Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Baqarah

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے

Part I Ayah 1-141


الم(۱)

الم ‏

حروف مقطعات اور ان کے معنی

الم جیسے حروف مقطعات جو سورتوں کے شروع میں آتے ہیں ان کی تفسیر میں مفسرین کا اختلاف ہے

 بعض تو کہتے ہیں ان کے معنی صرف اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہیں اور کسی کو معلوم نہیں۔ اس لئے وہ ان حروف کی کوئی تفسیر نہیں کرتے۔ قرطبی نے حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے یہی نقل کیا ہے۔

عامر، شعبی، سفیان ثوری، ربیع بن خیثم رحمہم اللہ بھی یہی کہتے ہیں ابو حاتم بن حبان کو بھی اسی سے اتفاق ہے

 بعض لوگ ان حروف کی تفسیر بھی کرتے ہیں لیکن ان کی تفسیر میں بہت کچھ اختلاف ہے۔

عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم فرماتے ہیں یہ سورتوں کے نام ہیں۔علامہ ابوالقاسم محمود بن عمر زمحشری اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں اکثر لوگوں کا اسی پر اتفاق ہے۔ سیبویہ نے بھی یہی کہا ہے اور اس کی دلیل بخاری و مسلم کی وہ حدیث ہے جس میں ہے:

نبیﷺ جمعہ کے دن فجر نماز میں الَمَّ السَّجْدَہ اور دوسری رکعت  میں سورة دهر پڑھا کرتے تھے ۔

حضرت مجاہد فرماتے ہیں الم اور حم اور المص اور ص یہ سب سورتوں کی ابتداء ہے جن سے یہ سورتیں شروع ہوتی ہیں۔

انہی سے یہ بھی منقول ہے کہ الم قرآن کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔

حضرت قتادہ اور حضرت زید بن اسلم کا قول بھی یہی ہے کہ اور شاید اس قول کا مطلب بھی وہی ہے جو حضرت عبدالرحمٰن بن زید اسلم فرماتے ہیں کہ یہ سورتوں کے نام ہیں اس لئے کہ ہر سورت کو قرآن کہہ سکتے ہیں اور یہ نہیں ہو سکتا کہ سارے قرآن کا نام المص ہو کیونکہ جب کوئی شخص کہے کہ میں نے سورۃ المص پڑھی تو ظاہر یہی سمجھا جاتا ہے کہ اس نے سورۃ اعراف پڑھی نہ کہ پورا قرآن واللہ اعلم۔

بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے نام ہیں۔

حضرت شعب سالم بن عبداللہ اسماعیل بن عبدالرحمٰن سدی کبیر یہی کہتے ہیں۔

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ الم اللہ تعالیٰ کا بڑا نام ہے۔

اور روایت میں ہے کہ حم ، طس اور الم یہ سب اللہ تعالیٰ کے بڑے نام ہیں۔

حضرت علیؓ اور حضرت ابن عباسؓ دونوں سے یہ مروی ہے۔

ایک اور روایت میں ہے یہ اللہ تعالیٰ کی قسم ہے اور اس کا نام بھی ہے۔

حضرت عکرمہ فرماتے ہیں یہ قسم ہے۔

ابن عباسؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ الم کے معنی انا اللہ اعلم ہیں یعنی میں ہی ہوں اللہ زیادہ جاننے والا۔

حضرت سعید بن جبیر سے بھی یہ مروی ہے۔

 ابن عباسؓ، ابن مسعودؓ اور بعض دیگر صحابہ سے روایت ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ناموں کے الگ الگ حروف ہیں۔

 ابوالعالیہ فرماتے ہیں:

یہ تین حرف الم اور لام اور میم انتیس حرفوں میں سے ہیں جو تمام زبانوں میں آتے ہیں۔ ان میں سے ہر ہر حرف اللہ تعالیٰ کی نعمت اور اس کی بلا کا ہے اور اس میں قوموں کی مدت اور ان کے وقت کا بیان ہے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تعجب کرنے پر کہا گیا تھا :

 وہ لوگ کیسے کفر کریں گے ان کی زبانوں پر اللہ تعالیٰ کے نام ہیں۔ اس کی روزیوں پر وہ پلتے ہیں۔ الف سے اللہ کا نام اللہ شروع ہوتا ہے اور لام سے اس کا نام لطیف شروع ہوتا ہے اور میم سے اس کا نام مجید شروع ہوتا ہے اور الف سے مراد الاء یعنی نعمتیں ہیں اور لام سے مراد اللہ تعالیٰ کا لطف ہے اور میم سے مراد اللہ تعالیٰ کا مجد یعنی بزرگی ہے۔ الف سے مراد ایک سال ہے لام سے تیس سال اور میم سے چالیس سال (ابن ابی حاتم)

امام ابن جریر نے ان سب مختلف اقوال میں تطبیق دی ہے یعنی ثابت کیا ہے کہ ان میں ایسا اختلاف نہیں جو ایک دوسرے کے خلاف ہو۔ ہو سکتا ہے یہ سورتوں کے نام بھی ہوں اور اللہ تعالیٰ کے نام بھی، سورتوں کے شروع کے الفاظ بھی ہوں اور ان میں سے ہر ہر حرف سے اللہ تعالیٰ کے ایک ایک نام کی طرف اشارہ، اور اس کی صفتوں کی طرف اور مدت وغیرہ کی طرف بھی ہو۔

 ایک ایک لفظ کئی کئی معنی میں آتا ہے۔ جیسے لفظ أُمَّةٍ کہ اس کے ایک معنی ہیں دین جیسے قرآن میں ہے:

إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَىٰ أُمَّةٍ (۴۳:۲۲)

ہم نے اپنے باپ دادوں کو اسی دین پر پایا۔

دوسرے معنی ہیں اللہ کا اطاعت گزار بندہ جیسے فرمایا:

إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لِلَّهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ (۱۶:۱۲۰)

حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے مطیع اور فرمانبردار اور مخلص بندے تھے اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے۔

تیسرے معنی ہیں جماعت، جیسے فرمایا :

وَلَمَّا وَرَدَ مَاءَ مَدْيَنَ وَجَدَ عَلَيْهِ أُمَّةً مِنَ النَّاسِ يَسْقُونَ (۲۸:۲۳)

مدین کے پانی پر جب آپ پہنچے تو دیکھا کہ لوگوں کی ایک جماعت وہاں پانی پلا رہی ہے

 اور جگہ ہے:

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ (۱۶:۳۶)

ہم نے ہر اُمت میں رسول بھیجا

چوتھے معنی ہیں مدت اور زمانہ جیسے فرمان ہے:

وَادَّكَرَ بَعْدَ أُمَّةٍ (۱۲:۴۵)

ایک مدت کے بعد اسے یاد آیا۔

پس جس طرح یہاں ایک لفظ کے کئی معنی ہوئے اسی طرح ممکن ہے کہ ان حروف مقطعہ کے بھی کئی معنی ہوں۔

 امام ابن جریر کے اس فرمان پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ابوالعالیہ نے جو تفسیر کی ہے اس کا مطلب تو یہ ہے کہ یہ ایک لفظ، ایک ساتھ، ایک ہی جگہ ان سب معنی میں ہے اور لفظ اُمت وغیرہ جو کئی کئی معنی میں آئے ہیں جنہیں اصطلاح میں الفاظ مشترکہ کہتے ہیں۔ ان کے معنی ہوتے ہیں جو عبارت کے قرینے سے معلوم ہو جاتے ہیں ایک ہی جگہ سب کے سب معنی مراد نہیں ہوتے اور سب کو ایک ہی جگہ محمول کرنے کے مسئلہ میں علماء اصول کا بڑا اختلاف ہے اور ہمارے تفسیری موضوع سے اس کا بیان خارج ہے واللہ اعلم۔

 دوسرے یہ کہ اُمت وغیرہ الفاظ کے جو معنی ہی وہ بہت سارے ہیں اور یہ الفاظ اسی لئے بنائے گئے ہیں کہ بندش کلام اور نشست الفاظ سے ایک معنی ٹھیک بیٹھ جاتے ہیں ایک حرف کی دلالت ایک ایسے نام پر ممکن ہے جو دوسرے ایسے نام پر بھی دلالت کرتا ہو اور ایک کو دوسرے پر کوئی فضیلت نہ ہو تو مقدر ماننے سے نہ ضمیر دینے سے نہ وضع کے اعتبار سے اور نہ کسی اور اعتبار سے ایسی بات علمی طور پر تو نہیں سمجھی جا سکتی البتہ اگر منقول ہو تو اور بات ہے لیکن یہاں اختلاف ہے اجماع نہیں ہے اس لئے یہ فیصلہ قابل غور ہے۔

 اب بعض اشعار عرب کے جو اس بات کی دلیل میں پیش کئے جاتے ہیں ایک کلمہ کو بیان کرنے کے لئے صرف اس کا پہلا حرف بول دیتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے لیکن ان شعروں میں خود عبارت ایسی ہوتی ہے جو اس پر دلالت کرتی ہے۔ ایک حرف کے بولتے ہی پورا کلمہ سمجھ میں آ جاتا ہے لیکن یہاں ایسا بھی نہیں واللہ اعلم

قرطبی کہتے ہیں ایک حدیث میں ہے:

 جو مسلمان قتل پر آدھے کلمہ سے بھی مدد کرے مطلب یہ ہے کہ اقتل پورا نہ کہے بلکہ صرف اق کہے

مجاہد کہتے ہیں:

 سورتوں کے شروع میں جو حروف ہیں مثلاً ق، ص، حم، طسم الر یہ سب حروف ہجا ہیں۔

 بعض عربی دان کہتے ہیں کہ یہ حروف الگ الگ جو اٹھائیس ہیں ان میں سے چند ذکر کر کے باقی کو چھوڑ دیا گیا ہے جیسے کوئی کہے کہ میرا بیٹا اب ت ث لکھتا ہے تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ تمام اٹھائیس حروف لکھتا ہے لیکن ابتدا کے چند حروف ذکر کر دئیے اور باقی کو چھوڑ دیا۔

سورتوں کے شروع میں اس طرح کے کل چودہ حروف آئے ہیں۔

ا ل م ص و ک ہ ی ع ط س ح ق ن

ان سب کو اگر ملا لیا جائے تو یہ عبارت بنتی ہے۔ نص حکیم قاطع لہ سر

تعداد کے لحاظ سے یہ حروف چودہ ہیں اور جملہ حروف اٹھائیس ہیں اس لئے یہ آدھے ہوئے بقیہ جن حروف کا ذکر نہیں کیا گیا ان کے مقابلہ میں یہ حروف ان سے زیادہ فضیلت والے ہیں اور یہ صناعت تصریف ہے ایک حکمت اس میں یہ بھی ہے کہ جتنی قسم کے حروف تھے اتنی قسمیں باعتبار اکثریت کے ان میں آ گئیں یعنی مہموسہ مجہورہ وغیرہ۔

 سبحان اللہ ہر چیز میں اس مالک کی حکمت نظر آتی ہے یہ یقینی بات ہے کہ اللہ کا کلام لغو، بیہودہ، بیکار، بےمعنی الفاظ سے پاک ہے جو جاہل لوگ کہتے ہیں کہ سرے سے ان حروف کے کچھ معنی ہی نہیں وہ بالکل خطا پر ہیں۔ اس کے کچھ نہ کچھ معنی یقیناً ہیں اگر نبی معصوم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے معنی کچھ ثابت ہوں تو ہم وہ معنی کریں گے اور سمجھیں گے ورنہ جہاں کہیں حضور ﷺ نے کچھ معنی بیان نہیں کئے ہم بھی نہ کریں گے اور ایمان لائیں گے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تو اس بارے میں ہمیں کچھ نہیں ملا اور علماء کا بھی اس میں بیحد اختلاف ہے۔ اگر کسی پر کسی قول کی دلیل کھل جائے تو خیر وہ اسے مان لے ورنہ بہتر یہ ہے کہ ان حروف کے کلام اللہ ہونے پر ایمان لائے اور یہ جانے کہ اس کے معنی ضرور ہیں جو اللہ ہی کو معلوم ہیں اور ہمیں معلوم نہیں ہوئے۔

دوسری حکمت ان حروف کے لانے میں یہ بھی ہے کہ ان سے سورتوں کی ابتداء معلوم ہو جائے لیکن یہ وجہ ضعیف ہے اس لئے کہ اس کے بغیر ہی سورتوں کی جدائی معلوم ہو جاتی ہے جن سورتوں میں ایسے حروف ہی نہیں کیا ان کی ابتداء انتہا معلوم نہیں؟

پھر سورتوں سے پہلے بسم اللہ کا پڑھنے اور لکھنے کے اعتبار سے موجود ہونا کیا ایک سورت کو دوسری سے جدا نہیں کرتا ؟

 امام ابن جریر نے اس کی حکمت یہ بھی بیان کی ہے کہ چونکہ مشرکین کتاب اللہ کو سنتے ہی نہ تھے اس لئے انہیں سنانے کے لئے ایسے حروف لائے گئے تاکہ جب ان کا دھیان کان لگ جائے تو باقاعدہ تلاوت شروع ہو

 لیکن یہ وجہ بھی بودی ہے اس لئے اگر ایسا ہوتا تو تمام سورتوں کی ابتدا انہی حروف سے کی جاتی حالانکہ ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ اکثر سورتیں اس سے خالی ہیں پھر جب کبھی مشرکین سے کلام شروع ہو یہی حروف چاہئیں۔ نہ کہ صرف سورتوں کے شروع میں ہی یہ حروف ہوں۔

پھر اس پر بھی غور کر لیجئے کہ یہ سورت یعنی سورۃ بقرہ اور اس کے بعد کی سورت یعنی سورۃ آل عمران یہ تو مدینہ شریف میں نازل ہوتی ہیں اور مشرکین مکہ ان کے اترنے کے وقت وہاں تھے ہی نہیں پھر ان میں یہ حروف کیوں آئے؟

 ہاں یہاں پر ایک اور حکمت بھی بیان کی گئی ہے کہ ان حروف کے لانے میں قرآن کریم کا ایک معجزہ ہے جس سے تمام مخلوق عاجز ہے باوجود یہ کہ یہ حروف بھی روزمرہ کے استعمالی حروف سے ترکیب دئیے گئے ہیں لیکن مخلوق کے کلام سے بالکل نرالے ہیں۔

 مبرد اور محققین کی ایک جماعت اور فراء اور قطرب سے بھی یہی منقول ہے

شیخ امام علامہ ابوالعباسؓ حضرت ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور حافظ مجتہد ابوالحاج مزی نے بھی یہی حکمت بیان کی ہے۔ زمخشری نے تفسیر کشاف میں اس قول کو نقل کر کے اس کی بہت کچھ تائید کی ہے۔

زمحشری فرماتے ہیں یہی وجہ ہے کہ تمام حروف اکٹھے نہیں آئے ہاں ان حروف کو مکرر لانے کی یہ وجہ ہے کہ بار بار مشرکین کو عاجز اور لاجواب کیا جائے اور انہیں ڈانٹا اور دھمکایا جائے جس طرح قرآن کریم میں اکثر قصے کئی کئی مرتبہ لائے گئے ہیں اور بار بار کھلے الفاظ میں بھی قرآن کے مثل لانے میں ان کی عاجزی کا بیان کیا گیا ہے۔

بعض جگہ تو صرف ایک حرف آیا ہے جیسے ص ن ق کہیں دو حروف آئے ہیں جیسے حم کہیں تین حروف آئے ہیں جیسے الم کہیں چار آئے ہیں جیسے المر ، المص اور کہیں پانچ آئے ہیں جیسے کھیعص ، حمعسق اس لئے کہ کلمات عرب کے تمام  کے تمام  اسی طرح پر ہیں یا تو ان میں ایک حرفی لفظ ہیں یا دو حرفی یا سہ حرفی یا چار حرفی یا پانچ حرفی سے زیادہ کے کلمات نہیں۔

جب یہ بات ہے کہ یہ حروف قرآن شریف میں بطور معجزے کے آئے ہیں تو ضروری تھا کہ جن سورتوں کے شروع میں یہ حروف آئے ہیں وہاں ذکر بھی قرآن کریم کا ہو اور قرآن کی بزرگی اور بڑائی بیان ہو چنانچہ ایسا ہی انتیس سورتوں میں یہ واقع ہوا ہے اللہ تعالیٰ کا  فرمان ہے:

الم ـ ذَلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ (۲:۱،۲)

الم اس کتاب کے (اللہ کی کتاب ہونے)میں کوئی شک نہی

یہاں بھی ان حروف کے بعد ذکر ہے کہ اس قرآن کے اللہ جل شانہ کا کلام ہونے میں کوئی شک نہیں اور جگہ فرمایا :

الم ـ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ـ نَزَّلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ (۳:۱،۳)

الم اللہ تعالیٰ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، جو زندہ اور سب کا نگہبان ہے جس نے آپ پر حق کے ساتھ اس کتاب کو نازل فرمایا جو اپنے سے پہلے کی تصدیق کرنے والی ہے

یہاں بھی ان حروف کے بعد قرآن کریم کی عظمت کا اظہار کیا گیا۔ اور جگہ فرمایا:

المص ـ كِتَابٌ أُنْزِلَ إِلَيْكَ فَلَا يَكُنْ فِي صَدْرِكَ حَرَجٌ مِنْهُ (۷:۱،۲)

المص‏ یہ ایک کتاب ہے جو آپ کے پاس اس لئے بھیجی گئی ہے سو آپ کے دل میں اس سے بالکل تنگی نہ ہو

اور جگہ فرمایا :

الر ۚ كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ (۱۴:۱)

یہ عالی شان کتاب ہم نے آپ کی طرف اتاری ہے کہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے اجالے کی طرف لائیں

ارشاد ہوتا ہے:

الم تَنْزِيلُ الْكِتَابِ لَا رَيْبَ فِيهِ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ (۳۲:۱،۲)

الم بلا شبہ اس کتاب کا اتارنا تمام جہانوں کے پروردگار کی طرف سے ہے

فرماتا ہے:

حم ـ تَنزِيلٌ مِّنَ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ (۴۱:۱،۲)

اتاری ہوئی ہے بڑے مہربان بہت رحم والے کی طرف سے

 اور

حم ـ عسق ـ كَذَ‌ٰلِكَ يُوحِي إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكَ اللَّهُ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (۴۲:۱،۳)

حم‏ عسق‏ اسی طرح تیری طرف اور تجھ سے اگلوں کی طرف وحی بھیجتا رہا اللہ تعالیٰ جو زبردست ہے اور حکمت والا ہے

اسی طرح اور ایسی سورتوں کے شروع کو بغور دیکھئے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان حروف کے بعد کلام پاک کی عظمت و عزت کا ذکر ہے جس سے یہ بات قوی معلوم ہوتی ہے کہ یہ حروف اس لئے لائے گئے ہیں کہ لوگ اس کے لئے معارضے اور مقابلے میں عاجز ہیں۔ واللہ اعلم۔

 بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ان حروف سے مدت معلوم کرائی گئی ہے اور فتنوں لڑائیوں اور دوسرے ایسے ہی کاموں کے اوقات بتائے گئے ہیں۔ لیکن یہ قول بھی بالکل ضعیف معلوم ہوتا ہے اس کی دلیل میں ایک حدیث بھی بیان کی جاتی ہے۔ لیکن اول تو وہ ضعیف ہے دوسرے اس حدیث سے اس قول کی پختگی کا ایک طرف اس کا باطل ہونا زیادہ ثابت ہوتا ہے۔ وہ حدیث محمد بن اسحاق بن یسار نے نقل کی ہے جو تاریخ کے مصنف ہیں۔ اس حدیث میں ہے :

 ابویاسر بن اخطب یہودی اپنے چند ساتھیوں کو لے کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوا آپ اس وقت سورۃ بقرہ کی شروع آیت الم ـ ذَلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ تلاوت فرما رہے تھے وہ اسے سن کر اپنے بھائی حی بن اخطب کے پاس آیا اور کہا میں نے آج حضورﷺ کو اس آیت کی تلاوت کرتے ہوئے سنا ہے۔

 وہ پوچھتا ہے کیا تو نے خود سنا؟

اس نے کہا ہاں میں نے خود سنا ہے۔

 میں ان سب یہودیوں کو لے کر پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیا یہ سچ ہے کہ آپ اس آیت کو پڑھ رہے تھے۔

 آپ ﷺنے فرمایا ہاں سچ ہے۔

 اس نے کہا سنئے! آپ سے پہلے جتنے نبی آئے کسی کو بھی نہیں بتایا گیا تھا۔ کہ اس کا ملک اور مذہب کب تک رہے گا لیکن آپ کو بتا دیا گیا پھر کھڑا ہو کر لوگوں سے کہنے لگا سنو! الف کا عدد ہوا ایک ، لام کے تیس، میم کے چالیس۔ کل اکہتر ہوئے۔ کیا تم اس نبی کی تابعداری کرنا چاہتے ہو جس کے ملک اور اُمت کی مدت کل اکہتر سال ہو

پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہو کر دریافت کیا کہ کیا کوئی اور آیت بھی ایسی ہے؟

آپ ﷺنے فرمایا ہاں المص ۔

کہنے لگا یہ بڑی بھاری اور بہت لمبی ہے۔ الف کا ایک، لام کے تیس، میم کے چالیس، صواد کے نوے یہ سب ایک سو اکسٹھ سال ہوئے۔

 کہا اور کوئی بھی ایسی آیت ہے۔

 آپ ﷺنے فرمایا ہاں۔ الر

 کہنے لگا یہ بھی بہت بھاری اور لمبی ہے۔ الف کا ایک ، لام کے تیس اور رے کے دو سو۔ جملہ دو سو اکتیس برس ہوئے۔

 کیا اس کے ساتھ کوئی اور بھی ایسی ہے۔

 آپ ﷺنے فرمایا المر ہے

کہا یہ تو بہت ہی بھاری ہے الف کا ایک، لام کے تیس، میم کے چالیس ، رے کے دو سو، سب مل کر دو سو اکہتر ہوگئے۔ اب تو کام مشکل ہو گیا اور بات خلط ملط ہو گئی۔ لوگو اٹھو۔

 ابو یاسر نے اپنے بھائی سے اور دوسرے علماء یہود سے کہا کیا عجب کہ ان سب حروف مجموعہ کی مدت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ملا ہو اکہتر ایک، سو ایک، سو اکتیس ایک، دو سواکتیس ایک، دو سو اکہتر ایک، یہ سب مل کر سات سو چار برس ہوئے۔

 انہوں نے کہا اب کام خلط ملط ہو گیا۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ آیتیں انہی لوگوں کے حق میں نازل ہوئیں:

هُوَ الَّذِي أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ (۳:۷)

وہی اللہ جس نے تجھ پر یہ کتاب نازل فرمائی جس میں محکم آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور دوسری آیتیں مشابہت والی بھی ہیں۔

اس حدیث کا دارومدار محمد بن سائب کلبی پر ہے اور جس حدیث کا یہ اکیلا راوی ہو محدثین اس سے حجت نہیں پکڑتے اور پھر اس طرح اگر مان لیا جائے اور ہر ایسے حرف کے عدد نکالے جائیں تو جن پر چودہ حروف کو ہم نے بیان کیا ان کے عدد بہت ہو جائیں گے اور جو حروف ان میں سے کئی کئی بار آئے ہیں اگر ان کے عدد کا شمار بھی کئی کئی بار لگایا جائے تو بہت ہی بڑی گنتی ہو جائے گی۔ واللہ اعلم

ذَلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ

اس کتاب (کے اللہ کی کتاب ہونے) میں کوئی شک نہیں

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں یہاں ذَلِكَ معنی میں ھذا کے ہیں۔

مجاہد، عکرمہ، سعید، جیبہ سدی، مقاتل بن حباب، زید بن اسلم اور ابن جریج کا بھی یہی قول ہے۔

یہ دونوں لفظ ایک دوسرے کے قائم مقام عربی زبان میں اکثر آتے رہتے ہیں۔

حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ابو عبیدہ سے بھی یہی نقل کیا ہے۔

مطلب یہ ہے کہ ذَلِكَ اصل میں ہے تو دور کے اشارے کے لئے جس کے معنی ہیں "وہ" لیکن کبھی نزدیک کے لئے بھی لاتے ہیں اس وقت اس کے معنی ہوتے ہیں "یہ" یہاں بھی اسی معنی میں ہے۔

زمخشری کہتے ہیں اس سے اشارہ الم کی طرف ہے۔ جیسے اس آیت میں ہے :

لَّا فَارِضٌ وَلَا بِكْرٌ عَوَانٌ بَيْنَ ذَ‌ٰلِكَ (۲:۶۸)

سنو وہ گائے نہ تو بالکل بڑھیا ہو، نہ بچہ، بلکہ درمیانی عمر کی نوجوان ہو

دوسری جگہ فرمایا:

ذَٲلِكُمۡ حُكۡمُ ٱللَّهِ‌ۖ يَحۡكُمُ بَيۡنَكُمۡ (۶۰:۱۰)

یہ ہی ہے اللہ کا حکم جو تمہارے درمیان حکم کرتا ہے۔

اور جگہ فرمایا:

ذَٲلِكُمُ ٱللَّهُ‌ (۶:۹۵)

یہ ہی ہے اللہ تعالیٰ

اور اس کی مثال اور مواقع پہلے گزر چکے۔ واللہ اعلم

بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہ اشارہ قرآن کریم کی طرف ہے جس کے اتارنے کا وعدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا تھا۔ بعض نے تورات کی طرف کسی نے انجیل کی طرف بھی اشارہ بتایا ہے اور اسی طرح کے دس قول ہیں لیکن ان کو اکثر مفسرین نے ضعیف کہا ہے۔ واللہ اعلم۔

الْكِتَاب سے مراد قرآن کریم ہے جن لوگوں نے کہا ہے کہ آیت ذَلِكَ الْكِتَابُ کا اشارہ تورات اور انجیل کی طرف ہے انہوں نے انتہائی بھول بھلیوں کا راستہ اختیار کیا، بڑی تکلیف اٹھائی اور خواہ مخواہ بلا وجہ وہ بات کہی جس کا انہیں علم نہیں۔

 رَيْبَ کے معنی ہیں شک و شبہ۔ حضرت ابن عباسؓ، حضرت ابن مسعودؓ اور کئی ایک صحابہؓ سے یہی معنی مروی ہیں۔

ابو درداء، ابن عباس، مجاہد، سعید بن جبیر، ابو مالک نافع جو ابن عمر کے مولا ہیں، عطا، ابوالعالیہ، ربیع بن انس، مقاتل بن حیان، سدی، قتادہ، اسماعیل بن ابو خالد سے بھی یہی مروی ہے۔

 ابن ابی حاتم فرماتے ہیں مفسرین میں اس میں اختلاف نہیں۔

رَيْبَ کا لفظ عرب شاعروں کے شعروں میں تہمت کے معنی میں بھی آیا ہے اور حاجت کے معنی میں بھی اس کا استعمال ہوا ہے۔

اس جملہ کے معنی یہ ہوئے کہ اس قرآن کو اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہونے میں کچھ شک نہیں۔ جیسے سورۃ سجدہ میں ہے:

الم تَنْزِيلُ الْكِتَابِ لَا رَيْبَ فِيهِ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ (۳۲:۱،۲)

الم بلا شبہ اس کتاب کا اتارنا تمام جہانوں کے پروردگار کی طرف سے ہے

هُدًى لِلْمُتَّقِينَ (۲)

پرہیزگاروں کو راہ دکھانے والی ہے

یعنی اس میں شک نہ کرو بعض قاری لَا رَيْبَ پر وقف کرتے ہیں اور آیت فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ کو الگ جملہ پڑھتے ہیں۔ لیکن لَا رَيْبَ  فِيهِ پر ٹھہرنا بہت بہتر ہے کیونکہ یہی مضمون اسی طرح سورۃ سجدہ کی آیت میں موجود ہے اور اس میں بہ نسبت فِيهِ هُدًى کے زیادہ مبالغہ ہے۔ هُدًى نحوی اعتبار سے صفت ہو کر مرفوع ہو سکتا ہے اور حال کی بنا پر منصوب بھی ہو سکتا ہے۔ اس جگہ ہدایت کو متقیوں کے ساتھ مخصوص کیا گیا

جیسے دوسری جگہ فرمایا :

قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ ءَامَنُواْ هُدًى وَشِفَآءٌ وَالَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ فِى ءَاذَانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى أُوْلَـئِكَ يُنَادَوْنَ مِن مَّكَانٍ بَعِيدٍ (۴۱:۴۴)

آپ کہہ دیجئے! کہ یہ تو ایمان والوں کے لئے ہدایت و شفا ہے اور جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں تو (بہرہ پن اور) بوجھ ہے اور یہ ان پر اندھا پن ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو کسی بہت دور دراز جگہ سے پکارے جا رہے ہیں

اور فرمایا :

وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْءَانِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ وَلاَ يَزِيدُ الظَّـلِمِينَ إَلاَّ خَسَارًا (۱۷:۸۲)

یہ قرآن جو ہم نازل کر رہے ہیں مؤمنوں کے لئے تو سراسر شفا اور رحمت ہے۔ ہاں ظالموں کو بجز نقصان کے اور کوئی زیادتی نہیں ہوتی

 اسی مضمون کی اور آیتیں بھی ہیں ان سب کا مطلب یہ ہے کہ گو قرآن کریم خود ہدایت اور محض ہدایت ہے اور سب کے لیے ہے لیکن اس ہدایت سے نفع اٹھانے والے صرف نیک بخت لوگ ہیں۔جیسے فرمایا:

يَأَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَتْكُمْ مَّوْعِظَةٌ مَّن رَّبِّكُمْ وَشِفَآءٌ لِّمَا فِى الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ (۱۰:۵۷)

اے لوگوں! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک ایسی چیز آئی ہے جو نصیحت ہے اور دلوں میں جو روگ ہیں ان کے لئے شفا ہے اور رہنمائی کرنے والی ہے اور رحمت ہے ایمان والوں کے لئے ۔

 اور ابن عباسؓ ابن مسعودؓ اور بعض دیگر صحابہؓ سے مروی ہے کہ ہدایت سے مراد نور ہے

متقی کون لوگ ہیں

ابن عباسؓ فرماتے ہیں متقی وہ ہیں جو ایمان لا کر شرک سے دور رہ کر اللہ تعالیٰ کے احکام بجا لائیں۔

 ایک اور روایت میں ہے :

متقی وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے عذابوں سے ڈر کر ہدایت کو نہیں چھوڑتے اور اس کی رحمت کی امید رکھ کر اس کی طرف سے جو نازل ہوا اسے سچا جانتے ہیں۔

حضرت حسن بصری فرماتے ہیں متقی وہ ہے جو حرام سے بچے اور فرائض بجا لائے۔

حضرت اعمش حضرت ابوبکر بن عیاش سے سوال کرتے ہیں کہ متقی کون ہے؟

آپ یہی جواب دیتے ہیں

پھر میں نے کہا ذرا حضرت کلبی سے بھی تو دریافت کر لو! وہ کہتے ہیں متقی وہ ہیں جو کبیرہ گناہوں سے بچیں۔

 اس پر دونوں کا اتفاق ہوتا ہے۔

قتادہ فرماتے ہیں متقی وہ ہے جس کا وصف اللہ تعالیٰ نے خود اس آیت کے بعد بیان فرمایا کہ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ

امام ابن جریر فرماتے ہیں کہ یہ سب اوصاف متقیوں میں جمع ہوتے ہیں۔

ترمذی اور ابن ماجہ کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

بندہ حقیقی متقی نہیں ہو سکتا جب تک کہ ان چیزوں کو نہ چھوڑ دے جن میں حرج نہیں اس خوف سے کہ کہیں وہ حرج میں گرفتار نہ ہو جائے۔

امام ترمذی اسے حسن غریب کہتے ہیں

 ابن ابی حاتم میں ہے:

حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جبکہ لوگ ایک میدان میں قیامت کے دن روک لئے جائیں گے، اس وقت ایک پکارنے والا پکارے گا کہ متقی کہاں ہیں؟ اس آواز پر وہ کھڑے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ اپنے بازو میں لے لے گا اور بےحجاب انہیں اپنے دیدار سے مشرف فرمائے گا۔

ابو عفیف نے پوچھا حضرت متقی کون لوگ ہیں؟

آپ نے فرمایا جو لوگ شرک اور بت پرستی سے بچیں اور اللہ کی خالص عبادت کریں وہ اسی عزت کے ساتھ جنت میں پہنچائے جائیں گے۔

ہدایت کی وضاحت

ہدایت کے معنی کبھی تو دل میں ایمان پیوست ہو جانے کے آتے ہیں ایسی ہدایت پر تو سوائے اللہ جل و علا کی مہربانی کے کوئی قدرت نہیں رکھتا  فرمان ہے:

إِنَّكَ لاَ تَهْدِى مَنْ أَحْبَبْتَ (۲۸:۵۶)

اے نبی جسے تو چاہے ہدایت نہیں دے سکتا۔

فرماتا ہے:

لَّيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ (۲:۲۷۲)

تجھ پر ان کی ہدایت لازم نہیں۔

فرماتا ہے:

مَن يُضْلِلِ اللَّهُ فَلاَ هَادِيَ لَهُ (۷:۱۸۶)

جسے اللہ گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت پر لانے والا نہیں۔

 فرمایا:

مَن يَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مُّرْشِدًا (۱۸:۱۷)

جسے اللہ ہدایت دے وہی ہدایت والا ہے اور جسے وہ گمراہ کرے تم ہرگز اس کا نہ کوئی ولی پاؤ گے نہ مرشد۔

اس قسم کی اور آیتیں بھی ہیں

اور ہدایت کے معنی کبھی حق کے اور حق کو واضح کر دینے کے اور حق پر دلالت کرنے اور حق کی طرف راہ دکھانے کے بھی آتے ہیں۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَإِنَّكَ لَتَهْدِى إِلَى صِرَطٍ مُّسْتَقِيمٍ (۴۲:۵۲)

تو یقیناً سیدھی راہ کی رہبری کرتا ہے۔

اور فرمایا:

إِنَّمَآ أَنتَ مُنذِرٌ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ (۱۳:۷)

تو صرف ڈرانے والا ہے اور ہر قوم کے لیے کوئی ہادی ہے۔

اور جگہ فرمان ہے:

وَأَمَّا ثَمُودُ فَهَدَيْنَـهُمْ فَاسْتَحَبُّواْ الْعَمَى عَلَى الْهُدَى (۴۱:۱۷)

ہم نے ثمودیوں کو ہدایت دکھائی لیکن انہوں نے اندھے پن کو ہدایت پر پسند کر لیا  ۔

فرماتا ہے:

وَهَدَيْنَـهُ النَّجْدَينِ (۹۰:۱۰)

ہم نے اسے دونوں راہیں دکھائیں

یعنی بھلائی اور برائی کی۔

تقویٰ کے اصلی معنی بری چیزوں سے بچنے کے ہیں۔ اصل میں یہ وقوی ہے وقایت سے ماخوذ ہے نابغہ وغیرہ کے اشعار میں بھی آیا ہے۔

حضرت ابی بن کعبؓ سے حضرت عمر بن خطاب ؓنے پوچھا کہ تقویٰ کیا ہے؟

انہوں نے کہا کبھی کانٹے دار راستے میں چلے ہو ؟ جیسے وہاں کپڑوں کو اور جسم کو بچاتے ہو ایسے ہی گناہوں سے بال بال بچنے کا نام تقویٰ ہے۔

 ابن معتز شاعر کا قول ہے۔

خل الذنوب صغیرھا     وکبیرھا ذاک التقی

واصنع کماش فوق ارض الشوک یحدذر مایری

لا تحقرن صغیرۃ ان الجبال من الحصی

یعنی چھوٹے اور بڑے اور سب گناہوں کو چھوڑ دو یہی تقویٰ ہے۔

ایسے رہو جیسے کانٹوں والی راہ پر چلنے والا انسان۔

چھوٹے گناہ کو بھی ہلکا نہ جانو۔ دیکھو پہاڑ کنکروں سے ہی بن جاتے ہیں۔

 ابو درداء اپنے اشعار میں فرماتے ہیں:

انسان اپنی تمناؤں کا پورا ہونا چاہتا ہے اور اللہ کے ارادوں پر نگاہ نہیں رکھتا حالانکہ ہوتا وہی ہے جو اللہ کا ارادہ ہو۔

وہ اپنے دینوی فائدے اور مال کے پیچھے پڑا ہوا ہے حالانکہ اس کا بہترین فائدہ اور عمدہ مال اللہ سے تقویٰ ہے۔

ابن ماجہ کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

سب سے عمدہ فائدہ جو انسان حاصل کر سکتا ہے وہ اللہ کا ڈر ہے۔ اس کے بعد نیک بیوی ہے کہ خاوند جب اس کی طرف دیکھے وہ اسے خوش کر دے اور جو حکم دے اسے بجا لائے اور اگر قسم دے دے تو پوری کر دکھائے اور جب وہ موجود نہ ہو تو اس کے مال کی اور اپنے نفس کی حفاظت کرے۔

الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ

جو لوگ غیب پر ایمان لاتے ہیں

حضرت عبداللہؓ فرماتے ہیں۔ ایمان کسی چیز کی تصدیق کرنے کا نام ہے۔ حضرت ابن عباسؓ بھی یہی فرماتے ہیں۔

حضرت زہری فرماتے ہیں ایمان کہتے ہیں عمل کو

ربیع بن انس کہتے ہیں  یہاں ایمان لانے سے مراد ڈرنا ہے۔

ابن جریر فرماتے ہیں:

یہ سب اقوال مل جائیں تو مطلب یہ ہو گا کہ زبان سے، دل سے، عمل سے، غیب پر ایمان لانا اور اللہ سے ڈرنا۔

ایمان کے مفہوم میں اللہ تعالیٰ پر، اس کی کتابوں پر، اس کے اصولوں پر، ایمان لانا شامل ہے اور اس اقرار کی تصدیق عمل کے ساتھ بھی کرنا لازم ہے۔

میں کہتا ہوں لغت میں ایمان کہتے ہیں صرف سچا مان لینے کو، قرآن میں بھی ایمان اس معنی میں استعمال ہوا ہے۔جیسے فرمایا:

يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَيُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِينَ (۹:۶۱)

وہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور مسلمانوں کی بات کا یقین کرتا ہے

یعنی اللہ کو مانتے ہیں اور ایمان والوں کو سچا جانتے ہیں۔

 یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اپنے باپ سے کہا تھا:

وَمَآ أَنتَ بِمُؤْمِنٍ لَّنَا وَلَوْ كُنَّا صَـدِقِينَ (۱۲:۱۷)

آپ تو ہماری بات نہ مانیں گے، گو ہم بالکل سچے ہی ہوں

اس طرح ایمان یقین کے معنی میں آتا ہے جب اعمال کے ذکر کے ساتھ ملا ہوا ہو۔جیسے فرمایا :

إِلاَّ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّـلِحَـتِ (۹۵:۶)

لیکن جو لوگ ایمان لائے اور (پھر) نیک عمل کئے

ہاں جس وقت اس کا استعمال مطلق ہو تو ایمان شرعی جو اللہ کے ہاں مقبول ہے وہ اعتقاد قول اور عمل کے مجموعہ کا نام ہے۔

اکثر ائمہ کا یہی مذہب ہے بلکہ امام شافعی امام احمد اور امام ابو عبیدہ وغیرہ نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ ایمان نام ہے زبان سے کہنے اور عمل کرنے کا۔

ایمان بڑھتا گھٹتا رہتا ہے اور اس کے ثبوت میں بہت سے آثار اور حدیثیں بھی آئی ہیں جو ہم نے بخاری شریف کی شرح میں نقل کر دی ہیں۔ فالحمد للہ

بعض نے ایمان کے معنی اللہ سے ڈر خوف کے بھی کئے ہیں۔ جیسے فرمان ہے :

إِنَّ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُم بِالْغَيْبِ (۶۷:۱۲)

جو لوگ اپنے رب سے در پردہ ڈرتے رہتے ہیں۔

 اور جگہ فرمایا:

مَّنْ خَشِىَ الرَّحْمَـنَ بِالْغَيْبِ وَجَآءَ بِقَلْبٍ مُّنِيبٍ (۵۰:۳۳)

جو شخص اللہ تعالیٰ سے بن دیکھے ڈرے اور جھکنے والا دل لے کر آئے۔

حقیقت میں اللہ کا خوف ایمان کا اور علم کا خلاصہ ہے۔ جیسے فرمایا :

إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ (۳۵:۲۸)

جو بندے ذی علم ہیں صرف اللہ سے ہی ڈرتے ہیں۔

بعض کہتے ہیں وہ غیب پر بھی ایسا ہی ایمان رکھتے ہیں جیسا حاضر پر اور ان کا حال منافقوں جیسا نہیں کہ جب ایمان والوں کے سامنے ہوں تو اپنا ایماندار ہونا ظاہر کریں لیکن جب اپنے والوں میں ہوتے ہیں تو ان سے کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم تو ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ان منافقین کا حال اور جگہ اس طرح بیان ہوا ہے:

إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ ۔۔۔ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ (۶۵:۱)

تیرے پاس جب منافق آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم اس بات کے گواہ ہیں کہ بیشک آپ اللہ کے رسول ہیں  ا

ور اللہ جانتا ہے کہ یقیناً آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق قطعاً جھوٹے ہیں۔

اس معنی کے اعتبار سے بِالْغَيْبِ حال ٹھہرے گا یعنی وہ ایمان لاتے ہیں در آنحالیکہ لوگوں سے پوشیدہ ہوتے ہیں۔

غیب کا لفظ جو یہاں ہے، اس کے معنی میں بھی مفسرین کے بہت سے اقوال ہیں اور وہ سب صحیح ہیں اور جمع ہو سکتے ہیں۔

ابوالعالیہ فرماتے ہیں اس سے مراد اللہ تعالیٰ ، فرشتوں ، کتابوں ، رسولوں پر، قیامت پر، جنت دوزخ پر، ملاقات اللہ پر، مرنے کے بعد جی اٹھنے پر، ایمان لانا ہے۔

قتادہ ابن دعامہ کا یہی قول ہے۔

ابن عباسؓ، ابن مسعودؓ اور بعض دیگر اصحاب سے مروی ہے کہ اس سے مراد وہ پوشیدہ چیزیں ہیں جو نظروں سے اوجھل ہیں جیسے جنت، دوزخ وغیرہ۔ وہ امور جو قرآن میں مذکور ہیں۔

 ابن عباسؓ فرماتے ہیں اللہ کی طرف سے جو کچھ آیا ہے وہ سب غیب میں داخل ہے۔

حضرت ابوذرؓ فرماتے ہیں اس سے مراد قرآن ہے۔

عطا ابن ابورباح فرماتے ہیں اللہ پر ایمان لانے والا، غیب پر ایمان لانے والا ہے۔

 اسماعیل بن ابوخالد فرماتے ہیں اسلام کی تمام پوشیدہ چیزیں مراد ہیں۔

 زید بن اسلم کہتے ہیں مراد تقدیر پر ایمان لانا ہے۔

پس یہ تمام اقوال معنی کی رو سے ایک ہی ہیں اس لئے کہ سب چیزیں پوشیدہ ہیں اور غیب کی تفسیر ان سب پر مشتمل ہے اور ان سب پر ایمان لانا واجب ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ  کی مجلس میں ایک مرتبہ صحابہ کے فضائل بیان ہو رہے ہوتے ہیں تو آپ فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دیکھنے والوں کو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ہی تھا لیکن اللہ کی قسم ایمانی حیثیت سے وہ لوگ افضل ہیں جو بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں۔ پھر آپ نے الم سے لے کر وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (۲:۱،۵)  تک آیتیں پڑھیں۔ (ابن ابی حاتم۔ ابن مردویہ۔ مستدرک۔ حاکم)

امام حاکم اس روایت کو صحیح بتاتے ہیں۔

مسند احمد میں بھی اس مضمون کی ایک حدیث ہے۔

ابو جمع صحابی سے ابن محریز نے کہا کہ کوئی ایسی حدیث سناؤ جو تم نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو۔

فرمایا میں تمہیں ایک بہت ہی عمدہ حدیث سناتا ہوں،

ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک مرتبہ ناشتہ کیا، ہمارے ساتھ ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے، انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہم سے بہتر بھی کوئی اور ہے؟ ہم آپ پر اسلام لائے، آپ کے ساتھ جہاد کیا،

آپ ﷺنے فرمایا ہاں وہ لوگ جو تمہارے بعد آئیں گے، مجھ پر ایمان لائیں گے حالانکہ انہوں نے مجھے دیکھا بھی نہ ہو گا۔

 تفسیر ابن مردویہ میں ہے۔ صالح بن جبیر کہتے ہیں:

 ابو جمعہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمارے پاس بیت المقدس میں آئے۔ رجاء بن حیوہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ہمارے ساتھ ہی تھے، جب وہ واپس جانے لگے تو ہم انہیں چھوڑنے کو ساتھ چلے، جب الگ ہونے لگے تو فرمایا تمہاری ان مہربانیوں کا بدلہ اور حق مجھے ادا کرنا چاہئے۔ سنو! میں تمہیں ایک حدیث سناتا ہوں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے ہم نے کہا اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے ضرور سناؤ۔

 کہا سنو!

 ہم رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے ساتھ تھے ، ہم دس آدمی تھے، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ان میں تھے، ہم نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہم سے بڑے اجر کا مستحق بھی کوئی ہو گا؟ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور آپ کی تابعداری کی۔

آپ ﷺنے فرمایا تم ایسا کیوں نہ کرتے؟ اللہ کا رسول تم میں موجود ہے، وحی الہٰی آسمان سے تمہارے سامنے نازل ہو رہی ہے۔ ایمان تو ان لوگوں کا افضل ہو گا جو تمہارے بعد آئیں گے دو گتوں کے درمیان یہ کتاب پائیں گے، اس پر ایمان لائیں گے اور اس پر عمل کریں گے، یہ لوگ اجر میں تم سے دُگنے ہوں گے۔

 اس حدیث میں "وجاوہ" کی قبولت کی دلیل ہے جس میں محدثین کا اختلاف ہے۔ میں نے اس مسئلہ کو بخاری شریف میں خوب واضح کر دیا ہے بعد والوں کی تعریف اسی بنا پر ہو رہی ہے اور ان کا بڑے اجر والا ہونا اسی حیثیت کی وجہ سے ہے ورنہ علی الاطلاق ہر طرح سے بہتر اور افضل تو صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم ہی ہیں۔

 ایک اور حدیث میں ہے :

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ صحابہ سے پوچھا، تمہارے نزدیک ایمان لانے میں کون زیادہ افضل ہے،

انہوں نے کہا، فرشتے۔

فرمایا وہ ایمان کیوں نہ لائیں وہ تو اپنے رب کے پاس ہی ہیں،

 لوگوں نے پھر کہا انبیاء،

فرمایا وہ ایمان کیوں نہ لائیں ان پر تو وحی نازل ہوتی ہے۔

 کہا پھر ہم۔

فرمایا تم ایمان کو قبول کیوں نہ کرتے؟ جب کہ میں تم میں موجود ہوں

سنو! میرے نزدیک سب سے زیادہ افضل ایمان والے وہ لوگ ہوں گے جو تمہارے بعد آئیں گے۔ صحیفوں میں لکھی ہوئی کتاب پائیں گے اس پر ایمان لائیں گے۔

اس کی سند میں مغیرہ بن قیس ہیں۔ ابو حاتم رازی انہیں منکر الحدیث بتاتے ہیں لیکن اسی کے مثل ایک اور حدیث ضعیف سند ہے۔ مسند ابویعلی تفسیر ابن مردویہ مستدرک حاکم میں بھی مروی ہے اور حاکم اسے صحیح بتاتے ہیں۔ حضرت انس بن مالک سے بھی اسی کے مثل مرفوعاً مروی ہے۔ واللہ اعلم

ابن ابی حاتم میں ہے حضرت بدیلہ بنت اسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتی ہیں:

بنو حارثہ کی مسجد میں ہم ظہر یا عصر کی نماز میں تھے اور بیت المقدس کی طرف ہمارا منہ تھا دو رکعت ادا کر چکے تھے کہ کسی نے آ کر خبر دی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ شریف کی طرف منہ کر لیا ہے ہم سنتے ہی گھوم گئے۔ عورتیں مردوں کی جگہ آ گئیں اور مرد عورتوں کی جگہ چلے گئے اور باقی کی دو رکعتیں ہم نے بیت اللہ شریف کی طرف ادا کیں۔

 جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا یہ لوگ ہیں جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔

یہ حدیث اس اسناد سے غریب ہے۔

وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ

اور نماز کو قائم رکھتے ہیں

ابن عباسؓ فرماتے ہیں فرائض نماز بجا لانا۔ رکوع سجدہ تلاوت خشوع اور توجہ کو قائم رکھنا نماز کو قائم رکھنا ہے۔

قتادہ کہتے ہیں وقتوں کا خیال رکھنا، وضو اچھی طرح کرنا، رکوع سجدہ پوری طرح کرنا، اقامت صلوٰۃ ہے۔

مقاتل کہتے ہیں وقت کی نگہبانی کرنا۔ مکمل طہارت کرنا، رکوع، سجدہ پورا کرنا، تلاوت اچھی طرح کرنا۔ التحیات اور درود پڑھنا اقامت صلوٰۃ ہے۔

وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ (۳)

اور ہمارے دیئے ہوئے مال سے خرچ کرتے ہیں

ابن عباسؓ فرماتے ہیں وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ کے معنی زکوٰۃ ادا کرنے کے ہیں۔

ابن عباسؓ ،ابن مسعودؓ اور بعض صحابؓہ نے کہا ہے :

اس سے مراد آدمی کا اپنے بال بچوں کو کھلانا پلانا ہے۔ خرچ میں قربانی دینا جر قرب الہٰی حاصل کرنے کے لئے دی جاتی ہے۔ اپنی استعداد کے مطابق بھی شامل ہے جو زکوٰۃ کے حکم سے پہلے کی آیت ہے۔

حضرت ضحاک فرماتے ہیں  زکوٰۃ کی سات آیتیں جو سورۃ برأت میں ہیں ان کے نازل ہونے سے پہلے یہ حکم تھا کہ اپنی اپنی طاقت کے مطابق تھوڑا بہت جو میسر ہو دیتے رہیں۔

قتادہ فرماتے ہیں یہ مال تمہارے پاس اللہ کی امانت ہے عنقریب تم سے جدا ہو جائے گا۔ اپنی زندگی میں اسے اللہ کی راہ میں لگا دو۔

امام ابن جریر فرماتے ہیں:

یہ آیت عام ہے زکوٰۃ میں اہل و عیال کا خرچ اور جن لوگوں کو دینا ضروری ہے ان سب کو دینا بھی شامل ہے اس لئے کہ پروردگار نے ایک عام وصف بیان فرمایا اور عام تعریف کی ہے۔ لہذا ہر طرح کا خرچ شامل ہو گا۔

 میں کہتا ہوں قرآن کریم میں اکثر جگہ نماز کا اور مال خرچ کرنے کا ذکر ملا جلا آتا ہے اس لئے کہ نماز اللہ کا حق اور اس کی عبادت ہے جو اس کی توحید، اس کی ثناء اس کی بزرگی، اس کی طرف جھکنے، اس پر توکل کرنے، اس سے دعا کرنے کا نام ہے اور خرچ کرنا مخلوق کی طرف احسان کرنا ہے جس سے انہیں نفع پہنچے۔ اس کے زیادہ حقدار اہل و عیال اور غلام ہیں، پھر دور والے اجنبی۔ لہذا تمام واجب خرچ اخراجات اور فرض زکوٰۃ اس میں داخل ہیں۔

صحیحین میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

اسلام کی بنیادیں پانچ ہیں۔

- اللہ تعالیٰ کی توحید اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دینا۔

- نماز قائم رکھنا،

- زکوٰۃ دینا،

- رمضان کے روزے رکھنا

- اور بیت اللہ کا حج کرنا،

اس بارے میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں۔

عربی لغت میں صلوٰۃ کے معنی دعا کے ہیں۔ عرب شاعروں کے شعراس  پر شاہد ہیں۔ پھر شریعت میں اس لفظ کا استعمال نماز کے لئے ہونے لگا جو رکوع سجود اور دوسرے خاص افعال کا نام ہے جو مخصوص اوقات میں جملہ شرائط صفات اور اقسام کے ساتھ بجا لائی جاتی ہے۔

ابن جریر فرماتے ہیں صلوٰۃ کو نماز اس لئے کہا جاتا ہے کہ نمازی اللہ تعالیٰ سے اپنے عمل کا ثواب طلب کرتا ہے اور اپنی حاجتیں اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہے۔

بعض نے کہا ہے کہ جو دو رگیں پیٹھ سے لے کر ریڑھ کی ہڈی کی دونوں طرف آتی ہیں انہیں عربی میں صلوین کہتے ہیں چونکہ صلوٰۃ میں یہ ہلتی ہیں اس لئے اسے صلوٰۃ کہا گیا ہے۔ لیکن یہ قول ٹھیک نہیں

بعض نے کہا یہ ماخوذ ہے صلی سے، جس کے معنی ہیں جھک جانا اور لازم ہو جانا۔جیسے قرآن میں لَا يَصْلَاهَا إِلَّا الْأَشْقَى (۹۲:۱۵)  یعنی جہنم میں ہمیشہ نہ رہے گا مگر بدبخت۔

بعض علماء کا قول ہے کہ جب لکڑی کو درست کرنے کے لئے آگ پر رکھتے ہیں تو عرب تصلیہ کہتے ہیں چونکہ مصلی بھی اپنے نفس کی کجی کو نماز سے درست کرتا ہے اس لئے اسے صلوٰۃ کہتے ہیں۔ جیسے قرآن میں ہے:

إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ (۲۹:۴۵)

نماز ہر بےحیائی اور برائی سے روکتی ہے

لیکن اس کا دعا کے معنی میں ہونا ہی زیادہ صحیح اور زیادہ مشہور ہے واللہ اعلم۔

لفظ زکوٰۃ کی بحث انشاء اللہ اور جگہ آئے گی۔

وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ (۴)

اور جو لوگ ایمان لاتے ہیں اس پر جو آپ کی طرف اتارا گیا اور جو آپ سے پہلے اتارا گیا اور وہ آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں‏

حضرت ابن عباسؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

مطلب یہ ہے کہ جو کچھ اللہ کی طرف سے تم پر نازل ہوا اور تجھ سے پہلے کے انبیاء پر نازل ہوا وہ ان سب کی تصدیق کرتے ہیں ایسا نہیں کہ وہ کسی کو مانیں اور کسی سے انکار کریں بلکہ اپنے رب کی سب باتوں کو مانتے ہیں اور آخرت پر بھی ایمان رکھتے ہیں یعنی بعث و قیامت، جنت و دوزخ، حساب و میزان سب کو مانتے ہیں۔

قیامت چونکہ دنیا کے فنا ہونے کے بعد آئے گی اس لئے اسے آخرت کہتے ہیں۔

بعض مفسرین نے کہا ہے کہ جن کی پہلے ایمان بالغیب وغیرہ کے ساتھ صفت بیان کی گئی تھی انہی کی دوبارہ یہ صفتیں بیان کی گئی ہیں۔ یعنی ایماندار خواہ عرب مؤمن ہوں خواہ اہل کتاب وغیرہ۔

مجاہد ابوالعالیہ، ربیع بن انس اور قتادہ کا یہی قول ہے۔

 بعض نے کہا ہے کہ دونوں ہیں تو ایک مگر مراد اس سے صرف اہل کتاب ہی نہیں۔ ان دونوں صورتوں میں واؤ عطف کا ہو گا اور صفتوں کا عطف صفتوں پر ہو گا جیسے سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى (۸۷:۱) میں صفتوں کا عطف صفتوں پر ہے اور شعراء کے شعروں میں بھی آیا ہے۔

تیسرا قول یہ ہے کہ پہلی صفتیں تو ہیں عرب مؤمنوں کی اور وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ سے مراد اہل کتاب مؤمنوں کی صفتیں ہیں۔

سدی نے حضرت ابن عباس، ابن مسعود اور بعض دیگر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے نقل کیا ہے

 اور ابن جریر نے بھی اسی کو پسند کیا ہے اور اس کی شہادت میں یہ آیت لائے ہیں:

وَإِنَّ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَمَن يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْكُمْ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِمْ خَاشِعِينَ لِلَّهِ (۳:۱۹۹)

یقیناً اہل کتاب میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں اور تمہاری طرف جو اتارا گیا اور انکی طرف جو نازل ہوا اس پر بھی اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں

 اور جگہ ارشاد ہے:

الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ مِن قَبْلِهِ ۔۔۔ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ (۲۸:۵۲،۵۴)

جس کو ہم نے اس سے پہلے کتاب عنایت فرمائی وہ تو اس پر ایمان رکھتے ہیں اور جب اس کی آیتیں ان کے پاس پڑھی جاتی ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ اس کے ہمارے رب کی طرف سے حق ہونے پر ہمارا ایمان ہے

ہم تو اس سے پہلے ہی مسلمان ہیں یہ اپنے کئے ہوئے صبر کے بدلے دوہرا اجر دیئے جائیں گے یہ انکی بدی کو ٹال دیتے ہیں اور ہم نے جو انہیں دے رکھا ہے اس میں سے دیتے رہتے ہیں

بخاری مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

تین شخصوں کو دوہرا اجر ملے گا،

- ایک اہل کتاب جو اپنے نبی پر ایمان لائیں اور مجھ پر ایمان رکھیں۔

- دوسرا وہ غلام جو اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرے اور اپنے مالک کا بھی۔

- تیسرا وہ شخص جو اپنی لونڈی کو اچھا ادب سکھائے پھر اسے آزاد کر کے اس سے نکاح کر لے۔

 امام جریر کے اس فرق کی مناسبت اس سے بھی معلوم ہوتی ہے کہ سورت کے شروع میں مؤمنوں اور کافروں کا بیان ہوا ہے تو جس طرح کفار کی دو قسمیں ہیں کافر اور منافق۔ اسی طرح مؤمنوں کی بھی دو قسمیں ہیں۔

- عربی مؤمن

- اور کتابی مؤمن

میں کہتا ہوں ظاہراً یہ ہے کہ حضرت مجاہد کا یہ قول ٹھیک ہے کہ سورۃ بقرۃ کی اول چار آیتیں مؤمنوں کے اوصاف کے بیان میں ہیں اور دو آیتیں اس کے بعد کی کافروں کے بارے میں ہیں اور ان کے بعد کی تیرہ آیتیں منافقوں سے متعلق ہیں

 پس یہ چاروں آیتیں ہر مؤمن کے حق میں عام ہیں۔ عربی ہو یا عجمی، کتابی ہو یا غیر کتابی، انسانوں میں سے ہو یا جنات میں سے۔ اس لئے کہ ان میں سے ہر ایک وصف دوسرے کو لازم اور شرط ہے ایک بغیر دوسرے کے نہیں ہو سکتا۔

غیب پر ایمان لانا، نماز قائم کرنا، اور زکوٰۃ دینا اس وقت تک صحیح نہیں جب تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور اگلے انبیاء پر جو کتابیں اتری ہیں۔ ان پر ایمان نہ ہو اور ساتھ ہی آخرت کا یقین کامل نہ ہو

جس طرح پہلی تین چیزیں بغیر پچھلی تین چیزوں کے غیر معتبر ہیں۔ اسی طرح پچھلی تینوں بغیر پہلی تینوں کے صحیح نہیں۔ اسی لئے ایمان والوں کو حکم الہٰی ہے:

يَـأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ ءَامِنُواْ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَـبِ الَّذِى نَزَّلَ عَلَى رَسُولِهِ وَالْكِتَـبِ الَّذِى أَنَزلَ مِن قَبْل (۴:۱۳۶)

اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ پر اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول ﷺ پر اتاری ہے اور ان کتابوں پر جو اس سے پہلے نازل فرمائی گئی ہیں، ایمان لاؤ

اور فرمایا:

وَلاَ تُجَـدِلُواْ أَهْلَ الْكِتَـبِ إِلاَّ بِالَّتِى ۔۔۔ وَأُنزِلَ إِلَيْكُمْ وَإِلَـهُنَا وَإِلَـهُكُمْ وَاحِد (۲۹:۴۶)

اور اہل کتاب کے ساتھ بحث و مباحثہ نہ کرو مگر اس طریقہ پر جو عمدہ ہو مگر ان کے ساتھ جو ان میں ظالم ہیں

اور صاف اعلان کردو کہ ہمارا تو اس کتاب پر بھی ایمان ہے جو ہم پر اتاری گئی اور اس پر بھی جو تم پر اتاری گئی ہمارا تمہارا معبود ایک ہی ہے۔ ہم سب اسی کے حکم برادر ہیں۔‏

 ارشاد ہے :

يَـأَيُّهَآ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَـبَ ءَامِنُواْ بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقاً لِّمَا مَعَكُمْ (۴:۴۷)

اے اہل کتاب جو کچھ ہم نے نازل فرمایا جو اس کی تصدیق کرنے والا ہے جو تمہارے پاس ہے اس پر ایمان لاؤ

اور جگہ فرمایا:

قُلْ يَـأَهْلَ الْكِتَـبِ لَسْتُمْ عَلَى شَىْءٍ حَتَّى تُقِيمُواْ التَّوْرَاةَ وَالإِنجِيلَ وَمَآ أُنزِلَ إِلَيْكُمْ مِّن رَّبِّكُمْ (۵:۶۸)

آپ کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب! تم دراصل کسی چیز پر نہیں جب تک کہ تورات و انجیل کو اور جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے اتارا گیا قائم نہ رکھو

دوسری جگہ تمام ایمان والوں کی طرف سے خبر دیتے ہوئے قرآن پاک نے فرمایا :

ءَامَنَ الرَّسُولُ بِمَآ أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ ءَامَنَ بِاللَّهِ وَمَلَـئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لاَ نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِهِ (۲:۲۸۵)

رسول ایمان لایا اس چیز پر جو اس کی طرف اللہ تعالیٰ کی جانب سے اتری اور مؤمن بھی ایمان لائے

یہ سب اللہ تعالیٰ اور اسکے فرشتوں پر اور اسکی کتابوں پر اور اسکے رسولوں پر ایمان لائے، اسکے رسولوں میں سے کسی میں ہم تفریق نہیں کرتے

اسی طرح ارشاد ہوتا ہے:

وَالَّذِينَ ءَامَنُواْ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَلَمْ يُفَرِّقُواْ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ (۴:۱۵۲)

اور جو لوگ اللہ پر اور اس کے تمام پیغمبروں پر ایمان لاتے ہیں اور ان میں سے کسی میں فرق نہیں کرتے ہیں

 اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں جن میں ایمان والوں کا اللہ تعالیٰ پر اس کے تمام رسولوں اور سب کتابوں پر ایمان لانے کا ذکر کیا گیا ہے۔

اور یہ بات ہے کہ اہل کتاب کے ایمان والوں کی ایک خاص خصوصیت ہے کیونکہ ان کا ایمان اپنے ہاں کتابوں میں تفصیل کے ساتھ ہوتا ہے اور پھر جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر وہ اسلام قبول کرتے ہیں تو قرآن کریم پر بھی تفصیل کے ساتھ ایمان لاتے ہیں۔ اسی لئے ان کو دوہرا اجر ملتا ہے اور اس اُمت کے لوگ بھی اگلی کتابوں پر ایمان لاتے ہیں لیکن ان کا ایمان اجمالی طور پر ہوتا ہے۔جیسے صحیح حدیث میں ہے:

جب تم سے اہل کتاب کوئی بات کریں تو تم نہ اسے سچ کہو نہ جھوٹ بلکہ کہہ دیا کرو کہ ہم تو جو کچھ ہم پر اترا اسے بھی مانتے ہیں اور جو کچھ تم پر اترا اس پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔

بعض موقع پر ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتے ہیں ان کا ایمان بہ نسبت اہل کتاب کے زیادہ پورا زیادہ کمال والا زیادہ راسخ اور زیادہ مضبوط ہوتا ہے اس حیثیت سے ممکن ہے کہ انہیں اہل کتاب سے بھی زیادہ اجر ملے چاہے وہ اپنے پیغمبر اور پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے سبب دوہرا اجر پائیں لیکن یہ لوگ کمال ایمان کے سبب اجر میں ان سے بھی بڑھ جائیں۔ واللہ اعلم

أُولَئِكَ عَلَى هُدًى مِنْ رَبِّهِمْ ۖ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (۵)

یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح اور نجات پانے والے ہیں

یعنی وہ لوگ جن کے اوصاف پہلے بیان ہوئے مثلاً غیب پر ایمان لانا، نماز قائم رکھنا، اللہ کے دئیے ہوئے سے دینا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جو اترا اس پر ایمان لانا، آپ سے پہلے جو کتابیں اتریں ان کو ماننا، دار آخرت پر یقین رکھ کر وہاں کام آنے کے لئے نیک اعمال کرنا۔ برائیوں اور حرام کاریوں سے بچنا۔

یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں جنہیں اللہ کی طرف سے نور ملا، اور بیان و بصیرت حاصل ہوا اور انہی لوگوں کے لئے دنیا اور آخرت میں فلاح و نجات ہے۔

 ابن عباسؓ نے ہدایت کی تفسیر نور اور استقامت سے کی ہے اور فلاح کی تفسیر اپنی چاہت کو پا لینے اور برائیوں سے بچ جانے کی ہے۔

 ابن جریر فرماتے ہیں کہ یہ لوگ اپنے رب کی طرف سے نور، دلیل، ثابت قدمی، سچائی اور توفیق میں حق پر ہیں اور یہی لوگ اپنے ان پاکیزہ اعمال کی وجہ سے نجات، ثواب اور دائمی جنت پانے کے مستحق ہیں اور عذاب سے محفوظ ہیں۔

ابن جریر یہ بھی فرماتے ہیں کہ دوسرے أُولَئِكَ کا اشارہ اہل کتاب کی طرف ہے جنکی صفت اس سے پہلے بیان ہو چکی ہے جیسے پہلے گزر چکا۔

 اس اعتبار سے آیت والَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ پہلے کی آیت سے جدا ہو گا اور مبتدا بن کر مرفوع ہو گا اور اس کی خبر آیت أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ہو گی

لیکن پسندیدہ قول یہی ہے کہ اس کا اشارہ پہلے کے سب اوصاف والوں کی طرف ہے اہل کتاب ہوں یا عرب ہوں۔

حضرت ابن عباسؓ، حضرت ابن مسعودؓ اور بعض صحابہ سے مروی ہے کہ آیت يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ سے مراد عرب ایمان دار ہیں اس کے بعد کے جملہ سے مراد اہل کتاب ایماندار ہیں۔ پھر دونوں کے لئے یہ بشارت ہے کہ یہ لوگ ہدایت اور فلاح والے ہیں۔

اور یہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ یہ آیتیں عام ہیں اور یہ اشارہ بھی عام ہے واللہ اعلم۔

 مجاہد، ابوالعالیہ، ربیع بن انس، اور قتادہ سے یہی مروی ہے

 ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ حضور قرآن پاک کی بعض آیتیں تو ہمیں ڈھارس دیتی ہیں اور امید قائم کرا دیتی ہیں اور بعض آیتیں کمر توڑ دیتی ہیں اور قریب ہوتا ہے کہ ہم ناامید ہو جائیں۔

آپ ﷺنے فرمایا لو میں تمہیں جنتی اور جہنمی کی پہچان صاف صاف بتا دوں۔ پھر آپ نے الم سے وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (۲:۱،۵) تک پڑھ کر فرمایا یہ تو جنتی ہیں

صحابہؓ نے خوش ہو کر فرمایا الحمد للہ ہمیں امید ہے کہ ہم انہی میں سے ہوں

 پھر آیت إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سے عَذَابٌ عَظِيمٌ (۲:۶،۷) تک تلاوت کی اور فرمایا یہ جہنمی ہیں۔

انہوں نے کہا ہم ایسے نہیں

آپ ﷺنے فرمایا ہاں۔ (ابن ابی حاتم)

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ (۶)

کافروں کو آپ کا ڈرانا، یا نہ ڈرانا برابر ہے، یہ لوگ ایمان نہ لائیں گے۔

یعنی جو لوگ حق کو پوشیدہ کرنے یا چھپا لینے کے عادی ہیں اور ان کی قسمت میں یہی ہے کہ نہ تو  انہیں آپ کا ڈرانا سود مند ہے اور نہ ہی نہ  ڈرانا۔ یہ کبھی اللہ تعالیٰ کی اس وحی کی تصدیق نہیں کریں گے جو آپ پر نازل ہوئی ہے۔ جیسے اور جگہ فرمایا:

إِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ  (۱۰:۹۶)

یقیناً جن لوگوں کے حق میں آپکے رب کی بات ثابت ہو چکی ہے وہ ایمان نہ لائیں گے

 ایسے ہی سرکش اہل کتاب کی نسبت فرمایا:

وَلَئِنْ أَتَيْتَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَـبَ بِكُلِّ ءَايَةٍ مَّا تَبِعُواْ قِبْلَتَكَ (۲:۱۴۵)

اور آپ اگرچہ اہل کتاب کو تمام دلیلیں دے دیں لیکن وہ آپ کے قبلے کی پیروی نہیں کریں گے

یعنی ان بد نصیبوں کو سعادت حاصل ہی نہیں ہو گی۔ ان گمراہوں کو ہدایت کہاں؟ تو اے نبی ان پر افسوس نہ کر، فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلاَغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ (۱۳:۴۰)تیرا کام صرف رسالت کا حق ادا کر دینا اور پہنچا دینا ہے۔ ماننے والے نصیب دار ہیں وہ مالا مال ہو جائیں گے اور اگر کوئی نہ مانے تو نہ سہی۔ تیرا فرض ادا ہو گیا ہم خود ان سے حساب لے لیں گے۔ إِنَّمَا أَنتَ نَذِيرٌ وَاللّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ (۱۱:۱۲)  تو صرف ڈرانے والا ہے۔ ہر چیز پر اللہ تعالیٰ ہی وکیل ہے۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس بات کی بڑی ہی حرص تھی کہ تمام لوگ ایمان دار ہو جائیں اور ہدایت قبول کر لیں لیکن پروردگار نے فرمایا کہ یہ سعادت ہر ایک کے حصہ نہیں۔ یہ نعمت بٹ چکی ہے جس کے حصے میں آئی ہے وہ آپ کی مانے گا اور جو بد قسمت ہیں وہ ہرگز ہرگز اطاعت کی طرف نہیں جھکیں گے۔

پس مطلب یہ ہے کہ جو قرآن کو تسلیم نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ ہم اگلی کتابوں کو مانتے ہیں انہیں ڈرانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس لئے کہ وہ تو خود اپنی کتاب کو بھی حقیقتاً نہیں مانتے کیونکہ اس میں تیرے ماننے کا عہد موجود ہے تو جب وہ اس کتاب کو اور اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت کو نہیں مانتے جس کے ماننے کا اقرار کر چکے تو بھلا وہ تمہاری باتوں کو کیا مانیں گے؟

ابوالعالیہ کا قول ہے کہ یہ آیت جنگ احزاب کے ان سرداروں کے بارے میں اتری ہے جن کی نسبت فرمان باری ہے:

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُوا نِعْمَتَ اللَّهِ كُفْرًا  (۱۴:۲۸)

کیا آپ نے ان کی طرف نظر نہیں ڈالی جنہوں نے اللہ کی نعمت کے بدلے ناشکری کی

لیکن جو معنی ہم نے پہلے بیان کئے ہیں وہ زیادہ واضح ہیں اور دوسری آیتوں کے مطابق ہیں۔ واللہ اعلم

اس حدیث پر جو ابن ابی حاتم کے حوالے سے ابھی بیان ہوئی ہے دوبارہ نظر ڈالئیے لَا يُؤْمِنُونَ پہلے جملہ کی تاکید ہے یعنی ڈرانا نہ ڈرانا دونوں برابر ہیں، دونوں حالتوں میں ان کا کفر نہ ٹوٹے گا۔

یہ بھی ممکن ہے کہ لَا يُؤْمِنُونَ خبر ہو اس لئے کہ تقدیر کلام إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا يُؤْمِنُونَ ہے اور سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ جملہ معترضہ ہو جائے گا

خَتَمَ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَعَلَى سَمْعِهِمْ ۖ وَعَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (۷)

اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے

حضرت سدی فرماتے ہیں خَتَمَ سے مراد طبع ہے یعنی مہر لگا دی

حضرت قتادہ فرماتے ہیں یعنی ان پر شیطان غالب آگیا وہ اسی کی ماتحتی میں لگ گئے یہاں تک کہ مہر الہٰی ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر لگ گئی اور آنکھوں پر پردہ پڑ گیا۔ ہدایت کو نہ دیکھ سکتے ہیں نہ سن سکتے ہیں، نہ سمجھ سکتے ہیں۔

 حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ گناہ لوگوں کے دلوں میں بستے جاتے ہیں اور انہیں ہر طرف سے گھیر لیتے ہیں۔ بس یہی طبع اور خَتَمَ یعنی مہر ہے۔ دل اور کان کے لئے محاورہ میں مہر آتی ہے۔

مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں قرآن میں رَانَ کا لفظ ہے طبع کا لفظ ہے اور اقفال کا لفظ ہے۔ ران طبع سے کم ہے اور طبع اقفال سے کم ہے، اقفال سب سے زیادہ ہے۔

حضرت مجاہد نے اپنا ہاتھ دکھا کر کہا کہ دل ہتھیلی کی طرح ہے اور بندے کے گناہ کی وجہ سے وہ سمٹ جاتا ہے اور بند ہو جاتا ہے۔ اس طرح کہ ایک گناہ کیا تو گویا چھنگلیا بند ہو گئی پھر دوسرا گناہ کیا دوسری انگلی بند ہو گئی یہاں تک کہ تمام انگلیاں بند ہوگئیں اور اب مٹھی بالکل بند ہو گئی جس میں کوئی چیز داخل نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح گناہوں سے دل پر پردے پڑ جاتے ہیں مہر لگ جاتی ہے پھر اس پر کسی طرح حق اثر نہیں کرتا۔ اسے زین بھی کہتے ہیں

مطلب یہ ہوا کہ تکبر کی وجہ ان کا حق سے منہ پھیر لینا بیان ہو  رہا ہے جیسے کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص اس بات کے سننے سے بہرا بن گیا۔ مطلب یہ ہوتا ہے کہ تکبر اور بےپرواہی کر کے اس نے اس بات کی طرف کان نہ  لگایا۔

 امام ابن جریر فرماتے ہیں یہ مطلب ٹھیک نہیں اس لئے کہ یہاں تو خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی۔

زمحشری نے اس کی تردید کی ہے اور پانچ تاویلیں کی ہیں لیکن سب کی سب بالکل بےمعنی اور فضول ہیں اور صرف اپنے معتزلی ہونے کی وجہ سے اسے یہ تکلفات کرنے پڑے ہیں کیونکہ اس کے نزدیک یہ بات بہت بری ہے کہ کسی کے دل پر اللہ قدوس مہر لگا دے لیکن افسوس اس نے دوسری صاف اور صریح آیات پر غور نہیں کیا۔

 ایک جگہ ارشاد ہے:

فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ (۶۱:۵)

پس جب وہ لوگ ٹیڑھے ہی رہے تو اللہ نے انکے دلوں کو (اور) ٹیڑھا کر دیا

اور فرمایا :

وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوا بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَنَذَرُهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ (۶:۱۱۰)

اور ہم بھی ان کے دلوں کو اور ان کی نگاہوں کو پھیر دیں گے جیسا کہ یہ لوگ اس پر پہلی دفعہ ایمان نہیں لائے اور ہم ان کی سرکشی میں حیران رہنے دیں گے

اس قسم کی اور آیتیں بھی ہیں۔ جو صاف بتاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انکے دلوں پر مہر لگا دی ہے اور ہدایت کو ان سے دور کر دیا ہے۔ حق کو ترک کرنے اور باطل پر جم رہنے کی وجہ سے جو یہ سراسر عدل و انصاف ہے اور عدل اچھی چیز ہے نہ کہ بری۔

اگر زمخشری بھی بغور ان آیات پر نظر ڈالتے تو تاویل نہ کرتے۔ واللہ اعلم

قرطبی فرماتے ہیں کہ اُمت کا  اجماع ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی ایک صفت مہر لگانا بھی بیان کی ہے جو کفار کے کفر کے بدلے ہے۔فرمایا ہے:

بَلْ طَبَعَ اللّهُ عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ (۴:۱۵۵)

بلکہ ان کے کفر کی وجہ سے اللہ نے ان پر مہر لگا دی۔

حدیث میں بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ دلوں کو الٹ پلٹ کرتا ہے۔ایک دعا بھی ہے:

َا مُقَلِبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قُلُوبَنَا عَلى دِينِك

اے دلوں کے پھیرنے والے ہمارے دلوں کو اپنے دین پر قائم رکھ

حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

دلوں پر فتنے اس طرح پیش ہوتے ہیں جیسے ٹوٹے ہوئے بورے کا ایک ایک تنکا جو دل انہیں قبول کر لیتا ہے اس میں ایک سیاہ نکتہ ہو جاتا ہے اور جس دل میں یہ فتنے اثر نہیں کرتے، اس میں ایک سفید نکتہ ہو جاتا ہے جس کی سفیدی بڑھتے بڑھتے بالکل صاف سفید ہو کر سارے دل کو منور کر دیتی ہے۔ پھر اسے کبھی کوئی فتنہ نقصان نہیں پہنچا سکتا اسی طرح دوسرے دل کی سیاہی (جو حق قبول نہیں کرتا) پھیلتی جاتی ہے یہاں تک کہ سارا دل سیاہ ہو جاتا ہے۔ اب وہ الٹے کوزے کی طرح ہو جاتا ہے۔ نہ اچھی بات اسے اچھی لگتی ہے نہ برائی بری معلوم ہوتی ہے۔

 امام ابن جریر کا فیصلہ وہی ہے جو حدیث میں آ چکا ہے کہ مؤمن جب گناہ کرتا ہے اس کے دل میں ایک سیاہ نکتہ ہو جاتا ہے اگر وہ باز آ جائے توبہ کر لے اور رک جائے تو وہ نکتہ مٹ جاتا ہے اور اس کا دل صاف ہو جاتا ہے اور اگر وہ گناہ میں بڑھ جائے تو وہ سیاہی بھی پھیلتی جاتی ہے یہاں تک کہ سارے دل پر چھا جاتی ہے، یہی وہ رَانَ ہے جس کا ذکر اس آیت میں ہے: (ترمذی۔ نسائی۔ ابن جریر)

كَلاَّ بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَّا كَانُواْ يَكْسِبُونَ (۸۳:۱۴)

یقیناً ان کے دلوں پر ران ہے، ان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو حسن صحیح کہا ہے

تو معلوم ہوا کہ گناہوں کی زیادتی دلوں پر غلاف ڈال دیتی ہے اور اس کے بعد مہر الہٰی لگ جاتی ہے جسے خَتَمَ اور طَبَعَ کہا جاتا ہے۔ اب اس دل میں ایمان کے جانے اور کفر کے نکلنے کی کوئی راہ باقی نہیں رہتی۔اسی مہر کا ذکر اس آیت خَتَمَ اللّهُ عَلَى قُلُوبِهمْ وَعَلَى سَمْعِهِمْ میں ہے،

وہ ہماری آنکھوں دیکھی حقیقت ہے کہ جب کسی چیز کا منہ بند کر کے اس پر مہر لگا دی جائے تو جب تک وہ مہر نہ ٹوٹے نہ اس میں کچھ جا سکتا ہے نہ اس سے کوئی چیز نکل سکتی ہے۔ اسی طرح جن کفار کے دلوں اور کانوں پر مہر الہٰی لگ چکی ہے ان میں بھی بغیر اس کے ہٹے اور ٹوٹے نہ ہدایت آئے، نہ کفر جائے۔

سَمْعِهِمْ پر پورا وقف ہے اور آیت وَعَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ الگ پورا جملہ ہے۔

 خَتَمَ اور طَبَعَ دلوں اور کانوں پر ہوتی ہے اور غِشَاوَةٌ یعنی پردہ آنکھوں پر پڑتا ہے۔ جیسے کہ حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبداللہ بن مسعود اور دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔

قرآن میں ہے:

فَإِن يَشَإِ اللَّهُ يَخْتِمْ عَلَىٰ قَلْبِكَ (۴۲:۲۴)

اگر اللہ چاہے تو آپ کے دل پر مہر لگا دے

اور جگہ ہے:

وَخَتَمَ عَلَىٰ سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَىٰ بَصَرِهِ غِشَاوَةً (۴۵:۲۳)

اور اسکے کان اور دل پر مہر لگا دی ہےاور اسکی آنکھ پر بھی پردہ ڈال دیا ہے

ان آیتوں میں دل اور کان پر خَتَمَ کا ذکر ہے اور آنکھ پر پردے کا بعض نے یہاں غِشَاوَةً زبر کے ساتھ بھی پڑھا ہے تو ممکن ہے کہ ان کے نزدیک فعل جعل مقصود ہو اور ممکن ہے کہ نصب محل کی اتباع سے ہو جیسے وَحُورٌ عِينٌ (۵۶:۲۲) میں۔

شروع سورت کی چار آیتوں میں مؤمنین کے اوصاف بیان ہوئے پھر ان دو آیتوں میں کفار کا حال بیان ہوا۔

اب منافقوں کا ذکر ہوتا ہے جو بظاہر ایماندار بنتے ہیں لیکن حقیقت میں کافر ہیں چونکہ ان لوگوں کی چالاکیاں عموماً پوشیدہ رہ جاتی ہیں۔ اس لئے ان کا بیان ذرا تفصیل سے کیا گیا اور بہت کچھ ان کی نشانیاں بیان کی گئیں انہی کے بارے میں سورۃ برأت اتری اور انہی کا ذکر سورۃ نور میں کیا گیا تاکہ ان سے پورا بچاؤ ہو اور ان کی مذموم خصلتوں سے مسلمان دور رہیں۔

پس فرمایا۔

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ (۸)

بعض کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں، لیکن در حقیقت وہ ایمان والے نہیں ہیں۔

نفاق کہتے ہیں بھلائی ظاہر کرنے اور برائی پوشیدہ رکھنے کو۔

نفاق کی دو قسمیں ہیں اعتقادی اور عملی۔

 پہلی قسم کے منافق تو ابدی جہنمی ہیں اور دوسری قسم کے بدترین مجرم ہیں۔اس کا بیان تفصیل کے ساتھ انشاء اللہ کسی مناسب جگہ ہو گا۔

 امام ابن جریج فرماتے ہیں منافق کا قول اسکے فعل کے خلاف، اس کا باطن ظاہر کے خلاف اس کا آنا جانے کے خلاف اور اس کی موجودگی عدم موجودگی ہوا کرتی ہے۔

نفاق مکہ شریف میں تو تھا ہی نہیں بلکہ اس کے الٹ تھا یعنی بعض لوگ ایسے تھے جو زبردستی بظاہر کافروں کا ساتھ دیتے تھے مگر دل میں مسلمان ہوتے تھے۔

جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مکہ چھوڑ کر مدینہ تشریف لائے اور یہاں پر اوس اور خزرج کے قبائل نے انصار بن کر آپ کا ساتھ دیا اور جاہلیت کے زمانہ کی مشرکانہ بت پرستی ترک کر دی اور دونوں قبیلوں میں سے خوش نصیب لوگ مشرف بہ اسلام ہو گئے لیکن یہودی اب تک اللہ تعالیٰ کی اس نعمت سے محروم تھے۔ ان میں سے صرف حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ نے اس سچے دین کو قبول کیا تب تک بھی منافقوں کا خبیث گروہ قائم نہ ہوا تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان یہودیوں اور عرب کے بعض قبائل سے صلح کر لی تھی۔

غرض اس جماعت کے قیام کی ابتدا یوں ہوئی کہ مدینہ شریف کے یہودیوں کے تین قبیلے تھے بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ، بنو قینقاع تو خزرج کے حلیف اور بھائی بند بنے ہوئے تھے اور باقی دو قبیلوں کا بھائی چارہ اوس سے تھا۔

جب جنگ بدر ہوئی اور اس میں پروردگار نے اپنے دین والوں کو غالب کیا۔ شوکت و شان اسلام ظاہر ہوئی، مسلمانوں کا سکہ جم گیا اور کفر کا زور ٹوٹ گیا تب یہ ناپاک گروہ قائم ہوا چنانچہ عبداللہ بن ابی بن سلول تھا تو خزرج کے قبیلے سے لیکن اوس اور خزرج دونوں اسے اپنا بڑا مانتے تھے بلکہ اس کی باقاعدہ سرداری اور بادشاہت کے اعلان کا پختہ ارادہ کر چکے تھے کہ ان دونوں قبیلوں کا رخ اسلام کی طرف پھر گیا اور اس کی سرداری یونہی رہ گئی۔

یہ خار تو اس کے دل میں تھا ہی، اسلام کی روز افزوں ترقی میں لڑائی اور کامیابی نے اسے مخبوط الحواس بنا دیا۔ اب اس نے دیکھا کہ یوں کام نہیں چلے گا اس نے بظاہر اسلام قبول کر لینے اور باطن میں کافر رہنے کی ٹھانی اور جس قدر جماعت اس کے زیر اثر تھی سب کو یہی ہدایت کی، اس طرح منافقین کی ایک جمعیت مدینہ کے آس پاس قائم ہو گئی۔

ان منافقین میں بحمدللہ مکی مہاجر ایک بھی نہ تھا بلکہ یہ بزرگ تو اپنے اہل و عیال، مال و متاع کو نام حق پر قربان کر کے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دے کر آئے تھے۔ فرضی اللہ عنھم اجمعین

حضرت عبداللہ بن عباسؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں

یہ منافق اوس اور خزرج کے قبیلوں میں سے تھے اور یہودی بھی جو ان کے طریقے پر تھے۔ قبیلہ اوس اور خزرج کے نفاق کا ان آیتوں میں بیان ہے۔ ابوالعالیہ، حضرت حسن، قتادہ، سدی نے یہی بیان کیا ہے۔

پروردگار عالم نے منافقوں کی بہت سی بد خصلتوں کا یہاں بیان فرمایا۔ تاکہ ان کے ظاہر حال سے مسلمان دھوکہ میں نہ آ جائیں اور انہیں مسلمان خیال کر کے اپنا نہ سمجھ بیٹھیں۔ جس کی وجہ سے کوئی بڑا فساد پھیل جائے۔

یہ یاد رہے کہ بدکاروں کو نیک سمجھنا بھی بجائے خود بہت برا اور نہایت خوفناک امر ہے جس طرح اس آیت میں فرمایا گیا ہے کہ یہ لوگ زبانی اقرار تو ضرور کرتے ہیں مگر ان کے دل میں ایمان نہیں ہوتا۔

اسی طرح سورۃ منافقون میں بھی کہا گیا ہے:

إِذَا جَآءَكَ الْمُنَـفِقُونَ قَالُواْ نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ (۶۳:۱)

تیرے پاس جب منافق آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم اس بات کے گواہ ہیں کہ بیشک آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ یقیناً آپ اللہ کے رسول ہیں

لیکن چونکہ حقیقت میں منافقوں کا قول ان کے عقیدے کے مطابق نہ تھا اس لئے ان لوگوں کے شاندار اور تاکیدی الفاظ کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انہیں جھٹلا دیااور سورۃ منافقون میں فرمایا :

وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ (۶۳:۱)

اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ بالیقین منافق جھوٹے ہیں

 اور یہاں بھی فرمایا وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ یعنی دراصل وہ ایماندار نہیں

يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ (۹)

وہ اللہ تعالیٰ اور ایمان والوں کو دھوکا دیتے ہیں، لیکن دراصل وہ خود اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں مگر سمجھتے نہیں۔‏

وہ اپنے ایمان کو ظاہر کر کے اور اپنے کفر کو چھپا کر اپنی جہالت سے اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دیتے ہیں اور اسے نفع دینے والی اور اللہ کے ہاں چل جانے والی کاریگری خیال کرتے ہیں۔ جیسے کہ بعض مؤمنوں پر ان کا یہ مکر چل جاتا ہے۔

قرآن میں اور جگہ ہے:

يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهِ جَمِيعاً فَيَحْلِفُونَ لَهُ كَمَا يَحْلِفُونَ لَكُمْ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ عَلَى شَىْءٍ أَلاَ إِنَّهُمْ هُمُ الْكَـذِبُونَ (۵۸:۱۸)

جس دن اللہ تعالیٰ ان سب کو اٹھا کھڑا کرے گا تو یہ جس طرح تمہارے سامنے قسمیں کھاتے ہیں (اللہ تعالیٰ) کے سامنے بھی قسمیں کھانے لگیں گے اور سمجھیں گے کہ وہ بھی کسی (دلیل) پر ہیں۔ یقین مانو کہ بیشک وہی جھوٹے ہیں۔‏

یہاں بھی ان کے اس غلط عقیدے کی وضاحت میں فرمایا کہ دراصل وہ اپنے اس کام کی برائی کو جانتے ہی نہیں۔ یہ دھوکہ خود اپنی جانوں کو دے رہے ہیں جیسے کہ اور جگہ ارشاد ہوا :

إِنَّ الْمُنَافِقِينَ يُخَادِعُونَ اللّهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ (۴:۱۴۲)

بیشک منافق اللہ سے چال بازیاں کر رہے ہیں اور وہ انہیں اس چالبازی کا بدلہ دینے والا ہے

بعض قاریوں نے يَخدَعُونَ پڑھا ہے اور بعض يُخَادِعُونَ مگر دونوں قرأتوں کے معنی کا مطلب ایک ہی ہوتا ہے۔

اگر کوئی کہے کہ  اللہ تعالیٰ کو اور ایمان والوں کو منافق دھوکہ کیسے دیں گے؟ ْوہ جو اپنے دل کے خلاف اظہار کرتے ہیں وہ تو صرف بچاؤ کے لیے ہوتا ہے تو جواباً کہا جائے گا کہ اس طرح کی بات کرنے والے کو بھی جو کسی خوف  سے بچنا چاہتا ہے

عربی زبان میں مخادع کہا جاتا ہے چونکہ منافق بھی قتل، قید اور دنیاوی عذابوں سے محفوظ رہنے کے لئے یہ چال چلتے تھے اور اپنے باطن کے خلاف ظاہری الفاظ کہتے تھے اس لئے انہیں دھوکہ باز کہا گیا۔

 ان کا یہ فعل چاہے کسی کو دنیا میں دھوکا دے بھی دے لیکن درحقیقت وہ خود اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ کیونکہ وہ اسی میں اپنی بھلائی اور کامیابی جانتے ہیں اور دراصل یہ سب ان کے لئے انتہائی برا عذاب اور غضب الہٰی ہو گا جس کے سہنے کی ان میں طاقت نہیں ہو گی پس یہ دھوکہ حقیقتاً ان پر خود وبال ہو گا۔ وہ جس کام کے انجام کو اچھا جانتے ہیں وہ ان کے حق میں برا اور بہت برا ہو گا۔ ان کے کفر، شک اور تکذیب کی وجہ سے ان کا رب ان سے ناراض ہو گا لیکن افسوس انہیں اس کا شعور ہی نہیں اور یہ اپنے اندھے پن میں ہی مست ہیں۔

ابن جریج اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ لا الہ الا اللہ کا اظہار کر کے وہ اپنی جان اور مال کا بچاؤ کرنا چاہتے ہیں، یہ کلمہ ان کے دلوں میں جا گزیں نہیں ہوتا۔

حضرت قتادہ فرماتے ہیں منافقوں کی یہی حالت ہے کہ زبان پر کچھ، دل میں کچھ، عمل کچھ، عقیدہ کچھ، صبح کچھ اور شام کچھ کشتی کی طرح جو ہوا کے جھونکے سے کبھی اِدھر ہو جاتی ہے کبھی اُدھر۔

فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًا ۖ

ان کے دلوں میں بیماری تھی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں بیماری میں مزید بڑھا دیا

بیماری سے مراد یہاں شک و شبہ ہے۔

حضرت ابن عباسؓ حضرت ابن مسعودؓ اور چند صحابہؓ سے یہی مروی ہے۔

 حضرت مجاہد عکرمہ، حسن بصری، ابوالعالیہ، ربیع بن انس، قتادہ، کا بھی یہی قول ہے۔

حضرت عکرمہ اور طاؤس نے اس کی تفسیر سے ریا اور ابن عباسؓ سے اس کی تفسیر نفاق بھی مروی ہے۔

 زید بن اسلم فرماتے ہیں یہاں دینی بیماری مراد ہے نہ کہ جسمانی۔

انہیں اسلام میں شک کی بیماری تھی اور ان کی ناپاکی میں اللہ تعالیٰ نے اور اضافہ کر دیا۔ جیسے قرآن میں اس کا ذکر ایک اور جگہ ہے:

فَأَمَّا الَّذِينَ ءامَنُواْ فَزَادَتْهُمْ إِيمَـناً وَهُمْ يَسْتَبْشِرُونَ ـ ۔۔۔ رِجْسًا إِلَى رِجْسِهِمْ (۹:۱۲۴،۱۲۵)

سو جو لوگ ایماندار ہیں اس سورت نے ان کے ایمان کو زیادہ کیا ہے اور وہ خوش ہو رہے ہیں ۔ اور جن کے دلوں میں روگ ہے اس سورت نے ان میں ان کی گندگی کے ساتھ اور گندگی بڑھا

یعنی اس کی بدی اور گمراہی بڑھ جاتی ہے، یہ بدلہ بالکل ان کے عمل کے مطابق ہے۔

یہ تفسیر ہی درست ہے، ٹھیک اسی کے مثل یہ فرمان بھی ہے:

وَالَّذِينَ اهْتَدَوْاْ زَادَهُمْ هُدًى وَءَاتَـهُمْ تَقُوَاهُمْ (۴۷:۱۷)

اور جو لوگ ہدایت یافتہ ہیں اللہ نے انہیں ہدایت میں بڑھا دیا ہے اور انہیں ان کی پرہیز گاری عطا فرمائی ہے

وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ (۱۰)

اور ان کے جھوٹ کی وجہ سے ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔‏

 يَكْذِبُونَ کو يُكْذِبُونَ بھی قاریوں نے پڑھا ہے یہ دونوں خصلتیں ان میں تھیں جھٹلاتے بھی تھے اور جھوٹے بھی تھے۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض منافقوں کو اچھی طرح جاننے کے باوجود بھی قتل نہ کرنے کیوجہ وہی ہے جو بخاری و مسلم کی روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا میں اس بات کو ناپسند کرتا ہوں کہ لوگوں میں یہ چرچے ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو قتل کر ڈالتے ہیں،

 مطلب یہ ہے کہ جو اعرابی آس پاس ہیں انہیں یہ تو معلوم نہ ہو گا کہ ان منافقوں کے پوشیدہ کفر کی بنا پر انہیں قتل کیا گیا ہے ان کی نظریں تو صرف ظاہر داری پر ہوں گی جب ان میں یہ بات مشہور ہو جائے گی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو قتل کر ڈالتے ہیں تو خوف ہے کہ کہیں وہ اسلام کے قبول کرنے سے رک نہ جائیں۔

قرطبی فرماتے ہیں ہمارے علماء وغیرہ کا بھی یہی قول ہے۔

ٹھیک اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مؤلفتہ القلوب کو جن کے دل اسلام کی جانب مائل کئے جاتے تھے۔ مال عطا فرمایا کرتے تھے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ ان کے اعتقاد بد ہیں۔

 حضرت امام مالک بھی منافقوں کو قتل نہ کرنے کی یہی وجہ بیان فرماتے ہیں جیسے محمد بن جہم، قاضی اسماعیل اور ابہری نے نقل کیا ہے۔

حضرت امام مالک سے بقول ابن ماجشون ایک وجہ یہ بھی نقل کی گئی ہے کہ یہ اس لئے تھا کہ آپ کی اُمت کو معلوم ہو جائے کہ حاکم صرف اپنے علم کی بناء پر فیصلہ نہیں کر سکتا۔

قرطبی فرماتے ہیں گو علماء کا تمام مسائل میں اختلاف ہو لیکن اس مسئلہ میں سب کا اتفاق ہے کہ قاضی صرف اپنی ذاتی معلومات کی بناء پر کسی کو قتل نہیں کر سکتا۔

حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اور وجہ بھی بیان کی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا منافقین کو قتل کرنے سے رکنے کا سبب ان کا اپنی زبان سے اسلام کو ظاہر کرنا تھا گو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم تھا کہ ان کے دل اس کے الٹ ہیں  لیکن ظاہری کلمہ اس پہلی بات کی تردید کرتا تھا جس کی تائید میں بخاری مسلم کی یہ حدیث بھی پیش کی جا سکتی ہے جس میں کہا گیا ہے :

مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کہیں جب وہ اسے کہہ دیں تو وہ مجھ سے اپنی جان اور مال کی امان پا لیں گے اور ان کا حساب اللہ عزوجل پر ہے۔

مطلب یہ ہے کہ اس کلمہ شریف کے کہتے ہی ظاہری احکام اسلام ان پر جاری ہو جائیں گے۔

اب اگر ان کا عقیدہ بھی اس کے مطابق ہے تو آخرت والے دن نجات کا سبب ہو گا ورنہ وہاں کچھ بھی نفع نہ ہو گا لیکن دنیا میں تو مسلمانوں کے احکام ان پر جاری رہیں گے گو یہ لوگ یہاں مسلمانوں کی صفوں میں اور ان کی فہرست میں نظر آئیں گے لیکن آخرت میں عین پل صراط پر ان سے دور کر دئیے جائیں گے اور اندھیروں میں حیران و پریشان ہوتے ہوئے با آواز بلند مسلمانوں کو پکار کر کہیں گے کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ لیکن انہیں جواب ملے گا کہ تھے تو سہی مگر تم فتنوں میں پڑ گئے اور انتظار میں ہی رہ گئے اور اپنی من مانی خواہشوں کے چکر میں پڑ گئے یہاں تک کہ حکم الہٰی آ پہنچا۔

غرض دار آخرت میں بھی مسلمانوں کے پیچھے پڑے لپٹے رہیں گے لیکن بالآخر ان سے الگ کر دئیے جائیں گے اور ان کی امیدوں پر پانی پھر جائے گا وہ چاہیں گے کہ مسلمانوں کے ساتھ سجدے میں گر پڑیں لیکن سجدہ نہیں کر سکیں گے۔ جیسے کہ احادیث میں مفصل بیان آ چکا ہے۔

بعض محققین نے کہا ہے کہ ان کے قتل نہ کئے جانے کی یہ وجہ تھی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ان کی شرارتیں چل نہیں سکتی تھیں۔ مسلمانوں کو باری تعالیٰ اپنی وحی کے ذریعہ ان کی برائیوں سے محفوظ کر لیتا تھا لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر اللہ نہ کرے ایسے لوگ ہوں گے ان کا نفاق کھل جائے اور مسلمان بخوبی معلوم کر لیں تو وہ قتل کر دئیے جائیں گے۔

حضرت امام مالک ؒ کا فتویٰ ہے کہ نفاق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھا لیکن آج کل وہ بےدینی اور زندیقیت ہے

یہ بھی یاد رہے کہ زندیق جو لوگوں کو بھی اسکی تعلیم دیتا ہو اور وہ زندیق جو معلم نہ ہو ان دونوں میں فرق کیا جائے گا یا نہیں

اور یہ ارتداد کئی کئی مرتبہ ہوا تب یہ حکم ہے یا صرف ایک مرتبہ ہونے پر بھی؟

پھر اس میں بھی اختلاف ہے کہ اسلام لانا اور رجوع کرنا خود اس کی اپنی طرف سے ہو یا اس پر غلبہ پا لینے کے بعد بھی یہی حکم ہے؟

غرض اس باتوں میں اختلاف ہے لیکن اس کے بیان کی جگہ احکام کی کتابیں ہیں نہ کہ تفسیریں۔

چودہ شخصوں کے نفاق کا تو آپ کو قطعی علم تھا، یہ وہ بدباطن لوگ تھے جنہوں نے غزوہ تبوک میں مشورہ کر کے یہ امر طے کر لیا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دغابازی کریں اور آپ کے قتل کی پوری سازش کر چکے تھے طے ہوا تھا کہ رات کے اندھیرے میں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم فلاں گھاٹی کے قریب پہنچیں تو آپ کی اونٹنی کو بدکا دیں اور بھڑک کر بھاگے گی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم گھاٹی میں گر پڑیں گے۔

 اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اسی وقت وحی بھیج کر ان کی اس ناپاک سازش کا علم عطا کر دیا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلا کر اس واقعہ کی خبر دی اور ان غداروں کے نام بھی بتلا دئیے پھر بھی آپ نے ان کے قتل کے احکام صادر نہ فرمائے۔

ان کے سوا اور منافقوں کے ناموں کا آپ کو علم نہ تھا۔ چنانچہ قرآن کہتا ہے:

وَمِمَّنْ حَوْلَكُم مِّنَ الاٌّعْرَابِ مُنَـفِقُونَ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُواْ عَلَى النَّفَاقِ لاَ تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ (۹:۱۰۱)

اور کچھ تمہارے گردو پیش والوں میں اور کچھ مدینے والوں میں ایسے منافق ہیں کہ نفاق پر اڑے ہوئے ہیں، آپ ان کو نہیں جانتے ان کو ہم جانتے ہیں

اور دوسری جگہ فرمایا:

لَّئِن لَّمْ يَنتَهِ الْمُنَـفِقُونَ ۔۔۔ أُخِذُواْ وَقُتِّلُواْ تَقْتِيلاً (۳۳:۶۰،۶۱)

اگر (اب بھی) یہ منافق اور وہ جنہوں کے دلوں میں بیماری ہے اور لوگ جو مدینہ میں غلط افواہیں اڑانے والے ہیں باز نہ آئے تو ہم آپ کو ان پر مسلط کر دیں گے پھر  تو وہ چند دن ہی آپ کے ساتھ اس (شہر) میں رہ سکیں گے۔‏

ان پر پھٹکار برسائی گئی، جہاں بھی مل جائیں پکڑے جائیں اور خوب ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے جائیں

ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ان منافقوں کا علم نہ تھا کہ کون کون ہے؟ ہاں ان کی مذموم خصلتیں جو بیان ہوئی تھیں یہ جس میں پائی جاتی تھیں اس پر نفاق صادق آتا تھا۔جیسے اور جگہ ارشاد فرمایا :

وَلَوْ نَشَآءُ لأَرَيْنَـكَهُمْ فَلَعَرَفْتَهُم بِسِيمَـهُمْ وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِى لَحْنِ الْقَوْلِ (۴۷:۳۰)

اور اگر ہم چاہتے تو ان سب کو تجھے دکھا دیتے پس تو انہیں ان کے چہروں سے ہی پہچان لیتا اور یقیناً تو انہیں ان کی بات کے ڈھب سے پہچان لے گا

ان منافقوں میں سب سے زیادہ مشہور عبداللہ بن ابی بن سلول تھا۔ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی منافقانہ خصلتوں پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گواہی بھی دی تھی باوجود اس کے جب یہ  مر تا ہے  تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کے جنازے کی نماز پڑھاتے ہیں اور اس کے دفن میں اسی طرح شرکت کرتے ہیں جس طرح اور مسلمان صحابیوں کے جنازہ میں شرکت کرتے تھے۔  بلکہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ذرا زور سے یاد دلایا تو آپ نے فرمایا میں نہیں چاہتا کہ لوگ چہ میگوئیاں کریں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابیوں کو مار ڈالا کرتے ہیں

اور ایک صحیح روایت میں ہے:

استغفار کرنے یا نہ کرنے کا مجھے اختیار دیا گیا۔ تو میں نے استغفار کو پسند کیا۔

ایک اور روایت میں ہے:

اگر ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کرنے میں بھی اس کی بخشش جانتا تو یقیناً اس سے زیادہ مرتبہ استغفار کرتا۔

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ (۱۱)

اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں۔ ‏

حضرت عبداللہ بن عباس حضرت عبداللہ بن مسعود اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ یہ بیان بھی منافقوں سے ہی متعلق ہے ان کا فساد، کفر اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی تھی

مطلب یہ ہے کہ زمین میں اللہ کی نافرمانی کرنا یا نافرمانی کا حکم دینا زمین میں فساد کرنا ہےاور زمین و آسمان میں اصلاح سے مراد اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے۔

حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ انہیں جب اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے روکا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو ہدایت و اصلاح پر ہیں۔

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اس خصلت کے لوگ اب تک نہیں آئے۔

مطلب یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہ بدخصلت لوگ تھے تو سہی لیکن اب جو آئیں گے وہ ان سے بھی بدتر ہوں گے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ اس وصف کا کوئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھا ہی نہیں۔

 امام ابن جریر فرماتے ہیں :

ان منافقوں کا فساد برپا کرنا یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں کرتے تھے جس کام سے اللہ تعالیٰ منع فرماتا تھا، اسے کرتے تھے۔ فرائض ربانی ضائع کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے سچے دین میں شک و شبہ کرتے تھے۔ اس کی حقیقت اور صداقت پر یقین کامل نہیں رکھتے تھے۔ مؤمنوں کے پاس آ کر اپنی ایمانداری کی ڈینگیں مارتے تھے حالانکہ دل میں طرح طرح کے وسوسے ہوتے تھے موقع پا کر اللہ کے دشمنوں کی امداد و اعانت کرتے تھے اور اللہ کے نیک بندوں کے مقابلہ میں ان کی پاسداری کرتے تھے اور باوجود اس مکاری اور مفسدانہ چلن کے اپنے آپ کو مصلح اور صلح کل کے حامی جانتے تھے۔

 قرآن کریم نے کفار سے موالات اور دوستی رکھنے کو بھی زمین میں فساد ہونے سے تعبیر کیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

وَالَّذينَ كَفَرُواْ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَآءُ بَعْضٍ إِلاَّ تَفْعَلُوهُ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِى الاٌّرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ (۸:۷۳)

کافر آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو ملک میں فتنہ ہوگا اور زبردست فساد ہو جائے گا

 اس آیت نے مسلمان اور کفار کے دوستانہ تعلقات منقطع کر دیئے  اور جگہ فرمایا:

يَـأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْكَـفِرِينَ أَوْلِيَآءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَتُرِيدُونَ أَن تَجْعَلُواْ للَّهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَاناً مُّبِيناً  (۴:۱۴۴)

اے ایمان والو! مؤمنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست نہ بناؤ، کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کی صاف حجت قائم کر لو

یعنی تمہاری دلیل نجات کٹ جائے۔پھر فرمایا :

إِنَّ الْمُنَـفِقِينَ فِى الدَّرْكِ الاٌّسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَن تَجِدَ لَهُمْ نَصِيراً (۴:۱۴۵)

منافق تو یقیناً جہنم کے سب سے نیچے کے طبقہ میں جائیں گے ناممکن ہے کہ تو ان کا کوئی مددگار پالے

أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَكِنْ لَا يَشْعُرُونَ (۱۲)

خبردار ہو یقیناً یہی لوگ فساد کرنے والے ہیں لیکن شعور (سمجھ) نہیں رکھتے۔‏

چونکہ منافقوں کا ظاہر اچھا ہوتا ہے، اس لئے مسلمانوں سے حقیقت پوشیدہ رہ جاتی ہے وہ ایمانداروں کو اپنی چکنی چپڑی باتوں سے دھوکہ دے دیتے ہیں اور ان کے بےحقیقت کلمات اور کفار سے پوشیدہ دوستیوں سے مسلمانوں کو خطرناک مصائب جھیلنے پڑتے ہیں

پس بانی فساد یہ منافقین ہوئے۔ اگر یہ اپنے کفر پر ہی رہتے تو ان کی خوفناک سازشوں اور گہری چالوں سے مسلمانوں کو اتنا نقصان ہرگز نہ پہنچتا اور اگر پورے مسلمان ہو جاتے اور ظاہر باطن یکساں کر لیتے تب تو دنیا کے امن و امان کے ساتھ آخرت کی نجات و فلاح بھی پا لیتے باوجود اس خطرناک پالیسی کے جب انہیں یکسوئی کی نصیحت کی جاتی تو جھٹ کہہ اٹھتے کہ ہم تو صلح جو  ہیں ہم کسی سے بگاڑنا نہیں چاہتے، ہم فریقین کے ساتھ اتفاق رکھتے ہیں۔

حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں :

 وہ کہتے تھے ہم ان دونوں جماعتوں یعنی مؤمنوں اور اہل کتاب کے درمیان صلح کرانے والے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ ان کی نری جہالت ہے جسے یہ صلح سمجھتے ہیں وہ عین فساد ہے لیکن انہیں شعور ہی نہیں۔

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ ۗ

اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اور لوگوں کی طرح تم بھی ایمان لاؤتو جواب دیتے ہیں کہ ہم ایسا ایمان لائیں جیسا بیوقوف لائے ہیں،

مطلب یہ ہے کہ جب ان منافقوں کو صحابہ کی طرح اللہ تعالیٰ پر، اس کے فرشتوں، کتابوں اور رسولوں صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے، موت کے بعد جی اٹھنے، جنت دوزخ کی حقانیت کے تسلیم کرنے، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کر کے نیک اعمال بجا لانے اور برائیوں سے رکے رہنے کو کہا جاتا ہے تو یہ فرقہ ایسے ایمان والوں کو بےوقوف قرار دیتا ہے۔

 ابن عباسؓ، ابن مسعودؓ اور بعض دیگر صحابہ، ربیع، انس، عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم نے یہی تفسیر بیان کی ہے۔

 سُفَهَاءُ سفیه  کی جمع ہے جیسے حکماء حکیم کی اور حلماء حلیم کی۔ جاہل، کم عقل اور نفع نقصان کے پوری طرح نہ جاننے والے کو سفیه  کہتے ہیں۔قرآن میں اور جگہ ہے:

وَلاَ تُؤْتُواْ السُّفَهَآءَ أَمْوَلَكُمُ الَّتِى جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ قِيَـماً (۴:۵)

بے عقل لوگوں کو اپنا مال نہ دے دو جس مال کو اللہ تعالیٰ نے تمہاری گزران کے قائم رکھنے کا ذریعہ بنایا ہے

عام مفسرین کا قول ہے کہ اس آیت میں سُفَهَاءُ سے مراد عورتیں اور بچے ہیں۔

أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَكِنْ لَا يَعْلَمُونَ (۱۳)

خبردار ہو جاؤ یقیناً یہی بیوقوف ہیں، لیکن جانتے نہیں ۔‏

ان منافقین کے جواب میں یہاں بھی خود پروردگار عالم نے جواب دیا اور تاکیداً حصر کے ساتھ فرمایا کہ بیوقوف تو یہی ہیں لیکن ساتھ ہی جاہل بھی ایسے ہیں کہ اپنی بیوقوفی کو جان بھی نہیں سکتے۔ نہ اپنی جہالت و ضلالت کو سمجھ سکتے ہیں، اس سے زیادہ ان کی برائی اور کمال اندھا پن اور ہدایت سے دوری اور کیا ہو گی؟

وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَى شَيَاطِينِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُونَ (۱۴)

اور جب ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم بھی ایمان والے ہیں جب اپنے بڑوں کے پاس جاتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم تو صرف ان سے مذاق کرتے ہیں۔‏

مطلب یہ ہے کہ یہ بدباطن مسلمانوں کے پاس آ کر اپنی ایمان دوستی اور خیر خواہی ظاہر کر کے انہیں دھوکے میں ڈالنا چاہتے ہیں تاکہ مال و جان کا بچاؤ بھی ہو جائے، بھلائی اور غنیمت کے مال میں حصہ بھی قائم ہو جائے۔

 اور جب اپنے ہم مشربوں میں ہوتے ہیں تو ان ہی کی سی کہنے لگتے ہیں۔

خَلَوْا کے معنی یہاں ہیں انصرفوا اذھبوا خلصوا اور مضوا یعنی لوٹتے ہیں اور پہنچتے ہیں اور تنہائی میں ہوتے ہیں اور جاتے ہیں پس خَلَوْا جو کہ إِلَى کے ساتھ متعدی ہے اس کے معنی لوٹ جانے کے ہیں۔فعل مضمر اور ملفوظ دونوں پر یہ دلالت کرتا ہے۔

بعض کہتے ہیں إِلَى معنی میں مع کے مترادف ہے مگر اول ہی ٹھیک ہے ،

ابن جریر کے کلام کا خلاصہ بھی یہ ہے کہ شیاطین سے مراد رؤسا بڑے اور سردار ہیں جیسے یہود علماء اور سرداران کفار قریش و منافقین۔

حضرت ابن عباسؓ اور ابن مسعودؓ اور دیگر صحابہؓ  کا قول ہے کہ یہ شیاطین انکے امیر امراء اور سرداران کفر تھے اور انکے ہم عقیدہ لوگ بھی۔ شیاطین یہود بھی انہیں پیغمبری کے جھٹلانے اور قرآن کی تکذیب کرنے کا مشورہ دیا کرتے تھے۔

 مجاہد کہتے ہیں شیاطین سے مراد ان کے وہ ساتھی ہیں جو یا تو مشرک تھے یا منافق۔

قتادہ فرماتے ہیں اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو برائیوں میں اور شرک میں ان کے سردار تھے۔

ابوالعالیہ، سدی، ربیع بن انس بھی یہی تفسیر کرتے ہیں۔

امام ابن جریر فرماتے ہیں ہر بہکانے اور سرکشی کرنے والے کو شیطان کہتے ہیں۔ جنوں میں سے ہو یا انسانوں میں سے۔

قرآن میں بھی شَيَـطِينَ الإِنْسِ وَالْجِنِّ آیا ہے:

وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نِبِىٍّ عَدُوّاً شَيَـطِينَ الإِنْسِ وَالْجِنِّ يُوحِى بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً (۶:۱۱۲)

اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن بہت سے شیطان پیدا کئے تھے کچھ آدمی اور کچھ جن جن میں سے بعض بعضوں کو چکنی چپڑی باتوں کا وسوسہ ڈالتے رہتے تھے تاکہ ان کو دھوکا میں ڈال دیں

حدیث شریف میں ہے :

ہم جنوں اور انسانوں کے شیطانوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں۔

ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺکیا انسان کے شیطان بھی ہیں؟

آپ ﷺنے فرمایا ہاں

 جب یہ منافق مسلمانوں سے ملتے تو کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں یعنی جیسے تم ہو ویسے ہی ہم ہیں۔ اور اپنوں سے کہتے ہیں کہ ہم تو ان کے ساتھ ہنسی کھیل کرتے ہیں۔ حضرت ابن عباسؓ ربیع بن انس اور قتادہ کی یہی تفسیر ہے۔

اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ (۱۵)

اللہ تعالیٰ بھی ان سے مذاق کرتا ہے اور انہیں ان کی سرکشی اور بہکاوے میں اور بڑھا دیتا ہے۔‏

 اللہ تعالیٰ ان کو جواب دیتے ہوئے ان کے اس مکروہ فعل کے مقابلہےمیں فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی ان سے ٹھٹھا کرے گا اور انہیں ان کی سرکشی میں بہکنے دے گا جیسے دوسری جگہ ہے:

يَوْمَ يَقُولُ الْمُنَـفِقُونَ وَالْمُنَـفِقَـتُ ۔۔۔ وَظَـهِرُهُ مِن قِبَلِهِ الْعَذَابُ (۵۷:۱۳)

اس دن منافق مرد و عورت ایمانداروں سے کہیں گے کہ ہمارا انتظار تو کرو کہ ہم بھی تمہارے نور سے کچھ روشنی حاصل کرلیں۔ جواب دیا جائے گا کہ تم اپنے پیچھے لوٹ جاؤ اور روشنی تلاش کرو

پھر ان کے اور ان کے درمیان ایک دیوار حائل کر دی جائے گی جس میں دروازہ بھی ہوگااس کے اندرونی حصہ میں تو رحمت ہوگی اور باہر کی طرف عذاب ہوگا۔‏

فرمان الہٰی ہے:

وَلاَ يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ أَنَّمَا نُمْلِى لَهُمْ خَيْرٌ لاًّنفُسِهِمْ إِنَّمَا نُمْلِى لَهُمْ لِيَزْدَادُواْ إِثْمَاً (۳:۱۷۸)

کافر لوگ ہماری دی ہوئی مہلت کو اپنے حق میں بہتر نہ سمجھیں، یہ مہلت تو اس لئے ہے کہ وہ گناہوں میں اور بڑھ جائیں

پس قرآن میں جہاں استہزاء مسخریت یعنی مذاق، مکر، خدیعت یعنی دھوکہ کے الفاظ آئے ہیں وہاں یہی مراد ہے۔

 ایک اور جماعت کہتی ہے کہ یہ الفاظ صرف ڈانٹ ڈپٹ اور تنبیہ کے طور پر استعمال کئے گئے ہیں ان کی بدکرداریوں اور کفرو شرک پر انہیں ملامت کی گئی ہے۔

 اور مفسرین کہتے ہیں یہ الفاظ صرف جواب میں لائے گئے ہیں جیسے کوئی بھلا آدمی کسی مکار کے فریب سے بچ کر اس پر غالب آ کر کہتا ہے کہو میں نے کیسا فریب دیا حالانکہ اس کی طرف سے فریب نہیں ہوتا۔ اسی طرح یہ فرمان الہٰی ہے:

وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ (۳:۵۴)

اور کافروں نے مکر کیا اور اللہ تعالیٰ نے بھی (مکر) خفیہ تدبیر کی

اور آیت:

اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ (۲:۱۵)

اللہ تعالیٰ بھی ان سے مذاق کرتا ہے

ورنہ اللہ کی ذات مکر اور مذاق سے پاک ہے

مطلب یہ ہے کہ ان کا فن فریب انہی کو برباد کرتا ہے۔

ان الفاظ کا یہ بھی مطلب بیان کیا گیا ہے کہ اللہ ان کی ہنسی، دھوکہ، تمسخر اور بھول کا ان کو بدلہ دے گا تو بدلے میں بھی وہی الفاظ استعمال کئے گئے دونوں لفظوں کے دونوں جگہ معنی جدا جدا ہیں۔ دیکھئے قرآن کریم میں ہے:

وَجَزَآءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ (۴۲:۴۰)

اور برائی کا بدلہ اسی جیسی برائی ہے اور جو معاف کردے اور اصلاح کر لے اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے،

برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے

فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُواْ عَلَيْهِ (۲:۱۹۴)

جو تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر اسی کے مثل زیادتی کرو

تو ظاہر ہے کہ برائی کا بدلہ لینا حقیقتاً برائی نہیں۔ زیادتی کے مقابلہ میں بدلہ لینا زیادتی نہیں۔

 لیکن لفظ دونوں جگہ ایک ہی ہے حالانکہ پہلی برائی اور زیادتی ظلم ہے اور دوسری برائی اور زیادتی عدل ہے لیکن لفظ دونوں جگہ ایک ہی ہے۔ اسی طرح جہاں جہاں کلام اللہ میں ایسی عبارتیں ہیں وہاں یہی مطلب ہے۔

 ایک اور مطلب بھی سنئے

دنیا میں یہ منافق اپنی اس ناپاک پالیسی سے مسلمانوں کے ساتھ مذاق کرتے تھے اللہ نے بھی ان کے ساتھ یہی کیا کہ دنیا میں انہیں امن و امان مل گیا اور یہ مست ہوگئے حالانکہ یہ عارضی امن ہے، قیامت والے دن انہیں کوئی امن نہیں ملے گا گو یہاں ان کے مال اور جانیں بچ گئیں لیکن اللہ کے ہاں یہ دردناک عذاب کا شکار بنیں گے۔

امام ابن جریر نے اسی قول کو ترجیح دی ہے اور اس کی بہت تائید کی ہے اس لئے کہ مکر، دھوکہ اور مذاق جو بلاوجہ ہو اس سے تو اللہ کی ذات پاک ہے ہاں انتقام، مقابلے اور بدلے کے طور پر یہ الفاظ اللہ کی نسبت کہنے میں کوئی حرج نہیں۔

حضرت عبداللہ بن عباسؓ بھی یہی فرماتے ہیں کہ یہ ان کا بدلہ اور سزا ہے۔

 يَمُدُّهُمْ کا مطلب ڈھیل دینا اور بڑھانا بیان کیا گیا ہے۔جیسے فرمایا :

أَيَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهِ مِن مَّالٍ وَبَنِينَ ـ نُسَارِعُ لَهُمْ فِى الْخَيْرَتِ بَل لاَّ يَشْعُرُونَ (۲۳:۵۵،۵۶)

کیا یہ (یوں) سمجھ بیٹھے ہیں کہ ہم جو بھی ان کے مال و اولاد بڑھا رہے ہیں۔ وہ ان کے لئے بھلائیوں میں جلدی کر رہے ہیں (نہیں نہیں) بلکہ یہ سمجھتے ہی نہیں ‏

اور آیت میں ہے:

وَالَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا سَنَسْتَدْرِجُهُم مِّنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُونَ (۷:۱۸۲)

اور جو لوگ ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں ہم ان کو بتدریج (گرفت میں) لئے جا رہے ہیں اس طور پر کہ انہیں خبر بھی نہیں۔‏

غرض کہ ادھر یہ گناہ کرتے ہیں ادھر دنیوی نعمتیں زیادہ ہوتی ہیں جن پر یہ پھولے نہیں سماتے حالانکہ وہ حقیقت میں عذاب ہی کی ایک صورت ہوتی ہے۔

 قرآن پاک نے اور جگہ فرمایا:

فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ ۔۔۔ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (۶:۴۴،۴۵)

پھر جب وہ لوگ ان چیزوں کو بھولے رہے جن کی ان کو نصیحت کی جاتی تھی تو ہم نے ان پر ہرچیز کے دروازے کشادہ کر دیئے

یہاں تک کہ جب ان چیزوں پر جو کہ ان کو ملی تھیں وہ خوب اترا گئے ہم نے ان کو دفعتاً پکڑ لیا، پھر تو وہ بالکل مایوس ہوگئے۔‏ پھر ظالم لوگوں کی جڑ کٹ گئی اور سب تعریفیں اللہ کی  جو تمام عالم کا پروردگار ہے

ابن جریر فرماتے ہیں کہ انہیں ڈھیل دینے اور انہیں اپنی سرکشی اور بغاوت میں بڑھنے کے لئے ان کو مہلت دی جاتی ہے۔

 جیسے اور جگہ فرمایا:

وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصَـرَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُواْ بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَنَذَرُهُمْ فِى طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ (۶:۱۱۰)

اور ہم بھی ان کے دلوں کو اور ان کی نگاہوں کو پھیر دیں گے جیسا کہ یہ لوگ اس پر پہلی دفعہ ایمان نہیں لائے اور ہم ان کی سرکشی میں حیران رہنے دیں گے

طُغْيَان کہتے ہیں کسی چیز میں گھس جانے کو۔ جیسے فرمایا :

إِنَّا لَمَّا طَغَا الْمَآءُ حَمَلْنَـكُمْ فِى الْجَارِيَةِ (۶۹:۱۱)

جب پانی میں طغیانی آگئی تو اس وقت ہم نے تمہیں کشتی میں چڑھا لیا

ابن عباسؓ فرماتے ہیں وہ اپنے کفر میں گرے جاتے ہیں۔

 عَمْهٌ کہتے ہیں گمراہی کو۔

تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ضلالت و کفر میں ڈوب گئے اور اس ناپاکی نے انہیں گھیر لیا اب یہ اسی دلدل میں اترتے جاتے ہیں، اسی ناپاکی میں پھنسے جاتے ہیں اور اس سے نجات کی تمام راہیں ان پر بند ہو جاتی ہیں۔ بھلا ایسی دلدل میں جو ہو اور پھر اندھا بہرہ اور بیوقوف ہو وہ کیسے نجات پا سکتا ہے۔

 آنکھوں کے اندھے پن کے لئے عربی میں عمی کا لفظ آتا ہے اور دل کے اندھاپے کے لئے عَمْهٌ کا لیکن کبھی دل کے اندھے پن کے لئے بھی عمی کا لفظ آتا ہے جیسے قرآن میں ہے

وَلَـٰكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ (۲۲:۴۶)

يَكَادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ أَبْصَارَهُمْ ۖ

قریب ہے کہ بجلی ان کی آنکھیں اچک لے جائے،

بجلی کا آنکھوں کو اچک لینا، اس کی قوت اور سختی کا اظہار ہے اور منافقین کی بینائی کی کمزوری اور ضعف ایمان ہے۔

كُلَّمَا أَضَاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُوا ۚ

جب ان کے لئے روشنی کرتی ہے تو اس میں چلتے پھرتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا کرتی ہے تو کھڑے ہو جاتے ہیں

حضرت ابن عباسؓ رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ مطلب یہ ہے کہ قرآن کی مضبوط آیتیں ان منافقوں کی قلعی کھول دیں گی اور ان کے چھپے ہوئے عیب ظاہر کر دیں گی اور اپنی نورانیت سے انہیں مبہوث کر دیں گی جب ان پر اندھیرا ہو جاتا ہے تو کھڑے ہو جاتے ہیں یعنی جب ایمان ان پر ظاہر ہو جاتا ہے تو ذرا روشن دل ہو کر پیروی بھی کرنے لگتے ہیں لیکن پھر جہاں شک و شبہ آیا، دل میں کدورت اور ظلمت بھر گئی اور بھونچکے ہو کر کھڑے رہ گئے۔

 اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ اسلام کو ذرا عروج ملا تو ان کے دل میں قدرے اطمینان پیدا ہوا لیکن جہاں اس کے خلاف نظر آیا یہ الٹے پیروں کفر کی طرف لوٹنے لگے۔ جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ عَلَى حَرْفٍ ۖ ۔۔۔ وَإِنْ أَصَابَتْهُ فِتْنَةٌ انْقَلَبَ عَلَى وَجْهِهِ (۲۲:۱۱)

بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ ایک کنارے پر (کھڑے) ہو کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں اگر کوئی نفع مل گیا تو دلچسپی لینے لگتے ہیں اور اگر کوئی آفت آگئی تو اسی وقت منہ پھیر لیتے ہیں

حضرت ابن عباسؓیہ بھی فرماتے ہیں :

ان کا روشنی میں چلنا حق کو جان کر کلمہ اسلام پڑھنا ہے اور اندھیرے میں ٹھہر جانا کفر کی طرف لوٹ جانا ہے۔

دیگر بہت سے مفسرین کا بھی یہی قول ہے اور زیادہ صحیح اور ظاہر بھی یہی قول ہے واللہ اعلم۔

روز قیامت بھی ان کا یہی حال رہے گا کہ جب لوگوں کو ان کے ایمان کے اندازے کے مطابق نور ملے گا بعض کو کئی کئی میلوں تک کا، بعض کو اس سے بھی زیادہ، کسی کو اس سے کم، یہاں تک کہ کسی کو اتنا نور ملے گا کہ کبھی روشن ہو اور کبھی اندھیرا کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جو ذرا سی دور چل سکیں گے پھر ٹھہر جائیں گے پھر ذرا سی دور کا نور ملے گا پھر بجھ جائے گا اور بعض وہ بےنصیب بھی ہوں گے کہ ان کا نور بالکل بجھ جائے گا یہ پورے منافق ہوں گے جن کے بارے میں فرمان الہٰی ہے:

يَوْمَ يَقُولُ الْمُنَـفِقُونَ وَالْمُنَـفِقَـتُ ۔۔۔ فَالْتَمِسُواْ نُوراً (۵۷:۱۳)

اس دن منافق مرد و عورت ایمانداروں سے کہیں گے کہ ہمارا انتظار تو کرو کہ ہم بھی تمہارے نور سے کچھ روشنی حاصل کرلیں۔

جواب دیا جائے گا کہ تم اپنے پیچھے لوٹ جاؤ اور روشنی تلاش کرو

مؤمنوں کے بارے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

يَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَـتِ ۔۔۔ جَنَّـتٌ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا الاٌّنْهَـرُ (۵۷:۱۲)

(قیامت کے) دن تو دیکھے گا کہ ایماندار مردوں اور عورتوں کا نور ان کے آگے آگے اور ان کے دائیں دوڑ رہا ہوگا آج تمہیں ان جنتوں کی خوشخبری ہے جنکے نیچے نہریں جاری ہیں

اور فرمایا :

يَوْمَ لَا يُخْزِي اللَّهُ النَّبِيَّ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ ۔۔۔ وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (۶۶:۸)

جس دن اللہ تعالیٰ نبی کو اور ایمان داروں کو جو ان کے ساتھ ہیں رسوا نہ کرے گا

ان کا نور انکے سامنے اور ان کے دائیں دوڑ رہا ہوگا۔ یہ دعائیں کرتے ہوں گے اے ہمارے رب ہمیں کامل نور عطا فرما اور ہمیں بخش دے یقیناً تو ہرچیز پر قادر ہے۔‏

ان آیتوں کے بعد اب اس مضمون کی حدیثیں بھی سنئے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

بعض مؤمنوں کو مدینہ سے لے کر عدن تک نور ملے گا۔ بعض کو اس سے کم یہاں تک کہ بعض کو اتنا کم کہ صرف پاؤں رکھنے کی جگہ ہی روشن ہو گی (ابن جریر)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

ایمان والوں کو ان کے اعمال کے مطابق نور ملے گا بعض کو کھجور کے درخت جتنا، کسی کو قد آدم جتنا، کسی کو صرف اتنا ہی کہ اس کا انگوٹھا ہی روشن ہو، کبھی بجھ جاتا ہو، کبھی روشن ہو جاتا ہو (ابن ابی حاتم)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیںانہیں نور ملے گا ان کے اعمال کے مطابق جس کی روشنی میں وہ پل صراط سے گزریں گے۔ بعض لوگوں کا نور پہاڑ جتنا ہو گا، بعض کا کھجور جتنا اور سب سے کم نور والا وہ ہو گا جس کا نور اسکے انگوٹھے پر ہو گا کبھی چمک اٹھے گا اور کبھی بجھ جائے گا (ابن ابی حاتم) :

حضرت ابن عباسؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :

 تمام اہل توحید کو قیامت کے دن نور ملے گا۔ جب منافقوں کا نور بجھ جائے گا تو موحد ڈر کر کہیں گے رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا (۶۶:۸) یا رب ہمارے نور کو پورا کر (ابن ابی حاتم)

ضحاک بن مزاحم کا بھی یہی قول ہے۔

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ قیامت والے دن لوگ کئی قسم کے ہوں گے۔

- خالص مؤمن وہ جن کا بیان اگلی چار آیتوں میں ہوا،

- خالص کفار جن کا ذکر اس کے بعد کی دو آیتوں میں ہے

- اور منافق جن کی دو قسمیں ہیں۔ ایک تو خالص منافق جن کی مثال آگ کی روشنی سے دی گئی۔ دوسرے وہ منافق جو تردد میں ہیں کبھی تو ایمان چمک اٹھتا ہے کبھی بجھ جاتا ہے، ان ہی کی مثال بارش سے دی گئی ہے یہ پہلی قسم کے منافقوں سے کچھ کم ہیں۔

ٹھیک اسی طرح سورۃ نور میں بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے مؤمن کی اور اس کے دل کے نور کی مثال اس منور چراغ سے دی ہے جو روشن فانوس میں ہو اور خود فانوس بھی چمکتے ہوئے تارے کی طرح ہو۔ چنانچہ ایمان دار کا ایک تو خود دل روشن، دوسرے خالص شریعت کی اسے امداد، بس روشنی پر روشنی، نور پر نور ہو جاتا ہے۔

اسی طرح دوسری جگہ کافروں کی مثال بھی بیان کی جو اپنی نادانی کی وجہ سے اپنے آپ کو کچھ سمجھتے ہیں اور حقیقت میں وہ کچھ نہیں ہوتے۔ فرمایا :

وَالَّذِينَ كَفَرُواْ أَعْمَـلُهُمْ كَسَرَابٍ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ مَآءً حَتَّى إِذَا جَآءَهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْئاً (۲۴:۳۹)

اور کافروں کے اعمال مثل اس چمکتی ہوئی ریت کے ہیں جو چٹیل میدان میں جیسے پیاسا شخص دور سے پانی سمجھتا ہے لیکن جب اس کے پاس پہنچتا ہے تو اسے کچھ بھی نہیں پاتا،

أَوْ كَظُلُمَـتٍ فِى بَحْرٍ لُّجِّىٍّ يَغْشَـهُ مَوْجٌ ۔۔۔ لَّمْ يَجْعَلِ اللَّهُ لَهُ نُوراً فَمَا لَهُ مِن نُورٍ (۲۴:۴۰)

یا مثل ان اندھیروں کے ہے جو نہایت گہرے سمندر کی تہہ میں ہوں جسے اوپر تلے کی موجوں نے ڈھانپ رکھا ہو پھر اوپر سے بادل چھائے ہوئے ہوں۔

الغرض اندھیریاں ہیں جو اوپر تلے پے درپے ہیں۔ جب اپنا ہاتھ نکالے تو اسے بھی قریب ہے کہ نہ دیکھ سکے اور بات یہ ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ ہی نور نہ دے اس کے پاس کوئی روشنی نہیں ہوتی

جیسے سورۃ حج کے شروع میں ہے:

وَمِنَ النَّاسِ مَن يُجَـدِلُ فِى اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّبِعُ كُلَّ شَيْطَـنٍ مَّرِيدٍ (۲۲:۳)

بعض لوگ اللہ کے بارے میں باتیں بناتے ہیں اور وہ بھی بےعلمی کے ساتھ اور ہر سرکش شیطان کی پیروی کرتے ہیں ۔

ایک اور جگہ فرمایا :

ومِنَ النَّاسِ مَن يُجَـدِلُ فِى اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلاَ هُدًى وَلاَ كِتَـبٍ مُّنِيرٍ (۲۲:۸)

بعض لوگ اللہ کے بارے میں بغیر علم کے بغیر ہدایت کے اور بغیر روشن دلیل کے جھگڑتے ہیں

سورۃ واقعہ کے شروع اور آخر میں اور سورۃ انسان میں مؤمنوں کی بھی دو قسمیں بیان کی ہیں۔ سابقین اور اصحاب یمین یعنی مقربین بارگاہ ربانی اور پرہیزگار و نیک کار لوگ۔

پس ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ مؤمنوں کی دو جماعتیں ہیں مقرب اور ابرار۔

اور کافروں کی بھی دو قسمیں ہیں کفر کی طرف لانے والے اور ان کی تقلید کرنے والے۔

منافقوں کی بھی دو قسمیں ہیں خالص اور پکے منافق اور وہ منافق جن میں نفاق کی ایک آدھ شاخ ہے۔

صحیحین میں حدیث ہے حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

تین خصلتیں ایسی ہیں جس میں یہ تینوں ہوں وہ پختہ منافق ہے اور جس میں ایک ہو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے جب تک اسے نہ چھوڑے۔

- بات کرنے میں جھوٹ بولنا،

- وعدہ خلافی کرنا،

- امانت میں خیانت کرنا،

اس سے ثابت ہوا کہ انسان میں کبھی نفاق کا کچھ حصہ ہوتا ہے خواہ وہ نفاق عملی ہو خواہ اعتقادی جیسے کہ آیت و حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ سلف کی ایک جماعت اور علماء کرام کے ایک گروہ کا یہی مذہب ہے اس کا بیان پہلے بھی گزر چکا ہے اور آئندہ بھی آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ

مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

دل چار قسم کے ہیں

- ایک تو صاف دل جو روشن چراغ کی طرح چمک رہا ہو

- دوسرے وہ دل جو غلاف آلود ہیں،

- تیسرے وہ دل جو الٹے ہیں،

- چوتھے وہ دل جو مخلوط ہیں

پہلا دل مؤمن کا ہے جو پوری طرح نورانی ہے،

دوسرا کافر کا دل ہے جس پر پردے پڑے ہوئے ہیں،

تیسرا دل خالص منافقوں کا ہے جو جانتا ہے اور انکار کرتا ہے،

چوتھا دل اس منافق کا ہے جس میں ایمان و نفاق دونوں جمع ہیں۔

ایمان کی مثال اس سبزے کی طرح ہے جو پاکیزہ پانی سے بڑھ رہا ہو اور نفاق کی مثال اس پھوڑے کی طرح ہے جس میں پیپ اور خون بڑھتا ہی جاتا ہو اب جو مادہ بڑھ جائے وہ سرے پر غالب آ جاتا ہے۔

 اس حدیث کی اسناد بہت ہی عمدہ ہیں۔

وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (۲۰)

اور اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو ان کے کان اور آنکھوں کو بیکار کر دے یقیناً اللہ تعالیٰ ہرچیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔‏

حضرت ابن عباسؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اگر اللہ چاہے تو ان کے کان اور آنکھیں برباد کر دے۔

مطلب یہ ہے کہ جب انہوں نے حق کو جان کر اسے چھوڑ دیا تو اللہ ہر چیز پر قادر ہے یعنی اگر چاہے تو عذاب و سزا دے چاہے تو معاف کر دے۔

 یہاں قدرت کا بیان اس لئے کیا کہ پہلے منافقوں کو اپنے عذاب، اپنی جبروت سے ڈرایا اور کہہ دیا کہ وہ انہیں گھیر لینے پر قادر ہے اور ان کے کانوں کو بہرا کرنے اور آنکھوں کو اندھا کرنے پر قادر ہے۔

 قَدِيرٌ کے معنی قادر کے ہیں جیسے علیم کے معنی عالم کے ہیں۔

 امام ابن جریر فرماتے ہیں:

 یہ دو مثالیں ایک ہی قسم کے منافقوں کی ہیں

أَوْ معنی میں و کے ہےجیسے فرمایا :

وَلَا تُطِعْ مِنْهُمْ آثِمًا أَوْ كَفُورًا (۷۶:۲۴)

اور ان میں سے کسی گنہگار یا ناشکرے کا کہنا نہ مان

یا لفظ أَوْ اختیار کے لئے ہے یعنی خواہ یہ مثال بیان کرو، خواہ وہ مثال بیان کرو اختیار ہے۔

قرطبی فرماتے ہیں اور یہاں پر تساوی یعنی برابری کے لئے ہے جیسے عربی زبان کا محاورہ ہے جالس الحسن

 اور ابن سیرین زمخشری بھی یہی توجیہ کرتے ہیں

 تو مطلب یہ ہو گا کہ ان دونوں مثالوں میں سے جو مثال چاہو بیان کرو دونوں ان کے مطابق ہیں۔

میں کہتا ہوں یہ باعتبار منافقوں کی اقسام کے ہے، ان کے احوال و صفات طرح طرح کے ہیں۔ جیسے کہ سورۃ برأت میں وَمِنْهُم (۴۹)  وَمِنْهُم (۵۸)وَمِنْهُم (۷۵) کر کے ان کی بہت سی قسمیں بہت سے افعال اور بہت سے اقوال بیان کئے ہیں۔ تو یہ دونوں مثالیں دو قسم کے منافقوں کی ہیں جو ان کے احوال اور صفات سے بالکل مشابہ ہیں۔ واللہ اعلم۔

جیسے کہ سورۃ نور میں دو قسم کے کفار کی مثالیں بیان کیں۔ ایک کفر کی طرف بلانے والے دوسرے مقلد۔ فرمایا :

وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍ بِقِيعَةٍ (۲۴:۳۹)

اور کافروں کے اعمال مثل اس چمکتی ہوئی ریت کے ہیں جو چٹیل میدان میں

پھر فرمایا :

أَوْ كَظُلُمَاتٍ فِي بَحْرٍ لُّجِّيٍّ (۲۴:۴۰)

یا مثل ان اندھیروں کے ہے جو نہایت گہرے سمندر کی تہہ میں ہوں

پس پہلی مثال یعنی ریت کے تودے کی کفر کی طرف بلانے والوں کی ہے جو جہل مرکب میں پھنسے ہوئے ہیں۔

 دوسری مثال مقلدین کی ہے جو جہل بسیط میں مبتلا ہیں۔ واللہ اعلم

‎ يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (۲۱)

اے لوگوں اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا، یہی تمہارا بچاؤ ہے۔‏

یہاں سے اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی الوہیت کا بیان شروع ہوتا ہے وہی اپنے بندوں کو عدم سے وجود میں لایا، اسی نے ہر طرح کی ظاہری و باطنی نعمتیں عطا فرمائیں،

الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً

جس نے تمہارے لئے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا

اسی نے زمین کو فرش بنایا اور اس میں مضبوط پہاڑوں کی میخیں گاڑ دیں اور آسمان کو چھت بنایا۔

جیسے کہ دوسری آیت میں آیا :

وَجَعَلْنَا السَّمَآءَ سَقْفاً مَّحْفُوظاً وَهُمْ عَنْ ءَايَـتِهَا مُعْرِضُونَ  (۲۱:۳۲)

آسمان کو مضبوط چھت بھی ہم نے ہی بنایا۔ لیکن لوگ اسکی قدرت کے نمونوں پر دھیان نہیں دھرتے

وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَكُمْ ۖ

اور آسمان سے پانی اتار کر اس سے پھل پیدا کر کے تمہیں روزی دی،

آسمان سے پانی اتارنے کا مطلب بادل نازل فرمانا ہے۔ اس وقت جبکہ لوگ اس کے پورے محتاج ہوں۔ پھر اس پانی سے طرح طرح کے پھل پھول پیدا کرنا ہے جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں اور ان کے جانور بھی۔جیسے کہ قرآن مجید میں جگہ جگہ اس کا بیان آیا ہے۔ایک جگہ فرمایا ہے:

اللَّهُ الَّذِى جَعَـلَ لَكُـمُ الاٌّرْضَ قَـرَاراً ۔۔۔ فَتَـبَـرَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَـلَمِينَ  (۴۰:۶۴)

اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو ٹھہرنے کی جگہ اور آسمان کو چھت بنایا اور تمہاری صورتیں بنائیں اور بہت اچھی بنائیں اور تمہیں عمدہ عمدہ چیزیں کھانے کو عطا فرمائیں

یہی اللہ تمہارا پروردگار ہے، پس بہت برکتوں والا اللہ ہے سارے جہان کا پرورش کرنے والا۔‏

پس سب کا خالق، سب کا رازق، سب کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے اور اس لئے شرک سے مبرا ہر قسم کی عبادت کا وہی مستحق ہے۔

فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ (۲۲)

خبردار باوجود جاننے کے اللہ کے شریک مقرر نہ کرو ۔

اور فرمایااللہ تعالیٰ کے شریک نہ ٹھہراؤ جبکہ تم جانتے ہو۔

صحیحین میں حدیث ہےحضرت ابن مسعودؓپوچھتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑا گناہ کونسا ہے۔

فرمایا اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو تمہارا خالق ہے کسی کو شریک ٹھہرانا

حضرت معاذ والی حدیث میں ہے:

جانتے ہو کہ اللہ کا حق بندوں پر کیا ہے؟ یہ کہ اسی کی عبادت کریں اور کسی کو اس کی عبادت میں شریک نہ کریں

دوسری حدیث میں ہے تم میں سے کوئی یہ نہ کہے کہ جو اللہ چاہے اور فلاں چاہے بلکہ یوں کہے جو کچھ اللہ اکیلا چاہے۔

طفیل بن سنجرہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سوتیلے بھائی فرماتے ہیں:

میں نے خواب میں چند یہودیوں کو دیکھا اور ان سے پوچھا تم کون ہے؟

انہوں نے کہا تم بھی اچھے لوگ ہو لیکن افسوس تم کہتے ہو جو اللہ چاہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں

پھر میں نصرانیوں کی جماعت کے پاس گیا اور ان سے بھی اسی طرح پوچھا انہوں نے بھی یہی جواب دیا۔

میں نے ان سے کہا افسوس تم بھی مسیح علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا مانتے ہو۔

 انہوں نے بھی یہی جواب دیا

میں نے صبح اپنے اس خواب کا ذکر کچھ لوگوں سے کیا پھر دربار نبوی میں حاضر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہی خواب بیان کیا۔

 آپ نے پوچھا کیا کسی اور سے بھی تم نے اس کا ذکر کیا ہے؟

 میں نے کہا ہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اب آپ کھڑے ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا :

طفیل نے ایک خواب دیکھا اور تم میں سے بعض کو بیان بھی کیا میں چاہتا تھا کہ تمہیں اس کلمہ کے کہنے سے روک دوں لیکن فلاں فلاں کاموں کی وجہ سے میں اب تک نہ کہہ سکا۔ یاد رکھو اب ہرگز ہرگز اللہ چاہے اور اس کا رسول کبھی نہ کہنا بلکہ یوں کہو کہ صرف اللہ تعالیٰ اکیلا جو چاہے (ابن مردویہ)

ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا جو اللہ تعالیٰ چاہے اور آپ چاہیں۔

آپ ﷺنے فرمایا کیا تو مجھے اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتا ہے یوں کہہ جو اللہ تعالیٰ اکیلا چاہے (ابن مردویہ)

ایسے تمام کلمات توحید کے سراسر خلاف ہیں۔

توحید باری کی اہمیت کے بارے میں یہ سب احادیث بیان ہوئی ہیں۔ واللہ اعلم

تمام کفار اور منافقوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کا حکم دیا اور فرمایا اللہ کی عبادت کرو یعنی اس کی توحید کے پابند ہو جاؤ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو جو نہ نفع دے سکے نہ نقصان پہنچا سکے اور تم جانتے ہو کہ اس کے سوا کوئی رب نہیں جو تمہیں روزی پہنچا سکے اور تم جانتے ہو کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں اس توحید کی طرف بلا رہے ہیں جس کے حق اور سچ ہونے میں کوئی شک نہیں۔شرک اس سے بھی زیادہ پوشیدہ ہے جیسے چیونٹی جو رات کے اندھیرے میں کسی صاف پتھر پر چل رہی ہو، قسم ہے اللہ کی اور قسم ہے آپ کی حیات کی، یہ بھی شرک ہے انسان کا یہ کہنا اگر یہ کتیا نہ ہوتی تو چور رات کو ہمارے گھر میں گھس آتے یہ بھی شرک ہے۔

آدمی کا یہ قول کہ اگر بطخ  گھر میں نہ ہوتی تو چوری ہو جاتی یہ بھی شرک کا کلمہ ہے

 کسی کا یہ قول کہ جو اللہ چاہے اور آپ یہ بھی شرک ہے

 کسی کا یہ کہنا کہ اگر اللہ نہ ہوتا اور فلاں نہ ہوتا۔ یہ سب کلمات شرک ہیں

صحیح حدیث میں ہےـ

 کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا جو اللہ چاہے اور جو آپ چاہیں تو آپﷺ نے فرمایا کیا تو مجھے اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتا ہے؟

دوسری حدیث میں ہے:

تم اچھے لوگ ہوتے اگر تم شرک نہ کرتے تم کہتے ہو جو اللہ چاہے اور فلاں چاہے۔

ابوالعالیہ فرماتے ہیں أَنْدَادًا کے معنی شریک اور برابر کے ہیں۔

مجاہد فرماتے ہیں تم تورات و انجیل پڑھتے ہو اور جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ ایک اور لا شریک ہے، پھر جانتے ہوئے کیوں اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہو؟

مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

اللہ عزوجل نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کو پانچ چیزوں کا حکم دیا کہ ان پر عمل کرو اور بنی اسرائیل کو بھی ان پر عمل کرنے کا حکم دو، قریب تھا کہ وہ اس میں غفلت کریں تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے انہیں یاد دلایا کہ آپ کو پروردگار عالم کا حکم تھا کہ ان پانچ چیزوں پر خود کاربند ہو کر دوسروں کو بھی حکم دو۔ لہذا یا تو آپ کہہ دیجئے یا میں پہنچا دوں۔

حضرت یحییٰ علیہ السلام نے فرمایا مجھے ڈر ہے کہ اگر آپ سبقت لے گئے تو کہیں مجھے عذاب نہ دیا جائے یا زمین میں دھنسا نہ دیا جاؤں

پس یحییٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو بیت المقدس کی مسجد میں جمع کیا، جب مسجد بھر گئی تو آپ اونچی جگہ پر بیٹھ گئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کر کے کہا اللہ تعالیٰ نے مجھے پانچ باتوں کا حکم کیا ہے کہ خود بھی عمل کریں تم سے بھی ان پر عمل کراؤں۔

ایک یہ کہ اللہ ایک کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص خاص اپنے مال سے کسی غلام کو خریدے اور غلام کام کاج کرے لیکن جو کچھ حاصل ہوا ہے اسے کسی اور کو دے دے کیا۔ تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا غلام ایسا ہو؟ ٹھیک اسی طرح تمہارا پیدا کرنے والا، تمہیں روزی دینے والا، تمہارا حقیقی مالک اللہ تعالیٰ وحدہ لا شریک ہے۔ پس تم اسی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔

دوسری یہ کہ نماز کو ادا کرو اللہ تعالیٰ کی نگاہ بندے کی طرف ہوتی ہے۔ جب تک کہ وہ نماز میں ادھر ادھر منہ پھیرے جب تم نماز میں ہو تو خبردار ادھر ادھر التفات نہ کرنا۔

تیسرا حکم یہ ہے کہ روزے رکھا کرو اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص کے پاس مشک کی تھیلی بھری ہوئی ہو جس سے اس کے تمام ساتھیوں کے دماغ معطر رہیں۔ یاد رکھو روزے دار کے منہ کی خوشبو اللہ تعالیٰ کو مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پسند ہے۔

چوتھا حکم یہ ہے کہ صدقہ دیتے رہا کرو، اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص کو دشمنوں نے قید کر لیا اور گردن کے ساتھ اس کے ساتھ باندھ دئیے گردن مارنے کے لئے لے جانے لگے تو وہ کہنے لگا کہ تم مجھ سے فدیہ لے اور مجھے چھوڑ دو چنانچہ جو کچھ تھا کم زیادہ دے کر اپنی جان چھڑا لی۔

پانچواں اس کا حکم یہ ہے کہ بکثرت اس کے نام کا ذکر کیا کرو اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس کے پیچھے تیزی کے ساتھ دشمن دوڑتا آتا ہے اور وہ ایک مضبوط قلعہ میں گھس جاتا ہے اور وہاں امن و امان پا لیتا ہے اسی طرح بندہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے وقت شیطان سے بچا ہوا ہوتا ہے

یہ فرما کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب میں بھی تمہیں پانچ باتوں کا حکم کرتا ہوں جن کا حکم جناب باری نے مجھے دیا ہے:

- مسلمانوں کی جماعت کو لازم پکڑے رہنا

- اللہ اور اس کے رسول اور مسلمان حاکم وقت کے احکام سننا اور جاننا

- ہجرت کرنا

- اور جہاد کرنا

- جو شخص جماعت سے ایک بالشت بھر نکل جائے گویا وہ اسلام کے پٹے کو اپنے گلے سے اتار پھینکے گا ہاں یہ اور بات ہے کہ رجوع کر لے جو شخص جاہلیت کی پکار پکارے وہ جہنم کا کوڑا کرکٹ ہے

لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اگرچہ وہ روزے دار اور نمازی ہو

فرمایا اگرچہ نماز پڑھتا ہو اور روزے بھی رکھتا ہو اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہو۔

مسلمانوں کو ان کے ان ناموں کے ساتھ پکارتے رہو جو خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے رکھے ہیں مسلمین مؤمنین اور عباد اللہ

یہ حدیث حسن ہے

 اس آیت میں بھی یہی بیان ہے :

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ ۔۔۔ فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ  (۲:۲۱،۲۲)

اے لوگوں اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا، یہی تمہارا بچاؤ ہے۔‏

جس نے تمہارے لئے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی اتار کر اس سے پھل پیدا کر کے تمہیں روزی دی، خبردار باوجود جاننے کے اللہ کے شریک مقرر نہ کرو ۔

اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ عبادت میں توحید باری تعالیٰ کا پورا خیال رکھنا چاہیے کسی اور کی عبادت نہ کرنی چاہئے ہر ایک عبادت کے لائق صرف وہی ہے۔

امام رازی نے اللہ تعالیٰ کے وجود پر بھی اس آیت سے استدلال کیا ہے۔ اور فی الواقع یہ آیت اللہ تعالیٰ کے وجود پر بہت بڑی دلیل ہے زمین اور آسمان کی مختلف شکل و صورت مختلف رنگ مختلف مزاج اور مختلف نفع کی موجودات ان میں سے ہر ایک کا نفع بخش ہونا اور خاص حکمت کا حامل ہونا ان کے خالق کے وجود کا اور اس کی عظیم الشان قدرت، حکمت، زبردست سطوت اور سلطنت کا ثبوت ہے

 کسی بدوی سے پوچھا گیا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی موجودگی کی کیا دلیل ہے؟ تو اس نے کہا :

یا سبحان اللہ ان البعر لیدل علی البعیر وان اثر الا قدام لیدل علی المسیر

فسماء ذات ابراج وارض ذات فجاج  وبحار ذات امواج الا یدل ذالک علی وجود اللطیف الخبیر

مینگنی سے اونٹ معلوم ہو سکے اور پاؤں کے نشان زمین پر دیکھ کر معلوم ہو جائے کہ کوئی آدمی گیا ہے

تو کیا یہ برجوں والا آسمان یہ راستوں والی زمین یہ موجیں مارنے والے سمندر اللہ تعالیٰ باریک بین اور باخبر کے وجود پر دلیل نہیں ہو سکتے؟

حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے ہارون رشید نے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کے وجود پر کیا دلیل ہے

 آپ نے فرمایا زبانوں کا مختلف ہونا، آوازوں کا جداگانہ ہونا، نغموں کا الگ ہونا، ثابت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہے

 امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے بھی یہی سوال ہوتا ہے تو آپ جواب دیتے ہیں :

چھوڑو میں کسی اور سوچ میں ہوں۔  لوگوں نے مجھ سے کہا ہے کہ ایک بہت بڑی کشتی جس میں طرح طرح کی تجارتی چیزیں ہیں نہ کوئی اس کا نگہبان ہے نہ چلانے والا ہے باوجود اس کے وہ برابر آ جا رہی ہے اور بڑی بڑی موجوں کو خود بخود چیرتی پھاڑتی گزر جاتی ہے ٹھہرنے کی جگہ پر ٹھہر جاتی ہے چلنے کی جگہ چلتی رہتی ہے نہ اس کا کوئی ملاح ہے نہ منتظم۔

سوال کرنے والے دہریوں نے کہا آپ کس سوچ میں پڑ گئے کوئی عقلمند ایسی بات کہہ سکتا ہے کہ اتنی بڑی کشتی اتنے بڑے نظام کے ساتھ تلاطم والے سمندر میں آئے جائے اور کوئی اس کا چلانے والا نہ ہو

 آپ نے فرمایا افسوس تمہاری عقلوں پر ایک کشتی تو بغیر چلانے والے کے نہ چل سکے لیکن یہ ساری دنیا آسمان و زمین کی سب چیزیں ٹھیک اپنے کام پر لگی رہیں اور ان کا مالک حاکم خالق کوئی نہ ہو؟

یہ جواب سن کر وہ لوگ ہکا بکا ہو گئے اور حق معلوم کر کے مسلمان ہو گئے

حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی یہی سوال ہوا تو آپ نے جواب دیا :

توت کے پتے ایک ہی ہیں ایک ہی ذائقہ کے ہیں کیڑے اور شہد کی مکھی اور گائیں بکریاں ہرن وغیرہ سب اس کو چباتے کھاتے اور چرتے چگتے ہیں اسی کو کھا کر ریشم کا کیڑا ریشم تیار کرتا ہے مکھی شہد بناتی ہے، ہرن میں مشک پیدا ہوتا ہے اور گائیں بکریاں مینگنیاں دیتی ہیں۔کیا یہ اس امر کی صاف دلیل نہیں کہ ایک پتے میں یہ مختلف خواص پیدا کرنے والا کوئی ہے؟ اور اسی کو ہم اللہ تبارک و تعالیٰ مانتے ہیں وہی موجد اور صانع ہے۔

 حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے بھی ایک مرتبہ وجود باری تعالیٰ پر دلیل طلب کی گئی تو آپ نے فرمایا:

سنو یہاں ایک نہایت مضبوط قلعہ ہے جس میں کوئی دروازہ نہیں نہ کوئی راستہ ہے بلکہ سوراخ تک نہیں باہر سے چاندی کی طرح چمک رہا ہے اور اندر سے سونے کی طرح دمک رہا ہے اوپر نیچے دائیں بائیں چاروں طرف سے بالکل بند ہے ہوا تک اس میں نہیں جا سکتی اچانک اس کی ایک دیوار گرتی ہے اور ایک جاندار آنکھوں کانوں والا خوبصورت شکل اور پیاری بولی والا چلتا پھرتا نکل آتا ہے۔ بتاؤ اس بند اور محفوظ مکان میں اسے پیدا کرنے والا کوئی ہے یا نہیں؟

 اور وہ ہستی انسانی ہستیوں سے بالاتر اور اس کی قدرت غیر محدود ہے یا نہیں؟

 آپ کا مطلب یہ تھا کہ انڈے کو دیکھو چاروں طرف سے بند ہے پھر اس میں پروردگار خالق یکتا جاندار بچہ پیدا کر دیتا ہے۔ یہی دلیل ہے اللہ کے وجود پر اور اس کی توحید پر۔

حضرت ابو نواس سے جب یہ مسئلہ پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا :

آسمان سے بارش برسنا، اس سے درختوں کا پیدا ہونا اور ان ہری ہری شاخوں پر خوش ذائقہ میوؤں کا لگنا ہی اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی وحدانیت کی کافی دلیل ہے

 ابن المعتز فرماتے ہیں افسوس اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کی تکذیب پر لوگ کیسے دلیر ہو جاتے ہیں حالانکہ ہر چیز اس پروردگار کی موجود اور لاشریک ہونے پر گواہ ہے

بزرگوں کا مقولہ ہے:

آسمانوں کو دیکھو ان کی بلندی ان کی وسعت، ان کے چھوٹے بڑے چمکیلے اور روشن ستاروں پر نظریں ڈالو۔ ان کے چمکنے دمکنے ان کے چلنے پھرنے، ٹھہر جانے، ظاہر ہونے اور چھپ جانے کا مطالعہ کرو۔ سمندروں کو دیکھو، جو موجیں مارتے ہوئے زمین کو گھیرے ہوئے ہیں۔ اونچے نیچے مضبوط پہاڑوں کو دیکھو جو زمین میں گڑے ہوئے ہیں اور اسے ہلنے نہیں دیتے، جن کے رنگ، جن کی صورتیں مختلف ہیں۔ قسم قسم کی دوسری مخلوقات پر نظر ڈالو، ادھر سے ادھر پھر جانے والی کھیتیوں اور باغوں کو شاداب کرنے والی خوشنما نہروں کو دیکھو۔ کھیتوں، باغوں کی سبزیوں اور ان کے طرح طرح کے پھل پھول مزے مزے کے میوؤں پر غور کرو زمین ایک پانی ایک، لیکن شکلیں صورتیں، خوشبوئیں، رنگ ذائقہ، فائدہ الگ الگ۔ کیا یہ تمام مصنوعات تمہیں نہیں بتاتیں کہ ان کا صانع کوئی ہے؟

کیا یہ تمام موجودات با آواز بلند نہیں کہہ رہیں کہ ان کا موجد کوئی ہے؟

 کیا یہ ساری مخلوق اپنے خالق کی ہستی اس کی ذات اور اس کی توحید پر دلالت نہیں کرتی۔

یہ ہیں وہ زور دار دلائل جو اللہ جل و علا نے اپنی ذات کے منوانے کے لئے ہر نگاہ کے سامنے پیش کر دئیے ہیں جو اس کی زبردست قدرتوں ، اس کی پرزور حکمتوں، اس کی لاثانی رحمتوں، اس کے بےنظیر انعاموں، اس کے لازوال احسانوں پر دلالت کرنے کے لئے کافی وافی ہیں۔

ہم اقرار کرتے ہیں کہ نہ اس کا کوئی پالنے والا ہے، نہ اس کے سوا کوئی پیدا کرنے اور حفاظت کرنے والا، نہ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہ اس کے سوا کوئی مسجود لاشک۔

 ہاں دنیا کے لوگو! سن لو میرا توکل اور بھروسہ اسی پر ہے میری انابت اور التجا اسی کی طرف ہے، میرا جھکنا اور پست ہونا اسی کے سامنے ہے، میری تمناؤں کا مرکز، میری امیدوں کا آسرا، میرا ماویٰ، ملجا وہی ایک ہے اس کے دست رحمت کو تکتا ہوں اور اسی کا نام جپتا ہوں۔

وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (۲۳)

ہم نے اپنے بندے پر جو کچھ اتارا ہے اس میں اگر تمہیں شک ہو اور تم سچے ہو تو اس جیسی ایک سورت تو بنا لاؤ، تمہیں اختیار ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اپنے مددگاروں کو بھی بلا لو۔

توحید کے بعد اب نبوت کی تصدیق کی جا رہی ہے کفار مکہ کو خطاب کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ ہم نے جو قرآن پاک اپنے بندے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارا ہے اسے اگر تم ہمارا کلام نہیں مانتے تو تم اور تمہارے مددگار سب مل کر پورا قرآن نہیں صرف ایک سورت تو اس جیسی بنا لاؤ۔ جب تم ایسا نہیں کر سکتے اور اس سے عاجز ہو تو پھر اس قرآن کے کلام اللہ ہونے میں کیوں شک کرتے ہو؟ اپنے ہم فکر اور مددگار سب کو جمع کرو تو بھی تم سب ناکام رہو گے۔

مطلب یہ ہے کہ جنہیں تم نے اپنا معبود بنا رکھا ہے انہیں بھی بلا لو اور ان سے بھی مدد چاہو پھر اس جیسی ایک سورت ہی تو بنا لاؤ۔

حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ تم اپنے حاکموں اور اپنے زباں دان فصیح و بلیغ لوگوں سے بھی مدد لے لو۔

قرآن پاک کے اس معجزے کا اظہار اور ایسا انداز خطاب کئی جگہ ہے سورۃ قصص میں ہے:

قُلْ فَأْتُواْ بِكِتَـبٍ مِّنْ عِندِ اللَّهِ هُوَ أَهْدَى مِنْهُمَآ أَتَّبِعْهُ إِن كُنتُمْ صَـدِقِينَ (۲۸:۴۹)

کہہ دے کہ اگر سچے ہو تو تم بھی اللہ کے پاس سے کوئی ایسی کتاب لے آؤ جو ان دونوں سے زیادہ ہدایت والی ہو میں اسی کی پیروی کروں گا

سورۃ سبحان میں فرمایا:

قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَن يَأْتُواْ بِمِثْلِ هَـذَا الْقُرْءَانِ لاَ يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا (۱۷:۸۸)

کہہ دیجئے کہ اگر تمام انسان اور کل جنات مل کر اس قرآن کے مثل لانا چاہیں تو ان سب سے اس کے مثل لانا ناممکن ہے گو وہ (آپس میں) ایک دوسرے کے مددگار بھی بن جائیں ۔

سورۃ ہود میں فرمایا :

أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُواْ بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهِ مُفْتَرَيَاتٍ وَادْعُواْ مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّن دُونِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ صَـدِقِينَ (۱۱:۱۳)

کیا یہ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو اسی نے گھڑا ہے۔ جواب دیجئے کہ پھر تم بھی اسی کے مثل دس سورتیں گھڑی ہوئی لے آؤ اور اللہ کے سوا جسے چاہو اپنے ساتھ بلا بھی لو اگر تم سچے ہو ۔

سورۃ یونس میں ہے:

وَمَا كَانَ هَـذَا الْقُرْءَانُ أَن يُفْتَرَى مِن دُونِ اللَّهِ ۔۔۔ إِن كُنتُمْ صَـدِقِينَ (۱۰:۳۷،۳۸)

اور یہ قرآن ایسا نہیں ہے کہ اللہ (کی وحی) کے بغیر (اپنے ہی سے) گھڑ لیا گیا ہو۔ بلکہ یہ تو (ان کتابوں کی) تصدیق کرنے والا ہے جو اس سے قبل نازل ہو چکی ہیں اور کتاب (احکام ضروریہ) کی تفصیل بیان کرنے والا اس میں کوئی بات شک کی نہیں کہ رب العالمین کی طرف سے ہے ۔

کیا یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ آپ نے اس کو گھڑ لیا ہے؟ آپ کہہ دیجئے کہ پھر تم اس کے مثل ایک ہی سورت لاؤ اور جن جن غیر اللہ کو بلا سکو، بلا لو اگر تم سچے ہو

یہ تمام آیتیں مکہ مکرمہ میں نازل ہوئیں اور اہل مکہ کو اس کے مقابلہ میں عاجز ثابت کر کے پھر مدینہ شریف میں بھی اس مضمون کو دہرایا گیا

اوپر کی آیت مِثْلِهِ کی ضمیر کو بعض نے قرآن کی طرف لوٹایا ہے یعنی کوئی سورت اس قرآن جیسی لاؤ۔

بعض نے یہ ضمیر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹائی ہے یعنی آپ جیسا کوئی اُمی ایسا ہو ہی نہیں سکتا ہے کہ کچھ پڑھا ہوا نہ ہونے کے باوجود وہ کلام کہے جس کا مثل کسی سے نہ بن سکے

 لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے۔مجاہد قتادہ عمرو بن مسعود ابن عباسؓ حسن بصری اور اکثر محققین کا یہی قول ہے

 امام ابن جریر طبری زمحشری رازی نے بھی اسی کو پسند کیا ہے

 اس کی ترجیح کی وجوہات بہت سی ہیں۔

ایک تو یہ کہ اس میں سب کو ڈانٹ ڈپٹ بھی ہے اجتماعی اور الگ الگ بھی۔ خواہ وہ اُمی اور ان پڑھ ہوں یا اہل کتاب اور پڑھے لکھے ہوں اس میں اس معجزے کا کمال ہے اور بہ نسبت اس کے کہ صرف ان پڑھ لوگوں کو عاجز کیا جائے اس میں زیادہ مبالغہ ہے

 پھر دس سورتوں کا مطالبہ کرنا اس کی مثل نہ لا سکنے کی پیشین گوئی کرنا بھی اسی حقیقت کو ثابت کرتا ہے کہ اس سے مراد قرآن ہے نہ کہ ذات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَلَنْ تَفْعَلُوا

پس اگر تم نے نہ کیا۔ اور تم ہرگز نہیں کر سکتے

پس اس عام اعلان سے جو بار بار کیا گیا اور ساتھ ہی پیشینگوئی بھی کر دی گئی کہ یہ لوگ اس پر قادر نہیں۔

 مکہ میں اور مدینہ میں بارہا اس کا اعادہ کیا گیا اور وہ لوگ جن کی مادری زبان عربی تھی جنہیں اپنی فصاحت اور بلاغت پر ناز تھا جو لوگ آپ کی اور آپ کے دین کی دشمنی پر ادھار کھا بیٹھے تھے وہ درحقیقت اس سے عاجز آ گئے نہ پورے قرآن کا جواب دے سکے نہ دس سورتوں کا، نہ ایک سورت کا، پس ایک معجزہ تو یہ ہے کہ اس جیسی ایک چھوٹی سی سورت بھی وہ نہ بنا سکے دوسرا معجزہ یہ ہے کہ پیشین گوئی سچ ثابت ہوئی کہ یہ ہرگز اس جیسا نہیں بنا سکتے چاہے سب جمع ہو جائیں اور قیامت تک محنت کر لیں۔

پس ایسا ہی ہوا نہ تو اس زمانہ میں کسی کی یہ جرأت ہوئی نہ اس کے بعد سے آج تک اور نہ قیامت تک کسی سے یہ ہو سکے گا اور بھلا کیسے ہو سکتا؟ جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات بےمثل اسی طرح اس کا کلام بھی۔

 حقیقت بھی یہ ہے کہ قرآن پاک کو بیک نظر دیکھنے سے ہی اس کے ظاہری اور باطنی لفظی اور معنوی ایسے ایسے کمالات ظاہر ہوتے ہیں جو مخلوق کے بس کے نہیں خود رب العالمین فرماتا ہے:

الر كِتَابٌ أُحْكِمَتْ ءايَـتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِن لَّدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ (۱۱:۱)

الر، یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ اس کی آیتیں محکم کی گئی ہیں پھر صاف صاف بیان کی گئی ہیں ایک حکیم باخبر کی طرف سے

محکم مضبوط اور مفصل الگ الگ ہیں۔ پس الفاظ محکم اور معانی مفصل یا الفاظ مفصل اور معانی محکم

پس قرآن اپنے الفاظ میں اور اپنے مضامین میں بےنظیر ہے جس کے مقابلے، معارضے اور مثل سے دنیا عاجز اور بےبس ہے اس پاک کلام میں اگلی خبریں جو دنیا سے پوشیدہ تھیں وہ ہو بہو بیان کی گئیں آنے والے امور کے تذکرے کئے گئے جو لفظ بہ لفظ پورے اترے۔ تمام بھلائیوں کا حکم تمام برائیوں سے ممانعت اس میں ہے۔ سچ ہے وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ صِدْقاً وَعَدْلاً (۶:۱۱۵) یعنی خبروں میں صداقت اور احکام میں عدل تیرے رب کے کلام میں پورا پورا ہے۔

پاکیزہ قرآن تمام تر حق و صداقت و ہدایت سے پر ہے نہ اس میں واہی تباہی باتیں ہیں نہ ہنسی مذاق نہ کذب و افترا جو شاعروں کے کلام میں عموماً پایا جاتا ہے بلکہ ان کے اشعار کی قدرو قیمت ہی اسی پر ہے۔ مقولہ مشہور ہے کہ اعذبہ اکذبہ جتنا جھوٹ زیادہ اتنا ہی مزیدار تم دیکھو گے کہ لمبے لمبے پر زور قصیدے مبالغہ اور کذب آمیز یا تو عورتوں کی تعریف و توصیف میں ہوں گے یا گھوڑوں کی اور شراب کی ستائش میں ہوں گے یا کسی انسان کی بڑھی چڑھی مدح و تعریف میں ہوں گے یا اونٹنیوں کی آرائش و زیبائش یا بہادری کے مبالغہ آمیز گیت یا لڑائیوں کی چالبازیوں یا ڈر خوف کے خیالی منظروں کے بیان میں ہوں گے جن سے کوئی فائدہ نہیں۔ نہ دین کا نہ دنیا کا صرف شاعر کی زبان دانی اور اس کی قدرت کلام ظاہر ہوتی ہے۔ نہ اخلاق پر ان سے کوئی عمدہ اثر نہ اعمال پر پھر نفس مضمون کے ساتھ پورے قصیدے میں بمشکل دو ایک شعر ہوتے ہیں۔ باقی سب بھرتی کے اور ادھر ادھر کی لایعنی اور فضول بکواس

برخلاف اسکے قرآن پاک کے اس پر نظر ڈالو تو دیکھو گے کہ اس کا ایک ایک لفظ فصاحت و بلاغت سے دین و دنیا کے نفع سے، خیرو برکت سے پر ہے۔ پھر کلام کی ترتیب و تہذیب الفاظ کی بندش، عبارت کی روانی، معانی کی نورانیت، مضمون کی پاکیزگی، سونے پر سہاگہ ہے۔

 اس کی خبروں کی حلاوت، اس کے بیان کردہ واقعات کی سلاست، مردہ دلوں کی زندگی ہے۔ اس کا اختصار کمال کا اعلیٰ نمونہ اور اس کی تفصیل معجزے کی جان ہے اس کا کسی چیز کا دوہرانا قند مکرر کا مزہ دیتا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے گویا سچے موتیوں کی بارش برس رہی ہے۔ بار بار پڑھو دل نہ اکتائے، مزے لیتے جاؤ اور ہر وقت نیا مزہ پاؤ۔ مضامین سمجھتے جاؤ اور ختم نہ ہوں۔

یہ قرآن پاک کا ہی خاصہ ہے اس چاشنی کا ذائقہ، اس مٹھاس کا مزہ کوئی اس سے پوچھے جنہیں عقل و حواس علم و فضل کا کچھ حصہ قدرت نے عطا فرمایا۔ اس کی تنذیر دھمکاوا تعذیب اور پکڑ دھکڑ کا بیان مضبوط پہاڑوں کو ہلا دے۔ انسانی دل کیا ہیں اس کے وعدے اور خوشخبریاں، نعمتوں اور رحمتوں کا بیان دلوں کی پژمردہ کلی کو کھلا دینے والا، شوق و تمنا کے دبے جذبات کو ابھار دینے والا جنتوں اور راحتوں کے پیارے پیارے مناظر کو آنکھوں کے سامنے لانے والا ہے۔ دل کھل جاتے ہیں کان لگ جاتے ہیں اور آنکھیں کھل جاتی ہیں۔

رغبت دیتے ہوئے وہ فرماتا ہے:

فَلاَ تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ أُخْفِىَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَآءً بِمَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ (۳۲:۱۷)

کوئی نفس نہیں جانتا جو کچھ ہم نے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ان کے لئے پوشیدہ کر رکھی ہے جو کچھ کرتے تھے یہ اس کا بدلہ ہے

وَفِيهَا مَا تَشْتَهِيهِ الاٌّنْفُسُ وَتَلَذُّ الاٌّعْيُنُ وَأَنتُمْ فِيهَا خَـلِدُونَ (۴۳:۷۱)

ان کے جی جس چیز کی خواہش کریں اور جس سے ان کی آنکھیں لذت پائیں، سب وہاں ہوگا

ڈراتے اور دھمکاتے ہوئے فرمایا :

أَفَأَمِنتُمْ أَن يَخْسِفَ بِكُمْ جَانِبَ الْبَرِّ (۱۷:۶۸)

تو کیا تم اس سے بےخوف ہوگئے ہو کہ تمہیں خشکی کی طرف (لے جا کر زمین) میں دھنسا دے

أَءَمِنتُمْ مَّن فِى السَّمَآءِ أَن يَخْسِفَ بِكُمُ الاٌّرْضَ فَإِذَا هِىَ تَمُورُ ـ أَمْ أَمِنتُمْ مِّن فِى السَّمَآءِ أَن يُرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَـصِباً فَسَتَعْلَمُونَ كَيْفَ نَذِيرِ (۶۷:۱۶،۱۷)

کیا تم اس بات سے بےخوف ہوگئے ہو کہ آسمان والا تمہیں زمین میں نہ دھنسا دے اور اچانک زمین لرزنے لگے ‏ یا کیا تم اس بات سے نڈر ہوگئے ہو کہ آسمانوں والا تم پر پتھر برسائے پھر تمہیں معلوم ہو ہی جائے گا کہ میرا ڈرانا کیسا تھا

 زجرو تو پیخ ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے:

فَكُلاًّ أَخَذْنَا بِذَنبِهِ (۲۹:۴۰)

پھر تو ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ کے وبال میں گرفتار کر لیا

بطور وعظ و نصیحت بیان ہوتا ہے :

أَفَرَأَيْتَ إِن مَّتَّعْنَـهُمْ سِنِينَ ـ ثُمَّ جَآءَهُم مَّا كَانُواْ يُوعَدُونَ ـ مَآ أَغْنَى عَنْهُمْ مَّا كَانُواْ يُمَتَّعُونَ (۲۶:۲۰۵،۲۰۷)

اچھا یہ بھی بتاؤ کہ اگر ہم نے انہیں کئی سال بھی فائدہ اٹھانے دیا۔‏ پھر انہیں وہ عذاب آلگا جن سے یہ دھمکائے جاتے تھے۔‏ تو جو کچھ بھی یہ برتتے رہے اس میں سے کچھ بھی فائدہ نہ پہنچا سکے گا

غرض کوئی کہاں تک بیان کرے جس مضمون کا ذکر کیا۔ اسے کمال تک پہنچا کر چھوڑا اور طرح طرح کی فصاحت و بلاغت، حلاوت و حکمت سے معمور کر دیا احکام کے حکم اور روک ٹوک کو دیکھئے ہر حکم اچھائی بھلائی نفع اور پاکیزگی کا جامع ہے۔ ہر ممانعت قباحت رذالت اور خباثت کی قاطع ہے۔

 ابن مسعودؓ اسلاف اُمت کا قول ہے کہ جب قرآن میں يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ آئے تو کان لگا دو یا تو کسی اچھائی کا حکم ہو گا یا کسی برائی سے منع کیا جائے گا خود پروردگار عالم فرماتا ہے:

يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَـهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَـتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَـئِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالاٌّغْلَـلَ الَّتِى كَانَتْ عَلَيْهِمْ (۷:۱۵۷)

وہ ان کو نیک باتوں کا حکم فرماتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ہیں

اور پاکیزہ چیزوں کو حلال بناتے ہیں اور گندی چیزوں کو ان پر حرام فرماتے ہیں اور ان لوگوں پر جو بوجھ اور طوق تھے ان کو دور کرتے ہیں۔

قیامت کے بیان کی آیتیں ہیں کہ ہولناک مناظر جنت و دوزخ کا بیان رحمتوں اور زحمتوں کا پورا پورا وصف۔

 اولیاء اللہ کے لئے طرح طرح کی نعمتیں۔ دشمنان اللہ کے لئے طرح طرح کے عذاب۔ کہیں بشارت ہے کہیں ڈراوا ہے کہیں نیکیوں کی طرف رغبت ہے۔ کہیں بدکاریوں سے ممانعت ہے۔ کہیں دنیا کی طرف سے زہد کرنے کی، کہیں آخرت کی طرف رغبت کرنے کی تعلیم ہے۔

 یہی وہ تمام آیتیں ہیں جو راہ راست دکھاتی ہیں اور بہتر رہنمائی کرتی ہیں اللہ کی پسندیدہ شریعت کی طرف جھکاتی ہیں اور دلوں کو جلا دیتی ہیں اور شیطانی دروازوں کو بند کر دیتی ہے اور برے اثرات کو زائل کرتی ہیں۔

صحیح بخاری مسلم میں بروایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

ہر نبی کو ایسے معجزے دئیے گئے کہ جنہیں دیکھ کر لوگ اس پر ایمان لائے اور میرا معجزہ اللہ کی وحی یعنی قرآن پاک ہے اس لئے مجھے امید ہے کہ میرے تابعدار بہ نسبت اور نبیوں کے بہت زیادہ ہوں گے اس لئے کہ اور انبیاء کے معجزے ان کے ساتھ چلے گئے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معجزہ قیامت تک باقی رہے گا۔ لوگ اسے دیکھتے جائیں گے اور اسلام میں داخل ہوتے جائیں گے

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ میرا معجزہ وحی ہے جو مجھ کو دی گئی ہے کا مطلب یہ ہے کہ مجھ کو اس کے ساتھ مخصوص کیا گیا ہے اور قرآن کریم مجھی کو ملا ہے جو اپنے معارضے اور مقابلے میں تمام دنیا کو عاجز کر دینے والا ہے۔ بخلاف دوسری آسمانی کتابوں کے وہ اکثر علماء کے نزدیک اس وصف سے خالی ہیں واللہ اعلم۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت آپ کی صداقت اور دین اسلام کی حقانیت پر اس معجزے کے علاوہ بھی اس قدر دلائل ہیں جو گنے بھی نہیں جا سکتے۔ للہ الحمد والمنتہ

 بعض متکلمین نے قرآن کریم کے اعجاز کو ایسے انداز سے بیان کیا ہے جو اہل سنت کے اور معتزلہ کے قول پر مشترک ہے وہ کہتے ہیں کہ یا تو یہ قرآن فی نفسہ معجزہ ہے جو انسان کے امکان میں ہی نہیں کہ اس جیسا بنا لا سکے انہیں اس کا معارضہ کرنے کی قدرت و طاقت ہی نہیں۔

یا یہ کہ گو اس کا معارضہ ممکن ہے اور انسانی طاقت سے باہر نہیں لیکن باوجود اس کے انہیں معارضہ کا چیلنج دیا جاتا ہے اس لئے کہ وہ عداوت اور دشمنی میں بڑھے ہوئے ہیں دین حق کو مٹانے، ہر وقت ہر طاقت کے خرچ کرنے اور ہر چیز کے برباد کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن تاہم قرآن کا معارضہ اور مقابلہ ان سے نہیں ہو سکتا۔

یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن اللہ کی جانب سے ہے اگر قدرت و طاقت ہو بھی تو بھی وہ انہیں روک دیتا ہے اور وہ قرآن کی مثل پیش کرنے سے عاجز ہو جاتے ہیں۔

 گو یہ پچھلی وجہ اتنی پسندیدہ نہیں تاہم اگر اسے بھی مان لیا جائے تو اس سے بھی قرآن پاک کا معجزہ ہونا ثابت ہوے جو بطریق تنزل حمایت حق اور مناظرے کی خاطر صلاحیت رکھتا ہے

 امام رازی نے بھی چھوٹی چھوٹی سورتوں کے سوال کے جواب میں یہی طریقہ اختیار کیا ہے۔

فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ۖ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ (۲۴)

تو (اسے سچا مان کر) اس آگ سے بچو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔

وَقُود کے معنی ایندھن کے ہیں جس سے آگ جلائی جائے۔ جیسے چپٹیاں لکڑیاں وغیرہ قرآن کریم میں ایک جگہ ہے:

وَأَمَّا الْقَـسِطُونَ فَكَانُواْ لِجَهَنَّمَ حَطَباً (۷۲:۱۵)

اور جو ظالم ہیں وہ جہنم کا ایندھن بن گئے

اور جگہ فرمایا:

إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ أَنتُمْ لَهَا وَارِدُونَ ـ لَوْ كَانَ هَـؤُلاءِ ءَالِهَةً مَّا وَرَدُوهَا وَكُلٌّ فِيهَا خَـلِدُونَ (۲۱:۹۸،۹۹)

تم اور اللہ کے سوا جن جن کی تم عبادت کرتے ہو، سب دوزخ کا ایندھن بنو گے، تم سب دوزخ میں جانے والے ہو ۔ اگر یہ (سچے) معبود ہوتے تو جہنم میں داخل نہ ہوتے، اور سب کے سب اسی میں ہمیشہ رہنے والے ہیں

اور حِجَارَة کہتے ہیں پتھر کو یہاں مراد گندھک کے سخت سیاہ اور بڑے بڑے اور بدبو دار پتھر ہیں جن کی آگ بہت تیز ہوتی ہے

 اللہ تعالیٰ ہمیں محفوظ رکھے

حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں ان پتھروں کو زمین و آسمان کی پیدائش کے ساتھ ہی آسمان اول پر پیدا کیا گیا ہے۔ (ابن جریر ابن ابی حاتم مستدرک حاکم)

ابن عباسؓ ابن مسعودؓ اور چند اور صحابہؓ سے سدی نے نقل کیا ہے:

جہنم میں یہ سیاہ گندھک کے پتھر بھی ہیں جن کی سخت آگ سے کافروں کو عذاب کیا جائے گا۔

حضرت مجاہد فرماتے ہیں ان پتھروں کی بدبو مردار کی بو سے بھی زیادہ ہے

محمد بن علی اور ابن جریج بھی کہتے ہیں کہ مراد گندھک کے بڑے بڑے اور سخت پتھر ہیں۔

بعض نے کہا ہے مراد وہ پتھر جن کی مورتیاں بنائی جاتی ہیں اور پھر ان کی پرستش کی جاتی تھی جیسے اور جگہ ہے:

إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ (۲۱:۹۸)

تم اور اللہ کے سوا جن جن کی تم عبادت کرتے ہو، سب دوزخ کا ایندھن بنو گے

قرطبی اور رازی نے اسی قول کو ترجیح دی ہے اور کہا ہے کہ گندھک کے پتھر جو کسی شکل میں بھی اللہ کے سوا پوجے جاتے ہوںلیکن یہ وجہ کوئی قوی وجہ نہیں اس لئے کہ جب آگ گندھک کے پتھروں سے سلگائی جائے تو ظاہر ہے کہ اس کی تیزی اور حرارت معمولی آگ سے بہت زیادہ ہو گی اس کا بھڑکنا جلنا سوزش اور شعلے بھی بہت زیادہ ہوں گے

علاوہ اس کے پھر سلف سے بھی اس کی تفسیر یہی مروی ہے اسی طرح ان پتھروں میں آگ کا لگنا بھی ظاہر ہے۔ اور آیت کا مقصود آگ کی اور اس کی سوزش کا بیان کرنا ہے اور اس کے بیان کے لئے بھی یہاں پتھر سے مراد گندھک کے پتھر لینا زیادہ مناسب ہے تاکہ وہ آگ تیز ہو اور اس سے بھی عذاب میں سختی ہوقرآن کریم میں ہے:

كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنَاهُمْ سَعِيرًا (۱۷:۸۷)

جب کبھی وہ بجھنے لگے گی ہم ان پر اسے اور بھڑکا دیں گے

ایک حدیث میں ہے ہر موذی آگ میں ہے

لیکن یہ حدیث محفوظ اور معروف نہیں۔

قرطبی فرماتے ہیں اس کے دو معنی ہیں

ایک یہ کہ ہر وہ شخص جو دوسروں کو ایذاء دے جہنمی ہے

 دوسرے یہ کہ ہر ایذاء دہندہ چیز جہنم کی آگ میں موجود ہو گی جو جہنمیوں کو عذاب دے گی۔

 أُعِدَّتْ یعنی تیار کی گئی ہے مراد بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ آگ کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مراد پتھر ہوں یعنی وہ پتھر جو کافروں کے لئے تیار کئے گئے ہیں۔ ابن مسعودؓ کا یہی قول ہے

اور فی الحقیقت دونوں معنی میں کوئی اختلاف نہیں اس لئے کہ پتھروں کا تیار کیا جانا آگ کے جلانے کے لئے ہے۔ لہذا آگ کی تیاری کے لئے پتھروں کا تیار کیا جانا ضروری ہے۔ پس دونوں ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں۔

 ابن عباسؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ہر وہ شخص جو کفر پر ہو اس کے لیے وہ آگ تیار ہے۔

 اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے کہ جہنم اب موجود اور پیدا شدہ ہے کیونکہ أُعِدَّتْ کا لفظ ہی اس کی دلیل میں آیا ہے

 بہت سی حدیثیں بھی ہیں۔

ایک مطول حدیث میں ہے:

جنت اور دوزخ میں جھگڑا ہوا،

دوسری حدیث میں ہے:

جہنم نے اللہ تعالیٰ سے دو سانس لینے کی اجازت چاہی اور اسے سردی میں ایک سانس لینے اور گرمی میں دوسرا سانس لینے کی اجازت دے دی گئی۔

تیسری حدیث میں ہے:

صحابہ کہتے ہیں ہم نے ایک مرتبہ بڑے زور کی ایک آواز سنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یہ کس چیز کی آواز ہے

آپ ﷺنے فرمایا ستر سال پہلے ایک پتھر جہنم میں پھینکا گیا تھا آج وہ تہہ کو پہنچا۔

چوتھی حدیث میں ہے:

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج گرہن کی نماز پڑھتے ہوئے جہنم کو دیکھا۔

پانچویں حدیث میں ہے:

آپﷺ نے شب معراج میں جہنم کو اس میں عذابوں کے سلسلے کو ملاحظہ فرمایا

 اسی طرح اور بہت سی صحیح متواتر حدیثیں مروی ہیں معتزلہ اپنی جہالت کی وجہ سے انہیں نہیں مانتے

قاضی اندلس منذر بن سعید بلوطی نے بھی ان سے اتفاق کیا ہے۔

 مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہاں اور سورۃ یونس میں جو کہا گیا ہے کہ بِسُورَةٍ مِّثْلِهِ  (۱۰:۳۸)  ایک ہی سورت کے مانند لاؤ اس میں ہر چھوٹی بڑی آیت شامل ہے اس لئے عربیت کے قاعدے کے مطابق جو اسم نکرہ ہو اور شرط کے طور پر لایا گیا ہو وہ عمومیت کا فائدہ دیتا ہے جیسے کہ نکرہ نفی کی تحت میں استغراق کا فائدہ دیتا ہے

پس لمبی سورتوں اور چھوٹی سورتوں سب میں اعجاز ہے اور اس بات پر سلف و خلف کا اتفاق ہے

امام رازی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اگر کوئی کہے کہ سورت کا لفظ سورۃ کوثر اور سورۃ العصر اور سورۃ قل یاایھا الکفرون جیسی چھوٹی سورتوں پر بھی مشتمل ہے اور یہ بھی یقین ہو کہ اس جیسی یا اس کے قریب قریب کسی سورت کا بنا لینا ممکن ہے تو اسے انسانی طاقت سے خارج کہنا نری ہٹ دھرمی اور بےجا طرف داری ہے تو ہم جواب دیں گے کہ ہم نے اس کے معجز نما ہونے کے دو طریقے بیان کر کے دوسرے طریقہ کو اسی لئے پسند کیا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر یہ چھوٹی سورتیں بھی فصاحت و بلاغت میں میں اسی پایہ کی ہیں کہ وہ معجزہ کہی جا سکیں اور انکار تعارض ممکن نہ ہو تو مقصود حاصل ہو گیا اور اگر یہ سورتیں ایسی نہیں تو بھی ہمارا مقصود حاصل ہے اس لئے کہ ان جیسی سورتوں کو بنانے کی انسانی قدرت ہونے پر بھی سخت دشمنی اور زبردست کوششوں کے باوجود ناکام رہنا ہے۔ اس بات کی صاف دلیل ہے کہ یہ قرآن مع اپنی چھوٹی چھوٹی سورتوں کے سراسر معجزہ ہے

یہ تو رازی کا کہنا ہے۔ لیکن صحیح قول یہ ہے کہ قرآن پاک کی ہر بڑی چھوٹی سورت فی الواقع معجزہ ہے اور انسان اس کی مانند بنانے سے محض عاجز اور بالکل بےبس ہے۔

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اگر لوگ غورو تدبر سے عقل و ہوش سے سورۃ والعصر کو سمجھ لیں تو انتہائی کافی ہے۔

حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب وفد میں شامل مسیلمہ کذاب کے پاس گئے (تب یہ خود بھی مسلمان نہیں ہوئے تھے) تو مسیلمہ نے ان سے پوچھا کہ تم مکہ سے آ رہے ہو بتاؤ تو آج کل کوئی تازہ وحی بھی نازل ہوئی ہے؟

 انہوں نے کہا ابھی ابھی ایک مختصر سی سورت نازل ہوئی ہے جو بیحد فصیح و بلیغ اور جامع اور مانع ہے پھر سورۃ والعصر پڑھ کر سنائی تو مسلیمہ نے کچھ دیر سوچ کر اس کے مقابلے میں کہا۔ مجھ پر بھی ایک ایسی ہی سورت نازل ہوئی ہے

 انہوں نے کہا ہاں تم بھی سناؤ تو اس نے کہا یاوبریا وبرانما انت اذنان وصدر وسائک حقر فقر یعنی اے جنگلی چوہے اے جنگلی چوہے تیرا وجود سوائے دو کانوں اور سینے کے اور کچھ بھی نہیں باقی تو سراسر بالکل ناچیز ہےپھر فخریہ کہنے لگا کہو اے عمرو کیسی کہی؟

انہوں نے کہا مجھ سے کیا پوچھتے ہو تو خود جانتا ہے کہ یہ سراسر کذب و بہتان ہے بھلا کہاں یہ فضول کلام اور کہاں حکمتوں سے بھرپور وہ کلام؟

وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ

اور ایمان والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو جنت کی خوشخبریاں دو جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔

چونکہ پہلے کافروں اور دشمنان دین کی سزا عذاب اور رسوائی کا ذکر ہوا تھا اس لئے یہاں ایمانداروں اور نیک صالح لوگوں کی جزا ثواب اور سرخروئی کا بیان کیا گیا ہے۔

قرآن کے مثانی ہونے کے ایک معنی یہ بھی ہیں جو صحیح تر قول بھی ہے کہ اس میں ہر مضمون تقابلی جائزہ کے ساتھ ہوا ہے اس کا مفصل بیان بھی کسی مناسب جگہ آئے گا

مطلب یہ ہے کہ ایمان کے ساتھ ہی کفر کا۔ کفر کے ساتھ ایمان کا۔ نیکوں کے ساتھ بدوں کا۔ اور بدوں کے ساتھ نیکوں کا ذکر ضرور آتا ہے جس چیز کا بیان ہوتا ہے اس کے مقابلہ کی چیز کا بھی ذکر کر دیا جاتا ہے چاہے معنی میں متشابہ ہوں، یہ دونوں لفظ قرآن کے اوصاف میں وارد ہوئے ہیں اسے مثانی بھی کہا گیا ہے اور متشابہ بھی فرمایا گیا ہے۔

جنتوں میں نہریں بہنا اس کے درختوں اور بالاخانوں کے نیچے بہنا ہے

حدیث شریف میں ہے کہ نہریں بہتی ہیں لیکن گڑھا نہیں

 اور حدیث میں ہے :

 نہر کوثر کے دونوں کنارے سچے موتیوں کے قبے ہیں اس کی مٹی مشک خالص ہے اور اس کی کنکریاں لولو اور جواہر ہیں۔

 اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہمیں بھی یہ نعمتیں عطا فرمائے وہ احسان کرنے والا بڑا رحیم ہے

حدیث میں ہےجنت کی نہریں مشکی پہاڑوں کے نیچے سے جاری ہوتی ہیں۔ (ابن ابی حاتم)

حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی یہ مروی ہے۔

كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِزْقًا ۙ قَالُوا هَذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ ۖ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا ۖ

جب وہ پھلوں کا رزق دئیے جائیں گے اور ہم شکل لائے جائیں گے تو کہیں گے یہ وہی ہیں جو ہم اس سے پہلے دئیے گئے تھے

 جنتیوں کا یہ قول کہ پہلے بھی ہم کو یہ میوے دئیے گئے تھے اس سے مراد یہ ہے کہ دنیا میں بھی یہ میوے ہمیں ملے تھے

صحابہ اور ابن جریر نے بھی اس کی تائید کی ہے

بعض کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ہم اس سے پہلے یعنی کل بھی یہی دئیے گئے تھے یہ اس لئے کہیں گے کہ ظاہری صورت و شکل میں وہ بالکل مشابہ ہوں گے۔

یحییٰ بن کثیر کہتے ہیں کہ ایک پیالہ آئے گا کھائیں گے پھر دوسرا آئے گا تو کہیں گے یہ تو ابھی کھایا ہے فرشتے کہیں گے کھائیے تو اگرچہ صورت شکل میں یکساں ہیں لیکن مزہ اور ہے۔

فرماتے ہیں جنت کی گھاس زعفران ہے اس کے ٹیلے مشک کے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے خوبصورت غلمان ادھر ادھر سے میوے لا لا کر پیش کر رہے ہیں وہ کھا رہے ہیں وہ پھر پیش کرتے ہیں تو یہ کہتے ہیں اسے تو ابھی کھایا ہے وہ جواب دیتے ہیں حضرت رنگ روپ ایک ہے لیکن ذائقہ اور ہی ہے چکھ کر دیکھئے کھاتے ہیں تو اور ہی لطف پاتے ہیں یہی معنی ہیں کہ ہم شکل لائیں جائیں گے۔ دنیا کے میوؤں سے بھی اور نام شکل اور صورت میں بھی ملتے جلتے ہوں گے لیکن مزہ کچھ دوسرا ہی ہو گا۔

حضرت ابن عباسؓ کا قول ہے صرف نام میں مشابہت ہے ورنہ کہاں یہاں کی چیز کہاں وہاں کی؟ یہاں تو فقط نام ہی ہے

عبدالرحمٰن کا قول ہے دنیا کے پھلوں جیسے پھل دیکھ کر کہہ دیں گے کہ یہ تو دنیا میں کھا چکے ہیں مگر جب چکھیں گے تو لذت کچھ اور ہی ہو گی۔

وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُطَهَّرَةٌ ۖ وَهُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (۲۵)

اور ان کے لئے بیویاں ہیں صاف ستھری اور وہ ان جنتوں میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔

وہاں جو بیویاں انہیں ملیں گی وہ گندگی، ناپاکی، حیض و نفاس، پیشاب، پاخانہ، تھوک، رینٹ، منی وغیرہ سے پاک صاف ہوں گی

حضرت حوا علیہما السلام بھی حیض سے پاک تھیں لیکن نافرمانی سرزد ہوتے ہی یہ بلا آ گئی

یہ قول سنداً غریب ہے

ایک غریب مرفوع حدیث میں ہے کہ حیض پاخانہ تھوک رینٹ سے وہ پاک ہیں۔

اس حدیث کے راوی عبدالرزاق بن عمر یزیعی ہیں مستدرک حاکم میں بیان کیا جنہیں ابو حاتم البستی نے احتجاج کے قابل نہیں سمجھا۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مرفوع حدیث نہیں بلکہ حضرت قتادہ کا قول ہے واللہ اعلم۔

ان تمام نعمتوں کے ساتھ اس زبردست نعمت کو دیکھئے کہ نہ یہ نعمتیں فنا ہوں۔ نہ نعمتوں والے فنا ہوں نہ نعمتیں ان سے چھنیں نہ یہ نعمتوں سے الگ کئے جائیں۔ نہ موت ہے نہ خاتمہ ہے نہ آخر ہے نہ ٹوٹنا اور کم ہونا ہے

 اللہ رب العالمین جواد و کریم برورحیم سے التجا ہے کہ وہ مالک ہمیں بھی اہل جنت کے زمرے میں شامل کرے اور انہیں کے ساتھ ہمارا حشر کرے۔ آمین۔

إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي أَنْ يَضْرِبَ مثلاً مَا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا ۚ

یقیناً اللہ تعالیٰ کسی مثال کے بیان کرنے سے نہیں شرماتا خواہ مچھر کی ہو، یا اس سے بھی ہلکی چیز۔

ابن عباس ابن مسعود اور چند صحابہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے:

جب اوپر کی تین آیتوں میں منافقوں کی دو مثالیں بیان ہوئیں یعنی آگ اور پانی کی تو وہ کہنے لگے کہ ایسی ایسی چھوٹی مثالیں اللہ تعالیٰ ہرگز بیان نہیں کرتا۔ اس پر یہ دونوں آیتیں نازل ہوئیں۔

حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

جب قرآن پاک میں مکڑی اور مکھی کی مثال بیان ہوئی تو مشرک کہنے لگے بھلا ایسی حقیر چیزوں کے بیان کی قرآن جیسی اللہ کی کتاب میں کیا ضرورت تو جواباً یہ آیتیں اتریں اور کہا گیا کہ حق کے بیان سے اللہ تعالیٰ نہیں شرماتا خواہ وہ کم ہو یازیادہ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت مکہ میں اتری حالانکہ ایسا نہیں واللہ اعلم۔

 اور بزرگوں سے بھی اس طرح کا شان نزول مروی ہے۔

ربیع فرماتے ہیں کہ یہ خود ایک مستقل مثال ہے جو دنیا کے بارے میں بیان کی گئی۔ مچھر جب تک بھوکا ہوتا ہے زندہ رہتا ہے جہاں موٹا تازہ ہوا مرا۔ اسی طرح یہ لوگ ہیں کہ جب دنیاوی نعمتیں دل کھول کر حاصل کر لیتے ہیں وہیں اللہ کی پکڑ آ جاتی ہےجیسے اور جگہ فرمایا :

فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّىٰ إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُم بَغْتَةً فَإِذَا هُم مُّبْلِسُونَ (۶:۴۴)

پھر جب وہ لوگ ان چیزوں کو بھولے رہے جس کی ان کو نصیحت کی جاتی تھی تو ہم نے ان پر ہرچیز کے دروازے کشادہ کر دیئے

یہاں تک کہ جب ان چیزوں پر جو کہ ان کو ملی تھیں وہ خوب اترا گئے ہم نے ان کو دفعتاً پکڑ لیا، پھر تو وہ بالکل مایوس ہوگئے

امام ابن جریر نے پہلے قول کو پسند فرمایا ہے اور مناسبت بھی اسی کی زیادہ اچھی معلوم ہوتی ہے واللہ اعلم۔

تو مطلب یہ ہوا کہ مثال چھوٹی سے چھوٹی ہو یا بڑی سے بڑی بیان کرنے سے اللہ تعالیٰ نہ رکتا ہے نہ جھجکتا ہے۔

لفظ مَا یہاں پر کمی کے معنی بتانے کے لئے ہے اور بَعُوضَةً کا زیربدلیت کی بنا پر عربی قاعدے کے مطابق ہے جو ادنیٰ سے ادنیٰ چیز پر صادق آ سکتا ہے

یا مَا نکرہ موصوفہ ہے اور بَعُوضَةً صفت ہے

 ابن جریر مَا کا موصولہ ہونا اور بَعُوضَةً کا اسی اعراب سے معرب ہونا پسند فرماتے ہیں

اور کلام عرب میں یہ بکثرت رائج ہے کہ وہ مَا اور من کے صلہ کو انہی دونوں کا اعراف دیا کرتے ہیں اس لئے کہ کبھی یہ نکرہ ہوتے ہیں اور کبھی معرفہ جیسے حسان بن ثابت کے شعروں میں ہے۔

یکفی بنا فضلا علی من غیرنا حب النبی محمدا یانا

ہمیں غیروں پر صرف یہی فضیلت کافی ہے کہ ہمارے دل جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پر ہیں

اوریہ بھی ہو سکتا ہے کہ بَعُوضَةً منصوب ہو حذف جار کی بنا پر اور اس سے پہلے اور بین کا لفظ مقدر مانا جائے۔

 کسائی اور فرا ءاسی کو پسند کرتے ہیں

ضحاک اور ابراہیم بن عبلہ بَعُوضَةً پڑھتے ہیں۔

ابن جنبی کہتے ہیں یہ مَا کا صلہ ہو گا اور عائد حذف مانی جائے گی جیسے آیت  تَمَامًا عَلَى الَّذِي أَحْسَنَ (۶:۱۵۴)میں فَمَا فَوْقَهَا کے دو معنی بیان کئے ہیں ایک تو یہ کہ اس سے بھی ہلکی اور ردی چیز۔ جیسے کسی شخص کی بخیلی کا ایک شخص ذکر کرے تو دوسرا کہتا ہے وہ اس سے بھی بڑھ کر ہے تو مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ اس سے بھی زیادہ گرا ہوا ہے۔

 کسائی اور ابوعبیدہ یہی کہتے ہیں۔

ایک حدیث میں آتا ہے اگر دنیا کی قدر اللہ کے نزدیک ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو کسی کافر کو ایک گھونٹ پانی بھی نہ پلاتا۔

 دوسرے یہ معنی ہیں کہ اس سے زیادہ بڑی اس لئے کہ بھلا مچھر سے ہلکی اور چھوٹی چیز اور کیا ہو گی؟

قتادہ بن وعامہ کا یہی قول ہے۔ ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں۔

صحیح مسلم میں حدیث ہے :

مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُشَاكُ شَوكَةً فَمَا فَوْقَهَا إِلَّا كُتِبَتْ لَهُ بِهَا دَرَجَةٌ، وَمُحِيَتْ عَنْهُ بِهَا خَطِيئَة

جس کسی مسلمان کو کانٹا چبھے یا اس سے زیادہ تو اس پر بھی اس کے درجے بڑھتے ہیں اور گناہ مٹتے ہیں

 اس حدیث میں بھی یہی لفظ فَوْقَهَا ہے

 تو مطلب یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ ان چھوٹی بڑی چیزوں کے پیدا کرنے سے شرماتا نہیں اور نہ رکتا ہے۔ اسی طرح انہیں مثال کے طور پر بیان کرنے سے بھی اسے عار نہیں۔

ایک جگہ قرآن میں کہا گیا ہے:

يأَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُواْ لَهُ ۔۔۔ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ (۲۲:۷۳)

لوگوایک مثال بیان کی جا رہی ہے، ذرا کان لگا کر سن لو! اللہ کے سوا جن کو تم پکارتے رہے ہو وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے گو سارے کے سارے ہی جمع ہوجائیں،

بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز لے بھاگے تو یہ تو اسے بھی اس سے چھین نہیں سکتے، بڑا بزدل ہے طلب کرنے والا اور بڑا بزدل ہے وہ جس سے طلب کیا جا رہا ہے۔‏

دوسری جگہ فرمایا :

مَثَلُ الَّذِينَ اتَّخَذُواْ مِن دُونِ اللَّهِ ۔۔۔ لَوْ كَانُواْ يَعْلَمُونَ (۲۹:۴۱)

جن لوگوں نے اللہ کے سوا اور کارساز مقرر کر رکھے ہیں ان کی مثال مکڑی کی سی ہے کہ وہ بھی ایک گھر بنا لیتی ہے، حالانکہ تمام گھروں سے زیادہ کمزور گھر مکڑی کا گھر ہی ہے کاش! وہ جان لیتے

 اور جگہ فرمایا :

أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً كَلِمَةً طَيِّبَةً ۔۔۔ وَيَفْعَلُ اللَّهُ مَا يَشَآءُ (۱۴:۲۴،۲۷)

کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے پاکیزہ بات کی مثال کس طرح بیان فرمائی، مثل ایک پاکیزہ درخت کے جس کی جڑ مضبوط ہے اور جس کی ٹہنیاں آسمان میں ہیں۔‏ جو اپنے پروردگار کے حکم سے ہر وقت اپنے پھل لاتا ہے۔

اور اللہ تعالیٰ لوگوں کے سامنے مثالیں بیان فرماتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔‏اور ناپاک بات کی مثال ایسے درخت جیسی ہے جو زمین کے کچھ ہی اوپر سے اکھاڑ لیا گیا۔ اسے کچھ ثبات تو ہے نہیں ۔

ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ پکی بات کے ساتھ مضبوط رکھتا ہے، دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی ہاں نا انصاف لوگوں کو اللہ بہکا دیتا ہے اور اللہ جو چاہے کر گزرے۔‏

دوسری جگہ فرمایا :

ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً عَبْدًا مَّمْلُوكًا لاَّ يَقْدِرُ عَلَى شَىْءٍ (۱۶:۷۵)

اللہ تعالیٰ ایک مثال بیان کرتا ہے کہ ایک غلام ہے دوسرے کی ملکیت کا، جو کسی بات کا اختیار نہیں رکھتا

 اور جگہ فرمایا:

وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً رَّجُلَيْنِ أَحَدُهُمَآ أَبْكَمُ ۔۔۔ وَمَن يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ (۱۶:۷۶)

اللہ تعالیٰ ایک اور مثال بیان فرماتا ہے دو شخصوں کی، جن میں سے ایک تو گونگا ہے اور کسی چیز پر اختیار نہیں رکھتا بلکہ وہ اپنے مالک پر بوجھ ہے کہیں بھی اسے بھیج دو کوئی بھلائی نہیں لاتا،

کیا یہ اور وہ جو عدل کا حکم دیتا ہے اور ہے ، برابر ہو سکتے ہیں؟‏

دوسری جگہ ہے:

ضَرَبَ لَكُمْ مَّثَلاً مِّنْ أَنفُسِكُمْ هَلْ لَّكُمْ مِّن مَّا مَلَكَتْ أَيْمَـنُكُمْ مِّن شُرَكَآءَ فِى مَا رَزَقْنَـكُمْ (۳۰:۲۸)

اللہ تعالیٰ تمہارے لئے خود تمہاری مثال بیان فرماتا ہے کیا تم اپنی چیزوں میں اپنے غلاموں کو بھی اپنا شریک اور برابر کا حصہ دار سمجھتے ہو؟

ہم عقل رکھنے والوں کے لئے اسی طرح کھول کھول کر آیتیں بیان کرتے ہیں۔‏

اور ارشاد ہے:

كَذَ‌ٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ (۳۰:۲۸)

کہ تم اور وہ اس میں برابر درجے کے ہو؟ اور تم ان کا ایسا خطرہ رکھتے ہو جیسا خود اپنوں کا

 ان کے علاوہ اور بھی بہت سی مثالیں قرآن پاک میں بیان ہوئی ہیں۔

بعض سلف صالحین فرماتے ہیں جب میں قرآن کی کسی مثال کو سنتا ہوں اور سمجھ نہیں سکتا تو مجھے رونا آتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ ان مثالوں کو صرف عالم ہی سمجھ سکتے ہیں۔

فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ ۖ

ایمان والے تو اپنے رب کی جانب سے صحیح سمجھتے ہیں

حضرت مجاہد فرماتے ہیں مثالیں خواہ چھوٹی ہوں خواہ بڑی ایماندار ان پر ایمان لاتے ہیں اور انہیں حق جانتے ہیں اور ان سے ہدایت پاتے ہیں۔

قتادہ کا قول ہے کہ وہ انہیں اللہ کا کلام سمجھتے ہیں۔

 أَنَّهُ کی ضمیر کا مرجع مثال ہے یعنی مؤمن اس مثال کو اللہ کی جانب سے اور حق سمجھتے ہیں اور کافر باتیں بناتے ہیں

جیسے سورۃ مدثر میں فرمایا:

وَمَا جَعَلْنَا أَصْحَابَ النَّارِ إِلَّا مَلَائِكَةً ۙ ۔۔۔ وَمَا هِيَ إِلَّا ذِكْرَىٰ لِلْبَشَرِ (۷۴:۳۱)

ہم نے دوزخ کے داروغے صرف فرشتے رکھے ہیں اور ہم نے ان کی تعداد صرف کافروں کی آزمائش کے لئے مقرر کی ہے تاکہ اہل کتاب یقین کرلیں

اور ایماندار ایمان میں اور بڑھ جائیں اور اہل کتاب اور مسلمان شک نہ کریں اور جن کے دلوں میں بیماری ہے اور وہ کافر کہیں کہ اس بیان سے اللہ تعالیٰ کی کیا مراد ہے؟

اس طرح اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا

یہاں بھی اسی ہدایت و ضلالت کو بیان کیا۔

وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَيَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَذَا مثلاً ۘ يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا ۚ

اور کفار کہتے ہیں کہ اس مثال سے اللہ کی کیا مراد ہے؟ اس کے ذریعے بیشتر کو گمراہ کرتا ہے اور اکثر لوگوں کو راہ راست پر لاتا ہے۔

صحابہ کرام سے مروی ہے کہ اس سے گمراہ منافق ہوتے ہیں اور مؤمن راہ پاتے ہیں۔ گمراہ اپنی گمراہی میں بڑھ جاتے ہیں کیونکہ اس مثال کے درست اور صحیح ہونے کا علم ہونے کے باوجود اسے جھٹلاتے ہیں اور مؤمن اقرار کر کے ہدایت ایمان کو بڑھا لیتے ہیں۔

وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ (۲۶)

اور گمراہ تو صرف فاسقوں کو ہی کرتا ہے۔‏

فَاسِقِينَ سے مراد منافق ہیں۔

بعض نے کہا ہے کافر مراد ہیں جو پہچانتے ہیں اور انکار کرتے ہیں۔

حضرت سعد کہتے ہیں مراد خوارج ہیں۔

اگر اس قول کی سند حضرت سعد بن ابی وقاص تک صحیح ہو تو مطلب یہ ہو گا کہ یہ تفسیر معنوی ہے اس سے مراد خوارج نہیں ہیں بلکہ یہ ہے کہ یہ فرقہ بھی فاسقوں میں داخل ہے۔ جنہوں نے نہرو ان میں حضرت علیؓ پر چڑھائی کی تھی تو یہ لوگ گو نزول آیت کے وقت موجود نہ تھے لیکن اپنے بدترین وصف کی وجہ سے معنوی طور پر یہ بھی فاسقوں میں داخل ہیں۔

 انہیں خارجی اس لئے کہا گیا ہے کہ امام کی اطاعت سے نکل گئے تھے اور شریعت اسلام کی پابندی سے آزاد ہو گئے تھے۔

لغت میں فَاسِق کہتے ہیں اطاعت اور فرمانبرداری سے نکل جانے کو۔ جب چھلکا ہٹا کر خوشہ نکلتا ہے تو عرب کہتے ہیں فسقت چوہے کو بھی فویسقہ کہتے ہیں کیونکہ وہ اپنے بل سے نکل کر فساد کرتا ہے۔

صحیحین کی حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 پانچ جانور فاسق ہیں حرم میں اور حرم سے باہر کے قتل کر دئیے جائیں۔

- کوا،

- چیل،

- بچھو،

- چوہا

- اور کالا کتا۔

پس لفظ فَاسِق کافر کو اور ہر نافرمان کو شامل ہے لیکن کافر کا فسق زیادہ سخت اور زیادہ برا ہے اور آیت میں مراد فَاسِق سے کافر ہے واللہ اعلم۔

الَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مِيثَاقِهِ

وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے مضبوط عہد کو توڑ دیتے ہیں

اس کی بڑی دلیل یہ ہے کہ بعد میں ان کا وصف یہ بیان فرمایا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا عہد توڑتے ہیں۔ اس کے فرمان کاٹتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اور یہ سب اوصاف کفار کے ہیں۔

 مؤمنوں کے اوصاف تو اس کے برخلاف ہوتے ہیں جیسے سورۃ رعد میں بیان ہے:

أَفَمَن يَعْلَمُ أَنَّمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَ أَعْمَىٰ ۚ ۔۔۔ أُولَـٰئِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ (۱۳:۱۹،۲۵)

کیا وہ شخص جو یہ علم رکھتا ہے کہ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے جو اتارا گیا ہے وہ حق ہے، اس شخص جیسا ہو سکتا ہے جو اندھا ہو

نصیحت تو وہی قبول کرتے ہیں ہیں جو عقلمند ہوں جو اللہ کے عہد و پیمان کو پورا کرتے ہیں اور قول و قرار کو توڑتے نہیں۔

اور اللہ نے جن چیزوں کو جوڑنے کا حکم دیا ہے وہ اسے جوڑتے ہیں اور وہ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں اور حساب کی سختی کا اندیشہ رکھتے ہیں ‏

اور وہ اپنے رب کی رضامندی کی طلب کے لئے صبر کرتے ہیں اور نمازوں کو برابر قائم رکھتے ہیں

اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے اسے چھپے کھلے خرچ کرتے ہیں اور برائی کو بھی بھلائی سے ٹالتے ہیں

 ان ہی کے لئے عاقبت کا گھر ہے۔ہمیشہ رہنے کے باغات جہاں یہ خود جائیں گے اور ان کے باپ دادوں اور بیوی اور اولادوں میں سے بھی جو نیکوکار ہونگے

ان کے پاس فرشتے ہر دروازے سے آئیں گے۔‏کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو، صبر کے بدلے، کیا ہی اچھا (بدلہ) ہے اس دار آخرت کا۔

‏اور جو اللہ کے عہد کو اس کی مضبوطی کے بعد توڑ دیتے ہیں اور جن چیزوں کے جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا ہے انہیں توڑتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، ان کے لئے لعنتیں ہیں اور ان کے لئے برا گھر ہے

بعض کہتے ہیں عہد توڑنے والے اہل کتاب کے کافر منافق اور ہیں اور عہد وہ ہے جو ان سے تورات میں لیا گیا تھا کہ وہ اس کی تمام باتوں پر عمل کریں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کریں جب بھی آپ تشریف لے آئیں آپ کی نبوت کا اقرار کریں اور جو کچھ آپ اللہ کی جانب سے لے کر آئیں اس کی تصدیق کریں اور اس عہد کو توڑ دینا یہ ہے کہ انہوں نے آپ کی نبوت کا علم ہونے کے باوجود الٹا اطاعت سے انکار کر دیا اور باوجود عہد کا علم ہونے کے اسے چھپایا دنیاوی مصلحتوں کی بنا پر اس کا الٹ کیا۔

 امام ابن جریر اس قول کو پسند کرتے ہیں اور مقاتل بن حیان کا بھی یہی قول ہے۔

بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد کوئی خاص جماعت نہیں بلکہ شک و کفر و نفاق والے سب کے سب مراد ہیں۔

عَهْد سے مراد توحید اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اقرار کرانا ہے جن کی دلیل میں کھلی ہوئی نشانیاں اور بڑے بڑے معجزے موجود ہیں اور اس عہد کو توڑ دینا توحید و سنت سے منہ موڑنا اور انکار کرنا ہے

یہ قول اچھا ہے زمحشری کا میلان بھی اسی طرح ہے وہ کہتے ہیں عہد سے مراد اللہ تعالیٰ کی توحید ماننے کا اقرار ہے جو فطرت انسان میں داخل ہونے کے علاوہ روز میثاق بھی منوایا گیا ہے۔ فرمایا گیا تھا أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ کیا میں تمہارا رب ہوں؟ تو سب نے جواب دیا تھا قَالُوا بَلَىٰ (۷:۱۷۲) بیشک تو ہمارا رب ہے۔پھر وہ کتابیں دی گئیں ان میں بھی اقرار کرایا گیا جیسے فرمایا وَأَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُمْ (۲:۴۰) میرے عہد کو نبھاؤ میں بھی اپنے وعدے پورے کروں گا۔

بعض کہتے ہیں وہ عہد مراد ہے جو روحوں سے لیا گیا تھا جب وہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیٹھ سے نکالی گئی تھیں

جیسے فرماتا ہے:

وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ ۛ شَهِدْنَا  (۷:۱۷۲)

اور جب آپ کے رب نے اولاد آدم کی پشت سے ان کی اولاد کو نکالا اور ان سے ان ہی کے متعلق اقرار لیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا کیوں نہیں! ہم سب گواہ بنتے ہیں۔

اور اس کا توڑنا اس سے انحراف ہے۔

یہ تمام اقوال تفسیر ابن جریر میں منقول ہیں۔

ابوالعالیہ فرماتے ہیں عہد اللہ کو توڑنا منافقوں کا کام ہے جن میں یہ چھ خصلتیں ہوتی ہیں۔

- بات کرنے میں جھوٹ بولنا،

- وعدہ خلافی کرنا،

- امانت میں خیانت کرنا،

- اللہ کے عہد کو مضبوطی کے بعد توڑ دینا،

- اللہ تعالیٰ نے جن رشتوں کے ملانے کا حکم دیا ہے، انہیں نہ ملانا،

- زمین میں فساد پھیلانا۔

یہ چھ خصلتیں انکی اس وقت ظاہر ہوتی ہیں جب کہ ان کا غلبہ ہو اور جب وہ مغلوب ہوتے ہیں تو تین اگلے کام کرتے ہیں۔

سدی فرماتے ہیں قرآن کے احکام کو پڑھنا جاننا سچ کہنا پھر نہ ماننا بھی عہد کو توڑنا تھا

وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ ۚ أُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ (۲۷)

اور اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کے جوڑنے کا حکم دیا ہے، انہیں کاٹتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں

اللہ تعالیٰ نے جن کاموں کے جوڑنے کا حکم دیا ہے ان سے مراد صلہ رحمی کرنا، قرابت کے حقوق ادا کرنا وغیرہ ہے

جیسے اور جگہ قرآن مجید میں ہے:

فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِن تَوَلَّيْتُمْ أَن تُفْسِدُواْ فِى الاٌّرْضِ وَتُقَطِّعُواْ أَرْحَامَكُمْ (۴۷:۲۲)

اور تم سے یہ بھی بعید نہیں کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد برپا کردو اور رشتے ناتے توڑ ڈالو۔‏

ابن جریر اسی کو ترجیح دیتے ہیں

 اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آیت عام ہے یعنی جسے ملانے اور ادا کرنے کا حکم دیا تھا انہوں نے اسے توڑا اور حکم عدولی کی۔

 خَاسِرُون سے مراد آخرت میں نقصان اٹھانے والے ہیں جیسے فرمان باری ہے:

أُوْلَـئِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ (۱۳:۲۵

ان لوگوں کے لئے لعنت ہے اور ان کے لئے برا گھر ہے۔

 حضرت ابن عباسؓ کا فرمان ہے کہ اہل اسلام کے سوا جہاں دوسروں کے لئے یہ لفظ آیا ہے وہاں مراد گنہگار ہیں۔

خَاسِرُون جمع ہے خَاسِر کی۔ چونکہ ان لوگوں نے نفسیاتی خواہشوں اور دنیوی لذتوں میں پڑ کر رحمت اللہ سے علیحدگی کر لی اس لئے انہیں نقصان یافتہ کہا گیا جیسے وہ شخص جسے اپنی تجارت میں گھاٹا آئے اسی طرح یہ کافرو منافق ہیں یعنی قیامت والے دن جب رحم و کرم کی بہت ہی حاجت ہو گی اس دن رحمت الہٰی سے محروم رہ جائیں گے۔

كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنْتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ۖ

تم اللہ کے ساتھ کیسے کفر کرتے ہو؟ حالانکہ تم مردہ تھے اس نے تمہیں زندہ کیا۔

اس بات کا ثبوت دیتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ موجود ہے وہ قدرتوں والا ہے۔ وہی پیدا کرنے والا اور اختیار والا ہے۔ اس آیت میں فرمایا تم اللہ تعالیٰ کے وجود سے انکار کیسے کر سکتے ہو؟ یا اس کے ساتھ دوسرے کو عبادت میں شریک کیسے کر سکتے ہو؟ جبکہ تمہیں عدم سے وجود میں لانے والا ایک وہی ہے۔

دوسری جگہ فرمایا:

أَمْ خُلِقُواْ مِنْ غَيْرِ شَىْءٍ أَمْ هُمُ الْخَـلِقُونَ ـ أَمْ خَلَقُواْ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضَ بَل لاَّ يُوقِنُونَ (۵۲:۳۵،۳۶)

کیا یہ بغیر کسی (پیدا کرنے والے) کے خود بخود پیدا ہوگئے ہیں؟ یا خود پیدا کرنے والے ہیں۔ کیا انہوں نے ہی آسمان اور زمین کو پیدا کیا ہے، بلکہ یہ یقین نہ کرنے والے لوگ ہیں ۔

اور جگہ ارشاد ہوتا ہے:

هَلْ أَتَى عَلَى الإِنسَـنِ حِينٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُن شَيْئاً مَّذْكُوراً  (۷۶:۱)

یقیناً انسان پر وہ زمانہ بھی آیا ہے جس وقت یہ قابل ذکر چیز ہی نہ تھا۔

اور بھی اس طرح کی بہت سی آیتیں ہیں۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کفار کہیں گے:

قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا (۴۰:۱۱)

وہ کہیں گے اے ہمارے پروردگار! تو نے ہمیں دوبار مارا اور دوہی بار جلایا  (زندہ کیا) اب ہم اپنے گناہوں کے اقراری ہیں

 اس سے مراد یہی ہے جو اس آیت وَكُنْتُمْ أَمْوَاتًا میں ہے مطلب یہ ہے کہ تم اپنے باپوں کی پیٹھ میں مردہ تھے یعنی کچھ بھی نہ تھے۔ اس نے تمہیں زندہ کیا یعنی پیدا کیا

ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (۲۸)

پھر تمہیں مار ڈالے گا پھر زندہ کرے گا پھر اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‏

پھر تمہیں مارے گا یعنی موت ایک روز ضرور آئے گی پھر تمہیں قبروں سے اٹھائے گا۔

 پس ایک حالت مردہ پن کی دنیا میں آنے سے پہلے پھر دوسری دنیا میں مرنے اور قبروں کی طرف جانے کی پھر قیامت کے روز اٹھ کھڑے ہونے کی۔ دو زندگیاں اور دو موتیں۔

 ابو صالح فرماتے ہیں کہ قبر میں انسان کو زندہ کر دیا جاتا ہے۔

عبدالرحمٰن بن زید کا بیان ہے:

حضرت آدم علیہ السلام کی پیٹھ میں انہیں پیدا کیا پھر ان سے عہد و پیمان لے کر بےجان کر دیا پھر ماں کے پیٹ میں انہیں پیدا کیا پھر دنیوی موت ان پر آئی پھر قیامت والے دن انہیں زندہ کرے گا

لیکن یہ قول غریب ہے۔ پہلا قول ہی درست ہے۔

 ابن مسعودؓ، ابن عباسؓ اور تابعین کی ایک جماعت کا یہی قول ہے۔

قرآن میں اور جگہ ہے:

اللَّهُ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (۳۰:۱۱)

اللہ ہی تمہیں پیدا کرتا ہے پھر مارتا ہے پھر تمہیں قیامت کے دن جمع کرے گا۔

ان پتھروں اور تصویروں کو جنہیں مشرکین پوجتے تھے قرآن نے مردہ کہا۔

 فرمایا اموات غیر احیاء وہ سب مردہ ہیں زندہ نہیں۔

 زمین کے بارے میں فرمایا:

وَآيَةٌ لَّهُمُ الْأَرْضُ الْمَيْتَةُ أَحْيَيْنَاهَا وَأَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ يَأْكُلُونَ (۳۶:۳۳)

ان کے لئے مردہ زمین بھی ہماری صداقت کی نشانی ہے جسے ہم زندہ کرتے ہیں اور اس سے دانے نکالتے ہیں جسے یہ کھاتے ہیں۔

هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ ۚ

وہ اللہ جس نے تمہارے لئے زمین کی تمام چیزوں کو پیدا کیا پھر آسمان کی طرف قصد کیا اور انکو ٹھیک ٹھاک سات آسمان بنایا

اوپر کی آیات میں ان دلائل قدرت کا بیان تھا جو خود انسان کے اندر ہیں اب اس مبارک آیت میں ان دلائل کا بیان ہو رہا ہے جو روز مرہ آنکھوں کے سامنے ہیں۔

اسْتَوَى یہاں قصد کرنے اور متوجہ ہونے کے معنی میں ہے اس لئے کہ اس کا صلہ إِلَى ہے

 سَوَّاهُنَّ کے معنی درست کرنے اور ساتوں آسمان بنانے کے ہیں

 السَّمَاءِ اسم جنس ہے۔

وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (۲۹)

اور وہ ہرچیز کو جانتا ہے۔‏

پھر بیان فرمایا کہ اس کا علم محیط کل ہے جیسے ارشاد فرمایا:

أَلاَ يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ (۶۷:۱۴)

وہ بےعلم ہو کیسے سکتا ہے جو خالق ہو؟

 سورۃ حم سجدہ کی آیت قُلْ أَءِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ گویا اس آیت کی تفصیل ہے جس میں فرمایا ہے:

قُلْ أَءِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِى خَلَقَ الاٌّرْضَ فِى يَوْمَيْنِ ۔۔۔ ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ (۴۱:۹،۱۲)

آپ کہہ دیجئے! کہ تم اس اللہ کا انکار کرتے ہو اور تم اس کے شریک مقرر کرتے ہو جس نے دو دن میں زمین پیدا کر دی سارے جہانوں کا پروردگار وہی ہے۔

‏ اور اس نے زمین میں اسکے اوپر سے پہاڑ گاڑ دیئے اور اس میں برکت رکھ دی اور اس میں (رہنے والوں) کی غذاؤں کی تجویز بھی اسی میں کر دی (صرف) چار دن میں ضرورت مندوں کے لئے یکساں طور پر ۔

‏ پھر آسمانوں کی طرف متوجہ ہوا اور وہ دھواں (سا) تھا پس اسے اور زمین سے فرمایا کہ تم دونوں خوشی سے آؤ یا ناخوشی سے دونوں نے عرض کیا بخوشی حاضر ہیں۔‏

پس دو دن میں سات آسمان بنا دیئے اور ہر آسمان میں اسکے مناسب احکام کی وحی بھیج دی اور ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں سے زینت دی اور نگہبانی کی یہ تدبیر اللہ غا لب و دانا کی ہے

اس سے معلوم ہوا کہ پہلے زمین پیدا کی پھر ساتوں آسمان۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر عمارت کا یہی قاعدہ ہے کہ پہلے نیچے کا حصہ بنایا جائے پھر اوپر کا مفسرین نے بھی اس کی تصریح کی ہے جس کا بیان بھی ابھی آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔

 لیکن یہ سمجھ لینا چاہیے کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے:

أَءَنتُمْ أَشَدُّ خَلْقاً أَمِ السَّمَآءُ بَنَـهَا ۔۔۔ مَتَـعاً لَّكُمْ وَلاًّنْعَـمِكُمْ  (۷۹:۲۷،۳۳)

کیا تمہارا پیدا کرنا زیادہ دشوار ہے یا آسمان کا؟اللہ نے اسے بنایا۔‏اس کی بلندی اونچی کی پھر اسے ٹھیک ٹھاک کر دیا۔

اسکی رات کو تاریک بنایا اسکے دن کو روشن بنایا۔‏اس کے بعد زمین کو (ہموار) بچھا دیا۔‏اس میں سے پانی اور چارہ نکالا۔‏اور پہاڑوں کو (مضبوط) گاڑھ دیا۔‏

یہ سب تمہارے اور تمہارے جانوروں کے فائدے کے لئے ہیں۔‏

اس آیت میں یہ فرمایا ہے کہ زمین کی پیدائش آسمان کے بعد ہے تو بعض بزرگوں نے تو فرمایا ہے کہ مندرجہ بالا آیت میں ثُمَّ صرف عطف خبر کے لئے ہے عطف فعل کے لئے نہیں یعنی یہ مطلب نہیں کہ زمین کے بعد آسمان کی پیدائش شروع کی بلکہ صرف خبر دینا مقصود ہے کہ آسمانوں کو بھی پیدا کیا اور زمینوں کو بھی۔ عرب شاعروں کے اشعار میں یہ موجود ہے کہ کہیں ثُمَّ صرف خبر کا خبر پر عطف ڈالنے کے لئے ہوتا ہے تقدیم تاخیر مراد نہیں ہوتی۔

 اور بعض بزرگوں نے فرمایا ہے کہ آیت أَءَنتُمْ میں آسمانوں کی پیدائش کے بعد زمین کا پھیلانا اور بچھانا وغیرہ بیان ہوا ہے نہ کہ پیدا کرنا۔

 تو ٹھیک یہ ہے کہ پہلے زمین کو پیدا کیا پھر آسمان کو پھر زمین کو ٹھیک ٹھاک کیا اس طرح دونوں آیتیں ایک دوسرے کے مخالف نہ رہیں گی۔ اس عیب سے اللہ کا کلام بالکل محفوظ ہے۔

 ابن عباسؓ نے یہی معنی بیان فرمائے ہیں (یعنی پہلے زمین کو پیدا کیا پھر آسمان کو اور زمین کی درستی وغیرہ یہ بعد کی چیز ہے)

حضرت ابن مسعودؓ حضرت ابن عباسؓ اور دیگر صحابہ ؓسے مروی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا اور کسی چیز کو پیدا نہیں کیا تھا جب اور مخلوق کو پیدا کرنا چاہا تو پانی سے دھواں بلند کیا وہ اونچا چڑھا اور اس سے آسمان بنائے پھر پانی خشک ہو گیا اور اس کی زمین بنائی پھر اس کو الگ الگ کر کے سات زمینیں بنائیں اتوار اور پیر کے دو دن میں یہ ساتوں زمینیں بن گئیں۔ زمین مچھلی پر ہے اور مچھلی وہ ہے جس کا ذکر قرآن مجید کی اس آیت میں ہے ن وَالْقَلَمِ (۶۸:۱)  

مچھلی پانی میں ہے اور پانی صفاۃ پر ہے اور صفاۃ فرشتے پر اور فرشتے پتھر پرزمین کانپنے لگی تو اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کو گاڑ دیا اور وہ ٹھہر گئی یہی معنی میں اللہ تعالیٰ کے فرمان کے:

وَجَعَلْنَا فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَن تَمِيدَ بِهِمْ وَجَعَلْنَا فِيهَا فِجَاجًا سُبُلًا لَّعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ (۲۱:۳۱)

اور ہم نے زمین میں پہاڑ بنا دیئے تاکہ مخلوق کو ہلا نہ سکے اور ہم نے اس میں کشادہ راہیں بنا دیں تاکہ وہ راستہ حاصل کریں

پہاڑ زمین کی پیداوار درخت وغیرہ زمین کی کل چیزیں منگل اور بدھ کے دو دنوں میں پیدا کیں اسی کا بیان قُلْ أَءِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ (۴۱:۹) والی آیت میں ہے

پھر آسمان کی طرف توجہ فرمائی جو دھواں تھا آسمان بنایا پھر اسی میں سات آسمان بنائے جمعرات اور جمعہ کے دو دنوں میں جمعہ کے دن کو اس لئے جمعہ کہا جاتا ہے کہ اس میں زمین و آسمان کی پیدائش جمع ہو گئی ہر آسمان میں اس نے فرشتوں کو پیدا کیا اور ان ان چیزوں کو جن کا علم اس کے سوا کسی کو نہیں کہ دنیا آسمان کو ستاروں کے ساتھ زینت دی اور انہیں شیطان سے حفاظت کا سبب بنایا ان تمام چیزوں کو پیدا کر کے پروردگار نے عرش عظیم پر قرار پکڑا جیسے فرماتا ہے:

خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ (۷:۵۴)

جس نے سب آسمانوں اور زمین کو چھہ روز میں پیدا کیا ہے پھر عرش پر قائم ہوا

 اور جگہ فرمایا :

أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا ۖ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ (۲۱:۳۰)

آسمان و زمین باہم ملے جلے تھے پھر ہم نے انہیں جدا کیا اور ہر زندہ چیز کو ہم نے پانی سے پیدا کیا

یعنی یہ دونوں دھواں سے تھے ہم نے انہیں پھاڑا اور پانی سے ہر چیز کو زندگی دی (تفسیر سدی)

یہ موقوف قول جس میں کئی قسم کا احتمال ہے بظاہراً ایسی اہم بات میں حجت تامہ نہیں ہو سکتا۔ واللہ اعلم

ابن جریر میں ہے حضرت عبداللہ بن سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :

اتوار سے مخلوق کی پیدائش شروع ہوئی۔ دو دن میں زمینیں پیدا ہوئیں دو دن میں ان میں موجود تمام چیزیں پیدا کیں اور دو دن میں آسمانوں کو پیدا کیا جمعہ کے دن آخری وقت ان کی پیدائش ختم ہوئی اور اسی وقت حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور اسی وقت میں قیامت قائم ہو گی۔

مجاہد فرماتے ہیں :

 اللہ تعالیٰ نے زمین کو آسمان سے پہلے پیدا کیا اس سے جو دھواں اوپر چڑھا اس کے آسمان بنائے جو ایک پر ایک اس طرح سات ہیں اور زمینیں ایک نیچے ایک اوپر اس طرح سات ہیں۔

 اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ زمین کی پیدائش آسمانوں سے پہلے ہے جیسے سورۃ سجدہ کی آیت میں ہے۔ علماء کی اس پر متفق ہیں۔ صرف قتادہ فرماتے ہیں کہ آسمان زمین سے پہلے پیدا ہوئے ہیں۔ قرطبی اس میں توقف کرتے ہیں سورۃ النَّازِعَاتِ کی ان آیات کی وجہ سے:

وَالاٌّرْضَ بَعْدَ ذَلِكَ دَحَـهَا ـ أَخْرَجَ مِنْهَا مَآءَهَا وَمَرْعَـهَا ـ وَالْجِبَالَ أَرْسَـهَا (۷۹:۳۰،۳۲)

اس کے بعد زمین کو (ہموار) بچھا دیا اس میں سے پانی اور چارہ نکالا‏ اور پہاڑوں کو (مضبوط) گاڑھ دیا۔‏

یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہاں آسمان کی پیدائش کا ذکر زمین سے پہلے ہے۔

صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت ابن عباسؓ سے جب یہ سوال ہوا تو آپ نے جواب دیا کہ زمین پیدا تو آسمانوں سے پہلے کی گئی ہے لیکن بعد میں پھیلائی گئی ہے۔

یہی جواب اگلے پچھلے علماء کا ہے۔ سورۃ نازعات کی تفسیر میں بھی اس کا بیان آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ۔

حاصل امر یہ ہے کہ زمین کا پھیلانا اور بچھانا بعد میں ہے اور دَحَـهَا کا لفظ قرآن میں ہے اور اس کے بعد جو پانی چارہ پہاڑ وغیرہ کا ذکر ہے یہ گویا اس لفظ کی تشریح ہے جن جن چیزوں کی نشوونما کی قوت اس زمین میں رکھی تھی ان سب کو ظاہر کر دیا اور زمین کی پیداوار طرح طرح کی مختلف شکلوں اور مختلف قسموں میں نکل آئی۔ اسی طرح آسمان میں بھی ٹھہرے رہنے والے چلنے والے ستارے وغیرہ بنائے۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔

صحیح مسلم اور نسائی میں حدیث میں ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا:

مٹی کو اللہ تعالیٰ نے ہفتہ والے دن پیدا کیا، پہاڑوں کو اتوار کے دن، درختوں کو پیر کے دن، برائیوں کو منگل کے دن ،نور کو بدھ کے دن، جانوروں کو جمعرات کے دن، آدم کو جمعہ کے دن اور عصر کے بعد جمعہ کی آخری ساعت میں عصر کے بعد سے رات تک۔

یہ حدیث غرائب میں سے ہے۔امام ابن مدینی امام بخاری وغیرہ نے اس پر بحث کی ہے اور فرمایا ہے کہ کعب کا اپنا قول اور حضرت ابوہریرہ نے کعب کا یہ قول سنا ہے اور بعض راویوں نے اسے غلطی سے مرفوع حدیث قرار دے لیا ہے۔ امام بیہقی بھی یہی کہتے ہیں۔

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً ۖ

اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں

اللہ تعالیٰ کے اس احسان کو دیکھو کہ اس نے آدم کو پیدا کرنے سے پہلے فرشتوں میں ان کا ذکر کیا جس کا بیان اس آیت میں ہے۔فرماتا ہے کہ اے نبی تم یاد کرو اور اپنی اُمت کو یہ خبر پہنچاؤ۔

 ابو عبیدہ تو کہتے ہیں کہ لفظ إِذْ یہاں زائد ہے لیکن ابن جریر وغیرہ مفسرین اس کی تردید کرتے ہیں

 خَلِيفَة سے مراد یہ ہے کہ ان کے یکے بعد دیگرے بعض کے بعض جانشین ہوں گے اور ایک زمانہ کے بعد دوسری زمانہ میں یونہی صدیوں تک یہ سلسلہ رہے گا۔ جیسے اور جگہ ارشاد ہے:

وَهُوَ الَّذِى جَعَلَكُمْ خَلَـئِفَ الاٌّرْضِ (۶:۱۶۵)

وہ ایسا ہے جس نے تم کو زمین میں خلیفہ بنایا

دوسری جگہ فرمایا:

وَيَجْعَلُكُمْ حُلَفَآءَ الاٌّرْضِ (۲۷:۶۲)

تمہیں اس نے زمین کا خلیفہ بنا دیا

اور ارشاد ہے

فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ (۷:۱۶۹)

ان کے بعد ان کے خلیفہ یعنی جانشین برے لوگ ہوئے۔

بعض مفسرین کہتے ہیں کہ خَلِيفَة سے مراد صرف حضرت آدمؑ ہیں لیکن اس بارے میں تفسیر رازی کے مفسر نے اختلاف کو ذکر کیا ہے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مطلب نہیں۔ اس کی ایک دلیل تو فرشتوں کا یہ قول ہے کہ وہ زمین میں فساد کریں گے اور خون بہائیں گے تو ظاہر ہے کہ انہوں نے اولاد آدم کی نسبت یہ فرمایا تھا نہ کہ خاص حضرت آدم کی نسبت۔

یہ اور بات ہے کہ اس کا علم فرشتوں کو کیونکر ہوا؟ یا تو کسی خاص ذریعہ سے انہیں یہ معلوم ہوا یا بشری طبیعت کے اقتضا کو دیکھ کر انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہو گا کیونکہ یہ فرما دیا گیا تھا کہ اس کی پیدائش مٹی سے ہو گی یا لفظ یہ اور بات ہے کہ اس کا علم فرشتوں کو کیونکر ہوا؟ یا تو کسی خاص ذریعہ سے انہیں یہ معلوم ہوا یا بشری طبیعت کے اقتضا کو دیکھ کر انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہو گا کیونکہ یہ فرما دیا گیا تھا کہ اس کی پیدائش مٹی سے ہو گی یا لفظ خَلِيفَة کے مفہوم سے انہوں نے سمجھ لیا ہو گا کہ وہ فیصلے کرنے والا مظالم کی روک تھام کرنے والا اور حرام کاموں اور گناہوں کی باتوں سے روکنے والا ہو گا یا انہوں نے پہلی مخلوق کو دیکھا تھا اسی بنا پر اسے بھی قیاس کیا ہو گا۔ کے مفہوم سے انہوں نے سمجھ لیا ہو گا کہ وہ فیصلے کرنے والا مظالم کی روک تھام کرنے والا اور حرام کاموں اور گناہوں کی باتوں سے روکنے والا ہو گا یا انہوں نے پہلی مخلوق کو دیکھا تھا اسی بنا پر اسے بھی قیاس کیا ہو گا۔

قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ ۖ

تو انہوں نے کہا کہ ایسے شخص کو کیوں پیدا کرتا ہے جو زمین میں فساد کرے اور خون بہائے ہم تیری تسبیح اور پاکیزگی بیان کرنے والے ہیں

یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ فرشتوں کی یہ عرض بطور اعتراض نہ تھی نہ بنی آدم سے حسد کے طور پر تھی۔ جن لوگوں کا یہ خیال ہے وہ قطعی غلطی کر رہے ہیں۔

فرشتوں کی شان میں قرآن فرماتا ہے:

لَا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُم بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ (۲۱:۲۷)

کسی بات میں اللہ پر پیش دستی نہیں کرتے بلکہ اس کے فرمان پر کار بند ہیں

یعنی جس بات کے دریافت کرنے کی انہیں اجازت نہ ہو اس میں وہ لب نہیں ہلاتے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ فرشتوں کی طبیعت حسد سے پاک ہے بلکہ صحیح مطلب یہ ہے کہ یہ سوال صرف اس حکمت معلوم کرنے کے لئے اور اس راز کے ظاہر کرانے کے لئے تھا جو ان کی سمجھ سے بالاتر تھا۔ یہ تو جانتے تھے کہ اس مخلوق میں فسادی لوگ بھی ہوں گے تو اب با ادب سوال کیا کہ پروردگار ایسی مخلوق کے پیدا کرنے میں کونسی حکمت ہے؟

اگر عبادت مقصود ہے تو عبادت تو ہم کرتے ہی ہیں، تسبیح و تقدیس و تحمید ہر وقت ہماری زبانوں پر ہے اور پھر فساد وغیرہ سے پاک ہیں تو پھر اور مخلوق جن میں فسادی اور خونی بھی ہوں گے کس مصلحت پر پیدا کی جا رہی ہے؟

قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ (۳۰)

اللہ تعالیٰ نے فرمایا، جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔

تو اللہ تعالیٰ نے ان کے سوال کا جواب دیا کہ باوجود اس کے فساد کے اسے جن مصلحتوں اور حکمتوں کی بنا پر میں پیدا کر رہا ہوں انہیں میں ہی جانتا ہوں تمہارا علم ان تک حکمتوں نہیں پہنچ سکتا میں جانتا ہوں کہ ان میں انبیاء اور رسول ہوں گے ان میں صدیق اور شہید ہوں گے۔ ان میں عابد، زاہد، اولیاء ، ابرار، نیکوکار، مقرب بارگاہ، علماء، صلحاء، متقی، پرہیزگار، خوف الہٰی، حب باری تعالیٰ رکھنے والے بھی ہوں گے۔ میرے احکام کی بسر و چشم تعمیل کرنے والے، میرے نبیوں کے ارشاد پر لبیک پکارنے والے بھی ہوں گے۔

 صحیحین کی حدیث میں ہے:

دن کے فرشتے صبح صادق کے وقت آتے ہیں اور عصر کو چلے جاتے ہیں۔ تب رات کے فرشتے آتے ہیں اور صبح کو جاتے ہیں۔ آنے والے جب آتے ہیں تب بھی اور جب جاتے ہیں تب بھی صبح کی اور عصر کی نماز میں لوگوں کو پاتے ہیں اور دربار الہٰی میں پروردگار کے سوال کے جواب میں دونوں جماعتیں یہی کہتی ہیں کہ گئے تو نماز میں پایا اور آئے تو نماز میں چھوڑ کر آئے

یہی وہ مصلحت اللہ ہے جسے فرشتوں کو بتایا گیا کہ میں جانتا ہوں اور تم نہیں جانتے۔ ان فرشتوں کو اسی چیز کو دیکھنے کے لئے بھیجا جاتا ہے اور دن کے اعمال رات سے پہلے اور رات کے دن سے پہلے اللہ العالمین کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں۔

غرض تفصیلی حکمت جو پیدائش انسان میں تھی اسکی نسبت فرمایا کہ یہ میرے مخصوص علم میں ہے۔ جو تمہیں معلوم نہیں

بعض کہتے ہیں یہ جواب فرشتوں کے اس قول کا ہے کہ ہم تیری تسبیح وغیرہ کرتے رہتے ہیں تو انہیں فرمایا گیا کہ میں ہی جانتا ہوں تم جیسا سب کو یکساں سمجھتے ہو ایسا نہیں بلکہ تم میں ایک ابلیس بھی ہے۔

ایک تیسرا قول یہ ہے کہ فرشتوں کا یہ سب کہنا دراصل یہ مطلب رکھتا تھا کہ ہمیں زمین میں بسایا جائے تو جواباً کہا گیا کہ تمہاری آسمانوں میں رہنے کی مصلحت میں ہی جانتا ہوں اور مجھے علم ہے کہ تمہارے لائق جگہ یہی ہے واللہ اعلم۔

حسن قتادہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو خبر دی۔

سدی کہتے ہیں مشورہ لیا۔

لیکن اس کے معنی بھی خبر دینے کے ہو سکتے ہیں۔ اگر نہ ہوں تو پھر یہ بات بےوزن ہو جاتی ہے۔

 ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

 جب مکہ سے زمین پھیلائی اور بچھائی گئی تو بیت اللہ شریف کا طواف سب سے پہلے فرشتوں نے کیا اور زمین میں خلیفہ بنانے سے مراد مکہ میں خلیفہ بنانا ہے۔

یہ حدیث مرسل ہے پھر اس میں ضعف ہے اور مدرج ہے یعنی زمین سے مراد مکہ لینا راوی کا اپنا خیال ہے واللہ اعلم۔

بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ زمین سے ساری زمین مراد ہے۔ فرشتوں نے جب یہ سنا تو پوچھا تھا کہ وہ خلیفہ کیا ہو گا؟

اور جواب میں کہا گیا تھا کہ اس کی اولاد میں ایسے لوگ بھی ہوں گے جو زمین میں فساد کریں، حسد و بغض کریں، قتل و خون کریں ان میں وہ عدل و انصاف کرے گا اور میرے احکام جاری کرے گا تو اس سے مراد حضرت آدمؑ ہیں۔ جو ان کے قائم مقام اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور مخلوق میں عدل و انصاف کرنے کی بنا پر فساد پھیلانے اور خون بہانے والے خلیفہ نہیں۔

لیکن یہ یاد رہے کہ یہاں مراد خلافت سے ایک زمانہ جو دوسرے زمانہ کے بعد آتا ہے۔

خَلِيفَة فعیلہ کے وزن پر ہے۔ جب ایک کے بعد دوسرا اس کے قائم مقام ہو تو عرب کہتے ہیں۔ خلف فلان فلانا فلاں شخص کا خلیفہ ہوا جیسے قرآن میں ہے کہ ہم ان کے بعد تمہیں زمین کا خلیفہ بنا کر دیکھتے ہیں کہ تم کیسے عمل کرتے ہو اور اسی لئے سلطان اعظم کو خلیفہ کہتے ہیں اس لئے کہ وہ اگلے بادشاہ کا جانشین ہوتا ہے

محمد بن اسحق کہتے ہیں مراد یہ ہے کہ زمین کا ساکن اس کی آبادی کرنے والا ہے۔

ابن عباسؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

پہلے زمین میں جنات بستے تھے۔ انہوں نے اس میں فساد کیا اور خون بہایا اور قتل و غارت کی ابلیس کو بھیجا گیا اس نے اور اس کے ساتھیوں نے انہیں مار مار کر جزیروں اور پہاڑوں میں بھگا دیا حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کر کے زمین میں بسایا تو گویا یہ ان پہلے والوں کے خلیفہ اور جانشین ہوئے۔

پس فرشتوں کے قول سے مراد اولاد آدم ہیں جس وقت ان سے کہا گیا کہ میں زمین کو اور اس میں بسنے والی مخلوق کو پیدا کرنا چاہتا ہوں۔ اس وقت زمین تھی لیکن اس میں آبادی نہ تھی۔

بعض صحابہ سے یہ بھی مروی ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں معلوم کروا دیا تھا کہ اولاد آدم ایسے ایسے کام کرے گی تو انہوں نے یہ پوچھا

اور یہ بھی مروی ہے کہ جنات کے فساد پر انہوں نے بنی آدم کے فساد کو قیاس کر کے یہ سوال کیا۔

حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ آدم علیہ السلام سے دو ہزار سال پہلے سے جنات زمین میں آباد تھے۔

ابوالعالیہ فرماتے ہیں فرشتے بدھ کے دن پیدا ہوئے اور جنات کو جمعرات کے دن پیدا کیا اور جمعہ کے دن آدم علیہ السلام پیدا ہوئے

حضرت حسن اور حضرت قتادہ کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں خبر دی تھی کہ ابن آدم ایسا ایسا کریں گے اس بنا پر انہوں نے سوال کیا

ابو جعفر محمد بن علیؒ فرماتے ہیں کہ سجل نامی ایک فرشتہ ہے جس کے ساتھی ہاروت ماروت تھے۔ اسے ہر دن تین مرتبہ لوح محفوظ پر نظر ڈالنے کی اجازت تھی۔ ایک مرتبہ اس نے آدم علیہ السلام کی پپدائش اور دیگر امور کا جب مطالعہ کیا تو چپکے سے اپنے ان دونوں ساتھیوں کو بھی اطلاع کر دی۔ اب جو اللہ تعالیٰ نے اپنا ارادہ ظاہر فرمایا تو ان دونوں نے یہ سوال کیا

لیکن یہ روایت غریب ہے اور صبح مان لینے پر بھی ممکن ہے کہ ابو جعفر نے اسے اہل کتاب یہود و نصاریٰ سے اخذ کیا ہو۔ بہر صورت یہ ایک واہی تواہی روایت ہے اور قابل تردید ہے۔ واللہ اعلم

پھر اس روایت میں ہے کہ دو فرشتوں نے یہ سوال کیا۔ یہ قرآن کی روانی عبارت کے بھی خلاف ہے۔

یہ بھی روایت میں  مروی ہے کہ یہ کہنے والے فرشتے دس ہزار تھے اور وہ سب کے سب جلا دئیے گئے۔ یہ بھی بنی اسرائیلی روایت ہے اور بہت ہی غریب ہے

امام ابن جریر فرماتے ہیں اس سوال کی انہیں اجازت دی گئی تھی اور یہ بھی معلوم کرا دیا گیا تھا کہ یہ مخلوق نافرمان بھی ہو گی تو انہوں نے نہایت تعجب کے ساتھ اللہ کی مصلحت معلوم کرنے کے لئے یہ سوال کیا نہ کہ کوئی مشورہ دیا یا انکار کیا یا اعتراض کیا ہو۔

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ جب آدم علیہ السلام کی پیدائش شروع ہوئی تو فرشتوں نے کہا ناممکن ہے کہ کوئی مخلوق ہم سے زیادہ بزرگ اور عالم ہو تو اس پر یہ امتحان اللہ کی طرف سے آیا اور کوئی مخلوق امتحان سے نہیں چھوٹی۔ زمین اور آسمان پر بھی امتحان آیا تھا اور انہوں نے سرخم کر کے اطاعت الہٰیہ کے لئے آمادگی ظاہر کی

فرشتوں کی تسبیح و تقدیس سے مراد اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرنا نماز پڑھنا بے ادبی سے بچنا، بڑائی اور عظمت کرنا ہے۔ فرماں برداری کرنا سبوح قدوس وغیرہ پڑھنا ہے۔

الْقُدُّوسُ کے معنی پاک کے ہیں۔ پاک زمین کو مقدس کہتے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوتا ہے کہ کونسا کلام افضل ہے جواب دیتے ہیں:

وہ جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کے لئے پسند فرمایا  سبحان اللہ وبحمدہ  (صحیح مسلم)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج والی رات آسمانوں پر فرشتوں کی یہ تسبیح سنی سُبحَانَ الاَعلٰی الاَعلٰی سُبحَانَہُ وَ تَعَالٰی

خلیفہ کے فرائض اور خلافت کی نوعیت

امام قرطبی نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ خلیفہ کا مقرر کرنا واجب ہے تاکہ وہ لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کرے، ان کے جھگڑے چکائے، مظلوب کا بدلہ ظالم سے لے، حدیں قائم کرے، برائیوں کے مرتکب لوگوں کو ڈانٹے ڈپٹے وغیرہ، وہ بڑے بڑے کام جو بغیر امام کے انجام نہیں پا سکتے۔ چونکہ یہ کام واجب ہیں اور یہ بغیر امام کے پورے نہیں ہو سکتے اور جس چیز کے بغیر واجب پورا نہ ہو وہ بھی واجب ہو جاتی ہے لہذا خلیفہ کا مقرر کرنا واجب ثابت ہوا۔

 امامت یا تو قرآن و حدیث کے ظاہری لفظوں سے ملے گی جیسے کہ اہل سنت کی ایک جماعت کا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسبت خیال ہے کہ ان کا نام حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافت کے لئے لیا تھا یا قرآن و حدیث سے اس کی جانب اشارہ ہو۔ جیسے اہل سنت ہی کی دوسری جماعت کا خلیفہ اول کی بابت یہ خیال ہے کہ اشارۃ ان کا ذکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافت کے لئے کیا۔

یا ایک خلیفہ اپنے بعد دوسرے کو نامزد کر جائے جیسے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا جانشین مقرر کر دیا تھا۔

یا وہ صالح لوگوں کی ایک کمیٹی بنا کر انتخاب کا کام ان کے سپرد کر جائے جیسے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا تھا

یا اہل حل و عقد (یعنی بااثر سرداران لشکر علماء و صلحاء وغیرہ) اس کی بیعت پر اجماع کر لیں یا ان میں سے کوئی اس کی بیعت کر لے تو جمہور کے نزدیک اس کا لازم پکڑنا واجب ہو جائے گا۔

 امام الحرمین نے اس پر اجماع نقل کیا ہے واللہ العلم

یا کوئی شخص لوگوں کو بزور و جبر اپنی ماتحتی پر بےبس کر دے تو بھی واجب ہو جاتا ہے کہ اس کے ہاتھ پر بیعت کر لیں تاکہ پھوٹ اور اختلاف نہ پھیلے۔ امام شافعی نے صاف لفظوں میں اس کا فیصلہ کیا ہے۔ اس بیعت کے وقت گواہوں کی موجودگی کے واجب ہونے میں اختلافات ہے

 بعض تو کہتے ہیں یہ شرط نہیں، بعض کہتے ہیں شرط ہے اور دو گواہ کافی ہیں۔ جبائی کہتا ہے بیعت کرنے والے اور جس کے ہاتھ پر بیعت ہو رہی ہے ان دونوں کے علاوہ چار گواہ چاہئیں۔ جیسے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ نے شوریٰ کے چھ ارکان مقرر کئے تھے پھر انہوں نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مختار کر دیا اور آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر باقی چاروں کی موجودگی میں بیعت کی لیکن اس استدلال میں اختلاف ہے۔ واللہ اعلم

 امام کا مرد ہونا، آزاد ہونا، بالغ ہونا، عقلمند ہونا، مسلمان ہونا، عادل ہونا، مجتہد ہونا، آنکھوں والا ہونا، صحیح سالم اعضاء والا ہونا، فنون جنگ سے اور رائے سے خبردار ہونا، قریشی ہونا واجب ہے اور یہی صحیح ہے۔

 امام اگر فاسق ہو جائے تو اسے معزول کر دینا چاہیے یا نہیں؟ اس میں اختلاف ہے اور صحیح یہ ہے کہ معزول نہ کیا جائے کیونکہ حدیث میں ہے کہ جب تک ایسا کھلا کفر نہ دیکھ لو جسکے کفر ہونے کی ظاہر دلیل اللہ کی طرف سے تمہارے پاس ہو،ہاں ہاشمی ہونا اور خطا سے معصوم ہونا شرط نہیں۔ یہ دونوں شرطیں متشدد رافضی لگاتے ہیں

 اسی طرح خود امام اپنے آپ معزول ہو سکتا ہے یا نہیں؟اس میں بھی اختلاف ہے۔ حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ خودبخود آپ ہی معزول ہو گئے تھے اور امر امامت حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سونپ دیا تھا لیکن یہ عذر کے باعث تھا جس پر ان کی تعریف کی گئی ہے۔

روئے زمین پر ایک سے زیادہ امام ایک وقت میں نہیں ہو سکتے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

 جب تم میں اتفاق ہو اور کوئی اگر تم میں جدائی ڈالنی چاہے تو اسے قتل کر دو خواہ کوئی بھی ہو۔

 جمہور کا یہی مذہب ہے اور بہت سے بزرگوں نے اس پر اجماع نقل کیا ہے جن میں سے ایک امام الحرمین ہیں۔

لیکن صحیح مسلم والی حدیث آپ ابھی اوپر چڑھ چکے ہیں کہ دوسرے کو قتل کر ڈالو۔ اس لئے صحیح مذہب وہی ہے جو پہلے بیان ہوا

امام الحرمین نے استاذ ابو اسحاق سے بھی حکایت کی ہے وہ دو اور زیادہ اماموں کا مقرر کرنا اس وقت جائز جانتے ہیں جب مسلمانوں کی سلطنت بہت بڑی وسیع ہو اور چاروں طرف پھیلی ہوئی ہو اور دو اماموں کے درمیان کئی ملکوں کا فاصلہ ہو۔

 امام الحرمین اس میں ترود میں ہیں، خلفائے بنی عباسؓ کا عراق میں اور خلفائے بنی فاطمہ کا مصر میں اور خاندان بنی امیہ کا مغرب میں میرے خیال سے یہی حال تھا۔

 اس کی بسط و تفصیل انشاء اللہ کتاب الاحکام کی کسی مناسب جگہ ہم کریں گے۔

وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَائِكَةِ فَقَالَ أَنْبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَؤُلَاءِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (۳۱)

اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام نام سکھا کر ان چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا، اگر تم سچے ہو تو ان چیزوں کے نام بتاؤ‏

یہاں سے اس بات کا بیان ہو رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک خاص علم میں حضرت آدم ؑ  کو فرشتوں پر بھی فضیلت دی۔

یہ واقعہ فرشتوں کے سجدہ کرنے کے بعد کا ہے لیکن اللہ کی جو حکمت آپ کے پیدا کرنے میں تھی اور جس کا علم فرشتوں کو نہ تھا اور اس کا اجمالی بیان اوپر کی آیت میں گزرا ہے اس کی مناسبت کی وجہ سے اس واقعہ کو پہلے بیان کیا اور فرشتوں کا سجدہ کرنا جو اس سے پہلے واقعہ ہوا تھا بعد میں بیان کر دیا تاکہ خلیفہ کے پیدا کرنے کی مصلحت اور حکمت ظاہر ہو جائے اور یہ معلوم ہو جائے کہ یہ شرافت اور فضیلت حضرت آدمؑ کو اس لئے ملی کہ انہیں وہ علم حاصل ہے جس سے فرشتے خالی ہیں،

فرمایا کہ حضرت آدم علیہ السلام کو تمام نام بتائے یعنی ان کی تمام اولاد کے علاوہ سب جانوروں، زمین، آسمان، پہاڑ، تری، خشکی، گھوڑے، گدھے، برتن، چرند، فرشتے، تارے وغیرہ تمام چھوٹی بڑی چیزوں کے نام بتائے گئے۔

امام ابن جریر فرماتے ہیں کہ فرشتوں اور انسانوں کے نام معلوم کرائے گئے تھے کیونکہ اس کے بعد عَرَضَهُمْ آتا ہے اور یہ ذی عقل لوگوں کے لئے آتا ہے۔ لیکن یہ کوئی ایسی معقول وجہ نہیں جہاں ذی عقل اور غیر ذی عقل جمع ہوتے ہیں وہاں جو لفظ لایا جاتا ہے وہ عقل و ہوش رکھنے والوں کے لئے ہی لایا جاتا ہے جیسے قرآن میں ہے:

وَاللَّهُ خَلَقَ كُلَّ دَابَّةٍ مِّن مَّاءٍ ۖ ۔۔۔ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (۲۴:۴۵)

تمام کے تمام چلنے پھرنے والے جانداروں کو اللہ تعالیٰ ہی نے پانی سے پیدا کیا ان میں سے بعض تو اپنے پیٹ کے بل چلتے ہیں بعض دو پاؤں پر چلتے ہیں بعض چارپاؤں پر ،

اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے بیشک اللہ تعالیٰ ہرچیز پر قادر ہے۔‏

پس اس آیت سے ظاہر ہے کہ غیر ذی عقل بھی داخل ہیں مگر صیغے سب ذی عقل کے ہیں۔

علاوہ ازیں عَرَضَهُنَّ بھی عبداللہ بن مسعودؓ کی قرأت میں ہے اور ابی بن کعب کی قرأت میں عَرَضَهَا بھی ہے۔

صحیح قول یہی ہے کہ تمام چیزوں کے نام سکھائے تھے ذاتی نام بھی صفاتی نام بھی اور کاموں کے نام بھی، جیسے کہ حضرت ابن عباسؓ کا قول ہے کہ گوز کا نام تک بھی بتایا گیا تھا۔

صحیح بخاری کتاب التفسیر میں اس آیت کی تفسیر میں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ حدیث لائے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 ایمان دار قیامت کے دن جمع ہوں گے اور کہیں گے کیا اچھا ہو گا اگر کسی کو ہم اپنا سفارشی بنا کر اللہ کے پاس بھیجیں چنانچہ یہ سب کے سب حضرت آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور ان سے کہیں گے کہ آپ ہم سب کے باپ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اپنے فرشتوں سے آپ کو سجدہ کرایا آپ کو تمام چیزوں کے نام سکھائے۔ آپ اللہ تعالیٰ کے سامنے ہماری سفارش لے جائیں۔ جو ہم اس سے راحت پائیں۔ حضرت آدم علیہ السلام یہ سن کر جواب دیں گے کہ میں اس قابل نہیں۔ انہیں اپنا گناہ یاد آ جائے گا۔ تم نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ وہ پہلے رسول ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے زمین والوں کی طرف بھیجا۔

یہ لوگ جواب سن کر حضرت نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے

 آپ بھی یہی جواب دیں گے اور اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف اپنے بیٹے کے لئے اپنا دعا مانگنا یاد کر کے شرما جائیں گے اور فرمائیں گے تم خلیل الرحمٰن حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ۔

یہ سب آپ کے پاس آئیں گے لیکن یہاں سے بھی یہی جواب پائیں گے۔ آپ فرمائیں گے تم موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ جن سے اللہ نے کلام کیا اور جنہیں تورات عنایت فرمائی۔

یہ سن کر سب کے سب حضرت موسیٰؑ کے پاس آئیں گے اور آپ سے بھی یہی درخواست کریں گے لیکن یہاں سے بھی جواب پائیں گے آپ کو بھی ایک شخص کو بغیر قصاص کے مار ڈالنا یاد آ جائے گا اور شرمندہ ہو جائیں گے اور فرمائیں گے تم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول اور کلمۃ اللہ اور روح اللہ ہیں۔

یہ سب ان کے پاس بھی جائیں گے لیکن یہاں سے بھی یہی جواب ملے گا کہ میں اس لائق نہیں تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ جن کے تمام اگلے پچھلے گناہ بخش دئیے گئے ہیں۔

اب وہ سارے کے سارے میرے پاس آئیں گے میں آمادہ ہو جاؤں گا اور اپنے رب سے اجازت طلب کروں گا۔

 مجھے اجازت دے دی جائے گی میں اپنے رب کو دیکھتے ہی سجدے میں گر پڑوں گا جب تک اللہ کو منظور ہو گا سجدے میں ہی پڑا رہوں گا

پھر آواز آئے گی کہ سر اٹھائیے سوال کیجئے پورا کیا جائے گا، کہئے سنا جائے گا، شفاعت کیجئے قبول کی جائے گی۔

اب میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور اللہ تعالیٰ کی وہ تعریفیں بیان کروں گا جو اسی وقت اللہ تعالیٰ مجھے سکھائے گا پھر میں شفاعت کروں گا۔

 میرے لئے حد مقرر کر دی جائے گی میں انہیں جنت میں پہنچا کر پھر آؤں گا۔ پھر اپنے رب کو دیکھ کر اسی طرح سجدہ میں گر پڑوں گا۔

 پھر شفاعت کروں گا پھر حد مقرر ہو گی انہیں بھی جنت میں پہنچا کر تیسری مرتبہ آؤں گا

 پھر چوتھی بار حاضر  ہوں گا یہاں تک کہ جہنم میں صرف وہی رہ جائیں گے جنہیں قرآن نے روک رکھا ہو اور جن کے لئے جہنم کی مداومت واجب ہو گئی ہو (یعنی شرک و کفر کرنے والے)

صحیح مسلم شریف میں نسائی میں ابن ماجہ وغیرہ میں یہ حدیث شفاعت موجود ہے۔

یہاں اس کے وارد کرنے سے مقصود یہ ہے کہ اس حدیث میں یہ جملہ بھی ہے کہ لوگ حضرت آدم علیہ السلام سے کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام چیزوں کے نام سکھائے۔

پھر ان چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور ان سے فرمایا کہ لو اگر تم اپنے قول میں سچے ہو کہ تم ساری مخلوق سے زیادہ علم والے ہو یا اپنی اس بات میں سچے ہو کہ اللہ تعالیٰ زمین میں خلیفہ نہ بنائے گا تو ان چیزوں کے نام بتاؤ۔

یہ بھی مروی ہے کہ اگر تم اپنی اس بات میں کہ بنی آدم فساد کریں گے اور خون بہائیں گے سچے ہو تو ان کے نام بتاؤ۔

 لیکن قول پہلا ہی ہے۔ گویا اس میں انہیں ڈانٹا گیا کہ بتاؤ تمہارا قول کہ تم ہی زمین کی خلافت کے لائق ہو اور انسان نہیں۔

تم ہی میرے تسبیح خواں اور اطاعت گزار ہو اور انسان نہیں۔

اگر تم صحیح ہو تو لو یہ چیزیں جو تمہارے سامنے موجود ہیں۔ انہی کے نام بتاؤ۔ اور اگر تم نہیں بتا سکتے تو سمجھ لو کہ جب موجودہ چیزوں کے نام بھی تمہیں معلوم نہیں تو آئندہ آنے والی چیزوں کی نسبت تمہیں علم کیسے ہو گا؟

قَالُوا سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ۖ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ (۳۲)

ان سب نے کہا اے اللہ! تیری ذات پاک ہے ہمیں تو صرف اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھا رکھا ہے پورے علم و حکمت والا تو تو ہی ہے‏

فرشتوں نے یہ سنتے ہی اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی اور بڑائی اور اپنے علم کی کمی بیان کرنا شروع کر دی اور کہہ دیا کہ جسے جتنا کچھ اے اللہ تو نے سکھا دیا اتنا ہی علم اسے حاصل ہے تمام چیزوں پر احاطہ رکھنے والا علم تو صرف تجھی کو ہے تو ہر چیز کا جاننے والا ہے اپنے تمام احکام میں حکمت رکھنے والا ہے جسے جو سکھائے وہ بھی حکمت سے اور جسے نہ سکھائے وہ بھی حکمت سے تو حکمتوں والا اور عدل والا ہے۔

ابن عباسؓ فرماتے ہیں سُبْحَانَ اللَّهِ کے معنی اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی کے ہیں کہ وہ ہر برائی سے منزہ ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت علیؓ اور اپنے پاس کے دوسرے اصحاب سے ایک مرتبہ سوال کیا کہ لا الہ الا اللہ تو ہم جانتے ہیں لیکن سُبْحَانَ اللَّهِ کیا کلمہ ہے؟ تو حضرت علیؓ نے جواب دیا کہ اس کلمہ کو باری تعالیٰ نے اپنے نفس کے لئے پسند فرمایا ہے اور اس سے وہ خوش ہوتا ہے اور اس کا کہنا اسے محبوب ہے۔

حضرت میمون بن مہران فرماتے ہیں کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی تعظیم ہے اور تمام برائیوں سے پاکیزگی کا بیان ہے۔

قَالَ يَا آدَمُ أَنْبِئْهُمْ بِأَسْمَائِهِمْ ۖ فَلَمَّا أَنْبَأَهُمْ بِأَسْمَائِهِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ

اللہ تعالیٰ نے آدم ؑ سے فرمایا تم ان کے نام بتا دو۔ جب انہوں نے بتا دئیے تو فرمایا کہ میں نے تمہیں (پہلے ہی) نہ کہا تھا زمین اور آسمان کا غیب میں ہی جانتا ہوں

حضرت آدمؑ نے نام بتا دئیے کہ تمہارا نام جبرائیل ہے تمہارا نام میکائیل ہے، تم اسرافیل ہو یہاں تک کہ چیل کوے وغیرہ سب کے نام بھی جب ان سے پوچھے گئے تو انہوں نے بتا دیئے۔

وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا كُنْتُمْ تَكْتُمُونَ (۳۳)

اور میرے علم میں ہے جو تم ظاہر کر رہے ہو اور جو تم چھپاتے ہو ۔

جب حضرت آدم علیہ السلام کی یہ فضیلت فرشتوں کو معلوم ہوئی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا دیکھو میں نے تم سے پہلے نہ کہا تھا کہ میں ہر پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہوںجیسے اور جگہ ہے:

وَإِن تَجْهَرْ بِالْقَوْلِ فَإِنَّهُ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَى (۲۰:۷)

اگر تو اونچی بات کہے تو وہ تو ہر ایک پوشیدہ، بلکہ پوشیدہ سے پوشیدہ تر بات کو بھی بخوبی جانتا ہے‏

اور ارشاد فرمایا:

أَلاَّ يَسْجُدُواْ للَّهِ الَّذِى يُخْرِجُ الْخَبْءَ ۔۔۔ لاَ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ (۲۷:۲۵،۲۶)

کہ اسی اللہ کے لئے سجدے کریں جو آسمانوں اور زمینوں کی پوشیدہ چیزوں کو باہر نکالتا ہے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو اور ظاہر کرتے ہو وہ سب کچھ جانتا ہے۔

‏ اسکے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ عظمت والے عرش کا مالک ہے

جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو چھپاتے تھے اسے بھی میں جانتا ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ ابلیس کے دل میں جر تکبر اور غرور تھا اسے میں جانتا تھا۔

فرشتوں کا یہ کہنا کہ زمین میں ایسی شخصیت کو کیوں پیدا کرتا ہے جو فساد کرے اور خون بہائے یہ تو وہ قول تھا جسے انہوں نے ظاہر کیا تھا اور جو چھپایا تھا وہ ابلیس کے دل میں غرور اور تکبر تھا۔

ابن عباسؓ ابن مسعودؓ اور بعض صحابہؓ اور سعید بن جبیر اور مجاہد اور سدی اور ضحاک اور ثوری کا یہی قول ہے۔

ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں

 اور ابوالعالیہ ربیع بن انس حسن اور قتادہ کا قول ہے کہ ان کی باطن بات ان کا یہ کہنا تھا کہ جس مخلوق کو اللہ تعالیٰ پیدا کرے گا ہم اس سے زیادہ عالم اور زیادہ بزرگ ہوں گے لیکن بعد میں ثابت ہو گیا اور خود انہوں نے بھی جان لیا کہ آدم علیہ السلام کو علم اور فضیلت دونوں میں ان پر فوقیت حاصل ہے۔

 حضرت عبدالرحمٰن بن زید فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا جس طرح تم ان چیزوں کے ناموں سے بےخبر ہو اسی طرح تم یہ بھی نہیں جان سکتے کہ ان میں بھلے برے ہر طرح کے ہوں گے۔ فرمانبردار بھی ہوں گے اور نافرمان بھی۔ اور میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ مجھے جنت دوزخ دونوں کو بھرنا ہے لیکن تمہیں میں نے اس کی خبر نہیں دی۔ اب جب کہ فرشتوں نے حضرت آدم کو دیا ہوا علم دیکھا تو ان کی بندگی کا اقرار کر لیا۔

امام ابن جریر فرماتے ہیں:

سب سے اولیٰ قول حضرت ابن عباسؓ کا ہے کہ آسمان و زمین کے غیب کا علم تمہارے ظاہر و باطن کا علم مجھے ہے ان کے ظاہری قول کو اور ابلیس کے باطنی عجب و غرور کو بھی جانتا تھا۔ اس میں چھپانے والا صرف ایک ابلیس ہی تھا لیکن صیغہ جمع کا لایا گیا ہے اس لئے کہ عرب میں یہ دستور ہے اور ان کے کلام میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ ایک کے یا بعض کے ایک کام کو سب کی طرف نسبت کر دیا کرتے وہ کہتے ہیں کہ لشکر مار ڈالا گیا یا انہیں شکست ہوئی حالانکہ شکست اور قتل ایک کا یا بعض کا ہوتا ہے اور صیغہ جمع کا لاتے ہیں۔

بنو تمیم کے ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے حجرے کے آگے سے پکارا تھا لیکن قرآن میں اس کا بیان ان لفظوں میں ہے کہ إِنَّ الَّذِينَ يُنَادُونَكَ مِن وَرَاءِ الْحُجُرَاتِ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ (۴۹:۴) جو لوگ تمہیں اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم حجروں کے آگے سے پکارتے ہیں تو دیکھئے کہ پکار نے والا ایک تھا اور صیغہ جمع کا لایا گیا۔اسی طرح آیت وَمَا كُنْتُمْ تَكْتُمُونَ میں بھی اپنے دل میں بدی کو چھپانے والا صرف ایک ابلیس ہی تھا لیکن صیغہ جمع کا لایا گیا۔

وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ

اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا۔

حضرت آدم علیہ السلام کی اس بہت بڑی بزرگی کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر اپنا بہت بڑا احسان فرمایا اور خبر دی کہ اس نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں۔

اس کی تصدیق میں بہت سی حدیثیں ہیں ایک تو حدیث شفاعت جو ابھی بیان ہوئی۔ دوسری حدیث میں ہے :

موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ میری ملاقات حضرت آدم علیہ السلام سے کرا دیجئے جو خود بھی جنت سے نکلے اور ہم سب کو بھی نکالا۔

جب دونوں پیغمبر جمع ہوئے تو موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ تم وہ آدم ہو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور اپنی روح تم میں بھی پھونکی اور اپنے فرشتوں سے تمہیں سجدہ کرایا (آخر تک) پوری حدیث عنقریب بیان ہو گی انشاء اللہ تعالیٰ۔

 ابن عباسؓ فرماتے ہیں ابلیس فرشتوں کے ایک قبیلہ میں سے تھا جنہیں جن کہتے تھے جو آگ کے شعلوں سے پیدا ہوئے تھے۔ اس کا نام حارث تھا اور جنت کا خازن تھا۔ اس قبیلے کے سوا اور فرشتے سب کے سب نوری تھے۔

قرآن نے بھی ان جنوں کی پیدائش کا ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے:

وَخَلَقَ الْجَانَّ مِن مَّارِجٍ مِّن نَّارٍ (۵۵:۱۵)

اور جنات کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا

آگ کے شعلے کی جو تیزی سے بلند ہوتے ہیں اسے مَارِج کہتے ہیں جس سے جن پیدا کئے گئے تھے اور انسان مٹی سے پیدا کیا گیا۔

زمین میں پہلے جن بستے تھے۔ انہوں نے فساد اور خون ریزی شروع کی تو اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو فرشتوں کا لشکر دے کر بھیجا انہی کو جن کہا جاتا تھا۔ ابلیس نے لڑ بھڑ کر مارتے اور قتل کرتے ہوئے انہیں سمندر کے جزیروں اور پہاڑوں کے دامنوں میں پہنچا دیا اور ابلیس کے دل میں یہ تکبر سما گیا کہ میں نے وہ کام کیا ہے جو کسی اور سے نہ ہو سکا۔

چونکہ دل کی اس بدی اور اس پوشیدہ خودی کا علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو تھا۔ جب پروردگار نے فرمایا کہ زمین میں خلیفہ پیدا کرنا چاہتا ہوں تو ان فرشتوں نے عرض کیا کہ ایسے کو کیوں پیدا کرتا ہے جو اگلی قوم کی طرح فساد و خونریزی کریں تو انہیں جواب دیا گیا کہ میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے یعنی ابلیس کے دل میں جو کبرو غرور ہے اس کا مجھی کو علم ہے تمہیں خبر نہیں

پھر آدم علیہ السلام کی مٹی اٹھائی گئی جو چکنی اور اچھی تھی۔ جب اس کا خمیر اٹھا تب اس سے حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور چالیس دن تک وہ یونہی پتلے کی شکل میں رہے ابلیس آتا تھا اور اس پر لات مار کر دیکھتا تھا تو وہ بجتی مٹی ہوتی جیسے کوئی کھوکھلی چیز ہو پھر منہ کے سوراخ سے گھس کر پیچھے کے سوراخ سے اور اس کے خلاف آتا جاتا رہا اور کہتا رہا کہ درحقیقت یہ کوئی چیز نہیں اور اگر میں اس پر مسلط کیا گیا تو اسے برباد کر کے چھوڑ دوں گا اوراگر  اسے مجھ پر مسلط کیا گیا تو میں ہرگز تسلیم نہ کروں گا۔

پھر جب اللہ تعالیٰ نے ان میں روح پھونکی اور وہ سر کی طرف سے نیچے کی طرف آئی تو جہاں جہاں تک پہنچتی گئی خون گوشت بنتا گیا۔ جب ناف تک روح پہنچی تو اپنے جسم کو دیکھ کر خوش ہوئے اور فوراً اٹھنا چاہا لیکن نیچے کے دھڑ میں روح نہیں پہنچتی تھی اس لئے اٹھ نہ سکے اسی جلدی کا بیان اس آیت میں ہے:

وَكَانَ الْإِنسَانُ عَجُولًا (۱۷:۱۱)

انسان ہی بڑا جلد باز ہے

یعنی انسان بےصبرا اور جلد باز ہے نہ تو خوشی میں صبر نہ رنج میں۔

جب روح جسم میں پہنچی اور چھینک آئی تو کہا الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ اللہ تعالیٰ نے جواب دیا  یرحمک اللہ

 پھر صرف ابلیس کے ساتھی فرشتوں سے فرمایا کہ آدم کے سامنے سجدہ کرو تو ان سب نے سجدہ کیا لیکن ابلیس کا وہ غرور و تکبر ظاہر ہو گیا اس نے نہ مانا

أَبَى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ (۳۴)

اس نے انکار کیا اور تکبر کیا اور وہ کافروں میں ہو گیا۔

اور سجدے سے انکار کر دیااور کہنے لگا میں اس سے بہتر ہوں اس سے بڑی عمر والا ہوں۔ اور اس سے قوی اور مضبوط ہوں۔ یہ مٹی سے پیدا کیا گیا ہے اور میں آگ سے بنا ہوں اور آگ مٹی سے قوی ہے۔ اس کے انکار پر اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی رحمت سے ناامید کر دیا اور اسی لئے اسے ابلیس کہا جاتا ہے۔اس کی نافرمانی کی سزا میں اسے راندہ درگاہ شیطان بنا دیا

پھر حضرت آدم علیہ السلام کو انسان جانور زمین سمندر پہاڑ وغیرہ کے نام بتا کر ان کو ان فرشتوں کے سامنے پیش کیا جو ابلیس کے ساتھی تھے اور آگ سے پیدا شدہ تھے اور ان سے فرمایا کہ اگر تم اس بات میں سچے ہو کہ میں زمین میں اسے خلیفہ نہ بناؤں تو ذرا مجھے ان چیزوں کے نام تو بتا دو۔

جب ان فرشتوں نے دیکھا کہ ہماری اگلی بات سے اللہ العالمین ناراض ہے تو وہ کہنے لگے کہ اللہ عزوجل تو اس بات سے پاک ہے کہ تیرے سوا کوئی اور غیب کو جانے ہماری توبہ ہے اور اقرار ہے کہ ہم غیب داں نہیں۔ ہم تو صرف وہی جان سکتے ہیں جس کا علم تو ہمیں دے دے۔ جیسے تو نے ان کے نام صرف حضرت آدم علیہ السلام کو ہی سکھائے ہیں۔

اب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے فرمایا کہ تم انہیں ان تمام چیزوں کے نام بتا دو چنانچہ انہوں نے بتا دئیے تو فرمایا اے فرشتو! کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ آسمان و زمین کے غیب کا جاننے والا صرف میں اکیلا ہی ہوں اور کوئی نہیں۔ میں ہر پوشیدہ چیز کو بھی ویسا ہی جانتا ہوں جیسے ظاہر کو اور تم سب اس سے بےخبر ہو

لیکن یہ قول بھی غریب ہے اور اس میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جن میں خامیاں ہیں ہم اگر انہیں الگ الگ بیان کریں تو مضمون بہت بڑھ جائے گا اور ابن عباسؓ تک اس اثر کی سند بھی وہی ہے جس سے ان کی مشہور تفسیر مروی ہے۔

 ایک اور حدیث میں بھی اسی طرح مروی ہے جس کے متن میں کچھ کمی زیادتی بھی ہے اور اس میں یہ بھی ہے :

زمین کی مٹی لینے کے لئے جب حضرت جبرائیل گئے تو زمین نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتی ہوں کہ تو مجھ میں سے کچھ گھٹائے

وہ واپس چلے گئے پھر ملک الموت کو بھیجا۔زمین نے ان سے بھی یہی کہا لیکن انہوں نے جواب دیا کہ میں بھی اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتا ہوں کہ میں اللہ کا حکم پورا کئے بغیر واپس چلا جاؤں چنانچہ انہوں نے تمام روئے زمین سے ایک ایک مٹھی مٹی لی۔ چونکہ مٹی کا رنگ کہیں سرخ تھا کہیں سفید کہیں سیاہ اسی وجہ سے انسانوں کی رنگتیں بھی طرح طرح کی ہوئیں

لیکن یہ روایت بھی بنو اسرائیل کی روایات سے ماخوذ ہے غالباً اس میں بہت سی باتیں نیچے کے لوگوں کی ملائی گئی ہیں۔ صحابی کا بیان ہی نہیں اگر صحابی کا قول بھی ہو تو بھی انہوں نے بعض اگلی کتابوں سے لیا ہو گا۔ واللہ اعلم

ابلیس

حاکم اپنی مستدرک میں بہت سی ایسی روایتیں لائے ہیں اور ان کی سند کو بخاری سے مشروط کیا ہے۔

مقصد یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ تم حضرت آدم کو سجدہ کرو تو اس خطاب میں ابلیس بھی داخل تھا اس لئے کہ گو وہ ان میں سے نہ تھا لیکن ان ہی جیسا اور ان ہی جیسے کام کرنے والا تھا اس لئے اس خطاب میں داخل تھا اور پھر نافرمانی کی سزا بھگتی۔ اس کی تفصیل انشاء اللہ تعالیٰ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ (۱۸:۵۰)کی تفسیر میں آئے گی۔

ابن عباسؓ کہتے ہیں نافرمانی سے پہلے وہ فرشتوں میں تھا۔ عزازیل اس کا نام تھا زمین پر اس کی رہائش تھی اجتہاد اور علم میں بہت بڑا تھا اور اسی وجہ سے دماغ میں رعونت تھی اور اس کی جماعت کا اور اس کا تعلق جنوں سے تھا۔ اس کے چار پر تھے۔ جنت کا خازن تھا زمین اور آسمان دونوں کا سلطان تھا۔

حضرت حسن فرماتے ہیں۔ ابلیس کبھی فرشتہ نہ تھا اس کی اصل جنات سے ہے جیسے کہ آدم کی اصل انس سے ہے

 اس کی اسناد صحیح ہے۔

عبدالرحمٰن بن زید اور شہر بن حوشب کا بھی یہی قول ہے۔

سعد بن مسعود کہتے ہیں کہ فرشتوں نے جنات کو جب مارا تب اسے قید کیا تھا اور آسمان پر لے گئے تھے وہاں کی عبادت کی وجہ سے رہ پڑا۔

ابن عباسؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ پہلے ایک مخلوق کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا انہیں حضرت آدمؑ کو سجدہ کرنے کو کہا۔ انہوں نے انکار کیا جس پر وہ جلا دئیے گئے ، دوسری مخلوق پیدا کی انکا بھی یہی حشر ہوا پھر تیسری مخلوق پیدا کی انہوں نے تعمیل کی

لیکن یہ اثر بھی غریب ہے اور اس کی اسناد بھی تقریباً غیر صحیح ہے۔ اس میں ایک راوی مبہم ہے اس وجہ سے یہ روایت قابل حجت نہیں

الْكَافِرِينَ سے مراد نافرمان ہے۔

ابلیس کی ابتداء آفرینش ہی کفر و ضلالت پر تھی کچھ دن ٹھیک ٹھاک رہا لیکن پھر اپنی اصلیت پر آ گیا۔ سجدہ کرنے کا حکم بجا لانا اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور آدم علیہ السلام کا اکرام تھا۔

بعض لوگوں کا قول ہے کہ یہ سجدہ سلام اور عزت و اکرام کا تھا جیسے کہ حضرت یوسف ؑکے بارے میں فرمان ہے:

وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ وَخَرُّواْ لَهُ سُجَّدَا وَقَالَ يأَبَتِ هَـذَا تَأْوِيلُ رُؤْيَـى مِن قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّى حَقًّا (۱۲:۱۰۰)

اور اپنے تخت پر اپنے ماں باپ کو اونچا بٹھایا اور سب اسکے سامنے سجدے میں گر گئے تب کہا ابا جی! یہ میرے پہلے کے خواب کی تعبیر ہے میرے رب نے اسے سچا کر دکھایا،

اگلی اُمتوں میں سجدہ تعظیم جائز تھا لیکن ہمارے دین میں یہ منسوخ ہو گیا۔

حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے شامیوں کو اپنے سرداروں اور علماء کے سامنے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا تھا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے گزارش کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ اس کے زیادہ حقدار ہیں کہ آپ کو سجدہ کیا جائے تو آپ ﷺنے فرمایا :

اگر میں کسی انسان کو کسی انسان کے سامنے سجدہ کرنے کی اجازت دینے والا ہوتا تو عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوندوں کو سجدہ کریں کیونکہ ان کا ان پر بہت بڑا حق ہے۔

امام رازی نے اسی کو ترجیح دی ہے

بعض کہتے ہیں کہ سجدہ اللہ تعالیٰ ہی کے لئے تھا۔ حضرت آدم بطور قبلہ (یعنی سمت) کے تھے جیسے قرآن کریم میں ہے:

أَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَىٰ غَسَقِ اللَّيْلِ (۱۷:۷۸)

نماز کو قائم کریں آفتاب کے ڈھلنے سے لے کر رات کی تاریکی تک

لیکن اس میں بھی اختلاف ہے اور پہلے ہی قول کا زیادہ صحیح ہونا اچھا معلوم ہوتا ہے۔

یہ سجدہ حضرت آدم کے اکرام بڑائی احترام اور سلام کے طور پر تھا اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ماتحت تھا کیونکہ اس کا حکم تھا جس کی بجا آوری ضروری تھی۔

امام رازی نے بھی اسی قول کو قوی قرار دیا ہے اور اس کے سوا دوسرے اقوال کو ضعیف قرار دیا ہے

 ایک تو حضرت آدم علیہ السلام کا بطور قبلہ کے ہونا جس میں کوئی بڑا شرف ظاہر نہیں ہوتا۔ دوسرے سجدے سے مراد پست عاجز ہونا نہ کہ زمین میں ماتھا ٹکا کر حقیقی سجدہ کرنا لیکن یہ دونوں تاویلیں ضعیف ہیں۔

حضرت قتادہ فرماتے ہیں سب سے پہلا گناہ یہی تکبر ہے جو ابلیس سے سرزد ہوا۔

صحیح حدیث میں ہے:

جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہو گا وہ جنت میں داخل نہ ہو گا۔

اسی تکبر کفرو عناد کی وجہ سے ابلیس کے گلے میں طوق لعنت پڑا اور رحمت سے مایوس ہو کر جناب باری سے دھتکارا گیا۔

 یہاں كَانَ صار کے معنی میں بتلایا گیا ہے جیسے کہ آیت فَكَانَ مِنَ الْمُغْرَقِينَ (۱۱:۴۳)اور آیت فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ (۲:۳۵) شاعروں کے شعروں میں بھی اس کا ثبوت ہے تو معنی یہ ہوئے کہ وہ کافر ہو گیا

 ابن فورک کہتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں کافروں میں سے تھا۔

قرطبی اسی کو ترجیح دیتے ہیں اور یہاں ایک مسئلہ بیان فرماتے ہیں کہ کسی شخص کے ہاتھ سے کچھ کرامتیں سرزد ہو جانا اس کے ولی اللہ ہونے کی دلیل نہیں گو بعض صوفی اور رافضی اس کے خلاف بھی کہتے ہیں کہ اس لئے کہ ہم اس بات کا کسی کے لئے فیصلہ نہیں کر سکتے کہ وہ ایمان ہی کی حالت میں اللہ سے جا ملے گا اسی شیطان کو دیکھئے ولی ہی نہیں بلکہ فرشتہ بنا ہوا تھا لیکن آخر سردار کفر و کفار ہو گیا۔

علاوہ ازیں ایسی خلاف عادت و عقل باتیں جو بظاہر کرامات نظر آتی ہیں اولیاء اللہ کے سوا اور لوگوں کے ہاتھوں سے بھی سرزد ہوتی ہیں بلکہ فاسق فاجر مشرک کافر سے بھی ظاہر ہو جاتی ہیں۔ مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُّبِينٍ (۴۴:۱۰) کی آیت دل میں سوچ کر جب ابن صیاد کافر سے پوچھا کہ میں نے کیا سوچا ہے تو اس نے کہا تھا دخ۔

بعض روایات میں ہے کہ غصہ کے وقت وہ اتنا پھول جاتا کہ اس کے جسم سے تمام راستہ رک جاتا تھا۔

دجال کی تو ایسی بہت سی باتیں احادیث میں وارد ہیں مثلاً اس کا آسمان سے بارش برسانا زمین سے پیداوار اگانا زمین کے خزانوں کا اس کے پیچھے لگنا ایک نوجوان کو قتل کر کے پھر جلانا وغیرہ ۔

حضرت لیث بن سعد اور حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اگر تم کسی کو پانی پر چلتے ہوئے اور ہواؤں میں اڑتے ہوئے دیکھو تو اسے ولی نہ سمجھ بیٹھو جب تک کہ اس کے تمام اعمال و افعال قرآن و حدیث کے مطابق نہ پاؤ۔

اس سجدے کا حکم زمین و آسمان کے تمام فرشتوں کو تھا گو ایک جماعت کا قول یہ بھی ہے کہ صرف زمین کے فرشتوں کو یہ حکم تھا لیکن یہ ٹھیک نہیں قرآن کریم میں ہے:

فَسَجَدَ الْمَلَائِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ (۱۵:۳۰)

ابلیس کے سوا تمام فرشتوں نے سجدہ کیا

پس اول تو جمع کا صیغہ لانا پھر كُلُّهُمْ سے تاکید کرنا پھر أَجْمَعُونَ کہنا اس کے بعد صرف ابلیس کا استثناء کرنا ان چاروں وجوہات سے صاف ظاہر ہے کہ یہ حکم عام تھا واللہ اعلم۔

وَقُلْنَا يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ

اور ہم نے کہہ دیا کہ اے آدم تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو

حضرت آدم علیہ السلام کی یہ ایک اور بزرگی بیان ہو رہی ہے کہ فرشتوں سے سجدہ کرانے کے بعد انہیں جنت میں رکھا اور ہر چیز کی رخصت دے دی

 ابن مردویہ کی روایت کردہ حدیث میں ہے :

حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ حضور ﷺ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا حضرت آدمؑ نبی تھے؟

آپ ﷺنے فرمایا ہاں! نبی بھی، رسول بھی ، بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان سے آمنے سامنے بات چیت کی اور انہیں فرمایا کہ تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو۔

 عام مفسرین کا بیان ہے کہ آسمانی جنت میں انہیں بسایا گیا تھا لیکن معتزلہ اور قدریہ کہتے ہیں کہ یہ جنت زمین پر تھی۔ سورۃ اعراف میں اس کا بیان آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ۔

 اس عبارت قرآنی سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں رہنے سے پہلے حضرت حوا پیدا کی گئی تھیں۔

محمد بن اسحاق فرماتے ہیں کہ اہل کتاب کے علماء سے بروایت ابن عباسؓ مروی ہے ابلیس کے مردود قرار دینے کے بعد حضرت آدم علیہ السلام کے علم کو ظاہر کر کے پھر ان پر اونگھ کی فوقیت طاری کر دی گئی اور ان کی بائیں پسلی سے حضرت حوا کو پیدا کیا۔ جب آنکھ کھول کر حضرت آدم نے انہیں دیکھا تو اپنے خون اور گوشت کی وجہ سے ان میں انس و محبت ان کے دل میں پیدا ہوئی۔ پھر پروردگار نے انہیں ان کے نکاح میں دیا اور جنت میں رہائش کا حکم عطا فرمایا۔

بعض کہتے ہیں کہ آدم علیہ السلام کے جنت میں داخل ہو جانے کے بعد حضرت حوا پیدا کی گئیں۔

حضرت ابن عباسؓ، ابن مسعودؓ و صحابہؓ سے مروی ہے:

ابلیس کو جنت سے نکالنے کے بعد حضرت آدم علیہ السلام کو جنت میں جگہ دی گئی۔ لیکن تن تنہا تھے اس وجہ سے ان کی نیند میں حضرت حوا کو ان کی پسلی سے پیدا کیا گیا۔ جاگے، انہیں دیکھا تو پوچھا تم کون ہو اور کیوں پیدا کی گئی ہو؟

حضرت حوا نے فرمایا میں ایک عورت ہوں اور آپ کے ساتھ رہنے اور تسکین کا سبب بننے کے لئے پیدا کی گئی ہوں

تو فوراً فرشتوں نے پوچھا فرمائیے ان کا نام کیا ہے؟

حضرت آدم نے کہا حوا

انہوں نے کہا اس نام کی وجہ تسمیہ کیا ہے؟

فرمایا اس لئے کہ یہ ایک زندہ سے پیدا کی گئی ہیں۔

وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ (۳۵)

اور جہاں کہیں سے چاہو با فراغت کھاؤ پیؤ، لیکن اس درخت کے قریب بھی نہ جانا ورنہ ظالم ہو جاؤ گے۔‏

اسی وقت اللہ تعالیٰ کی آواز آئی، اے آدم اب تم اور تمہاری بیوی جنت میں با آرام و اطمینان رہو اور جو چاہو کھاؤ۔ لیکن ایک خاص درخت سے روکنا دراصل امتحان تھا۔

بعض کہتے ہیں یہ انگور کی بیل تھی۔ کوئی کہتا ہے۔ گیہوں کا درخت تھا۔ کسی نے سنبلہ کہا ہے۔ کسی نے کھجور، کسی نے انجیر کہا ہے۔ کسی نے کہا ہے اس درخت کے کھانے سے انسانی حاجت ہوتی تھی جو جنت کے لائق نہیں۔

 کسی نے کہا ہے، اس درخت کا پھل کھا کر فرشتے ہمیشہ کی زندگی پا گئے ہیں۔

امام ابن جریر فرماتے ہیں کوئی ایک درخت تھا جس سے اللہ نے روک دیا۔ نہ قرآن سے اس کا تعین ثابت ہوتا ہے نہ کسی صحیح حدیث سے۔

مفسرین میں اختلاف ہے اور اس کے معلوم ہونے سے کوئی اہم فائدہ اور نہ معلوم ہونے سے کوئی نقصان نہیں۔ لہذا اس کی جستجو کی کیا ضرورت؟ اللہ ہی کو اس کا بہتر علم ہے۔

امام رازی وغیرہ نے بھی یہی فیصلہ کیا ہے اور ٹھیک بات بھی یہی معلوم ہوتی ہے۔

فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطَانُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِ ۖ

لیکن شیطان نے ان کو بہکا کر وہاں سے نکلوا دیا

عَنْهَا کی ضمیر کا مرجع بعض نے جنت کہا ہے اور بعض نے شجرہ۔

 ایک قرأت فَاَزَلْهُمَا بھی ہے تو معنی یہ ہوئے کہ اس جنت سے ان دونوں کو بےتعلق اور الگ کر دیا

اور دوسرے معنی یہ بھی ہوئے کہ اسی درخت کے سبب شیطان نے انہیں بہکا دیا۔

لفظ عَنْ سبب کے معنی میں بھی آیا ہے يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ (۵۱:۹)میں۔

وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ (۳۶)

اور ہم نے کہہ دیا کہ اتر جاؤ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور ایک وقت مقرر تک تمہارے لئے زمین میں ٹھہرنا اور فائدہ اٹھانا ہے۔‏

اس نافرمانی کی وجہ سے جنتی لباس اور وہ پاک مکان، نفیس روزی وغیرہ سب چھن گئی اور دنیا میں اتار دئیے گئے اور کہہ دیا گیا کہ اب تو زمین میں ہی تمہارا رزق ہے، قیامت تک یہیں پڑے رہو گے اور اس سے فائدہ حاصل کرتے رہو گے۔

سانپ اور ابلیس کا قصہ،یعنی ابلیس کس طرح جنت میں پہنچا۔ کس طرح وسوسہ ڈالا وغیرہ،اس کے بارے میں لمبے چوڑے قصے مفسرین نے لکھے ہیں لیکن وہ سب بنی اسرائیل کے ہاں کا خزانہ ہے، تاہم ہم انہیں سورۃ اعراف میں بیان کریں گے کیونکہ اس واقعہ کا بیان وہاں کسی قدر تفصیل کے ساتھ ہے۔

 ابن ابی حاتم کی ایک حدیث میں ہے :

 درخت کا پھل چکھتے ہی جنتی لباس اتر گیا۔ اپنے تئیں ننگا دیکھ کر ادھر ادھر دوڑنے لگے لیکن چونکہ قد طویل تھا اور سر کے بال لمبے تھے، وہ ایک درخت میں اٹک گئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے آدم کیا مجھ سے بھاگتے ہو؟

عرض کیا نہیں الہٰی میں تو شرمندگی سے منہ چھپائے پھرتا ہوں۔

ایک روایت میں ہے  کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے آدم! میرے پاس سے چلے جاؤ، مجھے میری عزت کی قسم میرے پاس میرے نافرمان نہیں رہ سکتے، اگر اتنی مخلوق تم میں پیدا کروں کہ زمین بھر جائے اور پھر وہ میری نافرمانی کرے تو یقیناً میں اسے بھی نافرمانوں کے گھر میں پہنچا دوں۔

 یہ روایت غریب ہے اور ساتھ ہی اس میں انقطاع بلکہ اعضال بھی ہے۔

 حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ حضرت آدمؑ نماز عصر کے بعد سے لے کر سورج کے غروب ہونے تک کی ایک ساعت ہی جنت میں رہے۔

حضرت حسن فرماتے ہیں یہ ایک ساعت ایک سو تیس سال کی تھی۔

ربیع بن انس فرماتے ہیں نویں یا دسویں ساعت میں حضرت آدم کا اخراج ہوا۔ ان کے ساتھ جنت کی ایک شاخ تھی اور جنت کے درخت کا ایک تاج سر پر تھا۔

سدی کا قول ہےحضرت آدمؑ ہند میں اترے، آپ کے ساتھ حجر اسود تھا اور جنتی درخت کے پتے جو ہند میں پھیلا دئیے اور اس سے خوشبودار درخت پیدا ہوئے۔

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں ہند کے شہر "دھنا" میں اترے تھے۔

ایک روایت میں ہے کہ مکہ اور طائف کے درمیان اترے تھے۔

حسن بصری فرماتے ہیں حضرت آدم ہند میں اور مائی حواہ جدہ میں اتریں اور ابلیس بصرہ سے چند میل کے فاصلہ پر دست میساں میں پھینکا گیا اور سانپ اصفہان میں۔

ابن عمر ؓکا قول ہے کہ حضرت آدم ؑصفا پر اور حضرت حوا مروہ پر اتریں۔ اترتے وقت دونوں ہاتھ گھٹنوں پر تھے اور سر جھکا ہوا تھا اور ابلیس انگلیوں میں انگلیاں ڈالے آسمان کی طرف نظریں جمائے اترا۔

حضرت ابو موسیٰ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں تمام صفتیں سکھا دیں اور پھلوں کا توشہ دیا۔

ایک حدیث میں ہے :

تمام دنوں میں بہتر دن جمعہ کا دن ہے، اسی میں حضرت آدم پیدا کئے گئے، اسی میں جنت میں داخل کئے گئے۔ اور اسی دن نکالے گئے ( صحیح مسلم اور نسائی)

امام رازی فرماتے ہیں اس آیت میں کئی وجوہ سے ڈانٹ ڈپٹ ہے ۔ اول تو یہ سوچنا چاہئے کہ ذرا سی لغزش پر حضرت آدم علیہ السلام کو کس قدر سزا ہوئی۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

تم گناہوں پر گناہ کئے جاتے ہو اور جنت کے طالب ہو

کیا تم بھول گئے کہ تمہارے باپ آدم علیہ السلام کو محض ایک ہلکے سے گناہ پر جنت سے نکال دیا گیا۔

ہم تو یہاں دشمن کی قید میں ہیں،

دیکھئے! کب صحت و سلامتی کے ساتھ اپنے وطن پہنچیں۔

فتح موصلی کہتے ہیں ہم جنتی تھے، ابلیس کے بہکانے میں آ کر دنیا کی قید میں آ پھنسے، اب سوائے غم و رنج کے یہاں کیا رکھا ہے؟ یہ قید و بند اسی وقت ٹوٹے گی جب ہم وہیں پہنچ جائیں جہاں سے نکالے گئے ہیں۔

اگر کوئی معترض اعتراض کرے کہ جب آدم علیہ السلام آسمانی جنت میں تھے اور ابلیس راندہء درگاہ ہو چکا تھا تو پھر وہ وہاں کیسے پہنچا؟ تو اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ وہ جنت زمین میں تھی لیکن اس کے علاوہ اور بھی بہت سے جواب ہیں کہ بطور اکرام کے اس کا داخل ہونامنع تھانہ کہ بطور اہانت اور چوری کے۔ چنانچہ تورات میں ہے کہ سانپ کے منہ میں بیٹھ کر جنت میں گیا اور یہ بھی جواب ہے کہ وہ جنت میں نہیں گیا تھا بلکہ باہر ہی سے اس نے وسوسہ ان کے دل میں ڈالا تھا۔ اور بعض نے کہا ہے کہ زمین سے ہی وسوسہ ان کے دل میں ڈالا۔

قرطبی نے یہاں پر سانپوں کے بارے میں اور ان کے مار ڈالنے کے حکم سے متعلق حدیثیں بھی تحریر کی ہیں جو بہت مفید اور باموقع ہیں۔

فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ (۳۷)

آدم ؑ نے اپنے رب سے چند باتیں سیکھ لیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی، بیشک وہ ہی توبہ قبول کرنے والا ہے۔‏

جو کلمات حضرت آدم نے سیکھے تھے ان کا بیان خود قرآن میں موجود ہے:

قَالاَ رَبَّنَا ظَلَمْنَآ أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَـسِرِينَ (۷:۲۳)

دونوں نے کہا اے ہمارے رب! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرےگا اور ہم پر رحم نہ کرےگا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہو جائیں گے

اکثر بزرگوں کا یہی قول ہے۔

ابن عباسؓ سے احکام حج سیکھنا بھی مروی ہے۔

عبید بن عمیر کہتے ہیں وہ کلمات یہ تھے :

انہوں نے کہا الہٰی جو خطا میں نے کی کیا اسے میرے پیدا کرنے سے پہلے میری تقدیر میں لکھ دیا گیا تھا؟ یا میں نے خود اس کی ایجاد کی؟

جواب ملا کہ ایجاد نہیں بلکہ پہلے ہی لکھ دیا گیا تھا

اسے سن کر آپ نے کہا پھر اے اللہ مجھے بخشش اور معافی مل جائے ابن عباسؓ سے یہ بھی روایت ہے :۔

حضرت آدمؑ نے کہا الہٰی کیا تو نے مجھے اپنے ہاتھ سے پیدا نہیں کیا؟

 اور مجھ میں اپنی روح نہیں پھونکی؟

میرے چھینکنے پر یرحمک اللہ نہیں کہا؟

کیا تیری رحمت غضب پر سبقت نہیں کر گئی؟

کیا میری پیدائش سے پہلے یہ خطا میری تقدیر میں نہیں لکھی تھی؟

جواب ملا کہ ہاں۔

یہ سب میں نے کیا ہے تو کہا پھر یا اللہ میری توبہ قبول کر کے مجھے پھر جنت مل سکتی ہے یا نہیں؟

جواب ملا کہ ہاں۔

یہ کلمات یعنی چند باتیں تھیں جو آپ نے اللہ سے سیکھ لیں۔

ابن ابی حاتم ایک ایک مرفوع روایت میں ہے:

حضرت آدم ؑ نے کہا الہٰی اگر میں توبہ کروں اور رجوع کروں تو کیا جنت میں پھر بھی جا سکتا ہوں؟ جواب ملا کہ ہاں۔

اللہ سے کلمات کی تلقین حاصل کرنے کے یہی معنی ہیں۔

لیکن یہ حدیث غریب ہونے کے علاوہ منقطع بھی ہے۔

بعض بزرگوں سے مروی ہے کہ کلمات کی تفسیر رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اور ان سب باتوں پر مشتمل ہے

حضرت مجاہد سے مروی ہے کہ وہ کلمات یہ ہیں:

اللھم لا الہ الا انت سبحانک وبحمدک رب انی ظلمت نفسی فاغفرلی انک خیر الغافرین

 اللھم لا الہ الا انت سبحانک وبحمدک رب انی ظلمت نفسی فارحمنی انک خیرالراحمین

 اللھم لا الہ الا انت سبحانک وبحمدک رب انی ظلمت نفسی فتب علی انک انت التواب الرحیم

قرآن کریم میں اور جگہ ہے:

أَلَمْ يَعْلَمُواْ أَنَّ اللَّهَ هُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ (۹:۱۰۴)

کیا لوگ نہیں جانتے کہا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے؟

 اور جگہ ہے:

وَمَنْ يَعْمَلْ سُوءًا أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللَّهَ يَجِدِ اللَّهَ غَفُورًا رَحِيمًا (۴:۱۱۰)

جو شخص کوئی برائی کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ سے استغفار کرے تو اللہ کو بخشنے والا، مہربانی کرنے والا پائے گا

یعنی جو شخص کوئی برا کام کر گزرے یا اپنی جان پر ظلم کر بیٹھے پھر توبہ استغفار کرے تو وہ دیکھ لے گا کہ اللہ اس کی توبہ قبول کر لے گا اور اسے اپنے رحم و کرم میں لے لے گا۔ اور جگہ ہے:

وَمَن تَابَ وَعَمِلَ صَـلِحاً (۲۵:۷۱)

اور جو شخص توبہ کرے اور نیک عمل کرے

ان سب آیتوں میں ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے،

اسی طرح یہاں بھی یہی فرمان ہے کہ وہ اللہ توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول کرنے والا اور بہت بڑے رحم و کرم والا ہے۔

اللہ تعالیٰ کے اس عام لطف و کرم، اس کے اس فضل و رحم کو دیکھو کہ وہ اپنے گنہگار بندوں کو بھی اپنے در سے محروم نہیں کرتا۔سچ ہے اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، نہ اس سے زیادہ کوئی مہرو کرم والا نہ اس سے زیادہ کوئی خطا بخشنے والا اور رحم و بخشش عطا فرمانے والا۔

قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا ۖ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّي هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (۳۸)

ہم نے کہا تم سب یہاں سے چلے جاؤ، جب کبھی تمہارے پاس میری ہدایت پہنچے تو اس کی تابعداری کرنے والوں پر کوئی خوف و غم نہیں۔‏

جنت سے نکالتے ہوئے جو ہدایت حضرت آدمؑ حضرت حوا اور ابلیس کو دی گئی اس کا بیان یہاں ہو رہا ہے کہ ہماری طرف سے کتابیں انبیاء اور رسول بھیجے جائیں گے، معجزات ظاہر کئے جائیں گے، دلائل بیان فرمائے جائیں گے، راہ حقوق واضح کر دی جائے گی، آنحضرت محمد ﷺ بھی آئیں گے، آپ پر قرآن کریم بھی نازل فرمایا جائے گا، جو بھی اپنے زمانے کی کتاب اور نبی کی تابعداری کرے گا اسے آخرت کے میدان میں کوئی خوف نہ ہو گا اور نہ ہی دنیا کے کھو جانے پر کوئی غم ہو گا۔

سورۃ طہ میں بھی یہی فرمایا گیا ہے:

قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيعًا ۖ ۔۔۔ وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ (۲۰:۱۲۳)

فرمایا، تم دونوں یہاں سے اتر جاؤ تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہو، اب تمہارے پاس جب کبھی میری طرف سے ہدایت پہنچے تو میری ہدایت کی پیروی کرے نہ تو وہ بہکے گا نہ تکلیف میں پڑے گا۔

‏ اور (ہاں) جو میری یاد سے روگردانی کرے گا اس کی زندگی تنگی میں رہے گی، اور ہم اسے بروز قیامت اندھا کرکے اٹھائیں گے

یعنی میری ہدایت کی پیروی کرنے والے نہ گمراہ ہوں گے، نہ بدبخت و بےنصیب۔ مگر میری یاد سے منہ موڑنے والے دنیا کی تنگی اور آخرت کے اندھا پن کے عذاب میں گرفتار ہوں گے۔

وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (۳۹)

اور جو انکار کر کے ہماری آیتوں کو جھٹلائیں، وہ جہنمی ہیں اور ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔

یہاں بھی فرمایا کہ انکار اور تکذب کرنے والے ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔

ابن جریر کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :

جو اصلی جہنمی ہیں انہیں تو جہنم میں نہ موت آئے گی، نہ ہی خوشگوار زندگی ملے گی، ہاں جن موحد، متبع، سنت لوگوں کو ان کی بعض خطاؤں پر جہنم میں ڈالا جائے گا یہ جل کر کوئلے ہو ہو کر مر جائیں گے اور پھر شفاعت کی وجہ سے نکال لئے جائیں گے۔

صحیح مسلم شریف میں بھی یہ حدیث ہے :

بعض تو کہتے ہیں دوسری دفعہ جنت سے نکل جانے کے حکم کو ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ یہاں دوسرے احکام بیان کرنا تھے

 اور بعض کہتے ہیں پہلی مرتبہ جنت سے آسمان اول اتار دیا گیا تھا دوبارہ آسمان اول سے زمین کی طرف اتارا گیا

لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے واللہ اعلم۔

يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُمْ وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ (۴۰)

بنی اسرائیل میری اس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر انعام کی اور میرے عہد کو پورا کرو میں تمہارے عہد کو پورا کرونگا اور مجھ ہی سے ڈرو‏

ان آیتوں میں بنی اسرائیل کو اسلام قبول کرنے اور حضور علیہ السلام کی تابعداری کرنے کا حکم دیا گیا ہےاور انتہائی لطیف پیرایہ میں انہیں سمجھایا گیا ہے کہ تم ایک پیغمبر کی اولاد میں سے ہو تمہارے ہاتھوں میں کتاب اللہ موجود ہے اور قرآن اس کی تصدیق کر رہا ہے پھر تمہیں نہیں چاہئے کہ سب سے پہلے انکار تمہیں سے شروع ہو۔

اسرائیل حضرت یعقوب علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام تھا تو گویا ان سے کہا جاتا ہے کہ تم میرے صالح اور فرمانبردار بندے کی اولاد ہو۔ تمہیں چاہیے کہ اپنے جدِامجد کی طرح حق کی تابعداری میں لگ جاؤ۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ تم سخی کے لڑکے ہو سخاوت میں آگے بڑھو تم پہلوان کی اولاد ہو داد شجاعت دو۔ تم عالم کے بچے ہو علم میں کمال پیدا کرو۔

دوسری جگہ اسی طرز کلام کو اسی طرح ادا کیا گیا ہے:

ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ إِنَّهُ كَانَ عَبْدًا شَكُورًا (۱۷:۳)

اے ان لوگوں کی اولاد! جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ سوار کر دیا تھا، وہ ہمارا بڑا ہی شکر گزار بندہ تھا

یعنی ہمارے شکر گزار بندے حضرت نوح کے ساتھ جنہیں ہم نے ایک عالمگیر طوفان سے بچایا تھا یہ ان کی اولاد ہے

ایک حدیث میں ہے:

یہودیوں کی ایک جماعت سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ کیا تم نہیں جانتے کہ اسرائیل حضرت یعقوبؑ کا نام تھا وہ سب قسم کھا کر کہتے ہیں کہ واللہ یہ سچ ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا اے اللہ تو گواہ رہ۔

اسرائیل کے لفظی معنی عبداللہ کے ہیں

ان نعمتوں کو یاد دلایا جاتا ہے جو قدرت کاملہ کی بڑی بڑی نشانیاں تھیں۔ مثلاً پتھر سے نہروں کو جاری کرنا۔ من و سلویٰ اتارنا۔ فرعونیوں سے آزاد کرنا۔ انہیں میں سے انبیاء اور رسولوں کو مبعوث کرنا۔ ان میں سلطنت اور بادشاہی عطا فرمانا وغیرہ

ان کو ہدایت دی جاتی ہے میرے وعدوں کو پورا کرویعنی میں نے جو عہد تم سے لیا تھا کہ جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے پاس آئیں اور ان پر میری کتاب قرآن کریم نازل ہو تو تم اس پر اور آپ کی ذات پر ایمان لانا۔ وہ تمہارے بوجھ ہلکے کریں گے اور تمہاری زنجیریں توڑ دیں گے اور تمہارے طوق اتار دیں گے اور میرا وعدہ بھی پورا ہو جائے گا کہ میں تمہیں اس دین کے سخت احکام کے متبادل آسان دین دوں گا۔

دوسری جگہ اس کا بیان اس طرح ہوتا ہے :

وَقَالَ اللَّهُ إِنِّي مَعَكُمْ ۖ ۔۔۔ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ (۵:۱۲)

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یقیناً میں تمہارے ساتھ ہوں،

 اگر تم نماز قائم رکھو گے اور زکوٰۃ دیتے رہو گے اور میرے رسولوں کو مانتے رہو گے اور ا نکی مدد کرتے رہو گے اور اللہ تعالیٰ کو بہتر قرض دیتے رہو گے

تو یقیناً میں تمہاری برائیاں تم سے دور رکھوں گا اور تمہیں ان جنتوں میں لے جاؤں گا جن کے نیچے چشمے بہہ رہے ہیں،

یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ تورات میں وعدہ کیا گیا تھا کہ میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک اتنا بڑا عظیم الشان پیغمبر پیدا کر دونگا جس کی تابعداری تمام مخلوق پر فرض ہو گی ان کے تابعداروں کو بخشوں گا انہیں جنت میں داخل کروں گا اور دوہرا اجر دوں گا۔

حضرت امام رازی نے اپنی تفسیر میں بڑے بڑے انبیاء علیہم السلام سے آپ کی بابت پیشین گوئی نقل کی ہے

یہ بھی مروی ہے کہ اللہ کا عہد اسلام کو ماننا اور اس پر عمل کرنا تھا ۔اللہ کا اپنے عہد کو پورا کرنا ان سے خوش ہونا اور جنت عطا فرمانا ہے

مزید فرمایا مجھ سے ڈرو ایسا نہ ہو جو عذاب تم سے پہلے لوگوں پر نازل ہوئے کہیں تم پر بھی نہ آ جائیں۔

اس لطیف پیرایہ کو بھی ملاحظہ فرمائیے کہ ترغیب کے بیان کے ساتھ ہی کس طرح ترہیب کے بیان کو ملحق کر دیا گیا ہے۔ رغبت و رہبت دونوں جمع کر کے اتباع حق اور نبوت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت دی گئی۔ قرآن کے ساتھ نصیحت حاصل کرنے اس کے بتلائے ہوئے احکام کو ماننے اور اس کے روکے ہوئے کاموں سے رک جانے کی ہدایت کی گئی۔

اسی لئے اس کے بعد ہی فرمایا کہ

‎ وَآمِنُوا بِمَا أَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَكُمْ وَلَا تَكُونُوا أَوَّلَ كَافِرٍ بِهِ ۖ

اور اس کتاب پر ایمان لاؤ جو میں نے تمہاری کتابوں کی تصدیق میں نازل فرمائی ہے اور اس کے ساتھ تم ہی پہلے کافر نہ بنو

تم اس قرآن حکیم پر ایمان لاؤ جو تمہاری کتاب کی بھی تصدیق اور تائید کرتا ہے جسے لے کر وہ نبی آئے ہیں جو اُمی ہیں عربی ہیں، جو بشیر ہیں، جو نذیر ہیں، جو سراج منیر ہیں جن کا اسم شریف محمد ہے صلی اللہ علیہ وسلم۔ جو تورات  اور انجیل کی تصدیق کرنے والے اور حق کو پھیلانے والے ہیں، چونکہ تورات و انجیل میں بھی آپ ﷺ کا ذکر تھا تو آپ ﷺ کا تشریف لانا تورات کی سچائی کی دلیل تھی اس لئے کہا گیا کہ وہ تمہارے ہاتھوں میں موجود کتابوں کی تصدیق کرتے ہیں۔ علم ہونے کے باوجود تم ہی سب سے پہلے انکار نہ کرو

بعض کہتے ہیں بِهِ کی ضمیر کا مرجع قرآن ہے اور پہلے آ بھی چکا ہے بِمَا أَنْزَلْتُ اور دونوں قول درحقیقت سچے اور ایک ہی ہیں۔ قرآن کو ماننا رسول کو ماننا ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق قرآن کی تصدیق ہے۔

اول کافر سے مراد بنی اسرائیل کے اولین منکر ہیں کیونکہ کفار قریش بھی انکار اور کفر کر چکے تھے۔ لہذا بنی اسرائیل کا انکار اہل کتاب میں سے پہلی جماعت کا انکار تھا اس لئے انہیں اول کافر کہا گیا ان کے پاس وہ علم تھا جو دوسروں کے پاس نہ تھا۔

وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا وَإِيَّايَ فَاتَّقُونِ (۴۱)

اور میری آیتوں کو تھوڑی تھوڑی قیمتوں پر نہ فروخت کرو اور صرف مجھ ہی سے ڈرو۔‏

میری آیتوں کے بدلے تھوڑا مول نہ لو یعنی دنیا کے بدلے جو قلیل اور فانی ہے میری آیات پر ایمان لانا اور میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرنا نہ چھوڑو اگرچہ دنیا ساری کی ساری بھی مل جائے جب بھی وہ آخرت کے مقابلہ میں تھوڑی بہت تھوڑی ہے اور یہ خود ان کی کتابوں میں بھی موجود ہے۔

سنن ابوداؤد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 جو شخص اس علم کو جس سے اللہ کی رضامندی حاصل ہوئی ہے اس لئے سیکھے کہ اس سے دنیا کمائے وہ قیامت کے روز جنت کی خوشبو تک نہ پائے گا

علم سکھانے کی اجرت بغیر مقرر کئے ہوئے لینا جائز ہے اسی طرح علم سکھانے والے علماء کو بیت المال سے لینا بھی جائز ہے تاکہ وہ خوش حال رہ سکیں اور اپنی ضروریات پوری کر سکیں۔ اگر بیت المال سے کچھ مال نہ ملتا ہو اور علم سکھانے کی وجہ سے کوئی کام دھندا بھی نہ کر سکتے ہوں تو پھر اجرت مقرر کر کے لینا بھی جائز ہے

 امام مالک امام شافعی، امام احمد اور جمہور علماء کا یہی مذہب ہے اس کی دلیل وہ حدیث بھی ہے جو صحیح بخاری شریف میں حضرت ابوسعید خدری کی روایت سے ہے :

انہوں نے اجرت مقرر کر لی اور ایک سانپ کے کاٹے ہوئے شخص پر قرآن پڑھ کر دم کیا جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ قصہ پیش ہوا تو آپ نے فرمایا ان احق ما اخذتم علیہ اجرا کتاب اللہ یعنی جن چیزوں پر تم اجرت لے سکتے ہو ان سب میں زیادہ حقدار کتاب اللہ ہے

دوسری مطول حدیث میں ہے :

ایک شخص کا نکاح ایک عورت سے آپﷺ کر دیتے ہیں اور فرماتے ہیں:

 زوجتکھا بما معک من القران

میں نے اس کو تیری زوجیت میں دیا اور تو اسے قرآن حکیم جو تجھے یاد ہے اسے بطور حق مہر یاد کرا دے

ابو داؤد کی ایک حدیث میں ہے:

 ایک شخص نے اہل صفہ میں سے کسی کو کچھ قرآن سکھایا اس نے اسے ایک کمان بطور ہدیہ دی اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا۔ آپﷺ نے فرمایا:

 اگر تجھے آگ کی کمان لینی ہے تو اسے لے چنانچہ اس نے اسے چھوڑ دیا۔

حضرت ابی بن کعب صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ایسی ہی ایک مرفوع حدیث مروی ہے۔

ان دونوں احادیث کا مطلب یہ ہے کہ جب اس نے خالص اللہ کے واسطے کی نیت سے سکھایا پھر اس پر تحفہ اور ہدیہ لے کر اپنے ثواب کو کھونے کی کیا ضرورت ہے؟ اور جبکہ شروع ہی سے اجرت پر تعلیم دی ہے تو پھر بلاشک و شبہ جائز ہے جیسے اوپر کی دونوں احادیث میں بیان ہو چکا ہے۔ واللہ اعلم۔

صرف اللہ ہی سے  ڈرنے کے یہ معنی ہیں کہ اللہ کی رحمت کی امید پر اس کی عبادت و اطاعت میں لگا ہے اور اس کے عذابوں سے ڈر کر اس کی نافرمانیوں کو چھوڑ دے اور دونوں حالتوں میں اپنے رب کی طرف سے دئیے گئے نور پر گامزن رہے۔

غرض اس جملہ سے انہیں خوف دلایا گیا کہ وہ دنیاوی لالچ میں آ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کو جو اس کی کتابوں میں ہے نہ چھپائیں اور دنیوی ریاست کی طمع پر آپ کی مخالفت پر آمادہ نہ ہوں بلکہ رب سے ڈر کر اظہار حق کرتے رہیں۔

وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَقَّ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ (۴۲)

اور حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط نہ کرو اور نہ حق کو چھپاؤ، تمہیں تو خود اس کا علم ہے۔‏

یہودیوں کی اس بدخصلت پر ان کو تنبیہ کی جا رہی ہے کیونکہ وہ جاننے کے باوجود کبھی تو حق و باطل کو خلط ملط کر دیا کرتے تھے کبھی حق کو چھپا لیا کرتے تھے۔ کبھی باطل کو ظاہر کرتے تھے۔ لہذا انہیں ان ناپاک عادتوں کے چھوڑنے کو کہا گیا ہے اور حق کو ظاہر کرنے اور اسے کھول کھول کر بیان کرنے کی ہدایت کی حق و باطل سچ جھوٹ کو آپس میں نہ ملاؤ اللہ کے بندوں کی خیر خواہی کرو۔ یہودیت و نصرانیت کی بدعات کو اسلام کی تعلیم کے ساتھ نہ ملاؤ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت پیش گوئیاں جو تمہاری کتابوں میں پاتے ہو انہیں عوام الناس سے نہ چھپاؤ

تَكْتُمُوا مجزوم بھی ہو سکتا ہے اور منصوب بھی یعنی اسے اور اسے جمع نہ کرو۔

ابن مسعود کی قرأت میں تَكْتُمُون بھی ہے۔ یہ حال ہو گا اور اس کے بعد کا جملہ بھی حال ہے معین یہ ہوئے کہ حق کو حق جانتے ہوئے ایسی بےحیائی نہ کرو۔

 اور یہ بھی معنی ہیں کہ علم کے باوجود اسے چھپانے اور ملاوٹ کرنے کا کیسا عذاب ہو گا۔ اس کا علم ہو کر بھی افسوس کہ تم بدکرداری پر آمادہ نظر آتے ہو۔

وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ (۴۳)

اور نمازوں کو قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔‏

پھر انہیں حکم دیا جاتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نمازیں پڑھو زکوٰۃ دو اور اُمت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رکوع و سجود میں شامل رہا کرو، انہیں میں مل جاؤ اور خود بھی آپﷺ کی ہی اُمت بن جاؤ،

اطاعت و اخلاص کو بھی زکوٰۃ کہتے ہیں۔

ابن عباسؓ اس آیت کی تفسیر میں یہی فرماتے ہیں زکوٰۃ دو سو درہم پر۔ پھر اس سے زیادہ رقم پر واجب ہوتی ہے نماز و زکوٰۃ و فرض و واجب ہے۔ اس کے بغیر سبھی اعمال غارت ہیں۔

 زکوٰۃ سے بعض لوگوں نے فطرہ بھی مراد لیا ہے۔

 رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو سے مراد یہ ہے کہ اچھے اعمال میں ایمانداروں کا ساتھ دو اور ان میں بہترین چیز نماز ہے

 اس آیت سے اکثر علماء نے نماز باجماعت کے فرض ہونے پر بھی استدلال کیا ہے اور یہاں پر امام قرطبی نے مسائل جماعت کو سبط سے بیان فرمایا ہے۔

أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَكُمْ وَأَنْتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (۴۴)

کیا لوگوں کو بھلائیوں کا حکم کرتے ہو؟ اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو باوجودیکہ تم کتاب پڑھتے ہو، کیا اتنی بھی تم میں سمجھ نہیں؟‏

یعنی اہل کتاب اس علم کے باوجود جو کہے اور نہ کرے اس پر کتنا عذاب نازل ہوتا ہے پھر تم خود ایسا کرنے لگے ہو؟

 جیسا دوسروں کو تقویٰ طہارت اور پاکیزگی سکھاتے ہو خود بھی تو اس کے عامل بن جاؤ لوگوں کو روزے نماز کا حکم دینا اور خود اس کے پابند نہ ہونا یہ تو بڑی شرم کی بات ہے

دوسروں کو کہنے سے پہلے انسان کو خود عامل ہونا ضروری ہے اپنی کتاب کے ساتھ کفر کرنے سے لوگوں کو روکتے ہو لیکن اللہ کے اس نبی کو جھٹلا کر تم خود اپنی ہی کتاب کے ساتھ کفر کیوں کرتے ہو؟

یہ بھی مطلب ہے کہ دوسروں کو اس دین اسلام کو قبول کرنے کے لئے کہتے ہو مگر دنیاوی ڈر خوف سے خود قبول نہیں کرتے۔

حضرت ابوالدردا رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

انسان پورا سمجھدار نہیں ہو سکتا جب تک کہ لوگوں کو اللہ کے خلاف کرتے ہوئے دیکھ کر ان کا دشمن نہ بن جائے  اور اپنے نفس کا ان سے بھی زیادہ۔

ان لوگوں کو اگر رشوت وغیرہ نہ ملتی تو حق بتا دیتے لیکن خود عامل نہ تھے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی مذمت کی۔

یہاں پر یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اچھی چیز کا حکم دینے پر ان کی برائی نہیں کی گئی بلکہ خود نہ کرنے پر برائی بیان کی گئی ہے اچھی بات کو کہنا تو خود اچھائی ہے بلکہ یہ تو واجب ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ انسان کو خود بھی اس پر عمل کرنا چاہئے جیسے حضرت شعیب علیہ السلام نے فرمایا تھا :

وَمَآ أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ ۔۔۔ إِلاَّ بِاللَّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ (۱۱:۸۸)

میرا ارادہ تو اپنی طاقت بھر اصلاح کرنے کا ہی ہے میری توفیق اللہ ہی کی مدد سے ہے اسی پر میرا بھروسہ ہے اور اسیکی طرف میں رجوع کرتا ہوں

یعنی میں ایسا نہیں ہوں کہ تمہیں جس کام سے روکوں وہ خود کروں میرا ارادہ تو اپنی طاقت کے مطابق اصلاح کا ہے میری توفیق اللہ کی مدد سے ہے میرا بھروسہ اسی پر ہے اور میری رغبت و رجوع بھی اسی کی طرف ہے

پس نیک کاموں کے کرنے کے لئے کہنا بھی واجب ہے اور خود کرنا بھی۔ ایک واجب کو نہ کرنے سے دوسرا بھی چھوڑ دینا نہیں چاہئے۔ علماء سلف و خلف کا قول یہی ہے

 گو بعض کا ایک ضعیف قول یہ بھی ہے کہ برائیوں والا دوسروں کو اچھائیوں کا حکم نہ دےلیکن یہ قول ٹھیک نہیں، پھر ان حضرات کا اس آیت سے دلیل پکڑنا تو بالکل ہی ٹھیک نہیں

 بلکہ صحیح یہی ہے کہ بھلائی کا حکم کرے اور برائی سے روکے اور خود بھی بھلائی کرے اور برائی سے رکے۔ اگر دونوں چھوڑے گا تو دوہرا گنہگار ہو گا ایک کے ترک پر اکہرا۔

طبرانی کی معجم کبیر میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جو عالم لوگوں کو بھلائی سکھائے اور خود عمل نہ کرے اس کی مثال چراغ جیسی ہے کہ لوگ اسی کی روشنی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ لیکن وہ خود جل رہا ہے

یہ حدیث غریب ہے

مسند احمد کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

معراج والی رات میں نے دیکھا کہ کچھ لوگوں کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے ہیں میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں تو کہا گیا کہ یہ آپ کی اُمت کے خطیب اور واعظ اور عالم ہیں جو لوگوں کو بھلائی سکھاتے تھے مگر خود نہیں کرتے تھے علم کے باوجود سمجھتے نہیں تھے۔

دوسری حدیث میں ہے کہ ان کی زبانیں اور ہونٹ دونوں کاٹے جا رہے تھے

یہ حدیث صحیح ہے ابن حبان ابن ابی حاتم ابن مردویہ وغیرہ میں موجود ہے۔

ابووائل فرماتے ہیں :

ایک مرتبہ حضرت اسامہؓ سے کہا گیا کہ آپ حضرت عثمانؓ سے کچھ نہیں کہتے

آپ نے جواب دیا کہ تمہیں سنا کر ہی کہوں تو ہی کہنا ہو گا میں تو انہیں پوشیدہ طور پر ہر وقت کہتا رہتا ہوں لیکن میں کسی بات کو پھیلانا نہیں چاہتا اللہ کی قسم میں کسی شخص کو سب سے افضل نہیں کہوں گا اس لئے کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ایک شخص کو قیامت کے دن لایا جائے گا اور اسے جہنم میں ڈالا جائے گا اس کی آنتیں نکل آئیں گی اور وہ اس کے اردگرد چکر کھاتا رہے گا جہنمی جمع ہو کر اس سے پوچھیں گے کہ حضرت آپ تو ہمیں اچھی باتوں کا حکم کرنے والے اور برائیوں سے روکنے والے تھے یہ آپ کی کیا حالت ہے؟

 وہ کہے گا افسوس میں تمہیں کہتا تھا لیکن خود نہیں کرتا تھا میں تمہیں روکتا تھا لیکن خود نہیں رکتا تھا (مسند احمد)

بخاری مسلم میں بھی یہ روایت ہے

مسند کی ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پڑھ لوگوں سے اتنا درگزر کرے گا جتنا جاننے والوں سے نہیں کرے گا

 بعض آثار میں یہ بھی ہے کہ عالم کو ایک دفعہ بخشا جائے تو عام آدمی کو ستر دفعہ بخشا جاتا ہے عالم جاہل یکساں نہیں ہو سکتے

قرآن کریم میں ہے :

هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ۗ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ (۳۹:۹)

علم والے اور بےعلم کیا برابر ہیں یقیناً نصیحت وہی حاصل کرتے ہیں جو عقلمند ہوں

ابن عساکر میں ہے حضور علیہ السلام نے فرمایا:

جنتی لوگ جہنمیوں کو دیکھ کر کہیں گے کہ تمہاری نصیحتیں سن سن کر ہم تو جنتی بن گئے مگر تم جہنم میں کیوں آ پڑے

وہ کہیں گے افسوس ہم تمہیں کہتے تھے لیکن خود نہیں کرتے تھے۔

حضرت ابن عباسؓ سے ایک شخص نے کہا حضرت میں بھلائیوں کا حکم کرنا اور برائیوں سے لوگوں کو روکنا چاہتا ہوں

آپ نے فرمایا کیا تم اس درجہ تک پہنچ گئے ہو؟

 اس نے کہا ہاں

آپ نے فرمایا اگر تم ان تینوں آیتوں کی فضیحت سے نڈر ہو گئے ہو تو شوق سے وعظ شروع کرو۔

 اس نے پوچھا وہ تین آیتیں کیا ہیں؟

 آپ نے فرمایا:

أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَكُمْ (۲:۴۴)

کیا لوگوں کو بھلائیوں کا حکم کرتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو ؟

دوسری آیت:

يأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ لِمَ تَقُولُونَ مَا لاَ تَفْعَلُونَ ـ كَبُرَ مَقْتاً عِندَ اللَّهِ أَن تَقُولُواْ مَا لاَ تَفْعَلُونَ (۶۱:۲،۳)

اے ایمان والو! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں‏ تم جو کرتے نہیں اس کا کہنا اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے

تیسری آیت حضرت شعیب علیہ السلام کا فرمان:

وَمَآ أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَى مَآ أَنْهَـكُمْ عَنْهُ إِنْ أُرِيدُ إِلاَّ الإِصْلَـحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِيقِى إِلاَّ بِاللَّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ (۱۱:۸۸)

میرا ارادہ تو اپنی طاقت بھر اصلاح کرنے کا ہی ہے میری توفیق اللہ ہی کی مدد سے ہے اسی پر میرا بھروسہ ہے اور اسیکی طرف میں رجوع کرتا ہوں

کہو تم ان تینوں آیتوں سے بےخوف ہو؟

اس نے کہا نہیں

 فرمایا پھر تم اپنے نفس سے شروع کرو۔ (تفسیر مردویہ)

ایک ضعیف حدیث طبرانی میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جو لوگوں کو کسی قول فعل کی طرف بلائے اور خود نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کے غضب و غصہ میں رہتا ہے یہاں تک کہ وہ خود آپ عمل کرنے لگ جائے۔

 حضرت ابراہیم نخعی نے بھی حضرت ابن عباسؓ والی تینوں آیتیں پیش کر کے فرمایا ہے کہ میں ان کی وجہ سے قصہ گوئی پسند نہیں کرتا۔

وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ

صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو

اس آیت میں حکم فرمایا جاتا ہے کہ تم دنیا اور آخرت کے کاموں پر نماز اور صبر کے ساتھ مدد طلب کیا کرو، فرائض بجا لاؤ اور نماز کو ادا کرتے رہو روزہ رکھنا بھی صبر کرنا ہے اور اسی لئے رمضان کا صبر کا مہینہ کہا گیا ہےحضور ﷺ فرماتے ہیں:

 روزہ آدھا صبر ہے

 صبر سے مراد گناہوں سے رک جانا بھی ہے۔

 اس آیت میں اگر صبر سے یہ مراد لی جائے تو برائیوں سے رکنا اور نیکیاں کرنا دونوں کا بیان ہو گیا، نیکیوں میں سب سے اعلیٰ چیز نماز ہے۔

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں صبر کی دو قسمیں ہیں:

- مصیبت کے وقت صبر

- اور گناہوں کے ارتکاب سے صبر اور یہ صبر پہلے سے زیادہ اچھا ہے۔

حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں انسان کا ہر چیز کا اللہ کی طرف سے ہونے کا اقرار کرنا۔ ثواب کا طلب کرنا اللہ کے پاس مصیبتوں کے اجر کا ذخیرہ سمجھنا یہ صبر ہے

اللہ تعالیٰ کی مرضی کے کام پر صبر کرو اور اسے بھی اللہ تعالیٰ کی اطاعت سمجھو

نیکیوں کے کاموں پر نماز سے بڑی مدد ملتی ہے خود قرآن میں ہے:

اتْلُ مَا أُوْحِىَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَـبِ وَأَقِمِ الصَّلَوةَ إِنَّ الصَّلَوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْكَرِ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ (۲۹:۴۵)

جو کتاب آپ کی طرف وحی کی گئی ہے اسے پڑھئے اور نماز قائم کریں یقیناً نماز بےحیائی اور برائی سے روکتی ہے بیشک اللہ کا ذکر بڑی چیز ہے

حضرت حذیفہؓ فرماتے ہیں:

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی کام مشکل اور غم میں ڈال دیتا تو آپ ﷺنماز پڑھا کرتے فوراً نماز میں لگ جاتے۔ چنانچہ جنگ خندق کے موقع پر رات کے وقت جب حضرت حذیفہؓ خدمت نبوی میں حاضر ہوتے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں پاتے ہیں۔

حضرت علیؓ فرماتے ہیں بدر کی لڑائی کی رات میں نے دیکھا کہ ہم سب سو گئے تھے مگر اللہ کے رسول ﷺ ساری رات نماز میں مشغول رہے صبح تک نماز میں اور دعا میں لگے رہے۔

ابن جریر میں ہےنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا کہ بھوک کے مارے پیٹ کے درد سے بیتاب ہو رہے ہیں آپ نے ان سے (فارسی زبان میں) دریافت فرمایا کہ کیا تمہارے پیٹ میں درد ہے؟

انہوں نے کہا ہاں آپ ﷺنے فرمایا اٹھو نماز شروع کر دو اس میں شفا ہے

حضرت عبداللہ بن عباسؓ  کو سفر میں اپنے بھائی حضرت قثم کے انتقال کی خبر ملتی ہے تو آپ آیت إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (۲:۱۵۶) پڑھ کر راستہ سے ایک طرف ہٹ کر اونٹ بٹھا کر نماز شروع کر دیتے ہیں اور بہت لمبی نماز ادا کرتے ہیں پھر اپنی سواری کی طرف جاتے ہیں اور اس آیت کو پڑھتے ہیں

غرض ان دونوں چیزوں صبرو صلوٰۃ سے اللہ کی رحمت میسر آتی ہے

إِنَّهَا کی ضمیر کا مرجع بعض لوگوں نے تو الصَّلَاةِ یعنی نماز کو کہا ہے۔

بعض کہتے ہیں کہ کہ مدلول کلام یعنی وصیت اس کا مرجع ہے جیسے قارون کے قصہ میں وَلَا يُلَقَّاهَا (۲۸:۸۰) کی ضمیر اور برائی کے بدلے بھلائی کرنے کے حکم میں وَمَا يُلَقَّاهَا کی ضمیر۔

وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ (۴۵)

یہ چیز شاق ہے، مگر ڈر رکھنے والوں پر۔

مطلب یہ ہے کہ صبرو صلوٰۃ ہر شخص کے بس کی چیز نہیں یہ حصہ اللہ کا خوف رکھنے والی جماعت کا ہے یعنی قرآن کے ماننے والے سچے مؤمن کانپنے والے متواضع اطاعت کی طرف جھکنے والے وعدے وعید کو سچا ماننے والے ہیں اس وصف سے موصوف ہوتے ہیں جیسے حدیث میں ایک سائل کے سوال پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا :

یہ بڑی چیز ہے لیکن جس پر اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہو اس پر آسان ہے،

ابن جریرنے اس آیت کے معنی کرتے ہوئے اسے بھی یہودیوں سے ہی خطاب قرار دیا ہے لیکن ظاہر بات یہ ہے کہ گو یہ بیان انہی کے بارے میں لیکن حکم کے اعتبار سے عام ہے۔ واللہ اعلم

الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلَاقُو رَبِّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (۴۶)

جو جانتے ہیں کہ بیشک وہ اپنے رب سے ملاقات کرنے والے اور یقیناً اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔‏

 پھر  الْخَاشِعِينَ کی صفت ہے اس میں ظن معنی میں یقین کے ہے گو ظن شک کے معنی میں بھی آتا ہے جیسے کہ سدفہ اندھیرے کے معنی میں بھی آتا ہے اور روشنی کے معنی میں بھی اور صارخ کا لفظ بھی فریاد رس اور فریاد کن دونوں کے لئے بولا جاتا ہے اور اسی طرح کے بہت سے نام ہیں جو ایسی دو مختلف چیزوں پر بولے جاتے ہیں۔

ظن یقین کے معنی میں عرب شعراء کے شعروں میں بھی آیا ہے خود قرآن کریم میں ہے:

وَرَأَى الْمُجْرِمُونَ النَّارَ فَظَنُّوا أَنَّهُم مُّوَاقِعُوهَا  (۱۸:۵۳)

اور گنہگار جہنم کو دیکھ کر سمجھ لیں گے کہ وہ اسی میں جھونکے جانے والے ہیں

یہاں بھی ظن یقین کے معنی میں ہے بلکہ مجاہدؒ فرماتے ہیں قرآن میں ایسی جگہ ظن کا لفظ یقین اور علم کے معنی میں ہے

 ابوالعالیہ بھی یہاں ظن کے معنی یقین کرتے ہیں۔

حضرت مجاہد، سدی ربیع بن انس اور قتادہ کا بھی یہی قول ہے۔ ابن جریج بھی یہی فرماتے ہیں۔

قرآن میں دوسری جگہ ہے:

إِنِّي ظَنَنتُ أَنِّي مُلَاقٍ حِسَابِيَهْ (۶۹:۲۰)

مجھے تو کامل یقین تھا مجھے اپنا حساب ملنا ہے

 ایک صحیح حدیث میں ہے :

قیامت کے دن ایک گنہگار بندے سے اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا میں نے تجھے بیوی بچے نہیں دئیے تھے؟

کیا تجھ پر طرح طرح کے اکرام نہیں کئے تھے؟

کیا تیرے لئے گھوڑے اور اونٹ مسخر نہیں کئے تھے؟

کیا تجھے راحت و آرام کھانا پینا میں نے نہیں دیا تھا؟

یہ کہے گا ہاں پروردگار یہ سب کچھ دیا تھا۔

پھر کیا تیرا علم و یقین اس بات پر نہ تھا کہ تو مجھ سے ملنے والا ہے؟

وہ کہے گا ہاں اللہ تعالیٰ اسے نہیں مانتا تھا۔

 اللہ تعالیٰ فرمائے گا بس تو جس طرح مجھے بھول گیا تھا آج میں بھی تجھے بھلا دوں گا

اس حدیث میں بھی لفظ ظن کا ہے اور معنی میں یقین کے ہیں اس کی مزید تحقیق و تفصیل انشاء اللہ تعالیٰ آیت نَسُوا اللَّهَ فَأَنسَاهُمْ أَنفُسَهُمْ (۵۹:۱۹) کی تفسیر میں آگے آئے گی۔

يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ (۴۷)

اے اولاد یعقوب میری اس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر انعام کی اور میں نے تمہیں تمام جہانوں پر فضیلت دی

بنی اسرائیل کے آباؤ اجداد پر جو نعمت الہٰیہ انعام کی گئی تھی اس کا ذکر ہو رہا ہے کہ ان میں سے رسول ہوئے ان پر کتابیں اتریں انہیں ان کے زمانہ کے دوسرے لوگوں پر مرتبہ دیا گیا جیسے فرمایا:

وَلَقَدِ اخْتَرْنَـهُمْ عَلَى عِلْمٍ عَلَى الْعَـلَمِينَ (۴۴:۳۲)

انہیں ان کے زمانے کے ( اور لوگوں پر) ہم نے علم میں فضیلت دی۔

 اور فرمایا :

وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَـقَوْمِ ۔۔۔ أَحَداً مِّن الْعَـلَمِينَ (۵:۲۰)

موسیٰؑ نے فرمایا اے میری قوم! تم اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو یاد کرو جو تم پر انعام کی ہے اس نے تم سے پیغمبر بنائے اور تمہیں بادشاہ بنا دیا اور تمہیں وہ دیا جو تمام عالم میں کسی کو نہیں دیا

 تمام لوگوں پر فضیلت ملنے سے مراد ان کے زمانے کے تمام اور لوگ ہیں اس لئے کہ اُمت محمدیہ ان سے یقیناً افضل ہے اس اُمت کی نسبت فرمایا گیا ہے:

كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ۔۔۔ لَكَانَ خَيْراً لَّهُمْ (۳:۱۱۰)

تم بہترین اُمت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو اگر اہل کتاب بھی ایمان لاتے تو ان کے لئے بہتر تھا

مسانید اور سنن میں مروی ہے :

حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تم سترویں اُمت ہو اور سب سے بہتر اور بزرگ ہو

اس قسم کی اور بہت سی احادیث کا ذکر انشاء اللہ آیت كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ (۳:۱۱۰)کی تفسیر میں آئے گا

اور کہا گیا ہے کہ تمام لوگوں پر خاص قسم کی فضیلت مراد ہے جس سے ہر قسم کی فضیلت لازم نہیں آتی رازی نے یہی کہا ہے مگر یہ غور طلب بات ہے

اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کی فضیلت اور تمام اُمتوں پر ہے اس لئے کہ انبیاء کرام انہی میں سے ہوتے چلے آئے ہیں لیکن اس میں بھی غورو خوض کی ضرورت ہے اس لئے کہ اس طرح کے اطلاق کے اجتماعی اعزاز کو اگلے لوگوں پر بھی ہوتا ہے۔ اور حقیقت میں اگلے انبیاء ان میں شمار نہ تھے جیسے حضرت ابراہیم خلیل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جو ان سب کے بعد ہوئے لیکن تمام مخلوق سے افضل تھے اور جو تمام اولاد آدم کے سردار ہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، صلوٰۃ اللہ وسلامہ علیہ ۔

وَاتَّقُوا يَوْمًا لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا

اس دن سے ڈرتے رہو جب کوئی کسی کو نفع نہ دے سکے گا

نعمتوں کو بیان کرنے کے بعد عذاب سے ڈرایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ کوئی کسی کو کچھ فائدہ نہ دے گا جیسے فرمایا :

وَلاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى (۳۵:۱۸)

کوئی بھی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا

اور فرمایا :

لِكُلِّ امْرِىءٍ مِّنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ (۸۰:۳۷)

ان میں سے ہر ایک کو اس دن ایسی فکر (دامن گیر) ہوگی جو اس کے لئے کافی ہوگی

 اور فرمایا:

يأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمْ وَاخْشَوْاْ يَوْماً لاَّ يَجْزِى وَالِدٌ عَن وَلَدِهِ وَلاَ مَوْلُودٌ هُوَ جَازٍ عَن وَالِدِهِ شَيْئاً (۳۱:۳۳)

لوگو اپنے رب سے ڈرو اور اس دن کا خوف کرو جس دن باپ اپنے بیٹے کو کوئی نفع نہ پہنچا سکے گا اور نہ بیٹا اپنے باپ کا ذرا سا بھی نفع کرنے والا ہوگا

وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ

اور نہ شفاعت اور نہ سفارش قبول ہوگی اور نہ کوئی بدلہ اس کے عوض لیا جائے گا

ارشاد ہے کہ  کسی کافر کی نہ کوئی سفارش کرے نہ اس کی سفارش قبول ہوگی  اور فرمایا:

فَمَا تَنفَعُهُمْ شَفَـعَةُ الشَّـفِعِينَ (۷۴:۴۸)

ان کفار کو شفاعت کرنے والوں کی شفاعت فائدہ نہ دے گی

دوسری جگہ اہل جہنم کا یہ مقولہ نقل کیا گیا ہے :

فَمَا لَنَا مِن شَـفِعِينَ ـ وَلاَ صَدِيقٍ حَمِيمٍ (۲۶:۱۰۱،۱۰۲)

افسوس آج ہمارا نہ کوئی سفارشی ہے نہ دوست۔

یہ بھی ارشاد ہے:

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ وَمَاتُواْ وَهُمْ كُفَّارٌ فَلَن يُقْبَلَ مِنْ أَحَدِهِم مِّلْءُ الاٌّرْضِ ذَهَبًا وَلَوِ افْتَدَى بِهِ (۳:۹۱)

ہاں جو لوگ کفر کریں اور مرتے دم تک کافر رہیں ان میں سے کوئی اگر زمین بھر سونا دے گو فدیئے میں ہی ہو تو بھی ہرگز قبول نہ کیا جائے گا

اور جگہ ہے:

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ لَوْ أَنَّ لَهُمْ مَّا فِى الاٌّرْضِ ۔۔۔وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (۵:۳۶)

کافروں کے پاس اگر تمام زمین کی چیزیں اور اس کے مثال اور بھی ہوں اور قیامت کے دن وہ اسے فدیہ دے کر عذابوں سے بچنا چاہیں تو بھی کچھ قبول نہ ہو گا اور دردناک عذابوں میں مبتلا رہیں گے

 اور جگہ ہے:

وَإِن تَعْدِلْ كُلَّ عَدْلٍ لاَّ يُؤْخَذْ مِنْهَآ (۶:۷۰)

اگر دنیا بھر کا معاوضہ بھی دے ڈالے تب بھی اس سے نہ لیا جائے

 دوسری جگہ ہے :

فَالْيَوْمَ لاَ يُؤْخَذُ مِنكُمْ فِدْيَةٌ وَلاَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مَأْوَاكُمُ النَّارُ هِىَ مَوْلَـكُمْ (۵۷:۱۵)

الغرض، آج تم سے فدیہ (اور نہ بدلہ) قبول کیا جائے گا اور نہ کافروں سے تم (سب) کا ٹھکانا دوزخ ہے وہی تمہاری رفیق ہے

مطلب یہ ہے کہ ایمان کے بغیر سفارش اور شفاعت کا آسرا بیکار محض ہے

قرآن میں ارشاد ہے:

مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِىَ يَوْمٌ لاَّ بَيْعٌ فِيهِ وَلاَ خُلَّةٌ وَلاَ شَفَـعَةٌ (۲:۱۵۴)

رہو اس سے پہلے کہ کہ وہ دن آئے جس میں نہ تجارت ہے نہ دوستی نہ شفاعت

مزید فرمایا:

لاَّ بَيْعٌ فِيهِ وَلاَ خِلَـلٌ (۱۹:۳۱)

اس دن نہ بیع ہو گی نہ دوستی۔

عَدْلٌ کے معنی یہاں بدلے کے ہیں اور بدلہ اور فدیہ ایک ہے

حضرت علیؓ والی حدیث میں شفاعت  کے معنی نفل اور عدل کے معنی فریضہ مروی ہیں

لیکن یہ قول یہاں غریب ہے اور صحیح قول پہلا ہی ہے

ایک روایت میں ہے :

حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عدل کے کیا معنی ہیں آپﷺ نے فرمایا فدیہ۔

وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ (۴۸)

اور نہ مدد کئے جائیں گے۔‏

ان کی مدد بھی نہ کی جائے گی یعنی کوئی حمایتی نہیں ہو گا، قرابتیں کٹ جائیں گی جاہ و حشم جاتا رہے گا کسی کے دل میں ان کے لئے رحم نہ رہے گا نہ خود ان میں کوئی قدرت و قوت رہے گی

اور جگہ ہے :

وَهُوَ يُجْيِرُ وَلاَ يُجَارُ عَلَيْهِ (۲۳:۸۸)

جو پناہ دیتا ہے اور جس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دیا جاتا

ایک اور جگہ ہے :

فَيَوْمَئِذٍ لاَّ يُعَذِّبُ عَذَابَهُ أَحَدٌ ـ وَلاَ يُوثِقُ وَثَاقَهُ أَحَدٌ (۸۹:۲۵،۲۶)

پس آج اللہ کے عذاب جیسا عذاب کسی نہ ہوگا نہ اس کی قید و بند جیسی کسی کی قیدو بند ہوگی

 ارشاد ہے :

مَا لَكُمْ لَا تَنَاصَرُونَ ـ بَلْ هُمُ الْيَوْمَ مُسْتَسْلِمُونَ (۳۷:۲۵،۲۶)

تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ (اس وقت) تم ایک دوسروں کی مدد نہیں کرتے۔‏ بلکہ وہ (سب کے سب) آج فرمانبردار بن گئے۔‏

اور آیت میں ہے :

فَلَوْلاَ نَصَرَهُمُ الَّذِينَ اتَّخَذُواْ مِن دُونِ اللَّهِ قُرْبَاناً ءَالِهَةَ بَلْ ضَلُّواْ عَنْهُمْ  (۴۰:۴۶)

پس قرب الہٰی حاصل کرنے کے لئے انہوں نے اللہ کے سوا جن جن کو اپنا معبود بنا رکھا تھا انہوں نے انکی مدد کیوں نہ کی بلکہ وہ تو ان سے کھو گئے

مطلب یہ ہے کہ محبتیں فنا ہو گئیں رشوتیں کٹ گئیں، شفاعتیں مٹ گئیں، آپس کی امداد و نصرت نابود ہو گئی معاملہ اس عادل حاکم جبار و قہار اللہ تعالیٰ مالک الملک سے پڑا ہے جسکے ہاں سفارشیوں اور مددگاروں کی مدد کچھ کام نہ آئے بلکہ اپنی تمام برائیوں کا بدلہ بھگتنا پڑے گا،

ہاں یہ اس کی کمال بندہ پروری اور رحم و کرم انعام و اکرام ہے کہ گناہ کا بدلہ برابر دے اور نیکی کا بدلہ کم از کم دس گنا بڑھا کر دے۔ قرآن کریم میں ایک جگہ ہے:

وَقِفُوهُمْ إِنَّهُم مَّسْئُولُونَ ـ مَا لَكُمْ لَا تَنَاصَرُونَ ـ بَلْ هُمُ الْيَوْمَ مُسْتَسْلِمُونَ (۳۷:۲۴،۲۶)

اور انہیں ٹھہرا لو، اس لئے کہ ان سے ضروری سوال کیئے جانے والے ہیں۔‏ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ (اس وقت) تم ایک دوسروں کی مدد نہیں کرتے۔‏ بلکہ وہ (سب کے سب) آج فرمانبردار بن گئے

وَإِذْ نَجَّيْنَاكُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ يُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ ۚ

اور جب ہم نے تمہیں فرعونیوں سے نجات دی جو تمہیں بدترین عذاب دیتے تھے جو تمہارے لڑکوں کو مار ڈالتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو چھوڑ دیتے تھے،

ان آیتوں میں فرمان باری ہے کہ اے اولاد یعقوب میری اس مہربانی کو بھی یاد رکھو کہ میں نے تمہیں فرعون کے بدترین عذابوں سے چھٹکارا دیا،

فرعون نے ایک خواب دیکھا تھا کہ بیت المقدس کی طرف سے ایک آگ بھڑکی جو مصر کے ہر ہر قبطی کے گھر میں گھس گئی اور بنی اسرائیل کے مکانات میں وہ نہیں گئی جس کی تعبیر یہ تھی کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص پیدا ہو گا جس کے ہاتھوں اس کا غرور ٹوٹے گا اس کے اللہ کے دعویٰ کی بدترین سزا اسے ملے گی اس لئے اس ملعون نے چاروں طرف احکام جاری کر دئیے کہ بنی اسرائیل میں جو بچہ بھی پیدا ہو، سرکاری طور سے اس کی دیکھ بھال رکھی جائے اگر لڑکا ہو تو فوراً مار ڈالا جائے اور لڑکی ہو تو چھوڑ دی جائے۔

علاوہ ازیں بنی اسرائیل سے سخت بیگار لی جائے ہر طرح کی مشقت کے کاموں کا بوجھ ان پر ڈال دیا جائے۔

یہاں پر عذاب کی تفسیر لڑکوں کے مار ڈالنے سے کی گئی اور سورۃ ابراہیم (۱۴:۶) میں ایک کا دوسری پر عطف ڈالا جس کی پوری تشریح انشاء اللہ سورۃ قصص کے شروع میں بیان ہو گی اللہ تعالیٰ ہمیں مضبوطی دے ہماری مدد فرمائے اور تائید کرے آمین

يَسُومُونَكُمْ کے معنی مسلسل اور ہمیشگی کرنے کے آتے ہیں یعنی وہ برابر دکھ دئیے جاتے تھے

چونکہ اس آیت میں پہلے یہ فرمایا تھا کہ میری انعام کی ہوئی نعمت کو یاد کرو اس لئے فرعون کے عذاب کی تفسیر کو لڑکوں کے قتل کرنے کے طور پر بیان فرمایا تاکہ نعمتوں کی تعداد زیادہ ہو۔ یعنی متفرق عذابوں سے اور بچوں کے قتل ہونے سے تمہیں حضرت موسیٰ کے ہاتھوں نجات دلوائی۔

مصر کے جتنے بادشاہ عمالیق وغیرہ کفار میں سے ہوئے تھے ان سب کو فرعون کہا جاتا تھا جیسے کہ روم کے کافر بادشاہ کو قیصر اور فارس کے کافر بادشاہ کو کسریٰ اور یمن کے کافر بادشاہ کو تبع اور حبشہ کے کافر بادشاہ کو نجاشی اور ہند کے کافر بادشاہ کو بطلیموس۔

اس فرعون کا نام ولید بن مصعب بن ریان تھا۔ بعض نے مصعب بن ریان بھی کہا ہے۔ عملیق بن اود بن ارم بن سام بن نوح کی اولاد میں سے تھا اس کی کنیت ابومرہ تھی۔ اصل میں اصطخر کے فارسیوں کی نسل میں تھا اللہ کی پھٹکار اور لعنت اس پر نازل ہو

وَفِي ذَلِكُمْ بَلَاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ (۴۹)

اس نجات دینے میں تمہارے رب کی بڑی مہربانی تھی۔‏

پھر فرمایا کہ اس نجات دینے میں ہماری طرف سے ایک بڑی بھاری نعمت تھی

بَلَاءٌ کے اصلی معنی آزمائش کے ہیں لیکن یہاں پر حضرت ابن عباسؓ، حضرت مجاہد، ابوالعالیہ، ابومالک سدی سے نعمت کے معنی منقول ہیں،

امتحان اور آزمائش بھلائی برائی دونوں کے ساتھ ہوتی ہے لیکن بلوتہ بَلَاءٌ کا لفظ عموماً برائی کی آزمائش کے لئے اور ابلیہ ابلا وبلاء کا لفظ بھلائی کے ساتھ کی آزمائش کے لئے آتا ہے

یہ کہا گیا ہے کہ اس میں تمہاری آزمائش یعنی عذاب میں اور اس بچوں کے قتل ہونے میں تھی۔

قرطبی اس دوسرے مطلب کو جمہور کا قول کہتے ہیں تو اس میں اشارہ ذبح وغیرہ کی طرف ہو گا اور بَلَاءٌ کے معنی برائی کے ہوں گے

وَإِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَأَنْجَيْنَاكُمْ وَأَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ وَأَنْتُمْ تَنْظُرُونَ (۵۰)

اور جب ہم نے تمہارے لئے دریا چیر (پھاڑ) دیا اور تمہیں اس سے پار کر دیا اور فرعونیوں کو تمہاری نظروں کے سامنے اس میں ڈبو دیا۔‏

پھر فرمایا کہ ہم نے فرعونیوں  سے بچا لیا۔ تم موسیٰ کے ساتھ شہر سے نکلے اور فرعون تمہیں پکڑنے کو نکلا تو ہم نے تمہارے لئے پانی کو پھاڑ دیا اور تمہیں اس میں سے پار اتار کر تمہارے سامنے فرعون کو اس کے لشکر سمیت ڈبو دیا۔ ان سب باتوں کا تفصیل وار بیان سورۃ شعراء میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ۔

عمرو بن میمون اودی فرماتے ہیں:

جب حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو لے کر نکلے اور فرعون کو خبر ہوئی تو اس نے کہا کہ جب مرغ بولے تب سب نکلو اور سب کو پکڑ کر قتل کر ڈالو لیکن اس رات اللہ تعالیٰ کی قدرت سے صبح تک کوئی مرغ نہ بولا مرغ کی آواز سنتے ہی فرعون نے ایک بکری ذبح کی اور کہا کہ اس کی کلیجی سے میں فارغ ہوں اس سے پہلے چھ لاکھ قبطیوں کا لشکر جرار میرے پاس حاضر ہو جانا چاہئے چنانچہ حاضر ہو گیا اور یہ ملعون اتنی بڑی جمعیت کو لے کر بنی اسرائیل کی ہلاکت کے لئے بڑے کروفر سے نکلا اور دریا کے کنارے انہیں پا لیا۔

اب بنی اسرائیل پر دنیا تنگ ہو گئی پیچھے ہٹیں تو فرعونیوں کی تلواروں کی بھینٹ چڑھیں آگے بڑھیں تو مچھلیوں کا لقمہ بنیں۔ اس وقت حضرت یوشع بن نون نے کہا کہ اے اللہ کے نبی اب کیا کیا جائے؟

آپ نے فرمایا امر رب آگے آگے ہے، یہ سنتے ہی انہوں نے اپنا گھوڑا پانی میں ڈال دیا لیکن گہرے پانی میں جب غوطے کھانے لگا تو پھر کنارے کی طرف لوٹ آئے اور پوچھا اے موسیٰ رب کی مدد کہاں ہے؟ ہم نہ آپ کو جھوٹا جانتے ہیں نہ رب کو تین مرتبہ ایسا ہی کہا۔

 اب حضرت موسیٰ کی طرف وحی آئی کہ اپنا عصا دریا پر مارو

عصا مارتے ہی پانی نے راستہ دے دیا اور پہاڑوں کہ طرح کھڑا ہو گیا حضرت موسیٰ اور آپ کے ماننے والے ان راستوں سے گزر گئے

 انہیں اس طرح پار اترتے دیکھ کر فرعون اور فرعونی افواج نے بھی اپنے گھوڑے اسی راستہ پر ڈال دئیے۔ جب تمام کے تمام میں داخل ہو گئے پانی کو مل جانے کا حکم ہوا پانے کے ملتے ہی تمام کے تمام ڈوب مرے بنی اسرائیل نے قدرت الہٰی کا یہ نظارہ اپنی آنکھوں سے کنارے پر کھڑے ہو کر دیکھا جس سے وہ بہت ہی خوش ہوئے اپنی آزادی اور فرعون کی بربادی ان کے لئے خوشی کا سبب بنی۔

یہ بھی مروی ہے کہ یہ دن عاشورہ کا تھا یعنی محرم کی دسویں تاریخ۔

مسند احمد میں حدیث ہے:

جب حضور علیہ السلام مدینہ شریف میں تشریف لائے تو دیکھا کہ یہودی عاشورہ کا روزہ رکھتے ہیں پوچھا کہ تم اس دن کا روزہ کیوں رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا اس لئے کہ اس مبارک دن میں بنی اسرائیل نے فرعون کے ظلم سے نجات پائی اور ان کا دشمن غرق ہوا جس کے شکریہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ روزہ رکھا

آپ ﷺنے فرمایا تم سے زیادہ حقدار موسیٰ علیہ السلام کا میں ہوں پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اس دن روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔

بخاری مسلم نسائی ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث موجود ہے۔

ایک اور ضعیف حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لئے سمندر کو پھاڑ دیا تھا

اس حدیث کے راوی زید العمی ضعیف ہیں اور ان کے استاد یزید رقاشی ان سے بھی زیادہ ضعیف ہیں۔

وَإِذْ وَاعَدْنَا مُوسَى أَرْبَعِينَ لَيْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَنْتُمْ ظَالِمُونَ (۵۱)

اور ہم نے موسیٰ ؑ سے چالیس راتوں کا وعدہ کیا، پھر تم نے اس کے بعد بچھڑا پوجنا شروع کر دیا اور ظالم بن گئے۔

یہاں بھی اللہ برترو اعلیٰ اپنے احسانات یاد دلا رہا ہے جب کہ تمہارے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام چالیس دن کے وعدے پر تمہارے پاس سے گئے اور اس کے بعد تم نے گوسالہ پرستی شروع کر دی

ثُمَّ عَفَوْنَا عَنْكُمْ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (۵۲)

لیکن ہم نے باوجود اس کے پھر بھی تمہیں معاف کردیا، تاکہ تم شکر کرو۔‏

پھر ان کے آنے پر جب تم نے اس شرک سے توبہ کی تو ہم نے تمہارے اتنے بڑے کفر کو بخش دیا اور قرآن میں ہے:

وَوَعَدْنَا مُوسَى ثَلَـثِينَ لَيْلَةً وَأَتْمَمْنَاهَا بِعَشْرٍ (۷:۱۴۲)

اور ہم نے موسیٰ ؑسے تیس راتوں کا وعدہ کیا اور دس رات مزید سے ان تیس راتوں کو پورا کیا

کہا جاتا ہے کہ یہ وعدے کا زمانہ ذوالقعدہ کا پورا مہینہ اور دس دن ذوالحجہ کے تھے یہ واقعہ فرعونیوں سے نجات پا کر دریا سے بچ کر نکل جانے کے بعد پیش آیا تھا۔

وَإِذْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَالْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (۵۳)

اور ہم نےموسیٰؑ  کو تمہاری ہدایت کے لئے کتاب اور معجزے عطا فرمائے

 الْكِتَابَ سے مراد تورات ہے اور الْفُرْقَانَ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو حق و باطل ہدایت و ضلالت میں فرق کرے یہ کتاب بھی اس واقعہ کے بعد ملی جیسے کہ سورۃ اعراف اس کے اس واقعہ کے طرز بیان سے ظاہر ہوتا ہے

 دوسری جگہ آیت بَعْدِ مَآ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ الاٍّولَى بھی آیا ہے :

وَلَقَدْ ءَاتَيْنَا مُوسَى الْكِتَـبَ مِن بَعْدِ مَآ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ الاٍّولَى بَصَآئِرَ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَرَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ (۲۸:۴۳)

اور ان اگلے زمانے والوں کو ہلاک کرنے کے بعد ہم نے موسیٰ ؑ کو ایسی کتاب عنایت فرمائی جو لوگوں کے لئے دلیل اور ہدایت و رحمت ہو کر آئی تھی تاکہ وہ نصیحت حاصل کرلیں

 یہ بھی کہا گیا ہے کہ واؤ زائد ہے اور خود کتاب کو الْفُرْقَانَ کہا گیا ہے

 لیکن یہ غریب ہے

بعض نے کہا ہے الْكِتَابَ پر الْفُرْقَانَ کا عطف ہے یعنی کتاب بھی دی اور معجزہ بھی دیا۔ دراصل معنی کے اعتبار سے دونوں کا مفاد ایک ہی ہے اور ایسی ایک چیز دو ناموں سے بطور عطف کے کلام عرب میں آیا کرتی ہے شعراء عرب کے بہت سے اشعار اس کے شاہد ہیں۔

وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنْفُسَكُمْ بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ

جب حضرت موسیٰ ؑ نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم بچھڑے کو معبود بنا کر تم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے۔

یہاں ان کی توبہ کا طریقہ بیان ہو رہا ہے انہوں نے بچھڑے کو پوجا اور اس کی محبت نے ان کے دلوں میں گھر کر لیا پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سمجھانے سے ہوش آیا اور نادم ہوئے

فَتُوبُوا إِلَى بَارِئِكُمْ فَاقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ عِنْدَ بَارِئِكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ ۚ

اب تم اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع کرو، اپنے آپ کو آپس میں قتل کرو، تمہاری بہتری اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسی میں ہے، تو اس نے تمہاری توبہ قبول کی،

اور اپنی گمراہی کا یقین کر کے توبہ استغفار کرنے لگے تب انہیں حکم ہوا کہ تم آپس میں قتل کرو۔چنانچہ انہوں نے یہی کیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کی اور قاتل و مقتول دونوں کو بخش دیا۔

اس کا پورا بیان سورۃ طہ کی تفسیر میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ فرمان کہ اپنے خالق سے توبہ کرو بتا رہا ہے کہ اس سے بڑھ کر ظلم کیا ہو گا کہ تمہیں پیدا اللہ تعالیٰ کرے اور تم پوجو غیروں کو۔

ایک روایت میں ہے:

موسیٰ علیہ السلام نے انہیں حکم الہٰی سنایا اور جن جن لوگوں نے بچھڑا پوجا تھا انہیں بٹھا دیا اور دوسرے لوگ کھڑے رہ گئے اور قتل کرنا شروع کیا قدرتی طور پر اندھیرا چھایا ہوا تھا جب اندھیرا ہٹا تو انہیں روک دیا گیا۔ شمار کرنے پر معلوم ہوا کہ ستر ہزار آدمی قتل ہو چکے ہیں اور ساری قوم کی توبہ قبول ہوئی۔

 یہ ایک سخت فرمان تھا جس کی ان لوگوں نے تعمیل کی اور اپنوں اور غیروں کو یکساں تہہ تیغ کیا یہاں تک کہ رحمت الہٰی نے انہیں بخشا اور موسیٰ علیہ السلام سے فرما دیا کہ اب بس کرو۔ مقتول کو شہید کا اجر دیا قاتل کی اور باقی ماندہ تمام لوگوں کی توبہ قبول فرمائی اور انہیں جہاد کا ثواب دیا۔

إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ (۵۴)

وہ توبہ قبول کرنے والا اور رحم و کرم کرنے والا ہے۔

 موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارونؑ نے جب اسی طرح اپنی قوم کا قتل دیکھا تو دعا کرنی شروع کی کہ اللہ اب تو بنی اسرائیل مٹ جائیں گے چنانچہ انہیں معاف فرما دیا گیا اور پروردگار عالم نے فرمایا کہ اے میرے پیغمبر مقتولوں کا غم نہ کرو وہ ہمارے پاس شہیدوں کے درجہ میں ہیں وہ یہاں زندہ ہیں اور غذا پا رہے ہیں اب آپ کو اور آپ کی قوم کو صبر آیا اور عورتوں اور بچوں کی گریہ و زاری موقوف ہوئی۔ تلواریں نیزے چھرے اور چھریاں چلنی بند ہوئیں آپس میں باپ بیٹوں بھائیوں، بھائیوں میں قتل و خون موقوف ہوااور اللہ تو اب و رحیم نے ان کی توبہ قبول فرمائی۔

وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَى لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْكُمُ الصَّاعِقَةُ وَأَنْتُمْ تَنْظُرُونَ (۵۵)

اور (تم اسے بھی یاد کرو) تم نے موسیٰ ؑ سے کہا تھا کہ جب تک ہم اپنے رب کو سامنے دیکھ نہ لیں گے ہرگز ایمان نہ لائیں گے (جس گستاخی پر سزا میں) تم پر تمہارے دیکھتے ہوئے بجلی گری۔‏

موسیٰ علیہ السلام جب اپنے ساتھ بنی اسرائیل کے ستر شخصوں کو لے کر اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق کوہ طور پر گئے اور ان لوگوں نے کلام الہٰی سنا تو حضرت موسیٰ سے کہنے لگے ہم تو جب مانیں جب اللہ تعالیٰ کو اپنے سامنے خود دیکھ لیں۔ اس گستاخانہ سوال پر ان پر آسمان سے ان کے دیکھتے ہوئے بجلی گری اور ایک سخت ہولناک آواز بلند ہوئی جس سے سب کے سب مر گئے۔

ثُمَّ بَعَثْنَاكُمْ مِنْ بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (۵۶)

لیکن پھر اس لئے کہ تم شکر گزاری کرو، اس موت کے بعد بھی ہم نے تمہیں زندہ کر دیا‏

موسیٰ علیہ السلام یہ دیکھ کر گریہ و زاری کرنے لگے اور رو رو کر جناب باری میں عرض کرنے لگے کہ اللہ بنی اسرائیل کو میں کیا جواب دوں گا یہ جماعت تو ان کے سرداروں اور بہترین لوگوں کی تھی پروردگار اگر یہی چاہت تھی تو انہیں اور مجھے اس سے پہلے ہی مار ڈالتا۔ اللہ تعالیٰ بیوقوفوں کی بیوقوفی کے کام پر ہمیں نہ پکڑ۔

یہ دعا مقبول ہوئی اور آپ کو معلوم کرایا گیا کہ یہ بھی دراصل بچھڑا پوجنے والوں میں سے تھے انہیں سزا مل گئی۔ پھر انہیں زندہ کر دیا اور ایک کے بعد ایک کر کے سب زندہ کئے گئے۔ ایک دوسرے کے زندہ ہونے کو ایک دوسرا دیکھتا رہا۔

محمد بن اسحاق فرماتے ہیں:

جب موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کے پاس آئے اور انہیں بچھڑا پوجتے ہوئے دیکھا اور اپنے بھائی کو اور سامری کو تنبیہ کی۔ بچھڑے کو جلا دیا اور اس کی راکھ دریا میں بہا دی اس کے بعد ان میں سے بہترین لوگوں کو چن کر اپنے ساتھ لیا جن کی تعداد ستر تھی اور کوہ طور پہ توبہ کرنے کے لئے چلے ان سے کہا کہ تم توبہ کرو ورنہ روزہ رکھو پاک صاف ہو جاؤ کپڑوں کو پاک کر لو

جب بحکم الہٰی طور سینا پر پہنچے تو ان لوگوں نے کہا کہ اے اللہ کے پیغمبر اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ اپنا کلام ہمیں بھی سنائے

جب موسیٰ علیہ السلام پہاڑ کے پاس پہنچے تو ایک بادل نے آ کر سارے پہاڑ کو ڈھک لیا اور آپ اسی کے اندر اندر اللہ تعالیٰ کے قریب ہو گئے جب کلام رب ذوالجلال شروع ہوا تب موسیٰ علیہ السلام کی پیشانی نور سے چمکنے لگی اس طرح کہ کوئی اس طرف نظر اٹھانے کی تاب نہیں رکھتا تھا۔ بادل کی اوٹ ہو گئی اور سب لوگ سجدے میں گر پڑے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے آپ کے ساتھی بنی اسرائیل بھی اللہ تعالیٰ کا کلام سننے لگے کہ انہیں حکم احکام ہو رہے ہیں جب کلام الہٰی ختم ہوا بادل چھٹ گیا اور موسیٰ علیہ السلام ان کے پاس چلے آئے تو یہ لوگ کہنے لگے موسیٰ ہم تو ایمان نہ لائیں گے جب تک اپنے رب کو اپنے سامنے نہ دیکھ لیں۔

اس گستاخی پر ایک زلزلہ آیا اور سب کے سب ہلاک ہو گئے۔

اب موسیٰ علیہ السلام نے خلوص دل کے ساتھ دعائیں شروع کیں اور کہنے لگے اس سے تو یہی اچھا تھا کہ ہم سب اس سے پہلے ہی ہلاک ہو جاتے۔ بیوقوفوں کے کاموں پر ہمیں ہلاک نہ کر یہ لوگ ان کے چیدہ اور پسندیدہ لوگ تھے جب میں تنہا بنی اسرائیل کے پاس جاؤں گا تو انہیں کیا جواب دوں گا کون میری بات اس کو سچا سمجھے گا اور پھر اس کے بعد کون مجھ پر ایمان لائے گا ؟ اللہ ہماری توبہ ہے۔ تو قبول فرما۔ اور ہم پر فضل و کرم کر،حضرت موسیٰ علیہ السلام یونہی خشوع و خضوع سے دعا مانگتے رہے یہاں تک کہ پروردگار نے ان کی اس دعا کو قبول فرمایا اور ان مردوں کو زندہ کر دیا، اب سب نے ایک زبان ہو کر بنی اسرائیل کی طرف سے توبہ شروع کی ان سے فرمایا گیا کہ جب تک یہ اپنی جانوں کو ہلاک نہ کریں اور ایک دوسرے کو قتل نہ کریں میں ان کی توبہ قبول نہیں فرماؤں گا۔

سدی ؒ کہتے ہیں یہ واقعہ بنی اسرائیل کے آپس میں لڑنے کے بعد کا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ خطاب گو عام ہے لیکن حقیقت میں اس سے مراد وہی ستر شخص ہیں۔

رازی ؒنے اپنی تفسیر میں ان ستر شخصوں کے بارے میں لکھا ہے کہ انہوں نے اپنے جینے کے بعد کہا کہ اے نبی اللہ ، اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ ہمیں نبی بنا دے۔ آپ نے دعا کی اور وہ قبول بھی ہوئی

لیکن یہ قول غریب ہے موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں سوائے ہارون علیہ السلام کے اور اس کے بعد حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کے کسی اور کی نبوت ثابت نہیں۔

اہل کتاب کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ان لوگوں نے اپنی دعا کے مطابق اللہ تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے اسی جگہ دیکھا یہ بھی غلط ہے اس لئے کہ خود موسیٰ علیہ السلام نے جب دیدار باری تعالیٰ کا سوال کیا تو انہیں منع کر دیا گیا پھر بھلا یہ ستر اشخاص دیدار باری کی تاب کیسے لاتے؟

 اس آیت کی تفسیر میں ایک دوسرا قول بھی ہے:

موسیٰ علیہ السلام تورات لے کر آئے جو احکام کا مجموعہ تھی اور ان سے کہا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اس پر عمل کرو اور مضبوطی کے ساتھ اس کے پابند ہو جاؤ تو وہ کہنے لگے کہ حضرت ہمیں کیا خبر اللہ تعالیٰ خود آ کر ظاہر ہو کر ہم سے کیوں نہیں کہتا؟ کیا وجہ ہے کہ وہ آپ سے باتیں کرے اور ہم سے نہ کرے؟ جب تک ہم اللہ کو خود نہ دیکھ لیں ہرگز ایمان نہ لائیں گے اس قول پر ان کے اوپر غضب الہٰی نازل ہوا اور ہلاک کر دئیے گئے پھر زندہ کئے گئے

پھر موسیٰ علیہ السلام نے انہیں کہا کہ اب تو اس تورات کو تھام لو انہوں نے پھر انکار کیا اب کی مرتبہ فرشتے پہاڑ اٹھا کر لائے اور ان کے سروں کے اوپر معلق کر دیا کہ اگر نہ مانو گے تو یہ پہاڑ تم پر گرا دیا جائے گا اور تم سب پیس ڈالے جاؤ گے

اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مرنے کے بعد یہ جی اٹھے اور پھر بھی مکلف رہے یعنی احکام الہٰی ان پر پھر بھی جاری رہے

ماوردی ؒنے کہا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کی یہ زبردست نشانی دیکھ لی مرنے کے بعد زندہ ہوئے تو پھر تکلیف شرعی ان پر سے ہٹ گئی اس لئے کہ اب تو یہ مجبور تھے کہ سب کچھ مان لیں۔ خود ان پر یہ واردات پیش آئی اب تصدیق ایک بے اختیاری امر ہو گیا۔

دوسری جماعت کہتی ہے کہ نہیں بلکہ باوجود اس کے وہ احکام شرع کے مکلف رہے کیونکہ ہر عاقل مکلف ہے۔

قرطبی کہتے ہیں ٹھیک قول یہی ہے

یہ امور ان پر قدرتی طور سے آئے تھے جو انہیں پابندی شرع سے آزاد نہیں کر سکتے خود بنی اسرائیل نے بھی بڑے بڑے معجزات دیکھے خود ان کے ساتھ ایسے ایسے معاملات ہوئے جو بالکل نادر اور خلاف قیاس اور زبردست معجزات تھے باوجود اس کے وہ بھی مکلف رہے اسی طرح یہ بھی ٹھیک قول ہے اور واضح امر بھی یہی ہے۔ واللہ اعلم

وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ وَأَنْزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَى ۖ كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ ۖ

اور ہم نے تم پر بادل کا سایہ کیا اور تم پر من و سلویٰ اتارا (اور کہہ دیا) کہ ہماری دی ہوئی پاکیزہ چیزیں کھاؤ '

سابقہ آیات میں بیان ہوا تھا کہ فلاں فلاں بلائیں ہم نے تم پر سے دفع کر دیں اب بیان ہو رہا ہے کہ فلاں فلاں نعمتیں بھی ہم نے تمہیں عطا فرمائیں

غَمَامَ غَمَامَۃکی جمع ہے چونکہ یہ آسمان کو چھپا لیتا ہے اس لئے اسے غمامہ کہتے ہیں یہ ایک سفید رنگ کا بادل تھا جو وادی تیہ میں انکے سروں پر سایہ کئے رہتا تھا جیسے نسائی میں ابن عباسؓ سے ایک لمبی حدیث میں مروی ہے،

 ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ ابن عمر ربیع بن انس ابو مجاز ضحاک اور سدی نے بھی یہی کہا ہے حسن اور قتادہ بھی یہی کہتے ہیں

 اور لوگ کہتے ہیں کہ یہ بادل عام بادلوں سے زیادہ ٹھنڈک والا اور زیادہ عمدہ تھا۔

حضرت مجاہد فرماتے ہیں یہ وہی بادل تھا جس میں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن آئے گا ابو حذیفہ کا قول بھی یہی ہے

اس آیت میں اس کا ذکر ہے:

هَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا أَن يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلَائِكَةُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ (۲:۲۱۰)

کیا لوگوں کو اس بات کا انتظار ہے کہ انکے پاس خود اللہ تعالیٰ بادل کے سائبانوں میں آجائے اور فرشتے بھی اور کام انتہا تک پہنچا دیا جائے،

یہی وہ بادل ہے جس میں بدر والے دن فرشتے نازل ہوئے تھے۔

جو مَن ان پر اترا وہ درختوں پر اترا تھا۔ یہ صبح جاتے تھے اور جمع کر کے کھا لیا کرتے تھے وہ گوند کی قسم کا تھا۔ کوئی کہتا ہے شبنم کی وضع کا تھا

حضرت قتادہ فرماتے ہیں:

اولوں کی طرح مَن ان کے گھروں میں اترتا تھا جو دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا تھا۔ صبح صادق سے لے کر آفتاب نکلنے تک اترتا رہتا تھا ہر شخص اپنے گھر بار کے لئے اتنی مقدار میں جمع کر لیتا تھا جتنا اس دن کافی ہو اگر کوئی زیادہ لیتا تو بگڑ جاتا تھا۔ جمعہ کے دن وہ دو دن کا لے لیتے تھے جمعہ اور ہفتہ کا اس لئے کہ ہفتہ ان کا بڑا دن تھا

ربیع بن انس کہتے ہیں مَن شہد جیسی چیز تھی جس میں پانی ملا کر پیتے تھے

شعبی فرماتے ہیں تمہارا یہ شہد اس مَن کا سترواں حصہ ہے

شعروں میں یہی مَن شہد کے معنی میں آیا ہے

یہ سب اقوال قریب قریب ہیں غرض یہ ہے کہ ایک ایسی چیز تھی جو انہیں بلا تکلیف و تکلف ملتی تھی اگر صرف اسے کھایا جائے تو وہ کھانے کی چیز تھی اور اگر پانی میں ملا لی جائے تو پینے کی چیز تھی اور اگر دوسری چیزوں کے ساتھ مرکب کر دی جاتی تو اور چیز ہو جاتی تھی۔ لیکن یہاں مَن سے مراد یہی مَن مشہور نہیں

صحیح بخاری شریف کی حدیث میں ہے:

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کھمبی مَن میں سے ہے اور اس کا پانی آنکھ کے لئے شفا ہے۔

 ترمذی اسے حسن صحیح کہتے ہیں

ترمذی میں ہے کہ عجوہ جو مدینہ کی کھجوروں کی ایک قسم ہے وہ جنتی چیز ہے اور اس میں زہر کا تریاق ہے اور کھمبی مَن میں سے ہے اور اس کا پانی آنکھ کے درد کی دوا ہے

یہ حدیث حسن غریب ہے۔ دوسرے بہت سے طریقوں سے بھی مروی ہے۔

ابن مردویہ کی حدیث میں ہے:

صحابہ نے اس درخت کے بارے میں اختلاف کیا جو زمین کے اوپر ہوتا ہے جس کی جڑیں مضبوط نہیں ہوتیں۔ بعض کہنے لگے کھمبی کا درخت ہے آپ ﷺنے فرمایا کھمبی تو مَن میں سے ہے اور اس کا پانی آنکھ کے لئے شفا ہے

سَلْوَى ایک قسم کا پرند ہے چڑیا سے کچھ بڑا ہوتا ہے۔ سرخی مائل رنگ کا جنوبی ہوائیں چلتی تھی اور ان پرندوں کو وہاں لا کر جمع کر دیتی تھیں بنی اسرائیل اپنی ضرورت کے مطابق انہیں پکڑ لیتے تھے اور ذبح کر کے کھاتے تھے اگر ایک دن گزر کر بچ جاتا تو وہ بگڑ جاتا تھا اور جمعہ کے دن دو دن کے لئے جمع کر لیتے تھے کیونکہ ہفتہ کا دن ان کے لئے عید کا دن ہوتا تھا اس دن عبادتوں میں مشغول رہنے اور شکار وغیرہ سے بچنے کا حکم تھا۔

 بعض لوگوں نے کہا ہے کہ یہ پرند کبوتر کے برابر ہوتے تھے ایک میل کی لمبائی چوڑائی میں ایک نیزے کے برابر اونچا ڈھیر ان پرندوں کا ہو جاتا تھا۔

یہ دونوں چیزیں ان پر وادی تیہ میں اتری تھیں۔ جہاں انہوں نے اپنے پیغمبر سے کہا تھا کہ اس جنگل میں ہمارے کھانے کا بندوبست کیسے ہو گا تب ان پر مَنَّ وَالسَّلْوَى اتارا گیا

اور پانی کے لئے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام سے درخواست کی گئی تو پروردگار عالم نے فرمایا کہ اس پتھر پر اپنا عصا مارو عصا لگتے ہی اس سے بارہ چشمے جاری ہو گئے اور بنی اسرائیل کے بارہ ہی قبیلےتھے۔ ہر قبیلہ نے ایک ایک چشمہ اپنے لئے بانٹ لیا،

پھر سایہ کے طالب ہوئے کہ اس چٹیل میدان میں سایہ بغیر گزر مشکل ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے طور پہاڑ کا ان پر سایہ کر دیا،

رہ گیا لباس تو قدرت الہٰی سے جو لباس وہ پہنے ہوئے تھے وہ ان کے قد کے بڑھنے کے ساتھ بڑھتا رہتا تھا ایک سال کے بچہ کا لباس جوں جوں اس کا قدوقامت بڑھتا  جاتا نہ وہ پھٹتا نہ خرابی پڑتی نہ میلا ہوتا۔ ان تمام نعمتوں کا ذکرمختلف جگہ قرآن کریم میں موجود ہے جیسے یہ آیت:

وَإِذِ اسْتَسْقَى مُوسَى لِقَوْمِهِ فَقُلْنَا ۔۔۔ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ (۲:۶۰)

جب موسیٰ ؑ نے اپنی قوم کیلئے پانی مانگا تو ہم نے کہا اپنی لاٹھی پتھر پر مارو، جس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے اور ہر گروہ نے اپنا چشمہ پہچان لیا،(اور ہم نے کہہ دیا کہ) اللہ تعالیٰ کا رزق کھاؤ پیو اور زمین میں فساد نہ کرتے پھرو۔‏

بذلی کہتے ہیں کہ سَلْوَى شہید کو کہتے ہیں لیکن ان کا یہ قول غلط ہے ثورج نے اور ج وہری نے بھی یہی کہا ہے اور اس کی شہادت میں عرب شاعروں کے شعر اور بعض لغوی محاورے بھی پیش کئے ہیں۔

بعض نے کہا ہے کہ ایک دوا کا نام ہے۔

کسائی کہتے ہیں سَلْوَى واحد کا لفظ ہے اور اس کی جمع سلاوی آتی ہے

 اور بعض کہتے ہیں کہ جمع میں اور مفرد میں یہی صیغہ رہتا ہے یعنی لفظ سَلْوَى ۔

وَمَا ظَلَمُونَا وَلَكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ (۵۷)

اور انہوں نے ہم پر ظلم نہیں کیا، البتہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔‏

غرض یہ اللہ کی دو نعمتیں تھیں جن کا کھانا ان کے لئے مباح کیا گیا لیکن ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کی ناشکری کی اور یہی ان کا اپنی جانوں پر ظلم کرنا تھا باوجودیکہ اس سے پہلے بہت کچھ اللہ کی نعمتیں ان پر نازل ہو چکی تھیں۔

بنی اسرائیل کی حالت کا یہ نقشہ آنکھوں کے سامنے رکھ کر پھر اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت پر نظر ڈالو کہ باوجود سخت سے سخت مصیبتیں جھیلنے اور بے انتہا تکلیفیں برداشت کرنے کے وہ اتباع نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اور عبادت الہٰی پر جمے رہے نہ معجزات طلب کئے نہ دنیا کی راحتیں مانگیں نہ اپنے تعیش کے لئے کوئی نئی چیز پیدا کرنے کی خواہش کی،

جنگ تبوک میں جبکہ بھوک کے مارے بیتاب ہو گئے اور موت کا مزہ آنے لگا تب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یا رسول اللہ اس کھانے میں برکت کی دعا کیجئے اور جس کے پاس جو کچھ بچا کھچا تھا جمع کر کے حاضر کر دیا جو سب مل کر بھی نہ ہونے کے برابر ہی تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے قبول فرما کر اس میں برکت دی انہوں نے خوب کھایا بھی اور تمام توشے دان بھر لئے،

پانی کے قطرے قطرے کو جب ترسنے لگے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے ایک ابر آیا اور ریل پیل کر دی، پیا پلایا اور مشکیں اور مشکیزے سب بھر لئے۔

پس صحابہ کی اس ثابت قدمی اوالوالعزمی کامل اتباع اور سچی توحید نے ان کی اصحاب موسیٰ علیہ السلام پر قطعی فضیلت ثابت کر دی۔

وَإِذْ قُلْنَا ادْخُلُوا هَذِهِ الْقَرْيَةَ فَكُلُوا مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا

اور ہم نے تم سے کہا کہ اس بستی میں جاؤ اور جو کچھ جہاں کہیں سے چاہو با فراغت کھاؤ پیؤ اور دروازے میں سجدے کرتے ہوئے گزرو

جب موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے آئے اور انہیں ارض مقدس میں داخل ہونے کا حکم ہوا جو ان کی موروثی زمین تھی ان سے کہا گیا کہ یہاں جو عمالیق ہیں ان سے جہاد کرو تو ان لوگوں نے نامردی دکھائی جس کی سزا میں انہیں میدان تیہ میں ڈال دیا گیا جیسے کہ سورۃ مائدہ میں ذکر ہے

 الْقَرْيَةَ سے مراد بیت المقدس ہے۔ سدی، ربیع، قتادہ، ابو مسلم وغیرہ نے یہی کہا ہے،

قرآن میں ہے کہ موسیٰ ؑ نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم اس پاک زمین میں جاؤ جو تمہارے لئے لکھ دی گئی ہے

بعض کہتے ہیں اس سے مراد ریخاء ہے بعض نے کہا ہے مصر مراد ہے

لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے کہ مراد اس سے بیت المقدس ہے

یہ واقعہ تیہ سے نکلنے کے بعد کا ہے

 جمعہ کے دن شام کو اللہ تعالیٰ نے انہیں اس پر فتح عطا کی بلکہ سورج کو ان کے لئے ذرا سی دیر ٹھہرا دیا تھا تاکہ فتح ہو جائے فتح کے بعد انہیں حکم ہوا کہ اس شہر میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہوں۔ جو اس فتح کی اظہار تشکر کا مظہر ہو گا

ابن عباسؓ نے سجدے سے مراد رکوع لیا ہے۔

رازی کہتے ہیں کہ سجدے سے مراد یہاں پر خشوع خضوع ہے کیونکہ حقیقت پر اسے محمول کرنا ناممکن ہے۔

ابن عباسؓ کہتے ہیں یہ دروازہ قبلہ کی جانب تھا اس کا نام باب الحطہ تھا۔

رازی نے یہ بھی کہا ہے کہ دروازے سے مراد جہت قبلہ ہے۔

بجائے سجدے کے اس قوم نے اپنی رانوں پر کھسکنا شروع کیا اور کروٹ کے بل داخل ہونے لگے سروں کو جھکانے کے بجائے اور اونچا کر لیا

وَقُولُوا حِطَّةٌ نَغْفِرْ لَكُمْ خَطَايَاكُمْ ۚ وَسَنَزِيدُ الْمُحْسِنِينَ (۵۸)

اور زبان سے حِطَّةٌ کہو ہم تمہاری خطائیں معاف کردیں گے اور نیکی کرنے والوں کو اور زیادہ دیں گے۔‏

حِطَّةٌ کے معنی بخشش کے ہیں۔بعض نے کہا ہے کہ یہ امر حق ہے

عکرمہ کہتے ہیں اس سے مراد لا الہ الا اللہ کہنا ہے

ابن عباسؓ کہتے ہیں اس میں گناہوں کا اقرار ہے

حسن اور قتادہ فرماتے ہیں اس کے معنی یہ ہیں اللہ ہماری خطاؤں کو ہم سے دور کر دے۔

پھر ان سے وعدہ کیا جاتا ہے کہ اگر تم اسی طرح یہی کہتے ہوئے شہر میں جاؤ گے اور اس فتح کے وقت بھی اپنی پستی اور اللہ کی نعمت اور اپنے گناہوں کا اقرار کرو گے اور مجھ سے بخشش مانگو تو چونکہ یہ چیزیں مجھے بہت ہی پسند ہیں میں تمہاری خطاؤں سے درگزر کر لوں گا۔

فتح مکہ کے موقع پر فرمان الہٰی سورۃ إِذَا جَآءَ نازل ہوئی تھی اور اس میں بھی یہی حکم دیا گیا تھا :

إِذَا جَآءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ ـ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِى دِينِ اللَّهِ أَفْوَجاً ـ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوِبَا  (۱۱۰:۱،۳)

جب اللہ کی مدد آ جائے مکہ فتح ہو اور لوگ دین اللہ میں فوج در فوج آنے لگیں تو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم اپنے رب کی تسبیح اور حمد و ثنا بیان کرو اس سے استغفار کرو وہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔

اس سورت میں جہاں ذکرو استغفار کا ذکر ہے وہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری وقت کی خبر تھی۔

حضرت ابن عباسؓ نے حضرت عمرؓ کے سامنے اس سورت کا ایک مطلب یہ بھی بیان کیا تھا جس میں  آپ نے فرمایا تھا:

 جب مکہ فتح ہونے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم شہر میں داخل ہوئے تو انتہائی تواضع اور مسکینی کے آثار آپ پر تھے یہاں تک کے سر جھکائے ہوئے تھے اونٹنی کے پالان سے سر لگ گیا تھا۔ شہر میں جاتے ہی غسل کر کے ضحیٰ کے وقت آٹھ رکعت نماز ادا کی جو ضحیٰ کی نماز بھی تھی اور فتح کے شکریہ کی بھی

دونوں طرح کے قول محدثین کے ہیں

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب ملک ایران فتح کیا اور کسری ٰکے شاہی محلات میں پہنچے تو اسی سنت کے مطابق آٹھ رکعتیں پڑھیں دو دو رکعت ایک سلام سے پڑھنے کا بعض کا مذہب ہے اور بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ آٹھ ایک ساتھ ایک ہی سلام سے پڑھیں واللہ اعلم۔

فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ

پھر ان ظالموں نے اس بات کو جو ان سے کہی گئی تھی بدل ڈالی،

صحیح بخاری شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

بنی اسرائیل کو حکم کیا گیا کہ وہ سجدہ کرتے ہوئے اور حِطَّةٌ کہتے ہوئے دروازے میں داخل ہوں لیکن انہوں نے بدل دیا اور اپنی رانوں پر گھسٹتے ہوئے اور حِطَّةٌ کے بجائے حبتہ فی شعرۃ کہتے ہوئے جانے لگے۔

نسائی، عبدالرزاق ، ابوداؤد، مسلم اور ترمذی میں بھی یہ حدیث بہ اختلاف الفاظ موجود ہے اور سنداً صحیح ہے

حضرت ابو سعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہے تھے۔ ذات الحنطل نامی گھاٹی کے قریب پہنچے تو آپ نے فرمایا کہ اس گھاٹی کی مثال بھی بنی اسرائیل کے اس دروازے جیسی ہے جہاں انہیں سجدہ کرتے ہوئے اور حِطَّةٌ کہتے ہوئے داخل ہونے کو کہا گیا تھا اور ان کے گناہوں کی معافی کا وعدہ کیا گیا تھا۔

حضرت براءؓ فرماتے ہیں سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ (۲:۱۴۲) میں السُّفَهَاءُ یعنی جاہلوں سے مراد یہود ہیں جنہوں نے اللہ کی بات کو بدل دیا تھا

حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں حِطَّةٌ کے بدلے انہوں نے حنطۃ حبتہ حمراء فیھا شعیرۃ کہا تھا ان کی اپنی زبان میں ان کے الفاظ یہ تھے ھطا سمعانا ازبتہ مزبا

 ابن عباسؓ بھی ان کی اس لفظی تبدیلی کو بیان فرماتے ہیں کہ رکوع کرنے کے بدلے وہ رانوں پر گھسٹتے ہوئے اور حِطَّةٌ کے بدلے  حنطة کہتے ہوئے داخل ہوئے

حضرت عطا، مجاہد، عکرمہ، ضحاک، حسن، قتادہ، ربیع، یحییٰ نے بھی یہی بیان کیا ہے

مطلب یہ ہے کہ جس قول و فعل کا انہیں حکم دیا گیا تھا انہوں نے مذاق اڑایا جو صریح مخالفت اور معاندت تھی اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنا عذاب نازل فرمایا۔

فَأَنْزَلْنَا عَلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا رِجْزًا مِنَ السَّمَاءِ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ (۵۹)

ہم نے بھی ان ظالموں پر ان کے فسق اور نافرمانی کی وجہ سے آسمانی عذاب نازل کیا۔‏

 اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے ظالموں پر ان کے فسق کی وجہ سے آسمانی عذاب نازل فرمایا۔

 رِجْزًا سے مراد عذاب ہے کوئی کہتا ہے غضب ہے کسی نے طاعون کہا ہے ایک مرفوع حدیث ہے :

طاعون رِجْزًا ہے اور یہ عذاب تم سے اگلے لوگوں پر اتارا گیا تھا۔

بخاری اور مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :

 یہ دکھ اور بیماری رِجْزًا ہے تم سے پہلے لوگ انہی سے عذاب دئیے گئے تھے۔

وَإِذِ اسْتَسْقَى مُوسَى لِقَوْمِهِ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِعَصَاكَ الْحَجَرَ ۖ فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا ۖ قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَشْرَبَهُمْ ۖ

جب موسیٰ ؑ نے اپنی قوم کیلئے پانی مانگا تو ہم نے کہا اپنی لاٹھی پتھر پر مارو، جس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے اور ہر گروہ نے اپنا چشمہ پہچان لیا،

یہ ایک اور نعمت یاد دلائی جا رہی ہے کہ جب تمہارے نبی نے تمہارے لئے پانی طلب کیا تو ہم نے اس پتھر سے چشمے بہا دئیے جو تمہارے ساتھ رہا کرتا تھا اور تمہارے ہر ہر قبیلے کے لئے اس میں سے ایک ایک چشمہ ہم نے جاری کر دیا جسے ہر قبیلہنے جان لیا

كُلُوا وَاشْرَبُوا مِنْ رِزْقِ اللَّهِ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ (۶۰)

(اور ہم نے کہہ دیا کہ) اللہ تعالیٰ کا رزق کھاؤ پیو اور زمین میں فساد نہ کرتے پھرو۔‏

 اور ہم نے کہہ دیا کہ من و سلویٰ کھاتے رہو اور ان چشموں کا پانی پیتے رہو بےمحنت کی روزی کھا پی کر ہماری عبادت میں لگے رہو نافرمانی کر کے زمین میں فساد مت پھیلاؤ ورنہ یہ نعمتیں چھن جائیں گی۔

 حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

 یہ ایک چکور پتھر تھا جو ان کے ساتھ ہی تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بحکم اللہ اس پر لکڑی ماری چاروں طرف سے تین تین نہریں بہ نکلیں۔ یہ پتھر بیل کے سر جتنا تھا جو بیل پر لاد دیا جاتا تھا۔ جہاں اترتے رکھ دیتے اور عصا کی ضرب لگتے ہی اس میں سے نہریں بہہ نکلتیں۔ جب کوچ کرتے اٹھا لیتے نہریں بند ہو جاتیں اور پتھر کو ساتھ رکھ لیتے۔ یہ پتھر طور پہاڑ کا تھا ایک ہاتھ لمبا اور ایک ہاتھ چوڑا تھا

بعض کہتے ہیں یہ جنتی پتھر تھا دس دس ہاتھ لمبا چوڑا تھا دو شاخیں تھیں جو چمکتی رہتی تھیں۔

ایک اور قول میں ہے کہ یہ پتھر حضرت آدمؑ کے ساتھ جنت سے آیا تھا اور یونہی ہاتھوں ہاتھ پہنچتا ہوا حضرت شعیب کو ملا تھا انہوں نے لکڑی اور پتھر دونوں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دئیے تھے

بعض کہتے ہیں یہ وہی پتھر ہے جس پر حضرت موسیٰؑ اپنے کپڑے رکھ کر نہا رہے تھے اور بحکم الہٰی یہ پتھر آپ کے کپڑے لے کر بھاگا تھا اسے حضرت موسیٰ ؑ نے حضرت جبرائیل کے مشورے سے اٹھا لیا تھا جس سے آپ کا معجزہ ظاہر ہوا۔

 زمحشری کہتے ہیں کہ الْحَجَرَ پر الف لام جنس کے لئے ہے عہد کے لئے نہیں یعنی اسی ایک پتھر پر عصا مارو یہ نہیں کہ فلاں پتھر ہی پر مارو

حضرت حسن سے بھی یہی مروی ہے اور یہی معجزے کا کمال اور قدرت کا پورا اظہار ہے آپ کی لکڑی لگتے ہی وہ بہنے لگتا اور پھر دوسری لکڑی لگتے ہی خشک ہو جاتا بنی اسرائیل آپس میں کہنے لگے کہ اگر یہ پتھر گم ہو گیا تو ہم پیاسے مرنے لگیں گے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم لکڑی نہ مارو صرف زبانی کہو تاکہ انہیں یقین آ جائے واللہ اعلم۔

ہر ایک قبیلہ اپنی اپنی نہر کو اس طرح جان لیتا کہ ہر قبیلہ کا ایک ایک آدمی پتھر کے پاس کھڑا رہ جاتا اور لکڑی لگتے ہی اس میں سے چشمے جاری ہو جاتے جس شخص کی طرف جو چشمہ جاتا وہ اپنے قبیلے کو بلا کر کہہ دیتا کہ یہ چشمہ تمہارا ہے

یہ واقعہ میدان تیہ کا ہے سورۃ اعراف میں بھی اس واقعہ کا بیان ہے لیکن چونکہ وہ سورت مکی ہے اس لئے وہاں ان کا بیان غائب کی ضمیر سے کیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے جو احسانات ان پر نازل فرمائے تھے وہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دہرائے ہیں اور یہ سورت مدنی ہے اس لئے یہاں خود انہیں خطاب کیا گیا ہے۔ سورۃ اعراف میں فَانبَجَسَتْ (۷:۱۶۰) کہا اور یہاں فَانْفَجَرَتْ کہا اس لئے کہ وہاں اول اول جاری ہونے کے معنی میں ہے اور یہاں آخری حال کا بیان ہے واللہ اعلم۔

 اور ان دونوں جگہ کے بیان میں دس وجہ سے فرق ہے جو فرق لفظی بھی ہے اور معنوی بھی زمخشری نے اپنے طور پر ان سب وجوہ کو بیان کیا ہے اور حقیقت اس میں قریب ہے واللہ اعلم

وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَى لَنْ نَصْبِرَ عَلَى طَعَامٍ وَاحِدٍ

اور جب تم نے کہا اے موسیٰ! ہم سے ایک ہی قسم کے کھانے پر ہرگز صبر نہ ہو سکے گا،

یہاں بنی اسرائیل کی بےصبری اور نعمت اللہ کی ناقدری بیان کی جا رہی ہے کہ من و سلویٰ جیسے پاکیزہ کھانے پر ان سے صبر نہ ہو سکا اور ردی چیزیں مانگنے لگے

 ایک طَعَامٍ سے مراد ایک قسم کا کھانا یعنی من و سلویٰ ہے۔

فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْبِتُ الْأَرْضُ مِنْ بَقْلِهَا وَقِثَّائِهَا وَفُومِهَا وَعَدَسِهَا وَبَصَلِهَا ۖ

اس لئے اپنے رب سے دعا کیجئے کہ ہمیں زمین کی پیداوار ساگ، ککڑی، گہیوں مسور اور پیاز دے

فَوم کے معنی میں اختلاف ہے ابن مسعود کی قرأت میں ثَوم ہے،

 مجاہد نے فَوم کی تفسیر ثَوم کے ساتھ کی ہے۔ یعنی لہسن،

ابن عباسؓ سے بھی یہ تفسیر مروی ہے اگلی لغت کی کتابوں میں فوموالنا کے معنی اختبروا یعنی ہماری روٹی پکاؤ کے ہیں

امام ابن جریر فرماتے ہیں اگر یہ صحیح ہو تو یہ حروف مبدلہ میں سے ہیں جیسے عاثور شرعا فور شراثافی اثاثی مفافیر مغاثیر وغیرہ جن میں ف سے ت اور ث بدلا گیا کیونکہ یہ دونوں مخرج کے اعتبار سے بہت قریب ہیں واللہ اعلم۔

اور لوگ کہتے ہیں فَوم کے معنی گیہوں کے ہیں

حضرت ابن عباسؓ سے بھی یہی تفسیر منقول ہے اور احیجہ کے شعر میں بھی فَوم گیہوں کے معنی میں آیا ہے

بنی ہاشم کی زبان میں فَوم گیہوں کے معنی میں مستعمل تھا۔

فَوم کے معنی روٹی کے بھی ہیں بعض نے سنبلہ کے معنی کئے ہیں

حضرت قتادہ اور حضرت عطا فرماتے ہیں جس اناج کی روٹی پکتی ہے اسے فَوم کہتے ہیں

بعض کہتے ہیں فَوم ہر قسم کے اناج کو کہتے ہیں

قَالَ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنَى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ ۚ

آپ نے فرمایا بہتر چیز کے بدلے ادنیٰ چیز کیوں طلب کرتے ہو!

حضرت موسیٰ نے اپنی قوم کو ڈانٹا کہ تم ردی چیز کو بہتر کے بدلے کیوں طلب کرتے ہو؟

اهْبِطُوا مِصْرًا فَإِنَّ لَكُمْ مَا سَأَلْتُمْ ۗ

اچھا شہر میں جاؤ وہاں تمہاری چاہت کی یہ سب چیزیں ملیں گی ۔

پھر فرمایا شہر میں جاؤ وہاں یہ سب چیزیں پاؤ گے

جمہور کی قرأت مِصْرًا ہی ہے اور تمام قرأتوں میں یہی لکھا ہوا ہے۔

ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ شہروں میں سے کسی شہر میں چلے جاؤ۔

ابی بن کعبؓ اور ابن مسعودؓ سے مِصْرَ کی قراء ت بھی ہے اور اس کی تفسیر مصر شہر سے کی گئی ہے

اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مِصْرًا سے بھی مراد مخصوص شہر مصر لیا گیا ہو اور یہ الف مِصْرًا کا ایسا ہو جیسا قواریرا قواریرا میں ہے

مصر سے مراد عام شہر لینا ہی بہتر معلوم ہوتا ہے

تو مطلب یہ ہوا کہ جو چیز تم طلب کرتے ہو یہ تو آسان چیز ہے جس شہر میں جاؤ گے یہ تمام چیزیں وہاں پا لو گے میری دعا کی بھی کیا ضرورت ہے؟ کیونکہ ان کا یہ قول محض تکبر سرکشی اور بڑائی کے طور پر تھا اس لئے انہیں کوئی جواب نہیں دیا گیا واللہ اعلم۔

وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ ۗ

ان پر ذلت اور مسکینی ڈال دی گئی اور اللہ کا غضب لے کر وہ لوٹے

مطلب یہ ہے کہ ذلت اور مسکینی ان پر کا مقدر بنا دی گئی۔ اہانت و پستی ان پر مسلط کر دی گئی جزیہ ان سے وصول کیا گیا مسلمانوں کے قدموں تلے انہیں ڈال دیا گیا فاقہ کشی اور بھیک کی نوبت پہنچی اللہ کا غضب و غصہ ان پر اترا

بَاءُوا کے معنی لوٹنے اور رجوع کیا کے ہیں

 بَاءُ کبھی بھلائی کے صلہ کے ساتھ اور کبھی برائی کے صلہ کے ساتھ آتا ہے یہاں برائی کے صلہ کے ساتھ ہے

ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ بِغَيْرِ الْحَقِّ ۗ ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ (۶۱)

یہ اسلئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرتے نبیوں کو ناحق تنگ کرتے تھے، انکی نافرمانیاں اور زیادتیوں کا نتیجہ ہے

یہ تمام عذاب ان کے تکبر عناد حق کی قبولیت سے انکار، اللہ کی آیتوں سے کفر انبیا اور ان کے تابعداروں کی اہانت اور ان کے قتل کی بنا پر تھا اس سے زیادہ بڑا کفر کون سا ہو گا کہ اللہ کی آیتوں سے کفر کرتے اور اس کے نبیوں کو بلاوجہ قتل کرتے؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تکبر کے معنی حق کو چھپانے اور لوگوں کو ذلیل کرنے کے ہیں۔

مالک بن مرارہ رہاویؓ ایک روز رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں خوبصورت آدمی ہوں میرا دل نہیں چاہتا کہ کسی کی جوتی کا تسمہ بھی مجھ سے اچھا ہو تو کیا یہ تکبر اور سرکشی ہے؟

آپ ﷺنے فرمایا نہیں بلکہ تکبر اور سرکشی حق کو رد کرنا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے

 چونکہ بنی اسرائیل کا تکبر کفرو قتل انبیاءعلیہم السلام تک پہنچ گیا تھا اس لئے اللہ کا غضب ان پر لازم ہو گیا۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل ایک ایک دن میں  تین تین سو نبیوں کو قتل کر ڈالتے تھے پھر بازاروں میں جا کر اپنے لین دین میں مشغول ہو جاتاے (ابو داؤد طیالسی)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

سب سے زیادہ سخت عذاب قیامت کے دن اس شخص کو ہو گا’ جسے نبی نے قتل کیا ہو یا اس نے کسی نبی کو مار ڈالا ہو اور گمراہی کا امام اور  تصویریں بنانے والا ۔

یہ ان کی نافرمانیوں اور ظلم و زیادتی کا بدلہ تھا یہ دوسرا سبب ہے کہ وہ منع کئے ہوئے کام ہی کرتے تھے اور حد سے بڑھ جاتے تھے واللہ اعلم۔

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ

مسلمان ہوں، یہودی ہوں نصاریٰ  ہوں یا صابی ہوں جو کوئی بھی اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان لائے

وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (۶۲)

اور نیک عمل کرے ان کے اجر ان کے رب کے پاس ہیں اور ان پر نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ اداسی۔

اوپر چونکہ نافرمانوں کے عذاب کا ذکر تھا تو یہاں ان میں جو لوگ نیک تھے ان کے ثواب کا بیان ہو رہا ہے نبی کی تابعداری کرنے والوں کے لئے یہ بشارت تاقیامت تک ہے کہ نہ مستقبل کا ڈر نہ یہاں حاصل نہ ہونے والی اشیاء کا افسوس و حسرت۔

فرمایا:

أَلا إِنَّ أَوْلِيَآءَ اللَّهِ لاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ (۶۲:۱۰)

یاد رکھو کے اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں‏

اور وہ فرشتے جو مسلمان کی روح نکلنے کے وقت آتے ہیں یہی کہتے ہیں:

إِنَّ الَّذِينَ قَالُواْ رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَـمُواْ ۔۔۔ وَأَبْشِرُواْ بِالْجَنَّةِ الَّتِى كُنتُمْ تُوعَدُونَ  (۴۱:۳۰)

(واقعی) جن لوگوں نے کہا ہمارا پروردگار اللہ ہے اور پھر اسی پر قائم رہے ان کے پاس فرشتے (یہ کہتے ہوئے) آتے ہیں کہ تم کچھ بھی اندیشہ اور غم نہ کرو (بلکہ) اس جنت کی بشارت سن لو جس کا تم وعدہ دیئے گئے ہو ۔

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے سے پہلے جن ایمان والوں سے ملا تھا ان کی عبادت اور نماز روزے وغیرہ کا ذکر کیا تو یہ آیت اتری (ابن ابی حاتم)

ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت سلمانؓ نے ان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ نمازی روزہ دار ایماندار اور اس بات کے معتقد تھے کہ آپ مبعوث ہونے والے ہیں آپ ﷺنے فرمایا کہ وہ جہنمی ہیں، حضرت سلمانؓ کو اس سے بڑا رنج ہوا وہیں یہ آیت نازل ہوئی

لیکن یہ واضح رہے کہ یہودیوں میں سے ایماندار وہ ہے جو تورات کو مانتا ہو اور سنت موسیٰ علیہ السلام کا عامل ہو لیکن جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام آ جائیں تو ان کی تابعداری نہ کرے تو پھر بےدین ہو جائے گا

اسی طرح نصرانیوں میں سے ایماندار وہ ہے جو انجیل کو کلام اللہ مانے شریعت عیسوی پر عمل کرے اور اگر اپنے زمانے میں پیغمبر آخرالزمان حضرت محمد مصطفی ﷺ کو پا لے تو آپ کی تابعداری اور آپ کی نبوت کی تصدیق کرے اگر اب بھی وہ انجیل کو اور اتباع عیسوی کو نہ چھوڑے اور حضور ﷺ کی رسالت کو تسلیم نہ کرے تو ہلاک ہو گا۔ (ابن ابی حاتم)

سدی نے یہی روایت کی ہے اور سعید بن جبیر بھی یہی فرماتے ہیں،

مطلب یہ ہے کہ ہر نبی کا تابعدار اس کا ماننے والا ایماندار اور صالح ہے اور اللہ کے ہاں نجات پانے والا لیکن جب دوسرا نبی آئے اور وہ اس سے انکار کرے تو کافر ہو جائے گا ۔

قرآن کی ایک آیت تو یہ جو آپ کے سامنے ہے اور دوسری وہ آیت جس میں بیان ہے:

وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلَـمِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِى الاٌّخِرَةِ مِنَ الْخَـسِرِينَ (۳:۸۵)

جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کا طالب ہو اس سے قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ نقصان اٹھانے والا ہو گا۔

 ان دونوں آیتوں میں یہی تطبیق ہے کسی شخص کا کوئی عمل کوئی طریقہ مقبول نہیں تاوقتیکہ وہ شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق نہ ہو مگر یہ اس وقت ہے جب کہ آپ مبعوث ہو کر دنیا میں آ گئے آپ سے پہلے جس نبی کا جو زمانہ تھا اور جو لوگ اس زمانہ میں تھے ان کے لئے ان کے زمانے کے نبی کی تابعداری اور اس کی شریعت کی مطابقت شرط ہے۔

یہود کون ہیں؟

لفظ یہود ہوداۃ سے ماخوذ ہے جس کے معنی مودۃ اور دوستی کے ہیں یا یہ ماخوذ ہے تہود سے جس سے کے معنی توبہ کے ہیں جیسے قرآن میں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں:

إِنَّا هُدْنَـا إِلَيْكَ (۷:۱۵۶)

ہم تیری طرف رجوع کرتے ہیں

یعنی ہم اے اللہ تیری طرف توبہ کرتے ہیں پس انہیں ان دونوں وجوہات کی بنا پر یہود کہا گیا ہے

یہودا حضرت یعقوب کے بڑے لڑکے کا نام تھا

ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ تورات پڑھتے وقت ہلتے تھے۔ اس بنا پر انہیں یہود یعنی حرکت کرنے والا کہا گیا ہے

نصاریٰ کون ہیں؟

جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کا زمانہ آیا تو بنی  اسرائیل پر آپ کی نبوت کی تصدیق اور آپ کے فرمان کی اتباع واجب ہوئی تب ان کا نام نصاریٰ ہوا کیونکہ انہوں نے آپس میں ایک دوسرے کی نصرت یعنی تائید اور مدد کی تھی انہیں انصار بھی کہا گیا ہے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قول ہے:

مَنْ أَنصَارِى إِلَى اللَّهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ (۶۱:۱۴)

اللہ کے دین میں میرا مددگار کون ہے؟ حواریوں نے کہا ہم ہیں

بعض کہتے ہیں یہ لوگ جہاں اترتے تھے اس زمین کا نام ناصرہ تھا اس لئے انہیں نصاریٰ کہا گیا

قتادہ اور ابن جریج کا یہی قول ہے ابن عباسؓ سے بھی یہی مروی ہے واللہ اعلم۔

نصاریٰ نصران کی جمع ہے جیسے نشوان کی جمع نشاوی اور سکران کی جمع سکاری اس کا مؤنث نصراتہ آتا ہے

اب جبکہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ آیا اور آپ تمام دنیا کی طرف رسول و نبی بنا کر بھیجے گئے تو ان پر بھی اور دوسرے سب پر بھی آپ کی تصدیق و اتباع واجب قرار دی گئی اور ایمان و یقین کی پختگی کی وجہ سے آپ کی اُمت کا نام مؤمن رکھا گیا اور اس لئے بھی کہ ان کا ایمان تمام اگلے انبیاء پر بھی ہے اور تمام آنے والی باتوں پر بھی۔

صابی کون ہیں؟

صابی کے معنی ایک تو بےدین اور لامذہب  کے کئے گئے ہیں اور اہل کتاب کے ایک فرقہ کا نام بھی یہ تھا جو زبور پڑھا کرتے تھے اسی بنا پر ابو حنیفہ اور اسحٰق کا مذہب ہے کہ انکے ہاتھ کا ذبیحہ ہمارے لئے حلال ہے اور انکی عورتوں سے نکاح کرنا بھی

 حضرت حسن اور حضرت حکم فرماتے ہیں یہ گروہ مجوسیوں کے مانند ہے

یہ بھی مروی ہے کہ یہ لوگ فرشتوں کے پجاری تھے۔ زیاد نے جب یہ سنا تھا کہ یہ لوگ پانچ وقت نماز قبلہ کی جانب رخ کر کے پڑھا کرتے ہیں تو ارادہ کیا کہ انہیں جزیہ معاف کر دے لیکن ساتھ ہی معلوم ہوا کہ وہ مشرک ہیں تو اپنے ارادہ سے باز رہے۔

ابوالزناد فرماتے ہیں یہ لوگ عراقی ہیں۔ بکوثی کے رہنے والے سب نبیوں کو مانتے ہیں ہر سال تیس روزے رکھتے ہیں اور یمن کی طرف منہ کر کے ہر دن میں پانچ نماز ہیں پڑھتے ہیں

وہب بن منبہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو یہ لوگ جانتے ہیں لیکن کسی شریعت کے پابند نہیں اور کفار بھی نہیں

عبدالرحمٰن بن زید کا قول ہے:

یہ بھی ایک مذہب ہے جزیرہ موصل میں یہ لوگ تھے لا الہ الا اللہ پڑھتے تھے اور کسی کتاب یا نبی کو نہیں مانتے تھے اور نہ کوئی خاص شرع کے عامل تھے

مشرکین اسی بنا پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو صابی کہتے تھے یعنی لا الہ الا اللہ کہنے کی بنا پر ۔ ان کا دین نصرانیوں سے ملتا جلتا تھا ان کا قبلہ جنوب کی طرف تھا یہ لوگ اپنے آپ کو حضرت نوح کے دین پر بتاتے تھے

 ایک قول یہ بھی ہے کہ یہود مجوس کے دین کا خلط ملط یہ مذہب تھا ان کا ذبیحہ کھانا اور کی عورتوں سے نکاح کرنا ممنوع ہے

قرطبی فرماتے ہیں مجھے جہاں تک معلوم ہوا ہے کہ یہ لوگ موحد تھے لیکن تاروں کی تاثیر اور نجوم کے معتقد تھے

 ابو سعید اصطخری نے ان پر کفر کا فتویٰ صادر کیا ہے

رازی فرماتے ہیں یہ ستارہ پرست لوگ تھے کشرا ینین میں سے تھے جن کی جانب حضرت ابراہیم علیہ السلام بھیجے گئے تھے

حقیقت حال کا علم تو محض اللہ تعالیٰ کو ہے مگر بظاہر یہی قول اچھا معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ نہ یہودی تھے نہ نصرانی نہ مجوسی نہ مشرک بلکہ یہ لوگ فطرت پر تھے کسی خاص مذہب کے پابند نہ تھے اور اسی معنی میں مشرکین اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صابی کہا کرتے تھے یعنی ان لوگوں نے تمام مذاہب ترک کر دئیے تھے

بعض علماء کا قول ہے کہ صابی وہ ہیں جنہیں کسی نبی کی دعوت نہیں پہنچی۔ واللہ اعلم

وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُمْ بِقُوَّةٍ وَاذْكُرُوا مَا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (۶۳)

جب ہم نے تم سے وعدہ لیا اور تم پر طور پہاڑ لا کھڑا کر دیا (اور کہا) جو ہم نے تمہیں دیا اسے مضبوطی سے تھام لو اور جو کچھ اس میں ہے اسے یاد کرو تاکہ تم بچ سکو۔‏

ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کو ان کے عہد و پیمان یاد دلا رہا ہے کہ میری عبادت اور میرے نبی کی اطاعت کا وعدہ میں تم سے لے چکا ہوں اور اس وعدے کو پورا کرانے اور منوانے کے لئے میں نے طور پہاڑ کو تمہارے سروں پر لا کر کھڑا کر دیا تھا جیسے اور جگہ ہے :

وَإِذ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَهُمْ ۔۔۔ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (۷:۱۷۱)

اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب ہم نے پہاڑ کو اٹھا کر سائبان کی طرح ان کے اوپر معلق کر دیا اور ان کو یقین ہوگیا کہ اب ان پر گرا

اور کہا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی ہے اسے مضبوطی کے ساتھ قبول کرو اور یاد رکھو جو احکام اس میں ہیں اس سے توقع ہے کہ تم متقی بن جاؤ ۔

الطُّورَ سے مراد پہاڑ ہے جیسے سورۃ اعراف کی آیت میں ہے اور جیسے صحابہ اور تابعین نے اس کی تفسیر کی ہے ثابت یہی ہے کہ الطُّورَ اس پہاڑ کو کہتے ہیں جس پر سبزہ اگتا ہو۔

حدیث فتون میں بروایت ابن عباسؓ مروی ہے کہ جب انہوں نے اطاعت سے انکار کرنے کے باعث ان کے سر پر پہاڑ لا کھڑا کیا کہ اب تو سنیں۔

سدی کہتے ہیں کہ ان کے سجدےسے انکار کی وجہ سے ان کے سروں پر پہاڑ آ گیا لیکن اسی وقت یہ سب سجدے میں گر پڑے اور مارے ڈر کے کنکھیوں سے اوپر کی طرف دیکھتے رہے اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم فرمایا اور پہاڑ ہٹا لیا اسی وجہ سے وہ اسی سجدے کو پسند کرتے ہیں کہ آدھا دھڑ سجدے میں ہو اور دوسری طرف سے اونچے دیکھ رہے ہوں۔

جو ہم نے دیا اس سے مراد تورات ہے

بِقُوَّةٍ سے مراد طاعت ہے یعنی تورات پر مضبوطی سے جم کر عمل کرنے کا وعدہ کرو ورنہ پہاڑ تم پر گرا دیا جائے گا اور اس میں جو ہے اسے یاد کرو اور اس پر عمل کرو یعنی تورات پڑھتے پڑھاتے رہو۔

ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ ۖ فَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَكُنْتُمْ مِنَ الْخَاسِرِينَ (۶۴)

لیکن تم اس کے بعد بھی پھر گئے، پھر اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو تم نقصان والے ہو جاتے۔‏

 لیکن ان لوگوں نے اتنے پختہ میثاق اتنے اعلیٰ عہد اور اس قدر زبردست وعدے کے بعد بھی کچھ پرواہ نہ کی۔ اور عہد شکنی کی اب اگر اللہ تعالیٰ کی کرم فرمائی اور رحمت نہ ہوتی اگر وہ توبہ قبول نہ فرماتا اور نبیوں کے سلسلہ کو برابر جاری نہ رکھتا تو یقیناً تمہیں زبردست نقصان پہنچتا اس وعدے کو توڑنے کی بنا پر دنیا اور آخرت میں تم برباد ہو جاتے۔

وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِينَ اعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِي السَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِينَ (۶۵)

اور یقیناً تمہیں ان لوگوں کا علم بھی ہے جو تم میں سے ہفتہ کے بارے میں حد سے بڑھ گئے اور ہم نے بھی کہہ دیا کہ تم ذلیل بندر بن جاؤ۔‏

اس واقعہ کا بیان تفصیل کے ساتھ سورۃ اعراف میں ہے جہاں فرمایا وَاسْأَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ (۷:۱۷۳) وہیں اس کی تفسیر بھی پوری بیان ہو گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ

یہ ایلہ بستی کے باشندے تھے ان پر ہفتہ کے دن تعظیم ضروری کی گئی تھی اس دن کا شکار منع کیا گیا تھا۔ اور حکم باری تعالیٰ سے مچھلیاں اسی دن بکثرت آیا کرتی تھیں تو انہوں نے مکاری کی۔ گڑھے کھود لئے۔ رسیاں اور کانٹے ڈال دئیے۔ ہفتہ والے دن وہ آ گئیں۔ یہاں پھنس گئیں۔ اتوار کی رات کو جا کر پکڑ لیا۔ اس جرم پر اللہ نے ان کی شکلیں بدل دیں۔

حضرت مجاہد فرماتے ہیں صورتیں نہیں بدلی تھیں بلکہ دل مسخ ہو گئے تھے یہ صرف بطور مثال کے ہے جیسے عمل نہ کرنے والے علماء کو گدھوں سے مثال دی ہے لیکن یہ قول غریب ہے اور عبارت قرآن کے ظاہر الفاظ کے بھی خلاف ہے اس آیت پر پھر سورۃ اعراف کی آیت وَاسْأَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ (۷:۱۷۳) اور آیت وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيرَ (۵:۶۰)  پر نظر ڈالو

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ جوان لوگ بندر بن گئے اور بوڑھے سؤر بنا دئیے گئے۔

 حضرت قتادہ فرماتے ہیں :

یہ تمام مرد اور عورت دم والے بندربنا دئیے گئے۔ آسمانی آواز آئی کہ تم سب بندر بن جاؤ چنانچہ سب کے سب بندر بن گئے جو لوگ انہیں اس مکروہ حیلہ سے روکتے تھے وہ اب آئے اور کہنے لگے دیکھو ہم پہلے سے تمہیں منع کرتے تھے؟ تو وہ سر ہلاتے تھے یعنی ہاں۔

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں:

تھوڑی مدت میں وہ سب ہلاک ہو گئے ان کی نسل نہیں ہوئی تین دن سے زیادہ کوئی مسخ شدہ قوم زندہ نہیں رہتی یہ سب بھی تین دن میں ہی یونہی ناک رگڑتے رگڑتے مر گئے کھانا پینا اور نسل سب منقطع ہو گئی۔

یہ بندر جواب ہیں اور جو اس وقت بھی تھے یہ تو جانور ہیں جو اسی طرح پیدا کئے گئے تھے اللہ تعالیٰ جو چاہے اور جس طرح چاہے پیدا کرتا ہے اور جسے جس طرح کا چاہے بنا دیتا ہے

اللہ اپنے غضب و غصہ سے اور اپنی پکڑ دھکڑ سے اور اپنے دینوی اور اخروی عذاب سے نجات دے آمین

خَاسِئِينَ کے معنی ذلیل اور کمینہ۔

 ان کا واقعہ تفصیل کے ساتھ حضرت ابن عباسؓ نے جو بیان کیا ہے وہ سب سن لیجئے۔

ان پر جمعہ کی عزت و ادب کو فرض کیا گیا لیکن انہوں نے جمعہ کے دن کو پسند نہ کیا اور ہفتہ کا دن رکھا اس دن کی عظمت کے طور پر ان پر شکار کھیلنا وغیرہ اس دن حرام کر دیا گیا۔ ادھر اللہ کی آزمائش کی بنا پر ہفتہ والے دن تمام مچھلیاں اوپر آ جایا کرتی تھیں اور کودتی اچھلتی رہتی تھیں لیکن باقی دنوں میں کوئی نظر ہی نہیں آتی تھی۔ ایک مدت تک تو یہ لوگ خاموش رہے اور شکار کرنے سے رکے رہے۔

بعد ازاں ان میں سے ایک شخص نے یہ حیلہ نکالا کہ ہفتہ والے دن مچھلی کو پکڑ لیا اور پھندے میں پھانس کر ڈوری کو کنارے پر کسی چیز سے باندھ دیا اتوار والے دن جا کر نکال لایا اور پکا کر کھائی۔ لوگوں نے خوشبو پا کر پوچھا تو اس نے کہا میں نے تو آج اتوار کو شکار کیا ہے آخر یہ راز کھلا تو اور لوگوں نے بھی اس حیلہ کو پسند کیا اور اس طرح وہ سب مچھلیوں کا شکار کرنے لگے پھر بعض نے دریا کے آس پاس گڑھے کھود لئے ہفتہ والے دن جب مچھلیاں اس میں آ جاتیں تو اسے بند کر دیتے اور اتوار والے دن پکڑ لاتے کچھ لوگ جو ان میں نیک دل اور سچے مسلمان تھے وہ انہیں روکتے اور منع کرتے رہے لیکن انکا جواب یہی ہوتا تھا کہ ہم ہفتہ کو شکار ہی نہیں کھیلتے ہم تو اتوار والے دن پکڑتے ہیں

ان شکار کھیلنے والوں اور ان کو منع کرنے والوں کے سوا ایک گروہ ان میں اور بھی تھا جو مصلحت وقت برتنے والا اور دونوں فرقوں کو راضی رکھنے والا وہ تو پورا ساتھ دیتا تھا۔ ان کا نہ شکار کھیلتے تھے نہ شکاریوں کو روکتے تھے بلکہ روکنے والوں سے کہتے تھے کہ اس قوم کو کیوں وعظ و نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ ہلاک کرے گا یا سخت عذاب کرے اور تم اپنا فرض بھی ادا کر چکے انہیں منع کر چکے جب نہیں مانتے تو اب انہیں چھوڑو۔

یہ جواب دیتے کہ ایک تو اللہ کے ہاں ہم معذور ہو جائیں اس لئے اور دوسرےاس  لئے بھی کہ شاید آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو پرسوں یہ مان جائیں اور عذاب اللہ سے نجات پائیں بالآخر اس مسلم جماعت نے اس حیلہ کو جو فرقہ کا بالکل بائیکاٹ کر دیا اور ان سے بالکل الگ ہو گئے۔ بستی کے درمیان ایک دیوار کھینچ لی اور دروازے اپنے آنے جانے کا رکھا اور ایک دروازہ ان حیلہ جو نافرمانوں کے لئے

اس پر بھی ایک مدت اسی طرح گزر گئی ایک دن صبح مسلمان جاگے دن چڑھ گیا لیکن اب تک ان لوگوں نے اپنا دروازہ نہیں کھولا تھا اور نہ ان کی آوازیں آ رہی تھیں یہ لوگ متحیر تھے کہ آج کیا بات ہے؟

آخر جب زیادہ دیر لگ گئی تو ان لوگوں نے دیوار پر چڑھ کر دیکھا تو وہاں عجب منظر نظر آیا دیکھا کہ وہ تمام لوگ مع عورتوں بچوں کے بندر بن گئے ہیں ان کے گھر جو راتوں کو بند تھے اسی طرح بند ہیں اور اندر وہ کل انسان بندر کی صورتوں میں ہیں جن کی دمیں نکلی ہوئی ہیں۔ بچے چھوٹے بندروں کی شکل میں مرد بڑے بندروں کی صورت میں عورتیں بندریاں بنی ہوئی ہیں اور ہر ایک پہچانا جاتا ہے کہ یہ فلاں مرد ہے یہ فلاں عورت ہے یہ فلاں بچہ ہے وغیرہ

یہ بھی یاد رہے کہ جب یہ عتاب آیا تو نہ صرف وہی ہلاک ہوئے جو شکار کھیلتے تھے بلکہ ان کے ساتھ وہ بھی ہلاک ہوئے جو انہیں منع نہ کرتے تھے اور خاموش بیٹھے ہوئے تھے اور میل جول ترک نہ کیا تھا صرف وہ بچے جو انہیں منع کرتے رہے اور ان سے الگ تھلگ ہو گئے تھے

یہ تمام اقوال اور قرآن کریم کی کئی ایک آیتیں وغیرہ شاہد ہیں کہ صحیح بات یہی ہے کہ ان کی صورتیں بدل دی گئی تھیں سچ مچ بندر بنا دئیے گئے نہ یہ کہ معنوی مسخ تھا یعنی ان کے دل بندروں جیسے ہو گئے تھے جیسے کہ مجاہد کا قول ہے

ٹھیک تفسیر یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں سؤر اور بندر بنا دیا تھا اور ظاہری صورتیں بھی ان کی ان بدجانوروں جیسی ہو گئیں۔ واللہ اعلم

فَجَعَلْنَاهَا نَكَالًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهَا وَمَا خَلْفَهَا وَمَوْعِظَةً لِلْمُتَّقِينَ (۶۶)

اسے ہم نے اگلوں پچھلوں کے لئے عبرت کا سبب بنا دیا اور پرہیزگاروں کے لئے وعظ و نصیحت کا۔‏

 فَجَعَلْنَاهَا میں هَا کی ضمیر کا مرجع قِرَدَةً ہے یعنی ہم نے ان بندروں کو عبرت کا سامان بنایا

یا اس کا مرجع حیتان ہے یعنی ان مچھلیوں کو

یا اس کا مرجع عقوبۃ ہے یعنی اس سزا کو

اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس مرجع کا قریہ ہے یعنی اس بستی کو ہم نے اگلے پچھلوں کے لئے عبرتناک امر واقعہ بنا دیا

 اور صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ قریہ مراد ہے اور قریہ سے مراد اہل قریہ ہیں

نَكَال کہتے ہیں عذاب و سزا کو جیسے اور جگہ ہے:

فَأَخَذَهُ اللَّهُ نَكَالَ الاٌّخِرَةِ وَالاٍّوْلَى (۷۹:۲۵)

اس کو عبرت کا سبب بنایا آگے پیچھے والی بستیوں کے لئے

 جیسے اور جگہ ہے:

وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا مَا حَوْلَكُمْ مِّنَ الْقُرَى وَصَرَّفْنَا الاٌّيَـتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ (۴۶:۲۷)

ہم نے تمہارے آس پاس کی بستیوں کو ہلاک کیا اور اپنی نشانیاں بیان فرمائیں تاکہ وہ لوگ لوٹ آئیں

 اور ارشاد ہے:

أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا (۱۳:۴۱)

کیا وہ نہیں دیکھتے؟ کہ ہم زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے چلے آرہے ہیں

اور یہ بھی مطلب بیان کیا گیا ہے کہ اس وقت کے موجود لوگوں کے لئے اور بعد میں آنے والوں کے لئے یہ عبرت ناک واقعہ دلیل راہ بن جائے گو بعض لوگوں کے یہ بھی کہا ہے کہ اگلوں بعد میں آنے والوں کے لئے یہ واقعہ گو کتنا ہی زبردست عبرتناک ہو دلیل نہیں بن سکتا اس لئے کہ وہ تو گزر چکےتو ٹھیک قول یہی ہے کہ یہاں مراد مکان اور جگہ ہے یعنی آس پاس کی بستیاں اور یہی تفسیر ہے حضرت ابن عباسؓ اور حضرت سعید بن جیر ؒ  کی۔ واللہ اعلم۔

 اور یہ بھی معنی بیان کئے گئے ہیں کہ ان کے اگلے گناہ اور ان کے بعد آنے والے لوگوں کو ایسے ہی گناہوں کے لئے ہم نے اس سزا کو عبرت کا سبب بنایا،

لیکن صحیح قول وہی ہے جس کی صحت ہم نے بیان کی، یعنی آس پاس کی بستیاں،

 قرآن فرماتا ہے:

وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا مَا حَوْلَكُمْ مِّنَ الْقُرَى وَصَرَّفْنَا الاٌّيَـتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ (۴۶:۲۷)

ہم نے تمہارے آس پاس کی بستیوں کو ہلاک کیا اور اپنی نشانیاں بیان فرمائیں تاکہ وہ لوگ لوٹ آئیں

اور فرمان ہے:

أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا ۱۳:۴۱)

کیا وہ نہیں دیکھتے؟ کہ ہم زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے چلے آرہے ہیں

غرض یہ عذاب ان کے زمانے والوں کے لئے اور بعد میں آنے والوں کے لئے ایک سبق ہے

اور اسی لئے فرمایا وَمَوْعِظَةً لِلْمُتَّقِينَ یعنی یہ جو بعد میں آئیں گے ان پرہیزگاروں کے لئے موجب نصیحت ہو۔

موجب نصیحت یہاں تک کہ اُمت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی کہ یہ لوگ ڈرتے رہیں کہ جو عذاب و سزائیں ان پر ان کے حیلوں کی وجہ سے ، ان کے مکرو فریب سے حرام کو حلال کر لینے کے باعث نازل ہوئیں ان کے بعد بھی جو ایسا کریں گے ایسا نہ ہو کہ وہی سزا اور وہی عذاب ان پر بھی آ جائیں۔

 ایک صحیح حدیث امام ابوعبد اللہ بن بطہ نے وارد کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

لَا تَرْتَكِبُوا مَا ارْتَكَبَتِ الْيَهُودُ فَتَسْتَحِلُّوا مَحَارِمَ اللهِ بِأَدْنَى الْحِيَل

 تم وہ نہ کرو جو یہودیوں نے کیا یعنی حیلے حوالوں سے اللہ کے حرام کو حلال نہ کر لیا کرو۔

 یعنی شرعی احکام میں حیلہ جوئی سے بچو۔

یہ حدیث بالکل صحیح ہے اور اس کے سب راوی ثقہ ہیں واللہ اعلم۔

وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُوا بَقَرَةً ۖ قَالُوا أَتَتَّخِذُنَا هُزُوًا ۖ

اور موسیٰ ؑ نے جب اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے تو انہوں نے کہا ہم سے مذاق کیوں کرتے ہیں؟

قَالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ (۶۷)

آپ نے جواب دیا میں ایسا جاہل ہونے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ پکڑتا ہوں۔‏

ان کا پورا واقعہ یہ ہے:

 بنی اسرائیل میں ایک شخص بہت مالدار اور تونگر تھا اس کی کوئی نرینہ اولاد نہ تھی صرف ایک لڑکی تھی اور ایک بھتیجا تھا بھتیجے نے جب دیکھا کہ بڈھا مرتا ہی نہیں تو ورثہ کے لالچ میں اسے خیال آیا کہ میں ہی اسے کیوں نہ مار ڈالوں؟ اور اس کی لڑکی سے نکاح بھی کر لوں قتل کی تہمت دوسروں پر رکھ کر دیت بھی وصول کروں اور مقتول کے مال کا مالک بھی بن جاؤں اس شیطانی خیال میں وہ پختہ ہو گیا اور ایک دن موقع پا کر اپنے چچا کو قتل کر ڈالا۔

بنی اسرائیل کے بھلے لوگ ان کے جھگڑوں بکھیڑوں سے تنگ آ کر یکسو ہو کر ان سے الگ ایک اور شہر میں رہتے تھے شام کو اپنے قلعہ کا پھاٹک بند کر دیا کرتے تھے اور صبح کھولتے تھے کسی مجرم کو اپنے ہاں گھسنے بھی نہیں دیتے تھے، اس بھتیجے نے اپنے چچا کی لاش کو لے جا کر اس قلعہ کے پھاٹک کے سامنے ڈال دیا اور یہاں آ کر اپنے چچا کو ڈھونڈنے لگا پھر ہائے دہائی مچا دی کہ میرے چچا کو کسی نے مار ڈالا۔ آخر کار ان قلعہ والوں پر تہمت لگا کر ان سے دیت کا روپیہ طلب کرنے لگا انہوں نے اس قتل سے اور اس کے علم سے بالکل انکار کیا، لیکن یہ اڑ گیا یہاں تک کہ اپنے ساتھیوں کو لے کر ان سے لڑائی کرنے پر تل گیا یہ لوگ عاجز آ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئے اور واقعہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہ شخص خواہ مخواہ ہم پر ایک قتل کی تہمت لگا رہا ہے حالانکہ ہم بری الذمہ ہیں۔

موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی وہاں سے وحی نازل ہوئی کہ ان سے کہو ایک گائے ذبح کریں

انہوں نے کہا اے اللہ کے نبی کہاں قاتل کی تحقیق اور کہاں آپ گائے کے ذبح کا حکم دے رہے ہیں؟ کیا آپ ہم سے مذاق کرتے ہیں؟

موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اعوذ باللہ (مسائل شرعیہ کے موقع پر) مذاق جاہلوں کا کام ہے اللہ عزوجل کا حکم یہی ہے اب اگر یہ لوگ جا کر کسی گائے کو ذبح کر دیتے تو کافی تھا لیکن انہوں نے سوالات کا دروازہ کھولا اور کہا وہ گائے کیسی ہونی چاہئے؟

اس پر حکم ہوا کہ وہ نہ بہت بڑھیا ہے نہ بچہ ہے جوان عمر کی ہے

انہوں نے کہا حضرت ایسی گائیں تو بہت ہیں یہ بیان فرمائیے کہ اس کا رنگ کیا ہے؟

وحی اتری کہ اس کا رنگ بالکل صاف زردی مائل ہے ہر دیکھنے والے کی آنکھوں کو بھلی لگتی  ہے

پھر کہنے لگے حضرت ایسی گائیں بھی بہت سی ہیں کوئی اور ممتاز وصف بیان فرمائیے

وحی نازل ہوئی کہ وہ کبھی ہل میں نہیں جوتی گئی، کھیتوں کو پانی نہیں پلایا ہر عیب سے پاک ہے یک رنگی ہے کوئی داغ دھبہ نہیں جوں جوں وہ سوالات بڑھاتے گئے حکم میں سختی ہوتی گئی۔

اب ایسی گائے ڈھونڈنے کو نکلے تو وہ صرف ایک لڑکے کے پاس ملی۔ یہ بچہ اپنے ماں باپ کا نہایت فرمانبردار تھا ایک مرتبہ جبکہ اس کا باپ سویا ہوا تھا اور نقدی والی پیٹی کی کنجی اس کے سرہانے تھی ایک سوداگر ایک قیمتی ہیرا بیچتا ہوا آیا اور کہنے لگا کہ میں اسے بیچنا چاہتا ہوں لڑکے نے کہا میں خریدوں گا قیمت ستر ہزار طے ہوئی لڑکے نے کہا ذرا ٹھہرو جب میرے والد جاگیں گے تو میں ان سے کنجی لے کر آپ کو قیمت ادا کر دونگا اس نے کہا ابھی دے دو تو دس ہزار کم کر دیتا ہوں اس نے کہا نہیں حضرت میں اپنے والد کو جگاؤں گا نہیں تم اگر ٹھہر جاؤ تم میں بجائے ستر ہزار کے اسی ہزار دوں گا

یونہی ادھر سے کمی اور ادھر سے زیادتی ہونی شروع ہوتی ہے یہاں تک کہ تاجر تیس ہزار قیمت لگا دیتا ہے کہ اگر تم اب جگا کر مجھے روپیہ دے دو میں تیس ہزار میں دیتا ہوں لڑکا کہتا ہے اگر تم ٹھہر جاؤ یا ٹھہر کر آؤ میرے والد جاگ جائیں تو میں تمہیں ایک لاکھ دوں گا آخر وہ ناراض ہو کر اپنا ہیرا واپس لے کر چلا گیا باپ کی اس بزرگی کے احساس اور ان کے آرام پہنچانے کی کوشش کرنے اور ان کا ادب و احترام کرنے سے پروردگار اس لڑکے سے خوش ہو جاتا ہے اور اسے یہ گائے عطا فرماتا ہے

جب بنی اسرائیل اس قسم کی گائے ڈھونڈنے نکلتے ہیں تو سوا اس لڑکے کے اور کسی کے پاس نہیں پاتے اس سے کہتے ہیں کہ اس ایک گائے کے بدلے دو گائیں لے لو یہ انکار کرتا ہے پھر کہتے ہیں تین لے لو چار لے لو لیکن یہ راضی نہیں ہوتا دس تک کہتے ہیں مگر پھر بھی نہیں مانتا یہ آ کر حضرت موسیٰ سے شکایت کرتے ہیں آپ فرماتے ہیں جو یہ مانگے دو اور اسے راضی کر کے گائے خریدو

آخر گائے کے وزن کے برابر سونا دیا گیا تب اس نے اپنی گائے بیچی یہ برکت اللہ نے ماں باپ کی خدمت کی وجہ سے اسے عطا فرمائی جبکہ یہ بہت محتاج تھا اس کے والد کا انتقال ہو گیا تھا اور اس کی بیوہ ماں غربت اور تنگی کے دن بسر کر رہی تھی

غرض اب یہ گائے خرید لی گئی اور اسے ذبح کیا گیا اور اس کے جسم کا ایک ٹکڑا لے کر مقتول کے جسم سے لگایا گیا تو اللہ تعالیٰ کی قدرت سے وہ مردہ جی اٹھا اس سے پوچھا گیا کہ تمہیں کس نے قتل کیا ہے اس نے کہا میرے بھتیجے نے اس لئے کہ وہ میرا مال لے لے اور میری لڑکی سے نکاح کر لے

 بس اتنا کہہ کر وہ پھر مر گیا اور قاتل کا پتہ چل گیا اور بنی اسرائیل میں جو جنگ وجدال ہونے والی تھی وہ رک گئی اور یہ فتنہ دب گیا اس بھتیجے کو لوگوں نے پکڑ لیا اس کی عیاری اور مکاری کھل گئی اور اسے اس کے بدلے میں قتل کر ڈالا گیا

یہ قصہ مختلف الفاظ سے مروی ہے بظاہریہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بنی اسرائیل کے ہاں کا واقعہ ہے جس کی تصدیق، تکذیب ہم نہیں کر سکتے ہاں روایت جائز ہے تو اس آیت میں یہی بیان ہو رہا ہے کہ اے بنی اسرائیل میری اس نعمت کو بھی نہ بھولو کہ میں نے عادت کے خلاف بطور معجزے کے ایک گائے کے جسم کو لگانے سے ایک مردہ کو زندہ کر دیا اس مقتول نے اپنے قاتل کا پتہ بتا دیا اور ایک ابھرنے والا فتنہ دب گیا۔

قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَنَا مَا هِيَ ۚ

انہوں نے کہا اے موسیٰ دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے لئے اس کا حلیہ بیان کر دے،

بنی اسرائیل کی سرکشی سرتابی اور حکم اللہ امر الہٰی وضاحت کے ساتھ کا یہاں بیان ہو رہا ہے کہ حکم پاتے ہیں اس پر عمل نہ کر ڈالا بلکہ شقیں نکالنے اور بار بار سوال کرنے لگے

 ابن جریج فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

 حکم ملتے ہی وہ اگر کسی گائے کو بھی ذبح کر ڈالتے تو کافی تھا لیکن انہوں نے پے درپے سوالات شروع کئے اور کام میں سختی بڑھتی گئی یہاں تک کہ آخر میں وہ انشاء اللہ نہ کہتے تو کبھی بھی سختی نہ ٹلتی اور مطلوبہ گائے ملنا اور مشکل ہو جاتی

قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لَا فَارِضٌ وَلَا بِكْرٌ عَوَانٌ بَيْنَ ذَلِكَ ۖ فَافْعَلُوا مَا تُؤْمَرُونَ (۶۸)

آپ نے فرمایا سنو وہ گائے نہ تو بالکل بڑھیا ہو، نہ بچہ، بلکہ درمیانی عمر کی نوجوان ہو، اب جو تمہیں حکم دیا گیا ہے بجا لاؤ۔‏

پہلے سوال کے جواب میں کہا گیا کہ نہ تو وہ بڑھیا ہے نہ بالکل کم عمر ہے ۔ بلکہ درمیانی عمر کی ہے

قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَنَا مَا لَوْنُهَا ۚ قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ صَفْرَاءُ فَاقِعٌ لَوْنُهَا تَسُرُّ النَّاظِرِينَ (۶۹)

وہ پھر کہنے لگے کہ دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ بیان کرے کہ اس کا رنگ کیا ہے؟

فرمایا وہ کہتا ہے وہ گائے زرد رنگ کی ہو، چمکیلا اور دیکھنے والوں کو بھلا لگنے والا اس کا رنگ ہو۔‏

پھر دوسرے سوال کے جواب میں اس کا رنگ بیان کیا گیا کہ وہ زرد اور چمکدار رنگ کی ہے جو دیکھنے والوں کے دل کو بہت پسند آئے

حضرت ابن عباسؓ کا قول ہے کہ جو زرد جوتی پہنے وہ ہر قیمت خوش و خرم رہے گا اور اس جملہ سے استدلال کیا ہے تَسُرُّ النَّاظِرِينَ

بعض نے کہا ہے کہ مراد سخت سیاہ رنگ ہے لیکن اول قول ہی صحیح ہے ہاں یہ اور بات ہے کہ ہم یوں کہیں کہ اسی کی شوخی اور چمکیلے پن سے وہ مثل کالے رنگ کے لگتا تھا

وہب بن منبہ کہتے ہیں اس کا رنگ اس قدر شوخ اور گہرا تھا کہ یہ معلوم ہوتا تھا گویا سورج کی شعائیں اس سے اٹھ رہی ہیں

تورات میں اس کا رنگ سرخ بیان کیا گیا ہے لیکن شاید عربی کرنے والوں کی غلطی ہے ۔واللہ اعلم

قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَنَا مَا هِيَ إِنَّ الْبَقَرَ تَشَابَهَ عَلَيْنَا وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَمُهْتَدُونَ (۷۰)

وہ کہنے لگے اپنے رب سے دعا کیجئے کہ ہمیں اس کا مزید حلیہ بتلائے، اس قسم کی گائے تو بہت ہیں پتہ نہیں چلتا، اگر اللہ نے چاہا تو ہم ہدایت والے ہو جائیں گے۔‏

چونکہ اس رنگ اور اس عمر کی گائیں بھی انہیں بکثرت نظر آئیں تو انہوں نے پھر کہا اے اللہ کے نبی کوئی اور نشانی بھی پوچھئے تاکہ شبہ مٹ جائے انشاء اللہ اب ہمیں رستہ مل جائے گا اگر یہ انشاء اللہ نہ کہتے تو انہیں قیامت تک پتہ نہ چلتا اور اگر یہ سوالات ہی نہ کرتے تو اتنی سختی ان پر عائد نہ ہوتی بلکہ جس گائے کو ذبح کر دیتے کفایت ہو جاتی

یہ مضمون ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے لیکن اسکی سند غریب ہےصحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ یہ حضرت ابوہریرہؓ کا اپنا کلام ہے واللہ اعلم

قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لَا ذَلُولٌ تُثِيرُ الْأَرْضَ وَلَا تَسْقِي الْحَرْثَ مُسَلَّمَةٌ لَا شِيَةَ فِيهَا ۚ

آپ نے فرمایا کہ اللہ کا فرمان ہے کہ وہ گائے کام کرنے والی زمین میں ہل جوتنے والی اور کھیتوں کو پانی پلانے والی نہیں، وہ تندرست اور بےداغ ہو۔

اب کی مرتبہ اس کے اوصاف بیان کئے گئے کہ وہ ہل میں نہیں جتی، پانی نہیں سینچا، اس کے چمڑے پر کوئی داغ دھبہ نہیں، یک رنگی ہے، سارے بدن میں کہیں دوسرا رنگ نہیں۔ اس کے ہاتھ پاؤں اور کل اعضاء بالکل درست اور توانا ہیں۔

بعض کہتے ہیں کہ وہ گائے کام کرنے والی نہیں ہاں کھیتی کا کام کرتی ہے لیکن پانی نہیں پلاتی مگر یہ قول غلط ہے اس لئے کہ ذَلُولٌ کی تفسیر یہ ہے کہ وہ ہل نہیں جو تتی اور نہ پانی پلاتی ہے اس میں نہ کوئی داغ دھبہ ہے

بعض کہتے ہیں کہ وہ گائے کام کرنے والی نہیں ہاں کھیتی کا کام کرتی ہے لیکن پانی نہیں پلاتی مگر یہ قول غلط ہے اس لئے کہ ذَلُولٌ کی تفسیر یہ ہے کہ وہ ہل نہیں جو تتی اور نہ پانی پلاتی ہے اس میں نہ کوئی داغ دھبہ ہے

قَالُوا الْآنَ جِئْتَ بِالْحَقِّ ۚ

انہوں نے کہا، اب آپ نے حق واضح کر دیا

اب اتنی بڑی کدوکاوش کے بعد بادل ناخواستہ وہ اس کی قربانی کی طرف متوجہ ہوئے

فَذَبَحُوهَا وَمَا كَادُوا يَفْعَلُونَ (۷۱)

گو وہ حکم برادری کے قریب نہ تھے، لیکن اسے مانا اور وہ گائے ذبح کر دی ۔

 اسی لئے فرمایا کہ یہ ذبح کرنا نہیں چاہتے تھے اور ذبح نہ کرنے کے بہانے تلاش کرتے تھے

 کسی نے کہا ہے اس لئے کہ انہیں اپنی رسوائی کا خیال تھا کہ نہ جانیں کون قاتل ہو

بعض کہتے ہیں اس کی قیمت سن کر گھبرا گئے تھے

 لیکن بعض روایتوں میں آیا ہے کہ کل تین دینار اس کی قیمت لگی تھی لیکن یہ تین دینار والی گائے کے وزن کے برابر سونے والی دونوں روایتیں بنی اسرائیل روایتیں ہیں۔

ٹھیک بات یہی ہے کہ ان کا ارادہ حکم کی بجا آوری کا تھا ہی نہیں لیکن اب اس قدر وضاحت کے بعد اور قتل کا مقدمہ ہونے کی وجہ سے انہیں یہ حکم ماننا ہی پڑا۔ واللہ اعلم

اس آیت سے اس مسئلہ پر بھی استدلال ہو سکتا ہے کہ جانوروں کو دیکھے بغیر ادھار دینا جائز ہے اس لئے کہ صفات کا حصر کر دیا گیا اور اوصاف پورے بیان کر دیئے گئے، جیسے کہ حضرت امام مالک امام اوزاعی امام لیث امام شافعی امام احمد اور جمہور علماء کا مذہب ہے اگلوں کا  اور پچھلوں  کا بھی اور اس کی دلیل بخاری و مسلم کی یہ حدیث بھی ہے:

کوئی عورت کسی اور عورت کے اوصاف اس طرح اپنے خاوند کے سامنے بیان نہ کرے کہ گویا وہ اسے دیکھ رہا ہے

 ایک حدیث میں نبی ﷺ نے دیت کے اونٹوں کے اوصاف بھی بیان فرمائے ہیں قتل خطا میں اور اس  قتل میں جو مشابہ عمد کے ہے

ہاں امام ابوحنیفہ اور دوسرے کوفی اور امام ثوری وغیرہ بیع مسلم کے قائل نہیں وہ کہتے ہیں کہ جانوروں کے اوصاف و احوال پوری طرح ضبط نہیں ہو سکتے

 اسی طرح کی حکایت ابن مسعود حذیفہ بن یمان اور عبدالرحمٰن بن سمرہ وغیرہ سے بھی کی جاتی ہے۔

وَإِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادَّارَأْتُمْ فِيهَا ۖ وَاللَّهُ مُخْرِجٌ مَا كُنْتُمْ تَكْتُمُونَ (۷۲)

جب تم نے ایک شخص کو قتل کر ڈالا، پھر اس میں اختلاف کرنے لگے اور تمہاری پوشیدگی کو اللہ تعالیٰ ظاہر کرنے والا تھا ۔

صحیح بخاری شریف میں ادَّارَأْتُمْ کے معنی تم نے اختلاف کیا کے ہیں۔حضرت مجاہد وغیرہ سے بھی یہی مروی ہے

مسیب بن رافع کہتے ہیں:

 جو شخص سات گھروں میں چھپ کر بھی کوئی نیک عمل کرے گا اللہ اس کی نیکی کو ظاہر کر دے گا اسی طرح اگر کوئی سات گھروں میں گھس کر بھی کوئی برائی کرے گا اللہ تعالیٰ اسے بھی ظاہر کر دے گا پھر یہ آیت وَاللَّهُ مُخْرِجٌ مَا كُنْتُمْ تَكْتُمُونَ تلاوت کی

فَقُلْنَا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِهَا ۚ

ہم نے کہا اس گائے کا ایک ٹکڑا مقتول کے جسم پر لگا دو (وہ جی اٹھے گا)

یہاں وہی واقعہ چچا بھتیجے کا بیان ہو رہا ہے جس کے باعث انہیں ذبیحہ گاؤ کا حکم ہوا تھااور کہا جاتا ہے کہ اس کا کوئی ٹکڑا لے کر مقتول کے جسم پر لگاؤ

 وہ ٹکڑا کونسا تھا؟ اس کا بیان تو قرآن میں نہیں ہے نہ کسی صحیح حدیث میں اور نہ ہمیں اس کے معلوم ہونے سے کوئی فائدہ ہے اور معلوم نہ ہونے سے کوئی نقصان ہے سلامت روی اسی میں ہے کہ جس چیز کا بیان نہیں ہم بھی اس کی تلاش و تفتیش میں نہ پڑیں

 بعض نے کہا ہے کہ وہ غضروف کی ہڈی نرم تھی کوئی کہتا ہے ہڈی نہیں بلکہ ران کا گوشت تھا کوئی کہتا ہے دونوں شانوں کے درمیان کا گوشت تھا کوئی کہتا ہے زبان کا گوشت کوئی کہتا ہے دم کا گوشت وغیرہ لیکن ہماری بہتری اسی میں ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مبہم رکھا ہے ہم بھی مبہم ہی رکھیں۔

كَذَلِكَ يُحْيِي اللَّهُ الْمَوْتَى وَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ (۷۳)

اس طرح اللہ مردوں کو زندہ کر کے تمہیں تمہاری عقلمندی کے لئے اپنی نشانیاں دکھاتا ہے،

 اس ٹکڑے کے لگتے ہی وہ مردہ جی اٹھا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے جھگڑے کا فیصلہ بھی اسی سے کیا اور قیامت کے دن جی اٹھنے کی دلیل بھی اسی کو بنایا۔

اسی سورت میں پانچ جگہ مرنے کے بعد جینے کا بیان ہوا ہے:

 ایک تو آیت ثُمَّ بَعَثْنَاكُم مِّن بَعْدِ مَوْتِكُمْ (۲:۵۶) میں اور دوسرا اس قصے میں، تیسرے ان کے قصے میں جو ہزاروں کی تعداد میں نکلے تھے اور ایک اجاڑ بستی پر ان کا گزر ہوا تھا چوتھے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے چار پرندوں کے مار ڈالنے کے بعد زندہ ہو جانے میں پانچویں زمین کی مردنی کے بعد روئیدگی کو موت و زیست سے تشبیہ دینے میں

ابو داؤد طیالسی کی ایک حدیث میں ہے :

ابوزرین عقیلی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو اللہ تعالیٰ کس طرح جلائے گا

فرمایا کبھی تم بنجر زمین پر گزرے ہو؟

 کہاں ہاں

 فرمایا پھر کبھی اس کو سرسبز و شاداب بھی دیکھا ہے؟

 کہا ہاں

 فرمایا اسی طرح موت کے بعد زیست ہے

 قرآن کریم میں اور جگہ ہے:

وَءَايَةٌ لَّهُمُ الاٌّرْضُ الْمَيْتَةُ أَحْيَيْنَـهَا ۔۔۔ أَفَلاَ يَشْكُرُونَ (۳۶:۳۳،۳۵)

ان منکرین کے لئے مردہ زمین میں بھی ایک نشانی ہے جسے ہم زندہ کرتے ہیں اور اس میں سے دانے نکالتے ہیں جسے یہ کھاتے ہیں اور جس میں ہم کھجوروں اور انگوروں کے باغ پیدا کرتے ہیں

اور چاروں طرف نہروں کی ریل پیل کر دیتے ہیں تاکہ وہ ان پھلوں کو مزے مزے سے کھائیں حالانکہ یہ ان کے ہاتھوں کا بنایا ہوا یا پیدا کیا ہوا نہیں کیا پھر بھی یہ شکر گزاری نہ کریں گے؟

 اس مسئلہ پر اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے اور حضرت امام مالک کے مذہب کو اس سے تقویت پہنچائی گئی ہے

اس لئے مقتول کے جی اٹھنے کے بعد اس نے دریافت کرنے پر جسے قاتل بتایا اسے قتل کیا گیا اور مقتول کا قول باور کیا گیا ظاہر ہے کہ دم آخر ایسی حالت میں انسان عموماً سچ ہی بولتا ہے اور اس وقت اس پر تہمت نہیں لگائی جاتی۔

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

 ایک یہودی نے ایک لڑکی کا سر پتھر پر رکھ کر دوسرے پتھر سے کچل ڈالا اور اس کے کڑے اتار لے گیا جب اس کا پتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو لگا تو آپ نے فرمایا اس لڑکی سے پوچھو کہ اسے کس نے مارا ہے۔

لوگوں نے پوچھنا شروع کیا کہ کیا تھے فلاں نے مارا فلاں نے مارا؟

وہ اپنے سر کے اشارے سے انکار کرتی جاتی تھی یہاں تک کہ جب اسی یہودی کا نام آیا تو اس نے سر کے اشارے سے کہا ہاں

چنانچہ اس یہودی کو گرفتار کیا گیا اور باصرار پوچھنے پر اس نے اقرار کیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس کا سر بھی اس طرح دو پتھروں کے درمیان کچل دیا جائے

اور امام مالک کے نزدیک جب یہ برانگیختگی کے باعث ہو تو مقتول کے وارثوں کو قسم کھلائی جائے گی بطور قسامۃ کے لیکن جمہور اس کے مخلاف اور مقتول کے قول کو اس بارے میں ثبوت نہیں جانتے۔

ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُمْ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً ۚ

پھر اس کے بعد تمہارے دل پتھر جیسے بلکہ اس بھی زیادہ سخت ہوگئے

اس آیت میں بنی اسرائیل کو زجر و توبیخ کی گئی ہے کہ اس قدر زبردست معجزے اور قدرت کی نشانیاں دیکھ کر پھر بھی بہت جلد تمہارے دل سخت پتھر بن گئے۔ اسی لئے ایمان والوں کو اس طرح کی سختی سے روکا گیا اور کہا گیا :

أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ ءَامَنُواْ أَن تَخْشَعَ ۔۔۔ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ فَـسِقُونَ (۵۷:۱۶)

کیا اب تک ایمان والوں کے لئے وقت نہیں آیا کہ ان کے دل ذکر الہٰی سے اور جو حق اتر چکا ہے اس سے نرم ہوجائیں اور ان کی طرح نہ ہوجائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی

پھر جب زمانہ دراز گزر گیا تو ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں بہت سے فاسق ہیں۔

حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ اس مقتول کے بھتیجے نے اپنے چچا کے دوبارہ زندہ ہونے اور بیان دینے کے بعد جب مر گیا تو کہا کہ اس نے جھوٹ کہا

وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْأَنْهَارُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاءُ ۚ

بعض پتھروں سے نہریں بہہ نکلتی ہیں، اور بعض پھٹ جاتے ہیں اور ان سے پانی نکل آتا ہے،

اور پھر کچھ وقت گزر جانے کے بعد بنی اسرائیل کے دل پھر پتھر سے بھی زیادہ سخت ہو گئے کیونکہ پتھروں سے تو نہریں نکلتی اور بہنے لگتی ہیں بعض پتھر پھٹ جاتے ہیں ان سے چاہے وہ بہنے کے قابل نہ ہوں

وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (۷۴)

اور بعض اللہ کے ڈر سے گر گر پڑتے ہیں اور تم اللہ تعالیٰ کو اپنے اعمال سے غافل نہ جانو۔‏

بعض پتھر خوف اللہ سے گر پڑتے ہیں لیکن ان کے دل کسی وعظ و نصیحت سے کسی پند و موعظت سے نرم ہی نہیں ہوتے۔

یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ پتھروں میں ادراک اور سمجھ ہے اور جگہ ہے:

تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَـوَتُ السَّبْعُ وَالاٌّرْضُ وَمَن فِيهِنَّ (۱۷:۴۴)

ساتوں آسمان اور زمینیں اور ان کی تمام مخلوق اور ہر ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے

ابو علی جبانی نے پتھر کے خوف سے گر پڑنے کی تاویل اولوں کے برسنے سے کی ہے لیکن یہ ٹھیک نہیں

رازی بھی غیر درست بتاتے ہیں اور فی الواقع یہ تاویل صحیح نہیں کیونکہ اس میں لفظی معنی بےدلیل کو چھوڑنا لازم آیا ہے

نہریں بہہ نکلنا زیادہ رونا ہے۔ پھٹ جانا اور پانی کا نکلنا اس سے کم رونا ہے گر پڑنا دل سے ڈرنا

بعض کہتے ہیں یہ مجازاً کہا گیا جیسے اور جگہ ہے يُرِيدُ أَن يَنقَضَّ (۱۸:۷۷)  یعنی دیوار گر پڑنا چاہ رہی تھی۔ ظاہر ہے کہ یہ مجاز ہے۔ حقیقتاً دیوار کا اردہ ہی نہیں ہوتا۔

بعض کہتے ہیں یہ مجازاً کہا گیا جیسے اور جگہ ہے يُرِيدُ أَن يَنقَضَّ (۱۸:۷۷)  یعنی دیوار گر پڑنا چاہ رہی تھی۔ ظاہر ہے کہ یہ مجاز ہے۔ حقیقتاً دیوار کا اردہ ہی نہیں ہوتا۔

رازی قرطبی وغیرہ کہتے ہیں ایسی تاویلوں کی کوئی ضرورت نہیں اللہ تعالیٰ جو صفت جس چیز میں چاہے پیدا کر سکتا ہے دیکھئے اس کا فرمان ہے :

إِنَّا عَرَضْنَا الاٌّمَانَةَ عَلَى السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ وَالْجِبَالِ فَأبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا (۳۳:۷۲)

ہم نے اپنی امانت کو آسمانوں اور زمین پر پہاڑوں پر پیش کیا لیکن سب نے اسکے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے

اوپر آیت گزر چکی کہ:

تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَـوَتُ السَّبْعُ وَالاٌّرْضُ وَمَن فِيهِنَّ (۱۷:۴۴)

ساتوں آسمان اور زمینیں اور ان کی تمام مخلوق اور ہر ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے

 اور جگہ ہے:

وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدَانِ (۵۵:۶)

اور ستارے اور درخت دونوں سجدہ کرتے ہیں

 اور فرمایا:

أَوَلَمْ يَرَوْا إِلَىٰ مَا خَلَقَ اللَّهُ مِن شَيْءٍ يَتَفَيَّأُ ظِلَالُهُ عَنِ الْيَمِينِ وَالشَّمَائِلِ سُجَّدًا لِّلَّهِ وَهُمْ دَاخِرُونَ (۱۶:۴۸)

کیا انہوں نے اللہ کی مخلوق میں سے کسی کو بھی نہیں دیکھا کہ انکے سائے دائیں بائیں جھک جھک کر اللہ تعالیٰ کے سامنے سر بسجود ہوتے اور عاجزی کا اظہار کرتے ہیں ۔

اور فرمایا :

قَالَتَآ أَتَيْنَا طَآئِعِينَ (۴۱:۱۱)

(زمین و آسمان )نے کہا ہم خوشی خوشی حاضر ہیں

 اور جگہ ہے:

لَوْ أَنزَلْنَا هَـٰذَا الْقُرْآنَ عَلَىٰ جَبَلٍ لَّرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ اللَّهِ  (۵۹:۲۱)

اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر اتارتے تو تو دیکھتا کہ خوف الہٰی سے وہ پست ہو کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا

 یعنی پہاڑ بھی قرآن سے متاثر ہو کر ڈر کے مارے پھٹ پھٹ جاتےاور جگہ فرمان ہے:

وَقَالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنَا ۖ قَالُوا أَنْطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ  (۴۱:۲۱)

یہ اپنی کھالوں سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف شہادت کیوں دی وہ جواب دیں گی ہمیں اس اللہ نے قوت گویائی عطا فرمائی جس نے ہرچیز کو بولنے کی طاقت بخشی ہے

ایک صحیح حدیث میں ہے:

احد پہاڑ کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم بھی اس سے محبت رکھتے ہیں

ایک اور حدیث میں ہے:

جس کھجور کے تنے پر ٹیک لگا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کا خطبہ پڑھا کرتے تھے جب منبر بنا اور وہ تنا ہٹا دیا گیا تو وہ تنا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔

صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 میں مکہ کے اس پتھر کو پہچانتا ہوں جو میری نبوت سے پہلے مجھے سلام کیا کرتا تھا

حجر اسود کے بارے میں ہے کہ جس نے اسے حق کے ساتھ بوسہ دیا ہو گا یہ اسکے ایمان کی گواہی قیامت والے دن دے گا

اور اس طرح کی بہت سی آیات اور حدیثیں ہیں جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان چیزوں میں ادراک و حس ہے اور یہ تمام باتیں حقیقت پر محمول ہیں نہ کہ مجاز پر۔

 آیت میں لفظ أَوْ جو ہے اس کی بابت قرطبی اور رازی تو کہتے ہیں کہ یہ تبخیر کے لئے ہے یعنی ان کے دلوں کو خواہ جیسے پتھر سمجھ لو یا اس سے بھی زیادہ سخت۔

رازی نے ایک وجہ یہ بھی بیان کی ہے کہ یہ ابہام کے لئے ہے گویا مخاطب کے سامنے باوجود ایک بات کا پختہ علم ہونے کے دو چیزیں بطور ابہام پیش کی جا رہی ہیں۔

بعض کا قول ہے کہ مطلب یہ ہے کہ بعض دل پتھر جیسے اور بعض اس سے زیادہ سخت ہیں واللہ اعلم۔

اس لفظ کے جو معنی یہاں پر ہیں وہ بھی سن لیجئے اس پر تو اجماع ہے کہ أَوْ شک کے لئے نہیں یا تو یہ معنی میں واو کے ہے یعنی اس کے دل پتھر جیسے اور اس سے بھی زیادہ سخت ہو گئےجیسے آیت:

وَلاَ تُطِعْ مِنْهُمْ ءَاثِماً أَوْ كَفُوراً  (۷۶:۲۴)

اور ان میں سے کسی گنہگار یا ناشکرے کا کہنا نہ مان

اور آیت:

عُذْراً أَوْ نُذْراً (۷۷:۶)

جو (وحی) الزام اتارنے یا آگاہ کر دینے والی ہوتی ہے

شاعروں کے اشعار میں أَوْ  واؤ کے معنی میں جمع کے لئے آیا ہے یا أَوْ یہاں پر معنی میں بل یعنی بلکہ کے ہےجیسے آیت:

إِذَا فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْيَةِ اللَّهِ أَوْ أَشَدَّ خَشْيَةً (۴:۷۷)

ان کی ایک جماعت لوگوں سے اس قدر ڈرنے لگی جیسے اللہ تعالیٰ کا ڈر ہو، بلکہ اس سے بھی زیادہ،

اور آیت:

وَأَرْسَلْنَـهُ إِلَى مِاْئَةِ أَلْفٍ أَوْ يَزِيدُونَ (۳۷:۱۴۷)

اور ہم نے انہیں ایک لاکھ بلکہ اور زیادہ آدمیوں کی طرف بھیجا

اور آیت:

فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى (۵۳:۹)

پس وہ دو کمانوں کے بقدر فاصلہ پر رہ گیا بلکہ اس سے بھی کم

بعض کا قول ہے کہ مطلب یہ ہے کہ وہ پتھر جیسے ہیں یا سختی میں تمہارے نزدیک اس سے بھی زیادہ

بعض کہتے ہیں صرف مخاطب پر ابہام ڈالا گیا ہے اور یہ شاعروں کے شعروں میں بھی پایا جاتا ہے کہ باوجود پختہ علم و یقین کے صرف مخاطب پر ابہام ڈالنے کے لئے ایسا کلام کرتے ہیں

قرآن کریم میں اور جگہ ہے:

وَإِنَّا أَوْ إِيَّاكُمْ لَعَلَىٰ هُدًى أَوْ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ (۳۴:۲۴)

(سنو) ہم یا تم۔ یا تو یقیناً ہدایت پر ہیں یا کھلی گمراہی میں ہیں؟

ہم یا تم صاف ہدایت یا کھلی گمراہی پر ہیں تو ظاہر ہے کہ مسلمانوں کا ہدایت پر ہونا اور کفار کا گمراہی پر ہونا یقینی چیز ہے لیکن مخاطب کے ابہام کے لئے اس کے سامنے کلام مبہم بولا گیا۔

یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ تمہارے دل ان دو سے خارج نہیں یا تو وہ پتھر جیسے ہیں یا اس سے بھی زیادہ سخت یعنی بعض ایسے اس قول کے مطابق یہ بھی ہے:

مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِى اسْتَوْقَدَ نَاراً (۲:۱۷)

ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی

پھر فرمایا :

أَوْ كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ  (۲:۱۹)

یا آسمانی برسات کی طرح

اور فرمایا ہے:

وَالَّذِينَ كَفَرُواْ أَعْمَـلُهُمْ كَسَرَابٍ بِقِيعَةٍ (۲۴:۳۹)

اور کافروں کے اعمال مثل اس چمکتی ہوئی ریت کے ہیں

پھر فرمایا :

أَوْ كَظُلُمَـتٍ فِى بَحْرٍ لُّجِّىٍّ (۲۴:۴۰)

یا مثل ان اندھیروں کے ہے جو نہایت گہرے سمندر کی تہہ میں ہوں

مطلب یہی ہے کہ بعض ایسے اور بعض ایسے واللہ اعلم۔

تفسیر ابن مردویہ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

اللہ کے ذکر کے سوا زیادہ باتیں نہ کیا کرو کیونکہ کلام کی کثرت دل کو سخت کر دیتی ہے اور سخت دل والا اللہ سے بہت دور ہو جاتا ہے

 امام ترمذی نے بھی اس حدیث کو بیان فرمایا ہے اور اس کے ایک طریقہ کو غریب کہا ہے

بزار میں حضرت انس سے مرفوعاً روایت ہے:

 چار چیزیں بدبختی اور شقاوت کی ہیں

- خوف اللہ سے آنکھوں سے آنسو نہ بہنا۔

- دل کا سخت ہو جانا۔

- امیدوں کا بڑھ جانا۔

- لالچی بن جانا۔

أَفَتَطْمَعُونَ أَنْ يُؤْمِنُوا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِنْ بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ (۷۵)

(مسلمانوں) کیا تمہاری خواہش ہے کہ یہ لوگ ایماندار بن جائیں، حالانکہ ان میں سے ایسے لوگ بھی ہیں جو کلام اللہ کو سن کر، عقل و علم والے ہوتے ہوئے، پھر بھی بدل ڈالا کرتے ہیں۔

اس گمراہ قوم یہود کے ایمان سے اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو ناامید کر رہے ہیں جب ان لوگوں نے اتنی بڑی نشانیاں دیکھ کر بھی اپنے دل سخت پتھر جیسے بنا لئے اللہ تعالیٰ کے کلام کو سن کر سمجھ کر پھر بھی اس کی تحریف اور تبدیلی کر ڈالی تو ان سے تم کیا امید رکھتے ہو؟

 ٹھیک اس آیت کی طرح اور جگہ فرمایا:

فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَـقَهُمْ لَعنَّـهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَضِعِهِ (۵:۱۳)

ان کی عہد شکنی کی وجہ سے ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دل سخت کر دئے یہ اللہ کے کلام کو رد و بدل کر ڈالا کرتے تھے۔

 حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں یہاں اللہ تعالیٰ نے کلام اللہ سننے کو فرمایا

اس سے مراد حضرت موسیٰ کے صحابیوں کی وہ جماعت ہے جنہوں نے آپ سے اللہ کا کلام اپنے کانوں سے سننے کی درخواست کی تھی اور جب وہ پاک صاف ہو کر روزہ رکھ کر حضرت موسیٰ کے ساتھ طور پہاڑ پر پہنچ کر سجدے میں گر پڑے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنا کلام سنایا جب یہ واپس آئے اور نبی اللہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کا یہ کلام بنی اسرائیل میں بیان کرنا شروع کیا تو ان لوگوں نے اس کی تحریف اور تبدیلی شروع کر دی۔

سدی فرماتے ہیں ان لوگوں نے تورات میں تحریف کی تھی

یہی عام معنی ٹھیک ہیں جس میں وہ لوگ بھی شامل ہو جائیں گے اور اس بدخصلت والے دوسرے یہودی بھی۔

قرآن میں ہے:

وَإِنْ أَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّىٰ يَسْمَعَ كَلَامَ اللَّهِ (۹:۶)

مشرکوں میں سے کوئی اگر تجھ سے پناہ طلب کرے تو تو اسے پناہ دے یہاں تک کہ وہ کلام اللہ سن لے

تو اس سے یہ مراد نہیں کہ اللہ کا کلام اپنے کانوں سے سنے بلکہ قرآن سنے تو یہاں بھی کلام اللہ سے مراد تورات ہے۔

یہ تحریف کرنے والے اور چھپانے والے ان کے علماء تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جو اوصاف ان کی کتاب میں تھے ان سب میں انہوں نے تاویلیں کر کے اصل مطلب دور کر دیا تھا اسی طرح حلال کو حرام، حرام کو حلال، حق کو باطل، باطل کو حق لکھ دیا کرتے تھے۔

قرآن میں ہے:

وَقَالَت طَّائِفَةٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ آمِنُوا بِالَّذِي أُنزِلَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَجْهَ النَّهَارِ وَاكْفُرُوا آخِرَهُ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ (۳:۷۲)

اہل کتاب کی ایک جماعت نے کہا ایمان والوں پر جو اترا ہے اس پر دن کے شروع حصہ میں ایمان لاؤ پھر آخر میں کفر کرو تاکہ خود ایمان والے بھی اس دین سے پھر جائیں۔

وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا

جب ایمان والوں سے ملتے ہیں تو اپنی ایمانداری ظاہر کرتے ہیں

یہ لوگ اس فریب سے یہاں کے راز معلوم کرنا اور انہیں اپنے والوں کو بتانا چاہتے تھے اور مسلمانوں کو بھی گمراہ کرنا چاہتے تھے مگر ان کی یہ چالاکی نہ چلی اور یہ راز اللہ نے کھول دیا جب یہ یہاں ہوتے اور اپنا ایمان اسلام و ظاہر کرتے تو صحابہ ان سے پوچھتے کیا تمہاری کتاب میں حضور ﷺ کی بشارت وغیرہ نہیں؟وہ اقرار کرتے۔

وَإِذَا خَلَا بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ قَالُوا أَتُحَدِّثُونَهُمْ بِمَا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ لِيُحَاجُّوكُمْ بِهِ عِنْدَ رَبِّكُمْ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (۷۶)

اور جب آپس میں ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو کیوں وہ باتیں پہنچاتے ہو جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں سکھائی ہیں، کیا جانتے نہیں یہ تو اللہ تعالیٰ کے پاس تم پر ان کی حجت ہو جائے گی۔‏

جب اپنے بڑوں کے پاس جاتے تو وہ انہیں ڈانٹتے اور کہتے اپنی باتیں ان سے کہہ کر کیوں انکے ہاتھوں میں اپنی مخالفت کے ہتھیار دے رہے ہو

مجاہد فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قریظہ والے دن یہودیوں کے قلعہ تلے کھڑے ہو کر فرمایا اے بندر اور خنزیر اور طاغوت کے کے عابدوں کے بھائیو! تو وہ آپس میں کہنے لگے یہ ہمارے گھر کی باتیں انہیں کس نے بتا دیں خبردار اپنی آپس کی خبریں انہیں نہ دو ورنہ انہیں اللہ کے سامنے تمہارے خلاف دلائل میسر آ جائیں گے

أَوَلَا يَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ (۷۷)

کیا یہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ ان کی پوشیدگی اور ظاہر داری کو جانتا ہے ۔

 اب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ گو تم چھپاؤ لیکن مجھ سے تو کوئی چیز چھپ نہیں سکتی تم جو چپکے چپکے اپنوں سے کہتے ہو کہ اپنی باتیں ان تک نہ پہنچاؤ اور اپنی کتاب کی باتیں کو چھپاتے ہو تو میں تمہارے اس برے کام سے بخوبی آگاہ ہوں۔ تم جو اپنے ایمان کا اظہار کرتے ہو۔ تمہارے اس اعلان کی حقیقت کا علم بھی مجھے اچھی طرح ہے۔

وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لَا يَعْلَمُونَ الْكِتَابَ إِلَّا أَمَانِيَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ (۷۸)

ان میں سے بعض ان پڑھ ایسے بھی ہیں جو کتاب کے صرف ظاہری الفاظ کو ہی جانتے ہیں صرف گمان اور اٹکل ہی پر ہیں ۔

أُمِّي کے معنی وہ شخص جو اچھی طرح لکھنا نہ جانتا ہو أُمِّيُّونَ اس کی جمع ہےآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صفتوں میں ایک صفت أُمِّي بھی آئی ہے اس لئے کہ آپ بھی لکھنا نہیں جانتے تھے۔ قرآن کہتا ہے:

وَمَا كُنتَ تَتْلُو مِن قَبْلِهِ مِن كِتَـبٍ وَلاَ تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ إِذاً لاَّرْتَـبَ الْمُبْطِلُونَ  (۲۹:۴۸)

تو اے نبی اس سے پہلے نہ تو پڑھ سکتا نہ لکھ سکتا تھا اگر ایسا ہوتا تو شاید ان باطل پرستوں کے شبہ کی گنجائش ہو جاتی۔

 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

ہم أُمِّي اور ان پڑھ لوگ ہیں نہ لکھنا جانیں نہ حساب، مہینہ کبھی اتنا ہوتا ہے اور کبھی اتنا پہلی بار تو آپ نے دونوں ہاتھوں کی کل انگلیاں تین بار نیچے کی طرف جھکائیں یعنی تیس دن کا دوبار اور تیسری مرتبہ میں انگوٹھے کا حلقہ بنا لیا یعنی انتیس دن کا مطلب یہ ہے کہ ہماری عبادتیں اور ان کے وقت حساب کتاب پر موقوف نہیں قرآن کریم نے اور جگہ فرمایا :

هُوَ الَّذِى بَعَثَ فِى الأُمِّيِّينَ رَسُولاً مِّنْهُمْ (۶۲:۲)

وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا

امام ابن جریر فرماتے ہیں کہ اس لفظ میں بےپڑھے آدمی کو ماں کی طرف منسوب کیا گیا

حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے ایک روایت ہے کہ یہاں پر أُمِّي انہیں کہا گیا ہے جنہوں نے نہ تو کسی رسول کی تصدیق کی تھی نہ کسی کتاب کو مانا تھا اور اپنی لکھی ہوئی کتابوں کو اوروں سے کتاب اللہ کی طرح منوانا چاہتے تھے

 لیکن اول تو یہ قول محاورات عرب کے خلاف ہے دوسرے اس قول کی سند ٹھیک نہیں۔

أَمَانِيَّ کے معنی باتیں اور اقوال حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہیں کذب،آرزو،اور جھوٹ کے معنی بھی کئے گئے ہیں

تلاوت اور ظاہری الفاظ کے معنی بھی مروی ہیں جیسے قرآن مجید میں اور جگہ ہے آیت إِلَّآ إِذَا تَمَنَّىٰٓ (۲۲:۵۳) یہاں تلاوت کے معنی صاف ہیں شعراء کے شعروں میں بھی یہ لفظ تلاوت کے معنی میں ہے

اور وہ صرف گمان ہی پر ہیں یعنی حقیقت کو نہیں جانتے اور اس پر ناحق کا گمان کرتے ہیں اور اوٹ پٹانگ باتیں بناتے ہیں۔

فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَذَا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۖ

ان لوگوں کیلئے ویل ہے جو اپنے ہاتھوں کی لکھی ہوئی کتاب کو اللہ تعالیٰ کی طرف کی کہتے ہیں اور اس طرح دنیا کماتے ہیں،

پھر یہودیوں کی ایک دوسری قسم کا بیان ہو رہا ہے جو پڑھے لکھے لوگ تھے اور گمراہی کی طرف دوسروں کو بلاتے تھے اور اللہ پر جھوٹ باندھتے تھے اور مریدوں کا مال ہڑپ کرتے تھے۔

وَيْلٌ کے معنی ہلاکت اور بربادی کے ہیں اور جہنم کے گڑھے کا نام بھی ہے جس کی آگ اتنی تیز ہے کہ اگر اس میں پہاڑ ڈالے جائیں تو دھول ہو جائیں

ابن ابی حاتم کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جہنم کی ایک وادی کا نام وَيْلٌ ہے جس میں کافر ڈالے جائیں گے چالیس سال کے بعد نیچے تہہ تک پہنچیں گے اتنی گہرائی ہے

 لیکن سند کے اعتبار سے یہ حدیث غریب بھی ہے منکر بھی ہے اور ضعیف بھی ہے

 اور ایک غریب حدیث میں ہے کہ جہنم کے ایک پہاڑ کا نام وَيْلٌ ہے

فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ (۷۹)

ان کے ہاتھوں کی لکھائی کو اور ان کی کمائی کو ہلاکت اور افسوس ہے ۔

یہودیوں نے تورات کی تحریف کر دی اس میں کمی یا زیادتی کی۔ آنحضرت ﷺکا نام نکال ڈالا اس لئے اللہ کا غضب ان پر نازل ہوا اور تورات اٹھا لی گئی اور اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ ان کے ہاتھوں کے لکھے اور ان کی کمائی برباد اور ہلاک ہو

وَيْلٌ کے معنی سخت عذاب برائی، ہلاکت، افسوس، درد، دکھ ، رنج و ملال وغیرہ کے بھی آتے ہیں۔

ویل، ویح، ویش، ویہ، ویک، ویب سب ایک ہی معنی میں ہیں گو بعض نے ان الفاظ کے جدا جدا معنی بھی کئے ہیں

لفظ وَيْلٌ نکرہ ہے اور نکرہ مبتدا نہیں بن سکتا لیکن چونکہ یہ معنی میں بد دعا کے ہے اس لئے اسے مبتدا بنا دیاگیا ہے

 بعض لوگوں نے اسے نصب دینا بھی جائز سمجھا ہے لیکن ویلا کی قرأت نہیں

یہاں یہودیوں کے علماء کی بھی مذمت ہو رہی ہے کہ وہ اپنی باتوں کو اللہ تعالیٰ کا کلام کہتے تھے اور اپنے والوں کو خوش کر کے دنیا کماتے تھے

حضرت عبداللہ بن عباسؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

تم اہل کتاب سے کچھ بھی کیوں پوچھو؟ اللہ تعالیٰ کی تازہ کتاب تمہارے ہاتھوں میں ہے اہل کتاب نے تو کتاب اللہ میں تحریف کی اپنی ہاتھ کی لکھی ہوئی باتوں کو اللہ عزوجل کی طرف منسوب کر دیا اس کی تشہیر کی پھر تمہیں اپنی محفوظ کتاب کو چھوڑ کر ان کی تبدیل کردہ کتاب کی کیا ضرورت؟ افسوس کہ وہ تم سے نہ پوچھیں اور تم ان سے دریافت کرتے پھرو

تھوڑے مول سے مراد ساری دنیا مل جائے تو بھی آخرت کے مقابلہ میں کمتر ہے اور جنت کے مقابلہ میں بیحد حقیر چیز ہے

پھر فرمایا کہ ان کے اس فعل کی وجہ سے کہ وہ اپنی باتوں کو اللہ رب العزت کی باتوں کی طرح لوگوں سے منواتے ہیں اور اس پر دنیا کماتے ہیں ہلاکت اور بربادی ہے۔

وَقَالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَعْدُودَةً ۚ قُلْ أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا فَلَنْ يُخْلِفَ اللَّهُ عَهْدَهُ ۖ

یہ لوگ کہتے ہیں ہم تو چند روز جہنم میں رہیں گے،ان سے کہو کہ تمہارے پاس اللہ کا کوئی پروانہ ہے اگر ہے تو یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرے گا

أَمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ (۸۰)

بلکہ تم اللہ کے ذمے وہ باتیں لگاتے ہو جنہیں تم نہیں جانتے۔‏

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں یہودی لوگ کہا کرتے تھے کہ دنیا کل مدت سات ہزار سال ہے۔ ہر سال کے بدلے ایک دن ہمیں عذاب ہو گا تو صرف سات دن ہمیں جہنم میں رہنا پڑے گا  اس قول کی تردید میں یہ آیتیں نازل ہوئیں،

بعض کہتے ہیں یہ لوگ چالیس دن تک آگ میں رہنا مانتے تھے کیونکہ ان کے بڑوں نے چالیس دن تک بچھڑے کی پوجا کی تھی

بعض کا قول ہے کہ یہ دھوکہ انہیں اس سے لگا تھا کہ وہ کہتے تھے کہ تورات میں ہے کہ جہنم کے دونوں طرف زقوم کے درخت تک چالیس سال کا راستہ ہے تو وہ کہتے تھے کہ اس مدت کے بعد عذاب اٹھ جائیں گے

ایک روایت میں ہے :

 انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آ کر کہا کہ چالیس دن تک تو ہم جہنم میں رہیں گے پھر دوسرے لوگ ہماری جگہ آ جائیں گے یعنی آپ کی اُمت آپ ﷺنے ان کے سروں پر ہاتھ رکھ کر فرمایا نہیں بلکہ تم ہی تم ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں پڑے رہو گے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

حضرت ابوہریرہ ؓفرماتے ہیں:

 فتح خیبر کے بعد حضور ﷺکے خدمت میں بطور ہدیہ بکری کا پکا ہوا زہر آلود گوشت آیا آپ ﷺنے فرمایا۔ یہاں کے یہودیوں کو جمع کر لو پھر ان سے پوچھا تمہارا باپ کون ہے

 انہوں نے کہا فلاں

آپ ﷺنے فرمایا جھوٹے ہو بلکہ تمہارا باپ فلاں ہے

 انہوں نے کہا بجا ارشاد ہوا وہی ہمارا باپ ہے

آپ نے فرمایا دیکھو اب میں کچھ اور پوچھتا ہوں سچ سچ بتانا

انہوں نے کہا اسے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم اگر جھوٹ کہیں گے تو آپ کے سامنے نہ چل سکے گا ہم تو آزما چکے

 آپ ﷺنے فرمایا بتاؤ جہنمی کون لوگ ہیں؟

 انہوں نے کہا کچھ دن تو ہم ہیں پھر آپ کی اُمت

آپ ﷺنے فرمایا غلو ہرگز نہیں پھر فرمایا اچھا بتلاؤ اس گوشت میں تم نے زہر ملایا ہے؟

انہوں نے کہا ہاں اگر آپ سچے ہیں تو یہ زہر آپ کو ہرگز ضرر نہ دے گا اور اگر جھوٹے ہیں تو ہم آپ سے نجات حاصل کر لیں گے۔ (مسند احمد بخاری نسائی)

بَلَى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (۸۱)

یقیناً جس نے برے کام کئے اور اس کی نافرمانیوں نے اسے گھیر لیا اور وہ ہمیشہ کے لئے جہنمی ہے۔‏

مطلب یہ ہے کہ جس کے اعمال سراسر بد ہیں جو نیکیوں سے خالی ہے وہ جہنمی ہے اور جو شخص اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور سنت کے مطابق عمل کرے وہ جنتی ہے۔ جیسے ایک جگہ فرمایا :

لَّيْسَ بِأَمَـنِيِّكُمْ وَلا أَمَانِىِّ أَهْلِ الْكِتَـبِ مَ ۔۔۔ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلاَ يُظْلَمُونَ نَقِيراً (۴:۱۲۳،۱۲۴)

حقیقت حال نہ تو تمہاری آرزو کے مطابق ہے اور نہ اہل کتاب کی امیدوں پر موقوف ہے، جو برا کرے گا اس کی سزا پائے گا اور کسی کو نہ پائے گا جو اس کی حمایت و مدد اللہ کے پاس کر سکے۔‏

جو ایمان والا ہو مرد ہو یا عورت اور وہ نیک اعمال کرے یقیناً ایسے لوگ جنت میں جائیں گے اور کھجور کی گٹھلی کے شگاف کے برابر بھی ان کا حق نہ مارا جائے گا ۔

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں یہاں برائی سے مطلب کفر ہے اور ایک روایت میں ہے کہ مراد شرک ہے

ابو وائل ابوالعالیہ، مجاہد، عکرمہ، حسن، قتادہ، ربیع بن انس وغیرہ سے یہی مروی ہے۔

سدی کہتے ہیں مراد کبیرہ گناہ ہیں جو تہہ بہ تہہ ہو کر دل کو گندہ کر دیں

حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں مراد شرک ہے جس کے دل پر بھی قابض ہو جائے

ربیع بن خثیم کا قول ہے جو گناہوں پر ہی مرے اور توبہ نصیب نہ ہو

مسند احمد میں حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 گناہوں کو حقیر نہ سمجھا کرو وہ جمع ہو کر انسان کی ہلاکت کا سبب بن جاتے ہیں دیکھتے نہیں ہو کہ اگر کئی آدمی ایک ایک لکڑی لے کر آئیں تو انبار لگ جاتا ہے پھر اگر اس میں آگ لگائی جائے تو بڑی بڑی چیزوں کو جلا کر خاکستر کر دیتا ہے

وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (۸۲)

اور جو لوگ ایمان لائیں اور نیک کام کریں وہ جنتی ہیں جو جنت میں ہمیشہ رہیں گے ۔

پھر ایمانداروں کا حال بیان فرمایا کہ جو تم ایسے عمل نہیں کرتے بلکہ تمہارے کفر کے مقابلہ میں ان کا ایمان پختہ ہے تمہاری بد اعمالیوں کے مقابلہ میں ان کے پاکیزہ اعمال مستحکم ہیں انہیں ابدی راحتیں اور ہمیشہ کی مسکن جنتیں ملیں گی اور اللہ کے عذاب و ثواب دونوں لازوال ہیں۔

وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ

اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے و عدہ لیا کہ تم اللہ کے سوا دوسرے کی عبادت نہ کرنا

بنی اسرائیل کو جو حکم احکام دیئے گئے اور ان سے جن چیزوں پر عہد لیا گیا ان کا ذکر ہو رہا ہے ان کی عہد شکنی کا ذکر ہو رہا ہے

انہیں حکم دیا گیا تھا کہ وہ توحید کو تسلیم کریں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کی عبادت نہ کریں،

 یہ حکم نہ صرف بنو اسرائیل کو ہی دیا گیا بلکہ تمام مخلوق کو دیا گیا ہےجیسے  فرمان ہے:

وَمَآ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلاَّ نُوحِى إِلَيْهِ أَنَّهُ لا إِلَـهَ إِلاَّ أَنَاْ فَاعْبُدُونِ (۲۱:۲۵)

تجھ سے پہلے بھی جو رسول ہم نے بھیجا اس کی طرف یہی وحی نازل فرمائی کہ میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں پس تم سب میری ہی عبادت کرو

 اور فرمایا :

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِى كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللَّهَ وَاجْتَنِبُواْ الْطَّـغُوتَ (۱۶:۳۶)

ہم نے ہر اُمت میں رسول بھیجا کہ اللہ ہی کی عبادت کرو اور اسکے سوا دوسرے معبودان باطل سے بچو۔

سب سے بڑا حق اللہ تعالیٰ ہی کا ہے اور اسکے تمام حقوق میں بڑا حق یہی ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اور دوسرے کسی کی عبادت نہ کی جائے

آیت میں لَا تَعْبُدُونَ فرمایا اس لئے کہ اس میں بہ نسبت لاتعبدوا کے مبالغہ زیادہ ہے ’یہ خبر ہے معنی میں طلب کے۔

بعض لوگوں نے ان لا تعبدوا بھی پڑھا ہے ابیؓ اور ابن مسعودؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ وہ لا تعبدوا پڑھتے تھے

وَذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا

اسی طرح قرابتداروں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اور لوگوں کو اچھی باتیں کہنا،

اب حقوق اللہ کے بعد حقوق العباد کا بیان ہو رہا ہے بندوں کے حقوق میں ماں باپ کا حق سب سے بڑا ہے اسی لئے پہلے ان کا حق بیان کیا گیا ہے اور جگہ ارشاد ہے:

أَنِ اشْكُرْ لِى وَلِوَلِدَيْكَ إِلَىَّ الْمَصِيرُ (۳۱:۱۴)

کہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کر، (تم سب کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے

 اور جگہ فرمایا :

وَقَضَى رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّـهُ وَبِالْوَلِدَيْنِ إِحْسَـناً (۱۷:۲۳)

تیرے رب کا فیصلہ ہے کہ اس کے سوا دوسرے کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کیساتھ احسان اور سلوک کرتے رہو۔

بخاری و مسلم میں ہےحضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے پوچھا یا رسول اللہ! کونسا عمل سب سے افضل ہے؟

آپ ﷺنے فرمایا نماز کو وقت پر ادا کرنا

پوچھا اس کے بعد

 فرمایا ماں باپ کے ساتھ سلوک و احسان کرنا

پوچھا پھر کونسا

پھر اللہ کی راہ میں جہاد کرنا

 ایک اور صحیح حدیث میں ہےکسی نے پوچھا حضور ﷺمیں کس کے ساتھ اچھا سلوک اور بھلائی کروں؟

آپ ﷺنے فرمایا اپنی ماں کے ساتھ،

 پوچھا پھر کس کے ساتھ؟

 فرمایا اپنی ماں کے ساتھ،

پھر پوچھا کس کے ساتھ؟

 فرمایا! اپنے باپ کے ساتھ اور قریب والے کے ساتھ پھر اور قریب والے کے ساتھ

یتیم ان چھوٹے بچوں کو کہتے ہیں جن کا سرپرست باپ نہ ہو۔

مسکین ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اپنی اور اپنے بال بچوں کی پرورش اور دیگر ضروریات پوری طرح مہیا نہ کر سکتے ہوں اس کی مزید تشریح انشاء اللہ العظیم سورۃ نساء کی اس معنی کی آیات میں آئے گی

پھر فرمایا لوگوں کو اچھی باتیں کہا کرویعنی انکے ساتھ نرم کلامی اور کشادہ پیشانی کے ساتھ پیش آیا کرو بھلی باتوں کا حکم اور برائی سے روکا کرو۔

حضرت حسن ؒفرماتے ہیں بھلائی کا حکم دو۔ برائی سے روکو۔ بردباری، درگزر اور خطاؤں کی معافی کو اپنا شعاربنا لو یہی اچھا خلق ہے جسے اختیار کرنا چاہئے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :

اچھی چیز کو حقیر نہ سمجھو اگر اور کچھ نہ ہو سکے تو اپنے بھائیوں سے ہنستے ہوئے چہرے سے ملاقات تو کر لیا کرو (مسند احمد)

وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ

نمازیں قائم رکھنا اور زکوٰۃ دیتے رہا کرنا،

پس قرآن کریم نے پہلے اپنی عبادت کا حکم دیا پھر لوگوں کے ساتھ بھلائی کرنے۔ پھر اچھی باتیں کہنے کا۔ پھر بعض اہم چیزوں کا ذکر بھی کر دیا نماز پڑھو زکوٰۃ دو۔

ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِنْكُمْ وَأَنْتُمْ مُعْرِضُونَ (۸۳)

لیکن تھوڑے سے لوگوں کے علاوہ تم سب پھر گئے اور منہ موڑ لیا۔‏

پھر خبر دی کہ ان لوگوں نے عہد شکنی کی اور عموماً نافرمان بن گئے مگر تھوڑے سے پابند عہد رہے۔

اس اُمت کو بھی یہی حکم دیا گیا فرمایا:

وَاعْبُدُواْ اللَّهَ وَلاَ تُشْرِكُواْ بِهِ ۔۔۔ إِنَّ اللَّهَ لاَ يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالاً فَخُوراً (۴:۳۶)

اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ سلوک و احسان کرو

اور رشتہ داروں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے اور قرابت دار ہمسایہ اور اجنبی ہمسائے سے اور پہلو کے ساتھی سے اور راہ کے مسافر سے اور ان سے جن کے مالک تمہارے ہاتھ ہیں (غلام، کنیز)

یقیناً اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والے اور شیخی خوروں کو پسند نہیں فرماتا

الحمد اللہ کہ یہ اُمت بہ نسبت اور اُمتوں کے ان فرمانوں کے ماننے میں اور ان پر عمل پیرا ہونے میں زیادہ مضبوط ثابت ہوئی

اسد بن وداعہ سے مروی ہے کہ وہ یہودیوں اور نصرانیوں کو سلام کیا کرتے تھے اور یہ دلیل دیتے تھے کہ فرمان باری ہے وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا

لیکن یہ اثر غریب ہے اور حدیث کے خلاف ہے حدیث میں صاف موجود ہے کہ یہود نصاریٰ کو ابتداسلام علیک نہ کیا کرو۔

وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُونَ دِمَاءَكُمْ وَلَا تُخْرِجُونَ أَنْفُسَكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ ثُمَّ أَقْرَرْتُمْ وَأَنْتُمْ تَشْهَدُونَ (۸۴)

اور جب ہم نے تم سے وعدہ لیا کہ آپس میں خون نہ بہانا اور آپس والوں کو جلاوطن مت کرنا،تم نے اقرار کیا اور تم اس کے شاہد بنے ۔

اوس اور خزرج انصار مدینہ کے دو قبیلے تھے اسلام سے پہلے ان دونوں قبیلوں کی آپس میں کبھی بنتی نہ تھی ہمیشہ آپس میں جنگ و جدال رہتا تھا۔ مدینے کے یہودیوں کے بھی تین قبیلے تھے بنی قینقاع بنو نضیر اور بنو قریظہ، بنو قینقاع اور بنی نضیر تو خزرج کے طرفدار اور ان کے بھائی بند بنے ہوئے تھے، بنی قریظہ کا بھائی چارہ اوس کے ساتھ تھا۔ جب اوس و خزرج میں جنگ ٹھن جاتی تو یہودیوں کے یہ تینوں گروہ بھی اپنے اپنے حلیف کا ساتھ دیتے اور ان سے مل کر ان کے دشمن سے لڑتے، دونوں طرف کے یہودی یہودیوں کے ہاتھ مارے بھی جاتے اور موقعہ پا کر ایک دوسرے کے گھروں کو بھی اجاڑ ڈالتے، دیس نکالا بھی دے دیا کرتے تھے اور مال و دولت پر بھی قبضہ کر لیا کرتے تھے۔ جب لڑائی موقوف ہوتی تو مغلوب فریق کے قیدیوں کا فدیہ دے کر چھڑا لیتے اور کہتے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ہم میں سے جب کوئی قید ہو جائے تو ہم فدیہ دے کر چھڑا لیں

ثُمَّ أَنْتُمْ هَؤُلَاءِ تَقْتُلُونَ أَنْفُسَكُمْ وَتُخْرِجُونَ فَرِيقًا مِنْكُمْ مِنْ دِيَارِهِمْ تَظَاهَرُونَ عَلَيْهِمْ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ

لیکن پھر بھی تم نے آپس میں قتل کیا اور آپس کے ایک فرقے کو جلاوطن بھی کیا اور گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ان کے خلاف دوسرے کی طرف داری کی،

وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُسَارَى تُفَادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْرَاجُهُمْ ۚ أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ ۚ

ہاں جب وہ قیدی ہو کر تمہارے پاس آئے تم نے ان کے فدیے دیئے، لیکن ان کا نکالنا جو تم پر حرام تھا اس کا کچھ خیال نہ کیا، کیا بعض احکام پر ایمان رکھتے ہو اور بعض کے ساتھ کفر کرتے ہو

اس پر جناب باری تعالیٰ انہیں فرماتا ہے کہ اس کی کیا وجہ کہ میرے اس ایک حکم کو تو تم نے مان لیا لیکن میں نے کہا تھا کہ آپس میں کسی کو قتل نہ کرو گھروں سے نہ نکالو اسے کیوں نہیں مانتے؟

کسی حکم پر ایمان لانا اور کسی کے ساتھ کفر کرنا یہ کہاں کی ایمانداری ہے؟

آیت میں فرمایا کہ اپنے خون نہ بہاؤ اور اپنے آپ کو اپنے گھروں سے نہ نکالو یہ اس لئے کہ ہم مذہب سارے کے سارے ایک جان کے مانند ہیں حدیث میں بھی ہے:

تمام ایماندار دوستی، اخوت، صلہ رحمی اور رحم و کرم میں ایک جسم کے مثل ہیں کسی ایک عضو کے درد سے تمام جسم بیتاب ہو جاتا ہے بخار چڑھ جاتا ہے راتوں کی نیند اچاٹ ہو جاتی ہے اسی طرح ایک مسلمان کے لئے سارے جہان کے مسلمانوں کو تڑپ اٹھنا چاہئے

عبد خیر کہتے ہیں:

 ہم سلمان بن ربیعہ کی ماتحتی میں "بخبر" میں جہاد کر رہے تھے محاصرہ کے بعد ہم نے اس شہر کو فتح کیا جس میں بہت سے قیدی بھی ملے۔ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان میں سے ایک یہود لونڈی کو سات سو میں خریدا۔ راس الجالوت کے پاس جب ہم پہنچے تو حضرت عبداللہ اس کے پاس گئے اور فرمایا یہ لونڈی تیری ہم مذہب ہے میں نے اسے سات سو میں خریدا ہے اب تم اسے مجھ سے خرید لو اور آزاد کر دو

 اس نے کہا بہت اچھا میں چودہ سو دیتا ہوں

آپ نے فرمایا میں تو چار ہزار سے کم نہیں بیچوں گا

اس نے کہا پھر میں نہیں خریدتا

آپ نے کہا سن یا تو تو اسے خرید ورنہ تیرا دین جاتا رہے گا تورات میں لکھا ہوا ہے کہ بنو اسرائیل کا کوئی بھی شخص گرفتار ہو جائے تو اسے خرید کر آزاد کیا کرو۔ اگر وہ قیدی ہو کر تمہارے پاس آئیں تو فدیہ دے کر چھڑا لیا کرو اور انہیں ان کے گھر سے بےگھر بھی نہ کیا کرو اب یا تو تورات کو مان کر اسے خرید یا تورات کا منکر ہونے کا اقرار کر!

وہ سمجھ گیا اور کہنے لگا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم شاید عبداللہ بن سلام ہو آپ نے فرمایا ہاں چنانچہ وہ چار ہزار لے آیا آپ نے دو ہزار لے لئے اور دو ہزار لوٹا دیئے

بعض روایتوں میں ہے کہ راس الجالوت کوفہ میں تھا یہ ان لونڈیوں کا فدیہ نہیں دیتا تھا جو عرب سے نہ بچی ہوں اس پر حضرت عبداللہ نے اسے تورات کی یہ آیت سنائی

فَمَا جَزَاءُ مَنْ يَفْعَلُ ذَلِكَ مِنْكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَى أَشَدِّ الْعَذَابِ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (۸۵)

تم میں سے جو بھی ایسا کرے اسکی سزا اس کے سوا کیا ہو کہ دنیا میں رسوائی اور قیامت کے عذاب کی مار اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے بےخبر نہیں‏

غرض آیت میں یہودیوں کی مذمت ہے کہ وہ احکام الہٰیہ کو جانتے ہوئے پھر بھی پس پشت ڈال دیا کرتے تھے

أُولَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا بِالْآخِرَةِ ۖ فَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ (۸۶)

یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت کے بدلے خرید لیا ہے، ان کے نہ تو عذاب ہلکے ہونگے اور نہ ان کی مدد کی جائے گی ۔

 امانت داری اور ایمانداری ان سے اٹھ چکی تھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صفتیں آپ کی نشانیاں آپ کی نبوت کی تصدیق آپ کی جائے پیدائش جائے ہجرت وغیرہ سب چیزیں ان کی کتاب میں موجود تھیں لیکن یہ ان سب کو چھپائے ہوئے تھے اور اتنا ہی نہیں بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے تھے

اسی باعث ان پر دنیوی رسوائی آئی اور کم نہ ہونے والے اور دائمی آخرت کا عذاب بھی۔

وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَقَفَّيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ ۖ

ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور ان کے پیچھے اور رسول بھیجے

بنی اسرائیل کے عناد و تکبر اور ان کی خواہش پرستی کا بیان ہو رہا ہے کہ تورات میں تحریف و تبدل کیا حضرت موسیٰ ؑکے بعد انہی کی شریعت آنے والے انبیاء کی بھی مخالفت کی چنانچہ فرمایا :

إِنَّآ أَنزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى ۔۔۔ وَكَانُواْ عَلَيْهِ شُهَدَآءَ (۵:۴۴)

ہم نے تورات نازل فرمائی ہے جس میں ہدایت و نور ہے یہودیوں میں اسی تورات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ماننے والے (انبیاء ؑ) اور اہل اللہ اور علماء فیصلے کرتے تھے

کیونکہ انہیں اللہ کی اس کتاب کی حفاظت کا حکم دیا گیا تھا اور وہ اس پر اقراری گواہ تھے

وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ ۗ

اور ہم نے حضرت عیسیٰ ابن مریم کو روشن دلیلیں دیں اور روح القدس سے ان کی تائید کروائی

غرض پے درپے یکے بعد دیگرے انبیاء کرام بنی اسرائیل میں آتے رہے یہاں تک کہ یہ سلسلہ عیسیٰ علیہ السلام پر ختم ہوا انہیں انجیل ملی جس میں بعض احکام تورات کے خلاف بھی تھے اسی لئے انہیں نئے نئے معجزات بھی ملے جیسے مردوں کو بحکم رب العزت زندہ کر دینا مٹی سے پرند بنا کر اس میں پھونک مار کر بحکم رب العزت اڑا دینا، بیماروں کو اپنے دم جھاڑے سے رب العزت کے حکم سے اچھا کر دینا، بعض غیب کی خبریں رب العزت کے معلوم کرانے سے دینا وغیرہ

 آپ کی تائید پر رُوحِ الْقُدُسِ یعنی حضرت جبرائیل کو لگا دیا

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ حضرت عبداللہ بن عباسؓ محمد بن کعب اسمٰعیل بن خالد سدی ربیع بن انس عطیہ عوفی اور قتادہ وغیرہ کا قول یہی ہے کہ رُوحِ الْقُدُسِ سے مراد حضرت جبرائیلؑ ہیں جیسے قرآن شریف میں اور جگہ ہے

نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ (۲۶:۱۳)

اسے لے کر روح امین اترے ہیں

صحیح بخاری میں تعلیقاً مروی ہے کہ  رسول اللہ ﷺ نے حضرت حسان شاعر کے لئے مسجد میں منبر رکھوایا وہ مشرکین کی ہجو کا جواب دیتے تھے اور آپ انکے لئے دعا کرتے تھے کہ اے اللہ عزوجل حسان کی مدد روح القدس سے فرما جیسے کہ یہ تیرے نبی کی طرف سے جواب دیتے ہیں

حضرت حسانؓ کے شعر میں بھی جبرائیل کو روح القدس کہا گیا ہے

بخاری و مسلم کی ایک اور حدیث میں ہے :

 حضرت حسان ؓ خلافت فاروقی کے زمانے میں ایک مرتبہ مسجد نبوی میں کچھ اشعار پڑھ رہے تھے حضرت عمر ؓنے آپ کی طرف تیز نگاہیں اٹھائیں تو آپ نے فرمایا میں تو اس وقت بھی ان شعروں کو یہاں پڑھتا تھا جب یہاں تم سے بہتر شخص موجود تھے

پھر حضرت ابوہریرہ ؓ کی طرف دیکھ کر فرمایا ابوہریرہ تمہیں اللہ کی قسم کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے نہیں سنا؟ کہ اے حسان تو مشرکوں کے اشعار کا جواب دے اے اللہ تعالیٰ تو حسان کی تائید روح القدس سے کر۔

حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا ہاں اللہ کی قسم میں نے حضور ﷺسے یہ سنا ہے

بعض روایتوں میں یہ بھی ہے کہ حضور نے فرمایا حسان تم ان مشرکین کی ہجو کرو جبرائیل بھی تمہارے ساتھ ہیں

ایک اور حدیث میں ہے کہ جب یہودیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روح کی بابت پوچھا تو آپ ﷺنے فرمایا تمہیں اللہ کی قسم اللہ کی نعمتوں کو یاد کر کے کہو کیا خود تمہیں معلوم نہیں کہ وہ جبرائیل ہیں اور وہی میرے پاس بھی وحی لاتے ہیں ان سب نے کہا بیشک (ابن اسحاق)

ابن حبان میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

جبرائیل علیہ السلام نے میرے دل میں کہا کہ کوئی شخص اپنی روزی اور زندگی پوری کئے بغیر نہیں مرتا۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور دنیا کمانے میں دین کا خیال رکھو

بعض نے روح القدس سے مراد اسم اعظم لیا ہے

بعض نے کہا ہے فرشتوں کا ایک سردار فرشتہ ہے

بعض کہتے ہیں قدس سے مراد اللہ تعالیٰ اور روح سے مراد جبرائیل ہے

 کسی نے کہا ہے قدس یعنی برکت

 کسی نے کہا ہے پاک

کسی نے کہا ہے روح سے مراد انجیل ہے جیسے فرمایا:

وَكَذَ‌ٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا (۴۲:۵۲)

اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے حکم سے روح کو اتارا ہے

امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ کا فیصلہ یہی ہے کہ یہاں مراد روح القدس سے حضرت جبرائیل ہیں جیسے اور جگہ ہے:

إِذْ أَيَّدتُّكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ (۵:۱۱۰)

جب میں نے تم کو روح القدس سے تائید دی

اس آیت میں روح القدس کی تائید کے ذکر کے ساتھ کتاب و حکمت تورات و انجیل کے سکھانے کا بیان ہےمعلوم ہوا کہ یہ اور چیز ہے اور وہ اور چیز علاوہ ازیں روانی عبارت بھی اس کی تائید کرتی ہے

قدس سے مراد مقدس ہے جیسے حاتم جود اور رجل صدق میں روح القدس کہنے میں اور روح منہ کہنے میں قربت اور بزرگی کی ایک خصوصیت پائی جاتی ہے یہ اس لئے بھی کہا گیا ہے کہ یہ روح مردوں کی پیٹھوں اور حیض والے رحموں سے بےتعلق رہی ہے

بعض مفسرین نے اس سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پاکیزہ روح لی ہے

لیکن بنی اسرائیل اپنے کفر اور تکبر میں اور بڑھ گئے اور زیادہ حسد کرنے لگے اور ان تمام انبیاء کرام کے ساتھ برے سلوک سے پیش آئے۔ کہیں جھٹلاتے اور کہیں مار ڈالتے تھے محض اس بنا پر کہ انبیاء کی تعلیم ان کی طبیعتوں کے خلاف ہوا کرتی تھی ان کی رائے اور انہیں ان کے قیاسات اور ان کے بنائے ہوئے اصول و احکام ان کی قبولیت سے ٹکراتے تھے اس لئے دشمنی پر تل جاتے تھے

أَفَكُلَّمَا جَاءَكُمْ رَسُولٌ بِمَا لَا تَهْوَى أَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقًا كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقًا تَقْتُلُونَ (۸۷)

لیکن جب کبھی تمہارے پاس رسول وہ چیز لائے جو تمہاری طبیعتوں کے خلاف تھی، تم نے جھٹ سے تکبر کیا، پس بعض کو تو جھٹلا دیا اور بعض کو قتل بھی کر ڈالا ۔

 پھر فرمایا کہ ایک فرقے کو تم نے جھٹلایا اور ایک فرقے کو تم قتل کرتے ہو

جھٹلانے میں ماضی کا صیغہ لائے لیکن قتل میں مستقبل کا اس لئے کہ ان کا حال آیت کے نزول کے وقت بھی یہی رہا

چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض الموت میں فرمایا کہ اس زہر آلود لقمہ کا اثر برابر مجھ پر رہا جو میں نے خیبر میں کھایا تھا اس وقت اس نے رک رک کر جان کاٹ دی۔

وَقَالُوا قُلُوبُنَا غُلْفٌ ۚ

یہ کہتے ہیں کہ ہمارے دل غلاف والے ہیں

یہودیوں کا ایک قول یہ بھی تھا کہ ہمارے دلوں پر غلاف ہیں یعنی یہ علم سے بھرپور ہیں اب ہمیں نئے علم کی کوئی ضرورت نہیں

بَلْ لَعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِيلًا مَا يُؤْمِنُونَ (۸۸)

نہیں نہیں بلکہ ان کے کفر کی وجہ سے انہیں اللہ تعالیٰ نے ملعون کر دیا ان کا ایمان بہت ہی تھوڑا ہے

اس لئے جواب ملا کہ غلاف نہیں بلکہ لعنت الہٰیہ کی مہر لگ گئی ہے ایمان نصیب ہی نہیں ہوتا

غُلْفٌ کو غُلُفٌ بھی پڑھا گیا ہے یعنی یہ علم کے برتن ہیں اور جگہ قرآن کریم میں ہے:

وَقَالُواْ قُلُوبُنَا فِى أَكِنَّةٍ مِمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ (۴۱:۵)

اور انہوں نے کہا کہ تو جس کی طرف ہمیں بلا رہا ہے ہمارے دل تو اس سے پردے میں ہیں

یعنی جس چیز کی طرف تم ہمیں بلا رہے ہو اس چیز سے ہمارے دل پردے اور آڑ میںہیں  اور ہمارے دلوں کے درمیان پردہ ہے آڑ ہے ان پر مہر لگی ہوئی ہے وہ اسے نہیں سمجھتے اسی بنا پر وہ نہ اس کی طرف مائل ہوتے ہیں نہ اسے یاد رکھتے ہیں

 ایک حدیث میں بھی ہے :

بعض دل غلاف والے ہوتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہوتا ہے یہ کفار کے دل ہوتے ہیں

سورۃ نساء میں بھی ایک آیت اسی معنی کی ہے:

وَقَوْلِهِمْ قُلُوبُنَا غُلْفٌ بَلْ طَبَعَ اللّهُ عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ  (۴:۱۵۵)

یوں کہتے ہیں کہ ہمارے دلوں پر غلاف ہے۔حالانکہ دراصل ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں پر اللہ تعالیٰ نے مہر لگا دی ہے

تھوڑا ایمان لانے کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ ان میں سے بہت کم لوگ ایماندار ہیں

اور دوسرے معنی یہ بھی ہیں کہ ان کا ایمان بہت کم ہے یعنی قیامت ثواب عذاب وغیرہ کا قائل۔

حضرت موسیٰؑ پر ایمان رکھنے والے تورات کو اللہ تعالیٰ کی کتاب مانتے ہیں مگر اس پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کو مان کر اپنا ایمان پورا نہیں کرتے بلکہ آپ کے ساتھ کفر کر کے اس تھوڑے ایمان کو بھی غارت اور برباد کر دیتے ہیں

تیسرے معنی یہ ہیں کہ یہ سرے سے بے ایمان ہیں کیونکہ عربی زبان میں ایسے موقعہ پر بھی ایسے الفاظ بولے جاتے ہیں مثلاً میں نے اس جیسا بہت ہی کم دیکھا مطلب یہ ہے کہ دیکھا ہی نہیں۔ واللہ اعلم

وَلَمَّا جَاءَهُمْ كِتَابٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَهُمْ وَكَانُوا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا

اور ان کے پاس جب اللہ تعالیٰ کی کتاب ان کی کتاب کو سچا کرنے والی آئی، حالانکہ کہ پہلے یہ خود اس کے ذریعہ کافروں پر فتح چاہتے تھے

جب کبھی یہودیوں اور عرب کے مشرکین کے درمیان لڑائی ہوتی تو یہود کہا کرتے تھے کہ عنقریب اللہ تعالیٰ کی سچی کتاب لے کر اللہ عزوجل کے ایک عظیم الشان پیغمبر تشریف لانے والے ہیں ہم ان کے ساتھ مل کر تمہیں ایسا قتل و غارت کریں گے کہ تمہارا نام و نشان مٹ جائے گا۔ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کیا کرتے تھے کہا اے اللہ تو اس نبی کو جلد بھیج جس کی صفتیں ہم تورات میں پڑھتی ہیں تاکہ ہم ان پر ایمان لا کر ان کے ساتھ مل کر اپنا بازو مضبوط کر کے تیرے دشمنوں سے انتقام لیں۔

مشرکوں سے کہا کرتے تھے کہ اس نبی کا زمانہ اب بالکل قریب آ گیا ہے

فَلَمَّا جَاءَهُمْ مَا عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ ۚ فَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَافِرِينَ (۸۹)

تو باوجود آ جانے اور باوجود پہچان لینے کے پھر کفر کرنے لگے، اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو کافروں پر۔‏

لیکن جس وقت حضور مبعوث ہوئے تمام نشانیاں آپ میں دیکھ لیں۔ پہچان بھی لیا۔ دل سے قائل بھی ہو گئے۔ مگر چونکہ آپ عرب میں سے تھے۔ حسد کیا اور آپ کی نبوت سے انکار کر دیا اور اللہ تعالیٰ کے لعنت یافتہ ہو گئے

بلکہ وہ مشرکین مدینہ جو ان سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے بارے میں سنتے چلے آتے تھے انہیں تو ایمان نصیب ہوا اور بالآخر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر وہ یہود پر غالب آ گئے

ایک مرتبہ حضرت معاذ بن جبل حضرت بشر بن براء حضرت داؤد بن سلمہ نے ان یہود مدینہ سے کہا بھی کہ تم تو ہمارے شرک کی حالت میں ہم سے حضورﷺ کی نبوت کا ذکر کیا کرتے تھے بلکہ ہمیں ڈرایا کرتے تھے اور اب جب کہ وہ عام اوصاف جو تم حضرت ﷺکے بیان کرتے تھے وہ تمام اوصاف آپ میں ہیں۔ پھر تم خود ایمان کیوں نہیں لاتے؟ آپ کا ساتھ کیوں نہیں دیتے؟

 تو سلام بن مشکم نے جواب دیا کہ ہم ان کے بارے میں نہیں کہتے تھے۔

اسی کا ذکر اس آیت میں ہے کہ پہلے تو مانتے تھے منتظر بھی تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کے بعد حسد اور تکبر سے اپنی ریاست کے کھوئے جانے کے ڈر سے صاف انکار کر بیٹھے۔

بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِهِ أَنْفُسَهُمْ أَنْ يَكْفُرُوا بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ بَغْيًا أَنْ يُنَزِّلَ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۖ

بہت بری ہے وہ چیز جس کے بدلے انہوں نے اپنے آپ کو بیچ ڈالا وہ انکا کفر کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ چیز کے ساتھ محض اس بات سے جل کر کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل جس بندہ پر چاہا نازل فرمایا

مطلب یہ ہے کہ ان یہودیوں نے حضورﷺ کی تصدیق کے بدلے تکذیب کی اور آپ پر ایمان لانے کے بدلے کفر کیا۔ آپ کی نصرت و امداد کے بدلے مخالفت اور دشمنیاں کی اس وجہ سے اپنے آپ کو جس غضب الہٰی کا سزاوار بنایا وہ بدترین چیز ہے جو بہترین چیز کے بدلے انہوں نے لی اور اس کی وجہ سے سوائے حسد و بغض تکبر و عناد کے اور کچھ نہیں

چونکہ حضور ﷺ ان کے قبیلہ میں سے نہ تھے بلکہ آپ عرب میں سے تھے اس لئے یہ منہ موڑ کر بیٹھ گئے حالانکہ اللہ پر کوئی حاکم نہیں وہ رسالت کے حقدار کو خوب جانتا ہے وہ اپنا فضل و کرم اپنے جس بندے کو چاہے عطا فرماتا ہے

فَبَاءُوا بِغَضَبٍ عَلَى غَضَبٍ ۚ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ مُهِينٌ (۹۰)

اس کے باعث یہ لوگ غضب پر غضب کے مستحق  ہو گئے اور ان کافروں کے لیے رسوا کرنے والا عذاب ہے۔‏

پس ایک تو تورات کے احکام کی پابندی نہ کرنے کی وجہ سے ان پر غضب نازل ہوا دوسرا حضور ﷺکے ساتھ کفر کرنے کے سبب نازل ہوا۔ یا یوں سمجھ لیجئے کہ پہلا غضب حضرت عیسیٰؑ کو پیغمبر نہ ماننے کی وجہ سے اور دوسرا غضب حضرت محمدﷺ کو پیغمبر تسلیم نہ کرنے کے سبب

سدی کا خیال ہے کہ پہلا غضب بچھڑے کے پوجنے کے سبب تھا دوسرا غضب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی بناء پر

 چونکہ یہ حسد و بغض کی وجہ سے حضور کی نبوت سے منکر ہوئے تھے اور اس حسد بغض کا اصلی باعث ان کا تکبر تھا اس لئے انہیں ذلیل عذابوں میں مبتلا کر دیا گیا تاکہ گناہ کا بدلہ پورا ہو جائے جیسے فرمان ہے:

إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ (۴۰:۶۰)

یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے خود سری کرتے ہیں وہ ابھی ابھی ذلیل ہو کر جہنم پہنچ جائیں گے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :

متکبر لوگوں کا حشر قیامت کے دن انسانی صورت میں چیونٹیوں کی طرح ہو گا جنہیں تمام چیزیں روندتی ہوئی چلیں گی اور جہنم کے بولس نامی قید خانے میں ڈال دیئے جائیں گے جہاں کی آگ دوسری تمام آگ سے تیز ہو گی اور جہنمیوں کا لہو پیپ وغیرہ انہیں پلایا جائے گا۔

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا نُؤْمِنُ بِمَا أُنْزِلَ عَلَيْنَا

اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب پر ایمان لاؤ تو کہہ دیتے ہیں کہ جو ہم پر اتاری گئی اس پر ہمارا ایمان ہے

یعنی جب ان سے قرآن پر اور نبی آخر الزمان پر ایمان لانے کو کہا جاتا ہے تو کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں تورات انجیل پر ایمان رکھنا کافی ہے

وَيَكْفُرُونَ بِمَا وَرَاءَهُ وَهُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَهُمْ ۗ

حالانکہ اس کے بعد والی کے ساتھ جو ان کی کتاب کی تصدیق کرنے والی ہے، کفر کرتے ہیں،

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ اس میں بھی جھوٹے ہیں قرآن تو ان کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے اور خود ان کی کتابوں میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق موجود ہے، جیسے فرمایا:

الَّذِينَ آتَيْنَـهُمُ الْكِتَـبَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَآءَهُمْ (۲:۱۴۶)

جنہیں ہم نے کتاب دی وہ تو اسے ایسا پہچانتے ہیں جیسے کوئی اپنے بچوں کو پہچانے

پس آپ سے انکار کا مطلب تورات انجیل سے بھی انکار کے مترادف ہے۔

قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُونَ أَنْبِيَاءَ اللَّهِ مِنْ قَبْلُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (۹۱)

اچھا ان سے یہ تو دریافت کریں اگر تمہارا ایمان پہلی کتابوں پر ہے تو پھر تم نے اگلے انبیاء کو کیوں قتل کیا؟

اس حجت کو قائم کر کے اب دوسری طرح حجت قائم کی جاتی ہے کہ اچھا تورات اور انجیل پر اگر تمہارا ایمان ہے پھر اگلے انبیاء جو انہی کی تصدیق اور تابعداری کرتے ہوئے بغیر کسی نئی شریعت اور نئی کتاب کے آئے تو تم نے انہیں قتل کیوں کیا؟ معلوم ہوا کہ تمہارا ایمان نہ تو اس کتاب پر ہے نہ اس کتاب پر۔ تم محض خواہش کے بندے نفس کے غلام اپنی رائے قیاس کے غلام ہو۔

وَلَقَدْ جَاءَكُمْ مُوسَى بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَنْتُمْ ظَالِمُونَ (۹۲)

تمہارے پاس تو موسیٰ یہی دلیلیں لے کر آئے لیکن تم نے پھر بھی بچھڑا پوجا تم ہو ہی ظالم۔‏

 پھر فرمایا کہ اچھا موسیٰ علیہ السلام سے تو تم نے بڑے بڑے معجزے دیکھے

طوفان، ٹڈیاں، جوئیں، مینڈک، خون وغیرہ جو ان کی بد دعا سے بطور معجزے ظاہر ہوئے لکڑی کا سانپ بن جانا ہاتھ کا روشن چاند بن جانا، دریا کو چیر دینا اور پانی کو پتھر کی طرح بنا دینا، بادلوں کا سایہ کرنا، من و سلویٰ کا اترنا، پتھر سے نہریں جاری کرنا وغیرہ تمام بڑے بڑے معجزات جو ان کی نبوت کی اور اللہ کی توحید کی روشن دلیلیں تھیں سب اپنی آنکھوں سے دیکھیں لیکن ادھر حضرت موسیٰ علیہ السلام طور پہاڑ پر گئے ادھر تم نے بچھڑے کو اللہ بنا لیا اب بتاؤ کہ خود تورات پر اور خود حضرت موسیٰؑ پر بھی تمہارا ایمان کہاں گیا؟

کیا یہ بدکاریاں تمہیں ظالم کہلوانے والی نہیں؟

مِنْ بَعْدِهِ سے مراد موسیٰ علیہ السلام کے طور پر جانے کے بعد ہے دوسری جگہ ارشاد ہے :

وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوسَى مِن بَعْدِهِ مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلاً جَسَداً لَّهُ خُوَارٌ (۷:۱۴۸)

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے طور پر جانے کے بعد آپ کی قوم نے بچھڑے کو معبود بنا لیا اور اپنی جانوں پر اس گو سالہ پرستی سے واضح ظلم کیا جس کا احساس بعد میں خود انہیں بھی ہوا

جیسے فرمایا:

وَلَمَّا سُقِطَ فَى أَيْدِيهِمْ وَرَأَوْاْ أَنَّهُمْ قَدْ ضَلُّواْ قَالُواْ لَئِن لَّمْ يَرْحَمْنَا رَبُّنَا وَيَغْفِرْ لَنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَـسِرِينَ (۷:۱۴۹)

جب انہیں ہوش آیا نادم ہوئے اور اپنی گمراہی کو محسوس کرنے لگے اس وقت کہا اے اللہ اگر تم ہم پر رحم نہ کرے اور ہماری خطا نہ بخشے تو ہم زیاں کار ہو جائیں گے

وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُمْ بِقُوَّةٍ وَاسْمَعُوا ۖ

جب ہم نے تم سے وعدہ لیا اور تم پر طور کو کھڑا کر دیا اور کہہ دیا کہ ہماری دی ہوئی چیز کو مضبوط تھامو اور سنو،

اللہ تبارک و تعالیٰ بنی اسرائیل کی خطائیں مخالفتیں سرکشی اور حق سے روگردانی بیان فرما رہا ہے کہ طور پہاڑ جب سروں پر دیکھا تو اقرار کر لیا جب وہ ہٹ گیا تو پھر منکر ہو گئے۔ اس کی تفسیر بیان ہو چکی ہے

قَالُوا سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ بِكُفْرِهِمْ ۚ

تو انہوں نے کہا، کہ ہم نے سنا اور نافرمانی کی اور ان کے دلوں میں بچھڑے کی محبت (گویا) پلا دی گئی بسبب ان کے کفر کے

بچھڑے کی محبت ان کے دلوں میں رچ گئی۔ جیسے کہ حدیث میں ہے :

 کسی چیز کی محبت انسان کو اندھا بہرا بنا دیتی ہے

 حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس بچھڑے کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے جلا کر اس کی راکھ کو ہوا میں اڑا کر دریا میں ڈال دیا تھا جس پانی کو بنی اسرائیل نے پی لیا اور اس کا اثر ان پر ظاہر ہوا گو بچھڑا نیست و نابود کر دیا گیا لیکن ان کے دلوں کا تعلق اب بھی اس معبود باطل سے لگا رہا

قُلْ بِئْسَمَا يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمَانُكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (۹۳)

ان سے کہہ دیجئے کہ تمہارا ایمان تمہیں بڑا حکم دے رہا ہے، اگر تم مؤمن ہو۔‏

آیت کا مطلب یہ ہے کہ تم ایمان کا دعویٰ کس طرح کرتے ہو؟ اپنے ایمان پر نظر نہیں ڈالتے؟ بار بار کی عہد شکنیاں کئی بار کے کفر بھول گئے؟ حضرت موسیٰؑ کے سامنے تم نے کفر کیا ان کے بعد کے پیغمبروں کے ساتھ تم نے سرکشی کی یہاں تک کہ افضل الانبیاء ختم المرسلین حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو بھی نہ مانا جو سب سے بڑا کفر ہے۔

قُلْ إِنْ كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْآخِرَةُ عِنْدَ اللَّهِ خَالِصَةً مِنْ دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (۹۴)

آپ کہہ دیجئے اگر آخرت کا گھر صرف تمہارے ہی لئے ہے، اللہ کے نزدیک اور کسی کے لئے نہیں، تو آؤ اپنی سچائی کے ثبوت میں موت طلب کرو۔‏

حضرت عبداللہ بن عباسؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

ان یہودیوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا زبانی پیغام دیا گیا کہ اگر تم سچے ہو تو مقابلہ میں آؤ ہم تم مل کر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ہم میں سے جھوٹے کو  ہلاک کر دے۔

وَلَنْ يَتَمَنَّوْهُ أَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ (۹۵)

لیکن اپنی کرتوتوں کو دیکھتے ہوئے کبھی بھی موت نہیں مانگیں گے اللہ تعالیٰ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔‏

لیکن ساتھ ہی پیشین گوئی بھی کر دی کہ یہ لوگ ہرگز اس پر آمادہ نہیں ہوں گے چنانچہ یہی ہوا کہ یہ لوگ مقابلہ پر نہ آئے اس لئے کہ وہ دل سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آسمانی کتاب قرآن کریم کو سچا جانتے تھے اگر یہ لوگ اس اعلان کے ماتحت مقابلہ میں نکلتے تو سب کے سب ہلاک ہو جاتے۔ روئے زمین پر ایک یہودی بھی باقی نہ رہتا۔

اگر یہودی مقابلہ پر آتے اور جھوٹے کے لئے موت طلب کرتے تو سب کے سب مر جاتے اور اپنی جگہ جہنم میں دیکھ لیتے

اسی طرح جو نصرانی آپ کے پاس آئے تھے وہ بھی اگر مباہلہ کے لئے تیار ہوتے تو وہ لوٹ کر اپنے اہل و عیال اور مال و دولت کا نام و نشان بھی نہ پاتے (مسند احمد)

سورۃ جمعہ میں بھی اسی طرح کی دعوت انہیں دی گئی ہے:

قُلْ يأَيُّهَا الَّذِينَ هَادُواْ إِن زَعمْتُمْ ۔۔۔ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ (۶۲:۶،۸)

کہہ دیجئے کہ اے یہودیو! اگر تمہارا دعویٰ ہے کہ تم اللہ کے دوست ہو دوسرے لوگوں کے سوا تم موت کی تمنا کرو اگر تم سچے ہو۔ یہ کبھی بھی موت کی تمنا نہ کریں گے بوجہ ان اعمال کے جو اپنے آگے اپنے ہاتھوں بھیج رکھے ہیں  

اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔‏ کہہ دیجئے! کہ جس موت سے تم بھاگتے پھرتے ہو وہ تو تمہیں پہنچ کر رہے گی پھر تم سب چھپے کھلے کے جاننے والے (اللہ) کی طرف لوٹائے جاؤ گے اور وہ تمہیں تمہارے کئے ہوئے تمام کام بتلا دےگا۔‏

ان کا دعویٰ تھا :

نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ  (۵:۱۸)

ہم تو اللہ کی اولاد اور اس کے پیارے ہیں

اور یہ کہا کرتے تھے:

لَن يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَن كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ (۲:۱۱۱)

جنت میں صرف یہودی اور نصاریٰ ہی جائیں گے

 اس لئے انہیں کہا گیا کہ آؤ اس کا فیصلہ اس طرح کر لیں کہ دونوں فریق میدان میں نکل کر اللہ سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم میں سے  جھوٹے کو ہلاک کر دے لیکن چونکہ اس جماعت کو اپنے جھوٹ کا علم تھا اس لئے تیار نہ ہوئی اور اس کا کذب سب پر کھل گیا

اسی طرح جب نجران کے نصرانی حضور کے پاس آئے بحث مباحثہ ہو چکا تو ان سے بھی یہی کہا گیا:

تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَآءَنَا وَأَبْنَآءَكُمْ وَنِسَآءَنَا وَنِسَآءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتُ اللَّهِ عَلَى الْكَـذِبِينَ (۳:۶۱)

آؤ ہم تم اپنے اپنے فرزندوں کو اور اپنی اپنی عورتوں کو اور ہم تم خاص اپنی اپنی جانوں کو بلا لیں، پھر ہم عاجزی کے ساتھ التجا کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت کریں

لیکن وہ آپس میں کہنے لگے کہ ہرگز اس نبی سے مباہلہ نہ کرو فوراً برباد ہو جاؤ گے چنانچہ مباہلہ سے انکار کر دیا جھک کر صلح کر لی اور دب کر جزیہ دینا منظور کر لیا آپ نے حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کے ساتھ امین بنا کر بھیج دیا

اسی طرح مشرکین عرب سے بھی کہا گیا :

قُلْ مَن كَانَ فِى الضَّلَـلَةِ فَلْيَمْدُدْ لَهُ الرَّحْمَـنُ مَدّاً (۱۹:۷۵)

کہہ دیجئے! جو گمراہی میں ہوتا ہے اللہ رحمٰن اس کو خوب لمبی مہلت دیتا ہے

اس کی پوری تفسیر اس آیت کے ساتھ بیان ہو گی انشاء اللہ تعالیٰ

مندرجہ بالا آیت کی تفسیر میں ایک مرجوع قول یہ بھی ہے کہ تم خود اپنے جانوں کے لئے موت طلب کرو کیونکہ بقول تمہارے آخرت کی بھلائیاں صرف تمہارے لئے ہی ہیں انہوں نے اس سے انکار کیا

لیکن یہ قول کچھ دل کو نہیں لگتا۔ اس لئے کہ بہت سے اچھے اور نیک آدمی بھی زندگی چاہتے ہیں

 بلکہ حدیث میں ہے:

تم میں سے بہتر وہ ہے جس کی لمبی عمر ہوئی ہو اور اعمال اچھے ہوں

علاوہ ازیں یہی قول یہودی بھی کہہ سکتے تھے تو بات فیصلہ کن نہ ہوتی

ٹھیک تفسیر وہی ہے جو پہلے بیان ہوئی کہ دونوں فریق مل کر جھوٹے کی ہلاکت اور اس کی موت کی دعا کریں اور اس اعلان کے سنتے ہی یہود تو ٹھنڈے پڑ گئے اور تمام لوگوں پر ان کا جھوٹ کھل گیا اور وہ پیشین گوئی بھی سچی ثابت ہوئی کہ یہ لوگ ہرگز موت طلب نہیں کریں گے

اس مباہلہ کا نام اصطلاح میں تمنی رکھا گیا کیونکہ ہر فریق باطل پرست کی موت کی آرزو کرتا ہے۔

وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلَى حَيَاةٍ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا ۚ

بلکہ سب سے زیادہ دنیا کی زندگی کا حریص اے نبی، آپ انہیں کو پائیں گے، یہ حرص زندگی میں مشرکوں سے بھی زیادہ ہیں

پھر فرمایا کہ یہ تو مشرکین سے بھی زیادہ طویل عمر کے خواہاں ہیں کیونکہ کفار کے لئے دنیا جنت ہے اور ان کی تمنا اور کوشش ہے کہ یہاں زیادہ رہیں

خواجہ حسن بصریؒ فرماتے ہیں منافق کو حیات دنیوی کی حرص کافر سے بھی زیادہ ہوتی ہے

يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ يُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ وَمَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذَابِ أَنْ يُعَمَّرَ ۗ

ان میں سے تو ہر شخص ایک ایک ہزار سال کی عمر چاہتا ہے، گو یہ عمر دیا جانا بھی انہیں عذاب سے نہیں چھڑا سکتا،

یہ یہودی تو ایک ایک ہزار سال کی عمریں چاہتے ہیں حالانکہ اتنی لمبی عمر بھی انہیں ان عذابوں سے نجات نہیں دے سکتی چونکہ کفار کو تو آخرت پر یقین ہی نہیں ہوتا مگر انہیں یقین تو تھا لیکن ان کی اپنی سیاہ کاریاں بھی ان کے سامنے تھے اس لئے موت سے بہت زیادہ ڈرتے تھے لیکن ابلیس کے برابر بھی عمر پالی تو کیا ہوا عذاب سے تو نہیں بچ سکتے

وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ (۹اللہ تعالیٰ ان کے کاموں کو بخوبی دیکھ رہا ہے۔‏۶)

 اللہ تعالیٰ ان کے اعمال سے بےخبر نہیں تمام بندوں کے تمام بھلے برے اعمال کو وہ بخوبی جانتا ہے اور ویسا ہی بدلہ دے گا۔

قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَى قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّهِ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًى وَبُشْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ (۹۷)

(اے نبی) آپ کہہ دیجئے کہ جو جبرائیل کا دشمن ہو جس نے آپ کے دل پر پیغام باری تعالیٰ اتارا ہے

جو پیغام ان کے پاس کی کتاب کی تصدیق کرنے والا اور مؤمنوں کو ہدایت اور خوشخبری دینے والا ہے ۔(تو اللہ بھی اس کا دشمن ہے)

امام جعفر طبری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس پر تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ جب یہودیوں نے حضرت جبرائیل کو اپنا دشمن اور حضرت میکائیل کو اپنا دوست بتایا تھا اس وقت ان کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی

لیکن بعض کہتے ہیں کہ امر نبوت کے بارے میں جو گفتگو ان کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی تھی اس میں انہوں نے یہ کہا تھا۔بعض کہتے ہیں عمر بن خطاب ؓ سے ان کا جو مناظرہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بارے میں ہوا تھا اس میں انہوں نے یہ کہا تھا۔

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں :

یہودیوں کی ایک جماعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا کہ ہم آپ سے چند سوال کرتے ہیں جن کے صحیح جواب نبی کے سوا اور کوئی نہیں جانتا اگر آپ سچے نبی ہیں تو ان کے جوابات دیجئے

آپ ﷺنے فرمایا بہتر ہے جو چاہو پوچھو مگر عہد کرو کہ اگر میں ٹھیک ٹھیک جواب دوں گا تو تم میری نبوت کا اقرار کر لو گے اور میری فرمانبرداری کے پابند ہو جاؤ گے

انہوں نے آپ سے وعدہ کیا اور عہد دیا ۔

 اس کے بعد آپ نے حضرت یعقوبؑ  کی طرح اللہ جل شانہ کی شہادت کے ساتھ ان سے پختہ وعدہ لے کر انہیں سوال کرنے کی اجازت دی، انہوں نے کہا پہلے تو یہ بتائیے کہ تورات نازل ہونے سے پہلے حضرت اسرائیل علیہ السلام نے اپنے نفس پر کس چیز کو حرام کیا تھا؟

آپﷺ نے فرمایا جب حضرت یعقوب علیہ السلام عرق السناء کی بیماری میں سخت بیمار ہوئے تو نذر مانی کہ اگر اللہ مجھے اس مرض سے شفا دے تو میں اپنے کھانے کی سب سے زیادہ مرغوب چیز اور سب سے زیادہ محبوب چیز پینے کی چھوڑ دوں گا جب تندرست ہو گئے تو اونٹ کا گوشت کھانا اور اونٹنی کا دودھ پینا جو آپ کو پسند خاطر تھا چھوڑ دیا، تمہیں اللہ کی قسم جس نے حضرت موسیٰ پر تورات اتاری بتاؤ یہ سچ ہے؟

ان سب نے قسم کھا کر کہا کہ ہاں حضور سچ ہے بجا ارشاد ہوا

اچھا اب ہم پوچھتے ہیں کہ عورت مرد کے پانی کی کیا کیفیت ہے؟ اور کیوں کبھی لڑکا پیدا ہوتا ہے اور کبھی لڑکی؟

آپ ﷺنے فرمایا سنو مرد کا پانی گاڑھا اور سفید ہوتا ہے اور عورت کا پانی پتلا اور زردی مائل ہوتا ہے جو بھی غالب آ جائے اسی کے مطابق پیدائش ہوتی ہے اور شبیہ بھی۔ جب مرد کا پانی عورت کے پانی پر غالب آ جائے تو حکم الہٰی سے اولاد نرینہ ہوتی ہے اور جب عورت کا پانی مرد کے پانی پر غالب آ جائے تو حکم الہٰی سے اولاد لڑکی ہوتی ہے تمہیں اللہ تعالیٰ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں سچ بتاؤ میرا جواب صحیح ہے؟

سب نے قسم کھا کر کہا بیشک آپ نے بجا ارشاد فرمایا

آپ ﷺنے ان دو باتوں پر اللہ تعالیٰ کو گواہ بنایا۔

انہوں نے کہا اچھا یہ فرمائیے کہ تورات میں جس نبی اُمی کی خبر ہے اس کی خاص نشانی کیا ہےاور اسکے پاس کونسا فرشتہ وحی لے کر آتا ہے؟

آپ ﷺنے فرمایا اس کی خاص نشانی یہ ہے کہ اس کی آنکھیں جب سوئی ہوئی ہوں اس وقت میں اس کا دل جاگتا رہتا ہے تمہیں اس رب کی قسم جس نے حضرت موسیٰ کو تورات دی بتاؤ تو میں نے ٹھیک جواب دیا؟

سب نے قسم کھا کر کہا آپ نے بالکل صحیح جواب دیا۔ اب ہمارے اس سوال کی دوسری شق کا جواب بھی عنایت فرما دیجئے اسی پر بحث کا خاتمہ ہے۔

آپ ﷺنے فرمایا میرا ولی جبرائیل ہے وہی میرے پاس وحی لاتا ہے اور وہی تمام انبیاء کرام کے پاس پیغام باری تعالیٰ لاتا رہا۔ سچ کہو اور قسم کھا کر کہو کہ میرا یہ جواب بھی درست ہے؟

انہوں نے قسم کھا کر کہا کہ جواب تو درست ہے لیکن چونکہ جبرائیل ہمارا دشمن ہے وہ سختی اور خون ریزی وغیرہ لے کر آتا رہتا ہے اس لئے ہم اس کی نہیں مانیں گے نہ آپ کی مانیں ہاں اگر آپ کے پاس حضرت میکائیل وحی لے کر آتے جو رحمت، بارش، پیداوار وغیرہ لے کر آتے ہیں اور ہمارے دوست ہیں تو ہم آپکی تابعداری اور تصدیق کرتے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

بعض روایتوں میں ہے

انہوں نے یہ بھی سوال کیا تھا کہ رعد کیا چیز ہے؟

آپ ﷺنے فرمایا وہ ایک فرشتہ ہے جو بادلوں پر مقرر ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق انہیں ادھر ادھر لے جاتا ہے۔

انہوں نے کہا یہ گرج کی آواز کیا ہے؟

آپ ﷺنے فرمایا یہ اسی فرشتے کی آواز ہے

ملاحظہ ہو مسند احمد وغیرہ۔

صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے :

جب حضور علیہ السلام مدینہ میں تشریف لائے اس وقت حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے باغ میں تھے اور یہودیت پر قائم تھے۔ انہوں نے جب آپ کی آمد کی خبر سنی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرمائیے کہ قیامت کی پہلی شرط کیا ہے اور جنتیوں کا پہلا کھانا کیا ہے اور کونسی چیز بچہ کو کبھی ماں کی طرف کھینچتی ہے اور کبھی باپ کی طرف؟

آپ ﷺنے فرمایا ان تینوں سوالوں کے جواب ابھی ابھی جبرائیلؑ نے مجھے بتلائے ہیں سنو،

حضرت عبداللہ بن سلام نے کہا وہ تو ہمارا دشمن ہے۔

آپ ﷺنے یہ آیت تلاوت فرمائی پھر فرمایا پہلی نشانی قیامت کی ایک آگ ہے جو لوگوں کے پیچھے لگے گی اور انہیں مشرق سے مغرب کی طرف اکٹھا کر دے گی۔

جنتیوں کی پہلی خوراک مچھلی کی کلیجی بطور ضیافت ہو گی۔

جب مرد کا پانی عورت کے پانی پر سبقت کر جاتا ہے تو لڑکا پیدا ہوتا ہے اور جب عورت کا پانی مرد کے پانی سے سبقت لے جاتا ہے تو لڑکی ہوتی ہے

یہ جواب سنتے ہی حضرت عبداللہ مسلمان ہو گئے اور پکار اٹھے اشھدان لا الہ الا اللہ وانک رسولہ اللہ

پھر کہنے لگے حضور یہودی بڑے بیوقوف لوگ ہیں۔ اگر انہیں میرا اسلام لانا پہلے معلوم ہو جائے گا تو وہ مجھے برا کہیں گے آپ پہلے انہیں ذرا قائل کر لیجئے۔

اس کے بعد آپ کے پاس جب یہودی آئے تو آپﷺ نے ان سے پوچھا کہ عبداللہ بن سلام تم میں کیسے شخص ہیں؟

انہوں نے کہا بڑے بزرگ اور دانشور آدمی ہیں بزرگوں کی اولاد میں سے ہیں وہ تو ہمارے سردار ہیں اور سرداروں کی اولاد میں سے ہیں

 آپ ﷺنے فرمایا اچھا اگر وہ مسلمان ہو جائیں پھر تو تمہیں اسلام قبول کرنے میں کوئی تامل تو نہیں ہو گا؟

کہنے لگے اعوذ باللہ اعوذ باللہ وہ مسلمان ہی کیوں ہونے لگے؟

حضرت عبداللہ جو اب تک چھپے ہوئے تھے باہر آ گئے اور زور سے کلمہ پڑھا۔ تو تمام کے تمام شور مچانے لگے کہ یہ خود بھی برا ہے اس کے باپ دادا بھی برے تھے یہ بڑا نیچے درجہ کا آدمی ہے خاندانی کمینہ ہے۔

 حضرت عبداللہ ؓنے فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسی چیز کا مجھے ڈر تھا۔

صحیح بخاری میں ہے حضرت عکرمہ فرماتے ہیں:

 جبر، میک، اسراف، کے معنی عبد یعنی بندے کے ہیں اور ایل کے معنی اللہ کے ہیں تو جبرائیل کے معنی عبداللہ ہوئے

 بعض لوگوں نے اس کے معنی الٹ بھی کئے ہیں وہ کہتے ہیں ایل کے معنی عبد کے ہیں اور اس سے پہلے کے الفاظ اللہ کے نام ہیں، جیسے عربی میں عبداللہ عبدالرحمٰن عبدالملک عبدالقدوس عبدالسلام عبدالکافی عبدالجلیل وغیرہ

لفظ عبد ہر جگہ باقی رہا اور اللہ کے نام بدلتے رہے اس طرح ایل ہر جگہ باقی ہے اور اللہ کے اسماء حسنہ بدلتے رہتے ہیں۔

 غیر عربی زبان میں مضاف الیہ پہلے آتا ہے اور مضاف بعد میں۔ اسی قاعدے کے مطابق ان ناموں میں بھی ہے جیسے جبرائیل میکائیل اسرافیل عزرائیل وغیرہ۔

اب مفسرین کی دوسری جماعت کی دلیل سنئے جو لکھتے ہیں کہ یہ گفتگو جناب عمر ؓسے ہوئی تھی

 شعبہ کہتے ہیں حضرت عمر ؓروحاء میں آئے۔ دیکھا کہ لوگ دوڑ بھاگ کر ایک پتھروں کے تودے کے پاس جا کر نماز ادا کر رہے ہیں پوچھا کہ یہ کیا بات ہے جواب ملا کہ اس جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کی ہے، آپ بہت ناراض ہوئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جہاں کہیں نماز کا وقت آتا تھا پڑھ لیا کرتے تھے پھر چلے جایا کرتے تھے اب ان مقامات کو متبرک سمجھ کر خواہ مخواہ وہیں جا کر نماز ادا کرنا کس نے بتایا؟ پھر آپ اور باتوں میں لگ گئے

حضرت عمر ؓفرماتے ہیں:

  میں یہودیوں کے مجمع میں کبھی کبھی چلا جایا کرتا اور یہ دیکھتا رہتا تھا کہ کس طرح قرآن تورات کی اور تورات قرآن کی تصدیق کررہی ہے یہودی بھی مجھ سے محبت ظاہر کرنے لگے اور اکثر بات چیت ہوا کرتی تھی۔ ایک دن میں ان سے باتیں کر ہی رہا تھا تو راستے سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نکلے انہوں نے مجھ سے کہا تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہ جا رہے ہیں۔

میں نے کہا میں ان کے پاس جاتا ہوں لیکن تم یہ تو بتاؤ تمہیں اللہ واحد کی قسم رب کے حق یاد کرو اور رب کی نعمتوں پر نظر رکھ کر اللہ کی کتاب تم میں موجود ہونے کا خیال رکھ کر اسی رب کی قسم کھا کر کہو کہ تم حضور ﷺ کو نہیں مانتے ؟

اب سب خاموش ہو گئے ان کے بڑے عالم نے جو ان سب میں علم میں بھی کامل تھا اور سب کا سردار بھی تھا اس نے کہا اس شخص نے اتنی سخت قسم دی ہے تم صاف اور سچا جواب کیوں نہیں دیتے؟

انہوں نے کہا حضرت آپ ہی ہمارے بڑے ہیں ذرا آپ ہی جواب دیجئے۔

اس بڑے عالم نے کہا سنئے جناب! آپ نے زبردست قسم دی ہے لہذا سچ تو یہی ہے کہ ہم دل سے جانتے ہیں کہ حضور اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں

 میں نے کہا افسوس جب یہ جانتے ہو تو پھر مانتے کیوں نہیں

 کہا صرف اس وجہ سے کہ ان کے پاس آسمانی وحی لے کر آنے والے جبرائیل ہیں جو نہایت سختی، تنگی، شدت، عذاب اور تکلیف کے فرشتے ہیں ہم ان کے اور وہ ہمارے دشمن ہیں اگر وحی لے کر حضرت میکائیل آتے جو رحمت و رافت تخفیف و راحت والے فرشتے ہیں تو ہمیں ماننے میں تامل نہ ہوتا۔

میں نے کہا اچھا بتاؤ تو ان دونوں کی اللہ کے نزدیک کیا قدر و منزل ہے؟

انہوں نے کہا ایک تو جناب باری کے داہنے بازو ہے اور دوسرا دوسری طرف

میں نے کہا اللہ کی قسم جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں جو ان میں سے کسی کا دشمن ہو۔ اس کا دشمن اللہ بھی ہے اور دوسرا فرشتہ بھی کیونکہ جبرائیل کے دشمن سے میکائیل دوستی نہیں رکھ سکتے اور میکائیل کا دشمن جبرائیل کا دوست نہیں ہو سکتا۔ نہ ان میں سے کسی ایک کا دشمن اللہ تبارک و تعالیٰ کا دوست ہو سکتا ہے نہ ان دونوں میں سے کوئی ایک باری تعالیٰ کی اجازت کے بغیر زمین پر آ سکتا ہے نہ کوئی کام کر سکتا ہے۔ واللہ مجھے نہ تم سے لالچ ہے نہ خوف۔ سنو جو شخص اللہ تعالیٰ کا دشمن ہو اس کے فرشتوں اس کے رسولوں اور جبرائیل و میکائیل کا دشمن ہو تو اس کافر کا اللہ وحدہ لاشریک بھی دشمن ہے اتنا کہہ کر میں چلا آیا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپ نے مجھے دیکھتے ہی فرمایا اے ابن خطاب مجھ پر تازہ وحی نازل ہوئی ہے

میں نے کہا حضور سنائیے، آپﷺ نے یہی آیت پڑھ کر سنائی۔

میں نے کہا حضور آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں یہی باتیں ابھی ابھی یہودیوں سے میری ہو رہی تھیں۔ میں تو چاہتا ہی تھا بلکہ اسی لئے حاضر خدمت ہوا تھا کہ آپ کو اطلاع کروں مگر میری آنے سے پہلے لطیف و خبیر سننے دیکھنے والے اللہ نے آپ کو خبر پہنچا دی ( ابن ابی حاتم )

مگر یہ روایت منقطع ہے سند متصل نہیں شعبی نے حضرت عمرؓ کا زمانہ نہیں پایا۔

 آیت کا مطلب یہ ہے کہ جبرائیل علیہ السلام اللہ کے امین فرشتے ہیں اللہ کے حکم سے آپ کے دل میں اللہ کی وحی پہنچانے پر مقرر ہیں۔ وہ فرشتوں میں سے اللہ کے رسول ہیں

مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِلَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَجِبْرِيلَ وَمِيكَالَ فَإِنَّ اللَّهَ عَدُوٌّ لِلْكَافِرِينَ (۹۸)

جو شخص اللہ کا اور اس کے فرشتوں اور رسولوں کا اور جبرائیل اور میکائیل کا دشمن ہو، ایسے کافروں کا دشمن خود اللہ ہے

کسی ایک رسول سے عداوت رکھنے والا سب رسولوں سے عداوت رکھنے والا ہوتا ہے جیسے ایک رسول پر ایمان سب رسولوں پر ایمان لانے کا نام ہے اور ایک رسول کے ساتھ کفر تمام نبیوں کے ساتھ کفر کرنے کے برابر ہے خود اللہ تعالیٰ نے بعض رسولوں کے نہ ماننے والوں کو کافر فرمایا ہے۔ فرماتا ہے:

إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ۔۔۔ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا (۴:۱۵۰،۱۵۱)

جو لوگ اللہ کے ساتھ اور اسکے پیغمبروں کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ اور اسکے رسولوں کے درمیان فرق رکھیں اور جو لوگ کہتے ہیں کہ بعض نبیوں پر تو ہمارا ایمان ہے ا

ور بعض پر نہیں اور چاہتے ہیں کہ اس کے درمیان راہ نکالیں۔‏ یقین مانو کہ سب لوگ اصلی کافر ہیں اور کافروں کے لئے ہم نے اہانت آمیز سزا تیار کر رکھی ہے۔‏

پس ان آیتوں میں صراحتاً لوگوں کو کافر کہا جو کسی ایک رسول کو بھی نہ مانیں۔ اسی طرح جبرائیلؑ کا دشمن اللہ کا دشمن ہے کیونکہ وہ اپنی مرضی سے نہیں آتےقرآن فرماتا ہے:

وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلاَّ بِأَمْرِ رَبِّكَ (۱۹:۶۴)

ہم بغیر تیرے رب کے حکم کے اتر نہیں سکتے

اور فرماتا ہے:

وَإِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَبِّ الْعَـلَمِينَ ـ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الاٌّمِينُ ـ عَلَى قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنْذِرِينَ (۲۶:۱۹۲،۱۹۴)

اور بیشک و شبہ یہ رب العالمین کا نازل فرمایا ہوا ہے۔‏ اسے امانت دار فرشتہ لے کر آیا ہے  آپ کے دل پر اترا ہے کہ آپ آگاہ کر دینے والوں میں سے ہوجائیں

صحیح بخاری کی حدیث قدسی میں ہے :

میرے دوستوں سے دشمنی کرنے والا مجھ سے لڑائی کا اعلان کرنے والا ہے۔

قرآن کریم کی یہ بھی ایک صفت ہے کہ وہ اپنے سے پہلے کے تمام ربانی کلام کی تصدیق کرتا ہے اور ایمانداروں کے دلوں کی ہدایت اور ان کے لئے جنت کی خوش خبری دیتا ہے جیسے فرمایا :

هُوَ لِلَّذِينَ ءَامَنُواْ هُدًى وَشِفَآءٌ  (۴۱:۴۴)

یہ تو ایمان والوں کے لئے ہدایت و شفا ہے

فرمایا :

وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْءَانِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ (۱۷:۸۲)

یہ قرآن جو ہم نازل کر رہے ہیں مؤمنوں کے لئے تو سراسر شفا اور رحمت ہے

رسولوں میں انسانی رسول اور ملکی رسول سب شامل ہیں جیسے فرمایا:

اللَّهُ يَصْطَفِى مِنَ الْمَلَـئِكَةِ رُسُلاً وَمِنَ النَّاسِ (۲۲:۷۵)

فرشتوں میں سے اور انسانوں میں سے پیغام پہنچانے والوں کو اللہ ہی چھانٹ لیتا ہے

جبرائیلؑ اور میکائیلؑ بھی فرشتوں میں ہیں لیکن ان کا خصوصاً نام لیا تاکہ مسئلہ بالکل صاف ہو جائے اور یہ بھی جان لیں کہ ان میں سے ایک کا دشمن دوسرے کا دشمن ہے بلکہ اللہ بھی اس کا دشمن ہے

 حضرت میکائیلؑ بھی کبھی کبھی انبیاء کے پاس آتے رہے ہیں جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شروع شروع میں تھے لیکن اس کام پر مقرر حضرت جبرائیلؑ ہیں جیسے حضرت میکائیلؑ روئیدگی اور بارش وغیرہ پر اور جیسے حضرت اسرافیلؑ صور پھونکنے پر۔

ایک صحیح حدیث میں ہے :

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو جب تہجد کی نماز کے لئے کھڑے ہوتے تب یہ دعا پڑھتے ۔

اللَّهُمَّ رَبَّ جِبْرَائِيلَ وَمِيكَائِيلَ وَإِسْرَافِيلَ فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ

اے اللہ اے جبرائیل میکائیل اسرافیل کے رب اے زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے اے ظاہر باطن کو جاننے والے

أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ، اهْدِنِي لِمَا اخْتُلِفَ فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِكَ إِنَّكَ تَهْدِي مَنْ تَشَاءُ إِلى صِرَاطٍ مُسْتَقِيم

اپنے بندوں کے اختلاف کا فیصلہ تو ہی کرتا ہے، اے اللہ اختلافی امور میں اپنے حکم سے حق کی طرف میری رہبری کر تو جسے چاہے سیدھی راہ دکھا دیتا ہے۔

لفظ جبرائیل کی تحقیق اور اس کے معانی پہلے بیان ہو چکے ہیں۔

حضرت عبدالعزیز بن عمر ؒفرماتے ہیں فرشتوں میں حضرت جبرائیل کا نام خادم اللہ ہے۔ابوسلیمان دارانی یہ سن کر بہت ہی خوش ہوئے اور فرمانے لگے یہ ایک روایت میری روایتوں کے ایک دفتر سے مجھے زیادہ محبوب ہے۔

جبرائیل اور میکائیل کے لفظ میں بہت سی لغات اور قرأتیں ہیں جن کے بیان کی مناسب جگہ کتب لغت ہیں ہم کتاب کے حجم کو بڑھانا نہیں چاہتے کیونکہ کسی معنی کی سمجھ یا کسی حکم کا مفاد ان پر موقوف نہیں۔ اللہ ہماری مدد کرے۔ ہمارا بھروسہ اور توکل اسی کی پاک ذات پر ہے۔

آیت کے خاتمہ میں یہ نہیں فرمایا کہ اللہ بھی ان لوگوں کا دشمن ہے بلکہ فرمایا اللہ کافروں کا دشمن ہے۔

اس میں ایسے لوگوں کا حکم بھی معلوم ہو گیا اسے عربی میں مضمر کی جگہ مظہر کہتے ہیں اور کلام عرب میں اکثر اس کی مثالیں شعروں میں بھی پائی جاتی ہیں گویا یوں کہا جاتا ہے کہ جس نے اللہ کے دوست سے دشمنی کی اس نے اللہ سے دشمنی کی اور جو اللہ کا دشمن اللہ بھی اس کا دشمن اور جس کا دشمن خود اللہ قادر مطلق ہو جائے اس کے کفر و بربادی میں کیا شبہ رہ گیا؟

صحیح بخاری کی حدیث پہلے گزر چکی ہے:

اللہ فرماتا ہے میرے دوستوں سے دشمنی رکھنے والے کو میں اعلان جنگ دیتا ہوں

 ایک  حدیث میں ہے :

 میں اپنے دوستوں کا بدلہ لے لیا کرتا ہوں

 ایک اور حدیث میں ہے :

جس کا دشمن میں ہو جاؤں وہ برباد ہو کر ہی رہتا ہے۔

وَلَقَدْ أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ ۖ وَمَا يَكْفُرُ بِهَا إِلَّا الْفَاسِقُونَ (۹۹)

اور یقیناً ہم نے آپ کی طرف روشن دلیلیں بھیجی ہیں جن کا انکار سوائے بدکاروں کے کوئی نہیں کرتا۔‏

اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے ایسی نشانیاں جو آپ کی نبوت کی صریح دلیل بن سکیں نازل فرما دی ہیں یہودیوں کی مخصوص معلومات کا ذخیرہ ان کی کتاب کی پوشیدہ باتیں ان کی تحریف و تبدیل احکام وغیرہ سب ہم نے اپنی معجزہ نما کتاب قرآن کریم میں بیان فرما دیئے ہیں جنہیں سن کر ہر زندہ ضمیر آپ کی نبوت کی تصدیق کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے ہاں یہ اور بات ہے کہ یہودیوں کو ان کا حسد و بغض روک دے ورنہ ہر شخص جان سکتا ہے کہ ایک اُمی شخص سے ایسا پاکیزہ خوبیوں والا حکمتوں والا کلام کہا نہیں جا سکتا۔

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ابن صوریا قطوبنی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ آپ بطور نبوت کوئی ایسی چیز نہیں لائے جس سے ہم پہچان لیں نہ آپ کے پاس کوئی ایسی خاص روشن دلیلیں ہیں اس پر یہ آیت پاک نازل ہوئی

أَوَكُلَّمَا عَاهَدُوا عَهْدًا نَبَذَهُ فَرِيقٌ مِنْهُمْ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ (۱۰۰)

یہ لوگ جب کبھی کوئی عہد کرتے ہیں تو ا کی ایک نہ ایک جماعت اسے توڑ دیتی ہے، بلکہ ان میں سے اکثر ایمان سے خالی ہیں‏

چونکہ یہودیوں نے اس بات سے انکار کر دیا تھا کہ ہم سے پیغمبر آخر الزمان کی بابت کوئی عہد لیا گیا ہے اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ تو ان کی عادت ہی ہے کہ عہد کیا اور توڑا بلکہ ان کے اکثریت تو ایمان سے بالکل خالی ہے

نَبَذَهُ کا معنی پھینک دینا ہے چونکہ ان لوگوں نے کتاب اللہ کو اور عہد باری کو اس طرح چھوڑ رکھا تھا گویا پھینک دیا تھا اس لئے ان کی مذمت میں یہی لفظ لایا گیا

دوسری جگہ صاف بیان ہے کہ ان کی کتابوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر موجود تھا

 فرمایا :

الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ (۷:۱۵۷)

جو لوگ ایسے رسول نبی اُمی کا اتباع کرتے ہیں جن کو وہ لوگ اپنے پاس تورات وانجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں

یہ لوگ تورات وانجیل میں حضورﷺ کا ذکر موجود پاتے ہیں

وَلَمَّا جَاءَهُمْ رَسُولٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَهُمْ نَبَذَ فَرِيقٌ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ كِتَابَ اللَّهِ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ كَأَنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ (۱۰۱)

جب کبھی ان کے پاس اللہ کا کوئی رسول ان کی کتاب کی تصدیق کرنے والا آیا، ان اہل کتاب کے ایک فرقہ نے اللہ کی کتاب کو اس طرح پیٹھ پیچھے ڈال دیا کہ جانتے ہی نہ تھے۔

یہاں بھی فرمایا ہے کہ جب ان کی کتاب کی تصدیق کرنے والا ہمارے پیغمبر ان کے پاس آیا تو ان کے ایک فریق نے اللہ رب العزت کی کتاب سے بےپرواہی برت کر اس طرح اسے چھوڑ دیا جیسے کوئی علم ہی نہیں۔

وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ ۖ

ا ور اس چیز کے پیچھے لگ گئے جسے شیاطین سلیمانؑ  کی حکومت میں پڑھتے تھے۔

بلکہ جادو کے پیچھے پڑ گئے اور خود حضور ﷺپر جادو کیا جسکی اطلاع آپ کو جناب باری تعالیٰ نے دی اور اسکا اثر زائل ہوا اور آپ کو شفا ملی۔

تورات سے تو حضورﷺ کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے اس لئے کہ وہ تو اس کی تصدیق والی تھی تو اسے چھوڑ کر دوسری کتابوں کی پیروی کرنے لگے اور اللہ کی کتاب کو اس طرح چھوڑ دیا کہ گویا کبھی جانتے ہی نہ تھے نفسانی خواہشیں سامنے رکھ لیں اور کتاب اللہ کو پیٹھ پیچھے ڈال دیا

یہ بھی کہا گیا ہے کہ راگ باجے کھیل تماشے اور اللہ کے ذکر سے روکنے والی ہر چیز مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ میں داخل ہے

حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں:

 حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس ایک انگوٹھی تھی جب آپ بیت الخلاء جاتے تو اپنی بیوی حضرت جرادہ کو دے جاتے جب حضرت سلیمان کی آزمائش کا وقت آیا اس وقت ایک شیطان جن آپ کی صورت میں آپ کی بیوی صاحبہ کے پاس آیا اور انگوٹھی طلب کی جو دے دی گئی اس نے پہن لی اور تخت سلیمانی پر بیٹھ گیا تمام جنات وغیرہ حاضر خدمت ہو گئے حکومت کرنے لگا ادھر جب حضرت سلیمان واپس آئے اور انگوٹھی طلب کی تو جواب ملا تو جھوٹا ہے انگوٹھی تو حضرت سلیمان لے گئے

 آپ نے سمجھ لیا کہ یہ اللہ کی طرف سے آزمائش ہے

ان دنوں میں شیاطین نے جادو، نجوم، کہانت، شعر و اشعار اور غیب کی جھوٹی سچی خبروں کی کتابیں لکھ لکھ کر حضرت سلیمان کی کرسی تلے دفن کرنی شروع کر دیں آپ کی آزمائش کا یہ زمانہ ختم ہو گیا آپ پھر تخت و تاج کے مالک ہوئے عمر طبعی کو پہنچ کر جب رحلت فرمائی تو شیاطین نے انسانوں سے کہنا شروع کیا کہ حضرت سلیمان کا خزانہ اور وہ کتابیں جن کے ذریعہ سے وہ ہواؤں اور جنات پر حکمرانی کرتے تھے ان کی کرسی تلے دفن ہیں

چونکہ جنات اس کرسی کے پاس نہیں جا سکتے تھے اس لئے انسانوں نے اسے کھودا تو وہ کتابیں برآمد ہوئیں بس ان کا چرچا ہو گیا اور ہر شخص کی زبان پر چڑھ گیا کہ حضرت سلیمان کی حکومت کا راز یہی تھا بلکہ لوگ حضرت سلیمانؑ کی نبوت سے منکر ہو گئے اور آپ کو جادوگر کہنے لگے۔

وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ

سلیمان نے تو کفر نہ کیا تھا، بلکہ یہ کفر شیطانوں کا تھا، وہ لوگوں کو جادو سکھایا کرتے تھے

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی عقدہ کشائی کی اور فرمان باری تعالیٰ نازل ہوا کہ جادوگری کا یہ کفر تو شیاطین کا پھیلایا ہوا ہے حضرت سلیمانؑ اس سے بری الذمہ ہیں

حضرت ابن عباسؓ کے پاس ایک شخص آیا آپ نے پوچھا کہاں سے آئے ہو؟

اس نے کہا عراق سے! فرمایا عراق کے کس شہر سے؟

اس نے کا کوفہ سے! پوچھا وہاں کی کیا خبریں ہیں؟

اس نے کہا وہاں باتیں ہو رہی ہیں کہ حضرت علیؓ انتقال نہیں کر گئے بلکہ زندہ روپوش ہیں اور عنقرب آئیں گے

آپ کانپ اٹھے اور فرمانے لگے اگر ایسا ہوتا تو ہم ان کی میراث تقسیم نہ کرتے اور ان کی عورتیں اپنا دوسرا نکاح نہ کرتیں سنو شیاطین آسمانی باتیں چرا لایا کرتے تھے اور ان میں اپنی باتیں ملا کر لوگوں میں پھیلایا کرتے تھے، حضرت سلیمانؑ نے یہ تمام کتابیں جمع کر کے اپنی کرسی تلے دفن کر دیں۔ آپ کے انتقال کے بعد جنات نے وہ پھر نکال لیں وہی کتابیں عراقیوں میں پھیلی ہوئی ہیں اور ان ہی کتابوں کی باتیں وہ بیان کرتے اور پھیلاتے رہتے ہیں اسی کا ذکر اس آیت وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ میں ہے

اس زمانہ میں یہ بھی مشہور ہو گیا تھا کہ شیاطین علم غیب جانتے ہیں حضرت سلیمانؑ نے ان کتابوں کو صندوق میں بھر کر دفن کر دینے کے بعد یہ حکم جاری کر دیا کہ جو یہ کہے گا اس کی گردن ماری جائے گی

بعض روایتوں میں ہے:

جنات نے ان کتابوں کو حضرت سلیمانؑ کے انتقال کے بعد آپ کی کرسی تلے دفن کیا تھا اور ان کے شروع صفحہ پر لکھ دیا تھا کہ یہ علمی خزانہ آصف بن برخیا کا جمع کیا ہوا ہے جو حضرت سلیمان بن داؤد کے وزیر اعظم مشیر خاص اور دلی دوست تھے

یہودیوں میں مشہور تھا کہ حضرت سلیمانؑ نبی نہ تھے بلکہ جادوگر تھے اس بنا پر یہ آیتیں نازل ہوئیں اور اللہ کے سچے نبی نے ایک سچے نبی کی برأت کی اور یہودیوں کے اس عقیدے کا ابطال کیا وہ حضرت سلیمانؑ  کا نام نبیوں کے زمرے میں سن کر بہت بدکتے تھے اس لئے تفصیل کیساتھ اس واقعہ کو بیان کر دیا۔

ایک وجہ یہ بھی ہوئی کہ حضرت سلیمانؑ نے تمام موذی جانوروں سے عہد لیا تھا جب انہیں وہ عہد یاد کرایا جاتا تھا تو وہ ستاتے نہ تھے پھر لوگوں نے اپنی طرف سے عبارتیں بنا کر جادو کی قسم کے منتر وغیرہ  بنا کر ان سب کو آپ کی طرف منسوب کر دیا جس کا بطلان ان آیات کریمہ میں ہے

یاد رہے کہ عَلَى یہاں پر فی کے معنی میں ہےیا تتلو متضمن ہے تکذب کا ، یہی اولیٰ اور احسن ہے واللہ اعلم

یاد رہے کہ عَلَى یہاں پر فی کے معنی میں ہےیا تتلو متضمن ہے تکذب کا ، یہی اولیٰ اور احسن ہے واللہ اعلم

خواجہ حسن بصری کا قول ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانہ میں جادوگروں کا ہونا قرآن سے ثابت ہے اور حضرت سلیمانؑ  کا حضرت موسیٰ کے بعد ہونا بھی قرآن سے ظاہر ہے۔ داؤد اور جالوت کے قصے میں ہے مِن بَعْدِ مُوسَىٰ (۲:۲۴۶) بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بھی پہلے حضرت صالح علیہ السلام کو ان کی قوم نے کہا تھا آیت إِنَّمَا أَنتَ مِنَ الْمُسَحَّرِينَ (۲۶:۱۵۳) یعنی تو جادو کئے گئے لوگوں میں سے ہے۔

وَمَا أُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ ۚ وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّى يَقُولَا إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ ۖ

اور بابل میں ہاروت ماروت دو فرشتوں پر جادو اتارا گیا تھا وہ دونوں بھی کسی شخص کو اس وقت تک نہیں سکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیں کہ ہم تو ایک آزمائش ہیں تو کفر نہ کر

بعض تو کہتے ہیں یہاں پر مَا نافیہ ہے یعنی انکار کے معنی میں ہے اور اس کا عطف مَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ پر ہے

یہودیوں کے اس دوسرے اعتقاد کی کہ جادو فرشتوں پر نازل ہوا ہے اس آیت میں تردید ہے،

ہاروت، ماروت لفظ شیاطین کا بدل ہے تثنیہ پر بھی جمع کا اطلاق ہوتا ہے جیسے آیت فَإِن كَانَ لَهُ ۥۤ إِخۡوَةٌ۬ (۴:۱۱)  میں یا اس لئے جمع کیا گیا کہ ان کے ماننے والوں کو بھی شامل کر لیا گیا ہے اور انکا نام انکی زیادہ سرکشی کی وجہ سے سرفہرست دیا گیا ہے

قرطبی تو کہتے ہیں کہ اس آیت کا یہی ٹھیک مطلب ہے اس کے سوا کسی اور معنی کی طرف التفات بھی نہ کرنا چاہئے۔

ابن عباسؓ فرماتے ہیں جادو اللہ عزوجل کا نازل کیا ہوا نہیں۔

ربیع بن انس فرماتے ہیں ان پر کوئی جادو نہیں اترا۔

اس بناء پر آیت کا ترجمہ اس طرح پر ہو گا کہ ان یہودیوں نے اس چیز کی تابعداری کی جو حضرت سلیمانؑ کے زمانہ میں شیطان پڑھا کرتے تھے حضرت سلیمانؑ نے کفر نہیں کیا نہ اللہ تعالیٰ نے جادو کو ان دو فرشتوں پر اتارا ہے (جیسے اے یہودیوں تمہارا خیال جبرائیل و میکائیل کی طرف ہے) بلکہ یہ کفر شیطانوں کا ہے جو بابل میں لوگوں کو جادو سکھایا کرتے تھے اور انکے سردار دو آدمی تھے جنکا نام ہاروت و ماروت تھا۔

حضرت عبدالرحمٰن بن ابزی اسے اس طرح پڑھتے تھے وما انزل علی الملکین داؤد وسلیمان یعنی داؤد و سلیمان دونوں بادشاہوں پر بھی جادو نہیں اتارا گیا یا یہ کہ وہ اس سے روکتے تھے کیونکہ یہ کفر ہے۔

امام ابن جریر نے اسکا زبردست رد کیا ہے وہ فرماتے ہیں مامعنی میں الذی کے ہے اور ہاروت ماروت دو فرشتے ہیں جنہیں اللہ نے زمین کی طرف اتارا ہے اور اپنے بندوں کی آزمائش اور امتحان کے لئے انہیں جادو کی تعلیم دی ہے لہذا ہاروت ماروت اس فرمان باری تعالیٰ کو بجالا رہے ہیں۔

ایک غریب قول یہ بھی ہے کہ یہ جنوں کے دو قبیلے ہیں

الْمَلَكَيْنِ یعنی دو بادشاہوں کی قرأت پر انزال خلق کے معنی میں ہو گاجیسے فرمایا :

وَأَنزَلَ لَكُم مِّنَ الْأَنْعَامِ ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ (۳۹:۶)

اور تمہارے لئے چوپایوں میں سے (آٹھ نر و مادہ) اتارے

اور فرمایا :

وَأَنزَلْنَا الْحَدِيدَ (۵۷:۲۵)

اور ہم نے لوہے کو اتارا

اور کہا :

وَيُنَزِّلُ لَكُم مِّنَ السَّمَاءِ رِزْقًا (۴۰:۱۳)

اور تمہارے لئے آسمان سے روزی اتارتا ہے

حدیث میں ہے:

اللہ تعالیٰ نے جتنی بیماریاں پیدا کی ہیں ان سب کے علاج بھی پیدا کئے ہیں

مثل مشہور ہے کہ بھلای برائی کا نازل کرنے والا اللہ ہے یہاں سب جگہ انزال یعنی پیدائش کے معنی میں ہے ایجاد یعنی لانے اور اتار نے کے معنی میں نہیں

اسی طرح اس آیت میں بھی اکثر سلف کا مذہب یہ ہے کہ یہ دونوں فرشتے تھے

 ایک مرفوع حدیث میں بھی یہ مضمون بسط و طول کے ساتھ ہے جو ابھی بیان ہو گی انشاء اللہ تعالیٰ

 کوئی یہ اعتراض نہ کرے کہ فرشتے تو معصوم ہیں وہ گناہ کرتے ہی نہیں چہ جائیکہ لوگوں کو جادو سکھائیں جو کفر ہے اس لئے کہ یہ دونوں بھی عام فرشتوں میں سے خاص ہو جائیں گے۔ جیسے کہ ابلیس کی بابت آپ آیت وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ (۲:۳۴)  کی تفسیر میں پڑھ چکے ہیں

حضرت علیؓ حضرت ابن مسعودؓ حضرت ابن عباسؓ حضرت ابن عمرؓ کعب احبار، حضرت سدی، حضرت کلبی یہی فرماتے ہیں

اب اس حدیث کو سنئےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 جب آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے زمین پر اتارا اور ان کی اولاد پھیلی اور زمین میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہونے لگی تو فرشتوں نے کہا کہ دیکھو یہ کس قدر برے لوگ ہیں کیسے نافرمان اور سرکش ہیں ہم اگر ان کی جگہ ہوتے تو ہرگز ہرگز اللہ کی نافرمانی نہ کرتے

 اللہ تعالیٰ نے فرمایا اچھا تم اپنے میں سے دو فرشتوں کو پسند کر لو میں ان میں انسانی خواہشات پیدا کرتا ہوں اور انہیں انسانوں میں بھیجتا ہوں پھر دیکھتا ہوں کہ وہ کیا کرتے ہیں

چنانچہ انہوں نے ہاروت و ماروت کو پیش کیا

اللہ تعالیٰ نے ان میں انسانی طبیعت پیدا کی اور ان سے کہہ دیا کہ دیکھو بنی آدم کو تو میں نبیوں کے ذریعہ اپنے حکم احکام پہنچاتا ہوں لیکن تم سے بلاواسطہ خود کہہ رہا ہوں کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا زنا نہ کرنا، شراب نہ پینا،

اب یہ دونوں زمین پر اترے اور زہرہ کو ان کی آزمائش کے لئے حسین و شکیل عورت کی صورت میں ان کے پاس بھیجا جسے دیکھ کر یہ دیوانے ہو گئے اور اس سے زنا کرنا چاہااس نے کہا اگر تم شرک کرو تو میں منظور کرتی ہوں

 انہوں نے جواب دیا کہ یہ تو ہم سے نہ ہو سکے گا

 وہ چلی گئی پھر آئی اور کہنے لگی اچھا اس بچے کو قتل کر ڈالو تو مجھے تمہاری خواہش پوری کرنی منظور ہے

 انہوں نے اسے بھی نہ مانا

 وہ پھر آئی اور کہا کہ اچھا یہ شراب پی لو انہوں نے اسے ہلکا گناہ سمجھ کر اسے منظور کر لیا۔

اب نشہ میں مست ہو کر زنا کاری بھی کی اور اس بچے کو بھی قتل کر ڈالا

جب ہوش حواس درست ہوئے تو اس عورت نے کہا جن جن کاموں کا تم پہلے انکار کرتے تھے سب تم نے کر ڈالے۔

یہ نادم ہوئے انہیں اختیار دیا گیا کہ یا تو عذاب دنیا کو اختیار کرو یا عذاب اخروی کو۔ انہوں نے دنیاکے عذاب پسند کئے

صحیح ابن حبان مسند احمد ابن مردویہ ابن جریر عبدالرزاق میں یہ حدیث مختلف الفاظ سے مروی ہے۔

 مسند احمد کی یہ روایت غریب ہے اس میں ایک راوی موسیٰ بن جبیر انصاری سلمی کو ابن ابی حاتم نے مستور الحال لکھا ہے

 ابن مردویہ کی روایت میں یہی ہے:

 ایک رات کو اثناء سفر میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت نافع سے پوچھا کہ کیا زہرہ تارا نکلا؟ اس نے کہا نہیں دو تین مرتبہ سوال کے بعد کہا اب زہرہ طلوع ہوا تو فرمانے لگے اس سے نہ خوشی ہو نہ بھلائی ملے۔

 حضرت نافع نے کہا حضرت ایک ستارہ جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے طلوع و غروب ہوتا ہے آپ اسے برا کہتے ہیں؟

 فرمایا میں وہی کہتا ہوں اور میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے پھر اس کے بعد مندرجہ بالا حدیث سنائی

 لیکن یہ بھی غریب ہے

 حضرت کعب والی روایت مرفوع سے زیادہ صحیح موقوف ہے اور ممکن ہے کہ وہ نبی اسرائیل روایت ہو و اللہ اعلم

صحابہ اور تابعین سے بھی اس قسم کی روایتیں بہت کچھ منقول ہیں

 بعض میں ہے کہ زہرہ ایک عورت تھی اس نے ان فرشتوں سے یہ شرط کی تھی کہ تم مجھے وہ دعا سکھا دو جسے پڑھ کر تم آسمان پر چڑھ جاتے ہو انہوں نے سکھا دی یہ پڑھ کر چڑھ گئی اور وہاں تارے کی شکل میں بنا دی گئی

بعض مرفوع روایتوں میں بھی یہ ہے لیکن وہ منکر اور غیر صحیح ہیں۔

 ایک اور روایت میں ہے کہ اس واقعہ سے پہلے تو فرشتے صرف ایمان والوں کی بخشش کی دعا مانگتے تھے لیکن اس کے بعد تمام اہل زمین کے لئے دعا شروع کر دی

بعض روایتوں میں ہے:

جب ان دونوں فرشتوں سے یہ نافرمانیاں سرزد ہوئیں تب اور فرشتوں نے اقرار کر لیا کہ بنی آدم جو اللہ تعالیٰ سے دور ہیں اور بن دیکھے ایمان لاتے ہیں جن سے خطاؤں کا سرزد ہو جانا کوئی ایسی انوکھی چیز نہیں ان دونوں فرشتوں سے کہا گیا کہ اب یا تو دنیا کا عذاب پسند کر لو یا آخرت کے عذابوں کو اختیار کر لو۔ انہوں نے دنیا کا عذاب چن لیا چنانچہ انہیں بابل میں عذاب ہو رہا ہے

ایک روایت میں ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے جو احکام دیئے تھے ان میں قتل سے اور مال حرام سے ممانعت بھی کی تھی اور یہ حکم بھی تھا کہ حکم عدل کے ساتھ کریں

یہ بھی وارد ہوا ہے کہ یہ تین فرشتے تھے لیکن ایک نے آزمائش سے انکار کر دیا اور واپس چلا گیا پھر دو کی آزمائش ہوئی

ابن عباسؓ فرماتے ہیں یہ واقعہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانہ کا ہے۔

یہاں بابل سے مراد بابل دیناوندہے اس عورت کا نام عربی میں زہرہ تھا اور نبطی زبان میں اس کا نام بیدخت تھا اور فارسی میں ناہید تھا۔ یہ عورت اپنے خاوند کے خلاف ایک مقدمہ لائی تھی جب انہوں نے اس سے برائی کا ارادہ کیا تو اس نے کہا پہلے مجھے میرے خاند کے خلاف حکم دو تو مجھے منظور ہے انہوں نے ایسا ہی کیا

 پھر اس نے کہا مجھے یہ بھی بتا دو کہ تم کیا پڑھ کر آسمان پر چڑھ جاتے ہو اور کیا پڑھ کر اترتے ہو؟

 انہوں نے یہ بھی بتا دیا چنانچہ وہ اسے پڑھ کر آسمان پر چڑھ گئی اترنے کا وظیفہ بھول گئی اور وہیں ستارے کی صورت میں مسخ کر دی گئی۔

حضرت عبداللہ بن عمر جب کبھی زہرہ ستارے کو دیکھتے تو لعنت بھیجا کرتے تھے

 اب ان فرشتوں نے جب چڑھنا چاہا تو نہ چڑھ سکے سمجھ گئے کہ اب ہم ہلاک ہوئے

حضرت مجاہد فرماتے ہیں پہلے پہل چند دنوں تک تو فرشتے ثابت قدم رہے صبح سے شام تک فیصلہ عدل کے ساتھ کرتے رہتے شام کو آسمان پر چڑھ جاتے پھر زہرہ کو دیکھ کر اپنے نفس پر قابو نہ رکھ سکے زہرہ ستارے کو ایک خوبصورت عورت کی شکل میں بھیجا گیا تھا

 الغرض ہاروت ماروت کا یہ قصہ تابعین میں سے بھی اکثر لوگوں نے بیان کیا ہے جیسے مجاہد، سدی، حسن بصری، قتادہ، ابوالعالیہ ، زہری، ربیع بن انس، مقتل بن حیان وغیرہ وغیرہ رحم اللہ اجمعین اور متقدمین اور متاخیرن مفسرین نے بھی اپنی اپنی تفسیروں میں اسے نقل کیا ہے لیکن اس کا زیادہ تر دار و مدار بنی اسرائیل کی کتابوں پر ہے کوئی صحیح مرفوع متصل حدیث اس بات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں اور نہ قرآن کریم میں اس قدر بسط و تفصیل ہے پس ہمارا ایمان ہے کہ جس قدر قرآن میں ہے صحیح اور درست ہے اور حقیقت حال کا علم اللہ تعالیٰ کو ہی ہے

قرآن کریم کے ظاہری الفاظ مسند احمد ابن حبان بیہقی وغیرہ کی مرفوع حدیث حضرت علیؓ حضرت ابن عباسؓ ابن مسعود ؓوغیرہ کی موقوف روایات تابعین وغیرہ کی تفاسیر وغیرہ ملا کر اس واقعہ کی بہت کچھ تقویت ہو جاتی ہے نہ اس میں کوئی محال عقلی ہے نہ اس میں کسی اصول اسلامی کا خلاف ہے پھر ظاہر سے بےجا ہٹ اور تکلفات اٹھانے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی واللہ اعلم (فتح البیان)

ابن جریر میں ایک غریب اثر اور ایک عجیب واقعہ ہے اسے بھی سنئے

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ دومتہ الجندل کی ایک عورت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے تھوڑے ہی زمانہ کے بعد آپ کی تلاش میں آئی اور آپ کے انتقال کی خبر پا کر بےچین ہو کر رونے پیٹنے لگی میں نے اس سے پوچھا کہ آخر کیا بات ہے؟ تو اس نے کہا کہ مجھ میں اور میرے شوہر میں ہمیشہ ناچاقی رہا کرتی تھی ایک مرتبہ وہ مجھے چھوڑ کر کہیں چلاگیا، ایک بڑھیا سے میں نے یہ سب ذکر کیا اس نے کہا جو میں کہوں وہ کر وہ خود بخود تیرے پاس آ جائے گا

میں تیار ہو گئی وہ رات کے وقت دو کتے لے کر میرے پاس آئی ایک پر وہ خود سوار ہوئی اور دوسرے پر میں بیٹھ گئی۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم دونوں بابل پہنچ گئیں میں نے دیکھا کہ دو شخص ادھر لٹکے ہوئے ہیں اور لوہے میں جکڑے ہوئے ہیں اس عورت نے مجھ سے کہا ان کے پاس جا اور ان سے کہہ کہ میں جادو سیکھنے آئی ہوں

 میں نے ان سے کہا انہوں نے کہا سن ہم تو آزمائش میں ہیں تو جادو نہ سیکھ اس کا سیکھنا کفر ہے

میں نے کہا میں تو سیکھوں گی انہوں نے کہا اچھا پھر جا اور اس تنور میں پیشاب کر کے چلی آ

 میں گئی ارادہ کیا لیکن کچھ دہشت سی طاری ہوئی میں واپس آ گئی اور کہا میں فارغ ہو آئی ہوں انہوں نے پوچھا کیا دیکھا؟

 میں نے کہا کچھ نہیں انہوں نے کہا تو غلط کہتی ہے ابھی تو کچھ نہیں بگڑا تیرا ایمان ثابت ہے اب بھی لوٹ جا اور کفر نہ کر میں نے کہا مجھے تو جادو سیکھنا ہے انہوں نے پھر کہا جا اور اس تنور میں پیشاب کر آ

میں پھر گئی لیکن اب کی مرتبہ بھی دل نہ مانا واپس آئی پھر اسی طرح سوال جواب ہوئے میں تیسری مرتبہ پھر تنور کے پاس گئی اور دل کڑا کر کے پیشاب کرنے کو بیٹھ گئی میں نے دیکھا کہ ایک گھوڑے سوار منہ پر نقاب ڈالے نکلا اور آسمان پر چڑھ گیا ہے۔

واپس چلی آئی ان سے ذکر کیا انہوں نے کہا ہاں اب کی مرتبہ تو سچ کہتی ہے وہ تیرا ایمان تھا جو تجھ میں سے نکل گیا اب جا چلی جا

میں آئی اور اس بڑھیا سے کہا انہوں نے مجھے کچھ بھی نہیں سکھایا اس نے کہا بس تجھے کچھ آ گیا اب تو جو کہے گی ہو جائے گا

میں نے آزمائش کے لئے ایک دانہ گیہوں کا لیا اسے زمین پر ڈال کر کہا اُگ جا وہ فوراً اُگ آیا میں نے کہا تجھ میں بال پیدا ہو جائے چنانچہ ہو گئے میں نے کہا سوکھ جا وہ بال سوکھ گئے میں نے کہا الگ الگ دانہ ہو جا وہ بھی ہو گیا پھر میں نے کہا سوکھ جا تو سوکھ گیا پھر میں نے کہا آٹا بن جا تو آٹا بن گیا میں نے کہا روٹی پک جا تو روٹی پک گئی یہ دیکھتے ہی میرا دل نادم ہونے لگا اور مجھے اپنے بے ایمان ہو جانے کا صدمہ ہونے لگا

اے اُم المؤمنین قسم اللہ کی نہ میں نے اس جادو سے کوئی کام لیا نہ کسی پر کیا میں یونہی روتی پیٹتی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہوں لیکن افسوس بدقسمتی سے آپ کو بھی میں نے نہ پایا اب میں کیا کرو؟

 اتنا کہہ کر چپ ہو گئی سب کو اس پر ترس آنے لگا صحابہ کرام بھی متحیر تھے کہ اسے کیا فتویٰ دیں؟ آخر بعض صحابہ نے کہا اب اس کے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ تم اس فعل کو نہ کرو توبہ استغفار کرو اور اپنے ماں باپ کی خدمت گزاری کرتی رہو

یہاں یہ بھی خیال رکھنا چاہئے کہ صحابہ کرام فتویٰ دینے میں بہت احتیاط کرتے تھے کہ چھوٹی سی بات بتانے میں تامل ہوتا تھا آج ہم بڑی سے بڑی بات بھی اٹکل اور رائے قیاس سے گھڑ گھڑا کر بتانے میں بالکل نہیں رکتے

اس کی اسناد بالکل صحیح ہیں

 بعض لوگ کہتے ہیں کہ عین چیز جادو کے زور سے پلٹ جاتی ہے اور بعض کہتے ہیں نہیں صرف دیکھنے والے کو ایسا خیال پڑتا ہے اصل چیز جیسی ہوتی ہے ویسی ہی رہتی ہے جیسے قرآن میں ہے:

سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ (۷:۱۱۶)

لوگوں کی نظر بندی کردی

اور فرمایا:

يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِن سِحْرِهِمْ أَنَّهَا تَسْعَىٰ (۲۰:۶۶)

ان کی رسیاں اور لکڑیاں ان کے جادو کے زور سے دوڑ بھاگ رہی ہیں

یعنی حضرت موسیٰ کی طرف خیال ڈالا جاتا تھا کہ گویا وہ سانپ وغیرہ ان کے جادو کے زور سے چل پھر رہے ہیںاس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آیت میں لفظ بابل سے مراد بابل عراق ہے بابل دیناوند نہیں۔

 ابن ابی حاتم کی ایک روایت میں ہے:

 حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بابل کی زمین میں جا رہے تھے عصر کی نماز کا وقت آ گیا لیکن آپ نے وہاں نماز ادا نہ کی بلکہ اس زمین کی سرحد سے نکل جانے کے بعد نماز پڑھی اور فرمایا میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے قبرستان میں نماز پڑھنے سے روک دیا ہے اور بابل کی زمین میں نماز پڑھنے سے بھی ممانعت فرمائی ہے یہ زمین ملعون ہے۔

ابوداؤد میں بھی یہ حدیث مروی ہے۔ اور امام صاحب نے اس پر کوئی کلام نہیں کیا اور جس حدیث کو حضرت امام ابوداؤد اپنی کتاب میں لائیں اور اس کی سند پر خاموشی کریں تو وہ حدیث امام صاحب کے نزدیک حسن ہوتی ہے

اس سے معلوم ہوا کہ بابل کی سر زمین میں نماز مکروہ ہے جیسے کہ ثمودیوں میں نہ جاؤ اگر اتفاقاً جانا پڑے تو خوف ربانی  سے روتے ہوئے جاؤ۔

ہئیت دانوں کا قول ہے کہ بابل کی دوری بحر غربی اوقیانوس سے ستر درجہ لمبی اور وسط زمین سے نوب کی جانب بخط استوا سے تئیس درجہ ہے واللہ اعلم۔

چونکہ ہاروت ماروت کو اللہ تعالیٰ نے خیر و شفر کفر و ایمان کا علم دے رکھا ہے اس لئے ہر ایک کفر کی طرف جھکنے والے کو نصیحت کرتے ہیں اور ہر طرح روکتے ہیں جب نہیں مانتا تو وہ اسے کہہ دیتے ہیں اس کا نور ایمان جاتا رہتا ہے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے شیطان اس کا رفیق کار بن جاتا ہے ایمان کے نکل جانے کے بعد اللہ تعالیٰ کا غضب اس کے روم روم میں گھس جاتا ہے

ابن جریج فرماتے ہیں سوائے کافر کے اور کوئی جادو سیکھنے کی جرأت نہیں کرتا۔

فتنہ کے معنی یہاں پر بلا آزمائش اور امتحان کے ہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قول قرآن پاک میں مذکور ہے آیت  إِنۡ هِىَ إِلَّا فِتۡنَتُكَ (۷:۱۵۵)

اس آیت سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ جادو سیکھنا کفر ہے حدیث میں بھی ہے:

 جو شخص کسی کاہن یا جادوگر کے پاس جائے اور اس کی بات کو سچ سمجھے اس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری ہوئی وحی کے ساتھ کفر کیا (بزار)

یہ حدیث صحیح ہے اور اس کی تائید میں اور حدیثیں بھی آئی ہیں

فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ ۚ

پھر لوگ ان سے وہ سیکھتے جس سے خاوند و بیوی میں جدائی ڈال دیں

فرمایا کہ لوگ ہاروت ماروت سے جادو سیکھتے ہیں جس کے ذریعہ برے کام کرتے ہیں عورت مرد کی محبت اور موافقت کو بغض اور مخالفت سے بدل دیتے ہیں

صحیح مسلم میں حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 شیطان اپنا عرش پانی پر رکھتا ہے پھر اپنے لشکروں کو بہکانے کے واسطے بھیجتا ہے سب سے زیادہ مرتبہ والا اس کے نزدیک وہ ہے جو فتنے میں سب سے بڑھا ہوا ہو۔ یہ جب واپس آتے ہیں تو اپنے بدترین کاموں کا ذکر کرتے ہیں کوئی کہتا ہے میں نے فلاں کو اس طرح گمراہ کر دیا۔ کوئی کہتا ہے میں نے فلاں شخص سے یہ گناہ کرایا۔ شیطان ان سے کہتا ہے۔ کچھ نہیں یہ تو معمولی کام ہےیہاں تک کہ ایک آ کر کہتا ہے کہ میں نے فلاں شخص کے اور اس کی بیوی کے درمیان جھگڑا ڈال دیا یہاں تک کہ جدائی ہو گئی شیطان اسے گلے لگا لیتا ہے اور کہتا ہے ہاں تو نے بڑا کام کیا اسے اپنے پاس بٹھا لیتا ہے اور اس کا مرتبہ بڑھا دیتا ہےپس جادوگر بھی اپنے جادو سے وہ کام کرتا ہے جس سے میاں بیوی میں جدائی ہو جائے مثلاً اس کی شکل صورت اسے بری معلوم ہونے لگے یا اس کے عادات و اطوار سے جو غیر شرعی نہ ہوں یہ نفرت کرنے لگے یا دل میں عداوت آ جائے وغیرہ وغیرہ رفتہ رفتہ یہ باتیں بڑھتی جائیں اور آپس میں چھوٹ چھٹاؤ ہو جائے

الْمَرْءِ کہتے ہیں آدمی کو اس کا مذکر مونث اور تثنیہ تو ہے جمع نہیں بنتا

وَمَا هُمْ بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ

اور دراصل وہ بغیر اللہ تعالیٰ کی مرضی کے کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے

پھر فرمایا یہ کسی کو بھی بغیر اللہ کی مرضی کے ایذاء نہیں پہنچا سکتے یعنی اس کے اپنے بس کی بات نہیں اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر اور اس کے ارادے کے ماتحت یہ نقصان بھی پہنچتا ہے اگر اللہ نہ چاہے تو اس کا جادو محض بے اثر اور بےفائدہ ہو جاتا ہے

یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ یہ جادو اسی شخص کو نقصان دیتا ہے جو اسے حاصل کرے اور اس میں داخل ہو

وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنْفَعُهُمْ ۚ وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنِ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ ۚ

یہ لوگ وہ سیکھتے ہیں جو انہیں نقصان پہنچائے اور نہ نفع پہنچا سکے، اور وہ جانتے ہیں کہ اس کے لینے والے کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔

پھر ارشاد ہوتا ہے وہ ایسا علم سیکھتے ہیں جو ان کے لئے سراسر نقصان دہ ہے جس میں کوئی نفع نہیں اور یہ یہودی جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری چھوڑ جادو کے پیچھے لگنے والوں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں نہ ان کی قدر و وقعت اللہ تعالیٰ کے پاس ہے نہ وہ دیندار سمجھے جاتے ہیں

وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهِ أَنْفُسَهُمْ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ (۱۰۲)

اور وہ بدترین چیز ہے جس کے بدلے وہ اپنے آپ کو فروخت کر رہے ہیں، کاش کہ یہ جانتے ہوتے۔‏

پھر فرمایا اگر یہ اس کام کی برائی کو محسوس کرتے اور ایمان و تقویٰ برتتے تو یقیناً ان کے لئے بہت ہی بہتر تھا مگر یہ بےعلم لوگ ہیں

وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ خَيْرٌ ۖ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ (۱۰۳)

اگر یہ لوگ صاحب ایمان متقی بن جاتے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہترین ثواب انہیں ملتا، اگر یہ جانتے ہوتے۔

اور فرمایا کہ اہل علم نے کہا تم پر افسوس ہے اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا ثواب ایمانداروں اور نیک اعمال والوں کے لئے بہت ہی بہتر ہے لیکن اسے صبر کرنے والے ہی پا سکتے ہیں۔

جیسے فرمایا:

وَقَالَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْعِلْمَ وَيْلَكُمْ ثَوَابُ اللَّهِ خَيْرٌ لِّمَنْ ءَامَنَ وَعَمِلَ صَـلِحاً وَلاَ يُلَقَّاهَآ إِلاَّ الصَّـبِرُونَ (۲۸:۸۰)

ذی علم انہیں سمجھانے لگے کہ افسوس! بہتر چیز تو وہ ہے جو بطور ثواب انہیں ملے گی جو اللہ پر ایمان لائیں اور نیک عمل کریں یہ باتیں انہی کے دل میں ڈالی جاتی ہے جو صبر کرنے والے ہوں۔‏

اس آیت سے یہ بھی استدلال بزرگان دین نے کیا ہے کہ جادوگر کافر ہے کیونکہ آیت میں وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا فرمایا ہے

حضرت امام احمد اور سلف کی ایک جماعت بھی جادو سیکھنے والے کو کافر کہتی ہےبعض کافر تو نہیں کہتے لیکن فرماتے ہیں کہ جادوگر کی حد یہ ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے

بجالہ بن عبید کہتے ہیں حضرت عمرؓ نے اپنے ایک فرمان میں لکھا تھا کہ ہر ایک جادوگر مرد عورت کو قتل کر دو چنانچہ ہم نے تین جادوگروں کی گردن ماری

صحیح بخاری شریف میں ہے کہ ام المؤمنین حضرت حفضہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ان کی ایک لونڈی نے جادو کیا جس پر اسے قتل کیا گیا۔

حضرت امام احمد حنبل رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں تین صحابیوں سے جادوگر کے قتل کا فتویٰ ثابت ہے

 ترمذی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جادوگر کی حد تلوار سے قتل کر دینا ہے

اس حدیث کے ایک راوی اسمٰعیل بن مسلم ضعیف ہیں صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ غالباً یہ حدیث موقوف ہے لیکن طبرانی میں ایک دوسری سند سے بھی یہ حدیث مرفوع مروی ہے واللہ اعلم۔

ولید بن عقبہ کے پاس ایک جادوگر تھا جو اپنے کرتب بادشاہ کو دکھایا کرتا تھا بظاہر ایک شخص کا سر کاٹ لیتا پھر آواز دیتا تو سر جڑ جاتا اور وہ موجود ہو جاتا مہاجرین صحابہ میں سے ایک بزرگ صحابی نے یہ دیکھا اور دوسرے دن تلوار باندھے ہوئے آئے جب ساحر نے اپنا کھیل شروع کیا آپ نے اپنی تلوار سے خود اس کی گردن اڑا دی اور فرمایا لے اب اگر سچا ہے تو خود جی اٹھ پھر قرآن پاک کی یہ آیت پڑھ کر لوگوں کو سنائی آیت أَفَتَأْتُونَ السِّحْرَ وَأَنتُمْ تُبْصِرُونَ (۲۱:۳)  کیا تم دیکھتے بھالتے جادو کے پاس جاتے ہو؟چونکہ اس بزرگ صحابی نے ولید کی اجازت اس کے قتل میں نہیں لی تھی اسلئے بادشاہ نے ناراض ہو کر انہیں قید کر دیا پھر چھوڑ دیا

ا امام شافعی نے حضرت عمر ؓکے فرمان اور حضرت حفصہؓ کے واقعہ کے متعلق یہ کہا ہے کہ یہ حکم اس وقت ہے جب جادو شرکیہ الفاظ سے ہو۔

معتزلہ جادو کے وجود کے منکرین ہیں  وہ کہتے ہیں جادو کوئی چیز نہیں بلکہ بعض لوگ تو بعض دفعہ اتنا بڑھ جاتے ہیں کہ کہتے ہیں جو جادو کا وجود مانتا ہو وہ کافر ہے

لیکن اہل سنت جادو کے وجود کے قائل ہیں یہ مانتے ہیں کہ جادوگر اپنے جادو کے زور سے ہوا پر اڑ سکتے ہیں اور انسان بظاہر گدھا اور گدھے کو بظاہر انسان بنا ڈالتے ہیں مگر کلمات اور منترہ کے وقت ان چیزوں کو پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے آسمان کو اور تاروں کو تاثیر پیدا کرنے والا اہل سنت نہیں مانتے، فلسفے اور نجوم والے اور بےدین لوگ تو تاروں کو اور آسمان کو ہی اثر پیدا کرنے والا جانتے ہیں

اہل سنت کی ایک دلیل تو آیت وَمَا هُمْ بِضَارِّينَ بِهِ ہے اور دوسری دلیل خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا جانا اور آپ پر اس کا اثر ہونا ہے تیسرے اس عورت کا واقعہ جسے حضرت عائشہ ؓنے بیان فرمایا ہے جو اوپر ابھی ابھی گزرا ہےاور بھی بیسیوں ایسے ہی واقعات وغیرہ ہیں۔

کیا جادو کا علم سیکھنا جائز ہے

رازی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ جادو کا حاصل کرنا برا نہیں محققین کا یہی قول ہے اس لئے کہ وہ بھی ایک علم ہے

 اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ (۳۹:۹)

بتاؤ تو علم والے اور بےعلم کیا برابر ہیں

 اور اس لئے کہ یہ علم ہو گا تو اس سے معجزے اور جادو میں فرق پوری طرح واضح ہو جائے گا اور معجزے کا علم واجب ہے اور وہ موقوف ہے جادو کے سیکھنے پر جس سے فرق معلوم ہو پس جادو کا سیکھنا بھی واجب ہوا

رازی کا یہ قول سرتاپا غلط ہے اگر عقلاً وہ اسے برا نہ بتائیں تو معتزلہ موجود ہیں جو عقلاً بھی اس کی برائی کے قائل ہیں اور اگر شرعاً برا نہ بتاتے ہوں تو قرآن کی یہ آیت شرعی برائی بتانے کے لئے کافی ہے

صحیح حدیث میں ہے جو کسی شخص کسی جادوگر یا کاہن کے پاس جائے وہ کافر ہو جائے گا۔

سنن میں حدیث ہے کہ جس نے گرہ لگائی اور اس میں پھونکا، اس نے جادو کیا لہذا رازی کا یہ کہنا کہ محققین کا قول یہی ہے

 یہ بھی ٹھیک نہیں آخر ان محققین کے ایسے اقوال کہاں ہیں؟

ائمہ اسلام میں سے کس نے ایسا کہا ہے؟

پھر آیت هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ کو پیش کرنا بھی نری جرأت ہے کیونکہ آیت میں علم سے مراد دینی علم ہے اسی آیت میں شرعی علم والے علماء کی فضیلت بیان ہوئی ہے،

پھر ان کا یہ کہنا کہ اسی علم سے کہ اسی سے معجزے کا علم تقابلی حاصل ہوتا ہے یہ تو بالکل واہی محض غلط اور فاسد ہے اس لئے کہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ قرآن پاک ہے جو باطل سے سراسر محفوظ ہے لیکن اس کا معجزہ ماننے کے لیے جادو جاننا ضروری نہیں ہے وہ لوگ جنہیں جادو سے دور کا بھی تعلق نہیں وہ بھی اسے معجزہ مان گئے صحابہ تابعین ائمہ مسلمین بلکہ عام مسلمان بھی اسے معجزہ مانتے ہیں حالانکہ ان تمام میں سے کوئی ایک بھی جادو جانتا تو کیا جادو کے پاس تک نہیں پھٹکا جادو سیکھا نہ سکھایا۔ نہ کیا نہ کرایا۔ بلکہ ان سب کاموں کو کفر کہتے رہےپھر یہ دعویٰ کرنا کہ جادو کا جاننا واجب ہے اس لئے کہ جادو کے علم سے معجزہ کا فرق معلوم ہو سکتا ہے اس لئے اس کا سیکھنا واجب۔ کس قدر مہمل دعویٰ ہے۔

جادو کی اقسام

 اب جادو کی قسمیں سنئے جنہیں ابو عبداللہ رازی نے بیان کیا ہے

- ایک جادو تو ستارہ پرست فرقہ کا ہے وہ سات ستاروں کی نسبت عقیدہ رکھتے ہیں کہ بھلائی برائی انہی کے باعث ہوتی ہے اس لئے ان کی طرف خطابکر  کے مقرر الفاظ پڑھا کرتے ہیں اور انہیں کی پرستش کرتے ہیں اسی قوم میں حضرت ابراہیم ؑآئے اور انہیں ہدایت کی۔

 رازی نے اس فن میں ایک خاص کتاب تصنیف کی ہے جس کا نام السر المکتوم فی مخاطبہ الشمس والنجوم رکھا ہے ملاحظہ ہو ابن خلکان وغیرہ بعض کہتے ہیں کہ انہوں نے بعد میں اس سے توبہ کر لی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ صرف لوگوں کو اس علم سے آشنا کرنے اور خود کو اس کا عالم ثابت کرنے کیلئے یہ کتاب لکھی تھی ورنہ ان کا اپنا اعتقاد یہ تھا جو سراسر کفر ہے اس کتاب میں ان لوگوں کے طور طریقے لکھے ہیں

- دوسرا جادو قومی نفس اور قوت واہمہ کے طاقتور لوگوں کا فن ہے وہم اور خیال کا زندگی میں بڑا اثر ہوتا ہے دیکھئے اگر ایک تنگ پل زمین پر رکھ دیا جائے تو اس انسان پر سے بآسانی گزر جائے گا لیکن یہی تنگ پل اگر کسی دریا پر ہو تو نہیں گزر سکے گا اس لئے کہ اس وقت خیال ہو گا کہ اب گرا اب گرا تو واہمہ کی کمزوری کے باعث جتنی جگہ پر زمین میں چل پھر سکتا تھا اتنی جگہ پر ایسے ڈر کے وقت نہیں چل سکتا

حکیموں اور طبیبوں نے بھی مرعوف (جس کو نکسیر بہنے کی بیماری ہو) شخص کو سرخ چہروں کو دیکھنے سے روک دیا ہے اور مرگی والوں کو زیادہ روشنی والی اور تیز حرکت کرنے والی چیزوں کے دیکھنے سے منع کیا ہے جس سے ظاہر ہے کہ قوت واہمہ کا ایک خاص اثر طبیعت پر پڑتا ہے

عقلمند لوگوں کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ نظر لگتی ہے

صحیح حدیث میں بھی آیا ہے:

 نظر کا لگنا حق ہے اگر کوئی چیز تقدیر ہے سبقت کرنے والی ہوتی تو نظر ہوتی

اب اگر نفس قوی ہے تو ظاہری سہاروں اور ظاہری کاموں کی کوئی ضرورت نہیں اور اگر اتنا قوی نہیں تو پھر اسے آلات کی بھی ضرورت پڑتی ہے جس قدر نفس کی قوت بڑھتی جائے گی وہ روحانیات میں ترقی کرتا جائے گا اور تاثیر میں بڑھتا جائے گا اور جس قدر یہ قوت کم ہوتی جائے گی اسی قدر گھٹتا جائے گا

یہ کیفیت کبھی غذا کی کمی سے اور لوگوں کے میل جول سے ترک کرنے سے بھی حاصل ہو جاتی ہے

کبھی تو قوت کو حاصل کر کے انسان نیکی کے کام یعنی شریعت کے مطابق اس سے کام لیتا ہے اس حال کو شریعت کی اصطلاح میں کرامت کہتے ہیں جادو نہیں کہتے اور کبھی اس حال سے باطل میں اور خلاف شرع کاموں میں مدد لیتا ہے اور دین سے دور پڑ جاتا ہے ایسے لوگوں کے ایسے قابل حیرت کاموں سے کسی کو دھوکا کھا کر انہیں ولی نہ سمجھ لینا چاہئے کیونکہ شریعت کے خلاف چلنے والا ولی اللہ نہیں ہو سکتا

 آپ دیکھتے نہیں کہ صحیح احادیث میں دجال کی بابت کیا کچھ آیا ہے؟ وہ کیسے کیسے خلاف عادت کام کر کے دکھائے گا لیکن ان کی وجہ سے وہ اللہ کا ولی نہیں بلکہ ملعون و مردود ہے

- تیسری قسم کا جادو جنات کے ذریعہ زمین والوں کی روحوں سے امداد و اعانت طلب کرنے کا ہے معتزلہ اور فلاسفہ اس کے قائل نہیں

ان روحوں سے بعض مخصوص الفاظ اور اعمال سے تعلق پیدا کرتے ہیں اسے سحر یا بالعزائم اور عمل تسخیر بھی کہتے ہیں

- چوتھی قسم خیالات کا بدل دینا آنکھوں پر اندھیرا ڈال دینا اور شعبدہ بازی کرنا ہے جس سے حقیقت کے خلاف دکھائی دینے لگتا ہے تم نے دیکھا ہو گا کہ شعبدہ باز پہلے ایک کام شروع کرتا ہے جب لوگ دلچسپی کے ساتھ اس طرف نظریں جما دیتے ہیں اور ان کی باتوں کی طرف متوجہ ہو کر ہمہ تن اس میں مصروف ہو جاتے ہیں وہ پھرتی سے ایک دوسرا کام کر ڈالتا ہے جو لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ رہتا ہے اور اسے دیکھ کر وہ حیران رہ جاتے ہیں،

بعض مفسرین کا قول ہے کہ فرعون کے جادوگروں کا جادو بھی اسی قسم کا تھا اسی لئے قرآن میں ہے سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ (۷:۱۱۶)

اور جگہ ہے يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِن سِحْرِهِمْ أَنَّهَا تَسْعَىٰ (۲۰:۶۶) موسیٰ علیہ السلام کے خیال میں وہ سب لکڑیاں اور رسیاں سانپ بن کر دوڑتی ہوئی نظر آنے لگیں حالانکہ درحقیقت ایسا نہ تھا واللہ اعلم

- پانچویں قسم بعض چیزوں کی ترکیب دے کر کوئی عجیب کام اس سے لینا مثلاً گھوڑے کی شکل بنا دیا اس پر ایک سوار بنا کر بٹھا دیا اس کے ہاتھ میں ناقوس ہے جہاں ایک ساعت گزری اور اس ناقوس میں سے آواز نکلی حالانکہ کوئی اسے نہیں چھیڑتا، اسی طرح انسانی صورت اس کاریگری سے بنائی کہ گویا اصلی انسان ہنس رہا ہے یا رو رہا ہے،فرعون کے جادوگروں کا جادو بھی اسی قسم میں سے تھا کہ وہ بنائے ہوئے سانپ وغیرہ زئبق کے باعث زندہ حرکت کرنے والے دکھائی دیتے تھے

 گھڑی اور گھنٹے اور چھوٹی چھوٹی چیزیں جن سے بڑی بڑی وزنی چیزیں کھینچ آتی ہیں سب اسی قسم میں داخل ہیں

حقیقت میں اسے جادو کہنا ہی نہ چاہئے کیونکہ یہ تو ایک ترکیب اور کاریگری ہے جس کے اسباب بالکل ظاہر ہیں جو انہیں جانتا ہو وہ ان اسباب و فنون سے یہ کام لے سکتا ہے اسی طرح کا وہ حیلہ بھی ہے کہ جو بیت المقدس کے نصرانی کرتے تھے کہ پر اسرار طریقہ سے گرجے کی قندیلیں جلا دیں اور اسے گرجے کی کرامت مشہور کر دی یا اور لوگوں کو اپنے دین کی طرف جھکا لیا

بعض کرامیہ صوفیوں کا بھی خیال ہے کہ اگر ترغیب و ترہیب کی حدیثیں گھڑ لی جائیں اور لوگوں کو عبادت کی طرف مائل کیا جائے تو کوئی حرج نہیں، لیکن یہ بڑی غلطی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں

 جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولے وہ اپنی جگہ جہنم میں مقرر کر لے

 اور فرمایا

میری حدیثیں بیان کرتے رہو لیکن مجھ پر جھوٹ نہ باندھو مجھ پر جھوٹ بولنے والا قطعاً جہنمی ہے

ایک نصرانی پادری نے ایک مرتبہ دیکھا کہ ایک پرند کا چھوٹا سا بچہ جسے اڑنے اور چلنے پھرنے کی طاقت نہیں ایک گھونسلے میں بیٹھا ہے جب وہ اپنی ضعیف اور پست آواز نکالتا ہے تو اور پرندے اسے سن کر رحم کھا کر زیتون کا پھل اس گھونسلے میں لا لا کر رکھ جاتے ہیں اس نے اسی صورت کا ایک پرندہ کسی چیز کا بنایا اور نیچے سے اسے کھوکھلا رکھا اور ایک سوراخ اس کی چونچ کی طرف رکھا جس سے ہوا اس کے اندر گھستی تھی پھر جب نکلتی تھی تو اسی طرح کی آواز اس سے پیدا ہوتی تھی اسے لا کر اپنے گرجے میں ہوا کے رخ رکھ دیا چھت میں ایک چھوٹا سوراخ کر دیا تاکہ ہوا اس سے جائے اب جب ہوا چلتی اور اس کی آواز نکلتی تو اس قسم کے پرندے جمع ہو جاتے اور زیتون کے پھل لا لا کر رکھ جاتے اس نے لوگوں میں شہرت دینی شروع کی کہ اس گرجے میں یہ کرامت ہے یہاں ایک بزرگ کا مزار ہے اور یہ کرامت انہی کی ہے لوگوں نے بھی جب اپنی آنکھوں یہ ان ہونی عجیب بات دیکھی تو معتقد ہو گئے اور اس قبر پر نذر نیاز چڑھانے لگے اب کرامت دور دور تک مشہور ہو گئی حالانکہ کہ کوئی کرامت نہ تھی نہ معجزہ تھا صرف ایک پوشیدہ فن تھا جسے اس ملعون شخص نے پیٹ بھرنے کے لئے پوشیدہ طور پر رکھا تھا اور ایک لعنتی فرقہ اس پر ریجھا ہوا تھا

- چھٹی قسم جادو کی بعض دواؤں میں عجیب عجیب خاصیتیں ہیں مقناطیس ہی کو دیکھو کہ لوہا کس طرح اس کی طرف کھنچ جاتا ہے اکثر صوفی اور فقیر اور درویش انہی حیلہ سازیوں کو کرامت کر کے لوگوں کو دکھاتے ہیں اور انہیں مرید بناتے پھرتے ہیں۔

- ساتویں قسم دل پر ایک خاص قسم کا اثر ڈال کر اس سے جو چاہنا منوا لینا ہے مثلاً اس سے کہدیا کہ مجھے اسم اعظم یاد ہے یا جنات میری قبضہ میں ہیں اب اگر سامنے والا کمزور دل کچے کانوں اور بودے عقیدے والا ہے تو وہ اسے سچ سمجھ لے گا اور اس کی طرف سے ایک قسم کا خوف ڈر ہیبت اور رعب اس کے دل پر بیٹھ جائے گا جو اس کو ضعیف بنا دے گا اب اس وقت جو چاہے کرے گا اور اس کا کمزور دل اسے عجیب عجیب باتیں دکھاتا جائے گا اسی کو تمبلہ (عام زبان میں اسے معمول) کہتے ہیں اور یہ اکثر کم عقل لوگوں پر ہو جایا کرتا ہے اور علم فراست سے کامل عقل والا اور کم عقل والا انسان معلوم ہو سکتا ہے اور اس حرکت کا کرنے والا اپنا یہ فعل اپنی قوت قیافہ کے ذریعہ سے کم عقل شخص کو پہچان کر کے ہی کرتا ہے

- آٹھویں قسم چغلی کرنا جھوٹ سچ ملا کر کسی کے دل میں اپنا گھر کر لینا اور خفیہ چالوں سے اسے اپنا گرویدہ کر لینا یہ چغل خوری اگر لوگوں کو بھڑکانے بدکانے اور ان کے درمیان عداوت و دشمنی ڈالنے کے لئے ہو تو شرعاً حرام ہے جب اصلاح کے طور پر اور آپس میں ایک دوسرے مسلمان کو ملانے کے لئے کوئی ایسی بات ظاہر کہہ دی جائے جس سے ایک فریق دوسرے فریق سے خوش ہو جائے یا کوئی آنے والی مصیبت مسلمانوں پر سے ٹل جائے یا کفار کی قوت زائل ہو جائے ان میں بد دلی پھیل جائے اور مخالف و پھوٹ پڑے تو یہ جائز ہے

جیسے حدیث میں ہے کہ وہ شخص جھوٹا نہیں جو بھلائی کے لئے ادھر کی ادھر لے جاتا ہے

 اور جیسے حدیث میں ہے کہ لڑائی مکر کا نام ہے

 اور جیسے حضرت نعیم بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جنگ احزاب کے موقعہ پر کفار عرب اور کفار یہود کے درمیان کچھ ادھر ادھر کی اوپری باتیں کہہ کر جدائی ڈلوا دی تھی اور انہیں مسلمانوں کے مقابلہ میں شکست ہوئی یہ کام بڑے عالی دماغ زیرک اور معاملہ فہم شخص کا ہے۔

یہ یاد رہے کہ امام رازی نے جادو کی جو یہ آٹھ قسمیں بیان کی ہیں یہ صرف با اعتبار لفظ کے ہیں کیونکہ عربی زبان میں سحر یعنی جادو ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو بہت لطیف اور باریک ہو اور ظاہربین انسان کی نگاہوں سے اس کے اسباب پوشیدہ رہ جائیں اسی واسطے ایک حدیث میں ہے کہ بعض بیان بھی جادو ہوتا ہے اور اسی لئے صبح کے اول وقت کو سحر کہتے ہیں کہ وہ مخفی ہوتا ہے اور اس رگ کو بھی سحر کہتے ہیں جو غذا کی جگہ ہے۔

 ابوجہل نے بدر والے دن یہی کہا تھا کہ اس کی سحر یعنی رگ طعام مارے خوف کے پھول گئی

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں میرے سحر و نحر کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو نحر سے مراد سینہ اور سحر سے مراد رگ غذا۔

قرآن میں بھی ہے آیت سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ (۷:۱۱۶)  یعنی لوگوں کی نگاہوں سے اپنا کام مخفی کر کے انجام دیا۔

قرطبیؒ کہتے ہیں کہ ہم کہتے ہیں کہ جادو ہے اور اسے مانتے ہیں کہ جب اللہ کو منظور ہوتا ہے وہ جادو کے وقت جو چاہتا ہے کر دیتا ہے گو  معتزلہ اور ابو اسحاق اسفرائنی شافعی اس کے قائل نہیں

 اور جادو کبھی ہاتھ کی چالاکی سے بھی ہوتا ہے اور کبھی ڈوروں دھاگوں سے بھی کبھی اللہ کا نام پڑھ کر دم کرنے سے بھی اس میں ایک خاص اثر ہوتا ہے۔کبھی شیاطین کا نام لے کر شیطانی کام سے بھی لوگ کرتے ہیں کبھی دواؤں وغیرہ کے ذریعہ سے بھی جادو کیا جاتا ہے

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے مطابق کہ بعض بیان جادو ہیں دو مطلب ہو سکتے ہیں

ایک تو یہ کہ بطور تعریف کے آپﷺ نے فرمایا ہو

اور یہ بھی ممکن ہے کہ بطور مذمت کے یہ ارشاد ہوا ہو کہ وہ اپنی غلط بات اس طرح بیان کرتا ہے کہ سچ معلوم ہوتی ہے جیسے ایک اور حدیث میں ہے کہ کبھی میرے پاس تم مقدمہ لے کر آتے ہو تو ایک اپنی چرب زبانی سے اپنے غلط دعویٰ کو صحیح ثابت کر دیتا ہے

 وزیر ابو المظفر یحییٰ بن محمد بن ہبیر رحمتہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب "الاشراف علی مذاہب الاشراف" میں سحر کے باپ میں کہا ہے کہ اجماع ہے کہ جادو ایک حقیقت ہے لیکن ابوحنیفہؒ اس کے قائل نہیں جادو کے سیکھنے والے اور اسے استعمال میں لانے والے کو امام ابو حنیفہ امام مالک اور امام احمد رحمہم اللہ تو کافر بتاتے ہیں

امام ابو حنیفہ کے بعض شاگردوں کا قول ہے کہ اگر جادو کو بچاؤ کے لئے سیکھے تو کافر نہیں ہوتا ہاں جو اس کا اعتقاد رکھے اور نفع دینے والا سمجھے۔ وہ کافر ہے۔ اور اسی طرح جو یہ خیال کرتا ہے کہ شیاطین یہ کام کرتے ہیں اور اتنی قدرت رکھتے ہیں وہ بھی کافر ہے۔

امام شافعی فرماتے ہیں جادوگر سے دریافت کیا جائے اگر وہ بابل والوں کا سا عقیدہ رکھتا ہو اور سات سیارہ ستاروں کو تاثیر پیدا کرنے والا جانتا ہو تو کافر ہے اور اگر یہ نہ ہو تو بھی اگر جادو کو جائز جانتا ہو تو بھی کافر ہے

امام مالک اور امام احمد کا قول یہ بھی ہے کہ جادوگر نے جب جادو کیا اور جادو کو استعمال میں لایا وہیں اسے قتل کر دیا جائے

امام شافعی اور امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ اس کا قتل بوجہ حد کے ہے مگر امام شافعی کا بیان ہے کہ بوجہ قصاص کے ہے

امام مالک امام ابوحنفیہ اور ایک مشہور قول میں امام احمد کا فرمان ہے کہ جادوگر سے توبہ بھی نہ کرائی جائے اس کی توبہ سے اس پر سے حد نہیں ہٹے گی اور امام شافعی کا قول ہے کہ اس کی توبہ مقبول ہو گی۔ امام احمد کا بھی یہی صحیح قول ہے۔

 ایک روایت میں یہ ہے :

اہل کتاب کا جادوگر بھی امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک قتل کر دیا جائے گا لیکن تینوں اور اماموں کا مذہب اس کے برخلاف ہے لبید ین اعصم یہودی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا تھا اور آپ نے اس کے قتل کرنے کو نہیں فرمایا

 اگر کوئی مسلمان عورت جادوگرنی ہو تو اس کے بارے میں امام ابوحنیفہؒ فرماتے ہیں کہ وہ قید کر دی جائے اور تینوں کہتے ہیں اسے بھی مرد کی طرح قتل کر دیا جائے واللہ اعلم

حضرت زہری کا قول ہے کہ مسلمان جادوگر قتل کر دیا جائے اور مشرک قتل نہ کیا جائے۔

 امام مالک فرماتے ہیں اگر ذمی کے جادو سے کوئی مر جائے تو ذمی کو بھی مار ڈالنا چاہئے

یہ بھی آپ سے مروی ہے کہ پہلے تو اسے کہا جائے کہ توبہ کر اگر وہ کر لے اور اسلام قبول کرے تو خیر ورنہ قتل کر دیا جائے اور یہ بھی آپ سے مروی ہے کہ اگرچہ اسلام قبول کر لے تاہم قتل کر دیا جائے

اس جادوگر کو جس کے جادو میں شرکیہ الفاظ ہوں اسے چاروں امام کافر کہتے ہیں کیونکہ قرآن میں ہے فلاتکفر

امام مالک فرماتے ہیں جب اس پر غلبہ پا لیا جائے پھر وہ توبہ کرے تو توبہ قبول نہیں ہو گی جس طرح زندیق کی توبہ قبول نہیں ہو گی ہاں اس سے پہلے اگر توبہ کر لے تو قبول ہو گی اگر اس کے جادو سے کوئی مر گیا پھر تو بہر صورت مارا جائے گا

 امام شافعی فرماتے ہیں اگر وہ کہے کہ میں نے اس پر جادو مار ڈالنے کے لئے نہیں کیا تو قتل کی خطا کی دیت (جرمانہ) لے لیا جائے۔

جادوگر سے اس کے جادو کو اتروانے کی حضرت سعید بن مسیب نے اجازت دی ہے جیسے صحیح بخاری شریف میں ہے عامر شعبی بھی اس میں کوئی حرج نہیں بتلاتے لیکن خواجہ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ اسے مکروہ بتاتے ہیں۔

حضرت عائشہؓ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا تھا کہا آپ کیوں جادو کو افشاء نہیں کرتے؟تو آپ ﷺنے فرمایا مجھے تو اللہ تعالیٰ نے شفا دے دی اور میں لوگوں پر برائی افشاء کرنے سے ڈرتا ہوں۔

حضرت وہب فرماتے ہیبیری کے سات پتے لے کر سل بٹے پر کوٹ لئے جائیں اور پانی ملا لیا جائے پھر آیت الکرسی پڑھ کر اس پر دم کر دیا جائے اور جس پر جادو کیا گیا ہے اسے تین گھونٹ پلا دیا جائے اور باقی پانی سے غسل کر دیا جائے انشاء اللہ جادو کا اثر جاتا رہے گاں:

یہ عمل خصوصیت سے اس شخص کے لئے بہت ہی اچھا ہے جو اپنی بیوی سے روک دیا گیا ہو

جادو کو دور کرنے اور اس کے اثر کو زائل کرنے کے لئے سب سے اعلیٰ چیز قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ اور  قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ کی سورتیں ہیں

حدیث میں ہے کہ ان جیسا کوئی تعویذ نہیں

اسی طرح آیت الکرسی بھی شیطان کو دفع کرنے میں اعلیٰ درجہ کی چیز ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقُولُوا رَاعِنَا وَقُولُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوا ۗ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ (۱۰۴)

اے ایمان والو تم (نبیؐ  کو) ' راعنا ' نہ کہا کرو، بلکہ ' انظرنا ' کہو یعنی ہماری طرف دیکھئے اور سنتے رہا کرو اور کافروں کیلئے دردناک عذاب ہے‏

اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے مؤمن بندوں کو کافروں کی بول چال اور ان کے کاموں کی مشابہت سے روک رہا ہے

یہودی بعض الفاظ زبان دبا کر بولتے تھے اور مطلب برا لیتے تھے جب انہیں یہ کہنا ہوتا کہ ہماری سنئے تو کہتے تھے رَاعِنَا اور مراد اس سے رعونت اور سرکشی لیتے تھے جیسے اور جگہ بیان ہے:

مِّنَ الَّذِينَ هَادُواْ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ ۔۔۔ فَلاَ يُؤْمِنُونَ إِلاَّ قَلِيلاً (۴:۴۶)

اور سن اس کے بغیر کہ تو سنا جائے اور ہماری رعایت کر (لیکن اس کہنے میں) اپنی زبان کو پیچ دیتے ہیں اور دین میں طعنہ دیتے ہیں

اور اگر یہ لوگ کہتے کہ ہم نے سنا اور ہم نے فرمانبرداری کی آپ سنئے ہمیں دیکھئے تو یہ ان کے لئے بہت بہتر اور نہایت ہی مناسب تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر سے انہیں لعنت کی ہے پس یہ بہت ہی کم ایمان لاتے ہیں۔

احادیث میں یہ بھی آیا ہے کہ جب یہ لوگ سلام کرتے ہیں تو السام علیکم کہتے ہیں اور سام کے معنی موت کے ہیں تو تم ان کے جواب میں وعلیکم کہا کرو ہماری دعا ان کے حق میں قبول ہو گی اور ان کی بد دعا ہمارے حق میں مقبول نہیں ہو گی

الغرض قول و فعل میں ان سے مشابہت کرنا منع ہے

مسند احمد کی حدیث میں ہے:

میں قیامت کے قریب تلوار کے ساتھ بھیجا گیا ہوں میری روزی حق تعالیٰ نے میرے نیزے تلے لکھی ہے اس کے لئے ذلت اور پستی ہے مگر جو میرے احکام کے خلاف چلے کرے اور جو شخص کسی (غیر مسلم) قوم سے مشابہت کرے وہ انہی میں سے ہے۔

ابوداؤد میں بھی یہ پچھلا حصہ مروی ہے

اس آیت اور حدیث سے ثابت ہوا کہ کفار کے اقوال وافعال لباس عید اور عبادت میں ان کی مشابہت کرنا جو ہمارے لئے مشروع اور مقرر نہیں سخت منع ہے ایسا کرنے والوں کو شریعت میں عذاب کی دھمکی سخت ڈراوا اور حرمت کی اطلاع دی گئی ہے

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب تم قرآن کریم میں يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا سنو تو کان لگا دو اور دل سے متوجہ ہو جایا کرو کیونکہ یا تو کسی بھلائی کا حکم ہو گا یا کسی برائی سے ممانعت ہو گی

حضرت خیثمہ ؓفرماتے ہیں تورات میں بنی اسرائیل کو خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے یا ایھا المساکین فرمایا ہے لیکن اُمت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آیتيَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا کے معزز خطاب سے یاد فرمایا ہے

رَاعِنَا کے معنی ہماری طرف کان لگانے کے ہیں بروزن عاطنا ۔

حضرت مجاہد فرماتے ہیں اس کے معنی خلاف کے بھی ہیں یعنی خلاف نہ کہا کرو ان سے یہ بھی مروی ہے کہ مطلب یہ کہ آپ ہماری سنئے اور ہم آپ کی سنیں۔

انصار نے بھی یہی لفظ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کہنا شروع کر دیا تھا جس سے قرآن پاک نے انہیں روک دیا

حسن فرماتے ہیں راعن کہتے ہیں مذاق کی بات کو یعنی تم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں اور اسلام سے مذاق نہ کیا کرو۔

ابو صخر کہتے ہیں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم جانے لگتے تو جنہیں کوئی بات کہنی ہوتی وہ کہتے اپنا کان ادھر کیجئے اللہ تعالیٰ نے اس بے ادبی کے کلمہ سے روک دیا اور اپنے نبی کی عزت کرنے کی تعلیم فرمائی۔

سدی کہتے ہیں رفاعہ بن زید یہودی حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کرتے ہوئے یہ لفظ کہا کرتا تھا مسلمانوں نے بھی یہ خیال کر کے یہ لفظ ادب کے ہیں یہی لفظ استعمال کرنے شروع کر دیئے جس پر انہیں روک دیا گیا جیسے سورۃ نساء میں ہے۔

 مقصد یہ ہے کہ اس کلمہ کو اللہ نے برا جانا اور اس کے استعمال سے مسلمانوں کو روک دیاجیسے حدیث میں آیا ہے:

 انگور کو کرم اور غلام کو عبد نہ کہو وغیرہ

مَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَلَا الْمُشْرِكِينَ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْكُمْ مِنْ خَيْرٍ مِنْ رَبِّكُمْ ۗ

نہ تو اہل کتاب کے کافر اور نہ مشرکین چاہتے ہیں کہ تم پر تمہارے رب کی کوئی بھلائی نازل ہو

اب اللہ تعالیٰ ان بد باطن لوگوں کے حسد و بغض کو بیان فرماتا ہے کہ اے مسلمانو! تمہیں جو اس کامل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ کامل شریعت ملی ہے اس سے یہ تو جل بھن رہے ہیں

وَاللَّهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ (۱۰۵)

(ان کے اس حسد سے کیا ہوا) اللہ تعالیٰ جسے چاہے اپنی رحمت خصوصیت سے عطا فرمائے، اللہ تعالیٰ بڑے فضل والا ہے‏

 ان سے کہہ دو کہ یہ تو اللہ کا فضل ہے جسے چاہے عنایت فرمائے وہ بڑے ہی فضل و کرم والا ہے۔

مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا ۗ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (۱۰۶)

جس آیت کو ہم منسوخ کر دیں یا بھلا دیں اس سے بہتر یا  ایسی  اور لاتے ہیں،کیا تو نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ ہرچیز پر قادر ہے

حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں نَسَخْ کے معنی بدل کے ہیں

مجاہد فرماتے ہیں مٹانے کے معنی ہیں جو (کبھی) لکھنے میں باقی رہتا ہے اور حکم بدل جاتا ہے

حضرت ابن مسعودؓ کے شاگرد اور ابو العالیہ اور محمد بن کعب قرظی سے بھی اسی طرح مروی ہے

ضحاک فرماتے ہیں بھلا دینے کے معنی ہیں

عطا فرماتے ہیں چھوڑ دینے کے معنی ہیں

سدی کہتے ہیں اٹھا لینے کے معنی ہیں جیسے آیت الشیخ والشیختہ اذا زنیا فارجمو ھما البتتہ یعنی زانی مرد و عورت کو سنگسار کر دیا کرواور جیسے آیت لو کان لابن ادم و ادیان من ذھب لابتغی لھما ثالثا یعنی ابن آدم کو اگر دو جنگل سونے کے مل جائیں جب بھی وہ تیسرے کی جستجو میں رہے گا۔

 امام ابن جریر فرماتے ہیں احکام میں تبدیلی ہم کر دیا کرتے ہیں حلال کو حرام حرام کو حلال جائز کو ناجائز ناجائز کو جائز وغیرہ امر و نہی روک اور رخصت جائز اور ممنوع کاموں میں نسخ ہوتا ہے ہاں جو خبریں دی گئی ہیں واقعات بیان کئے گئے ہیں ان میں رد و بدل و ناسخ و منسوخ نہیں ہوتا،

نَسَخْ کے لفظی معنی نقل کرنے کے بھی ہیں جیسے کتاب کے ایک نسخے سے دوسرا نقل کر لینا۔ اسی طرح یہاں بھی چونکہ ایک حکم کے بدلے دوسرا حکم ہوتا ہے اس لئے نَسَخْ کہتے ہیں خواہ وہ حکم کا بدل جانا ہو خواہ الفاظ کا۔ علماء اصول کی عبارتیں اس مسئلہ میں گو مختلف ہیں مگر معنی کے لحاظ سے سب قریب قریب ایک ہی ہیں۔

نَسَخْ کے معنی کسی حکم شرعی کا پچھلی دلیل کی رو سے ہٹ جانا ہے کبھی ہلکی چیز کے بدلے بھاری اور کبھی بھاری کے بدلہ ہلکی اور کبھی کوئی بدل ہی نہیں ہوتا ہے

 نَسَخْ کے احکام اس کی قسمیں اس کی شرطیں وغیرہ ہیں اس کے لئے اس فن کی کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہئے تفصیلات کی بسط کی جگہ نہیں

طبرانی میں ایک روایت ہےدو شخصوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک سورت یاد کی تھی اسے وہ پڑھتے رہے ایک مرتبہ رات کی نماز میں ہر چند اسے پڑھنا چاہا لیکن یاد نے ساتھ نہ دیا گھبرا کر خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا آپ نے فرمایا یہ منسوخ ہو گئی اور بھلا دی گئی دلوں میں سے نکال لی گئی تم غم نہ کرو بےفکر ہو جاؤ :

حضرت زہری نون خفیفہ پیش کے ساتھ پڑھتے تھے

اس کے ایک راوی سلیمان بن راقم ضعیف ہیں۔ ابوبکر انباری نے بھی دوسری سند سے اسے مرفوع روایت کیا ہے جیسے قرطبی کا کہنا ہے۔

نُنْسِهَا کو نُنْسَاُهَا بھی پڑھا گیا ہے۔ نُنْسَاُهَا کے معنی مؤخر کرنے پیچھے ہٹا دینے کے ہیں۔

حضرت ابن عباسؓ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں یعنی ہم اسے چھوڑ دیتے ہیں منسوخ نہیں کرتے ہیں

ابن مسعودؓ کے شاگرد کہتے ہیں یعنی ہم اس کے الفاظ کو باقی رکھتے ہیں اور حکم کو بدل دیتے ہیں۔ عبد بن عمیرؒ، مجاہدؒ، عطاء سے مروی ہے ہم اسے مؤخر کرتے ہیں اور پیچھے ہٹا دیتے  ہیں

عطیہ عوفی کہتے ہیں ۔ یعنی منسوخ نہیں کرتے سدی اور ربیع بھی یہی کہتے ہیں

ضحاک فرماتے ہیں نَسَخْ کو منسوخ کے پیچھے رکھتے ہیں

 ابو العالیہ کہتے ہیں اپنے پاس اسے روک لیتے ہیں

حضرت عمر ؓنے خطبہ میں نُنْسَاُهَا پڑھا اور اس کے معنی مؤخر ہونے کے بیان کئے

 نُنْسِهَا جب پڑھیں تو یہ مطلب ہو گا کہ ہم اسے بھلا دیں۔ اللہ تعالیٰ جس حکم کو اٹھا لینا چاہتا تھا وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھلا دیتا تھا اس طرح وہ آیت اٹھ جاتی تھی۔

حضرت سعد بن ابی وقاص نُنْسِهَا پڑھتے تھے تو ان سے قاسم بن ربیعہ نے کہا کہ سعید بن مسیب تو نُنْسَاُهَا پڑھتے ہیں تو آپ نے فرمایا سعید پر یا سعید کے خاندان پر تو قرآن نہیں اترا؟

 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

سَنُقۡرِئُكَ فَلَا تَنسَىٰٓ (۸۷:۶)

ہم تجھے پڑھائیں گے پھر تو نہ بھولے گا

اور فرماتا ہے:

وَٱذۡكُر رَّبَّكَ إِذَا نَسِيتَ (۱۸:۲۴)

جب بھول جائے تو اپنے رب کو یاد کر۔

حضرت عمرؓ  کا فرمان ہے کہ حضرت علیؓ سب سے اچھا فیصلہ کرنے والے ہیں اور ابیؓ سب سے  اچھے قرآن کے قاری ہیں

اور ہم ابیؓ کا قول چھوڑ دیتے ہیں اس لئے کہ ابیؓ کہتے ہیں میں نے تو جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے اسے نہیں چھوڑوں گا اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے  مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا یعنی ہم جو منسوخ کریں یا بھلا دیں اس سے بہتر لاتے ہیں یا اس جیسا  (بخاری و مسند احمد)

اس سے بہتر ہوتا ہے یعنی بندوں کی سہولت اور ان کے آرام کے لحاظ سے یا اس جیسا ہوتا ہے لیکن مصلحت الہٰی اس پچھلی  چیز میں ہوتی ہے

أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ (۱۰۷)

کیا تجھے علم نہیں کہ زمین اور آسمان کا مالک اللہ ہی کے لئے ہے اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی ولی اور مددگار نہیں۔‏

مخلوق میں تغیر و تبدل کرنے والا پیدائش اور حکم کا اختیار رکھنے والا ایک اللہ تعالیٰ ہی ہے جس طرح جسے چاہتا ہے بناتا ہے جسے چاہے نیک بختی دیتا ہے جسے چاہے بدبختی دیتا ہے جسے چاہے تندرستی جسے چاہے بیماری، جسے چاہے توفیق جسے چاہے بےنصیب کر دے۔

بندوں میں جو حکم چاہے جاری کرے جسے چاہے حلال جسے چاہے حرام فرما دے جسے چاہے رخصت دے جسے چاہے روک دے وہ حاکم مطلق ہے جیسے چاہے احکام جاری فرمائے کوئی اس کے حکم کو رد نہیں کر سکتا جو چاہے کرے کوئی اس سے باز پرس نہیں کر سکتا وہ بندوں کو آزماتا ہے اور دیکھتا ہے کہ وہ نبیوں اور رسولوں کے کیسے تابعدار ہیں

کسی چیز کا مصلحت کی وجہ سے حکم دیا پھر مصلحت کی وجہ سے ہی اس حکم کو ہٹا دیا اب آزمائش ہوتی ہے نیک لوگ اس وقت بھی اطاعت کے لئے کمر بستہ تھے اور اب بھی ہیں لیکن بدباطن لوگ باتیں بناتے ہیں اور ناک بھوں چڑھاتے ہیں حالانکہ تمام مخلوق کو اپنے خالق کی تمام باتیں ماننی چاہئیں اور ہر حال میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنی چاہئے اور جو وہ کہے اسے دل سے سچا ماننا چاہئے، جو حکم دے بجا لانا چاہئے جس سے روکے رک جانا چاہئے،

 اس مقام پر بھی یہودیوں کا زبردست رد ہے اور ان کے کفر کا بیان ہے کہ وہ نسخ کے قائل نہ تھے بعض تو کہتے تھے اس میں عقلی محال لازم آتا ہے اور بعض نقلی محال بھی مانتے تھے

 اس آیت میں گو خطاب فخر عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے مگر دراصل یہ کلام یہودیوں کو سنانا ہے جو انجیل کو اور قرآن کو اس وجہ سے نہیں مانتے تھے کہ ان میں بعض احکام تورات کے منسوخ ہو گئے تھے اور اسی وجہ سے وہ ان نبیوں کی نبوت کے بھی منکر ہو گئے تھے اور صرف عناد و تکبر کی بنا تھی ورنہ عقلاً نسخ محال نہیں اس لئے کہ جس طرح وہ اپنے کاموں میں با اختیار رہے اسی طرح اپنے حکموں میں بھی با اختیار رہے جو چاہے اور جب چاہے پیدا کرے جسے چاہے اور جس طرح چاہے اور جس وقت چاہے رکھے۔ اسی طرح جو چاہے اور جس وقت چاہے حکم دے اس حاکموں کے حاکم کا حاکم کون؟

اسی طرح نقلاً بھی یہ ثابت شدہ امر ہے اگلی کتابوں اور پہلی شریعتوں میں موجود ہے

حضرت آدمؑ  کی بیٹیاں بیٹے آپس میں بھائی بہن ہوتے تھے لیکن نکاح جائز تھا پھر اسے حرام کر دیا

 نوح علیہ السلام جب کشتی سے اترتے ہیں تب تمام حیوانات کا کھانا حلال تھا لیکن پھر بعض کی حلت منسوخ ہو گئی

دو بہنوں کا نکاح اسرائیل اور ان کی اولاد پر حلال تھا لیکن پھر تورات میں اور اس کے بعد حرام ہو گیا

ابراہیم علیہ السلام کو بیٹے کی قربانی کا حکم دیا پھر قربان کرنے سے پہلے ہی منسوخ کر دیا بنو اسرائیل کو حکم دیا جاتا ہے کہ بچھڑا پوجنے میں جو شامل تھے سب اپنی جانوں کو قتل کر ڈالیں لیکن پھر بہت سے باقی تھے کہ یہ حکم منسوخ ہو جاتا ہے

اسی طرح کے اور بہت سے واقعات موجود ہیں اور خود یہودیوں کو ان کا اقرار ہے لیکن پھر بھی قرآن اور نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہہ کر نہیں مانتے کہ اس سے اللہ کے کلام میں نسخ لازم آتا ہے اور وہ محال ہے،

بعض لوگ جو اس کے جواب میں لفظی بحثوں میں پڑ جاتے ہیں وہ یاد رکھیں کہ اس سے دلالت نہیں بدلتی اور مقصود وہی رہتا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت یہ لوگ اپنی کتابوں میں پاتے تھے آپ کی تابعداری کا حکم بھی دیکھتے تھی یہ بھی معلوم تھا کہ آپ کی شریعت کے مطابق جو عمل نہ ہو وہ مقبول نہیں ، یہ اور بات ہے کہ کوئی کہے کہ اگلی شریعتیں صرف آپ کے آنے تک ہی تھیں اس لئے یہ شریعت ان کی ناسخ نہیں یا کہے کہ ناسخ ہے بہر صورت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ اس لئے کہ آپ آخری کتاب اللہ کے پاس سے ابھی ابھی لے کر آئے ہیں

پس اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نسخ کے جواز کو بیان فرما کر اس ملعون گروہ یہود کا رد کیا

سورۃ آل عمران میں بھی جس کے شروع میں بنی اسرائیل کو خطا ب کیا گیا ہے نسخ کے واقع ہونے کا ذکر موجود ہے

 فرماتا ہے:

كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلًّا لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ إِلَّا مَا حَرَّمَ إِسْرَائِيلُ عَلَىٰ نَفْسِهِ مِن قَبْلِ أَن تُنَزَّلَ التَّوْرَاةُ (۳:۹۳)

تورات کے نزول سے پہلے یعقوب ؑ نے جس چیز کو اپنے اوپر حرام کر لیا تھا اس کے سوا تمام کھانے بنی اسرائیل پر حلال تھے

اس کی مزید تفسیر وہیں آئے گی انشاء اللہ تعالیٰ

تمام مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے  کہ احکام باری تعالیٰ میں نسخ کا ہونا جائز ہے بلکہ واقع بھی ہے اور پروردگار کی حکمت بالغہ کا دستور بھی یہی ہے

ابو مسلم اصبہانی مفسر نے لکھا ہے کہ قرآن میں نسخ واقع نہیں ہوتا لیکن اس کا یہ قول ضعیف اور مردود اور محض غلط اور جھوٹ ہے

جہاں نسخ قرآن موجود ہے اس کے جواب میں گو بعض نے بہت محنت سے اس کی تردید کی ہے لیکن محض بےسود دیکھئے پہلے اس عورت کی عدت جس کا خاوند مر جائے ایک سال تھی لیکن پھر چار مہینے دس دن ہوئی اور دونوں آیتیں قرآن پاک میں موجود ہیں

قبلہ پہلے بیت المقدس تھا۔ پھر کعبتہ اللہ ہوا اور دوسری آیت صاف اور پہلا حکم بھی ضمناً مذکور ہے

پہلے کے مسلمانوں کو حکم تھا کہ ایک ایک مسلمان دس دس کافروں سے لڑے اور ان کے مقابلے سے نہ ہٹے لیکن یہ پھر حکم منسوخ کر کے دو دو کے مقابلہ میں صبر کرنے کا حکم ہوا اور دونوں آیتیں کلام اللہ میں موجود ہیں

پہلے حکم تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشی کرنے سے پہلے کچھ صدقہ دیا کرو پھر یہ حکم منسوخ ہوا اور دونوں آیتیں قرآن کریم میں موجود ہیں وغیرہ ۔ واللہ اعلم

أَمْ تُرِيدُونَ أَنْ تَسْأَلُوا رَسُولَكُمْ كَمَا سُئِلَ مُوسَى مِنْ قَبْلُ ۗ

کیا تم اپنے رسول سے یہی پوچھنا چاہتے ہو جو اس سے پہلے موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا گیا تھا

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو روکتے ہوئے فرماتا ہے کہ کسی واقعہ کے ہونے سے پہلے میرے نبی سے فضول سوال نہ کیا کو۔ یہ کثرت سوال کی عادت بہت بری ہے جیسے اور جگہ ارشاد ہے:

يأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ لاَ تَسْأَلُواْ عَنْ أَشْيَآءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِن تَسْأَلُواْ عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْءَانُ تُبْدَ لَكُمْ (۵:۱۰۱)

اے ایمان والو! ایسی باتیں مت پوچھو کہ اگر تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں اور اگر تم زمانہ نزول قرآن میں ان باتوں کو پوچھو گے تو تم پر ظاہر کر دی جائیں گی

کسی بات کے واقع ہونے سے پہلے اس کی نسبت سوال کرنے میں خوف یہ ہے کہ کہیں اس سوال کی وجہ سے وہ حرام نہ ہو جائیں صحیح حدیث میں ہے:

مسلمانوں میں سے بڑا مجرم وہ ہے جو اس چیز کے بارے میں سوال کرے جو حرام نہ تھی پھر اس کے سوال سے حرام ہو گئی

ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ غیر مرد کو پائے تو کیا کرے؟ اگر لوگوں کو خبر کرے تو یہ بھی بڑی بےشرمی کی بات ہے اور اگر چپ ہو جائے تو بڑی بےغیرتی کی بات ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ سوال بہت برا معلوم ہوا آخر اسی شخص کو ایسا واقعہ پیش آیا اور لعان کا حکم نازل ہوا۔

صحیحین کی ایک حدیث میں ہے:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم فضول بکواس، مال کو ضائع کرنے اور زیادہ پوچھ گچھ سے منع فرمایا کرتے تھے۔

صحیح مسلم میں ہے:

میں جب تک کچھ نہ کہوں، تم بھی نہ پوچھو تم سے پہلے لوگوں کو اسی بدخصلت نے ہلاک کر دیا کہ وہ بکثرت سوال کرتے تھے اور اپنے نبیوں کے سامنے اختلاف کرتے تھے۔ جب میں تمہیں کوئی حکم دوں تو اپنی طاقت کے مطابق بجا لاؤ اور اگر منع کروں تو رک جایا کرو

یہ آپ ﷺنے اس وقت فرمایا تھا جب لوگوں کو خبر دی کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے تم پر حج فرض کیا ہے تو کسی نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے

اس نے پھر پوچھا آپ ﷺنے کوئی جواب نہ دیا

اس نے تیسری دفعہ پھر یہی سوال کیا آپ ﷺنے فرمایا ہر سال نہیں لیکن اگر میں ہاں کہ دیتا تو ہر سال فرض ہو جاتا اور پھر تم کبھی بھی اس حکم کو بجا نہ لا سکتے پھر آپ نے مندرجہ بالا  آیت تلاوت فرمائی۔

حضرت انسؓ فرماتے ہیں جب ہمیں آپ سے سوال کرنے سے روک دیا گیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھنے ہیں ہیبت کھاتے تھے چاہتے تھے کہ کوئی بادیہ نشین ناواقف شخص آ جائے وہ پوچھے تو ہم بھی سن لیں۔

حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں میں کوئی سوال حضور ﷺ سے کرنا چاہتا تھا تو سال سال بھر گزر جاتا تھا کہ مارے ہیبت کے پوچھنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی

 ہم تو خواہش رکھتے تھے کہ کوئی اعرابی آئے اور حضور ﷺ سے سوال کر بیٹھے پھر ہم بھی سن لیں۔

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر کوئی جماعت نہیں انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف بارہ ہی مسئلے پوچھے جو سب سوال مع جواب کے قرآن پاک میں مذکورہ ہیں جیسے شراب وغیرہ کا سوال حرمت والے مہینوں کی بابت کا سوال، یتیموں کی بابت کا سوال وغیرہ۔

یہاں پر أَمْ یاتو بل کے معنی میں ہے یا اپنے اصلی معنی میں ہے یعنی سوال کے بارے میں جو یہاں پر انکاری ہے یہ حکم مؤمن کافر سب کو ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت سب کی طرف تھی  قرآن میں اور جگہ ہے:

يَسْأَلُكَ أَهْلُ الْكِتَابِ ۔۔۔ فَأَخَذَتْهُمُ الصَّاعِقَةُ بِظُلْمِهِمْ (۴:۱۵۳)

آپ سے یہ اہل کتاب درخواست کرتے ہیں کہ آپ ان کے پاس کوئی آسمانی کتاب لائیں

حضرت موسیٰ علیہ السلام سے انہوں نے اس سے بہت بڑی درخواست کی تھی کہ ہمیں کھلم کھلا اللہ تعالیٰ کو دکھا دے، پس ان کے اس ظلم کے باعث ان پر کڑاکے کی بجلی آپڑی

رافع بن حرملہ اور وہب بن زید نے کہا تھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی آسمانی کتاب ہم پر نازل کیجئے جسے ہم پڑھیں اور ہمارے شہروں میں دریا جاری کر دیں تو ہم آپ کو مان لیں اس پر یہ آیت اتری۔

ابو العالیہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاش کہ ہمارے گناہوں کا کفارہ بھی اسی طرح ہو جاتا جس طرح بنی اسرائیل کے گناہوں کا کفارہ تھا

آپﷺ نے یہ سنتے ہی تین دفعہ جناب باری تعالیٰ میں عرض کی کہ نہیں اللہ نہیں ہم یہ نہیں چاہتے

پھر فرمایا سنو بنو اسرائیل میں سے جہاں کوئی گناہ کرتا اس کے دروازے پر قدرتاً  لکھا ہوا پایا جاتا اور ساتھ ہی اس کا کفارہ بھی لکھا ہوا ہوتا تھا اب یا تو دنیا کی رسوائی کو منظور کر کے کفارہ ادا کر دے اور اپنے پوشیدہ گناہوں کو ظاہر کرے یا کفارہ نہ دے اور آخرت کی رسوائی منظور کرے لیکن تم سے اللہ تعالیٰ نے فرما دیا :

وَمَن يَعْمَلْ سُوءًا أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللَّهَ يَجِدِ اللَّهَ غَفُورًا رَّحِيمًا (۴:۱۱۰)

جو شخص کوئی برائی کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ سے استغفار کرے تو اللہ کو بخشنے والا، مہربانی کرنے والا پائے گا

اسی طرح ایک نماز دوسری نماز تک گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہے پھر جمعہ دوسرے جمعہ تک کفارہ ہو جاتا ہےسنو جو شخص برائی کا ارادہ کرے لیکن برائی نہ کرے تو برائی لکھی نہیں جاتی اور اگر کر گزرے تو ایک ہی برائی لکھی جاتی ہے اور اگر بھلائی کا ارادہ کرے پھر گو نہ کرے لیکن بھلائی لکھ لی جاتی ہے اور اگر کر بھی لے تو دس بھلائیاں لکھی جاتی ہیں اب بتاؤ تم اچھے رہے یا بنی اسرائیل؟ تم بنی اسرائیل سے بہت ہی اچھے ہو ہاں باوجود اتنے کرم اور رحم کے پھر بھی کوئی ہلاک ہو تو سمجھو کہ یہ خود ہلاک ہونے والا ہی تھا اس پر یہ آیت نازل ہوئی

قریشیوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اگر صفا پہاڑ سونے کا ہو جائے تو ہم ایمان لاتے ہیں

 آپ ﷺنے فرمایا اچھا لیکن پھر مائدہ(آسمانی دستر خوان) مانگنے والوں کا جو انجام ہوا وہی تمہارا بھی ہو گا اس پر وہ انکاری ہو گئے اور اپنے سوال کو چھوڑ د

وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ (۱۰۸)

(سنو) ایمان کو کفر سے بدلنے والا سیدھی راہ سے بھٹک جاتا ہے۔‏

مراد یہ ہے کہ تکبر عناد سرکشی کے ساتھ نبیوں سے سوال کرنا نہایت مذموم حرکت ہے جو کفر کو ایمان کے بدلے مول لے اور آسانی کو سختی سے بدلے وہ سیدھی راہ سے ہٹ کر جہالت و ضلالت میں گھر جاتا ہے اسی طرح غیر ضروری سوال کرنے والا بھی جیسے اور جگہ ہے:

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُواْ نِعْمَتَ اللَّهِ كُفْرًا وَأَحَلُّواْ قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ - جَهَنَّمَ يَصْلَوْنَهَا وَبِئْسَ الْقَرَارُ (۱۴:۲۸،۲۹)

کیا تو انہیں نہیں دیکھتا جو اللہ کی نعمت کو کفر سے بدلتے ہیں اور اپنی قوم کو ہلاکت میں ڈالتے ہیں وہ جہنم میں داخل ہوں گے اور وہ بڑی بری قرار گاہ ہے۔

وَدَّ كَثِيرٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُمْ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ ۖ

ان اہل کتاب کے اکثر لوگ باوجود حق واضح ہو جانے کے محض حسد و بغض کی بنا پر تمہیں بھی ایمان سے ہٹا دینا چاہتے ہیں،

ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ حی بن اخطب اور ابویاسر بن اخطب یہ دونوں یہودی سب سے زیادہ مسلمانوں کے حاسد تھے لوگوں کو اسلام سے روکتے تھے اور عربوں سے جلتے تھے ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی

 کعب بن اشرف کا بھی یہی شغل تھا

زہری کہتے ہیں اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے یہ بھی یہودی تھا اور اپنے شعروں میں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کیا کرتا تھا

گو ان کی کتاب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق موجود تھی اور یہ بخوبی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صفتیں جانتے تھے اور آپ کو اچھی طرح پہچانتے تھے پھر یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ قرآن ان کی کتاب کی تصدیق کر رہا ہے ایک اُمی اور ان پڑھ وہ کتاب پڑھتا ہے جو سراسر معجزہ ہے لیکن صرف حسد کی بنا پر کہ یہ عرب میں آپ کیوں مبعوث ہوئے کفر و انکار پر آمادہ ہو گئے بلکہ اور لوگوں کو بھی بہکانا شروع کر دیا

فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (۱۰۹)

تم بھی معاف کرو اور چھوڑو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا حکم لائے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ ہرچیز پر قدرت رکھتا ہے۔‏

پس اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں کو حکم دیا کہ تم درگزر کرتے رہو اور اللہ کے حکم کا اور اس کے فیصلے کا انتظار کرو۔

جیسے اور جگہ فرمایا :

وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَـبَ مِن قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُواْ أَذًى كَثِيراً (۳:۱۸۶)

اور یہ بھی یقین ہے کہ تمہیں ان لوگوں کی جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے اور مشرکوں کو بہت سی دکھ دینے والی باتیں بھی سننی پڑیں گی

مگر بعد میں حکم نازل فرما دیا کہ ان مشرکین سے اب دب کر نہ رہو ان سے لڑائی کرنے کی تمہیں اجازت ہے

حضرت اسامہ بن زیدؓ کہتے ہیں  کہ حضورﷺاور آپ کے اصحاب مشرکین اور اہل کتاب سے درگزر کرتے تھے اور ان کی ایذاء اور تکلیف سہتے تھی اور اس آیت پر عمل پیرا تھے یہاں تک کہ دوسری آیتیں اتریں اور یہ حکم ہٹ گیا اب ان سے بدلہ لینے اور اپنا بچاؤ کرنے کا حکم ملا اور پہلی ہی لڑائی جو بدر کے میدان میں ہوئی اس میں کفار کو شکست فاش ہوئی اور ان کے بڑے بڑے سرداروں کی لاشیں میدان میں بچھ گئیں

وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ ۚ وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ مِنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِنْدَ اللَّهِ ۗ

تم نمازیں قائم رکھو اور زکوٰۃ دیتے رہا کرو اور جو کچھ بھلائی تم اپنے لئے آگے بھیجو گے، سب کچھ اللہ کے پاس پالو گے،

پھر مؤمنوں کو رغبت دلائی جاتی ہے کہ تم نماز اور زکوٰۃ وغیرہ کی حفاظت کرو یہ تمہیں آخرت کے عذابوں سے بچانے کے علاوہ دنیا میں بھی غلبہ اور نصرت دے گی

إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (۱۱۰)

بیشک اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو خوب دیکھ رہا ہے ۔

 پھر فرمایا کہ اللہ تمہارے اعمال سے غافل نہیں ہر نیک و بدعمل کا بدلہ دونوں جہان میں دے گا اس سے کوئی چھوٹا، بڑا، چھپا، کھلا، اچھا، برا، عمل پوشیدہ نہیں

یہ اس لئے فرمایا کہ لوگ اطاعت کی طرف توجہ دیں اور نافرمانی سے بچیں

مبصر کے بدلے بَصِيرٌ کہا جیسے مبدع کے بدلے بدیع اور مولم کے بدلے الیم ۔

ابن ابی حاتم میں حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس آیت میں سمیع بصیر پڑھتے تھے اور فرماتے تھے اللہ تعالیٰ ہر چیز کو دیکھتا ہے۔

وَقَالُوا لَنْ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَى ۗ

یہ کہتے ہیں کہ جنت میں یہود و نصاریٰ کے سوا اور کوئی نہ جائے گا،

یہاں پر یہودیوں اور نصرانیوں کے غرور کا بیان ہو رہا ہے کہ وہ اپنے سوا کسی کو کچھ بھی نہیں سمجھتے اور صاف کہتے ہیں کہ ہمارے سوا جنت میں کوئی نہیں جائے گا سورۃ مائدہ میں ان کا ایک قول یہ بھی بیان ہوا ہے:

نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ (۵:۱۸)

ہم اللہ تعالیٰ کی اولاد اور اس کے محبوب ہیں

تِلْكَ أَمَانِيُّهُمْ ۗ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (۱۱۱)

یہ صرف ان کی آرزوئیں ہیں، ان سے کہو کہ اگر تم سچے ہو تو کوئی دلیل تو پیش کرو ۔

جس کے جواب میں قرآن نے کہا کہ پھر تم پر قیامت کے دن عذاب کیوں ہو گا؟ اسی طرح کے مفہوم کا بیان پہلے بھی گزرا ہے کہ ان کا دعویٰ یہ بھی تھا کہ ہم چند دن جہنم میں رہیں گے جس کے جواب میں ارشاد باری ہوا کہ یہ دعویٰ بھی محض بےدلیل ہے اسی طرح یہاں ان کے ایک دعویٰ کی تردید کی اور کہا کہ لاؤ دلیل پیش کرو،

بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ

سنو جو بھی اپنے آپ کو خلوص کے ساتھ اللہ کے سامنے جھکا دے۔

انہیں عاجز ثابت کر کے پھر فرمایا کہ ہاں جو کوئی بھی اللہ کا فرمانبردار ہو جائے اور خلوص و توحید کے ساتھ نیک عمل کرے اسے پورا پورا اجر و ثواب ملے گا، جیسے اور جگہ فرمایا :

فَإنْ حَآجُّوكَ فَقُلْ أَسْلَمْتُ وَجْهِىَ للَّهِ وَمَنِ اتَّبَعَنِ (۳:۲۰)

پھر بھی اگر یہ آپ سے جھگڑیں تو آپ کہہ دیں کہ میں اور میرے تابعداروں نے اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنا سر تسلیم خم کر دیا ہے

تو أَسْلَمَ وَجْهَهُ سے مراد خلوص اور وَهُوَ مُحْسِنٌ سے مراد اتباع سنت ہے نرا خلوص بھی عمل کو قبول نہیں کرا سکتا جب تک سنت کی تابعداری نہ ہو حدیث شریف میں ہے:غرض یہ ہے کہ اخلاص اور مطابقت سنت ہر عمل کی قبولیت کے لئے شرط ہے

 جو شخص ایسا عمل کرے جس پر ہمارا حکم نہ ہو وہ مردود ہے (مسلم)

پس رہبانیت کا عمل گو خلوص پر مبنی ہو لیکن تاہم اتباع سنت نہ ہونے کی وجہ سے وہ مردود ہے ایسے ہی اعمال کی نسبت قرآن کریم کا ارشاد ہے:

وَقَدِمْنَآ إِلَى مَا عَمِلُواْ مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَآءً مَّنثُوراً (۲۵:۲۳)

اور انہوں نے جو جو اعمال کیے تھے ہم نے ان کی طرف بڑھ کر انہیں پراگندہ ذروں کی طرح کر دیا

دوسری جگہ فرمایا:

وَالَّذِينَ كَفَرُواْ أَعْمَـلُهُمْ كَسَرَابٍ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ مَآءً حَتَّى إِذَا جَآءَهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْئاً (۲۴:۳۹)

اور کافروں کے اعمال مثل اس چمکتی ہوئی ریت کے ہیں جو چٹیل میدان میں جسے پیاسا شخص دور سے پانی سمجھتا ہے لیکن جب اس کے پاس پہنچتا ہے تو اسے کچھ بھی نہیں پاتا

 اور جگہ ہے:

وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ خَـشِعَةٌ  ـ عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌ  ـ تَصْلَى نَاراً حَامِيَةً  ـ تُسْقَى مِنْ عَيْنٍ ءَانِيَةٍ (۸۸:۲،۵)

اس دن بہت سے چہرے ذلیل ہونگے۔(اور) محنت کرنے والے تھکے ہوئے ہونگے اور دہکتی ہوئی آگ میں جائیں گے‏ نہایت گرم چشمے کا پانی ان کو پلایا جائے گا۔

حضرت امیر المؤمنین عمر بن خطابؓ نے اس آیت کی تفسیر میں مراد یہود و نصاریٰ کے علماء اور عابد لئے ہیں

 یہ بھی یاد رہے کہ کوئی عمل گو بظاہر سنت کے مطابق ہو لیکن عمل میں اخلاص نہ ہو مقصود اللہ کی خوشنودی نہ ہو تو وہ عمل بھی مردود ہے ریا کار اور منافق لوگوں کے اعمال کا بھی یہی حال ہےجیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

إِنَّ الْمُنَـفِقِينَ يُخَـدِعُونَ اللَّهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ وَإِذَا قَامُواْ إِلَى الصَّلَوةِ قَامُواْ كُسَالَى يُرَآءُونَ النَّاسَ وَلاَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ إِلاَّ قَلِيلاً (۴:۱۴۲)

بیشک منافق اللہ سے چال بازیاں کر رہے ہیں اور وہ انہیں اس چالبازی کا بدلہ دینے والا ہے

اور جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی کاہلی کی حالت میں کھڑے ہوتے ہیں صرف لوگوں کو دکھاتے ہیں اور یاد الہٰی تو یونہی برائے نام کرتے ہیں

اور فرمایا:

وَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَ  ـ الَّذِينَ هُمْ عَن صَلَـتِهِمْ سَاهُونَ  ـ الَّذِينَ هُمْ يُرَآءُونَ  ـ وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ  (۱۰۷:۴،۷)

ان نمازیوں کے لئے افسوس (اور ویل نامی جہنم کی جگہ) ہے۔‏ جو اپنی نماز سے غافل ہیں جو ریاکاری کرتے ہیں۔ اور برتنے کی چیز روکتے ہیں

اور جگہ ارشاد ہے:

فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَآءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلاً صَـلِحاً وَلاَ يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدَا (۱۸:۱۱۰)

تو جسے بھی اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو ہو اسے چاہیے کہ نیک اعمال کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے

فَلَهُ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (۱۱۲)

بیشک اسے اس کا رب پورا بدلہ دے گا، اس پر نہ تو کوئی خوف ہوگا، نہ غم اور اداسی۔‏

پھر فرمایا انہیں ان کا رب اجر دے گا اور ڈر خوف سے بچائے گا آخرت میں انہیں ڈر نہیں اور دنیا کے چھوڑنے کا ملال نہیں۔

وَقَالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصَارَى عَلَى شَيْءٍ وَقَالَتِ النَّصَارَى لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلَى شَيْءٍ وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَابَ ۗ

یہود کہتے ہیں کہ نصرانی حق پر نہیں اور نصرانی کہتے ہیں کہ یہودی حق پر نہیں، حالانکہ وہ کتاب (الہٰی)  پڑھتے ہیں۔

پھر یہود و نصاریٰ کی آپس کی بغض و عداوت کا ذکر فرمایا،

نجران کے نصرانیوں کا وفد جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو ان کے پاس یہودیوں کے علماء بھی آئے اس وقت ان لوگوں نے انہیں اور انہوں نے ان کو گمراہ بتایا حالانکہ دونوں اہل کتاب ہیں تورات میں انجیل کی تصدیق اور انجیل میں تورات کی تصدیق موجود ہے پھر ان کا یہ قول کس قدر لغو ہے، اگلے یہود و نصاریٰ دین حق پر قائم تھے لیکن پھر بدعتوں اور فتنہ پردازیوں کی وجہ سے دین ان سے چھن گیا اب نہ یہود ہدایت پر تھے نہ نصرانی

كَذَلِكَ قَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ ۚ

اسی طرح ان ہی جیسی بات بےعلم بھی کہتے ہیں

پھر فرمایا کہ نہ جاننے والوں نے بھی اسی طرح کہا اس میں بھی اشارہ انہی کی طرف ہےاور بعض نے کہا مراد اس سے یہود و نصاریٰ سے پہلے کے لوگ ہیں۔

 بعض کہتے ہیں عرب لوگ مراد ہیں

امام ابن جریر اس سے عام لوگ مراد لیتے ہیں گویا سب شامل ہیں اور یہی ٹھیک بھی ہے۔ واللہ اعلم

فَاللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ (۱۱۳)

قیامت کے دن اللہ ان کے اس اختلاف کا فیصلہ ان کے درمیان کر دے گا۔‏

پھر فرمایا کہ اختلاف کا فیصلہ قیامت کو خود اللہ تعالیٰ کرے گا جس دن کوئی ظلم و زور نہیں ہو گااور یہی مضمون دوسری جگہ بھی آیا ہے سورۃ حج میں ارشاد ہے:

إِنَّ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَالَّذِينَ هَادُواْ ۔۔۔ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ شَهِيدٌ (۲۲:۱۷)

ایمان دار اور یہودی اور صابی اور نصرانی اور مجوسی اور مشرکین ان سب کے درمیان قیامت کے دن خود اللہ تعالیٰ فیصلہ کرے گا اللہ تعالیٰ ہر ہرچیز پر گواہ ہے

اور جگہ ارشاد ہے:

قُلْ يَجْمَعُ بَيْنَنَا رَبُّنَا ثُمَّ يَفْتَحُ بَيْنَنَا بِالْحَقِّ وَهُوَ الْفَتَّاحُ الْعَلِيمُ (۳۴:۲۶)

انہیں خبر دے دیجئے کہ سب کو ہمارا رب جمع کر کے پھر ہم میں سے سچے فیصلے کر دے گا وہ فیصلے چکانے والا ہے‏

وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ أَنْ يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَى فِي خَرَابِهَا ۚ

اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ تعالیٰ کی مسجدوں میں اللہ تعالیٰ کے ذکر کئے جانے کو روکے ان کی بربادی کی کوشش کرے

اس آیت کی تفسیر میں دو قول ہیں ایک تو یہ کہ اس سے مراد نصاریٰ ہیں دوسرا یہ کہ اس سے مراد مشرکین ہیں

نصرانی بھی بیت المقدس کی مسجد میں پلیدی ڈال دیتے تھے اور لوگوں کو اس میں نماز ادا کرنے سے روکتے تھے،

بخت نصر نے جب بیت المقدس کی بربادی کے لئے چڑھائی کے تھی تو ان نصرانیوں نے اس کا ساتھ دیا تھا اور مدد کی تھی، بخت نصر بابل کا رہنے والا مجوسی تھا اور یہودیوں کی دشمنی پر نصرانیوں نے بھی اس کا ساتھ دیا تھا اور اس لئے بھی کہ بنی اسرائیل نے حضرت یحییٰ بن زکریا علیہ السلام کو قتل کر ڈالا تھا

اور مشرکین نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حدیبیہ والے سال کعبتہ اللہ سے روکا تھا یہاں تک کہ ذی طوای میں آپ کو قربانیاں دینا پڑیں اور مشرکین سے صلح کرنے کے بعد آپ وہیں سے واپس آ گئے حالانکہ یہ امن کی جگہ تھی باپ اور بھائی کے قاتل کو بھی یہاں کوئی نہیں چھیڑتا تھا اور ان کی کوشش یہی تھی کہ ذکر اللہ اور حج و عمرہ کرنے والی مسلم جماعت کو روک دیں

حضرت ابن عباسؓ کا یہی قول ہے

ابن جریر نے پہلے قول کو پسند فرمایا ہے اور کہا ہے کہ مشرکین کعبتہ اللہ کو برباد کرنے کی سعی نہیں کرتے تھے یہ سعی نصاریٰ کی تھی کہ وہ بیت المقدس کی ویرانی کے درپے ہو گئے تھے۔

لیکن حقیقت میں دوسرا قول زیادہ صحیح ہے، ابن زید اور حضرت عباسؓ کا قول بھی یہی ہے

اور اس بات کو بھی نہ بھولنا چاہئے کہ جب نصرانیوں نے یہودیوں کو بیت المقدس سے روکا تھا اس وقت یہودی بھی محض بےدین ہو چکے تھے ان پر تو حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ بن مریم کی زبانی لعنتیں نازل ہو چکی تھیں وہ نافرمان اور حد سے متجاوز ہو چکے تھے اور نصرانی حضرت مسیح کے دین پر تھے

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت سے مراد مشرکین مکہ ہیں اور یہ بھی ایک وجہ ہے کہ اوپر یہود و نصاریٰ کی مذمت بیان ہوئی تھی اور یہاں مشرکین عرب کی اس بدخصلت کا بیان ہو رہا ہے کہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ کے صحابیوں کو مسجد الحرام سے روکا مکہ سے نکالا پھر حج وغیرہ سے بھی روک دیا۔

 امام ابن جریر کا یہ فرمان کہ مکہ والے بیت اللہ کی ویرانی میں کوشاں نہ تھے اس کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کو وہاں سے روکنے اور نکال دینے اور بیت اللہ میں بت بٹھا دینے سے بڑھ کر اس کی ویرانی کیا ہو سکتی ہے؟خود قرآن میں موجود ہے:

وَمَا لَهُمْ أَلاَّ يُعَذِّبَهُمُ اللَّهُ ۔۔۔ وَلَـكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ (۸:۳۴)

اور ان میں کیا بات ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ سزا نہ دے حالانکہ وہ لوگ مسجد حرام سے روکتے ہیں، جب کہ وہ لوگ اس مسجد کے متولی نہیں۔ ا

س کے متولی تو سوا متقیوں کے اور اشخاص نہیں، لیکن ان میں اکثر لوگ علم نہیں رکھتے۔‏

اور جگہ فرمایا:

مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِينَ أَن يَعْمُرُواْ مَسَاجِدَ الله شَـهِدِينَ ۔۔۔ أُوْلَـئِكَ أَن يَكُونُواْ مِنَ الْمُهْتَدِينَ (۹:۱۷،۱۸)

لائق نہیں کہ مشرک اللہ تعالیٰ کی مسجدوں کو آباد کریں۔

درآں حالیکہ وہ خود اپنے کفر کے آپ ہی گواہ ہیں ان کے اعمال غارت و اکارت ہیں اور وہ دائمی طور پر جہنمی ہیں ۔

اللہ کی مسجدوں کی رونق و آبادی تو ان کے حصے میں ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں،

 نمازوں کے پابند ہوں، زکوٰۃ دیتے ہوں، اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے ہوں، توقع ہے یہی لوگ یقیناً ہدایت یافتہ ہیں ۔

اور جگہ فرمایا :

هُمُ الَّذِينَ كَفَرُواْ وَصَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۔۔۔الَّذِينَ كَفَرُواْ مِنْهُمْ عَذَاباً أَلِيماً (۴۸:۲۵)

یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تم کو مسجد حرام سے روکا اور قربانی کے لئے موقوف جانور کو اس کی قربان گاہ میں پہنچنے سے روکا

اور اگر ایسے بہت سے مسلمان مرد اور (بہت سی) مسلمان عورتیں نہ ہوتیں جن کی تم کو خبر نہ تھی یعنی ان کے پس جانے کا احتمال نہ ہوتا جس پر ان کی وجہ سے تم کو بھی بےخبری میں ضرر پہنچتا تو تمہیں لڑنے کی اجازت دی جاتی

لیکن ایسا نہیں کیا تاکہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت میں جس کو چاہے داخل کرے اور اگر یہ الگ الگ ہوتے تو ان میں جو کافر تھے ہم ان کو دردناک سزا دیتے

پس جب وہ مسلمان ہستیاں جن سے مسجدوں کی آبادی حقیقی معنی میں ہے وہ ہی روک دیئے گئے تو مسجدوں کے اجاڑنے میں کون سی کمی رہ گئی؟

إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَـجِدَ اللَّهِ مَنْ ءَامَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الاٌّخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَوةَ وَءاتَى الزَّكَوةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلاَّ اللَّهَ (۹:۱۸)

اللہ کی مسجدوں کی رونق و آبادی تو ان کے حصے میں ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں، نمازوں کے پابند ہوں، زکوٰۃ دیتے ہوں، اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے ہوں،

مسجدوں کی آبادی صرف ظاہری زیب و زینت رنگ و روغن سے نہیں ہوتی بلکہ اس میں ذکر اللہ ہونا اس میں شریعت کا قائم رہنا اور شرک اور ظاہری میل کچیل سے پاک رکھنا یہ ان کی حقیقی آبادی ہے

أُولَئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَنْ يَدْخُلُوهَا إِلَّا خَائِفِينَ ۚ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ (۱۱۴)

ایسے لوگوں کو خوف کھاتے ہوئے ہی اس میں جانا چاہیے انکے لئے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں بھی بڑاے بڑے عذاب ہیں۔‏

پھر فرمایا کہ انہیں لائق نہیں کہ بےخوف ہو کر مسجد میں آئیں’ مطلب یہ ہے کہ اے مسلمانو! انہیں بے خوفی  اور بےباکی کے ساتھ بیت اللہ میں نہ آنے دوجب   ہم تمہیں غالب کر دیں گےتو  اس وقت یہی کرنا۔

چنانچہ جب مکہ فتح ہو گیا اگلے سال ۹ہجری اعلان کرا دیا کہ اس سال کے بعد حج میں کوئی مشرک نہ آنے پائے اور بیت اللہ شریف کا طواف کوئی ننگا ہو کر نہ کرے جن لوگوں کے درمیان صلح کی کوئی مدت مقرر ہوئی ہے وہ قائم ہے یہ حکم دراصل تصدیق اور عمل ہے اس آیت پر:

يأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلاَ يَقْرَبُواْ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَـذَا (۹:۲۸)

اے ایمان والو! بیشک مشرک بالکل ہی ناپاک ہیں وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے پاس بھی نہ پھٹکنے پائیں

اور یہ معنی بھی بیان کئے گئے ہیں کہ چاہئے تو یہ تھا کہ یہ مشرک کانپتے ہوئے اور خوف زدہ مسجد میں آئیں لیکن برخلاف اس کے الٹے یہ مسلمانوں کو روک رہے ہیں

یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ ایمانداروں کو بشارت دیتا ہے کہ عنقریب میں تمہیں غلبہ دوں گا اور یہ مشرک اس مسجد کی طرف رخ کرنے سے بھی کپکپانے لگیں گےچنانچہ یہی ہوا اور حضور علیہ السلام نے وصیت کی کہ جزیرہ عرب میں دو دین باقی نہ رہنے پائیں اور یہود و نصاریٰ کو وہاں سے نکال دیا جائے الحمد اللہ کہ اس اُمت کے بزرگوں نے اس وصیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل بھی کر دکھایا اس سے مساجد  کی فضیلت اور بزرگی بھی ثابت ہوئی بالخصوص اس جگہ کی اور اس مسجد کی جہاں سب سے بڑے اور کل جن وانس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھیجے گئے تھے۔

 ان گنہگاروں  پر دنیا کی رسوائی بھی آئی، جس طرح انہوں نے مسلمانوں کو روکا جلا وطن کیا ٹھیک اس کا پورا بدلہ انہیں ملا یہ بھی روکے گئے، جلا وطن کئے گئے اور ابھی اخروی عذاب باقی ہیں کیونکہ انہوں نے بیت اللہ شریف کی حرمت توڑی وہاں بت بٹھائے غیر اللہ سے دعائیں اور مناجاتیں شروع کر دیں۔ ننگے ہو کر بیت اللہ کا طواف کیا وغیرہ

 اور اگر اس سے مراد نصرانی لئے جائیں تو بھی ظاہر ہے کہ انہوں نے بھی بیت المقدس کی بےحرمتی کی تھی، بالخصوص اس صخرہ(پتھر) کی جس کی طرف یہود نماز پڑھتے تھے،

 اسی طرح جب یہودیوں نے بھی نصرانیوں سے بہت زیادہ ہتک کی اور تو ان پر ذلت بھی اس وجہ سے زیادہ نازل ہوئی

 دنیا کی رسوائی سے مراد امام مہدی کے زمانہ کی رسوائی بھی ہے اور جزیہ کی ادائیگی بھی ہے

حدیث شریف میں ایک دعا وارد ہوئی ہے:

اللَّهُمَّ أَحْسِنْ عَاقِبَتَنَا فِي الْأُمُورِ كُلِّهَا وَأَجِرْنَا مِنْ خِزْيِ الدُّنْيَا وَعَذَابِ الْآخِرَة

اے اللہ تو ہمارے تمام کاموں کا انجام اچھا کر اور دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب سے نجات دے

یہ حدیث حسن ہے مسند احمد میں موجود ہے صحاح ستہ میں نہیں اس کے راوی بشر بن ارطاۃ صحابی ہیں۔

 ان سے ایک تو یہ حدیث مروی ہے دوسری وہ حدیث مروی ہے جس میں ہے کہ غزوے اور جنگ کے موقعہ پر ہاتھ نہ کاٹے جائیں۔

وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ ۚ

اور مشرق اور مغرب کا مالک اللہ ہی ہے۔ تم جدھر بھی منہ کرو ادھر ہی اللہ کا منہ ہے

اس آیت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ان اصحاب کو تسلی دی جاری ہے جو مکہ سے نکالے گئے اور اپنی مسجد سے روکے گئے۔

 حضور ﷺ مکہ شریف میں نماز بیت المقدس کی طرف منہ کر کے پڑھتے تو کعبتہ اللہ بھی سامنے ہی ہوتا تھا جب مدینہ تشریف لائے تو سولہ سترہ ماہ تک تو ادھر ہی نماز پڑھتے رہے مگر پھر اللہ تعالیٰ نے کعبتہ اللہ کی طرف متوجہ ہونے کا حکم دیا

 امام ابوعبیدہ قاسم بن سلام نے اپنی کتاب ناسخ منسوخ میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ قرآن میں سب سے پہلا منسوخ حکم یہی قبلہ کا حکم ہے وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ والی آیت نازل ہوئی

حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھنے لگے پھر آیت وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ (۲:۱۴۹) نازل ہوئی اور آپ نے بیت اللہ کی طرف متوجہ ہو کر نماز ادا کرنی شروع کی،

مدینہ میں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے لگے تو یہود بہت خوش ہوئے لیکن جب یہ حکم چند ماہ کے بعد منسوخ ہوا اور آپ کو اپنی چاہت، دعا اور انتظار کے مطابق کعبتہ اللہ کی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھنے کا حکم دیا گیا تو ان یہودیوں نے طعنے دینے شروع کر دیئے کہ اب اس قبلہ سے کیوں ہٹ گئے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ مشرق و مغرب کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے پھر یہ اعتراض کیا؟ جدھر اس کا حکم ہو پھر جانا چاہئے

 حضرت ابن عباسؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ مشرق مغرب میں جہاں کہیں بھی ہو منہ کعبہ کی طرف کرو،

 بعض بزرگوں کا بیان ہے کہ یہ آیت کعبہ کی طرف متوجہ ہونے کے حکم سے پہلے اتری ہے

 اور مطلب یہ ہے کہ مشرق مغرب جدھر چاہو منہ پھیرو سب جہتیں اللہ کی ہیں اور سب طرف اللہ موجود ہے اس سے کوئی جگہ خالی نہیں

جیسے فرمایا ولا ادنی من ذالک ولا اکثر الا ھو معھم اینما کانوا تھوڑے بہت جو بھی ہوں اللہ ان کے ساتھ ہے پھر یہ حکم منسوخ ہو کر کعبتہ اللہ کی طرف متوجہ ہونا فرض ہوا۔

اس قول میں جو یہ لفظ ہیں کہ اللہ سے کوئی جگہ خالی نہیں اگر اس سے مراد علم اللہ ہو تو صحیح ہے کوئی مکان اللہ کے علم سے خالی نہیں اور اگر ذات باری مراد ہو تو ٹھیک نہیں اللہ تعالیٰ کی پاک ذات اس سے بہت بلند و بالا ہے کہ وہ اپنی مخلوق میں سے کسی چیز میں محصور ہو

 ایک مطلب آیت کا یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ یہ آیت سفر اور رہ روی اور خوف کے وقت کے لئے ہے کہ ان وقتوں میں نفل نماز کو جس طرف منہ ہو ادا کر لیا کرو۔

حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:

 ان کی اونٹنی کا منہ جس طرح ہوتا تھا نماز پڑھ لیتے تھے اور فرماتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہی تھا اور اس آیت کا مطلب بھی یہی ہے

آیت کا ذکر کئے بغیر یہ حدیث مسلم ترمذی نسائی ابن ابی حاتم ابن مردویہ میں مروی ہے اور اصل اسکی صحیح بخاری صحیح مسلم میں بھی موجود ہے

صحیح بخاری شریف میں ہے:

 ابن عمر ؓسے جب نماز خوف کے بارے میں پوچھا جاتا تو نماز خوف کو بیان فرماتے اور کہتے کہ جب اس سے بھی زیادہ خوف ہو تو پیدل اور سوار کھڑے پڑھ لیا کرو منہ خواہ قبلہ کی جانب ہو خواہ نہ ہو

حضرت نافع کا بیان ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓمیرے خیال سے اسے مرفوع بیان کرتے تھے۔

امام شافعی کا مشہور فرمان اور امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ سفر خواہ پر امن ہو خواہ خوف ڈر اور لڑائی کا ہو سواری پر نفل ادا کر لینے جائز ہیں امام مالک اور آپ کی جماعت اس کے خلاف ہے۔

امام ابو یوسف اور ابو عسید اصطخری بغیر سفر کے بھی اسے جائز کہتے ہیں

حضرت انسؓ سے بھی یہ روایت ہے امام ابو جعفر طبری بھی اسے پسند فرماتے ہیں یہاں تک کہ وہ تو پیدل چلنے والے کو بھی رخصت دیتے ہیں

 بعض اور مفسرین کے نزدیک یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جنہیں قبلہ معلوم نہ ہو سکا اور انہوں نے قیاس سے مختلف جہتوں کی طرف نماز پڑھی جس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ان کی وہ نماز ادا شدہ بتائی گئی

حضرت ربیعہؓ فرماتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے ایک منزل پر اترے رات اندھیری تھی لوگوں نے پتھر لے لے کر بطور نشان کے قبلہ رخ رکھ کر نماز پڑھنی شروع کر دی صبح اٹھ کر روشنی میں دیکھا تو نماز قبلہ کی طرف ادا نہیں ہوئی تھی، ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی،

یہ حدیث ترمذی شریف میں ہے امام صاحب نے اسے حسن کہا ہے اس کے دو راوی ضعیف ہیں

ایک اور روایت میں ہے:

اس وقت گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا ہوا تھا اور ہم نے نماز پڑھ کر اپنے اپنے سامنے خط کھینچ دیئے تھے تاکہ صبح روشنی میں معلوم ہو جائے کہ نماز قبلہ کی طرف ادا ہوئی یا نہیں؟ صبح معلوم ہوا کہ قبلہ جاننے میں ہم نے غلطی کی لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں وہ نماز لوٹانے کا حکم نہیں دیا اور یہ آیت نازل ہوئی

اس روایت کے بھی دو راوی ضعیف ہیں یہ روایت دار قطنی میں بھی موجود ہے۔

ایک روایت میں ہے کہ ان کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نہ تھے یہ بھی سنداً ضعیف ہے

ایسی نماز کے لوٹانے کے بارے میں علماء کے دو قول میں سے ٹھیک قول یہی ہے کہ دہرائی نہ جائے اور اسی قول کی تائید کرنے والی یہ حدیثیں ہیں جو اوپر بیان ہوئیں۔

بعض مفسرین کہتے ہیں کہ اس کے نازل ہونے کا باعث نجاشی ہے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی موت کی خبر دی اور کہا ان کے جنازہ کی غائبانہ نماز پڑھو تو بعض نے کہا کہ وہ تو مسلمان نہ تھا نصرانی تھا اس پر آیت نازل ہوئی کہ وَإِنَّ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَمَن يُؤْمِنُ بِاللَّهِ (۳:۱۹۹)  بعض اہل کتاب اللہ تعالیٰ پر اور اس چیز پر جو اے مسلمانو تمہاری طرف نازل ہوئی اور اس چیز پر جو ان پر نازل کی گئی ایمان لاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہتے ہیں

 صحابہ نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہ قبلہ کی طرف تو نماز نہیں پڑھتا تھااس پر یہ آیت نازل ہوئی

 لیکن یہ روایت غریب ہے واللہ اعلم

اسکے معنی یہ بھی کئے گئے ہیں کہ وہ بیت المقدس کی طرف اس لئے نمازیں پڑھتے رہے کہ انہیں اس کے منسوخ ہو جانے کا علم نہیں ہوا تھا،

قرطبی فرماتے ہیں:

 ان کے جنازے کی نماز حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھی اور یہ دلیل ہے کہ جنازے کی نماز غائبانہ ادا کرنی چاہئے

 اور اس کے نہ ماننے والے اس حکم کو مخصوص جانتے ہیں اور اس کی تین تاویلیں کرتے ہیں

ایک تو یہ کہ آپ نے اس کے جنازے کو دیکھ لیا زمین آپ کے لئے سمیٹ لی گئی تھی،

دوسری یہ کہ چونکہ وہاں ان کے پاس ان کے جنازہ کی نماز پڑھنے والا اور کوئی نہ تھا اس لئے آپ نے یہاں غائبانہ ادا کی

 ابن عربی اسی جواب کو پسند کرتے ہیں

قرطبی کہتے ہیں کہ یہ ناممکن ہے کہ ایک بادشاہ مسلمان ہو اور اس کی قوم کا کوئی شخص اس کے پاس مسلمان نہ ہو،

ابن عربی اسکے جواب میں کہتے ہیں کہ شاید انکے نزدیک جنازے کی نماز ان کی شریعت میں نہ ہو، یہ جواب بہت اچھا ہے،

تیسری یہ کہ نماز آپ نے اس لئے ادا کی کہ دوسرے لوگوں کی رغبت کا سبب ہو اور اس جیسے دوسرے بادشاہ بھی دین اسلام کی طرف مائل ہوں

لیکن یہ تینوں تاویلیں ظاہر کے خلاف ہونے کے علاوہ صرف احتمالات کی بنا پر ہیں اور انہیں مان لینے کے بعد بھی مسئلہ وہیں رہتا ہے کیا جنازہ غائبانہ پڑھنا چاہئے کیونکہ گو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جنازے کا مشاہدہ کر لیا لیکن صحابہ کی نماز تو غائبانہ ہی رہی۔ اگر ہم دوسرا جواب مان لیں تو بھی جنازہ تو غائبانہ ہی ہوا جو لوگ سرے سے نماز جنازہ غائبانہ کے قائل ہی نہیں وہ تو اس صورت میں بھی قائل نہیں ہیں اور یہ بات تو دل کو لگتی ہی نہیں کہ ان کے نزدیک نماز جنازہ شروع نہ ہو شریعت ان کی بھی اسلام ہی تھی نہ کہ کوئی اور تیسرا جواب بھی کچھ ایسا ہی ہے اور برتقدیر تسلیم اب بھی وہ وجہ باقی ہے کہ جنازہ غائبانہ ادا کیا کریں تاکہ دوسرے لوگوں کی رغبت اسلام کا باعث ہو واللہ اعلم۔ مترجم

ابن مردویہ میں حدیث ہے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اہل مدینہ اہل شام اہل عراق کا قبلہ مشرق و مغرب کے درمیان ہے

یہ روایت ترمذی میں بھی دوسرے الفاظ سے مروی ہے اور اس کے ایک راوی ابومعشر کے حافظہ پر بعض اہل علم نے کلام کیا ہے

 امام ترمذی نے اسے ایک اور سند سے بھی وارد کیا ہے اور اسے حسن صحیح کہا ہے حضرت عمر بن خطاب علی ابن ابوطالب حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی یہ مروی ہے

حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں جب تو مغرب کو اپنی دائیں جانب اور مشرق کو بائیں جانب کر لے تو تیرے سامنے کی جہت قبلہ ہو جائے گا

حضرت عمر ؓسے بھی اوپر کی طرح حدیث مروی ہے کہ مشرق و مغرب کے درمیان قبلہ ہے ملاحظہ ہو دار قطنی بیہقی وغیرہ

 امام ابن جریر فرماتے ہیں یہ مطلب بھی اس آیت کا ہو سکتا ہے کہ تم مجھ سے دعائیں مانگنے میں اپنا منہ جس طرف بھی کرو میرا منہ بھی اسی طرف پاؤ گے اور میں تمہاری دعاؤں کو قبول فرماؤں گا،

حضرت مجاہد سے مروی ہے:

 جب یہ آیت ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (۴۰:۶۰) مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا اتری تو لوگوں نے کہا کس طرف رخ کر کے دعا کریں اس کے جواب میں آیت فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ (۲:۱۱۵)  نازل ہوئی

إِنَّ اللَّهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (۱۱۵)

اللہ تعالیٰ کشادگی اور وسعت والا اور بڑے علم والا ہے۔‏

پھر فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام وسعتوں پر غالب، گنجائش والا اور علم والا ہے جس کی کفایت سخاوت اور فضل و کرم نے تمام مخلوق کا احاطہ کر کھا ہے وہ سب چیزوں کو جانتا بھی ہے کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی اس کے علم سے باہر نہیں بلکہ وہ تمام چیزوں کا عالم ہے۔

وَقَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا ۗ سُبْحَانَهُ ۖ بَلْ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ

یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی اولاد ہے، (نہیں بلکہ) وہ پاک ہے زمین اور آسمان کی تمام مخلوق اسکی ملکیت میں ہے

یہ اور اس کے ساتھ کی آیت نصرانیوں کے رد میں ہے اور اس طرح ان جیسے یہود و مشرکین کی تردید میں ہے جو اللہ کی اولاد بتاتے تھے ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین و آسمان وغیرہ تمام چیزوں کا تو اللہ مالک ہے ان کا پیدا کرنے والا انہیں روزیاں دینے والا ان کے اندازے مقرر کرنے والا انہیں قبضہ میں رکھنے والا ان میں ہر تغیر و تبدل کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے پھر بھلا اس مخلوق میں سے کوئی اسکی اولاد کیسے ہو سکتا ہے؟

نہ عزیرؑ اور نہ ہی عیسیٰؑ اللہ کے بیٹے بن سکتے ہیں جیسے کہ یہود و نصاریٰ کا خیال تھا نہ فرشتے اس کی بیٹیاں بن سکتے ہیں جیسے کہ مشرکین عرب کا خیال تھا۔ اس لئے دو برابر کی مناسبت رکھنے والے ہم جنس سے اولاد ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا نہ کوئی نظیر نہ اس کی عظمت و کبریائی میں اس کا کوئی شریک نہ اس کی جنس کا کوئی

اور وہ تو آسمانوں اور زمینوں کا پیدا کرنے والا ہے اس کی اولاد کیسے ہو گی؟ اس کی کوئی بیوی بھی نہیں وہ چیز کا خالق اور ہر چیز کا عالم ہے یہ لوگ رحمٰن کی اولاد بتاتے ہیں یہ کتنی بےمعنی اور بیہودہ بےتکی بات تم کہتے ہو؟ اتنی بری بات زبان سے نکالتے ہو کہ اس سے آسمانوں کا پھٹ جانا اور زمین کا شق ہو جانا اور پہاڑوں کا ریزہ ریز ہو جانا ممکن ہے۔

ان کا دعویٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ صاحب اولاد ہے اللہ کی اولاد تو کوئی ہو ہی نہیں سکتی اس کے سوا جو بھی ہے سب اس کی ہی ملکیت ہے زمین و آسمان کی تمام ہستیاں اس کی غلامی میں ظاہر ہونے والی ہیں جنہیں ایک ایک کر کے اس نے گھیر رکھا ہے اور شمار کر رکھا ہے ان میں سے ہر ایک اس کے پاس قیامت والے دن تنہا تنہا پیش ہونے والی ہے

 پس غلام اولاد نہیں بن سکتا ملکیت اور ولدیت دو مختلف اور متضاد حیثیتیں ہیں دوسری جگہ پوری سورت میں اس کی نفی فرمائی ارشاد ہوا :

قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ ـ اللَّهُ الصَّمَدُ ـ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ ـ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ (۱۱۲:۱،۴)

آپ کہہ دیجئے کہ وہ اللہ تعالیٰ ایک (ہی) ہے اللہ تعالیٰ بےنیاز ہے نہ اس سے کوئی پیدا ہوا اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے

ان آیتوں اور ان جیسی اور آیتوں میں اس خالق کائنات نے اپنی تسیح و تقدیس بیان کی اور اپنا بےنظیر بےمثل اور لا شریک ہونا ثابت کیا اور ان مشرکین کے اس گندے عقیدے کو باطل قرار دیا اور بتایا کہ وہ تو سب کا خالق و رب ہے پھر اس کی اولاد بیٹے بیٹیاں کہاں سے ہوں گی؟

سورۃ بقرہ کی اس آیت کی تفسیر میں صحیح بخاری شریف کی ایک قدسی حدیث میں ہے :

 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مجھے ابن آدم جھٹلاتا ہے اسے یہ لائق نہ تھا مجھے وہ گالیاں دیتا ہے اسے یہ نہیں چاہئے تھا اس کا جھٹلانا تو یہ ہے کہ وہ خیال کر بیٹھتا ہے کہ میں اسے مار ڈالنے کے بعد پھر زندہ کرنے پر قادر نہیں ہوں اور اس کا گالیاں دینا یہ ہے کہ وہ میری اولاد بتاتا ہے حالانکہ میں پاک ہوں اور میری اولاد اور بیوی ہو اس سے بہت بلند و بالا ہوں

یہی حدیث دوسری سندوں سے اور کتابوں میں بھی با اختلاف الفاظ مروی ہے

 صحیحین میں ہے حضور علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:

 بری باتیں سن کر صبر کرنے میں اللہ تعالیٰ سے زیادہ کوئی کامل نہیں۔ لوگ اس کی اولاد بتائیں اور وہ انہیں رزق و عافیت دیتا رہے

كُلٌّ لَهُ قَانِتُونَ (۱۱۶)

اور ہر ایک اسکا فرما نبردار ہے‏

پھر فرمایا ہر چیز اس کی اطاعت گزار ہے اس کی غلامی کا اقرار کئے ہوئے ہے اس کے لئے مخلص۔ اس کی سرکار میں قیامت کے روز دست بستہ کھڑی ہونے والی اور دنیا میں بھی عبادت گزار ہے جس کو کہے یوں ہو جاؤ یا اس طرح بن۔ فوراً وہ اسی طرح ہو جاتی اور بن جاتی ہے۔ اس طرح ہر ایک اس کے سامنے پست و مطیع ہے کفار نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے مطیع ہیں

 ہر موجود کے سائے اللہ کے سامنے جھکتے رہتے ہیں، قرآن نے اور جگہ فرمایا :

وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَظِلَالُهُم بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ ۩ (۱۳:۱۵)

اللہ ہی کے لئے زمین اور آسمانوں کی سب مخلوق خوشی اور ناخوشی سے سجدہ کرتی ہے اور ان کے سائے بھی صبح شام۔ سجدہ‏

 ایک حدیث میں مروی ہے:

 جہاں کہیں قرآن میں قنوت کا لفظ ہے وہاں مراد اطاعت ہے

 لیکن اس کا مرفوع ہونا صحیح نہیں ممکن ہے صحابی کا یا اور کسی کا کلام ہو اس سند سے اور آیتوں کی تفسیر بھی مرفوعاً مروی ہے لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ یہ ضعیف ہے کوئی شخص اس سے دھوکہ میں نہ پڑے واللہ اعلم

بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ

وہ زمین اور آسمانوں کو پیدا کرنے والا ہے،

پھر فرمایا وہ آسمان و زمین کو بغیر کسی سابقہ نمونہ کے پہلی ہی بار کی پیدائش میں پیدا کرنے والا ہے

لغت میں بدعت کے معنی تو پیدا کرنے نیا بنانے کے ہیں حدیث میں ہے:

 ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے

یہ تو شرعی بدعت ہےکبھی بدعت کا اطلاق صرف لغتہً ہوتا ہے شرعاً مراد نہیں ہوتی ۔ جیسے حضرت عمر ؓنے لوگوں کو نماز تراویح پر جمع کیا اور پھر اسے اسی طرح جاری دیکھ کر فرمایا تھا اچھی بدعت ہے

بَدِيعُ مبدع سے پھیرا گیا  ہے جیسے مولم سے الیم اور مسمیع سے سمیع

معنی مبدع کے انشا اور نو پیدا کرنے والے کے ہیں بغیر مثال بغیر نمونہ اور بغیر پہلی پیدائش کے پیدا کرنے والے

 بدعتی کو اس لئے بدعتی کہا جاتا ہے کہ وہ بھی اللہ کے دین میں وہ کام یا وہ طریقہ ایجاد کرتا ہے جو اس سے پہلے شریعت میں نہ ہو اسی طرح کسی نئی بات کے پیدا کرنے والے کو عرب مبتدع کہتے ہیں

امام ابن جریر فرماتے ہیں :

مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ اولاد سے پاک ہے وہ آسمان و زمین کی تمام چیزوں کا مالک ہے ہر چیز اس کی وحدانیت کی دلیل ہے ہر چیز اس کی اطاعت گزاری کا اقرار کرتی ہے۔

بَدِيعُ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ أَنَّى يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُنْ لَّهُ صَـحِبَةٌ وَخَلَقَ كُلَّ شَىْءٍ وهُوَ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيمٌ  (۶:۱۰۱)

وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے اللہ تعالیٰ کے اولاد کہاں ہوسکتی ہے حالانکہ اسکی کوئی بیوی تو ہے نہیں اور اللہ تعالیٰ نے ہرچیز کو پیدا کیا اور وہ ہرچیز کو خوب جانتا ہے

اور جگہ فرمایا

وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَـٰنُ وَلَدًا ۔۔۔وَكُلُّهُمْ آتِيهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَرْدًا (۱۹:۸۸،۹۵)

ان کا قول یہ ہے کہ اللہ رحمٰن نے بھی اولاد اختیار کی ہے۔ یقیناً تم بہت بری اور بھاری چیز لائے ہو۔‏

قریب ہے کہ اس قول کی وجہ سے آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں‏ کہ وہ رحمٰن کی اولاد ثابت کرنے بیٹھے ۔

شان رحمٰن کے لائق نہیں کہ وہ اولاد رکھے۔‏ آسمان و زمین میں جو بھی ہیں سب کے سب اللہ کے غلام بن کر ہی آنے والے ہیں ۔

ان سب کو اس نے گھیر رکھا ہے اور سب کو پورے گن بھی رکھا ہے یہ سارے کے سارے قیامت کے دن اکیلے اس کے پاس حاضر ہونے والے ہیں

سب کا پیدا کرنے والا، بنانے والا، موجود کرنے والا، بغیر اصل اور مثال کے انہیں وجود میں لانے والا، ایک وہی رب العالمین ہے اس کی گواہی ہر چیز دیتی ہے خود مسیح علیہ السلام بھی اس کے گواہ اور بیان کرنے والے ہیں جس رب نے ان تمام چیزوں کو بغیر نمونے کے اور بغیر مادے اور اصل کے پیدا کیا اس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی بےباپ پیدا کر دیا پھر کوئی وجہ نہیں کہ انہیں تم خواہ مخواہ اللہ کا بیٹا مان لو

وَإِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ (۱۱۷)

وہ جس کام کو کرنا چاہے کہہ دیتا ہے کہ ہو جا، بس وہی ہو جاتا ہے

پھر فرمایا اس اللہ کی قدرت سلطنت سطوت و شوکت ایسی ہے کہ جس چیز کو جس طرح کی بنانا اور پیدا کرنا چاہے اسے کہہ دیتا ہے کہ اس طرح اور ایسی ہو جا وہ اسی وقت ہو جاتی ہے جیسے فرمایا :

إِنَّمَآ أَمْرُهُ إِذَآ أَرَادَ شَيْئاً أَن يَقُولَ لَهُ كُن فَيَكُونُ (۳۶:۸۲)

وہ جب کبھی کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے اسے اتنا فرما دینا (کافی ہے) کہ ہو جا، تو وہ اسی وقت ہو جاتی ہے

دوسری جگہ فرمایا :

إِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَىْءٍ إِذَآ أَرَدْنَاهُ أَن نَّقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ  (۱۶:۴۰)

ہم جب کسی چیز کا ارادہ کرتے ہیں تو صرف ہمارا یہ کہہ دینا ہوتا ہے کہ ہو جا، پس وہ ہو جاتی ہے

اور ارشاد ہوتا ہے:

وَمَآ أَمْرُنَآ إِلاَّ وَحِدَةٌ كَلَمْحٍ بِالْبَصَرِ (۵۴:۵۰)

اور ہمارا حکم صرف ایک دفعہ (کا ایک کلمہ) ہی ہوتا ہے جیسے آنکھ کا جھپکنا

پس مندرجہ بالا آیت میں عیسائیوں کو نہایت لطیف پیرا یہ میں یہ بھی سمجھا دیا گیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی اسی کن کے کہنے سے پیدا ہوئے ہیں دوسری جگہ صاف صاف فرما دیا:

إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِندَ اللَّهِ كَمَثَلِ ءَادَمَ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ (۳:۵۹)

اللہ تعالیٰ کے نزدیک عیسیٰ ؑ کی مثال ہوبہو آدم ؑ کی مثال ہے جسے مٹی سے بنا کر کے کہہ دیا کہ ہوجا پس وہ ہوگیا۔‏

وَقَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ لَوْلَا يُكَلِّمُنَا اللَّهُ أَوْ تَأْتِينَا آيَةٌ ۗ

اسی طرح بےعلم لوگوں نے بھی کہا کہ خود اللہ تعالیٰ ہم سے باتیں کیوں نہیں کرتا، یا ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں آتی

رافع بن حریملہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ اگر آپ سچے ہیں تو اللہ تعالیٰ خود ہم سے کیوں نہیں کہتا؟ ہم بھی تو خود اس سے اس کا کلام سنیں ، اس پر یہ آیت اتری

مجاہد کہتے ہیں یہ بات نصرانیوں نے کہی تھی،

ابن جریر فرماتے ہیں یہی ٹھیک بھی معلوم ہوتا ہے اس لئے کہ آیت انہی سے متعلق بیان کے دوران میں ہے

لیکن یہ قول سوچنے کے قابل ہے

 قرطبی فرماتے ہیں کہ انہوں نے کہا تھا کہ آپ کی نبوت کی اطلاع خود جناب باری ہمیں کیوں نہیں دیتا؟اور یہی بات ٹھیک ہے واللہ اعلم۔

بعض اور مفسر کہتے ہں یہ قول کفار عرب کا تھا

كَذَلِكَ قَالَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِثْلَ قَوْلِهِمْ ۘ

اسی طرح ایسی ہی بات ان کے اگلوں نے بھی کہی تھی،

اسی طرح بےعلم لوگوں نے بھی کہا تھاان سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں، قرآن کریم میں اور جگہ ہے:

وَإِذَا جَآءَتْهُمْ ءَايَةٌ قَالُواْ لَن نُّؤْمِنَ حَتَّى نُؤْتَى مِثْلَ مَآ أُوتِىَ رُسُلُ اللَّهِ اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ (۶:۱۲۴)

اور جب ان کو کوئی آیت پہنچتی ہے تو یوں کہتے ہیں کہ ہم ہرگز ایمان نہ لائیں گے جب تک کہ ہم کو بھی ایسی ہی چیز نہ دی جائے جو اللہ کے رسولوں کو دی جاتی ہے

اور جگہ فرمایا:

وَقَالُواْ لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الأَرْضِ يَنبُوعًا (۱۷:۹۰)

انہوں نے کہا کہ ہم آپ پر ہرگز ایمان لانے کے نہیں تا وقتیکہ آپ ہمارے لئے زمین سے کوئی چشمہ جاری نہ کر دیں۔‏

اور جگہ فرمایا :

وَقَالَ الَّذِينَ لاَ يَرْجُونَ لِقَآءَنَا لَوْلاَ أُنزِلَ عَلَيْنَا الْمَلَـئِكَةُ أَوْ نَرَى رَبَّنَا (۲۵:۲۱)

اور جنہیں ہماری ملاقات کی توقع نہیں انہوں نے کہا کہ ہم پر فرشتے کیوں نہیں اتارے جاتے یا ہم اپنی آنکھوں سے اپنے رب کو دیکھ لیتے

اور جگہ فرمایا :

بَلْ يُرِيدُ كُلُّ امْرِىءٍ مِّنْهُمْ أَن يُؤْتَى صُحُفاً مُّنَشَّرَةً (۷۴:۵۲)

بلکہ ان میں سے ہر ایک شخص چاہتا ہے کہ اسے کھلی ہوئی کتابیں دی جائیں

یہ آیتیں جو صاف بتاتی ہیں کہ مشرکین عرب نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف تکبر و عناد کی بنا پر ایسی ہیں چیزیں طلب کیں اسی طرح یہ مطالبہ بھی انہی مشرکین کا تھا، ان سے پہلے اہل کتاب نے بھی ایسے ہی بےمعنی سوالات کئے تھے

 ارشاد ہوتا ہے:

يَسْأَلُكَ أَهْلُ الْكِتَـبِ ۔۔۔ فَقَالُواْ أَرِنَا اللَّهِ جَهْرَةً  (۴:۱۵۳)

آپ سے یہ اہل کتاب درخواست کرتے ہیں کہ آپ ان کے پاس کوئی آسمانی کتاب لائیں

حضرت موسیٰ علیہ السلام سے انہوں نے اس سے بہت بڑی درخواست کی تھی کہ ہمیں کھلم کھلا اللہ تعالیٰ کو دکھا دے

اور جگہ فرمان ہے:

وَإِذْ قُلْتُمْ يَـمُوسَى لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً (۲:۵۵) 

کہ جب تم نے کہا اے موسیٰ ہم تجھ پر ہرگز ایمان نہ لائیں گے جب تک اپنے رب کو سامنے نہ دیکھ لیں

تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ ۗ

اِن کے اور اُن کے دل یکساں ہوگئے۔

ان کے اور ان کے دل یکساں اور مشابہ ہو گئے یعنی ان مشرکین کے دل سابقہ کفار جیسے ہو گئےجیسے  فرمایا:

كَذَلِكَ مَآ أَتَى الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ مِّن رَّسُولٍ إِلاَّ قَالُواْ سَـحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ (۵۱:۵۲،۵۳)

اس طرح جو لوگ ان سے پہلے گزرے ہیں ان کے پاس جو بھی رسول آیا انہوں نے کہہ دیا کہ یا تو یہ جادوگر ہے یا دیوانہ ہے۔‏ کیا یہ اس بات کی ایک دوسرے کو وصیت کرتے گئے ہیں

قَدْ بَيَّنَّا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ (۱۱۸)

ہم نے تو یقین والوں کے لئے نشانیاں بیان کر دیں۔‏

فرمایا کہ ہم نے یقین والوں کے لئے اپنی آیتیں اسی طرح بیان کر دیں ہیں جن سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق عیاں ہے کسی اور چیز کی وضاحت باقی نہیں رہی یہی نشانیاں ایمان لانے کے لئے کافی ہیں ہاں جن کے دلوں پر مہر لگی ہوئی ہو انہیں کسی آیت سے کوئی فائدہ نہ ہو گا جیسے فرمایا

إِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ ـ وَلَوْ جَاءَتْهُمْ كُلُّ آيَةٍ حَتَّىٰ يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ (۱۰:۹۶،۹۷)

جن لوگوں کے حق میں آپ کے رب کی بات ثابت ہو چکی ہے وہ ایمان نہ لائیں گے گو انکے پاس تمام نشانیاں پہنچ جائیں جب تک وہ دردناک عذاب کو نہ دیکھ لیں

إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا ۖ وَلَا تُسْأَلُ عَنْ أَصْحَابِ الْجَحِيمِ (۱۱۹)

ہم نے آپ کو حق کے ساتھ خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے اور جہنمیوں کے بارے میں آپ سے پرسش نہیں ہوگی۔‏

حدیث میں ہے:

 خوشخبری جنت کی اور ڈراوا جہنم سے

لَا تُسْأَلُ کی دوسری قرأت مَا تُسْأَلُ بھی ہے اور ابن مسعودؓ کی قرأت میں لَن تُسْأَلُ بھی ہےیعنی تجھ سے کفار کی بابت سوال نہیں کیا جائے گاجیسے فرمایا:

فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَـغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ (۱۳:۴۰)

تو آپ پر تو صرف پہنچا دینا ہی ہے۔ حساب تو ہمارے ہی ذمہ ہی ہے۔

اور فرمایا :

فَذَكِّرْ إِنَّمَآ أَنتَ مُذَكِّرٌ - لَّسْتَ عَلَيْهِم بِمُسَيْطِرٍ  (۸۸:۲۱،۲۲)

تو نصیحت کرتا رہ تو صرف نصیحت کرنے والا ہے ان پر داروغہ نہیں

 اور جگہ فرمایا :

نَّحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُونَ وَمَآ أَنتَ عَلَيْهِمْ بِجَبَّارٍ فَذَكِّرْ بِالْقُرْءَانِ مَن يَخَافُ وَعِيدِ (۵۰:۴۵)

یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں ہم بخوبی جانتے ہیں

اور آپ ان پر جبر کرنے والے نہیں تو آپ قرآن کے ذریعے انہیں سمجھاتے رہیں جو میرے وعید (ڈراوے کے وعدوں) سے ڈرتے ہیں ۔‏

اسی مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں

 ایک قرأت اس کی ولا تسائل بھی ہے یعنی ان جہنمیوں کے بارے میں اے نبی مجھ سے کچھ نہ پوچھو

 عبدالرزاق میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 کاش کہ میں اپنے ماں باپ کا حال جان لیتا، کاش کہ میں اپنے ماں باپ کا حال جان لیتا، کاش کہ میں اپنے ماں باپ کا حال جان لیتا۔ اس پر یہ فرمان نازل ہوا۔ پھر آخری دم تک آپ نے اپنے والدین کا ذکر نہ فرمایا

 ابن جریر نے بھی اسے بروایت موسیٰ بن عبیدہ وارد کیا ہے لیکن اس راوی پر کلام ہے

 قرطبی کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ جہنمیوں کا حال اتنا بد اور برا ہے کہ تم کچھ نہ پوچھو،

 تذکرہ میں قرطبی نے ایک روایت نقل کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین زندہ کئے گئے اور ایمان لے آئے

 اور صحیح مسلم میں جو حدیث ہے جس میں آپ نے کسی کے سوال پر فرمایا ہے کہ میرا باپ اور تیرا باپ آگ میں ہیں

 ان کا جواب بھی وہاں ہے لیکن یاد رہے کہ آپ کے ماں باپ کے زندہ ہونے کی روایت کتب صحاح ستہ وغیرہ میں نہیں اور اس کی اسناد ضعیف ہے واللہ اعلم۔

 ابن جریر کی ایک مرسل حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن پوچھا کہ میرے باپ کہاں ہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی،

ابن جریر نے اس کی تردید کی ہے اور فرمایا ہے کہ یہ محال ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ماں باپ کے بارے میں شک کریں

 پہلی ہی قرأت ٹھیک ہے لیکن ہمیں امام ہمام پر تعجب آتا ہے کہ انہوں نے اسے محال کیسے کہہ دیا؟ ممکن ہے یہ واقعہ اس وقت کا ہو جب آپ اپنے ماں باپ کے لئے استفسار کرتے تھے اور انجام معلوم نہ تھا پھر جب ان دونوں کی حالت معلوم ہو گئی تو آپ اس سے ہٹ گئے اور بیزاری ظاہری فرمائی اور صاف بتا دیا کہ وہ دونوں جہنمی ہیں جیسے کہ صحیح حدیث سے ثابت ہو چکا ہے اس کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں

 مسند احمد میں ہے :

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضرت عطا بن یسار نے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت و ثنا تورات میں کیا ہے تو آپ نے فرمایا

ہاں اللہ کی قسم جو صفتیں آپ کی قرآن میں ہیں وہی تورات میں بھی ہیں، تورات میں ہےکہ  اے نبی ہم نے تجھے گواہ اور خوشخبریاں دینے والا اور ڈرانے والا اور ان پڑھوں کا بچاؤ بنا کر بھیجا ہے تو میرا بندہ اور میرا رسول ہے میں نے تیرا نام متوکل رکھا ہے تو نہ بد زبان ہے نہ سخت گو نہ بدخلق نہ بازاروں میں شور غل کرنے والا ہے نہ تو برائی کے بدلے برائی کرنے والا ہے بلکہ معاف اور درگزر کرنے والا ہے اللہ تعالیٰ انہیں دنیا سے نہ اٹھائے گا جب تک کہ تیرے دین کو تیری وجہ سے بالکل ٹھیک اور درست نہ کر دے اور لوگ لا الہ الہ اللہ کا اقرار نہ کر لیں اور ان کی اندھی آنکھیں کھل نہ جائیں اور ان کے بہرے کان سننے نہ لگ جائیں اور ان کے زنگ آلود دل صاف نہ ہو جائیں

بخاری کی کتاب الیسوع میں بھی یہ حدیث ہے اور کتاب التفسیر میں بھی

ابن مردویہ میں اس روایت کے بعد مزید یہ ہے کہ میں نے پھر جا کر حضرت کعب سے یہی سوال کیا تو انہوں نے بھی ٹھیک یہی جواب دیا۔

وَلَنْ تَرْضَى عَنْكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ ۗ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَى ۗ

آپ سے یہودی اور نصاریٰ  ہرگز راضی نہیں ہوں گے جب تک کہ آپ ان کے مذہب کے تابع نہ بن جائیں آپ کہہ دیجئے کہ اللہ کی ہدایت ہی ہدایت ہے

آیت بالا کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ تجھ سے ہرگز راضی نہیں ہوں گے لہذا تو بھی انہیں چھوڑ اور رب کی رضا کے پیچھے لگ جا تو نے انہیں دعوت رسالت پہنچا دی۔ دین حق وہی ہے جو اللہ نے تجھے دیا ہے تو اس پر جم جا۔

حدیث شریف میں ہے:

 میری اُمت کی ایک جماعت حق پر جم کر دوسروں کے مقابلہ میں رہے گی اور غلبہ کے ساتھ رہے گی یہاں تک کہ قیامت آئے

وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ (۱۲۰)

اور اگر آپ نے باوجود اپنے پاس علم آ جانے کے، پھر ان کی خواہشوں کی پیروی کی تو اللہ کے پاس آپ کا نہ تو کوئی والی ہوگا اور نہ مددگار

پھر اپنے نبی کو خطاب کر کے دھمکایا کہ ہرگز ان کی رضا مندی اور ان سے صلح جوئی کے لئے اپنے دین میں سست نہ ہونا ان کی طرف نہ جھکنا ان کی نہ ماننا

فقہاء کرام نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ کفر ایک ہی مذہب ہے خواہ وہ یہود ہوں نصرانی ہوں یا کوئی اور ہوں اس لئے کہ ملت کا لفظ یہاں مفرد ہی رکھا جیسے اور جگہ ہے:

لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ (۶:۱۰۹)

تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین ہے

اس استدلال پر اس مسئلہ کی بنا ڈالی ہے کہ مسلمان اور کفار آپس میں وارث نہیں ہو سکتے اور کفر آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہو سکتے ہیں گو وہ دونوں ایک ہی قسم کے کافر ہوں یا دو الگ الگ کفروں کے کافر ہوں،

 امام شافعی اور امام ابوحنیفہ کا یہی مذہب ہے اور امام احمد سے بھی ایک روایت میں یہی قول منقول ہے

اور دوسری روایت میں امام احمد کا اور امام مالک کا یہ قول مروی ہے کہ دو مختلف مذہب والے آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہ ہوں

ایک صحیح حدیث میں بھی یہی مضمون ہے واللہ اعلم۔

الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ

جنہیں ہم نے کتاب دی اور وہ اسے پڑھنے کے حق کے ساتھ پڑھتے ہیں

پھر فرمایا کہ جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ حق تلاوت ادا کرتے ہوئے پڑھتے ہیں،

قتادہ کہتے ہیں اس سے مراد یہود نصاریٰ ہیں

 اور روایت میں ہے کہ اس سے مراد اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں

حضرت عمر ؓفرماتے ہیں حق تلاوت یہ ہے کہ جنت کے ذکر کے وقت جنت کا سوال کیا جائے اور جہنم کے ذکر کے وقت اس سے پناہ مانگی جائے

 ابن مسعودؓ فرماتے ہیں حلال و حرام کو جاننا کلمات کو ان کی جگہ رکھنا تغیر و تبدل نہ کرنا یہی تلاوت کا حق ادا کرنا ہے

حسن بصری فرماتے ہیں کھلی آیتوں پر عمل کرنا متشابہ آیتوں پر ایمان لانا مشکلات کو علماء کے سامنے پیش کرنا حق تلاوت کے ساتھ پڑھنا ہے

ابن عباسؓ سے اس کا مطلب حق اتباع بجا لانا بھی مروی ہے

پس تلاوت بمعنی اتباع ہے جیسے آیت وَالْقَمَرِ إِذَا تَلَاهَا (۹۱:۲) میں

ایک مرفوع حدیث میں بھی اس کے یہی معنی مروی ہیں لیکن اس کے بعض راوی مجہول ہیں گو معنی ٹھیک ہے

حضرت ابو موسیٰ اشعری فرماتے ہیں قرآن کی اتباع کرنے والا جنت کے باغیچوں میں اترنے والا ہے،

حضرت عمر ؓکی تفسیر کے مطابق یہ بھی مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی رحمت کے ذکر کی آیت پڑھتے تو ٹھہر جاتے اور اللہ سے رحمت طلب کرتے اور جب کبھی کسی عذاب کی آیت تلاوت فرماتے تو رک کر اللہ تعالیٰ سے پناہ طلب فرماتے۔

أُولَئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۗ

وہ اس کتاب پر بھی ایمان رکھتے ہیں

 پھر فرمایا اس پر ایمان یہی لوگ رکھتے ہیں یعنی جو اہل کتاب اپنی کتاب کی سوچ سمجھ کر تلاوت کرتے ہیں وہ قرآن پر ایمان لانے پر مجبور ہو جاتے ہیں جیسے اور جگہ ہے:

وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقَامُواْ التَّوْرَاةَ وَالإِنجِيلَ وَمَآ أُنزِلَ إِلَيهِمْ مِّن رَّبِّهِمْ لاّكَلُواْ مِن فَوْقِهِمْ وَمِن تَحْتِ أَرْجُلِهِم (۵:۶۶)

اور اگر یہ لوگ تورات و انجیل اور ان کی جانب جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل فرمایا گیا ہے ان کے پورے پابند رہتے تو یہ لوگ اپنے اوپر سے اور نیچے سے روزیاں پاتے اور کھاتے

اور فرمایا :

قُلْ يَـأَهْلَ الْكِتَـبِ لَسْتُمْ عَلَى شَىْءٍ حَتَّى تُقِيمُواْ التَّوْرَاةَ وَالإِنجِيلَ وَمَآ أُنزِلَ إِلَيْكُمْ مِّن رَّبِّكُمْ (۵:۶۸)

آپ کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب تم دراصل کسی چیز پر نہیں جب تک کہ تورات و انجیل کو اور جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے اتارا گیا قائم نہ کرو،

ان کا قائم کرنا مستلزم ہے کہ تم اس میں جو ہے اسے سچا جانو اور اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کی صفات آپ کی تابعداری کا حکم آپ کی اتباع کی رغبت سب کچھ موجود ہے اور جگہ فرمایا :

الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِىَّ الأُمِّىَّ الَّذِى يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِى التَّوْرَاةِ وَالإِنجِيلِ (۷:۱۵۷)

جو لوگ ایسے رسول نبی اُمی کا اتباع کرتے ہیں جن کو وہ لوگ اپنے پاس تورات وانجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں

اور جگہ فرمایا :

قُلْ ءَامِنُواْ بِهِ أَوْ لاَ تُؤْمِنُواْ ۔۔۔ إِن كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُولاً  (۱۷:۱۰۷،۱۰۸)

کہہ دیجئے! تم اس پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ، جنہیں اس سے پہلے علم دیا گیا ہے ان کے پاس تو جب بھی اس کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیں ۔

اور کہتے ہیں کہ ہمارا رب پاک ہے، ہمارے رب کا وعدہ بلا شک و شبہ پورا ہو کر رہنے والا ہی ہے۔‏

اور جگہ ہے:

الَّذِينَ ءَاتَيْنَـهُمُ الْكِتَـبَ مِن قَبْلِهِ ۔ ۔ ۔ وَمِمَّا رَزَقْنَـهُمْ يُنفِقُونَ (۲۸:۵۲،۵۴)

جس کو ہم نے اس سے پہلے کتاب عنایت فرمائی وہ تو اس پر ایمان رکھتے ہیں

 اور جب اس کی آیتیں ان کے پاس پڑھی جاتی ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ اس کے ہمارے رب کی طرف سے حق ہونے پر ہمارا ایمان ہے ہم تو اس سے پہلے ہی مسلمان ہیں۔

یہ اپنے کئے ہوئے صبر کے بدلے دوہرا اجر دیئے جائیں گے یہ انکی بدی کو ٹال دیتے ہیں اور ہم نے جو انہیں دے رکھا ہے اس میں سے دیتے رہتے ہیں۔‏

اور جگہ ارشاد ہے:

وَقُلْ لِّلَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَـبَ ۔۔۔ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ (۳:۲۰)

اور اہل کتاب سے اور ان پڑھ لوگوں سے کہہ دیجئے! کہ کیا تم بھی اطاعت کرتے ہو؟ پس اگر یہ بھی تابعدار بن جائیں تو یقیناً ہدایت والے ہیں

اور اگر یہ روگردانی کریں، تو آپ پر صرف پہنچا دینا ہے اور اللہ بندوں کو خوب دیکھ بھال رہا ہے

وَمَنْ يَكْفُرْ بِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ (۱۲۱)

اور جو اس کے ساتھ کفر کرے وہ نقصان والا ہے ۔

اسی لئے یہاں فرمایا کہ ساتھ کفر کرنے والے خسارے والے ہیں، جیسے فرمایا :

وَمَن يَكْفُرْ بِهِ مِنَ الاٌّحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهُ  (۱۱:۱۷)

جو بھی اس کے ساتھ کفر کرے اس کے وعدے کی جگہ آگ ہے

 صحیح حدیث میں ہے:

اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس اُمت میں سے جو بھی مجھے سنے خواہ یہودی ہو خواہ نصرانی ہو پھر مجھ پر ایمان نہ لائے وہ جہنم میں جائے گا۔

يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ (۱۲۲)

اے اولاد یعقوب میں نے جو نعمتیں تم پر انعام کی ہیں انہیں یاد کرو اور میں نے تمہیں تمام جہانوں پر فضیلت دے رکھی تھی‏

پہلے بھی اس جیسی آیت شروع سورت میں گزر چکی ہے اور اس کی مفصل تفسیر بھی بیان ہو چکی ہے

یہاں صرف تاکید کے طور پر ذکر کیا گیا اور انہیں نبی اُمی صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کی رغبت دلائی گئی جن کی صفتیں وہ اپنی کتابوں میں پاتے تھے جن کا نام اور کام بھی اس میں لکھا ہوا تھا بلکہ ان کی اُمت کا ذکر بھی اس میں موجود ہے

وَاتَّقُوا يَوْمًا لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلَا تَنْفَعُهَا شَفَاعَةٌ وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ (۱۲۳)

اس دن سے ڈرو جس دن کوئی نفس کسی نفس کو کچھ فائدہ نہ پہنچا سکے گا، نہ کسی شخص سے کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا نہ اسے کوئی شفاعت نفع دے گی نہ ان کی مدد کی جائے گی۔‏

پس انہیں اس کے چھپانے اور اللہ کی دوسری نعمتوں کو پوشیدہ کرنے سے ڈرایا جا رہا ہے اور دینی اور دنیوی نعمتوں کو ذکر کرنے کا کہا جا رہا ہے اور عرب میں جو نسلی طور پر بھی ان کے چچا زاد بھائی ہیں اللہ کی جو نعمت آئی ان میں جس خاتم الانبیاء کو اللہ نے مبعوث فرمایا ان سے حسد کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اور تکذیب پر آمادہ نہ ہونے کی ہدایت کی گئی ہے۔

وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ

جب ابراہیم ؑ  کو انکے رب نے کئی کئی باتوں سے آزمایا اور انہوں نے سب کو پورا کر دیا

اس آیت میں خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بزرگی کا بیان ہو رہا ہے جو توحید میں دنیا کے امام ہیں انہوں نے تکالیف پر صبر کر کے اللہ تعالیٰ کے حکم کی بجا آوری میں ثابت قدمی اور جوان مردی دکھائی

فرماتا ہے اے نبی ﷺ تم ان مشرکین اور اہل کتاب کو جو ملت ابراہیم کے دعویدار ہیں ذرا ابراہیم علیہ السلام کی فرمانبرداری اور اطاعت گزاری کے واقعات تو سناؤ تاکہ انہیں معلوم ہو جائے کہ دین حنیف پر اسوہ ابراہیمی پر کون قائم ہے وہ یا آپ اور آپ کے اصحاب؟  قرآن کریم کا ارشاد ہے:

وَإِبْرَهِيمَ الَّذِى وَفَّى (۵۳:۳۷)

ابراہیم وہ ہیں انہوں نے پوری وفاداری دکھائی

اور فرمایا :

إِنَّ إِبْرَهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَـنِتًا لِلَّهِ حَنِيفًا ۔۔۔ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ (۱۶:۲۰،۲۳)

بیشک ابراہیم پیشوا اور اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار اور ایک طرفہ مخلص تھے۔ وہ مشرکوں میں نہ تھے۔‏ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے شکر گزار تھے،

اللہ نے انہیں اپنا برگزیدہ کر لیا تھا اور انہیں راہ راست سمجھا دی تھی۔‏ ہم نے اس دنیا میں بھی بہتری دی تھی اور بیشک وہ آخرت میں بھی نیکوکاروں میں ہیں۔‏

پھر ہم نے آپ کی جانب وحی بھیجی کہ آپ ملت ابراہیم حنیف کی پیروی کریں، جو مشرکوں میں سے نہ تھے۔‏

 اور جگہ ارشاد ہے:

مَا كَانَ إِبْرَهِيمُ يَهُودِيًّا وَلاَ نَصْرَانِيًّا ۔۔۔ وَالَّذِينَ ءَامَنُواْ وَاللَّهُ وَلِىُّ الْمُؤْمِنِينَ (۳:۶۷،۶۸)

ابراہیم تو نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی بلکہ وہ تو ایک طرفہ (خالص) مسلمان تھے مشرک بھی نہ تھے۔‏ جنہوں نے ان کا کہنا مانا اور یہ نبی اور جو لوگ ایمان لائے مؤمنوں کا ولی اور سہارا اللہ ہی ہے

ابتلاء کے معنی امتحان اور آزمائش کے ہیں۔

 كَلِمَات سے مراد شریعت حکم اور ممانعت وغیرہ ہے

 كَلِمَات سے مراد کلمات تقدیریہ بھی ہوتی ہے جیسے مریم علیہما السلام کی بابت ارشاد ہے وَصَدَّقَتْ بِكَلِمَـتِ رَبَّهَا (۶۶:۱۲)  یعنی انہوں نے اپنے رب کے کلمات کی تصدیق کی۔

ان کلمات کی نسبت بہت سے اقوال ہیں مثلاً احکام حج، مونچھوں کو کم کرنا، کلی کرنا، ناک صاف کرنا، مسواک کرنا، سر کے بال منڈوانا یا رکھوانا تو مانگ نکالنا، ناخن کاٹنا، زیر ناف کے بال کاٹنا، ختنہ کرانا، بغل کے بال کاٹنا، پیشاب پاخانہ کے بعد استنجا کرنا، جمعہ کے دن غسل کرنا، طواف کرنا، صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا، رمی جمار کرنا، طواف افاضہ کرنا۔

حضرت عبداللہ فرماتے ہیں اس سے مراد پورا اسلام ہے جس کے تیس حصے ہیں

 دس کا بیان سورۃ برأت میں ہے:

التَّائِبُونَ الْعَابِدُونَ الْحَامِدُونَ السَّائِحُونَ ۔۔۔ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ  (۹:۱۱۲)

وہ ایسے ہیں جو توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، حمد کرنے والے، روزہ رکھنے والے (یا راہ حق میں سفر کرنے والے) رکوع اور سجدہ کرنے والے، نیک باتوں کی تعلیم کرنے والے

اور بری باتوں سے باز رکھنے والے اور اللہ کی حدوں کا خیال رکھنے والے اور ایسے مؤمنین کو خوشخبری سنا دیجئے

یعنی توبہ کرنا عبادت کرنا حمد کرنا اللہ کی راہ میں پھرنا رکوع کرنا سجدہ کرنا بھلائی کا حکم دینا برائی سے روکنا اللہ کی حدود کی حفاظت کرنا ایمان لانا

دس کا بیان سورۃ انبیاء کے شروع  کی آیات میں  ہے:

قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ ـ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ ۔۔۔ وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ (۲۳:۱،۵)

یقیناً ایمان والوں نے فلاح حاصل کر لی جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں جو لغویات سے منہ موڑ لیتے ہیں

جو زکوٰۃ ادا کرنے والے ہیں جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‏

یعنی نماز کو خشوع خضوع سے ادا کرنا لغو اور فضول باتوں اور کاموں سے منہ پھیر لینا زکوٰۃ دیتے رہا کرنا، شرمگاہ کی حفاظت کرنا، اور سورۃ معارج میں ہے کہ امانت داری کرنا، وعدہ وفائی کرنا، نماز پر ہمیشگی اور حفاظت کرنا قیامت کو سچا جاننا عذابوں سے ڈرتے رہنا سچی شہادت پر قائم رہنا

 اور دس کا بیان سورۃ احزاب میں :

إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ۔۔۔ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا (۳۳:۳۵)

بیشک مسلمان مرد اور عورتیں مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں فرماں برداری کرنے والے مرد اور فرماں بردار عورتیں اور راست باز مرد اور راست باز عورتیں صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں،

عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں، خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں، روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنی والی عورتیں، اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والیاں،

بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے اور ذکر کرنے والیاں (ان سب کے) لئے اللہ تعالیٰ نے (وسیع مغفرت) اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے۔‏

ان تینوں احکام کا جو عامل ہو وہ پورے اسلام کا پابند ہے اور اللہ کے عذابوں سے بری ہے۔

کلمات ابراہیمی میں اپنی قوم سے علیحدگی کرنا بادشاہ وقت سے نڈر ہو کر اسے بھی تبلیغ کرنا پھر اللہ تعالیٰ کی راہ میں جو مصیبت آئے اس پر صبر کرنا سہنا پھر وطن اور گھر بار کو اللہ کی راہ میں چھوڑ کر ہجرت کرنا مہمانداری کرنا اللہ کی راہ میں جانی اور مالی مصیبت راہ اللہ برداشت کرنا یہاں تک کہ بچہ کو اللہ کی راہ قربان کرنا اور وہ بھی اپنے ہی ہاتھ سے یہ کل احکام خلیل الرحمٰن علیہ السلام بجا لائے۔

سورج چاند اور ستاروں سے بھی آپ کی آزمائش ہوئی امامت کے ساتھ بیت اللہ بنانے کے حکم کے ساتھ حج کے حکم اور مقام ابراہیم کے ساتھ بیت اللہ کے رہنے والوں کی روزیوں کے ساتھ حضرت محمد ﷺ کو آپ کے دین پر بھیجنے کے ساتھ بھی آزمائش ہوئی

قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ

تو اللہ نے فرمایا کہ میں تمہیں لوگوں کا امام بنا دوں گا،

اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے خلیل میں تمہیں آزماتا ہوں دیکھتا ہوں تم کیا ہو؟ تو آپ نے فرمایا مجھے لوگوں کا امام بنا دے، اس کعبہ کو لوگوں کے ثواب اور اجتماع کا مرکز بنا دے، یہاں والوں کو پھلوں کی روزیاں دے

كَلِمَات سے مراد اس کے ساتھ کی آیتیں بھی ہیں

موطا میں ہے کہ سب سے پہلے ختنہ کرانے والے سب سے پہلے مہمان نوازی کرنے والے سب سے پہلے ناخن کٹوانے والے سب سے پہلے مونچھیں پست کرنے والے سب سے پہلے سفید بال دیکھنے والے حضرت ابراہیم ہی ہیں

سفید بال دیکھ کر پوچھا کہ اے اللہ یہ کیا ہے؟ جواب ملا وقار و عزت ہے

 کہنے لگے پھر تو اے اللہ اسے اور زیادہ کر۔

سب سے پہل منبر پر خطبہ کہنے والے، سب سے پہلے قاصد، بھیجنے والے، سب سے پہلے تلوار چلانے والے، سب سے پہلے مسواک کرنے والے سب سے پہلے پانی کے ساتھ استنجا کرنے والے، سب سے پہلے پاجامہ پہننے والے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام ہیں۔

 ایک غیر ثابت حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

اگر میں منبر بناؤں تو میرے باپ ابراہیم نے بھی بنایا تھا اور اگر میں لکڑی ہاتھ میں رکھوں تو یہ بھی میرے باپ ابراہیم کی سنت ہے

مختلف بزرگوں سے کلمات کی تفسیر میں جو کچھ ہم نے نقل کر دیا اور ٹھیک بھی یہی ہے کہ یہ سب باتیں ان کلمات میں تھیں کسی خاص تخصیص کی کوئی وجہ ہمیں نہیں ملی واللہ

صحیح مسلم شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے

 دس باتیں فطرت کی اور اصل دین کی ہیں

- مونچھیں کم کرنا،

- داڑھی بڑھانا،

- مسواک کرنا،

- ناک میں پانی دینا،

- ناخن لینا،

- پریان دھونی،

- بغل کے بال لینا،

- زیر ناف کے بال لینا،

- استنجا کرنا

- راوی کہتا ہے میں دسویں بات بھول گیا شاید کلی کرنا تھی۔

 صحین میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں پانچ باتیں فطرت کی ہیں:

 ختنہ کرانا، موئے (بال) زہار لینا، مونچھیں کم کرنا، ناخن لینا، بغل کے بال لینا

 ایک حدیث میں ہے  کہ حضرت ابراہیم کو وفا کرنے والا اس لئے فرمایا ہے کہ وہ ہر صبح کے وقت پڑھتے تھے :

سبحان اللہ حین تمسون وحین تصبحون ولہ الحمد فی السموات والارض وعشیا

وحین تظہرون یخرج الحی من المیت ویخرج المیت من الحی ویحی الارض عبد موتھا و کذلک تخرجون

ایک اور روایت میں ہے کہ ہر دن چار رکعتیں پڑھتے تھے

 لیکن یہ دونوں حدیثیں ضعیف ہیں اور ان میں کئی کئی راوی ضعیف ہیں اور ضعف کی بہت سی وجوہات ہیں بلکہ ان کا بیان بھی بےبیان ضعف جائز نہیں متن بھی ضعف پر دلالت کرتا ہے۔

قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ (۱۲۴)

عرض کرنے لگے میری اولاد کو فرمایا میرا وعدہ ظالموں سے نہیں۔‏

حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی اُمت کی خوشخبری سن کر اپنی اولاد کے لئے بھی یہی دعا کرتے تھے جو قبول تو کی جاتی ہے لیکن ساتھ ہی خبر کر دی جاتی ہے کہ آپ کی اولاد میں ظالم بھی ہوں گے جنہیں اللہ تعالیٰ کا عہد نہ پہنچے گا وہ امام نہ بنائے جائیں گے نہ ان کی اقتدار اور پیروی کی جائے گی

 سورۃ عنکبوت کی آیت میں اس مطلب کو واضح کر دیا گیا ہے کہ خلیل اللہ کی یہ دعا بھی قبول ہوئی وہاں ہے:

وَجَعَلْنَا فِى ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتَـبَ (۲۹:۲۷)

اور ہم نے نبوت اور کتاب ان کی اولاد میں ہی کر دی

حضرت ابراہیم کے بعد جتنے انبیاء اور رسول آئے وہ سب آپ ہی کی اولاد میں تھے اور جتنی کتابیں نازل ہوئیں سب آپ ہی کی اولاد میں ہوئی صلوات اللہ وسلامہ علیھم اجمعین

یہاں یہ بھی خبر دی گئی ہے کہ آپ کی اولاد میں ظلم کرنے والے بھی ہوں گے،

 ظَالِم سے مراد بعض نے مشرک بھی لی ہے اور عَهْد سے مراد امر ہے

ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ظالم کو کسی چیز کا والی اور بڑا نہ بنانا چاہئے گو وہ اولاد ابراہیم میں سے ہو، حضرت خلیل کی دعا ان کی نیک اولاد کے حق میں قبول ہوئی ہے

یہ بھی معنی کئے گئے ہیں کہ ظالم سے کوئی عہد نہیں کہ اس کی اطاعت کی جائے اس کا عہد توڑ دیا جائے پورا نہ کیا جائے

 اور یہ بھی مطلب ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نے اسے کچھ دینے کا عہد نہیں کیا دنیا میں تو کھا پی رہا ہے اور عیش و عشرت کر رہا ہے۔

 عَهْد سے مراد دین بھی ہے یعنی تیری کل اولاد دیندار نہیں

جیسے اور جگہ ہے :

وَمِن ذُرِّيَّتِهِمَا مُحْسِنٌ وَظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ مُبِينٌ (۳۷:۱۱۳)

اور ان دونوں کی اولاد میں بعضے تو نیک بخت اور بعض اپنے نفس پر صریح ظلم کرنے والے ہیں

عَهْد کے اطاعت کے معنی بھی کئے گئے ہیں یعنی اطاعت صرف معروف اور بھلائی میں ہی ہو گی

 اور عَهْد کے معنی نبوت کے بھی آئے ہیں

 ابن خویز منذاذ مالکی فرماتے ہیں ظالم شخص نہ تو خلیفہ بن سکتا ہے نہ حاکم نہ مفتی نہ گواہ نہ راوی۔

وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَأَمْنًا وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى ۖ

ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کے لئے ثواب اور امن و امان کی جگہ بنائی تم مقام ابراہیم کو جائے نماز مقرر کر لو

مَثَابَةً سے مراد بار بار آنا۔ حج کرنے کے بعد بھی دل میں لگن لگی رہتی ہے گویا حج کرنے کے بعد بھی ہر بار دل میں ایک بار اور حج کرنے کی تمنا رہتی ہے دنیا کے ہر گوشہ سے لوگ بھاگے دوڑے اس کی طرف جوق در جوق چلے آ رہے ہیں یہی جمع ہونے کی جگہ ہے اور یہی امن کا مقام ہے جس میں ہتھیار نہیں اٹھایا جاتا جاہلیت کے زمانہ میں بھی اس کے آس پاس تو لوت مار ہوتی رہتی لیکن یہاں امن و امان ہی رہتا کوئی کسی کو گالی بھی نہیں دیتا۔

یہ جگہ ہمیشہ متبرک اور شریف رہی۔ نیک روحیں اس کی طرف مشتاق ہی رہتی ہیں گو ہر سال زیارت کریں لیکن پھر بھی شوق زیارت کم نہیں ہوتا ہے۔ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا اثر ہے۔

آپ نے دعا مانگی تھی:

فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ (۱۴:۳۷)

پس تو کچھ لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے۔ اور انہیں پھلوں کی روزیاں عنایت فرما تاکہ یہ شکر گزاری کریں

یہاں باپ اور بھائی کے قاتل کو بھی کوئی دیکھتا تو خاموش ہو جاتا سورۃ مائدہ میں ہے:

جَعَلَ ٱللَّهُ ٱلۡكَعۡبَةَ ٱلۡبَيۡتَ ٱلۡحَرَامَ قِيَـٰمً۬ا لِّلنَّاسِ (۵:۹۷)

اللہ نے کعبہ کو جو کہ ادب کا مکان ہے لوگوں کے قائم رہنے کا سبب قرار دیا

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں اگر لوگ حج کرناچھوڑ دیں تو آسمان زمین پر گرا دیا جائے۔

 اس گھر کے اس شرف کو دیکھ کر پھر اس کے بانی اول حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے شرف کو خیال دیکھیئے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَإِذْ بَوَّأْنَا لإِبْرَهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَن لاَّ تُشْرِكْ بِى شَيْئاً (۲۲:۲۴)

جبکہ ہم نے ابراہیم ؑ کے لیے کعبہ کے مکان کی جگہ مقرر کر دی( اور کہہ دیا) کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا

اور جگہ ہے :

إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِى بِبَكَّةَ مُبَارَكاً وَهُدًى لِّلْعَـلَمِينَ فِيهِ ءَايَـتٌ بَيِّـنَـتٌ مَّقَامُ إِبْرَهِيمَ وَمَن دَخَلَهُ كَانَ ءَامِناً (۳:۹۷،۹۸)

اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر جو لوگوں کے لئے مقرر کیا گیا وہی ہے جو مکہ (شریف) میں ہے جو تمام دنیا کے لئے برکت اور ہدایت والا ہے۔

‏ جس میں کھلی کھلی نشانیاں ہیں مقام ابراہیم ہے اس میں جو آجائے امن والا ہو جاتا ہے

اللہ جل شانہ کا پہلا گھر مکہ میں جو برکت و ہدایت والا نشانیوں والا مقام ابراہیم والا امن و امان والا ہے مقام ابراہیم بھی ہے اور پورا حج بھی مثلاً عرفات، مشعر الحرام، منی، رمی، جمار، صفا مروہ کا طواف۔

مقام ابراہیم دراصل وہ پتھر ہے جسے حضرت اسمٰعیلؑ کی بیوی صاحبہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نہانے کے لیے ان کے پاؤں کے نیچے رکھا تھا، لیکن حضرت سعید بن جیر کہتے ہیں یہ غلط ہے۔ دراصل وہ یہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرات ابراہیم کعبہ کی تعمیر کرتے  تھے

حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ کی لمبی حدیث میں ہے:

جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف کر لیا تو حضرت عمر ؓنے مقام ابراہیم کی طرف اشارہ کر کے کہا۔ کیا یہی ہمارے باپ ابراہیم کا مقام ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا ہاں۔ کہا پھر ہم اسے قبلہ کیوں نہ بنا لیں؟اس پر آیت نازل ہوئی

ایک اور روایت میں ہے کہ فاروق رضی اللہ عنہ کے سوال پر تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ یہ  حکم نازل ہوا

ایک اور حدیث میں ہے کہ فتح مکہ والے دن مقام ابراہیم کے پتھر کی طرف اشارہ کر کے حضرت عمر ؓنے پوچھا یہی ہے جسے قبلہ بنانے کا ہمیں حکم ہوا ہے؟ آپ  ﷺ نے  فرمایا ہاں یہی

صحیح بخاری شریف میں ہے۔

 حضرت عمر ؓفرماتے ہیں میں نے اپنے رب سے تین باتوں میں موافقت کی جو اللہ تعالیٰ کو منظور تھا وہی میری زبان سے نکلا میں نے کہا حضور ﷺ کاش کہ ہم مقام ابراہیم کو قبلہ بنا لیتے تو حکم وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى نازل ہوا

 میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاش کہ آپ امہات المؤمنین کو پردے کا حکم دیں اس پر پردے کی آیت اتری

جب مجھے معلوم ہوا کہ آج حضور ﷺ اپنی بیویوں سے خفا ہیں تو میں نے جا کر ان سے کہا کہ اگر تم باز نہ آؤ گی تو اللہ تعالیٰ تم سے اچھی بیویاں تمہارے بدلے اپنے نبی کو دے گا

 اس پر فرمان بازی نازل ہوا کہ عَسَى رَبُّهُ إِن طَلَّقَكُنَّ أَن يُبْدِلَهُ أَزْوَجاً خَيْراً مِّنكُنَّ مُسْلِمَـتٍ (۶۶:۵)

اس حدیث کی بہت سی اسناد ہیں اور بہت سی کتابوں میں مروی ہے

ایک روایت میں بدر کے قیدیوں کے بارے میں بھی حضرت عمر ؓکی موافقت مروی ہے آپ نے فرمایا تھا کہ اس سے فدیہ نہ لیا جائے بلکہ انہیں قتل کر دیا جائے اللہ سبحانہ تعالیٰ کو بھی یہی منظور تھا۔

عبداللہ بن ابی بن سلول منافق جب مر گیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کے جنازے کی نماز ادا کرنے کے لیے تیار ہوئے تو میں نے کہا تھا کہ کیا آپ اس منافق کافر کا جنازہ پڑھیں گے؟ آپ نے مجھے ڈانٹ دیا اس پر آیت وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰ أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَىٰ قَبْرِهِ (۹:۸۴)  نازل ہوئی اور آپ کو ایسوں کے جنازے سے روکا گیا۔

 ابن جریج میں روایت ہے:

 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے طواف میں تین مرتبہ رمل کیا یعنی دوڑ کی چال چلے اور چارپھیرے چل کر کئے پھر مقام ابراہیم کے پیچھے آ کر دو رکعت نماز ادا کی اور یہ آیت تلاوت فرمائی  وَاتَّخِذُواْ مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى

حضرت جابر کی حدیث میں ہے کہ مقام ابراہیم کو آپ نے اپنے اور بیت اللہ کے درمیان کر لیا تھا۔

 ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مقام ابراہیم سے مراد وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کعبہ بنا رہے تھے حضرت اسماعیل علیہ السلام آپ کو پتھر دیتے جاتے تھے اور آپ کعبہ کی بنا کرتے جاتے تھے اور اس پتھر کو سرکاتے جاتے تھی جہاں دیوار اونچی کرنی ہوتی تھی وہاں لے جاتے تھے اسی طرح کعبہ کی دیواریں پوری کیں اس کا پورا بیان حضرت ابراہیمؑ کے واقعہ میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ

 اس پتھر پر آپ کے دونوں قدموں کے نشان ظاہر تھے عرب کی جاہلیت کے زمانہ کے لوگوں نے بھی دیکھے تھے۔

ابوطالب نے اپنے مشہور قصیدہ میں کہا ہے

وموطی ابراہیم فی الصخر رطبتہ علی قدمیہ حایا غیر ناعل

یعنی اس پتھر میں ابراہیم علیہ السلام کے دونوں پیروں کے نشان تازہ بتازہ ہیں جن میں جوتی نہیں

 بلکہ مسلمانوں نے بھی اسے دیکھا تھا

 حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ میں نے مقام ابراہیم میں حضرت خلیل اللہ کے پیروں کی انگلیوں اور آپ کے تلوے کا نشان دیکھا تھا پھر لوگوں کے چھونے سے وہ نشان مٹ گئے

حضرت قتادہ فرماتے ہیں  کہ حکم اس کی جانب نماز ادا کرنے کا ہے تبرک کے طور پر چھونے اور ہاتھ لگانے کا نہیں اس اُمت نے بھی اگلی اُمتوں کی طرح بلا حکم رب  العالمین بعض کام اپنے ذمہ لازم کر لئے جو نقصان رساں ہیں وہ نشان لوگوں کے ہاتھ لگانے سے مٹ گئے۔

یہ مقام ابراہیم پہلے دیوار کعبہ کے متصل تھا کعبہ کے دروازے کی طرف حجر اسود کی جانب دروازے سے جانے والے کے دائیں جانب مستقل جگہ پر تھا جو آج بھی لوگوں کو معلوم ہے خلیل اللہ نے یا تو اسے یہاں رکھوا دیا تھا یا بیت اللہ بناتے ہوئے آخری حصہ یہی بنایا ہوگا اور یہیں وہ پتھر رکھا ہےامیرالمؤمنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے زمانہ میں اسے پیچھے ہٹا دیا اس کے ثبوت میں بہت سی روایتیں ہیں

پھر ایک مرتبہ پانی کے سیلاب میں یہ پتھر یہاں سے بھی ہٹ گیا تھا خلیفہ ثانی نے اسے پھر اپنی جگہ رکھوا دیا

حضرت سفیان فرماتے ہیں مجھے معلوم نہیں ہوا کہ یہ اصلی جگہ سے ہٹایا گیا اس سے پہلے دیوار کعبہ سے کتنی دور تھا

 ایک روایت میں ہے کہ خود آنحضرت نے اس کی اصلی جگہ سے ہٹا کر وہاں رکھا تھا جہاں اب ہے

لیکن یہ روایت مرسل ہے ٹھیک بات یہی ہے کہ حضرت عمر نے اسے پیچھے رکھا، واللہ اعلم

وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ (۱۲۵)

ہم نے ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ سے وعدہ لیا کہ تم میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک صاف رکھو۔‏

یہاں عَهِدْ سے مراد وہ حکم ہے جس میں کہا گیا ہے گندی اور نجس اور بری چیزوں سے پاک رکھنا

عَهِدْ کا تعدیہ إِلَى سے ہو تو معنی ہم نے وحی کی اور پہلے سے کہہ دیا کہ پاک رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اسے بتوں سے بچانا غیر اللہ کی عبادت نہ ہونے دینا لغو کاموں فضول بکواس جھوٹی باتوں شرک و کفر، ہستی اور مذاق سے اسے محفوظ رکھنا بھی اسی میں شامل ہے

طَائِف کے ایک معنی طواف کرنے والوں کے ہیں دوسرے معنی باہر سے آنے والوں کے ہیں اس تقدیر پر عَاكِفِين کے معنی مکہ کے باشندے ہوں گے

ایک مرتبہ لوگوں نے کہا کہ امیر وقت سے کہنا چاہئے کہ لوگوں کو بیت اللہ شریف میں سونے سے منع کریں کیونکہ ممکن ہے کوئی کسی وقت جنبی ہو جائے ممکن ہے کبھی آپس میں فضول باتیں کریں تو ہم نے سنا کہ انہیں نہ روکنا چاہئے۔

ابن عمر ؓانہیں بھی عَاكِفِين کہتے تھے

ایک صحیح حدیث میں ہے :

مسجد نبوی میں حضرت فاروق اعظم کے صاحبزادے حضرت عبداللہ ؓسویا کرتے تھے وہ جوان اور کنوارے تھے۔

 الرُّكَّعِ السُّجُودِ سے مراد نمازی ہیں پاک رکھنے کا حکم اس واسطے دیا گیا کہ اس وقت بھی بت پرستی رائج تھی دوسرے اس لئے کہ یہ بزرگ اپنی نیتوں میں خلوص کی بات رکھیں دوسری جگہ ارشاد ہے:

وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَن لَّا تُشْرِكْ بِي شَيْئًا وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ (۲۲:۲۶)

جبکہ ہم نے ابراہیم ؑ کے لیے کعبہ کے مکان کی جگہ مقرر کر دی اس شرط پر کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا

اور میرے گھر کو طواف قیام رکوع سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک صاف رکھنا

فقہا کا اس میں اختلاف ہے کہ بیت اللہ کی نماز افضل ہے یا طواف؟

امام مالک فرماتے ہیں باہر والوں کے لئے طواف افضل ہے

اور جمہور کا قول ہے کہ ہر ایک کے لیے نماز افضل ہاس کی تفصیل کی جگہ تفسیر نہیں،

مقصد اس سے مشرکین کو تنبیہ اور تردید ہے کہ بیت اللہ تو خاص اللہ کی عبادت کے لیے بنایا گیا ہے اس میں اوروں کی عبادت کرنا اور خالص اللہ کی عبادت کرنے والوں کو اس سے روکنا کس قدر صریح بے انصافی ہے اور اسی لئے قرآن میں فرمایا کہ ایسے ظالموں کو ہم دردناک عذاب چکھائیں گے مشرکین کی اس کھلی تردید کے ساتھ ہی یہود و نصاریٰ کی تردید بھی اس آیت میں ہو گئی کہ اگر وہ ابراہیم و اسماعیل سلام اللہ علیہما کی افضلیت، بزرگی اور نبوت کے قائل ہیں اور یہ بھی جانتے اور مانتے ہیں کہ یہ شریف گھرانے کے متبرک ہاتھوں کا بنا ہوا ہے جب وہ اسکے بھی قائل ہیں کہ یہ محض نماز و طواف و دعا اور عبادت اللہ کے لیے بنایا گیا ہے حج و عمرے اور اعتکاف کے لیے مخصوص کیا گیا ہے تو پھر ان نبیوں کی تابعداری کے دعوے کے باوجود کیوں حج و عمرے سے رکے ہوئے ہیں؟ کیوں بیت اللہ شریف میں حاضری نہیں دیتے؟ بلکہ خود موسیٰ علیہ السلام نے اس گھر کا حج کیا جیسا کہ حدیث میں صاف موجود ہے۔

آیہ کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اور مسجدوں کو بھی پاک صاف رکھنا چاہئے اور جگہ قرآن میں ہے :

فِى بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَن تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَالاٌّصَالِ (۲۴:۳۶)

ان گھروں میں جن کے بلند کرنے اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے وہاں صبح و شام اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرو

حدیث شریف میں بھی ہے کہ مسجدیں اسی کام کے لیے ہیں اور احادیث میں بہت ہی تاکید کے ساتھ مسجدوں کی پاکیزگی کا حکم آیا ہے امام ابن کثیر نے اس بارے میں ایک خاص رسالہ تصنیف فرمایا ہے۔

بعض لوگ تو کہتے ہیں سب سے پہلے کعبۃ اللہ فرشتوں نے بنایا تھا

لیکن یہ سنداً غریب ہے

بعض کہتے ہیں آدم علیہ السلام نے سب سے پہلے بنایا تھا حرا، طور سینا، طور زیتا، جبل لبنان اور جودی ان پانچ پہاڑوں سے بنایا تھا لیکن یہ بھی سنداً غریب ہے

بعض کہتے ہیں شیث علیہ السلام نے سب سے پہلے بنایا تھا لیکن یہ بھی اہل کتاب کی بات ہے۔

 حدیث شریف میں ہے  کہ حضرت ابراہیم نے مکہ کو حرم بنایا اور فرمایا میں مدینہ منورہ کو حرام قرار دیتا ہوں ۔ اس میں شکار نہ کھیلا جائے یہاں کے درخت نہ کاٹے جائیں یہاں ہتھیار نہ اٹھائے جائیں

صحیح مسلم شریف کی ایک حدیث میں ہے :

 لوگ تازہ پھل لے کر خدمت نبوی میں حاضر ہوتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسے لے کر دعا کرتے

اے اللہ ہمارے پھلوں میں ہمارے شہر میں ہمارے ناپ تول میں بھی برکت دے۔ اے اللہ ابراہیم تیرے بندے تیرے خلیل اور تیرے رسول تھے میں بھی تیرا بندہ تیرا رسول ہوں انہوں نے تجھ سے مکہ کے لیے دعا کی تھی میں تجھ سے مدینہ(منورہ) کے لیے دعا کرتا ہوں جیسے انہوں نے مکہ مکرمہ کے لیے کی تھی

پھر  آپ کسی چھوٹے بچہ کو بلا کر وہ پھل اسے عطا فرما دیا کرتے۔

انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ابوطلحہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ جاؤ اپنے بچوں میں سے کسی ایک کو ہماری خدمت کے لے آؤ ابو طلحہ مجھے لے کر حاضر ہوئے میں اب سفرو حضر میں حاضر خدمت رہنے لگا۔ ایک مرتبہ آپ باہر سے آ رہے تھے جب احد پہاڑ پر نظر پڑی تو آپ نے فرمایا :

یہ پہاڑ ہم سے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔

جب مدینہ نظر آیا تو فرمانے لگے یا اللہ میں اس کے دونوں کنارے کے درمیان کی جگہ کو حرم مقرر کرتا ہوں جیسے ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم بنایا اے اللہ ان کے مد اور صاع میں اور ناپ میں برکت دے

 اور روایت میں ہے

یا اللہ جتنی برکت تونے مکہ میں دی ہے اس سے دگنی برکت مدینہ میں دے

اور روایت میں ہے مدینہ میں قتل نہ کیا جائے اور چارے کے سوا اور پتے بھی یہاں کے درختوں کے نہ جھاڑے جائیں

اسی مضمون کی حدیثیں جن سے ثابت ہوتا ہے مدینہ بھی مثل مکہ کے حرم ہے ۔

یہاں ان احادیث کے وارد کرنے سے ہماری غرض مکہ شریف کی حرمت اور یہاں کا امن بیان کرنا ہے،

بعض تو کہتے ہیں کہ یہ شروع سے حرم اور امن ہےبعض کہتے ہیں خلیل اللہ کے زمانہ سے لیکن پہلا قول زیادہ ظاہر ہے

بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ والے دن فرمایا:

جب سے اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین پیدا کئے تب سے اس شہر کو حرمت و عزت والا بنایا ہے اب یہ قیامت تک حرمت و عزت والا ہی رہے گا اس میں جنگ وقتال کسی کو حلال نہیں میرے لئے بھی آج کے دن ہی ذرا سی دیر کے لیے حلال تھا اب وہ حرام ہی حرام ہے

سنو اس کے کانٹے نہ کاٹے جائیں اس کا شکار نہ بھگایا جائے اس میں کسی کی گری پڑی چیز نہ اٹھائی جائے جو پہنچوائی جائے اس کے لیے اٹھانا جائز ہے اسکی گھاس نہ کاٹی جائے

دوسری روایت میں ہے کہ یہ حدیث آپ نے خطبہ کے دوران  بیان فرمائی تھی اور حضرت عباسؓ کے سوال پر آپ نے اذخر نامی گھاس کے کاٹنے کی اجازت دی تھی۔

حضرت ابن شریح عدوی نے عمر وبن سعید سے اس وقت کہا جب وہ مکہ کی طرف لشکر بھیج رہا تھا کہ اے امیر سن فتح مکہ والے دن صبح ہی صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبہ میں فرمایا جسے میرے کانوں نے سنا دل نے یاد رکھا اور میں نے آنکھوں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت دیکھا آپ نے حمد و ثنا کے بعد فرمایا :

 مکہ کو رب ذوالجلال نے حرام کیا ہے لوگوں نے نہیں کیا، کسی ایماندار کو اس میں خون بہانا اس کا درخت کاٹنا حلال نہیں۔ اگر کوئی میری اس لڑائی کو دلیل بنائے تو  کہہ دینا کہ میرے لئے صرف آج ہی کے دن کی اس ساعت یہاں جہاد حلال تھا۔ پھر اس شہر کی حرمت آ گئی ہے جیسے کل تھی۔ خبردار ہر حاضر غائب کو یہ پہنچا دے

لیکن عمرو ؓنے یہ حدیث سن کر صاف جواب دے دیا کہ میں تجھ سے زیادہ اس حدیث کو جانتا ہوں۔ حرم نافرمان کو اور خونی کو اور بربادی کرنے والے کو نہیں بچاتا  (بخاری مسلم)

ان دونوں احادیث میں کوئی تعارض نہ سمجھے

 تطبیق یوں ہے کہ مکہ روز اول سے حرمت والا تھا لیکن اس حرمت کی تبلیغ حضرت خلیل اللہ نے کی جس طرح آنحضرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو اس وقت سے تھے جب کہ حضرت آدم کا خمیر گوندھ رکھا تھا بلکہ آپ اس وقت بھی خاتم الانبیاء لکھے ہوئے تھے لیکن تاہم حضرت ابراہیم نے آپ کی نبوت کی دعا کی کہ وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ (۲:۱۲۹) ان ہی میں سے ایک رسول ان میں بھیج جو اللہ نے پوری کی اور تقدیر کی لکھی ہوئی وہ بات ظاہر و باہر ہوئی۔

 تطبیق یوں ہے کہ مکہ روز اول سے حرمت والا تھا لیکن اس حرمت کی تبلیغ حضرت خلیل اللہ نے کی جس طرح آنحضرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو اس وقت سے تھے جب کہ حضرت آدم کا خمیر گوندھ رکھا تھا بلکہ آپ اس وقت بھی خاتم الانبیاء لکھے ہوئے تھے لیکن تاہم حضرت ابراہیم نے آپ کی نبوت کی دعا کی کہ وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ (۲:۱۲۹) ان ہی میں سے ایک رسول ان میں بھیج جو اللہ نے پوری کی اور تقدیر کی لکھی ہوئی وہ بات ظاہر و باہر ہوئی۔

ایک حدیث میں ہے کہ لوگوں نے آپ سے کہا کہ آپ اپنی ابتدا نبوت کا تو کچھ ذکر کیجئے۔ آپ ﷺنے فرمایا :

میرے باپ ابراہیم ؑ کی دعا اور عیسیٰ بن مریم کی بشارت اور میری ماں  کا خواب وہ دیکھتی ہیں کہ ان سے گویا ایک نور نکلا جس نے شام کے محلات کو روشن کر دیا اور وہ نظر آنے لگے۔

اس بات کا بیان کہ مکہ افضل ہے یا مدینہ؟

جیسا کہ جمہور کا قول ہے جیسے کہ امام مالک اور ان کے تابعین کا مذہب ہے مدینہ افضل ہے مکہ سے۔ اسے دونوں طرف کے دلائل کے ساتھ عنقریب ہم بیان کریں گے انشاء اللہ تعالیٰ۔

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُمْ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ

جب ابراہیم نے کہا، اے پروردگار تو اس جگہ کو امن والا شہر بنا اور یہاں کے باشندوں کو جو اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والے ہوں پھلوں کی روزیاں دے

حضرت ابراہیم دعا کرتے ہیں کہ باری تعالیٰ اس جگہ کو امن والا شہر بنا یعنی یہاں کے رہنے والوں کو نڈر اور بےخوف رکھ۔

 اللہ تعالیٰ اسے قبول فرماتا ہے جیسے کہ فرمایا:

وَمَن دَخَلَهُ كَانَ ءَامِناً (۳:۹۷)

اس میں جو آیا وہ امن والا ہو گیا

اور جگہ ارشاد ہے :

أَوَلَمْ يَرَوْاْ أَنَّا جَعَلْنَا حَرَماً ءامِناً وَيُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ (۲۹:۶۷)

کیا یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم کو با امن بنا دیا ہے حالانکہ ان کے ارد گرد سے لوگ اچک لئے جاتے ہیں

اسی قسم کی اور آیتیں بھی ہیں اور اس مضمون کی بہت سی حدیثیں بھی اوپر گزر چکی ہیں کہ مکہ شریف میں قتال حرام ہے۔

حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ ﷺفرماتے تھے:

 کسی کو حلال نہیں کہ مکہ میں ہتھیار اٹھائے (صحیح مسلم)

آپ کی یہ دعا حرمت کعبۃ اللہ کی بنا ءسے پہلے تھی اس لیے کہا کہ اے اللہ اس جگہ کو امن والا شہر بنا، سورۃ ابراہیم میں یہی دعا ان لفظوں میں ہے :

وَإِذْ قَالَ إِبْرَهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَـذَا الْبَلَدَ آمِنًا (۱۴:۳۵)

جب ابراہیم  ؑنے کہا اے میرے پروردگار! اس شہر کو امن والا بنا دے

شاید یہ دعا دوبارہ کی تھی۔ جب بیت اللہ شریف تیار ہو گیا اور شہر بس گیا اور حضرت اسحاقؑ جو حضرت اسمٰعیلؑ سے تین سال چھوٹے تھے تولد ہو چکے اسی لیے اس دعا کے آخر میں ان کی پیدائش کا شکریہ بھی ادا کیا وَمَنْ كَفَرَ سے آخرتک اللہ تعالیٰ کا کلام ہے

 بعض نے اسے بھی دعا میں داخل کیا ہے تو اس تقدیر پر یہ مطلب ہوگا کہ کفار کو بھی تھوڑا سا فائدہ دے پھر انہیں عذاب کی طرف بےبس کر اس میں بھی حضرات ابراہیم کی خلت ظاہر ہوتی ہے کہ وہ اپنی بری اولاد کے بھی مخالف ہیں

اور اسے کلام اللہ ماننے کا یہ مطلب ہوگا کہ چونکہ امامت کا سوال جب اپنی اولاد کے لیے کیا اور ظالموں کی محرومی کا اعلان سن چکے اور معلوم ہو گیا کہ آپ پیچھے آنے والوں میں بھی اللہ کے نافرمان ہوں گے تو مارے ڈر کے ادب کے ساتھ بعد میں آنے والی نسلوں کو روزی طلب کرتے ہوئے صرف ایماندار اولاد کے لیے کہا۔

قَالَ وَمَنْ كَفَرَ فَاُمتعُهُ قَلِيلًا ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلَى عَذَابِ النَّارِ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ (۱۲۶)

اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں کافروں کو بھی تھوڑا فائدہ دوں گا، پھر انہیں آگ کے عذاب کی طرف بےبس کر دوں گا۔ یہ پہنچنے کی بری جگہ ہے۔‏

ارشاد باری ہوا کہ دنیا کا فائدہ تو کفار کو بھی دیتا ہے جیسے اور جگہ ہے :

كُلاًّ نُّمِدُّ هَـؤُلاءِ وَهَـؤُلاءِ مِنْ عَطَآءِ رَبِّكَ وَمَا كَانَ عَطَآءُ رَبِّكَ مَحْظُورًا (۱۷:۲۰)

ہر ایک کو ہم بہم پہنچائے جاتے ہیں اَنہیں بھی اور اُنہیں بھی تیرے پروردگار کے انعامات میں سے تیرے پروردگار کی بخشش رکی ہوئی نہیں ہے

اور جگہ ہے:

قُلْ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ ۔۔۔ بِمَا كَانُواْ يَكْفُرُونَ (۱۰:۶۹،۷۰)

آپ کہہ دیجئے کہ جو لوگ اللہ پر جھوٹ افترا کرتے ہیں وہ کامیاب نہ ہونگے۔

یہ دنیا میں تھوڑی سی عیش ہے پھر ہمارے پاس ان کو آنا ہے پھر ہم ان کو ان کے کفر کے بدلے سخت عذاب چکھائیں گے

اور جگہ ہے:

وَمَن كَفَرَ فَلاَ يَحْزُنكَ كُفْرُهُ إِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ ۔۔۔ ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ إِلَى عَذَابٍ غَلِيظٍ (۳۱:۲۳،۲۴)

کافروں کے کفر سے آپ رنجیدہ نہ ہوں آخر ان سب کا لوٹنا تو ہماری جانب ہی ہے پھر ہم ان کو بتائیں گے جو انہوں نے کیا، بیشک اللہ سینوں کے بھید تک سے واقف ہے۔

‏ ہم انہیں گو کچھ یونہی فائدہ دے دیں لیکن (بالآخر) ہم انہیں نہایت بیچارگی کی حالت میں سخت عذاب کی طرف ہنکالے جائیں گے

اور جگہ ہے:

وَلَوْلاَ أَن يَكُونَ النَّاسُ أُمَّةً وَحِدَةً ۔۔۔ عِندَ رَبِّكَ لِلْمُتَّقِينَ  (۴۳:۳۳،۳۵)

اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ تمام لوگ ایک ہی طریقہ پر ہوجائیں گےتو رحمٰن کے ساتھ کفر کرنے والوں کے گھروں کی چھتوں کو ہم چاندی کی بنا دیتے۔ اور زینوں کو (بھی) جن پر چڑھا کرتے۔

‏ اور ان کے گھروں کے دروازے اور تخت بھی جن پر وہ تکیہ لگا لگا کر بیٹھتے۔‏ اور سونے کے بھی ا ور یہ سب کچھ یونہی سا دنیا کی زندگی کا فائدہ ہے اور آخرت تو آپ کے رب کے نزدیک (صرف) پرہیزگاروں کے لئے (ہی) ہے ۔‏

یہی مضمون اس آیت میں بھی ہے کہ انکا انجام برا ہے یہاں ڈھیل پا لیں گے لیکن وہاں سخت پکڑ ہوگی۔ جیسے اور جگہ ہے:

وَكَأَيِّن مِّن قَرْيَةٍ أَمْلَيْتُ لَهَا وَهِىَ ظَـلِمَةٌ ثُمَّ أَخَذْتُهَا وَإِلَىَّ الْمَصِيرُ (۲۲:۴۸)

بہت سی ظلم کرنے والی بستیوں کو میں نے ڈھیل دی پھر آخر انہیں پکڑ لیا، اور میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے

بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے:

 گندی باتوں کو سن کر صبر کرنے میں اللہ سے بڑھ کر کوئی نہیں لوگ اس کی اولاد بتاتے ہیں لیکن تاہم وہ انہیں رزق و عافیت دے رہا ہے

اور حدیث میں ہے:

 اللہ تعالیٰ ظالم کو ڈھیل دیتا ہے پھر اسے اچانک پکڑ لیتا ہے

 پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی:

وَكَذلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَى وَهِىَ ظَـلِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِيمٌ شَدِيدٌ (۱۱:۱۰۲)

تیرے پروردگار کی پکڑ کا یہی طریقہ ہے جبکہ وہ بستیوں کے رہنے والے ظالموں کو پکڑتا ہے بیشک اسکی پکڑ دکھ دینے والی اور نہایت سخت ہے

اس جملہ کو حضرت ابراہیم کی دعا میں شامل کرنا شاذ قرأت کی بنا پر ہے جو ساتوں قاریوں کی قرأت کے خلاف ہے اور ترکیب سیاق و سباق بھی یہی ظاہر کرتی ہے واللہ اعلم۔

 اس لئے کہ قَالَ کی ضمیر کا مرجع اللہ کی طرف ہے اور اس شاذ قرأت کی بنا پر اس کے فاعل اور قائل بھی حضرت ابراہیم ہی ہوتے ہیں جو نظم کلام سے بظاہر مخالف ہے واللہ اعلم۔

وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۖ إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (۱۲۷)

ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ کعبہ کی بنیادیں اٹھاتے جاتے تھے اور کہتے جا رہے تھے ہمارے پروردگار تو ہم سے قبول فرما

تو ہی سننے والا اور جاننے والا ہے‏

الْقَوَاعِدَ جمع ہے قَاعِدہ کی ترجمہ اس کا پایہ اور نیو ہے

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے والوں کو بناء ابراہیمی کی خبر دو،

ایک قرأت میں وَإِسْمَاعِيلُ کے بعد ویقولان بھی ہے اسی دلالت میں آگے لفظ مسلمین بھی ہے دونوں نبی نیک کام میں مشغول ہیں اور قبول نہ ہونے کا کھٹکا ہے تو اللہ تعالیٰ سے قبولیت کی دعا کرتے ہیں

حضرت وہیب بن ورد جب اس آیت کی تلاوت کرتے تو بہت روتے اور فرماتے آہ ! خلیل الرحمٰن جیسے اللہ کے مقبول پیغمبر اللہ کا کام اللہ کے حکم سے کرتے ہیں اس کا گھر اس کے فرمان سے بناتے ہیں اور پھر خوف ہے کہ کہیں یہ قبولیت سے گر نہ جائے سچ ہےمخلص مؤمنوں کا یہی حال ہے:

وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوا وَّقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَىٰ رَبِّهِمْ رَاجِعُونَ (۲۳:۶۰)

اور جو لوگ دیتے ہیں جو کچھ دیتے ہیں اور ان کے دل کپکپاتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں

حضرت ابراہیمؑ اٹھاتے تھے اور دعا حضرت اسماعیلؑ کرتے تھے لیکن صحیح یہی ہے کہ دونوں ہر ایک کام میں شریک تھے

صحیح بخاری شریف کی ایک روایت اور بعض اور آثار بھی اس واقعہ کے متعلق یہاں ذکر کئے جانے کے قابل ہیں

ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ کمر بند باندھنا عورتوں نے حضرت اسمٰعیل کی والدہ محترمہ سے سیکھا ہے انہوں نے باندھا تھا کہ حضرت مائی سارہ کو ان کا نقش قدم نہ ملے انہیں اور ان کے جگر کے ٹکڑے اپنے اکلوتے فرزند حضرت اسمٰعیل کو لے کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نکلے جبکہ یہ پیارا بچہ دودھ پیتا تھا۔

اب جہاں پر بیت اللہ بنا ہوا ہے یہاں ایک ٹیلہ تھا اور سنسان بیابان تھا کوئی رہنے  سہنے والا وہاں نہ تھا یہاں پہنچ کر ماں بیٹے کو بٹھا کر پاس تھوڑی سی کھجوریں اور مشکیزہ پانی کا رکھ کر آپ چلے گئے جب خلیل اللہ نے پیٹھ موڑی اور جانے لگے تو مائی حاجرہ نے آواز دی اے خلیل اللہ ہمیں اس دہشت و وحشت والے بیابان میں یکہ و تنہا چھوڑ کر جہاں ہمارا کوئی مونس و ہمدم نہیں آپ کہاں تشریف لے جا رہے ہیں؟

لیکن حضرت ابراہیم نے کوئی جواب نہ دیا بلکہ اس طرف توجہ تک نہ کی، منہ موڑ کر بھی نہ دیکھا

حضرت ہاجرہ کے بار بار کہنے پر بھی آپ نے التفات نہ فرمایا تو آپ فرمانے لگیں اللہ کے خلیل آپ ہمیں کسے سونپ چلے؟

آپ نے کہا اللہ تعالیٰ کو

کہا اے خلیل اللہ کیا اللہ تعالیٰ کا آپ کو یہ حکم ہے؟

آپ نے فرمایا ہاں مجھے اللہ کا یہی حکم ہے

یہ سن کر اُم اسمٰعیل کو تسکین ہو گئی اور فرمانے لگیں پھر تشریف لے جائیے وہ اللہ جل شانہ ہمیں ہر گز ضائع نہ کرے گا اسی کا بھروسہ اور اسی کا سہارا ہے۔حضرت ہاجرہ لوٹ گئیں اور اپنے کلیجہ کی ٹھنڈک اپنی آنکھوں کے نور ابن نبی اللہ کو گود میں لے کر اس سنسان بیابان میں اس ہو کے عالم میں لاچار اور مجبور ہو کر بیٹھ رہیں۔

حضرت ابراہیمؑ جب ثنیہ کے پاس پہنچے اور یہ معلوم کر لیا کہ اب حضرت ہاجرہ پیچھے نہیں اور وہاں سے یہاں تک ان کی نگاہ کام بھی نہیں کر سکتی تو بیت اللہ شریف کی طرف متوجہ ہو کر ہاتھ اٹھا کر دعا کی اور کہا

رَّبَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِي ۔۔۔ وَارْزُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ (۱۴:۳۷)

اے میرے پروردگار! میں نے اپنی کچھ اولاد اس بےکھیتی کی وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسائی ہے۔ اے ہمارے پروردگار! یہ اس لئے کہ وہ نماز قائم رکھیں

پس تو کچھ لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے۔ اور انہیں پھلوں کی روزیاں عنایت فرما تاکہ یہ شکر گزاری کریں۔‏

آپ نے یہ دعا کر کے حکم اللہ بجا لا کر اپنی اہل و عیال کو اللہ کے سپرد کر کے چلے گئے

ادھر حضرت ہاجرہ صبر و شکر کے ساتھ بچے سے دل بہلانے لگیں جب تھوڑی سی کھجوریں اور ذرا سا پانی ختم ہو گیا اب اناج کا ایک دانہ پاس ہے نہ پانی کا گھونٹ خود بھی بھوکی پیاسی ہیں اور بچہ بھی بھوک پیاس سے بیتاب ہے یہاں تک کہ اس معصوم نبی زادے کا پھول سا چہرہ کملانے لگا اور وہ تڑپنے اور بلکنے لگا ماتا بھری ماں کبھی اپنی تنہائی اور بےکسی کا خیال کرتی ہے کبھی اپنے ننھے سے اکلوتے بچے کا یہ حال بغور دیکھتی ہے اور سہمی جاتی ہے معلوم ہے کہ کسی انسان کا گزر اس بھیانک جنگل میں نہیں، میلوں تک آبادی کا نام و نشان نہیں کھانا تو کہاں؟ پانی کا ایک قطرہ بھی میسر نہیں آ سکتا

 آخر اس ننھی سی جان کا یہ ابتر حال نہیں دیکھا جاتا تو اٹھ کر چلی جاتی ہیں اور صفا پہاڑ جو پاس ہی تھا اس پر چڑھ جاتی ہیں اور میدان کی طرف نظر دواڑاتی ہیں کہ کوئی آتا جاتا نظر آ جائے لیکن نگاہیں مایوسی کے ساتھ چاروں طرف ڈالتی ہیں اور کسی کو بھی نہ دیکھ کر پھر وہاں سے اتر آتی ہیں اور اسی طرح درمیانی تھوڑا سا حصہ دوڑ کر باقی حصہ جلدی جلدی طے کر کے پھر صفا پر چڑھتی ہیں اسی طرح سات مرتبہ کرتی ہیں ہر بار آ کر بچہ کو دیکھ جاتی ہیں اس کی حالت ساعت بہ ساعت بگڑتی جا رہی ہے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں صفا مروہ کی سعی جو حاجی کرتے ہیں اس کی ابتدا یہی ہے

ساتویں مرتبہ جب حضرت ہاجرہ مروہ پر آتی ہیں تو کچھ آواز کان میں پڑتی ہے آپ خاموش ہو کر احتیاط کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوتی ہیں کہ یہ آواز کیسی؟

آواز پھر آتی ہے اور اس مرتبہ صاف سنائی دیتی ہے تو آپ آواز کی طرف لپک کر آتی ہیں اور اب جہاں زمزم ہے وہاں حضرت جبرائیل کو پاتی ہیں حضرت جبرائیل پوچھتے ہیں تم کون ہو؟

آپ جواب دیتی ہیں میں ہاجرہ ہوں میں حضرت ابراہیم کے لڑکے کی ماں ہوں

فرشتہ پوچھتا ہے ابراہیم تمہیں اس سنسان بیابان میں کسے سونپ گئے ہیں؟

 آپ فرماتی ہیں اللہ کو

فرمایا پھر تو وہ کافی ہے

حضرت ہاجرہ نے فرمایا اے غیبی شخص آواز تو میں نے سن لی کیا کچھ میرا کام بھی نکلے گا؟

حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اپنی ایڑی زمین رگڑی وہیں زمین سے ایک چشمہ پانی کا ابلنے لگا۔

حضرت ہاجرہ علیہما السلام نے ہاتھ سے اس پانی کو مشک میں بھرنا شروع کیا مشک بھر کر پھر اس خیال سے کہ پانی ادھر ادھر بہہ کر نکل نہ جائے آس پاس باڑ باندھنی شروع کر دی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ اُم اسمٰعیل پر رحم کرے اگر وہ اس طرح پانی کو نہ روکتیں تو زم زم کنویں کی مثل میں نہ ہوتا بلکہ وہ ایک جاری نہر کی صورت میں ہوتا

اب حضرت ہاجرہ نے پانی پیا اور بچہ کو بھی پلایا اور دودھ پلانے لگیں فرشتے نے کہ دیا کہ تم بےفکر رہو اللہ تمہیں ضائع نہ کرے گا جہاں تم بیٹھی ہو یہاں اللہ کا ایک گھر اس بچے اور اس کے باپ کے ہاتھوں بنے گا

حضرت ہاجرہ اب یہیں رہ پڑیں زمزم کا پانی پیتیں اور بچے سے دل بہلاتیں بارش کے موسم میں پانی کے سیلاب چاروں طرف سے آتے لیکن یہ جگہ ذرا اونچی تھی ادھر ادھر سے پانی گزر جاتا ہے اور یہاں امن رہتا

 کچھ مدت کے بعد جرہم کا قبیلہ کداء کے راستہ کی طرف سے اتفاقاً گزرا اور مکہ شریف کے نیچے کے حصہ میں اترا ان کی نظریں ایک آبی پرند پر پڑیں تو آپس میں کہنے لگے یہ پرندہ تو پانی کا ہے اور یہاں پانی کبھی نہ تھا ہماری آمدو رفت یہاں سے کئی مرتبہ ہوئی یہ تو خشک جنگل اور چٹیل میدان ہے یہاں پانی کہاں؟ چنانچہ انہوں نے اپنے آدمی اصلیت معلوم کرنے کے لیے بھیجے انہوں نے واپس آ کر خبر دی کہ وہاں تو بہترین اور بہت سا پانی ہے

 اب وہ سب آئے اور حضرت اُم اسمعٰیل سے عرض کرنے لگے کہ مائی صاحبہ اگر آپ اجازت دیں تو ہم بھی یہاں ٹھہر جائیں پانی کی جگہ ہے آپ نے فرمایا ہاں شوق سے رہو لیکن پانی پر قبضہ میرا ہی رہے گا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہاجرہ تو چاہتی تھیں کہ کوئی ہم جنس مل جائے چنانچہ یہ قافلہ یہاں رہ پڑا حضرت اسمٰعیل بھی بڑے ہو گئے ان سب کو آپ سے بڑی محبت ہو گئی یہاں تک کہ آپ بالغ ہوئے تو انہی میں نکاح بھی کیا اور انہی سے عربی بھی سیکھی مائی ہاجرہ علیہما السلام کا انتقال یہیں ہوا

جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ کی طرف سے اجازت ملی تو آپ اپنے لخت جگر کی ملاقات کے لیے تشریف لائے

بعض روایات میں ہے کہ آپ کا یہ آنا جانا براق پر ہوتا تھا ملک شام سے آتے تھے اور پھر واپس جاتے تھے

یہاں آئے تو حضرت اسمٰعیل گھر پر نہ ملے اپنی بہو سے پوچھا کہ وہ کہاں ہیں؟

 تو جواب ملا کہ کھانے پینے کی تلاش میں یعنی شکار کو گئے ہیں

آپ نے پوچھا تمہارا کیا حال ہے؟

 کہا برا حال ہے بڑی تنگی اور سختی ہے

 فرمایا اچھا تمہارے خاوند آئیں تو انہیں سلام کہنا اور کہہ دینا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل ڈالیں۔

حضرت ذبیح اللہ جب واپس آئے تو گویا آپ کو کچھ اُنس سا معلوم ہوا پوچھنے لگے کیا کوئی صاحب تشریف لائے تھے؟

بیوی نے کہا ہاں ایسی ایسی شکل و شباہت کے ایک عمر رسیدہ بزرگ آئے تھے؟ آپ کی نسبت پوچھا میں نے کہا وہ شکار کی تلاش میں باہر گئے ہیں پھر پوچھا کہ گزران کیسی چلتی ہے؟ میں نے کہا بڑی سختی اور تنگی سے گزر اوقات ہوتی ہے

پوچھا کچھ مجھ سے کہنے کو بھی فرما گئے ہیں؟

 بیوی نے کہا ہاں کہہ گئے کہ وہ جب وہ آئیں میرا سلام کہنا اور کہہ دینا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل ڈالیں

آپ فرمانے لگے بیوی سنو یہ میرے والد صاحب تھے اور جو فرما گئے ہیں اس سے مطلب یہ ہے کہ (چونکہ تم نے ناشکری کی) میں تم کو الگ کر دوں جاؤ میں نے تمہیں طلاق دی انہیں طلاق دے کر آپ نے اسی قبیلہ میں اپنا دوسرا نکاح کر لیا

ایک مدت کے بعد پھر حضرت ابراہیم باجازت الہٰی یہاں آئے اب کی مرتبہ بھی اتفاقاً حضرت ذبیح سے ملاقات نہ ہوئی بہو سے پوچھا تو جواب ملا کہ ہمارے لئے رزق کی تلاش میں شکار کو گئے ہیں آپ آئیے، تشریف رکھئے جو کچھ حاضر ہے تناول فرمائیے۔

آپ نے فرمایا یہ تو بتاؤ کہ گزر بسر کیسی ہوتی ہے ؟ کیا حال ہے؟

جواب ملا الحمد للہ ہم خیریت سے ہیں اور بفضل رب کعبہ کشادگی اور راحت ہے اللہ کا بڑا شکر ہے

 حضرت ابراہیم نے کہا تمہاری خوراک کیا ہے؟

 کہا گوشت

 پوچھا تم پیتے کیا ہو؟

 جواب ملا پانی

آپ نے دعا کی کہ پروردگار انہیں گوشت اور پانی میں برکت دے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اگر اناج ان کے پاس ہوتا اور یہ کہتیں تو حضرت خلیل علیہ السلام ان کے لیے اناج کی برکت کی دعا بھی کرتے اب اس دعا کی برکت سے اہل مکہ صرف گوشت اور پانی پر گزر کر سکتے ہیں۔ اور لوگ نہیں کر سکتے

آپ نے فرمایا اچھا میں تو جا رہا ہوں تم اپنے میاں کو میرا سلام کہنا اور کہنا کہ وہ اپنی چوکھٹ کو ثابت اور آباد رکھیں

بعد ازں حضرت اسمٰعیل آئے سارا واقعہ معلوم ہوا آپ نے فرمایا یہ میرے والد مکرم تھے مجھے حکم دے گئے ہیں کہ میں تمہیں الگ نہ کروں کیونکہ تم شکر گزار ہو

پھر ایک مدت کے بعد حضرت ابراہیم کو اجازت ملی اور آپ تشریف لائے تو حضرت اسمٰعیل کو زمزم کے پاس ایک ٹیلے پر تیر سیدھے کرتے ہوئے پایا، حضرت اسمٰعیل باپ کو دیکھتے ہی کھڑے ہو گئے اور با ادب ملے جب باپ بیٹے ملے تو خلیل اللہ علیہ السلام نے فرمایا اے اسمٰعیل مجھے اللہ کا ایک حکم ہوا ہے

 آپ نے فرمایا ابا جان جو حکم ہوا ہو اس کی تعمیل کیجئے،

 کہا بیٹا تمہیں بھی میرا ساتھ دینا پڑے گا۔

عرض کرنے لگے میں حاضر ہوں

 اس جگہ اللہ کا ایک گھربنانا ہے

کہنے لگے بہت بہتر

اب باپ بیٹے نے بیت اللہ کی نیو رکھی اور دیواریں اونچی کرنی شروع کیں، حضرت اسمٰعیل پتھر لا لا کر دیتے جاتے تھے اور حضرت ابراہیم چنتے جاتے تھے جب دیواریں قدرے اونچی ہو گئیں تو حضرت ذبیح اللہ یہ پتھر یعنی مقام ابراہیم کا پتھر لائے، اس اونچے پتھر پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم کعبہ کے پتھر رکھتے جاتے تھے اور دونوں باپ بیٹا یہ دعا مانگتے جاتے تھے کہ باری تعالیٰ تو ہماری اس ناچیز خدمت کو قبول فرمانا تو سننے اور جاننے والا ہے

یہ روایت اور کتب حدیث میں بھی ہے کہیں مختصر اور کہیں مفصلاً

ایک صحیح حدیث میں یہ بھی ہے کہ حضرت ذبیح اللہ کے بدلے جو دنبہ ذبح ہوا تھا اس کے سینگ بھی کعبۃ اللہ میں تھے

اوپر کی لمبی روایت بروایت حضرت علیؓ بھی مروی ہے اس میں یہ بھی ہے:

ابراہیم علیہ السلام جب کعبۃ اللہ شریف کے قریب پہنچے تو آپ نے اپنے سر پر ایک بادل سا ملاحظہ فرمایا جس میں سے آواز آئی کہ اے ابراہیم جہاں جہاں تک اس بادل کا سایہ ہے وہاں تک کی زمین بیت اللہ میں لے لو کمی زیادتی نہ ہو

اس روایت میں یہ بھی ہے کہ بیت اللہ بنا کر وہاں حضرت ہاجرہ اور حضرت اسمٰعیل کو چھوڑ کر آپ تشریف لے گئے

 لیکن پہلی روایت ہی ٹھیک ہے اور اس طرح تطبیق بھی ہو سکتی ہے کہ بناء  پہلے رکھ دی تھی لیکن بنایا بعد میں، اور بنانے میں بیٹا اور باپ دونوں شامل تھے جیسے کہ قرآن پاک کے الفاظ بھی ہیں

ایک اور روایت میں ہے کہ لوگوں نے حضرت علی سے بناء بیت اللہ شروع کیفیت دریافت کی تو آپ نے فرمایا :

اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو حکم دیا کہ میرا گھر بناؤ

حضرت ابراہیم گھبرائے کہ مجھے کہاں بنانا چاہئے کس طرح اور کتنا بڑا بنانا چاہئے وغیرہ

اس پر سکینہ نازل ہوا اور حکم ہوا کہ جہاں یہ ٹھہرے وہاں تم میرا گھر بناؤ آپ نے بنانا شروع کیا جب حجر اسود کی جگہ پہنچے تو حضرت اسمٰعیل سے کہا بیٹا کوئی اچھا سا پتھر ڈھونڈ لاؤ تو دیکھا کہ آپ اور پتھر وہاں لگا چکے ہیں،

 پوچھا یہ پتھر کون لایا؟

آپ نے فرمایا اللہ کے حکم سے یہ پتھر حضرت جبرائیل آسمان سے لے کر آئے،

حضرت کعب احبار فرماتے ہیں کہ اب جہاں بیت اللہ ہے وہاں زمین کی پیدائش سے پہلے پانی پر بلبلوں کے ساتھ جھاگ سی تھی یہیں سے زمین پھیلائی گئی،

حضرت علیؓ فرماتے ہیں کعبۃ اللہ بنانے کے لیے حضرت خلیل آرمینیہ سے تشریف لائے تھے

حضرت سدی فرماتے ہیں حجر اسود حضرت جبرائیل ہند سے لائے تھے اس وقت وہ سفید چمکدار یا قوت تھا جو حضرت آدمؑ کے ساتھ جنت سے آیا تھا پھر لوگوں کےخطاکار ہاتھوں سے اس کا رنگ سیاہ ہو گیا۔

اس روایت میں یہ بھی ہے کہ بنیادیں پہلے سے موجود تھیں انہیں پر حضرت ابراہیمؑ نے تعمیر شروع کی ۔

مسند عبد الرزاق میں ہے:

 حضرت آدمؑ ہند میں اترے تھے اس وقت ان کا قد لمبا تھا زمین میں آنے کے بعد فرشتوں کی تسبیح نماز و دعا وغیرہ سنتے تھے جب قد گھٹ گیا اور وہ پیاری آوازیں آنی بند ہو گئیں تو آپ گھبرانے لگے حکم ہوا کہ مکہ کی طرف جاؤ آدمؑ چلے جہاں جہاں آدمؑ کا قدم پڑا وہاں آبادی ہوئی اللہ تعالیٰ نے جنت سے ایک یاقوت اتارا اور بیت اللہ کی جگہ رکھا اور اسے اپنا گھر قرار دیا، حضرت آدمؑ یہاں طواف کرنے لگے اور مانوس ہوئے گھبراہٹ جاتی رہی

حضرت نوح کے طوفان کے زمانہ میں یہ پھر اٹھ گیا اور حضرت ابراہیم کے زمانہ میں پھر اللہ تعالیٰ نے بنوایا

حضرت آدم نے یہ گھر حرا طور زیتاحیل لبنان طور سینا اور جودی ان پانچ پہاڑوں سے بنایا تھا

 لیکن ان تمام روایتوں میں تفاوت ہے واللہ اعلم

بعض روایتوں میں ہے کہ زمین کی پیدائش سے دو ہزار سال پہلے بیت اللہ بنایا گیا تھا،

حضرت ابراہیم کے ساتھ بیت اللہ کے نشان بتانے کے لیے حضرت جبرائیل چلے تھے اس وقت یہاں جنگلی درختوں کے سوا کچھ نہ تھا کس دور عمالیق کی آبادی تھی یہاں آپ حضرت اُم اسماعیل کو اور حضرت اسمٰعیل کو ایک چھپر تلے بٹھا گئے

ایک اور روایت میں ہے کہ بیت اللہ کے چار ارکان ہیں اور ساتویں زمین تک وہ نیچے ہوتے ہیں

 ایک اور روایت میں ہے:

 ذوالقرنین جب یہاں پہنچے اور حضرت ابراہیم کو بیت اللہ بناتے ہوئے دیکھا تو پوچھا یہ کیا کر رہے ہو؟

 تو انہوں نے کہا اللہ کے حکم سے اس کا گھر بنا رہے ہیں

پوچھا کیا دلیل؟

 کہا یہ بھیڑیں گواہی دیں گی پانچ بھیڑوں نے کہا ہم گواہی دیتی ہیں کہ یہ دونوں اللہ کے مامور ہیں،

ذوالقرنین خوش ہو گئے اور کہنے لگے میں نے مان لیا

 الرزقی کی تاریخ مکہ میں ہے کہ ذوالقرنین نے خلیل اللہ اور ذبیح اللہ کے ساتھ بیت اللہ کا طواف کیا واللہ اعلم

صحیح بخاری میں ہے :

قَوَاعِدَ بُنْيَان اور اساس کو کہتے ہیں یہ قَاعِدَہ کی جمع ہے قرآن میں اور جگہ وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاءِ (۲۴:۶۰) بھی آیا ہے اس کا مفرد بھی قاعدۃ ہے

حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کیا تم نہیں دیکھتیں کہ تمہاری قوم نے جب بیت اللہ بنایا تو قَوَاعِدَ ابراہیم سے گھٹا دیا میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ اسے بڑھا کر اصلی بناء کر دیں

فرمایا کہ اگر تیری قوم کا اسلام تازہ اور ان کا زمانہ کفر کے قریب نہ ہوتا تو میں ایسا کر لیتا

حضرت عبداللہ بن عمرؓ  کو جب یہ حدیث پہنچی تو فرمانے لگے شاید یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجر اسود کے پاس کے دوستونوں کو چھوتے نہ تھے

صحیح مسلم شریف میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اے عائشہ اگر تیری قوم کا جاہلیت کا زمانہ نہ ہوتا تو میں کعبہ کے خزانہ کو اللہ کی راہ میں خیرات کر ڈالتا اور دروازے کو زمین دوز کر دیتا اور حطیم کو بیت اللہ میں داخل کر دیتا

صحیح بخاری میں یہ بھی ہے کہ میں اس کا دوسرا دروازہ بھی بنا دیتا ایک آنے کے لیے اور دوسرا جانے کے لیے چنانچہ ابن زبیر ؓنے اپنے زمانہ خلافت میں ایسا ہی کیا

اور ایک روایت میں ہے کہ اسے میں دوبارہ بناء ابراہیمی پر بناتا۔دوسری روایت میں ہے کہ ایک دروازہ مشرق رخ کرتا اور دوسرا مغرب رخ اور چھ ہاتھ حطیم کو اس میں داخل کر لیتا جسے قریش نے باہر کر دیا ہے

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے پانچ سال پہلے قریش نے نئے سرے سے کعبہ بنایا تھا اس کا مفصل ذکر ملاحظہ ہو

 اس بناء میں خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی شریک تھے آپ کی عمر پینتیس سال کی تھی اور پتھر آپ بھی اٹھاتے تھے

 محمد بن اسحاق بن یسار رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک پینتیس سال کی ہوئی اس وقت قریش نے کعبۃ اللہ کو نئے سرے سے بنانے کا ارادہ کیا ایک تو اس لئے کہ اس کی دیواریں بہت چھوٹی تھیں چھت نہ تھی دوسرے اس لئے بھی کہ بیت اللہ کا خزانہ چوری ہو گیا تھا جو بیت اللہ کے بیچ میں ایک گہرے گڑھے میں رکھا ہوا تھا یہ مال"دویک" کے پاس ملا تھاجو خزائمہ کے قبیلے بنی ملیح بن عمرو کا مولیٰ تھا ممکن ہے چوروں نے یہاں لا رکھا ہو لیکن اس کے ہاتھ اس چوری کی وجہ سے کاٹے گئے

ایک اور قدرتی سہولت بھی اس کے لیے ہو گئی تھی کہ روم کے تاجروں کی ایک کشتی جس میں بہت اعلیٰ درجہ کی لکڑیاں تھیں وہ طوفان کی وجہ سے جدہ کے کنارے آ لگی تھی یہ لکڑیاں چھت میں کام آ سکتی تھیں اس لیے قریشیوں نے انہیں خرید لیا اور مکہ کے ایک بڑھئی جو قبطی قبیلہ میں سے تھا کو چھت کا کام سونپا یہ سب تیاریاں تو ہو رہی تھیں لیکن بیت اللہ کو گرانے کی ہمت نہ پڑتی تھی اس کے قدرتی اسباب بھی مہیا ہو گئے

 بیت اللہ کے خزانہ میں ایک بڑا اژدھا تھا جب کبھی لوگ اس کے قریب بھی جاتے تو وہ منہ پھاڑ کر ان کی طرف لپکتا تھا یہ سانپ ہر روز اس کنویں سے نکل کر بیت اللہ کی دیواروں پر آ بیٹھتا تھا ایک روز وہ بیٹھا ہوا تھا تو اللہ تعالیٰ نے ایک بہت بڑا پرندہ بھیجا وہ اسے پکڑ کر لے اڑا قریشیوں نے سمجھ لیا کہ ہمارا ارادہ مرضی مولا کے مطابق ہے لکڑیاں بھی ہمیں مل گئیں بڑھئی بھی ہمارے پاس موجود ہے سانپ کو بھی اللہ تعالیٰ نے دفع کیا۔ اب انہوں نے مستقل ارادہ کر لیا کہ کعبۃ اللہ کو گرا کر نئے سرے سے بنائیں۔

 سب سے پہلے ابن وہب کھڑا ہوا اور ایک پتھر کعبۃ اللہ کو گرا کر اتارا جو اس کے ہاتھ سے اڑ کر پھر وہیں جا کر نصب ہو گیا اس نے تمام قریشیوں سے خطاب کر کے کہا سنو بیت اللہ کے بنانے میں ہر شخص اپنا طیب اور پاک مال خرچ کرے۔ اس میں زنا کاری کا روپیہ سودی بیوپار کا روپیہ ظلم سے حاصل کیا ہوا مال نہ لگانا،

بعض لوگ کہتے ہیں یہ مشورہ ولید بن مغیرہ نے دیا تھا

اب بیت اللہ کے حصے بانٹ لئے گئے دروازہ کا حصہ بنو عبد مناف اور زہرہ بنائیں حجر اسود اور رکن یمانی کا حصہ بنی مخزوم بنائیں۔ قریش کے اور قبائل بھی ان کا ساتھ دیں۔ کعبہ کا پچھلا حصہ بنو حمج اور سہم بنائیں۔ حطیم کے پاس کا حصہ بنو عبد الدار بن قصف اور بنو اسد بن عبد العزی اور بنو عدی بن کعب بنائیں۔

 یہ مقرر کر کے سب  بنی ہوئی عمارت کو ڈھانے کے لیے چلے لیکن کسی کو ہمت نہیں پڑتی کہ اسے مسمار کرنا شروع کرے آخر ولید بن مغیرہ نے کہا لو میں شروع کرتا ہوں کدال لے کر اوپر چڑھ گئے اور کہنے لگے اے اللہ تجھے خوب علم ہے کہ ہمارا ارادہ برا نہیں ہم تیرے گھر کو اجاڑنا نہیں چاہتے بلکہ اس کے آباد کرنے کی فکر میں ہیں۔ یہ کہہ کر کچھ حصہ دونوں رکن کے کناروں کا گرایا

قریشیوں نے کہا بس اب چھوڑو اور رات بھر کا انتظار کرو اگر اس شخص پر کوئی وبال آ جائے تو یہ پتھر اسی جگہ پر لگا دینا اور خاموش ہو جانا اور اگر کوئی عذاب نہ آئے تو سمجھ لینا کہ اس کا گرانا اللہ کو ناپسند نہیں پھر کل سب مل کر اپنے اپنے کام میں لگ جانا

چنانچہ صبح ہوئی اور ہر طرح خیریت رہی اب سب آ گئے اور بیت اللہ کی اگلی عمارت کو گرا دیا یہاں تک کہ اصلی نیو یعنی بناء ابراہیمی تک پہنچ گئےیہاں سبز رنگ کے پتھر تھے کے ہلنے کے ساتھ ہی تمام مکہ کی زمین ہلنے لگی تو انہوں نے سمجھ لیا کہ انہیں جدا کر کے اور پتھر ان کی جگہ لگانا اللہ کو منظور نہیں اس لئے ہمارے بس کی بات نہیں اس ارادے سے باز رہے اور ان پتھروں کو اسی طرح رہنے دیا

پھر ہر قبیلہ نے اپنے اپنے حصہ کے مطابق علیحدہ علیحدہ پتھر جمع کئے اور عمارت بننی شروع ہوئی یہاں تک کہ حجر اسود کی جگہ تک پہنچے ۔ اب ہر قبیلہ چاہتا تھا کہ یہ شرف اسے ملےآپس میں لڑنے جھگڑنے لگے یہان تک کہ باقاعدہ جنگ کی نوبت آ گئی فرقے آپس میں کھچ گئے اور لڑائی کی تیاریاں میں مشغول ہو گئے بنو عبد دار اور بنو عدی نے ایک طشتری میں خون بھر کر اس میں ہاتھ ڈبو کر حلف اٹھایا کہ سب کٹ مریں گے لیکن حجر اسود کسی کو نہیں رکھنے دیں گے اسی طرح چار پانچ دن گزر گئے

پھر قریش مسجد میں جمع ہوئے کہ آپس میں مشورہ اور انصاف کریں تو ابو امیہ بن مغیرہ نے جو قریش میں سب سے زیادہ معمر اور عقلمند تھے کہا سنو لوگو تم اپنا منصف کسی کو بنا لو وہ جو فیصلہ کرے سب منظور کر لو۔ لیکن پھر منصف بنانے میں بھی اختلاف ہوگا اس لئے ایسا کرو کہ اب جو سب سے پہلے یہاں مسجد میں آئے وہی ہمارا منصف۔ اس رائے پر سب نے اتفاق کر لیا۔ اب منتظر ہیں کہ دیکھیں سب سے پہلے کون آتا ہے؟

 پس سب سے پہلے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے۔ آپ کو دیکھتے ہی یہ لوگ خوش ہو گئے اور کہنے لگے ہمیں آپ کا فیصلہ منظور ہے ہم آپ کے حکم پر رضا مند ہیں۔ یہ تو امین ہیں یہ تو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں۔ پھر سب آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ آپ کو کہہ سنایا

آپ ﷺنے فرمایا جاؤ کوئی موٹی اور بڑی سی چادر لاؤ وہ لے آئے۔ آپ نے حجر اسود اٹھا کر اپنے دست مبارک سے اس میں رکھا پھر فرمایا ہر قبیلہ کا سردار آئے اور اس کپڑے کا کونہ پکڑ لے اور اس طرح ہر ایک حجر اسود کے اٹھانے کا حصہ دار بنے اس پر سب لوگ بہت ہی خوش ہوئے اور تمام سرداروں نے اسے تھام کر اٹھا لیا۔

جب اس کے رکھنے کی جگہ تک پہنچے تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لے کر اپنے ہاتھ سے اسی جگہ رکھ دیا اور وہ نزاع و اختلاف بلکہ جدال و قتال رفع ہو گیا اور اس طرح اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ اپنے گھر میں اس مبارک پتھر کو نصب کرایا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہونے سے پہلے قریش آپ کو امین کہا کرتے تھے۔

 اب پھر اوپر کا حصہ بنا اور کعبۃ اللہ کی عمارت تمام ہوئی

ابن اسحاق فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کعبہ اٹھارہ ہاتھ کا تھا۔ قباطی کا پردہ چڑھایا جاتا تھا پھر چادر کا پردہ چڑھنے لگا۔ ریشمی پردہ سب سے پہلے حجاج بن یوسف نے چڑھایا۔

 کعبہ کی یہی عمارت رہی یہاں تک کہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے ابتدائی زمانہ میں ساٹھ سال کے بعد یہاں آگ لگی اور کعبہ جل گیا۔

یزید بن معاویہ کے زمانہ میں جب کہ شامیوں نے مکہ شریف پر چڑھائی کی اور جو ہونا تھا وہ ہوا۔ اس وقت حضرت عبداللہؓ نے بیت اللہ کو یونہی چھوڑ دیا۔ موسم حج کے موقع پر لوگ جمع ہوئے انہوں نے یہ سب کچھ دیکھا بعد ازاں آپ نے لوگوں سے مشورہ لیا کہ کیا کعبۃ اللہ سارے کو گرا کر نئے سرے سے بنائیں یا جو ٹوٹا ہوا ہے اسکی اصلاح کر لیں؟ تو حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا میری رائے یہ ہے کہ آب جو ٹوٹا ہوا ہے اسی کی مرمت کر دیں باقی سب پرانا ہے رہنے دیں۔

آپ نے فرمایا اگر تم میں سے کسی کا گھر جل جاتا تو وہ تو خوش نہ ہوتا جب تک اسے نئے سرے سے نہ بناتا پھر تم اپنے رب عزوجل کے گھر کی نسبت اتنی کمزور رائے کیوں رکھتے ہو؟ اچھا میں تین دن تک اپنے رب سے استخارہ کروں گا پھر جو سمجھ میں آئے گا وہ کروں گا۔

تین دن کے بعد آپ کی رائے یہی ہوئی کہ باقی ماندہ دیواریں بھی توڑی جائیں اور از سرے نو کعبہ کی تعمیر کی جائے چنانچہ یہ حکم دے دیا لیکن کعبے کو توڑنے کی کسی کی ہمت نہیں پڑتی تھی۔ ڈر تھا کہ جو پہلے توڑنے کے لیے چڑھے گا اس پر عذاب نازل ہو گا لیکن ایک باہمت شخص چڑھ گیا اور اس نے ایک پتھر توڑا۔

 جب لوگوں نے دیکھا کہ اسے کچھ ایذاء نہیں پہنچی تو اب ڈھانا شروع کیا اور زمین تک برابر یکساں صاف کر دیا اس وقت چاروں طرف ستون کھڑے کر دئیے تھے اور ایک کپڑا تان دیا تھا۔ اب بناء بیت اللہ شروع ہوئی۔

حضرت عبداللہ ؓنے فرمایا میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے سنا وہ کہتی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اگر لوگوں کا کفر کا زمانہ قریب نہ ہوتا اور میرے پاس خرچ بھی ہوتا جس سے میں بنا سکوں تو حطیم میں سے پانچ ہاتھ بیت اللہ میں لے لیتا اور کعبہ کے دو دروازے کرتا ایک آنے کا اور ایک جانے کا

حضرت عبداللہؓ نے یہ روایت بیان کر کے فرمایا اب لوگوں کے کفر کا زمانہ قریب کا نہیں رہا ان سے خوف جاتا رہا اور خزانہ بھی معمور ہے میرے پاس کافی روپیہ ہے پھر کوئی وجہ نہیں کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تمنا پوری نہ کروں چنانچہ پانچ ہاتھ حطیم اندر لے لی اور اب جو دیوار کھڑی کی تو ٹھیک ابراہیمی بنیاد نظر آنے لگی جو لوگوں نے اپنی آنکھوں دیکھ لی اور اسی پر دیوار کھڑی کی بیت اللہ کا طول اٹھارہ ہاتھ تھا اب جو اس میں پانچ ہاتھ اور بڑھ گیا تو چھوٹا ہو گیا اس لیے طول میں دس ہاتھ اور بڑھایا گیا اور دو دروازے بنائے گئے ایک اندر آنے کا دوسرا باہر جانے کا

ابن زبیرؓ کی شہادت کے بعد حجاج نے  عبد الملک کو لکھا اور ان سے مشورہ لیا کہ اب کیا کیا جائے؟ یہ بھی لکھ بھیجا کہ مکہ شریف کے عادلوں نے دیکھا ہے ٹھیک حضرت ابراہیم کی نیو پر کعبہ تیار ہوا ہے لیکن عبد الملک نے جواب دیا کہ طول کو تو باقی رہنے دو اور حطیم کو باہر کر دو اور دوسرا دروازہ بند کر دو۔

حجاج نے اس حکم کے مطابق کعبہ کو تڑوا کر پھر اسی بناء پر بنا دیا لیکن سنت طریقہ یہی تھا کہ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓکی بناء کو باقی رکھا جاتا اس لئے کہ حضور علیہ السلام کی چاہت یہی تھی لیکن اس وقت آپ کو یہ خوف تھا کہ لوگ بد گمانی نہ کریں ابھی نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے ہیں لیکن یہ حدیث عبد الملک بن مروان کو نہیں پہنچی تھی اس لئے انہوں نے اسے تڑوا دیا جب انہیں حدیث پہنچی تو رنج کرتے تھے اور کہتے تھے کاش کہ ہم یونہی رہنے دیتے اور نہ تڑواتے

چنانچہ صحیح مسلم شریف کی ایک اور حدیث میں ہے:

 حارث عبید اللہ جب ایک وفد میں عبد الملک بن مروان کے پاس پہنچے تو عبد الملک نے کہا میرا خیال ہے کہ ابو حبیب یعنی عبداللہ بن زبیرؓ نے ( اپنی خالہ) حضرت عائشہؓ سے یہ حدیث سنی ہو گی

حارث نے کہا ضرور سنی تھی خود میں نے بھی اُم المؤمنین ؓسے سنا ہے

 پوچھا تم نے کیا سنا ہے؟

 کہا میں نے سنا ہے آپ فرماتی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ مجھ سے فرمایا :

 عائشہ تیری قوم نے بیت اللہ کو تنگ کر دیا۔ اگر تیری قوم کا زمانہ شرک کے قریب نہ ہوتا تو میں نئے سرے سے ان کی کمی کو پورا کر دیتا لیکن آؤ میں تجھے اصلی نیو بتا دوں شاید کسی وقت تیری قوم پھر اسے اس کی اصلیت پر بنانا چاہے تو آپ نے حضرت صدیقہؓ کو حطیم میں سے قریباً سات ہاتھ اندر داخل کرنے کو فرمایا اور فرمایا میں اس کے دروازے بنا دیناایک آنے کے لیے اور دوسرا جانے کے لیے اور دونوں دروازے زمین کے برابر رکھنا ایک مشرق رخ رکھنا دوسرا مغرب رخ

جانتی بھی ہو کہ تمہاری قوم نے دروازے کو اتنا اونچا کیوں رکھا ہے؟

 آپ نے فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھے خبر نہیں

فرمایا محض اپنی اونچائی اور بڑائی کے لیے کہ جسے چاہیں اندر جانے دیں اور جسے چاہیں داخل نہ ہونے دیں جب کوئی شخص اندر جانا چاہتا تو اسے اوپر سے دھکادے دیتے وہ گر پڑتا اور جسے داخل کرنا چاہتے اسے ہاتھ تھام کر اندر لے لیتے۔

عبد الملک نے کہا اے حارث ! تم نے خود اس حدیث کو حضرت عائشہؓ سے سنا ہے انہوں نے کہا ہاں میں نے خود سنا ہے تو تھوڑی دیر تک تو عبد الملک اپنی لکڑی ٹکائے سوچتے رہے پھر کہنے لگے کاش کہ میں اسے یونہی چھوڑ دیتا

صحیح مسلم شریف کی ایک اور حدیث میں ہے:

عبد الملک بن مروان نے ایک مرتبہ طواف کرتے ہوئے حضرت عبداللہؓ  کو کوس کر کہا کہ وہ حضرت عائشہؓ پر اس حدیث کا بہتان باندھتا تھا تو حضرت حارث نے روکا اور شہادت دی کہ وہ سچے تھے میں نے بھی حضرت صدیقہؓ سے یہ سنا ہے اب عبد الملک افسوس کرنے لگے اور کہنے لگے اگر مجھے پہلے سے معلوم ہوتا تو میں ہرگز اسے نہ توڑتا۔

قاضی عیاض اور امام نووی نے لکھا ہے :

خلیفہ ہارون رشید نے حضرت امام مالکؒ سے پوچھا تھا کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں پھر کعبہ کو حضرت ابن زبیرؓ کے بنائے ہوئے کے مطابق بنا دوں،

 امام مالکؒ نے فرمایا آپ ایسا نہ کیجئے ایسا نہ ہو کہ کعبہ بادشاہوں کا ایک کھلونا بن جائے جو آئے اپنی طبیعت کے مطابق توڑ پھوڑ کرتا رہے چنانچہ خلیفہ اپنے ارادے سے باز رہے یہی بات ٹھیک بھی معلوم ہوتی ہے کہ کعبہ کو بار بار چھیڑنا ٹھیک نہیں۔

بخاری و مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

کعبہ کو دو چھوٹی پنڈلیوں والا ایک حبشی پھر خراب کرے گا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں گویا میں اسے دیکھ رہا ہوں وہ سیاہ فام ایک ایک پتھر الگ الگ کر دے گا اس کا غلاف لے جائے گا اور اس کا خزانہ بھی وہ ٹیڑھے ہاتھ پاؤں والا اور گنجا ہوگا میں دیکھ رہا ہوں کہ گویا وہ کدال بجا رہا ہے اور برابر ٹکڑے کر رہا ہے

 غالباً یہ ناشدنی واقعہ (جس کے دیکھنے سے ہمیں محفوظ رکھے) یاجوج ماجوج کے نکل چکنے کے بعد ہوگا۔

صحیح بخاری شریف کی ایک حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 تم یاجوج ماجوج کے نکلنے کے بعد بھی بیت اللہ شریف کا حج و عمرہ کرو گے۔

رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ

اے ہمارے رب ہمیں اپنا فرمانبردار بنا لے

حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ اپنی دعا میں کہتے ہیں کہ ہمیں مسلمان بنالے یعنی مخلص بنا لے مطیع بنا لے موحد بنا’ شرک سے بچا ریا کاری سے محفوظ رکھ خشوع وخضوع عطا فرما۔

حضرت سلام بن ابی مطیع فرماتے ہیں مسلمان تو تھے ہی لیکن اسلام کی ثابت قدمی طلب کرتے ہیں جس کے جواب میں ارشاد باری ہوا قد فعلت میں نے تمہاری یہ دعا قبول فرمائی

وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُسْلِمَةً لَكَ

اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک جماعت کو اپنی اطاعت گزار رکھ

پھر اپنی اولاد کے لیے بھی یہی دعا کرتے ہیں جو قبول ہوتی ہے بنی اسرائیل بھی آپ کی اولاد میں ہیں اور عرب بھی قرآن میں ہے:

وَمِن قَوْمِ مُوسَىٰ أُمَّةٌ يَهْدُونَ بِالْحَقِّ وَبِهِ يَعْدِلُونَ (۷:۱۵۹)

اور قوم موسیٰ میں ایک جماعت ایسی بھی ہے جو حق کے مطابق ہدایت کرتی ہے اور اسی کے مطابق بھی کرتی ہے

روانی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ عرب کے لیے یہ دعا ہے’ گو عام طور پر دوسروں پر بھی مشتمل ہو اس لیے کہ اس کے بعد دوسری دعا میں ہے کہ ان میں ایک رسول بھیج اور اس رسول سے مراد حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں چنانچہ یہ دعا بھی پوری ہوئی جیسے فرمایا :

هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ (۶۲:۲)

وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا

لیکن اس سے آپ کی رسالت خاص نہیں ہوتی بلکہ آپ کی رسالت عام ہے عرب عجم سب کے لیے جیسے فرمایا:

قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا (۷:۱۵۸)

آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف سے اس اللہ کا بھیجا ہوا ہوں

 ان دونوں نبیوں کی یہ دعا جیسی ہے ایسی ہی ہر متقی کی دعا ہونی چاہئے۔

جیسے قرآنی تعلیم ہے کہ مسلمان یہ دعا کریں:

رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَجِنَا وَذُرِّيَّـتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَاماً  (۲۵:۷۴)

اے ہمارے پروردگار! تو ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما  اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا

یہ بھی اللہ تعالیٰ کی محبت کی دلیل ہے انسان یہ چاہے کہ میری اولاد میرے بعد بھی اللہ کی عابد رہے۔

اور جگہ اس دعا کے الفاظ یہ ہیں :

وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَن نَّعْبُدَ الأَصْنَامَ (۱۴:۳۵)

اے اللہ مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 انسان کے مرتے ہی اس کے اعمال ختم ہو جاتے ہیں مگر تین کام جاری رہتے ہیں

- صدقہ،

- علم جس سے نفع حاصل کیا جائے

- اور نیک اولاد جو دعا کرتی رہے (مسلم )

وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا ۖ إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ (۱۲۸)

اور ہمیں اپنی عبادتیں سکھا اور ہماری توبہ قبول فرما، تو توبہ قبول فرمانے والا اور رحم و کرم کرنے والا ہے‏

پھر آپ دعا کرتے ہیں کہ ہمیں مناسک دکھا یعنی احکام حج و ذبح وغیرہ سکھا۔

حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ کو لے کر کعبہ کی عمارت پوری ہو جانے کے بعد صفا پر آتے ہیں پھر مروہ پر جاتے ہیں اور فرماتے ہیں یہ شعائر اللہ ہیں پھر منٰی کی طرف لے چلے عقبہ پر شیطان درخت کے پاس کھڑا ہوا ملا تو فرمایا تکبیر پڑھ کر اسے کنکر مارو۔ابلیس یہاں سے بھاگ کر جمرہ وسطی کے پاس جا کھڑا ہوا۔ یہاں بھی اسے کنکریاں ماریں تو یہ خبیث ناامید ہو کر چلا گیا۔ اس کا ارادہ تھا کہ حج کے احکام میں کچھ دخل دے لیکن موقع نہ ملا اور مایوس ہو گیا

یہاں سے آپ کو مشعر الحرام میں لائے پھر عرفات میں پہنچایا پھر تین پوچھا کہو سمجھ لیا۔ آپ نے فرمایا ہاں

 دوسری روایت میں تین جگہ شیطان کو کنکریاں مارنی مروی ہیں اور یہ شیطان کو سات سات کنکریاں ماری ہیں۔

رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۚ

اے ہمارے رب ان میں، انہیں میں سے رسول بھیج جو ان کے پاس تیری آیتیں پڑھے، انہیں کتاب و حکمت سکھائے اور انہیں پاک کرے

اہل حرم کے لیے یہ دعا بھی ہے کہ آپ کی اولاد میں سے ہی رسول ان میں آئے چنانچہ یہ بھی پوری ہوئی۔

 مسند احمد ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

میں اللہ جل شانہ کے نزدیک آخری نبی اس وقت سے ہوں جبکہ آدم ابھی مٹی کی صورت میں تھے

میں تمہیں ابتدائی امر بتاؤں میں اپنے باپ ابراہیم ؑکی دعا اورمیری خوشخبری جو  حضرت عیسیٰ ؑنے دی اور میری ماں نے دیکھا کہ گویا ان میں سے ایک نور نکلا، جس سے شام کے محل چمکا دئیے۔

مطلب یہ ہے کہ دنیا میں شہرت کا ذریعہ یہ چیزیں ہوئی۔

آپﷺ کی والدہ صاحبہ کا خواب بھی عرب میں پہلے ہی مشہور ہو گیا تھا اور وہ کہتے ہیں کہ بطن آمنہ سے کوئی بڑا شخص پیدا ہو گا

بنی اسرائیل کے نبیوں کے ختم کرنے والے حضرت روح اللہ نے تو بنی اسرائیل میں خطبہ پڑھتے ہوئے آپ کا صاف نام بھی لے دیا اور فرمایا ـ

إِنِّى رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُم مُّصَدِّقاً لِّمَا بَيْنَ يَدَىَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِى مِن بَعْدِى اسْمُهُ أَحْمَدُ (۶۱:۶)

میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں مجھ سے پہلے کی کتاب تورات کی میں تصدیق کرنے والا ہوں ۔

 اور اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی میں تمہیں خوشخبری سنانے والا ہوں جن کا نام احمد ہے

اسی کی طرف اس حدیث میں اشارہ ہے،

خواب میں نور سے شام کے محلات کا چمک اٹھنا اشارہ ہے، اس امر کی طرف کہ دین وہاں جم جائے گا بلکہ روایتوں سے ثابت ہے کہ آخر زمانہ میں شام اسلام اور اہل اسلام کا مرکز جائے گا۔ شام کے مشہور شہر دمشق ہی میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام شرقی سفید مینارہ پر نازل ہوں گے۔

 بخاری و مسلم میں ہے:

میری اُمت کی ایک جماعت حق پر قائم رہے گی، انکے مخالفین انہیں نقصان نہ پہنچا سکیں گے یہاں تک کہ امر اللہ آ جائے

صحیح بخاری میں اتنا اضافہ اور ہے کہ وہ شام میں ہوں گے۔

ابو العالیہ سے مروی ہے کہ یہ بھی اسی مقبول دعا کا ایک حصہ ہے کہ اور یہ پیغمبر آخر زمانہ میں مبعوث ہوں گے۔

الْكِتَابَ سے مراد قرآن اور حِكْمَة سے مراد سنت و حدیث ہے حسن، قتادہ ، مقاتل بن حیان اور ابومالک کا یہی فرمان ہے

اور حِكْمَة سے مراد دین کی سمجھ بوجھ بھی ہے۔

  يُزَكِّيهِمْ پاک کرنا یعنی طاعت و اخلاص سیکھنا، بھلائیں کرانا، برائیوں سے بچانا، اطاعت الہٰی کر کے رضائے رب حاصل کرنا، نافرمانی سے بچ کر ناراضگی سے محفوظ رہنا۔

إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (۱۲۹)

یقیناً تو غلبے والا اور حکمت والا ہے۔‏

اللہ عزیز ہے جسے کوئی چیز عاجز نہیں کر سکتی وہ  ہر چیز پر غالب ہے وہ حکیم ہےیعنی اس کا کوئی قول و فعل حکمت سے خالی نہیں، وہ ہر چیز کو اپنے محل پر ہی حکمت وعدل و علم کے ساتھ رکھتا ہے۔

وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهُ ۚ

دین ابراہیمی سے وہ ہی بےرغبتی کرے گا جو محض بیوقوف ہو،

ان آیتوں میں بھی مشرکین کی تردید ہے کہ جو اپنے آپ کو دین ابراہیمی پر بتاتے تھے حالانکہ کامل مشرک تھے جبکہ حضرت خلیل اللہ تو موحدوں کے امام تھے۔ توحید کو شرک سے ممتاز کرنے والے تھے عمر بھر میں ایک آنکھ جھپکنے کے برابر بھی اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا بلکہ ہر مشرک سے اور ہر قسم کے شرک سے اور ہر غیراللہ سے جو اللہ مانا جاتا ہو وہ دل سے نفرت کرتے تھے اور ان سب سے بیزار تھے۔ اسی بنا پر قوم سے الگ ہوئے وطن چھوڑا بلکہ باپ تک کی مخالفت کی پروانہ کی اور صاف کہہ دیا :

فَلَمَّآ أَفَلَتْ قَالَ يقَوْمِ إِنِّى بَرِىءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ ـ إِنِّى وَجَّهْتُ وَجْهِىَ لِلَّذِى فَطَرَ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضَ حَنِيفاً وَمَآ أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ (۶:۷۸،۷۹)

پھر جب وہ بھی غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا بیشک میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں ۔

میں اپنا رخ اس کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا یکسو ہو کر اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔‏

اور فرمایا :

وَإِذْ قَالَ إِبْرَهِيمُ لاًّبِيهِ وَقَوْمِهِ إِنَّنِى بَرَآءٌ مِّمَّا تَعْبُدُونَ ـ إِلاَّ الَّذِى فَطَرَنِى فَإِنَّهُ سَيَهْدِينِ (۴۳:۲۶،۲۷)

اور جبکہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد سے اور اپنی قوم سے فرمایا کہ میں ان چیزوں سے بیزار ہوں جن کی تم عبادت کرتے ہو۔

‏ بجز اس ذات کے جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور وہی مجھے ہدایت بھی کرے گا

اور جگہ ہے:

وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَهِيمَ لاًّبِيهِ إِلاَّ عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَآ إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِلَّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ إِنَّ إِبْرَهِيمَ لأَوَّاهٌ حَلِيمٌ (۹:۱۱۴)

اور ابراہیم ؑ  کا اپنے باپ کے لئے دعائے مغفرت کرنا وہ صرف وعدہ کے سبب تھا جو انہوں نے ان سے وعدہ کر لیا تھا۔

پھر جب ان پر یہ بات ظاہر ہوگئی کہ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے محض بےتعلق ہوگئے و اقعی ابراہیم ؑ بڑے نرم دل اور بردبار تھے

وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا ۖ وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ (۱۳۰)

ہم نے تو اسے دنیا میں بھی برگزیدہ کیا تھا اور آخرت میں بھی وہ نیکو کاروں میں سے ہے

رب کی نعمتوں کے شکر گزار تھے، اللہ رب کعبہ کے پسندیدہ تھے اور راہ راست پر لگے ہوئے تھے، دنیا کے بھلے لوگوں میں سے تھے اور آخرت میں بھی صالح لوگوں میں ہوں گے۔

ان آیتوں کی طرح یہاں بھی فرمایا کہ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے بےتدبیر اور گمراہ لوگ ہی ملت ابراہیمی کو ترک کرتے ہیں کیونکہ حضرت ابراہیم کو اللہ نے ہدایت کے لیے چن لیا تھا اور بچپن سے ہی توفیق حق دے رکھی تھی، خلیل جیسا معزز خطاب انہی کو دیا گیا۔ وہ آخرت میں بھی سعید بخت لوگوں میں ہیں۔ ان کے مسلک و ملت کو چھوڑ کر ضلالت و گمراہی میں پڑنے والے سے زیادہ بیوقوف اور ظالم اور کون ہو گا؟  اس آیت میں یہودیوں کا بھی رد ہے۔جیسے اور جگہ ہے :

مَا كَانَ إِبْرَهِيمُ يَهُودِيًّا وَلاَ نَصْرَانِيًّا ۔۔۔ وَالَّذِينَ ءَامَنُواْ وَاللَّهُ وَلِىُّ الْمُؤْمِنِينَ (۳:۶۷،۶۸)

ابراہیم تو نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی بلکہ وہ تو ایک طرفہ (خالص) مسلمان تھے مشرک بھی نہ تھے۔‏

سب لوگوں سے زیادہ ابراہیمؑ سے نزدیک تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کا کہا مانا اور یہ نبی اور جو لوگ ایمان لائے’ مؤمنوں کا ولی اور سہارا اللہ ہی ہے۔‏

إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ ۖ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ (۱۳۱)

جب کبھی بھی انہیں ان کے رب نے کہا، فرمانبردار ہو جا، انہوں نے کہا، میں نے رب العالمین کی فرمانبرداری کی۔

جب کبھی اللہ فرماتا کہ یہ مان لو

وہ جواب دیتے کہ اے رب العالمین میں نے مان لیا،

وَوَصَّى بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَا بَنِيَّ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ (۱۳۲)

اس کی وصیت ابراہیمؑ اور یعقوبؑ نے اپنی اولاد کو کی، کہ ہمارے بچو! اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے اس دین کو پسند فرما لیا، خبردار! تم مسلمان ہی مرنا

اسی ملت و حدانیت کی وصیت ابراہیمؑ و یعقوبؑ نے اپنی اولاد کو بھی کی۔

  هَا کی ضمیر کا مرجع یا تو ملت ہے یا کلمہ،ملت سے مراد اسلام اور کلمہ سے مراد أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ ہے۔

 دیکھئے ان کے دل میں اسلام کی کس قدر محبت و عزت تھی کہ خود بھی اس پر مدت العمر عامل رہے، اپنی اولاد کو بھی اسی کی وصیت کی۔ اور جگہ ہے:

وَجَعَلَهَا كَلِمَةً بَـقِيَةً فِى عَقِبِهِ (۴۳:۲۸)

ہم نے اس کلمہ کو ان کی اولاد میں بھی باقی رکھا،

بعض سلف نے وَيَعْقُوبَ بھی پڑھا تو بَنِيهِ پر عطف ہوگا اور مطلب یہ ہوگا کہ خلیل اللہ نے اپنی اولاد کو اور اولاد کی اولاد میں حضرت یعقوبؑ کو جو اس وقت موجود تھے دین اسلام کی استقامت کی وصیت کی۔

 قشیری کہتے ہیں حضرت یعقوبؑ ، حضرت ابراہیمؑ کے انتقال کے بعد پیدا ہوئے تھے، لیکن یہ مجرد دعویٰ ہے، جس پر کوئی صحیح دلیل نہیں۔ واللہ اعلم۔

فَبَشَّرْنَـهَا بِإِسْحَـقَ وَمِن وَرَآءِ إِسْحَـقَ يَعْقُوبَ (۱۱:۷۱)

تو ہم نے اسے اسحٰق کی اور اسحٰق کے پیچھے یعقوب کی خوشخبری دی

اور اس کا نصب خفض کو ہٹا کر بھی پڑھا گیا ہے پس اگر حضرت یعقوب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حیات میں موجود نہ ہوں تو پھر ان کا نام لینے میں کوئی زبردست فائدہ باقی نہیں رہتا۔

 سورۃ عنکبوت میں بھی ہے:

وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَـقَ وَيَعْقُوبَ وَجَعَلْنَا فِى ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتَـبَ (۲۹:۲۷)

اور ہم نے انہیں (ابراہیم کو) اسحٰق و یعقوب (علیہما السلام) عطا کئے اور ہم نے نبوت اور کتاب ان کی اولاد میں ہی کر دی

اور آیت میں ہے:

وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَـقَ وَيَعْقُوبَ نَافِلَةً (۲۱:۷۲)

اور ہم نے اسے اسحٰق عطا فرمایا اور یعقوب اس پر مزید

ان سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یعقوبؑ حضرت ابراہیمؑ کی زندگی میں ہی تھے اگلی کتابوں میں بھی ہے کہ وہ بیت المقدس میں آئیں گے۔

ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک مرتبہ پوچھتے ہیں یا رسول اللہﷺ کونسی مسجد پہلے تعمیر کی گئی؟

آپ ﷺنے فرمایا مسجد الحرام

 پھر فرمایا، مسجد بیت المقدس

میں نے کہا دونوں کے درمیان کس قدر مدت تھی؟

فرمایا چالیس سال۔

ابن حبان نے کہا ہے:

حضرت ابراہیم اور حضرت سلیمان علیہما السلام کی درمیانی مدت سے متعلق یہ بیان ہے

حالانکہ یہ قول بالکل الٹ ہے۔ ان دونوں نبیوں کے درمیان تو ہزاروں سال کی مدت تھی بلکہ مطلب حدیث کا کچھ اور ہی ہے اور شاہ زمان حضرت سلیمان علیہ الصلوۃ الرحمٰن تو اس مسجد کے مجدد تھے، موجد نہ تھے۔

 اسی طرح حضرت یعقوب علیہ السلام نے بھی وصیت کی تھی، جیسے عنقریب ذکر آئے گا۔

 وصیت اس امر کی ہوتی ہے جب تک زندہ رہو مسلمان ہو کر رہو تاکہ موت بھی اسی پر آئے۔

عموماً انسان زندگی میں جن اعمال پر رہتا ہے، اسی پر موت بھی آتی ہے اور جس پر مرتا ہے، اس پر اٹھے گا بھی۔

 یہی اللہ تعالیٰ کا دستور ہے کہ بھلائی کے قصد کرنے والے کو بھلائی کی توفیق بھی دیجاتی ہے ۔ بھلائی اس پر آسان بھی کر دی جاتی ہے اور اسے ثابت قدم بھی رکھا جاتا ہے۔

 کوئی شک نہیں کہ حدیث میں یہ بھی ہے:

وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ بعَمَلِ أَهلِ النَّارِ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلَّا بَاعٌ أَو ذِرَاعٌ فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ فَيَعْمَلُ بعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَيَدْخُلُهَا

 یعنی انسان جنتیوں کے کام کرتے کرتے جنت میں ایک ہاتھ دور رہ جاتا ہے کہ اس کی تقدیر اس پر غالب آتی ہے اور وہ جہنمیوں کا کام کر کے جہنمی بن جاتا ہے اور کبھی اس کے خلاف بھی ہوتا ہے

لیکن اس سے مطلب یہ ہے کہ یہ کام اچھے برے ظاہری ہوتے ہیں، حقیقی نہیں ہوتے۔ چنانچہ بعض روایات میں یہ لفظ بھی ہےقرآن کہتا ہے:

فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى  ـ وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى ۔۔۔ فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَى  (۹۲:۵،۱۰)

جس نے دیا (اللہ کی راہ میں) اور ڈرا (اپنے رب سے)۔ اور نیک بات کی تصدیق کرتا رہے گا۔ تو ہم بھی اس کو آسان راستے کی سہولت دیں گے۔‏

لیکن جس نے بخیلی کی اور بےپرواہی برتی۔ اور نیک بات کو جھٹلایا۔ تو ہم بھی اس کی تنگی و مشکل کے سامان میسر کر دیں گے

یعنی سخاوت، تقویٰ اور لا الہ الا اللہ کی تصدیق کرنے والے کو ہم آسانی کا راستہ آسان کر دیتے ہیں اور بخل و بےپرواہی اور بھلی بات کی تکذیب کرنے والوں کے لئے ہم سختی کی راہ آسان کر دیتے ہیں۔

أَمْ كُنْتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِنْ بَعْدِي

کیا یعقوب ؑکے انتقال کے وقت تم موجود تھے؟ جب انہوں نے اپنی اولاد کو کہا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے؟

مشرکین عرب پر جو حضرت اسمٰعیلؑ کی اولاد تھے اور کفار بنی اسرائیل پر جو حضرت یعقوبؑ  کی اولاد تھے دلیل لاتے ہوئے اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ حضرت یعقوبؑ نے تو اپنی اولاد کو اپنے آخری وقت میں اللہ تعالیٰ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت کی وصیت کی تھی

 ان سے پہلے تو پوچھا کہ تم میرے بعد کس کی عبادت کرو گے؟

قَالُوا نَعْبُدُ إِلَهَكَ وَإِلَهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إِلَهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ (۱۳۳)

تو سب نے جواب دیا کہ آپ کے معبود کی اور آپ کے آباؤ اجداد ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ اور اسحاق ؑ کے معبود کی جو معبود ایک ہی ہے اور ہم اسی کے فرمانبردار رہیں گے۔‏

سب نے جواب دیا کہ آپ کے اور آپ کے بزرگوں کے معبود بر حق کی۔

حضرت یعقوبؑ حضرت اسحٰق ؑکے لڑکے اور حضرت اسحٰقؑ حضرت ابراہیمؑ کے۔

حضرت اسمٰعیل کا نام باپ دادوں کے ذکر میں بطور تغلیب کے آ گیا ہے کیونکہ آپ چچا ہوتے ہیں اور یہ بھی واضح رہے کہ عرب میں چچا کو بھی باپ کہہ دیتے ہیں۔

 اس آیت سے استدلال کر کے دادا کو بھی باپ کے حکم میں رکھ کر دادا کی موجودگی میں بہن بھائی کو ورثہ سے محروم کیا ہے۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فیصلہ یہی ہے جیسے کہ صحیح بخاری شریک میں موجود ہے

اُم المؤمنین حضرت عائشہؓ کا مذہب بھی یہی ہے ۔

امام مالکؒ امام شافعیؒ اور ایک مشہور روایت میں امام احمدؒ سے منقول ہے کہ وہ بھائیوں بہنوں کو بھی وارث قرار دیتے ہیں۔

حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت ابن مسعودؓ، حضرت زید بن ثابتؓ اور سلف و خلف کا مذہب بھی یہی ہے۔

امام مالک امام شافعیؒ بصری طاؤسؒ اور عطا ؒبھی یہی کہتے ہیں۔امام ابو حنیفہؒ اور بہت سے سلف و خلف کا مذہب بھی یہی ہے۔

قاضی ابو یوسفؒ اور محمد بن حسن ؒبھی یہی کہتے ہیں اور یہ دونوں امام ابو حنیفہؒ کے شاگرد رشید ہیں

اس مسئلہ کی صفائی کا یہ مقام نہیں اور نہ تفسیر کا یہ موضوع ہے۔

ان سب بچوں نے اقرار کیا کہ ہم ایک ہی معبود کی عبادت کریں گے یعنی اس اللہ کی الوہیت میں کسی کو شریک نہ کریں گے اور ہم اس کی اطاعت گزاری، فرمانبرداری اور خشوع و خضوع میں مشغول رہا کریں گے۔ جیسے اور جگہ ہے :

وَلَهُ أَسْلَمَ مَن فِى السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَإِلَيْهِ يُرْجَعُونَ (۳:۸۳)

تمام آسمانوں اور سب زمین والے اللہ تعالیٰ ہی کے فرمانبردار ہیں خوشی سے ہوں یا ناخوشی سے سب اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے

 تمام انبیاء کا دین یہی اسلام رہا ہے اگرچہ احکام میں اختلاف رہا ہے۔جیسے فرمایا :

وَمَآ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلاَّ نُوحِى إِلَيْهِ أَنَّهُ لا إِلَـهَ إِلاَّ أَنَاْ فَاعْبُدُونِ (۲۱:۲۵)

تجھ سے پہلے بھی جو رسول ہم نے بھیجا اس کی طرف یہی وحی نازل فرمائی کہ میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں پس تم سب میری ہی عبادت کرو

اور آیتیں بھی اس مضمون کی بہت سی ہیں اور احادیث میں بھی یہ مضمون بکثرت وارد ہے۔

 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

ہم علاتی بھائی ہیں، ہمارا دین ایک ہے

تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ ۖ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ (۱۳۴)

یہ جماعت تو گزر چکی، جو انہوں نے کہا وہ ان کے لئے ہے اور جو تم کرو گے تمہارے لئے ہے۔ ان کے اعمال کے بارے میں تم نہیں پوچھے جاؤ گے

پھر فرماتا ہے یہ اُمت جو گزر چکی تمہیں ان کی طرف نسبت نفع نہ دے گی ہاں اگر عمل ہوں تو اور بات ہے، ان کے اعمال ان کے ساتھ اور تمہارے اعمال تمہارے ساتھ تم ان کے افعال کے بارے میں نہیں پوچھے جاؤ گے۔

حدیث شریف میں ہے:

جس کا عمل اچھا نہ ہوگا اس کا نسب اسے کوئی فائدہ نہیں دے گا۔

وَقَالُوا كُونُوا هُودًا أَوْ نَصَارَى تَهْتَدُوا ۗ

یہ کہتے ہیں کہ یہود و نصاریٰ بن جاؤ تو ہدایت پاؤ گے۔

عبد اللہ بن صوریا اعور نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ ہدایت پر ہم ہیں تم ہماری مانو تو تمہیں بھی ہدایت ملے گی۔ نصرانیوں نے بھی یہی کہا تھا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ

قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۖ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ (۱۳۵)

تم کہو بلکہ صحیح راہ پر ملت ابراہیمی والے ہیں، اور ابراہیمؑ خالص اللہ کے پرستار تھے اور مشرک نہ تھے۔

ہم تو ابراہیم حنیف علیہ السلام کے متبع ہیں جو استقامت والے، اخلاص والے، حج والے، بیت اللہ کی طرف منہ کرنے والے، استطاعت کے وقت حج کو فرض جاننے والے، اللہ کی فرمانبرداری کرنے والے، تمام رسولوں پر ایمان لانے والے لا الہ الا اللہ کی شہادت دینے والے، ماں بیٹی خالہ پھوپھی کو حرام جاننے والے اور تمام حرام کاریوں سے بچنے والے تھے۔

حَنِيف کے یہ سب معنی مختلف حضرات نے بیان کئے ہیں۔

قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ

اے مسلمانوں! تم سب کہو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس چیز پر بھی جو ہماری طرف اتاری گئی

اور اس چیز پر بھی جو ابراہیم، اسماعیل اسحاق اور یعقوب علیہم السلام اور ان کی اولاد پر اتاری گئی

اللہ تعالیٰ اپنے ایماندار بندوں کو ارشاد فرماتا ہے کہ جو کچھ حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر اترا اس پر تو وہ تفصیل وار ایمان لائیں اور جو آپ سے پہلے انبیاء پر اترا، اس پر بھی اجمالاً ایمان لائیں۔

 ان اگلے انبیاء کرام میں سے بعض کے نام بھی لے دئے اور باقی نبیوں کا مجمل ذکر کر دیا۔

أَسْبَاطِ حضرت یعقوب کے بیٹوں کو کہتے ہیں، جو بارہ تھے، جن میں سے ہر ایک کی نسل میں بہت سے انسان ہوئے، بنی اسمٰعیل کو قبائل کہتے تھے، اور بنی اسرائیل کو أَسْبَاطِ کہتے تھے۔

زمخشری نے کشاف میں لکھا ہے کہ یہ حضرت یعقوب کے پوتے تھے جو ان کے بارہ لڑکوں کی اولاد تھی۔

 بخاری میں ہے کہ مراد قبائل بنی اسرائیل ہیں۔ ان میں بھی نبی ہوئے تھے جن پر وحی نازل ہوئی تھی۔

 جیسے موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا :

اذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِيَآءَ وَجَعَلَكُمْ مُّلُوكاً (۵:۲۰)

اللہ تعالیٰ کے اس احسان کا ذکر کیا کہ اس نے تم سے پیغمبر بنائے اور تمہیں بادشاہ بنا دیا

اور جگہ ہے :

وَقَطَّعْنَـهُمُ اثْنَتَىْ عَشْرَةَ أَسْبَاطًا (۷:۱۶۰)

اور ہم نے ان کو بارہ خاندانوں میں تقسیم کرکے سب کی الگ الگ جماعت مقرر کردی

سبط کہتے ہیں درخت کو یعنی یہ مثل درخت کے ہیں، جس کی شاخیں پھیلی ہوئی ہیں۔

وَمَا أُوتِيَ مُوسَى وَعِيسَى وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِنْ رَبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ  (۱۳۶)

اور جو کچھ اللہ کی جانب سے موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام اور دوسرے انبیاء علیہم السلام کو دیئے گئے۔

ہم ان میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے، ہم اللہ کے فرمانبردار ہیں ۔

ساتھ ہی فرمایا کہ یہ کسی نبی کے درمیان تفریق نہ کریں کہ ایک کو مانیں اور دوسرے سے انکار کر جائیں جو عادت اوروں کی تھی کہ وہ انبیاء میں تفریق کرتے تھے، کسی کو مانتے تھے، کسی سے انکاری تھے، یہودی حضرت عیسیٰ ؑکو  ، نصرانی حضرت  محمد ﷺ کو’ حجازی عرب موسیٰؑ، عیسیٰ اور حضرت  محمد صلی اللہ علیہ وسلم تینوں کو نہیں مانتے تھی۔ ان سب کو فتویٰ ملا :

أُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا (۴:۱۵۱)

یہ لوگ بالیقین کافر ہیں۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اہل کتاب تورات کو عبرانی میں پڑھتے تھے اور عربی میں تفسیر کر کے اہل اسلام کو سناتے تھے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

اہل کتاب کی سچائی یا تکذیب نہ کرو کہہ دیا کرو کہ اللہ پر اور اس کی نازل ہوئی کتابوں پر ہمارا ایمان ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی دو سنتوں میں پہلی رکعت میں آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا پوری آیت اور دوسری رکعت میں آیت آمَنَّا بِاللَّهِ وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ (۳:۵۲) پڑھا کرتے تھے

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کل انبیاء بنی اسرائیل میں سے ہی ہوئے ہیں سوائے دس کے نوح، ہود، صالح، شعیب، ابراہیم لوط، اسحاق، یعقوب، اسماعیل، محمد علیہم الصلوۃ والسلام۔

سبط کہتے ہیں اس جماعت اور قبیلہ کو جن کا مورث اعلیٰ اوپر جا کر ایک ہو۔

 ابن ابی خاتم میں ہے ہمیں تورات و انجیل پر ایمان رکھنا ضروری ہے لیکن عمل کے لیے صرف قرآن و حدیث ہی ہے۔

فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا ۖ وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ ۖ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ ۚ

اگر وہ تم جیسا ایمان لائیں تو ہدایت پائیں، اور اگر منہ موڑیں تو وہ صریح اختلاف میں ہیں، اللہ تعالیٰ ان سے عنقریب آپ کی کفایت کرےگا

یعنی اے  ایمان دار صحابیو! اگر یہ کفار بھی تم جیسا ایمان لائیں یعنی تمام کتابوں اور رسولوں کو مان لیں تو حق و رشد ہدایت ونجات پائیں گے اور اگر باوجود قیام حجت کے باز رہیں تو یقیناً حق کے خلاف ہیں۔ اللہ تعالیٰ تجھے ان پر غالب کر کے تمہارے لئے کافی ہو گا،

وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (۱۳۷)

اور وہ خوب سننے اور جاننے والا ہے۔‏

وہ سننے جاننے والا ہے۔

نافع بن نعیم کہتے ہیں کہ کسی خلیفہ کے پاس حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ کا قرآن بھیجا گیا زیاد نے یہ سن کر کہا کہ لوگوں میں مشہور ہے کہ جب حضرت عثمانؓ کو لوگوں نے شہید کیا اس وقت یہ کلام اللہ ان کی گود میں تھا اور آپ کا خون ٹھیک ان الفاظ پڑھا تھا   فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ کیا یہ صحیح ہے؟

حضرت نافع نے کہا بالکل ٹھیک ہے میں نے خود اس آیت پر ذوالنورین کا خون دیکھا تھا (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)

صِبْغَةَ اللَّهِ ۖ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً ۖ وَنَحْنُ لَهُ عَابِدُونَ (۱۳۸)

اللہ کا رنگ اختیار کرو اور اللہ تعالیٰ سے اچھا رنگ کس کا ہوگا ہم تو اسی کی عبادت کرتے ہیں۔‏

صِبْغَةَ رنگ سے مراد دین ہے اور اس کا زبر بطور اغراء کے ہے۔ جیسے فطرۃ اللہ میں مطلب یہ ہے کہ اللہ کے دین کو لازم پکڑ لو اس پر چمٹ جاؤ۔ بعض کہتے ہیں یہ بدل ہے ملتہ ابراہیم سے جو اس سے پہلے موجود ہے۔

سیبویہ کہتے ہیں یہ مصدر موکد ہے۔ آمَنَّا بِاللَّهِ کی وجہ سے منصوب ہے جیسے وعد اللہ

 ایک مرفوع حدیث میں ہے:

بنی اسرائیل نے کہا اے رسول اللہ کیا ہمارا رب رنگ بھی کرتا ہے؟

 آپ نے فرمایا اللہ سے ڈرو

آواز آئی ان سے کہہ دو کہ تمام رنگ میں ہی تو پیدا کرتا ہوں۔

یہی مطلب اس آیت کا بھی ہے لیکن اس روایت کا موقوف ہونا ہی صحیح ہے اور یہ بھی اس وقت جب کہ اس کی اسناد صحیح ہوں۔

قُلْ أَتُحَاجُّونَنَا فِي اللَّهِ وَهُوَ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ

آپ کہہ دیجئے کیا تم ہم سے اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہو جو ہمارا اور تمہارا رب ہے،

مشرکوں کے جھگڑے کو دفع کرنے کا حکم رب العالمین اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دے رہا ہے کہ تم ہم سے اللہ کی توحید، اخلاص، اطاعت وغیرہ کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو؟وہ صرف ہمارا ہی نہیں بلکہ تمہارا رب بھی تو ہے، ہم پر اور تم پر قابض و متصرف بھی وہی اکیلا ہے۔

وَلَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ (۱۳۹)

ہمارے لئے ہمارے عمل ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال، ہم تو اسی کے لئے مخلص ہیں

ہمارے عمل ہمارے ساتھ ہیں وہ تمہارے عمل تمہیں کام آئیں گے، ہم تم سے اور تمہارے شرک سے بیزار ہیں:

اور جگہ فرمایا :

وَإِن كَذَّبُوكَ فَقُل لِّى عَمَلِى وَلَكُمْ عَمَلُكُمْ أَنتُمْ بَرِيئُونَ مِمَّآ أَعْمَلُ وَأَنَاْ بَرِىءٌ مِّمَّا تَعْمَلُونَ (۱۰:۴۱)

اور اگر آپ کو جھٹلاتے رہیں تو یہ کہہ دیجئے کہ میرے لئے میرا عمل اور تمہارے لئے تمہارا عمل، تم میرے عمل سے بری اور میں تمہارے عمل سے بری ۔

اور جگہ ارشاد ہے :

فَإنْ حَآجُّوكَ فَقُلْ أَسْلَمْتُ وَجْهِىَ للَّهِ وَمَنِ اتَّبَعَنِ (۳:۲۰)

پھر بھی اگر یہ آپ سے جھگڑیں تو آپ کہہ دیں کہ میں اور میرے تابعداروں نے اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنا سر تسلیم خم کر دیا ہے

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی اپنی قوم سے یہی فرمایا تھا :

وَحَآجَّهُ قَوْمُهُ قَالَ أَتُحَاجُّونِّى فِى اللَّهِ (۶:۸۰)

تم اللہ کے معاملے میں مجھ سے حجت کرتے ہو حالانکہ کہ اس نے مجھے طریقہ بتلایا ہے

اور جگہ ہے:

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِى حَآجَّ إِبْرَهِيمَ فِى رِبِّهِ (۲:۲۵۸)

تو نے اسے بھی دیکھا جو ابراہیم ( علیہ السلام) سے اس کے رب کے بارے میں جھگڑنے لگا۔

پس یہاں ان جھگڑالو لوگوں سے کہا گیا کہ ہمارے اعمال ہمارے لئے اور تمہارے اعمال تمہارے لئے۔ ہم تم سے الگ۔ ہم عبادت اور توجہ میں اخلاص اور یکسوئی کرنے والے لوگ ہیں۔

أَمْ تَقُولُونَ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطَ كَانُوا هُودًا أَوْ نَصَارَى ۗ

کیا تم کہتے ہو کہ ابراہیمؑ اور اسماعیل ؑاور اسحاقؑ اور یعقوبؑ اور ان کی اولاد یہودی یا نصرانی تھے؟

پھر ان لوگوں کے دعوے کی تردید ہو رہی ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نہ تو یہودی، نہ نصرانی، تم اے یہودیو اور اے نصرانیو کیوں یہ باتیں بنا رہے ہو؟

قُلْ أَأَنْتُمْ أَعْلَمُ أَمِ اللَّهُ ۗ

کہہ دو کیا تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ تعالیٰ

کیا تمہارا علم اللہ سے بھی بڑھ گیا ہے اللہ نے تو صاف فرما دیا :

مَا كَانَ إِبْرَهِيمُ يَهُودِيًّا وَلاَ نَصْرَانِيًّا وَلَكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ (۳:۶۷)

ابراہیم تو نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی بلکہ وہ تو ایک طرفہ (خالص) مسلمان تھے مشرک بھی نہ تھے

وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهَادَةً عِنْدَهُ مِنَ اللَّهِ ۗ

اللہ کے پاس شہادت چھپانے والے سے زیادہ ظالم اور کون ہے؟

ان کا حق کی شہادت کو چھپا کر بڑا ظلم کرنا یہ تھا کہ اللہ کی کتاب جو اس کے پاس آئی اس میں انہوں نے پڑھا کہ حقیقی دین اسلام ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں۔ ابراہیمؑ، اسمٰعیلؑ، اسحٰقؑ، یعقوبؑ وغیرہ یہودیت اور نصرانیت سے الگ تھے لیکن پھر نہ مانا اور اتنا ہی نہیں بلکہ اس بات کو بھی چھپا دیا۔

وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (۱۴۰)

اور اللہ تمہارے کاموں سے غافل نہیں ۔‏

 پھر فرمایا تمہارے اعمال اللہ سے پوشیدہ نہیں، اس کا محیط علم سب چیزوں کو گھیرے ہوئے ہے، وہ ہر بھلائی اور برائی کا پورا پورا بدلہ دے گا۔

تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ ۖ

یہ اُمت ہے جو گزر چکی، جو انہوں نے کیا ان کے لئے ہے اور جو تم نے کیا وہ تمہارے لئے،

یہ دھمکی دے کر پھر فرمایا کہ یہ پاکباز جماعت تو اللہ کے پاس پہنچ چکی۔ تم جب ان کے نقش قدم پر نہ چلو تو صرف ان کی اولاد میں سے ہونا تمہیں اللہ کے ہاں کوئی عزت اور نفع نہیں دے سکتا ہے۔ ان کے نیک اعمال میں تمہارا کوئی حصہ نہیں اور تمہاری بد اعمالیوں کا ان پر کوئی بوجھ نہیں

وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى (۳۵:۱۸)

کوئی بھی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا

جو کرے سو بھرے

وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ (۱۴۱)

تم ان کے اعمال کے بارے میں سوال نہ کئے جاؤ گے ۔

تم نے جب ایک نبی کو جھٹلایا تو گویا تمام انبیا کو جھٹلایابالخصوص اے وہ لوگو! جو نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ میں ہو۔ تم تو بڑے ہی وبال میں آ گئے، تم نے تو اس نبی کو جھٹلایا جو سید الانبیاء جو ختم المرسلین ہیں، جو رسول رب العالمین ہیں جن کی رسالت تمام انسانوں اور جنوں کی طرف ہے۔ جن کی رسالت کے ماننے کا ہر ایک شخص مکلف ہے۔

اللہ تعالیٰ کے بیشمار درود و سلام آپ ﷺ پرنازل ہوں اور آپ کے سوا تمام انبیاء کرام پر بھی۔

وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى (۵۲:۳۹)

اور یہ کہ ہر انسان کے لئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے

***********

اختتام پہلا پارہ

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter