Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Baqarah

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے

Part II Ayah 142-252


سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَّاهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا ۚ

عنقریب بیوقوف لوگ کہیں گے کہ جس قبلہ پر یہ تھے اس سے انہیں کس چیز نے ہٹایا؟

بیوقوفوں سے مراد یہاں مشرکین عرب اور علماء یہود اور منافقین وغیرہ ہیں۔

صحیح بخاری شریف میں حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:

 نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سولہ یا سترہ مہینے تک بیت المقدس کی طرف نماز پڑھی لیکن خود آپ کی چاہت یہ تھی کہ آپ کا قبلہ بیت اللہ شریف ہو ۔ چنانچہ اب حکم آ گیا اور آپ نے عصر کی نماز اس کی طرف ادا کی۔ آپ کے ساتھ کے نمازیوں میں سے ایک شخص کسی اور مسجد میں پہنچا، وہاں جماعت رکوع میں تھی اس نے ان سے کہا اللہ کی قسم میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ کی طرف نماز پڑھ کر ابھی آ رہا ہوں ۔ جب ان لوگوں نے سنا تو اسی حالت میں وہ کعبہ کی طرف گھوم گئے،

 اب بعض لوگوں نے یہ کہا کہ جو لوگ اگلے قبلہ کی طرف نمازیں پڑھتے ہوئے شہید ہو چکے ہیں ان کی نمازوں کا کیا حال ہے۔ تب یہ فرمان نازل ہوا:

وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ (۲:۱۴۳)

اللہ تمہارے ایمان کو ضائع نہ کرے گا۔

 ایک اور روایت میں ہے :

جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے تھے تو آپ اکثر آسمان کی طرف نظریں اٹھاتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے منتظر تھے یہاں تک کہ آیت قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ (۲:۱۴۴) نازل ہوئی اور کعبۃ اللہ قبلہ مقرر ہوا۔ اس موقع پر مسلمانوں میں سے کچھ لوگوں نے کہا کاش ہم کو ان لوگوں کا حال معلوم ہوتا جو سمت قبلہ بدلنے سے قبل وفات پا گئے۔

اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی  وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ (۲:۱۴۳) یعنی اللہ تمہارے ایمان کو ضائع نہ کرے گا ۔

ایک اور روایت میں ہے :

 اہل کتاب میں سے بعض بیوقوف اہل کتاب نے قبلہ کے بدلے جانے پر اعتراض کیا، جس پر یہ آیتیں سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَّاهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا  نازل ہوئیں

قُلْ لِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (۱۴۲)

آپ کہہ دیجئے کہ مشرق اور مغرب کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے وہ جسے چاہے سیدھی راہ کی ہدایت کر دے۔‏

شروع ہجرت کے وقت مدینہ شریف میں آپ کو بیت المقدس کی طرف نمازیں ادا کرنے کا حکم ہوا تھا ۔ یہود اس سے خوش تھے لیکن آپ کی چاہت اور دعا قبلہ ابراہیمی کی تھی ۔ آخر جب یہ حکم نازل ہوا تو یہودیوں نے جھٹ سے اعتراض جڑ دیا ۔ جس کا جواب ملا کہ مشرق و مغرب اللہ ہی کے ہیں ۔

اس مضمون کی اور بھی بہت سی روایتیں ہیں

خلاصہ یہ ہے کہ مکہ شریف میں آپ دونوں رکن کے درمیان نماز پڑھتے تھے تو آپ کے سامنے کعبہ ہوتا تھا اور بیت المقدس کے صخرہ کی طرف آپ کا منہ ہوتا تھا، لیکن مدینہ جا کر یہ معاملہ مشکل ہو گیا ۔ دونوں جمع نہیں ہو سکتے تھے تو وہاں آپ کو بیت المقدس کی طرف نماز ادا کرنے کا حکم قرآن میں نازل ہوا تھا یا دوسری وحی کے ذریعہ یہ حکم ملا تھا ۔

بعض بزرگ تو کہتے ہیں یہ صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہادی امر تھا اور مدینہ آنے کے بعد کئی ماہ تک اسی طرف آپ نمازیں پڑھتے رہے گو چاہت اور تھی ۔ یہاں تک کہ پروردگار نے بیت العتیق کی طرف منہ پھیرنے کو فرمایا اور آپ نے اس طرف منہ کر کے پہلے نماز عصر پڑھی اور پھر لوگوں کو اپنے خطبہ میں اس امر سے آگاہ کیا ۔

 بعض روایتوں میں یہ بھی آیا ہے کہ یہ ظہر کی نماز تھی ۔

حضرت ابو سعید بن معلیٰ فرماتے ہیں میں نے اور میرے ساتھی نے جو  اول نماز کعبہ کی طرف پڑھی ہے وہ  ظہر کی نماز تھی

بعض مفسرین کا بیان ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جب قبلہ بدلنے کی آیت نازل ہوئی ۔ اس وقت آپ مسجد بنی سلمہ میں ظہر کی نماز پڑھ رہے تھے، دو رکعت ادا کر چکے تھے پھر باقی کی دو رکعتیں آپ نے بیت اللہ شریف کی طرف پڑھیں، اسی وجہ سے اس مسجد کا نام ہی مسجد ذو قبلتین یعنی دو قبلوں والی مسجد ہے ۔

 حضرت نویلہ بنت مسلمؓ فرماتی ہیں کہ ہم ظہر کی نماز میں تھے جب ہمیں یہ خبر ملی اور ہم نماز میں ہی گھوم گئے۔ مرد عورتوں کی جگہ آگئے اور عورتیں مردوں کی جگہ جا پہنچیں ۔ ہاں اہل قبا کو دوسرے دن صبح کی نماز کے وقت یہ خبر پہنچی

بخاری و مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:

 لوگ مسجد قبا میں صبح کی نماز ادا کر رہے تھے۔ اچانک کسی آنے والے نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ پر رات کو حکم قرآنی نازل ہوا اور کعبہ کی طرف متوجہ ہونے کا حکم ہو گیا ۔ چنانچہ ہم لوگ بھی شام کی طرف سے منہ ہٹا کر کعبہ کی طرف متوجہ ہو گئے

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ناسخ کے حکم کا لازم ہونا  اسی وقت ہوتا ہے ۔ جب اس کا علم ہو جائے گو وہ پہلے ہی پہنچ چکا ہو ۔ اس لئے کہ ان حضرات کو عصر مغرب اور عشا کو لوٹانے کا حکم نہیں ہوا ۔ واللہ اعلم ۔

 اب باطل پرست کمزور عقیدے والے باتیں بنانے لگے کہ اس کی کیا وجہ ہے کبھی اسے قبلہ کہتا ہے کبھی اسے قبلہ قرار دیتا ہے۔ انہیں جواب ملا :

وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ (۲:۱۱۵)

اور مشرق اور مغرب کا مالک اللہ ہی ہے۔ تم جدھر بھی منہ کرو ادھر ہی اللہ کا منہ ہے

یعنی حکم اور تصرف اور امر اللہ تعالیٰ ہی کا ہے جدھر منہ کرو ۔ اسی طرف اس کا منہ ہے بھلائی اسی میں نہیں آ گئی بلکہ اصلیت تو ایمان کی مضبوطی ہے جو ہر حکم کے ماننے پر مجبور کر دیتی ہے

لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّواْ وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَـكِنَّ الْبِرَّ مَنْ ءَامَنَ بِاللَّهِ (۲:۱۷۷)

ساری اچھائی مشرق اور مغرب کی طرف منہ کرنے میں ہی نہیں بلکہ حقیقتاً اچھا وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے والا ہو،

اور اس میں گویا مؤمنوں کو ادب سکھایا گیا ہے کہ ان کا کام صرف حکم کی بجا آوری ہے جدھر انہیں متوجہ ہونے کا حکم دیا جائے یہ متوجہ ہو جاتے ہیں

 اطاعت کے معنی اس کے حکم کی تعمیل کے ہیں اگر وہ ایک دن میں سو مرتبہ ہر طرف گھمائے تو ہم بخوشی گھوم جائیں گے ہم اس کے غلام ہیں ہم اس کے ماتحت ہیں اس کے فرمانبردار ہیں اور اس کے خادم ہیں جدھر وہ حکم دے گا پھیر لیں گے ۔

 اُمت محمدیہ پر یہ بھی اللہ تعالیٰ کا اکرام ہے کہ انہیں خلیل الرحمٰن علیہ السلام کے قبلہ کی طرف منہ کرنے کا حکم ہوا جو اسی اللہ لا شریک کے نام پر بنایا گیا ہے اور تمام تر فضیلتیں جسے حاصل ہیں ۔مسند احمد کی ایک مرفوع حدیث ہے :

یہودیوں کو ہم سے اس بات پر بہت حسد ہے کہ

-  اللہ نے ہمیں جمعہ کے دن کی توفیق دی اور یہ اس سے بھٹک گئے

-  اور اس پر کہ ہمارا قبلہ یہ ہے اور وہ اس سے گمراہ ہو گئے

- اور بڑا حسد ان کو ہماری آمین کہنے پر بھی ہے جو ہم امام کے پیچھے کہتے ہیں

وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ۗ

ہم نے اسی طرح تمہیں عادل اُمت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو جاؤ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم تم پر گواہ ہو جائیں

اللہ  فرماتا ہے کہ اس پسندیدہ قبلہ کی طرف تمہیں متوجہ کرنا اس لیے ہے کہ تم خود بھی پسندیدہ اُمت ہو تم اور اُمتوں پر قیامت کے دن گواہ بنے رہو گے کیونکہ وہ سب تمہاری فضیلت مانتے ہیں

 وَسَط کے معنی یہاں پر بہتر اور عمدہ کے ہیں جیسے کہا جاتا ہے کہ قریش نسب کے اعتبار سے وسط عرب ہیں اور کہا گیا ہے حضور علیہ السلام اپنی قوم میں وَسَط تھے یعنی اشرف نسب والے اور صلوۃ وسطیٰ یعنی افضل تر نماز جو عصر ہے جیسے صحیح احادیث سے ثابت ہے

 اور چونکہ تمام اُمتوں میں یہ اُمت بھی بہتر افضل اور اعلیٰ تھی اس لئے انہیں شریعت بھی کامل راستہ بھی بالکل درست ملا اور دین بھی بہت واضح دیا گیاجیسے فرمایا :

هُوَ اجْتَبَـكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكمْ فِى الدِّينِ ۔۔۔ وَتَكُونُواْ شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ (۲۲:۷۸)

اسی نے تمہیں برگزیدہ بنایا ہے اور تم پر دین کے بارے میں کوئی تنگی نہیں ڈالی دین اپنے باپ ابراہیمؑ کا قائم رکھو اس اللہ نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے۔

اس قرآن سے پہلے اور اس میں بھی تاکہ پیغمبر تم پر گواہ ہو جائے اور تم تمام لوگوں کے گواہ بن جاؤ

مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 نوح علیہ السلام کو قیامت کے دن بلایا جائے گا اور ان سے دریافت کیا جائے گا کہ کیا تم نے میرا پیغام میرے بندوں کو پہنچا دیا تھا؟

وہ کہیں گے کہ ہاں اللہ پہنچا دیا تھا۔

 ان کی اُمت کو بلایا جائے گا اور ان سے پرسش ہوگی کیا نوح علیہ السلام نے میری باتیں تمہیں پہنچائی تھیں وہ صاف انکار کریں گے اور کہیں گے ہمارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا

 نوح علیہ السلام سے کہا جائے گا تمہاری اُمت انکار کرتی ہے تم گواہ پیش کرو

یہ کہیں گے کہ ہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی اُمت میری گواہ ہے

 یہی مطلب اس آیت وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا  کا ہے وَسَط کے معنی عدل کے ہیں

 اب تمہیں بلایا جائے گا اور تم گواہی دو گے اور میں تم پر گواہی دوں گا  (بخاری ترمذی، نسائی ابن ماجہ)

مسند احمد کی ایک اور روایت میں ہے:

 قیامت کے دن نبی آئیں گے اور ان کے ساتھ ان کی اُمت کے صرف دو ہی شخص ہوں گے اور اس سے زیادہ بھی اس کی اُمت کو بلایا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا کہ کیا اس نبی نے تمہیں تبلیغ کی تھی؟

وہ انکار کریں گے

نبی سے کہا جائے گا تم نے تبلیغ کی وہ کہیں گے ہاں،

 کہا جائے گا تمہارا گواہ کون ہے؟

وہ کہیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی اُمت۔

 پس محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی اُمت بلائی جائے گی ان سے یہی سوال ہو گا کہ کیا اس پیغمبر نے تبلیغ کی؟

یہ کہیں گے ہاں،

ان سے کہا جائے گا کہ تمہیں کیسے علم ہوا؟

یہ جواب دیں گے کہ ہمارے پاس ہمارے نبی آئے اور آپ نے خبر دی کہ انبیاء علیہم السلام نے تیرا پیغام اپنی اپنی اُمتوں کو پہنچایا ۔

یہی مطلب ہے اللہ عزوجل کے اس فرمان وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا  کا

مسند احمد کی ایک اور حدیث میں وَسَطًا  بمعنی عدلاً  آیا ہے

ابن مردویہ اور ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

میں اور میری اُمت قیامت کے دن ایک اونچے ٹیلے پر ہوں گے تمام مخلوق میں نمایاں ہوں گے اور سب کو دیکھ رہے ہوں گے اس روز تمام دنیا تمنا کرے گی کہ کاش وہ بھی ہم میں سے ہوتے

جس جس نبی کی قوم نے اسے جھٹلایا ہے ہم دربار رب العالمین میں شہادت دیں گے کہ ان تمام انبیاء نے حق رسالت ادا کیا تھا ۔

مستدرک حاکم کی ایک حدیث میں ہے :

بنی مسلمہ کے قبیلے کے ایک شخص کے جنازے میں ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے لوگ کہنے لگے حضور یہ بڑا نیک آدمی تھا۔ بڑا متقی پارسا اور سچا مسلمان تھا اور بھی بہت سی تعریفیں کیں

آپ ﷺنے فرمایا تم یہ کس طرح کہہ رہے ہو؟

اس شخص نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم پوشیدگی کا علم تو اللہ ہی کو ہے لیکن ظاہرداری تو اس کی ایسی ہی حالت تھی

آپ ﷺنے فرمایا اس کے لیے جنت واجب ہو گئی

 پھر بنو حارثہ کے ایک شخص کے جنازے میں تھے لوگ کہنے لگے حضرت یہ برا آدمی تھا بڑا بد زبان اور کج خلق تھا

آپ ﷺنے اس کی برائیاں سن کر پوچھا تم کیسے کہہ رہے ہو

 اس شخص نے بھی یہی کہا۔

 آپ ﷺنے فرمایا اس کے لیے واجب ہو گئی

 محمد بن کعب اس حدیث کو سن کر فرمانے لگے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں دیکھو قرآن بھی کہہ رہا ہے وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا    

مسند احمد میں ہے۔ ابوالاسود فرماتے ہیں:

 میں مدینہ میں آیا یہاں بیماری تھی لوگ بکثرت مر رہے تھے میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا جو ایک جنازہ نکلا اور لوگوں نے مرحوم کی نیکیاں بیان کرنی شروع کیں آپ نے فرمایا اس کے لیے واجب ہو گئی

 اتنے میں دوسرا جنازہ نکلا لوگوں نے اس کی برائیاں بیان کیں آپ نے فرمایا اس کے لیے واجب ہو گئی

 میں نے کہا امیر المؤمنین کیا واجب ہو گئی؟

آپ نے فرمایا میں نے وہی کہا جو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے

جس مسلمان کی بھلائی کی شہادت چار شخص دیںاللہ  اسے جنت میں داخل کرتا ہے

 ہم نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اگر تین دیں؟

 آپ ﷺنے فرمایا تین بھی

 ہم نے کہا اگر دو ہوں

 آپ ﷺنے فرمایا دو بھی۔

 پھر ہم نے ایک کی بابت کا سوال نہ کیا

ابن مردویہ کی ایک حدیث میں ہے:

 قریب ہے کہ تم اپنے بھلوں اور بروں کو پہچان لیا کرو ۔

 لوگوں نے کہا حضور کس طرح ؟

آپ ﷺنے فرمایا اچھی تعریف اور بری شہادت سے تم زمین پر اللہ کے گواہ ہو

وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنْتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّنْ يَنْقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ ۚ

جس قبلہ پر تم پہلے تھے اسے ہم نے صرف اس لئے مقرر کیا تھا کہ ہم جان لیں کہ رسول کا سچا تابعدار کون ہے اور کون ہے جو اپنی ایڑیوں کے بل پلٹ جاتا ہے

پھر فرماتا ہے کہ اگلا قبلہ صرف امتحان کے طور پر تھا یعنی پہلے بیت المقدس کو قبلہ مقرر کر کے پھر کعبۃ اللہ کی طرف پھیرنا صرف اس لئے تھا کہ معلوم ہو جائے کہ سچا تابعدار کون ہے؟اور کون ہے جو ایک دم کروٹ لیتا ہے اور مرتد ہو جاتا ہے،

یہ کام فی الحقیقت اہم کام تھا لیکن جن کے دلوں میں ایمان و یقین ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے پیروکار ہیں جو جانتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جو فرمائیں سچ ہے جن کا عقیدہ ہے کہ اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے جو ارادہ کرتا ہے حکم کرتا ہے۔ اپنے بندوں کو جس طرح چاہے حکم دے جو چاہے مٹائے جو چاہے باقی رکھے اسکا ہر کام، ہر حکم حکمت سے پر ہے ان پر اس حکم کی بجا آوری کچھ بھی مشکل نہیں۔

 قبلہ کی تبدیلی امتحان کے لیے تھی ہاں بیمار دل والے تو جہاں نیا حکم آیا انہیں فوراً نیا درد اٹھا قرآن کریم میں اور جگہ ہے:

وَإِذَا مَآ أُنزِلَتْ سُورَةٌ فَمِنْهُمْ مَّن يَقُولُ ۔۔۔ فَزَادَتْهُمْ رِجْسًا إِلَى رِجْسِهِمْ (۹:۱۲۴،۱۲۵)

اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو بعض منافقین کہتے ہیں کہ اس سورت نے تم میں سے کس کے ایمان کو زیادہ کیا

سو جو لوگ ایماندار ہیں اس سورت نے ان کے ایمان کو زیادہ کیا ہے اور وہ خوش ہو رہے ہیں ۔

اور جن کے دلوں میں روگ ہے اس سورت نے ان میں ان کی گندگی کے ساتھ اور گندگی بڑھا دی

اور جگہ فرمان ہے :

قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدًى وَشِفَاءٌ ۖ وَالَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ فِي آذَانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى (۴۱:۴۴)

آپ کہہ دیجئے! کہ یہ تو ایمان والوں کے لئے ہدایت و شفا ہے

اور جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں تو (بہرہ پن اور) بوجھ ہے اور یہ ان پر اندھا پن ہے،

اور جگہ فرمان ہے:

وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْءَانِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ وَلاَ يَزِيدُ الظَّـلِمِينَ إَلاَّ خَسَارًا (۱۷:۸۲)

یہ قرآن جو ہم نازل کر رہے ہیں مؤمنوں کے لئے تو سراسر شفا اور رحمت ہے ہاں ظالموں کو بجز نقصان کے اور کوئی زیادتی نہیں ہوتی

وَإِنْ كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلَّا عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ ۗ

گو یہ کام مشکل ہے، مگر جنہیں اللہ نے ہدایت دی ہے ان پر کوئی مشکل نہیں

اس واقعہ میں بھی تمام بزرگ صحابہ ثابت قدم رہے اول سبقت کرنے والے مہاجر اور انصار دونوں قبیلوں کی طرف نماز پڑھنے والے ہیں چنانچہ اوپر حدیث بیان ہو چکی کہ کس طرح وہ نماز پڑھتے ہوئے یہ خبر سن کر گھوم گئے ۔

مسلم شریف میں روایت ہے کہ رکوع کی حالت میں تھے اور اسی میں کعبہ کی طرف پھر گئے جس سے ان کی کمال اطاعت اور اعلیٰ درجہ کی فرمان برداری ثابت ہوئی

وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ ۚ

 اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال ضائع نہیں کرے گا

ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ تمہارے ایمان کو ضائع نہیں کرے گا ۔ یعنی تمہاری بیت المقدس کی طرف پڑھی ہوئی نمازیں رد نہیں ہوں گے حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں بلکہ ان کی اعلیٰ ایمانداری ثابت ہوئی انہیں دونوں قبلوں کی طرف نماز پڑھنے کا ثواب عطا ہو گا

یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اور ان کے ساتھ تمہارے گھوم جانے کو ضائع نہ کرے گا

إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ (۱۴۳)

اللہ تعالیٰ لوگوں کے ساتھ شفقت اور مہربانی کرنے والا ہے۔‏

ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ رؤف رحیم ہے؟

صحیح حدیث میں ہے:

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنگی قیدی عورت کو دیکھا جس سے اس کا بچہ چھوٹ گیا تھا وہ اپنے بچہ کو پاگلوں کی طرح تلاش کر رہی تھی اور جب وہ نہیں ملا تو قیدیوں میں سے جس کسی بچہ کو دیکھتی اسی کو گلے لگا لیتی یہاں تک کہ اس کا اپنا بچہ مل گیا خوشی خوشی لپک کر اسے گود میں اٹھا لیا سینے سے لگایا پیار کیا اور اس کے منہ میں دودھ دیا

 یہ دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا بتاؤ تو یہ اپنا بس چلتے ہوئے اس بچہ کو آگ میں ڈال دے گی؟

 لوگوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہرگز نہیں

آپ ﷺنے فرمایا:

فَوَاللهِ للهُ أَرْحَمُ بِعِبَادِهِ مِنْ هذِهِ بِوَلَدِهَا

 اللہ کی قسم جس قدر یہ ماں اپنے بچہ پہ مہربان ہے اس سے کہیں زیادہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رؤف و رحیم ہے۔

قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ ۖ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا ۚ

ہم آپ کے چہرے کو بار بار آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں،

اب آپ کو ہم اس قبلہ کی طرف متوجہ کریں گے جس سے آپ خوش ہو جائیں

حضرت ابن عباسؓ  کا بیان ہے کہ قرآن میں قبلہ کا حکم پہلا نسخ ہے

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت کی یہاں کے اکثر باشندے یہود تھے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بیت المقدس کی طرف نمازیں پڑھنے کا حکم دیا یہود اس سے بہت خوش ہوئے ۔ آپ کئی ماہ تک اسی رخ نماز پڑھتے رہے لیکن خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چاہت قبلہ ابراہیمی کی تھی آپﷺ اللہ سے دعائیں مانگا کرتے تھے اور نگاہیں آسمان کی طرف اٹھایا کرتے تھے بالاخر آیت قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ  نازل ہوئی

اس پر یہود کہنے لگے کہ اس قبلہ سے یہ کیوں ہٹ گئے جس کے جواب میں کہا گیا مشرق اور مغرب کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے

مَا وَلاَّهُمْ عَن قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُواْ عَلَيْهَا قُل لِّلّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ (۲:۱۴۲)

جس قبلہ پر یہ تھے اس سے انہیں کس چیز نے ہٹایا؟ آپ کہہ دیجئے کہ مشرق اور مغرب کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے

اور فرمایا

فَأَيْنَمَا تُوَلُّواْ فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ (۲:۱۱۵)

تم جدھر بھی منہ کرو ادھر ہی اللہ کا منہ ہے

پہلا  قبلہ بطور امتحان تھا جیسے فرمایا :

وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِى كُنتَ عَلَيْهَآ إِلاَّ لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ (۲:۱۴۳)

جس قبلہ پر تم پہلے تھے اسے ہم نے صرف اس لئے مقرر کیا تھا کہ ہم جان لیں کہ رسول کا سچا تابعدار کون ہے

اور کون ہے جو اپنی ایڑیوں کے بل پلٹ جاتا ہے

اور روایت میں ہے:

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد اپنا سر آسمان کی طرف اٹھاتے تھے اس پر یہ آیت اتری اور حکم ہوا کہ مسجد حرام کی طرف کعبہ کی طرف میزاب کی طرف منہ کرو جبرائیل علیہ السلام نے امامت کرائی ۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسجد حرام میں میزاب کے سامنے بیٹھے ہوئے اس آیت پاک کی تلاوت کی اور فرمایا میزاب کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم ہے ۔

 امام شافعی کا بھی ایک قول یہ ہے کہ عین کعبہ کی طرف توجہ مقصود ہے اور دوسرا قول آپ کا یہ ہے کہ کعبہ کی جہت ہونا کافی ہے اور یہی مذہب اکثر ائمہ کرام کا ہے ۔

حضرت علیؓ فرماتے ہیں مراد اس کی طرف ہے

ابو العالیہ مجاہد عکرمہ سعید بن جبیر قتادہ ربیع بن انس وغیرہ کا بھی یہی قول ہے ۔

 ایک حدیث میں بھی ہے کہ مشرق و مغرب کے درمیان قبلہ ہے

فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ

 آپ اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیں

ابن جریج میں حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 بیت اللہ قبلہ ہے مسجد حرام والوں کا اور مسجد قبلہ ہے  اہل حرام کا اور حرم قبلہ  ہے تمام زمین والوں کا خواہ مشرق میں ہوں خواہ مغرب میں میری تمام اُمت کا قبلہ یہی ہے ۔

ابو نعیم میں بروایت براء ؓمروی ہے:

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سولہ سترہ مہینے تک تو بیت المقدس کی طرف نماز پڑھی لیکن آپ کو پسند امر یہ تھا کہ بیت اللہ کی طرف پڑھیں چنانچہ اللہ کے حکم سے آپ نے بیت اللہ کی طرف متوجہ ہو کر عصر کی نماز ادا کی

پھر نمازیوں میں سے ایک شخص مسجد والوں کے پاس گیا وہ رکوع میں تھے اس نے کہا میں حلفیہ گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ شریف کی طرف نماز ادا کی

یہ سن کر وہ جس حالت میں تھے اسی حالت میں بیت اللہ شریف کی طرف پھر گئے

عبدالرزاق میں بھی یہ روایت قدرے کمی بیشی کے ساتھ مروی ہے

 نسائی میں حضرت ابو سعید بن معلیٰ سے مروی ہے:

 ہم صبح کے وقت مسجد نبوی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جایا کرتے تھے اور وہاں کچھ نوافل پڑھا کرتے تھے ایک دن ہم گئے تو دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر بیٹھے ہوئے ہیں میں نے کہا آج کوئی نئی بات ضرور ہوئی ہے میں بھی بیٹھ گیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت قَدْ نَرَى تلاوت فرمائی

 میں نے اپنے ساتھی سے کہا آؤ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہوں منبر سے اترنے سے پہلے ہی ہم اس نئے حکم کی تعمیل کریں اور اول فرمانبردار بن جائیں چنانچہ ہم ایک طرف ہو گئے اور سب سے پہلے بیت اللہ شریف کی طرف نماز پڑھی

حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی منبر سے اتر آئے اور اس قبلہ کی طرف پہلی نماز ظہر ادا کی گئی ۔

 ابن مردویہ میں بروایت ابن عمر ؓمروی ہے کہ پہلی نماز جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کی طرف ادا کی وہ ظہر کی نماز ہے اور یہی نماز صلوٰۃ وسطی ٰہے

لیکن مشہور یہ ہے کہ پہلی نماز کعبہ کی طرف عصر کی ادا کی ہوئی اسی وجہ سے اہل قبا کو دوسرے دن صبح کے وقت اطلاع پہنچی۔

ابن مردویہ میں بروایت نویلہ بنت مسلم موجود ہے  کہ ہم مسجد بنو حارثہ میں ظہر یا عصر کی نماز بیت المقدس کی طرف منہ کئے ہوئے ادا کر رہے تھے دو رکعت پڑھ چکے تھے کہ کسی نے آ کر قبلہ کے بدل جانے کی خبر دی ۔ چنانچہ ہم نماز میں بیت اللہ کی طرف متوجہ ہو گئے اور باقی نماز اسی طرف ادا کی، اس گھومنے میں مرد عورتوں کی جگہ اور عورتیں مردوں کی جگہ آ گئیں، آپ کے پاس جب یہ خبر پہنچی تو خوش ہو کر فرمایا یہ ہیں ایمان بالغیب رکھنے والے ۔

 ابن مردویہ میں بروایت عمارہ بن اوس مروی ہے کہ رکوع کی حالت میں ہمیں اطلاع ہوئی اور ہم سب مرد عورتیں بچے اسی حالت میں قبلہ کی طرف گھوم گئے۔

وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ ۗ

آپ جہاں کہیں ہوں اپنا منہ اسی طرف پھیرا کریں۔

ارشاد ہوتا ہے تم جہاں بھی ہو مشرق مغرب شمال یا جنوب میں ہر صورت نماز کے وقت منہ کعبہ کی طرف کر لیا کرو ۔

ہاں البتہ سفر میں سواری پر نفل پڑھنے والا جدھر سواری جا رہی ہو ادھر ہی نفل ادا کرنے اس کے دل کی توجہ کعبہ کی طرف ہونی کافی ہے

اسی طرح میدان جنگ میں نماز پڑھنے والا جس طرح اور جس طرف بن پڑے نماز ادا کر لے

 اور اسی طرح وہ شخص جسے قبلہ کی جہت کا قطعی علم نہیں وہ اندازہ سے جس طرف زیادہ دل مانے نماز ادا کر لے ۔ پھر گو اس کی نماز فی الواقع قبلہ کی طرف نہ بھی ہوئی ہو تو بھی وہ اللہ کے ہاں معاف ہے ۔

مسئلہ مالکیہ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ نمازی حالت نماز میں اپنے سامنے اپنی نظریں رکھے نہ کہ سجدے کی جگہ جیسے کہ شافعی ، احمد اور ابوحنیفہ کا مذہب ہے اس لیے کہ آیت کے الفاظ یہ ہیں کہ منہ مسجد الحرام کی طرف کرو اور اگر سجدے کی جگہ نظر جمانا چاہے گا تو قدرے جھکنا پڑے گا اور یہ تکلیف کمال خشوع کے خلاف ہو گا

 بعض مالکیہ کا یہ قول بھی ہے کہ قیام کی حالت میں اپنے سینہ کی طرف نظر رکھے

قاضی شریک کہتے ہیں کہ قیام کے وقت سجدہ کی جگہ نظر رکھے جیسے کہ جمہور جماعت کا قول ہے اس لئے کہ یہ پورا پورا خشوع خضوع ہے

اور ایک حدیث بھی اس مضمون کی وارد ہوئی ہے:

وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ (۱۴۴)

اہل کتاب کو اس بات کے اللہ کی طرف سے برحق ہونے کا قطعی علم ہے اور اللہ تعالیٰ ان اعمال سے غافل نہیں جو یہ کرتے ہیں

ارشاد ہوتا ہے کہ یہ یہودی جو چاہیں باتیں بنائیں لیکن ان کے دل جانتے ہیں کہ قبلہ کی تبدیلی اللہ کی جانب سے ہے اور برحق ہے کیونکہ یہ خود ان کی کتابوں میں بھی موجود ہے لیکن یہ لوگ کفر وعناد اور تکبر و حسد کی وجہ سے اسے چھپاتے ہیں اللہ بھی ان کی ان کرتوتوں سے بےخبر نہیں۔

وَلَئِنْ أَتَيْتَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ بِكُلِّ آيَةٍ مَا تَبِعُوا قِبْلَتَكَ ۚ

اور آپ اگرچہ اہل کتاب کو تمام دلیلیں دے دیں لیکن وہ آپ کے قبلے کی پیروی نہیں کریں گے

یہودیوں کے کفر و عناد اور مخالفت و سرکشی کا بیان ہو رہا ہے کہ باوجودیکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کا انہیں علم ہے لیکن پھر بھی یہ حالت ہے کہ ہر قسم کی دلیلیں پیش ہو چکنے کے بعد بھی حق کی پیروی نہیں کرتےجیسے اور جگہ ہے:

إِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ ـ وَلَوْ جَآءَتْهُمْ كُلُّ ءايَةٍ حَتَّى يَرَوُاْ الْعَذَابَ الاٌّلِيمَ (۱۰:۹۶،۹۷)

 یقیناً جن لوگوں کے حق میں آپکے رب کی بات ثابت ہو چکی ہے وہ ایمان نہ لائیں گے گو ان کے پاس تمام نشانیاں پہنچ جائیں جبتک وہ دردناک عذاب کو نہ دیکھ لیں

وَمَا أَنْتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ ۚ وَمَا بَعْضُهُمْ بِتَابِعٍ قِبْلَةَ بَعْضٍ ۚ

اور نہ آپ کے قبلے کو ماننے والے ہیں اور نہ یہ آپس میں ایک دوسرے کے قبلے کو ماننے والے ہیں

پھر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی استقامت بیان فرماتا ہے کہ جس طرح وہ ناحق پر ڈٹے ہوئے ہیں اور وہاں سے ہٹنا نہیں چاہتے تو وہ بھی سمجھ لیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایسے نہیں کہ ان کی باتوں میں آ جائیں اور ان کی راہ چل پڑیں وہ ہمارے تابع فرمان ہیں اور ہماری مرضی کے عامل ہیں وہ ان کی باطل خواہش کی تابعداری ہرگز نہیں کریں گے نہ ان سے یہ ہو سکتا ہے کہ ہمارا حکم آ جانے کے بعد ان کے قبلہ کی طرف توجہ کریں

وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ إِنَّكَ إِذًا لَمِنَ الظَّالِمِينَ (۱۴۵)

اور اگر آپ باوجود کہ آپ کے پاس علم آچکا ہے پھر بھی ان کی خواہشوں کے پیچھے لگ جائیں تو بالیقین آپ بھی ظالموں میں ہوجائیں گے ۔‏

پھر اپنے نبی کو خطاب کر کے در اصل علماء کو دھمکایا گیا کہ حق کے واضح ہو جانے کے بعد کسی کے پیچھے لگ جانا اور اپنی یا دوسروں کی خواہش پرستی کرنا یہ صریح ظلم ہے۔

الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ ۖ

جنہیں ہم نے کتاب دی وہ تو اسے ایسا پہچانتے ہیں جیسے کوئی اپنے بچوں کو پہچانے،

ارشاد ہوتا ہے کہ علماء اہل کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی باتوں کی حقانیت کو اس طرح جانتے ہیں جس طرح باپ اپنے بیٹوں کو پہچانے یہ ایک مثال تھی جو مکمل یقین کے وقت عرب دیا کرتے تھے ۔

ایک حدیث میں ہے:

 ایک شخص کے ساتھ چھوٹا بچہ تھا آپ ﷺنے اس سے پوچھا یہ تیرا لڑکا ہے؟

 اس نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ بھی گواہ رہیئے

آپ نے فرمایا نہ یہ تجھ پر پوشیدہ رہے نہ تو اس پر۔

قرطبی کہتے ہیں ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عبداللہ بن سلام سے جو یہودیوں کے زبردست علامہ تھے پوچھا کیا تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا ہی جانتا ہے جس طرح اپنی اولاد کو پہچانتا ہے؟

 جواب دیا ہاں بلکہ اس سے بھی زیادہ اس لئے کہ آسمانوں کا امین فرشتہ زمین کے امین شخص پر نازل ہوا اور اس نے آپ کی صحیح تعریف بتا دی یعنی حضرت جبرائیل حضرت عیسیٰؑ کے پاس آئے اور پھر پروردگار عالم نے ان کی صفتیں بیان کیں جو سب کی سب آپ میں موجود ہیں پھر ہمیں آپ کے نبی برحق ہونے میں کیا شک رہا؟ ہم آپ کو بیک نگاہ کیوں نہ پہچان لیں؟بلکہ ہمیں اپنی اولاد کے بارے میں شک ہے اور آپ کی نبوت میں کچھ شک نہیں،

غرض یہ ہے کہ جس طرح لوگوں کے ایک بڑے مجمع میں ایک شخص اپنے لڑکے کو پہچان لیتا ہے اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف جو اہل کتاب کی آسمانی کتابوں میں ہیں وہ تمام صفات آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں اس طرح نمایاں ہیں کہ بیک نگاہ ہر شخص آپ کو جان جاتا ہے

وَإِنَّ فَرِيقًا مِنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ (۱۴۶)

ان کی ایک جماعت حق کو پہچان کر پھر چھپاتی ہے ۔

پھر فرمایا کہ باوجود اس علم حق کے پھر بھی یہ لوگ اسے چھپاتے ہیں

الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ ۖ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ (۱۴۷)

آپ کے رب کی طرف سے یہ سراسر حق ہے، خبردار آپ شک کرنے والوں میں نہ ہونا ۔

پھر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو ثابت قدمی کا حکم دیا کہ خبردار تم ہرگز حق میں شک نہ کرنا۔

وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا ۖ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ۚ

ہر شخص ایک نہ ایک طرف متوجہ ہو رہا ہے تم اپنی نیکیوں کی طرف دوڑو۔

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ہر مذہب والوں کا ایک قبلہ ہے لیکن سچا قبلہ وہ ہے جس پر مسلمان ہیں

 ابو العالیہ کا قول ہے :

یہود کا بھی قبلہ ہے نصرانیوں کا بھی قبلہ ہے اور تمہارا بھی قبلہ ہے لیکن ہدایت والا قبلہ وہی ہے جس پر اے مسلمانو تم ہو ۔

مجاہد سے یہ بھی مروی ہے کہ ہر ایک وہ قوم جو کعبہ کو قبلہ مانتی ہے وہ بھلائیوں میں سبقت کرے

مُوَلِّيهَا کی دوسری قرأت مُوَلَّاهَا ہے

جیسے اور جگہ ہے:

لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً (۵:۴۸)

تم میں سے ہر ایک کے لئے ہم نے ایک دستور اور راہ مقرر کر

أَيْنَ مَا تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللَّهُ جَمِيعًا ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (۱۴۸)

جہاں کہیں بھی تم ہو گے، اللہ تمہیں لے آئے گا۔ اللہ تعالیٰ ہرچیز پر قادر ہے۔‏

پھر فرمایا کہ گو تمہارے جسم اور بدن مختلف ہو جائیں گو تم ادھر ادھر بکھر جاؤ لیکن اللہ تمہیں اپنی قدرت کاملہ سے اسی زمین سے جمع کر لے گا۔

وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۖ

وَإِنَّهُ لَلْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (۱۴۹)

آپ جہاں سے نکلیں اپنا منہ (نماز کے لئے) مسجد حرام کی طرف کرلیا کریں،

یعنی یہ حق ہے آپ کے رب کی طرف سے، جو کچھ تم کر رہے ہو اس سے اللہ تعالیٰ بےخبر نہیں۔‏

 فخرالدین رازی نے اس کی یہ وجہ بیان کی ہے:

- پہلا حکم تو ان کے لیے ہے جو کعبہ کو دیکھ رہے ہیں ۔

- دوسرا حکم ان کے لیے ہے جو مکہ میں ہیں لیکن کعبہ ان کے سامنے نہیں۔

- تیسری بار انہیں حکم دیا جو مکہ کے باہر روئے زمین پر ہیں۔

قرطبی نے ایک توجیہ یہ بھی بیان کی ہے:

- پہلا حکم مکہ والوں کو ہے

- دوسرا اور شہر والوں کو

- تیسرا مسافروں کو

 بعض کہتے ہیں تینوں حکموں کا تعلق اگلی پچھلی عبارت سے ہے۔

- پہلے حکم میں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طلب کا اور پھر اس کی قبولیت کا ذکر ہے

- اور دوسرے حکم میں اس بات کا بیان ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ چاہت بھی ہماری چاہت کے مطابق تھی اور حق امر یہی تھا

- اور تیسرے حکم میں یہودیوں کی حجت کا جواب ہے کہ ان کی کتابوں میں پہلے سے موجود تھا کہ آپ کا قبلہ کعبہ ہو گا تو اس حکم سے وہ پیشین گوئی بھی پوری ہوئی۔ ساتھ ہی مشرکین کی حجت بھی ختم ہوئی کہ وہ کعبہ کو متبرک اور مشرف مانتے تھے اور اب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ بھی اسی کی طرف ہو گئی

رازی نے اس حکم کو بار بار لانے کی حکمتوں کو بخوبی تفصیل سے بیان کیا ہے واللہ اعلم۔

وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ

اور جس جگہ سے آپ نکلیں اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیں

پھر فرمایا تا کہ اہل کتاب کو  کوئی حجت تم پر باقی نہ رہے وہ جانتے تھے کہ اس  اُمت کی صفت  کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا  ہے جب وہ یہ صفت نہ پائیں گے تو انہیں شک کی گنجائش ہو سکتی ہے لیکن جب انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قبلہ کی طرف پھرتے ہوئے دیکھ لیا تو اب انہیں کسی طرح کا شک نہ رہنا چاہئے

 اور یہ بات بھی ہے کہ جب وہ تمہیں اپنے قبلہ کی طرف نمازیں پڑھتے ہوئے دیکھیں گے تو ان کے ہاتھ ایک بہانہ لگ جائے گا لیکن جب تم ابراہیمی قبلہ کی طرف متوجہ ہو جاؤ گے تو وہ خالی ہاتھ رہ جائیں گے،

حضرت ابو العالیہ فرماتے ہیں :

یہود کی یہ حجت تھی کہ آج یہ ہمارے قبلہ کی طرف ہیں یعنی ہمارے قبلہ کی طرف رخ کرتے ہیں کل ہمارا مذہب بھی مان لیں گے لیکن جب اپنے اللہ کے حکم سے اصلی قبلہ اختیار کر لیا تو ان کی اس ہوس پر پانی پڑ گیا

وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ

اور جہاں کہیں تم ہو اپنے چہرے اسی طرف کیا کرو تاکہ لوگوں کی کوئی حجت باقی نہ رہ جائے سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے ان میں سے ظلم کیا ہے

پھر فرمایا مگر جو ان میں سے ظالم اور ضدی مشرکین بطور اعتراض کہتے تھے کہ یہ شخص ملت ابراہیمی پر ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور پھر ابراہیمی قبلہ کی طرف نماز نہیں پڑھتا انہیں جواب بھی مل گیا کہ یہ نبی ﷺ ہمارے احکام کا متبع ہے پہلے ہم نے اپنی کمال حکمت سے انہیں بیت المقدس کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا جسے وہ بجا لائے پھر ابراہیمی قبلہ کی طرف پھر جانے کو کہا جسے جان و دل سے بجا لائے پس آپ ہر حال میں ہمارے احکام کے ما تحت ہیں (صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ وسلم)

فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (۱۵۰)

تم ان سے نہ ڈرو مجھ سے ہی ڈرو تاکہ میں اپنی نعمت تم پر پوری کروں اور اس لئے بھی کہ تم راہ راست پاؤ۔‏

پھر فرمایا ان ظالموں کے شبہ ڈالنے سے تم شک میں نہ پڑو ان باغیوں کی سرکشی سے تم خوف نہ کرو ان کے بےجان اعتراضوں کی مطلق پرواہ نہ کر وہاں میری ذات سے خوف کیا کرو صرف مجھ ہی سے ڈرتے رہا کرو

قبلہ بدلنے میں جہاں یہ مصلحت تھی کہ لوگوں کی زبانیں بند ہو جائیں وہاں یہ بھی بات تھی کہ میں چاہتا تھا کہ اپنی نعمت تم پر پوری کر دوں اور قبلہ کی طرح تمہاری تمام شریعت کامل کر دوں اور تمہارے دین کو ہر طرح مکمل کر دوں اور اس میں یہ ایک راز بھی تھا کہ جس قبلہ سے اگلی اُمتیں بہک گئیں تم اس سے نہ ہٹوہم نے اس قبلہ کو خصوصیت کے ساتھ تمہیں عطا فرما کر تمہارا شرف اور تمہاری فضیلت و بزرگی تمام اُمتوں پر ثابت کر دی۔

كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولًا مِنْكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ

جس طرح ہم نے تم میں تمہیں سے رسول بھیجا اور ہماری آیتیں تمہارے سامنے تلاوت کرتا ہے اور تمہیں پاک کرتا ہے

یہاں اللہ تعالیٰ اپنی بہت بڑی نعمت کا ذکر فرما رہا ہے کہ اس نے ہم میں ہماری جنس کا ایک نبی مبعوث فرمایا، جو اللہ تعالیٰ کی روشن اور نورانی کتب کی آیتیں ہمارے سامنے تلاوت فرماتا ہے اور رذیل عادتوں اور نفس کی شرارتوں اور جاہلیت کے کاموں سے ہمیں روکتا ہے اور ظلمت کفر سے نکال کر نور ایمان کی طرف رہبری کرتا ہے

وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُمْ مَا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ (۱۵۱)

 اور تمہیں کتاب و حکمت اور وہ چیزیں سکھاتا ہے جس سے تم بےعلم تھے۔‏

اور کتاب و حکمت یعنی قرآن وحدیث ہمیں سکھاتا ہے اور وہ راز ہم پر کھولتا ہے جو آج تک ہم پر نہیں کھلے تھے

پس آپ کی وجہ سے وہ لوگ جن پر صدیوں سے جہل چھایا ہوا تھاجنہیں صدیوں سے تاریکی نے گھیر رکھا تھا جن پر مدتوں سے بھلائی کا پر تو بھی نہیں پڑا تھا دنیا کی زبردست علامہ ہستیوں کے استاد بن گئے، وہ علم میں گہرے تکلف میں تھوڑے دلوں کے پاک اور زبان کے سچے بن گئے، دنیا کی حالت کا یہ انقلاب بجائے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی تصدیق کا ایک شاہد و عدل ہےاور جگہ ارشاد ہے :

لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ ءَايَـتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ (۳:۱۶۴)

بیشک مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ انہیں میں سے ایک رسول ان میں بھیجا جو انہیں ا کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے

 اس نعمت کو قدر نہ کرنے والوں کو قرآن کہتا ہے:

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُواْ نِعْمَتَ اللَّهِ كُفْرًا وَأَحَلُّواْ قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ  (۱۴:۲۸)

کیا آپ نے ان کی طرف نظر نہیں ڈالی جنہوں نے اللہ کی نعمت کے بدلے ناشکری کی اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر میں لا اتارا

 یہاں نِعْمَتَ اللَّهِ سے مراد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں

فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ

اس لئے تم میرا ذکر کرو میں بھی تمہیں یاد کروں گا،

اسی لئے اس آیت میں بھی اپنی نعمت کا ذکر فرما کر لوگوں کو اپنی یاد اور اپنے شکر کا حکم دیا کہ جس طرح میں نے احسان تم پر کیا تم بھی میرے ذکر اور میرے شکر سے غفلت نہ کرو۔

موسیٰ علیہ السلام اللہ رب العزت سے عرض کرتے ہیں کہ اے اللہ تیرا شکر کس طرح کروں ارشاد ہوتا ہے

مجھے یاد رکھو بھولو نہیں

یاد شکر ہے اور بھول کفر ہے

حسن بصری کا قول ہے :

اللہ کی یاد کرنے والے کو اللہ بھی یاد کرتا ہے اس کا شکر کرنے والے کو وہ زیادہ دیتا ہے اور ناشکرے کو عذاب کرتا ہے

 بزرگان سلف سے مروی ہے کہ اللہ سے پورا ڈرنا یہ ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے نافرمانی نہ کی جائے اس کا ذکر کیا جائے غفلت نہ برتی جائے اس کا شکر کیا جائے ناشکری نہ کی جائے ۔

حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے سوال ہوتا ہے کہ کیا زانی، شرابی ، چور اور قاتل نفس کو بھی اللہ یاد کرتا ہے؟

فرمایا ہاں برائی سے،

حسن بصری فرماتے ہیں:

 مجھے یاد کرو یعنی میرے ضروری احکام بجا لاؤ میں تمہیں یاد کروں گا یعنی اپنی نعمتیں عطا فرماؤں گا

سعید بن جبیر فرماتے ہیں:

 میں تمہیں بخش دوں گا اور اپنی رحمتیں تم پر نازل کروں گا

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ اللہ کا یاد کرنا بہت بڑی چیز ہے

 ایک قدسی حدیث میں ہے :

جو مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے میں اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اور جو مجھے کسی جماعت میں یاد کرتا ہے میں بھی اسے اس سے بہتر جماعت میں یاد کرتا ہوں ۔

مسند احمد میں ہے کہ وہ جماعت فرشتوں کی ہے

جو شخص میری طرف ایک بالشت بڑھتا ہے میں اس کی طرف ایک ہاتھ بڑھاتا ہوں اور اگر تو اے بنی آدم میری طرف ایک ہاتھ بڑھائے گا میں تیری طرف دو ہاتھ بڑھاؤں گا اور اگر تو میری طرف چلتا ہوا آئے گا تو میں تیری طرف دوڑتا ہوا آؤں گا

صحیح بخاری میں بھی یہ حدیث ہے

حضرت قتادہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت اس سے بھی زیادہ قریب ہے

وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ (۱۵۲)

 میری شکر گزاری کرو اور ناشکری سے بچو

پھر فرمایا میرا شکر کرو ناشکری نہ کرواور جگہ ہے :

وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِى لَشَدِيدٌ  (۱۴:۷)

اور جب تمہارے پروردگار نے تمہیں آگاہ کر دیا کہ اگر تم شکرگزاری کرو گے تو بیشک میں تمہیں زیادہ دونگا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو یقیناً میرا عذاب بہت سخت ہے

مسند احمد میں ہے کہ عمربن حصین ایک مرتبہ نہایت قیمتی حلہ پہنے ہوئے آئے اور فرمایا اللہ تعالیٰ جب کسی پر انعام کرتا ہے تو اس کا اثر اس پر دیکھنا چاہتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ (۱۵۳)

اے ایمان والو صبر اور نماز کے ذریعہ سے مدد چاہو، اللہ تعالیٰ صبر والوں کا ساتھ دیتا ہے

شکر کے بعد صبر کا بیان ہو رہا ہے اور ساتھ ہی نماز کا ذکر کر کے ان بڑے بڑے نیک کاموں کو ذریعہ نجات بنانے کا حکم ہو رہا ہے، ظاہر بات ہے کہ انسان یا تو اچھی حالت میں ہوگا تو یہ موقعہ شکر کا ہے یا اگر بری حالت میں ہوگا تو یہ موقعہ صبر کا ہے،

حدیث میں ہے:

 مؤمن کی کیا ہی اچھی حالت ہے کہ ہر کام میں اس کے لئے سراسر بھلائی ہی بھلائی ہے اسے راحت ملتی ہے ۔

شکر کرتا ہے تو اجر پاتا ہے، رنج پہنچتا ہے صبر کرتا ہے تو اجر پاتا ہے

 آیت میں اس کا بھی بیان ہو گیا کہ مصیبتوں پر تحمل کرے اور انہیں ٹالنے کا ذریعہ صبر و صلوٰۃ ہے، جیسے اس سے پہلے گزر چکا ہے:

وَاسْتَعِينُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلَوةِ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلاَّ عَلَى الْخَـشِعِينَ (۲:۴۵)

صبر و صلوٰۃ کے ساتھ استعانت چاہو یہ ہے تو اہم کام لیکن رب کا ڈر رکھنے والوں پر بہت آسان ہے،

حدیث میں ہے:

 جب کوئی کام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو غم میں ڈال دیتا تو آپ نماز شروع کر دیتے،

صبر کی دو قسمیں ہیں:

 حرام اور گناہ کے کاموں کے ترک کرنے پر،

اطاعت اور نیکی کے کاموں کے کرنے پریہ صبر پہلے سے بڑا ہے،

 تیسری قسم صبر کی مصیبت، درد اور دکھ پر یہ بھی واجب ہے، جیسے عیبوں سے استغفار کرنا واجب ہے،

حضرت عبدالرحمٰن فرماتے ہیں کہ اللہ کی فرمانبرداری میں استقلال سے لگے رہنا چاہے انسان پر شاق گزرے طبیعت کے خلاف ہو جی نہ چاہے یہ بھی ایک صبر ہے۔

 دوسرا صبر اللہ تعالیٰ کی منع کئے ہوئے کے کاموں سے رک جانا ہے چاہے طبعی میلان اس طرف ہو خواہش نفس اکسا رہی ہو،

امام زین العابدینؒ فرماتے ہیں:

قیامت کے دن ایک منادی ندا کرے گا کہ صبر کرنے والے کہاں ہیں؟ اٹھیں اور بغیر حساب کتاب کے جنت میں چلے جائیں کچھ لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے اور جنت کی طرف بڑھیں گے فرشتے انہیں دیکھ پر پوچھیں گے کہ کہاں جا رہے ہو؟ جواب دیں گے ہم صابر لوگ ہیں اللہ کی فرمانبرداری کرتے رہے اور اس کی نافرمانی سے بچتے رہے، مرتے دم تک اس پر اور اس پر صبر کیا اور جمے رہے، فرشتے کہیں گے پھر تو ٹھیک ہے بیشک تمہارا یہی بدلہ ہے اور اسی لائق تم ہو جاؤ جنت میں مزے کرو اچھے کام والوں کا اچھا ہی انجام ہےیہی قرآن فرماتا ہے:

إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ (۳۹:۱۰)

صبر کرنے والے ہی کو ان کا پورا پورا بیشمار اجر دیا جاتا ہے

حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں صبر کے یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اقرار کرے اور مصیبتوں کا بدلہ اللہ کے ہاں ملنے کا یقین رکھے ان پر ثواب طلب کرے ہر گھبراہٹ پریشانی اور کٹھن موقعہ پر استقلال اور نیکی کی امید پر وہ خوش نظر آئے

وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لَا تَشْعُرُونَ (۱۵۴)

اور اللہ تعالیٰ کی راہ کے شہیدوں کو مردہ مت کہو وہ زندہ ہیں، لیکن تم نہیں سمجھتے۔‏

پھر فرمایا کہ شہیدوں کو مردہ نہ کہو بلکہ وہ ایسی زندگی میں ہیں جسے تم نہیں سمجھ سکتے انہیں حیات برزخی حاصل ہے اور وہاں وہ خورد و نوش پا رہے ہیں،

صحیح مسلم شریف میں ہے :

شہیدوں کی روحیں سبز رنگ کے پرندوں کے قالب میں ہیں اور جنت میں جس جگہ چاہیں چرتی چگتی اڑتی پھرتی ہیں پھر ان قندیلوں میں آ کر بیٹھ جاتی ہیں جو عرش کے نیچے لٹک رہی ہیں

 ان کے رب نے ایک مرتبہ انہیں دیکھا اور ان سے دریافت کیا کہ اب تم کیا چاہتے ہو؟

انہوں نے جواب دیا اللہ ہمیں تو تو نے وہ وہ دے رکھا ہے جو کسی کو نہیں دیا پھر ہمیں کس چیز کی ضرورت ہو گی؟

 ان سے پھر یہی سوال ہوا

جب انہوں نے دیکھا کہ اب ہمیں کوئی جواب دینا ہی ہو گا تو کہا اللہ ہم چاہتے ہیں کہ تو ہمیں دوبارہ دنیا میں بھیج ہم تیری راہ میں پھر جنگ کریں پھر شہید ہو کر تیرے پاس آئیں اور شہادت کا دگنا درجہ پائیں،

رب جل جلالہ نے فرمایا یہ نہیں ہو سکتا یہ تو میں لکھ چکا ہوں کہ کوئی بھی مرنے کے بعد دنیا کی طرف پلٹ کر نہیں جائے گا

مسند احمد کی ایک اور حدیث میں ہے :

 مؤمن کی روح ایک پرندے میں ہے جو جنتی درختوں پر رہتی ہے اور قیامت کے دن وہ اپنے جسم کی طرف لوٹ آئے گی،

 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر مؤمن کی روح وہاں زندہ ہے لیکن شہیدوں کی روح کو ایک طرح کی امتیازی شرافت کرامت عزت اور عظمت حاصل ہے۔

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ

اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے، دشمن کے ڈر سے، بھوک پیاس سے، مال  جان اور پھلوں کی کمی سے

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ اپنے بندوں کی آزمائش ضرور کر لیتا ہے کبھی ترقی اور بھلائی کسے ذریعہ اور کبھی تنزل اور برائی سے ،

جیسے فرماتا ہے:

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجَـهِدِينَ مِنكُمْ وَالصَّـبِرِينَ وَنَبْلُوَ أَخْبَـرَكُمْ (۴۷:۳۱)

 یقیناً ہم تمہارا امتحان کریں گے تاکہ تم میں سے جہاد کرنے والوں اور صبر کرنے والوں کو ظاہر کر دیں اور ہم تمہاری حالتوں کی بھی جانچ کرلیں

اور جگہ ہے :

فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ (۱۶:۱۱۲)

اللہ تعالیٰ نے اسے بھوک اور ڈر کا مزہ چکھایا

مطلب یہ ہے کہ تھوڑا سا خوف، کچھ بھوک، کچھ مال کی کمی، کچھ جانوں کی کمی یعنی اپنوں اور غیروں کی  خویش و اقارب کی موت، کبھی پھلوں اور پیداوار کی نقصان وغیرہ سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزماتا ہے،

وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ (۱۵۵)

اور ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے۔‏

صبر کرنے والوں کو نیک اجر اور اچھا بدلہ عنایت فرماتا ہے اور بےصبر جلد باز اور ناامیدی کرنے والوں پر اس کے عذاب اتر آتے ہیں۔ بعض سلف سے منقول ہے کہ یہاں

- خوف سے مراد اللہ تعالیٰ کا ڈر ہے،

- بھوک سے مراد روزوں کی بھوک ہے،

- مال کی کمی سے مراد زکوٰۃ کی ادائیگی ہے،

- جان کی کمی سے مراد بیماریاں ہیں،

- پھلوں سے مراد اولاد ہے،

لیکن یہ تفسیر ذرا غور طلب ہے واللہ اعلم۔

الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (۱۵۶)

جنہیں جب کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور ہم اسکی طرف لوٹنے والے ہیں‏

اب بیان ہو رہا ہے کہ جن صبر کرنے والوں کی اللہ کے ہاں عزت ہے وہ کون لوگ ہیں؟

 پس فرماتا ہے یہ وہ لوگ ہیں جو تنگی اور مصیبت کے وقت آیت إِنَّا لِلَّهِ پڑھ لیا کرتے ہیں اور اس بات سے اپنے دل کو تسلی دے لیا کرتے ہیں کہ ہم اللہ کی ملکیت ہیں اور جو ہمیں پہنچا ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور ان میں جس طرح وہ چاہے تصرف کرتا رہتا ہے اور پھر اللہ کے ہاں اس کا بدلہ ہے جہاں انہیں بالآخر جانا ہے،

أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۖ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ (۱۵۷)

ان پر ان کے رب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔‏

ان کے اس قول کی وجہ سے اللہ کی نوازشیں اور الطاف ان پر نازل ہوتے ہیں عذاب سے نجات ملتی ہے اور ہدایت بھی نصیب ہوتی ہے۔

امیر المؤمنین حضرت عمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں دوبرابر کی چیزیں صلوات اور رحمت اور ایک درمیان کی چیز یعنی ہدایت ان صبر کرنے والوں کو ملتی ہے،

 مسند احمد میں ہے  کہ حضرت اُم سلمہؓ فرماتی ہیں :

میرے خاوند حضرت ابو سلمہؓ ایک روز میرے پاس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہو کر آئے اور خوشی خوشی فرمانے لگے آج تو میں نے ایک ایسی حدیث سنی ہے کہ میں بہت ہی خوش ہوا ہوں وہ حدیث یہ ہے کہ جس کسی مسلمان کو کوئی تکلیف پہنچے اور وہ کہے

اللھم اجرنی فی مصیبتی واخلف لی خیرا منھا

اللہ مجھے اس مصیبت میں اجر دے اور مجھے اس سے بہتر بدلہ عطا فرما

تو اللہ تعالیٰ اسے اجر اور بدلہ ضرور دیتا ہے

حضرت اُم سلمہؓ فرماتی ہیں میں نے اس دعا کو یاد کر لیا جب حضرت ابو سلمہؓ کا انتقال ہوا تو میں نے إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پڑھ کر پھر یہ دعا بھی پڑلی لیکن مجھے خیال آیا کہ بھلا ابو سلمہؓ سے بہتر شخص مجھے کون مل سکتا ہے؟

جب میری عدت گزر چکی تو میں ایک روز ایک کھال کو دباغت دے رہی تھی کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور اندر آنے کی اجازت چاہی میں نے اپنے ہاتھ دھو ڈالے کھال رکھ دی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اندر تشریف لانے کی درخواست کی اور آپ کو ایک گدی پر بٹھا دیا

 آپ ﷺنے مجھ سے اپنا نکاح کرنے کی خواہش  ظاہر کی،

میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو میری خوش قسمتی کی بات ہے لیکن اول تو میں بڑی باغیرت عورت ہوں ایسا نہ ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت کے خلاف کوئی بات مجھ سے سرزد ہو جائے اور اللہ کے ہاں عذاب ہو دوسرے یہ کہ میں عمر رسیدہ ہوں، تیسرے بال بچوں والی ہوں

 آپ ﷺنے فرمایا سنو ایسی بےجا غیرت اللہ تعالیٰ تمہاری دور کر دے گا اور عمر میں کچھ میں بھی چھوٹی عمر کا نہیں اور تمہارے بال بچے میرے ہی بال بچے ہیں

میں نے یہ سن کر کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی عذر نہیں چنانچہ میرا نکاح اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوگیا اور مجھے اللہ تعالیٰ نے اس دعا کی برکت سے میرے میاں سے بہت ہی بہتر یعنی اپنا رسول صلی اللہ علیہ وسلم عطا فرمایا فالحمد للہ

 صحیح مسلم شریف میں بھی یہ حدیث باختلاف الفاظ مروی ہے،

مسند احمد میں حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جس کسی مسلمان کو کوئی رنج و مصیبت پہنچے اس پر گویا زیادہ وقت گزر جائے پھر اسے یاد آئے اور وہ إِنَّا لِلَّهِ پڑھے تو مصیبت کے صبر کے وقت جو اجر ملا تھا وہی اب بھی ملے گا،

 ابن ماجہ میں ہے حضرت ابو سنان فرماتے ہیں:

 میں نے اپنے ایک بچے کو دفن کیا ابھی میں اس کی قبر میں سے نکلا نہ تھا کہ ابو طلحہ خولانی نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے نکالا اور کہا سنو میں تمہیں ایک خوشخبری سناؤں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ملک الموت سے دریافت فرماتا ہے تو نے میرے بندے کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور اس کا کلیجہ کا ٹکڑا چھین لیا بتا تو اس نے کیا کہا؟

 وہ کہتے ہیں اللہ تیری تعریف کی اور إِنَّا لِلَّهِ پڑھا

 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس کے لیے جنت میں ایک گھر بناؤ اور اس کا نام بیت الحمد رکھو۔

إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ ۖ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا ۚ

صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں اسلئے بیت اللہ کا حج و عمرہ کرنے والے پر ان کا طواف کر لینے میں بھی کوئی گناہ نہیں

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے حضرت عروہ دریافت کرتے ہیں کہ اس آیت سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ طواف نہ کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں

آپ نے فرمایا بھتیجے تم صحیح نہیں سمجھے اگر یہ بیان مد نظر ہوتا تو أَنْ لَّا يَطَّوَّفَ بِهِمَا ہوتا۔

سنو آیت شریف کا شان نزول یہ ہے

مثلل کے پاس مناۃ بت تھا اسلام سے پہلے انصار اسے پوجتے تھے اور جو اس کے نام لبیک پکار لیتا وہ صفا مروہ کے طواف کرنے میں حرج سمجھتا تھا، اب بعد از اسلام ان لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے صفا مروہ کے طواف کے حرج کے بارے میں سوال کیا تو یہ آیت اتری کہ اس میں کوئی حرج نہیں لیکن اسی کے بعد حضور علیہ السلام نے صفا مروہ کا طواف کیا اس لئے مسنون ہو گیا اور کسی کو اس کے ترک کرنے کا جواز نہ رہا  (بخاری مسلم)

ابوبکر بن عبدالرحمٰن نے جب یہ روایت سنی تو وہ کہنے لگے کہ بیشک یہ علمی بات ہے میں نے تو اس سے پہلے سنی ہی نہ تھی

 بعض اہل علم فرمایا کرتے تھے کہ انصار نے کہا تھا کہ ہمیں بیت اللہ کے طواف کا حکم ہے صفا مروہ کے طواف کو جاہلیت کا کام جانتے تھے اور اسلام کی حالت میں اس سے بچتے تھے یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی،

 ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان بہت سے بت تھے اور شیاطین رات بھر اس کے درمیان گھومتے رہتے تھے اسلام کے بعد لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہاں کے طواف کی بابت مسئلہ دریافت کیا جس پر یہ آیت اتری

اساف بت صفا پر تھا اور نائلہ مروہ پر، مشرک لوگ انہیں چھوتے اور چومتے تھے اسلام کے بعد لوگ اس سے الگ ہو گئے لیکن یہ آیت اتری جس سے یہاں کا طواف ثابت ہوا،

 سیرت محمد بن اسحاق میں ہے:

اساف اور نائلہ دو مردو عورت تھے ان بدکاروں نے کعبہ میں زنا کیا اللہ تعالیٰ نے انہیں پتھر بنا دیا، قریش نے انہیں کعبہ کے باہر رکھ دیا تاکہ لوگوں کو عبرت ہو لیکن کچھ زمانہ کے بعد ان کی عبادت شروع ہو گئی اور صفا مروہ پر لا کر نصب کر دئے گئے اور ان کا طواف شروع ہو گیا،

صحیح مسلم کی ایک لمبی حدیث میں ہے :

 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت اللہ شریف کا طواف کر چکے تو رکن کو چھو کر باب الصفا سے نکلے اور آیت تلاوت فرما رہے تھے پھر فرمایا میں بھی شروع کروں گا اس سے جس سے اللہ تعالیٰ نے شروع کیا،

 ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا تم شروع کرو اس سے جس سے اللہ نے شروع کیا یعنی صفا سے چل کر مروہ جاؤ۔

 حضرت حبیبہ بنت تجزاۃ فرماتی ہیں :

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ صفا مروہ کا طواف کرتے تھے لوگ آپ کے آگے آگے تھے اور آپ ان کے پیچھے تھے آپ قدرے دوڑ لگا رہے تھے اور اس کی وجہ سے آپ کا تہبند آپ کے ٹخنوں کے درمیان اِدھر اُدھر ہو رہا تھا اور زبان سے فرماتے جاتے تھے لوگوں دوڑ کر چلو اللہ تعالیٰ نے تم پر سعی لکھ دی ہے (مسند احمد)

اسی کی ہم معنی ایک روایت اور بھی ہے۔

 یہ حدیث دلیل ہے ان لوگوں کی جو صفا مروہ کی سعی کو حج کا رکن جانتے ہیں جیسے حضرت امام شافعی اور ان کے موافقین کا مذہب ہے، امام احمد سے بھی ایک روایت اسی طرح کی ہے امام مالک کا مشہور مذہب بھی یہی ہے،

بعض اسے واجب تو کہتے ہیں لیکن حج کا رکن نہیں کہتے اگر عمداً یا سہواً یا کوئی شخص اسے چھوڑ دے تو ایک جانور ذبح کرنا پڑے گا۔

 امام احمد سے ایک روایت اسی طرح مروی ہے اور ایک اور جماعت بھی یہی کہتی ہے اور ایک قول میں یہ مستحب ہے۔

 امام ابو حنیفہ، ثوری، شعبی، ابن سیرین یہی کہتے ہیں۔

حضرت انسؓ ابن عمرؓ اور ابن عباسؓ سے یہی مروی ہے

 امام مالک سے عتبہ کی بھی روایت ہے، ان کی دلیل آیت وَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا ہے،

لیکن پہلا قول ہی زیادہ راجح ہے اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کوہ صفا مروہ کا طواف کیا اور فرمایا احکام حج مجھ سے لو، پس آپ نے اپنے اس حج میں جو کچھ کیا وہ واجب ہو گیا اس کا کرنا ضروری ہے، اگر کوئی کام کسی خاص دلیل سے وجوب سے ہٹ جائے تو اور بات ہے واللہ اعلم۔

علاوہ ازیں حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم پرسعی لکھ دی یعنی فرض کر دی۔

غرض یہاں بیان ہو رہا ہے کہ صفا مروہ کا طواف بھی اللہ تعالیٰ کے ان شرعی احکام میں سے ہے جنہیں حضرت ابراہیمؑ  کو بجا آوری حج کے لیے سکھائے تھے

یہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اس کی اصل حضرت ہاجرہؓ کا یہاں سات پھیرے کرنا ہے جبکہ حضرت ابراہیمؑ انہیں ان کے چھوٹے بچے سمیت یہاں چھوڑ کر چلے گئے تھے اور ان کے پاس کھانا پینا ختم ہو چکا تھا اور بچے کی جان پر آ بنی تھی تب اُم اسمٰعیل علیہ السلام نہایت بےقراری، بےبسی، ڈر، خوف اور اضطراب کے ساتھ ان پہاڑوں کے درمیان اپنا دامن پھیلائے اللہ سے بھیک مانگتی پھر رہی تھیں۔ یہاں تک کہ آپ کا غم و ہم، رنج و کرب، تکلیف اور دکھ دور ہوا۔

یہاں سے پھیرے کرنے والے حاجی کو بھی چاہئے کہ نہایت ذلت و مسکنت خضوع و خشوع سے یہاں پھیرے کرے اور اپنی فقیری حاجت اور ذلت اللہ کے سامنے پیش کرے اور اپنے دل کی صلاحیت اور اپنے مال کی ہدایت اور اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرے اور نقائص اور عیبوں سے پاکیزگی اور نافرمانیوں سے نفرت چاہے اور ثابت قدمی نیکی فلاح اور بہبودی کی دعا مانگے اور اللہ تعالیٰ سے عرض کرے کہ گناہوں اور برائیوں کی تنگی کی راہ سے ہٹا کر کمال و غفران اور نیکی کی توفیق بخشے جیسے کہ حضرت ہاجرہ کے حال کو اس مالک نے ادھر سے ادھر کر دیا۔

وَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ (۱۵۸)

اپنی خوشی سے کرنے والوں کا اللہ قدردان ہے اور انہیں خوب جاننے والا ہے۔‏

ارشاد ہوتا ہے کہ جو شخص اپنی خوشی نیکی میں زیادتی کرے یعنی بجائے سات پھیروں کے آٹھ نو کرے نفلی حج و عمرے میں بھی صفا و مروہ کا طواف کرے اور بعض نے اسے عام رکھا ہے یعنی ہر نیکی میں زیادتی کرے واللہ اعلم

پھر فرمایا اللہ تعالیٰ قدر دان اور علم والا ہے، یعنی تھوڑے سے کام پر بڑا ثواب دیتا ہے اور جزا کی صحیح مقدار کو جانتا ہے نہ تو وہ کسی کے ثواب کو کم کرے نہ کسی پر ذرہ برابر ظلم کرے، ہاں نیکیوں کا ثواب بڑھا کر عطا فرماتا ہے اور اپنے پاس عظیم عنایت فرماتا ہے فالحمد والشکر للہ

إِنَّ اللَّهَ لاَ يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَإِن تَكُ حَسَنَةً يُضَـعِفْهَا وَيُؤْتِ مِن لَّدُنْهُ أَجْراً عَظِيماً (۴:۴۰)

بیشک اللہ تعالیٰ ایک ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا اور اگر نیکی ہو تو اسے دوگنی کر دیتا ہے اور خاص اپنے پاس سے بڑا ثواب دیتا ہے

إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى مِنْ بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ ۙ أُولَئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ(۱۵۹)

جو لوگ ہماری اتاری ہوئی دلیلوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں باوجودیکہ ہم اسے اپنی کتاب میں لوگوں کے لئے بیان کر چکے ہیں، ان لوگوں پر اللہ کی اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے۔‏

ان آیات میں ان لوگوں کے لئے زبردست دھمکی ہے جو اللہ تعالیٰ کی باتیں اور  شرعی مسائل چھپا لیا کرتے ہیں، اہل کتاب نے نعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چھپا لیا تھا جس پر ارشاد ہوتا ہے کہ حق کے چھپانے والے ملعون لوگ ہیں۔ جس طرح اس عالم کے لیے جو لوگوں میں اللہ کی باتیں پھیلائے ہر چیز استغفار کرتی ہے یہاں تک کہ پانی مچھلیاں اور ہوا کے پرند بھی اسی طرح ان لوگوں پر جو حق کی بات کو جانتے ہوئے گونگے بہرے بن جاتے ہیں ہر چیز لعنت بھیجتی ہے،

صحیح حدیث میں ہے حضور علیہ السلام نے فرمایا :

جس شخص سے کسی شرعی امر کی نسبت سوال کیا جائے اور وہ اسے چھپا لے اسے قیامت کیدن آگ کی لگام پہنائی جائے گی،

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اگر یہ آیت نہ ہوتی تو میں ایک حدیث بھی بیان نہ کرتا

 حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جنازے میں تھے آپﷺ نے فرمایا :

 قبر میں کافر کی پیشانی پر اس زور سے ہتھوڑا مارا جاتا ہے کہ جاندار اس کا دھماکہ سنتے ہیں سوائے جن و انس کے پھر وہ سب اس پر لعنت بھیجتے ہیں

یہی معنی ہیں کہ ان پر اللہ کی اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے یعنی تمام جانداروں کی

حضرت عطاء فرماتے ہیںاللَّاعِنُونَ سے مراد تمام جانور اور کل جن و انس ہے۔

حضرت عطاء فرماتے ہیں اللَّاعِنُونَ سے مراد تمام جانور اور کل جن و انس ہے۔

حضرت مجاہد فرماتے ہیں جب خشک سالی ہوتی ہے بارش نہیں برستی تو چوپائے جانور کہتے ہیں یہ بنی آدم کے گنہگاروں کے گناہ کی شومی قسمت سے ہے اللہ تعالیٰ نبی آدم کے گنہگاروں پر لعنت نازل کرے،

بعض مفسرین کہتے اس سے مراد فرشتے اور مؤمن لوگ ہیں،

حدیث میں ہے عالم کے لئے ہر چیز استغفار کرتی ہے یہاں تک کہ سمندر کی مچھلیاں بھی

 اس آیت میں ہے کہ علم کے چھپانے والوں کو اللہ لعنت کرتا ہے اور فرشتے اور تمام لوگ اور کل لعنت کرنے والے یعنی ہر بازبان اور ہر بےزبان چاہے زبان سے کہے چاہے قرائن سے اور قیامت کے دن بھی سب چیزیں ان پر لعنت کریں گی واللہ اعلم۔

إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَبَيَّنُوا فَأُولَئِكَ أَتُوبُ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنَا التَّوَّابُ الرَّحِيمُ (۱۶۰)

مگر وہ لوگ جو توبہ کرلیں اور اصلاح کرلیں اور بیان کر دیں تو میں انکی توبہ قبول کر لیتا ہوں اور میں توبہ قبول کرنیوالا اور رحم کرنے والا ہوں‏

پھر ان میں سے ان لوگوں کو الگ کر لیا گیا جو اپنے اس فعل سے باز آ جائیں اور اپنے اعمال کی پوری اصلاح کر لیں اور جو چھپایا تھااسے ظاہر کریں ان لوگوں کی توبہ وہ اللہ تواب الرحیم قبول فرما لیتا ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص کفر و بدعت کی طرف لوگوں کو بلانے والا ہو وہ بھی جب سچے دل سے رجوع کر لے تو اس کی توبہ بھی قبول ہوتی ہے،

بعض روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ اگلی اُمتوں میں ایسے زبردست بدکاروں کی توبہ قبول نہیں ہوتی تھی لیکن نبی التوبہ اور نبی الرحمہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کے ساتھ یہ مہربانی مخصوص ہے۔

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَمَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ (۱۶۱)

یقیناً جو کفار اپنے کفر میں ہی مر جائیں، ان پر اللہ تعالیٰ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے ۔

اس کے بعد ان لوگوں کا بیان ہو رہا ہے جو کفر کریں توبہ نصیب نہ ہو اور کفر کی حالت میں ہی مر جائیں ان پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے،

خَالِدِينَ فِيهَا ۖ لَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنْظَرُونَ (۱۶۲)

جس میں ہمیشہ رہیں گے، نہ ان سے عذاب ہلکا کیا جائے گا اور نہ انہیں ڈھیل دی جائے گی۔‏

 یہ لعنت ان پر چپک جاتی ہے اور قیامت تک ساتھ ہی رہے گی اور دوزخ کی آگ میں لے جائے گی اور عذاب بھی ہمیشہ ہی رہے گا نہ تو عذاب میں کبھی کمی ہوگی نہ کبھی موقوف ہوگی بلکہ ہمیشہ دوام کے ساتھ سخت عذاب میں رہیں گے نعوذباللہ من عذاب اللہ

حضرت ابوالعالیہ اور حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہما فرماتے ہیں:

قیامت کے دن کافر کو ٹھہرایا جائے گا پھر اس پر اللہ تعالیٰ لعنت کرے گا پھر فرشتے پھر سب لوگ کافروں پر لعنت بھیجنے کے مسئلہ میں کسی کا اختلاف نہیں،

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور آپ کے بعد کے ائمہ کرام سب کے سب قنوت وغیرہ میں کفار پر لعنت بھیجتے تھے، لیکن کسی معین کافر پر لعنت بھیجنے کے بارے میں علماء کرام کا ایک گروہ کہتا ہے کہ یہ جائز نہیں اس لئے کہ اس کے خاتمہ کا کسی کو علم نہیں اور اس آیت کی یہ قید کہ مرتے دم تک وہ کافر رہے معین کافر دلیل ہے کسی پر لعنت نہ بھیجنے کی،

 ایک دوسری جماعت اس کی بھی قائل ہے جیسے فقیہ ابوبکر بن عربی مالکی، لیکن ان کی دلیل ایک ضعیف حدیث ہے،

بعض نے اس حدیث سے یہ بھی دلیل لی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص بار بار نشہ کی حالت میں لایا گیا اور اس پر بار بار حد لگائی گئی تو ایک شخص نے کہا اس پر اللہ کی لعنت ہو بار بار شراب پیتا ہے

 یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس پر لعنت نہ بھیجو یہ اللہ اور اس کے رسول کو دوست رکھتا ہے،

 اس سے ثابت ہوا کہ جو شخص اللہ رسول سے دوستی نہ رکھے اس پر لعنت بھیجنی جائز ہے واللہ اعلم۔

وَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ ۖ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ (۱۶۳)

‏تم سب کا معبود ایک ہی معبود ہے، اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ بہت رحم کرنے والا اور بڑا مہربان ہے۔‏

یعنی حکمرانی میں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں نہ اس جیسا کوئی ہے وہ واحد اور احد ہے وہ فرد اور صمد ہے اس کے سوا عبادت کے لائق کوئی نہیں،

 وہ رحمٰن اور رحیم ہے، سورۃ فاتحہ کے شروع میں ان دونوں ناموں کی پوری تفسیر گزر چکی ہے،

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

اسم اعظم ان دو آیتوں میں ہے ، ایک یہ آیت دوسری آیت الم ـ اللّهُ لا إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ (۳:۱،۲) )

اس کے بعد اس توحید کی دلیل بیان ہو رہی ہے اسے بھی توجہ سے سنئے فرماتے ہیں۔

إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ

آسمان اور زمین کی پیدائش، رات دن کا ہیر پھیر، کشتیوں کا لوگوں کونفع دینے والی چیزیں کو لئے ہوئے سمندروں میں چلنا

مطلب یہ ہے کہ اس اللہ کی فرماں روائی اور اس کی توحید کی دلیل ایک تو یہ آسمان ہے جس کی بلندی لطافت کشادگی جس کے ٹھہرے ہوئے اور چلتے پھرتے والے روشن ستارے تم دیکھ رہے ہو،

پھر زمین کی پیدائش جو کثیف چیز ہے جو تمہارے قدموں تلے بچھی ہوئی ہے، جس میں بلند بلند چوٹیوں کے سر بہ فلک پہاڑ ہیں جس میں موجیں مارنے والے بےپایاں سمندر ہیں جس میں انواع واقسام کے خوش رنگ بیل بوٹے ہیں جس میں طرح طرح کی پیداوار ہوتی ہے جس میں تم رہتے سہتے ہو اور اپنی مرضی کے مطابق آرام دہ مکانات بنا کر بستے ہو اور جس سے سینکڑوں طرح کا نفع اٹھاتے ہو،

پھر رات دن کا آنا جانا رات گئی دن گیا رات آ گئی۔ نہ وہ اس پر سبقت کرے نہ یہ اس پر۔ ہر ایک اپنے صحیح انداز سے آئے اور جائے کبھی کے دن بڑے کبھی کی راتیں، کبھی دن کا کچھ حصہ رات میں جائے کبھی رات کا کچھ حصہ دن میں آجائے ،

لاَ الشَّمْسُ يَنبَغِى لَهَآ أَن تدْرِكَ القَمَرَ وَلاَ الَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ وَكُلٌّ فِى فَلَكٍ يَسْبَحُونَ (۳۶:۴۰)

نہ آفتاب کی یہ مجال ہے کہ چاند کو پکڑے اور نہ رات دن پر آگے بڑھ جانے والی ہے اور سب کے سب آسمان میں تیرتے پھرتے ہیں ۔‏

يُولِجُ الَّيْلَ فِى النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِى الَّيْلِ (۵۷:۶)

وہی رات کو دن میں لے جاتا ہے اور وہی دن کو رات میں داخل کر دیتا ہے

پھر کشتیوں کو دیکھو جو خود تمہیں اور تمہارے مال واسباب اور تجارتی چیزوں کو لے کر سمندر میں ادھر سے ادھرجاتی آتی رہتی ہیں ، جن کے ذریعہ اِس ملک والے اُس ملک والوں سے اور اُس ملک والے اِس ملک والوں سے رابطہ اور لین دین کرسکتے ہیں، یہاں کی چیزیں وہاں اور وہاں کی یہاں پہنچ سکتی ہیں،

وَمَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ مَاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا

آسمان سے پانی اتار کر، مردہ زمین کو زندہ کر دینا

پھر اللہ تعالیٰ کا اپنی رحمت کاملہ سے بارش برسانا اور اس سے مردہ زمین کو زندہ کر دینا، اس سے اناج اور کھیتیاں پیدا کرنا،

وَبَثَّ فِيهَا مِنْ كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ (۱۶۳)

اس میں ہر قسم کے جانوروں کو پھیلا دینا، ہواؤں کے رخ بدلنا، اور بادل، جو آسمان اور زمین کے درمیان مسخر ہیں، ان میں عقلمندوں کے لئے قدرت الہٰی کی نشانیاں ہیں۔‏

چاروں طرف ریل پیل کر دینا، زمین میں مختلف قسم کے چھوٹے بڑے کار آمد جانوروں کو پیدا کرنا ان سب کی حفاظت کرنا، انہیں روزیاں پہنچانا ان کے لئے سونے بیٹھنے چرنے چگنے کی جگہ تیار کرنا، ہواؤں کو پورب پچھم چلانا، کبھی ٹھنڈی کبھی گرم کبھی کم کبھی زیادہ، بادلوں کو آسمان و زمین کے درمیان مسخر کرنا، انہیں ایک طرف سے دوسری کی طرف لے جانا، ضرورت کی جگہ برسانا وغیرہ یہ سب اللہ کی قدرت کی نشانیاں ہیں جن سے عقل مند اپنے اللہ کے وجود کو اور اس کی وحدانیت کو پالیتے ہیں، جیسے اور جگہ فرمایا :

إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۔۔۔ سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (۳:۱۹۰،۱۹۱)

آسمان وزمین کی پیدائش اور رات دن کے آنے جانے میں عقل مندوں کے لئے نشانیاں ہیں، جو اٹھتے بیٹھتے لیٹتے اللہ تعالیٰ کا نام لیا کرتے ہیں

اور زمین وآسمان کی پیدائش میں غور فکر سے کام لیتے ہیں اور کہتے ہیں اے ہمارے رب تو نے انہیں بیکار نہیں بنایا تیری ذات پاک ہے تو ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا،

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ قریشی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ صفا پہاڑ کو سونے کا بنا دے ہم اس سے گھوڑے اور ہتھیار وغیرہ خریدیں اور تیرا ساتھ دیں اور ایمان بھی لائیں

آپ ﷺنے فرمایا پختہ وعدے کرتے ہو؟

 انہوں نے کہا ہاں پختہ وعدہ ہے

آپﷺ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور فرمایا تمہاری دعا تو قبول ہے لیکن اگریہ لوگ پھر بھی ایمان نہ لائے تو ان پر اللہ کا وہ عذاب آئے گا جو آج سے پہلے کسی پر نہ آیا ہو،

 آپﷺ کانپ اٹھے اور عرض کرنے لگے نہیں اللہ تو انہیں یونہی رہنے دے میں انہیں تیری طرف بلاتا رہوں گا کیا عجب آج نہیں کل اور کل نہیں تو پرسوں ان میں سے کوئی نہ کوئی تیریطرف  جھک جائے اس پر یہ آیت اتری کہ اگر انہیں قدرت کی نشانیاں دیکھنی ہیں تو کیا یہ نشانیاں کچھ کم ہیں؟

 ایک اور شان نزول بھی مروی ہے کہ جب آیت وَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ (۲:۱۱۶۳)  اتری تو مشرکین کہنے لگے ایک اللہ تمام جہاں کا بندوبست کیسے کریگا؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ وہ اللہ اتنی بڑی قدرت والا ہے،

بعض روایتوں میں ہے اللہ کا ایک ہونا سن کر انہوں نے دلیل طلب کی جس پر یہ آیت نازل ہوئی اور قدرت کے نشان ہائے ان پر ظاہر کئے گئے۔

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْدَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ ۖ

بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے شریک اوروں کو ٹھہرا کر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں، جیسی محبت اللہ سے ہونی چاہیے

اس آیت میں مشرکین کا دنیوی اور اخروی حال بیان ہو رہا ہے، یہ اللہ کا شریک مقرر کرتے ہیں اس جیسا اوروں کو ٹھہراتے ہیں اور پھر ان کی محبت اپنے دل میں ایسی ہی جماتے ہیں جیسی اللہ کی ہونی چاہئے حالانکہ وہ معبود برحق صرف ایک ہی ہے ، وہ شریک اور حصہ داری سے پاک ہے

بخاری و مسلم میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

 فرماتے ہیں میں نے پوچھا یارسول اللہ سب سے بڑا گناہ کیا ہے؟

 آپ ﷺنے فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا حالانکہ پیدا اسی اکیلے نے کیا ہے ۔

وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ ۗ

اور ایمان والے اللہ کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں

پھر فرمایا ایماندار اللہ تعالیٰ کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں ان کے دل عظمت الہٰی اور توحید ربانی سے معمور ہوتے ہیں،وہ اللہ کے سوا دوسرے سے ایسی محبت نہیں کرتے کسی اور سے طرف التجا کرتے ہیں نہ دوسروں کی طرف جھکتے ہیں نہ اس کی پاک ذات کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتے ہیں۔

وَلَوْ يَرَى الَّذِينَ ظَلَمُوا إِذْ يَرَوْنَ الْعَذَابَ أَنَّ الْقُوَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا وَأَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعَذَابِ (۱۶۵)

کاش کہ مشرک لوگ جانتے جبکہ اللہ کے عذاب کو دیکھ کر (جان لیں گے) کہ تمام طاقت اللہ ہی کو ہے اور اللہ سخت عذاب دینے والا ہے ۔‏

پھر ان مشرکین کو جو اپنی جانوں پر شرک کے بوجھ کا ظلم کرتے ہیں انہیں اس عذاب کی خبر پہنچاتا ہے کہ اگر یہ لوگ اسے دیکھ لیں تو یقین ہو جائے کہ قدرتوں والا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے، تمام چیزیں اسی کے ماتحت اور زیر فرمان ہیں اور اس کا عذاب بڑا بھاری ہے جیسے اور جگہ ہے:

فَيَوْمَئِذٍ لَّا يُعَذِّبُ عَذَابَهُ أَحَدٌ ـ وَلَا يُوثِقُ وَثَاقَهُ أَحَدٌ (۸۹:۲۵،۲۶)

 پس آج اللہ کے عذاب جیسا عذاب کسی نہ ہوگا نہ اس کی قید و بند جیسی کسی کی قیدو بند ہوگی۔

دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ اگر انہیں اس منظر کا علم ہوتا تو یہ اپنی گمراہی اور شرک وکفر پر ہرگز نہ اڑتے ۔

إِذْ تَبَرَّأَ الَّذِينَ اتُّبِعُوا مِنَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا وَرَأَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْأَسْبَابُ (۱۶۶)

جس وقت پیشوا لوگ اپنے تابعداروں سے بیزار ہوجائیں گے اور عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے اور کل رشتے ناتے ٹوٹ جائیں گے‏

 اس دن ان لوگوں نے جن جن کو اپنا پیشوا بنا رکھا تھا وہ سب ان سے الگ ہو جائیں گے ، فرشتے کہیں گے:

تَبَرَّأْنَآ إِلَيْكَ مَا كَانُواْ إِيَّانَا يَعْبُدُونَ (۲۸:۶۳)

ہم تیری سرکار میں اپنی دست برادری کرتے ہیں یہ ہماری عبادت نہیں کرتے

سُبْحَـنَكَ أَنتَ وَلِيُّنَا مِن دُونِهِمْ بَلْ كَانُواْ يَعْبُدُونَ الْجِنَّ أَكْـثَرُهُم بِهِم مُّؤْمِنُونَ (۳۴:۴)

تیری ذات پاک ہے اور ہمارا ولی تو تو ہے نہ کہ یہ بلکہ یہ لوگ جنوں کی عبادت کرتے تھے‘ ان میں کے اکثر کا انہی پر ایمان تھا

اسی طرح جنات بھی ان سے بیزاری کا اعلان کریں گے اور صاف صاف ان کے دشمن ہو جائیں گے اور عبادت سے انکار کریں گےاور جگہ قرآن میں ہے:

وَاتَّخَذُواْ مِن دُونِ اللَّهِ ءالِهَةً لِّيَكُونُواْ لَهُمْ عِزّاً ـ كَلاَّ سَيَكْفُرُونَ بِعِبَـدَتِهِمْ وَيَكُونُونَ عَلَيْهِمْ ضِدّاً (۱۹:۸۱،۸۲)

 انہوں نے اللہ کے سوا دوسرے معبود بنا رکھے ہیں کہ وہ ان کے لئے باعث عزت ہوں لیکن ایسا ہرگز نہیں۔ وہ تو پوجا سے منکر ہوجائیں گے، الٹے ان کے دشمن بن جائیں گے۔‏

حضرت خلیل اللہ علیہ السلام کا فرمان ہے:

إِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِّن دُونِ اللَّهِ ۔۔۔ وَمَا لَكُمْ مِّن نَّـصِرِينَ (۲۹:۲۵)

تم نے اللہ کے سوا بتوں کی محبت دل میں بٹھا کر ان کی پوجا شروع کر دی ہے قیامت کے دن وہ تمہاری عبادت کا انکار کریں گے اور آپس میں ایک دوسرے پر لعنت بھیجیں گے

اور تمہارا ٹھکانہ جہنم ہو گا اور تمہارا مددگار کوئی نہ ہو گا،

اسی طرح اور جگہ ہے:

وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّـلِمُونَ مَوْقُوفُونَ عِندَ رَبّهِمْ ۔۔۔ إِلاَّ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ (۳۴:۳۱،۳۳)

کمزور لوگ بڑے لوگوں سے کہیں گے اگر تم نہ ہوتے تو ہم مؤمنوں میں سے ہوتے

یہ بڑے لوگ ان کمزورں کو جواب دیں گے کہ کیا تمہارے پاس ہدایت آچکنے کے بعد ہم نے تمہیں اس سے روکا تھا؟ (نہیں) بلکہ تم (خود) ہی مجرم تھے ۔

‏(اس کے جواب میں) یہ کمزور لوگ ان متکبروں سے کہیں گے، (نہیں نہیں) بلکہ دن رات مکرو فریب سے ہمیں اللہ کے ساتھ کفر کرنے اور اس کے شریک مقرر کرنے کا ہمارا حکم دینا ہماری بے ایمانی کا باعث ہوا

اور عذاب کو دیکھتے ہی سب کے سب دل میں پشیمان ہو رہے ہونگے اور کافروں کی گردنوں میں ہم طوق ڈال دیں گے انہیں صرف ان کے کئے کرائے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا

اور جگہ ہے کہ اس دن شیطان بھی کہے گا :

إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ ۔۔۔ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (۱۴:۲۲)

اللہ نے تمہیں سچا وعدہ دیا تھا اور میں نے تم سے جو وعدے کئے تھے انکے خلاف کیا میرا تو تم پر کوئی دباؤ تو تھا نہیں

ہاں میں نے تمہیں پکارا اور تم نے میری مان لی، پس تم مجھے الزام نہ لگاؤ بلکہ خود اپنے آپ کو ملامت کرو نہ میں تمہارا فریاد رس اور نہ تم میری فریاد کو پہنچنے والے

میں تو سرے سے مانتا ہی نہیں کہ تم مجھے اس سے پہلے اللہ کا شریک مانتے رہے یقیناً ظالموں کے لئے دردناک عذاب ہے

وَقَالَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا لَوْ أَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَتَبَرَّأَ مِنْهُمْ كَمَا تَبَرَّءُوا مِنَّا ۗ

اور تابعدار لوگ کہنے لگیں گے، کاش ہم دنیا کی طرف دوبارہ جائیں تو ہم بھی انسے ایسے ہی بیزار ہو جائیں جیسے یہ ہم سے ہیں

پھر فرمایا کہ وہ عذاب دیکھ لیں گے اور اور تمام اسباب منقطع ہو جائیں گے نہ کوئی بھاگنے کی جگہ رہے گی نہ چھٹکارے کی کوئی صورت نظر آئے گی دوستیاں کٹ جائیں گی رشتے ٹوٹ جائیں گے۔ اور بلادلیل باتیں ماننے والے بےوجہ اعتقاد رکھنے والے پوجا پاٹ اور اطاعت کرنے والے جب اپنے پیشواؤں کو اس طرح بری الذمہ ہوتے ہوئے دیکھیں گے تو نہایت حسرت ویاس سے کہیں گے کہ اگر اب ہم دنیا میں لوٹ جائیں تو ہم بھی ان سے ایسے ہی بیزار ہو جائیں جیسے یہ ہم سے ہوئے نہ ان کی طرف التفات کریں نہ ان کی باتیں مانیں نہ انہیں شریک اللہ سمجھیں بلکہ اللہ واحد کی خالص عبادت کریں۔

حالانکہ اگر درحقیقت یہ لوٹائے بھی جائیں تو وہی کریں گے جو اس سے پہلے کرتے تھے جیسے فرمایا :

وَلَوْ رُدُّوا لَعَادُوا لِمَا نُهُوا عَنْهُ (۶:۲۸)

اور اگر یہ لوگ پھر واپس بھیج دیئے جائیں تب بھی یہ وہی کام کریں گے جس سے ان کو منع کیا گیا تھا

كَذَلِكَ يُرِيهِمُ اللَّهُ أَعْمَالَهُمْ حَسَرَاتٍ عَلَيْهِمْ ۖ

اسی طرح اللہ تعالیٰ انہیں ان کے اعمال دکھائے گا ان کو حسرت دلانے کو،

اسی لئے یہاں فرمایا اللہ تعالیٰ ان کے کرتوت اسی طرح دکھائے گا ان پر حسرت وافسوس ہے یعنی اعمال نیک جو تھے وہ بھی ضائع ہو گئے جیسے اور جگہ ہے:

وَقَدِمْنَآ إِلَى مَا عَمِلُواْ مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَآءً مَّنثُوراً (۲۵:۲۳)

 اور انہوں نے جو جو اعمال کیے تھے ہم نے ان کی طرف بڑھ کر انہیں پراگندہ ذروں کی طرح کر دیا

اور جگہ ہے:

مَّثَلُ الَّذِينَ كَفَرُواْ بِرَبِّهِمْ أَعْمَالُهُمْ كَرَمَادٍ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ فِي يَوْمٍ عَاصِف (۱۴:۱۸)

ان لوگوں کی مثال جنہوں نے اپنے پالنے والے سے کفر کیا، ان کے اعمال مثل راکھ کے ہیں جس پر تیز ہوا آندھی چلے اور اڑا کر لے جائے

اور جگہ ہے:

وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ مَاءً حَتَّى إِذَا جَاءَهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْئًا (۲۴:۳۹)

اور کافروں کے اعمال مثل اس چمکتی ریت کے ہیں جو چٹیل میدان میں جسے پیاسا شخص دور سے پانی سمجھتا ہے لیکن جب اس کے پاس پہنچتا ہے تو اسے کچھ بھی نہیں پاتا

وَمَا هُمْ بِخَارِجِينَ مِنَ النَّارِ (۱۶۷)

یہ ہرگز جہنم سے نہیں نکلیں گے۔‏

پھر فرماتا ہے کہ یہ لوگ آگ سے نکلنے والے نہیں۔

يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ

لوگو! زمین میں جتنی بھی حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں انہیں کھاؤ پیؤاور شیطانی راہ پر مت چلو

اوپر چونکہ توحید کا بیان ہوا تھا اس لئے یہاں یہ بیان ہو رہا ہے کہ تمام مخلوق کا روزی رساں بھی وہی ہے، فرماتا ہے کہ میرا یہ احسان بھی نہ بھولو کہ میں نے تم پر پاکیزہ چیزیں حلال کیں جو تمہیں لذیذ اور مرغوب ہیں جو نہ جسم کو ضرر پہنچائیں نہ صحت کو نہ عقل و ہوش کو ضرر دیں، میں تمہیں روکتا ہوں کہ شیطان کی راہ پر نہ چلو جس طرح اور لوگوں نے اس کی چال چل کر بعض حلال چیزیں اپنے اوپر حرام کر لیں ،

صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ پروردگار عالم فرماتا ہے :

میں نے جو مال اپنے بندوں کو دیا ہے اسے ان کے لئے حلال کر دیا ہے میں نے اپنے بندوں کو موحد پیدا کیا مگر شیطان نے اس دین حنیف سے انہیں ہٹا دیا اور میری حلال کردہ چیزوں کو ان پر حرام کر دیا،

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جس وقت اس آیت کی تلاوت ہوئی تو حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر کہا حضور میرے لئے دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ میری دعاؤں کو قبول فرمایا کرے،آپ ﷺنے فرمایا:

 اے سعد پاک چیزیں اور حلال لقمہ کھاتے رہو۔ اللہ تعالیٰ تمہاری دعائیں قبول فرماتا رہے گا قسم ہے اس اللہ کی جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے حرام کا لقمہ جو انسان اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے اس کی نحوست کی وجہ سے چالیس دن تک اس کی عبادت قبول نہیں ہوتی جو گوشت پوست حرام سے پلا وہ جہنمی ہے۔

إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ (۱۶۸)

وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔‏

پھر فرمایا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے ، جیسے اور جگہ فرمایا :

إِنَّ الشَّيْطَـنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوّاً إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُواْ مِنْ أَصْحَـبِ السَّعِيرِ (۳۵:۶)

یاد رکھو ! شیطان تمہارا دشمن ہے‘ تم اسے دشمن جانو وہ تو اپنے گروہ کو صرف اس لئے ہی بلاتا ہے کہ وہ سب جہنم واصل ہو جائیں

 اور جگہ فرمایا:

أَفَتَتَّخِذُونَهُ وَذُرِّيَّتَهُ أَوْلِيَآءَ مِن دُونِى وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ بِئْسَ لِلظَّـلِمِينَ بَدَلاً (۱۸:۵۰)

کیا پھر بھی تم اسے اور اس کی اولاد کو مجھے چھوڑ کر اپنا دوست بنا رہے ہو؟ حالانکہ وہ تم سب کا دشمن ہے ایسے ظالموں کا کیا ہی برا بدلہ ہے

خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ سے مراد اللہ تعالیٰ کی ہر معصیت ہے جس میں شیطان کا بہکاوا ہوتا ہے

شعبی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ایک شخص نے نذر مانی کہ وہ اپنے لڑکے کو ذبح کرے گا حضرت مسروق کے پاس جب یہ واقعہ پہنچا تو آپ نے فتویٰ دیا کہ وہ شخص ایک مینڈھا ذبح کر دے ورنہ نذر شیطان کے نقش قدم سے ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ایک دن بکرے کا پایا نمک لگا کر کھا رہے تھے ایک شخص جو آپ کے پاس بیٹھا ہوا تھا وہ ہٹ کر دور جا بیٹھا، آپ نے فرمایا کھاؤ اس نے کہا میں نہیں کھاؤنگا آپ نے پوچھا کیا روزے سے ہو؟ کہا نہیں میں تو اسے اپنے اوپر حرام کر چکا ہوں آپ نے فرمایا یہ شیطان کی راہ چلنا ہے اپنے قسم کا کفارہ دو اور کھا لو،

 ابو رافع کہتے ہیں ایک دن میں اپنی بیوی پر ناراض ہوا تو وہ کہنے لگی کہ میں ایک دن یہودیہ ہوں ایک دن نصرانیہ ہوں اور میرے تمام غلام آزاد ہیں اگر تو اپنی بیوی کو طلاق نہ دے، اب میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس مسئلہ پوچھنے آیا اس صورت میں کیا کیا جائے؟ تو آپ نے فرمایا شیطان کے قدموں کی پیروی ہے،

پھر میں حضرت زینب بنت ام سلمہ رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور اس وقت مدینہ بھر میں ان سے زیادہ فقیہ عورت کوئی نہ تھی میں نے ان سے بھی یہی مسئلہ پوچھا یہاں بھی یہی جواب ملا،

 عاصم اور ابن عمر نے بھی یہی فتویٰ،

حضرت ابن عباس کا فتویٰ ہے جو قسم غصہ کی حالت کھائی جائے اور جو نذر ایسی حالت میں مانی جائے وہ شیطانی قدم کی تابعداری ہے اس کا کفارہ قسم کے کفارے برابر دے دے ۔

إِنَّمَا يَأْمُرُكُمْ بِالسُّوءِ وَالْفَحْشَاءِ وَأَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ (۱۶۹)

وہ تمہیں صرف برائی اور بےحیائی کا اور اللہ تعالیٰ پر ان باتوں کے کہنے کا حکم دیتا ہے جن کا تمہیں علم نہیں۔

پھر فرمایا کہ شیطان تمہیں برے کاموں اور اس سے بھی بڑھ کر زناکاری اور اس سے بھی بڑھ کر اللہ سے ان باتوں کو جوڑ لینے کو کہتا ہے جن کا تمہیں علم نہ ہو ان باتوں کو اللہ سے متعلق کرتا ہے جن کا اسے علم بھی نہیں ہوتا،لہذا ہر کافر اور بدعتی ان میں داخل ہے جو برائی کا حکم کرے اور بدی کی طرف رغبت دلائے۔

وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ۗ أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ (۱۷۰)

اور ان سے جب کبھی کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب کی تابعداری کرو

تو جواب دیتے ہیں ہم اس طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا، گو ان کے باپ دادے بےعقل اور گم کردہ راہ ہوں ۔

یعنی ان کافروں اور مشرکوں سے جب کہا جاتا ہے کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی پیروی کرو اور اپنی ضلالت وجہالت کو چھوڑ دو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اپنے بڑوں کی راہ لگے ہوئے ہیں جن چیزوں کی وہ پوجا پاٹ کرتے تھے ہم بھی کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گےجس کے جواب میں قرآن کہتا ہے کہ وہ تو فہم و ہدایت سے غافل تھے۔

یہ آیت یہودیوں کے بارے میں اتری ہے۔

وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِمَا لَا يَسْمَعُ إِلَّا دُعَاءً وَنِدَاءً ۚ

کفار کی مثال ان جانوروں کی طرح ہے جو اپنے چرواہے کی صرف پکار اور آواز ہی سنتے ہیں (سمجھتے نہیں)

پھر ان کی مثال دی کہ جس طرح چرنے چگنے والے جانور اپنے چرواہے کی کوئی بات صحیح طور سے سمجھ نہیں سکتے صرف آواز کانوں میں پڑتی ہے اور کلام کی بھلائی برائی سے بےخبر رہتے ہیں اسی طرح یہ لوگ بھی ہیں۔

یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ جن جن کو یہ اللہ کے سوا پوجتے ہیں اور ان سے اپنی حاجتیں اور مرادیں مانگتے ہیں وہ نہ سنتے ہیں نہ جانتے ہیں نہ ان میں زندگی ہے نہ انہیں کچھ احساس ہے۔

صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَعْقِلُونَ (۱۷۱)

وہ بہرے گونگے اور اندھے ہیں، انہیں عقل نہیں ۔

کافروں کی یہ جماعت حق کی باتوں کے سننے سے بہری ہے حق کہنے سے بےزبان ہے حق کے راہ چلنے سے اندھی ہے عقل وفہم سے دور ہے، جیسے اور جگہ ہے:

وَالَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا صُمٌّ وَبُكْمٌ فِي الظُّلُمَاتِ ۗ مَنْ يَشَإِ اللَّهُ يُضْلِلْهُ وَمَنْ يَشَأْ يَجْعَلْهُ عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (۶:۳۹)

 اور جو لوگ ہماری آیتوں کی تکذیب کرتے ہیں وہ تو طرح طرح کی ظلمتوں میں بہرے گونگے ہو رہے ہیں اللہ جس کو چاہے بے راہ کر دے‘جس کو چاہے سیدھی راہ پر لگا دے۔‏

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُوا لِلَّهِ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ (۱۷۲)

اے ایمان والو جو پاکیزہ روزی ہم نے تمہیں دے رکھی ہیں انہیں کھاؤ پیؤ اور اللہ تعالیٰ کا شکر کرو، اگر تم خاص اسی کی عبادت کرتے رہو ۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو حکم دیتا ہے کہ تم پاک صاف اور حلال طیب چیزیں کھایا کرو اور میری شکر گزاری کرو،لقمہ حلال دعا عبادت کی قبولیت کا سبب ہے اور لقمہ حرام عدم قبولیت کا ،

مسند احمد میں حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 لوگوں اللہ تعالیٰ پاک ہے وہ پاک چیز کو قبول فرماتا ہے اس نے رسولوں کو اور ایمان والوں کو حکم دیا کہ وہ پاک چیزیں کھائیں اور نیک اعمال کریں

 فرمان ہے:

يأَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُواْ مِنَ الطَّيِّبَـتِ وَاعْمَلُواْ صَـلِحاً إِنِّى بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ (۲۳:۵۱)

اے پیغمبر! حلال چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے میں بخوبی واقف ہوں

 اور فرمایا  يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْپھر آپ ﷺنے فرمایا

ایک شخص لمبا سفر کرتا ہے وہ پراگندہ بالوں والا غبار آلود ہوتا ہے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاکر دعا کرتا ہے اور گڑگڑا کر اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے لیکن اس کا کھانا پینا لباس اور غذا سب حرام کے ہیں اس لئے اس کی اس وقت کی ایسی دعا بھی قبول نہیں ہوتی

إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ ۖ

تم پر مردہ اور (بہا ہوا) خون اور سؤر کا گوشت اور ہر وہ چیز جس پر اللہ کے سوا دوسروں کا نام پکارا گیا ہو حرام ہے

حلال چیزوں کا ذکر کرنے کے بعد حرام چیزوں کا بیان ہو رہا ہے کہ تم پر مردار جانور جو اپنی موت آپ مر گیا ہو جسے شرعی طور پر ذبح نہ کیا گیا ہو حرام ہے خواہ کسی نے اس کا گلا گھونٹ دیا ہو یا لکڑی اور لٹھ لگنے سے مر گیا ہو کہیں سے گر پڑا ہو اور مر گیا ہو یا دوسرے جانوروں نے اپنے سینگ سے اسے ہلاک کر دیا ہو یا درندوں نے اسے مار ڈالا ہو یہ سب الْمَيْتَةَ میں داخل ہیں اور حرام ہیں

لیکن اس میں سے پانی کے جانور مخصوص ہیں وہ اگرچہ خود بخود مر جائیں تو بھی حلال ہیں ۔جیسے فرمان ہے:

أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهُ (۵:۹۶)

تمہارے لئے دریا کا شکار پکڑنا اور اس کا کھانا حلال کیا گیا ہے

اس کا پورا بیان اس آیت کی تفسیر میں آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ

عنبر نامی جانور کا مرا ہوا ملنا اور صحابہ کا اسے کھانا پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہونا اور آپ کا اسے جائز قرار دینا یہ سب باتیں حدیث میں ہیں۔

 ایک اور حدیث میں ہے:

 سمندر کا پانی پاک ہے اور اس کا مردہ حلال ہے،

 ایک اور حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 دو مردے اور دو خون ہم پر حلال ہیں

-  مچھلی اور ٹڈی

-  کلیجی اور تلی،

سورۃ مائدہ میں اس کا بیان تفصیل وار آئے گا۔ انشاء اللہ۔

مسئلہ

مردار کا دودھ اور اس کے انڈے جو اس میں ہوں نجس ہیں امام شافعی کا یہی مذہب ہے اس لئے کہ وہ بھی میت کا ایک جزو ہے ، امام مالک رحمتہ اللہ سے ایک روایت میں ہے کہ ہے تو وہ پاک لیکن میت میں شامل کی وجہ سے نجس ہو جاتا ہے،

 اسی طرح مردار کی کھیس بھی مشہور مذہب میں ان بزرگوں کے نزدیک ناپاک ہے گو اس میں اختلاف بھی ہے،

صحابہ ؓ کا مجوسیوں کا پنیر کھانا گو بطور اعتراض ان پر وارد ہو سکتا ہے مگر اس کا جواب قرطبی نے یہ دیا ہے کہ دودھ بہت ہی کم ہوتا ہے اور کوئی بہنے والی ایسی تھوڑی سی چیز اگر کسی مقدار میں زیادہ بہنے والی میں پڑ جائے تو کوئی حرج نہیں

 نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گھی اور پنیر اور گور خر کے بارے میں سوال ہوا تو آپ ﷺنے فرمایا:

 حلال وہ ہے جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حلال بتایا اور حرام وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام قرار دیا اور جس کا بیان نہیں وہ سب معاف ہیں۔

پھر فرمایا  کہ تم پر سؤر کا گوشت بھی حرام ہے خواہ اسے ذبح کیا ہو خواہ وہ خود مر گیا ہو،

 سؤر کی چربی کا حکم بھی یہی ہے اس لئے کہ چونکہ اکثر گوشت ہی ہوتا ہے اور چربی گوشت کے ساتھ ہی ہوتی ہے پس جب گوشت حرام ہوا تو چربی بھی حرام ہوئی، دوسرے اسلئے بھی کہ گوشت میں ہی چربی ہوتی ہے اور قیاس کا تقاضا بھی یہی ہے۔

 پھر فرمایا کہ جو چیز اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کے نام پر مشہور کی جائے وہ بھی حرام ہے

جاہلیت کے زمانہ میں کافر لوگ اپنے معبودان باطل کے نام پر جانور ذبح کیا کرتے تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا،

 ایک مرتبہ ایک عورت نے گڑیا کے نکاح پر ایک جانور ذبح کیا تو حسن بصری نے فتویٰ دیا کہ اسے نہ کھانا چاہئے اس لئے کہ وہ ایک تصویر کے لئے ذبح کیا گیا،

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سوال کیا گیا کہ عجمی لوگ جو اپنے تہوار اور عید کے موقعہ پر جانور ذبح کرتے ہیں اور مسلمانوں کو بھی اس میں سے ہدیہ بھیجتے ہیں ان کا گوشت کھانا چاہئے یا نہیں؟

تو فرمایا اس دن کی عظمت کے لئے جو جانور ذبح کیا جائے اسے نہ کھاؤ ہاں ان کے درختوں کے پھل کھاؤ۔

فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (۱۷۳)

پھر جو مجبور ہو جائے اور وہ حد سے بڑھنے والا اور زیادتی کرنے والا نہ ہو، اس پر ان کے کھانے میں کوئی پابندی نہیں، اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے‏

پھر اللہ تعالیٰ نے ضرورت اور حاجت کے وقت جبکہ کچھ اور کھانے کو نہ ملے ان حرام چیزوں کا کھا لینا مباح کیا ہے اور فرمایا جو شخص بےبس ہو جائے مگر باغی اور سرکش اور حد سے بڑھ جانے والا نہ ہو اس پر ان چیزوں کے کھانے میں گناہ نہیں

 اللہ تعالیٰ بخشش کرنے والا مہربان ہے

باغ اور عاد کی تفسیر میں حضرت مجاہد فرماتے ہیں، ڈاکو راہزن مسلمان بادشاہ پر چڑھائی کرنے والا سلطنت اسلام کا مخالف اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں سفر کرنے والا سبھی کے لئے اس اضطرار کے وقت بھی حرام چیزیں حرام ہی رہتی ہیں،

غیر باغ کی تفسیر حضرت مقاتل بن حبان یہ بھی کرتے ہیں کہ وہ اسے حلال سمجھنے والا نہ ہو اور اس میں لذت اور مزہ کا خواہشمند نہ ہو، اسے بھون بھان کر لذیذ بنا کر اچھا پکا کر نہ کھائے بلکہ جیسا تیسا صرف جان بچانے کے لئے کھالے اور اگر ساتھ لے تو اتنا کہ زندگی کے ساتھ حلال چیز کے ملنے تک باقی رہ جائے جب حلال چیز مل گئی اسے پھینک دے

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں اسے خوب پیٹ بھر کر نہ کھائے،

حضرت مجاہد فرماتے ہیں جو شخص اس کے کھانے کے لئے مجبور کردیا جائے اور بے اختیار ہو جائے اس کا بھی یہی حکم ہے،

مسئلہ

ایک شخص بھوک کے مارے بےبس ہو گیا ہے اسے ایک مردار جانور نظر پڑا اور کسی دوسرے کی حلال چیز بھی دکھائی دی جس میں نہ رشتہ کا ٹوٹنا ہے نہ ایذاء دہی ہے تو اسے اس دوسرے کی چیز کو کھا لینا چاہئے مردار نہ کھائے،

پھر آیا اس چیز کی قیمت یا وہی چیز اس کے ذمہ رہے گی یا نہیں اس میں دو قول ہیں

-  ایک یہ کہ رہے گی

- دوسری یہ کہ نہ رہے گی۔

 نہ رہنے والے قول کی تائید میں یہ حدیث ہے جو ابن ماجہ میں ہے:

 حضرت عباد بن شرحبیل غزی کہتے ہیں ہمارے ہاں ایک سال قحط سالی پڑی میں مدینہ گیا اور ایک کھیت میں سے کچھ بالیں توڑ کر چھیل کر دانے چبانے لگا اور تھوڑی سی بالیں اپنی چادر میں باندھ کر چلا کھیت والے نے دیکھ لیا اور مجھے پکڑ کر مارا پیٹا اور میری چادر چھین لی، میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور آپ سے واقعہ عرض کیا تو آپ ﷺ نے اس شخص کو کہا اس بھوکے کو نہ تو تو نے کھانا کھلایا نہ اس کے لئے کوئی اور کوشش کی نہ اسے کچھ سمجھایا سکھایا یہ بیچارہ بھوکا تھا نادان تھا جاؤ اس کا کپڑا واپس کرو اور ایک وسق یا آدھا وسق غلہ اسے دے دو، (ایک وسق چار من کے قریب ہوتا ہے)

ایک اور حدیث میں ہے:

 درختوں میں لگے ہوئے پھلوں کی نسبت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا تو آپ ﷺنے فرمایا جو حاجت مند شخص ان سے میں کچھ کھا لے لےکر نہ جائے اس پر کچھ جرم نہیں۔

 حضرت مجاہد فرماتے ہیں مطلب آیت کا یہ ہے کہ اضطراب اور بےبسی کے وقت اتنا کھا لینے میں کوئی مضائقہ نہیں جس سے بےبسی اور اضطرار ہٹ جائے،یہ بھی مروی ہے کہ تین لقموں سے زیادہ نہ کھائے

غرض ایسے وقت میں اللہ کی مہربانی اور نوازش ہے یہ حرام اس کے لئے حلال ہے

حضرت مسروق فرماتے ہیں اضطرار کے وقت بھی جو شخص حرام چیز نہ کھائے اور مر جائے وہ جہنمی ہے،

 اس سے معلوم ہوا کہ ایسے وقت ایسی چیز کے کھانی ضروری ہے نہ کہ صرف رخصت ہی ہو، یہی بات زیادہ صحیح ہے جیسے کہ بیمار کا روزہ چھوڑ دینا وغیرہ۔

إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنَ الْكِتَابِ وَيَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۙ أُولَئِكَ مَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ إِلَّا النَّارَ

بیشک جو لوگ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب چھپاتے ہیں اور اسے تھوڑی سی قیمت پر بیچتے ہیں، یقین مانو کہ یہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں

یعنی جو یہودی نبی کی صفات کی آیتوں کو جو تورات میں ہیں چھپاتے ہیں اور اس کے بدلے اپنی آؤ بھگت عرب سے کراتے ہیں اور عوام سے تحفے اور نقدی سمیٹتے رہتے ہیں وہ اس دنیا ئے فانی کے بدلے اپنی آخرت خراب کررہے ہیں، انہیں ڈرلگا ہوا ہے کہ اگر حضور کی نبوت کی سچائی اور آپکے دعوے کی تصدیق کی آیتیں (جو تورات میں ہیں) لوگوں پر ظاہر ہو گئیں تو لوگ آپ کے ماتحت ہو جائیں گے اور انہیں چھوڑ دیں گے اس خوف سے وہ ہدایت و مغفرت کو چھوڑ بیٹھے اور ضلالت وعذاب پر خوش ہوں گئے اس باعث دنیا اور آخرت کی بربادی ان پر نازل ہوئی، آخرت کی رسوائی تو ظاہر ہے لیکن دنیا میں بھی لوگوں پر ان کا مکر کھل گیا، وقتًا فوقتاً وہ آیتیں جنہیں یہ بدترین علماء چھپاتے رہتے تھے ظاہر ہوتی رہیں،

 علاوہ ازیں خود حضرتﷺ کے معجزات اور آپ کی پاکیزہ عادات نے لوگوں کو آپ کی تصدیق پر آمادہ کر دیا اور ان کی وہ جماعت جس کے ہاتھ سے نکل جانے کے ڈرنے انہیں کلام اللہ چھپانے پر آمادہ کیا تھا بلآخر ہاتھ سے جاتی رہیں ان لوگوں نے حضور ﷺسے بیعت کر لی ایمان لے آئے اور آپ کے ساتھ مل کر ان حق کے چھپانے والوں کی جانیں لیں اور ان سے باقاعدہ جہاد کیا، قرآن کریم میں ان کی حقائق چھپانے والی حرکتوں کو جگہ جگہ بیان کیا گیا، یہاں بھی  فرمایا ہے کہ  یہ مال جو اللہ کی باتوں کو چھپا کر کھاتے ہو دراصل آگ کے انگارے ہیں جنہیں تم پیٹ میں بھر رہے ہو۔

قرآن کریم نے ان لوگوں کے بارے میں بھی جو یتیموں کا مال ظلم سے ہڑپ کر لیں ۔ ان کے لئے بھی یہی فرمایا ہے کہ وہ بھی اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھر رہے ہیں اور قیامت کے دن بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے

صحیح حدیث میں ہے:

 رسول اللہ ﷺفرماتے جو شخص سونے چاندی کے برتن میں کھاتا پیتا ہے وہ بھی اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھرتا ہے۔

وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (۱۷۴)

قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان سے بات بھی نہ کرے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا بلکہ ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔‏

پھر فرمایا ان سےاللہ  تعالیٰ قیامت کے دن بات چیت بھی نہیں کرے گا نہ انہیں پاک کرے گا بلکہ المناک عذابوں میں مبتلا کرئے گا۔ اس لئے کہ ان کے اس کرتوت کی وجہ سے اللہ کا غضب ان پر نازل ہوا ہے اور اب ان پر سے نظر رحمت ہٹ گئی ہے اور یہ ستائش اور تعریف کے قابل نہیں رہے بلکہ سزایاب ہوں گے اور وہاں تلملاتے رہیں گے۔

حدیث شریف میں ہے:

 تین قسم کے لوگوں سے اللہ بات چیت نہ کرے گا نہ ان کی طرف دیکھے گا نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہیں

-  زانی بڈھا،

-  جھوٹا بادشاہ،

-  متکبر فقیر

أُولَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَةَ بِالْهُدَى وَالْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَةِ ۚ

یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے گمراہی کو ہدایت کے بدلے اور عذاب کو مغفرت کے بدلے خرید لیا ہے،

فرمایا کہ ان لوگوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی لے لی انہیں چاہئے تھا کہ تورات میں جو خبریں حضور کی نسبت تھیں انہیں ان پڑھوں تک پہنچاتے لیکن اس کے بدلے انہوں نے انہیں چھپا لیا اور خود بھی آپ ﷺ کے ساتھ کفر کیا اور آپ ﷺ کی تکذیب کی ، ان کے اظہار پر جو نعتیں اور رحمتیں انہیں ملنے والی تھیں ان کے بدلے زحمتیں اور عذاب اپنے سر لے لئے ۔

فَمَا أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ (۱۷۵)

یہ لوگ آگ کا عذاب کتنا برداشت کرنے والے ہیں۔‏

پھر فرماتا ہے انہیں وہ دردناک اور حیرت انگیز عذاب ہوں گے کہ دیکھنے والا ششدر رہ جائے

 اور یہ بھی معنی ہیں کہ انہیں آگ کے عذاب کی برداشت پر کس چیز نے آمادہ کیا جو یہ اللہ کی نافرمانیوں میں مشغول ہو گئے۔

ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ نَزَّلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ ۗ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِي الْكِتَابِ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ (۱۷۶)

ان عذابوں کا باعث یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سچی کتاب اتاری اور اس کتاب میں اختلاف کرنے والے یقیناً وہ ضد میں دور پڑے ہیں ۔‏

 پھر ارشاد ہوتا ہے کہ یہ لوگ اس عذاب کے مستحق اس لئے ہوئے کہ انہوں نے اللہ کی باتوں کو ہنسی کھیل سمجھا اور جو کتاب اللہ حق کو ظاہر کرنے اور باطل کو ختم کرنے کے لئے اتری تھی انہوں نے اس کی مخالفت کی ظاہر کرنے کی جو باتیں چھپائیں اور اللہ کے نبی کی  دشمنی کی آپﷺ کی صفتوں کو ظاہر نہ کیا فی الواقع اس کتاب کے بارے میں اختلاف کرنے والے دور کی گمراہی میں جاپڑے۔

لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ

ساری اچھائی مشرق اور مغرب کی طرف منہ کرنے میں ہی نہیں

اس پاک آیت میں صحیح عقیدے اور راہ مستقیم کی تعلیم ہو رہی ہے

حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایمان کے بارے میں سوال کیا گیا کہ ایمان کیا چیز ہے؟ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت فرمائی،

 انہوں نے پھر سوال کیا

 حضور ﷺنے پھر یہی آیت تلاوت فرمائی

 پھر یہی سوال کیا آپ نے فرمایا:

سنو نیکی سے محبت اور برائی سے عداوت ایمان ہے (ابن ابی حاتم)

لیکن اس روایت کی سند منقطع ہے، مجاہد حضرت ابوذر سے اس حدیث کو روایت کرتے ہیں حالانکہ ان کی ملاقات ثابت نہیں ہوئی۔

ایک شخص نے حضرت ابوذر ؓسے سوال کیا کہ ایمان کیا ہے؟ تو آپ نے یہی آیت تلاوت فرما دی

 اس نے کہا حضرت میں آپ سے بھلائی کے بارے میں سوال نہیں کرتا میرا سوال ایمان کے بارے میں ہے

 تو آپ نے فرمایا سن ایک شخص نے یہی سوال حضور ﷺسے کیا آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرما دی وہ بھی تمہاری طرح راضی نہ ہوا تو آپ نے فرمایا مؤمن جب نیک کام کرتا ہے تو اس کا جی خوش ہو جاتا ہے اور اسے ثواب کی امید ہوتی ہے اور جب گناہ کرتا ہے تو اس کا دل غمگین ہو جاتا ہے اور وہ عذاب سے ڈرنے لگتا ہے (ابن مردویہ)

یہ روایت بھی منقطع ہے

اب اس آیت کی تفسیر سنئے۔

 مؤمنوں کو پہلے تو حکم ہوا کہ وہ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھیں پھر انہیں کعبہ کی طرف گھما دیا گیا جو اہل کتاب پر اور بعض ایمان والوں پر بھی شاق گزرا پس اللہ تعالیٰ نے اس کی حکمت بیان فرمائی کہ اس کا اصل مقصد اطاعت فرمان اللہ ہے وہ جدھر منہ کرنے کو کہے کر لو، اہل تقویٰ اصل بھلائی اور کامل ایمان یہی ہے کہ مالک کے زیر فرمان رہو، اگر کوئی مشرق کی طرف منہ کرے یا مغرب کی طرف منہ پھیر لے اور اللہ کا حکم نہ ہو تو وہ اس توجہ سے ایماندار نہیں ہو جائے گا بلکہ حقیقت میں باایمان وہ ہے جس میں وہ اوصاف ہوں جو اس آیت میں بیان ہوئے، قرآن کریم نے اور جگہ فرمایا ہے:

لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلاَ دِمَآؤُهَا وَلَـكِن يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنكُمْ (۲۲:۳۷)

 اللہ تعالیٰ کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے نہ ان کے خون بلکہ اسے تمہارے دل کی پرہیزگاری پہنچتی ہے

حضرت ابن عباسؓ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

 تم نمازیں پڑھو اور دوسرے اعمال نہ کرو یہ کوئی بھلائی نہیں۔ یہ حکم اس وقت تھا جب مکہ سے مدینہ کی طرف لوٹے تھے لیکن پھر اس کے بعد اور فرائض اور احکام نازل ہوئے اور ان پر عمل کرنا ضروری قرار دیا گیا،

مشرق و مغرب کو اس کے لئے خاص کیا گیا کہ یہود مغرب کی طرف اور نصاریٰ مشرق کی طرف منہ کیا کرتے تھے ،پس غرض یہ ہے کہ یہ تو صرف لفظی ایمان ہے ایمان کی حقیقت تو عمل ہے،

وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ

بلکہ حقیقتاً اچھا وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ پر، قیامت کے دن پر، فرشتوں پر، کتاب اللہ اور نبیوں پر ایمان رکھنے والا ہو،

حضرت مجاہد فرماتے ہیں:

 بھلائی یہ ہے کہ اطاعت کا مادہ دل میں پیدا ہو جائے، فرائض پابندی کے ساتھ ادا ہوں، تمام بھلائیوں کا عامل ہو، حق تو یہ ہے کہ جس نے اس آیت پر عمل کر لیا اس نے کامل اسلام پا لیا اور دل کھول کر بھلائی سمیٹ لی، اس کا ذات باری پر ایمان ہے یہ وہ جانتا ہے کہ معبود برحق وہی ہے فرشتوں کے وجود کو اور اس بات کو کہ وہ اللہ کا پیغام اللہ کے مخصوص بندوں پر لاتے ہیں یہ مانتا ہے، کل آسمانی کتابوں کو برحق جانتا ہے اور سب سے آخری کتاب قرآن کریم کو جو کہ تمام اگلی کتابوں کو سچا کہنے والی تمام بھلائیوں کی جامع اور دین ودنیا کی سعادت پر مشتمل ہے وہ مانتا ہے،

 اسی طرح اول سے آخر تک کے تمام انبیاء پر بھی اس کا ایمان ہے، بالخصوص خاتم الانبیاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پربھی۔ مال کو باوجود مال کی محبت کے راہ اللہ میں خرچ کرتا ہے،

وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ

جو مال سے محبت کرنے کے باوجود قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والوں کو دے، غلاموں کو آزاد کرے،

صحیح حدیث شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 افضل صدقہ یہ ہے کہ تو اپنی صحت اور مال کی محبت کی حالت میں اللہ کے نام دے باوجودیکہ مال کی کمی کا اندیشہ ہو اور زیادتی کی رغبت بھی ہو (بخاری ومسلم )

مستدرک حاکم میں ہے:

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ...پڑھ کر فرمایا کہ اس کا مطلب یہ ہے تم صحت میں اور مال کی چاہت کی حالت میں فقیری سے ڈرتے ہوئے اور امیری کی خواہش رکھتے ہوئے صدقہ کرو،

لیکن اس روایت کا موقوف ہونا زیادہ صحیح ہے،اصل میں یہ فرمان حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ہے،

 قرآن کریم میں سورۃ دھر میں فرمایا :

وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِيناً وَيَتِيماً وَأَسِيراً ـ إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لاَ نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَآءً وَلاَ شُكُوراً (۷۶:۸،۹)

اور اللہ تعالیٰ کی محبت میں کھانا کھلاتے ہیں مسکین یتیم اور قیدیوں کو ہم تمہیں صرف اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے لئے کھلاتے ہیں نہ تم سے بدلہ چاہتے ہیں نہ شکرگزاری۔‏

اور جگہ فرمایا :

لَن تَنَالُواْ الْبِرَّ حَتَّى تُنفِقُواْ مِمَّا تُحِبُّونَ (۳:۹۲)

جب تک تم اپنی چاہت کی چیزیں اللہ کے نام نہ دو تم حقیقی بھلائی نہیں پاسکتے۔

اور جگہ فرمایا :

وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ (۵۹:۹)

باوجود اپنی حاجت اور ضرورت کے بھی وہ دوسروں کو اپنے نفس پر مقدم کرتے ہیں

پس یہ لوگ بڑے پایہ کے ہیں کیونکہ پہلی قسم کے لوگوں نے تو اپنی پسندیدہ چیز باوجود اس کی محبت کے دوسروں کو دی لیکن ان بزرگوں نے اپنی چاہت کی وہ چیز جس کے وہ خود محتاج تھے دوسروں کو دے دی اور اپنی حاجت مندی کا خیال بھی نہ کیا ۔

ذَوِي الْقُرْبَى انہیں کہتے ہیں جو رشتہ دار ہوں صدقہ دیتے وقت یہ دوسروں سے زیادہ مقدم ہیں۔ حدیث میں ہے :

مسکین کو دینا اکہرا ثواب ہے اور قرابت دار مسکین کو دینا دوہرا ثواب ہے، ایک ثواب صدقہ کا دوسرا صلہ رحمی کا۔ تمہاری بخشش اور خیراتوں کے زیادہ مستحق یہ ہیں،

 قرآن کریم میں ان کے ساتھ سلوک کرنے کا حکم کئی جگہ ہے۔

الْيَتَامَى سے مراد وہ چھوٹے بچے ہیں جن کے والد مر گئے ہوں اور ان کا کمانے والا کوئی نہ ہو نہ خود انہیں اپنی روزی حاصل کرنے کی قوت وطاقت ہو، حدیث شریف میں ہے بلوغت کے بعد یتیمی نہیں رہتی

الْمَسَاكِينَ وہ ہیں جن کے پاس اتنا ہو جو ان کے کھانے پینے پہننے اوڑھنے رہنے سہنے کا کافی ہو سکے ، ان کے ساتھ بھی سلوک کیا جائے جس سے ان کی حاجت پوری ہو اور فقر و فاقہ اور قلت وذلت کی حالت سے بچ سکیں،

بخاری ومسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 مسکین صرف وہی لوگ نہیں جو مانگتے پھرتے ہوں اور ایک ایک دو دو کھجوریں یا ایک ایک دو دو لقمے روٹی کے لے جاتے ہوں بلکہ مسکین وہ بھی ہیں جن کے پاس اتنا نہ ہو کہ ان کے سب کام نکل جائیں نہ وہ اپنی حالت ایسی بنائیں جس سے لوگوں کو علم ہو جائے اور انہیں کوئی کچھ دے دے ۔

ابْنَ السَّبِيلِ مسافر کو کہتے ہیں، اسی طرح وہ شخص بھی جو اطاعت اللہ میں سفر کر رہا ہو اسے جانے آنے کا خرچ دینا، مہمان بھی اسی حکم میں ہے،

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ مہمان کو بھی ابْنَ السَّبِيلِ میں داخل کرتے ہیں اور دوسرے بزرگ سلف بھی۔

السَّائِلِينَ وہ لوگ ہیں جو اپنی حاجت ظاہر کر کے لوگوں سے کچھ مانگیں، انہیں بھی صدقہ زکوٰۃ دینا چاہئے،

حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 سائل کا حق ہے اگرچہ وہ گھوڑے پر سوار آئے (ابوداؤد)

الرِّقَابِ سے مراد غلاموں کو آزادی دلانا ہے خواہ یہ وہ غلام ہوں جنہوں نے اپنے مالکوں کو مقررہ قیمت کی ادائیگی کا لکھ دیا ہو کہ اتنی رقم ہم تمہیں ادا کر دیں گے تو ہم آزاد ہیں لیکن اب ان بیچاروں سے ادا نہیں ہو سکی تو ان کی امداد کر کے انہیں آزاد کرانا،

ان تمام قسموں کی اور دوسرے اسی قسم کے لوگوں کی پوری تفسیر سورۃ برأت میں آیت إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ (۹:۶۰) کی تفسیر میں بیان ہوگی انشاء اللہ تعالیٰ،

حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

مال میں زکوٰۃ کے سوا کچھ اور بھی اللہ تعالیٰ کا حق ہے پھر آپ نے یہ آیت پڑھ کر سنائی ،

 اس حدیث کا ایک راوی ابوحمزہ میمون اعور ضعیف ہے۔

وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا ۖ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ۗ

 نماز کی پابندی اور زکوٰۃ کی ادائیگی کرے، جب وعدہ کرے تب اسے پورا کرے،

تنگدستی، دکھ درد اور لڑائی کے وقت صبر کرے،

فرمایا نماز کو وقت پر پورے رکوع سجدے اطمینان اور آرام خشوع اور خضوع کے ساتھ ادا کرے جس طرح ادائیگی کا شریعت کا حکم ہے اور زکوٰۃ کو بھی ادا کرے

 یا یہ معنی کہ اپنے نفس کو بےمعنی باتوں اور رذیل اخلاقوں سے پاک کرے جیسے فرمایا:

قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا ـ وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا (۹۱:۹،۱۰)

جس نے اسے پاک کیا وہ کامیاب ہوا اور جس نے اسے خاک میں ملا دیا وہ ناکام ہوگا

موسیٰ علیہ السلام نے فرعون سے یہی فرمایا تھا :

هَل لَّكَ إِلَىٰ أَن تَزَكَّىٰ  (۷۹:۱۸)

کیا تو اپنی درستگی اور اصلاح چاہتا ہے

 اور جگہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

وَوَيْلٌ لِّلْمُشْرِكِينَ ـ الَّذِينَ لَا يُؤْتُونَ الزَّكَاةَ (۴۱:۶،۷)

ان مشرکوں کو ویل ہے جو زکوٰۃ ادا نہیں کرتے یا یہ کہ جو اپنے آپ کو شرک سے پاک نہیں کرتے،

پس یہاں مندرجہ بالا آیت زکوٰۃ سے مراد زکوٰۃ نفس یعنی اپنے آپ کو گندگیوں اور شرک وکفر سے پاک کرنا ہے، اور ممکن ہے مال کی زکوٰۃ مراد ہو تو اور احکام نفلی صدقہ سے متعلق سمجھے جائیں گے جیسے اوپر حدیث بیان ہوئی کہ مال میں زکوٰۃ کے سوا اور حق بھی ہیں۔

پھر فرمایا وعدے پورے کرنے والےجیسے اور جگہ ہے:

الَّذِينَ يُوفُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَلاَ يِنقُضُونَ الْمِيثَـقَ (۱۳:۲۰)

یہ لوگ اللہ کے عہد کو پورا کرتے ہیں اور وعدے نہیں توڑتے،

وعدے توڑنا نفاق کی خصلت ہے، جیسے حدیث میں ہے :

منافق کی تین نشانیاں ہیں،

-  بات کرتے ہوئے جھوٹ بولنا،

-  وعدہ خلافی کرنا،

-  امانت میں خیانت کرنا،

 ایک اور حدیث میں ہے جھگڑے کے وقت گالیاں بکنا۔

پھرفر یایا فقر و فاقہ میں مال کی کمی کے وقت بدن کی بیماری کے وقت لڑائی کے موقعہ پر دشمنان دین کے سامنے میدان جنگ میں جہاد کے وقت صبر و ثابت قدم رہنے والے اور فولادی چٹان کی طرح جم جانے والے ۔

الصَّابِرِين کا نصب بطور مدح کے ہے ان سختیوں اور مصیبتوں کے وقت صبر کی تعلیم اور تلقین ہو رہی ہے،

اللہ تعالیٰ ہماری مدد کرے ہمارا بھروسہ اسی پر ہے۔

أُولَئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا ۖ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ (۱۷۷)

 یہی سچے لوگ ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں۔‏

پھر فرمایا ان اوصاف والے لوگ ہی سچے ایمان والے ہیں ان کا ظاہر باطن قول فعل یکساں ہے اور متقی بھی یہی لوگ ہیں کیونکہ اطاعت گزار ہیں اور نافرمانیوں سے دور ہیں۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى ۖ

اے ایمان والو تم پر مقتولوں کا قصاص لینا فرض کیا گیا ہے،

یعنی اے مسلمانوں قصاص کے وقت عدل سے کام لیا کرو

الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنْثَى بِالْأُنْثَى ۚ

 آزاد، آزاد کے بدلے ،  غلام ، غلام کے بدلے عورت ،عورت کے بدلے

آزاد کے بدلے آزاد’ غلام کے بدلے غلام’ عورت کے بدلے عورت’ اس بارے میں حد سے نہ بڑھو جیسے کہ اگلے لوگ حد سے بڑھ گئے اور اللہ کا حکم بدل دیا،

 آیت کا شان نزول

جاہلیت کے زمانہ میں بنوقریظہ اور بنونضیر کی جنگ ہوئی تھی جس میں بنونضیر غالب آئے تھے اب یہ دستور ہو گیا تھا کہ جب نضری کسی قرظی کو قتل کرے تو اس کے بدلے اسے قتل نہیں کیا جاتا تھا بلکہ ایک سو وسق کھجور دیت میں لی جاتی تھی اور جب کوئی قرظی نضری کو مار ڈالے تو قصاص میں اسے قتل کر دیا تھا اور اگر دیت لی جائے تو دوگنی دیت یعنی دو سو وسق کھجور لی جاتی تھی پس اللہ تعالیٰ نے جاہلیت کی اس رسم کو مٹایا اور عدل ومساوات کا حکم دیا،

 ابوحاتم کی روایت میں شان نزول یوں بیان ہوا ہے:

 عرب کے دو قبیلوں میں جدال وقتال ہوا تھا اسلام کے بعد اس کا بدلہ لینے کی ٹھانی اور کہا کہ ہمارے غلام کے بدلے ان کا آزاد قتل ہو اور عورت کے بدلے مرد قتل ہو تو ان کے رد میں یہ آیت نازل ہوئی

 اور یہ حکم بھی منسوخ ہے قرآن فرماتا ہے:

أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ (۵:۴۵)

جان کے بدلے جان

پس ہر قاتل مقتول کے بدلے مار ڈالا جائے گاخواہ آزاد نے کسی غلام کو قتل کیا ہو خواہ اس کے برعکس ہو خواہ مرد نے عورت کو قتل کیا ہو خواہ اس کے برعکس ہو، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

 یہ لوگ مرد کو عورت کے بدلے قتل نہیں کرتے تھے جس پر أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ (۵:۴۵) نازل ہوئی پس آزاد لوگ سب برابر ہیں جسن کے بدلے جان لی جائے گی خواہ قاتل مرد ہو خواہ عورت ہو اسی طرح مقتول خواہ مرد ہو خواہ عورت ہو جب کہ ایک آزاد انسان نے ایک آزاد انسان کو مار ڈالا ہے تو اسے بھی مار ڈالا جائے گا اسی طرح یہی حکم غلاموں اور لونڈیوں میں بھی جاری ہو گا اور جو کوئی جان لینے کے قصد سے دوسرے کو قتل کرے گا وہ قصاص میں قتل کیا جائے گا اور یہی حکم قتل کے علاوہ اور زخمیوں کا اور دوسرے اعضاء کی بربادی کا بھی ہے،

حضرت امام مالک رحمتہ اللہ علیہ بھی اس آیت کو آیت أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ (۵:۴۵) سے منسوخ بتلاتے ہیں۔

مسئلہ

امام ابوحنیفہ، امام ثوری، امام ابن ابی لیلی اور داؤد کا مذہب ہے کہ آزاد نے اگر غلام کو قتل کیا ہے تو اس کے بدلے وہ بھی قتل کیا جائے گا،

حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ حضرت سعید بن جبیر حضرت ابراہیم نخعی حضرت قتادہ اور حضرت حکم کا بھی یہی مذہب ہے،

حضرت امام بخاری، علی بن مدینی ، ابراہیم نخعی اور ایک اور روایت کی رو سے حضرت ثوری کا بھی مذہب یہی ہے کہ اگر کوئی آقا اپنے غلام کو مار ڈالے تو اس کے بدلے اس کی جان لی جائے گی دلیل میں یہ حدیث بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :

جو شخص اپنے غلام کو قتل کرے ہم اسے قتل کریں گے اور جو شخص اپنے غلام کی ناک کاٹے  ہم بھی اس کی ناک کاٹ دیں گے اور جو اسے خصی کرے اس سے بھی یہی بدلہ لیا جائے ،

 لیکن جمہور کا مذہب ان بزرگوں کے خلاف ہے وہ کہتے ہیں آزاد غلام کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا اس لئے کہ غلام مال ہے اگر وہ خطا سے قتل ہو جائے تو دیت یعنی جرمانہ نہیں دینا پڑتا صرف اس کے مالک کو اس کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے اور اسی طرح اس کے ہاتھ پاؤں وغیرہ کے نقصان پر بھی بدلے کا حکم نہیں۔

آیا مسلمان کافر کے بدلے قتل کیا جائے گا یا نہیں؟

 اس بارے میں جمہور علماء اُمت کا مذہب تو یہ ہے کہ قتل نہ کیا جائے گااور دلیل صحیح بخاری شریف کی یہ حدیث ہے :

 مسلمان کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے ،

اس حدیث کے خلاف نہ تو کوئی صحیح حدیث ہے کہ کوئی ایسی تاویل ہو سکتی ہے جو اس کے خلاف ہو، لیکن تاہم صرف امام ابوحنیفہ کا مذہب یہ ہے کہ مسلمان کافر کے بدلے قتل کر دیا جائے۔

مسئلہ

 حضرت حسن بصری اور حضرت عطا کا قول ہے کہ مرد عورت کے بدلے قتل نہ کیا جائے اور دلیل میں مندرجہ بالا آیت کو پیش کرتے ہیں لیکن جمہور علماء اسلام اس کے خلاف ہیں کیونکہ سورۃ مائدہ کی آیت عام ہے جس میں آیت أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ (۵:۴۵) موجود ہےعلاوہ ازیں حدیث شریف میں بھی ہے:

 مسلمانوں کے خون آپس میں یکساں ہیں،

حضرت لیث کا مذہب ہے کہ خاوند اگر اپنی بیوی کو مار ڈالے تو خاص کر  اس کے بدلے اس کی جان نہیں لی جائے۔

مسئلہ

چاروں اماموں اور جمہور اُمت کا مذہب ہے کہ کئی ایک نے مل کر ایک مسلمان کو قتل کیا ہے تو وہ سارے اس ایک کے بدلے قتل کر دیئے جائیں گے۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایک شخص کو سات اشخاص مل کر مار ڈالتے ہیں تو آپ ان ساتوں کو قتل کراتے ہیں اور فرماتے ہیں اگر صفا کے تمام لوگ بھی اس قتل میں شریک ہوتے تو میں قصاص میں سب کو قتل کرا دیتا۔آپ کے اس فرمان کے خلاف آپ کے زمانہ میں کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے اعتراض نہیں کیا

 پس اس بات پر گویا اجماع ہو گیا ۔

لیکن امام احمد سے مروی ہے کہ وہ فرماتے ہیں ایک کے بدلے ایک ہی قتل کیا جائے زیادہ قتل نہ کیے جائیں ۔

حضرت معاذ حضرت ابن زبیر عبدالملک بن مروان زہری ابن سیرین حبیب بن ابی ثابت سے بھی یہ قول مروی ہے،

 ابن المندر فرماتے ہیں یہی زیادہ صحیح ہے اور ایک جماعت کو ایک مقتول کے بدلے قتل کرنے کی کوئی دلیل نہیں

 اور حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ سے یہ ثابت ہے کہ وہ اس مسئلہ کو نہیں مانتے تھے پس جب صحابہ رضی اللہ عنہ میں اختلاف ہوا تو اب مسئلہ غور طلب ہو گیا ۔

فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ ۗ

ہاں جس کسی کو اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی دے دی جائے اسے بھلائی کی اتباع کرنی چاہیے اور آسانی کے ساتھ دیت ادا کرنی چاہیے

اللہ  فرماتا ہے کہ یہ اور بات ہے کہ کسی قاتل کو مقتول کا کوئی وارث کچھ حصہ معاف کر دے یعنی قتل کے بدلے وہ دیت قبول کر لے یا دیت بھی اپنے حصہ کی چھوڑ دے اور صاف معاف کر دے، اگر وہ دیت پر راضی ہو گیا ہے تو قاتل کو مشکل میں نہ ڈالے بلکہ اچھائی سے دیت وصول کرے اور قاتل کو بھی چاہئے کہ بھلائی کے ساتھ اسے دیت ادا کر دے، حیل وحجت نہ کرے۔

مسئلہ

 امام مالک کا مشہور مذہب اور امام ابوحنیفہ اور آپ کے شاگردوں کا اور امام شافعی اور امام احمد کا ایک روایت کی رو سے یہ مذہب ہے کہ مقتول کے اولیاء کا قصاص چھوڑ کر دیت پر راضی ہونا اس وقت جائز ہے جب خود قاتل بھی اس پر آمادہ ہو لیکن اور بزرگان دین فرماتے ہیں کہ اس میں قاتل کی رضامندی شرط نہیں۔

مسئلہ

سلف کی ایک جماعت کہتی ہے کہ عورت قصاص سے درگزر کر کے دیت پر اگر رضامند ہوں تو ان کا اعتبار نہیں۔

حسن ، قتادہ، زہرہ ، ابن شبرمہ، لیث اور اوزاعی کا یہی مذہب ہے لیکن باقی علماء دین ان کے مخالف ہیں وہ فرماتے ہیں کہ اگر کسی عورت نے بھی دیت پر رضامندی ظاہر کی تو قصاص جاتا رہے گا

ذَلِكَ تَخْفِيفٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ ۗ فَمَنِ اعْتَدَى بَعْدَ ذَلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ (۱۷۸)

تمہارے رب کی طرف سے یہ تخفیف اور رحمت ہے اس کے بعد بھی جو سرکشی کرے اسے دردناک عذاب ہوگا ۔‏

پھر فرماتے ہیں:

قتل عمد میں دیت لینا یہ اللہ کی طرف سے تخفیف اور مہربانی ہے اگلی اُمتوں کو یہ اختیار نہ تھا،

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں بنی اسرائیل پر قصاص فرض تھا انہیں قصاص سے درگزر کرنے اور دیت لینے کی اجازت نہ تھی لیکن اس اُمت پر یہ مہربانی ہوئی کہ دیت لینی بھی جائز کی گئی تو یہاں تین چیزیں ہوئیں

- قصاص

- دیت

- اور معانی

 اگلی اُمتوں میں صرف قصاص اور معافی ہی تھی دیت نہ تھی،

بعض لوگ کہتے ہیں اہل تورات کے ہاں صرف قصاص اور معافی تھی اور اہل انجیل کے ہاں صرف معافی ہی تھی۔

پھر فرمایا جو شخص دیت یعنی جرمانہ لینے کے بعد یا دیت قبول کر لینے کے بعد بھی زیادتی پر تل جائے اس کے لئے سخت دردناک عذاب ہے۔ مثلاً دیت لینے کے بعد پر قتل کے درپے ہو وغیرہ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 جس شخص کا کوئی مقتول یا مجروح ہو تو اسے تین باتوں میں سے ایک کا اختیار ہے یا قصاص یعنی بدلہ لے لے یا درگزر کرے ۔ معاف کر دے یا دیت یعنی جرمانہ لے لے اور اگر کچھ اور کرنا چاہے تو اسے روک دو ان میں سے ایک کرچکنے کے بعد بھی جو زیادتی کرے وہ ہمیشہ کے لئے جہنمی ہو جائے گا (احمد)

دوسری حدیث میں ہے:

 جس نے دیت وصول کر لی پھر قاتل کو قتل کیا تو اب میں اس سے دیت بھی نہ لوں گا بلکہ اسے قتل کراؤں گا۔

وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (۱۷۹)

عقلمندو! قصاص میں تمہارے لئے زندگی ہے اس کے باعث تم (قتل ناحق سے) رکو گے ۔

 پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اے عقلمندو قصاص میں نسل انسان کی بقاء ہے اس میں حکمت عظیمہ ہے

گو بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک کے بدلے ایک قتل ہوا تو دو مرے لیکن دراصل اگر سوچو تو پتہ چلے گا کہ یہ سبب زندگی ہے، قاتل کو خود خیال ہوگا کہ میں اسے قتل نہ کروں ورنہ خود بھی قتل کر دیا جاؤں گا تو وہ اس فعل بد سے رک جائے گا تو دو آدمی قتل وخون سے بچ گئے۔

 اگلی کتابوں میں بھی یہ بات تو بیان فرمائی تھی کہ القتل انفی للقتل قتل قتل’ قتل کو روک دیتا ہے لیکن قرآن پاک میں بہت ہی فصاحت وبلاغت کے ساتھ اس مضمون کو بیان کیا گیا۔

 پھر فرمایا یہ تمہارے بچاؤ کا سبب ہے کہ ایک تو اللہ کی نافرمانی سے محفوظ رہو گے دوسرے نہ کوئی کسی کو قتل کرے گا نہ اسے  قتل کیا جائے گا زمین پر امن وامان سکون وسلامتی  رہے گی، تقویٰ نیکیوں کے کرنے اور کل برائیوں کے چھوڑنے کا نام ہے۔

كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ (۱۸۰)

تم پر فرض کر دیا گیا کہ جب تم میں سے کوئی مرنے لگے اور مال چھوڑ جاتا ہو تو اپنے ماں باپ اور قرابت داروں کے لئے اچھائی کے ساتھ وصیت کر جائے پرہیزگاروں پر یہ حق اور ثابت ہے۔‏

اس آیت میں ماں باپ اور قرابت داروں کے لئے وصیت کرنے کا حکم ہو رہا ہے، میراث کے حکم سے پہلے یہ واجب تھا ٹھیک قول یہی ہے، لیکن میراث کے احکام نے اس وصیت کے حکم کو منسوخ کر دیا ، ہر وارث اپنا مقررہ حصہ بےوصیت لے لے گا،

سنن وغیرہ میں حضرت عمرو بن خارجہؓ سے حدیث ہے کہتے ہیں:

 میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ میں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق پہنچا دیا ہے اب کسی وارث کے لئے کوئی وصیت نہیں،

ابن عباسؓ سورۃ بقرہ کی تلاوت کرتے ہیں جب آپ اس آیت پر پہنچتے ہیں تو فرماتے ہیں یہ آیت منسوخ ہے (مسند احمد)

آپ سے یہ بھی مروی ہے  کہ پہلے ماں باپ کے ساتھ اور کوئی رشتہ دار وارث نہ تھا اوروں کے لئے صرف وصیت ہوتی تھی پھر میراث کی آیتیں نازل ہوئیں اور ایک تہائی مال میں وصیت کا اختیار باقی رہا۔ اس آیت کے حکم کو منسوخ کرنے والی آیت لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ (۴:۷) ہے،

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سعید بن مسیب ، حسن، مجاہد، عطاء، سعید بن جبیر، محمد بن سیرین، عکرمہ، زید بن اسلم، ربیع بن انس، قتادہ، سدی، مقاتل بن حیان، طاؤس، ابراہیم نخعی، شریح، ضحاک اور زہری رحمہم اللہ یہ سب حضرات بھی اس آیت کو منسوخ بتاتے ہیں،

 لیکن باوجود اس کے تعجب ہے کہ امام رازی نے اپنی تفسیر کبیر میں ابومسلم اصفہانی سے یہ کیسے نقل کر دیا کہ یہ آیت منسوخ نہیں بلکہ آیت میراث اس کی تفسیر ہے اور مطلب آیت کا یہ ہے کہ تم پر وہ وصیت فرض کی گئی جس کا بیان آیت يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ (۴:۱۱) میں ہے اور یہی قول اکثر مفسرین اور معتبر فقہا کا ہے

بعض کہتے ہیں کہ وصیت کا حکم وارثوں کے حق میں منسوخ ہے اور جن کا ورثہ مقرر نہیں ان کے حق میں ثابت ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ حسن، مسروق، طاؤس، ضحاک، مسلم بن یسار اور علاء بن زیاد کا مذہب بھی یہی ہے،

میں کہتا ہوں سعید بن جبیر، ربیع بن انس، قتادہ اور مقاتل بن حیان بھی یہی کہتے ہیں لیکن ان حضرات کے اس قول کی بنا پر پہلے فقہاء کی اصطلاح میں یہ آیت منسوخ نہیں ٹھہرتی اس لئے کہ میراث کی آیت سے وہ لوگ تو اس حکم سے مخصوص ہو گئے جن کا حصہ شریعت نے خود مقرر کر دیا اور جو اس سے پہلے اس آیت کے حکم کی رو سے وصیت میں داخل تھے کیونکہ قرابت دار عام ہیں خواہ ان کا ورثہ مقرر ہو یا نہ ہو تو اب وصیت ان کے لئے ہوئی جو وارث نہیں اور ان کے حق میں نہ رہی جو وارث ہیں،

یہ قول اور بعض دیگر حضرات کا یہ قول کہ وصیت کا حکم ابتداء اسلام میں تھا اور وہ بھی غیر ضروری ، دونوں کا مطلب قریباً ایک ہو گیا، لیکن جو لوگ وصیت کے اس حکم کو واجب کہتے ہیں اور روانی عبارت اور سیاق وسباق سے بھی بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے ان کے نزدیک تو یہ آیت منسوخ ہی ٹھہرے گی جیسے کہ اکثر مفسرین اور معتبر فقہاء کرام کا قول ہے، پس والدین اور وراثت پانے والے قرابت داروں کے لئے وصیت کرنا بالاجماع منسوخ ہے بلکہ ممنوع ہے

حدیث شریف میں آچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق دے دیا ہے اب وارث کے لئے کوئی وصیت نہیں،

آیت میراث کا حکم مستقل ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ واجب و فرض ہے ذوی الفروض اور عصبات کا حصہ مقرر ہے اور اس سے اس آیت کا حکم کلیتہً اٹھ گیا،

باقی رہے وہ قرابت دار جن کا کوئی ورثہ مقرر نہیں ان کے لئے تہائی مال میں وصیت کرانا مستحب ہے کچھ تو اس کا حکم اس آیت سے بھی نکلتا ہے دوسرے یہ کہ حدیث شریف میں صاف آچکا ہےبخاری و مسلم میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 کسی مسلمان کو لائق نہیں کہ اسکے پاس کوئی چیز ہو اور وہ وصیت کرنی چاہتا ہو تو دو راتیں بھی بغیر وصیت لکھے گزار دے

راوی حدیث حضرت عمر فاروق کے صاحبزادے فرماتے ہیں کہ اس فرمان کے سننے کے بعد میں نے تو ایک رات بھی بلا وصیت نہیں گزاری،

قرابت داروں اور رشتہ داروں سے سلوک واحسان کرنے کے بارے میں بہت سی آیتیں اور حدیثیں آئی ہیں،

 ایک حدیث میں ہے:

 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ابن آدم تو جو مال میری راہ میں خرچ کرے گا میں اس کی وجہ سے تجھے پاک صاف کروں گا اور تیرے انتقال کے بعد بھی میرے نیک بندوں کی دعاؤں کا سبب بناؤں گا ۔

 خَيْرًا سے مراد یہاں مال ہے اکثر جلیل القدر مفسرین کی یہی تفسیر ہے

 بعض مفسرین کا تو قول ہے کہ مال خواہ تھوڑا ہو خواہ بہت وصیت مشروع ہے جیسے میراث تھوڑے مال میں بھی ہے اور زیادہ میں بھی،

بعض کہتے ہیں وصیت کا حکم اس وقت ہے جب زیادہ مال ہو، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

 ایک قریشی مر گیا ہے اور تین چار سو دینار اس کے ورثہ میں تھے اور اس نے وصیت کچھ نہیں کی آپ نے فرمایا یہ رقم وصیت کے قابل نہیں اللہ تعالیٰ نے إِنْ تَرَكَ خَيْرًا فرمایا ہے ،

ایک اور روایت میں ہے :

حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی قوم کے ایک بیمار کی بیمار پرسی کو گئے اس سے کسی نے کہا وصیت کرو تو آپ نے فرمایا وصیت خیر میں ہوتی ہے اور تو تو کم مال چھوڑ رہا ہے اسے اولاد کے لئے ہی چھوڑ جا،

 حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں ساٹھ دینار جس نے نہیں چھوڑے اس نے خیر نہیں چھوڑی یعنی اس کے ذمہ وصیت کرنا نہیں،

طاؤس، اسی دینار بتاتے ہیں قتادہ ایک ہزار بتاتے ہیں ۔

الْمَعْرُوفِ سے مراد نرمی اور احسان ہے۔

 حضرت حسن فرماتے ہیں:وصیت کرنا ہر مسلمان پر ضروری ہے اس میں بھلائی کرے برائی نہ کرے وارثوں کو نقصان نہ پہنچائے اسراف اور فضول خرچی نہ کرے۔

بخاری ومسلم میں ہے:

 حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں مالدار ہوں اور میری وارث صرف میری ایک لڑکی ہی ہے تو آپ اجازت دیجئے کہ میں اپنے دو تہائی مال کی وصیت کروں

آپ ﷺنے فرمایا نہیں

 کہا آدھے کی اجازت دیجئے

 فرمایا نہیں

کہا ایک تہائی کی اجازت دیجئے

 فرمایا خیر تہائی مال کی وصیت کرو گو یہ بھی بہت ہے تم اپنے پیچھے اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑ کر جاؤ یہ بہتر ہے اس سے کہ تم انہیں فقیر اور تنگ دست چھوڑ کر جاؤ کہ وہ اوروں کے سامنے ہاتھ پھیلائیں،

صحیح بخاری شریف میں ہے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ کاش کہ لوگ تہائی سے ہٹ کر چوتھائی پر آ جائیں اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تہائی کی رخصت دیتے ہوئے یہ بھی فرمایا ہے کہ تہائی بہت ہے

مسند احمد میں ہے:

 حنظلہ بن جذیم بن حنفیہ کے دادا حنفیہ نے ایک یتیم بچے کے لئے جو ان کے ہاں پلتے تھے سو اونٹوں کی وصیت کی ان کی اولاد پر یہ بہت گراں گزرا معاملہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا حضور ﷺنے فرمایا :

نہیں نہیں نہیں صدقہ میں پانچ دو ورنہ دس دو ورنہ پندرہ ورنہ بیس ورنہ پچیس دو ورنہ تیس دو ورنہ پینتیس دو اگر اس پر بھی نہ مانوں تو خیر زیادہ سے زیادہ چالیس دو۔

فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَمَا سَمِعَهُ فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى الَّذِينَ يُبَدِّلُونَهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (۱۸۱)

اب جو شخص اسے سننے کے بعد بدل دے اس کا گناہ بدلنے والے پر ہی ہوگا، اللہ تعالیٰ سننے والا اور جاننے والا ہے۔‏

پھر فرمایا جو شخص وصیت کو بدل دے اس میں کمی بیشی کر دے یا وصیت کو چھپالے اس کا گناہ بدلنے والے کے ذمہ ہے میت کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ ثابت ہو گیا، اللہ تعالیٰ وصیت کرنے والے کی وصیت کی اصلیت کو بھی جانتا ہے اور بدلنے والے کی تبدیلی کو بھی نہ اس سے کوئی آواز پوشیدہ نہ کوئی راز۔

فَمَنْ خَافَ مِنْ مُوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (۱۸۲)

ہاں جو شخص وصیت کرنے والے کی جانبداری یا گناہ کی وصیت کر دینے سے ڈرے پس وہ ان میں آپس میں صلح کرا دے تو اس پر گناہ نہیں، اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔‏

جَنَف کے معنی خطا اور غلطی کے ہیں

مثلاً کسی وارث کو کسی طرح زیادہ دلوا دینا مثلاً کہہ دیا کہ فلاں چیز فلاں کے ہاتھ اتنے اتنے میں بیچ دی جائے وغیرہ اب یہ خواہ بطور غلطی اور خطا کے ہو یا زیادتی محبت و شفقت کی وجہ سے بغیر قصد ایسی حرکت سرزد ہوگئی ہو یا گناہ کے طور پر ہو تو وصی کو اس کے رد و بدل میں کوئی گناہ نہیں۔ وصیت کو شرعی احکام کے مطابق پوری ہو ایسی حالت میں بدلنے والے پر کوئی گناہ یا حرج نہیں واللہ اعلم۔

ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 زندگی میں ظلم کر کے صدقہ دینے والے کا صدقہ اسی طرح لوٹا دیا جائے گا جس طرح موت کے وقت گناہگار کرنے والے کا صدقہ لوٹا دیا جاتا ہے

یہ حدیث ابن مردویہ میں بھی مروی ہے

 ابن ابی حاتم فرماتے ہیں ولید بن یزید جو اس حدیث کا راوی ہے اس نے اس میں غلطی کی ہے دراصل یہ کلام حضرت عروہ کا ہے، ولید بن مسلم نے اسے اوزاعی سے روایت کیا ہے اور عروہ سے آگے سند نہیں لے گئے

امام ابن مردویہ بھی ایک مرفوع حدیث بروایت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ وصیت کی کمی بیشی کبیرہ گناہ ہے لیکن اس حدیث کے مرفوع ہونے میں بھی کلام ہے

 اس بارے میں سب سے اچھی وہ حدیث ہے جو مسند عبدالرزاق میں بروایت حضرت ابوہریرہ ؓمروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

آدمی نیک لوگوں کے اعمال ستر سال تک کرتا رہتا ہے اور وصیت میں ظلم کرتا ہے اور برائی کے عمل پر خاتمہ ہونے کی وجہ سے جہنمی بن جاتا ہے اور بعض لوگ ستر برس تک بد اعمالیاں کرتے رہتے ہیں لیکن وصیت میں عدل وانصاف کرتے ہیں اور آخری عمل ان کا بھلا ہوتا ہے اور وہ جنتی بن جاتے ہیں،

پھر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر چاہو تو قرآن پاک کی اس آیت کو پڑھ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا  (۲:۲۲۹) یعنی یہ اللہ تعالیٰ کی حدیں ہیں ان سے آگے نہ بڑھو۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (۱۸۳)

اے ایمان والو تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو ۔

اللہ تعالیٰ اس اُمت کے ایمان داروں کو مخاطب کر کے انہیں حکم دے رہا ہے کہ روزے رکھو

 روزہ کے معنی اللہ تعالیٰ کے فرمان کی بجا آوری کی خالص نیت کے ساتھ کھانے پینے اور جماع سے رک جانے کے ہیں۔ اس سے فائدہ یہ ہے کہ نفس انسان پاک صاف اور طیب و طاہر ہو جاتا ہے ردی اخلاط اور بےہودہ اخلاق سے انسان بچ  جاتا ہے،

اس حکم کے ساتھ ہی فرمایا گیا ہے کہ اس حکم کے ساتھ تم تنہا نہیں بلکہ تم سے اگلوں کو بھی روزے رکھنے کا حکم تھا، اس بیان سے یہ بھی مقصد ہے کہ یہ اُمت اس فریضہ کی بجاآوری میں اگلی اُمتوں سے پیچھے نہ رہ جائے

 جیسے اور جگہ ہے:

لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةً ... فَاسْتَبِقُوا الخَيْرَاتِ (۵:۴۸)

تم میں سے ہر ایک کے لئے ہم نے ایک دستور اور راہ مقرر کر دی اگر منظور مولا ہوتا تو سب کو ایک ہی امت بنا دیتا لیکن اس کی چاہت ہے کہ جو تمہیں دیا ہے اس میں تمہیں آزمائے تم نیکیوں کی طرف جلدی کرو

یہی یہاں بھی فرمایا کہ تم پر بھی روزے اسی طرح فرض ہیں جس طرح تم سے پہلے گزرنے والوں پر تھے، روزے سے بدن کو پاکیزگی ملتی ہے اور عمل شیطانی راہ پر چلنے سے رک جاتا ہے،بخاری ومسلم میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:

 اے جوانو تم میں سے جسے نکاح کی طاقت ہو وہ نکاح کرلے اور جسے طاقت نہ ہو وہ روزے رکھے اس کے لئے یہ جوش کو سرد کر دیتے ہیں

أَيَّامًا مَعْدُودَاتٍ ۚ

گنتی کے چند دن ہیں

پھر روزوں کی مقدار بیان ہو رہی ہے کہ یہ چند دن ہی ہیں تاکہ کسی پر بھاری نہ پڑے اور ادائیگی سے قاصر نہ رہ جائے بلکہ ذوق وشوق سے اللہ کے اس فریضہ کو بجا لائے ، پہلے تو ہر ماہ میں تین روزوں کا حکم تھا پھر رمضان کے روزوں کا حکم ہوا اور اگلا حکم منسوخ ہوا اس کا مفصل بیان آ رہا ہے انشاء اللہ تعالیٰ۔

حضرت معاذ رضی اللہ عنہ حضرت ابن مسعود ؓ حضرت ابن عباس ؓ عطاء قتادہ ضحاک کا فرمان ہے :

حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے سے ہر مہینہ میں تین روزوں کا حکم تھا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کے لئے بدلا اور ان پر اس مبارک مہینہ رمضان کے روزے فرض ہوئے۔

حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ اگلی اُمتوں پر بھی ایک مہینہ کامل کے روزے فرض تھے۔

 ایک مرفوع حدیث میں ہے:

 رمضان کے روزے تم سے پہلے کی اُمتوں پر بھی فرض تھے،

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پہلی اُمتوں کو یہ حکم تھا کہ جب وہ عشاء کی نماز ادا کر لیں اور سو جائیں تو ان پر کھانا پینا عورتوں سے مباشرت کرنا حرام ہو جاتا تھا،

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اگلے لوگوں سے مراد اہل کتاب ہیں۔

فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۚ

لیکن تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ اور دنوں میں گنتی پورا کر لے

پھر بیان ہو رہا ہے کہ تم میں سے جو شخص ماہ رمضان میں بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ اس حالت میں روزے چھوڑ دے مشقت نہ اٹھائے اور اس کے بعد اور دنوں میں جبکہ یہ عذر ہٹ جائیں قضا کر لیں،

 ہاں ابتداء اسلام میں جو شخص تندرست ہو اور مسافر بھی نہ ہو اسے بھی اختیار تھا خواہ روزہ رکھے خواہ نہ رکھے مگر فدیہ میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دے اگر ایک سے زیادہ کو کھلائے تو افضل تھا گو روزہ رکھنا فدیہ دینے سے زیادہ بہتر تھا ،

ابن مسعود ابن عباس مجاہد طاؤس مقاتل وغیرہ یہی فرماتے ہیں

مسند احمد میں ہے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نماز کی اور روزے کی تین حالتیں بدلی گئیں

پہلے تو سولہ سترہ مہینہ تک مدینہ میں آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس کی طرف نماز ادا کی پھر قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ (۲:۱۴۴) والی آیت آئی اور مکہ شریف کی طرف آپ نے منہ پھیرا۔

دوسری تبدیلی یہ ہوئی

نماز کے لئے ایک دوسرے کو پکارتا تھا اور جمع ہو جاتے تھے لیکن اس سے آخر عاجز آگئے پھر ایک انصاری حضرت عبداللہ بن زید ؓحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے خواب میں دیکھا لیکن وہ خواب گویا بیداری کی سی حالت میں تھا کہ ایک شخص سبز رنگ کا حلہ پہنے ہوئے ہے اور قبلہ کی طرف متوجہ ہو کر کہہ رہا ہے اللہ اکبر اللہ اکبرا شھدان لا الہ الا اللہ دوبارہ یونہی اذان پوری کی پھر تھوڑی دیر کے بعد اس نے تکبیر کہی جس میں قدقامت الصلوٰۃ بھی دو مرتبہ کہا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو یہ سکھاؤ وہ اذان کہیں گے چنانچہ سب سے پہلے حضرت بلالؓ نے اذان کہی

دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عمر ؓنے بھی آ کر اپنا یہی خواب بیان کیا تھا۔ لیکن ان سے پہلے حضرت زیدؓ آچکے تھے ۔

تیسری تبدیلی یہ ہوئی

پہلے یہ دستور تھا کہ حضور ﷺ نماز پڑھا رہے ہیں کوئی آیا کچھ رکعتیں ہو چکی ہیں تو وہ کسی سے دریافت کرتا کہ کتنی رکعتیں ہو چکی ہیں وہ جواب دیتا کہ اتنی رکعتیں پڑھ لی ہیں وہ اتنی رکعتیں ادا کرتا پھر حضور کے ساتھ مل جاتا

 حضرت معاذ رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ آئے اور کہنے لگے کہ میں حضور کو جس حال میں پاؤں گا اسی میں مل جاؤں گا اور جو نماز چھوٹ گئی ہے اسے حضور ﷺکے سلام پھیرنے کے بعد ادا کروں گا چنانچہ انہوں نے یہی کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی رہی ہوئی رکعتیں ادا کرنے کے لئے کھڑے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھ کر فرمایا معاذ نے تمہارے لئے یہ اچھا طریقہ نکالا ہے تم بھی اب یونہی کیا کرو،

یہ تین تبدیلیاں تو نماز کی ہوئیں،

روزوں کی تبدیلیاں سنئے

 اول جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں آئے تو ہر مہینہ میں تین روزے رکھتے تھے اور عاشورہ کا روزہ رکھا کرتے تھے پھر اللہ تعالیٰ نے آیت كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ (۲:۱۸۳)نازل فرما کر رمضان کے روزے فرض کئے۔

 دوسرا ابتدائی یہ حکم تھا کہ جو چاہے روزہ رکھے جو چاہے نہ رکھے اور فدیہ دے دے پھر یہ آیت نازل ہوئی :

فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ (۲:۱۸۵)

تم میں سے جو شخص اس مہینے کو پائے اور روزہ رکھنا چاہے

یعنی  تم میں سے جو شخص رمضان کے مہینے میں قیام کی حالت میں ہو وہ روزہ رکھا کرےپس جو شخص مقیم ہو مسافر نہ ہو تندرست ہو بیمار نہ ہو اس پر روزہ رکھنا ضروری ہو گیا ہاں بیمار اور مسافر کے لئے رخصت ملی اور ایسا بوڑھا انتہائی جو روزے کی طاقت ہی نہ رکھتا ہو اسے بھی رخصت دی گئی۔

 تیسری حالت یہ ہے کہ ابتداء میں کھانا پینا عورتوں کے پاس آنا سونے سے پہلے پہلے جائز تھا سو گیا تو پھر گو رات کو ہی جاگے لیکن کھانا پینا اور جماع اس کے لئے منع تھا پھر صرمہ نامی ایک انصاری صحابی دن بھر کام کاج کر کے رات کو تھکے ہارے گھر آئے عشاء کی نماز ادا کی اور نیند آگئی دوسرے دن کچھ کھائے پئے بغیر روزہ رکھا لیکن حالت بہت نازک ہوگئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ کیا بات؟ تو انہوں نے سارا واقعہ کہہ دیا، ادھر یہ واقعہ تو ان کے ساتھ ہوا ادھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سو جانے کے بعد اپنی بیوی صاحبہ سے مجامعت کر لی اور حضورﷺ کے پاس آکر حسرت و افسوس کے ساتھ اپنے اس قصور کا اقرار کیا جس پریہ  آیت نازل ہوئی :

أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ ۚ ۔۔۔ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ (۲:۱۸۷)

روزوں کی راتوں میں اپنی بیویوں سے جماع تمہارے لئے حلال کیا گیا وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کے لباس ہو

تمہاری پوشیدہ خیانتوں کا اللہ تعالیٰ کو علم ہے اس نے تمہاری توبہ قبول فرما کر تم سے درگزر فرمالیا  اب تمہیں ان سے مباشرت کی اور اللہ تعالیٰ کی لکھی ہوئی چیز کی تلاش کرنے کی اجازت ہے۔ 

تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے ظاہر ہو جائے پھر رات تک روزے کو پورا کرو

بخاری مسلم میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے:

 پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا جب رمضان کی فرضیت نازل ہوئی تو اب ضروری نہ رہا جو چاہتا رکھ لیتا جو نہ چاہتا نہ رکھتا،

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی یہ مروی ہے ۔

وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ ۖ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ ۚ

وَأَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ ۖ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (۱۸۴)

اور اس کی طاقت رکھنے والے فدیہ میں ایک مسکین کو کھانا دیں، پھر جو شخص نیکی میں سبقت کرے وہ اس کے لئے بہتر ہے

لیکن تمہارے حق میں بہتر کام روزے رکھنا ہی ہے اگر تم باعلم ہو۔‏

وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ کا مطلب حضرت معاذ بیان فرماتے ہی کہ ابتداء اسلام میں جو چاہتا روزہ رکھتا جو چاہتا نہ رکھتا اور ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیتا۔

حضرت سلمہ بن اکوع سے بھی صحیح بخاری میں ایک روایت آئی ہے  کہ اس آیت کے نازل ہونے کے وقت جو شخص چاہتا افطار کرتا اور فدیہ دے دیتا یہاں تک کہ اس کے بعد کی آیت اتری اور یہ منسوخ ہوئی،

حضرت ابن عمرؓ بھی اسے منسوخ کہتے ہیں

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں:

 یہ منسوخ نہیں مراد اس سے بوڑھا مرد اور بڑھیا عورت ہے جسے روزے کی طاقت نہ ہو،

 ابن ابی لیلیٰ، کہتے ہیں عطار ؒ کے پاس رمضان میں گیا دیکھا کہ وہ کھانا کھا رہے ہیں مجھے دیکھ کر فرمانے لگے کہ حضرت ابن عباسؓ کا قول ہے کہ اس آیت نے پہلی آیت کا حکم منسوخ کر دیا، اب یہ حکم صرف بہت زیادہ بےطاقت بوڑھے بڑے کے لئے ہے،

 حاصل کلام یہ ہے کہ جو شخص مقیم ہو اور تندرست ہو اس کے لئے یہ حکم نہیں بلکہ اسے روزہ ہی رکھنا ہو گا ہاں ایسے بوڑھے، بڑے معمر اور کمزور آدمی جنہیں روزے کی طاقت ہی نہ ہو روزہ نہ رکھیں اور نہ ان پر قضا ضروری ہے

لیکن اگر وہ مالدار ہوں تو آیا انہیں کفارہ بھی دینا پڑے گا یا نہیں ؟ اس میں  اختلاف ہے

 امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک قول تو یہ ہے کہ چونکہ اس میں روزے کی طاقت نہیں لہذا یہ بھی مثل بچے کے ہے نہ اس پر کفارہ ہے نہ اس پر قضا کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا،

دوسرا قول حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ ہے کہ کہ اس کے ذمہ کفارہ ہے، اکثر علماء کرام کا بھی یہی فیصلہ ہے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ کی تفسیروں سے بھی یہی ثابت ہوا ہے

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا پسندیدہ مسئلہ بھی یہی ہے وہ فرماتے ہیں:

 بہت بڑی عمر والا بوڑھا جسے روزے کی طاقت نہ ہو تو فدیہ دے دے جیسے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے اپنی بڑی عمر میں بڑھاپے کے آخری دنوں میں سال دو سال تک روزہ نہ رکھا اور ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو روٹی گوشت کھلا دیا کرتے تھے،

مسند ابویعلیٰ میں ہے کہ جب حضرت انس ؓ روزہ رکھنے سے عاجز ہو گئے تو گوشت روٹی تیار کر کے تیس مسکینوں کو بلا کر کھلا دیا کرتے،

اسی طرح حمل والی اور دودھ پلانے والی عورت کے بارے میں جب انہیں اپنی جان کا یا اپنے بچے کی جان کا خوف ہو علماء میں سخت اختلاف ہے، بعض تو کہتے ہیں کہ وہ روزہ نہ رکھیں فدیہ دے دیں اور جب خوف ہٹ جائے قضا بھی کر لیں

بعض کہتے ہیں صرف فدیہ ہے قضا نہ کریں،

بعض کہتے ہیں قضا کرلیں فدیہ نہیں اور بعض کا قول ہے کہ نہ روزہ رکھیں نہ فدیہ نہ قضا کریں

امام ابن کثیر نے اس مسئلہ کو اپنی کتاب الصیام میں تفصیل کے ساتھ لکھاہے فلحمد للہ

بظاہر یہی بات دلائل سے زیادہ قریب نظر آتی ہے کہ یہ دونوں ایسی حالت میں روزہ رکھیں اور بعد میں قضا کریں۔ نہ فدیہ دیں۔

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ

ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا

ماہ رمضان شریف کی فضیلت وبزرگی کا بیان ہو رہا ہے اسی ماہ مبارک میں قرآن کریم اترا

مسند احمد کی حدیث میں ہے حضور علیہ السلام نے فرمایا ہے:

 ابراہیمی صحیفہ رمضان کی پہلی رات اترا اور تورات چھٹی تاریخ اگلے تمام صحیفے اور تورات و انجیل تیرھویں تاریخ اور قرآن چوبیسویں تاریخ نازل ہوا

 ایک اور روایت میں ہے کہ زبور بارہویں کو اور انجیل اٹھارہویں کو،

اگلے تمام صحیفے اور تورات و انجیل و زبور جس جس پیغمبر پر نازل ہوئیں  ایک ساتھ ایک ہی مرتبہ اتریں لیکن قرآن کریم بیت العزت سے آسمانی دنیا تک تو ایک ہی مرتبہ نازل ہوا اور پھر وقتًا فوقتًا حسب ضرورت زمین پر نازل ہوتا رہا یہی مطلب  ہے ان آیات کا:

إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ (۹۷:۱)

ہم نے یہ(قرآن)اتارا شب قدر میں۔

اور آیت

إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ (۴۴:۳)

ہم نے اس کو اتارا ایک برکت کی رات میں

اور آیت

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ (۲:۱۸۵)

ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا

مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم ایک ساتھ آسمان اول پر رمضان المبارک کے مہینے میں لَيْلَةِ الْقَدْرِ کو نازل ہوا اور اسی کو لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ بھی کہا ہے ،

 ابن عباسؓ سے یہی مروی ہے،  کہ آپ سے جب یہ سوال ہوا کہ قران کریم تو مختلف مہینوں میں برسوں میں اترتا رہا پھر رمضان میں اور وہ بھی لیلتہ القدر میں اترنے کے کیا معنی؟ تو آپ نے یہی مطلب بیان کیا (ابن مردویہ)

آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ آدھی رمضان میں قرآن کریم دنیا کے آسمان کی طرف اترا بیت العزۃ میں رکھا گیا پھر حسب ضرورت واقعات اور سوالات پر تھوڑا تھوڑا اترتا رہا اور بیس سال میں کامل ہوا

اس میں بہت سی آیتیں کفار کے جواب میں بھی اتریں کفار کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ یہ قرآن کریم ایک ساتھ سارا کیوں نہیں اترا؟جس کے جواب میں فرمایا گیا :

كَذَ‌ٰلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤَادَكَ ۖ وَرَتَّلْنَاهُ تَرْتِيلًا (۲۵:۳۲)

اسی طرح ہم نے (تھوڑا تھوڑا) کرکے اتارا تاکہ اس سے ہم آپ کا دل قوی رکھیں، ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر ہی پڑھ سنایا ہے ۔

یہ اس لئے کہ تیرے دل کو برقرار اور مضبوط رکھیں

هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ ۚ

 جو لوگوں کو ہدایت کرنے والا ہے اور جس میں ہدایت کی حق وباطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں

قرآن کریم کی تعریف میں بیان ہو رہا ہے کہ یہ لوگوں کے دلوں کی ہدایت ہے اور اس میں واضح اور روشن دلیلیں ہیں تدبر اور غور و فکر کرنے والا اس سے صحیح راہ پر پہنچ سکتا ہے یہ حق وباطل حرام وحلال میں فرق ظاہر کرنے والا ہے ہدایت وگمراہی اور رشدوبرائی میں علیحدگی کرنے والا ہے،

بعض سلف سے منقول ہے کہ صرف رمضان کہنا مکروہ ہے شَهْرُ رَمَضَانَ یعنی رمضان کا مہینہ کہنا چاہے،

حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے رمضان نہ کہو یہ اللہ تعالیٰ کا نام ہےشَهْرُ رَمَضَانَ یعنی رمضان کا مہینہ کہا کرو،

حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ اور محمد بن کعب سے بھی یہی مروی ہے،

حضرت ابن عباسؓ اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا مذہب اس کے خلاف ہے،

رمضان نہ کہنے کے بارے میں ایک مرفوع حدیث بھی ہے لیکن سندا ً وہ صحیح نہیں  ہے

 امام بخاری نے بھی اس کے رد میں باب باندھ کر بہت سی حدیثیں بیان فرمائی ہیں

فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ۖ

تم میں سے جو شخص اس مہینے کو پائے اور روزہ رکھنا چاہے،

ایک حدیث ہے

جو شخص رمضان کے روزے ایمان اور نیک نیتی کے ساتھ رکھے اس کے سبب اس کے اگلے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں

غرض اس آیت سے ثابت ہوا کہ جب رمضان کا چاند چڑھے کوئی شخص اپنے گھر ہو، سفر میں نہ ہو اور تندرست بھی ہو اسے روزے رکھنے لازمی اور ضروری ہیں،

وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۗ

 ہاں جو بیمار ہو یا مسافر ہو اسے دوسرے دنوں یہ گنتی پوری کرنی چاہیے

پہلے اس قسم کے لوگوں کو بھی جو رخصت تھی وہ اٹھ گئی اس کا بیان فرما کر پھر بیمار اور مسافر کے لئے رخصت کا بیان فرمایا کہ یہ لوگ روزہ ان دنوں میں نہ رکھیں اور پھر قضا کرلیں یعنی جس کے بدن میں کوئی تکلیف ہو جس کی وجہ سے روزے میں مشقت پڑے یاتکلیف بڑھ جائے یا سفر میں ہو تو افطار کرلے اور جتنے روزے جائیں اتنے دن پھر قضا کرلے۔

يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ

اللہ تعالیٰ کا ارادہ تمہارے ساتھ آسانی کا ہے سختی کا نہیں

پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ان حالتوں میں رخصت عطا فرما کر تمہیں مشقت سے بچا لینا یہ سراسر ہماری رحمت کا ظہور ہے اور احکام اسلام میں آسانی ہے،

اب یہاں چند مسائل بھی سنئے

پہلا مسئلہ

سلف کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ جو شخص اپنے گھر میں مقیم ہو اور چاند چڑھ جائے رمضان شریف کا مہینہ آجائے پھر درمیان میں اسے سفر درپیش ہو تو اسے روزہ ترک کرنا جائز نہیں کیونکہ ایسے لوگوں کو روزہ رکھنے کا صاف حکم قرآن پاک میں موجود ہے، ہاں ان لوگوں کو بحالت سفر روزہ چھوڑناجائز ہے جو سفر میں ہوں اور رمضان کا مہینہ آجائے،

لیکن یہ قول غریب ہے، ابومحمد بن حزم نے اپنی کتاب "محلی"میں صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت کا یہی مذہب نقل کیا ہے لیکن اس میں کلام ہے واللہ اعلم۔

 نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک میں فتح مکہ کے غزوہ کے لئے نکلے روزے سے تھے کدید میں پہنچ کر روزہ افطار کیا اور لوگوں کو بھی حکم دیا کہ روزہ توڑ دیں(متفق علیہ)

دوسرا مسئلہ

صحابہ رحمۃ اللہ تابعین کی ایک اور جماعت نے کہا کہ سفر میں روزہ توڑ دینا واجب ہے کیونکہ قرآن کریم میں ہے فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ  

لیکن صحیح قول جو جمہور کا مذہب ہے یہ ہے کہ آدمی کو اختیار ہے خواہ رکھے خواہ نہ رکھے اس لئے کہ ماہ رمضان میں لوگ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلتے تھے بعض روزے سے ہوتے تھے بعض روزے سے نہیں ہوتے تھے پس روزے دار بےروزہ دار  پر اور بےروزہ دار روزہ دار پر کوئی عیب نہیں پکڑاتا تھا اگر افطار واجب ہوتا تو روزہ رکھنے والوں پر انکار کیا جاتا، بلکہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بحالت سفر روزہ رکھنا ثابت ہے،

بخاری ومسلم میں ہے حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

 رمضان المبارک میں سخت گرمی کے موسم میں ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے گرمی کی شدت کی وجہ سے سر پر ہاتھ رکھے رکھے پھر رہے تھے ہم میں سے کوئی بھی روزے سے نہ تھا سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کے

تیسرا مسئلہ

 ایک جماعت علماء کا خیال ہے جن میں حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بھی ہیں کہ سفر میں روزہ رکھنا نہ رکھنے سے افضل ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بحالت سفر روزہ رکھنا ثابت ہے،

 ایک دوسری جماعت کا خیال ہے کہ روزہ نہ رکھنا افضل ہے کیونکہ اس میں رخصت پر عمل ہے،

 اور ایک حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سفر کے روزے کی بابت سوال ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا :

جو روزہ توڑ دے اس نے اچھا کیا اور جو نہ توڑے اس پر کوئی گناہ نہیں

 ایک اور حدیث شریف میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

اللہ کی رخصتوں کو جو اس نے تمہیں دی ہیں تم لے لو۔

تیسری جماعت کا قول ہے کہ رکھنا نہ رکھنا دونوں برابر ہے۔

ان کی دلیل حضرت عائشہؓ والی حدیث ہے:

 حضرت حمزہ بن عمرو اسلمی رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !میں روزے اکثر رکھا کرتا ہوں تو کیا اجازت ہے کہ سفر میں بھی روزے رکھ لیا کروں فرمایا اگر چاہو نہ رکھو  (بخاری ومسلم)

بعض لوگوں کا قول ہے کہ اگر روزہ بھاری پڑتا ہو تو افطار کرنا افضل ہے،

 حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا اس پر سایہ کیا گیا ہے پوچھا یہ کیا بات ہے؟

 لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ روزے سے ہے آپ نے فرمایا سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں(بخاری ومسلم)

یہ خیال رہے کہ جو شخص سنت سے منہ پھیرے اور روزہ چھوڑنا سفر کی حالت میں بھی مکروہ جانے تو اس پر افطار ضروری ہے اور روزہ رکھنا حرام ہے ۔

 مسند احمد میں حضرت ابن عمر حضرت جابر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی رخصت کو قبول نہ کرے اس پر عرفات کے پہاڑوں برابر گناہ ہوگا۔

چوتھا مسئلہ

آیا قضاء روزوں میں پے درپے روزے رکھنے ضروری ہیں یا جدا جدا بھی رکھ لئے جائیں تو حرج نہیں؟

 ایک مذہب بعض لوگوں کا یہ ہے کہ قضا کو مثل ادا کے پورا کرنا چاہئے ، ایک کے پیچھے ایک یونہی لگاتار روزے رکھنے چاہئیں

دوسرے یہ کہ پے درپے رکھنے واجب نہیں خواہ الگ الگ رکھے خواہ ایک ساتھ اختیار ہے

 جمہور سلف وخلف کا یہی قول ہے اور دلائل سے ثبوت بھی اسی کا ہے،

وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (۱۸۵)

وہ چاہتا ہے تم گنتی پوری کرلو اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت پر اس طرح کی بڑائیاں بیان کرو اور اس کا شکر ادا کرو۔‏

رمضان میں پے درپے رورزے رکھنا اس لئے ہیں کہ وہ مہینہ ہی ادائیگی روزہ کا ہے اور رمضان کے نکل جانے کے بعد تو صرف وہ گنتی پوری کرنی ہے خواہ کوئی دن ہو اسی لئے قضاء کے حکم کے بعد اللہ کی آسانی کی نعمت کا بیان ہوا ہے،

مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

 بہتر دین وہی ہے جو آسانی والا ہو،

مسند ہی میں ایک اور حدیث میں ہے:

 عروہ کہتے ہیں کہ ہم ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے کہ آپ تشریف لائے سر سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے معلوم ہوتا تھا کہ وضو یا غسل کر کے تشریف لا رہے ہیں جب نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوالات کرنے شروع کر دئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا فلاں کام میں کوئی حرج ہے؟ فلاں کام میں کوئی حرج ہے؟

آخر میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ کا دین آسانیوں والا ہے تین مرتبہ یہی فرمایا،

مسند ہی کی ایک اور حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

 لوگو آسانی کرو سختی نہ کرو تسکین دو نفرت نہ دلاؤ،

بخاری ومسلم کی حدیث میں بھی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاذ اور حضرت ابو موسیٰ کو جب یمن کی طرف بھیجا تو فرمایا:

 تم دونوں خوشخبریاں دینا، نفرت نہ دلانا، آسانیاں کرنا سختیاں نہ کرنا، آپس میں اتفاق سے رہنا اختلاف نہ کرنا

سنن اور مسانید میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

 میں یکطرفہ نرمی اور آسانی والے دین کے ساتھ بھیجا گیا ہوں،

محجن بن ادرع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا غور سے آپ اسے دیکھتے رہے پھر فرمایا کیا تم اسے سچائی کے ساتھ نماز پڑھتے ہوئے دیکھ رہے ہو

لوگوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ تمام اہل مدینہ سے زیادہ نماز پڑھنے والا ہے

 آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اسے نہ سناؤ کہیں یہ اس کی ہلاکت کا باعث نہ ہو سنو اللہ تعالیٰ کا ارادہ اس اُمت کے ساتھ آسانی کا ہے سختی کا نہیں،

پس آیت کا مطلب یہ ہوا کہ مریض اور مسافر وغیرہ کو یہ رخصت دینا اور انہیں معذور جاننا اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ آسانی کا ہے سختی کا نہیں اور قضا کا حکم گنتی کے پورا کرنے کے لئے ہے

 اور اس رحمت نعمت ہدایت اور عبادت پر تمہیں اللہ تبارک وتعالیٰ کی بڑائی اور ذکر کرنا چاہئے جیسے اور جگہ حج کے موقع پر فرمایا :

فَإِذَا قَضَيْتُم مَّنَـسِكَكُمْ فَاذْكُرُواْ اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ ءَابَآءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا (۲:۲۰۰)

پھر جب تم ارکان حج ادا کر چکو تو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو جس طرح تم اپنے آباؤ اجداد کا ذکر کیا کرتے تھے، بلکہ اس سے بھی زیادہ

 اور جگہ جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے بعد فرمایا :

فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَوةُ فَانتَشِرُواْ فِى الاٌّرْضِ وَابْتَغُواْ مِن فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُواْ اللَّهَ كَثِيراً لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (۶۲:۱۰)

 پھر جب نماز ہو چکے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور بکثرت اللہ کا ذکر کیا کرو تاکہ تم فلاح پالو

 اور جگہ فرمایا:

وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ ـ وَمِنَ الَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَأَدْبَـرَ السُّجُودِ  (۵۰:۳۹،۴۰)

اور اپنے رب کی تسبیح تعریف کے ساتھ بیان کریں سورج نکلنے سے پہلے بھی اور سورج غروب ہونے سے پہلے بھی  اور رات کے کسی وقت بھی تسبیح کریں اور نماز کے بعد بھی

یعنی سورج کے نکلنے سے پہلے سورج کے ڈوبنے سے پہلے رات کو اور سجدوں کے بعد اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کیا کرو، اسی لئے مسنون طریقہ یہ ہے کہ ہر فرض نماز کے بعد اللہ تعالیٰ کی حمد تسبیح اور تکبیر پڑھنی چاہئے،

 حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

 ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نماز سے فارغ ہونا صرف اللہ اکبر کی آوازوں سے جانتے تھے،

یہ آیت دلیل ہے اس امر کی کہ عیدالفطر میں بھی تکبیریں پڑھنی چاہئیں

داؤد بن علی اصبہانی ظاہری کا مذہب ہے کہ اس عید میں تکبیروں کا کہنا واجب ہے کیونکہ اس میں صیغہ امر کا ہے وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ

اور اس کے بالکل برخلاف حنفی مذہب ہے وہ کہتے ہیں کہ اس عید میں تکبیریں پڑھنا مسنون نہیں ،

باقی بزرگان دین اسے مستحب بتاتے ہیں گو بعض تفصیلوں میں قدرے اختلاف ہے

 پھر فرمایا تاکہ تم شکر کرو یعنی اللہ تعالیٰ کے احکام بجا لا کر اس کے فرائض کو ادا کر کے اس کے حرام کردہ کاموں سے بچ کر اس کی حدود کی حفاظت کر کے تم شکر گزار بندے بن جاؤ۔

وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ

جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں

ایک اعرابی نے پوچھا تھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیا ہمارا رب قریب ہے؟ اگر قریب ہو تو ہم اس سے سرگوشیاں کر لیں یا دور ہے؟ اگر دور ہو تو ہم اونچی اونچی آوازوں سے اسے پکاریں ،

 نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے اس پر یہ آیت اتری (ابن ابی حاتم)

ایک اور روایت میں ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے اس سوال پر کہ ہمارا رب کہاں ہے؟یہ آیت اتری (ابن جریر)

أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ

ہر پکارنے والے کی پکار کو جب بھی وہ مجھے پکارے قبول کرتا ہوں

حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ جب آیت ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (۴۰:۶۰) نازل ہوئی یعنی مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کرتا رہوں گا تو لوگوں نے پوچھا کہ دعا کس وقت کرنی چاہئے؟ اس پر یہ آیت اتری (ابن جریج)

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے:

 ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں تھے ہر بلندی پر چڑھتے وقت اور ہر وادی میں اترتے وقت بلند آوازوں سے تکبیر کہتے جا رہے تھے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس آکر فرمانے لگے:

 لوگو! اپنی جانوں پر رحم کرو تم کسی کم سننے والے یا دور والے کو نہیں پکار رہے بلکہ جسے تم پکارتے ہو وہ تم سے تمہاری سواریوں کی گردن سے بھی زیادہ قریب ہے، اے عبداللہ بن قیس ! سن لو! جنت کا خزانہ لاحول ولاقوۃ الا باللہ ہے (مسند احمد)

فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (۱۸۶)

 اس لئے لوگوں کو بھی چاہیے وہ میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے۔‏

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرا بندہ میرے ساتھ جیسا عقیدہ رکھتا ہے میں بھی اس کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کرتا ہوں جب بھی وہ مجھ سے دعا مانگتا ہے میں اس کے ساتھ  ہی ہوتا ہوں(مسند احمد)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا بندہ جب مجھے یاد کرتا ہے اور اس کے ہونٹ میرے ذکر میں ہلتے ہیں میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں

 اس کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔اس مضمون کی آیت کلام پاک میں بھی ہے فرمان ہے:

إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوا وَّالَّذِينَ هُم مُّحْسِنُونَ (۱۶:۱۲۸)

جو تقویٰ واحسان وخلوص والے لوگ ہوں ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہوتا ہے،

حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام سے فرمایا جاتا ہے:

إِنَّنِي مَعَكُمَا أَسْمَعُ وَأَرَىٰ (۲۰:۴۶)

میں تم دونون کے ساتھ ہوں اور دیکھ رہا ہوں،

 مقصود یہ ہے کہ باری تعالیٰ دعا کرنے والوں کی دعا کو ضائع نہیں کرتا نہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ اس دعا سے غافل رہے یا نہ سنے اس نے دعا کرنے کی دعوت دی ہے اور اس کے ضائع نہ ہونے کا وعدہ کیا ہے،

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

بندہ جب اللہ تعالیٰ کے سامنے ہاتھ بلند کر کے دعا مانگتا ہے تو وہ ارحم الراحمین اس کے ہاتھوں کو خالی پھیرتے ہوئے شرماتا ہے (مسند احمد)

حضرت ابو سعید خدر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:

 جو بندہ اللہ تعالیٰ سے کوئی ایسی دعا کرتا ہے جس میں نہ گناہ ہو نہ رشتے ناتے ٹوٹتے ہوں تو اسے اللہ تین باتوں میں سے ایک ضرور عطا فرماتا ہے

- یا تو اس کی دعا اسی وقت قبول فرما کر اس کی منہ مانگی مراد پوری کرتا

- یا اسے ذخیرہ کر کے رکھ چھوڑتا ہے اور آخرت میں عطا فرماتا ہے

-  یا اس کی وجہ سے کوئی آنے والی بلا اور مصیبت کو ٹال دیتا ہے،

لوگوں نے یہ سن کر کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر تو ہم بکثرت دعا مانگا کریں گے

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پھر اللہ کے ہاں کیا کمی ہے؟  (مسند احمد)

عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

روئے زمین کا جو مسلمان اللہ عزوجل سے دعا مانگے اسے اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے یا تو اسے اس کی منہ مانگی مراد ملتی ہے یا ویسی ہی برائی ٹلتی ہے جب تک کہ گناہ کی اور رشتہ داری کے کٹنے کی دعا نہ ہو (مسند احمد)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

جب تک کوئی شخص دعا میں جلدی نہ کرے اس کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے جلدی کرنا یہ کہ کہنے لگے میں تو ہر چند دعا مانگی لیکن اللہ قبول نہیں کرتا (موطا امام مالک)

بخاری کی روایت میں یہ بھی ہے کہ اسے ثواب میں جنت عطا فرماتا ہے،

صحیح مسلم میں یہ بھی ہے کہ نامقبولیت کا خیال کر کے وہ نا امیدی کے ساتھ دعا مانگنا ترک کر دے یہ جلدی کرنا ہے،

 ابو جعفر طبری کی تفسیر میں یہ قول حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان کیا گیا ہے

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے:

 دل مثل برتنوں کے ہیں بعض بعض سے زیادہ نگرانی کرنے والے ہوتے ہیں، اے لوگوں تم جب اللہ تعالیٰ سے دعا مانگا کرو تو قبولیت کا یقین رکھا کرو، سنو غفلت والے دل کی دعا اللہ تعالیٰ ایک مرتبہ بھی قبول نہیں فرماتا  (مسند احمد)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا تو آپﷺ نے دعا کی کہ اللہ العالمین! عائشہ کے اس سوال کا کیا جواب ہے؟

جبرائیل علیہ السلام آئے اور فرمایا اللہ تعالیٰ آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے مراد اس سے وہ شخص ہے جو نیک اعمال کرنے والا ہو اور سچی نیت اور نیک دلی کے ساتھ مجھے پکارے تو میں لبیک کہہ کر اس کی حاجت ضرور پوری کر دیتا ہوں (ابن مردویہ)

یہ حدیث اسناد کی رو سے غریب ہے

 ایک اور حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی پھر فرمایا:

 اے اللہ تو نے دعا کا حکم دیا ہے اور اجابت کا وعدہ فرمایا ہے میں حاضر ہوں الہٰی میں حاضر ہوں الہٰی میں حاضر ہوں میں حاضر ہوں اے لاشریک اللہ میں حاضر ہوں حمد و نعمت اور ملک تیرے ہی لئے ہے تیرا کوئی شریک نہیں میری گواہی ہے کہ تو نرالا یکتا بےمثل اور ایک ہی ہے تو پاک ہے، بیوی بچوں سے دور ہے تیرا ہم پلہ کوئی نہیں تیری کفو کا کوئی نہیں تجھ جیسا کوئی نہیں میری گواہی کہ تیرا وعدہ سچا تیری ملاقات حق جنت ودوزخ قیامت اور دوبارہ جینا یہ سب برحق امر ہیں(ابن مردویہ)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

 اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے اے ابن آدم! ایک چیز تو تیری ہے ایک میری ہے اور ایک مجھ اور تجھ میں مشترک ہے

- خالص میرا حق تو یہ ہے کہ ایک میری ہی عبادت کراور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کر۔

-  تیرے لیے مخصوص یہ ہے کہ تیرے ہر ہر عمل کا پورا پورا بدلہ میں تجھے ضرور دوں گا کسی نیکی کو ضائع نہ کروں گا

- مشترک چیز یہ ہے کہ تو دعا کر اور میں قبول کروں تیرا کام دعا کرنا اور میرا کام قبول کرنا  (بزار)

دعا کی اس آیت کو روزوں کے احکام کی آیتوں کے درمیان وارد کرنے کی حکمت یہ ہے کہ روزے ختم ہونے کے بعد لوگوں کو دعا کی ترغیب ہو بلکہ روزہ افطار کے وقت وہ بکثرت دعائیں کیا کریں۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:

 روزے دار افطار کے وقت جو دعا کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے قبول فرماتا ہے

حضرت عبداللہ بن عمر ؓ افطار کے وقت اپنے گھر والوں کو اور بچوں کو سب کو بلا لیتے اور دعائیں کیا کرتے تھے (ابوداود طیالسی)

ابن ماجہ میں بھی یہ روایت ہے اور اس میں صحابی کی یہ دعا منقول ہے:

اللہم انی اسألک برحمتک اللتی وسعت کل شئی ان تغفرلی

اے اللہ میں تیری اس رحمت کو تجھے یاد دلا کر جس نے تمام چیزوں کو گھیر رکھا ہے تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو میرے گناہ معاف فرما دے

اور حدیث میں ہے:

تین شخصوں کی دعا رد نہیں ہوتی

-  عادل بادشاہ،

-  روزے دار

- اور مظلوم اسے قیامت والے دن اللہ تعالیٰ بلند کرے گا مظلوم کی بددعا کے لئے آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مجھے میری عزت کی قسم میں تیری مدد ضرور کروں گا گو دیر سے کروں

(مسند، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ )

أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ ۚ

روزوں کی راتوں میں اپنی بیویوں سے جماع تمہارے لئے حلال کیا گیا

ابتدائے اسلام میں یہ حکم تھا کہ افطار کے بعد کھانا پینا، جماع کرنا عشاء کی نماز تک جائز تھا اور اگر کوئی اس سے بھی پہلے سوگیا تو اس پر نیند آتے ہی حرام ہوگیا، اس میں صحابہ رضی اللہ عنہم کو قدرے مشقت ہوئی جس یہ رخصت کی آیتیں نازل ہوئیں اور آسانی کے احکام مل گئے

الرَّفَثُ سے مراد یہاں جماع ہے ،

 ابن عباس رضی اللہ عنہ عطا مجاہد سعید بن جبیر طاؤس سالم بن عبداللہ بن عمرو بن دینا حسن قتادو زہری ضحاک ، ابراہیم نخعی ، سدی، عطا خراسانی ، مقاتل بن حبان رحمہم اللہ بھی یہی فرماتے ہیں ۔

هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ ۗ

 وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کے لباس ہو

لِبَاسٌ سے مراد سکون ہے،ربیع بن انس لحاف کے معنی بیان کرتے ہیں

مقصد یہ ہے کہ میاں بیوی کے آپس کے تعلقات اس قسم کے ہیں کہ انہیں ان راتوں میں بھی اجازت دی جاتی ہے

عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُونَ أَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنْكُمْ ۖ

تمہاری پوشیدہ خیانتوں کا اللہ تعالیٰ کو علم ہے اس نے تمہاری توبہ قبول فرما کر تم سے درگزر فرمالیا

پہلے حدیث گزر چکی ہے کہ اس آیت کا شان نزول کیا ہے ؟ جس میں بیان ہوچکا ہے کہ جب یہ حکم تھا کہ افطار سے پہلے اگر کوئی سوجائے تو اب رات کو جاگ کر کھاپی نہیں سکتا اب اسے یہ رات اور دوسرا دن گزار کر مغرب سے پہلے کھانا پینا حلال ہوگاحضرت قیس بن صرمہ انصاری رضی اللہ عنہ دن بھر کھتی باڑی کا کام کر کے شام کو گھر آئے بیوی سے کہا کچھ کھانے کوہے؟ جواب ملا کچھ نہیں میں جاتی ہوں اور کہیں سے لاتی ہوں وہ تو گئیں اور یہاں ان کی آنکھ لگ گئی جب آکر دیکھا تو بڑا افسوس ہوا کہ اب یہ رات اور دوسرا دن بھوکے پیٹوں کیسے گزرے گا؟

چنانچہ جب آدھا دن ہوا تو حضرت قیس بھوک کے مارے بےہوش ہوگئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ذکر ہوا اس پر یہ آیت اتری اور مسلمان بہت خوش ہوئے ۔

 روایت میں یہ بھی ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم رمضان بھر عورتوں کے پاس نہیں جاتے تھے لیکن بعض لوگوں سے کچھ ایسے قصور بھی ہو جایا کرتے تھے جس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی

 ایک اور روایت میں ہے کہ یہ قصور کئی ایک حضرات سے ہوگیا تھا جن میں حضرت عمر بن خطاب ؓ بھی تھے جنہوں نے عشاء کی نماز کے بعد اپنی اہلیہ سے مباشرت کی تھی پھر دربار نبوت میں شکایتیں ہوئی اور یہ رحمت کی آیتیں اتریں

ایک روایت میں ہے

حضرت عمر ؓ نے آکر جب یہ واقعہ سنایا تو آپ ﷺنے فرمایا عمر تم سے تو ایسی امید نہ تھی اسی وقت یہ آیت اتری

ایک روایت میں ہے کہ حضرت قیسؓ نے عشاء کی نماز کے بعد نیند سے ہوشیار ہو کر کھاپی لیا تھا اور صبح حاضر ہو کر سرکار محمدی میں اپنا قصور بیان کیا تھا

ایک اور روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت عمر ؓ نے جب مباشرت کا ارادہ کیا تو بیوی صاحبہ نے فرمایا کہ مجھے نیند آگئی تھی لیکن انہوں نے اسے بہانہ سمجھا، اس رات آپ دیر تک مجلس نبوی میں بیٹھے رہے تھے اور بہت رات گئے گھر پہنچے تھے

 ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے بھی ایسا ہی قصور ہوگیا تھا

فَالْآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ ۚ

 اب تمہیں ان سے مباشرت کی اور اللہ تعالیٰ کی لکھی ہوئی چیز کی تلاش کرنے کی اجازت ہے۔

مَا كَتَبَ سے مراد اولاد ہے،

بعض نے کہا جماع مراد ہے

 بعض کہتے ہیں لیلۃ القدر مراد ہے

قتادہ کہتے ہیں مراد یہ رخصت ہے

 تطبیق ان سب اقوال میں اس طرح ہوسکتی ہے کہ عموم کے طور پر سبھی مراد ہیں۔

مِنَ الْفَجْرِ

 وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ۖ

 تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے ظاہر ہو جائے

جماع کی رخصت کے بعد کھانے پینے کی اجازت مل رہی ہے کہ صبح صادق تک اس کی بھی اجازت ہے

صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

 جب مِنَ الْفَجْرِ کا لفظ نہیں اترا تھا تو چند لوگوں نے اپنے پاؤں میں سفید اور سیاہ دھاگے باندھ لئے اور جب تک ان کی سفیدی اور سیاہی میں تمیز نہ ہوئی کھاتے پیتے رہے اسکے بعد یہ لفظ اترا اور معلوم ہوگیا کہ اس سے مراد رات سے دن ہے،

 مسند احمد میں ہے حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

 میں نے دو دھاگے (سیاہ اور سفید) اپنے تکئے تلے رکھ لئے اور جب تک ان کے رنگ میں تمیز نہ ہوئی تب تک کھاتا پیتا رہا صبح کو حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ذکر کیا تو آپ ﷺنے فرمایا:

 تیرا تکیہ بڑا لمبا چوڑا نکلا’ اس سے مراد تو صبح کی سفیدی کا رات کی سیاہی سے ظاہر ہونا ہے۔

 یہ حدیث بخاری ومسلم میں بھی ہے ،

مطلب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قول کا یہ ہے کہ آیت میں تو دھاگوں سے مراد دن کی سفیدی اور رات کی تاریکی ہے اگر تیرے تکیہ تلے یہ دونوں آجاتی ہوں تو گویا اس کی لمبائی مشرق ومغرب تک کی ہے،

صحیح بخاری میں یہ تفسیر بھی روایتا ًموجود ہے،

بعض روایتوں میں یہ لفظ بھی ہے کہ پھر تو تو بڑی لمبی چوڑی گردن والا ہے،

 بعض لوگوں نے اس کے معنی بیان کئے ہیں کہ کند ذہن ہے لیکن یہ معنی غلط ہیں، بلکہ مطلب دونوں جملوں کا ایک ہی ہے کیونکہ جب تکیہ اتنا بڑا ہے تو گردن بھی اتنی بڑی ہی ہوگی واللہ اعلم۔

بخاری شریف میں حضرت عدی کا اسی طرح کا سوال اور آپ کا اسی طرح کا جواب تفصیل وار یہی ہے ،

 آیت کے ان الفاظ سے سحری کھانے کا مستحب ہونا بھی ثابت ہوتا ہے اسلئے کہ اللہ کی رخصتوں پر عمل کرنا اسے پسند ہے،

 حضور علیہ السلام کا فرمان ہے:

 سحری کھایا کرو اس میں برکت ہے (بخاری ومسلم)

ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں سحری کھانے ہی کا فرق ہے (مسلم)

سحری کا کھانا برکت ہے اسے نہ چھوڑو اگر کچھ نہ ملے تو پانی کا گھونٹ ہی سہی اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے سحری کھانے والوں پر رحمت بھیجتے ہیں(مسند احمد)

اسی طرح کی اور بھی بہت سے حدیثیں ہیں

 سحری کو دیر کر کے کھانا چاہئے ایسے وقت کہ فراغت کے کچھ ہی دیر بعد صبح صادق ہو جائے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

ہم سحری کھاتے ہی نماز کے لئے کھڑے ہو جایا کرتے تھے اذان اور سحری کے درمیان اتنا ہی فرق ہوتا تھا کہ پچاس آیتیں پڑھ لی جائیں (بخاری ومسلم)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

 جب تک میری اُمت افطار میں جلدی کرے اور سحری میں تاخیر کرے تب تک بھلائی میں رہے گی۔ (مسند احمد)

یہ بھی حدیث سے ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا نام غذائے مبارک رکھا ہے ،

 مسند احمد وغیرہ کی حدیث میں ہے حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

 ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سحری کھائی ایسے وقت کہ گویا سورج طلوع ہونے والا ہی تھا

 لیکن اس میں ایک راوی عاصم بن ابو نجود منفرد ہیں

اور مراد اس سے دن کی نزدیکی ہے جیسے فرمان باری تعالیٰ ہے:

وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ (۲:۲۳۱)

اور جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت پوری کرلیں تو انہیں ان کے خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو

یعنی جب وہ عورتیں اپنے وقتوں کو پہنچ جائیں مراد یہ ہے کہ جب عدت کا زمانہ ختم ہو جانے کے قریب ہو یہی مراد یہاں اس حدیث سے بھی ہے کہ انہوں نے سحری کھائی اور صبح صادق ہو جانے کا یقین نہ تھا بلکہ ایسا وقت تھا کہ کوئی کہتا تھا ہوگئی کوئی کہتا تھا نہیں ہوئی کہ اکثر اصحاب رسول اللہ کا دیر سے سحری کھانا اور آخری وقت تک کھاتے رہنا ثابت ہے جیسے حضرت ابوبکر ، حضرت عمر ، حضرت علی، ابن مسعود ، حضرت حذیفہ ، حضرت ابوہریرہ حضرت ابن عمر، حضرت ابن عباس ، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہم اجمعین اور تابعین کی بھی ایک بہت بڑی جماعت سے صبح صادق طلوع ہونے کے بالکل قریب تک ہی سحری کھانا مروی ہے، جیسے محمد بن علی بن حسین، ابو مجلز، ابراہیم نخعی ، ابوالضحی، ابو وائل وغیرہ ، شاگردان ابن مسعود، عطا، حسن، حاکم بن عیینہ، مجاہد، عروہ بن زبیر، ابو الشعثائ، جابر بن زیاد، اعمش اور جابر بن رشد کا اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے

ہم نے ان سب کی اسنادیں اپنی مستقل کتاب کتاب الصیام میں بیان کردی ہے وللہ الحمد

 ابن جریری نے اپنی تفسیر میں بعض لوگوں سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ سورج کے طلوع ہونے تک کھانا پینا جائز ہے جیسے غروب ہوتے ہی افطار کرنا، لیکن یہ قول کوئی اہل علم قبول نہیں کرسکتا کیونکہ نص قرآن کے خلاف ہے قرآن میں الْخَيْطِ کا لفظ موجود ہے ،

 بخاری ومسلم کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی اذان سن کر تم سحری سے نہ رک جایا کرو وہ رات باقی ہوتی ہے اذان دے دیا کرتے ہیں تم کھاتے پیتے رہو جب تک حضرت عبداللہ بن ام مکتوم ؓ  کی اذان نہ سن لو وہ اذان نہیں کہتے جب تک فجرطلوع نہ ہو جائے ۔

 مسند احمد میں حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

 وہ فجر نہیں جو آسمان کے کناروں میں لمبی پھیلتی ہے بلکہ وہ جو سرخی والی اور کنارے کنارے ظاہر ہونے والی ہوتی ہے

 ترمذی میں بھی یہ روایت ہے اس میں ہے:

 اس پہلی فجر کو جو طلوع ہو کر اوپر کو چڑھتی ہے دیکھ کر کھانے پینے سے نہ رکو بلکہ کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ سرخ دھاری پیش ہو جائے،

ایک اور حدیث میں صبح کاذب اور اذان بلال کو ایک ساتھ بھی بیان فرمایا ہے

 ایک اور روایت میں صبح کاذب کو صبح کی سفیدی کے ستون کی مانند بتایا ہے،

دوسری روایت میں اس پہلی اذان کو جس کے مؤذن حضرت بلال رضی اللہ عنہ تھے یہ وجہ بیان کی ہے کہ وہ سوتوں کو جگانے اور نماز تہجد پڑھنے والوں اور قضا لوٹا نے کے لئے ہوتی ، فجر اس طرح نہیں ہے جب تک اس طرح نہ ہو (یعنی آسمان میں اونچی چڑھنے والی نہیں بلکہ کناروں میں دھاری کی طرح ظاہر ہونے والی )۔

 ایک مرسل حدیث میں ہے:

 فجر دوہیں ایک توبھیڑیے کی دم کی طرح ہے اس سے روزے دار پر کوئی چیز حرام نہیں ہوتی ہاں وہ فجر جو کناروں میں ظاہر ہو وہ صبح کی نماز اور روزے دار کا کھانا موقوف کرنے کا وقت ہے

ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جو سفیدی آسمان کے نیچے سے اوپر کو چڑھتی ہے اسے نماز کی حلت اور روزے کی حرمت سے کوئی سروکار نہیں لیکن فجر جو پہاڑوں کی چوٹیوں پر چمکنے لگتی ہے وہ کھانا پینا حرام کرتی ہے۔

 حضرت عطا سے مروی ہے:

 آسمان میں لمبی لمبی چڑھنے والی روشنی نہ تو روزہ رکھنے والے پر کھانا پیناحرام کرتی ہے نہ اس سے نماز کا وقت آیا ہوا معلوم ہوسکتا ہے نہ حج فوت ہوتا ہے لیکن جو صبح پہاڑوں کی چوٹیوں پر پھیل جاتی ہے یہ وہ صبح ہے ہ روزہ دار کے لئے سب چیزیں حرام کردیتی ہے اور نمازی کو نماز حلال کردیتی ہے اور حج فوت ہو جاتا ہے

 ان دونون روایتوں کی سند صحیح ہے اور بہت سے سلف سے منقول ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔

مسئلہ

چونکہ جماع کا اور کھانے پینے کا آخری وقت اللہ تعالیٰ نے روزہ رکھنے والے کے لئے صبح صادق کا مقرر کیا ہے اس سے اس مسئلہ پر بھی استدلال ہوسکتا ہے کہ صبح کے وقت جو شخص جنبی اٹھا وہ غسل کر لے اور اپنا روزہ پورا کرلے اس پر کوئی حرج نہیں، چاروں اماموں اور سلف وخلف کے جمہور علماء کرام کا یہی مذہب ہے،

بخاری ومسلم میں حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کو جماع کرتے صبح کے وقت جنبی اٹھتے پھر غسل کر کے روزہ سے رہتے آپ کا یہ جنبہ ہونا احتلام کے سبب نہ ہوتا تھا ،

حضرت ام سلمہؓ والی روایت میں ہے پھر آپ نہ افطار کرتے تھے نہ قضا کرتے تھے،

صحیح مسلم شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت میں ہے:

 ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !میں صبح نماز کا وقت آجانے تک جنبی ہوتا ہوں تو پھر کیا میں روزہ رکھ لوں؟

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہی بات میرے ساتھ بھی ہوتی ہے اور میں روزہ رکھتا ہوں

 اس نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم تو آپ جیسے نہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کے تو سب اگلے پچھلے گناہ معاف فرمادئیے ہیں

آپ ﷺنے فرمایا واللہ مجھے تو امید ہے کہ تم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا اور تم سب سے زیادہ تقویٰ کی باتوں کو جاننے والا میں ہوں۔

مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے:

 جب صبح کی اذان ہو جائے اور تم میں سے کوئی جنبی ہو تو وہ اس دن روزہ نہ رکھے،

اس کی اسناد بہت عمدہ ہے اور یہ حدیث شرط شیخین پر ہے۔ جیسے کہ ظاہر ہے

یہ حدیث بخار مسلم میں بھی حضرت ابوہریرہ ؓسے مروی ہے وہ فضل بن عباس سے روایت کرتے ہیں وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے

سنن نسائی میں یہ حدیث بروایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سالم ، عطا، ہشام بن عروہ اور حسن بصری رحمہم اللہ بھی یہی کہتے ہیں۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر جنبی ہو کر سوگیا ہو اور آنکھ کھلے تو صبح صادق ہوگئی ہو تو اس کے روزے میں کوئی نقصان نہیں حضرت عائشہؓ اور حضرت اُم سلمہ والی حدیث کا یہی مطلب ہے

 اور اگر اس نے عمداً غسل نہیں کیا اور اسی حالت میں صبح صادق ہوگئی تو اس کا روزہ نہیں ہوگا حضرت عروہ ، طاؤس اور حسن یہی کہتے ہیں ۔

بعض کہتے ہیں اگر فرضی روزہ ہو تو پورا تو کرلے لیکن قضا لازم ہے اور نفلی روزہ ہو تو کوئی حرج نہیں،

 ابراہیم نخعی یہی کہتے ہیں، خواجہ حسن بصری سے بھی ایک روایت ہے

بعض کہتے ہیں حضرت ابوہریرہؓ والی حدیث حضرت عائشہؓ والی حدیث سے منسوخ ہے لیکن حقیقت میں تاریخ کا پتہ نہیں جس سے نسخ ثابت ہو سکے۔

 بعض لوگ کہتے ہیں حضرت ابوہریرہ ؓ والی حدیث میں لا نفی کمال کا ہے یعنی اس شخص کا روزہ کامل نہیں کیونکہ حضرت عائشہ ؓ اور حضرت اُم سلمہؓ والی حدیث سے جواز صاف طور سے ثابت ہو رہا ہے یہی مسلک ٹھیک بھی ہے۔اور دوسرے تمام اقوال سے یہ قول عمدہ ہے اور یوں کہنے سے دونوں روایتوں میں تطبیق کی صورت بھی نکل آتی ہے واللہ اعلم ۔

ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ ۚ

پھر رات تک روزے کو پورا کرو

پھر فرماتا ہے کہ روزے کو رات تک پورا کرو اس سے ثابت ہوا کہ سورج کے ڈوبتے ہی روزہ افطار کر لینا چاہئے ،

 بخاری مسلم میں امیرالمؤمنین حضرت عمر بن خطاب ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

جب ادھر سے رات آجائے اور ادھر سے دن چلا جائے توروزے دار افطار کر لے

بخاری مسلم میں حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

 جب تک لوگ افطار کرنے میں جلدی کریں گے خیر سے رہیں گے،

مسند احمد حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اللہ عزوجل کا ارشاد ہے کہ مجھے سب سے زیادہ پیارے وہ بندے ہیں جو روزہ افطار کرنے میں جلدی کرنے والے ہیں،

 امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کو حسن غریب کہتے ہیں ،

مسند کی ایک اور حدیث میں ہے کہ بشیر بن خصاصیہ کی بیوی صاحبہ حضرت لیلیٰ فرماتی ہیں:

 میں نے دو روزوں کو بغیر افطار کئے ملانا چاہا تو میرے خاوند نے مجھے منع کیا اور کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے منع کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ کام نصرانیوں کا ہے تم تو روزے اس طرح رکھو جس طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ رات کو روزہ افطار کر لیا کرو

 اور بھی بہت سی احادیث روزے سے روزے کو ملانے کی ممانعت آئی ہے

مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

روزے سے روزہ نہ ملاؤ

 تو لوگوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ خود تو ملاتے ہیں!

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں تم جیسا نہیں ہوں میں رات گزارتا ہوں میرا رب مجھے کھلا پلا دیتا ہے

 لیکن لوگ پھر بھی اس سے باز نہ رہے تو آپ نے دو دن دو راتوں کا برابر روزہ رکھا

پھر چاند دکھائی دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر چاند نہ چڑھتا تو میں یونہی روزوں کو ملائے جاتا گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی عاجزی ظاہر کرنا چاہتے تھے

 بخاری ومسلم میں بھی یہ حدیث ہے

اور اسی طرح روزے کے بے افطار کئے اور رات کو کچھ کھائے بغیر دوسرے روزے سے ملالینے کی ممانعت میں بخاری ومسلم میں حضرت انس ،حضرت ابن عمر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی مرفوع حدیثیں مروی ہیں،

 پس ثابت ہوا کہ اُمت کو تو منع کیا گیا ہے لیکن آپ کی ذات اس سے مستثنی ٰتھی آپ کو اس کی طاقت تھی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کی مدد کی جاتی تھی،

یہ بھی خیال رہے کہ مجھے میرا رب کھلا پلا دیتا ہے اس سے مراد حقیقتاً کھانا پینا نہیں کیونکہ پھر تو روزے سے روزے کا وصال نہ ہوا بلکہ یہ صرف روحانی طور پر مدد ہے جیسے کہ ایک عربی شاعر کا شعر ہے

لہا احادیث من ذکراک تشغلہا عن الشراب وتلہیہا عن الزاد

یعنی اسے تیرے ذکر اور تیری باتوں میں وہ دلچسپی ہے کہ کھانے پینے یک قلم بےپرواہ ہو جاتی ہے ۔

 ہاں اگر کوئی شخص دوسری سحری تک رکا رہنا چاہے تو یہ جائز ہے

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ والی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

وصال نہ کرو، جو کرنا ہی چاہے تو سحری تک ملا لے

 لوگوں نے کہا کہ آپ تو ملا دیتے ہیں۔

آپ ﷺ نے فرمایا میں تم جیسا نہیں مجھے تو رات ہی کو کھلانے والا کھلادیتا ہے اور پلانے والا پلا دیتا ہے (بخاری مسلم)

ایک اور روایت میں ہے:

 ایک صحابیہ عورت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئی آپﷺ سحری کھا رہے تھے فرمایا آؤ تم بھی کھالو

 اس نے کہا میں توروزے سے ہوں

آپ ﷺنے فرمایا تم روزہ کس طرح رکھتی ہو

اس نے بیان کیا تو آپ ﷺنے فرمایا آل محمد ﷺ کی طرح سحری کے وقت سے دوسری سحری کے وقت تک کا ملا ہوا روزہ کیوں نہیں رکھتیں؟  (ابن جریر)

مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک سحری سے دوسری سحری تک کا روزہ رکھتے تھے،

 ابن جریر میں حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ اورسلف صالحین سے مروی ہے کہ وہ کئی کئی دن تک پے درپے بغیر کچھ کھائے روزہ رکھتے تھے،

بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ عبادت کے طور پر نہ تھا کہ بلکہ نفس کو مارنے کے لئے ریاضت کے طور پر تھا واللہ اعلم۔

اور یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے سمجھا ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس سے روکنا صرف شفقت اور مہربانی کے طور پر تھا نہ کہ ناجائز بتانے کے طور پر جیسے کہ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں آپ نے لوگوں پر رحم کھا کر اس سے منع فرمایا تھا، پس ابن زبیر اور انکے بیٹے عامر اور ان کی راہ چلنے والے اپنے نفس میں قوت پاتے تھے اور روزے پر روزہ رکھے جاتے تھے،

یہ بھی مروی کہ جب وہ افطار کرتے تو پہلے گھی اور کڑوا گوند کھاتے تاکہ پہلے غذا پہنچنے سے آنتیں جل نہ جائیں،

مروی ہے کہ حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ سات سات دن تک برابر روزے سے رہتے اس اثناء میں دن کو یا رات کو کچھ نہ کھاتے اور پھر ساتویں دن خوب تندرست چست وچالاک اور سب سے زیادہ قوی پائے جاتے،

 ابو العالیہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے دن کا روزہ فرض کردیا رہی رات تو جو چاہے کھالے جو نہ چاہے نہ کھائے

وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ ۗ

اور عورتوں سے اس وقت مباشرت نہ کرو جب کہ تم مسجدوں میں اعتکاف میں ہو،

پھر فرمان ہوتا ہے کہ اعتکاف کی حالت میں عورتوں سے مباشرت نہ کرو

ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے:

 جو شخص مسجد میں اعتکاف میں بیٹھا ہو خواہ رمضان میں خواہ اور مہینوں میں اس پر دن کے وقت یا رات کے وقت اپنی بیوی سے جماع کرنا حرام ہے جب تک اعتکاف پورا نہ ہو جائے

حضرت ضحاک فرماتے ہیں پہلے لوگ اعتکاف کی حالت میں بھی جماع کرلیا کرتے تھے جس پر یہ آیت اتری اور مسجد میں اعتکاف کئے ہوئے پر جماع حرام کیا گیا

مجاہد اور قتادہ بھی یہی کہتے ہیں

 پس علمائے کرام کا متفقہ فتویٰ ہے کہ اعتکاف والا اگر کسی ضروری حاجت کے لئے گھر میں جائے مثلاً پیشاب پاخانہ کے لئے یا کھانا کھانے کے لئے تو اس کام سے فارغ ہوتے ہی مسجد میں چلا آئے وہاں ٹھہرنا جائز نہیں نہ اپنی بیوی سے بوس وکنار وغیرہ جائز ہے نہ کسی اور کام میں سوائے اعتکاف کے مشغول ہونا اس کے لئے جائز ہے بلکہ بیمار کی بیمار پرسی کے لئے بھی جانا جائز نہیں ہاں یہ اور بات ہے کہ چلتے چلتے پوچھ لے

اعتکاف کے اور بھی بہت سے احکام ہیں بعض میں اختلاف بھی ہے جن سب کو ہم نے اپنی مستقل کتاب کتاب الصیام کے آخر میں بیان کیے ہیں وللہ الحمد والمنۃ

چونکہ قرآن پاک میں روزے کے بیان کے بعد اعتکاف کا ذکر ہے اس لیے اکثر مصنفین نے بھی اپنی اپنی کتابوں میں روزے کے بعد ہی اعتکاف کے احکام بیان کئے ہیں اس میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اعتکاف روزے کی حالت میں کرنا چاہئے یا رمضان کے آخر میں

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی رمضان شریف کے آخری دنوں میں اعتکاف کیا کرتے تھے یہاں تک کہ آپ کو وفات آئی آپﷺ کے بعد امہات المؤمنین آپ کی بیویاں اعتکاف کیا کرتی تھیں(بخاری ومسلم)

بخاری ومسلم میں ہے:

حضرت صفیہ بنت حیی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آپ کی اعتکاف کی حالت میں حاضر ہوتی تھیں اور کوئی ضروری بات پوچھنے کی ہوتی تو وہ دریافت کر کے چلی جاتی ایک مرتبہ رات کو جب جانے لگیں تو چونکہ مکان مسجد نبوی سے فاصلہ پر تھا اس لئے حضور ساتھ ہو لئے کہ پہنچا آئیں راستہ میں دو انصاری صحابی مل گئے اور آپ کے ساتھ آپ کی بیوی صاحبہ کو دیکھ کر شرم کے مارے جلدی جلدی قدم بڑھا کر جانے لگے ۔

آپ ﷺنے فرمایا ٹھہر جاؤ سنو یہ میری بیوی صفیہ ہیں

وہ کہنے لگے سبحان اللہ! (کیا ہمیں کوئی اور خیال بھی ہو سکتا ہے؟)

آپ ﷺنے فرمایا شیطان انسان کی رگ رگ میں خون کی طرح پھرتا رہتا ہے مجھے خیال ہوا کہ کہیں تمہارے دل میں کوئی بدگمانی نہ پیدا کر دے

حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اس واقعہ سے اپنی اُمت کو گویا سبق سکھا رہے ہیں کہ وہ تہمت کی جگہوں سے بچتے رہیں ورنہ ناممکن ہے کہ وہ پاکباز صحابہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت کوئی برا خیال بھی دل میں لائیں اور یہ بھی ناممکن ہے کہ آپ ان کی نسبت یہ خیال فرمائیں واللہ اعلم۔

آیت میں مراد مباشرت سے جماع اور اس کے اسباب ہیں جیسے بوس وکنار وغیرہ ورنہ کسی چیز کا لینا دینا وغیرہ یہ سب باتیں جائز ہیں

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں:

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اعتکاف کی حالت میں میری طرف سر  جھکا دیا کرتے تھے میں آپ کے سر میں کنگھی کر دیا کرتی تھی حالانکہ میں حیض سے ہوتی تھی آپ اعتکاف کے دنوں میں ضروری حاجت کے رفع کے سوا اور وقت گھر میں تشریف نہیں لاتے تھے

حضرت عائشہ فرماتی ہیں اعتکاف کی حالت میں تو چلتے چلتے ہی گھر کے بیمار کی بیمار پرسی کر لیا کرتی ہوں۔

تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَقْرَبُوهَا ۗ

یہ اللہ تعالیٰ کی حدود ہیں تم ان کے قریب بھی نہ جاؤ۔

پھر فرماتا ہے کہ یہ ہماری بیان کردہ باتیں اور فرض کئے ہوئے احکام اور مقرر کی ہوئی حدیں ہیں روزے اور روزوں کے احکام اور اس کے مسائل اور اس میں جو کام جائز ہیں یا جو ناجائز ہیں غرض وہ سب ہماری حدبندیاں ہیں خبردار ان کے قریب بھی نہ آنا نہ ان سے تجاوز کرنا نہ ان کے آگے بڑھنا

بعض کہتے ہیں یہ حد اعتکاف کی حالت میں مباشرت سے الگ رہنا ہے

بعض کہتے ہیں ان آیتوں کے چاروں حکم مراد ہے

كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ (۱۸۷)

 اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنی آیتیں لوگوں کے لئے بیان فرماتا ہے تاکہ وہ بچیں۔‏

پھر فرمایا جس طرح روزے اور اس کے احکام اور اس کے مسائل اور اس کی تفصیل ہم نے بیان کر دی اسی طرح اور احکام بھی ہم اپنے بندے اور رسول کی معرفت سب کے سب تمام جہان کے لئے بیان کیا کرتے ہیں تاکہ وہ یہ معلوم کر سکیں کہ ہدایت کیا ہے اور اطاعت کسے کہتے ہیں؟ اور اس بنا پر وہ متقی بن جائیں جیسے اور جگہ ہے:

هُوَ الَّذِى يُنَزِّلُ عَلَى عَبْدِهِ ءَايَـتٍ بَيِّنَـتٍ لِّيُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمَـتِ إِلَى النُّورِ وَإِنَّ اللَّهَ بِكُمْ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ (۵۷:۹)

وہ اللہ جو اپنے بندے پر روشن آیتیں نازل فرماتا ہے تاکہ تمہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لائے اللہ ٰ تم پر رافت ورحمت کرنے والا ہے

وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ (۱۸۸)

اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھایا کرو، نہ حاکموں کو رشوت پہنچا کر کسی کا کچھ مال ظلم و ستم سے اپنا کر لیا کرو، حالانکہ تم جانتے ہو ۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت اس شخص کے بارے میں ہےجو شخص  دوسرے کے مال پر ناحق قبضہ کرے اور جو اصل حقدار ہے اس کے  پاس کوئی شہادت اور دلیل نہ ہو کہ یہ مال میرا ہے اور ناحق قبضہ کرنے والا اسکا انکار کر دے کہ یہ مال اس (اصل مالک کا ) کا ہے  اور حاکم کے پاس جاکر بری ہو جائے حالانکہ وہ جانتا ہو کہ اس پر اُس (اصل مالک کا ) کا حق ہے وہ اس کا مال مار رہا ہے اور حرام کھا رہا ہے اور اپنے آپ کو  گنہگاروں میں شامل کر رہا ہے،

 حضرت مجاہد سعید بن جبیر، عکرمہ ، مجاہد ، حسن ، قتادہ ، سدی مقاتل بن حیان، عبدالرحمٰن بن زید اسلم بھی یہی فرماتے ہیں کہ باوجود اس علم کے کہ تو ظالم ہے جھگڑا نہ کر،

 بخاری ومسلم میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

میں انسان ہوں میرے پاس لوگ جھگڑا لے کر آتے ہیں شاید ایک دوسرے سے زیادہ حجت باز ہو اور میں اس کی چکنی چپڑی تقریر سن کر اس کے حق میں فیصلہ کر دوں(حالانکہ درحقیقت میرا فیصلہ واقعہ کے خلاف ہو) تو سمجھ لو کہ جس کے حق میں اس طرح کے فیصلہ سے کسی مسلمان کے حق کو میں دلوا دوں وہ آگ کا ایک ٹکڑا ہے خواہ اٹھا لے خواہ نہ اٹھائے،

میں کہتا ہوں یہ آیت اور حدیث اس امر پر دلیل ہے کہ حاکم کا حکم کسی معاملہ کی شرعی حقیقت کو بدلتا نہیں، فی الواقع جو حرام ہو وہ قاضی کے فیصلے سے حلال اور حلال حرام نہیں ہو سکتا۔ قاضی کا فیصلہ صرف ظاہری ہوتا ہے’ باطن میں نافذ نہیں ہوتا اگر وہ فی الواقع بھی نفس الامر کے مطابق ہو تو خیر ورنہ حاکم کو تو اجر ملے گا، لیکن اس فیصلہ کی بنا پر حق کو ناحق اور ناحق کو حق بنا لینے والا رب  کا مجرم ٹھہرے گا اور اس پر وبال باقی رہے گا، جس پر آیت مندرجہ بالا گواہ ہے، کہ تم اپنے دعوے کو باطل ہونے کا علم رکھتے ہوئے لوگوں کے مال کھانے کے لئے جھوٹے مقدمات بنا کر جھوٹے گواہ گزار کر ناجائز طریقوں سے حکام کو چکر دے  کر اپنے دعوؤں کو ثابت نہ کیا کرو،

حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

 لوگو! سمجھ لو کہ قاضی کا فیصلہ تیرے لئے حرام کو حلال نہیں کر سکتا اور نہ باطل کو حق کر سکتا ہے، قاضی تو اپنی عقل سمجھ سے گواہوں کی گواہی کے مطابق ظاہری حالات کو دیکھتے ہوئے فیصلہ صادر کر دیتا ہے اور وہ بھی آخر انسان ممکن ہے خطا کرے اور ممکن ہے خطا سے بچ جائے تو جان لو کہ اگر فیصلہ قاضی کا واقعہ کے خلاف ہو تو تم صرف قاضی کا فیصلہ اسے جائز مال نہ سمجھ لو یہ جھگڑا باقی ہی ہے یہاں تک قیامت کے دن اللہ تعالیٰ دونوں کو جمع کرے اور باطل والوں پر حق والوں کو غلبہ دے کر ان کا حق ان سے دلوائے اور دنیا میں جو فیصلہ ہوا تھا اس کے خلاف فیصلہ صادر فرما کر اس کی نیکیوں میں اسے بدلہ دلوائے۔

يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ ۖ

لوگ آپ سے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لوگوں نے چاند کے بارے میں سوال کیا جس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اس سے قرض وغیرہ کے وعدوں کی میعاد معلوم ہو جاتی ہے، عورتوں کی عدت کا وقت معلوم ہوتا ہے، حج کا وقت معلوم ہتا ہے، مسلمانوں کے روزے کے افطار کا تعلق بھی اسی سے ہے،

قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ ۗ

آپ کہہ دیجئے کہ یہ لوگوں (کی عبادت) کے وقتوں اور حج کے موسم کے لئے ہے

مسند عبدالرزاق میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

 اللہ تعالیٰ نے چاند کو لوگوں کے وقت معلوم کرنے کے لئے بنایا ہے اسے دیکھ کر روزے رکھو اسے دیکھ کر عید مناؤ اگر ابر وباراں کی وجہ سے چاند نہ دیکھ سکو تو تیس دن پورے گن لیا کرو،

اس روایت کو حضرت امام حاکم نے صحیح کہا ہے یہ حدیث اور سندوں سے بھی مروی ہے

 حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک موقوف روایت میں بھی یہ مضمون وارد ہوا ہے ۔

وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَى ۗ وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا ۚ

(احرام کی حالت میں ) گھروں کے پیچھے سے تمہارا آنا کچھ نیکی نہیں ، بلکہ نیکی والا وہ ہے جو متقی ہواور گھروں میں تو دروازوں میں سے آیا کرو

ارشاد ہوتا ہے کہ بھلائی گھروں کے پیچھے سے آنے میں نہیں بلکہ بھلائی تقویٰ میں ہے گھروں میں دروازوں سے آؤ ۔

 صحیح بخاری شریف میں ہے:

 جاہلیت کے زمانہ یہ دستور تھا کہ احرام میں ہوتے تو گھروں میں پشت کی جانب سے آتے جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

 ابوداؤد طیالسی میں بھی یہ روایت ہے

 انصار کا عام دستور تھا کہ سفر سے جب واپس آتے تو گھر کے دروازے سے نہیں داخل ہوتے  تھے دراصل یہ بھی جاہلیت کے زمانہ میں قریشیوں نے اپنے لیے ایک اور امتیاز قائم کر لیا تھا کہ اپنا نام انہوں نے حمس رکھا تھا احرام کی حالت یہ تو براہراست اپنے گھروں میں آسکتے تھے لیکن دوسرے لوگ سیدھے راستے گھروں میں داخل نہیں ہو سکتے تھے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک باغ  میں تھے’ جب وہاں سے اس کے دروازے سے نکلے تو آپ کے ایک انصاری صحابی حضرت قطبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آپ کے ساتھ ہی اسی دروازے سے نکلے اس پر لوگوں نے حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ تو ایک تجارت پیشہ شخص ہیں یہ آپ کے ساتھ آپ کی طرح اس دروازے سے کیوں نکلے؟

 انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے جواب دیا کہ میں نے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جس طرح کرتے دیکھا کیا۔ مانا کہ آپ حمس میں سے ہیں لیکن میں بھی تو آپ کے دین پر ہی ہوں، اس پر یہ آیت نازل ہوئی  (ابن ابی حاتم)

حضرت ابن عباس وغیرہ رضی اللہ عنہ سے بھی یہ روایت مروی ہے

حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جاہلیت کے زمانے میں بہت سی قوموں کا یہ رواج تھا کہ جب وہ سفر کے ارادے سے نکلتے پھر سفر ادھورا چھوڑ کر اگر کسی وجہ سے واپس چلے آتے تو گھر کے دروازے سے گھر میں نہ آتے بلکہ پیچھے کی طرف سے چڑھ کر آتے جس سے اس آیت میں روکا گیا،

محمد بن کعب فرماتے ہیں اعتکاف کی حالت میں بھی یہی دستور تھا جسے اسلام نے ختم کیا،

عطا فرماتے ہیں اہل مدینہ کا عیدوں میں بھی یہی دستور تھا جسے اسلام نے ختم کر دیا۔

وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (۱۸۹)

اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ‏

پھر فرمایا اللہ تعالیٰ کے حکموں کو بجا لانا اس کے منع کئے ہوئے کاموں سے رک جانا اس کا ڈر دل میں رکھنا یہ چیزیں ہیں جو دراصل اس دن کام آنے والی ہیں جس دن ہر شخص اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہوگا اور پوری پوری جزا سزا پائے گا۔

وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ

لڑو اللہ کی راہ میں جو تم سے لڑتے ہیں اور زیادتی نہ کرو

حضرت ابوالعالیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

 مدینہ شریف میں جہاد کا پہلا حکم یہی نازل ہوا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس آیت کے حکم کی رو سے صرف ان لوگوں سے ہی لڑتے تھے جو آپ سے لڑیں جو آپ سے نہ لڑیں خود ان سے لڑائی نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ سورۃ برأت نازل ہوئی ،

بلکہ عبدالرحمٰن بن زید بن سلام رحمۃ اللہ علیہ تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ یہ آیت منسوخ ہے اور ناسخ آیت  فَاقْتُلُواْ الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ (۹:۵) ہے یعنی جہاں کہیں مشرکین کو پاؤ انہیں قتل کرو، لیکن اس بارے میں اختلاف ہے اس لئے کہ اس سے تو مسلمانوں کو رغبت دلانا اور انہیں آمادہ کرنا ہے کہ اپنے ایسے دشمنوں سے کیوں جہاد نہ کروں جو تمہارے اور تمہارے دین کے کھلے دشمن ہیں ، جیسے وہ تم سے لڑتے ہیں تم بھی ان سے لڑو

جیسے اور جگہ فرمایا:

وَقَاتِلُواْ الْمُشْرِكِينَ كَآفَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَآفَّةً (۹:۳۶)

مل جل کر مشرکوں سے جہاد کرو جس طرح وہ تم سے سب کے سب مل کر لڑائی کرتے ہیں

چنانچہ اس آیت میں بھی فرمایا انہیں قتل کرو جہاں پاؤ اور انہیں وہاں سے نکالو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے

 مطلب یہ ہے کہ جس طرح ان کا قصد تمہارے قتل کا اور تمہیں جلا وطن کرنے کا ہے تمہارا بھی اس کے بدلے میں یہی قصد رہنا چاہئے ۔

إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ (۱۹۰)

 اللہ تعالیٰ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا‏

پھر فرمایا تجاوز کرنے والے کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا، یعنی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کرو ناک کان وغیرہ نہ کاٹو، خیانت اور چوری نہ کرو ، عورتوں اور بچوں کو قتل نہ کرو، ان بوڑھے بڑے لوگوں کو بھی نہ مارو جو نہ لڑنے کے لائق ہیں نہ لڑائی میں دخل دیتے ہیں درویشوں اور تارک دنیا لوگوں کو بھی قتل نہ کرو بلکہ بلا مصلحت جنگی نہ درخت کاٹو نہ حیوانوں کو ضائع کرو،

حضرت ابن عباس ؓ حضرت عمر بن عبدالعزیز حضرت مقاتل بن حیان نے اس آیت کی تفسیر میں یہی فرمایا ہے،

صحیح مسلم شریف میں ہے:

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجاہدین کو فرمان دیا کرتے تھے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرو خیانت نہ کرو، بدعہدی سے بچو، ناک کان وگیرہ اعضاء نہ کاٹو، بچوں کو اور زاہد لوگوں کو جو عبادت خانوں میں پڑے رہتے ہیں قتل نہ کرو۔

مسند احمد کی ایک روایت میں ہے:

 آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے اللہ کا نام لے کر نکلو اللہ کی راہ میں جہاد کرو کفار سے لڑو ظلم وزیادتی نہ کرو دھوکہ بازی نہ کرو۔ دشمن کے اعضاء بدن نہ کاٹو درویشوں کو قتل نہ کرو،

بخاری ومسلم میں ہے:

 ایک مرتبہ ایک غزوے میں ایک عورت قتل کی ہوئی پائی گئی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے بہت برا مانا اور عورتوں اور بچوں کے قتل کو منع فرما دیا،

مسند احمد میں ہے  کہ حضور ﷺ نے ایک ، تین ، پانچ، سات ، نو، گیارہ مثالیں دیں ایک تو ظاہر کر دی باقی چھوڑ دیں فرمایا :

 کچھ لوگ کمزور اور مسکین تھے کہ ان پر زور آور مالدار دشمن چڑھ آیا اللہ تعالیٰ نے ضعیفوں کی مدد کی اور اور ان طاقتوروں پر انہیں غالب کر دیا اب ان لوگوں نے ان پر ظلم وزیادتی شروع کر دی جس کے باعث اللہ تعالیٰ ان پر قیامت تک کے لئے ناراض ہو گیا۔

یہ حدیث اسناداً صحیح ہے،

مطلب یہ ہے کہ جب یہ کمزور قوم غالب آگئی تو انہوں نے ظلم وزیادتی شروع کر دی فرمان باری تعالیٰ کا کوئی لحاظ نہ کیا اس کے باعث پروردگار عالم ان سے ناراض ہو گیا ، اس بارے میں احادیث اور آثار بکثرت ہیں جن سے صاف ظاہر ہے کہ ظلم وزیادتی اللہ کو ناپسند ہے اور ایسے لوگوں سے اللہ ناخوش رہتا ہے ،

وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُمْ مِنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ ۚ

انہیں مارو جہاں بھی پاؤ اور انہیں نکالو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے

چونکہ جہاد کے احکام میں بظاہر قتل وخون ہوتا ہے اس لئے یہ بھی فرما دیا کہ ادھر اگر قتل وخون ہے تو ادھر اللہ کے ساتھ کفر وشرک ہے اور اس مالک کی راہ سے اس کی مخلوق کو روکنا ہے

وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ۚ

 اور (سنو) فتنہ قتل سے زیادہ سخت ہے

 اور یہ فتنہ قتل سے بہت زیادہ سخت ہے،

 ابو مالک فرماتے ہیں تمہاری یہ خطا کاریاں اور بدکاریاں قتل سے زیادہ زبوں تر ہیں۔

وَلَا تُقَاتِلُوهُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّى يُقَاتِلُوكُمْ فِيهِ ۖ

اور مسجد حرام کے پاس ان سے لڑائی نہ کرو جب تک کہ یہ خود تم سے نہ لڑیں،

پھر فرمان جاری ہوتا ہے کہ بیت اللہ میں ان سے لڑائی نہ کروجیسے بخاری ومسلم میں ہے:

 یہ شہر حرمت والا ہے آسمان وزمین کی پیدائش کے زمانے سے لے کر قیامت تک باحرمت ہی ہے صرف تھوڑے سے وقت کے لئے اللہ تعالیٰ نے میرے لئے اسے حلال کر دیا تھا لیکن وہ آج اس وقت بھی حرمت والا ہے اور قیامت تک اس کا یہ احترام اور بزرگی باقی رہے گی اس کے درخت نہ کاٹے جائیں اور اس کے کانٹے نہ اکھیڑے جائیں

 اگر کوئی شخص اس میں لڑائی کو جائز کہے اور میری جنگ کو دلیل میں لائے تو تم کہہ دینا اللہ تعالیٰ نے صرف اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تھوڑے سے وقت کے لیے اجازت دی تھی لیکن تمہیں کوئی اجازت نہیں۔

 آپ ﷺکے اس فرمان سے مراد فتح مکہ کا دن ہے جس دن آپ نے مکہ والوں سے جہاد کیا تھا اور مکہ کو فتح کیا تھا چند مشرکین بھی مارے گئے تھے ۔

گو بعض علماء کرام یہ بھی فرماتے ہیں کہ مکہ صلح سے فتح ہوا حضور ﷺ نے صاف ارشاد فرما دیا تھا کہ جو شخص اپنا دروازہ بند کرلے وہ امن میں ہے جو مسجد میں چلا جائے امن میں ہے جو ابوسفیان کے گھر میں چلا جائے وہ بھی امن ہے۔

فَإِنْ قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ ۗ كَذَلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ (۱۹۱)

 اگر یہ تم سے لڑیں تو تم بھی انہیں مارو کافروں کا بدلہ یہی ہے۔‏

پھر فرمایا کہ ہاں اگر وہ تم سے یہاں لڑائی شروع کر دیں تو تمہیں اجازت ہے کہ تم بھی ان سے یہیں لڑو تاکہ ظلم دفع ہو سکے، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیبیہ والے دن اپنے اصحاب سے لڑائی کی بیعت لی جب قریشیوں نے اپنے ساتھیوں سے مل کر یورش کی تھی تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے درخت تلے اپنے اصحاب سے بیعت لی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس لڑائی کو دفع کر دیا چنانچہ اس نعمت کا بیان اس آیت میں ہے :

وَهُوَ الَّذِى كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُم بِبَطْنِ مَكَّةَ مِن بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ (۴۸:۲۴)

وہی ہے جس نے خاص مکہ میں کافروں کے ہاتھوں کو تم سے اور تمہارے ہاتھوں کو انسے روک لیا اسکے بعد کہ اس نے تمہیں ان پر غلبہ دیا تھا

فَإِنِ انْتَهَوْا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (۱۹۲)

اگر یہ باز آجائیں تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔‏

ارشاد ہوتا ہے کہ اگر یہ کفار حرم میں لڑائی بند کر دیں اور اس سے باز آجائیں اور اسلام قبول کر لیں تو اللہ تعالیٰ ان کے گناہ معاف فرما دے گا گو انہوں نے مسلمانوں کو حرم میں قتل کیا ہو باری تعالیٰ ایسے بڑے گناہ کو بھی معاف فرما دے گا۔

وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ ۖ

ان سے لڑو جب تک کہ فتنہ نہ مٹ جائے اور اللہ تعالیٰ کا دین غالب نہ آجائے

حکم ہوتا ہے کہ ان مشرکین سے جہاد جاری رکھو تا کہ یہ شرک کا فتنہ مٹ جائے اور اللہ تعالیٰ کا دین غالب اور بلند ہو جائے اور تمام دین پر ظاہر ہو جائے، جیسے بخاری ومسلم میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ ایک شخص اپنی بہادری جتانے کے لئے لڑتا ہے ایک شخص حمیت وغیرت قومی سے لڑتا ہے، ایک شخص ریاکاری اور دکھاوے کے طور پر لڑتا ہے تو فرمائیے کہ ان میں سے کون شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والا ہے؟

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والا وہی ہے جو صرف اس کے لئے لڑے کہ اللہ تعالیٰ کی بات بلند ہو اس کے دین کا بول بالا ہو،

بخاری ومسلم کی ایک اور حدیث میں ہے :

 مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جہاد کرتا رہوں یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کہیں ان کی جان ومال کا تحفظ میرے ذمہ ہوگا مگر اسلامی احکام اور ان کے باطنی حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔

فَإِنِ انْتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ (۱۹۳)

 اگر یہ رک جائیں (تو تم بھی رک جاؤ) زیادتی تو صرف ظالموں پر ہی ہے‏

فرمایا کہ اگر یہ کفار شرک و کفر سے اور تمہیں قتل کرنے سے باز آجائیں تو تم بھی ان سے رک جاؤ اس کے بعد جو قتال کرے گا وہ ظالم ہوگا اور ظالموں کو ظلم کا بدلہ دینا ضروری ہے

یہی معنی ہیں حضرت مجاہد کے اس قول کے کہ جو لڑیں ان سے ہی لڑا جائے،

 یا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ ان حرکات سے رک جائیں تو وہ ظلم یعنی شرک سے ہٹ گئے پھر کوئی وجہ نہیں کہ ان سے جنگ وجدال ہو،

یہاں لفظ عُدْوَانَ جو کہ زیادتی کے معنی میں ہے وہ زیادتی کے مقابلہ میں زیادتی کے بدلے کے لئے ہے حقیقتا ًوہ زیادتی نہیں جیسے فرمایا :

فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُواْ عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ (۲:۱۹۴)

جو تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر اسی کے مثل زیادتی کرو جو تم پر کی ہے

اور جگہ ہے:

وَجَزَآءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا (۴۲:۴۰)

برائی کا بدلہ اسی جیسی برائی ہے

 اور جگہ فرمان ہے:

وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُواْ بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ (۱۶:۱۲۶)

اور اگر بدلہ لو بھی تو بالکل اتنا ہی جتنا صدمہ تمہیں پہنچایا گیا ہو

 پس ان تینوں جگہوں میں زیادتی برائی اور سزا بدلے کے طور پر کہا گیا ہے ورنہ فی الواقع وہ زیادتی برائی اور سزا وعذاب نہیں،حضرت عکرمہ اور حضرت قتادہ کا فرمان ہے اصلی ظالم وہی ہے جو لا الہ الا اللہ کو تسلیم کرنے سے انکار کرے،

صحیح بخاری شریف میں ہے:

حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے پاس دو شخص آئے جبکہ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ پر لوگوں نے چڑھائی کر رکھی تھی’ اور آ کر کہا  کہ لوگ تو مر کٹ رہے ہیں آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی ہیں کیوں اس لڑائی میں شامل نہیں ہوتے؟

آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا سنو اللہ تعالیٰ نے مسلمان بھائی کا خون حرام کر دیا ہے،

 انہوں نے کہا کیا جناب باری کا یہ فرمان نہیں کہ ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے

 آپ نے جواب دیا کہ ہم تو لڑتے رہے یہاں تک کہ فتنہ دب گیا اور اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین غالب آگیا لیکن اب تم چاہتے ہو کہ تم لڑو تاکہ فتنہ پیدا ہو اور دوسرے مذاہب ابھر آئیں۔

 ایک اور روایت میں ہے کہ کسی نے آپ سے پوچھا کہ اے ابو عبدالرحمٰن آپ نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنا کیوں چھوڑ رکھا ہے اور یہ کیا اختیار کر رکھا ہے کہ حج پر حج کر رہے ہو ہر دوسرے سال حج کو جایا کرتے ہو حالانکہ جہاد کے فضائل آپ سے مخفی نہیں آپ نے فرمایا بھتیجے سنو! اسلام کی بنائیں پانچ ہیں۔

-  اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا،

-  پانچوں وقتوں کی نماز ادا کرنا،

-  رمضان کے روزے رکھنا،

- زکوٰۃ دینا،

- بیت اللہ شریف کا حج کرنا،

 اس نے کہا کیا قرآن پاک کا یہ حکم آپ نے نہیں سنا :

وَإِن طَآئِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُواْ ۔۔۔فَقَـتِلُواْ الَّتِى تَبْغِى حَتَّى تَفِىءَ إِلَى أَمْرِ اللَّهِ (۴۹:۹)

ایمان والوں کی دو جماعتیں اگر آپس میں جھگڑیں تو تم ان میں صلح کرا دو اگر پھر بھی ایک گروہ دوسرے پر بغاوت کرے تو باغی گروہ سے لڑو یہاں تک کہ وہ پھر سے اللہ کا فرمانبردار بن جائے ،

اور جگہ ارشاد ہے:

وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ (۲:۱۹۳)

ان سے لڑو جب تک کہ فتنہ نہ مٹ جائے

آپ نے فرمایا ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں اس کی تعمیل کر لی جبکہ اسلام کمزور تھا اور مسلمان تھوڑے تھے جو اسلام قبول کرتا تھا اس پر فتنہ آ پڑتا تھا یا تو قتل کر دیا جاتا یا سخت عذاب میں پھنس جاتا یہاں تک کہ یہ پاک دین پھیل گیا اور اس کے حلقہ بگوش بکثرت ہو گئے اور فتنہ برباد ہو گیا

اس نے کہا اچھا تو پھر فرمائیے کہ حضرت علیؓ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے

فرمایا عثمان رضی اللہ عنہ کو تو اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا گو تم اس معافی سے برا مناؤ اور علیؓ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور آپ کے داماد تھے اور یہ دیکھو ان کا مکان یہ رہا جو تمہاری آنکھوں کے سامنے ہے۔

الشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ ۚ

حرمت والے مہینے حرمت والے مہینوں کے بدلے ہیں اور حرمتیں ادلے بدلے کی ہیں

ذوالقعدہ سن ۶ ہجری میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمرے کے لئے صحابہ کرام سمیت مکہ کو تشریف لے چلے لیکن مشرکین نے آپ کو حدیبیہ والے میدان میں روک لیا بالآخر اس بات پر صلح ہوئی کہ آئندہ سال آپ عمرہ کریں اور اس سال واپس تشریف لے جائیں چونکہ ذی القعدہ کا مہینہ بھی حرمت والا مہینہ ہے اس لئے یہ آیت نازل ہوئی۔

مسند احمد میں حدیث ہے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حرمت والے مہینوں میں جنگ نہیں کرتے تھے ہاں اگر کوئی آپ پر چڑھائی کرے تو اور بات ہے بلکہ جنگ کرتے ہوئے اگر حرمت والے مہینے آجاتے تو آپ لڑائی موقوف کر دیتے ،

 حدیبیہ کے میدان میں بھی جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ خبر پہنچی کہ حضرت عثمانؓ  کو مشرکین نے قتل کر دیا جو کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام لے کر مکہ شریف میں گئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چودہ سو صحابہ سے ایک درخت تلے مشرکوں سے جہاد کرنے کی بیعت لی پھر جب معلوم ہوا کہ یہ خبر غلط ہے تو آپ نے اپنا ارادہ ملتوی کر دیا اور صلح کی طرف مائل ہو گئے ۔ پھر جو واقعہ ہوا وہ ہوا۔

اسی طرح جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوازن کی لڑائی سے حنین والے دن فارغ ہوئے اور مشرکین طائف میں جا کر قلعہ بند ہو گئے تو آپ نے اس کا محاصرہ کر لیا چالیس دن تک یہ محاصرہ رہا بالآخر کچھ صحابہ کی شہادت کے بعد محاصرہ اٹھا کر آپ مکہ کی طرف لوٹ گئے اور جعرانہ سے آپ نے عمرے کا احرام باندھا یہیں حنین کی غنیمتیں تقسیم کیں اور یہ عمرہ آپ کا ذوالقعدہ میں ہوا یہ سن ۸ ہجری کا واقعہ ہے، اللہ تعالیٰ آپ پر درود وسلام بھیجے۔

فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ ۚ

جو تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر اسی کے مثل زیادتی کرو جو تم پر کی ہے

پھر فرماتا ہے جو تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر اتنی ہی زیادتی کر لو، یعنی مشرکین سے بھی عدل کا خیال رکھو،

یہاں بھی زیادتی کے بدلے کو زیادتی سے تعبیر کرنا ویسا ہی ہے جیسے اور جگہ عذاب وسزا کے بدلے میں برائی کے لفظ سے بیان کیا گیا، حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں یہ آیت مکہ شریف میں اتری جہاں مسلمانوں میں کوئی شان و شوکت نہ تھی نہ جہاد کا حکم تھا پھر یہ آیت مدینہ شریف میں جہاد کے حکم سے منسوخ ہو گئی،

 لیکن امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے اس بات کی تردید کی ہے اور فرماتے ہیں کہ یہ آیت مدنی ہے عمرہ قضا کے بعد نازل ہوئی ہے حضرت مجاہد کا قول بھی یہی ہے۔

وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ (۱۹۴)

اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔‏

  ارشاد ہے اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور پرہیز گاری اختیار کرو اور اسے جان لو کہ ایسے ہی لوگوں کے ساتھ دین ودنیا میں اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت رہتی ہے۔

وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ ۛ

اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو

حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے بارے میں نازل ہوئی ہے (بخاری)

اور بزرگوں نے بھی اس آیت کی تفسیر میں یہی بیان فرمایا ہے، حضرت ابو عمران فرماتے ہیں:

 مہاجرین میں سے ایک نے قسطنطنیہ کی جنگ میں کفار کے لشکر پر دلیرانہ حملہ کیا اور ان کی صفوں کو چیرتا ہوا ان میں گھس گیا تو بعض لوگ کہنے لگے کہ یہ دیکھو یہ اپنے ہاتھوں اپنی جان کو ہلاکت میں ڈال رہا ہے

حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا اس آیت کا صحیح مطلب ہم جانتے ہیں سنو! یہ آیت ہمارے ہی بارے میں نازل ہوئی ہے ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت اٹھائی آپ کے ساتھ جنگ وجہاد میں شریک رہے آپ کی مدد پر تلے رہے یہاں تک کہ اسلام غالب ہوا اور مسلمان غالب آگئے تو ہم انصاریوں نے ایک مرتبہ جمع ہو کر آپس میں مشورہ کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت کے ساتھ ہمیں مشرف فرمایا ہم آپ کی خدمت میں لگے رہے آپ کی ہمرکابی میں جہاد کرتے رہے اب بحمد اللہ اسلام پھیل گیا مسلمانوں کا غلبہ ہو گیا لڑائی ختم ہو گئی ان دنوں میں نہ ہم نے اپنی اولاد کی خبر گیری کی نہ مال کی دیکھ بھال کی نہ کھیتیوں اور باغوں کا کچھ خیال کیا اب ہمیں چاہئے کہ اپنے خانگی معاملات کی طرف توجہ کریں اس پر یہ آیت نازل ہوئی ،

 پس جہاد کو چھوڑ کر بال بچوں اور بیوپار تجارت میں مشغول ہو جانا یہ اپنے ہاتھوں اپنے تئیں ہلاک کرنا ہے (ابوداود ، ترمذی، نسائی وغیرہ)

ایک اور روایت میں ہے:

قسطنطنیہ کی لڑائی کے وقت مصریوں کے سردار حضرت عقبہ بن عامر تھے اور شامیوں کے سردار یزید بن فضالہ بن عبید تھے، حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے پوچھا کہ اگر میں اکیلا تنہا دشمن کی صف میں گھس جاؤں اور وہ مجھے گھیرے میں لے لیں اور قتل کر دیا جاؤں تو کیا اس آیت کے مطابق میں اپنی جان کو آپ ہی ہلاک کرنے والا بنوں گا؟

آپ نے جواب دیا نہیں نہیں اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرماتا ہے:

فَقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللّهِ لاَ تُكَلَّفُ إِلاَّ نَفْسَكَ (۴:۸۴)

تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتا رہ، تجھے صرف تیری ذات کی نسبت حکم دیا جاتا ہے

 اے نبی اللہ کی راہ میں لڑتا رہ تو اپنی جان کا ہی مالک ہے اسی کو تکلیف دے یہ آیت تو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے رک جانے والوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے (ابن مردویہ وغیرہ)

ترمذی کی اور روایت میں اتنی زیادتی ہے کہ آدمی کا گناہوں پر گناہ کئے چلے جانا اور توبہ نہ کرنا یہ اپنے ہاتھوں اپنے تئیں ہلاک کرنا ہے۔

ابن ابی حاتم میں ہے:

 مسلمانوں نے دمشق کا محاصرہ کیا اور ازدشنوہ کے قبیلہ کا ایک آدمی جرأت کر کے دشمنوں میں گھس گیا ان کی صفیں چیرتا پھاڑتا اندر چلا گیا لوگوں نے اسے برا جانا اور حضرت عمرو بن عاص کے پاس یہ شکایت کی چنانچہ حضرت عمرو نے انہیں بلا لیا اور فرمایا قرآن میں ہے اپنی جانوں کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں لڑائی میں اس طرح کی بہادری کرنا اپنی جان کو بربادی میں ڈالنا نہیں بلکہ اللہ کی راہ میں مال خرچ نہ کرنا ہلاکت میں پڑنا ہے،

حضرت ضحاک بن ابو جبیرہ فرماتے ہیں کہ انصار اپنے مال اللہ کی راہ میں کھلے دل سے خرچ کرتے رہتے تھے لیکن ایک سال قحط سالی کے موقع پر انہوں نے وہ خرچ روک لیا جس پر یہ آیت نازل ہوئی ،

حضرت امام حسن بصری فرماتے ہیں اس سے مراد بخل کرنا ہے،

حضرت نعمان بن بشیر فرماتے ہیں کہ گنہگار کا رحمت باری سے ناامید ہو جانا یہ ہلاک ہونا ہے اور مفسرین بھی فرماتے ہیں کہ گناہ ہو جائیں پھر بخشش سے ناامید ہو کر گناہوں میں مشغول ہو جانا اپنے ہاتھوں پر آپ ہلاک ہونا ہے،

 التَّهْلُكَةِ سے مراد اللہ کا عذاب بھی بیان کیا گیا ہے،

قرطبی میں روایت ہے:

 لوگ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جہاد میں جاتے تھے اور اپنے ساتھ کچھ خرچ نہیں لے جاتے تھے اب یا تو وہ بھوکوں مریں یا ان کا بوجھ دوسروں پر پڑے تو ان سے اس آیت میں فرمایا جاتا ہے کہ اللہ نے جو تمہیں دیا ہے اسے اس کی راہ کے کاموں میں لگاؤ اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو کہ بھوک پیاس سے یا پیدل چل چل کر مر جاؤ۔

وَأَحْسِنُوا ۛ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (۱۹۵)

 اور سلوک و احسان کرو اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔‏

 اس کے ساتھ ہی ان لوگوں کو جن کے پاس کچھ ہے حکم ہو رہا ہے کہ تم احسان کرو تاکہ اللہ تمہیں دوست رکھے نیکی کے ہر کام میں خرچ کیا کرو بالخصوص جہاد کے موقعہ پر اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے نہ رکو یہ دراصل خود تمہاری ہلاکت ہے،

پس احسان اعلیٰ درجہ کی اطاعت ہے جس کا یہاں حکم ہو رہا ہے اور ساتھ ہی یہ بیان ہو رہا ہے کہ احسان کرنے والے اللہ کے دوست ہیں۔

وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ ۚ

حج اور عمرے کو اللہ تعالیٰ کے لئے پورا کرو

اوپر چونکہ روزوں کا ذکر ہوا تھا پھر جہاد کا بیان ہوا اب حج کا تذکرہ ہو رہا ہے اور حکم ہوتا ہے کہ حج اور عمرے کو پورا کرو،

ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ حج اور عمرے کو شروع کرنے کے بعد پورا کرنا چاہئے ، تمام علماء اس پر متفق ہیں کہ حج وعمرے کو شروع کرنے کے بعد ان کا پورا کرنا لازم ہے گو عمرے کے واجب ہونے اور مستحب ہونے میں علماء کے دو قول ہیں جنہیں ہم نے پوری طرح کتاب الاحکام میں بیان کر دیا ہے فللہ الحمد والمنۃ

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پورا کرنا یہ ہے کہ تم اپنے گھر سے احرام باندھو

حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ان کا پورا  کرنا یہ ہے کہ تم اپنے گھر سے احرام باندھو’ تمہارا یہ  سفر صرف حج وعمرے کی غرض سے ہو میقات پہنچ کر لبیک پکارنا شروع کر دو تمہارا ارادہ تجارت یعنی کسی اور دنیوی غرض کا نہ ہو، کہ نکلے تو اپنے کام کو اور مکہ کے قریب پہنچ کر خیال آگیا کہ آؤ حج وعمرہ بھی کرتا چلوں گو اس طرح بھی حج وعمرہ ادا ہو جائے لیکن یہ پورا کرنا نہیں پورا کرنا یہ ہے کہ صرف اسی ارادے سے گھر سے نکلو

حضرت مکحول فرماتے ہیں کہ ان کا پورا کرنا یہ ہے کہ انہیں میقات سے شروع کرے،

حضرت عمر ؓفرماتے ہیں ان کا پورا کرنا یہ ہے کہ ان دونوں کو الگ الگ ادا کرے اور عمرے کو حج کے مہینوں میں نہ کرے اس لئے کہ قرآن شریف میں ہے الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَّعْلُومَاتٌ (۲:۱۹۷) حج کے مہینے مقرر ہیں

قاسم بن محمد فرماتے ہیں کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا پورا ہونا نہیں

 ان سے پوچھا گیا کہ محرم میں عمرہ کرنا کیسا ہے ؟

 کہا لوگ اسے تو پورا کہتے تھے لیکن اس قول میں شبہ ہے اس لئے کہ یہ ثابت شدہ امر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چار عمرے کئے اور چاروں ذوالقعدہ میں کئے ایک سنہ ۶ ہجری میں ذوالقعدہ کے مہینے میں، دوسرا ذوالقعدہ سنہ ۷ ہجری میں عمرۃ القضاء تیسرا ذوالقعدہ سنہ ۸ ہجری میں عمرۃ الجعرانہ ، چوتھا ذوالقعدہ سنہ ۱۰ ہجری میں حج کے ساتھ ، ان عمروں کے سوا ہجرت کے بعد آپ کا اور کوئی عمرہ نہیں ہوا، ہاں آپ نے ام ہانی رضی اللہ عنہما نے آپ کے ساتھ حج کے لئے جانے کا ارادہ کر لیا تھا لیک سواری کی وجہ سے ساتھ نہ جا سکیں جیسے کہ بخاری شریف میں یہ واقعہ منقول ہے حضرت سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ تو صاف فرماتے ہیں کہ یہ ام ہانی رضی اللہ عنہ کے لیے ہی مخصوص ہے واللہ اعلم۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حج وعمرے کا احرام باندھنے کے بعد بغیر پورا کئے چھوڑنا جائز نہیں،

 حج اس وقت پورا ہوتا ہے جبکہ قربانی والے دن جمرہ عقبہ کو کنکر مار لے اور بیت اللہ کا طواف کر لے اور صفا مروہ کے درمیان دوڑ لے اب حج ادا ہو گیا،

 ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حج عرفات کا نام ہے اور عمرہ طواف ہے

حضرت عبداللہ کی قرأت یہ ہے وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ إِلَى الْبَيْتَ عمرہ بیت اللہ تک جاتے ہی پورا ہو گیا ،

حضرت سعید بن جبیر سے جب یہ ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا حضرت ابن عباسؓ کی قرأت بھی یہی تھی، حضرت علقمہ بھی یہی فرماتے ہیں

ابراہیم سے مروی ہے وَأَقِمْمُوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ إِلَى الْبَيْتَ ،

حضرت شعبی کی قرأت میں والعمرۃ ہے وہ فرماتے ہیں عمرہ واجب نہیں گو اس کے خلاف بھی ان سے مروی ہے،

 بہت سی احادیث میں بہت سندوں کے ساتھ حضرت انس رضی اللہ عنہ اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حج وعمرے کا ایک ساتھ احرام باندھے ،

 ایک اور حدیث میں ہے عمرہ حج میں قیامت تک کے لئے داخل ہو گیا

 ابو محمد بن ابی حاتم نے اپنی کتاب میں اپنی کتاب میں ایک روایت وارد کی ہے :

 ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور زعفران کی خوشبو سے مہک رہا تھا اس نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میرے احرام کے بارے میں کیا حکم ہے اس پر یہ آیت اتری

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا وہ سائل کہاں ہے؟

اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  موجود ہوں

 آپ ﷺ نے فرمایااپنے زعفرانی کپڑے اتار ڈال اور خوب مل کر غسل کر لو اور جو اپنے حج میں کرتا ہے وہی عمرے میں بھی کر

یہ حدیث غریب ہے اور یہ سیاق عجیب ہے

بعض روایتوں میں غسل کا اور اس آیت کے نازل ہونے کا ذکر نہیں،

 ایک روایت میں اس کا نام یعلیٰ بن امیہ آیا ہے دوسری روایت میں صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ واللہ اعلم۔

فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ ۖ

ہاں اگر تم روک لئے جاؤ تو جو قربانی میسر ہو اسے کر ڈالو

پھر فرمایا اگر تم گھیر لئے جاؤ تو جو قربانی میسر ہو کر ڈالو

مفسرین نے ذکر کیا کہ یہ آیت سنہ ۶ ہجری میں حدیبیہ کے میدان میں اتری جبکہ مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکہ جانے سے روکا تھا اور اسی بارے میں پوری سورۃ فتح اتری اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کو رخصت ملی کہ وہ اپنی قربانیوں کو وہیں ذبح کر ڈالیں چنانچہ ستر اونٹ ذبح کئے گئے سرمنڈوائے گئے اور احرام کھول دئیے گئے اول مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کو سن کر لوگ ذرا جھجکے اور انہیں انتظار تھا کہ شاید کوئی ناسخ حکم اترے یہاں تک کہ خود آپ باہر آئے ، اور اپنا سر منڈوایا ۔ پھر سب لوگ آمادہ ہوگئے بعض نے سر منڈوا لیا بعض نے بال کٹوا لئے جس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ سر منڈوانے والوں پر رحم کرے

لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بال کتروانے والوں کے لئے بھی دعا کیجئے

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر سرمنڈاوانے والوں کے لیے یہی دعا کی،

 تیسری مرتبہ کتروانے والوں کے لئے بھی دعا کر دی،

سات سات شخص ایک ایک اونٹ میں شریک تھے صحابہ کی کل تعداد چودہ سو تھی حدیبیہ کے میدان میں ٹھہرے ہوئے تھے جو حد حرم سے باہر تھا گو یہ بھی مروی ہے کہ حد حرم کے کنارے پر تھے واللہ اعلم۔

علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ یہ حکم صرف ان لوگوں کے لئے ہی ہے جنہیں دشمن گھیرے یا کسی بیماری وغیرہ سے بھی کوئی مجبور ہو جائے تو اس کے لئے بھی رخصت ہے کہ وہ اسی جگہ احرام کھول ڈالے اور سر منڈوالے اور قربانی کر دے،

حضرت ابن عباسؓ تو صرف پہلی قسم کے لوگوں کے لئے ہی بتاتے ہیں ،

ابن عمر، طاؤس ، زہری اور زید بن اسلم بھی یہی فرماتے ہیں، لیکن مسند احمد کی ایک مرفوع حدیث میں ہے:

 جس شخص کا ہاتھ پاؤں ٹوٹ جائے یا بیمار ہو جائے یا لنگڑا لولا ہو جائے تو حلال ہو گا کہ  وہ اگلے سال حج کر لے

راوی حدیث کہتا ہے کہ میں نے اسے ابن عباسؓ اور ابوہریرہؓ سے ذکر کیا انہوں نے بھی فرمایا سچ ہے

 سنن اربعہ میں بھی یہ حدیث ہے،

 حضرت ابن مسعود، ابن زبیر ، علقمہ سعید بن مسیب، عروہ بن زبیر ، مجاہد، نخعی، عطا اور مقاتل بن حیان سے بھی یہی مروی ہے کہ بیمار ہو جانا اور لنگڑا لولا ہو جانا بھی ایسا ہی عذر ہے،

 حضرت سفیان ثوری ہر مصیبت وایذاء کو ایسا ہی عذر بتاتے ہیں،

بخاری ومسلم کی ایک حدیث میں ہے:

 حضرت زبیر بن عبدالمطلب کی صاحبزادی ضباعہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کرتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میرا ارادہ حج کا ہے لیکن میں بیمار رہتی ہوں آپ ﷺنے فرمایا حج کو چلی جاؤ اور شرط کر لو کہ میرے احرام سے فارغ ہونے کی وہی جگہ ہو گی جہاں میں مرض کی وجہ سے رک جاؤں

 اسی حدیث کی بنا پر بعض علماء کرام کا فتویٰ ہے کہ حج میں شرط کرنا جائز ہے ،

 امام شافعی بھی فرماتے ہیں کہ اگر یہ حدیث صحیح ہو تو میرا قول بھی یہی ہے، حضرت امام بیہقی فرماتے ہیں یہ حدیث باکل صحیح پس امام صاحب کا مذہب بھی یہی ہوا فالحمد للہ۔

پھر ارشاد ہوتا ہے کہ جو قربانی میسر ہو اسے قربان کر دے، حضرت علیؓ فرماتے ہیں یعنی ایک بکری ذبح کر دے،

 ابن عباسؓ فرماتے ہیں اونٹ ہو گائے ہو بکری ہو بھیڑ ہو ان کے نر ہوں۔ ان آٹھوں قسموں میں سے جسے چاہے ذبح کرے، ابن عباس ؓسے صرف بکری بھی مروی ہے اور بھی بہت سے مفسرین نے یہی فرمایا اور چاروں اماموں کا بھی یہی مذہب ہے،

حضرت عائشہؓ اور حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد صرف اونٹ اور گائے ہی ہے، غالبًا ان کی دلیل حدیبیہ والا واقعہ ہوگا اس میں کسی صحابی سے بکری کا ذبح کرنا منقول نہیں، گائے اور اُونٹ ہی ان بزرگوں نے قربان کئے ہیں،

بخاری ومسلم میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

 ہمیں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم سات سات آدمی گائے اور اونٹ میں شریک ہو جائیں ،

 حضرت ابن عباسؓ سے یہ بھی منقول ہے کہ جس جانور کے ذبح کرنے کی وسعت ہو اسے ذبح کر ڈالے، اگر مالدار ہے تو اونٹ اس سے کم حیثیت والا ہے تو گائے ورنہ پھر بکری

حضرت عروہ فرماتے ہیں مہنگے سستے داموں پر موقوف ہے،

 جمہور کے اس قول کی کہ بکری کافی ہے کہ یہ دلیل ہے کہ قرآن نے اسْتَيْسَرَ آسان ہونے کا ذکر فرمایا ہے یعنی کم سے کم وہ چیز جس پر قربانی کا اطلاق ہو سکے اور قربانی کے جانور اونٹ گائے بکریاں اور بھیڑیں ہیں جیسے ترجمان قرآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے،

بخاری ومسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ بکری کی قربانی کی۔

وَلَا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ ۚ

 اور سر نہ منڈواؤ جب تک کہ قربانی قربان گاہ تک نہ پہنچ جائے

پھر فرمایا جب تک قربانی اپنی جگہ پر نہ پہنچ جائے تم اپنے سروں کو نہ منڈواؤ،اس کا عطف آیت وَأَتِمُّواْ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ پر ہے، فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ پر نہیں

 امام ابن جریر سے یہاں سہو ہو گیا ہے وجہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں نے حدیبیہ والے سال جبکہ مشرکین رکاوٹ بن گئے تھے اور آپ کو حرم میں نہ جانے دیا تو حرم سے باہر ہی سب نے سر بھی منڈوائے اور قربانیاں بھی کر دیں، لیکن امن کی حالت میں جبکہ حرم میں پہنچ سکتے ہوں تو جائز نہیں جب تک کہ قربانی اپنی جگہ پر نہ پہنچ جائے اور حاجی حج وعمرے کے جملہ احکام سے فارغ نہ ہولے اگر وہ حج وعمرے کا ایک ساتھ احرام باندھے ہوئے ہو تو ان میں سے ایک کو کرنے والے ہو تو خواہ اس نے صرف حج کا احرام باندھا ہو خواہ تمتع کی نیت کی ہو،

بخاری مسلم میں ہے کہ حضرت ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! سب نے  تو احرام کھول ڈالے لیکن آپ تو احرام میں ہی ہیں

 آپ ﷺنے فرمایا ہاں میں نے اپنا سر منڈوا لیا ہے اور اپنی قربانی کے جانور کے گلے میں علامت ڈال دی ہے جب تک یہ ذبح نہ ہو جائے میں احرام نہیں اتار سکتا ۔

فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ ۚ

البتہ تم میں سے جو بیمار ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو (جس کی وجہ سے سر منڈا لے) تو اس پر فدیہ ہے خواہ روزے رکھ لے خواہ صدقہ دے دے، خواہ قربانی کرے

پھر حکم ہوتا ہے کہ بیمار اور سر کی تکلیف والا شخص فدیہ دے دے صحیح بخاری شریف میں ہے عبداللہ بن معقل کہتے ہیں:

 میں کوفے کی مسجد میں حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا میں نے ان سے اس آیت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب میں کہا کہ مجھے لوگ اٹھا کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لے گئے جوئیں میرے منہ پر چل رہی تھیں آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا تمہاری حالت یہاں تک پہنچ گئی ہوگی میں خیال بھی نہیں کرسکتا کیا تمہیں اتنی طاقت نہیں کہ ایک بکری ذبح کر ڈالو

میں نے کہا حضور! میں میں تو مفلس آدمی ہوں

آپ ﷺنے فرمایا جاؤ اپنا سرمنڈوا دو اور تین روزے رکھ لینا یا چھ مسکینوں کو آدھا آدھا صاع (تقریبا سوا سیر سوا چھٹانک) اناج دے دینا یہ آیت میرے بارے میں اتری ہے اور حکم کے اعتبار سے ہر ایک ایسے معذور شخص کو شامل ہے

 ایک اور روایت میں ہے کہ میں ہنڈیا تلے آگ سلگا رہا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری یہ حالت دیکھ کر مجھے یہ مسئلہ بتایا ،

 ایک اور روایت میں ہے کہ یہ واقعہ حدیبیہ کا ہے اور میرے سر پر بڑے بڑے بال تھے جن میں بکثرت جوئیں ہوگئی تھیں،

 ابن مردویہ کی روایت میں ہے کہ پھر میں نے سرمنڈوا دیا اور ایک بکری ذبح کر دی،

ایک اور حدیث میں ہے نُسُكٍ یعنی قربانی ایک بکری ہے اور روزے اگر رکھے تو تین رکھے اگر صدقہ دے تو ایک فرق (پیمانہ) چھ مسکینوں کے درمیان تقسیم کر دینا ہے،

حضرت علیؓ، محمد بن کعب، علقمہ، ابراہیم، مجاہد ، عطا، سدی اور ربیع بن انس رحمہم اللہ کا بھی یہی فتویٰ ہے،

 ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے:

 رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کو تینوں مسئلے بتا کر فرما دیا تھا کہ اس میں سے جس پر تم چاہو عمل کرو کافی ہے،

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جہاں دو تین صورتیں لفظ أَوْ کے ساتھ بیان ہوئی ہوں وہاں اختیار ہوتا ہے جسے چاہے کر لے،

حضرت مجاہد، عکرمہ، عطاء ، طاؤس، حسن، حمید، اعرج، ابراہیم نخعی اور ضحاک سے بھی یہی مروی ہے

چاروں اماموں کا اور اکثر علماء کا بھی یہی مذہب ہے کہ اگر چاہے روزے رکھ لے اگر چاہے صدقہ کر دے اگر چاہے قربانی کر لےروزے تین ہیں صدقہ ایک فرق یعنی تین صاع یعنی آٹھ سیر میں آدھی چھٹانک کم ہے چھ مسکینوں پر تقسیم کر دے اور قربانی ایک بکری کی ہے ، ان تینوں صورتوں میں سے جو چاہے کر لے،

پروردگار رحمٰن ورحیم کو چونکہ یہاں رخصت دینی تھی اس لئے سب سے پہلے روزے بیان فرمائے جو سب سے آسان صورت ہے، صدقہ کا ذکر کیا پھر قربانی کا، اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چونکہ افضلیت پر عمل کرانا تھا اس لئے پہلے قربانی کا ذکر کیا پھر چھ مسکینوں کو کھلانے کا پھر تین روزے رکھنے کا، سبحان اللہ دونوں مقام کے اعتبار سے دونوں ترکیبیں کس قدر درست اور برمحل ہیں فالحمد للہ

سعید بن جبیر سے اس آیت کا مطلب پوچھا جاتا ہے تو فرماتے ہیں :

غلہ کا حکم لگایا جائے گا اگر اس کے پاس ہے تو ایک بکری خرید لے ورنہ بکری کی قیمت درہموں سے لگائی جائے اور اس کا غلہ خریدا جائے اور صدقہ کر دیا جائے ورنہ ہر آدھے صاع کے بدلے ایک روزہ رکھے،

حضرت حسن فرماتے ہیں جب محرم کے سر میں تکلیف ہو تو بال منڈوا دے اور اور ان تین میں سے ایک فدیہ ادا کر دے روزے دس ہیں، صدقہ دس مسکینوں کا کھانا بتلاتے ہیں

 لیکن یہ اقوال ٹھیک نہیں اس لئے کہ مرفوع حدیث میں آچکا ہے کہ روزے تین ہیں اور چھ مسکینوں کا کھانا ہے اور ان تینوں صورتوں میں اختیار ہے قربانی کی بکری کر دے خواہ تین روزے رکھ لے خواہ چھ فقیروں کو کھانا کھلا دے، ہاں یہ ترتیب احرام کی حالت میں شکار کرنے والے پر ہے جیسے کہ قرآن کریم کے الفاظ ہیں اور فقہاء کا اجماع ہے لیکن یہاں ترتیب ضروری نہیں اختیار ہے ،

 طاؤس فرماتے ہیں یہ قربانی اور یہ صدقہ مکہ میں ہی کر دے لیکن روزے جہاں چاہے رکھ لے،

ایک اور روایت میں ہے ابو اسماء جو ابن جعفر کے مولیٰ ہیں فرماتے ہیں:

 حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ حج کو نکلے آپ کے ساتھ حضرت علی اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما بھی تھے میں ابو جعفر کے ساتھ تھا ہم نے دیکھا کہ ایک شخص سویا ہوا ہے اور اس کی اونٹنی اس کے سرہانے بندھی ہوئی ہے میں نے اسے جگایا دیکھا تو وہ حضرت حسینؓ تھے ابن جعفر انہیں لے کر چلے یہاں تک کہ ہم سقیا میں پہنچے وہاں بیس دن تک ہم ان کی تیمارداری میں رہے

 ایک مرتبہ حضرت علیؓ نے پوچھا کیا حال ہے؟

جناب حسین نے اپنے سر کی طرف اشارہ کیا آپ نے حکم دیا کہ سر منڈوا لو پھر اونٹ منگوا کر ذبح کر دیا،

 تو اگر اس اونٹ کا نحر کرنا احرام سے حلال ہونے کے لئے تھا تو خیر اور اگر یہ فدیہ کے لئے تھا تو ظاہر ہے کہ مکہ کے باہر یہ قربانی ہوئی ۔

فَإِذَا أَمِنْتُمْ فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ ۚ

پس جب تم امن کی حالت میں ہو جاؤ تو جو شخص عمرے سے لیکر حج تک تمتع کرے پس اسے جو قربانی میسر ہو اسے کر ڈالے

پھر ارشاد ہوتا ہے کہ تَمَتَّعَ والا شخص بھی قربانی کرے ، خواہ حج وعمرے کا ایک ساتھ احرام باندھا ہو یا پہلے عمرے کا احرام باندھا ہو یا اس سے فارغ ہو کر حج کا احرام باندھ لیا ہو، اصل تَمَتَّعَ یہی ہے اور فقہاء کے کلام میں بھی مشہور یہی ہے اور عام تَمَتَّعَ ان دونوں قسموں میں شامل ہے ، جیسے کہ اس پر صحیح حدیثیں دلالت کرتی ہیں

 بعض راوی تو کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود حج تَمَتَّعَ کیا تھا بعض کہتے ہیں آپ قارن تھے اور اتنا سب کہتے ہیں کہ قربانی کے جانور آپ کے ساتھ تھے،

پس آیت میں یہ حکم ہے کہ تَمَتَّعَ کرنے والا جس قربانی پر قادر ہو وہ کر ڈالے جس کا ادنیٰ درجہ ایک بکری کو قربان کرنا ہے گو گائے کی قربانی بھی کر سکتا ہے چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی تھی جو سب کی سب تَمَتَّعَ والی تھیں (ابن مردویہ)

اس سے ثابت ہوا کہ تَمَتَّعَ بھی مشروع ہے ،

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تَمَتَّعَ کی آیت بھی قرآن میں نازل ہو چکی ہے اور ہم نے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تَمَتَّعَ کیا پھر نہ تو قرآن میں اس کی ممانعت نازل ہوئی نہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے روکا لیکن لوگوں نے اپنی رائے سے اسے ممنوع قرار دیا، امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد غالبًا حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہیںحضرت امام المحدثین کی یہ بات بالکل صحیح ہے،

حضرت عمر ؓسے منقول ہے کہ وہ لوگوں کو اس سے روکتے تھے اور فرماتے تھے کہ اگر ہم کتاب اللہ کو لیں تو اس میں بھی حج وعمرے کے پورا کرنے کا حکم موجود ہے آیت وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ لیکن یہ یاد رہے کہ لوگ بکثرت بیت اللہ شریف کا قصد حج وعمرے کے ارادے سے کریں جیسے کہ آپ سے صراحۃً مروی ہے ۔

فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ ۗ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ ۗ

جسے طاقت نہ ہو تو وہ تین روزے حج کے دنوں میں رکھ لے اور سات واپسی پر یہ پورے دس ہوگئے

پھر فرمایا جو شخص قربانی نہ کرسکے وہ تین روزے حج میں رکھ لے اور سات روزے اس وقت رکھ لے جب حج سے لوٹے یہ پورے دس ہو جائیں گے، یعنی قربانی کی طاقت جسے نہ ہو وہ روزے رکھ لے تین تو ایام حج میں اور بقیہ بعد میں،

علماء کا فرمان ہے کہ اولیٰ یہ ہے کہ یہ روزے عرفے سے پہلے ذی الحج کے دنوں میں رکھ لے

حضرت طاؤس مجاہد یہ بھی فرماتے ہیں کہ اول شوال میں بھی یہ روزے جائز ہیں ،

حضرت شعبی وغیرہ فرماتے ہیں روزوں کو اگر عرفہ کے دن کا روزہ شامل کر کے ختم کرے تو بھی اختیار ہے،

 حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی یہ منقول ہے کہ اگر عرفے سے پہلے دو دنوں میں دو روزے رکھ لے اور تیسرا عرفہ کے دن ہو تو بھی جائز ہے،

حضرت ابن عمر رضی اللہ بھی فرماتے ہیں ایک روزہ یوم الترویہ سے پہلے ایکیوم الترویہ کا اور ایک عرفہ کا،

حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان بھی وہی ہے۔

 اگر کسی شخص سے یہ تینوں روزے یا ایک دو چھوٹ گئے ہوں اور ایام تشریق یعنی بقروعید کے بعد کے تین دن آجائیں تو حضرت عائشہ اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے کہ وہ ان دنوں میں بھی یہ روزے رکھ سکتا ہے (بخاری)

امام شافعیؒ کا بھی پہلا قول یہی ہے ،

حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے بھی یہی مروی ہے ، حضرت عکرمہ ، حسن بصری اور عروہ بن زبیر سے بھی یہی مروی ہے ۔ اور اسکی دلیل یہ ہے فی الحج عام ہےاور ان دونوں کو بھی شامل ہے،

حضرت امام شافعی کا نیا قول یہ ہے کہ ان دنوں میں یہ روزے ناجائز ہیں، کیونکہ صحیح مسلم شریف میں حدیث ہے کہ ایام تشریق کھانے پینے اور اللہ کا ذکر کرنے کے دن ہیں۔

 پھر سات روزے لوٹنے کے وقت اس سے مراد یا تو یہ ہے کہ جب لوٹ کر اپنی قیام گاہ پہنچ جاؤ پس لوٹتے وقت راستہ میں بھی یہ سات روزے رکھ سکتا ہے مجاہد اور عطا یہی کہتے ہیں، یا مراد وطن میں پہنچ جانے سے ہے

 ابن عمر رضی اللہ عنہ یہی فرماتے ہیں اور بھی بہت سے تابعین کا یہی مذہب ہے بلکہ ابن جریر تو اس پر اجماع بتاتے ہیں ،

بخاری شریف کی ایک مطول حدیث میں ہے:

 حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع میں عمرے کا حج کے ساتھ تمتع کیا اور قربانی دی ذوالحلیفہ سے آپ نے قربانی ساتھ لے لی تھی عمرے کے پھر حج کی تہلیل کی

 لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ تمتع کیا بعض لوگوں نے تو قربانی ساتھ ہی رکھ لی تھی۔ بعض کے ساتھ قربانی کے جانور نہ تھے مکہ شریف پہنچ کر آپ نے فرمایا کہ جس کے ساتھ قربانی ہے وہ حج ختم ہونے تک احرام میں رہے اور جس کے ساتھ قربانی نہیں وہ بیت اللہ شریف کا طواف کر کے صفا مروہ کے درمیان دوڑ کر احرام کھول ڈالے سر کے بال منڈوالے یا کتروالے پھر حج کا احرام باندھے اگر قربانی کی طاقت نہ ہو تو تین روزے تو حج میں رکھ لے اور سات روزے جب اپنے وطن پہنچے تب رکھ لے (بخاری)

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ سات روزے وطن میں جانے کے بعد ہیں۔

پھر فرمایا یہ پورے دس ہیں یہ فرمان تاکید کے لئے ہے جیسے عربوں میں کہا جاتا ہے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کانوں سے سنا ہاتھ سے لکھا اور قرآن میں بھی ہے:

وَلاَ طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ (۶:۳۸)

اور جتنے قسم کے پرند جانور ہیں کہ اپنے دونوں بازؤں سے اڑتے ہیں

اور جگہ ہے:

وَلاَ تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ (۲۹:۴۸)

نہ کسی کتاب کو اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے

 اور جگہ ہے:

وَوَعَدْنَا مُوسَى ثَلَـثِينَ لَيْلَةً وَأَتْمَمْنَاهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقَـتُ رَبِّهِ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً (۷:۱۴۲)

اور ہم نے موسیٰ ؑسے تیس راتوں کا وعدہ کیا اور دس رات مزید سے ان تیس راتوں کو پورا کیا۔ سو ان کے پروردگار کا وقت پورے چالیس رات کا ہوگیا

پس جیسے ان سب جگہوں میں صرف تاکید ہے ایسے ہی یہ جملہ بھی تاکید کے لئے ہے ،اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ تمام وکمال کرنے کا حکم ہے

اور كَامِلَةٌ کا مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ یہ قربانی کے بدلے کافی ہیں۔

ذَلِكَ لِمَنْ لَمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ

یہ حکم ان کے لئے ہے جو مسجد حرام کے رہنے والے نہ ہوں

پھر فرمایا یہ حکم ان لوگوں کے لئے ہے جس کے گھر والے مسجد حرام کے رہنے والے نہ ہوں،

اس پر تو اجماع ہے کہ حرم والے تمتع نہیں کر سکتے

حضرت ابن عباسؓ یہی فرماتے ہیں ، بلکہ آپ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

 اے مکہ والو تم تمتع نہیں کر سکتے باہر والوں کے لئے تمتع ہے تم کو تو ذرا سی دور جانا پڑتا ہے تھوڑے سا فاصلہ طے کیا پھر عمرے کا احرام باندھ لیا ،

حضرت طاؤس کی تفسیر بھی یہی ہے،

 لیکن حضرت عطاء رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میقات یعنی احرام باندھنے کے مقامات کے اندر ہوں وہ بھی اسی حکم میں ہیں، ان کے لئے بھی تمتع کرنا جائز نہیں ،مکحول بھی یہی فرماتے ہیں، تو عرفات والوں کا مزدلفہ والوں کا عرفہ اور رجیع کے رہنے والوں کا بھی یہی حکم ہے،

 زہری فرماتے ہیں مکہ شریف سے ایک دن کی راہ کے فاصلہ پر ہو یا اسکے قریب وہ تو تمتع کر سکتا ہے اور لوگ نہیں کر سکتے،

حضرت عطاء دو دن بھی فرماتے ہیں،

 امام شافعی کا مذہب یہ ہے کہ اہل حرم اور جو اتنے فاصلے پر ہوں کہ وہاں مکی لوگوں کے لئے نماز قصر کرنا جائز نہ ہو ان سب کے لئے یہی حکم ہے اس لئے کہ یہ سب حاضر کہے جائیں گے ان کے علاوہ سب مسافر، اور ان سب کے لئے حج میں تمتع کرنا جائز ہے واللہ اعلم۔

وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (۱۹۶)

 لوگو! اللہ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والا ہے۔‏

 پھر فرمایا اللہ تعالیٰ سے ڈرو اس کے احکام میں بجا لاؤ جن کاموں سے اس نے منع کیا ہے رک جاؤ اور یقین رکھو کہ اس کے نافرمانوں کو وہ سخت سزا کرتا ہے۔

الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُومَاتٌ ۚ

حج کے مہینے مقرر ہیں

عربی دان حضرات نے کہا ہے کہ مطلب اس  جملہ کا یہ ہے کہ حج حج ہے ان مہینوں کا جو معلوم اور مقرر ہیں، پس حج کے مہینوں میں احرام باندھنا دوسرے مہینوں کے احرام سے زیادہ کامل ہے، گو اور ماہ کا احرام بھی صحیح ہے،

امام مالک، امام ابو حنیفہ، امام احمد، امام اسحق، امام ابراہیم نخعی، امام ثوری، امام لیث، اللہ تعالیٰ ان پر سب رحمتیں نازل فرمائے فرماتے ہیں کہ سال بھر میں جس مہینہ میں چاہے حج کا احرام باندھ سکتا ہے ان بزرگوں کی دلیل آیت يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ (۲:۱۸۹) ہے،

دوسری دلیل یہ ہے کہ حج اور عمرہ دونوں کو نسک کہا گیا ہے اور عمرے کا احرام  ہر مہینے میں باندھ سکتا ہے تو حج کا احرام بھی جب باندھے گا صحیح ہو گا۔جب کہ امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ حج کا احرام حج کے مہینوں میں ہی باندھنا صحیح ہوگا بلکہ اگر اور ماہ میں حج کا احرام باندھا تو غیر صحیح ہے لیکن اس سے عمرہ بھی ہوسکتا ہے یا نہیں؟ اس میں امام صاحب کے دو قول ہیں

 حضرت ابن عباس حضرت جابر، حضرت عطا مجاہد رحمہم اللہ کا بھی یہی مذہب ہے کہ حج کا احرام حج کے مہینوں کے سوا باندھنا غیر صحیح ہے اور اس پر دلیل آیت الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُومَاتٌ ہے

عربی دان حضرات کی ایک دوسری جماعت کہتی ہے کہ آیت کے ان الفاظ سے مطلب یہ ہے کہ حج کا وقت خاص خاص مقرر کردہ مہینے میں تو ثابت ہوا کہ ان مہینوں سے پہلے حج کا جو احرام باندھے گا وہ صحیح نہ ہوگا جس طرح نماز کے وقت سے پہلے کوئی نماز پڑھ لے،

 امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ ہمیں مسلم بن خالد نے خبر دی انہوں نے ابن جریج سے سنا اور انہیں عمرو بن عطاء نے کہا ان سے عکرمہ نے ذکر کیا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے :

 کسی شخص کو لائق نہیں کہ حج کے مہینوں کے سوا بھی حج کا احرام باندھے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُومَاتٌ

اس روایت کی اور بھی بہت سی سندیں ہیں ایک سند میں ہے کہ سنت یہی ہے، صحیح ابن خزیمہ میں بھی یہ روایت منقول ہے، اصول کی کتابوں میں یہ مسئلہ طے شدہ ہے کہ صحابی کا فرمان حکم میں مرفوع حدیث کے مساوی ہوتا ہے پس یہ حکم رسول ہوگیا اور صحابی بھی یہاں وہ صحابی ہیں جو مفسرالقرآن اور ترجمان القرآن ہیں،

علاوہ ازیں ابن مردویہ کی ایک مرفوع حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :

 حج کا احرام باندھنا کسی کو سوا حج کے مہینوں کے لائق نہیں،

اس کی اسناد بھی اچھی ہیں، لیکن شافعی اور بیہقی نے روایت کی ہے کہ اس حدیث کے راوی حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ حج کے مہینوں سے پہلے حج کا احرام باندھ لیا جائے تو آپ نے فرمایا نہیں،

 یہ موقوف حدیث ہی زیادہ ثابت اور زیادہ صحیح ہے

 اور صحابی کے اس فتویٰ کی تقویت حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے اس قول سے بھی ہوتی ہے کہ سنت یوں ہے واللہ اعلم۔

أَشْهُرٌ مَعْلُومَاتٌ سے مراد حضرت عبداللہ بن عمر ؓفرماتے ہیں شوال ذوالقعدہ اور دس دن ذوالحجہ کے ہیں(بخاری)

یہ روایت ابن جریر میں بھی ہے، مستدرک حکم میں بھی ہے اور امام حاکم اسے صحیح بتلاتے ہیں ،

حضرت عمر، حضرت عطا، حضرت مجاہد ، حضرت ابراہیم نخعی، حضرت شعبی ، حضرت حسن، حضرت ابن سیرین، حضرت مکحول ، حضرت قتادہ ، حضرت ضحاک بن مزاحم، حضرت ربیع بن انس ، حضرت مقاتل بن حیان رحمہم اللہ بھی یہی کہتے ہیں ،

 حضرت امام شافعی ، امام ابو حنیفہ ، امام احمد بن حنبل ، ابو یوسف اور ابو ثور رحمۃ اللہ علیہم کا بھی یہی مذہب ہے ، امام ابن جریر بھی اسی قول کو پسند فرماتے ہیں

أَشْهُرٌ کا لفظ جمع ہے تو اس کا اطلاق دو پورے مہینوں اور تیسرے کے بعض حصے پر بھی ہوسکتا ہے، جیسے عربی میں کہا جاتا ہے کہ میں نے اس سال یا آج کے دن اسے دیکھا ہے پس حقیقت میں سارا سال اور پورا دن تو دیکھتا نہیں رہتا بلکہ دیکھنے کا وقت تھوڑا ہی ہوتا ہے مگر اغلباً (تقریباً) ایسابول دیا کرتے ہیں اسی طرح یہاں بھی اغلباً تیسرے مہینہ کا ذکر ہے

قرآن میں بھی ہے:

فَمَن تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلاَ إِثْمَ عَلَيْهِ (۲:۲۰۳)

دو دن کی جلدی کرنے والوں پر بھی کوئی گناہ نہیں

حالانکہ وہ جلدی ڈیڑھ دن کی ہوتی ہے مگر گنتی میں دو دن کہے گئے،

 امام مالک ، امام شافعی کا ایک پہلا قول یہ بھی ہے کہ شوال ذوالقعدہ اور ذوالحجہ کا پورا مہینہ ہے ، ابن عمر ؓسے بھی یہی مروی ہے، ابن شہاب ، عطاء، جابر بن عبداللہ سے بھی یہی مروی ہے طاؤس ، مجاہد، عروہ ربیع اور قتادہ سے بھی یہی مروی ہے

 ایک مرفوع حدیث میں بھی یہ آیا ہے لیکن وہ موضوع ہے ، کیونکہ اس کا راوی حسین بن مخارق ہے جس پر احادیث کو وضع کرنے کی تہمت ہے، بلکہ اس کا مرفوع ہونا ثابت نہیں واللہ اعلم۔

امام مالک کے اس قول کو مان لینے کے بعد یہ ثابت ہوتا ہے کہ ذوالحجہ کے مہینے میں عمرہ کرنا صحیح نہ ہوگا یہ مطلب نہیں کہ دس ذی الحجہ کے بعد بھی حج ہو سکتا ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ حج کے مہینوں میں عمرہ درست نہیں،

 امام ابن جریر بھی ان اقوال کا یہی مطلب بیان کرتے ہیں کہ حج کا زمانہ تو منیٰ کے دن گزرتے ہی جاتا رہا،

 محمد بن سیرین کا بیان ہے کہ میرے علم میں تو کوئی اہل علم ایسا نہیں جو حج کے مہینوں کے علاوہ عمرہ کرنے کو ان مہینوں کے اندر عمرہ کرنے سے افضل ماننےمیں  شک کرتا ہو،

قاسم بن محمد سے ابن عون نے حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کے مسئلہ کو پوچھا تو آپ نے جواب دیا کہ اسے لوگ پورا عمرہ نہیں مانتے، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما نے بھی حج کے مہینوں کے علاوہ عمرہ کرنا پسند فرماتے تھے بلکہ ان مہینوں میں عمرہ کرنے کو منع کرتے تھے واللہ اعلم

اس سے پہلی آیت کی تفسیر میں گزر چکا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ذوالقعدہ میں چار عمرے ادا فرمائے ہیں اور ذوالقعدہ بھی حج کا مہینہ ہے پس حج کے مہینوں میں عمرہ ادا فرماتے ہیں اور ذوالقعدہ بھی حج کا مہینہ ہے پس حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا جائز ٹھہرا واللہ اعلم۔

فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ ۗ

اسلئے جو شخص ان میں حج لازم کرلے وہ اپنی بیوی سے میل ملاپ کرنے، گناہ کرنے اور لڑائی جھگڑے کرنے سے بچتا رہے

پھر ارشاد ہوتا ہے کہ جو شخص ان مہینوں میں حج مقرر کرے یعنی حج کا احرام باندھ لے اس سے ثابت ہوا کہ حج کا احرام باندھنا اور اسے پورا کرنا لازم ہے، فرض سے مراد یہاں واجب و لازم کر لینا ہے،

 ابن عباسؓ فرماتے ہیں حج اور عمرے کا احرام باندھنے والا مراد ہے ۔

 عطاء فرماتے ہیں فَرَضَ سے مراد احرام ہے، ابراہیم اور ضحاک کا بھی یہی قول ہے،

ابن عباسؓ فرماتے ہیں احرام باندھ لینے اور لبیک پکار لینے کے بعد کہیں ٹھہرے رہنا ٹھیک نہیں۔ اور بزرگوں کا بھی یہی قول ہے، بعض بزرگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ فَرَضَ سے مراد لبیک پکارنا ہے ۔

رَفَثَ سے مراد جماع ہے جیسے اور جگہ قرآن میں ہے:

أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَآئِكُمْ (۲:۱۸۷)

روزے کی راتوں میں اپنی بیویوں سے جماع کرنا تمہارے لئے حلال کیا گیا ہے،

 احرام کی حالت میں جماع اور اسکے تمام کام بھی حرام ہیں جیسے مباشرت کرنا، بوسہ لینا، ان باتوں کا عورتوں کی موجودگی میں ذکر کرنا۔گوکہ بعض  نے مردوں کی محفلوں میں بھی ایسی باتیں کرنے کو رفث میں داخل  کیا ہے لیکن ابن عباسؓ سے اسکے خلاف مروی ہےأ انہوں نے ایک مرتبہ کوئی ایسا شعر پڑھا اور دریافت کرنے پر فرمایا کہ عورتوں کے سامنے اس قسم کی باتیں کرنا رَفَثَ ہے۔ رَفَثَ کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ جماع وغیرہ کا ذکر کیا جائے، فحش باتیں کرنا، دبی زبان سے ایسے ذکر کرنا، اشاروں کنایوں میں جماع کا ذکر، اپنی بیوی سے کہنا کہ احرام کھل جائے تو جماع کریں گے، چھیڑ چھاڑ کرنا، مساس کرنا وغیرہ یہ سب رَفَثَ میں داخل ہے اور احرام کی حالت میں یہ سب باتیں حرام ہیں

 مختلف مفسروں کے مختلف اقوال کا مجموعہ یہ ہے ۔

فُسُوقَ کے معنی عصیان ونافرمانی شکار گالی گلوچ وغیرہ بد زبانی ہے جیسے حدیث میں ہے

مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اسے قتل کرنا کفر ہے، اللہ کے سوا دوسرے کے تقرب کے لئے جانوروں کو ذبح کرنا بھی فسق ہے

جیسے قرآن کریم میں ہے :

أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ (۶:۱۴۵)

ا جو شرک کا ذریعہ ہو کر غیر اللہ کے لئے نامزد کر دیا گیا ہو

بد القاب سے یاد کرنا بھی فسق ہےقرآن فرماتا ہے :

وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ (۴۹:۱۱)

اور نہ کسی کو برے لقب دو

مختصر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہرنافرمانی فسق میں داخل ہے گو یہ فسق ہر وقت حرام ہے لیکن حرمت والے مہینوں میں اس کی حرمت اور بڑھ جاتی ہےاللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

فَلاَ تَظْلِمُواْ فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ (۹:۳۶)

تم ان (حرمت والے) مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو

اس طرح حرم میں بھی یہ حرمت بڑھ جاتی ہے ارشاد ہے:

وَمَن يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ (۲۲:۲۵)

جو بھی ظلم کے ساتھ وہاں دین حق سے پھر جانے کا ارادہ کرے ہم اسے دردناک عذاب چکھائیں گے

 امام ابن جریر فرماتے ہیں یہاں مراد فسق سے وہ کام ہیں جو احرام کی حالت میں منع ہیں جیسے شکار کھیلنا بال منڈوانا یا کتروانا یا ناخن لینا وغیرہ، حضرت ابن عمر ؓسے بھی یہی مروی ہے

 لیکن بہترین تفسیر وہی ہے جو ہم نے بیان کی یعنی ہر گناہ سے روکا گیا ہے واللہ اعلم۔

بخاری ومسلم میں ہے:

 جو شخص بیت اللہ کا حج کرے نہ رَفَثَ کرے نہ فسق تو وہ گناہوں سے ایسا نکل جاتا ہے جیسے اپنے پیدا ہونے کا دن تھا۔

پھر ارشاد ہوتا ہے کہ حج میں جھگڑا نہیں یعنی حج کے وقت اور حج کے ارکان وغیرہ میں جھگڑا نہ کرو اور اس کا پورا بیان اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے، حج کے مہینے مقرر ہو چکے ہیں ان میں کمی زیادتی نہ کرو، موسم حج کو آگے پیچھے نہ کرو جیسا کہ مشرکین کا وطیرہ تھا جس کی مذمت قرآن کریم میں اور جگہ فرمادی گئی ہے

 اسی طرح قریش مشعر حرام کے پاس مزدلفہ میں ٹھہر جاتے تھے اور باقی عرب عرفات میں ٹھہرتے تھے پھر آپس میں جھگڑتے تھے اور ایک دوسرے سے کہتے تھے کہ ہم صحیح راہ پر اور طریق ابراہیمی پر ہیں جس سے یہاں ممانعت کی جارہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں وقت حج ارکان حج اور ٹھہرنے وغیرہ کی جگہیں بیان کر دی ہیں اب نہ کوئی ایک دوسرے پر فخر کرے نہ حج کے دن آگے پیچھے کرے بس یہ جھگڑے اب مِٹا دو۔ واللہ اعلم

یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ حج کے سفر میں آپس میں نہ جھگڑو نہ ایک دوسرے کو غصہ دلاؤ نہ کسی کو گالیاں دو،

 بہت سے مفسرین کا یہ قول بھی ہے اور بہت سے مفسرین کا پہلا قول بھی ہے،

 حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ کسی کا اپنے غلام کو ڈانٹ ڈپٹ کرنا یہ اس میں داخل نہیں ہاں مارے نہیں، لیکن میں کہتا ہوں کہ غلام کو اگر مار بھی لے تو کوئی ڈر خوف نہیں،

مسند احمد کی حدیث میں ہے:

ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سفر حج میں تھے ور عرج میں ٹھہرے ہوئے تھے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہ اپنے والد حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں حضرت ابوبکرؓ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اونٹوں کا سامان حضرت ابوبکر ؓکے خادم کے پاس تھا حضرت صدیقؓ اس کا انتظار کر رہے تھے تھوڑی دیر میں وہ آگیا اس سے پوچھا کہ اونٹ کہاں ہے؟

اس نے کہا حضرت کل رات کو گم ہو گیا آپ ناراض ہوئے اور فرمانے لگے ایک اونٹ کو بھی تو سنبھال نہ سکا یہ کہہ کر آپ نے اسے مارا

 نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرا رہے تھے اور فرماتے جا رہے تھے دیکھو احرام کی حالت میں کیا کر رہے ہیں؟

یہ حدیث ابوداؤد اور ابن ماجہ میں بھی ہے،

بعض سلف سے یہ بھی مروی ہے کہ حج کے تمام ہونے میں یہ بھی ہے لیکن یہ خیال رہے کہ آنحضور ﷺ کا حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے اس کام پر یہ فرمانا اس میں نہایت لطافت کے ساتھ ایک قسم کا انکار ہے پس مسئلہ یہ ہوا کہ اسے چھوڑ دینا ہی اولیٰ ہے واللہ اعلم

مسند عبد بن حمید میں ہے کہ جو شخص اپنا حج پورا کرے اور مسلمان اس کی زبان اور ہاتھ سے ایذاء نہ پائیں اس کے تمام اگلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔

وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللَّهُ ۗ

تم جو نیکی کرو گے اس سے اللہ تعالیٰ باخبر ہے

فرمایا تم جو بھلائی کرو اس کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے،

 چونکہ اوپر ہر برائی سے روکا تھا کہ نہ کوئی برا کام کرو نہ بری بات کہو تو یہاں نیکی کی رغبت دلائی جا رہی ہے کہ ہر نیکی کا پورا بدلہ قیامت کے دن پاؤ گے۔

وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى ۚ

 اور اپنے ساتھ سفر خرچ لے لیا کرو، سب سے بہتر توشہ اللہ تعالیٰ کا ڈر ہے

پھر ارشاد ہوتا ہے کہ توشہ اور سفر خرچ لے لیا کرو

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں لوگ بلا خرچ سفر کو نکل کھڑے ہوتے تھے پھر لوگوں سے مانگتے پھرتے جس پر یہ حکم ہوا ،

حضرت عکرمہ ، حضرت عینیہ بھی یہی فرماتے ہیں ،

بخاری نسائی میں یہ روایتیں مروی ہیں،

ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ عینی لوگ ایسا کرتے تھے اور اپنے تئیں متوکل کہتے تھے ،

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے یہ بھی روایت ہے کہ جب احرام باندھتے تو جو کچھ توشہ بھنا ہوتا سب پھینک دیتے اور نئے سرے سے نیا سامان کرتے

اس پر یہ حکم ہوا کہ ایسا نہ کرو آٹا ستو وغیرہ توشے ہیں ساتھ لے لو

دیگر بہت سے معتبر مفسرین نے بھی اسی طرح کہا ہے بلکہ ابن عمر رضی اللہ عنہ تو یہ بھی فرماتے ہیں کہ انسان کی عزت اسی میں ہے کہ وہ عمدہ سامان سفر ساتھ رکھے ، آپ اپنے ساتھیوں سے دل کھول کر خرچ کرنے کی شرط کر لیا کرتے تھے

چونکہ دنیوی توشہ کا حکم دیا ہے تو ساتھ ہی فرمایا ہے کہ آخرت کے توشہ کی تیاری بھی کر لو یعنی اپنی قبر میں اپنے ساتھ خوف اللہ لے کر جاؤ جیسے اور جگہ لباس کا ذکر کر کے ارشاد فرمایا :

وَلِبَاسُ التَّقْوَى ذَلِكَ خَيْرٌ (۷:۲۶)

پرہیز گاری کا لباس بہتر ہے،

یعنی خشوع خضوع طاعت وتقویٰ کے باطنی لباس سے بھی خالی نہ رہو، بلکہ یہ لباس اس ظاہری لباس سے کہیں زیادہ بہتر اور نفع دینے والا ہے،

 ایک حدیث میں بھی ہے :

دنیا میں اگر کچھ کھوؤ گے تو آخرت میں پاؤ گے یہاں کا توشہ وہاں فائدہ دے گا (طبرانی)

اس حکم کو سن کر ایک مسکین صحابی رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تو کچھ ہے ہی نہیں

آپ ﷺنے فرمایا اتنا تو ہونا چاہئے جس سے کسی سے سوال نہ کرنا پڑے اور بہترین خزانہ اللہ تعالیٰ کا خوف ہے (ابن ابی حاتم)

وَاتَّقُونِ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ (۱۹۷)

اور اے عقلمندو! مجھ سے ڈرتے رہا کرو۔‏

ارشاد ہوتا ہے کہ عقلمندو مجھ سے ڈرتے رہا کرو ، یعنی میرے عذابوں سے ، میری پکڑ دھکڑ سے ، میری گرفت سے ، میری سزاؤں سے ڈرو، دب کر میرے احکام کی تعمیل کرو، میرے ارشاد کے خلاف نہ کرو تاکہ نجات پاسکو یہ ہی عقلی امتیاز ہے۔

لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ ۚ

تم پر اپنے رب کا فضل تلاش کرنے میں کوئی گناہ نہیں

صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :

 جاہلیت کے زمانہ میں عکاظ، مجنہ اور ذوالمجاز نامی بازار تھے اسلام کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہ ایام حج میں تجارت کو گناہ سمجھ کر ڈرے تو انہیں اجازت دی گئی کہ ایام حج میں تجارت کرنا گناہ نہیں،

 ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ یہ مسئلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا گیا جس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ حج کے دنوں میں احرام سے پہلے یا احرام کے بعد حاجی کے لئے خرید وفروخت حلال ہے،

ابن عباسؓ کی قرأت میں مِنْ رَبِّكُمْ کے بعد فی مواسم الحج کا لفظ بھی ہے،

ابن زبیرؓ سے بھی یہی مروی ہے دوسرے مفسرین نے بھی اس کی تفسیر اسی طرح کی ہے،

 حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ ایک شخص حج کو نکلتا ہے اور ساتھ ہی تجارت بھی کرتا  جاتا ہے تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ آپ نے یہی آیت پڑھ کر سنائی (ابن جریر)

مسند احمد کی روایت میں ہے:

ابو امامہ تیمی نے حضرت ابن عمر ؓسے پوچھا کہ ہم حج میں جانور کرایہ پر دیتے ہیں کیا ہمارا حج ہو جاتا ہے ؟

آپ نے فرمایا کہ تم بیت اللہ شریف کا طواف نہیں کرتے؟

 کیا تم عرفات میں نہیں ٹھہرتے ؟

 کیا تم شیطانوں کو کنکریاں نہیں مارتے؟

 کیا تم سر نہیں منڈواتے؟

اس نے کہا یہ سب کام تو ہم کرتے ہیں

 تو آپ نے فرمایا سنو ایک شخص نے یہی سوال نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا تھا اور اس کے جواب میں حضرت جبرائیل علیہ السلام آیت لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ لے کر اترے اور حضور ﷺ نے اسے بلا کر فرمایا کہ تم حاجی ہو تمہارا حج ہو گیا ۔

مسند عبدالرزاق میں بھی یہ روایت ہے اور تفسیر عبد بن حمید میں بھی ،

بعض روایتوں میں الفاظ کی کچھ کمی بیشی بھی ہے،

 ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ کیا تم احرام نہیں باندھتے ؟

امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے سوال ہوتا ہے کہ کیا آپ حضرات حج کے دنوں میں تجارت بھی کرتے تھے؟ آپ نے فرمایا اور تجارت کا موسم ہی کونسا تھا؟

فَإِذَا أَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ ۖ

جب تم عرفات سے لوٹو تو مسجد حرام کے پاس ذکر الہٰی کرو

عَرَفَاتٍ کو منصرف (یعنی تصرف کر کے) پڑھا گیا ہے حالانکہ اس کے غیر منصرف ہونے کے دو سبب اس میں موجود ہیں یعنی اسم علم اور تانیث، اس لئے کہ دراصل یہ جمع ہے جیسے مسلمات اور مؤمنات ایک خاص جگہ کا نام مقرر کر دیا گیا ہے اس لئے اصلیت کی رعایت کی گئی اور منصرف پڑھا گیا

عرفہ وہ جگہ ہے جہاں کا ٹھہرنا حج کا بنیادی رکن ہے

مسند احمد میں حدیث ہے :

 حج عرفات ہے تین مرتبہ حضور ﷺ نے یہی فرمایا جو سورج نکلنے سے پہلے عرفات میں پہنچ گیا اس نے حج کو پا لیا ،

 منٰی کے تین دنوں میں جلدی یا دیر کی جا سکتی ہے ، اس پر کوئی گناہ نہیں، ٹھہرنے کا وقت عرفے کے دن سورج ڈھلنے کے بعد سے لے کر عید کی صبح صادق کے طلوع ہونے تک ہے، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجۃ الوداع میں ظہر کی نماز کے بعد سورج غروب ہونے تک یہاں ٹھہرے رہے اور فرمایا تھا مجھ سے حج کے طریقے سیکھ لو،

حضرت امام مالک رحمہ اللہ، امام ابو حنیفہ اور امام شافعی کا یہی مذہب ہے کہ دسویں کی فجر سے پہلے جو شخص عرفات میں پہنچ جائے ، اس نے حج پا لیا،

حضرت امام احمد، فرماتے ہیں کہ ٹھہرنے کا وقت عرفہ کے دن کے شروع سے ہے ان کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں مروی ہے  کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مزدلفہ میں نماز کے لئے نکلے تو ایک شخص حاضر خدمت ہوا اور اس نے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں طی کی پہاڑیوں سے آرہا ہوں اپنی سواری کو میں نے تھکا دیا اور اپنے نفس پر بڑی مشقت اٹھائی واللہ ہر ہر پہاڑ پر ٹھہرتا آیا ہوں کیا میرا حج ہو گیا؟

آپ ﷺنے فرمایا جو شخص ہمارے یہاں کی اس نماز میں پہنچ جائے اور ہمارے ساتھ چلتے وقت تک ٹھہرا رہے اور اس سے پہلے وہ عرفات میں بھی ٹھہر چکا ہو خواہ رات کو خواہ دن کو اس کا حج پورا ہو گیا اور وہ فریضہ سے فارغ ہو گیا۔(مسند احمد وسنن)

امام ترمذی اسے صحیح کہتے ہیں،

امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو بھیجا اور انہوں نے آپ کو حج کرایا جب عرفات میں پہنچے تو پوچھا کہ عرفت کیا تم نے پہچان لیا؟ حضرت خلیل اللہ نے جواب دیا عرفت میں نے جان لیا کیونکہ اس سے پہلے یہاں آچکے تھے اس لئے اس جگہ کا نام ہی عرفہ ہوگیا ،

حضرت عطاء ، حضرت ابن عباس ، حضرت ابن عمر اور حضرت ابو مجلز سے بھی یہی مروی ہے واللہ اعلم۔

عرفات کا نام الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ مشعر الاقصیٰ" اور الال بھی ہے ، اور اس پہاڑ کو بھی عرفات کہتے ہیں جس کے درمیان جبل الرحمۃ ہے ،ابو طالب کے ایک مشہور قصیدے میں بھی ایک شعر ان معنوں کا ہے،اہل جاہلیت بھی عرفات میں ٹھہرتے تھے جب پہاڑ کی دھوپ چوٹیوں پر ایسی باقی رہ جاتی جیسے آدمی کے سر پر عمامہ ہوتا ہے تو وہ وہاں سے چل پڑتے

 لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہاں سے اس وقت چلے جب سورج بالکل غروب ہو گیا، پھر مزدلفہ میں پہنچ کر یہاں پڑاؤ کیا اور سویرے اندھیرے ہی اندھیرے بالکل اول وقت میں رات کے اندھیرے اور صبح کی روشنی کے ملے جلے وقت میں آپ نے یہیں نماز صبح ادا کی اور جب روشنی واضح ہو گئی تو صبح کی نماز کے آخری وقت میں آپ نے وہاں سے کوچ کیا

حضرت مسور بن مخرمہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں عرفات میں خطبہ سنایا اور حسب عادت حمد و ثنا کے بعد اما بعد کہہ کر فرمایا :

 حج اکبر آج ہی کا دن ہے دیکھو مشرک اور بت پرست تو یہاں سے جب دھوپ پہاڑوں کی چوٹیوں پر اس طرح ہوتی تھی جس طرح لوگوں کے سروں پر عمامہ ہوتا ہے تو سورج غروب ہونے سے پیشتر ہی لوٹ جاتے تھے لیکن ہم سورج غروب ہونے کے بعد یہاں سے واپس ہوں گے

وہ مشعر الحرام سے سورج نکلنے کے بعد چلتے تھے جبکہ اتنی وہ پہاڑوں کی چوٹیون پر دھوپ اس طرح نمایاں ہو جاتی جس طرح لوگوں کے سروں پر عمامے ہوتے ہیں لیکن ہم سورج نکلنے سے پہلے ہی چل دیں گے ہمارا طریقہ مشرکین کے طریقے کے خلاف ہے (ابن مردویہ ومستدرک حاکم)

امام حاکم نے اسے شرط شیخین پر اور بالکل صحیح بتلایا ہے،

اس سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ حضرت مسور رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے ان لوگوں کا قول ٹھیک نہیں جو فرماتے ہیں کہ حضرت مسور نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہے لیکن آپ سے کچھ سنا نہیں،

حضرت معرور بن سوید کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عمر ؓ کو عرفات سے لوٹتے ہوئے دیکھا گویا اب تک بھی وہ منظر میرے سامنے ہے، آپ کے سر کے اگلے حصے پر بال نہ تھے اپنے اونٹ پر تھے اور فرما رہے تھے ہم واضح روشنی میں لوٹے

صحیح مسلم کی حضرت جابر والی ایک مطول حدیث جس میں حجۃ الوداع کا پورا بیان ہے اس میں یہ بھی ہے :

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سورج کے غروب ہونے تک عرفات میں ٹھہرے جب سورج چھپ گیا اور قدرے زردی ظاہر ہونے لگی تو آپ نے اپنے پیچھے اپنی سواری پر حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو سوار کیا اور اونٹنی کی نکیل تان لی یہاں تک کہ اس کا سر پالان کے قریب پہنچ گیا اور دائیں ہاتھ سے لوگوں کو اشارہ فرماتے جاتے تھے کہ لوگو آہستہ آہستہ چلو نرمی اطمینان وسکون اور دلجمعی کے ساتھ چلو جب کوئی پہاڑی آئی تو نکیل قدرے ڈھیلی کرتے تاکہ جانور با آسانی اوپر چڑھ جائے ،

مزدلفہ میں آکر آپ نے مغرب اور عشاء کی نماز ادا کی اذان ایک ہی کہلوائی اور دونوں نمازوں کی تکبیریں الگ الگ کہلوائیں

مغرب کے فرضوں اور عشا کے فرضوں کے درمیان سنت نوافل کچھ نہیں پڑھے

 پھر لیٹ گئے، صبح صادق کے طلوع ہونے کے بعد نماز فجر ادا کی جس میں اذان واقامت ہوئی

پھر قصویٰ نامی اونٹنی پر سوار ہو کر مشعر الحرام میں آئے قبلہ کی طرف متوجہ ہو کر دعا میں مشغول ہو گئے اور اللہ اکبر اور لا الہ الا اللہ اور اللہ کی توحید بیان کرنے لگے یہاں تک کہ خوب سویرا ہو گیا، سورج نکلنے سے پہلے ہی پہلے آپ یہاں سے روانہ ہو گئے،

حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے سوال ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب یہاں سے چلے تو کیسی چال چلتے تھے

 فرمایا اور درمیانہ دھیمی چال سواری چلا رہے تھے ہاں جب راستہ میں کشادگی دیکھتے تو ذرا تیز کر لیتے (بخاری ومسلم)

پھر فرمایا عرفات سے لوٹتے ہوئے الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ میں اللہ کا ذکر کرو یعنی یہاں دونون نمازیں جمع کر لیں،

عمرو بن میمون رحمۃ اللہ علیہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ کے بارے میں دریافت فرماتے ہیں تو آپ خاموش رہتے ہیں جب قافلہ مزدلفہ میں جا کر اترتا ہے تو فرماتے ہیں سائل کہاں  ہے یہ ہے االْمَشْعَرِ الْحَرَامِ،

آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ مزدلفہ تمام کا تمام الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ ہے، پہاڑ بھی اور اس کے آس پاس کی کل جگہ، آپ نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ قزح پر بھیڑ بھاڑ کر رہے ہیں تو فرمایا یہ لوگ کیوں بھیڑ بھاڑ کر رہے ہیں ؟ یہاں کی سب جگہ االْمَشْعَرِ الْحَرَامِہے ، اور بھی بہت سے مفسرین نے یہی فرمایا ہے کہ دونوں پہاڑوں کے درمیان کی کل جگہ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ ہے ،

حضرت عطاء سے سوال ہوتا ہے کہ مزدلفہ کہاں ہے

آپ فرماتے ہیں جب عرفات سے چلے اور میدان عرفات کے دونوں کنارے چھوڑے پھر مزدلفہ شروع ہو گیا وادی محسر تک جہاں چاہو ٹھہرو لیکن میں تو قزح سے ادھر ہی ٹھہرنا پسند کرتا ہوں تاکہ راستے سے یکسوئی ہو جائے،

 مشاعر کہتے ہیں ظاہری نشانوں کو مزدلفہ کو الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ حرم میں داخل ہے،

سلف صالحین کی ایک جماعت کا اور بعض اصحاب شافعی کا مثلاً قفال اور ابن خزیمہ کا خیال ہے کہ یہاں کا ٹھہرنا حج کا رکن ہے بغیر یہاں ٹھہرے حج صحیح نہیں ہوتا کیونکہ ایک حدیث حضرت عروہ بن مضرس سے اس معنی کی مروی ہے،

بعض کہتے ہیں یہ ٹھہرنا واجب ہے

حضرت امام شافعی رحمہ اللہ کا ایک قول یہ بھی ہے اگر کوئی یہاں نہ ٹھہرا تو قربانی دینی پڑے گی،

امام صاحب کا دوسرا قول یہ ہے کہ مستحب ہے اگر نہ بھی ٹھہرا تو کچھ حرج نہیں،

پس یہ تین قول ہوئے ہم یہاں اس بحث کو زیادہ طول دینا مناسب نہیں سمجھتے واللہ اعلم۔

قرآن کریم کے ظاہری الفاظ پہلے قول کی زیادہ تائید کرتے ہیں واللہ اعلم ۔ مترجم

ایک مرسل حدیث میں ہے عرفات کا سارا میدان ٹھہرنے کی جگہ ہے ، عرفات سے بھی اٹھو اور مزدلفہ کی کل حد بھی ٹھہرنے کی جگہ ہے ہاں وادی محسر نہیں،

مسند احمد کی اس حدیث میں اس کے بعد ہے مکہ شریف کی تمام گلیاں قربانی کی جگہ ہیں اور ایام تشریق سب کے سب قربانی کے دن ہیں،

لیکن یہ حدیث بھی منقطع ہے اس لئے کہ سلیمان بن موسیٰ رشدق نے جبیر بن مطعم کو نہیں پایا لیکن اس کی اور سندیں بھی ہیں واللہ اعلم۔

وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدَاكُمْ وَإِنْ كُنْتُمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّينَ (۱۹۸)

اور اس کا ذکر کرو جیسے کہ اس نے تمہیں ہدایت دی ہے، تم اس سے پہلے راہ بھولے ہوئے تھے۔‏

پھر ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو جیسے کہ اس نے تمہیں ہدایت دی ہے کہ احکام حج وضاحت کے ساتھ بیان فرما دئیے اور خلیل اللہ کی اس سنت کو واضح کر دیا۔ حالانکہ اس سے پہلے تم اس سے بےخبر تھے،

یعنی اس ہدایت سے پہلے ، اس قرآن سے پہلے، اس رسول سے پہلے، فی الواقع ان تینوں باتوں سے پہلے دنیا گمراہی میں تھی۔ فالحمدللہ

ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ

پھر تم اس جگہ سے لوٹو جس جگہ سے سب لوگ لوٹتے ہیں

ثُمَّ یہاں پر خبر کا خبر پر عطف ڈالنے کے لئے ہے تاکہ ترتیب ہو جائے،گویا کہ عرفات میں ٹھہرنے والے کو حکم ملا کہ وہ یہاں سے مزدلفہ جائے تاکہ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ کے پاس اللہ تعالیٰ کا ذکر کر سکے،

اور یہ بھی فرما دیا کہ وہ تمام لوگوں کے ساتھ عرفات میں ٹھہرے، جیسے کہ عام لوگ یہاں ٹھہرتے تھے البتہ قریشیوں نے فخروتکبر اور نشان امتیاز کے طور پر یہ ٹھہرا لیا تھا کہ وہ حد حرم سے باہر نہیں جاتے تھے، اور حرم کی آخری حد پر ٹھہر جاتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم اللہ والے ہیں اسی کے شہر کے رئیس ہیں اور اس کے گھر کے مجاور ہیں،

صحیح بخاری شریف میں ہے:

 قریش اور ان کے ہم خیال لوگ مزدلفہ میں ہی رک جایا کرتے تھے اور اپنا نام حمس رکھتے تھے باقی کل عرب عرفات میں جا کر ٹھہرتے تھے اور وہیں سے لوٹتے تھے اسی لئے اسلام نے حکم دیا کہ جہاں سے عام لوگ لوٹتے ہیں تم وہی سے لوٹا کرو،

حضرت ابن عباس ، حضرت مجاہد ، حضرت عطاء، حضرت قتادہ ، حضرت سدی رضی اللہ عنہم یہی فرماتے ہیں،

امام ابن جریر بھی اسی تفسیر کو پسند کرتے ہیں اور اسی پر اجماع بتاتے ہیں،

 مسند احمد میں ہے حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرا اونٹ عرفات میں گم ہو گیا میں اسے ڈھونڈنے کے لئے نکلا تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہاں ٹھہرے ہوئے دیکھا’ میں  کہنے لگا یہ کیا بات ہے کہ یہ حمس ہیں اور پھر یہاں حرم کے باہر آکر ٹھہرے ہیں،

ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں أَفَاضہ سے مراد یہاں مزدلفہ سے رمی جمار کے لئے منی کو جاتا ہے ، واللہ اعلم،

 اور النَّاسُ سے مراد حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام ہیں،

 بعض کہتے ہیں مراد امام ہے، ابن جریر فرماتے ہیں اگر اس کے خلاف اجماع کی حجت نہ ہوتی تو یہی قول رائج رہتا۔

وَاسْتَغْفِرُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (۱۹۹)

اور اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرتے رہو یقیناً اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔‏

پھر استغفار کا ارشاد ہوتا ہے جو عموماً عبادات کے بعد فرمایا جاتا ہے

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرض نماز سے فارغ ہو کر تین مرتبہ استغفار کیا کرتے تھے (مسلم)

آپ ﷺلوگوں کو سبحان اللہ، الحمد للہ، اللہ اکبر تینتیس تینتیس مرتبہ پڑھنے کا حکم دیا کرتے تھے (بخاری مسلم)

یہ بھی مروی ہے کہ عرفہ کے دن شام کے وقت آنحضرت ﷺ نے اپنی اُمت کے لئے استغفار کیا  (ابن جریر)

آپ کا یہ ارشاد بھی مروی ہے کہ تمام استغفاروں کا سردار یہ استغفار ہے :

اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي، لَا إِلهَ إِلَّا أَنْتَ، خَلَقْتَنِي وَأَنَا عَبْدُكَ، وَأَنَا عَلى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ،

 أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ، أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ، وَأَبُوءُ بِذَنْبِي، فَاغْفِرْ لِي فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إلَّا أَنْتَ

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص اسے رات کے وقت پڑھ لے اگر اسی رات مر جائے گا تو قطعا ًجنتی ہو گا اور جو شخص اسے دن کے وقت پڑھے گا اور اسی دن مرے گا تو وہ بھی جنتی ہے (بخاری)

بخاری ومسلم میں ہے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے کوئی دعا سکھائے کہ میں نماز میں اسے پڑھا کرو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ پڑھو :

اللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا وَلَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ فَاغْفِرْ لِي مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ، وَارْحَمْنِي إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيم

استغفار کے بارے میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں۔

فَإِذَا قَضَيْتُمْ مَنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا ۗ

پھر جب تم ارکان حج ادا کر چکو تو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو جس طرح تم اپنے آباؤ اجداد کا ذکر کیا کرتے تھے، بلکہ اس سے بھی زیادہ

یہاں اللہ تعالیٰ حکم کرتا ہے کہ فراغت حج کے بعد اللہ تعالیٰ کا بکثرت ذکر کرو،

 اگلے جملے کے ایک معنی تو یہ بیان کیے گئے ہیں کہ اس طرح اللہ کا ذکر کرو جس طرح بچہ اپنے ماں باپ کو یاد کرتا رہتا ہے،

دوسرے معنی یہ ہیں کہ اہل جاہلیت حج کے موقع پر ٹھہرتے وقت کوئی کہتا تھا میرا باپ بڑا مہمان نواز تھا کوئی کہتا تھاوہ لوگوں کے کام کاج کر دیا کرتا تھا سخاوت وشجاعت میں یکتا تھا وغیرہ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ فضول باتیں چھوڑ دو اور اللہ تعالیٰ کی بزرگیاں بڑائیاں عظمتیں اور عزتیں بیان کرو،

 اکثر مفسرین نے یہی بیان کیا ہے، غرض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کی کثرت کرو، اسی لئے أَوْ أَشَدَّ پر زبر تمہیز کی بنا پر لائی گئی ہے ، یعنی اس طرح اللہ کی یاد کرو جس طرح اپنے بڑوں پر فخر کیا کرتے تھے۔

 أَوْ سے یہاں خبر کی مثلیت کی تحقیق ہے جیسے فَهِىَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً (۲:۷۴) میں

 اوريَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْيَةِ اللَّهِ أَوْ أَشَدَّ خَشْيَةً (۴:۷۷) میں

 اور وَأَرْسَلْنَـهُ إِلَى مِاْئَةِ أَلْفٍ أَوْ يَزِيدُونَ (۳۷:۱۴۷) میں

اور فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى (۵۳:۹) میں ،

 ان تمام مقامات میں لفظ أَوْ ہرگز ہرگز شک کے لئے نہیں ہے بلکہ فجر عنہ کی تحقیق کے لئے ہے، یعنی وہ ذکر اتنا ہی ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔

فَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ (۲۰۰)

بعض لوگ وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں دے۔ ایسے لوگوں کا آخرت میں بھی کوئی حصہ نہیں۔‏

پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ کا ذکر بکثرت کر کے دعائیں مانگو کیونکہ یہ موقعہ قبولیت کا ہے، ساتھ ہی ان لوگوں کی برائی بھی بیان ہو رہی ہے جو اللہ سے سوال کرتے ہوئے صرف دنیا طلبی کرتے ہیں اور آخرت کی طرف نظریں نہیں اٹھاتے

 فرمایا ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں

حضرت ابن عباسؓ کا بیان ہے کہ بعض اعراب یہاں ٹھہر کر صرف یہی دعائیں مانگتے ہیں کہ اللہ اس سال بارشیں اچھی برسا تاکہ غلے اچھے پیدا ہوں اولادیں بکثرت ہوں وغیرہ۔

وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (۲۰۱)

اور بعض لوگ وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں نیکی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور عذاب جہنم سے نجات دے‏

لیکن مؤمنوں کی دعائیں دونوں جہان کی بھلائیوں کی ہوتی تھیں اس لئے ان کی تعریفیں کی گئیں،

رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ

اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں نیکی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور عذاب جہنم سے نجات دے‏

اس دعا میں تمام بھلائیاں دین ودنیا کی جمع کر دی ہیں اور تمام برائیوں سے بچاؤ ہے، اس لئے کہ دنیا کی بھلائی میں عافیت، راحت، آسانی، تندرستی، گھر بار، بیوی بچے، روزی، علم ، عمل ، اچھی سواریاں، نوکر چاکر، لونڈی، غلام ، عزت و آبرو وغیرہ تمام چیزیں آگئیں اور آخر ت کی بھلائی میں حساب کا آسان ہونا گھبراہٹ سے نجات پانا نامہ اعمال کا دائیں ہاتھ میں ملنا سرخ رو ہونا بالآخر عزت کے ساتھ جنت میں داخل ہونا سب آگیا،

پھر اس کے بعد عذاب جہنم سے نجات چاہنا اس سے یہ مطلب ہے کہ ایسے اسباب اللہ تعالیٰ مہیا کر دے مثلاً حرام کاریوں سے اجتناب گناہ اور بدیوں کا ترک وغیرہ،

قاسم فرماتے ہیں جسے شکر گزاروں اور ذکر کرنے والی زبان اور صبر کرنے والا جسم مل گیا اسے دنیا اور آخرت کی بھلائی مل گئی اور عذاب سے نجات پا گیا،

بخاری میں ہے کہ آنحضرت ﷺ اس دعا کو بکثرت پڑھا کرتے تھے اس حدیث میں ہے رَبَّنَا سے پہلے اللَّهُمَّ بھی ہے،

حضرت قتادہ نے حضرت انسؓ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زیادہ تر کس دعا کو پڑھتے تھے تو آپ نے جواب میں یہی دعا بتائی (احمد)

حضرت انس رضی اللہ عنہ جب خود بھی کبھی دعا مانگتے اس دعا کو نہ چھوڑتے، چنانچہ حضرت ثابت نے ایک مرتبہ کہا کہ حضرت آپ کے یہ بھائی چاہتے ہیں کہ آپ ان کے لئے دعا کریں آپ نے یہی دعا اللَّهُمَّ آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً پڑھی پھر کچھ دیر بیٹھے اور بات چیت کرنے کے بعد جب وہ جانے لگے تو پھر دعا کی درخواست کی آپ نے فرمایا کیا تم ٹکڑے کرانا چاہتے ہو اس دعا میں تو تمام بھلائیاں آگئیں(ابن ابی حاتم)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مسلمان بیمار کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے دیکھا کہ وہ بالکل دبلا پتلا ہو رہا ہے صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیا ہے آپ ﷺنے پوچھا کیا تم کوئی دعا بھی اللہ تعالیٰ سے مانگا کرتے تھے؟

 اس نے کہا ہاں میری یہ دعا تھی کہ اللہ تعالیٰ جو عذاب تو مجھے آخرت میں کرنا چاہتا ہے وہ دنیا میں ہی کر ڈال

 آپ نے فرمایا سبحان اللہ کسی میں ان کے برداشت کی طاقت بھی ہے ؟

 تو نے یہ دعا رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ کیوں نہ پڑھی؟

چنانچہ بیمار نے اب سے اسی دعا کو پڑھنا شروع کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس شفا دے دی (احمد)

رکن بنی جمح  اور رکن اسود کے درمیان حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دعا کو پڑھا کرتے تھے (ابن ماجہ وغیرہ)

لیکن اس کی سند میں ضعف ہے واللہ اعلم،

آپ فرماتے ہیں کہ میں جب کبھی رکن کے پاس سے گزرتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ وہاں فرشتہ ہے اور وہ آمین کہہ رہا ہے تم جب کبھی یہاں سے گزرو تو دعا رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً پڑھا کرو (ابن مردویہ)

أُولَئِكَ لَهُمْ نَصِيبٌ مِمَّا كَسَبُوا ۚ وَاللَّهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ (۲۰۲)

یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے ان کے اعمال کا حصہ ہے اور اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے والا ہے۔‏

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے آکر پوچھا کہ میں نے ایک قافلہ کی ملازمت کر لی ہے اس اجرت پر وہ مجھے اپنے ساتھ سواری پر سوار کرلیں اور حج کے موقعہ پر مجھے وہ رخصت دے دیں کہ میں حج ادا کر لوں ویسے اور دنوں میں میں ان کی خدمت میں لگا رہوں تو فرمائیے کیا اس طرح میرا حج ادا ہو جائے گا آپ نے فرمایا ہاں بلکہ تو تو ان لوگوں میں سے ہے جن کے بارے میں فرمان ہے أُولَئِكَ لَهُمْ نَصِيبٌ مِمَّا كَسَبُوا (مستدرک حاکم)

وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُودَاتٍ ۚ

اور اللہ تعالیٰ کی یاد ان گنتی کے چند ایام (ایام تشریق) میں کرو

أَيَّامٍ مَعْدُودَاتٍ سے مراد ایام تشریق اور أَشْهُرٌ مَّعْلُومَـتٌ سے مراد ذی الحجہ کے دس دن ہیں،

وَاذْكُرُوا اللَّهَ سے مراد یہ ہے کہ ایام تشریق میں فرض نمازوں کے بعد اللَّهُ اَکبَرْ، اللَّهُ اَکبَرْ کہیں

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں عرفے کا دن قربانی کا دن اور ایام تشریق ہمارے یعنی اہل اسلام کی عید کے دن ہیں اور یہ دن کھانے پینے کے ہیں(احمد)

اور حدیث میں ہے ایام تشریق کھانے پینے اور اللہ کا ذکر کرنے کے ہیں (احمد)

فَمَنْ تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَنْ تَأَخَّرَ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ

دو دن کی جلدی کرنے والوں پر بھی کوئی گناہ نہیں اور جو پیچھے رہ جائے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں

پہلے یہ حدیث بھی بیان ہو چکی ہے کہ عرفات کل ٹھہرنے کی جگہ ہے اور ایام تشریق سب قربانی کے دن ہیں،

اور یہ حدیث بھی پہلے گزر چکی ہے کہ منٰی کے دن تین ہیں دو دن میں جلدی یا دو دیر کرنے والے پر کوئی گناہ نہیں،

 ابن جریر کی ایک حدیث میں ہے :

 ایام تشریق کھانے اور ذکر اللہ کرنے کے دن ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عبداللہ بن حذافہ ؓ  کو بھیجا کہ وہ منٰی میں گھوم کر منادی کر دیں کہ ان دنوں میں کوئی روزہ نہ رکھیں یہ دن کھانے پینے اور اللہ کا ذکر کرنے کے ہیں،

 ایک اور مرسل روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ مگر جس پر قربانی کے بدلے روزے ہوں اس کے لئے یہ زائد نیکی ہے،

 ایک اور روایت میں ہے کہ منادی بشر بن سحیم رضی اللہ عنہ تھے

اور حدیث میں ہے کہ آپ نے ان دنوں کے روزوں کی ممانعت فرمائی ہے

ایک روایت میں ہے :

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سفید خچر پر سوار ہو کر شعب انصار میں کھڑے ہو کر یہ حکم سنایا تھا، کہ لوگو یہ دن روزوں کے نہیں بلکہ کھانے پینے اور ذکر اللہ کرنے کے ہیں،

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں:

 ایام معدودات ایام تشریق ہیں اور یہ چار دن ہیں دسویں ذی الحجہ کی اور تین دن اس کے بعد کے یعنی دس سے تیرہ تک،

ابن عمر، ابن زبیر، ابو موسیٰ ، عطاء مجاہد، عکرمہ، سعید بن جبیر، ابو مالک ، ابراہیم نخعی، یحییٰ بن ابی کثیر، حسن، قتادہ، سدی، زہری، ربیع بن انس، ضحاک، مقاتل بن حیان، عطاء خراسانی، امام مالک بھی یہی فرماتے ہیں،

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہ تین دن ہیں دسویں گیارہویں اور بارہویں ان میں جب چاہو قربانی کرو لیکن افضل پہلا دن ہے

مگر مشہور قول یہی ہے اور آیت کریمہ کے الفاظ کی ظاہری دلالت بھی اسی پر ہے کیونکہ دو دن میں جلدی یا دیر معاف ہے تو ثابت ہوا کہ عید کے بعد تین دن ہونے چاہئیں اور ان دنوں میں اللہ کا ذکر کرنا قربانیوں کے ذبح کے وقت ہے، اور یہ بھی پہلے بیان ہو چکا ہے کہ راجح مذہب اس میں حضرت امام شافعی کا ہے کہ قربانی کا وقت عید کے دن سے ایام تشریق کے ختم ہونے تک ہے،

 اور اس سے مراد نمازوں کے بعد کا مقررہ ذکر بھی ہے اور ویسے عام طور پر یہی اللہ کا ذکر مراد ہے،

 اور اس کے مقررہ وقت میں گو علماء کرام کا اختلاف ہے لیکن زیادہ مشہور قول جس پر عمل درآمد بھی ہے یہ ہے کہ عرفے کی صبح سے ایام تشریق کے آخر دن کی عصر کی نماز تک ، اس بارے میں ایک مرفوع حدیث بھی دار قطنی میں ہے لیکن اس کا مرفوع ہونا صحیح نہیں واللہ اعلم،

حضرت عمر ؓاپنے خیمہ میں تکبیر کہتے اور آپکی تکبیر پر بازار والے لوگ تکبیر کہتے ہیں یہاں تک کہ منٰی کا میدان گونج اٹھتا

اسی طرح یہ مطلب بھی ہے کہ شیطانوں کو کنکریاں مارنے کے وقت تکبیر اور اللہ کا ذکر کیا جائے جو ایام تشریق کے ہر دن ہوگا،

ابوداؤد میں حدیث ہے :

 بیت اللہ کا طواف صفا مروہ کی سعی شیطانوں کو کنکریاں مارنی یہ سب اللہ تعالیٰ کے ذکر کو قائم کرنے کے لئے ہے۔

لِمَنِ اتَّقَى ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ (۲۰۳)

یہ پرہیزگار کے لئے ہے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو تم سب اس کی طرف جمع کئے جاؤ گے۔‏

چونکہ اللہ تعالیٰ نے حج کی پہلی اور دوسری واپسی کا ذکر کیا اور اس کے بعد لوگ ان پاک مقامات کو چھوڑ کر اپنے اپنے شہروں اور مقامات کو لوٹ جائیں گےاس لئے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو اور یقین رکھو کہ تمہیں اس کے سامنے جمع ہونا ہے اسی نے تمہیں زمین میں پھیلایا پھر وہی سمیٹ لے گا پھر اسی کی طرف حشر ہو گا پس جہاں کہیں ہو اس سے ڈرتے رہا کرو۔

وَهُوَ الَّذِى ذَرَأَكُمْ فِى الاٌّرْضِ وَإِلَيْهِ تُحْشَرُونَ (۲۳:۷۹)

اور وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کرکے زمین میں پھیلا دیا اور اسی کی طرف جمع کئے جاؤ گے

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا

بعض لوگوں کی دنیاوی غرض کی باتیں آپ کو خوش کر دیتی ہیں

سدی رحمتہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ آیت اخنس بن شریق ثقفی کے بارے میں نازل ہوئی ہے یہ منافق شخص تھا ظاہر میں مسلمان تھا اور لیکن باطن میں مخالف تھا ،

 ابن عباس کہتے ہیں کہ منافقوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جنہوں نے حضرت خبیب اور ان کے ساتھیوں کی برائیاں کی تھیں جو رجیع میں شہید کئے گئے تھے تو ان شہداء کی تعریف میں النَّاسِ مَن يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاء مَرْضَاتِ اللّهِ (۲:۲۰۷) والی آیت اتری اور ان منافقین کی مذمت کے بارے میں یہ آیت وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُعْجِبُكَ نازل ہوئی،

بعض کہتے ہیں کہ یہ آیت عام ہے تمام منافقوں کے بارے میں پہلی اور دوسری آیت ہے اور تمام مؤمنوں کی تعریف کے بارے میں تیسری آیت ہے،

قتادہ وغیرہ کا قول یہی ہے اور یہی صحیح ہے،

حضرت نوف بکالی جو توراہ وانجیل کے بھی عالم تھے فرماتے ہیں کہ میں اس اُمت کے بعض لوگوں کی برائیاں اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب میں پاتا ہوں لکھا ہے کہ بعض لوگ دین کے حیلے سے دنیا کماتے ہیں ان کی زبانیں تو شہد سے زیادہ میٹھی ہیں لیکن دل ایلوے (مصبر) سے زیادہ کڑوے ہیں لوگوں کے لئے بکریوں کی کھالیں پہنتے ہیں لیکن ان کے دل بھیڑیوں جیسے ہیں

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کیا وہ مجھ پر جرأت کرتے ہیں اور میرے ساتھ دھوکے بازیاں کرتے ہیں مجھے اپنی ذات کی قسم کہ میں ان پر وہ فتنہ بھیجوں گا کہ بردبار لوگ بھی حیران رہ جائیں گے،

قرظی کہتے ہیں میں نے غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ منافقوں کا وصف ہے اور قرآن میں بھی موجود ہے پڑھئے آیت وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا

حضرت سعید نے بھی جب یہ بات اور کتابوں کے حوالے سے بیان کی تو حضرت محمد بن کعب رضی اللہ عنہ نے یہی فرمایا تھا کہ یہ قرآن شریف میں بھی ہے اور اسی آیت کی تلاوت کی تھی

 سعید کہنے لگے میں جانتا ہوں کہ یہ آیت کس کے بارے میں نازل ہوئی ہے

آپ نے فرمایا سنئے آیت شان نزول کے اعتبار سے گو کسی کے بارے میں ہی ہو لیکن حکم کے اعتبار سے عام ہوئی ہے۔

وَيُشْهِدُ اللَّهَ عَلَى مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ (۲۰۴)

 اور وہ اپنے دل کی باتوں پر اللہ کو گواہ کرتا ہے حالانکہ دراصل وہ زبردست جھگڑالو ہے‏

يُشْهِدُ اللَّهَ ابن محیصن کی قرأت میں يُشْهَدُ اللَّهَ ہے معنی یہ ہوں گے کہ گو وہ اپنی زبان سے کچھ ہی کہے لیکن اس کے دل کا حال اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم ہےجیسے اور جگہ ہے:

إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ ۔۔۔ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ (۶۳:۱)

تیرے پاس جب منافق آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم اس بات کے گواہ ہیں کہ بیشک آپ اللہ کے رسول ہیں  اور اللہ جانتا ہے کہ یقیناً آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق قطعاً جھوٹے ہیں

لیکن جمہور کی قرأت يُشْهِدُ اللَّهَ ہے تو معنی یہ ہوئے کہ لوگوں کے سامنے تو اپنی خیانت چھپاتے ہیں لیکن اللہ کے سامنے ان کے دل کا کفر ونفاق ظاہر ہے جیسے اور جگہ ہے:

يَسْتَخْفُونَ مِنَ النَّاسِ وَلاَ يَسْتَخْفُونَ مِنَ اللَّهِ (۴:۱۰۸)

وہ لوگوں سے چھپ جاتے ہیں (لیکن) اللہ تعالیٰ سے نہیں چھپ سکتے

ابن عباس رضی اللہ عنہ نے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ لوگوں کے سامنے اسلام ظاہر کرتے ہیں اور ان کے سامنے قسمیں کھا کر باور کراتے ہی کہ جو ان کی زبان پر ہے وہ ہی ان کے دل میں ہے، صحیح معنی آیت کے یہی ہیں عبدالرحمٰن بن زید اور مجاہد رحمہ اللہ سے بھی یہی مروی ہے ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں ۔

أَلَدُّ کے معنی لغت میں ہیں سخت ٹیڑھا جیسے اور جگہ ہے:

وَتُنْذِرَ بِهِ قَوْماً لُّدّاً (۱۹:۹۷)

اور جھگڑالو کو ڈرا دے

یہی حالت منافق کی ہے کہ وہ اپنی حجت میں جھوٹ بولتا ہے اور حق سے ہٹ جاتا ہے، سیدھی بات چھوڑ دیتا ہے اور افترا اور بہتان بازی کرتا ہے اور گالیاں بکتا ہے،

صحیح حدیث میں ہے:

 منافق کی تین نشانیاں ہیں

-  جب بات کرے جھوٹ بولے

- جب وعدہ کرے بیوفائی کرے،

- جب جھگڑا کرے گالیاں بکے،

 ایک اور حدیث میں ہے سب سے زیادہ برا شخص اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ ہے جو سخت جھگڑالو ہو اس کی کئی ایک سندیں ہیں۔

وَإِذَا تَوَلَّى سَعَى فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ (۲۰۵)

جب وہ لوٹ کر جاتا ہے تو زمین پر فساد پھیلانے کی اور کھیتی اور نسل کی بربادی کی کوشش میں لگا رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ فساد کو ناپسند کرتا ہے۔‏

ثُمَّ أَدْبَرَ يَسْعَى (۷۹:۲۲)

پھر پلٹا دوڑ دھوپ کرتے ہوئے

اور فرمان ہے:

يأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ إِذَا نُودِىَ لِلصَّلَوةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْاْ إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ (۶۲:۹)

اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو! جمعہ کے دن نماز کی اذان دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو

یعنی جمعہ کی نماز کا قصد و ارادہ کرو، یہاں سَعَى کے معنی دوڑنے کے نہیں کیونکہ نماز کے لئے دوڑ کر جانا ممنوع ہے،

حدیث شریف میں ہے:

 جب تم نماز کے لئے آؤ تو دوڑتے ہوئے نہ آؤ بلکہ سکون  ووقار کے ساتھ آؤ۔

غرض یہ کہ ان منافقوں کا قصد زمین میں فساد پھیلانا کھیتی باڑی، زمین کی پیداوار اور حیوانوں کی نسل کو برباد کرنا ہی ہوتا ہے۔

یہ بھی معنی مجاہد سے مروی ہیں کہ ان لوگوں کے نفاق اور ان کی بدکرداریوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بارش کو روک لیتا ہے جس سے کھیتیوں کو اور جانوروں کو نقصان پہنچتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو جو بانی فساد ہوں ناپسند کرتا ہے۔

وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللَّهَ أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ ۚ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ ۚ وَلَبِئْسَ الْمِهَاد ُ(۲۰۶)

اور جب اسے کہا جائے کہ اللہ سے ڈرو تو تکبر اور تعصب اسے گناہ پر آمادہ کر دیتا ہے  ایسے کیلئے بس جہنم ہی ہے اور یقیناً وہ بدترین جگہ ہے۔‏

ان بدکرداروں کو جب وعظ نصیحت کے ذریعہ سمجھایا جائے تو یہ اور بھڑک اٹھتے ہیں اور مخالفت کے جوش میں گناہوں پر آمادہ ہو جاتے ہیں

 وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ ءَايَـتُنَا بَيِّنَـتٍ تَعْرِفُ ۔۔۔ كَفَرُواْ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ (۲۲:۷۲)

جب انکے سامنے ہمارے کلام کی کھلی ہوئی آیتوں کی تلاوت کی جاتی ہے تو آپ کافروں کے چہروں پر ناخوشی کے صاف آثار پہچان لیتے ہیں۔ وہ قریب ہوتے ہیں کہ ہماری آیتیں سنانے والوں پر حملہ کر بیٹھیں،

کہہ دیجئے کہ کیا میں تمہیں اس سے بھی زیادہ بدتر خبر دوں۔ وہ آگ ہے، جس کا وعدہ اللہ نے کافروں سے کر رکھا ہے، اور وہ بہت ہی بری جگہ ہے

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ (۲۰۷)

اور بعض لوگ وہ بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی طلب میں اپنی جان تک بیچ ڈالتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑی مہربانی کرنے والا ہے۔‏

منافقوں کی مذموم خصلتیں بیان فرما کر اب مؤمنوں کی تعریفیں ہو رہی ہیں،

یہ آیت حضرت صہیب بن سنان رومی رضی اللہ عنہ کے حق میں نازل ہوئی ہے یہ مکہ میں مسلمان ہوئے تھے جب مدینہ کی طرف ہجرت کرنی چاہی تو کافروں نے ان سے کہا کہ ہم تمہیں مال لے کر نہیں جانے دیں گے اگر تم مال چھوڑ کر کر جانا چاہتے ہو تو تمہیں اختیار ہے، آپ نے سب مال سے علیحدگی کر لی اور کفار نے اس پر قبضہ کر لیا اور آپ نے ہجرت کی جس پر یہ آیت اتری

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرام کی ایک بڑی جماعت آپ کے استقبال کے لئے حرہ تک آئی اور مبارکبادیاں دیں کہ آپ نے بڑا اچھا بیوپار کیا بڑے نفع کی تجارت کی

آپ یہ سن کر فرمانے لگے اللہ تعالیٰ آپ کی تجارتوں کو بھی نقصان والی نہ کرے آخر بتاؤ تو یہ مبارکبادیاں کیا ہیں۔

 ان بزرگوں نے فرمایا آپ کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی ہے،

 جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ خوشخبری سنائی۔

قریش نے ان سے کہا تھا کہ جب آپ مکہ میں آئے آپ کے پاس مال نہ تھا یہ سب مال یہیں کمایا اب اس مال کو لے کر ہم جانے نہ دیں گے چنانچہ آپ نے مال کو چھوڑا اور دین لے کر خدمت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہو گئے ،

 ایک روایت میں یہ بھی ہے:

 جب آپ ہجرت کے ارادے سے نکلے اور کفار مکہ کو علم ہوا تو سب نے آن کر گھیر لیا آپ نے اپنے ترکش سے تیر نکال لئے اور فرمایا اے مکہ والو تم خوب جانتے ہو کہ میں کیسا تیر انداز ہوں میرا ایک نشانہ بھی خطا نہیں جاتا جب تک یہ تیر ختم نہ ہوں گے میں تم کو چھیدتا رہوں گا اس کے بعد تلوار سے تم سے لڑوں گا اور اس میں بھی تم میں سے کسی سے کم نہیں ہوں جب تلوار کے بھی ٹکڑے ہو جائیں گے پھر تم میرے پاس آسکتے ہو پھر جو چاہو کر لو اگر یہ تمہیں منظور ہے تو بسم اللہ ورنہ سنو میں تمہیں اپنا کل مال دئیے دیتا ہوں سب لے لو اور مجھے جانے دو وہ مال لینے پر رضامند ہو گئے اور اس طرح آپ نے ہجرت کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچنے سے پہلے ہی وہاں بذریعہ وحی یہ آیت نازل ہو چکی تھی آپ کو دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مبارک باد دی۔

اکثر مفسرین کا یہ قول بھی ہے کہ یہ آیت عام ہے ہر مجاہد فی سبیل اللہ کی شان ہے جیسے اور جگہ ہے:

إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ ۔۔۔ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (۹:۱۱۱)

بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کی جانوں کو اور ان کے مالوں کو اس بات کے عوض خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی ۔

وہ لوگ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں۔ جس میں قتل کرتے ہیں اور قتل کئے جاتے ہیں، اس پر سچا وعدہ کیا گیا ہے تورات اور انجیل اور قرآن میں ا

ور اللہ سے زیادہ اپنے عہد کو کون پورا کرنے والا ہے تو تم لوگ اس بیع پر جس کا تم نے معاملہ ٹھہرایا ہے خوشی مناؤ اور یہ بڑی کامیابی ہے۔‏

 حضرت ہشام بن عامر ؓنے جبکہ کفار کی دونوں صفوں میں گھس کر ان پر یکہ وتنہا بےپناہ حملہ کر دیا تو بعض لوگوں نے اسے خلاف شرع سمجھا۔ لیکن حضرت عمر ؓاور حضرت ابوہریرہؓ نے ان کی تردید کی اور اسی آیت مَنْ يَشْرِي کی تلاوت کر کے سنا دی۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً

ایمان والو اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ

اللہ تعالیٰ اپنے اوپر ایمان لانے والوں اور اپنے نبی کی تصدیق کرنے والوں سے ارشاد فرماتا ہے کہ وہ کل احکام کو بجا لائیں کل ممنوعات سے بچ جائیں کامل شریعت پر عمل کریں

 السِّلْمِ سے مراد سلام ہے اطاعت اور صلح جوئی بھی مراد ہے

 كَافَّةً کے معنی سب کے سب پورے پورے پورے،

 عکرمہ کا قول ہے:

 حضرت عبداللہ بن سلام اسد بن عبید ثقلیہ وغیرہ جو یہود سے مسلمان ہوئے تھے انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گزارش کی ہمیں ہفتہ کے دن کی عزت اور راتوں کے وقت تورات پر عمل کرنے کی اجازت دی جائے جس پر یہ آیت اتری کہ اسلامی احکام پر عمل کرتے رہو،

لیکن اس میں حضرت عبداللہ کا نام کچھ ٹھیک نہیں معلوم وہ اعلیٰ عالم تھے اور پورے مسلمان تھے انہیں مکمل طور پر معلوم تھا کہ ہفتہ کے دن کی عزت منسوخ ہو چکی ہے اس کے بجائے اسلامی عید جمعہ کے دن کی مقرر ہو چکی ہے پھر ناممکن ہے کہ وہ ایسی خواہش میں اوروں کا ساتھ دیں،

بعض مفسرین نے كَافَّةً کو حال کہا ہے یعنی تم سب کے سب اسلام میں داخل ہو جاؤ،لیکن پہلی بات زیادہ صحیح ہے یعنی اپنی طاقت بھر اسلام کے کل احکام کو مانو،

حضرت ابن عباسؓ کا بیان ہے:

 بعض اہل کتاب باوجود ایمان لانے کے تورات کے بعض احکام پر جمے ہوئے تھے ان سے کہا جاتا ہے کہ محمدی دین میں پوری طرح آجاؤ اس کا کوئی عمل نہ چھوڑو تورات پر صرف ایمان رکھنا کافی ہے۔

وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ (۲۰۸)

اور شیطان کے قدموں کی تابعداری نہ کرو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔‏

پھر فرمان ہے کہ اللہ کی اطاعت کرتے رہو شیطان کی نہ مانو وہ تو برائیوں اور بدکاریوں کو اور اللہ پر بہتان باندھنے کو اکساتا ہے اس کی اور اس کے گروہ کی تو خواہش یہ ہے کہ تم جہنمی بن جاؤ

إِنَّمَا يَأْمُرُكُم بِالسُّوءِ وَالْفَحْشَآءِ وَأَن تَقُولُواْ عَلَى اللَّهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ (۲:۱۶۹)

وہ تمہیں صرف برائی اور بےحیائی کا اور اللہ تعالیٰ پر ان باتوں کے کہنے کا حکم دیتا ہے جن کا تمہیں علم نہیں

إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُواْ مِنْ أَصْحَـبِ السَّعِيرِ (۳۵:۶)

وہ تو اپنے گروہ کو صرف اس لئے ہی بلاتا ہے کہ وہ سب جہنم واصل ہو جائیں

 وہ تمہارا کھلم کھلا دشمن ہے۔

فَإِنْ زَلَلْتُمْ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْكُمُ الْبَيِّنَاتُ فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (۲۰۹)

اگر تم باوجود تمہارے پاس دلیل آجانے کے بھی پھسل جاؤ تو جان لو کہ اللہ تعالیٰ غلبہ والا اور حکمت والا ہے‏

 اگر تم دلائل معلوم کرنے کے بعد بھی حق سے ہت جاؤ تو جان رکھو کہ اللہ بھی بدلہ لینے میں غالب ہے نہ اس سے کوئی بھاگ کر بچ سکے نہ اس پر کوئی غالب ہے اپنی پکڑ میں وہ حکیم ہے اپنے امر میں وہ کفار پر غلبہ رکھتا ہے اور عذروحجت کو کاٹ دینے میں حکمت رکھتا ہے۔

هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمَامِ وَالْمَلَائِكَةُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ ۚ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ (۲۱۰)

کیا لوگوں کو اس بات کا انتظار ہے کہ انکے پاس خود اللہ تعالیٰ بادل کے سائبانوں میں آجائے اور فرشتے بھی اور کام انتہا تک پہنچا دیا جائے، اللہ ہی کی طرف سے تمام کام لوٹائے جاتے ہیں۔‏

اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ کفار کو دھمکا رہا ہے کہ کیا انہیں قیامت ہی کا انتظار ہے جس دن حق کے ساتھ فیصلے ہو جائیں گے اور ہر شخص اپنے کئے کو بھگت لے گا، جیسے اور جگہ ارشاد ہے :

كَلاَّ إِذَا دُكَّتِ الاٌّرْضُ دَكّاً دَكّاً ـ ۔۔۔ وَأَنَّى لَهُ الذِّكْرَى (۸۹:۲۱،۲۳)

یقیناً جب زمین کوٹ کوٹ کر برابر کر دی جائے گی۔‏ اور تیرا رب (خود) آ جائے گا اور فرشتے صفیں باندھ کر (آ جائیں گے) اور جس دن جہنم بھی لائی جائے گی اس دن انسان کو سمجھ آئے گی مگر آج اسکے سمجھنے کا فائدہ کہاں

اور جگہ فرمایا :

هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلَائِكَةُ ۔۔۔ أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا (۶:۱۵۸)

کیا یہ لوگ اس امر کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا ان کے پاس رب آئے یا آپ کے رب کی کوئی (بڑی) نشانی آئے جس روز آپ کے رب کی کوئی بڑی نشانی آپہنچے گی

کسی ایسے شخص کا ایمان اس کے کام نہیں آئے گا جو پہلے سے ایمان نہیں رکھتا یا اس نے اپنے ایمان میں کوئی نیک عمل نہ کیا ہو

امام ابن جریر رحمہ اللہ نے یہاں پر ایک لمبی حدیث لکھی ہے جس میں صور وغیرہ کا مفصل بیان ہے جس کے راوی حضرت ابوہریرہؓ ہیں  مسند میں یہ حدیث ہے اس میں ہے:

جب لوگ گھبرا جائیں گے تو انبیاء علیہم السلام سے شفاعت طلب کریں گے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر ایک ایک پیغمبر کے پاس جائیں گے اور وہاں سے صاف جواب پائیں گے یہاں تک کہ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچیں گے آپ جواب دیں گے میں تیار ہوں میں ہی اس کا اہل ہوں،

پھر آپ جائیں گے اور عرش تلے سجدے میں گر پڑیں گے اور اللہ تعالیٰ سے سفارش کریں گے کہ وہ بندوں کا فیصلہ کرنے کے لئے تشریف لائے

اللہ تعالیٰ آپ کی شفاعت قبول فرمائے گا اور بادلوں کے سائبان میں آئے گا دنیا کا آسمان ٹوٹ جائے گا اور اس کے تمام فرشتے آجائیں گے پھر دوسرا بھی پھٹ جائے گا اور اس کے فرشتے بھی آجائیں گے اسی طرح ساتوں آسمان شق ہو جائیں گے اور ان کے فرشتے بھی آجائیں گے،پھر اللہ کا عرش اترے گا اور بزرگ تر فرشتے نازل ہوں گے اور خود وہ جبار اللہ جل شانہ تشریف لائے گا فرشتے سب کے سب تسبیح خوانی میں مشغول ہوں گے ان کی تسبیح اس وقت یہ ہو گی:

سبحان ذی الملک والملکوت، سبحان ذی العزۃ والجبروت سبحان الحی الذی لا یموت، سبحان الذی یمیت الخلائق ولا یموت،

سبوح قدوس رب الملائکۃ والروح، سبوح قدوس، سبحان ربنا الاعلیٰ سبحان ذی السلطان والعطمۃ ، سبحانہ سبحانہ ابدا ابدا

حافظ ابوبکر بن مردویہ بھی اس آیت کی تفسیر میں بہت سی احادیث لائے ہیں جن میں غرابت ہے واللہ اعلم،

ان میں سے ایک یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

 اللہ تعالیٰ اگلوں پچھلوں کو اس دن جمع کرے گا جس کا وقت مقرر ہے وہ سب کے سب کھڑے ہوں گے آنکھیں پتھرائی ہوئی اور اوپر کو لگی ہوئی ہوں گی ہر ایک کو فیصلہ کا انتظار ہوگا اللہ تعالیٰ ابر کے سائبان میں عرش سے کرسی پر نزول فرمائے گا،

ابن ابی حاتم میں ہے عبداللہ بن عمرو ؓفرماتے ہیں:

 جس وقت وہ اترے گا تو مخلوق اور اس کے درمیان ستر ہزار پردے ہوں گے نور کی چکا چوند کے اور پانی کے اور پانی سے وہ آوازیں آرہی ہوں گی جس سے دل ہل جائیں،

 زبیر بن محمد فرماتے ہیں کہ وہ بادل کا سائبان یاقوت کا جڑا ہوا اور جوہر وزبرجد والا ہوگا،

 حضرت مجاہد فرماتے ہیں یہ بادل معمولی بادل نہیں بلکہ یہ وہ بادل ہے جو بنی اسرائیل کے سروں پر وادی تیہ میں تھا،

ابو العالیہ فرماتے ہیں فرشتے بھی بادل کے سائے میں آئیں گے اور اللہ تعالیٰ جس میں چاہے آئے گا، چنانچہ بعض قرأتوں میں یوں بھی ہے هَلْ يَنظُرُونَ إِلاَّ أَن يَأْتِيَهُمُ اللّهُوَ الْمَلآئِكَةُ فِي ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ جیسے اور جگہ ہے :

وَيَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَآءُ بِالْغَمَـمِ وَنُزِّلَ الْمَلَـئِكَةُ تَنزِيلاً (۲۵:۲۵)

اور جس دن آسمان بادل سمیت پھٹ جائیگا اور فرشتے لگا تار اتارے جائیں گے

سَلْ بَنِي إِسْرَائِيلَ كَمْ آتَيْنَاهُمْ مِنْ آيَةٍ بَيِّنَةٍ ۗ

بنی اسرائیل سے پوچھو تو کہ ہم نے انہیں کس قدر روشن نشانیاں عطا فرمائیں

اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ دیکھو بنی اسرائیل کو میں نے بہت سے معجزات دکھلا دئیے حضرت موسیٰ ؑ کے ہاتھوں کی  لکڑی ان کے ہاتھ کی روشنی ان کے لئے دریا کو چیر دینا ان پر سخت گرمیوں میں ابر کا سایہ کرنا من وسلویٰ اتارنا وغیرہ وغیرہ

وَمَنْ يُبَدِّلْ نِعْمَةَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُ فَإِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (۲۱۱)

اور جو شخص اللہ کی نعمتوں کو اپنے پاس پہنچ جانے کے بعد بدل ڈالے (وہ جان لے) کہ اللہ تعالیٰ بھی سخت عذابوں والا ہے۔‏

جن سے میراخود مختار فاعل کل ہونا صاف ظاہر تھا اور میرے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت کی کھلی تصدیق تھی لیکن تاہم ان لوگوں نے میری ان نعمتوں کا کفر کیا اور بجائے ایمان کے کفر پر اڑے  رہے اور میری نعمتوں پر بجائے شکر کے ناشکری کی پھر بھلا میرے سخت عذاب سے یہ کیسے بچ سکتے؟

یہی خبر کفار وقریش کے بارے میں بھی بیان فرمائی ارشاد :

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُوا نِعْمَتَ اللَّهِ كُفْرًا وَأَحَلُّوا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ ـ جَهَنَّمَ يَصْلَوْنَهَا ۖ وَبِئْسَ الْقَرَارُ (۱۴:۲۸،۲۹)

کیا تو نے ان لوگوں کو دیکھا جنہوں نے اللہ کی نعمت کو کفر سے بدل دیا اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر یعنی جہنم جیسی بدترین قرار گاہ میں پہنچا دیا ۔

زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَيَسْخَرُونَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا ۘ وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ

کافروں کے لئے دنیا کی زندگی خوب زینت دار کی گئی ہے، وہ ایمان والوں سے ہنسی مذاق کرتے ہیں حالانکہ پرہیزگار لوگ قیامت کے دن ان سے اعلیٰ ہونگے،

پھر بیان ہوتا ہے کہ یہ کفار صرف دنیا کی زندگی پر دیوانے ہوئے ہیں مال جمع کرنا اور اللہ کی راہ کے خرچ میں بخل کرنا یہی ان کا رنگ ڈھنگ ہے،بلکہ ایمان دار اس دنیائے فانی سے سیر چشم ہیں اور پروردگار کی رضامندی میں اپنے مال لٹاتے رہتے ہیں یہ ان کا مذاق اڑاتے ہیں ، حالانکہ حقیق نصیب والے یہی لوگ ہیں قیامت کے دن ان کے مرتبے دیکھ کر ان کافروں کی آنکھیں کھل جائیں گی اس وقت اپنی بدتری اور ان کی برتری دیکھ کر معاملہ اونچ نیچ سمجھ میں آجائے گی۔

وَاللَّهُ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ (۲۱۲)

 اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے بےحساب روزی دیتا ہے ۔‏

دنیا کی روزی جسے اللہ جتنی چاہے دے دے جسے چاہے بےحساب دے بلکہ جسے چاہے یہاں بھی دے اور پھر وہاں بھی دے حدیث شریف میں ہے:

 اے ابن آدم تو میری راہ میں خرچ کر میں تجھے دیتا چلا جاؤں گا،

 آپ ﷺنے حضرت بلال سے فرمایا :

راہ اللہ میں دئیے جاؤ اور عرش والے سے تنگی کا خوف نہ کرو،

قرآن میں ہے:

وَمَآ أَنفَقْتُمْ مِّن شَىْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ (۳۴:۳۹)

تم جو کچھ خرچ کرو اللہ اس کا بدلہ دے گا،

صحیح حدیث میں ہے :

ہر صبح دو فرشتے اترتے ہیں ایک دعا کرتا ہے اے اللہ تیری راہ میں خرچ کرنے والے کو عزت فرما دوسرا کہتا ہے بخیل کے مال کو تباہ وبرباد کر۔

 ایک اور حدیث میں ہے:

 انسان کہتا رہتا میرا مال میرا مال حالانکہ تیرا مال وہ ہے جسے تو نے کھایا وہ تو فنا ہو چکا اور جسے پہن لیا وہ بوسیدہ ہو گیا ہاں جو تو نے صدقہ میں دیا اسے تو نے باقی رکھ لیا اس کے سوا جو کچھ اسے تو تو دوسروں کے لئے چھوڑ کر یہاں سے چل دے گا،

مسند احمد کی حدیث میں ہے:

 دنیا اس کا گھر ہے جس کا گھر نہ ہو، دنیا اس کا مال ہے جس کا مال نہ ہو دنیا کے لئے جمع وہ کرتا ہے جسے عقل نہ ہو۔

كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ

وَأَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ ۚ

در اصل لوگ ایک ہی گروہ تھے اللہ تعالیٰ نے نبیوں کو خوشخبریاں دینے اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا

اور ان کے ساتھ سچی کتابیں نازل فرمائیں، تاکہ لوگوں کے ہر اختلافی امر کا فیصلہ ہو جائے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے :

حضرت نوحؑ اور حضرت آدمؑ کے درمیان دس زمانے تھے ان زمانوں کے لوگ حق پر اور شریعت کے پابند تھے پھر اختلاف ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کو مبعوث فرمایا ،بلکہ آپ کی قرأت بھی یوں ہے  كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَاخْتَلَفُوا فَبَعَثَ اللّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ ابی بن کعب کی قرأت بھی یہی ہے،

 قتادہ نے اس کی تفسیر اسی طرح کی ہے کہ جب ان میں اختلاف پیدا ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنا پہلا پیغمبر بھیجا یعنی حضرت نوح ؑ،

حضرت مجاہد بھی یہی کہتے ہیں،

حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے ایک روایت مروی ہے کہ پہلے سب کے سب کافر تھے،

لیکن اول قول معنی کے اعتبار سے بھی اور سند کے اعتبار سے بھی زیادہ صحیح ہے،

 پس ان پیغمبروں نے ایمان والوں کو خوشیاں سنائی اور ایمان نہ لانے والوں کو ڈرایا، ان کے ساتھ اللہ کی کتاب بھی تھی تاکہ لوگوں کے ہر اختلاف کا فیصلہ قانون الہٰی سے ہوسکے،

وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلَّا الَّذِينَ أُوتُوهُ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۖ

صرف ان ہی لوگوں نے جو اسے دیئے گئے تھے، اپنے پاس دلائل آچکنے کے بعد آپس کے بغض و عناد کی وجہ سے اس میں اختلاف کیا

لیکن ان دلائل کے بعد بھی صر ف آپ کے حسد وبغض تعصب وضد اور نفسانیت کے بنا پر پھر اتفاق نہ کر سکے ، لیکن ایمان دار سنبھل گئے اور اس اختلاف کے چکر سے نکل کر سیدھی راہ لگ گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

 ہم دنیا میں آنے کے اعتبار سے سب سے آگے ہوں گے، اہل کتاب کو کتاب اللہ ہم سے پہلے دی گئی ہمیں اس کے بعد دی گئی لیکن انہوں نے اختلاف کیا اور اللہ پاک نے ہماری رہبری کی جمعہ کے بارے میں بھی نااتفاقی رہی لیکن ہمیں ہدایت نصیب ہوئی یہ کل کے کل اہل کتاب اس لحاظ سے بھی ہمارے پیچھے ہیں جمعہ ہمارا ہے ہفتہ یہودیوں کا اور اتوار نصرانیوں کا،

زید بن اسلم فرماتے ہیں :

جمعہ کے علاوہ قبلہ کے بارے میں بھی یہی ہونصاریٰ نے مشرق کو قبلہ بنایا یہود نے بھی، ان میں بعض کی نماز رکوع ہے اور سجدہ نہیں، بعض کے ہاں سجدہ ہے اور رکوع نہیں، بعض نماز میں بولتے چلتے پھرتے رہتے ہیں لیکن اُمت محمد کی نماز سکون و وقار والی ہے نہ یہ بولیں نہ چلیں نہ پھریں،

روزوں میں بھی اسی طرح اختلاف ہوا اور اس میں بھی اُمت محمدیہ کو ہدایت نصیب ہوئی ان میں سے کوئی تو دن کے بعض حصے کا روزہ رکھتا ہے کوئی گروہ بعض قسم کے کھانے چھوڑ دیتا ہے لیکن ہمارا روزہ ہر طرح کامل ہے اور اس میں بھی راہ حق ہمیں سمجھائی گئی ہے،

اسی طرح حضرت ابراہیم ؑکے بارے میں یہود نے کہا کہ وہ یہودی تھے نصرانیوں نے انہیں نصاریٰ کہا لیکن دراصل وہ یکسر مسلمان تھے پس اس بارے میں بھی ہماری رہبری کی گئی اور خلیل اللہ کی نسبت صحیح خیال تک ہم کو پہنچا دئیے گئے ،

 حضرت عیسیٰ کو بھی یہودیوں نے جھٹلایا اور ان کی والدہ ماجدہ کی نسبت بدکلامی کی، نصرانیوں نے انہیں اللہ اور اللہ کا بیٹا کہا لیکن مسلمان اس افراط وتفریط سے بچا لئے گئے اور انہیں روح اللہ کلمۃ اللہ اور نبی برحق مانا،

فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ ۗ

اس لئے اللہ پاک نے ایمان والوں کی اس اختلاف میں بھی حق کی طرف اپنی مشیت سے رہبری کی

ربیع بن انس فرماتے ہیں :

مطلب آیت کا یہ ہے کہ جس طرح ابتداء میں سب لوگ اللہ واحد کی عبادت کرنے والے نیکیوں کے عامل برائیوں سے مجتنب تھے بیچ میں اختلاف رونما ہو گیا تھا پس اس آخری اُمت کو اول کی طرح اختلاف سے ہٹا کر صحیح راہ پر لگا دیا یہ اُمت اور اُمتوں پر گواہ ہو گی یہاں تک کہ اُمت نوح پر بھی ان کی شہادت ہوگی، قوم یہود، قوم صالح، قوم شعیب اور آل فرعون کا بھی حساب کتاب انہی کی گواہیوں پر ہوگا یہ کہیں گے کہ ان پیغمبروں نے تبلیغ کی اور ان اُمتوں نے تکذیب کی،

وَاللَّهُ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (۲۱۳)

اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہے سیدھی راہ کی طرف رہبری کرتا ہے۔‏

حضرت ابی بن کعب کی قرأت میں آیت وَاللَّهُ يَهْدِي  سے پہلے یہ لفظ بھی ہیں آیت ولیکونوا شہداء علی الناس یوم القیامۃ ،

ابو العالیہ فرماتے ہیں اس آیت میں گویا حکم ہے کہ شبہ، گمراہی، اور فتنوں سے بچنا چاہئے، یہ ہدایت اللہ کے علم اور اس کی رہبری سے ہوئی وہ جسے چاہے راہ استقامت سجھا دیتا ہے،

بخاری ومسلم میں ہے:

 آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کو جب تہجد کے لئے اٹھتے تھے تو یہ پڑھتے :

اللہم رب جبریل ومیکائیل واسرافیل فاطر السماوات والارض عالم الغیب والشہادۃ انت تحکم بین عبادک فیما کانوا فیہ یختلفون اہدنی لما اختلف فیہ من الحق باذنک انک تہدی من تشاء الی صراط مستقیم

اے اللہ اے جبرائیل ومیکائل اور اسرافیل کے رب اے آسمانوں اور زمینوں کے پیدا کرنے والے اللہ۔ اے چھپے کھلے کے جاننے والے اللہ تو ہی اپنے بندوں کے آپس کے اختلافات کا فیصلہ کرتا ہے میری دعا ہے کہ جس جس چیز میں یہ اختلاف کریں تو مجھے اس میں حق بات سمجھا تو جسے چاہے راہ راست دکھلا دیتا ہے

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک دعا یہ بھی منقول ہے:

اللَّهُمَّ أَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا، وَارْزُقْنَا اتِّبَاعَهُ، وَأَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا، وَارْزُقْنَا اجْتنِاَبَهُ، وَلَا تَجْعَلْهُ مُلْتَبِسًا عَلَيْنَا فَنَضِلَّ، وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا

اے اللہ ہمیں حق کو حق دکھا اور اس کی تابعدار نصیب فرما اور باطل کو باطل دکھا اور اس سے بچا کہیں ایسا نہ کہ حق وباطل ہم پر خلط ملط ہوجائے اور ہم بہک جائیں اے اللہ ہمیں نیکوکار اور پرہیزگار لوگوں کا امام بنا۔

أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُمْ مَثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ ۖ

کیا تم یہ گمان کئے بیٹھے ہو کہ جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ ابتک تم پر وہ حالات نہیں آئے جو تم سے اگلے لوگوں پر آئے تھے

‏ مطلب یہ ہے کہ آزمائش اور امتحان سے پہلے جنت کی آرزوئیں ٹھیک نہیں اگلی اُمتوں کا بھی امتحان لیا گیا ،

مَسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ ۗ

انہیں بیماریاں اور مصیبتیں پہنچیں اور وہ یہاں تک جھنجھوڑے گئے کہ رسول اور ان کے ساتھ ایمان والے کہنے لگے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی

انہیں بھی بیماریاں مصیبتیں پہنچیں ،

 الْبَأْسَاءُ کے معنی فقیری وَالضَّرَّاءُ کے معنی سخت بیماری بھی کیا گیا ہے۔

زُلْزِلُوا ان پر دشمنوں کا خوف اس قدر طاری ہوا کہ کانپنے لگے ان تمام سخت امتحانوں میں وہ کامیاب ہوئے اور جنت کے وارث بنے،

صحیح حدیث میں ہے:

 ایک مرتبہ حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ ہماری امداد کی دعا نہیں کرتے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

بس ابھی سے گھبرا اٹھے سنو تم سے اگلے موحدوں کو پکڑ کر ان کے سروں پر آرے رکھ دئیے جاتے تھے اور چیر کر ٹھیک دو ٹکڑے کر دئیے جاتے تھے لیکن تاہم وہ توحید وسنت سے نہ ہٹتے تھے، لوہے کی کنگھیوں سے ان کے گوشت پوست نوچے جاتے تھے لیکن وہ اللہ تعالیٰ کے دین کو نہیں چھوڑتے تھے،

 قسم اللہ کی اس میرے دین کو تو میرا رب اس قدر پورا کرے گا کہ بلا خوف وخطر صنعاء سے حضر موت تک سوار تنہا سفر کرنے لگے گا اسے سوائے اللہ کے کسی کا خوف نہ ہوگا، البتہ دل میں یہ خیال ہونا اور بات ہے کہ کہیں میری بکریوں پر بھیڑیا نہ پڑے لیکن افسوس تم جلدی کرتے ہو،

قرآن میں ٹھیک یہی مضمون دوسری جگہ ان الفاظ میں بیان ہوا ہے:

 أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا ۔۔۔ وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ (۲۹:۲،۳)

کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ان کے صرف اس دعوے پر کہ ہم ایمان لائے ہیں ہم انہیں بغیر آزمائے ہوئے ہی چھوڑ دیں گے؟

ان اگلوں کو بھی ہم نے خوب جانچا یقیناً اللہ تعالیٰ انہیں بھی جان لے گا جو سچ کہتے ہیں اور انہیں بھی معلوم کر لے گا جو جھوٹے ہیں۔

چنانچہ اسی طرح صحابہ کرام رضون اللہ علیہم اجمعین کی پوری آزمائش ہوئی یوم الاحزاب کو یعنی جنگ خندق میں ہوئی جیسے خود قرآن پاک نے اس کا نقشہ کھینچا ہےفرمان ہے:

إِذْ جَآءُوكُمْ مِّن فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنكُمْ ۔۔۔ وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلاَّ غُرُوراً (۳۳:۱۰،۱۲)

جب کہ (دشمن) تمہارے پاس اوپر اور نیچے سے چڑھ آئے اور جب کہ آنکھیں پتھرا گئیں اور کلیجے منہ کو آگئے اور اللہ تعالیٰ کی نسبت طرح طرح گمان کرنے لگے یہیں مؤمن آزمائے گئے اور پوری طرح جھنجھوڑ دیئے گئے ا

ور اس وقت منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں (شک کا) روگ تھا کہنے لگے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے ہم سے محض دھوکا فریب کا ہی وعدہ کیا تھا

ہرقل نے جب ابو سفیان سے ان کے کفر کی حالت میں پوچھا تھا کہ تمہاری کوئی لڑائی بھی اس دعویدار نبوت سے ہوئی ہے

 ابو سفیان نے کہا ہاں

پوچھا پھر کیا رنگ رہا

 کہا کبھی ہم غالب رہے کبھی وہ غالب رہے

تو ہرقل نے کہا انبیاء کی آزمائش اسی طرح ہوتی رہتی ہے لیکن انجام کار کھلا غلبہ انہیں کا ہوتا ہے

مَثَلُ کے معنی طریقہ کے ہیں جیسے اور جگہ ہے:

فَأَهْلَكْنَآ أَشَدَّ مِنْهُم بَطْشاً وَمَضَى مَثَلُ الاٌّوَّلِينَ (۴۳:۸)

پس ہم نے ان سے زیادہ زورآوروں کو تباہ کر ڈالا اور اگلوں کی مثال گزر چکی ہے

أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ (۲۱۴)

 سن رکھو کہ اللہ کی مدد قریب ہی ہے۔

اگلے مؤمنوں نے بمعہ نبیوں کے ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ کی مدد طلب کی اور سختی اور تنگی سے نجات چاہی جنہیں جواب ملا کہ اللہ تعالیٰ کی امداد بہت ہی نزدیک ہے جیسے اور جگہ ہے:

فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً ـ إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً (۹۴:۵،۶))

پس یقیناً مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ بیشک مشکل کے ساتھ آسانی ہے

 ایک حدیث میں ہے:

 بندے جب ناامید ہونے لگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ تعجب کرتا ہے کہ میری فریاد رسی تو آپہنچنے کو ہے اور یہ ناامید ہوتا چلا جا رہا ہے پس اللہ تعالیٰ ان کی عجلت اور اپنی رحمت کے قرب پر ہنس دیتا ہے۔

يَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنْفِقُونَ ۖ

آپ سے پوچھتے ہیں کہ وہ کیا خرچ کریں؟

مقاتل فرماتے ہیں یہ آیت نفلی خیرات کے بارے میں ہے،

سدی کہتے ہیں اسے آیت زکوٰۃ نے منسوخ کر دیا۔

لیکن یہ قول ذرا غور طلب ہے،

مطلب آیت کا یہ ہے کہ اے نبی لوگ تم سے سوال کرتے ہیں کہ وہ کس طرح خرچ کریں

قُلْ مَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۗ

آپ کہہ دیجئے جو مال تم خرچ کرو وہ ماں باپ کیلئے ہے اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لئے ہے

تم انہیں کہہ دو کہ ان لوگوں سے سلوک کریں جن کا بیان ہوا۔حدیث میں ہے:

 اپنی ماں سے سلوک کر اور اپنے باپ اور اپنی بہن سے اور اپنے بھائی سے پھر اور قریبی اور قریبی لوگوں سے

یہ حدیث بیان فرما کر حضرت میمون بن مہران نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا یہ ہیں جن کے ساتھ مالی سلوک کیا جائے اور ان پر مال خرچ کیا جائے نہ کہ طبلوں باجوں تصویروں اور دیواروں پر کپڑا چسپاں کرنے میں۔

وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ (۲۱۵)

اور تم جو کچھ بھلائی کرو گے اللہ تعالیٰ کو اس کا علم ہے۔‏

پھر ارشاد ہوتا ہے تم جو بھی نیک کام کرو اس کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے اور وہ اس پر بہترین بدلہ عطا فرمائے گا وہ ذرے برابر بھی ظلم نہیں کرتا۔

كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ ۖ

تم پر جہاد فرض کیا گیا گو وہ تمہیں دشوار معلوم ہو،

دشمنان اسلام سے دین اسلام کے بچاؤ کے لئے جہاد کی فرضیت کا اس آیت میں حکم ہو رہا ہے

 زہری فرماتے ہیں  کہ جہاد ہر شخص پر فرض ہے، خواہ لڑائی میں نکلے خواہ بیٹھا رہے سب کا فرض ہے کہ جب ان سے مدد طلب کی جائے تو وہ امداد کریں جب ان سے فریاد کی جائے یہ فریاد رسی کریں جب انہیں میدان میں بلایا جائے یہ نکل کھڑے ہوں

 زہری فرماتے ہیں  کہ جہاد ہر شخص پر فرض ہے، خواہ لڑائی میں نکلے خواہ بیٹھا رہے سب کا فرض ہے کہ جب ان سے مدد طلب کی جائے تو وہ امداد کریں جب ان سے فریاد کی جائے یہ فریاد رسی کریں جب انہیں میدان میں بلایا جائے یہ نکل کھڑے ہوں

صحیح حدیث شریف میں ہے:

 جو شخص مر جائے اور اس نے نہ تو جہاد کیا ہو نہ اپنے دل میں جہاد کی بات چیت کی ہو وہ جاہلیت کی موت مرے گا

 اور حدیث میں ہے:

فتح مکہ کے بعد ہجرت تو نہیں رہی لیکن جہاد اور نیت موجود ہے اور جب تم سے جہاد کیلئے نکلنے کو کہا جائے تو نکل کھڑے ہو

 یہ حکم آپ ﷺنے مکہ کی فتح کے دن فرمایا تھا۔

وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ ۖ

 ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو بری جانو اور دراصل وہی تمہارے لئے بھلی ہو

پھر فرمایا ہے حکم جہاد گو تم پر بھاری پڑے گا اور اس میں تمہیں مشقت اور تکلیف نظر آئے گی ممکن ہے قتل بھی کئے جاؤ ممکن ہے زخمی ہو جاؤ پھر سفر کی تکلیف دشمنوں کی یورش کا مقابلہ ہو لیکن سمجھو تو ممکن ہے تم برا جانو اور ہو تمہارے لئے اچھا کیونکہ اسی سے تمہارا غلبہ اور دشمن کی پامالی ہے ان کے مال ان کے ملک بلکہ ان کے بال بچے تک بھی تمہارے قدموں میں گر پڑیں گے

وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (۲۱۶)

اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو اچھی سمجھو، حالانکہ وہ تمہارے لئے بری ہو حقیقی علم اللہ ہی کو ہے، تم محض بےخبر ہو ۔

 اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تم کسی چیز کو اپنے لئے اچھا جانو اور وہ ہی تمہارے لئے برا ہو

عموما ًایسا ہوتا ہے کہ انسان ایک چیز کو چاہتا ہے لیکن فی الواقع نہ اس میں مصلحت ہوتی ہے نہ خیروبرکت

 اسی طرح گو تم جہاد نہ کرنے میں اچھائی سمجھو دراصل وہ تمہارے لئے زبردست برائی ہے کیونکہ اس سے دشمن تم پر غالب آجائے گا اور دنیا میں قدم ٹکانے کو بھی تمہیں جگہ نہ ملے گی ، تمام کاموں کے انجام کا علم محض پروردگار عالم ہی کو ہے وہ جانتا ہے کہ کونسا کام تمہارے لئے انجام کے لحاظ سے اچھا ہے اور کونسا برا ہے ، وہ اسی کام کا حکم دیتا ہے جس میں تمہارے لئے دونوں جہان کی بہتری ہو تم اس کے احکام دل وجان سے قبول کر لیا کرو اور اس کے ہر ہر حکم کو کشادہ پیشانی سے مان لیا کرو اسی میں تمہاری بھلائی اور عمدگی ہے۔

يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ ۖ

لوگ آپ سے حرمت والے مہینوں میں لڑائی کی بابت سوال کرتے ہیں،

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک جماعت کو بھیجا اور اس کا امیر حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو بنایا جب وہ جانے لگے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جدائی کے صدمہ سے رو دئیے آپ نے انہیں روک لیا اور ان کے بدلے حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کو سردار لشکر مقرر کیا اور انہیں ایک خط لکھ کر دیا اور فرمایا کہ جب تک بطن نخلہ نہ پہنچو اس خط کو نہ پڑھنا اور وہاں پہنچ کر جب اس مضمون کو دیکھو تو ساتھیوں میں سے کسی کو اپنے ساتھ چلنے پر مجبور نہ کرنا

چنانچہ حضرت عبداللہ اس مختصر سی جماعت کو لے کر چلے جب اس مقام پر پہنچے تو فرمان نبی پڑھا اور کہا میں فرمانبرداری کے لئے تیار ہوں پھر اپنے ساتھیوں کو پڑھ کر سنایا اور واقعہ بیان کیا دو شخص تو لوٹ گئے لیکن اور سب ساتھ چلنے کے لئے آمادہ ہو گئے آگے چل کر ابن الحضرمی کافر کو انہوں نے پایا چونکہ یہ علم نہ تھا کہ جمادی الاخری کا یہ آخری دن ہے یا رجب کا پہلا دن ہے انہوں نے اس لشکر پر حملہ کر دیا ابن الحضرمی مارا گیا اور صحابہ کی یہ جماعت وہاں واپس ہوئی

اب مشرکین نے مسلمانوں پر اعتراض کرنا شروع کیا کہ دیکھو انہوں نے حرمت والے مہینوں میں لڑائی کی اور قتل بھی کیا اس بارے میں یہ آیت اتری (ابن ابی حاتم)

ایک اور روایت میں ہے:

 اس جماعت میں حضرت عمار بن یاسر، حضرت ابو حذیفہ بن عبتہ بن ربیعہ، حضرت سعد بن ابی وقاص ، حضرت عتبہ بن غزوان سلمی، حضرت سہیل بن بیضاء، حضرت عامر بن فہیرہ اور حضرت واقد بن عبداللہ یربوعی رضی اللہ عنہم تھے۔ بطن نخلہ پہنچ کر حضرت عبداللہ بن جحش نے صاف فرما دیا تھا کہ جو شخص شہادت کا آرزو مند ہو وہی آگے بڑے یہاں سے واپس جانے والے حضرت سعد بن ابی وقاص اور عتبہ رضی اللہ عنہما تھے ان کے ساتھ نہ جانے کی وجہ یہ ہوئی تھی کہ ان کا اونٹ گم ہو گیا تھا جس کے ڈھونڈنے میں وہ رہ گئے ،۔ مشرکین میں حکم بن کیسان، عثمان بن عبداللہ وغیرہ تھے۔

حضرت واقد کے ہاتھوں عمرو قتل ہوا اور یہ جماعت مال غنیمت لے کر لوٹی۔ یہ پہلی غنیمت تھی جو مسلمان صحابہ کو ملی اور یہ جانباز جماعت دو قیدیوں کو اور مال غنیمت لے کر واپس آئی مشرکین مکہ نے قیدیوں کا فدیہ ادا کرنا چاہا

(یہاں اصل عربی میں کچھ عبارت چھوٹ گئی ہے)

اور انہوں نے اعتراضاً کہا کہ دیکھو حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ اللہ کے اطاعت گزار ہیں لیکن حرمت والے مہینوں کی کوئی حرمت نہیں کرتے اور ماہ رجب میں جدال وقتال کرتے ہیں ، مسلمان کہتے تھے کہ ہم نے رجب میں قتل نہیں کیا بلکہ جمادی الاخری میں لڑائی ہوئی ہے حقیقت یہ ہے کہ وہ رجب کی پہلی رات اور جمادی الاخری کی آخری شب تھی رجب شروع ہوتے ہی مسلمانوں کی تلواریں میان میں ہو گئی تھیں ،

قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ ۖ وَصَدٌّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَكُفْرٌ بِهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ عِنْدَ اللَّهِ ۚ

آپ کہہ دیجیئے کہ ان میں لڑائی کرنا سخت گناہ ہے لیکن اللہ کی راہ سے روکنا اس کے ساتھ کفر کرنا اور مسجد حرام سے روکنا اور وہاں کے رہنے والوں کو وہاں سے نکالنا، اللہ کے نزدیک اس سے بھی بڑا گناہ ہے

مشرکین کے اس اعتراض کا جواب اس آیت میں دیا جا رہا ہے کہ یہ سچ ہے کہ ان مہینوں میں جنگ حرام ہے لیکن اے مشرکوں تمہاری بداعمالیاں تو برائی میں اس سے بھی بڑھ کر ہیں ، تم اللہ کا انکار کرتے ہو تم میرے نبی اور ان کے ساتھیوں کو میری مسجد سے روکتے ہو تم نے انہیں وہاں سے نکال دیا پس اپنی ان سیاہ کاریوں پر نظر ڈالو کہ یہ کس قدر بدترین کام ہیں،

انہی حرمت والے مہینوں میں ہی مشرکین نے مسلمانوں کو بیت اللہ شریف سے روکا تھا اور وہ مجبوراً واپس ہوئے تھے اگلے سال اللہ تعالیٰ نے حرمت والے مہینوں میں ہی مکہ کو اپنے نبی کے ہاتھ فتح کروایا۔ انہیں ان آیتوں میں لاجواب کیا گیا

عمرو بن الحضرمی جو قتل کیا گیا یہ طائف سے مکہ کو آ رہا تھا ، گو رجب کا چاند چڑھ چکا تھا لیکن صحابہ کو معلوم نہ تھا وہ اس رات کو جمادی الاخری کی آخری رات جانتے تھے،

 ایک اور روایت میں ہے :

حضرت عبداللہ بن جحش کے ساتھ آٹھ آدمی تھے سات تو وہی جن کے نام اوپر بیان ہوئے آٹھویں حضرت رباب اسدی رضی اللہ عنہ تھے انہیں بدر اولیٰ سے واپسی کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھیجا تھا یہ سب مہاجر صحابہ تھے ان میں ایک بھی انصاری نہ تھا دو دن چل کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس نامہ مبارک کو پڑھا جس میں تحریر تھا کہ میرے اس حکم نامہ کو پڑھ کر مکہ اور طائف کے درمیان نخلہ میں جاؤ وہاں ٹھہرو اور قریش کے قافلہ کا انتظار کرو اور ان کی خبریں معلوم کر کے مجھے پہنچاؤ

جب یہ بزرگ یہاں سے چلے تو سارے کے سارے  ہی چلے تھے دو صحابی جو اونٹ کو ڈھونڈنے کے لئے رہ گئے تھے وہ بھی یہاں سے ساتھ ہی تھے لیکن فرغ کے اوپر معدن پر پہنچ کر نجران میں انہیں اونٹوں کی تلاش میں رک جانا پڑا، قریشیوں کے اس قافلہ میں زیتون وغیرہ تجارتی مال تھا مشرکین میں علاوہ ان لوگوں کے جن کے نام اوپر بیان ہوئے ہیں نوفل بن عبداللہ بھی تھے مسلمان پہلے  تو انہیں دیکھ کر گھبرائے لیکن پھر مشورہ کر کے مسلمانوں نے حملہ یہ سوچ کر کیا کہ اگر انہیں چھوڑ دیا تو اس رات کے بعد حرمت کا مہینہ آجائے گا تو ہم پھر کچھ بھی نہ کر سکیں گے

 انہوں نے شجاعت ومردانگی کے ساتھ حملہ کیا حضرت واقد بن عبداللہ تمیمی رضی اللہ عنہ نے عمرو بن حضرمی کو ایسا تاک کر تیر لگایا کہ اس کا تو فیصلہ ہی ہو گیا عثمان اور حکم کو قید کر لیا اور مال وغیرہ لے کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہنچے راستہ میں ہی سردار لشکر نے کہہ دیا تھا کہ اس مال میں سے پانچواں حصہ تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہے چنانچہ یہ حصہ تو الگ کر کے رکھ دیا گیا اور باقی مال صحابہ میں تقسیم کر دیا اور اب تک یہ حکم نازل نہیں ہوا تھا کہ مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ نکالنا چاہئے ،

 جب یہ لشکر سرکار نبوی میں پہنچا تو آپ نے واقعہ سن کر ناراضگی ظاہر فرمائی اور فرمایا کہ میں نے تمہیں حرمت والے مہینوں میں لڑائی کرنے کو کب کہا تھا نہ تو قافلہ کا کچھ مال آپ نے لیا نہ قیدیوں کو قبضہ میں کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قول وفعل سے یہ مسلمان سخت نادم ہوئے اور اپنی گنہگاری کا انہیں یقین ہو گیا پھر اور مسلمانوں نے بھی انہیں کچھ کہنا سننا شروع کیا ادھر قریشیوں نے طعنہ دینا شروع کیا کہ محمد اور آپ کے صحابہ حرمت والے مہینوں میں بھی جدال وقتال سے باز نہیں رہتے

دوسری جانب یہودیوں نے ایک بدفالی نکالی چونکہ عمرو قتل کیا گیا تھا انہوں نے کہا عمرت الحرب لڑائی پر رونق اور خوب زوروشور سے لمبی مدت تک ہوگی اس کے باپ کا نام حضرمی تھا اس سے انہوں نے فال لی کہ حضرت الحرب وقت لڑائی آپہنچا، قاتل کا نام واقد تھا جس سے انہوں نے کہا وقدت الحرب لڑائی کی آگ بھڑک اٹھی

وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ ۗ وَلَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّى يَرُدُّوكُمْ عَنْ دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا ۚ

فتنہ قتل سے بھی بڑا گناہ ہے یہ لوگ تم سے لڑائی بھڑائی کرتے ہی رہیں گے یہاں تک کہ اگر ان سے ہو سکے تو تمہیں تمہارے دین سے مرتد کر دیں

لیکن قدرت نے اسے برعکس کر دیا اور نتیجہ تمام تر مشرکین کے خلاف رہا اور ان کے اعتراض کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی کہ اگر بالفرض جنگ حرمت والے مہینہ میں ہوئی بھی ہو تو اس سے بھی بدترین تمہاری سیاہ کاریاں موجود ہیں تمہارا یہ فتنہ کہ تم دین اللہ سے مسلمانوں کو مرتد کرنے کی اپنی تمام تر امکانی کوششیں کر رہے ہو یہ اس قتل سے بھی بڑھ کر ہے اور تم نہ تو اپنے ان کاموں سے رکتے ہو نہ توبہ کرتے ہو نہ اس پر نادم ہوتے ہو،

وَمَنْ يَرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ

اور تم میں سے جو لوگ اپنے دین سے پلٹ جائیں اسی کفر کی حالت میں مریں، ان کے اعمال دنیاوی اور آخروی سب غارت ہوجائیں گے۔

وَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (۲۱۷)

یہ لوگ جہنمی ہونگیں اور ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے ۔

ان آیات کے نازل ہونے کے بعد مسلمان اس رنج وافسوس سے آزاد ہوئے۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قافلہ اور قیدیوں کو اپنے قبضہ میں لیا،

قریشیوں نے پھر آپ کے پاس قاصد بھیجا کہ ان دونوں قیدیوں کا فدیہ لے لیجئے مگر آپ نے فرمایا کہ میرے دونوں صحابی سعد بن ابی وقاص اور عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہما جب آجائیں تب آؤ مجھے ڈر ہے کہ تم انہیں ایذاء نہ پہنچاؤ چنانچہ جب وہ آگئے تو آپ نے فدیہ لے لیا اور دونوں قیدیوں کو رہا کر دیا

حکم بن کیسان رضی اللہ عنہ تو مسلمان ہو گئے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ہی رہ گئے آخر بیر معونہ کی لڑائی میں شہید ہوئے (رضی اللہ عنہ )

ہاں عثمان بن عبداللہ مکہ واپس گیا اور وہیں کفر میں ہی مرا،

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُولَئِكَ يَرْجُونَ رَحْمَتَ اللَّهِ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (۲۱۸)

البتہ ایمان لانے والے، ہجرت کرنے والے، اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہی رحمت الہٰی کے امیدوار ہیں، اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور بہت مہربانی کرنے والا ہے۔‏

ان غازیوں کو یہ آیت سن کر بڑی خوشی حاصل ہوئی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضگی کی وجہ سے حرمت والے مہینوں کی بے ادبی کے سبب سے دوسرے صحابہ کی چشمک کی بنا پر کفار کے طعنہ کے باعث جو رنج وغم ان کے دلوں پر تھا سب دور ہو گیا لیکن اب یہ فکر پڑی کہ ہمیں اخروی اجر بھی ملے گا یا نہیں ہم غازیوں میں بھی شمار ہوں گے یا نہیں جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ سوالات کئے گئے تو اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی اور ان کی بڑی بڑی امیدیں بندھ گئیں رضی اللہ عنہم اجمعین،

 اسلام اور کفر کے مقابلہ میں کافروں میں سب سے پہلے یہی ابن الحضرمی مارا گیا، کفار کا وفد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور سوال کیا کہ کیا حرمت والے مہینوں میں قتل کرنا جائز ہے اور اس پر آیت يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ نازل ہوئی

یہی مال غنیمت تھا جو سب سے پہلے مسلمانوں کے ہاتھ لگا اور سب سے پہلے پانچواں حصہ حضرت عبداللہ بن جحش نے ہی نکالا جو اسلام میں باقی رہا اور حکم الہٰی اسی طرح نازل ہوا اور یہی دو قیدی تھے جو سب سے پہلے مسلمانوں کے ہاتھوں اسیر ہوئے ، اس واقعہ کو ایک نظم میں بھی ادا کیا گیا ہے

بعض تو کہتے ہیں کہ یہ اشعار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہیں لیکن یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ اشعار عبداللہ بن جحش کے ہیں جو اس مختصر سے لشکر کے سردار تھے اللہ ان سے خوش ہو۔

يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ ۖ

لوگ آپ سے شراب اور جوئے کا مسئلہ پوچھتے ہیں،

قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِمَا ۗ

 آپ کہہ دیجئے ان دونوں میں بہت بڑا گناہ ہے اور لوگوں کو اس سے دنیاوی فائدہ بھی ہوتا ہے، لیکن ان کا گناہ ان کے نفع سے بہت زیادہ ہے،

جب شراب کی حرمت کی آیت نازل ہوئی تو حضرت عمر ؓنے کہا یا اللہ تو اس کا واضح بیان فرما ان پر سورۃ بقرہ کی یہ آیت يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ  نازل ہوئی حضرت عمر ؓکو بلوایا گیا اور انہیں یہ آیت پڑھ کر سنائی گئی لیکن حضرت عمر ؓنے پھر بھی یہی دعا کی کہ یا اللہ اسے ہمارے لئے اور زیادہ صاف بیان فرما اس پر سورۃ نساء کی آیت يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَقْرَبُواْ الصَّلاَةَ وَأَنتُمْ سُكَارَى (۴:۴۳) نازل ہوئی اور ہر نماز کے وقت پکارا جانے لگا کہ نشے والے لوگ نماز کے قریب بھی نہ آئیں

حضرت عمرؓ کو بلوایا گیا اور ان کے سامنے اس آیت کی بھی تلاوت کی گئی آپ نے پھر بھی یہی دعا کی یا اللہ ہمارے لئے اس کا بیان اور واضح کر اس پر سورۃ مائدہ کی آیت إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ (۵:۹۰) اتری جب فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو بلا کر یہ آیت بھی سنائی گئی اور جب ان کے کان میں آیت کے آخری الفاظ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ (۵:۹۱) پڑے تو آپ بول اٹھے انتہینا انتہینا ہم رک گئے ہم باز آئے

ملاحظہ ہو مسند احمد ، ترمذی اور نسائی وغیرہ ،

ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ میں بھی روایت ہے لیکن اس کا راوی ابو میسرہ ہے جن کا نام عمر بن شرحبیل ہمدانی کوفی ہے، ابو زرعہ فرماتے ہیں کہ ان کا سماع حضرت عمر ؓسے ثابت نہیں واللہ اعلم۔

 امام علی بن مدینی فرماتے ہیں اس کی اسنا صالح اور صحیح ہے امام ترمذی بھی اسے صحیح کہتے ہیں

ابن ابی حاتم میں حضرت عمر کے انتہینا انتہینا کے قول کے بعد یہ بھی ہے کہ شراب مال کو برباد کرنے والی اور عقل کو خبط کرنے والی چیز ہے

یہ روایت اور اسی کے ساتھ مسند کی حضرت ابوہریرہؓ والی اور روایتیں سورۃ مائدہ کی آیت إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ (۵:۹۰) کی تفسیر میں مفصل بیان ہوں گی انشاء اللہ تعالیٰ ،

عمر فاروق ؓ فرماتے ہیں الْخَمْرُ ہر وہ چیز ہے جو عقل کو ڈھانپ لے ا کا پورا بیان بھی سورۃ مائدہ میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ،

الْمَيْسِرُ کہتے ہیں جوئے بازی کو گناہ اس ان کا وبال اخروی ہے اور فائدہ صرف دنیاوی ہے کہ بدن کو کچھ نفع پہنچے یا غذا ہضم ہو یا فضلے برآمد ہوں یا بعض ذہن تیز ہو جائیں یا ایک طرح کا سرور حاصل ہو جیسے کہ حسان بن ثابت کا جاہلیت کے زمانہ کا شعر ہے:

شراب پی کر ہم بادشاہ اور دلیر بن جاتے ہیں،

اسی طرح اس کی خرید وفروخت اور کشید میں بھی تجارتی نفع ممکن ہے ہو جائے۔ اسی طرح جوئے بازی میں ممکن ہے جیت ہو جائے، لیکن ان فوائد کے مقابلہ میں نقصانات ان کے بکثرت ہیں کیونکہ اس سے عقل کا مارا جانا، ہوش و حواس کا بیکار ہونا ضروری ہے، ساتھ ہی دین کا برباد ہونا بھی ہے،

یہ آیت گویا شراب کی حرمت کا پیش خیمہ تھی مگر اس میں صاف صاف حرمت بیان نہیں ہوئی تھی اسی لئے حضرت عمر ؓکی چاہت تھی کہ کھلے لفظوں میں شراب کی حرمت نازل ہو، چنانچہ آخرکار سورۃ مائدہ کی آیت میں صاف فرما دیا گیا:

يَـأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ ۔۔۔ وَعَنِ الصَّلَوةِ فَهَلْ أَنْتُمْ مُّنتَهُونَ (۵:۹۰،۹۱)

اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور تھان اور فال نکالنے کے پانسے سب گندی باتیں، شیطانی کام ہیں ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم فلاح یاب ہو

شیطان تو یوں چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کہ ذریعے سے تمہارے آپس میں عداوت اور بغض واقع کرا دے اور اللہ تعالیٰ کی یاد سے اور نماز سے تمہیں باز رکھے سو اب بھی باز آجاؤ۔‏

اس کا پورا بیان انشاء اللہ سورۃ مائدہ میں آئے گا،

 مفسرین تابعی فرماتے ہیں کہ شراب کے بارے میں پہلے یہی آیت نازل ہوئی، پھر سورۃ نساء کی آیت نازل ہوئی پھر سورۃ مائدہ کی آیت اتری اور شراب مکمل طور پر حرام ہو گئی۔

وَيَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنْفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ ۗ

آپ سے یہ بھی دریافت کرتے ہیں کہ کیا کچھ خرچ کریں، تو آپ کہہ دیجئے حاجت سے زیادہ چیز

 قُلِ الْعَفْوَ کی ایک قرأت قُلِ الْعَفْوُ بھی ہے اور دونوں قرأتیں ٹھیک ہیں معنی قریب قریب اور ایک ہو سکتے ہیں اور بندبھی بیٹھ سکتے ہیں،

حضرت معاذ بن جبل اور حضرت ثعلبہ رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور دریافت کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!ہمارے غلام بھی ہیں بال بچے بھی ہیں اور ہم مال دار بھی ہیں کیا کچھ اللہ کی راہ میں دیں؟ جس کے جواب میں آیت قُلِ الْعَفْوَ کہا گیا یعنی جو اپنے بال بچوں کے خرچ کے بعد بچے،بہت سے صحابہ اور تابعین سے اس کی یہی تفسیر مروی ہے،

حضرت طاؤس کہتے ہیں ہر چیز میں تھوڑا تھوڑا اللہ کی راہ میں بھی دیتے رہا کرو،

 ربیع کہتے ہیں افضل اور بہتر مال اللہ کی راہ میں دو،

سب اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ حاجت سے زائد چیز اللہ کی راہ میں خرچ کرو،

حضرت حسن فرماتے ہیں ایسا نہ کرو کہ سب دے ڈالو اور پھر خود سوال کے لئے بیٹھ جاؤ، چنانچہ صحیح مسلم شریف میں ہے:

ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا حضور! میرے پاس ایک دینار ہے

آپﷺ نے فرمایا اپنے کام میں لاؤ،

کہا میرے پاس ایک اور ہے

 فرمایا اپنی بیوی پر خرچ کرو

 کہا حضرت ایک اور ہے

 فرمایا اپنے بچوں کی ضروریات پر لگاؤ

کہا ایک اور بھی ہے

فرمایا اسے تو اپنی عقل سے خود بھی کر سکتا ہے۔

صحیح مسلم شریف کی ایک اور حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا:

 اپنے نفس سے شروع کر پہلے اسی پر صدقہ کر پھربچے  تو اپنے بال بچوں پر،  پھر بچے تو اپنے رشتہ داروں پر، پھر بھی بچے تو اور حاجت مندوں پر،

 اسی کتاب میں ایک اور حدیث میں ہے :

 سب سے افضل خیرات وہ ہے جو انسان اپنے خرچ کے مطابق باقی رکھ کر بچی ہوئی چیز کو اللہ کی راہ میں دے اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے افضل ہے ، پہلے انہیں دے جن کا خرچ تیرے ذمہ ہے

 ایک اور حدیث میں ہے:

 اے ابن آدم جو تیرے پاس اپنی ضرورت سے زائد ہو اسے اللہ کی راہ میں دے ڈالنا ہی تیرے لئے بہتر ہے اس کا روک رکھنا تیرے لئے برا ہے ہاں اپنی ضرورت کے مطابق خرچ کرنے میں تجھ پر کوئی ملامت نہیں

ابن عباس کا ایک قول یہ بھی مروی ہے کہ یہ حکم زکوٰۃ کے حکم سے منسوخ ہو گیا،

حضرت مجاہد کہتے ہیں کہ زکوٰۃ کی آیت گویا اس آیت کی تفسیر ہے اور اس کا واضح بیان ہے ، ٹھیک قول یہی ہے۔

كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ (۲۱۹)

اللہ تعالیٰ اسطرح سے اپنے احکام صاف صاف تمہارے لئے بیان فرما رہا ہے تاکہ تم سوچ سمجھ سکو‏

فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۗ

امور دینی اور دنیاوی کو

پھر ارشاد ہے کہ جس طرح یہ احکام واضح کر کے کھول کھول کر ہم نے بیان فرمائے اسی طرح ہم باقی احکام بھی وضاحت اور تشریح کے ساتھ بیان فرمائیں گے، وعدے وعید بھی صاف طور پر کھول دئیے جائیں گے تا کہ تم دنیائے فانی کی طرف بےرغبت ہو کر آخرت کی طرف متوجہ ہو جاؤ ہمیشہ باقی رہنے والی ہے،

حضرت حسن نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا  واللہ جو غور وتدبر کرے گا جان لے گا کہ دنیا بلا کا گھر ہے اور اس کا انجام فنا ہے اور آخرت جزا اور بقا کا گھر ہے

حضرت قتادہ فرماتے ہیں فکر کرنے سے صاف معلوم ہو سکتا ہے کہ دنیا پر آخرت کو کس قدر فضیلت ہے پس عقلمند کو چاہئے کہ آخرت کی بھلائی کے جمع کرنے کی کوشش میں لگ جائے۔

وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْيَتَامَى ۖ

اور تجھ سے یتیموں کے بارے میں بھی سوال کرتے ہیں

یتیم کے بارے میں احکام نازل ہوتے ہیں

قُلْ إِصْلَاحٌ لَهُمْ خَيْرٌ ۖ وَإِنْ تُخَالِطُوهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ ۚ

آپ کہہ دیجئے کہ ان کی خیر خواہی بہتر ہے، تم اگر ان کا مال اپنے مال میں ملا بھی لو تو وہ تمہارے بھائی ہیں،

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں پہلے یہ حکم ہوا تھا کہ وَلاَ تَقْرَبُواْ مَالَ الْيَتِيمِ إِلاَّ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ (۶:۱۵۲) یعنی یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ مگر اس طریقہ سے جو بہترین طریقہ ہواور فرمایا گیا تھا إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا (۴:۱۰) یعنی جو لوگ ظلم سے یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں اور وہ بھڑکتی ہوئی جہنم میں عنقریب داخل ہوں گےتو ان آیتوں کو سن کر ان لوگوں نے جو یتیموں کے والی تھے یتیموں کا کھانا اور ان کا پانی اپنے گھر کے کھانے اور گھر کے پانی سے بالکل جدا کر دیا اب اگر ان کا پکا ہوا کھانا بچ جاتا تو اسے یا تو وہ خود ہی دوسرے وقت کھائے یا خراب ہو جائے تو یوں ایک طرف تو ان یتیموں کا نقصان ہونے لگا

دوسری جانب والیان یتیم بھی تنگ آگئے کہ کب تک ایک ہی گھر میں اس طرح رکھ رکھاؤ کیا کریں تو ان لوگوں نے آکر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی جس پر یہ آیت قُلْ إِصْلَاحٌ لَهُمْ خَيْرٌ نازل ہوئی اور نیک نیتی اور دیانت داری کے ساتھ ان کے مال کو اپنے مال میں ملا لینے کی رخصت دی گئی ،

ابوداود ونسائی میں یہ روایتیں موجود ہیں اور سلف وخلف کی ایک بہت بڑی جماعت نے اسکا شان نزول یہی بیان فرمایا ہے ،

وَاللَّهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ ۚ

 بدنیت اور نیک نیت ہر ایک کو اللہ خوب جانتا ہے

حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :

یتیم کے مال کی اس طرح دیکھ بھال سخت مشکل ہے کہ اس کا کھانا پینا ملا جلا رکھنے کی اجازت دی گئی اس لئے کہ وہ بھی دینی بھائی ہیں یا نیت نیک ہونی چاہئے، قصد اور ارادہ اگر یتیم کی نقصان رسانی کا ہے تو وہ بھی اللہ تبارک وتعالیٰ سے پوشیدہ نہیں اور اگر مقصود یتیم کی بھلائی اور اس کے مال کی نگہبانی ہے تو اسے بھی وہ علام الغیوب بخوبی جانتا ہے ۔

وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَأَعْنَتَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (۲۲۰)

 اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں مشقت میں ڈال دیتا یقیناً اللہ تعالیٰ غلبہ والا اور حکمت والا ہے۔‏

پھر فرمایا کہ اللہ تمہیں تکلیف ومشقت میں مبتلا رکھنا نہیں چاہتا جو تنگی اور حرج تم پر یتیم کا کھانا پینا بالکل جدا رکھنے میں تھا وہ اللہ تعالیٰ نے دور فرما دیا اور تم پر تخفیف کر دی اور ایک ہنڈیا رکھنا اور ملا جلا کام کرنا تمہارے لئے مباح قرار دیا ،

 بلکہ یتیم کا نگران اگر تنگ دست مسکین محتاج ہو تو دستور کے مطابق اپنے خرچ میں لا سکتا ہے ، اور اگر کسی مالدار نے اپنے بوقت ضرورت اس کی چیز کام میں لے لی تو پھر ادا کر دے،

یہ مسائل انشاء اللہ وضاحت کے ساتھ سورۃ نساء کی تفسیر میں بیان ہوں گے۔

وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّى يُؤْمِنَّ ۚ

اور شرک کرنے والی عورتوں سے تاوقتیکہ وہ ایمان نہ لائیں تم نکاح نہ کرو

بت پرست مشرکہ عورتوں سے نکاح کی حرمت بیان ہو رہی ہے، گو آیت کا عموم تو ہر ایک مشرکہ عورت سے نکاح کرنے کی ممانعت پر ہی دلالت کرتا ہے لیکن دوسری جگہ فرمان ہے:

وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِينَ (۵:۵)

اور پاکدامن مسلمان عورتیں اور جو لوگ تم سے پہلے کتاب دیئے گئے ان کی پاک دامن عورتیں بھی حلال ہیں جب کہ تم ان کے مہر ادا کرو، اس طرح کہ تم ان سے باقاعدہ نکاح کرو

حضرت ابن عباسؓ کا قول بھی یہی ہے کہ ان مشرکہ عورتوں میں سے اہل کتاب عورتیں مخصوص ہیں،

 مجاہد عکرمہ ، سعید بن جبیر، مکحول ، حسن، ضحاک ، قتادہ زید بن اسلم اور ربیع بن انس رحمہم اللہ کا بھی یہی فرمان ہے،

بعض کہتے ہیں یہ آیت صرف بت پرست مشرکہ عورتوں ہی کے لئے نازل ہوئی ہے اِس طرح  کہہ لو یا اُس طرح ’ مطلب دونوں کا ایک ہی ہے۔ واللہ اعلم

ابن جریر میں ہے:

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کئی قسم کی عورتوں سے نکاح کرنے کو ناجائز قرار دیا سوائے ایمان دار، ہجرت کر کے آنے والی عورتوں کے خصوصاً ان عورتوں سے جو کسی دوسرے مذہب کی پابند ہوں۔قرآن کریم میں اور جگہ ہے:

وَمَن يَكْفُرْ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ (۵:۵)

منکرین ایمان کے اعمال ضائع اور اکارت ہیں

ایک روایت میں ہے:

 حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ نے یہودیہ عورت سے نکاح کر لیا تھا اور حضرت حذیفہ بن یمنؓ نے ایک نصرانیہ عورت سے نکاح کر لیا تھا جس پر حضرت عمرؓ سخت ناراض ہوئے یہاں تک کہ قریب تھا کہ انہیں کوڑے لگائیں، ان دونوں بزرگوں نے کہا اے امیرالمؤمنین آپ ناراض نہ ہوں ہم انہیں طلاق دے دیتے ہیں آپ نے فرمایا اگر طلاق دینی حلال ہے تو پھر نکاح بھی حلال ہونا چاہئے میں انہیں تم سے چھین لوں گا اور ذلت کے ساتھ انہیں تم سے الگ کردوں گا،

 لیکن یہ حدیث نہایت غریب ہے اور حضرت عمر ؓسے بالکل ہی غریب ہے،

امام ابن جریر نے اہل کتاب عورتوں سے نکاح کر کے حلال ہونے پر اجماع نقل کیا ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس اثر کے بارے میں تحریر کیا ہے کہ یہ صرف سیاسی مصلحت کی بناء پر تھا تاکہ مسلمان عورتوں سے بےرغبتی نہ کریں یا اور کوئی حکمت عملی اس فرمان میں تھی چنانچہ اس روایت میں یہ بھی ہے :

 جب حضرت حذیفہؓ کو یہ فرمان ملا تو انہوں نے جواب میں لکھا کہ کیا آپ اسے حرام کہتے ہیں، خلیفۃ المسلمین نے جواب دیا کہ حرام تو نہیں کہتا مگر مجھے خوف ہے کہیں تم مؤمن عورتوں سے نکاح نہ کرو؟

 اس روایت کی اسناد بھی صحیح ہے،

 ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا :

 مسلمان مرد نصرانی عورت سے نکاح کر سکتا ہے لیکن نصرانی مرد کا نکاح مسلمان عورت سے نہیں ہو سکتا

اس روایت کی سند پہلی روایت سے زیادہ صحیح ہے ،

 ابن جریر میں تو ایک مرفوع حدیث بھی باسناد مروی ہے:

 ہم اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کر لیں لیکن اہل کتاب مرد مسلمان عورتوں سے نکاح نہیں کر سکتے

 لیکن اس کی سند میں کچھ کمزوری ہے مگر اُمت کا اجماع اسی پر ہے ،

 ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے:

 حضرت فاروقؓ نے اہل کتاب کے نکاح کو ناپسند کیا اور اس آیت کی تلاوت فرما دی،

 امام بخاری حضرت عمرؓ کا یہ قول بھی نقل فرماتے ہیں میں کسی شرک کو اس شرک سے بڑھ کر نہیں پاتا کہ وہ عورت کہتی ہے کہ عیسیٰ اس کے اللہ ہیں

 حضرت امام احمد سے اس آیت کا مطلب پوچھا جاتا ہے تو آپ فرماتے ہیں مراد اس سے عرب کی وہ مشرکہ عورتیں ہیں جو بت پرست تھیں۔

وَلَأَمَةٌ مُؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ ۗ

ایماندار لونڈی بھی شرک کرنے والی آزاد عورت سے بہتر ہے، گو تمہیں مشرکہ ہی اچھی لگتی ہو

پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ایمان والی لونڈی شرک کرنے والی آزاد عورت سے اچھی ہے

یہ فرمان عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوتا ہے، ان کی ایک سیاہ رنگ لونڈی تھی ایک مرتبہ غصہ میں آکر اسے تھپڑ مار دیا تھا پھر گھبرائے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور واقعہ عرض کیا

 آپ ﷺنے پوچھا اس کا کیا حال ہے

 کہا حضور! وہ روزے رکھتی ہے نماز پڑھتی ہے اچھی طرح وضو کرتی ہے اللہ کی وحدانیت اور آپ کی رسالت کی گواہی دیتی ہے۔

 آپ ﷺنے فرمایا اے ابو عبداللہ پھر تو وہ ایماندار ہے

 کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! قسم اس اللہ کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں اسے آزاد کر دوں گا اور اتنا ہی نہیں بلکہ اس سے نکاح بھی کر لوں گا چنانچہ یہی کیا جس پر بعض مسلمانوں نے انہیں طعنہ دیا، وہ چاہتے تھے کہ مشرکوں میں ان کا نکاح کرا دیں اور انہیں اپنی لڑکیاں بھی دیں تاکہ شرافت نسب قائم رہے

 اس پر یہ فرمان نازل ہوا کہ مشرک آزاد عورتوں سے تو مسلمان لونڈی ہزارہا درجہ بہتر ہے اور اسی طرح مشرک آزاد مرد سے مسلم غلام بھی بڑھ چڑھ کر ہے،

 مسند عبد بن حمید میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

- عورتوں کے محض حسن پر فریفتہ ہو کر ان سے نکاح نہ کر لیا کرو، ممکن ہے ان کا حسن انہیں مغرور کر دے

-  عورتوں کے مال کے پیچھے ان سے نکاح نہ کر لیا کرو ممکن ہے مال انہیں سرکش کر دے

- نکاح کرو تو دینداری دیکھا کرو بدصورت سیاہ فام لونڈی بھی اگر دیندار ہو تو بہت افضل ہے،

 لیکن اس حدیث کے راویوں میں افریقی ضعیف ہے،

بخاری مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا چار باتیں دیکھ کر عورتوں سے نکاح کیا جاتا ہے

-  ایک تو مال

-  دوسرے حسب نسب

-  تیسرے جمال وخوبصورتی

- چوتھے دین،

 تم دینداری ٹٹولو ،

مسلم شریف میں ہے:

 دنیا کل کی کل ایک متاع ہے، متاع دنیا میں سب سے افضل چیز نیک بخت عورت ہے۔

وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُوا ۚ

اور نہ شرک کرنے والے مردوں کے نکاح میں اپنی عورتوں کو دو جب تک وہ ایمان نہ لائیں،

پھر فرمان ہے کہ مشرک مردوں کے نکاح میں مسلمان عورتیں بھی نہ دوجیسے اور جگہ ہے:

لاَ هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَلاَ هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ (۶۰:۱۰)

نہ کافر عورتیں مسلمان مردوں کے لئے حلال نہ مسلمان مرد کافر عورتوں کے لئے حلال۔

وَلَعَبْدٌ مُؤْمِنٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ ۗ

 ایماندار غلام آزاد مشرک سے بہتر ہے، گو مشرک تمہیں اچھا لگے،

پھر فرمان ہے کہ مؤمن مرد گو چاہے حبشی غلام ہو پھر بھی رئیس اور سردار آزاد کافر سے بہتر ہے۔

أُولَئِكَ يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ ۖ وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِ ۖ

یہ لوگ جہنم کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ جنت کی طرف اور اپنی بخشش کی طرف اپنے حکم سے بلاتا ہے

ان لوگوں کا میل جول، ان کی صحبت، محبت دنیا، حفاظت دنیا اور دنیا طلبی اور دنیا کو آخرت پر ترجیح دینا سکھاتی ہیں جس کا انجام جہنم ہے اور اللہ تعالیٰ کے فرمان کی پابندی اس کے حکموں کی تعمیل جنت کی رہبری کرتی ہے گناہوں کی مغفرت کا باعث بنتی ہے۔

وَيُبَيِّنُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ (۲۲۱)

 وہ اپنی آیتیں لوگوں کے لئے بیان فرما رہا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔‏

 اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے وعظ ونصیحت اور پند وعبرت کے لئے اپنی آیتیں واضح طور پر بیان فرما دیں۔

وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ ۖ

آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں،

حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ یہودی لوگ حائضہ عورتوں کو نہ اپنے ساتھ کھلاتے تھے اور نہ اپنے ساتھ رکھتے تھے، صحابہؓ نے اس بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا جس کے جواب میں یہ آیت اتری، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سوائے جماع کے اور سب کچھ حلال ہےیہودی یہ سن کر کہنے لگے کہ انہیں تو ہماری مخالفت ہی سے غرض ہے،

حضرت اسید بن حضیر اور حضرت عباد بن بشر نے یہودیوں کا یہ کلام نقل کر کے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پھر ہمیں جماع کی بھی رخصت دی جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ یہ سن کر متغیر ہو گیا یہاں تک کہ اور صحابہؓ نے خیال کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان پر ناراض ہو گئے۔ جب یہ بزرگ جانے لگے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی بزرگ دودھ کا تحفہ لے کر آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پیچھے آدمی بھیج کر انہیں بلایا اور وہ دودھ انہیں پلایا، اب معلوم ہوا کہ وہ غصہ جاتا رہا۔ (مسلم)

قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ ۖ

 کہہ دیجئے کہ وہ گندگی ہے، حالت حیض میں عورتوں سے الگ رہو

پس اس فرمان کا کہ حیض کی حالت میں عورتوں سے الگ رہو یہ مطلب ہوا کہ جماع نہ کرو اس لئے کہ اور سب حلال ہے۔ اکثر علماء کا مذہب ہے کہ سوائے جماع کے مباشرت جائز ہے،

احادیث میں ہے:

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسی حالت میں ازواج مطہرات سے ملتے جلتے لیکن وہ تہمند باندھے ہوئے ہوتی تھیں (ابو داؤد)

حضرت عمارہ ؓکی پھوپھی صاحبہ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے سوال کرتی ہیں کہ اگر عورت حیض کی حالت میں ہو اور گھر میں میاں بیوی کا ایک ہی بستر ہو تو وہ کیا کرے؟ یعنی اس حالت میں اس کے ساتھ اس کا خاوند سو سکتا ہے یا نہیں؟

آپ نے فرمایا، سنو ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لائے، آتے ہی نماز کی جگہ تشریف لے گئے اور نماز میں مشغول ہو گئے، دیر زیادہ لگ گئی اور اس عرصہ میں مجھے نیند آ گئی، آپ کو جاڑا لگنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ادھر آؤ، میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں تو حیض سے ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے گھٹنوں کے اوپر سے کپڑا ہٹانے کا حکم دیا اور پھر میری ران پر رخسار اور سینہ رکھ کر لیٹ گئے، میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھک گئی تو سردی کچھ کم ہوئی اور اس گرمی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نیند آ گئی۔

حضرت مسروق ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ کے پاس آئے اور کہا السلام علی النبی و علیٰ اھلہ

حضرت عائشہؓ نے جواب دے کر مرحبا مرحبا کہا اور اندر آنے کی اجازت دی،

آپ نے کہا ام المؤمنین ایک مسئلہ پوچھتا ہوں لیکن شرم معلوم ہوتی ہے۔

آپ نے فرمایا، سُن میں تیری ماں اور تو قائم مقام میرے بیٹے کے ہے، جو پوچھنا ہو پوچھ،

 کہا فرمائیے آدمی کیلئے اپنے حائضہ بیوی حلال ہے؟

فرمایا سوائے شرمگاہ کے اور سب جائز ہے۔ (ابن جریر)

اور سندوں سے بھی مختلف الفاظ کے ساتھ حضرت ام المؤمنین ؓکا یہ قول مروی ہے،

حضرت ابن عباس مجاہد حسن اور عکرمہ کا فتویٰ بھی یہی ہے،

مقصد یہ ہے کہ حائضہ عورت کے ساتھ لیٹنا بیٹھنا اس کے ساتھ کھانا پینا وغیرہ امور بالاتفاق جائز ہیں۔

حضرت عائشہؓ سے منقول ہے:

 میں حیض سے ہوتی تھی، میں ہڈی چوستی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی ہڈی کو وہیں منہ لگا کر چوستے تھے، میں پانی پیتی تھی پھر گلاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی وہیں منہ لگا کر اسی گلاس سے پانی پیتے اور میں اس وقت حائضہ ہوتی تھی،

ابوداؤد میں روایت ہے :

میرے حیض کے شروع دِنوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میرے ساتھ ہی لحاف میں سوتے تھے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کپڑا کہیں سے خراب ہو جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنی ہی جگہ کو دھو ڈالتے۔ اگر جسم مبارک پر کچھ لگ جاتا تو اسے بھی دھو ڈالتے اور پھر ان ہی کپڑوں میں نماز پڑھتے۔

ہاں ابوداؤد کی ایک روایت میں یہ بھی ہے:

 حضرت صدیقہؓ فرماتی ہیں میں جب حیض سے ہوتی تو بسترے سے اتر جاتی اور بورئیے پر آجاتی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے قریب بھی نہ آتے جب تک میں پاک نہ ہو جاؤں۔

تو یہ روایت محمول ہے کہ آپ پرہیز اور احتیاط کرتے تھے نہ یہ کہ محمول ہو حرمت اور ممانعت پر

بعض حضرات یہ بھی فرماتے ہیں کہ تہبند ہوتے ہوئے فائدہ اٹھائے،

حضرت میمونہ بنت حارث ہلالیہ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنی کسی اہلیہ سے ان کی حیض کی حالت میں ملنا چاہتے تھے تو انہیں حکم دیتے تھے کہ تہبند باندھ لیں (بخاری)

اس طرح بخاری مسلم میں بھی یہ حدیث حضرت عائشہ سے مروی ہے۔

 حضور ﷺ سے ایک شخص سوال کرتا ہے کہ میری بیوی سے مجھے اس کے حیض کے حالت میں کیا کچھ حلال ہے؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تہبند سے اوپر کا کل (ابوداؤد)

ایک اور روایت میں ہے کہ اس سے بھی بچنا بہتر ہے۔

حضرت عائشہؓ حضرت ابن عباسؓ ، حضرت سعید بن مسیب  اور حضرت شریح کا مذہب بھی یہی ہے۔

امام شافعیؒ کے اس بارے میں دو قول ہیں جن میں ایک یہ بھی ہے کہ اکثر عراقیوں وغیرہ کا بھی یہی مذہب ہے۔ یہ حضرات فرماتے ہیں کہ یہ تو متفقہ فیصلہ ہے کہ جماع حرام ہے اس لئے اس کے آس پاس سے بھی بچنا چاہئے تاکہ حرمت میں واقع ہونے کا خطرہ نہ رہے۔

 حالت حیض میں جماع کی حرمت اور اس کام کے کرنے والے کا گنہگار ہونا تو یقین امر ہے جسے توبہ استغفار کرنا لازمی ہے لیکن اسے کفارہ بھی دینا پڑے گا یا نہیں اس میں علماء کرام کے دو قول ہیں۔

 ایک تو یہ کہ کفارہ بھی ہے چنانچہ مسند احمد اور سنن میں ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 جو شخص اپنی حائضہ بیوی سے جماع کرے وہ ایک دینار یا آدھا دینار صدقہ دے۔

 ترمذی میں ہے کہ خون اگر سرخ ہو تو ایک دینار اور اگر زرد رنگ کا ہو تو آدھا دینار۔

مسند احمد میں ہے کہ اگر خون پیچھے ہٹ گیا اور ابھی اس عورت نے غسل نہ کیا ہو اور اس حالت میں اس کا خاوند اس سے ملے تو آدھا دینار ورنہ پورا دینار،

 دوسرا قول یہ ہے کہ کفارہ کچھ بھی نہیں صرف اللہ عزوجل سے استغفار کرے۔

امام شافعیؒ کا بھی آخری اور زیادہ صحیح یہی مذہب ہے اور جمہور علماء بھی اسی کے قائل ہیں۔

جو حدیثیں اوپر بیان ہوئیں ان کی نسبت یہ حضرات فرماتے ہیں کہ ان کا مرفوع ہونا صحیح نہیں بلکہ صحیح بات یہی ہے کہ یہ موقوف ہے۔

وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ ۖ

اور جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں ان کے قریب نہ جاؤ

یہ فرمان کہ جب تک عورتیں پاک نہ ہو جائیں ان کے قریب نہ جاؤ۔ یہ تفسیر ہے اس فرمان کی کہ عورتوں سے ان کی حیض کی حالت میں جدا رہو، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت حیض ختم ہو جائے پھر نزدیکی حلال ہے۔

حضرت امام ابوعبد اللہ احمد بن حنبل فرماتے ہیں طہر یعنی پاکی دلالت کرتی ہے کہ اب اس سے نزدیکی جائز ہے۔

حضرت میمونہؓ اور حضرت عائشہؓ کا یہ فرمانا کہ ہم میں سے جب کوئی حیض سے ہوتی تو تہبند باندھ لیتی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر میں سوتی، اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ جس نزدیکی  سے منع کیا گیا ہے وہ جماع ہے، ویسے سونا بیٹھنا وغیرہ سب جائز ہے۔

فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ ۚ

ہاں جب وہ پاک ہوجائیں تو ان کے پاس جاؤ جہاں سے اللہ نے تمہیں اجازت دی ہے

اس کے بعد یہ فرمان ان کے پاک ہو جانے کے بعد ان کے پاس آؤ۔ اس میں ارشاد ہے کہ اس کے غسل کر لینے کے بعد ان سے جماع کرو۔

ابن حزم فرماتے ہیں کہ ہر حیض کی پاکیزگی کے بعد جماع کرنا واجب ہے، اسکی دلیل آیت فَأْتُوهُنَّ ہے جس میں حکم ہے لیکن یہ دلیل کوئی پختہ نہیں۔ یہ امر تو صرف حرمت کو ہٹا دینے کا اعلان ہے اور اسکے سوا اسکی کوئی دلیل انکے پاس نہیں،

 علماء اصول میں سے بعض تو کہتے ہیں کہ امر یعنی حکم مطلقاً وجوب کیلئے ہوتا ہے ان لوگوں کو امام ابن حزم کا جواب بہت گراں ہے،

بعض کہتے ہیں یہ امر صرف اباحت کیلئے ہے اور چونکہ اس سے پہلے ممانعت وارد ہو چکی ہے یہ قرینہ ہے جو امر کو وجوب سے ہٹا دیتا ہے لیکن یہ غور طلب بات ہے، دلیل سے جو بات ثابت ہے وہ یہ ہے کہ ایسے موقع پر یعنی پہلے منع ہو پھر "حکم" ہو تو حکم اپنی اصل پر رہتا ہے یعنی جو بات منع سے پہلے جیسی تھی ویسی ہی اب ہو جائے گی یعنی اگر منع سے پہلے وہ کام واجب تھا تو اب بھی واجب ہی رہے گا، جیسے قرآن کریم میں ہے:

فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ (۹:۵)

جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو مشرکوں سے جہاد کرو۔

 اور اگر یہ کام ممانعت سے پہلے مباح تھا تو اب بھی وہ مباح رہے گا جیسے آیت وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا (۵:۲) جب تم احرام کھول دو تو شکار کھیلو،اور جگہ ہے:

فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ (۶۲:۱۰)

جب نماز پوری ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ۔

 ان علماء کرام کا یہ فیصلہ ان مختلف اقوال کو جمع بھی کر دیتا ہے جو امر کے وجوب وغیرہ کے بارے میں ہیں۔

 غزالیؒ نے بھی اسے بیان کیا ہے اور بعض ائمہ متاخرین نے بھی اسے پسند فرمایا ہے اور یہی صحیح بھی ہے۔

یہ مسئلہ بھی یاد رہے کہ تمام علماء اُمت کا اتفاق ہے کہ جب خون حیض کا آنا رُک جائے، مدت حیض گزر جائے پھر بھی اس کے خاوند کو اپنی بیوی سے مجامعت کرنی حلال نہیں جب تک وہ غسل نہ کر لے، ہاں اگر وہ معذور ہو اور غسل کے عوض تیمم کرنا اسے جائز ہو تو تیمم کر لے۔ اس کے بعد اس کے پاس اس کا خاوند آ سکتا ہے ۔

 ہاں امام ابوحنیفہ ان تمام علماء کے مخالف ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ جب حیض زیادہ سے زیادہ دِنوں تک آخری معیاد یعنی دس دن تک رہ کر بند ہو گیا تو اس کے خاوند اس سے صحبت کرنا حلال ہے، گو اس نے غسل نہ کیا ہو، واللہ اعلم،

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ تو لفظ يَطْهُرْنَ کا اس سے مراد خون حیض کا بند ہونا ہے اور تَطَهَّرْنَ سے مراد غسل کرنا ہے۔

حضرت مجاہد، حضرت عکرمہ، حضرت حسن، حضرت مقاتل بن حیات، حضرت لیث بن سعد بھی یہی فرماتے ہیں،

پھر ارشاد ہوتا ہے اس جگہ سے آؤ جہاں سے آنے کا حکم اللہ نے تمہیں دیا ہے، مراد اس سے آگے کی جگہ ہے۔

حضرت ابن عباسؓ، حضرت مجاہد بہت سے مفسرین نے اس کے یہی معنی بیان کئے ہیں کہ مراد اس سے بچوں کے تولد ہونے کی جگہ ہے، اس کے سوا اور جگہ یعنی پاخانہ کی جگہ جانا حرام ہے، ایسا کرنے سے حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔

صحابہ اور تابعین سے بھی یہی مروی ہے کہ مطلب یہ ہے کہ جس جگہ سے حالت حیض میں تم روکے گئے تھے اب وہ جگہ تمہارے لئے حلال ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ پاخانہ کی جگہ وطی کرنا حرام ہے۔ اسکا مفصل بیان بھی آتا ہے انشاء اللہ۔

یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ پاکیزگی کی حالت میں آؤ جبکہ حیض سے نکل آئیں

اس لئے اس کے بعد کے جملہ میں ہے کہ

إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ (۲۲۲)

اللہ توبہ کرنے والوں کو اور پاک رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔‏

 گناہوں سے توبہ کرنے والوں، اس حالت میں جماع سے باز رہنے والوں، گندگیوں اور ناپاکیوں سے بچنے والوں، حیض کی حالت میں اپنی بیوی سے نہ ملنے والوں کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے۔

اسی طرح دوسری جگہ سے محفوظ رہنے والوں کو بھی پروردگار اپنا محبوب بنا لیتا ہے۔

نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ ۖ

تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں، اپنی کھیتوں میں جس طرح چاہو آؤ

پھر فرمایا کہ تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں یعنی اولاد ہونے کی جگہ تم اپنی کھیتی میں جیسے بھی چاہو آؤ یعنی جگہ تو وہی ایک ہو، طریقہ خواہ کوئی بھی ہو، سامنے کر کے یا اس کے خلاف۔

صحیح بخاری شریف میں ہے:

 یہود کہتے تھے کہ جب عورت سے مجامعت سامنے رخ کر کے نہ کی جائے اور حمل ٹھہر جائے تو بچہ بھینگا پیدا ہوتا ہے۔ انکی تردید میں یہ جملہ نازل ہوا کہ مرد کو اختیار ہے، ابن ابی حاتم میں ہے کہ یہودیوں نے یہی بات مسلمانوں سے بھی کہی تھی،

ابن جریح فرماتے ہیں کہ آیت کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار دیا کہ خواہ سامنے سے آئے خواہ پیچھے سے لیکن ایک ہی رہے۔

ایک اور حدیث میں ہے:

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے پوچھا کہ ہم اپنی عورتوں کے پاس کیسے آئیں اور کیا چھوڑیں؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ تیری کھیتی ہے جس طرح چاہو آؤ، ہاں اس کے منہ پر نہ مار، زیادہ برا نہ کہہ، اس سے روٹھ کر الگ نہ ہو جا، ایک ہی گھر میں رہ (احمد و سنن)

ابن ابی حاکم میں ہے کہ حمیر کے قبیلہ کے ایک آدمی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ے سوال کیا کہ مجھے اپنی بیویوں سے زیادہ محبت ہے تو اس کے بارے میں احکام مجھے بتائیے، اس پر یہ حکم نازل ہوا۔

 مسند احمد میں ہے کہ چند انصاریوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کیا تھا،

طحاوی کی کتاب مشکل الحدیث میں ہے ایک شخص نے اپنی بیوی سے الٹا کر کے مباشرت کی تھی، لوگوں نے اسے برا بھلا کہا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

ابن جریر میں ہے :

حضرت عبداللہ بن سابط حضرت حفصہ بن عبدالرحمٰن بن ابی بکر کے پاس آئے اور کہا میں ایک مسئلہ پوچھنا چاہتا ہوں لیکن شرم آتی ہے، فرمایا بھتیجے تم نہ شرماؤ اور جو پوچھنا ہو پوچھ لو، کہا فرمائیے عورتوں کے پیچھے کی طرف سے جماع کرنا جائز ہے؟

فرمایا سنو مجھ سے حضرت اُم سلمہ ؓنے فرمایا ہے کہ انصار عورتوں کو الٹا لٹایا کرتے تھے اور یہود کہتے تھے کہ اس طرح سے بچہ بھینگا ہوتا ہے، جب مہاجر مدینہ شریف آئے اور یہاں کی عورتوں سے ان کا نکاح ہوا اور انہوں نے بھی یہی کرنا چاہا تو ایک عورت نے اپنے خاوند کی بات نہ مانی اور کہا جب تک میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ واقعہ بیان نہ کر لوں تیری بات نہ مانوں گی

چنانچہ وہ بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوئی، اُم سلمہ نے بٹھایا اور کہا ابھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آجائیں گے، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو انصاریہ عورت شرمندگی کی وجہ سے نہ پوچھ سکی اور واپس چلی گئی لیکن اُم المؤمنین نے آپ سے پوچھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انصاریہ عورت کو بلا لو، پھر یہ آیت پڑھ کر سنائی اور فرمایا جگہ ایک ہی ہو،

مسند احمد میں ہے:

ایک مرتبہ عمر بن خطابؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں تو ہلاک ہو گیا،

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا بات ہے؟کہا، میں نے رات کو اپنی سواری الٹی کر دی،

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ جواب نہ دیا۔ اسی وقت یہ آیت نازل ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سامنے سے آ، پیچھے سے آ، اختیار ہے لیکن حیض کی حالت میں نہ آ اور پاخانہ کی جگہ نہ آ۔

 انصار والا واقعہ قدرے تفصیل کے ساتھ بھی مروی ہے اور اس میں یہ بھی ہے :

حضرت عبداللہ بن عمرؓ  کو اللہ بخشے، انہیں کچھ وہم سا ہو گیا۔ بات یہ ہے کہ انصاریوں کی جماعت پہلے بت پرست تھی اور یہودی اہل کتاب تھے۔ بت پرست لوگ ان کی فضیلت اور علمیت کے قائل تھے اور اکثر افعال میں ان کی بات مانا کرتے تھے۔ یہودی ایک ہی طرح پر اپنی بیویوں سے ملتے تھے۔ یہی عادت ان انصار کی بھی تھی۔ ان کے برخلاف مکہ والے کسی خاص طریقے کے پابند نہ تھے، وہ جس طرح جی چاہتا ملتے۔ اسلام کے بعد مکہ والے مہاجر بن کر مدینہ میں انصار کے ہاں جب اترے تو ایک مکی مجاہد مرد نے ایک مدنی انصاریہ عورت سے نکاح کیا اور اپنے من بھاتے طریقے برتنے چاہے، عورت نے انکار کر دیا اور صاف کہہ دیا کہ اسی ایک مقررہ طریقہ کے علاوہ اجازت نہیں دیتی۔

 بات بڑھتے بڑھتے حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی اور یہ فرمان نازل ہوا۔ پس سامنے سے پیچھے کی طرف سے اور جس طرح چاہے اختیار ہے ہاں جگہ ایک ہی ہو۔

حضرت مجاہد فرماتے ہیں میں نے حضرت ابن عباسؓ سے قرآن شریف سیکھا اول سے آخر تک انہیں سنایا، ایک ایک آیت کی تفسیر اور مطلب پوچھا۔ اس آیت پر پہنچ کر جب میں نے اس کا مطلب پوچھا تو انہوں نے یہی بیان کیا (جو اوپر گزرا)

ابن عمرؓ کا وہم یہ تھا کہ بعض روایتوں میں ہے کہ آپ قرآن پڑھتے ہوئے کسی سے بولتے چالتے نہ تھے لیکن ایک دن تلاوت کرتے ہوئے جب اس آیت تک پہنچے تو اپنے شاگرد حضرت نافع سے فرمایا جانتے ہو یہ آیت کس بارے میں نازل ہوئی؟ انہوں نے کہا نہیں، فرمایا یہ عورتوں کی دوسری جگہ کی وطی کے بارے میں اتری ہے۔

روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا ایک شخص نے اپنی بیوی سے پیچھے سے کیا تھا جس پر اس آیت میں رخصت نازل ہوئی

 لیکن ایک تو اس میں محدثین نے کچھ علت بھی بیان کی ہے، دوسرے اس کے معنی بھی یہی ہو سکتے ہیں کہ پیچھے کی طرف سے آگے کی جگہ میں کیا اور اوپر کی جو روایتیں ہیں وہ بھی سنداً صحیح نہیں بلکہ انہیں حضرت نافع سے مروی ہے کہ ان سے کہا گیا کہ کیا آپ یہ کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمرؓ نے وطی دبر کو جائز کیا ہے؟ تو فرمایا لوگ جھوٹ کہتے ہیں۔ پھر وہی انصاریہ عورت اور مہاجر والا واقعہ بیان کیا اور فرمایا حضرت عبداللہ تو اس آیت کا یہ مطلب ارشاد فرماتے تھے،

اس روایت کی اسناد بھی بالکل صحیح ہے اور اس کے خلاف سند صحیح نہیں، معنی مطلب بھی اور ہو سکتا ہے اور خود حضرت ابن عمر ؓسے اس کے خلاف بھی مروی ہے۔

 وہ روایتیں عنقریب بیان ہوں گی انشاء اللہ جن میں ہے کہ حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ نہ یہ مباح ہے نہ حلال بلکہ حرام ہے،

گہ یہ قول یعنی جواز بعض فقہاء مدینہ وغیرہ کی طرف بھی منسوب ہے اور بعض لوگوں نے تو اسے امام مالکؒ کی طرف بھی منسوب کیا ہے لیکن اکثر لوگ اس کا انکار کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ امام صاحب کا قول ہرگز یہ نہیں،

صحیح حدیثیں بکثرت اس فعل کی حرمت پر وارد ہیں۔

روایت میں ہے لوگو! شرم و حیا کرو اللہ تعالیٰ حق بات فرمانے سے شرم نہیں کرتا۔ عورت کے پاخانہ کی جگہ وطی نہ کرو۔

دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے اس حرکت سے لوگوں کو منع فرمایا  (مسند احمد)

اور روایت میں ہے کہ جو شخص کسی عورت یا مرد کے ساتھ یہ کام کرے اس کی طرف اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نہیں دیکھے گا  (ترمذی)

حضرت ابن عباسؓ سے ایک شخص یہ مسئلہ پوچھتا ہے تو آپ فرماتے ہیں کہ کیا تو کفر کرنے کی بابت سوال کرتا ہے؟

 ایک شخص نے آپ سے آکر کہا کہ میں نے أَنَّى شِئْتُمْ کا یہ مطلب سمجھا اور میں نے اس پر عمل کیا تو آپ ناراض ہوئے اور اسے برا بھلا کہا اور فرمایا کہ مطلب یہ ہے کہ خواہ کھڑے ہو کر، خواہ بیٹھ کر چت خواہ پٹ لیکن جگہ وہی ایک ہو،

 ایک اور مرفوع حدیث میں ہے کہ جو شخص اپنی بیوی سے پاخانہ کی جگہ وطی کرے وہ چھوٹا لوطی ہے (مسند احمد)

ابودرداءؓ فرماتے ہیں کہ یہ کفار کا کام ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کا یہ فرمان بھی منقول ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے واللہ اعلم۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 سات قسم کے لوگ ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور ان سے فرمائے گا کہ جہنمیوں کے ساتھ جہنم میں چلے جاؤ۔

-  ایک تو اغلام بازی کرنے والا خواہ وہ اوپر والا (فاعلی)ہو خواہ نیچے والا(مفعولی)  ہو،

-  اور اپنے ہاتھ سے مشت زنی کرنے والا،

-  اور چوپائے جانور سے یہ کام کرنے والا

- اور عورت کی دبر میں وطی کرنے والا

- اور عورت اور اس کی بیٹی دونوں سے نکاح کرنے والا

-  اور اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرنے والا

-  اور ہمسایہ کو ستانے والا، یہاں تک کہ وہ اس پر لعنت کرے،

 لیکن اس کی سند میں ابن لہیعہ اور ان کے استاد دونوں ضعیف ہیں،

 مسند کی ایک اور حدیث میں ہے:

جو شخص اپنی بیوی سے دوسرے راستے وطی کرے اسے اللہ تعالیٰ نظرِ رحمت سے نہیں دیکھے گا  (مسند)

مسند احمد اور سنن میں مروی ہے:

 جو شخص حائضہ عورت سے جماع کرے یا غیر جگہ کرے یا کاہن کے پاس جائے اور اسے سچا سمجھے، اس نے اس چیز کے ساتھ کفر کیا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر اتری ہے۔

 امام ترمذی فرماتے ہیں کہ امام بخاری اس حدیث کو ضعیف بتاتے ہیں،

 ترمذی میں روایت ہے کہ ابوسلمہؓ بھی دبر کی وطی کو حرام بتاتے تھے،

حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں لوگوں کا اپنی بیوی سے یہ کام کرنا کفر ہے (نسائی)

ایک مرفوع حدیث میں اس معنی کی مروی ہے لیکن زیادہ صحیح اس کا موقوف ہونا ہی ہے،

 اور روایت میں ہے کہ یہ جگہ حرام ہے۔

حضرت ابن مسعودؓ بھی یہی فرماتے ہیں،

حضرت علیؓ سے جب یہ بات پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا بڑا کمینہ وہ شخص ہے، دیکھو قرآن میں ہے کہ لوطیوں سے کہا گیا تم وہ بدکاری کرتے ہو جس کی طرف کسی نے تم سے پہلے توجہ نہیں کی،

پس صحیح احادیث اور صحابہ کرام سے بہت سی روایتوں اور سندوں سے اس فعل کی حرمت مروی ہے۔

یہ بھی یاد رہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓبھی اسے حرام کہتے ہیں۔ چنانچہ دارمی میں ہے کہ آپ سے ایک مرتبہ یہ سوال ہوا تو آپ نے فرمایا کیا مسلمان بھی ایسا کر سکتا ہے؟

 اس کی اسناد صحیح ہے اور حکم بھی حرمت کا صاف ہے، پس غیر صحیح اور مختلف معنی والی روایتوں میں پڑ کر اتنے جلیل القدر صحابی کی طرف ایک ایسا گندا مسئلہ منسوب کرنا ٹھیک نہیں۔ گو کہ روایتیں اس قسم کی بھی ملتی ہیں،رہے  امام مالک تو ان کی طرف بھی اس مسئلہ کی نسبت صحیح نہیں بلکہ معمر بن عیسیٰ فرماتے ہیں کہ امام صاحب اسے حرام جانتے تھے،

اسرائیل بن روح نے آپ سے ایک مرتبہ یہی سوال کیا تو آپ نے فرمایا تم بےسمجھ ہو، بوائی کھیت میں ہی ہوتی ہے، خبردار شرم گاہ کے سوا اور جگہ سے بچو۔

 سائل نے کہا لوگ تو کہتے ہیں کہ آپ اس فعل کو جائز کہتے ہیں۔آپ نے فرمایا جھوٹے ہیں مجھ پر تہمت باندھتے ہیں۔

 امام مالک سے اس کی حرمت ثابت ہے۔ امام ابوحنیفہ، شافعی، احمد اور ان کے تمام شاگردوں اور ساتھی، سعید بن مسیب، ابوسلمہ، عکرمہ، عطاء، سعید بن جبیر، عروہ بن زبیر، مجاہد، حسن وغیرہ سلف صالحین سب کے سب اسے حرام کہتے ہیں اور اس بارے میں سخت تشدد کرتے ہیں بلکہ بعض تو اسے کفر کہتے ہیں، جمہور علماء کرام کا بھی اس کی حرمت پر اجماع ہے، گو بعض لوگوں نے فقہاء مدینہ بلکہ امام مالک سے بھی اس کی حلت نقل کی ہے لیکن یہ صحیح نہیں۔

عبدالرحمٰن بن قاسم کا قول ہے کہ کسی دیندار شخص کو میں نے تو اس کی حرمت میں شک کرنے والا نہیں پایا، پھر آیت  نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ (۲:۲۲۳)  پڑھ کر فرمایا خود یہ لفظ حَرْثٌ ہی اس کی حرمت ظاہر کرنے کیلئے کافی ہے کیونکہ وہ دوسری جگہ کھیتی کی جگہ نہیں، کھیتی میں جانے کے طریقہ کا اختیار ہے نہ کہ جگہ بدلنے کا۔

عبدالرحمٰن بن قاسم کا قول ہے کہ کسی دیندار شخص کو میں نے تو اس کی حرمت میں شک کرنے والا نہیں پایا، پھر آیت  نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ (۲:۲۲۳)  پڑھ کر فرمایا خود یہ لفظ حَرْثٌ ہی اس کی حرمت ظاہر کرنے کیلئے کافی ہے کیونکہ وہ دوسری جگہ کھیتی کی جگہ نہیں، کھیتی میں جانے کے طریقہ کا اختیار ہے نہ کہ جگہ بدلنے کا۔

گو امام مالک سے اس کے مباح ہونے کی روایتیں بھی منقول ہیں لیکن ان کی اسنادوں میں سخت ضعف ہے۔ واللہ اعلم۔

ٹھیک اس طرح امام شافعیؒ سے بھی ایک روایت لوگوں نے گھڑ لی ہے حالانکہ انہوں نے اپنی چھ کتابوں میں کھلے لفظوں اسے حرام لکھا ہے۔

وَقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ ۚ

اور اپنے لئے (نیک اعمال) آگے بھیجو

پھر اللہ فرماتا ہے اپنے لئے کچھ آگے بھی بھیجو یعنی ممنوعات سے بچو نیکیاں کرو تاکہ ثواب آگے جائے،

وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلَاقُوهُ ۗ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ (۲۲۳)

 اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو اور جان رکھو کہ تم اس سے ملنے والے ہو اور ایمان والوں کو خوشخبری دیجئے۔‏

 اللہ سے ڈرو اس سے ملنا ہے وہ حساب کتاب لے گا، ایماندر ہر حال میں خوشیاں منائیں،

ابن عباسؓ فرماتے ہیں یہ بھی مطلب ہے کہ جب جماع کا ارادہ کرے۔ یہ دعا پڑھے:

بِاسْمِ اللهِ، اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ وَجَنِّبِ الشَّيْطَانَ

اے اللہ تو ہمیں اور ہماری اولاد کو شیطان سے بچا لے

نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اگر اس جماع سے نطفہ قرار پکڑ گیا تو اس بچے کو شیطان ہرگز کوئی ضرر نہ پہنچا سکے گا۔

وَلَا تَجْعَلُوا اللَّهَ عُرْضَةً لِأَيْمَانِكُمْ أَنْ تَبَرُّوا وَتَتَّقُوا وَتُصْلِحُوا بَيْنَ النَّاسِ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (۲۲۴)

اور اللہ تعالیٰ کو اپنی قسموں کا (اس طرح) نشانہ نہ بناؤ کہ بھلائی اور پرہیزگاری اور لوگوں کے درمیان کی اصلاح کو چھوڑ بیٹھو اور اللہ تعالیٰ سننے والا اور جاننے والا ہے۔‏

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نیکی اور صلہ رحمی کے چھوڑنے کا ذریعہ اللہ کی قسموں کو نہ بناؤ، جیسے اور جگہ ہے:

وَلاَ يَأْتَلِ أُوْلُواْ الْفَضْلِ مِنكُمْ ۔۔۔ أَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ (۲۴:۲۲)

 تم میں سے جو برزگی اور کشادگی والے ہیں انہیں اپنے قرابت داروں اور مسکینوں اور مہاجروں کو فی سبیل اللہ دینے سے قسم نہ کھالینی چاہیئے۔بلکہ معاف کر دینا اور درگزر کر لینا چاہیے۔

کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے قصور معاف فرما دے؟

اگر کوئی ایسی قسم کھا بیٹھے تو اسے چاہئے کہ اسے توڑ دے اور کفارہ ادا کر دے،صحیح بخاری شریف کی حدیث میں ہے:

 ہم پیچھے آنے والے ہیں لیکن قیامت کے دن سب سے آگے بڑھنے والے ہیں،

فرماتے ہیں :

 تم میں سے کوئی ایسی قسم کھا لے اور کفارہ ادا نہ کرے اور اس پر اَڑا رہے وہ بڑا گنہگار ہے،

یہ حدیث اور بھی بہت سی سندوں اور بہت سی کتابوں میں مروی ہے۔

عبداللہ بن عباس ؓبھی اس آیت کی تفسیر میں یہی فرماتے ہیں۔ مسروق اور بہت سے مفسرین سے بھی یہی مروی ہے،

 جمہور کے ان اقوال کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :

 اللہ کی قسم انشاء اللہ میں اگر کوئی قسم کھا بیٹھوں گا اور اس کے توڑنے میں مجھے بھلائی نظر آئے گی تو میں قطعاً اسے توڑ دوں گا اور اس قسم کا کفارہ ادا کروں گا،

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ حضرت عبدالرحمٰن بن سمرہ سے فرمایا:

 اے عبدالرحمٰن سرداری امارت اور امامت کو طلب نہ کر اگر بغیر مانگے تو دیا جائے گا تو اللہ کی جانب سے تیری مدد کی جائے گی اور اگر تو نے آپ مانگ کر لی ہے تو تجھے اس کی طرف سونپ دیا جائے گا

تو اگر کوئی قسم کھا لے اور اس کے خلاف بھی بھلائی دیکھ لے تو اپنی قسم کا کفارہ دے دے اور اس نیک کام کو کر لے (بخاری و مسلم)

صحیح مسلم میں حدیث ہے:

 جو شخص کوئی قسم کھا لے پھر اس کے سوا خوبی نظر آئے تو اسے چاہئے کہ اس خوبی والے کام کو کرلے اور اپنی اس قسم کو توڑ دے اس کا کفارہ دے دے،

مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ اس کا چھوڑ دینا ہی اس کا کفارہ ہے۔

ابوداؤد میں ہے:

 نذر اور قسم اس چیز میں نہیں جو انسان کی ملکیت میں نہ ہو اور نہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں ہی ہے نہ رشتوں ناتوں کو توڑتی ہے جو شخص کوئی قسم کھا لے اور نیکی اس کے کرنے میں ہو تو وہ قسم کو چھوڑ دے اور نیکی کا کام کرے، اس قسم کو چھوڑ دینا ہی اس کا کفارہ ہے۔

 امام ابوداؤد فرماتے ہیں تمام صحیح احادیث میں یہ لفظ ہیں کہ اپنی ایسی قسم کا کفارہ دے،

 ایک ضعیف حدیث میں ہے کہ ایسی قسم کا پورا کرنا یہی ہے کہ اسے توڑ دے اور اس سے رجوع کرے،

ابن عباس سعید بن مسیب مسروق اور شعبی بھی اسی کے قائل ہیں کہ ایسے شخص کے ذمہ کفارہ نہیں۔

لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ

اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری ان قسموں پر نہ پکڑے گا جو پختہ نہ ہوں

پھر فرماتا ہے جو قسمیں تمہارے منہ سے بغیر قصداً اور ارادے کے عادتاً نکل جائیں ان پر پکڑ نہیں۔

 مسلم بخاری کی حدیث میں ہے:

 جو شخص لات اور عزیٰ کی قسم کھا بیٹھے وہ آیت لا الہ الا اللہ پڑھ لے۔

یہ ارشاد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ان لوگوں کو ہوا تھا جو ابھی ابھی اسلام لائے تھے اور جاہلیت کے زمانہ کی یہ قسمیں ان کی زبانوں پر چڑھی ہوئی تھیں تو ان سے فرمایا کہ اگر عادتاً کبھی ایسے شرکیہ الفاظ نکل جائیں تو فوراً کلمہ توحید پڑھ لیا کرو تاکہ بدلہ ہو جائے۔

وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ ۗ

 ہاں اس کی پکڑ اس چیز پر ہے جو تمہارے دلوں کا فعل ہو،

پھر فرمایا ہاں جو قسمیں پختگی کے ساتھ دِل کی ارادت کے ساتھ قصداً کھائی جائیں ان پر پکڑ ہے۔

 دوسری آیت کے لفظ بِمَا عَقَّدتُّمُ الاٌّيْمَـنَ (۵:۸۹) ہیں،

 ابوداؤد میں بروایت حضرت عائشہؓ ایک مرفوع حدیث مروی ہے جو اور روایتوں میں موقوف وارد ہوئی ہے کہ یہ لغو قسمیں وہ ہیں جو انسان اپنے گھر بار میں بال بچوں میں کہہ دیا کرتا ہے کہ ہاں اللہ کی قسم اور انہیں اللہ کی قسم، غرض بطور تکیہ کلام کے یہ لفظ نکل جاتے ہیں دِل میں اس کی پختگی کا خیال بھی نہیں ہوتا،

حضرت عائشہؓ سے یہ بھی مروی ہے:

 یہ وہ  قسمیں ہیں جو ہنسی ہنسی میں انسان کے منہ سے نکل جاتی ہیں، ان پر کفارہ نہیں، ہاں جو ارادے کے ساتھ قسم ہو پھر اس کا خلاف کرے تو کفارہ ادا کرنا پڑے گا،

آپ کے علاوہ اور بھی بعض صحابہ اور تابعین نے یہی تفسیر اس آیت کی بیان کی ہے،

یہ بھی مروی ہے کہ ایک آدمی اپنی تحقیق پر بھروسہ کر کے کسی معاملہ کی نسبت قسم کھا بیٹھے اور حقیقت میں وہ معاملہ یوں نہ ہو تو یہ قسمیں لغو ہیں،یہ معنی بھی دیگر بہت سے حضرات سے مروی ہیں،

 ایک حسن حدیث میں ہے جو مرسل ہے:

 ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیر اندازوں کی ایک جماعت کے پاس جا کھڑے ہوئے، وہ تیر اندازی کر رہے تھے اور ایک شخص کبھی کہتا اللہ کی قسم اس کا تیر نشانے پر لگے گا، کبھی کہتا اللہ کی قسم یہ خطا کرے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی نے کہا دیکھئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اگر اس کی قسم کے خلاف ہو؟

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ دو قسمیں لغو ہیں ان پر کفارہ نہیں اور نہ کوئی سزا یا عذاب ہے،

 بعض بزرگوں نے فرمایا ہے:

 یہ وہ قسمیں ہیں جو انسان کھا لیتا ہے پھر خیال نہیں رہتا، یا کوئی شخص اپنے کسی کام کے نہ کرنے پر کوئی بد دعا کے کلمات اپنی زبان سے نکال دیتا ہے، وہ بھی لغو میں داخل ہیں یا غصے اور غضب کی حالت میں بےساختہ زبان سے قسم نکل جائے یا حلال کو حرام یا حرام کو حلال کر لے تو اسے چاہئے کہ ان قسموں کی پروا نہ کرے اور اللہ کے احکام کےخلاف نہ کرے،

حضرت سعید بن مسیب سے مروی ہے:

 انصار کے دو شخص جو آپس میں بھائی بھائی تھے ان کے درمیان کچھ میراث کا مال تھا تو ایک نے دوسرے سے کہا اب اس مال کو تقسیم کر دو، دوسرے نے کہا اگر اب تو نے تقسیم کرنے کیلئے کہا تو میرا مال کعبہ کا خزانہ ہے۔

 حضرت عمر ؓنے یہ واقع سن کر فرمایا کہ کعبہ ایسے مال سے غنی ہے، اپنی قسم کا کفارہ دے اور اپنے بھائی سے بول چال رکھ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی رشتے ناتوں کے توڑنے اور جس چیز کی ملکیت نہ ہو ان کے بارے میں قسم اور نذر نہیں۔

پھر فرماتا ہے تمہارے دِل جو کریں اس پر گرفت ہے یعنی اپنے جھوٹ کا علم ہو اور پھر قسم کھائے جیسے اور جگہ ہے:

وَلَـكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الاٌّيْمَـنَ (۵:۸۹)

لیکن مؤاخذہ اس پر فرماتا ہے کہ تم جن قسموں کو مضبوط کر دو

وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ (۲۲۵)

اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور بردبار ہے۔‏

اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بخشنے والا ہے اور ان پر علم و کرم کرنے والا ہے۔

لِلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِنْ نِسَائِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ ۖ

جو لوگ اپنی بیویوں سے (تعلق نہ رکھنے کی) قسمیں کھائیں، ان کی چار مہینے کی مدت ہے

ایلاء کہتے ہیں قسم کو۔ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے مجامعت نہ کرنے کی ایک مدت تک کیلئے قسم کھا لے تو دو صورتیں ہیں، یا وہ مدت چار مہینے سے کم ہو گی یا زیادہ ہوگی، اگر کم ہو گی تو وہ مدت پوری کرے اور اس درمیان عورت بھی صبر کرے، اس سے مطالبہ اور سوال نہیں کر سکتی، پھر میاں بیوی آپس میں ملیں جلیں گے،جیسے کہ بخاری ، مسلم کی حدیث میں ہے:

 نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ماہ کیلئے قسم کھا لی تھی اور انتیس دن پورے الگ رہے اور فرمایا کہ مہینہ انتیس کا بھی ہوتا ہے

اور اگر چار مہینے سے زائد کی مدت کیلئے قسم کھائی ہو تو چار ماہ بعد عورت کو حق حاصل ہے کہ وہ تقاضا اور مطالبہ کرے کہ یا تو وہ میل ملاپ کر لے یا طلاق دے دے، اور اس خاوند کا حکم ان دو باتوں میں سے ایک کے کرنے پر مجبور کرے گا تاکہ عورت کو ضرر نہ پہنچے۔

یہی بیان یہاں ہو رہا ہے کہ جو لوگ اپنی بیویوں سے ایلاء کریں یعنی ان سے مجامعت نہ کرنے کی قسم کھائیں، اس سے معلوم ہوا کہ یہ ایلاء خاص بیویوں کیلئے ہے، لونڈیوں کیلئے نہیں۔

یہی مذہب جمہور علماء کرام کا ہے، یہ لوگ چار مہینہ تک آزاد ہیں، اس کے بعد انہیں مجبور کیا جائے گا کہ یا تو وہ اپنی بیویوں سے مل لیں یا طلاق دے دیں، یہ نہیں کہ اب بھی وہ اسی طرح چھوڑے رہیں،

فَإِنْ فَاءُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (۲۲۶)

پھر اگر وہ لوٹ آئیں تو اللہ تعالیٰ بھی بخشنے والا مہربان ہے۔‏

پھر اگر وہ لوٹ آئیں یہ اشارہ جماع کرنے کا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی بخش دے گا اور جو تقصیر عورت کے حق میں ان سے ہوئی ہے اسے اپنی مہربانی سے معاف فرما دے گا،

اس میں دلیل ہے ان علماء کی جو کہتے ہیں کہ اس صورت میں خاوند کے ذمہ کفارہ کچھ بھی نہیں۔

 امام شافعی کا بھی پہلا قول یہی ہے، اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو اگلی آیت کی تفسیر میں گزر چکی کہ قسم کھانے والا اگر اپنی قسم توڑ ڈالنے میں نیکی دیکھتا ہو تو توڑ ڈالے، یہی اس کا کفارہ ہے،

 اور علماء کرام کی ایک دوسری جماعت کا یہ مذہب ہے کہ اسے قسم کا کفارہ دینا پڑے گا۔

 اس کی حدیثیں بھی اوپر گزر چکی ہیں اور جمہور کا مذہب بھی یہی ہے، واللہ اعلم۔

وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَإِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (۲۲۷)

اور اگر طلاق کا ہی قصد کرلیں تو اللہ تعالیٰ سننے والا جاننے والا ہے‏

پھر فرمان ہے کہ اگر چار مہینے گزر جانے کے بعد وہ طلاق دینے کا قصد کرے،

 اس سے ثابت ہوتا ہے کہ چار مہینے گزرتے ہیں طلاق نہیں ہو گی۔ جمہور متاخرین کا یہی مذہب ہے، گو ایک دوسری جماعت یہ بھی کہتی ہے کہ بلا جماع چار ماہ گزرنے کے بعد طلاق ہو جائے گی۔

عمر ؓ، عثمانؓ ، علیؓ ، ابن مسعودؓ ، ابن عباسؓ، ابن عمر ؓ، زید بن ثابتؓ اور بعض تابعین سے بھی یہی مروی ہے

لیکن یاد رہے کہ راجح قول اور قرآن کریم کے الفاظ اور صحیح حدیث سے ثابت شدہ قول یہی ہے کہ طلاق واقع نہ ہوگی (مترجم)

پھر بعض تو یہ کہتے ہیں یہ طلاق رجعی ہو گ’ بعض کہتے ہیں بائن ہوگی،

جو لوگ طلاق طلاق واقع ہونے  کے قائل ہیں وہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد اسے عدت بھی گزارنی پڑے گی۔ ہاں ابن عباسؓ اور ابوالشعثاء فرماتے ہیں کہ اگر ان چار مہینوں میں اس عورت کو تین حیض آ گئے ہیں تو اس پر عدت بھی نہیں۔

 امام شافعیؒ  کا بھی قول یہی ہے لیکن جمہور متاخرین علماء کا فرمان یہی ہے کہ اس مدت کے گزرتے ہیں طلاق واقع نہ ہوگی بلکہ اب ایلاء کرنے والے کو مجبور کیا جائے گا کہ یا تو وہ اپنی قسم کو توڑے یا طلاق دے دے۔موطا مالک میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے یہی مروی ہے۔

صحیح بخاری میں بھی یہ روایت موجود ہے،

امام شافعیؒ اپنی سند سے حضرت سلیمان بن یسار سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے دس سے اوپر صحابیوں سے سنا کہ وہ کہتے تھے چار ماہ کے بعد ایلاء کرنے والے کو کھڑا کیا گیا تو کم سے کم یہ تیرہ صحابی ہو گئے۔

حضرت علیؓ سے بھی یہی منقول ہے۔

 امام شافعیؒ فرماتے ہیں یہی ہمارا مذہب ہے اور یہی حضرت عمر ؓ، حضرت ابن عمرؓ ، حضرت عثمان بن زید بن ثابتؓ اور دس سے اوپر اوپر دوسرے صحابہ کرامؓ سے مروی ہے،

دارقطنی میں ہے ابوصالح فرماتے ہیں میں نے بارہ صحابیوں سے اس مسئلہ کو پوچھا، سب نے یہی جواب عنایت فرمایا،

حضرت عمر ؓ، حضرت عثمانؓ ، حضرت علیؓ ، حضرت ابودرداءؓ ، حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہؓ ، حضرت ابن عمر ؓ، حضرت ابن عباسؓ ، بھی یہی فرماتے ہیں اور تابعین میں سے حضرت سعید بن مسیب، حضرت عمر بن عبدالعزیز ، حضرت مجاہد ، حضرت طاؤس ، حضرت محمد بن کعب ، حضرت قاسم رحمتہ اللہ علیہ اجمعین کا بھی یہی قول ہے

اور حضرت امام مالک ، حضرت امام شافعی ، حضرت امام احمد اور ان کے ساتھیوں کا بھی یہی مذہب ہے۔

 امام بن جریر بھی اسی قول کو پسند کرتے ہیں۔ لیث، اسحق بن راھویہ، ابوعبید، ابوثور، داؤد وغیرہ بھی یہی فرماتے ہیں۔

 یہ سب حضرات فرماتے ہیں کہ اگر چار ماہ کے بعد رجوع نہ کرے تو اسے طلاق دینے پر مجبور کیا جائے گا۔

اگر طلاق نہ دے تو حاکم خود اس کی طرف سے طلاق دے دے گا مگر یہ طلاق رجعی ہوگی، عدت کے اندر رجعت کا حق خاوند کو حاصل ہے،ہاں صرف امام مالکؒ فرماتے ہیں کہ اسے رجعت جائز نہیں یہاں تک کہ عدت میں جماع کرے

لیکن یہ قول نہایت غریب ہے۔

یہاں جو چار مہینے کی تاخیر کی اجازت دی ہے اس کی مناسبت میں موطا امام مالک میں حضرت عبداللہ بن دینار کی روایت سے حضرت عمر ؓکا ایک واقعہ عموماً فقہاء کرام ذِکر کرتے ہیں،

جو یہ ہے:

 حضرت عمر راتوں کو مدینہ شریف کی گلیوں میں گشت لگاتے رہتے۔ ایک رات کو نکلے تو آپ نے سنا کہ ایک عورت اپنے سفر میں گئے ہوئے خاوند کی یاد میں کچھ اشعار پڑھ رہی ہے جن کا ترجمہ یہ ہے

افسوس ان کالی کالی اور لمبی راتوں میں میرا خاوند نہیں ہے جس سے میں ہنسوں، بولوں۔

 قسم اللہ کی اگر اللہ کا خوف نہ ہوتا تو اس وقت اس پلنگ کے پائے حرکت میں ہوتے۔

آپ اپنی صاحبزادی ام المؤمنین حضرت حفصہ ؓکے پاس آئے اور فرمایا بتاؤ زیادہ سے زیادہ عورت اپنے خاوند کی جدائی پر کتنی مدت صبر کر سکتی ہے؟

فرمایا چھ مہینے یا چار مہینے۔

آپ نے فرمایا اب میں حکم جاری کردوں گا کہ مسلمان مجاہد سفر میں اس سے زیادہ نہ ٹھہریں۔

 بعض روایتوں میں کچھ زیادتی بھی ہے اور اس کی بہت سی سندیں ہیں اور یہ واقعہ مشہور ہے۔

وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ ۚ

طلاق والی عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں

ان عورتوں کو جو خاوندوں سے مل چکی ہوں اور بالغہ ہوں، حکم ہو رہا ہے کہ طلاق کے بعد تین حیض تک رُکی رہیں پھر اگر چاہیں تو اپنا نکاح دوسرا کر سکتی ہیں،

ہاں چاروں اماموں نے اس میں لونڈی کو مخصوص کر دیا ہے وہ دو حیض عدت گزارے کیونکہ لونڈی ان معاملات میں آزاد عورت سے آدھے پر ہے لیکن حیض کی مدت کا ادھورا ٹھیک نہیں بیٹھتا، اس لئے وہ دو حیض گزارے۔

 ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ لونڈی کی طلاقیں بھی دو ہیں اور اس کی عدت بھی دو حیض ہیں۔ (ابن جریر)

لیکن اس کے راوی حضرت مظاہر ضعیف ہیں، یہ حدیث ترمذی، ابوداؤد اور ابن ماجہ بھی ہے۔

امام حافظ دارقطنی فرماتے ہیں گو اس کی نسبت بھی امام دارقطنی یہی فرماتے ہیں کہ یہ حضرت عبداللہ کا اپنا قول ہی ہے۔ اسی طرح خود خلیفۃ المسلمین حضرت فاروق اعظمؓ سے مروی ہے، بلکہ صحابہ میں اس مسئلہ میں اختلاف ہی نہ تھا، ہاں بعض سلف سے یہ بھی مروی ہے کہ عدت کے بارے میں آزاد اور لونڈی برابر ہے، کیونکہ آیت اپنی عمومیت کے لحاظ سے دونوں کو شامل ہے اور اس لئے بھی کہ یہ فطری امر ہے لونڈی اور آزاد عورت اس میں یکساں ہیں۔

محمد بن سیرین اور بعض اہل ظاہر کا یہی قول ہے لیکن یہ ضعیف ہے۔

 ابن ابی حاتم کی ایک غریب سند والی روایت میں ہے :

حضرت اسماء بن یزید بن سکن انصاریہ کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے، اس سے پہلے طلاق کی عدت نہ تھی۔ سب سے پہلے عدت کا حکم ان ہی کی طلاق کے بعد نازل ہوا۔

 قُرُوءٍ کے معنی میں سلف خلف کا برابر اختلاف رہا ہے۔ ایک قول تو یہ ہے کہ اس سے مراد طہر یعنی پاکی ہے۔

حضرت عائشہؓ کا یہی فرمان ہے چنانچہ انہوں نے اپنی بھتیجی حضرت عبدالرحمٰن کی بیٹی حفصہ کو جبکہ وہ تین طہر گزار چکیں اور تیسرا حیض شروع ہوا تو حکم دیا کہ وہ مکان بدل لیں۔

حضرت عروہ نے جب یہ روایت بیان کی تو حضرت عمرہ نے جو صدیقہؓ کی دوسری بھتیجی ہیں، اس واقعہ کی تصدیق کی اور فرمایا کہ لوگوں نے حضرت صدیقہؓ پر اعتراض بھی کیا تو آپ نے فرمایا  قُرُوءٍ سے مراد طہر ہیں (موطا مالک)

بلکہ موطا میں ابوبکر بن عبدالرحمٰن کا تو یہ قول بھی مروی ہے کہ میں نے سمجھدار علماء فقہاء کو قُرُوءٍ کی تفسیر طہر سے ہی کرتے سنا ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمر ؓبھی یہی فرماتے ہیں کہ جب تیسرا حیض شروع ہوا تو یہ اپنے خاوند سے بری ہو گی اور خاوند اس سے الگ ہوا (موطا)

امام مالک فرماتے ہیں ہمارے نزدیک بھی مستحق امر یہی ہے۔

ابن عباسؓ، زید بن ثابت، سالم، قاسم، عروہ، سلیمان بن یسار، ابوبکر بن عبدالرحمٰن، ابان بن عثمان، عطاء، قتادہ، زہری اور باقی ساتوں فقہاء کا بھی یہی قول ہے۔امام مالک ، امام شافعی کا بھی یہی مذہب ہے۔داؤد اور ابوثور بھی یہی فرماتے ہیں۔

 امام احمد سے بھی ایک روایت اسی طرح کی مروی ہے اس کی دلیل ان بزرگوں نے قرآن کی اس آیت سے بھی نکالی ہے کہ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ (۶۵:۱) یعنی انہیں عدت میں یعنی طہر میں پاکیزگی کی حالت میں طلاق دو،

چونکہ جس طہر میں طلاق دی جاتی ہے وہ بھی گنتی میں آتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ آیت مندرجہ بالا میں بھی قروء سے مراد حیض کے سوا کی یعنی پاکی حالت ہے، اسی لئے یہ حضرات فرماتے ہیں کہ جہاں تیسرا حیض شروع ہو اور عورت نے اپنے خاوند کی عدت سے باہر ہو گئی اور اس کی کم سے کم مدت جس میں اگر عورت کہے کہ اسے تیسرا حیض شروع ہو گیا ہے تو اسے سچا سمجھا جائے۔ بتیس دن اور دو لحظہ ہیں،

عرب شاعروں کے شعر میں بھی یہ لفظ طہر کے معنی میں مستعمل ہوا ہے۔

دوسرا قول ہے کہ اس سے مراد تین حیض ہیں، اور جب تک تیسرے حیض سے پاک نہ ہو لے تب تک وہ عدت ہی میں ہے۔بعض نے غسل کر لینے تک کہا ہے اور اس کی کم سے کم مدت تینتیس دن اور ایک لحظہ ہے اس کی دلیل میں ایک تو حضرت عمر فاروقؓ کا یہ فیصلہ ہے:

ان کے پاس ایک مطلقہ عورت آئی اور کہا کہ میرے خاوند نے مجھے ایک یا دو طلاقیں دی تھیں پھر وہ میرے پاس اس وقت آیا جبکہ اپنے کپڑے اتار کر دروازہ بند کئے ہوئے تھی (یعنی تیسرے حیض سے نہانے کی تیاری میں تھی تو فرمائیے کیا حکم ہے یعنی رجوع ہو جائے گا یا نہیں؟ )

آپ نے فرمایا میرا خیال تو یہی ہے رجوع ہو گیا۔

 حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے اس کی تائید کی۔

حضرت صدیق اکبر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت ابودرداء، حضرت عبادہ بن صامت، حضرت انس بن مالک، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت معاذ، حضرت ابی بن کعب، حضرت ابوموسیٰ اشعری، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی یہی مروی ہے۔

سعید بن مسیب، علقمہ، اسود، ابراہیم، مجاہد، عطاء، طاؤس، سعید بن جبیر، عکرمہ، محمد بن سیرین، حسن، قتاوہ، شعبی، ربیع، مقاتل بن حیات، سدی، مکحول، ضحاک، عطاء خراسانی بھی یہی فرماتے ہیں۔ امام ابوحنیفہؒ اور ان کے اصحاب کا بھی یہی مذہب ہے۔

امام احمدؒ سے بھی زیادہ صحیح روایت میں یہی مروی ہے آپ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺکے بڑے بڑے صحابہ کرام سے یہی مروی ہے۔

 ثوری، اوزاعی، ابن ابی لیلی، ابن شیرمہ، حسن بن صالح، ابوعبید اور اسحق بن راہویہ کا قول بھی یہی ہے۔

 ایک حدیث میں بھی ہے کہ نبی ﷺ ے حضرت فاطمہ بن ابی جیش سے فرمایا تھا نماز کو اقراء کے دِنوں میں چھوڑ دو۔

پس معلوم ہوا کہ قروء سے مراد حیض ہے

 لیکن اس حدیث کا ایک راوی منذر مجہول ہے جو مشہور نہیں۔ ہاں ابن حبان اسے ثقہ بتاتے ہیں۔

 امام ابن جریر فرماتے ہیں لغتاً قرء کہتے ہیں ہر اس چیز کے آنے اور جانے کے وقت کو جس کے آنے جانے کا وقت مقرر ہو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس لفظ کے دونوں معنی ہیں حیض کے بھی اور طہر کے بھی اور بعض اصولی حضرات کا یہی مسلک ہے واللہ اعلم۔

اصمعی بھی فرماتے ہیں کہ قرء کہتے ہیں وقت کوابو عمر بن علاء کہتے ہیں عرب میں حیض کو اور طہر کو دونوں کو قرء کہتے ہیں۔

ابوعمر بن عبدالبر کا قول ہے کہ زبان عرب کے ماہر اور فقہاء کا اس میں اختلاف ہی نہیں کہ طہر اور حیض دونوں کے معنی قرء کے ہیں البتہ اس آیت کے معنی مقرر کرنے میں ایک جماعت اس طرف گئی اور دوسری اس طرف۔

 مترجم کی تحقیق میں بھی قرء سے مراد یہاں حیض لینا ہی بہتر ہے)

وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ أَنْ يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ إِنْ كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ

انہیں حلال نہیں کہ اللہ نے ان کے رحم میں جو پیدا کیا ہو چھپائیں اگر انہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہو،

پھر فرمایا ان کے رحم میں جو ہوا اس کا چھپانا حلال نہیں حمل ہو تو اور حیض آئے تو۔

پھر فرمایا اگر انہیں اللہ اور قیامت پر ایمان ہو،

 اس میں دھمکایا جا رہا ہے کہ حق کیخلاف نہ کہیں اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس خبر میں ان کی بات کا اعتبار کیا جائے گا کیونکہ اس پر کوئی بیرونی شہادت قائم نہیں کی جا سکتی اس لئے انہیں خبردار کر دیا گیا کہ عدت سے جلد نکل جانے کیلئے (حیض نہ آیا ہو) اور کہہ نہ دیں کہ انہیں حیض آ گیا یا عدت کو بڑھانے کیلئے (حیض) آیا مگر اسے چھپا نہ لیں اسی طرح حمل کی بھی خبر کر دیں۔

وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا ۚ

 ان کے خاوند اس مدت میں انہیں لوٹا لینے کے پورے حقدار ہیں اگر ان کا ارادہ اصلاح کا ہو

پھر فرمایا کہ عدت کے اندر اس شوہر کو جس نے طلاق دی ہے لوٹا لینے کا پورا حق حاصل ہے جبکہ طلاق رجعی ہو یعنی ایک طلاق کے بعد اور دو طلاقوں کے بعد، باقی رہی طلاق بائن یعنی تین طلاقیں جب ہو جائیں تو یاد رہے کہ جب یہ آیت اتری ہے تب تک طلاق بائن ہی نہیں بلکہ اس وقت تک جب چاہے طلاق ہو جائے سب رجعی تھیں طلاق بائن تو پھر اسلام کے احکام میں آئی کہ تین اگر ہو جائیں تو اب رجعت کا حق نہیں رہے گا۔

جب یہ بات خیال میں رہے گی تو علماء اصول کے اس قاعدے کا ضعف بھی معلوم ہو جائے گا کہ ضمیر لوٹانے سے پہلے کے عام لفظ کی خصوصیت ہوتی ہے یا نہیں اس لئے کہ اس آیت کے وقت دوسری شکل تھی ہی نہیں، طلاق کی ایک ہی صورت تھی واللہ اعلم۔

وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ

اور عورتوں کو بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان پر مردوں کے ہیں اچھائی کے ساتھ

پھر فرماتا ہے کہ جیسے ان عورتوں پر مردوں کے حقوق ہیں ویسے ہی ان عورتوں کے مردوں پر بھی حقوق ہیں۔ ہر ایک کو دوسرے کا پاس و لحاظ عمدگی سے رکھنا چاہئے،

صحیح مسلم شریف میں حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حجتہ الوداع کے اپنے خطبہ میں فرمایا:

 لوگو عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو تم نے اللہ کی امانت کہہ کر انہیں لیا ہے اور اللہ کے کلمہ سے ان کی شرمگاہوں کو اپنے لئے حلال کیا ہے، عورتوں پر تمہارا یہ حق ہے کہ وہ تمہارے فرش پر کسی ایسے کو نہ آنے دیں جس سے تم ناراض ہو اگر وہ ایسا کریں تو انہیں مارو لیکن مار ایسی نہ ہو کہ ظاہر ہو، ان کا تم پر یہ حق ہے کہ انہیں اپنی بساط کے مطابق کھلاؤ پلاؤ پہناؤ اوڑاؤ،

ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ہماری عورتوں کے ہم پر کیا حق ہیں،

آپ ﷺنے فرمایا :

جب تم کھاؤ تو اسے بھی کھلاؤ جب تم پہنو تو اسے بھی پہناؤ، اس کے منہ پر نہ مارو اسے گالیاں نہ دو، اس سے روٹھ کر اور کہیں نہ بھیج دو، ہاں گھر میں رکھو،

 اسی آیت کو پڑھ کر حضرت ابن عباسؓ فرمایا کرتے تھے  میں پسند کرتا ہوں کہ اپنی بیوی کو خوش کرنے کیلئے بھی اپنی زینت کروں جس طرح وہ مجھے خوش کرنے کیلئے اپنا بناؤ سنگار کرتی ہے۔

وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ۗ

ہاں مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے

پھر فرمایا کہ مردوں کو ان پر فضیلت ہے، جسمانی حیثیت سے بھی اخلاقی حیثیت سے بھی، مرتبہ کی حیثیت سے بھی حکمرانی کی حیثیت سے بھی، خرچ اخراجات کی حیثیت سے بھی دیکھ بھال اور نگرانی کی حیثیت سے بھی ، غرض دنیوی اور اخروی فضیلت کے ہر اعتبار سے، جیسے اور جگہ ہے :

الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَآ أَنفَقُواْ مِنْ أَمْوَلِهِمْ (۴:۳۴)

مرد عورت پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے مال خرچ کئے ہیں

وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (۲۲۸)

 اللہ تعالیٰ غالب ہے حکمت والا ہے۔‏

 پھر فرمایا اللہ تعالیٰ اپنے نافرمانوں سے بدلہ لینے پر غالب ہے اور اپنے احکام میں حکمت والا۔

الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ۗ

یہ طلاقیں دو مرتبہ ہیں پھر یا تو اچھائی سے روکنا یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا

اسلام سے پہلے یہ دستور تھا کہ خاوند جتنی چاہے طلاقیں دیتا چلا جائے اور عدت میں رجوع کرتا جائے اس سے عورتوں کی جان غضب میں تھی کہ طلاق دی، عدت گزرنے کے قریب آئی رجوع کر لیا، پھر طلاق دے دی اس طرح عورتوں کو تنگ کرتے رہتے تھے، پس اسلام نے حد بندی کر دی کہ اس طرح کی طلاقیں صرف دو ہی دے سکتے ہیں۔ تیسری طلاق کے بعد لوٹا لینے کا کوئی حق نہ رہے گا،

سنن ابوداؤد میں باب ہے کہ تین طلاقوں کے بعد مراجعت منسوخ ہے، پھر یہ روایت لائے ہیں کہ حضرت ابن عباسؓ یہی فرماتے ہیں،

ابن ابی حاتم میں ہے:

 ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ نہ تو میں تجھے بساؤں گا نہ چھوڑوں گا،

اس نے کہا یہ کس طرح؟

طلاق دے دوں گا اور جہاں عدت ختم ہونے کا وقت آیا تو رجوع کر لوں گا، پھر طلاق دے دوں گا، پھر عدت ختم ہونے سے پہلے رجوع کر لوں گا اور یونہی کرتا چلا جاؤں گا۔

وہ عورت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور اپنا یہ دُکھ رونے لگی اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی،

 ایک اور روایت میں ہے :

 اس آیت کے نازل ہونے کے بعد لوگوں نے نئے سرے سے طلاقوں کا خیال رکھنا شروع کیا اور وہ سنبھل گئے، اور تیسری طلاق کے بعد اس خاوند کو لوٹا لینے کا کوئی حق حاصل نہ رہا اور فرما دیا گیا کہ دو طلاقوں تک تو تمہیں اختیار ہے کہ اصلاح کی نیت سے اپنی بیوی کو لوٹا لو اگر وہ عدت کے اندر ہے اور یہ بھی اختیار ہے کہ نہ لوٹاؤ اور عدت گزر جانے دو تاکہ وہ دوسرے سے نکاح کرنے کے قابل ہو جائے اور اگر تیسری طلاق دینا چاہتے ہو تو بھی احسان و سلوک کے ساتھ ورنہ اس کا کوئی حق نہ مارو، اس پر کوئی ظلم نہ کرو، اسے ضرر و نقصان نہ پہنچاؤ،

ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ دو طلاقیں تو اس آیت میں بیان ہو چکی ہیں تیسری کا ذِکر کہاں ہے؟

آپ ﷺنے فرمایا أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ میں،

جب تیسری طلاق کا ارادہ کرے تو عورت کو تنگ کرنا اس پر سختی کرنا تاکہ وہ اپنا حق چھوڑ کر طلاق پر آمادگی ظاہر کرے، یہ مردوں پر حرام ہے۔ جیسے اور جگہ ہے :

وَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُواْ بِبَعْضِ مَآ ءَاتَيْتُمُوهُنَّ إِلاَّ أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ (۴:۱۹)

انہیں اسلئے روک نہ رکھو کہ جو تم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے کچھ لے لو ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کوئی کھلی برائی اور بےحیائی کریں

جیسے فرمایا :

فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَىْءٍ مِّنْهُ نَفْساً فَكُلُوهُ هَنِيئاً مَّرِيئاً (۴:۴)

ہاں اگر وہ خود اپنی خوشی سے کچھ مہر چھوڑ دیں تو اسے شوق سے خوش ہو کر کھاؤ پیؤ

وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَنْ يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ ۖ

اور تمہیں حلال نہیں تم نے انہیں جو دیا ہے اس میں سے کچھ بھی لو، ہاں یہ اور بات ہے کہ دونوں کو اللہ کی حدیں قائم نہ رکھ سکنے کا خوف ہو

فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ ۗ

اس لئے اگر تمہیں ڈر ہو کہ دونوں اللہ کی حدیں قائم نہ رکھ سکیں گے تو عورت رہائی پانے کیلئے کچھ دے ڈالے، اس پر دونوں پر گناہ نہیں

اور جب میاں بیوی میں نااتفاقی بڑھ جائے عورت اس سے خوش نہ ہو اور اس کے حق کو نہ بجا لاتی ہو ایسی صورت میں وہ کچھ لے دے کر اپنے خاوند سے طلاق حاصل کر لے تو اسے دینے میں اور اسے لینے میں کوئی گناہ نہیں۔

یہ بھی یاد رہے کہ اگر عورت بلاوجہ اپنے خاوند سے خلع طلب کرتی ہے تو وہ سخت گنہگار ہے چنانچہ ترمذی میں حدیث ہے:

 جو عورت اپنے خاوند سے بےسبب طلاق طلب کرے اس پر جنت کی خوشبو بھی حرام ہے،

 اور روایت میں ہے کہ حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی دوری سے آتی ہے،

اور روایت میں ہے کہ ایسی عورتیں منافق ہیں،

آئمہ سلف و خلف کی ایک بڑی جماعت کا فرمان ہے کہ خلع صرف اسی صورت میں ہے کہ نافرمانی اور سرکشی عورت کی طرف سے ہو، اس وقت مرد فدیہ لے کر اس عورت کو الگ کر سکتا ہے جیسے قرآن پاک کی اس آیت میں ہے اس کے سوا کی صورت میں یہ سب جائز نہیں، بلکہ حضرت امام مالک تو فرماتے ہیں کہ اگر عورت کو تکلیف پہنچا کر اس کے حق میں کمی کر کے اگر اسے مجبور کیا گیا اور اس سے کچھ مال واپس لیا گیا تو اس کا لوٹا دینا واجب ہے،

 امام شافعی فرماتے ہیں کہ جب حالت اختلاف میں جائز ہے تو حالت اتفاق میں بطور اولیٰ جائز ٹھہرے گا،

بکر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ سرے سے خلع منسوخ ہے کیونکہ قرآن میں ہے:

وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا (۴:۲۰)

اگر تم نے اپنی بیویوں کو ایک خزانہ بھی دے رکھا ہو، تو بھی اس میں سے کچھ بھی نہ لو،

لیکن یہ قول ضعیف ہے اور مردود ہے،

اب آیت کا شان نزول سنئے، موطا مالک میں ہے:

 حبیبہ بن سہل انصاریہ حضرت ثابت بن قیس شماس کی بیوی تھیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن صبح کی نماز کیلئے اندھیرے اندھیرے نکلے تو دیکھا کہ دروازے پر حضرت حبیبہ کھڑی ہیں،

آپ نے پوچھا کون ہے؟

 کہا میں حبیبہ بن سہل ہوں۔

 فرمایا کیا بات ہے؟

 کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں ثابت بن قیس کے گھر میں نہیں رہ سکتی یا وہ نہیں یا میں نہیں،

آپ سن کر خاموش رہے۔

جب ثابت آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہاری بیوی صاحبہ کچھ کہہ رہی ہیں۔

حضرت حبیبہ نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے خاوند مجھے جو دیا ہے وہ سب میرے پاس ہے اور میں اسے واپس کرنے پر آمادہ ہوں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ثابت کو فرمایا سب لے لو، چنانچہ انہوں نے لے لیا اور حضرت حبیبہ آزاد ہو گئیں،

 ایک روایت میں ہے:

 حضرت ثابت نے انہیں مارا تھا اور اس مار سے کوئی ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں یہ فرمایا اس وقت انہوں نے دریافت کیا کہ کیا میں یہ مال لے سکتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں، کہا میں نے اسے دو باغ دئیے ہیں، یہ سب واپس دلوا دیجئے۔ وہ مہر کے دونوں باغ واپس کئے گئے اور جدائی ہو گئی۔

 ایک اور روایت میں ہے :

حبیبہ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ میں اس کے اخلاق اور دین میں عیب گیری نہیں کرتی لیکن میں اسلام میں کفر کو ناپسند کرتی ہوں چنانچہ مال لے کر حضرت ثابت نے طلاق دے دی۔

 بعض روایات میں ان کا نام جمیلہ بھی آیا ہے۔

بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ مجے اب غیظ و غضب کے برداشت کی طاقت نہیں رہی۔

 ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو دِیا ہے لے لو، زیادہ نہ لینا۔

 ایک روایت میں ہے کہ حضرت حبیبہ نے فرمایا تھا وہ صورت کے اعتبار سے بھی کچھ حسین نہیں۔

ایک روایت میں ہے:

 یہ حضرت عبداللہ بن ابی کی بہن تھیں اور سب سے پہلا خلع تھا جو اسلام میں ہوا۔

 ایک وجہ یہ بھی بیان کی تھی کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں نے ایک مرتبہ خیمے کے پردہ کو جو اٹھایا تو دیکھا کہ میرے خاوند چند آدمیوں کے ساتھ آ رہے ہیں، ان تمام میں یہ سیاہ فام چھوٹے قد والے اور بدصورت تھے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پر کہ اس کا باغ واپس کرو، حبیبہ نے کہا تھا کہ آپ فرمائیں تو میں اس کے منہ پر تھوک دیا کرتی،

جمہور کا مذہب تو یہ ہے کہ خلع عورت اپنے سے دئیے ہوئے سے زیادہ لے تو بھی جائز ہے کیونکہ قرآن نے فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ فرمایا ہے،

حضرت عمر ؓکے پاس ایک عورت اپنے خاوند سے بگڑی ہوئی آئی، آپ نے فرمایا اسے گندگی والے گھر میں قید کر دو پھر قید خانہ سے اسے بلوایا اور کہا کیا حال ہے؟اس نے کہا آرام کی راتیں مجھ پر میری زندگی میں یہی گزری ہیں۔آپ نے اس کے خاوند سے فرمایا اس سے خلع کر لے۔ اگرچہ گوشوارہ کے بدلے ہی ہو،

ایک روایت میں ہے اسے تین دن وہاں قید رکھا تھا،

 ایک اور روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا اگر یہ اپنی چٹیا کی دھجی بھی دے تو لے لے اور اسے الگ کر دے۔

حضرت عثمانؓ فرماتے ہیں اس کے سوا سب کچھ لے کر بھی خلع ہو سکتا ہے۔

ربیع بنت معوذ بن عفراء فرماتی ہیں :

میرے خاوند اگر موجود ہوتے تو بھی میرے ساتھ سلوک کرنے میں کمی کرتے اور کہیں چلے جاتے تو بالکل ہی محروم کر دیتے۔ ایک مرتبہ جھگڑے کے موقع پر میں نے کہہ دیا کہ میری ملکیت میں جو کچھ ہے لے لو اور مجھے خلع دو۔

اس نے کہا اور یہ معاملہ فیصل ہو گیا لیکن میرے چچا معاذ بن عفراء اس قصہ کو لے کر حضرت عثمانؓ کے پاس گئے۔

 حضرت عثمانؓ نے بھی اسے برقرار رکھا اور فرمایا کہ چوٹی کی دھجی چھوڑ کر سب کچھ لے لو،

بعض روایتوں میں ہے یہ بھی اور اس (سے) چھوٹی چیز بھی غرض سب کچھ لے لو،

پس مطلب ان واقعات کا یہ ہے کہ یہ دلیل ہے اس پر کہ عورت کے پاس جو کچھ ہے دے کر وہ خلع کرا سکتی ہے اور خاوند اپنی دی ہوئی چیز سے زائد لے کر بھی خلع کر سکتا ہے۔

ابن عمر ، ابن عباس ، مجاہد، عکرمہ، ابراہیم، نخعی، قیصہ بن ذویب، حسن بن صالح عثمان رحم اللہ اجمعین بھی یہی فرماتے ہیں۔

 امام مالک، لیث، امام شافعی اور ابوثور کا مذہب بھی یہی ہے۔

 امام ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں اور اصحاب ابوحنیفہؒ کا قول ہے کہ اگر قصور اور ضرر رسانی عورت کی طرف سے ہو تو خاوند کو جائز ہے کہ جو اس نے دیا ہے واپس لے لے، لیکن اس سے زیادہ لینا جائز نہیں۔ گو زیادہ لے لے تو بھی قضاء کے وقت جائز ہوگا اور اگر خاوند کی اپنی جانب سے زیادتی ہو تو اسے کچھ بھی لینا جائز نہیں۔ گو لے لے تو قضا جائز ہوگا۔

 امام احمد ابوعبید اور اسحق بن راھویہ فرماتے ہیں کہ خاوند کو اپنے دئیے ہوئے سے زیادہ لینا جائز ہی نہیں۔

سعید بن مسیب عطاء عمرو بن شعیب زہری طاؤس حسن شعبی حماد بن ابو سلیمان اور ربیع بن انس کا بھی یہی مذہب ہے۔

 عمر اور حاکم کہتے ہیں حضرت علیؓ کا بھی یہ فیصلہ ہے۔

 اوزاعی کا فرمان ہے کہ قاضیوں کا فیصلہ ہے کہ دئیے ہوئے سے زیادہ کو جائز نہیں جانتے۔ اس مذہب کی دلیل وہ حدیث بھی ہے جو اوپر بیان ہو چکی ہے جس میں ہے کہ اپنا باغ لے لو اور اس سے زیادہ نہ لو۔

 مسند عبد بن حمید میں بھی ایک مرفوع حدیث ہے:

 نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خلع لینے والی عورت سے اپنے دئیے ہوئے سے زیادہ لینا مکروہ رکھا، اور اس صورت میں جو کچھ فدیہ وہ دے کا لفظ جو قرآن میں ہے اس کے معنی یہ ہوں گے کہ دئیے ہوئے میں سے جو کچھ دے، کیونکہ اس سے پہلے یہ فرمان موجود ہے کہ تم نے جو انہیں دیا ہے اس میں سے کچھ نہ لو،

ربیع کی قرأت میں بِهِ کے بعد مِنْهُ کا لفظ بھی ہے۔

 پھر فرمایا کہ یہ حدود اللہ ہیں ان سے تجاوز نہ کرو ورنہ گنہگار ہوں گے

 فصل

خلع کو بعض حضرات طلاق میں شمار نہیں کرتے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اگر ایک شخص نے اپنی بیوی کو دو طلاقیں دے دیں ہیں پھر اس عورت نے خلع کرا لیا ہے تو اگر خاوند چاہے تو اس سے پھر بھی نکاح کر سکتا ہے اور اس پر دلیل یہی آیت وارد کرتے ہیں۔ یہ قول حضرت ابن عباسؓ کا ہے،

 حضرت عکرمہ بھی فرماتے ہیں کہ یہ طلاق نہیں، دیکھو آیت کے اول و آخر طلاق کا ذِکر ہے پہلے دو طلاقوں کا پھر آخر میں تیسری طلاق کا اور درمیان میں جو خلع کا ذِکر ہے، پس معلوم ہوا کہ خلع طلاق نہیں بلکہ فسخ ہے۔

 امیرالمؤمنین حضرت عثمان بن عفانؓ اور حضرت عمر طاؤس عکرمہ، احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ، ابوثور، داؤد بن علی ظاہری کا بھی یہی مذہب ہے۔امام شافعی کا بھی قدیم قول یہی ہے اور آیت کے ظاہری الفاظ بھی یہی ہیں۔

 بعض دیگر بزرگ فرماتے ہیں کہ خلع طلاق بائن ہے اور اگر ایک سے زیادہ کی نیت ہوگی تو وہ بھی معتبر ہے۔

 ایک روایت میں ہے کہ اُم بکر اسلمیہ نے اپنے خاوند عبداللہ بن خالد سے خلع لیا اور حضرت عثمانؓ نے اسے ایک طلاق ہونے کا فتویٰ دیا اور ساتھ ہی فرما دیا کہ اگر کچھ سامان لیا ہو تو جتنا سامان لیا ہو وہ ہے، لیکن یہ اثر ضعیف ہے واللہ اعلم۔

حضرت عمرؓ ، حضرت علیؓ ، حضرت ابن مسعودؓ ، حضرت ابن عمرؓ ، سعید بن مسیب ، حسن، عطا، شریح، شعبی، ابراہیم، جابر بن زید، مالک، ابوحنیفہ اور ان کے ساتھی ثوری، اوزاعی، ابو عثمان بتی کا یہی قول ہے کہ خلع طلاق ہے۔امام شافعی کا بھی جدید قول یہی ہے،

 ہاں ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ اگر دو طلاق کی نیت خلع دینے والے کی ہے تو دو ہو جائیں گی۔ اگر کچھ کچھ لفظ نہ کہے اور مطلق خلع ہو تو ایک طلاق بائن ہوگی اگر تین کی نیت ہے تو تین ہو جائیں گی۔

 امام شافعی کا ایک اور قول بھی ہے کہ اگر طلاق کا لفظ نہیں اور کوئی دلیل و شہادت بھی نہیں تو وہ بالکل کوئی چیز نہیں۔

مسئلہ

امام ابوحنیفہ، شافعی احمد، اسحق بن راہویہ رحمہم اللہ کا مسلک ہے کہ خلع کی عدت طلاق کی عدت ہے۔

حضرت عمر حضرت علی حضرت ابن مسعود اور سعید بن مسیب، سلمان بن یسار، عمروہ، سالم، ابوسلمہ، عمر بن عبدالعزیز، ابن شہاب، حسن، شعبی، ابراہیم نخعی، ابوعیاض، خلاس بن عمرو، قتادہ، سفیان ثوری، اوزاعی، لیث بن سعد اور ابوعبید رحمتہ اللہ علیھم اجمعین کا بھی یہی فرمان ہے۔

امام ترمذی فرماتے ہیں اکثر اہل علم اسی طرف گئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ چونکہ خلع طلاق ہے لہذا عدت اس کی عدت طلاق کے مثل ہے،

 دوسرا قول یہ ہے کہ صرف ایک حیض اس کی عدت ہے۔ حضرت عثمانؓ کا یہی فیصلہ ہے، ابن عمر ؓ گو تین حیض کا فتویٰ دیتے تھے لیکن ساتھ ہی فرما دیا کرتے تھے کہ حضرت عثمانؓ ہم سے بہتر ہیں اور ہم سے بڑے عالم ہیں، اور ابن عمر ؓسے ایک حیض کی مدت بھی مروی ہے۔

 ابن عباسؓ ، عکرمہ ، امان بن عثمان اور تمام وہ لوگ جن کے نام اوپر آئے ہیں جو خلع کو فسخ کہتے ہیں ضروری ہے کہ ان سب کا قول بھی یہی ہو،

ابوداؤد اور ترمذی کی حدیث میں بھی یہی ہے کہ ثابت بن قیس کی بیوی صاحبہ کو آپ نے اس صورت میں ایک حیض عدت گزارنے کا حکم دیا تھا،

 ترمذی میں ہے کہ ربیع بنت معوذ کو بھی خلع کے بعد ایک ہی حیض عدت گزارنے کا حضور ﷺ کا فرمان صادر ہوا تھا۔

حضرت عثمانؓ نے خلع والی عورت سے فرمایا تھا کہ تجھ پر عدت ہی نہیں۔ ہاں اگر قریب کے زمانہ میں ہی خاوند سے ملی ہو تو ایک حیض آ جانے تک اس کے پاس ٹھہری رہو۔

 مریم مغالبہ کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جو فیصلہ تھا اس کی متابعت حضرت امیرالمؤمنین نے کی۔

 مسئلہ

جمہور علمائے کرام اور چاروں اماموں کے نزدیک خلع والی عورت سے رجوع کرنے کا حق خاوند کو حاصل نہیں، اس لئے کہ اس نے مال دے کر اپنے تئیں آزاد کرا لیا ہے۔

عبداللہ بن ابی اوفی، ماہان حنفی، سعید اور زہری کا قول ہے کہ اگر واپس کیا پھیر دے تو حق رجعت حاصل ہے بغیر عورت کی رضامندی کے بھی رجوع کر سکتا ہے۔

 سفیان ثوری فرماتے ہیں کہ اگر خلع میں طلاق کا لفظ نہیں تو وہ صرف جدائی ہے اور رجوع کرنے کا حق نہیں اور اگر طلاق کا نام لیا ہے تو بیشک وہ رجعت کا پورا پورا حقدار ہے،

داؤد ظاہری بھی یہی فرماتے ہیں، سب کا اتفاق ہے کہ اگر دونوں رضامند ہوں تو نیا نکاح عدت کے اندر اندر کر سکتے ہیں۔

 عبدالبر ایک فرقہ کا یہ قول بھی حکایت کرتے ہیں کہ عدت کے اندر جس طرح دوسرا کوئی اس سے نکاح نہیں کر سکتا، اسی طرح خلع دینے والا خاوند بھی نکاح نہیں کر سکتا، لیکن یہ قول شاذ اور مردود ہے۔

مسئلہ

اس عورت پر عدت کے اندر اندر دوسری طلاق بھی واقع ہو سکتی ہے یا نہیں؟

 اس میں علماء کے تین قول ہیں۔

 ایک یہ کہ نہیں، کیونکہ وہ عورت اپنے نفس کی مالکہ ہے اور اس خاوند سے الگ ہو گئی ہے، ابن عباس ابن زبیر عکرمہ جابر بن زید حسن بصری شافعی احمد اسحاق ابوثور کا یہی قول ہے۔

دوسرا قول امام مالک کا ہے کہ اگر خلع کے ساتھ ہی بغیر خاموش رہے طلاق دے دے تو واقع ہو جائے گی ورنہ نہیں، یہ مثل اس کے ہے جو حضرت عثمان ؓسے مروی ہے۔

تیسرا قول یہ ہے کہ عدت میں طلاق واقع ہو جائے گی۔

ابوحنیفہؒ انکے اصحاب، ثوری، اوزاعی، سعید بن مسیب، شریح، طاؤس، ابراہیم، زہری، حاکم، حکم اور حماد کا یہی قول ہے۔

 ابن مسعودؓ اور ابوالدرداءؓ سے بھی یہ مروی تو ہے لیکن ثابت نہیں۔

تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا ۚ

یہ اللہ کی حدود ہیں خبردار ان سے آگے نہیں بڑھنا

پھر فرمایا ہے کہ یہ اللہ کی حدیں ہیں۔

صحیح حدیث میں ہے:

 اللہ تعالیٰ کی حدوں سے آگے نہ بڑھو، فرائض کو ضائع نہ کرو، محارم کی بےحرمتی نہ کرو، جن چیزوں کا ذِکر شریعت میں نہیں تم بھی ان سے خاموش رہو کیونکہ اللہ کی ذات بھول چوک سے پاک ہے۔

 اس آیت سے استدلال ہے ان لوگوں کا جو کہتے ہیں کہ تینوں طلاقیں ایک مرتبہ ہی دینا حرام ہیں۔

 مالکیہ اور ان کے موافقین کا یہی مذہب ہے، ان کے نزدیک سنت طریقہ یہی ہے کہ طلاق ایک ایک دی جائے کیونکہ الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ  کہا

وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (۲۲۹)

اور جو لوگ اللہ کی حدوں سے تجاوز کر جائیں وہ ظالم ہیں۔‏

 پھر فرمایا کہ یہ حدیں ہیں اللہ کی، ان سے تجاوز نہ کرو، اس کی تقویت اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو سنن نسائی میں ہے۔

یہاں تک کہ ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دیں تو میں اس شخص کو قتل کرو،

 لیکن اس روایت کی سند میں انقطاع ہے۔

فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ۗ

پھر اگر اس کو (تیسری بار) طلاق دے دے تو اب اس کے لئے حلال نہیں جب تک کہ وہ عورت اس کے سوا دوسرے سے نکاح نہ کرے

ارشاد ہے کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو دو طلاقیں دے چکنے کے بعد تیسری بھی دے دے تو وہ اس پر حرام ہو جائے گی یہاں تک کہ دوسرے سے باقاعدہ نکاح ہو، ہم بستری ہو، پھر وہ مر جائے یا طلاق دے دے۔

 پس اگر بغیر نکاح کے مثلاً لونڈی بنا کر وطی بھی کر لے تو بھی اگلے خاوند کیلئے حلال نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح گو نکاح باقاعدہ ہو لیکن اس دوسرے خاوند نے مجامعت نہ کی ہو تو بھی پہلے شوہر کیلئے حلال نہیں۔

 اکثر فقہاء میں مشہور ہے کہ حضرت سعید بن مسیب مجرد و عقد کے حلال کہتے ہیں گو میل نہ ہوا ہو، لیکن یہ بات ان سے ثابت نہیں۔

 ایک حدیث میں ہے:

 نبی ﷺ سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص ایک عورت سے نکاح کرتا ہے اور دخول سے پہلے ہی طلاق دے دیتا ہے، وہ دوسرا نکاح کرتی ہے وہ بھی دخول سے پہلے ہی طلاق دے دیتا ہے، تو کیا اگلے خاوند کو اب اس سے نکاح کرنا حلال ہے؟

 آپ ﷺنے فرمایا نہیں نہیں، جب تک کہ یہ اس سے اور وہ اس سے لطف اندوز نہ ہو لیں (مسند احمد ابن ماجہ)

اس روایت کے راوی حضرت ابن عمر سے خود امام بن مسیب ہیں، پس کیسے ممکن ہے کہ وہ روایت بھی کریں اور پھر مخالفت بھی کریں اور پھر وہ بھی بلادلیل۔

 ایک روایت یہ بھی ہے کہ عورت رخصت ہو کر جاتی ہے، ایک مکان میں میاں بیوی جاتے ہیں، پردہ ڈال دیا جاتا ہے لیکن آپس میں صحبت نہیں ہوتی، جب بھی یہی حکم ہے۔خود آپ ﷺکے زمانہ میں ایسا واقعہ ہوا، آپ سے پوچھا گیا مگر آپ نے پہلے خاوند کی اجازت نہ دی  (بخاری مسلم)

ایک روایت میں ہے:

 حضرت رفاعہ قرظی کی بیوی صاحبہ تمیمہ بنت وہب کو جب انہوں نے آخری تیسری طلاق دے دی تو ان کا نکاح حضرت عبدالرحمٰن بن زیبر سے ہوا لیکن یہ شکایت لے کر دربارِ رسالت مآب میں آئیں اور کہا وہ عورت کے مطلب کے نہیں، مجھے اجازت ہو کہ میں اگلے خاوند کے گھر چلی جاؤں۔

آپ ﷺنے فرمایا یہ نہیں ہو سکتا جب تک کہ تمہاری کسی اور خاوند سے مجامعت نہ ہو،

ان احادیث کی بہت سی سندیں ہیں اور مختلف الفاظ سے مروی ہیں

فصل

یہ یاد رہے کہ مقصود دوسرے خاوند سے یہ ہے کہ خود اسے رغبت ہو اور ہمیشہ بیوی بنا کر رکھنے کا خواہش مند ہو، کیونکہ نکاح سے مقصود یہی ہے، یہ نہیں کہ اگلے خاوند کیلئے محض حلال ہو جائے اور بس،بلکہ امام مالک فرماتے ہیں کہ یہ بھی شرط ہے کہ یہ مجامعت بھی مباح اور جائز طریق پر ہو مثلاً عورت روزے سے نہ ہو، احرام کی حالت میں نہ ہو، اعتکاف کی حالت میں نہ ہو، حیض یا نفاس کی حالت میں نہ ہو، اسی طرح خاوند بھی روزے سے نہ ہو، محرم یا معتکف نہ ہو،

 اگر طرفین میں سے کسی کی یہ حالت ہو اور پھر چاہے وطی بھی ہو جائے پھر بھی پہلے شوہر پر حلال نہ ہو گی۔ اسی طرح اگر دوسرا خاوند ذمی ہو تو بھی اگلے خاوند کیلئے حلال نہ ہو گی کیونکہ امام صاحب کے نزدیک کفار کے آپس کے نکاح باطل ہیں۔

 امام حسن بصری تو یہ بھی شرط لگاتے ہیں کہ انزال بھی ہو کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ جب تک کہ وہ تیرا اور تو اس کا مزہ نہ چکھے، اور اگر یہی حدیث ان کے پیشِ نظر ہو جائے تو چاہئے کہ عورت کی طرف سے یہ بھی یہ شرط معتبر ہو لیکن حدیث کے لفظ الْعُسَيْلَةَ سے منی مراد نہیں،

یہ یاد رہے، کیونکہ مسند احمد اور نسائی میں حدیث ہے کہ الْعُسَيْلَةَ سے مراد جماع ہے۔

اگر دوسرے خاوند کا ارادہ اس سے نکاح کا  یہ ہے کہ یہ عورت پہلے خاوند کیلئے حلال ہو جائے تو ایسے لوگوں کی مذمت بلکہ ملعون ہونے کی تصریح احادیث میں آ چکی ہے،مسند احمد میں ہے :

گودنے والی، گدوانے والی، بال ملانے والی، ملوانے والی عورتیں ملعون، حلال کرنے والی اور جس کیلئے حلالہ کیا جاتا ہے ان پر بھی اللہ کی پھٹکار ہے۔ سود خور اور سود کھلانے والے بھی لعنتی ہیں۔

 امام ترمذی فرماتے ہیں صحابہ کا عمل اسی پر ہے۔ عمر ؓ، عثمانؓ اور ابن عمر ؓکا یہی مذہب ہے تابعین فقہاء بھی یہی کہتے ہیں، علیؓ ابن مسعودؓ اور ابن عباسؓ کا بھی یہی فرمان ہے

 اور روایت میں ہے :

بیاج کی گواہی دینے والوں اور اس کے لکھنے پر بھی لعنت ہے۔ زکوٰۃ کے نہ دینے والوں اور لینے میں زیادتی کرنے والوں پر بھی لعنت ہے، ہجرت کے بعد لوٹ کر اعرابی بننے والے پر بھی پھٹکار ہے نوحہ کرنا بھی ممنوع ہے،

 ایک حدیث میں ہے:

 میں تمہیں یہ بتاؤں کہ ادھار لیا ہوا سانڈ کون سا ہے؟لوگوں نے کہا ہاں۔

 فرمایا جو حلالہ کرے یعنی طلاق والی عورت سے اس لئے نکاح کرے کہ وہ اگلے خاوند کیلئے حلال ہو جائے، اس پر اللہ کی لعنت ہے اور جو اپنے لئے ایسا کرائے وہ بھی ملعون ہے (ابن ماجہ)

ایک روایت میں ہے:

 ایسے نکاح کی بابت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا تو آپﷺ نے فرمایا :

یہ نکاح ہی نہیں جس میں مقصود اور ہو اور ظاہر اور ہو، جس میں اللہ کی کتاب کے ساتھ مذاق اور ہنسی ہو، نکاح صرف وہی ہے جو رغبت کے ساتھ ہو،

مستدرک حاکم میں ہے:

 ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے سوال کیا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تیسری طلاق دے دی، اس کے بعد اس کے بھائی نے بغیر اپنے بھائی کے کہے ازخود اس سے اس ارادے سے نکاح کر لیا کہ یہ میرے بھائی کیلئے حلال ہو جائے، تو آیا یہ  نکاح صحیح ہو گیا۔

 آپ نے فرمایا ہرگز نہیں، ہم تو اسے نبی ﷺ کے زمانہ میں زنا شمار کرتے تھے۔ نکاح وہی ہے جس میں رغبت ہو،

 اس حدیث کے اس پچھلے جملے نے اِسے گو یہ موقوف ہے حکم میں مرفوع کر دیا، بلکہ ایک اور روایت میں ہے کہ امیرالمومنین حضرت عمر فاروقؓ نے ایسے نکاح میں تفریق کر دی، اسی طرح حضرت علیؓ اور حضرت ابن عباسؓ اور  بہت سے صحابہ کرامؓ سے بھی یہی مروی ہے۔

فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يَتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَنْ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ ۗ

پھر اگر وہ بھی طلاق دےدے تو ان دونوں کو میل جول کر لینے میں کوئی گناہ نہیں، بشرطیکہ جان لیں کہ اللہ کی حدوں کو قائم رکھ سکیں گے،

پھر فرمان ہے کہ اگر دوسرا خاوند نکاح اور وطی کے بعد طلاق دے تو پہلے خاوند پر پھر اسی عورت سے نکاح کر لینے میں کوئی گناہ نہیں جبکہ یہ اچھی طرح گزر اوقات کر لیں اور یہ بھی جان لیں کہ وہ دوسرا نکاح صرف دھوکہ اور مکروفریب کا نہ تھا بلکہ حقیقت تھی۔

وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ (۲۳۰)

یہ اللہ تعالیٰ کی حدود ہیں جنہیں وہ جاننے والوں کے لئے بیان فرما رہا ہے۔‏

یہ ہیں احکام شرعی جنہیں علم والوں کیلئے اللہ نے واضح کر دیا،

 آئمہ کا اس میں بھی اختلاف ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو دو یا ایک طلاق دے دی، پھر چھوڑے رہا یہاں تک کہ وہ عدت سے نکل گئی، پھر اس نے دوسرے سے گھر بسا لیا، اس سے ہم بستری بھی ہوئی، پھر اس نے بھی طلاق دے دی اور اس کی عدت ختم ہو چکی، پھر اگلے خاوند نے اس سے نکاح کر لیا تو اسے تین میں سے جو طلاقیں یعنی ایک یا دو جو باقی ہیں صرف انہی کا اختیار رہے گا یا پہلے کی طرح طلاقیں گنتی سے ساقط ہو جائیں گی اور اسے از سر نو تینوں طلاقوں کا حق حاصل ہو جائے گا،

پہلا مذہب تو ہے امام مالک امام شافعی اور امام احمد کا اور صحابہ کی ایک جماعت کا،

 دوسرا مذہب ہے امام ابوحنیفہ اور ان کے ساتھیوں کا اور ان کی دلیل یہ ہے کہ جب اس طرح تیسری طلاق ہو، گنتی میں نہیں آئی تو پہلی دوسری کیا آئے گی، واللہ اعلم۔

وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ ۚ

جب تم عورتوں کو طلاق دو وہ اپنی عدت ختم کرنے پر آئیں تو اب انہیں اچھی طرح بساؤ یا بھلائی کے ساتھ الگ کر دو

مردوں کو حکم ہو رہا ہے کہ جب وہ اپنی بیویوں کو طلاق دیں جن حالتوں میں لوٹا لینے کا حق انہیں حاصل ہے اور عدت ختم ہونے کے قریب پہنچ جائے یا عمدگی کے ساتھ لوٹائے یعنی رجعت پر گواہ مقرر کرے اور اچھائی سے بسانے کی نیت رکھے یا اسے عمدگی سے چھوڑ دے اور عدت ختم ہونے کے بعد اپنے ہاں بغیر اختلاف جھگڑے دشمنی اور بد زبانی کے نکال دے،

وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِتَعْتَدُوا ۚ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ ۚ

اور انہیں تکلیف پہنچانے کی غرض سے ظلم اور زیادتی کے لئے نہ روکو جو شخص ایسا کرے اس نے اپنی جان پر ظلم کیا

جاہلیت کے اس دستور کو اسلام نے ختم کر دیا کہ طلاق دے دی، عدت ختم ہونے کے قریب رجوع کر لیا، پھر طلاق دے دی پھر رجوع کر لیا، یونہی اس دُکھیا عورت کی عمر برباد کر دیتے تھے کہ نہ وہ سہاگن ہی رہے نہ بیوہ، تو اس سے اللہ نے روکا اور فرمایا کہ ایسا کرنے والا ظالم ہے۔

وَلَا تَتَّخِذُوا آيَاتِ اللَّهِ هُزُوًا ۚ

 تم اللہ کے احکام کو ہنسی کھیل نہ بناؤ

پھر فرمایا اللہ کی آیتوں کو ہنسی نہ بناؤ۔

 ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اشعری قبیلہ پر ناراض ہوئے تو حضرت ابوموسیٰ اشعری نے حاضرِ خدمت ہو کر (ان اصلاحات طلاق کے بارے میں) سبب دریافت کیا، آپ ﷺنے فرمایا کیونکہ یہ لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ میں نے طلاق دی، میں نے رجوع کیا۔ یاد رکھو مسلمانوں کی یہ طلاقیں نہیں۔ عورتوں کی عدت کے مطابق طلاقیں دو۔

 اس حکم کا یہ بھی مطلب لیا گیا ہے کہ ایک شخص ہے جو بلاوجہ طلاق دیتا ہے اور عورت کو ضرر پہنچانے کیلئے اور اس کی عدت لمبی کرنے کیلئے رجوع ہی کرتا چلا جاتا ہے۔

 یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایک شخص ہے جو طلاق دے یا آزاد کرے یا نکاح کرے پھر کہہ دے کہ میں نے تو ہنسی ہنسی میں یہ کیا۔ ایسی صورتوں میں یہ تینوں کام فی الحقیقت واضح ہو جائیں گے۔

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دی پھر کہہ دیا کہ میں نے تو مذاق کیا تھا، اس پر یہ آیت اتری اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ طلاق ہو گئی (ابن مردویہ)

حسن بصری فرماتے ہیں کہ لوگ طلاق دے دیتے، آزاد کر دیتے، نکاح کر لیتے اور پھر کہہ دیتے کہ ہم نے بطور دِل لگی کے یہ کیا تھا، اس پر یہ آیت اتری اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو طلاق یا غلام آزاد کرے یا نکاح کرا دے خواہ پختگی کے ساتھ خواہ ہنسی مذاق میں وہ سب ہو گیا  (ابن ابی حاتم)

یہ حدیث مرسل اور موقوف کئی سندوں سے مروی ہے۔

ابوداؤد ترمذی اور ابن ماجہ میں حدیث ہے:

تین چیزیں ہیں کہ پکے ارادے سے ہوں، دِل لگی سے ہوں تو تینوں پر اطلاق ہو جائے گا۔

- نکاح،

- طلاق

-  اور رجعت۔

امام ترمذی اسے حسن غریب کہتے ہیں۔

وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَمَا أَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِنَ الْكِتَابِ وَالْحِكْمَةِ يَعِظُكُمْ بِهِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (۲۳۱)

اور اللہ کا احسان جو تم پر ہے یاد کرو اور جو کچھ کتاب و حکمت اس نے نازل فرمائی ہے جس سے تمہیں نصیحت کر رہا ہے اس سے بھی۔ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ ہرچیز کو جانتا ہے۔‏

اللہ کی نعمت یاد کرو کہ اس نے رسول بھیجے ہدایت اور دلیلیں نازل فرمائیں، کتاب اور سنت سکھائی حکم بھی کئے، منع بھی کئے ۔ جو کام کرو اور جو کام نہ کرو ہر ایک میں اللہ جل شانہ سے ڈرتے رہا کرو اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ ہر پوشیدہ اور ہر ظاہر کو بخوبی جانتا ہے۔

وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ ۗ

اور جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت پوری کرلیں تو انہیں ان کے خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو جب کہ وہ آپس میں دستور کے مطابق رضامند ہوں

اس آیت میں عورتوں کے ولی وارثوں کو ممانعت ہو رہی ہے کہ جب کسی عورت کو طلاق ہو جائے اور عدت بھی گزر جائے پھر میاں بیوی اپنی رضامندی سے نکاح کرنا چاہیں تو وہ انہیں نہ روکیں۔

اس آیت میں اس امر کی بھی دلیل ہے کہ عورت خود اپنا نکاح نہیں کر سکتی اور نکاح بغیر ولی کے نہیں ہو سکتا چنانچہ ترمذی اور ابن جریر نے اس آیت کی تفسیر میں یہ حدیث وارد کی ہے:

 عورت عورت کا نکاح نہیں کر سکتی نہ عورت اپنا نکاح آپ کر سکتی ہے۔ وہ عورتیں زنا کار ہیں جو اپنا نکاح آپ کر لیں۔

دوسری حدیث میں ہے:

 نکاح بغیر راہ یافتہ کے اور دو عادل گواہوں کے نہیں،

 گو اس مسئلہ میں بھی اختلاف ہے لیکن اس کے بیان کی جگہ تفسیر نہیں۔ ہم اس کا بیان کتاب الاحکام میں کر چکے ہیں فالحمداللہ۔

یہ آیت حضرت معقل بن یسار اور ان کی ہمشیرہ صاحبہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر کے بیان میں ہے :

حضرت معقل بن یسار فرماتے ہیں میری بہن کا منگیتر میرے پاس آتا تھا۔ میں نے نکاح کر دیا۔ اس نے کچھ دِنوں بعد طلاق دے دی۔ پھر عدت گزر جانے کے بعد نکاح کی درخواست کی، میں نے انکار کر دیا۔ اس پر یہ آیت اتری جسے سن کر حضرت معقل نے باوجود یہ کہ قسم کھا رکھی تھی کہ میں تیرے نکاح میں نہ دوں گا، نکاح پر آمادہ ہو گئے اور کہنے لگے میں نے اللہ کا فرمان سنا اور میں نے مان لیا اور اپنے بہنوئی کو بلا کر دوبارہ نکاح کر دیا اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کیا۔

ان کا نام جمیل بنت یسار تھا۔ ان کے خاوند کا نام ابوالبداح تھا۔ بعض نے ان کا نام فاطمہ بن یسار بتایا ہے۔

سدی فرماتے ہیں کہ یہ آیت حضرت جابر بن عبداللہ اور ان کے چچا کی بیٹی کے بارے میں نازل ہوئی ہے

 لیکن پہلی بات ہی زیادہ صحیح ہے۔  

ذَلِكَ يُوعَظُ بِهِ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۗ

یہ نصیت انہیں کی جاتی ہے جنہیں تم میں سے اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر یقین و ایمان ہو

پھر یہ فرمایا یہ نصیحت و وعظ کیلئے ہے جنہیں شریعت پر ایمان ہو، اللہ کا ڈر ہو، قیامت کا خوف ہو،

ذَلِكُمْ أَزْكَى لَكُمْ وَأَطْهَرُ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (۲۳۲)

 اس میں تمہاری بہترین صفائی اور پاکیزگی ہے۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‏

 انہیں چاہئے کہ اپنی ولایت میں جو عورتیں ہوں انہیں ایسی حالت میں نکاح سے نہ روکیں، شریعت کی اتباع کر کے ایسی عورتوں کو ان کے خاوندوں کے نکاح میں دے دینا اور اپنی حمیت و غیرت کو جو خلاف شرع ہو، شریعت کے ماتحت کر دینا ہی تمہارے لئے بہتری اور پاکیزگی کا باعث ہے۔

 ان مصلحتوں کا علم جناب باری تعالیٰ کو ہی ہے، تمہیں معلوم نہیں کہ کس کام کے کرنے میں بھلائی ہے اور کس کے چھوڑنے میں۔ یہ علم حقیقت میں اللہ رب العزت ہی کو ہے۔

وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ ۖ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ ۚ

مائیں اپنی اولاد کو دو سال کامل دودھ پلائیں جن کا ارادہ دودھ پلانے کی مدت بالکل پوری کرنے کا ہو

یہاں اللہ تعالیٰ بچوں والیوں کو ارشاد فرماتا ہے کہ پوری پوری مدت دودھ پلانے کی دو سال ہے۔ اس کے بعد دودھ پلانے کا کوئی اعتبار نہیں۔ اس  کے بعد دودھ پینے والا س ثابت نہیں ہوتا اور نہ حرمت ہوتی ہے۔

 اکثر ائمہ کرام کا یہی مذہب ہے۔

 ترمذی میں باب ہے کہ رضاعت جو حرمت ثابت کرتی ہے وہ وہی ہے جو دو سال پہلے کی ہو۔ پھر حدیث لائے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

لَا يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعِ إِلَّا مَا فَتَقَ الْأَمْعَاءَ فِي الثَّدْيِ وَكَانَ قَبْلَ الْفِطَام

 وہی رضاعت حرام کرتی ہے جو آنتوں کو پر کر دے اور دودھ چھوٹنے سے پہلے ہو۔

یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اکثر اہل علم صحابہ وغیرہ کا اسی پر عمل ہے کہ دو سال سے پہلے کی رضاعت تو معتبر ہے، اس کے بعد کی نہیں۔ اس حدیث کے راوی شرط بخاری و مسلم پر ہیں۔

حدیث میں فِي الثَّدْيِ کا جو لفظ ہے اس کے معنی بھی محل رضاعت کے یعنی دو سال سے پہلے کے ہیں، یہی لفظ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت بھی فرمایا تھا جب آپ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کا انتقال ہوا تھا:

إِنَّ ابْنِي مَاتَ فِي الثَّدْيِ، إِنَّ لَهُ مُرْضِعًا فِي الْجَنَّـة

 وہ دودھ پلائی کی مدت میں انتقال کر گئے ہیں اور انہیں دودھ پانے والی جنت میں مقرر ہے۔

 حضرت ابراہیم کی عمر اس وقت ایک سال اور دس مہینے کی تھی۔

دار قطنی میں بھی ایک حدیث دو سال کی مدت کے بعد کی رضاعت کے معتبر نہ ہونے کی ہے۔

 ابن عباسؓ بھی فرماتے ہیں کہ اس کے بعد کوئی چیز نہیں۔

 ابوداؤد طیالسی کی روایت میں ہے کہ دودھ چھوٹ جانے کے بعد رضاعت نہیں اور بلوغت کے بعد یتیمی کا حکم نہیں۔

 خود قرآن کریم میں اور جگہ ہے:

وَفِصَـٰلُهُ ۥ فِى عَامَيۡنِ (۳۱:۱۴)

دودھ چھٹنے کی مدت دو سال میں ہے۔

 اور جگہ ہے:

وَحَمۡلُهُ ۥ وَفِصَـٰلُهُ ۥ ثَلَـٰثُونَ شَہۡرًا‌ (۴۶:۱۵)

حمل اور دودھ (دونوں کی مدت) تیس ماہ ہیں۔

یہ قول کہ دو سال کے بعد دودھ پلانے اور پینے سے رضاعت کی حرمت ثابت نہیں ہوتی، ان تمام حضرات کا ہے۔

علی، ابن عباس، ابن مسعود، جابر، ابوہریرہ، ابن عمر، اُم سلمہ رضوان اللہ علیھم اجمعین،

سعید بن المسیب، عطاء اور جمہور کا یہی مذہب ہے۔ امام شافعی، امام احمد، امام اسحق، امام ثوری، امام ابویوسف، امام محمد، امام مالک رحمھم اللہ کا بھی یہی مذہب ہے۔

 گو ایک روایت میں امام مالک سے دو سال دو ماہ بھی مروی ہیں اور ایک روایت میں دو سال تین ماہ بھی مروی ہیں۔

 امام ابوحنیفہ ڈھائی سال کی مدت بتلاتے ہیں۔  زفرا زاعی سے بھی یہ روایت ہے

 امام اوزاعی سے ایک روایت یہ بھی ہے۔ اگر کسی بچہ کا دو سال سے پہلے دودھ چھڑوا لیا جائے پھر اس کے بعد کسی عورت کا دودھ وہ پئے تو بھی حرمت ثابت نہ ہوگی اس لئے کہ اب قائم مقام خوراک کے ہو گیا۔

 امام اوزاعی سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ عمرؓ ، علیؓ سے مروی ہے کہ دودھ چھڑوا لینے کے بعد رضاعت نہیں۔

 اس قول کے دونوں مطلب ہو سکتے ہیں یعنی یا تو یہ کہ دو سال کے بعد یا یہ کہ جب بھی اس سے پہلے دودھ چھٹ گیا۔ اس کے بعد جیسے امام مالک کا فرمان ہے، واللہ اعلم،

ہاں صحیح بخاری، صحیح مسلم میں حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ وہ اس کے بعد کی بلکہ بڑے آدمی کی رضاعت کو حرمت میں مؤثر جانتی ہیں۔عطاء اور لیث کا بھی یہی قول ہے۔

حضرت عائشہؓ جس شخص کا کسی کے گھر زیادہ آنا جانا جانتیں تو وہاں حکم دیتیں کہ وہ عورتیں اسے اپنا دودھ پلائیں اور اس حدیث سے دلیل پکڑتی تھیں کہ حضرت سالم کو جو حضرت ابوحذیفہ کے مولیٰ تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ وہ ان کی بیوی صاحبہ کا دودھ پی لیں، حالانکہ وہ بڑی عمر کے تھے اور اس رضاعت کی وجہ سے پھر وہ برابر آتے جاتے رہتے تھے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری ازواج مطہرات اس کا انکار کرتی تھیں اور کہتی تھیں کہ یہ واقعہ خاص ان ہی کیلئے تھا ہر شخص کیلئے یہ حکم نہیں،

یہی مذہب جمہور کا ہے یعنی چاروں اماموں، ساتوں فقیہوں، تمام بڑے صحابہ کرام اور تمام امہات المؤمنین کا سوائے حضرت عائشہؓ کے اور ان کی دلیل وہ حدیث ہے جو بخاری و مسلم میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 دیکھ لیا کرو کہ تمہارے بھائی کون ہیں، رضاعت اس وقت ہے جب دودھ بھوک مٹا سکتا ہو،

باقی رضاعت کا پورا مسئلہ آیت وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ (۴:۲۳) کی تفسیر میں آئے گا انشاء اللہ،

وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ لَا تُكَلَّفُ نَفْسٌ إِلَّا وُسْعَهَا ۚ

اور جنکے بچے ہیں انکے ذمہ انکا روٹی کپڑا ہے جو مطابق دستور کے ہو ہر شخص اتنی ہی تکلیف دیا جاتا ہے جتنی اس کی طاقت ہو

پھر فرمان ہے کہ بچوں کی ماں کا نان نفقہ بچوں کے والد پر ہے۔ اپنے اپنے شہروں کی عادت اور دستور کے مطابق ادا کریں، نہ تو زیادہ ہو نہ کم بلکہ حسب طاقت و وسعت درمیانی خرچ دے دیا کرو جیسے فرمایا :

لِيُنفِقْ ذُو سَعَةٍ مِّن سَعَتِهِ ۔۔۔ سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْراً (۶۵:۷)

کشادگی والے کو اپنی کشادگی سے خرچ کرنا چاہیے اور جس پر اس کے رزق کی تنگی کی گئی ہو اسے چاہیے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اسے دے رکھا ہے اسی میں سے (اپنی حسب حیثیت) دے،

کسی شخص کو اللہ تکلیف نہیں دیتا مگر اتنی ہی جتنی طاقت اسے دے رکھی ہے، اللہ تنگی کے بعد آسانی و فراغت بھی کر دے گا۔

ضحاک فرماتے ہیں کہ جس شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور اس کے ساتھ بچہ بھی ہے تو اس کی دودھ پلائی کے زمانہ تک کا خرچ اس مرد پر واجب ہے۔

لَا تُضَارَّ وَالِدَةٌ بِوَلَدِهَا وَلَا مَوْلُودٌ لَهُ بِوَلَدِهِ ۚ

 ماں کو اس بچے کی وجہ سے یا باپ کو اس کی اولاد کی وجہ سے کوئی ضرر نہ پہنچایا جائے

پھر ارشاد باری تعالیٰ  ہے کہ عورت اپنے بچے کو دودھ پلانے سے انکار کر کے اس کے والد کو تنگی میں نہ ڈال دے بلکہ بچے کو دودھ پلاتی رہے اس لئے کہ یہی اس کی گزارن کا سبب ہے۔ دودھ سے جب بچہ بےنیاز ہو جائے تو بیشک بچہ کو دے دے لیکن پھر بھی نقصان رسانی کا ارادہ نہ ہو۔ اسی طرح خاوند اس سے جبراً بچے کو الگ نہ کرے جس سے غریب دُکھ میں پڑے۔

وَعَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِكَ ۗ

وارث پر بھی اسی جیسی ذمہ داری ہے،

وارث کو بھی یہی چاہئے کہ بچے کی والدہ کو خرچ سے تنگ نہ کرے، اس کے حقوق کی نگہداشت کرے اور اسے ضرر نہ پہنچائے۔ حنفیہ اور حنبلیہ میں سے جو لوگ اس کے قائل ہیں کہ رشتہ داروں میں سے بعض کا نفقہ بعض پر واجب ہے انہوں نے اسی آیت سے استدلال کیا ہے۔ حضرت عمر بن خطابؓ اور جمہور سلف صالحین سے یہی مروی ہے۔

سمرہ والی مرفوع حدیث سے بھی یہی مترشح ہوتا ہے جس میں ہے کہ جو شخص اپنے کسی محرم رشتہ دار کا مالک ہو جائے تو وہ آزاد ہو جائے گا۔

یہ بھی یاد رہے کہ دو سال کے بعد دودھ پلانا عموماً بچہ کو نقصان دیتا ہے ، یا تو جسمانی یا دماغی۔

حضرت علقمہ نے ایک عورت کو دو سال سے بڑے بچے کو دودھ پلاتے ہوئے دیکھ کر منع فرمایا۔

فَإِنْ أَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِنْهُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا ۗ

 پھر اگر دونوں (یعنی ماں باپ) اپنی رضامندی سے باہمی مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں تو دونوں پر کچھ گناہ نہیں

پھر فرمایا گیا ہے اگر یہ رضامندی اور مشورہ سے دو سال کے اندر اندر جب کبھی دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کوئی حرج نہیں ہاں ایک کی چاہت دوسرے کی رضامندی کے بغیر ناکافی ہوگی اور یہ بچے کے بچاؤ کی اور اس کی نگرانی کی ترکیب ہے۔

 خیال فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر کس قدر رحیم و کریم ہے کہ چھوٹے بچوں کے والدین کو ان کاموں سے روک دیا جس میں بچے کی بربادی کا خوف تھا، اور وہ حکم دیا جس سے ایک طرف بچے کا بچاؤ ہے دوسری جانب ماں باپ کی اصلاح ہے۔ سورۃ طلاق میں فرمایا :

فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَـَاتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ وَأْتَمِرُواْ بَيْنَكُمْ بِمَعْرُوفٍ وَإِن تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرَى (۶۵:۶)

اگر تمہارے کہنے سے وہی دودھ پلائیں تو تم انہیں ان کی اجرت دے دو اور باہم مناسب طور پر مشورہ کرلیا کرو اور اگر تم آپس میں کشمکش کرو تو اس کے کہنے سے کوئی اور دودھ پلائے گی۔

وَإِنْ أَرَدْتُمْ أَنْ تَسْتَرْضِعُوا أَوْلَادَكُمْ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِذَا سَلَّمْتُمْ مَا آتَيْتُمْ بِالْمَعْرُوفِ ۗ

اور اگر تمہارا ارادہ اپنی اولاد کو دودھ پلوانے کا ہو تو بھی تم پر کوئی گناہ نہیں  جب کہ تم ان کو مطابق دستور کے جو دینا ہو وہ ان کے حوالے کر دو

یہ اور بات ہے کہ تنگی کے وقت کسی اور سے دودھ پلوا دو، چنانچہ یہاں بھی فرمایا اگر والدہ اور والد متفق ہو کر کسی عذر کی بنا پر کسی اور سے دودھ شروع کرائیں اور پہلے کی اجازت کامل طور پر والد والدہ کو دے دے تو بھی دونوں پر کوئی گناہ نہیں، اب دوسری کسی دایہ سے اُجرت چکا کر دودھ پلوا دیں۔

وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (۲۳۳)

اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور جانتے رہو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی دیکھ بھال کر رہا ہے۔‏

 لوگو اللہ تعالیٰ سے ہر امر میں ڈرتے رہا کرو اور یاد رکھو کہ تمہارے اقوال و افعال کو وہ بخوبی جانتا ہے۔

وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ۖ

تم میں سے جو لوگ فوت ہو جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں، وہ عورتیں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن عدت میں رکھیں

اس آیت میں حکم ہو رہا ہے کہ عورت اپنے خاوند کے انتقال کے بعد چار مہینے دس دن عدت گزاریں خواہ اس سے مجامعت ہو یا نہ ہوئی ہو،

اس پر اجماع ہےدلیل اس کی ایک تو اس آیت کا عموم دوسرے یہ حدیث جو مسند احمد اور سنن میں ہے جسے امام ترمذی صحیح کہتے ہیں:

 حضرت  ابن مسعودؓ سے سوال ہوتا ہے کہ ایک شخص نے ایک عورت سے نکاح کیا اس سے مجامعت نہیں کی تھی نہ مہر مقرر ہوا تھا کہ اس کا انتقال ہو گیا، فرمائیے اس کی نسبت کیا فتویٰ ہے

جب وہ کئی مرتبہ آئے گئے تو آپ نے فرمایا میں اپنی رائے سے فتویٰ دیتا ہوں، اگر ٹھیک ہو تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جانو اور اگر خطاء ہو تو میری اور شیطان کی طرف سے سمجھو، اللہ اور رسول اس سے بری ہیں۔میرا فتویٰ یہ ہے کہ اس عورت کو پورا مہر ملے گا جو اس کے خاندان کا دستور ہو، اس میں کوئی کمی بیشی نہ ہو اور اس عورت کو پوری عدت گزارنی چاہئے اور اسے ورثہ بھی ملے گا۔

یہ سن کر حضرت معقل بن یسار اسجعی کھڑے ہو گئے اور فرمانے لگے بروع بنت واشق کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فیصلہ کیا تھا۔ حضرت عبداللہؓ یہ سن کر بہت خوش ہوئے۔

 بعض روایات میں ہے کہ اشجع کے بہت سے لوگوں نے یہ روایت بیان کی،

ہاں جو عورت اپنے خاوند کی وفات کے وقت حمل سے ہو اس کیلئے یہ عدت نہیں، اس کی عدت وضع حمل ہے۔ گو انتقال کی ایک ساعت کے بعد ہی ہو جائے۔ قرآن میں ہے:

وَأُوْلَـتُ الاٌّحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ (۶۵:۴)

 اور حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل ہے

ہاں حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ وضع حمل اور چار مہینے دس دن میں جو دیر کی عدت ہو وہ حاملہ کی عدت ہے،

 یہ قول تو بہت اچھا ہے اور دونوں آیتوں میں اس سے تطبیق بھی عمدہ طور پر ہو جاتی ہے لیکن اس کےخلاف بخاری و مسلم کی ایک صاف اور صریح حدیث موجود ہے جس میں ہے :

حضرت سبیعہ اسلیمہ کے خاوند کا جب انتقال ہوا، اس وقت آپ حمل سے تھیں اور چند راتیں گزار پائی تھیں تو بچہ تولد ہوا، جب نہا دھو چکیں تو لباس وغیرہ اچھا پن لیا،

حضرت ابوالسنابل بن بعلبک نے یہ دیکھ کر فرمایا کیا تم نکاح کرنا چاہتی ہو؟ اللہ کی قسم جب تک چار مہینے دس دن نہ گزر جائیں تم نکاح نہیں کر سکتیں۔

حضرت سبیعہ یہ سن کر خاموش ہو گئیں اور شام کو خدمتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئیں اور مسئلہ پوچھا

 تو آپ ﷺنے فرمایا کہ جب بچہ ہو گیا اسی وقت تم عدت سے نکل گئیں، اب اگر تم چاہو تو بیشک نکاح کر سکتی ہو۔

یہ بھی مروی ہے کہ جب حضرت عبداللہؓ  کو اس حدیث کا علم ہوا تو آپ نے بھی اپنے قول سے رجوع کر لیا، اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت عبداللہؓ کے ساتھی شاگرد بھی اسی حدیث کے مطابق فتویٰ دیا کرتے تھے۔

 اسی طرح لونڈی کی عدت بھی اتنی نہیں، اس کی عدت اس سے آدھی ہے یعنی دو مہینے اور پانچ راتیں، جمہور کا مذہب یہی ہے جس طرح لونڈی کی حد بہ نسبت آزاد عورت کے آدھی ہے اسی طرح عدت بھی۔

محمد بن سیرین اور بعض علماء ظاہر یہ لونڈی کی اور آزاد عورت کی عدت میں برابری کے قائل ہیں۔ ان کی دلیل ایک تو اس آیت کا عموم ہے، دوسرے یہ کہ عدت ایک جلی امر ہے جس میں تمام عورتیں یکساں ہیں۔

حضرت سعید ابن مسیب ابوالعالیہ وغیرہ فرماتے ہیں اس عدت میں حکمت یہ ہے کہ اگر عورت کو حمل ہوگا تو اس مدت میں بالکل ظاہر ہو جائے گا۔

حضرت ابن مسعودؓ کی بخاری و مسلم والی مرفوع حدیث میں ہے:

 انسان کی پیدائش کا یہ حال ہے کہ چالیس دن تک تو رحمِ مادر میں نطفہ کی شکل میں ہوتا ہے، پھر خون بستہ کی شکل چالیس دن تک رہتی ہے پھر چالیس دن تک گوشت کا لوتھڑا رہتا ہے پھر اللہ تعالیٰ فرشتے کو بھیجتا ہے اور وہ اس میں روح پھونکتا ہے۔ تو یہ ایک سو بیس دن ہوئے جس کے چار مہینے ہوئے، دس دن احتیاطاً اور رکھ دے کیونکہ بعض مہینے انتیس دن کے بھی ہوتے ہیں اور جب روح پھونک دی گئی تو اب بچہ کی حرکت محسوس ہونے لگتی ہے اور حمل بالکل ظاہر ہو جاتا ہے۔ اس لئے اتنی عدت مقرر کی گئی واللہ اعلم۔

سعید بن مسیب فرماتے ہیں دس دن اس لئے ہیں کہ روح انہی دس دِنوں میں پھونکی جاتی ہے۔

 ربیع بن انس بھی یہی فرماتے ہیں۔

حضرت امام احمد سے ایک روایت میں یہ بھی مروی ہے تا کہ جس لونڈی سے بچہ ہو جائے اس کی عدت بھی آزاد عورت کے برابر ہے اس لئے کہ وہ فراش بن گئی اور اس لئے بھی کہ مسند احمد میں حدیث ہے۔

حضرت عمرو بن عاص نے فرمایا:

 لوگو سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم پر خلط ملط نہ کرو۔ اولاد والی لونڈی کی عدت جبکہ اس کا سردار فوت ہو جائے چار مہینے اور دس دن ہیں۔

یہ حدیث ایک اور طریق سے بھی ابوداؤد میں مروی ہے۔

امام احمد اس حدیث کو منکر بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کے ایک راوی قبیصیہ نے اپنے استاد عمر سے یہ روایت نہیں سنی۔

حضرت سعید بن مسیب مجاہد ، سعید بن جبیر، حسن بن سیرین ، ابن عیاض زہری اور عمرو بن عبدالعزیز کا یہی قول ہے۔

یزید بن عبدالملک بن مروان جو امیرالمؤمنین تھے، یہی حکم دیتے تھے۔

اوزاعی، اسحاق بن راہویہ اور احمد بن حنبل بھی ایک روایت میں یہی فرماتے ہیں لیکن طاؤس اور قتادہ اس کی عدت بھی آدھی بتلاتے ہیں یعنی دو ماہ پانچ راتیں۔

 ابوحنیفہؒ ان کے ساتھ حسن بن صالح بن حی فرماتے ہیں میں حیض عدت گزارے،

حضرت علی ابن مسعود، عطاء اور ابراہیم نخعی کا قول بھی یہی ہے۔

 امام مالک، امام شافعی اور امام احمد کی مشہور روایت یہ ہے کہ اس کی عدت ایک حیض ہی ہے۔

 ابن عمر ، شعبی ، مکحول ، لیث ، ابوعبید ، ابوثور اور جمہور کا یہی مذہب ہے۔

حضرت لیث فرماتے ہیں کہ اگر حیض کی حالت میں اس کا سید فوت ہوا ہے تو اسی حیض کا ختم ہو جانا اس کی عدت کا ختم ہو جانا ہے۔

امام مالک فرماتے ہیں اگر حیض نہ آتا ہو تو تین مہینے عدت گزارے۔

 امام شافعی اور جمہور فرماتے ہیں ایک مہینہ اور تین دن مجھے زیادہ پسند ہیں واللہ اعلم

مترجم کے نزدیک قوی قول پہلا ہے یعنی مثل آزاد عورت کے پوری عدت گزارے۔ واللہ اعلم

بعد ازاں جو ارشاد فرمایا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سوگ واجب ہے۔

بخاری و مسلم میں حدیث ہے:

 جو عورت اللہ پر اور قیامت پر ایمان رکھتی ہو اسے تین دن سے زیادہ کسی میت پر سوگواری کرنا حرام ہے، ہاں خاوند پر چار مہینے دس دن سوگوار ہے۔

 ایک عورت نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میری بیٹی کا میاں مر گیا ہے اور اس کی آنکھیں دُکھ رہی ہیں، کیا میں اس کے سرمہ لگا دوں؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں،

دو تین مرتبہ اس نے اپنا سوال دہرایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی جواب دیا،

آخری بار فرمایا یہ تو چار مہینے اور دس دن ہی ہیں، جاہلیت میں تو تم سال سال بھر بیٹھی رہا کرتی تھیں۔

حضرت زینب بنت اُم سلمہ فرماتی ہیں کہ پہلے جب کسی عورت کا خاوند مر جاتا تھا تو اسے کسی جھونپڑے میں ڈال دیتے تھے، وہ بدترین کپڑے پہنتی، خوشبو وغیرہ سے الگ رہتی اور سال بھر تک ایسی ہی سڑی بھسی رہتی تھی، سال بھر کے بعد نکلتی اور اونٹنی کی مینگنی لے کر پھینکتی اور کسی جانور مثلاً گدھا یا بکری یا پرندے کے جسم کے ساتھ اپنے جسم کو رگڑتی، بسا اوقات وہ مر ہی جاتا، یہ تھی جاہلیت کی رسم۔

پس یہ آیت اس کے بعد کی آیت کی ناسخ ہے جس میں ہے کہ ایسی عورتیں سال بھر تک رکی رہیں۔

حضرت ابن عباسؓ وغیرہ یہی فرماتے ہیں کہ اس میں اختلاف ہے اور تفصیل اس کی عنقریب آئے گی انشاء اللہ،

مطلب یہ کہ اس زمانہ میں بیوہ عورت کو زینت اور خوشبو اور بہت بھڑکیلے کپڑے اور زیور وغیرہ پہننا منع ہے اور یہ سوگواری واجب ہے۔

ہاں ایک قول یہ بھی ہے کہ طلاق رجعی کی عدت میں یہ واجب نہیں، اور جب طلاق بائن ہو تو وجوب اور عدم وجوب کے دونوں قول ہیں،

فوت شدہ خاوندوں کی زندہ بیویوں پر تو سب پر یہ سوگواری واجب ہے، خواہ وہ نابالغہ ہوں خواہ وہ عورتیں ہوں جو حیض وغیرہ سے اتر چکی ہوں، خواہ آزاد عورتیں ہوں خواہ لونڈیاں ہوں، خواہ مسلمان ہوں خواہ کافرہ ہوں کیونکہ آیت میں عام حکم ہے،

ہاں ثوری اور ابوحنیفہ کافرہ عورت کی سوگواری کے قائل نہیں، شہاب اور ابن نافع کا قول بھی یہی ہے ان کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں ہے کہ جو عورت اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہو۔ پس معلوم ہوا کہ یہ حکم تعبدی ہے،

امام ابوحنیفہ اور ثوری کمسن نابالغہ عورت کیلئے بھی یہی فرماتے ہیں کیونکہ وہ غیر مکلفہ ہے۔

امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب مسلمان لونڈی کو اس میں ملاتے ہیں لیکن اس مسائل کی تصفیہ کا یہ موقع نہیں واللہ الموفق بالصواب

فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ (۲۳۴)

پھر جب مدت ختم کرلیں تو جو اچھائی کے ساتھ وہ اپنے لئے کریں اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں اور اللہ تعالیٰ تمہارے عمل سے خبردار ہے۔‏

 پھر فرمایا جب ان کی عدت گزر چکے تو ان کے اولیاء پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ عورتیں اپنے بناؤ سنگھار کریں یا نکاح کریں، یہ سب ان کیلئے حلال طیب ہے۔

حسن، زہری اور سدی سے بھی اسی طرح مروی ہے۔

وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا عَرَّضْتُمْ بِهِ مِنْ خِطْبَةِ النِّسَاءِ أَوْ أَكْنَنْتُمْ فِي أَنْفُسِكُمْ ۚ

تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں کہ تم اشارتاً ان عورتوں سے نکاح کی بابت کہو، یا اپنے دل میں پوشیدہ ارادہ کرو

مطلب یہ کہ صراحت کے بغیر نکاح کی چاہت کا اظہار کسی اچھے طریق پر عدت کے اندر کرنے میں گناہ نہیں مثلاً یوں کہنا کہ میں نکاح کرنا چاہتا ہوں، میں ایسی ایسی عورت کو پسند کرتا ہوں، میں چاہتا ہوں کہ اللہ میرا جوڑا بھی ملا دے، انشاء اللہ میں تیرے سوا دوسری عورت سے نکاح کا ارادہ نہیں کروں گا، میں کسی نیک دیندار عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہوں،

 اسی طرح اس عورت سے جسے طلاق بائن مل چکی ہو عدت کے اندر ایسے مبہم الفاظ کہنا بھی جائز ہیں۔ جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ بن قیس سے فرمایا تھا جبکہ ان کے خاوند ابوعمرو بن حفص نے انہیں آخری تیسری طلاق دے دی تھی کہ جب تم عدت ختم کرو تو مجھے خبر کر دینا، عدت کا زمانہ حضرت ابن مکتوم کے ہاں گزارو، جب حضرت فاطمہ نے عدت نکل جانے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسامہ بن زید سے جن کا مانگا تھا، نکاح کرا دیا،

 ہاں رجعی طلاق کی عدت کے زمانہ میں بجز اس کے خاوند کے کسی کو بھی یہ حق نہیں کہ وہ اشارتاً کنایہ بھی اپنی رغبت ظاہر کرے واللہ اعلم۔

یہ فرمان کہ تم اپنے نفس میں چھپاؤ یعنی منگنی کی خواہش،ایک جگہ ارشاد ہے:

وَرَبُّكَ يَعْلَمُ مَا تُكِنُّ صُدُورُهُمْ وَمَا يُعْلِنُونَ (۲۸:۶۹)

 ان کے سینے جو کچھ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں آپ کا رب سب کچھ جانتا ہے۔‏

دوسری جگہ فرمایا:

وَأَنَاْ أَعْلَمُ بِمَآ أَخْفَيْتُمْ وَمَآ أَعْلَنتُمْ (۶۰:۱)

اور مجھے خوب معلوم ہے جو تم نے چھپایا وہ بھی جو تم نے ظاہر کیا،

عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ سَتَذْكُرُونَهُنَّ وَلَكِنْ لَا تُوَاعِدُوهُنَّ سِرًّا إِلَّا أَنْ تَقُولُوا قَوْلًا مَعْرُوفًا ۚ

 اللہ تعالیٰ کو علم ہے کہ تم ضرور انکو یاد کرو گے لیکن ان سے پوشیدہ وعدے نہ کر لو ہاں یہ اور بات ہے کہ تم بھلی بات بولا کرو

پس اللہ تعالیٰ بخوبی جانتا تھا کہ تم اپنے دِلوں میں ضرور ذِکر کرو گے اس واسطے اس نے تنگی ہٹا دی،

لیکن ان عورتوں سے پوشیدہ وعدے نہ کرو، یعنی زناکاری سے بچو، ان سے یوں نہ کہو کہ میں تم پر عاشق ہوں، تم بھی وعدہ کرو کہ میرے سوا کسی اور سے نکاح نہ کرو گی وغیرہ۔

 عدت میں ایسے الفاظ کا کہنا حلال نہیں، نہ یہ جائز ہے کہ پوشیدہ طور پر عدت میں نکاح کر لے اور عدت گزر جانے کے بعد اس نکاح کا اظہار کرے،

پس یہ سب اقوال اس آیت کے عموم میں آ سکتے ہیں اسی لئے فرمان ہوا کہ مگر یہ کہ تم ان سے اچھی بات کرو مثلاً ولی سے کہہ دیا کہ جلدی نہ کرنا، عدت گزر جانے کی مجھے بھی خبر کرنا وغیرہ۔

وَلَا تَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّكَاحِ حَتَّى يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ ۚ

اور عقد نکاح جب تک عدت ختم نہ ہو جائے پختہ نہ کرو،

جب تک عدت ختم نہ ہو جائے تب تک نکاح منعقد نہ کیا کرو،علماء کا اجماع ہے کہ عدت کے اندر نکاح صحیح نہیں۔اگر کسی نے کر لیا اور دخول بھی ہو گیا تو بھی ان میں جدائی کرا دی جائے گی،

 اب آیا یہ عورت اس پر ہمیشہ کیلئے حرام ہو جائے گی یا پھر عدت گزر جانے کے بعد نکاح کر سکتا ہے؟

اس میں اختلاف ہے جمہور تو کہتے ہیں کہ کر سکتا ہے لیکن امام مالک فرماتے ہیں کہ وہ ہمیشہ کیلئے حرام ہو گئی، اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ فرماتے ہیں :

 جب عورت کا نکاح عدت کے اندر کر دیا جائے گا اگر اس کا خاوند اس سے نہیں ملا تو ان دونوں میں جدائی کرا دی جائے گی اور جب اس کے پہلے خاوند کی عدت گزر جائے تو یہ شخص منجملہ اور لوگوں کو اس کے نکاح کا پیغام ڈال سکتا ہے اور اگر دونوں میں ملاپ بھی ہو گیا ہے جب بھی جدائی کرا دی جائے گی اور پہلے خاوند کو عدت گزار کر پھر اس دوسرے خاوند کی عدت گزارے گی اور پھر یہ شخص اس سے ہرگز نکاح نہیں کر سکتا،

 اس فیصلہ کا ماخذ یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب اس شخص نے جلدی کر کے اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ وقت کا لحاظ نہ کیا تو اسے اس خلاف سزا دی گئی کہ وہ عورت اس پر ہمیشہ کیلئے حرام کر دی گئی، جیسا کہ قاتل اپنے مقتول کے ورثہ سے محروم کر دیا جاتا ہے

 امام شافعی نے امام مالک سے بھی یہ اثر روایت کیا ہے،

 امام بیہقی فرماتے ہیں کہ پہلا قول تو امام صاحب کا یہی تھا لیکن جدید قول آپ کا یہ ہے کہ اسے بھی نکاح کرنا حلال ہے کیونکہ حضرت علیؓ کا یہی فتویٰ ہے۔

حضرت عمر ؓوالا یہ اثر سندا ًمنقطع ہے بلکہ حضرت مسروق فرماتے ہیں کہ حضرت عمر ؓنے اس بات سے رجوع کر لیا ہے اور فرمایا ہے کہ مہر ادا کر دے اور عدت کے بعد یہ دونوں آپس میں اگر چاہیں تو نکاح کر سکتے ہیں۔

وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ ۚ

 جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کی باتوں کا بھی علم رکھتا ہے تم اس سے خوف کھاتے رہا کرو

پھر فرمایا جان لو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے دِلوں کی پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے، اس کا لحاظ اور خوف رکھو اپنے دِل میں عورتوں کے متعلق فرمان باری کیخلاف خیال بھی نہ آنے دو۔ ہمیشہ دِل کو صاف رکھو، برے خیالات سے اسے پاک رکھو۔

وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ (۲۳۵)

اور یہ بھی جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ بخشش اور حلم والا ہے۔‏

 ڈر، خوف کے حکم کے ساتھ ہی اپنی رحمت کی طمع اور لالچ بھی دلائی اور فرمایا کہ اللہ العالمین خطاؤں کو بخشنے والا اور حلم و کرم والا ہے۔

لَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ أَوْ تَفْرِضُوا لَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ

اگر تم عورتوں کو بغیر ہاتھ لگائے اور بغیر مہر مقرر کئے طلاق دے دو تو بھی تم پر کوئی گناہ نہیں، ہاں انہیں کچھ نہ کچھ فائدہ دو۔

عقد نکاح کے بعد دخول سے پہلے بھی طلاق کا دینا مباح ہو رہا ہے۔

 مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہاں مراد مَس سے نکاح ہے

دخول سے پہلے طلاق دے دینا بلکہ مہر کا بھی ابھی تقرر نہیں ہوا اور طلاق دے دینا بھی جائز ہے، گو اس میں عورت کی بےحد دِل شکنی ہے، اسی لئے حکم ہے کہ اپنے مقدور بھر اس صورت میں مرد کو عورت کے ساتھ سلوک کرنا چاہئے۔

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں اس کا اعلیٰ حصہ خادم ہے اور اس سے کمی چاندی ہے اور اس سے کم کپڑا ہے یعنی اگر مالدار ہے تو غلام وغیرہ دے اور اگر مفلس ہے تو کم سے کم تین کپڑے دے۔

 حضرت شعبی فرماتے ہیں درمیانہ درجہ اس فائدہ پہنچانے کا یہ ہے کہ کرتہ دوپٹہ لحاف اور چادر دے دے۔

 تشریح فرماتے ہیں پانچ سو درہم دے،

 ابن سیرین فرماتے ہیں غلام دے یا خوراک دے یا کپڑے لتے دے،

حضرت حسن بن علیؓ نے دس ہزار دئیے تھے لیکن پھر بھی وہ بیوی صاحبہ فرماتی تھیں کہ اس محبوب مقبول کی جدائی کے مقابلہ میں یہ حقیر چیز کچھ بھی نہیں۔

امام ابوحنیفہؒ کا قول ہے کہ اگر دونوں اس فائدہ کی مقدار میں تنازعہ کریں تو اسکے خاندانکے مہر سے آدھی رقم دلوا دی جائے،

حضرت امام شافعیؒ کا فرمان ہے کہ کسی چیز پر خاوند کو مجبور نہیں کیا جا سکتا بلکہ کم سے کم جس چیز کو متعہ یعنی فائدہ اور اسباب کہا جا سکتا ہے وہ کافی ہوگا۔ میرے نزدیک اتنا کپڑا متعہ ہے جتنے میں نماز پڑھ لینی جائز ہو جائے،

گو پہلا قول حضرت الامام کا یہ تھا کہ مجھے اس کا کوئی صحیح اندازہ معلوم نہیں لیکن میرے نزدیک بہتر یہ ہے کہ کم سے کم تیس درہم ہونے چاہئیں جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے مروی ہے،

اس بارے میں بہت سے اقوال ہیں کہ ہر طلاق والی عورت کو کچھ نہ کچھ اسباب دینا چاہئے یا صرف اسی صورت کو جس سے میل ملاپ نہ ہوا ہو، بعض تو سب کیلئے کہتے ہیں کیونکہ قرآن کریم میں ہے:

وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ (۲:۲۴۱)

طلاق والیوں کو اچھا فائدہ دینا

 پس اس آیت کے عموم سے سب کیلئے وہ ثابت کرتے ہیں۔اس طرح ان کی دلیل یہ بھی ہے:

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ إِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا (۳۳:۲۸)

اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم زندگانی دنیا اور زینت دنیا چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ دے دلا دوں اور تمہیں اچھائی کے ساتھ رخصت کر دوں۔‏

پس یہ تمام ازواج مطہرات وہ تھیں جن کا مہر بھی مقرر تھا اور جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھی آ چکی تھیں، سعید بن جبیر، ابوالعالیہ، حسن بصری کا قول یہی ہے۔

 امام شافعیؒ کا بھی ایک قول یہی ہے اور بعض تو کہتے ہیں کہ ان کا نیا اور صحیح قول یہی ہے واللہ اعلم۔

بعض کہتے ہیں اسباب کا دینا اس طلاق والی کو ضروری ہے جس سے خلوت نہ ہوئی ہو گو مہر مقرر ہو چکا ہو کیونکہ قرآن کریم میں ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ۔۔۔ فَمَتِّعُوهُنَّ وَسَرِّحُوهُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا (۳۳:۴۹)

 اے مؤمنوں جب تم مؤمن عورتوں سے نکاح کرو پھر ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دو تو ان پر تمہارا کوئی حق عدت کا نہیں جسے تم شمار کرو

پس تم کچھ نہ کچھ انہیں دے دو پھر بھلے طریقے سے رخصت کر دو

 سعید بن مسیب کا قول ہے کہ سورۃ احزاب کی یہ آیت سورۃ بقرہ کی آیت سے منسوخ ہو چکی ہے۔

حضرت سہل بن سعد اور ابواسید فرماتے ہیں:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت امیہ بنت شرجبیل سے نکاح کیا جب وہ رخصت ہو کر آئیں اور آپ نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو گویا اس نے برا مانا،

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابواسید سے فرمایا اسے دو رنگین کپڑے دے کر رخصت کرو،

تیسرا قول یہ ہے کہ صرف اسی صورت میں بطور فائدہ کے اسباب و متاع کا دینا ضروری ہے جبکہ عورت کی وداع نہ ہوئی ہو اور مہر بھی مقرر نہ ہوا ہو اور اگر دخول ہو گیا ہو تو مہر مثل یعنی خاندان کے دستور کے مطابق دینا پڑے گا اگر مقرر نہ ہوا ہو اور اگر مقرر ہو چکا ہو اور رخصت سے پہلے طلاق دے دے تو آدھا مہر دینا پڑے گا اور اگر رخصتی بھی ہو چکی ہے تو پورا مہر دینا پڑے گا اور یہی متعہ کا عوض ہوگا۔

ہاں اس مصیبت زدہ عورت کیلئے متعہ ہے جس سے نہ ملاپ ہوا نہ مہر مقرر ہوا اور طلاق مل گئی۔حضرت ابن عمر ؓاور مجاہدؓ کا یہی قول ہے، گو بعض علماء اسی کو مستحب بتلاتے ہیں کہ ہر طلاق والی عورت کو کچھ نہ کچھ دے دینا چاہئے ان کے سوا جو مہر مقرر کئے ہوئے نہ ہوں اور نہ خاوند بیوی کا میل ہوا ہو، یہی مطلب سورۃ احزاب کی اس آیت تخیر کا ہے جو اس سے پہلے اسی آیت کی تفسیر میں بیان ہو چکی ہے

وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ (۲۳۶)

 خوش حال اپنے انداز سے اور تنگدست اپنی طاقت کے مطابق دستور کے مطابق اچھا فائدہ دے بھلائی کرنے والوں پر یہ لازم ہے ۔‏

 اور اسی لئے یہاں اس خاص صورت کیلئے فرمایا گیا ہے کہ امیر اپنی وسعت کے مطابق دیں اور غریب اپنی طاقت کے مطابق۔

 حضرت شعبی سے سوال ہوتا ہے کہ یہ اسباب نہ دینے والا کیا گرفتار کیا جائے گا؟

تو آپ فرماتے ہیں اپنی طاقت کے برابر دے دے، اللہ کی قسم اس بارے میں کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا اگر یہ واجب ہوتا تو قاضی لوگ ضرور ایسے شخص کو قید کر لیتے۔

وَإِنْ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ

اور اگر تم عورتوں کو اس سے پہلے طلاق دےدو کہ تم نے انہیں ہاتھ نہیں لگایا ہو اور تم نے ان کا مہر بھی مقرر کر دیا تو مقررہ مہر کا آدھا مہر دےدو

اس آیت میں صاف دلالت ہے اس امر پر کہ پہلی آیت میں جن عورتوں کیلئے متعہ مقرر کیا گیا تھا وہ صرف وہی عورتیں ہیں جن کا ذِکر اس آیت میں تھا کیونکہ اس آیت میں یہ بیان ہوا ہے کہ دخول سے پہلے جبکہ طلاق دے دی گئی ہو اور مہر مقرر ہو چکا ہو تو آدھا مہر دینا پڑے گا۔ اگر یہاں بھی اس کے سوا کوئی اور متعہ واجب ہوتا تو وہ ضرور ذِکر کیا جاتا کیونکہ دونوں آیتوں کی دونوں صورتوں میں ایک کے بعد ایک بیان ہو رہی ہیں واللہ اعلم،

اس صورت میں جو یہاں بیان ہو رہی ہے آدھے مہر پر علماء کا اجماع ہے، لیکن تین کے نزدیک پورا مہر اس وقت واجب ہو جاتا ہے جبکہ خلوت ہو گئی یعنی میاں بیوی تنہائی کی حالت میں کسی مکان میں جمع ہو گئے، گو ہم بستری نہ ہوئی ہو۔

 امام شافعی کا بھی پہلا قول یہی ہے اور خلفائے راشدین کا فیصلہ بھی یہی ہے ،لیکن امام شافعیؒ کی روایت سے حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ اس صورت میں بھی صرف نصف مہر مقررہ ہی دینا پڑے گا،

 امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ میں بھی یہی کہتا ہوں اور ظاہر الفاظ کتاب اللہ کے بھی یہی کہتے ہیں۔

 امام بیہقی فرماتے ہیں کہ اس روایت کے ایک راوی لیث بن ابی سلیم اگرچہ سند پکڑے جانے کے قابل نہیں

لیکن ابن ابی طلحہ سے ابن عباس کی یہ روایت مروی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا فرمان یہی ہے،

إِلَّا أَنْ يَعْفُونَ أَوْ يَعْفُوَ الَّذِي بِيَدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحِ ۚ

یہ اور بات ہے وہ خود معاف کر دیں یا وہ شخص معاف کردے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے

ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ثیبہ عورت اگر اپنا حق چھوڑ دے تو اسے اختیار ہے۔ بہت سے مفسرین تابعین کا یہی قول ہے،

محمد بن کعب قرظی کہتے ہیں کہ اس سے مراد عورتوں کا معاف کرنا نہیں بلکہ مردوں کا معاف کرنا ہے۔ یعنی مرد اپنا آدھا حصہ چھوڑ دے اور پورا مہر دے دے

 لیکن یہ قول شاذ ہے کوئی اور اس قول کا قائل نہیں،

پھر فرماتا ہے کہ وہ معاف کر دے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے۔

 ایک حدیث میں ہے اس سے مراد خاوند ہے۔

 حضرت علیؓ سے سوال ہوا کہ اس سے مراد کیا عورت کے اولیاء ہیں،

 فرمایا نہیں بلکہ اس سے مراد خاوند ہے۔

اور بھی بہت سے مفسرین سے یہی مروی ہے۔ امام شافعی کا جدید قول بھی یہی ہے۔امام ابوحنیفہ کا بھی یہی مذہب ہے،

اس لئے کہ حقیقتاً نکاح کو باقی رکھنا توڑ دینا وغیرہ یہ سب خاوند کے ہی اختیار میں ہے اور جس طرح ولی کو اس کی طرف سے جس کا ولی ہے، اس کے مال کا دے دینا جائز نہیں اسی طرح اس کے مہر کے معاف کر دینے کا بھی اختیار نہیں۔

 دوسرا قول اس بارے میں یہ ہے کہ اس سے مراد عورت کے باپ بھائی اور وہ لوگ ہیں جن کی اجازت بغیر عورت نکاح نہیں کر سکتی۔

ابن عباس ، علقمہ ، حسن، عطاء، طاؤس، زہری، ربیعہ، زید بن اسلم، ابراہیم نخعی، عکرمہ، محمد بن سیرین سے بھی یہی مروی ہے کہ ان دونوں بزرگوں کا بھی ایک قول یہی ہے۔

 امام مالک کا اور امام شافعی کا قول قدیم بھی یہی ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ ولی نے ہی اس حق کا حقدار اسے کیا تھا تو اس میں تصرف کرنے کا بھی اسے اختیار ہے، گو اور مال میں ہیر پھیر کرنے کا اختیار نہ ہو،

 عکرمہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے معاف کر دینے کی رخصت عورت کو دی اور اگر وہ بخیلی اور تنگ دِلی کرے تو اس کا ولی بھی معاف کر سکتا ہے۔ گو وہ عورت سمجھدار ہو، حضرت شریح بھی یہی فرماتے ہیں لیکن جب شعبی نے انکار کیا تو آپ نے اس سے رجوع کر لیا اور فرمانے لگے کہ اس سے مراد خاوند ہی ہے بلکہ وہ اس بات پر مباہلہ کو تیار رہتے تھے۔

وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى ۚ

تمہارا معاف کر دینا تقویٰ سے بہت نزدیک ہے

پھر فرماتا ہے تمہارا معاف کرنا ہی تقویٰ سے زیادہ قریب ہے، اس سے مراد مرد عورتیں دونوں ہی ہیں یعنی دونوں میں سے اچھا وہی ہے جو اپنا حق چھوڑ دے، یعنی عورت یا تو اپنا آدھا حصہ بھی اپنے خاوند کو معاف کر دے یا خاوند ہی اسے بجائے آدھے کے پورا مہر دے دے۔

وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (۲۳۷)

اور آپس کی فضیلت اور بزرگی کو فراموش نہ کرو یقیناً اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے۔‏

آپس کی فضیلت یعنی احسان کو نہ بھولو، اسے بیکار نہ چھوڑو بلکہ اسے کام میں لاؤ۔

ابن مردویہ کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

لوگوں پر ایک کاٹ کھانے والا زمانہ آئے گا، مؤمن بھی اپنے ہاتھوں کی چیز کو دانتوں سے پکڑ لے گا اور فضیلت و بزرگی کو بھول جائے گا، حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے اپنے آپس کے فضل کو نہ بھولو،

 برے ہیں وہ لوگ جو ایک مسلمان کی بےکسی اور تنگ دستی کے وقت اس سے سستے داموں اس کی چیز خریدتے ہیں۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بیع سے منع فرما دیا ہے۔

 اگر تیرے پاس بھلائی ہو تو اپنے بھائی کو بھی وہ بھلائی پہنچا اس کی ہلاکت میں حصہ نہ لے۔ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، نہ اسے رنج و غم پہنچے نہ اسے بھلائیوں سے محروم رکھے،

حضرت عون حدیثیں بیان کرتے ہوئے اتنا روئے  کہ  یہاں تک کہا ٓنسو  داڑھی سے ٹپکتے رہے اور فرماتے میں مالداروں کی صحبت میں بیٹھا اور دیکھا کہ ہر وقت دِل ملول رہتا ہے کیونکہ جدھر نظر اٹھتی ہر ایک کو اپنے سے اچھے کپڑوں میں اچھی خوشبوؤں میں اور اچھی سواریوں میں دیکھتا، ہاں مسکینوں کی محفل میں میں نے بڑی راحت پائی،

رب العالم یہی فرماتا ہے ایک دوسرے کی فضیلت فراموش نہ کرو، کسی کے پاس جب بھی کوئی سائل آئے اور اس کے پاس کچھ نہ ہو تو وہ اس کیلئے دُعائے خیر ہی کر دے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے خبردار ہے، اس پر تمہارے کام اور تمہارا حال بالکل روشن ہے اور عنقریب وہ ہر ایک عامل کو اس کے عمل کا بدلہ دے گا۔

حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ

نمازوں کی حفاظت کرو،

اللہ تعالیٰ کا حکم ہو رہا ہے کہ نمازوں کے وقت کی حفاظت کرو اس کی حدود کی نگرانی رکھو اور اول وقت ادا کرتے رہو،

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سوال کرتے ہیں کہ کون سا عمل افضل ہے؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز کو وقت پر پڑھنا،

پھر پوچھا کون سا؟

 فرمایا اللہ کی راہ میں جہاد کرنا،

پھر کونسا؟

 ماں باپ سے بھلائی کرنا۔

حضرت عبداللؓہ فرماتے ہیں اگر میں کچھ اور بھی پوچھتا تو آپ اور بھی جواب دیتے (بخاری و مسلم)

حضرت اُم فردہ جو بیعت کرنے والی عورتوں میں سے ہیں، فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اعمال کا ذِکر فرما رہے تھے۔ اسی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 سب سے زیادہ پسندیدہ عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک نماز کو اول وقت ادا کرنے کی جلدی کرنا ہے۔ (مسند احمد)

امام ترمذی اس حدیث کے ایک راوی عمری کو غیر قوی بتاتے ہیں،

وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ (۲۳۸)

بالخصوص درمیان والی نماز کی اور اللہ تعالیٰ کے لئے با ادب کھڑے رہا کرو۔‏

پھر صلوۃ وسطیٰ کی مزید تاکید ہو رہی ہے۔

 سلف و خلف کا اس میں اختلاف ہے کہ صلوۃ وسطیٰ کس نماز کا نام ہے،

 حضرت علیؓ ، حضرت ابن عباسؓ ایک مرتبہ صبح کی نماز پڑھتے ہیں جس میں ہاتھ اتھا کر قنوت بھی پڑھتے ہیں ۔پھر فرماتے ہیں یہی وہ نماز وسطی ٰہے جس میں قنوت کا حکم ہوا ہے۔

دوسری روایت میں ہے کہ یہ واقعہ بصرے کی مسجد کا ہے اور قنوت آپ نے  رکوع سے پہلے پڑھی تھی۔

ابوالعالیہ فرماتے ہیں بصرے میں میں نے حضرت عبداللہ بن قیس کے پیچھے صبح کی نماز ادا کی پھر میں نے ایک صحابی سے پوچھا کہ صلوۃ وسطیٰ کون سی ہے، آپ نے فرمایا یہی صبح کی نماز ہے۔

 اور روایت میں ہے کہ بہت سے اصحاب اس مجمع میں تھے اور سب نے یہی جواب دیا۔

جابر بن عبداللہ بھی یہی فرماتے ہیں اور بھی بہت سے صحابہ تابعین کا یہی مسلک ہے۔

 امام شافعی بھی یہی فرماتے ہیں اس لئے کہ ان کے نزدیک صبح کی نماز میں ہی قنوت ہے۔

بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد مغرب کی نماز ہے اس لئے کہ اس سے پہلے بھی چار رکعت والی نماز ہے اور اس کے بعد بھی چار رکعت والی نماز ہے اور سفر میں دونوں قصر کی جاتی ہیں لیکن مغرب پوری ہی رہتی ہے۔

یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس کے بعد دو نمازیں رات کی عشاء اور فجر وہ ہیں جن میں اونچی آواز سے قرأت پڑھی جاتی ہے اور دو نمازیں اس سے پہلی دن کی وہ ہیں کہ جن میں آہستہ قرأت پڑھی جاتی ہے یعنی ظہر، عصر ۔

بعض کہتے ہیں یہ نماز ظہر کی ہے۔

 ایک مرتبہ چند لوگ حضرت زید بن ثابت کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے، وہاں یہی مسئلہ چھڑا، لوگوں نے ایک آدمی بھیج کر حضرت اسامہ سے دریافت کیا، آپ نے فرمایا یہ ظہر کی نماز ہے جسے حضور علیہ السلام اول وقت پڑھا کرتے تھے (طیالسی)

زید بن ثابت فرماتے ہیں اس سے زیادہ بھاری نماز صحابہ پر اور کوئی نہ تھی اس لئے یہ آیت نازل ہوئی اور اس سے پہلے بھی دو نمازیں ہیں اور اس کے بعد دو ہیں۔

آپ ہی سے یہ بھی مروی ہے کہ قریشیوں کی ایک جماعت کے بھیجے ہوئے دو شخصوں نے آپ سے یہی سوال کیا جس کے جواب میں آپ نے فرمایا وہ عصر ہے،

پھر دو اور شخصوں نے پوچھا آپ نے فرمایا وہ ظہر ہے،

پھر ان دونوں نے حضرت اسامہ سے پوچھا، آپ نے فرمایا یہ ظہر ہے۔ آپ اسے آفتاب ڈھلتے ہی پڑھا کرتے تھے، بمشکل ایک دو صف کے لوگ آتے تھے، کوئی نیند میں ہوتا کوئی کاروبار میں مشغول ہوتا جس پر یہ آیت اتری اور آپ نے فرمایا تو یہ لوگ اس حرکت سے باز آئیں یا میں ان کے گھروں کو جلا دوں گا،

 لیکن حضرت زید سے اور روایات سے بھی یہ ثابت ہے کہ آپ اس سے مراد ظہر کی نماز ہی بتاتے تھے،

 ایک مرفوع حدیث میں بھی یہ ہے کہ حضرت عمرؓ، حضرت ابوسعیدؓ، حضرت عائشہ ؓ سے بھی یہی مروی ہے۔

امام ابوحنیفہؒ سے بھی ایک روایت اسی کی ہے،

بعض کہتے ہیں اس سے مراد عصر کی نماز ہے۔

 اکثر علماء صحابہ وغیرہ کا یہی قول ہے، جمہور تابعین کا بھی یہی قول ہے اور اکثر اہل اثر کا بھی، بلکہ جمہور لوگوں کا، حافظ ابومحمد عبدالمؤمن دمیاطی نے اس بارے میں ایک مستقل رسالہ تصنیف فرمایا ہے جس کا نام کشف الغطاء فی تبیین الصلوۃ الوسطیٰ ہے اس میں ان کا فیصلہ بھی یہی ہے کہ صلوۃ وسطیٰ عصر کی نماز ہے۔

حضرت عمر، حضرت علی، ابن مسعود، ابوایوب، عبداللہ بن عمرو، سمرہ بن جندب، ابوہریرہ، ابوسعید، حفصہ، ام حبیبہ، ام سلمہ، ابن عمر، ابن عباس، عائشہ(رضوان اللہ علیہم اجمعین) کا فرمان بھی یہی ہے اور ان حضرات سے یہی مروی ہے اور بہت سے تابعین سے یہ منقول ہے۔

امام احمدؒ اور امام شافعیؒ کا بھی یہی مذہب ہے۔ امام ابوحنیفہؒ کا بھی صحیح مذہب یہی ہے۔ ابویوسف، محمد سے بھی یہی مروی ہے۔ ابن حبیب مالکی بھی یہی فرماتے ہیں۔

 اس قول کی دلیل سنیئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ احزاب میں فرمایا:

اللہ تعالیٰ ان مشرکوں کے دِلوں کو اور گھر کو آگ سے بھر دے کہ انہوں نے ہمیں صلوۃ وسطیٰ یعنی نماز عصر سے روک دیا  (مسند احمد)

حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ ہم اس سے مراد صبح یا عصر کی نماز لیتے ہیں یہاں تک کہ جنگ احزاب میں میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا، اس میں قبروں کو بھی آگ سے بھرنا وارد ہوا ہے۔

 مسند احمد میں ہے کہ حضور نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا یہ عصر کی نماز ہے۔

 اس حدیث کے بہت سے طرق ہیں اور بہت سی کتابوں میں مروی ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ سے ایک مرتبہ اس بارے میں سوال ہوا تو آپ نے فرمایا  ہم نے بھی ایک مرتبہ اس میں اختلاف کیا تو ابوہاشم بن عتبہ مجلس میں سے اٹھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان پر گئے، اجازت مانگ کر اندر داخل ہوئے اور آپ سے معلوم کر کے باہر آ کر ہمیں فرمایا یہ نماز عصر ہے (ابن جریر)

عبدالعزیز بن مروان کی مجلس میں بھی ایک مرتبہ یہی مسئلہ پیش آیا، آپ نے فرمایا جاؤ فلاں صحابی سے پوچھ آؤ، تو ایک شخص نے کہا کہ مجھ سے سنیئے مجھے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر ؓنے میرے بچپن میں یہی مسئلہ پوچھنے کیلئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا تھا،

آپ ﷺنے میری چھنگلیا یعنی سب سے چھوٹی انگلی پکڑ کر فرمایا دیکھ یہ تو ہے فجر کی نماز، پھر اس کے پاس والی انگلی تھام کر فرمایا یہ ہوئی ظہر کی، پھر انگوٹھا پکڑ کر فرمایا یہ ہے مغرب کی نماز، پھر شہادت کی انگلی پکڑ کر فرمایا یہ عشاء کی نماز، پھر مجھ سے کہا اب تمہاری کون سی انگلی باقی رہی، میں نے کہا بیچ کی، فرمایا اور نماز کون سی باقی رہی، میں نے کہا عصر کی، فرمایا یہی صلوۃ وسطیٰ ہے (ابن جریر)

لیکن یہ روایت بہت ہی غریب ہے،

غرض صلوۃ وسطیٰ سے نماز عصر مراد ہونا بہت سی احادیث میں وارد ہے جن میں سے کوئی حسن ہے کوئی صحیح ہے کوئی ضعیف ہے۔ ترمذی مسلم میں بھی یہ حدیثیں ہیں، پھر اس نماز کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تاکیدیں اور سختی کے ساتھ محافظت بھی ثابت ہے چنانچہ ایک حدیث میں ہے:

 جس سے عصر کی نماز فوت ہو جائے گویا اس کا گھرانہ تباہ ہو گیا اور مال و اسباب برباد ہو گیا

 اور حدیث میں ہے:

 ابر والے دن نمازِ اول وقت پڑھو، سنو جس شخص نے عصر کی نماز چھوڑ دی اس کے اعمال غارت ہو جاتے ہیں۔

 ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز قبیلہ غفار کی ایک وادی میں جس کا نام حمیص تھا، ادا کی پھر فرمایا :

یہی نماز تم سے اگلے لوگوں پر بھی پیش کی گئی تھی لیکن انہوں نے اسے ضائع کر دیا، سنو اسے پڑھنے والے کو دوہرا اجر ملتا ہے اس کے بعد کوئی نماز ہیں جب تک کہ تم تارے نہ دیکھ لو (مسند احمد)

حضرت عائشہؓ اپنے آزاد کردہ غلام ابویونس سے فرماتی ہیں کہ میرے لئے ایک قرآن شریف لکھو اور جب اس آیت حَافِظُوا تک پہنچو تو مجھے اطلاع کرنا، چنانچہ جب آپ کو اطلاع دی گئی تو آپ نے آیت وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى کے بعد آیت صَلَاةُ الْعَصْر لکھوایا اور فرمایا میں نے خود اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے (مسند احمد)

 ایک روایت میں وھی صلوۃ وسطیٰ کا لفظ بھی ہے (ابن جریر)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بیوی صاحبہ حضرت حفصہؓ نے عمرو بن رافع کو جب آپ کے قرآن کے کاتب تھے، اسی طرح یہ آیت لکھوائی (موطا امام مالک)

اس حدیث کے بھی بہت سے طریقے ہیں اور کئی کتابوں میں مروی ہے کہ اُم المؤمنین نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی الفاظ سنے ہیں،

حضرت نافع فرماتے ہیں میں نے یہ قرآن شریف اپنی آنکھوں سے دیکھا، یہی عبارت واؤ کے ساتھ تھی، ابن عباس اور عبید بن عسیر کی قرأت بھی یونہی ہے، ان روایات کو مدنظر رکھ کر بعض حضرات کہتے ہیں کہ چونکہ واؤ عطف کیلئے ہوتا ہے کہ صلوۃ الوسطیٰ اور ہے اور صلوۃ عصر اور ہے لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ اگر اسے بطور حدیث کے مانا جائے تو حضرت علیؓ والی حدیث بہت زیادہ صحیح ہے اور اس میں صراحت موجود ہے، رہا  واؤ، سو ممکن ہے کہ زائدہ ہو عاطفہ نہ ہو جیسے آیت:

وَكَذَ‌ٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ وَلِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ (۶:۵۲)

 اور

وَكَذَ‌ٰلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ (۶:۷۵)

اس آیت میں یا یہ واؤ عطف صفت کیلئے ہو عطف ذات کیلئے نہ ہو

جیسے آیت:

وَلَـٰكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ (۳۳:۴۰)

 اور جیسے آیت:

سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى ـ الَّذِي خَلَقَ فَسَوَّىٰ ـ وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدَىٰ ـ وَالَّذِي أَخْرَجَ الْمَرْعَىٰ (۸۷:۱،۴)میں

اس کی مثالیں اور بھی بہت سی ہیں، شاعروں کے شعروں میں بھی یہ بات پائی جاتی ہے۔

سیبویہ جو نحویوں کے امام ہیں، فرماتے ہیں کہ "مررت باخیک وصاحبک" کہنا درست ہے حالانکہ صاحب اور اخ سے مراد ایک ہی شخص ہے، واللہ اعلم

اور اگر اس قرأت کے الفاظ کو بطور قرآنی الفاظ کے مانا جائے تو ظاہر ہے کہ اس خبر واحد سے قرأت قرآنی ثابت نہیں ہوتی جب تک کہ تواتر ثابت نہ ہو، اسی لئے حضرت عثمانؓ نے اپنے مرتب کردہ قرآن میں اس قرأت کو نہیں لیا، اور نہ ساتوں قاریوں کی قرأت میں یہ الفاظ ہیں بلکہ نہ کسی اور ایسے معتبر قاری کی یہ قرأت پائی گئی ہے،

 علاوہ ازیں ایک حدیث اور ہے جس سے اس قرأت کا منسوخ ہونا ثابت ہو رہا ہے۔ صحیح مسلم شریف میں ہے:

 یہ آیت اتری حَافِظُواْ عَلَى الصَّلَوَاتِ والصَّلاَةِ الْوُسْطَى و صَلَاةُ الْعَصْر ہم ایک مدت تک اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس آیت کو پڑھتے رہے پھر یہ تلاوت منسوخ ہو گئی اور آیت یوں ہی رہی آیت حَافِظُواْ عَلَى الصَّلَوَاتِ والصَّلاَةِ الْوُسْطَى

ایک شخص نے راوی حدیث حضرت شفیق سے کہا کہ پھر کیا یہ نماز عصر کی نماز ہی ہے،

فرمایا میں تو سنا چکا کہ کس طرح آیت اتری اور کس طرح منسوخ ہوئی،

پس اس بنا پر یہ قرأت حضرت عائشہؓ اور حضرت حفصہؓ کی روایت والی یا تو لفظاً منسوخ کی جائے گی اور اگر واؤ کو مغائرت کیلئے مانا جائے تو لفظ و معنی دونوں کے اعتبار سے منسوخ کی جائے گی،

 بعض کہتے ہیں اس سے مراد مغرب کی نماز ہے۔

 ابن عباسؓ سے بھی یہ مروی ہے لیکن اس کی سند میں کلام ہے،

بعض اور حضرات کا قول بھی یہی ہے اس کی ایک وجہ تو یہ بیان کی جاتی ہے کہ اور فرض نمازیں یا تو چار رکعت والی ہیں یا دو رکعت والی ، اور اس کی تین رکعتیں ہیں پس یہ درمیانہ نماز ٹھہری۔

 دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ فرض نمازوں کی یہ وتر ہے اور اس لئے بھی کہ اس کی فضیلت میں بھی بہت کچھ حدیثیں وارد ہوئی ہیں،

بعض لوگ اس سے مراد عشاء کی نماز بھی بتلاتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں پانچ وقتوں میں سے ایک وقت کی نماز ہے لیکن ہم معین نہیں کر سکتے یہ مبہم ہے جس طرح لیلۃ القدر پورے سال میں یا پورے مہینے میں یا پچھلے دس دِنوں میں مبہم ہے۔

بعض حضرات فرماتے ہیں پانچوں نمازوں کامجموعہ مراد ہے

 اور بعض کہتے ہیں یہ عشاء اور صبح ہے۔

 بعض کا قول ہے یہ جماعت کی نماز ہے

بعض کہتے ہیں جمعہ کی نماز ہے،

 کوئی کہتا ہے صلوٰۃ خوف مراد ہے،

 کوئی کہتا ہے نمازِ عید مراد ہے،

 کوئی کہتا ہے صلوۃ ضحیٰ مراد ہے،

بعض کہتے ہیں ہم توقف کرتے ہیں اور کسی قول کے قائل نہیں بنتے، اس لئے کہ دلیلیں مختلف ہیں، وجہ ترجیح معلوم نہیں، کسی قول پر اجماع ہوا نہیں بلکہ زمانہ صحابہ سے لے کر آج تک جھگڑا جاری رہا،

 جس طرح حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام اس بارے میں اس طرح مختلف تھے پھر انگلیوں میں انگلیاں ڈال کر دکھائیں، لیکن یہ یاد رہے کہ یہ پچھلے اقوال سب کے سب ضعیف ہیں، جھگڑا صرف صبح اور عصر کی نماز میں ہے

اور صحیح احادیث سے عصر کی نماز کا صلوۃ وسطیٰ ہونا ثابت ہے پس لازم ہو گیا کہ ہم سب اقوال کو چھوڑ کر یہی عقیدہ رکھیں کہ صلوۃ وسطیٰ نمازِ عصر ہے۔

 امام ابومحمد عبدالرحمٰن بن ابوحاتم رازی رحمہم اللہ نے اپنی کتاب فضائل شافعیؒ میں روایت کی ہے کہ حضرت امام صاحب فرمایا کرتے تھے میرے جس کسی قول کیخلاف کوئی حدیث صحیح شریف مروی ہو تو حدیث ہی اولیٰ ہے خبردار میری تقلید نہ کرنا، امام شافعی کے اس فرمان کو امام ربیع امام زعفرانی اور امام احمد بن حنبل بھی روایت کرتے ہیں، ا

ور موسیٰ ابوالولید جارود امام شافعی سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا میری جو بات حدیث شریف کیخلاف ہو، میں اپنی اس بات سے رجوع کرتا ہوں اور صاف کہتا ہوں کہ میرا مذہب وہی ہے جو حدیث میں ہو، یہ امام صاحب کی امانت اور سرداری ہے اور آپ جیسے ائمہ کرام میں سے بھی ہر ایک نے یہی فرمایا ہے کہ ان کے اقوال کو دین نہ سمجھا جائے۔ رحمھم اللہ ورضی عنھم اجمعین

اسی لئے قاضی ماوردی فرماتے ہیں کہ امام صاحب کا صلوٰۃ وسطیٰ کے بارے میں یہی مذہب سمجھنا چاہئے کہ وہ عصر ہے، گو امام صاحب کا اپنا قول یہ ہے کہ وہ عصر نہیں ہے مگر آپ کے اس فرمان کے مطابق حدیث صحیح کے خلاف اس قول کو پا کر ہم نے چھوڑ دیا۔

شافعی مذہب کے اور بھی بہت سے محدثین نے یہی فرمایا ہے فالحمدللہ

 بعض فقہاء شافعی تو کہتے ہیں کہ امام صاحب کا صرف ایک ہی قول ہے کہ وہ صبح کی نماز ہے لیکن یہ سب باتیں طے کرنے کیلئے تفسیر مناسب نہیں، علیحدہ اس کا بیان میں نے کر دیا ہے فالحمدللہ۔

وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ (۲۳۸)

اور اللہ تعالیٰ کے لئے با ادب کھڑے رہا کرو۔‏

پھر فرمایا اللہ تعالیٰ کے سامنے خشوع خضوع، ذلت اور مسکینی کے ساتھ کھڑے ہوا کرو جس کو یہ لازم ہے کہ انسانی بات چیت نہ ہو اسی لئے حضرت ابن مسعودؓ کے سلام کا جواب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں نہ دیا اور بعد میں فراغت فرمایا کہ نماز مشغولیت کی چیز ہے

اور حضرت معاویہ بن حکم سے جبکہ انہوں نے نماز پڑھتے ہوئے بات کی تو فرمایا نماز میں انسانی بات چیت نہ کرنی چاہئے یہ تو صرف تسبیح اور ذِکر اللہ ہے (مسلم)

مسند احمد میں ہے:

 اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے لوگ ضروری بات چیت بھی نماز میں کر لیا کرتے تھے، جب یہ آیت اتری تو چپ رہنے کا حکم دے دیا گیا،

لیکن اس حدیث میں ایک اشکال یہ ہے کہ علماء کرام کی ایک جماعت کے نزدیک نماز میں بات چیت کرنے کی حرمت حبشہ کی ہجرت کے بعد اور مدینہ شریف کی ہجرت سے پہلے ہی مکہ شریف میں نازل ہو چکی تھی چنانچہ صحیح مسلم میں ہے حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں :

حبشہ کی ہجرت سے پہلے ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتے تھے آپ نماز میں ہوتے پھر بھی جواب دیتے، جب حبشہ سے ہم واپس آئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے آپ کی نماز کی حالت میں ہی سلام کیا آپ نے جواب نہ دیا، اب میرے رنج و غم کا کچھ نہ پوچھئے نماز سے فارغ ہو کر آپ ﷺنے مجھے فرمایا عبداللہ اور کوئی بات نہیں میں نماز میں تھا اس وجہ سے میں نے جواب نہ دیا، اللہ جو چاہے نیا حکم اتارے، اس نے یہ نیا حکم نازل فرمایا ہے کہ نماز میں نہ بولا کرو، پس یہ واقعہ ہجرت مدینہ سے پہلے کا ہے اور یہ آیت مدینہ میں نازل ہوئی ہے،

اب بعض تو کہتے ہیں کہ زید بن ارقم کے قول کا مطلب جنس کلام سے ہے اور اس کی حرمت پر اس آیت سے استدلال بھی خود ان کا فہم ہے واللہ اعلم،

بعض کہتے ہیں ممکن ہے دو دفعہ حلال ہوا ہو اور دو دفعہ ممانعت ہوئی ہو لیکن پہلا قول زیادہ ظاہر ہے،

حضرت ابن مسعودؓ والی روایت جو ابویعلیٰ میں ہے اس میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب نہ دینے سے مجھے یہ خوف ہوا کہ شاید میرے بارے میں کوئی وحی نازل ہوئی ہے۔ آپ نے مجھ سے فارغ ہو کر  فرمایا:

وعلیک اسلام ایھا المسلم و رحمتہ اللہ

نماز میں جب تم ہو تو خاموش رہا کرو،

فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا أَوْ رُكْبَانًا ۖ

اگر تمہیں خوف ہو تو پیدل ہی سہی یا سواری سہی،

چونکہ نمازوں کی پوری حفاظت کرنے کا فرمان صادر ہو چکا تھا اس لئے اب اس حالت کو بیان فرمایا جاتا جس میں تمام ادب و آداب کی پوری رعایت عموماً نہیں رہ سکتی، یعنی میدان جنگ میں جبکہ دشمن سر پر ہو تو فرمایا کہ جس طرح ممکن ہو سوار پیدل قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز ادا کر لیا کرو،

ابن عمر ؓاس آیت کا یہی مطلب بیان کرتے ہیں بلکہ نافع فرماتے ہیں میں تو جانتا ہوں یہ مرفوع ہے،

مسلم شریف میں ہے سخت خوف کے وقت اشارے سے ہی نماز پڑھ لیا کرو، گو سواری پر سوار ہو،

عبداللہ بن انیس کو جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن سفیان کے قتل کیلئے بھیجا تھا تو آپ نے اسی طرح نماز عصر اشارے سے ادا کی تھی (ابو داؤد)

پس اس میں جناب باری نے اپنے بندوں پر بہت آسانی کر دی اور بوجھ کو ہلکا کر دیا،

صلوٰۃ خوف ایک رکعت پڑھنی بھی آئی ہے۔

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی حضر کی حالت میں چار رکعتیں فرض کی ہیں اور سفر کی حالت میں دو اور خوف کی حالت میں ایک (مسلم)

امام احمد فرماتے ہیں یہ اس وقت ہے جب بہت زیادہ خوف ہو،

جابر بن عبداللہ اور بہت سے اور بزرگ صلوٰۃ خوف ایک رکعت بتاتے ہیں،

 امام بخاریؒ نے صحیح بخاری میں باب باندھا ہے کہ فتوحات قلعہ کے موقع پر اور دشمن کے مڈبھیڑ کے موقع پر نماز ادا کرنا

اوزاعی فرماتے ہیں اگر فتح قریب آ گئی ہو اور نماز پڑھنے پر قدرت نہ ہو تو ہر شخص اپنے طور پر اشارے سے نماز پڑھ لے، اگر اتنا وقت بھی نہ ملے تو تاخیر کریں یہاں تک کہ لڑائی ختم ہو جائے اور چین نصیب ہو تو دو رکعتیں ادا کر لیں ورنہ ایک رکعت کافی ہے لیکن صرف تکبیر کہہ لینا کافی نہیں بلکہ تاخیر کر دیں یہاں تک کہ امن ملے،

 مکحول بھی یہی کہتے ہیں

حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں :

 تستر قلعہ کی لڑائی میں میں بھی فوج میں تھا، صبح صادق کے وقت گھمسان کی لڑائی ہو رہی تھی، ہمیں وقت ہی نہ ملا کہ نماز ادا کرتے، خوب دن چڑھے اس دن ہم نے صبح کی نماز پڑھی، اگر نماز کیلئے بدلے میں مجھے دنیا اور جو کچھ اس میں ہے مل جائے تاہم میں خوش نہیں ہوں،

 بعد ازاں حضرت امام المحدثین نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں ہے کہ جنگ خندق میں سورج غروب ہو جانے تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز نہ پڑھ سکے، پھر دوسری حدیث میں ہے کہ آپ نے جب اپنے صحابہ کو بنی قریظہ کی طرف بھیجا تو ان سے فرما دیا تھا کہ تم میں سے کوئی بھی بنی قریظہ سے ورے نماز عصر نہ پڑھے، اب جبکہ نماز عصر کا وقت آ گیا تو بعض نے تو وہیں پڑھی اور کہا کہ مطلب حضورﷺ کا یہ تھا کہ ہم جلد پہنچ جائیں تا کہ عصر کی نماز کا وقت وہاں پہنچ کر ہو اور بعض لوگوں نے نہ پڑھی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا اور قریظہ جا کر نماز پڑھی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس کا علم ہوا تو آپ نے انہیں نہ ڈانٹا۔

 پس اس سے حضرت امام بخاری یہ مسئلہ ثابت کرتے ہیں گو جمہور اس کے مخالف ہیں

وہ کہتے ہیں سورۃ نساء میں جو نماز خوف کا حکم ہے اور جس نماز کی مشروعیت اور طریقہ احادیث میں وارد ہوا ہے وہ جنگ خندق کے بعد کا ہے جیسا کہ ابوسعید کی روایت میں صراحتاً بیان ہے، لیکن امام بخاری امام مکحول اور امام اوزاعی رحمھم اللہ کا جواب یہ ہے کہ اس کی مشروعیت بعد میں ہونا اس جواز کیخلاف نہیں،

 ہو سکتا ہے کہ یہ بھی جائز ہو اور وہ بھی طریقہ ہو، کیونکہ ایسی حالت میں شاذو نادر کبھی ہی ہوتی ہے اور خود صحابہ نے حضرت فاروق اعظم کے زمانے میں فتح تستر میں اس پر عمل کیا اور کسی نے انکار نہیں کیا واللہ اعلم،

فَإِذَا أَمِنْتُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَمَا عَلَّمَكُمْ مَا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ (۲۳۹)

 ہاں جب امن ہو جائے تو اللہ کا ذکر کرو جس طرح کے اس نے تمہیں اس بات کی تعلیم دی جسے تم نہیں جانتے تھے ۔

پھر فرمان ہے کہ امن کی حالت میں بجاآوری کا پورا خیال رکھو، جس طرح میں نے تمہیں ایمان کی راہ دکھائی اور جہل کے بعد علم دیا تو تمہیں بھی چاہئے کہ اس کے شکریہ میں ذکر اللہ باطمینان کیا کرو، جیسا کہ نماز خوف کا بیان کر کے فرمایا :

فَإِذَا اطْمَأْنَنتُمْ فَأَقِيمُواْ الصَّلَوةَ إِنَّ الصَّلَوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَـباً مَّوْقُوتاً (۴:۱۰۳)

اور جب اطمنان پاؤ تو نماز قائم کرو یقیناً نماز مؤمنوں پر مقررہ وقتوں پر فرض ہے۔

صلوۃ خوف کا پورا بیان سورۃ نساء کی آیت وَإِذَا كُنتَ فِيهِمْ (۴:۱۰۲) کی تفسیر میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ۔

وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لِأَزْوَاجِهِمْ مَتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ ۚ

جو لوگ تم میں سے فوت ہوجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں اور وہ وصیت کر جائیں ان کی بیویاں سال بھر تک فائدہ اٹھائیں انہیں کوئی نہ نکالے،

اکثر مفسرین کا قول ہے کہ یہ آیت اس سے پہلے کی آیت یعنی چار مہینے دس رات کی عدت والی آیت سے  منسوخ ہو چکی ہے، صحیح بخاری شریف میں ہے:

 حضرت ابن زبیرؓ نے حضرت عثمانؓ سے کہا کہ جب یہ آیت منسوخ ہو چکی ہے تو پھر آپ اسے قرآن کریم میں کیوں لکھوا رہے ہیں، آپ نے فرمایا بھتیجے جس طرح اگلے قرآن میں یہ موجود ہے یہاں بھی موجود ہی رہے گی، ہم کوئی تغیر و تبدیل نہیں کر سکتے،

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں:

 پہلے تو یہی حکم تھا کہ سال بھر تک نان نفقہ اس بیوہ عورت کو میت کے مال سے دیا جائے اور اسی کے مکان میں یہ رہے، پھر آیت میراث نے اسے منسوخ کر دیا اور خاوند کو اولاد ہونے کی صورت میں مال متروکہ کا آٹھواں حصہ اور اولاد نہ ہونے کے وقت چوتھائی مال ورثہ کا مقرر کیا گیا اور عدت چار ماہ دس دن مقرر ہوئی۔

 اکثر صحابہ اور تابعین سے مروی ہے کہ یہ آیت منسوخ ہے،

سعید بن مسیب کہتے ہیں سورۃ احزاب کی آیت يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ (۳۳:۴۹) نے اسے منسوخ کر دیا،

حضرت مجاہد فرماتے ہیں:

 سات مہینے بیس دن جو اصلی عدت چار مہینے دس دن کے سوا کے ہیں اس آیت میں اس مدت کا حکم ہو رہا ہے، عدت تو واجب ہے لیکن یہ زیادتی کی مدت کا عورت کو اختیار ہے خواہ وہیں بیٹھ کر یہ زمانہ گزار دے خواہ نہ گزارے اور چلی جائے،

میراث کی آیت نے رہنے سہنے کے مکان کو بھی منسوخ کر دیا، وہ جہاں چاہے عدت گزارے مکان کا خرچ خاوند کے ذمہ ہیں،

پس ان اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت نے سال بھر تک کی عدت کو واجب ہی نہیں کیا پھر منسوخ ہونے کے کیا معنی؟ یہ تو صرف خاوند کی وصیت ہے اور اسے بھی عورت پورا کرنا چاہے تو کرے ورنہ اس پر جبر نہیں،

وَصِيَّةً سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں وصیت کرتا ہےجیسے آیت يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ (۴:۱۱) اس کا نصب  فلتو صُوا لھن کو محذوف مان کر ہے۔ وَصِيَّةً کی قرأت یہی ہے پس اگر عورتیں سال بھر تک اپنے فوت شدہ خاوندوں کے مکانوں میں رہیں تو انہیں نہ نکالا جائے اور اگر وہ عدت گزار کر جانا چاہیں تو ان پر کوئی جبر نہیں،

امام ابن تیمیہ بھی اسی قول کو پسند فرماتے ہیں اور بھی بہت سے لوگ اسی کو اختیار کرتے ہیں اور باقی کی جماعت اسے منسوخ بتاتی ہے،

فَإِنْ خَرَجْنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِي مَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ مِنْ مَعْرُوفٍ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (۲۴۰)

 ہاں اگر وہ خود نکل جائیں تو تم پر کوئی گناہ نہیں جو وہ اپنے لئے اچھائی سے کریں، اللہ تعالیٰ غالب اور حکیم ہے‏

پس اگر ان کا ارادہ اصلی عدت کے بعد کے زمانہ کے منسوخ ہونے کا ہے تو خیر ورنہ اس بارے میں ائمہ کا اختلاف ہے، وہ کہتے ہیں خاوند کے گھر میں عدت گزارنی ضروری ہے اور اس کی دلیل موطا مالک کی حدیث ہے:

حضرت ابوسعید خدری کی ہمشیرہ صاحبہ فریعہ بن مالک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا ہمارے غلام بھاگ گئے تھے جنہیں ڈھونڈنے کیلئے میرے خاوند گئے قدوم میں ان غلاموں سے ملاقات ہوئی لیکن انہوں نے آپ کو قتل کر دیا ان کا کوئی مکان نہیں جس میں عدت گزاروں اور نہ کچھ کھانے پینے کو ہے اگر آپ اجازت دیں تو اپنے میکے چلی جاؤں اور وہیں عدت پوری کروں،

آپﷺ نے فرمایا اجازت ہے،

 میں لوٹی ابھی تو میں حجرے میں ہی تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلوایا یا خود بلایا اور فرمایا تم نے کیا کہا، میں نے پھر قصہ بیان کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسی گھر میں ہی ٹھہری رہو یہاں تک کہ عدت گزر جائے،

چنانچہ میں نے وہیں عدت کا زمانہ پورا کیا یعنی چار مہینے دس دن۔

حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں آپ نے مجھے بلوایا اور مجھ سے یہی مسئلہ پوچھا، میں نے اپنا یہ واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے سمیت سنایا، حضرت عثمانؓ نے بھی اسی کی پیروی کی اور یہی فیصلہ دیا،

اس حدیث کو امام ترمذی حسن صحیح کہتے ہیں۔

وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ (۲۴۱)

طلاق والیوں کو اچھا فائدہ دینا پرہیزگاروں پر لازم ہے

مطلقہ عورت کو فائدہ دینے کے بارے میں لوگ کہتے تھے کہ اگر ہم چاہیں دیں، چاہیں نہ دیں، اس پر یہ آیت اتری،

اسی آیت سے بعض لوگوں نے ہر طلاق والی کو کچھ نہ کچھ دینا واجب قرار دیا، اور بعض دوسرے بزرگوں نے اسے ان عورتوں کے ساتھ مخصوص مانا ہے جن کا بیان پہلے گزر چکا ہے یعنی جن عورتوں سے صحبت نہ ہوئی اور مہر بھی نہ مقرر ہوا ہو اور طلاق دے دی جائے لیکن پہلی جماعت کا جواب یہ ہے کہ عام میں سے ایک خاص صورت کا ذِکر کرنا اسی صورت کے ساتھ اس حکم کو مخصوص نہیں کرتا جیسا کہ مشہور اور منصوص مذہب ہے واللہ اعلم،

كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ (۲۴۲)

اللہ تعالیٰ اسی طرح اپنی آیتیں تم پر ظاہر فرما رہا ہے تاکہ تم سمجھو۔‏

پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اسی طرح اپنی آیتیں حلال و حرام اور فرائض و حدود اور امرونہی کے بارے میں واضح اور مفسر بیان کرتا ہے تا کہ کسی قسم کا ابہام اور اجمال باقی نہ رہے کہ ضرورت کے وقت اٹک بیٹھو بلکہ اس قدر صاف بیان ہوتا ہے کہ ہر شخص سمجھ سکے۔

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ اللَّهُ مُوتُوا ثُمَّ أَحْيَاهُمْ ۚ

کیا تم نے انہیں نہیں دیکھا جو ہزاروں کی تعداد میں تھے اور موت کے ڈر کے مارے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے تھے، اللہ تعالیٰ نے انہیں فرمایا مر جاؤ، پھر انہیں زندہ کر دیا

ابن عباسؓ فرماتے ہیں یہ لوگ چار ہزار تھے اور روایت میں ہے کہ آٹھ ہزار تھے، بعض تو ہزار کہتے ہیں، بعض چالیس ہزار بتاتے ہیں، بعض تیس ہزار سے کچھ اوپر بتاتے ہیں،

یہ لوگ ذرو روان نامی بستی کے تھے جو واسط کی طرف ہے، بعض کہتے ہیں اس بستی کا نام اذرعات تھا،

یہ لوگ طاعون کے مارے اپنے شہر کو چھوڑ کر بھاگے تھے، ایک بستی میں جب پہنچے وہیں اللہ کے حکم سے سب مر گئے، اتفاق سے ایک نبی اللہ وہاں سے گزرا، ان کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے انہیں پھر دوبارہ زندہ کر دیا،

بعض لوگ کہتے ہیں ایک چٹیل صاف ہوادار کھلے پر فضا میدان میں ٹھہرے تھے اور دو فرشتوں کی چیخ سے ہلاک کئے گئے تھے جب ایک لمبی مدت گزر چکی ان کی ہڈیوں کا بھی چونا ہو گیا، اسی جگہ بستی بس گئی تب خرقیل نامی ایک نبی وہاں سے نکلے انہوں نے دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی

اور حکم دیا کہ تم کہو کہ اے بوسیدہ ہڈیو! اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم سب جمع ہو جاؤ،

چنانچہ ہر ہر جسم کی ہڈیوں کا ڈھانچہ کھڑا ہو گیا پھر اللہ کا حکم ہوا ندا کرو کہ اے ہڈیو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم گوشت پوست رگیں پٹھے بھی جوڑ لو،

چنانچہ اس نبی کے دیکھتے ہوئے یہ بھی ہو گیا، پھر آواز آئی کہ اے روحو اللہ تعالیٰ کا تمہیں حکم ہو رہا ہے کہ ہر روح اپنے اپنے قدیم جسم میں آ جائے چنانچہ یہ سب جس طرح ایک ساتھ مرے تھے اسی طرح ایک ساتھ جی اٹھے ا

ور بےساختہ انکی زبان سے نکلا سبحانک لا الہ الا انت اے اللہ تو پاک ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں،

یہ دلیل ہے قیامت کے دن اسی جسم کے ساتھ دوبارہ جی اُٹھنے کی۔

إِنَّ اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ (۲۴۳)

بیشک اللہ تعالیٰ لوگوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے، لیکن اکثر لوگ ناشکرے ہیں۔‏

پھر فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا لوگوں پر بڑا بھاری فضل و کرم ہے کہ وہ زبردست ٹھوس نشانیاں اپنی قدرت قاہرہ کی دکھا رہا ہے لیکن باوجود اس کے بھی اکثر لوگ ناقدرے اور بےشکرے ہیں،

 اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی جگہ بچاؤ اور پناہ نہیں یہ لوگ وبا سے بھاگے تھے اور زندگی کے حریص تھے تو اس کے خلاف عذاب آیا اور فوراً ہلاک ہو گئے، مسند احمد کی اس حدیث میں ہے :

جب حضرت عمر بن خطابؓ شام کی طرف چلے اور سرخ میں پہنچے تو ابوعبیدہ بن جراح وغیرہ سرداران لشکر ملے اور خبر دی کہ شام میں آج کل وبا ہے چنانچہ اس میں اختلاف ہوا کہ اب وہاں جائیں یا نہ جائیں، بالآخر عبدالرحمٰن بن عوف جب آئے اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے:

 جب وبا کسی جگہ آئے اور تم وہاں ہو تو وہاں سے اسکے ڈر سے مت بھاگو، اور جب تم کسی جگہ وبا کی خبر سن لو تو وہاں مت جاؤ

حضرت عمر فاروق نے یہ سن کر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی پھر وہاں سے واپس چلے گئے (بخاری مسلم)

ایک اور روایت میں ہے کہ یہ اللہ کا عذاب ہے جو اگلی اُمتوں پر ڈالا گیا تھا۔

وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (۲۴۴)

اللہ کی راہ میں جہاد کرو اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ سنتا، جانتا ہے۔‏

پھر فرمایا کہ جس طرح ان لوگوں کا بھاگنا انہیں موت سے نہ بچا سکا اسی طرح جہاد سے منہ موڑنا بھی بیکار ہے۔ اجل اور رزق دونوں قسمت میں مقرر ہو چکے ہیں، رزق نہ بڑھے نہ گھٹے موت نہ پہلے آئے نہ پیچھے ہٹے، اور جگہ ارشاد ہے:

الَّذِينَ قَالُواْ لإِخْوَنِهِمْ وَقَعَدُواْ لَوْ أَطَاعُونَا مَا قُتِلُوا قُلْ فَادْرَءُوا عَنْ أَنفُسِكُمُ الْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَـدِقِينَ (۳:۱۶۸)

یہ وہ لوگ ہیں جو خود بھی بیٹھے رہے اور اپنے بھائیوں کی بابت کہا کہ اگر وہ بھی ہماری بات مان لیتے تو قتل نہ کئے جاتے کہہ دیجئے! کہ اگر تم سچے ہو تو اپنی جانوں سے موت کو ہٹا دو ۔

 اور جگہ ہے:

وَقَالُواْ رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَيْنَا الْقِتَالَ لَوْل ۔۔۔ وَلَوْ كُنتُمْ فِى بُرُوجٍ مُّشَيَّدَةٍ (۴:۷۷،۷۸)

اور کہنے لگے اے ہمارے رب! تو نے ہم پر جہاد کیوں فرض کر دیا کیوں ہمیں تھوڑی سی زندگی اور نہ جینے دیا؟

آپ کہہ دیجئے کہ دنیا کی سود مندی تو بہت ہی کم ہے اور پرہیزگاروں کے لئے تو آخرت ہی بہتر ہے اور تم پر ایک دھاگے کے برابر بھی ستم روانہ رکھا جائے گا۔‏

تم جہاں کہیں بھی ہو موت تمہیں آ کر پکڑے گی گو تم مضبوط قلعوں میں ہو

اس موقع پر اسلامی لشکروں کے جرأت مندسردار اور بہادروں کے پیشوا اللہ کی تلوار اسلام کے پشت پناہ خالد بن ولیدؓ کا وہ فرمان وارد کرنا بالکل مناسب وقت ہوگا جب آپ نے عین اپنے انتقال کے وقت فرمایا تھا:

 کہاں ہیں موت سے ڈرنے والے، لڑائی سے جی چرانے والے نامرد، وہ دیکھیں کہ میرا جوڑ جوڑ اللہ تعالیٰ کی راہ میں زخمی ہو چکا ہے، سارے جسم میں کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں تلوار نیزہ برچھا نہ لگا ہو لیکن دیکھو کہ آج میں بستر میں فوت ہو رہا ہوں، میدان جنگ میں نہ رہا۔

مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا

ایسا بھی کوئی ہے جو اللہ تعالیٰ کو اچھا قرض دے

پھر پروردگار اپنے بندوں کو اپنی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دے رہا ہے جو جگہ بہ جگہ دی جاتی ہے،

حدیث نزول میں بھی ہے کون ہے جو ایسے اللہ کو قرض دے جو نہ مفلس ہے نہ ظالم، اس آیت کو سن کر حضرت ابوالاصداح انصاری نے کہا تھا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا اللہ تعالیٰ ہم سے قرض طلب فرماتا ہے،

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔

 فرمایا اپنا ہاتھ دیجئے،

پھر ہاتھ میں ہاتھ لے کر کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنا باغ جس میں چھ سو کھجور کے درخت ہیں اللہ کو قرض دیا

 اور وہاں سے سیدھے اپنے باغ میں آئے اور باہر ہی کھڑے رہ کر اپنی بیوی صاحبہ کو آواز دی کہ بچوں کو لے کر باہر آ جاؤ میں نے یہ باغ اللہ کی راہ میں دے دیا ہے (ابن ابی حاتم)

قَرْضًا حَسَنًا سے مراد فی سبیل اللہ خرچ ہے اور بال بچوں کا خرچ بھی ہے اور تسبیح و تقدیس بھی ہے۔

فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً ۚ

پس اللہ تعالیٰ اسے بہت بڑھا چڑھا کر عطا فرمائے گا

 پھر فرمایا کہ اللہ اسے دوگنا چوگنا کر کے دے گا جیسے اور جگہ ہے:

مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ ۔۔۔ وَاللّهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاء (۲:۲۶۱)

جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سے سو دانے ہوں اور اللہ تعالیٰ اسے چاہے اور بڑھا دے

اس آیت کی تفسیر بھی عنقریب آئے گی انشاء اللہ تعالیٰ،

حضرت ابوہریرہؓ سے ابوعثمان نہدی پوچھتے ہیں میں نے سنا ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ ایک ایک نیکی کا بدلہ ایک ایک لاکھ نیکیوں کا ملتا ہے، آپ نے فرمایا اس میں تعجب کیا کرتے ہو، میں نے نبی کریم ﷺسے سنا ہے کہ ایک نیکی کا بدلہ دو لاکھ کے برابر ملتا ہے (مسند احمد)

لیکن یہ حدیث غریب ہے،

 ابن ابی حاتم میں ہے:

 حضرت ابوعثمان نہدی فرماتے ہیں مجھ سے زیادہ حضرت ابوہریرہؓ کی خدمت میں کوئی نہیں رہتا تھا، آپ حج کو گئے پھر پیچھے سے میں بھی گیا، بصرے پہنچ کر میں نے سنا کہ وہ لوگ حضرت ابوہریرہؓ کی روایت سے مندرجہ بالا حدیث بیان کرتے ہیں

میں نے ان سے کہا اللہ کی قسم سب سے زیادہ آپ کا صحبت یافتہ میں ہوں میں نے تو کبھی بھی آپ سے یہ حدیث نہیں سنی، پھر میرے جی میں آئی کہ چلو چل کر خود حضرت ابوہریرہؓ سے پوچھ لوں،

 چنانچہ میں وہاں سے چلا یہاں آیا تو معلوم ہوا کہ وہ حج کو گئے ہیں، میں صرف اس ایک حدیث کی خاطر مکہ کو چل کھڑا ہوا، وہاں آپ سے ملاقات ہوئی میں نے کہا حضرت یہ بصرہ والے آپ سے کیسی روایت کرتے ہیں،

آپ نے فرمایا واہ اس میں تعجب کی کون سی بات ہے، پھر یہی آیت پڑھی اور فرمایا کے ساتھ ہی یہ قول باری بھی پڑھو :

فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ (۹:۳۸)

سنو! دنیا کی زندگی تو آخرت کے مقابلے میں کچھ یونہی سی ہے

یعنی ساری دنیا کا اسباب بھی آخرت کے مقابلہ میں حقیر چیز ہے۔ اللہ کی قسم میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ایک نیکی کے بدلے اللہ تعالیٰ دو لاکھ نیکیاں عطا فرماتا ہے۔

اسی مضمون کی ترمذی کی یہ حدیث بھی ہے ؛

 جو شخص بازار میں جائے اور وہاں لا الہ الا اللہ واحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد و ھو علی کلی شئی قدیر پڑھے، اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک لاکھ نیکیاں لکھتا ہے اور ایک لاکھ گناہ معاف فرماتا ہے،

 ابن ابی حاتم میں ہے :

مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ  (۲:۲۶۱) کی آیت اتری آپ ﷺ نے دعا کی کہ اے اللہ! میری اُمت کو اور زیادتی عطا فرما پس مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًاکی آیت اتری تو آپ ﷺ نے پھر بھی یہی دعا کی تو آیت إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ (۳۹:۱۰) کی آیت اتری،

حضرت کعب احبار سے ایک شخص نے کہا میں نے ایک شخص سے یہ سنا ہے کہ جو شخص سورۃ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ کو ایک دفعہ پڑھے اس کیلئے موتی اور یاقوت کے دس لاکھ محل جنت میں بنتے ہیں، کیا میں اسے سچ مان لوں،

آپ نے فرمایا اس میں تعجب کی کون سی بات ہے، بلکہ بیس اور بھی اور بیس لاکھ اور بھی اور اس قدر کہ ان کی گنتی بجز جناب باری کے کسی کو معلوم ہی نہ ہو، پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا جب اللہ تعالیٰ أَضْعَافًا كَثِيرَةً  فرماتا ہے تو پھر مخلوق اس کی گنتی کی طاقت کیسے رکھے گی؟

وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُطُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (۲۴۵)

اللہ ہی تنگی اور کشادگی کرتا ہے اور تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‏

پھر فرمایا رزق کی کمی بیشی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہوئے بخیلی نہ کرو، وہ جسے دے اس میں بھی حکمت ہے اور نہ دے اس میں بھی مصلحت ہے، تم سب قیامت کے دن اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔

أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنْ بَعْدِ مُوسَى إِذْ قَالُوا لِنَبِيٍّ لَهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ

کیا آپ نے موسیٰؑ کے بعد والی بنی اسرائیل کی جماعت کو نہیں دیکھا جب کہ انہوں نے اپنے پیغمبر سے کہا کہ کسی کو ہمارا بادشاہ بنا دیجئے تاکہ ہم اللہ کی راہ میں جہاد کریں۔

جس نبی کا یہاں ذِکر ہے ان کا نام حضرت قتادہ نے حضرت یوشع بن نون بن افرایم بن یوسف بن یعقوب بتایا ہے،

لیکن یہ قول ٹھیک معلوم نہیں ہوتا اس لئے کہ یہ واقعہ حضرت موسیٰ کے بعد کا حضرت داؤد کے زمانے کا ہے، جیسا کہ صراحتاً وارد ہوا ہے، اور حضرت داؤد اور حضرت موسیٰ کے درمیان ایک ہزار سال سے زیادہ کا فاصلہ ہے واللہ اعلم،

سدی کا قول ہے کہ یہ پیغمبر حضرت شمعون ہیں،مجاہد کہتے ہیں یہ شمویل بن یالی بن علقمہ بن صفیہ بن علقمہ با ابو ہاشف بن قارون بن یصہر بن فاحث بن لاوی بن یعقوب بن اسحق بن ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام ہیں،

واقعہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ ؑکے بعد کچھ زمانہ تک تو بنی اسرائیل راہِ حق پر رہے، پھر شرک و بدعت میں پڑ گئے مگر تاہم ان میں پے درپے انبیاء مبعوث ہوتے رہے یہاں تک کہ بنی اسرائیل کی بےباکیاں حد سے گزر گئیں، اب اللہ تعالیٰ نے ان کے دشمنوں کو ان پر غالب کر دیا، اجڑے اور لٹے، پہلے تو تورات کی موجودگی تابوت سکینہ کی موجودگی جو حضرت موسیٰؑ سے موروثی چلی آ رہی تھی ان کیلئے باعث غلبہ ہوتی تھی، مگر ان کی سرکشی اور بدترین گناہوں کی وجہ سے اللہ جل شانہ کی یہ نعمت بھی ان کے ہاتھوں چھن گئی اور نبوت بھی ان کے گھرانے میں ختم ہوئی،

جن کی اولاد میں پیغمبری کی نسل چل آ رہی تھی، وہ سارے کے سارے لڑائیوں میں مر کھپ گئے، ان میں سے صرف ایک حاملہ عورت رہ گئی تھی، ان کے خاوند بھی قتل ہو چکے تھے اب بنی اسرائیل کی نظریں اس عورت پر تھیں، انہیں امید تھی کہ اللہ اسے لڑکا دے گا اور وہ لڑکا نبی بنے،

خود ان بیوی صاحبہ کی بھی دن رات یہی دعا تھی جو اللہ نے قبول فرمائی اور انہیں لڑکا دیا جن کا نام شمویل یا شمعون رکھا، اس کے لفظی معنی ہیں کہ اللہ نے میری دعا قبول فرما لی، نبوت کی عمر کو پہنچ کر انہیں بھی نبوت ملی،

 جب آپ نے دعوت نبوت دی تو قوم نے درخواست کی کہ آپ ہمارا بادشاہ مقرر کر دیجئے تاکہ ہم اس کی ماتحتی میں جہاد کریں،

قَالَ هَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ أَلَّا تُقَاتِلُوا ۖ

پیغمبر نے کہا کہ ممکن ہے جہاد فرض ہو جانے کے بعد تم جہاد نہ کرو،

بادشاہ تو ظاہر ہو ہی گیا تھا لیکن پیغمبر نے اپنا کھٹکا بیان کیا کہ تم پھر جہاد سے جی نہ چراتے؟

قَالُوا وَمَا لَنَا أَلَّا نُقَاتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَقَدْ أُخْرِجْنَا مِنْ دِيَارِنَا وَأَبْنَائِنَا ۖ

 انہوں نے کہا بھلا ہم اللہ کی راہ میں جہاد کیوں نہ کریں گے؟ہم تو اپنے گھروں سے اجاڑے گئے ہیں اور بچوں سے دور کر دیئے گئے ہیں۔

قوم نے جواب دیا کہ حضرت ہمارے ملک ہم سے چھین لئیے گئے، ہمارے بال بچے گرفتار کئے گئے اور پھر بھی کیا ہم ایسے بےحمیت ہیں کہ مرنے مارنے سے ڈریں؟

فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا إِلَّا قَلِيلًا مِنْهُمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ (۲۴۶)

پھر جب ان پر جہاد فرض ہوا تو سوائے تھوڑے سے لوگوں کے سب پھر گئے اور اللہ تعالیٰ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔‏

 اب جہاد فرض کر دیا گیا اور حکم ہوا کہ بادشاہ کے ساتھ اٹھو، بس سنتے ہی سُن ہو گئے اور سوائے معدودے چند کے باقی سب نے منہ موڑ لیا، ان سے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی، جس کا اللہ کو علم نہ ہو۔

وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا ۚ

اور انہیں ان کے نبی نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے طالوت کو تمہارا بادشاہ بنا دیا ہے

مطلب یہ ہے کہ جب انہوں نے کسی کو اپنا بادشاہ بنا دینے کی خواہش اپنے پیغمبر سے کی تو پیغمبر نے بحکم اللہ حضرت طالوت کو پیش کیا جو شاہی خاندان سے نہ تھے، ایک لشکری تھے، شاہی خاندان یہود کی اولاد تھی اور یہ ان میں سے نہ تھے

قَالُوا أَنَّى يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ ۚ

تو کہنے لگے بھلا اسکی ہم پر حکومت کیسے ہوسکتی ہے اس سے تو بہت زیادہ حقدار بادشاہت کے ہم ہیں، اس کو تو مالی کشادگی بھی نہیں دی گئی

تو قوم نے اعتراض کیا کہ حقدار بادشاہت کے تو اس سے بہت زیادہ ہم ہیں پھر دوسری بات یہ کہ اس کے پاس مال بھی نہیں، مفلس شخص ہے، بعض کہتے ہیں یہ سقے تھے کسی نے کہا یہ دباغ تھے،

پس پہلی سرکشی تو اعتراض کی صورت میں احکام نبوی کے سامنے ان سے یہ ہوئی،

قَالَ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ۖ

نبی نے فرمایا سنو، اللہ تعالیٰ اسی کو تم پر برگزیدہ کیا ہے اور اسے علمی اور جسمانی برتری بھی عطا فرمائی ہے

پیغمبر نے انہیں جواب دیا کہ یہ تعین میری رائے سے نہیں جس میں میں دوبارہ غور کر سکوں، یہ تو اللہ جل شانہ کا حکم ہے جس کی بجا آوری ضروری ہے، پھر ظاہراً بھی وہ تم میں بڑے عالم ہیں اور قومی اور طاقتور شکیل و جمیل شجاع و بہادر اور لڑائی کے فنون سے پورے واقف کار ہیں۔

یہاں سے یہ بھی ثابت ہوا کہ بادشاہ ذی علم شکیل قوی طاقتور بڑے دِل و دماغ والا ہونا چاہئے۔

وَاللَّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (۲۴۷)

بات یہ ہے اللہ جسے چاہے اپنا ملک دے، اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے۔‏

 پھر فرمایا کہ اصلی اور حقیقی حاکم اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ ملک کا مالک فی الواقع وہی ہے جسے چاہے ملک دے وہ علم و حکمت والا رافت و رحمت والا ہے۔اس سے کس کی مجال کہ سوال کرے؟ جو چاہے کرے سب سے سوال کرنے والا کوئی نہ کوئی ہے لیکن پروردگار اس سے مستثنیٰ ہے، وہ وسیع فضل والا اپنی نعمتوں سے جسے چاہے مخصوص کرے،

 وہ علم والا خوب جانتا ہے کون کس چیز کا مستحق ہے اور کسے کس چیز کا استحقاق نہیں۔

وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ آيَةَ مُلْكِهِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ

ان کے نبی نے پھر کہا کہ اس کی بادشاہت کی ظاہری نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق آجائے گا جس میں تمہارے رب کی طرف سے دلجمعی ہے

نبیؑ فرما رہے ہیں کہ طالوت کی بادشاہت کی پہلی برکت کی علامت یہ ہے کہ کھویا ہوا تابوت سکینہ انہیں پھر مل جائے گا،

بعض کا قول ہے کہ سکینہ ایک سونے کا طشت تھا جس میں انبیاء کے دِل دھوئے جاتے تھے جو حضرت موسیٰ کو ملا تھا اور جس میں آپ نے تورات کی تختیاں رکھی تھیں،

 کسی نے کہا ہے اس کا منہ بھی تھا جیسے انسان کا منہ ہوتا ہے اور روح بھی تھی، ہاتھ بھی تھا، دو سر تھے، دو پر تھے اور دُم بھی تھی،وہب کہتے یہں مردہ بلی کا سر تھا جب وہ تابوت میں بولتا تو انہیں نصرت کا یقین ہو جاتا اور لڑائی فتح ہو جاتی،

یہ قول بھی ہے کہ یہ ایک روح تھی اللہ کی طرف سے جب کبھی بنی اسرائیل میں کوئی اختلاف پڑتا یا کسی بات کی اطلاع نہ ہوتی تو وہ کہہ دیا کرتی تھی۔

وَبَقِيَّةٌ مِمَّا تَرَكَ آلُ مُوسَى وَآلُ هَارُونَ

 اور آل موسیٰ اور آل ہارون کا بقیہ ترکہ ہے۔

حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارونؑ کے ورثے کے باقی حصے سے مراد لکڑی اور تورات کی تختیاں اون اور کچھ ان کے کپڑے اور جوتی ہیں۔

تَحْمِلُهُ الْمَلَائِكَةُ ۚ

فرشتے اسے اٹھا کر لائیں گے۔

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ فرشتے آسمان و زمین کے درمیان اس تابوت کو اٹھائے ہوئے سب لوگوں کے سامنے لائے اور حضرت طالوت بادشاہ کے سامنے لا رکھا، اس تابوت کو ان کے ہاں دیکھ کر انہیں نبی کی نبوت اور طالوت کی بادشاہت کا یقین ہو گیا،

یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ گائے کے اوپر لایا گیا،

بعض کہتے ہیں کہ کفار نے جب یہودیوں پر غلبہ پایا تو تابوت سکینہ کو ان سے چھین لیا اور اریحا میں لے گئے اور اپنے بڑے بت کے نیچے رکھ دیا جب اللہ کو اسے واپس بنی اسرائیل تک پہنچانا تھا، تب وہ کفار صبح کو جب بت خانے میں گئے تو دیکھا بت نیچے ہے اور تابوت اوپر ہے، انہں نے پھر بت کو اوپر کر دیا لیکن دوسری صبح دیکھا کہ پھر وہی معاملہ ہے انہوں نے پھر بت کو اوپر کر دیا، صبح جو گئے تو دیکھا بت ایک طرف ٹوٹا پھوٹا پڑا ہے، تو یقین ہو گیا کہ یہ قدرت کے کرشمے ہیں چنانچہ انہوں نے تابوت کو یہاں سے لے جا کر کسی اور چھوٹی سی بستی میں رکھ دیا، وہاں ایک وبائی بیماری پھیلی، آخر بنی اسرائیل کی ایک عورت نے جو وہاں قید تھی، اس نے کہا کہ اسے واپس بنی اسرائیل پہنچا دو تو تمہیں اس سے نجات ملے گی، ان لوگوں نے دو گائیوں پر تابوت کو رکھ کر بنی اسرائیل کے شہر کی طرف بھیج دیا، شہر کے قریب پہنچ کر گائیں تو رسیاں تڑوا کر بھاگ گئیں اور تابوت وہیں رہا جسے بنی اسرائیل لے آئے،

بعض کہتے ہیں دو نوجوان اسے پہنچا گئے واللہ اعلم،

 لیکن الفاظ قرآن میں یہ موجود ہیں کہ اسے فرشتے اٹھا لائیں گے (مترجم)

یہ بھی کہا گیا کہ ہے کہ فلسطین کی بستیوں میں سے ایک بستی میں تھا جس کا نام ازدوہ تھا۔

جس میں وقار و عزت دلجمعی اور جلالت رافت و رحمت ہے جس میں اللہ کی نشانیاں ہیں جنہیں تم بخوبی جانتے ہو،

إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (۲۴۸)

 یقیناً یہ تمہارے لئے کھلی دلیل ہے اگر تم ایمان والے ہو۔‏

پھر فرماتا ہے میری نبوت کی دلیل اور طالوت کی بادشاہت کی دلیل یہ بھی ہے کہ تابوت فرشتے پہنچا جائیں گے، اگر تمہیں اللہ عزوجل اور قیامت پر ایمان ہو۔

فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوتُ بِالْجُنُودِ قَالَ إِنَّ اللَّهَ مُبْتَلِيكُمْ بِنَهَرٍ

جب حضرت طالوت لشکروں کو لے کر نکلے تو کہا سنو اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایک نہر سے آزمانے والا ہے،

اب واقعہ بیان ہو رہا ہے کہ جب ان لوگوں نے طالوت کی بادشاہت تسلیم کر لی اور وہ انہیں لے کر جہاد کو چلے، حضرت سدیؒ کے قول کے مطابق ان کی تعداد اسی ہزار تھی،

 راستے میں طالوت نے کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ایک نہر کے ساتھ آزمانے والا ہے، حضرت ابن عباسؓ کے قول کے مطابق یہ نہر اردن اور فلسطین کے درمیان تھی اس کا نام نہر الشریعہ تھا،

فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي إِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةً بِيَدِهِ ۚ

 جس نے اس سے پانی پی لیا وہ میرا نہیں اور جو اسے نہ چکھے وہ میرا ہے، ہاں یہ اور بات ہے کہ اپنے ہاتھ سے ایک چلو بھر لے

طالوت نے انہیں ہوشیار کر دیا کہ کوئی اس نہر کا پانی نہ پیئے، اگر پی لے گا تو میرے ساتھ نہ چلے، ایک آدھ گھونٹ اگر کسی نے پی لیا تو کچھ حرج نہیں،

فَشَرِبُوا مِنْهُ إِلَّا قَلِيلًا مِنْهُمْ ۚ

 لیکن سوائے چند کے باقی سب نے وہ پانی پی لیا

لیکن جب وہاں پہنچے پیاس کی شدت تھی، نہر پر جھک پڑے اور خوب پیٹ بھر کر پانی پی لیا مگر کچھ لوگ ایسے پختہ ایمان والے بھی تھے کہ جنہوں نے نہ پیا ایک چلو پی لیا، بقول ابن عباسؓ کے ایک چلو پینے والوں کی تو پیاس بھی بجھ گئی اور وہ جہاد میں بھی شامل رہے لیکن پوری پیاس پینے والوں کی نہ تو پیاس بجھی نہ وہ قابل جہاد رہے،

سدی فرماتے ہیں اسی ہزار میں سے چھہتر ہزار نے پانی پی لیا صرف چار ہزار آدمی حقیقی فرمانبردار نکلے۔

حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں کہ اصحاب محمد ﷺ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ بدر کی لڑائی والے دن ہماری تعداد اتنی ہی تھی جتنی تعداد حضرت طالوت بادشاہ کے اس فرمانبردار لشکر کی تھی، جو آپ کے ساتھ نہر سے پار ہوا تھا یعنی تین سو تیرہ

فَلَمَّا جَاوَزَهُ هُوَ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ قَالُوا لَا طَاقَةَ لَنَا الْيَوْمَ بِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ ۚ

طالوت مؤمنین سمیت جب نہر سے گزر گئے تو وہ لوگ کہنے لگے آج تو ہم میں طاقت نہیں کہ جالوت اور اس کے لشکروں سے لڑیں

یہاں سے پار ہوتے ہی نافرمانوں کے چھکے چھوٹ گئے اور نہایت بزدلانہ پن سے انہوں نے جہاد سے انکار کر دیا اور دشمنوں کی زیادتی نے ان کے حوصلے توڑ دئیے، صاف جواب دے بیٹھے کہ آج تو ہم جالوت کے لشکر سے لڑنے کی طاقت اپنے میں نہیں پاتے،

قَالَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلَاقُو اللَّهِ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ (۲۴۹)

لیکن اللہ تعالیٰ کی ملاقات پر یقین رکھنے والوں نے کہا بسا اوقات چھوٹی اور تھوڑی سی جماعتیں بڑی اور بہت سی جماعتوں پر اللہ کے حکم سے غلبہ پا لیتی ہیں، اللہ تعالیٰ صبر والوں کے ساتھ ہے۔‏

گو سرفروش مجاہد علماء کرام نے انہیں ہر طرح ہمت بندھوائی، وعظ کہے، فرمایا کہ قلت و کثرت پر فتح موقوف نہیں صبر اور نیک نیتی پر ضرور اللہ کی امداد ہوتی ہے۔ بار ہا ایسا ہوا ہے کہ مٹھی بھر لوگوں نے بڑی بڑی جماعتوں کو نیچا دکھا دیا ہے، تم صبر کرو، طبیعت میں استقلال اور عزم رکھو، اللہ کے وعدوں پر نظریں رکھو، اس صبر کے بدلے اللہ تمہارا ساتھ دے گالیکن تاہم ان کے سرد دِل نہ گرمائے اور ان کی بزدلی دور نہ ہوئی۔

وَلَمَّا بَرَزُوا لِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ قَالُوا رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ (۲۵۰)

جب ان کا جالوت اور اسکے لشکر سے مقابلہ ہوا تو انہوں نے دعا مانگی اے پروردگار ہمیں صبر ، ثابت قدمی دے اور قوم کفار پر ہماری مدد فرما

یعنی جس وقت مسلمانوں کی اس مختصر جماعت نے کفار کے ٹڈی دل لشکر دیکھے تو جناب باری میں گڑگڑا کر دعائیں کرنی شروع کیں کہ اے اللہ ہمیں صبر و ثبات کا پہاڑ بنا دے۔ لڑائی کے وقت ہمارے قدم جما دے، منہ موڑنے اور بھاگنے سے ہمیں بچا لے اور ان دشمنوں پر ہمیں غالب کر،

فَهَزَمُوهُمْ بِإِذْنِ اللَّهِ وَقَتَلَ دَاوُودُ جَالُوتَ

چنانچہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے انہوں نے جالوتیوں کو شکست دے دی اور داؤد ؑ کے ہاتھوں جالوت قتل ہوا

چنانچہ ان کی عاجزانہ اور مخلصانہ دعائیں قبول ہوتی ہیں، اللہ کی مدد نازل ہوتی ہے اور یہ مٹھی بھر جماعت اس ٹڈی دل لشکر کو تہس نہس کر دیتی ہے اور حضرت داؤدؑ کے ہاتھوں مخالفین کا سردار اور سرتاج جالوت مارا جاتا ہے،

اسرائیلی روایتوں میں یہ بھی مروی ہے:

 حضرت طالوت نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ اگر تم جالوت کو قتل کرو گے تو میں اپنی بیٹی تمہارے نکاح میں دوں گا اور اپنا آدھا مال بھی تمہیں دے دوں گا اور حکومت میں بھی برابر شریک کر لوں گا،

چنانچہ حضرت داؤد نے پتھر کو فلاخن میں رکھ کر جالوت پر چلایا اور اسی سے وہ مارا گیا،

وَآتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَهُ مِمَّا يَشَاءُ ۗ

اور اللہ تعالیٰ نے داؤد علیہ السلام کو مملکت و حکمت اور جتنا کچھ چاہا علم بھی عطا فرمایا۔

حضرت جالوت نے اپنا وعدہ پورا کیا، بالآخر سلطنت کے مستقل سلطان آپ ہی ہو گئے اور پروردگار عالم کی طرف سے بھی نبوت جیسی زبردست نعمت عطا ہوئی اور حضرت شموئیل کے بعد یہ پیغمبر بھی بنے اور بادشاہ بھی،

الْحِكْمَةَ سے مراد نبوت ہے اور بہت سے مخصوص علم بھی جو اللہ عزوجل نے چاہے اپنے اس نبی کو سکھائے۔

وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَفَسَدَتِ الْأَرْضُ

 اگر اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو بعض سے دفع نہ کرتا تو زمین میں فساد پھیل جاتا

پھر ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ یوں پست لوگوں کی پستی نہ بدلتا جس طرح بنی اسرائیل کو طالوت جیسے مدبر بادشاہ اور داؤد جیسے دلیر سپہ سالار عطا فرما کر حکومت تبدیل نہ کرتا تو لوگ ہلاک ہو جاتے جیسے اور جگہ ہے:

وَلَوْلاَ دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ ۔۔۔ يُذْكَرُ فِيهَا اسمُ اللَّهِ كَثِيراً (۲۲:۴۰)

اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو آپس میں ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا رہتا تو عبادت خانے اور گرجے اور مسجدیں اور یہودیوں کے معبد اور وہ مسجدیں بھی ڈھا دی جاتیں جہاں اللہ کا نام باکثرت لیا جاتا ہے۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 ایک نیک بخت ایماندار کی وجہ سے اس کے آس پاس کے سو سو گھرانوں سے اللہ تعالیٰ بلاؤں کو دور کر دیتا ہے۔

پھر راوی حدیث حضرت عبداللہ بن عمر ؓنے اسی آیت کی تلاوت کی (ابن جریر)

لیکن اس حدیث کی سند ضعیف ہے،

 ابن جریر کی ایک اور غریب حدیث میں ہے:

 اللہ تعالیٰ ایک سچے مسلمان کی صلاحیت کی وجہ سے اس کی اولاد کی اولاد کو اس کے گھر والوں کو اور سنوار دیتا ہے اور اس کی موجودگی تک وہ سب اللہ کی حفاظت میں رہتے ہیں،

 ابن مردویہ کی ایک اور حدیث میں ہے :

قیامت تک ہر زمانہ میں ساٹھ شخص تم میں ضرور ایسے رہیں گے جن کی وجہ سے تمہاری مدد کی جائے گی اور تم پر بارش برسائی جائے گی اور تمہیں روزی دی جائے گی۔

ابن مردویہ کی دوسری حدیث میں ہے:

 میری اُمت میں تیس ابدال ہوں گے جن کی وجہ سے تم روزیاں دئیے جاؤ گے، تم پر بارش برسائی جائے گی اور تمہاری مدد کی جائے گی۔

 اس حدیث کے راوی حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ میرا خیال ہے حضرت حسن بھی انہیں ابدال میں سے تھے۔

اللہ تعالیٰ کی یہ نعمت اور اس کا احسان ہے کہ وہ ایک کو دوسرے سے دفع کرتا ہے،

وَلَكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَالَمِينَ (۲۵۱)

 لیکن اللہ تعالیٰ دنیا والوں پر فضل و کرم کرنے والا ہے۔‏

فرمایا کہ وہی سچا حاکم ہے، اس کے تمام کام حکمت سے پر ہوتے ہیں، وہ اپنی دلیلیں اپنے بندوں پر واضح فرما رہا ہے۔

 وہ تمام مخلوق پر فضل و کرم کرتا ہے۔

تِلْكَ آيَاتُ اللَّهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ ۚ وَإِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ (۲۵۲)

یہ اللہ تعالیٰ کی آیتیں ہیں جنہیں ہم نے حقانیت کے ساتھ آپ پر پڑھتے ہیں، بایقین آپ رسولوں میں سے ہیں۔‏

یہ واقعات اور یہ تمام حق کی باتیں اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہماری سچی وحی سے تمہیں معلوم ہوئیں، تم میرے سچے رسول ہو، میری ان باتوں کی اور خود آپ کی نبوت کی سچائی کا علم ان لوگوں کو بھی ہے جن کے ہاتھوں میں کتاب ہے۔

 یہاں اللہ تعالیٰ نے زوردار پر تاکید الفاظ میں قسم کھا کر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کی۔ فالحمداللہ

***********

اختتام دوسرا پارہ

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter