہرچیز کا جھوٹے معبود غلط سہارے کافروں کو نہ تو خلوص عبادت نصیب ہے نہ سچا توکل رب میسر ہے ان سے کہہ دے کہ کیا میں بھی تمہاری طرح اپنے اور سب کے سچے معبود کو چھوڑ کر جھوٹے معبود بنا لوں ؟ میری پرورش کرنے والا حفاظت کرنے والا مجھے بچانے والا میرے کام بنانے والا میری بگڑی کو سنوارنے والا تو اللہ ہی ہے پھر میں دوسرے کا سہارا کیوں لوں؟ مالک خالق کو چھوڑ کر بےبس اور محتاج کے پاس کیوں جاؤں؟ گویا اس آیت میں توکل علی اللہ اور عبادت رب کا حکم ہوتا ہے ۔ یہ دونوں چیزیں عموماً ایک ساتھ بیان ہوا کرتی ہیں جیسے ان آیات میں: فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ پس تجھے اس کی عبادت کرنی چاہیے اور اسی پر بھروسہ رکھنا چاہیے (۱۱:۱۲۳) اور قُلْ هُوَ الرَّحْمَـنُ ءَامَنَّا بِهِ وَعَلَيْهِ تَوَكَّلْنَا آپ کہہ دیجئے کہ وہی رحمٰن ہے۔ ہم تو اس پر ایمان لاچکے اور اسی پر ہمارا بھروسہ ہے (۶۷:۲۹) اور رَّبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لاَ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ فَاتَّخِذْهُ وَكِيلاً مشرق و مغرب کا پروردگار جس کے سوا کوئی معبود نہیں، تو اسی کو اپنا کارساز بنا لے۔ (۷۳:۹) اورکئی دوسری آیتوں میں بھی ۔ وَلَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ إِلَّا عَلَيْهَا ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى ۚ اور جو شخص بھی کوئی عمل کرتا ہے اور وہ اسی پر رہتا ہےاور کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا پھر قیامت کے دن کی خبر دیتا ہے کہ ہر شخص کو اس کے اعمال کا بدلہ عدل و انصاف سے ملے گا ۔ نیکوں کو نیک بدوں کو بد ۔ ایک کے گناہ دوسرے پر نہیں جائیں گے ۔ کوئی قرابت دار دوسرے کے عوض پکڑا نہ جائے گا وَإِن تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلَى حِمْلِهَا لاَ يُحْمَلْ مِنْهُ شَىْءٌ وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَى اگر کوئی گراں بار دوسرے کو اپنا بوجھ اٹھانے کے لئے بلائے گا تو وہ اس میں سے کچھ بھی نہ اٹھائے گا گو قرابت دار ہی ہو (۳۵:۱۸) اس دن ظلم بالکل ہی نہ ہو گا ۔ فَلاَ يَخَافُ ظُلْماً وَلاَ هَضْماً تو نہ اسے بے انصافی کا کھٹکا ہوگا نہ حق تلفی کا (۲۰:۱۱۲) نہ کسی کے گناہ بڑھائے جائیں گے نہ کسی کی نیکی گھٹائی جائے گی ، اپنی اپنی کرنی اپنی اپنی بھرنی كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ رَهِينَةٌ ـ إِلاَّ أَصْحَـبَ الْيَمِينِ ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے میں گروی ہے مگر دائیں ہاتھ والے (۷۴:۳۸،۳۹) ہاں جن کے دائیں ہاتھ میں اعمال نامے ملے ہیں ان کے نیک اعمال کی برکت ان کی اولاد کو بھی پہنچے گی جیسے فرمان ہے: وَالَّذِينَ ءَامَنُواْ وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُم بِإِيمَـنٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَآ أَلَتْنَـهُمْ مِّنْ عَمَلِهِم مِّن شَىْءٍ اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان میں ان کی پیروی کی ہم ان کی اولاد کو ان تک پہنچا دیں گے اور ان کے عمل سے ہم کچھ کم نہ کریں گے (۵۲:۲۱) یعنی جو ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ان کے ایمان میں ان کی تابعداری کی ہم ان کی اولاد کو بھی ان کے بلند درجوں میں پہنچا دیں گے گو ان کے اعمال اس درجے کے نہ ہوں لیکن چونکہ ان کی ایمان میں شرکت ہے اس لئے درجات میں بھی بڑھا دیں اور یہ درجے ماں باپ کے درجے گھٹا کر نہ بڑھیں گے بلکہ یہ اللہ کا فضل و کرم ہو گا ۔ ہاں برے لوگ اپنے بد اعمال کے جھگڑے میں گھرے ہوں گے كُلُّ امْرِىءٍ بِمَا كَسَبَ رَهَينٌ ہر شخص اپنے اپنے اعمال کا گروی ہے (۵۲:۲۱) ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ مَرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ پھر تم سب کو اپنے رب کے پاس جانا ہوگا، پھر تم کو جتلائے گا جس جس چیز میں تم اختلاف کرتے تھے ۔ (۱۶۴) تم بھی عمل کئے جا رہے ہو ہم بھی کئے جا رہے ہیں اللہ کے ہاں سب کو جانا ہے وہاں اعمال کا حساب ہونا ہے پھر معلوم ہو جائے گا کہ اس اختلاف میں حق اور رضائے رب، مرضی مولیٰ کس کے ساتھ تھی؟ قُل لاَّ تُسْـَلُونَ عَمَّآ أَجْرَمْنَا ... وَهُوَ الْفَتَّاحُ الْعَلِيمُ کہہ دیجئے! ہمارے کئے ہوئے گناہوں کی بابت تم سے کوئی سوال نہ کیا جائے گا نہ تمہارے اعمال کی باز پرس ہم سے کی جائے گی۔ انہیں خبر دے دیجئے کہ سب کو ہمارا رب جمع کر کے پھر ہم میں سے سچے فیصلے کر دے گا وہ فیصلے چکانے والا ہے (۳۴:۲۵،۲۶) یعنی ہمارے اعمال سے تم اور تمہارے اعمال سے ہم اللہ کے ہاں پوچھے نہ جائیں گے ۔ قیامت کے دن اللہ کے ہاں سچے فیصلے ہوں گے اور وہ باعلم اللہ ہمارے درمیان سچے فیصلے فرما دے گا۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلَائِفَ الْأَرْضِ وہ ایسا ہے جس نے تم کو زمین میں خلیفہ بنایا اس اللہ نے تمہیں زمین کا آباد کار بنایا ہے ، وہ تمہیں یکے بعد دیگرے پیدا کرتا رہتا ہے ایسا نہیں کیا کہ زمین میں خلیفہ بنا کر آزمائے کہ تم کیسے اعمال کرتے ہو؟ وَلَوْ نَشَآءُ لَجَعَلْنَا مِنكُمْ مَّلَـئِكَةً فِى الاٌّرْضِ يَخْلُفُونَ اگر ہم چاہتے تو تمہارے عوض فرشتے کر دیتے جو زمین میں جانشینی کرتے ۔ (۴۳:۶۰) وَيَجْعَلُكُمْ حُلَفَآءَ الاٌّرْضِ اور تمہیں زمین کا خلیفہ بنانا ہے (۲۷:۶۲) إِنِّي جَاعِلٌ فِى الأَرْضِ خَلِيفَةً میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں (۲:۳۰) عَسَى رَبُّكُمْ أَن يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَيَسْتَخْلِفَكُمْ فِى الاٌّرْضِ فَيَنظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ بہت جلد اللہ تمہارے دشمن کو ہلاک کریگا اور بجائے انکے تم کو اس سرزمین کا خلیفہ بنا دے گا پھر تمہارا طرز عمل دیکھے گا ۔ (۷:۱۲۹) وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ ۗ اور ایک کا دوسرے پر رتبہ بڑھایا تاکہ تم کو آزمائے ان چیزوں میں جو تم کو دی ہیں اس نے تمہارے درمیان مختلف طبقات بنائے ، کوئی غریب ہے ، کوئی امیر ہے ، کوئی بد اخلاق ، کوئی خوبصورت ہے ، کوئی بد صورت ، یہ بھی اس کی حکمت ہے ، اسی نے روزیاں تقسیم کی ہیں ایک کو ایک کے ماتحت کر دیا ہے فرمان ہے: نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَّعِيشَتَهُمْ فِى الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَـتٍ لِّيَتَّخِذَ بَعْضُهُم بَعْضاً سُخْرِيّاً ہم نے ہی ان کی زندگانی دنیا کی روزی ان میں تقسیم کی ہے اور ایک کو دوسرے سے بلند کیا ہے تاکہ ایک دوسرے کو ماتحت کر لے؟ (۴۳:۳۲) اس سے منشاء یہ ہے کہ آزمائش و امتحان ہو جائے، امیر آدمیوں کا شکر، فقیروں کا صبر معلوم ہو جائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: دنیا میٹھی اور سبز رنگ ہے اللہ تمہیں اس میں خلیفہ بنا کر دیکھ رہا ہے کہ تم کیسے اعمال کرتے ہو؟ پس تمہیں دنیا سے ہوشیار رہنا چاہیے اور عورتوں کے بارے میں بہت احتیاط سے رہنا چاہئے ، بنی اسرائیل کا پہلا فتنہ عورتیں ہی تھیں ۔ اس سورت کی آخری آیت میں اپنے دونوں وصف بیان فرمائے ، عذاب کا بھی ، ثواب کا بھی ، پکڑ کا بھی اور بخشش کا بھی اپنے نافرمانوں پر ناراضگی کا اور اپنے فرمانبرداروں پر رضامندی کا ، عموماً قرآن کریم میں یہ دونوں صفتیں ایک ساتھ ہی بیان فرمائی جاتی ہیں ۔ انظُرْ كَيْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَلَلاٌّخِرَةُ أَكْبَرُ دَرَجَـتٍ وَأَكْبَرُ تَفْضِيلاً دیکھ لے کہ ان میں ایک کو ایک پر ہم نے کس طرح فضیلت دے رکھی ہے اور آخرت تو درجوں میں اور بھی بڑھ کر اور فضیلت کے اعتبار سے سے بھی بہت بڑی ہے (۱۷:۲۱) إِنَّ رَبَّكَ سَرِيعُ الْعِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَحِيمٌ بالیقین آپ کا رب جلد سزا دینے والا ہے اور بالیقین وہ واقعی بڑی مغفرت کرنے والا مہربانی کرنے والا ہے۔ (۱۶۵) جیسے فرمان ہے: وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ لِّلنَّاسِ عَلَى ظُلْمِهِمْ وَإِنَّ رَبَّكَ لَشَدِيدُ الْعِقَابِ اور بیشک تیرا رب البتہ بخشنے والا ہے لوگوں کے بےجا ظلم پر اور یہ بھی یقینی بات ہے کہ تیرا رب بڑی سخت سزا دینے والا بھی ہے۔ (۱۳:۶) اور آیت میں ہے: نَبِّىءْ عِبَادِى أَنِّى أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ـ وَأَنَّ عَذَابِى هُوَ الْعَذَابُ الاٌّلِيمُ میرے بندوں کو خبر دے دو کہ میں بہت ہی بخشنے والا اور بڑا مہربان ہوں۔ ساتھ ہی میرے عذاب بھی نہایت دردناک ہیں۔ (۱۵:۴۹،۵۰) پس ان آیتوں میں رغبت رہبت دونوں ہیں اپنے فضل کا اور جنت کا لالچ بھی دیتا ہے اور آگ کے عذاب سے دھمکاتا بھی ہے کبھی کبھی ان دونوں وصفوں کو الگ الگ بیان فرماتا ہے تاکہ عذابوں سے بچنے اور نعمتوں کے حاصل کرنے کا خیال پیدا ہو ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے احکام کی پابندی اور اپنی ناراضگی کے کاموں سے نفرت نصیب فرمائے اور ہمیں کامل یقین عطا فرمائے کہ ہم اس کے کلام پر ایمان و یقین رکھیں ۔ وہ قریب و مجیب ہے وہ دعاؤں کا سننے والا ہے ، وہ جواد ، کریم اور وہاب ہے ، مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اگر مؤمن صحیح طور پر اللہ کے عذاب سے واقف ہو جائے تو اپنے گناہوں کی وجہ سے جنت کے حصول کی آس ہی نہ رہے اور اگر کافر اللہ کی رحمت سے کماحقہ واقف ہو جائے تو کسی کو بھی جنت سے مایوسی نہ ہو اللہ نے سو رحمتیں بنائی ہیں جن میں سے صرف ایک بندوں کے درمیان رکھی ہے اسی سے ایک دوسرے پر رحم و کرم کرتے ہیں باقی ننانوے تو صرف اللہ ہی کے پاس ہیں ۔ یہ حدیث ترمذی اور مسلم شریف میں بھی ہے ایک اور روایت میں ہے: اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی پیدائش کے وقت ایک کتاب لکھی جو اس کے پاس عرش پر ہے کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے رحمت کے سو حصے کئے جن میں سے ایک کم ایک سو تو اپنے پاس رکھے اور ایک حصہ زمین پر نازل فرمایا اسی ایک حصے میں مخلوق کو ایک دوسرے پر شفقت و کرم ہے یہاں تک کہ جانور بھی اپنے بچے کے جسم سے اپنا پاؤں رحم کھا کر اٹھا لیتا ہے کہ کہیں اسے تکلیف نہ ہو ۔ |
© Copy Rights:Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,Lahore, PakistanEnail: cmaj37@gmail.com |
Visits wef Sep 2024 |