Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Baqarah

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے

Part I Ayah 1-141


الم(۱)

الم ‏

حروف مقطعات اور ان کے معنی

الم جیسے حروف مقطعات جو سورتوں کے شروع میں آتے ہیں ان کی تفسیر میں مفسرین کا اختلاف ہے

 بعض تو کہتے ہیں ان کے معنی صرف اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہیں اور کسی کو معلوم نہیں۔ اس لئے وہ ان حروف کی کوئی تفسیر نہیں کرتے۔ قرطبی نے حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے یہی نقل کیا ہے۔

عامر، شعبی، سفیان ثوری، ربیع بن خیثم رحمہم اللہ بھی یہی کہتے ہیں ابو حاتم بن حبان کو بھی اسی سے اتفاق ہے

 بعض لوگ ان حروف کی تفسیر بھی کرتے ہیں لیکن ان کی تفسیر میں بہت کچھ اختلاف ہے۔

عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم فرماتے ہیں یہ سورتوں کے نام ہیں۔علامہ ابوالقاسم محمود بن عمر زمحشری اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں اکثر لوگوں کا اسی پر اتفاق ہے۔ سیبویہ نے بھی یہی کہا ہے اور اس کی دلیل بخاری و مسلم کی وہ حدیث ہے جس میں ہے:

نبیﷺ جمعہ کے دن فجر نماز میں الَمَّ السَّجْدَہ اور دوسری رکعت  میں سورة دهر پڑھا کرتے تھے ۔

حضرت مجاہد فرماتے ہیں الم اور حم اور المص اور ص یہ سب سورتوں کی ابتداء ہے جن سے یہ سورتیں شروع ہوتی ہیں۔

انہی سے یہ بھی منقول ہے کہ الم قرآن کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔

حضرت قتادہ اور حضرت زید بن اسلم کا قول بھی یہی ہے کہ اور شاید اس قول کا مطلب بھی وہی ہے جو حضرت عبدالرحمٰن بن زید اسلم فرماتے ہیں کہ یہ سورتوں کے نام ہیں اس لئے کہ ہر سورت کو قرآن کہہ سکتے ہیں اور یہ نہیں ہو سکتا کہ سارے قرآن کا نام المص ہو کیونکہ جب کوئی شخص کہے کہ میں نے سورۃ المص پڑھی تو ظاہر یہی سمجھا جاتا ہے کہ اس نے سورۃ اعراف پڑھی نہ کہ پورا قرآن واللہ اعلم۔

بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے نام ہیں۔

حضرت شعب سالم بن عبداللہ اسماعیل بن عبدالرحمٰن سدی کبیر یہی کہتے ہیں۔

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ الم اللہ تعالیٰ کا بڑا نام ہے۔

اور روایت میں ہے کہ حم ، طس اور الم یہ سب اللہ تعالیٰ کے بڑے نام ہیں۔

حضرت علیؓ اور حضرت ابن عباسؓ دونوں سے یہ مروی ہے۔

ایک اور روایت میں ہے یہ اللہ تعالیٰ کی قسم ہے اور اس کا نام بھی ہے۔

حضرت عکرمہ فرماتے ہیں یہ قسم ہے۔

ابن عباسؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ الم کے معنی انا اللہ اعلم ہیں یعنی میں ہی ہوں اللہ زیادہ جاننے والا۔

حضرت سعید بن جبیر سے بھی یہ مروی ہے۔

 ابن عباسؓ، ابن مسعودؓ اور بعض دیگر صحابہ سے روایت ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ناموں کے الگ الگ حروف ہیں۔

 ابوالعالیہ فرماتے ہیں:

یہ تین حرف الم اور لام اور میم انتیس حرفوں میں سے ہیں جو تمام زبانوں میں آتے ہیں۔ ان میں سے ہر ہر حرف اللہ تعالیٰ کی نعمت اور اس کی بلا کا ہے اور اس میں قوموں کی مدت اور ان کے وقت کا بیان ہے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تعجب کرنے پر کہا گیا تھا :

 وہ لوگ کیسے کفر کریں گے ان کی زبانوں پر اللہ تعالیٰ کے نام ہیں۔ اس کی روزیوں پر وہ پلتے ہیں۔ الف سے اللہ کا نام اللہ شروع ہوتا ہے اور لام سے اس کا نام لطیف شروع ہوتا ہے اور میم سے اس کا نام مجید شروع ہوتا ہے اور الف سے مراد الاء یعنی نعمتیں ہیں اور لام سے مراد اللہ تعالیٰ کا لطف ہے اور میم سے مراد اللہ تعالیٰ کا مجد یعنی بزرگی ہے۔ الف سے مراد ایک سال ہے لام سے تیس سال اور میم سے چالیس سال (ابن ابی حاتم)

امام ابن جریر نے ان سب مختلف اقوال میں تطبیق دی ہے یعنی ثابت کیا ہے کہ ان میں ایسا اختلاف نہیں جو ایک دوسرے کے خلاف ہو۔ ہو سکتا ہے یہ سورتوں کے نام بھی ہوں اور اللہ تعالیٰ کے نام بھی، سورتوں کے شروع کے الفاظ بھی ہوں اور ان میں سے ہر ہر حرف سے اللہ تعالیٰ کے ایک ایک نام کی طرف اشارہ، اور اس کی صفتوں کی طرف اور مدت وغیرہ کی طرف بھی ہو۔

 ایک ایک لفظ کئی کئی معنی میں آتا ہے۔ جیسے لفظ أُمَّةٍ کہ اس کے ایک معنی ہیں دین جیسے قرآن میں ہے:

إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَىٰ أُمَّةٍ (۴۳:۲۲)

ہم نے اپنے باپ دادوں کو اسی دین پر پایا۔

دوسرے معنی ہیں اللہ کا اطاعت گزار بندہ جیسے فرمایا:

إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لِلَّهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ (۱۶:۱۲۰)

حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے مطیع اور فرمانبردار اور مخلص بندے تھے اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے۔

تیسرے معنی ہیں جماعت، جیسے فرمایا :

وَلَمَّا وَرَدَ مَاءَ مَدْيَنَ وَجَدَ عَلَيْهِ أُمَّةً مِنَ النَّاسِ يَسْقُونَ (۲۸:۲۳)

مدین کے پانی پر جب آپ پہنچے تو دیکھا کہ لوگوں کی ایک جماعت وہاں پانی پلا رہی ہے

 اور جگہ ہے:

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ (۱۶:۳۶)

ہم نے ہر اُمت میں رسول بھیجا

چوتھے معنی ہیں مدت اور زمانہ جیسے فرمان ہے:

وَادَّكَرَ بَعْدَ أُمَّةٍ (۱۲:۴۵)

ایک مدت کے بعد اسے یاد آیا۔

پس جس طرح یہاں ایک لفظ کے کئی معنی ہوئے اسی طرح ممکن ہے کہ ان حروف مقطعہ کے بھی کئی معنی ہوں۔

 امام ابن جریر کے اس فرمان پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ابوالعالیہ نے جو تفسیر کی ہے اس کا مطلب تو یہ ہے کہ یہ ایک لفظ، ایک ساتھ، ایک ہی جگہ ان سب معنی میں ہے اور لفظ اُمت وغیرہ جو کئی کئی معنی میں آئے ہیں جنہیں اصطلاح میں الفاظ مشترکہ کہتے ہیں۔ ان کے معنی ہوتے ہیں جو عبارت کے قرینے سے معلوم ہو جاتے ہیں ایک ہی جگہ سب کے سب معنی مراد نہیں ہوتے اور سب کو ایک ہی جگہ محمول کرنے کے مسئلہ میں علماء اصول کا بڑا اختلاف ہے اور ہمارے تفسیری موضوع سے اس کا بیان خارج ہے واللہ اعلم۔

 دوسرے یہ کہ اُمت وغیرہ الفاظ کے جو معنی ہی وہ بہت سارے ہیں اور یہ الفاظ اسی لئے بنائے گئے ہیں کہ بندش کلام اور نشست الفاظ سے ایک معنی ٹھیک بیٹھ جاتے ہیں ایک حرف کی دلالت ایک ایسے نام پر ممکن ہے جو دوسرے ایسے نام پر بھی دلالت کرتا ہو اور ایک کو دوسرے پر کوئی فضیلت نہ ہو تو مقدر ماننے سے نہ ضمیر دینے سے نہ وضع کے اعتبار سے اور نہ کسی اور اعتبار سے ایسی بات علمی طور پر تو نہیں سمجھی جا سکتی البتہ اگر منقول ہو تو اور بات ہے لیکن یہاں اختلاف ہے اجماع نہیں ہے اس لئے یہ فیصلہ قابل غور ہے۔

 اب بعض اشعار عرب کے جو اس بات کی دلیل میں پیش کئے جاتے ہیں ایک کلمہ کو بیان کرنے کے لئے صرف اس کا پہلا حرف بول دیتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے لیکن ان شعروں میں خود عبارت ایسی ہوتی ہے جو اس پر دلالت کرتی ہے۔ ایک حرف کے بولتے ہی پورا کلمہ سمجھ میں آ جاتا ہے لیکن یہاں ایسا بھی نہیں واللہ اعلم

قرطبی کہتے ہیں ایک حدیث میں ہے:

 جو مسلمان قتل پر آدھے کلمہ سے بھی مدد کرے مطلب یہ ہے کہ اقتل پورا نہ کہے بلکہ صرف اق کہے

مجاہد کہتے ہیں:

 سورتوں کے شروع میں جو حروف ہیں مثلاً ق، ص، حم، طسم الر یہ سب حروف ہجا ہیں۔

 بعض عربی دان کہتے ہیں کہ یہ حروف الگ الگ جو اٹھائیس ہیں ان میں سے چند ذکر کر کے باقی کو چھوڑ دیا گیا ہے جیسے کوئی کہے کہ میرا بیٹا اب ت ث لکھتا ہے تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ تمام اٹھائیس حروف لکھتا ہے لیکن ابتدا کے چند حروف ذکر کر دئیے اور باقی کو چھوڑ دیا۔

سورتوں کے شروع میں اس طرح کے کل چودہ حروف آئے ہیں۔

ا ل م ص و ک ہ ی ع ط س ح ق ن

ان سب کو اگر ملا لیا جائے تو یہ عبارت بنتی ہے۔ نص حکیم قاطع لہ سر

تعداد کے لحاظ سے یہ حروف چودہ ہیں اور جملہ حروف اٹھائیس ہیں اس لئے یہ آدھے ہوئے بقیہ جن حروف کا ذکر نہیں کیا گیا ان کے مقابلہ میں یہ حروف ان سے زیادہ فضیلت والے ہیں اور یہ صناعت تصریف ہے ایک حکمت اس میں یہ بھی ہے کہ جتنی قسم کے حروف تھے اتنی قسمیں باعتبار اکثریت کے ان میں آ گئیں یعنی مہموسہ مجہورہ وغیرہ۔

 سبحان اللہ ہر چیز میں اس مالک کی حکمت نظر آتی ہے یہ یقینی بات ہے کہ اللہ کا کلام لغو، بیہودہ، بیکار، بےمعنی الفاظ سے پاک ہے جو جاہل لوگ کہتے ہیں کہ سرے سے ان حروف کے کچھ معنی ہی نہیں وہ بالکل خطا پر ہیں۔ اس کے کچھ نہ کچھ معنی یقیناً ہیں اگر نبی معصوم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے معنی کچھ ثابت ہوں تو ہم وہ معنی کریں گے اور سمجھیں گے ورنہ جہاں کہیں حضور ﷺ نے کچھ معنی بیان نہیں کئے ہم بھی نہ کریں گے اور ایمان لائیں گے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تو اس بارے میں ہمیں کچھ نہیں ملا اور علماء کا بھی اس میں بیحد اختلاف ہے۔ اگر کسی پر کسی قول کی دلیل کھل جائے تو خیر وہ اسے مان لے ورنہ بہتر یہ ہے کہ ان حروف کے کلام اللہ ہونے پر ایمان لائے اور یہ جانے کہ اس کے معنی ضرور ہیں جو اللہ ہی کو معلوم ہیں اور ہمیں معلوم نہیں ہوئے۔

دوسری حکمت ان حروف کے لانے میں یہ بھی ہے کہ ان سے سورتوں کی ابتداء معلوم ہو جائے لیکن یہ وجہ ضعیف ہے اس لئے کہ اس کے بغیر ہی سورتوں کی جدائی معلوم ہو جاتی ہے جن سورتوں میں ایسے حروف ہی نہیں کیا ان کی ابتداء انتہا معلوم نہیں؟

پھر سورتوں سے پہلے بسم اللہ کا پڑھنے اور لکھنے کے اعتبار سے موجود ہونا کیا ایک سورت کو دوسری سے جدا نہیں کرتا ؟

 امام ابن جریر نے اس کی حکمت یہ بھی بیان کی ہے کہ چونکہ مشرکین کتاب اللہ کو سنتے ہی نہ تھے اس لئے انہیں سنانے کے لئے ایسے حروف لائے گئے تاکہ جب ان کا دھیان کان لگ جائے تو باقاعدہ تلاوت شروع ہو

 لیکن یہ وجہ بھی بودی ہے اس لئے اگر ایسا ہوتا تو تمام سورتوں کی ابتدا انہی حروف سے کی جاتی حالانکہ ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ اکثر سورتیں اس سے خالی ہیں پھر جب کبھی مشرکین سے کلام شروع ہو یہی حروف چاہئیں۔ نہ کہ صرف سورتوں کے شروع میں ہی یہ حروف ہوں۔

پھر اس پر بھی غور کر لیجئے کہ یہ سورت یعنی سورۃ بقرہ اور اس کے بعد کی سورت یعنی سورۃ آل عمران یہ تو مدینہ شریف میں نازل ہوتی ہیں اور مشرکین مکہ ان کے اترنے کے وقت وہاں تھے ہی نہیں پھر ان میں یہ حروف کیوں آئے؟

 ہاں یہاں پر ایک اور حکمت بھی بیان کی گئی ہے کہ ان حروف کے لانے میں قرآن کریم کا ایک معجزہ ہے جس سے تمام مخلوق عاجز ہے باوجود یہ کہ یہ حروف بھی روزمرہ کے استعمالی حروف سے ترکیب دئیے گئے ہیں لیکن مخلوق کے کلام سے بالکل نرالے ہیں۔

 مبرد اور محققین کی ایک جماعت اور فراء اور قطرب سے بھی یہی منقول ہے

شیخ امام علامہ ابوالعباسؓ حضرت ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور حافظ مجتہد ابوالحاج مزی نے بھی یہی حکمت بیان کی ہے۔ زمخشری نے تفسیر کشاف میں اس قول کو نقل کر کے اس کی بہت کچھ تائید کی ہے۔

زمحشری فرماتے ہیں یہی وجہ ہے کہ تمام حروف اکٹھے نہیں آئے ہاں ان حروف کو مکرر لانے کی یہ وجہ ہے کہ بار بار مشرکین کو عاجز اور لاجواب کیا جائے اور انہیں ڈانٹا اور دھمکایا جائے جس طرح قرآن کریم میں اکثر قصے کئی کئی مرتبہ لائے گئے ہیں اور بار بار کھلے الفاظ میں بھی قرآن کے مثل لانے میں ان کی عاجزی کا بیان کیا گیا ہے۔

بعض جگہ تو صرف ایک حرف آیا ہے جیسے ص ن ق کہیں دو حروف آئے ہیں جیسے حم کہیں تین حروف آئے ہیں جیسے الم کہیں چار آئے ہیں جیسے المر ، المص اور کہیں پانچ آئے ہیں جیسے کھیعص ، حمعسق اس لئے کہ کلمات عرب کے تمام  کے تمام  اسی طرح پر ہیں یا تو ان میں ایک حرفی لفظ ہیں یا دو حرفی یا سہ حرفی یا چار حرفی یا پانچ حرفی سے زیادہ کے کلمات نہیں۔

جب یہ بات ہے کہ یہ حروف قرآن شریف میں بطور معجزے کے آئے ہیں تو ضروری تھا کہ جن سورتوں کے شروع میں یہ حروف آئے ہیں وہاں ذکر بھی قرآن کریم کا ہو اور قرآن کی بزرگی اور بڑائی بیان ہو چنانچہ ایسا ہی انتیس سورتوں میں یہ واقع ہوا ہے اللہ تعالیٰ کا  فرمان ہے:

الم ـ ذَلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ (۲:۱،۲)

الم اس کتاب کے (اللہ کی کتاب ہونے)میں کوئی شک نہی

یہاں بھی ان حروف کے بعد ذکر ہے کہ اس قرآن کے اللہ جل شانہ کا کلام ہونے میں کوئی شک نہیں اور جگہ فرمایا :

الم ـ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ـ نَزَّلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ (۳:۱،۳)

الم اللہ تعالیٰ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، جو زندہ اور سب کا نگہبان ہے جس نے آپ پر حق کے ساتھ اس کتاب کو نازل فرمایا جو اپنے سے پہلے کی تصدیق کرنے والی ہے

یہاں بھی ان حروف کے بعد قرآن کریم کی عظمت کا اظہار کیا گیا۔ اور جگہ فرمایا:

المص ـ كِتَابٌ أُنْزِلَ إِلَيْكَ فَلَا يَكُنْ فِي صَدْرِكَ حَرَجٌ مِنْهُ (۷:۱،۲)

المص‏ یہ ایک کتاب ہے جو آپ کے پاس اس لئے بھیجی گئی ہے سو آپ کے دل میں اس سے بالکل تنگی نہ ہو

اور جگہ فرمایا :

الر ۚ كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ (۱۴:۱)

یہ عالی شان کتاب ہم نے آپ کی طرف اتاری ہے کہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے اجالے کی طرف لائیں

ارشاد ہوتا ہے:

الم تَنْزِيلُ الْكِتَابِ لَا رَيْبَ فِيهِ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ (۳۲:۱،۲)

الم بلا شبہ اس کتاب کا اتارنا تمام جہانوں کے پروردگار کی طرف سے ہے

فرماتا ہے:

حم ـ تَنزِيلٌ مِّنَ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ (۴۱:۱،۲)

اتاری ہوئی ہے بڑے مہربان بہت رحم والے کی طرف سے

 اور

حم ـ عسق ـ كَذَ‌ٰلِكَ يُوحِي إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكَ اللَّهُ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (۴۲:۱،۳)

حم‏ عسق‏ اسی طرح تیری طرف اور تجھ سے اگلوں کی طرف وحی بھیجتا رہا اللہ تعالیٰ جو زبردست ہے اور حکمت والا ہے

اسی طرح اور ایسی سورتوں کے شروع کو بغور دیکھئے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان حروف کے بعد کلام پاک کی عظمت و عزت کا ذکر ہے جس سے یہ بات قوی معلوم ہوتی ہے کہ یہ حروف اس لئے لائے گئے ہیں کہ لوگ اس کے لئے معارضے اور مقابلے میں عاجز ہیں۔ واللہ اعلم۔

 بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ان حروف سے مدت معلوم کرائی گئی ہے اور فتنوں لڑائیوں اور دوسرے ایسے ہی کاموں کے اوقات بتائے گئے ہیں۔ لیکن یہ قول بھی بالکل ضعیف معلوم ہوتا ہے اس کی دلیل میں ایک حدیث بھی بیان کی جاتی ہے۔ لیکن اول تو وہ ضعیف ہے دوسرے اس حدیث سے اس قول کی پختگی کا ایک طرف اس کا باطل ہونا زیادہ ثابت ہوتا ہے۔ وہ حدیث محمد بن اسحاق بن یسار نے نقل کی ہے جو تاریخ کے مصنف ہیں۔ اس حدیث میں ہے :

 ابویاسر بن اخطب یہودی اپنے چند ساتھیوں کو لے کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوا آپ اس وقت سورۃ بقرہ کی شروع آیت الم ـ ذَلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ تلاوت فرما رہے تھے وہ اسے سن کر اپنے بھائی حی بن اخطب کے پاس آیا اور کہا میں نے آج حضورﷺ کو اس آیت کی تلاوت کرتے ہوئے سنا ہے۔

 وہ پوچھتا ہے کیا تو نے خود سنا؟

اس نے کہا ہاں میں نے خود سنا ہے۔

 میں ان سب یہودیوں کو لے کر پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیا یہ سچ ہے کہ آپ اس آیت کو پڑھ رہے تھے۔

 آپ ﷺنے فرمایا ہاں سچ ہے۔

 اس نے کہا سنئے! آپ سے پہلے جتنے نبی آئے کسی کو بھی نہیں بتایا گیا تھا۔ کہ اس کا ملک اور مذہب کب تک رہے گا لیکن آپ کو بتا دیا گیا پھر کھڑا ہو کر لوگوں سے کہنے لگا سنو! الف کا عدد ہوا ایک ، لام کے تیس، میم کے چالیس۔ کل اکہتر ہوئے۔ کیا تم اس نبی کی تابعداری کرنا چاہتے ہو جس کے ملک اور اُمت کی مدت کل اکہتر سال ہو

پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہو کر دریافت کیا کہ کیا کوئی اور آیت بھی ایسی ہے؟

آپ ﷺنے فرمایا ہاں المص ۔

کہنے لگا یہ بڑی بھاری اور بہت لمبی ہے۔ الف کا ایک، لام کے تیس، میم کے چالیس، صواد کے نوے یہ سب ایک سو اکسٹھ سال ہوئے۔

 کہا اور کوئی بھی ایسی آیت ہے۔

 آپ ﷺنے فرمایا ہاں۔ الر

 کہنے لگا یہ بھی بہت بھاری اور لمبی ہے۔ الف کا ایک ، لام کے تیس اور رے کے دو سو۔ جملہ دو سو اکتیس برس ہوئے۔

 کیا اس کے ساتھ کوئی اور بھی ایسی ہے۔

 آپ ﷺنے فرمایا المر ہے

کہا یہ تو بہت ہی بھاری ہے الف کا ایک، لام کے تیس، میم کے چالیس ، رے کے دو سو، سب مل کر دو سو اکہتر ہوگئے۔ اب تو کام مشکل ہو گیا اور بات خلط ملط ہو گئی۔ لوگو اٹھو۔

 ابو یاسر نے اپنے بھائی سے اور دوسرے علماء یہود سے کہا کیا عجب کہ ان سب حروف مجموعہ کی مدت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ملا ہو اکہتر ایک، سو ایک، سو اکتیس ایک، دو سواکتیس ایک، دو سو اکہتر ایک، یہ سب مل کر سات سو چار برس ہوئے۔

 انہوں نے کہا اب کام خلط ملط ہو گیا۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ آیتیں انہی لوگوں کے حق میں نازل ہوئیں:

هُوَ الَّذِي أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ (۳:۷)

وہی اللہ جس نے تجھ پر یہ کتاب نازل فرمائی جس میں محکم آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور دوسری آیتیں مشابہت والی بھی ہیں۔

اس حدیث کا دارومدار محمد بن سائب کلبی پر ہے اور جس حدیث کا یہ اکیلا راوی ہو محدثین اس سے حجت نہیں پکڑتے اور پھر اس طرح اگر مان لیا جائے اور ہر ایسے حرف کے عدد نکالے جائیں تو جن پر چودہ حروف کو ہم نے بیان کیا ان کے عدد بہت ہو جائیں گے اور جو حروف ان میں سے کئی کئی بار آئے ہیں اگر ان کے عدد کا شمار بھی کئی کئی بار لگایا جائے تو بہت ہی بڑی گنتی ہو جائے گی۔ واللہ اعلم

ذَلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ

اس کتاب (کے اللہ کی کتاب ہونے) میں کوئی شک نہیں

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں یہاں ذَلِكَ معنی میں ھذا کے ہیں۔

مجاہد، عکرمہ، سعید، جیبہ سدی، مقاتل بن حباب، زید بن اسلم اور ابن جریج کا بھی یہی قول ہے۔

یہ دونوں لفظ ایک دوسرے کے قائم مقام عربی زبان میں اکثر آتے رہتے ہیں۔

حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ابو عبیدہ سے بھی یہی نقل کیا ہے۔

مطلب یہ ہے کہ ذَلِكَ اصل میں ہے تو دور کے اشارے کے لئے جس کے معنی ہیں "وہ" لیکن کبھی نزدیک کے لئے بھی لاتے ہیں اس وقت اس کے معنی ہوتے ہیں "یہ" یہاں بھی اسی معنی میں ہے۔

زمخشری کہتے ہیں اس سے اشارہ الم کی طرف ہے۔ جیسے اس آیت میں ہے :

لَّا فَارِضٌ وَلَا بِكْرٌ عَوَانٌ بَيْنَ ذَ‌ٰلِكَ (۲:۶۸)

سنو وہ گائے نہ تو بالکل بڑھیا ہو، نہ بچہ، بلکہ درمیانی عمر کی نوجوان ہو

دوسری جگہ فرمایا:

ذَٲلِكُمۡ حُكۡمُ ٱللَّهِ‌ۖ يَحۡكُمُ بَيۡنَكُمۡ (۶۰:۱۰)

یہ ہی ہے اللہ کا حکم جو تمہارے درمیان حکم کرتا ہے۔

اور جگہ فرمایا:

ذَٲلِكُمُ ٱللَّهُ‌ (۶:۹۵)

یہ ہی ہے اللہ تعالیٰ

اور اس کی مثال اور مواقع پہلے گزر چکے۔ واللہ اعلم

بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہ اشارہ قرآن کریم کی طرف ہے جس کے اتارنے کا وعدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا تھا۔ بعض نے تورات کی طرف کسی نے انجیل کی طرف بھی اشارہ بتایا ہے اور اسی طرح کے دس قول ہیں لیکن ان کو اکثر مفسرین نے ضعیف کہا ہے۔ واللہ اعلم۔

الْكِتَاب سے مراد قرآن کریم ہے جن لوگوں نے کہا ہے کہ آیت ذَلِكَ الْكِتَابُ کا اشارہ تورات اور انجیل کی طرف ہے انہوں نے انتہائی بھول بھلیوں کا راستہ اختیار کیا، بڑی تکلیف اٹھائی اور خواہ مخواہ بلا وجہ وہ بات کہی جس کا انہیں علم نہیں۔

 رَيْبَ کے معنی ہیں شک و شبہ۔ حضرت ابن عباسؓ، حضرت ابن مسعودؓ اور کئی ایک صحابہؓ سے یہی معنی مروی ہیں۔

ابو درداء، ابن عباس، مجاہد، سعید بن جبیر، ابو مالک نافع جو ابن عمر کے مولا ہیں، عطا، ابوالعالیہ، ربیع بن انس، مقاتل بن حیان، سدی، قتادہ، اسماعیل بن ابو خالد سے بھی یہی مروی ہے۔

 ابن ابی حاتم فرماتے ہیں مفسرین میں اس میں اختلاف نہیں۔

رَيْبَ کا لفظ عرب شاعروں کے شعروں میں تہمت کے معنی میں بھی آیا ہے اور حاجت کے معنی میں بھی اس کا استعمال ہوا ہے۔

اس جملہ کے معنی یہ ہوئے کہ اس قرآن کو اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہونے میں کچھ شک نہیں۔ جیسے سورۃ سجدہ میں ہے:

الم تَنْزِيلُ الْكِتَابِ لَا رَيْبَ فِيهِ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ (۳۲:۱،۲)

الم بلا شبہ اس کتاب کا اتارنا تمام جہانوں کے پروردگار کی طرف سے ہے

هُدًى لِلْمُتَّقِينَ (۲)

پرہیزگاروں کو راہ دکھانے والی ہے

یعنی اس میں شک نہ کرو بعض قاری لَا رَيْبَ پر وقف کرتے ہیں اور آیت فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ کو الگ جملہ پڑھتے ہیں۔ لیکن لَا رَيْبَ  فِيهِ پر ٹھہرنا بہت بہتر ہے کیونکہ یہی مضمون اسی طرح سورۃ سجدہ کی آیت میں موجود ہے اور اس میں بہ نسبت فِيهِ هُدًى کے زیادہ مبالغہ ہے۔ هُدًى نحوی اعتبار سے صفت ہو کر مرفوع ہو سکتا ہے اور حال کی بنا پر منصوب بھی ہو سکتا ہے۔ اس جگہ ہدایت کو متقیوں کے ساتھ مخصوص کیا گیا

جیسے دوسری جگہ فرمایا :

قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ ءَامَنُواْ هُدًى وَشِفَآءٌ وَالَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ فِى ءَاذَانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى أُوْلَـئِكَ يُنَادَوْنَ مِن مَّكَانٍ بَعِيدٍ (۴۱:۴۴)

آپ کہہ دیجئے! کہ یہ تو ایمان والوں کے لئے ہدایت و شفا ہے اور جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں تو (بہرہ پن اور) بوجھ ہے اور یہ ان پر اندھا پن ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو کسی بہت دور دراز جگہ سے پکارے جا رہے ہیں

اور فرمایا :

وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْءَانِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ وَلاَ يَزِيدُ الظَّـلِمِينَ إَلاَّ خَسَارًا (۱۷:۸۲)

یہ قرآن جو ہم نازل کر رہے ہیں مؤمنوں کے لئے تو سراسر شفا اور رحمت ہے۔ ہاں ظالموں کو بجز نقصان کے اور کوئی زیادتی نہیں ہوتی

 اسی مضمون کی اور آیتیں بھی ہیں ان سب کا مطلب یہ ہے کہ گو قرآن کریم خود ہدایت اور محض ہدایت ہے اور سب کے لیے ہے لیکن اس ہدایت سے نفع اٹھانے والے صرف نیک بخت لوگ ہیں۔جیسے فرمایا:

يَأَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَتْكُمْ مَّوْعِظَةٌ مَّن رَّبِّكُمْ وَشِفَآءٌ لِّمَا فِى الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ (۱۰:۵۷)

اے لوگوں! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک ایسی چیز آئی ہے جو نصیحت ہے اور دلوں میں جو روگ ہیں ان کے لئے شفا ہے اور رہنمائی کرنے والی ہے اور رحمت ہے ایمان والوں کے لئے ۔

 اور ابن عباسؓ ابن مسعودؓ اور بعض دیگر صحابہؓ سے مروی ہے کہ ہدایت سے مراد نور ہے

متقی کون لوگ ہیں

ابن عباسؓ فرماتے ہیں متقی وہ ہیں جو ایمان لا کر شرک سے دور رہ کر اللہ تعالیٰ کے احکام بجا لائیں۔

 ایک اور روایت میں ہے :

متقی وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے عذابوں سے ڈر کر ہدایت کو نہیں چھوڑتے اور اس کی رحمت کی امید رکھ کر اس کی طرف سے جو نازل ہوا اسے سچا جانتے ہیں۔

حضرت حسن بصری فرماتے ہیں متقی وہ ہے جو حرام سے بچے اور فرائض بجا لائے۔

حضرت اعمش حضرت ابوبکر بن عیاش سے سوال کرتے ہیں کہ متقی کون ہے؟

آپ یہی جواب دیتے ہیں

پھر میں نے کہا ذرا حضرت کلبی سے بھی تو دریافت کر لو! وہ کہتے ہیں متقی وہ ہیں جو کبیرہ گناہوں سے بچیں۔

 اس پر دونوں کا اتفاق ہوتا ہے۔

قتادہ فرماتے ہیں متقی وہ ہے جس کا وصف اللہ تعالیٰ نے خود اس آیت کے بعد بیان فرمایا کہ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ

امام ابن جریر فرماتے ہیں کہ یہ سب اوصاف متقیوں میں جمع ہوتے ہیں۔

ترمذی اور ابن ماجہ کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

بندہ حقیقی متقی نہیں ہو سکتا جب تک کہ ان چیزوں کو نہ چھوڑ دے جن میں حرج نہیں اس خوف سے کہ کہیں وہ حرج میں گرفتار نہ ہو جائے۔

امام ترمذی اسے حسن غریب کہتے ہیں

 ابن ابی حاتم میں ہے:

حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جبکہ لوگ ایک میدان میں قیامت کے دن روک لئے جائیں گے، اس وقت ایک پکارنے والا پکارے گا کہ متقی کہاں ہیں؟ اس آواز پر وہ کھڑے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ اپنے بازو میں لے لے گا اور بےحجاب انہیں اپنے دیدار سے مشرف فرمائے گا۔

ابو عفیف نے پوچھا حضرت متقی کون لوگ ہیں؟

آپ نے فرمایا جو لوگ شرک اور بت پرستی سے بچیں اور اللہ کی خالص عبادت کریں وہ اسی عزت کے ساتھ جنت میں پہنچائے جائیں گے۔

ہدایت کی وضاحت

ہدایت کے معنی کبھی تو دل میں ایمان پیوست ہو جانے کے آتے ہیں ایسی ہدایت پر تو سوائے اللہ جل و علا کی مہربانی کے کوئی قدرت نہیں رکھتا  فرمان ہے:

إِنَّكَ لاَ تَهْدِى مَنْ أَحْبَبْتَ (۲۸:۵۶)

اے نبی جسے تو چاہے ہدایت نہیں دے سکتا۔

فرماتا ہے:

لَّيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ (۲:۲۷۲)

تجھ پر ان کی ہدایت لازم نہیں۔

فرماتا ہے:

مَن يُضْلِلِ اللَّهُ فَلاَ هَادِيَ لَهُ (۷:۱۸۶)

جسے اللہ گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت پر لانے والا نہیں۔

 فرمایا:

مَن يَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مُّرْشِدًا (۱۸:۱۷)

جسے اللہ ہدایت دے وہی ہدایت والا ہے اور جسے وہ گمراہ کرے تم ہرگز اس کا نہ کوئی ولی پاؤ گے نہ مرشد۔

اس قسم کی اور آیتیں بھی ہیں

اور ہدایت کے معنی کبھی حق کے اور حق کو واضح کر دینے کے اور حق پر دلالت کرنے اور حق کی طرف راہ دکھانے کے بھی آتے ہیں۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَإِنَّكَ لَتَهْدِى إِلَى صِرَطٍ مُّسْتَقِيمٍ (۴۲:۵۲)

تو یقیناً سیدھی راہ کی رہبری کرتا ہے۔

اور فرمایا:

إِنَّمَآ أَنتَ مُنذِرٌ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ (۱۳:۷)

تو صرف ڈرانے والا ہے اور ہر قوم کے لیے کوئی ہادی ہے۔

اور جگہ فرمان ہے:

وَأَمَّا ثَمُودُ فَهَدَيْنَـهُمْ فَاسْتَحَبُّواْ الْعَمَى عَلَى الْهُدَى (۴۱:۱۷)

ہم نے ثمودیوں کو ہدایت دکھائی لیکن انہوں نے اندھے پن کو ہدایت پر پسند کر لیا  ۔

فرماتا ہے:

وَهَدَيْنَـهُ النَّجْدَينِ (۹۰:۱۰)

ہم نے اسے دونوں راہیں دکھائیں

یعنی بھلائی اور برائی کی۔

تقویٰ کے اصلی معنی بری چیزوں سے بچنے کے ہیں۔ اصل میں یہ وقوی ہے وقایت سے ماخوذ ہے نابغہ وغیرہ کے اشعار میں بھی آیا ہے۔

حضرت ابی بن کعبؓ سے حضرت عمر بن خطاب ؓنے پوچھا کہ تقویٰ کیا ہے؟

انہوں نے کہا کبھی کانٹے دار راستے میں چلے ہو ؟ جیسے وہاں کپڑوں کو اور جسم کو بچاتے ہو ایسے ہی گناہوں سے بال بال بچنے کا نام تقویٰ ہے۔

 ابن معتز شاعر کا قول ہے۔

خل الذنوب صغیرھا     وکبیرھا ذاک التقی

واصنع کماش فوق ارض الشوک یحدذر مایری

لا تحقرن صغیرۃ ان الجبال من الحصی

یعنی چھوٹے اور بڑے اور سب گناہوں کو چھوڑ دو یہی تقویٰ ہے۔

ایسے رہو جیسے کانٹوں والی راہ پر چلنے والا انسان۔

چھوٹے گناہ کو بھی ہلکا نہ جانو۔ دیکھو پہاڑ کنکروں سے ہی بن جاتے ہیں۔

 ابو درداء اپنے اشعار میں فرماتے ہیں:

انسان اپنی تمناؤں کا پورا ہونا چاہتا ہے اور اللہ کے ارادوں پر نگاہ نہیں رکھتا حالانکہ ہوتا وہی ہے جو اللہ کا ارادہ ہو۔

وہ اپنے دینوی فائدے اور مال کے پیچھے پڑا ہوا ہے حالانکہ اس کا بہترین فائدہ اور عمدہ مال اللہ سے تقویٰ ہے۔

ابن ماجہ کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

سب سے عمدہ فائدہ جو انسان حاصل کر سکتا ہے وہ اللہ کا ڈر ہے۔ اس کے بعد نیک بیوی ہے کہ خاوند جب اس کی طرف دیکھے وہ اسے خوش کر دے اور جو حکم دے اسے بجا لائے اور اگر قسم دے دے تو پوری کر دکھائے اور جب وہ موجود نہ ہو تو اس کے مال کی اور اپنے نفس کی حفاظت کرے۔

الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ

جو لوگ غیب پر ایمان لاتے ہیں

حضرت عبداللہؓ فرماتے ہیں۔ ایمان کسی چیز کی تصدیق کرنے کا نام ہے۔ حضرت ابن عباسؓ بھی یہی فرماتے ہیں۔

حضرت زہری فرماتے ہیں ایمان کہتے ہیں عمل کو

ربیع بن انس کہتے ہیں  یہاں ایمان لانے سے مراد ڈرنا ہے۔

ابن جریر فرماتے ہیں:

یہ سب اقوال مل جائیں تو مطلب یہ ہو گا کہ زبان سے، دل سے، عمل سے، غیب پر ایمان لانا اور اللہ سے ڈرنا۔

ایمان کے مفہوم میں اللہ تعالیٰ پر، اس کی کتابوں پر، اس کے اصولوں پر، ایمان لانا شامل ہے اور اس اقرار کی تصدیق عمل کے ساتھ بھی کرنا لازم ہے۔

میں کہتا ہوں لغت میں ایمان کہتے ہیں صرف سچا مان لینے کو، قرآن میں بھی ایمان اس معنی میں استعمال ہوا ہے۔جیسے فرمایا:

يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَيُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِينَ (۹:۶۱)

وہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور مسلمانوں کی بات کا یقین کرتا ہے

یعنی اللہ کو مانتے ہیں اور ایمان والوں کو سچا جانتے ہیں۔

 یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اپنے باپ سے کہا تھا:

وَمَآ أَنتَ بِمُؤْمِنٍ لَّنَا وَلَوْ كُنَّا صَـدِقِينَ (۱۲:۱۷)

آپ تو ہماری بات نہ مانیں گے، گو ہم بالکل سچے ہی ہوں

اس طرح ایمان یقین کے معنی میں آتا ہے جب اعمال کے ذکر کے ساتھ ملا ہوا ہو۔جیسے فرمایا :

إِلاَّ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّـلِحَـتِ (۹۵:۶)

لیکن جو لوگ ایمان لائے اور (پھر) نیک عمل کئے

ہاں جس وقت اس کا استعمال مطلق ہو تو ایمان شرعی جو اللہ کے ہاں مقبول ہے وہ اعتقاد قول اور عمل کے مجموعہ کا نام ہے۔

اکثر ائمہ کا یہی مذہب ہے بلکہ امام شافعی امام احمد اور امام ابو عبیدہ وغیرہ نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ ایمان نام ہے زبان سے کہنے اور عمل کرنے کا۔

ایمان بڑھتا گھٹتا رہتا ہے اور اس کے ثبوت میں بہت سے آثار اور حدیثیں بھی آئی ہیں جو ہم نے بخاری شریف کی شرح میں نقل کر دی ہیں۔ فالحمد للہ

بعض نے ایمان کے معنی اللہ سے ڈر خوف کے بھی کئے ہیں۔ جیسے فرمان ہے :

إِنَّ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُم بِالْغَيْبِ (۶۷:۱۲)

جو لوگ اپنے رب سے در پردہ ڈرتے رہتے ہیں۔

 اور جگہ فرمایا:

مَّنْ خَشِىَ الرَّحْمَـنَ بِالْغَيْبِ وَجَآءَ بِقَلْبٍ مُّنِيبٍ (۵۰:۳۳)

جو شخص اللہ تعالیٰ سے بن دیکھے ڈرے اور جھکنے والا دل لے کر آئے۔

حقیقت میں اللہ کا خوف ایمان کا اور علم کا خلاصہ ہے۔ جیسے فرمایا :

إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ (۳۵:۲۸)

جو بندے ذی علم ہیں صرف اللہ سے ہی ڈرتے ہیں۔

بعض کہتے ہیں وہ غیب پر بھی ایسا ہی ایمان رکھتے ہیں جیسا حاضر پر اور ان کا حال منافقوں جیسا نہیں کہ جب ایمان والوں کے سامنے ہوں تو اپنا ایماندار ہونا ظاہر کریں لیکن جب اپنے والوں میں ہوتے ہیں تو ان سے کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم تو ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ان منافقین کا حال اور جگہ اس طرح بیان ہوا ہے:

إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ ۔۔۔ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ (۶۵:۱)

تیرے پاس جب منافق آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم اس بات کے گواہ ہیں کہ بیشک آپ اللہ کے رسول ہیں  ا

ور اللہ جانتا ہے کہ یقیناً آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق قطعاً جھوٹے ہیں۔

اس معنی کے اعتبار سے بِالْغَيْبِ حال ٹھہرے گا یعنی وہ ایمان لاتے ہیں در آنحالیکہ لوگوں سے پوشیدہ ہوتے ہیں۔

غیب کا لفظ جو یہاں ہے، اس کے معنی میں بھی مفسرین کے بہت سے اقوال ہیں اور وہ سب صحیح ہیں اور جمع ہو سکتے ہیں۔

ابوالعالیہ فرماتے ہیں اس سے مراد اللہ تعالیٰ ، فرشتوں ، کتابوں ، رسولوں پر، قیامت پر، جنت دوزخ پر، ملاقات اللہ پر، مرنے کے بعد جی اٹھنے پر، ایمان لانا ہے۔

قتادہ ابن دعامہ کا یہی قول ہے۔

ابن عباسؓ، ابن مسعودؓ اور بعض دیگر اصحاب سے مروی ہے کہ اس سے مراد وہ پوشیدہ چیزیں ہیں جو نظروں سے اوجھل ہیں جیسے جنت، دوزخ وغیرہ۔ وہ امور جو قرآن میں مذکور ہیں۔

 ابن عباسؓ فرماتے ہیں اللہ کی طرف سے جو کچھ آیا ہے وہ سب غیب میں داخل ہے۔

حضرت ابوذرؓ فرماتے ہیں اس سے مراد قرآن ہے۔

عطا ابن ابورباح فرماتے ہیں اللہ پر ایمان لانے والا، غیب پر ایمان لانے والا ہے۔

 اسماعیل بن ابوخالد فرماتے ہیں اسلام کی تمام پوشیدہ چیزیں مراد ہیں۔

 زید بن اسلم کہتے ہیں مراد تقدیر پر ایمان لانا ہے۔

پس یہ تمام اقوال معنی کی رو سے ایک ہی ہیں اس لئے کہ سب چیزیں پوشیدہ ہیں اور غیب کی تفسیر ان سب پر مشتمل ہے اور ان سب پر ایمان لانا واجب ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ  کی مجلس میں ایک مرتبہ صحابہ کے فضائل بیان ہو رہے ہوتے ہیں تو آپ فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دیکھنے والوں کو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ہی تھا لیکن اللہ کی قسم ایمانی حیثیت سے وہ لوگ افضل ہیں جو بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں۔ پھر آپ نے الم سے لے کر وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (۲:۱،۵)  تک آیتیں پڑھیں۔ (ابن ابی حاتم۔ ابن مردویہ۔ مستدرک۔ حاکم)

امام حاکم اس روایت کو صحیح بتاتے ہیں۔

مسند احمد میں بھی اس مضمون کی ایک حدیث ہے۔

ابو جمع صحابی سے ابن محریز نے کہا کہ کوئی ایسی حدیث سناؤ جو تم نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو۔

فرمایا میں تمہیں ایک بہت ہی عمدہ حدیث سناتا ہوں،

ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک مرتبہ ناشتہ کیا، ہمارے ساتھ ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے، انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہم سے بہتر بھی کوئی اور ہے؟ ہم آپ پر اسلام لائے، آپ کے ساتھ جہاد کیا،

آپ ﷺنے فرمایا ہاں وہ لوگ جو تمہارے بعد آئیں گے، مجھ پر ایمان لائیں گے حالانکہ انہوں نے مجھے دیکھا بھی نہ ہو گا۔

 تفسیر ابن مردویہ میں ہے۔ صالح بن جبیر کہتے ہیں:

 ابو جمعہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمارے پاس بیت المقدس میں آئے۔ رجاء بن حیوہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ہمارے ساتھ ہی تھے، جب وہ واپس جانے لگے تو ہم انہیں چھوڑنے کو ساتھ چلے، جب الگ ہونے لگے تو فرمایا تمہاری ان مہربانیوں کا بدلہ اور حق مجھے ادا کرنا چاہئے۔ سنو! میں تمہیں ایک حدیث سناتا ہوں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے ہم نے کہا اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے ضرور سناؤ۔

 کہا سنو!

 ہم رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے ساتھ تھے ، ہم دس آدمی تھے، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ان میں تھے، ہم نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہم سے بڑے اجر کا مستحق بھی کوئی ہو گا؟ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور آپ کی تابعداری کی۔

آپ ﷺنے فرمایا تم ایسا کیوں نہ کرتے؟ اللہ کا رسول تم میں موجود ہے، وحی الہٰی آسمان سے تمہارے سامنے نازل ہو رہی ہے۔ ایمان تو ان لوگوں کا افضل ہو گا جو تمہارے بعد آئیں گے دو گتوں کے درمیان یہ کتاب پائیں گے، اس پر ایمان لائیں گے اور اس پر عمل کریں گے، یہ لوگ اجر میں تم سے دُگنے ہوں گے۔

 اس حدیث میں "وجاوہ" کی قبولت کی دلیل ہے جس میں محدثین کا اختلاف ہے۔ میں نے اس مسئلہ کو بخاری شریف میں خوب واضح کر دیا ہے بعد والوں کی تعریف اسی بنا پر ہو رہی ہے اور ان کا بڑے اجر والا ہونا اسی حیثیت کی وجہ سے ہے ورنہ علی الاطلاق ہر طرح سے بہتر اور افضل تو صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم ہی ہیں۔

 ایک اور حدیث میں ہے :

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ صحابہ سے پوچھا، تمہارے نزدیک ایمان لانے میں کون زیادہ افضل ہے،

انہوں نے کہا، فرشتے۔

فرمایا وہ ایمان کیوں نہ لائیں وہ تو اپنے رب کے پاس ہی ہیں،

 لوگوں نے پھر کہا انبیاء،

فرمایا وہ ایمان کیوں نہ لائیں ان پر تو وحی نازل ہوتی ہے۔

 کہا پھر ہم۔

فرمایا تم ایمان کو قبول کیوں نہ کرتے؟ جب کہ میں تم میں موجود ہوں

سنو! میرے نزدیک سب سے زیادہ افضل ایمان والے وہ لوگ ہوں گے جو تمہارے بعد آئیں گے۔ صحیفوں میں لکھی ہوئی کتاب پائیں گے اس پر ایمان لائیں گے۔

اس کی سند میں مغیرہ بن قیس ہیں۔ ابو حاتم رازی انہیں منکر الحدیث بتاتے ہیں لیکن اسی کے مثل ایک اور حدیث ضعیف سند ہے۔ مسند ابویعلی تفسیر ابن مردویہ مستدرک حاکم میں بھی مروی ہے اور حاکم اسے صحیح بتاتے ہیں۔ حضرت انس بن مالک سے بھی اسی کے مثل مرفوعاً مروی ہے۔ واللہ اعلم

ابن ابی حاتم میں ہے حضرت بدیلہ بنت اسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتی ہیں:

بنو حارثہ کی مسجد میں ہم ظہر یا عصر کی نماز میں تھے اور بیت المقدس کی طرف ہمارا منہ تھا دو رکعت ادا کر چکے تھے کہ کسی نے آ کر خبر دی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ شریف کی طرف منہ کر لیا ہے ہم سنتے ہی گھوم گئے۔ عورتیں مردوں کی جگہ آ گئیں اور مرد عورتوں کی جگہ چلے گئے اور باقی کی دو رکعتیں ہم نے بیت اللہ شریف کی طرف ادا کیں۔

 جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا یہ لوگ ہیں جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔

یہ حدیث اس اسناد سے غریب ہے۔

وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ

اور نماز کو قائم رکھتے ہیں

ابن عباسؓ فرماتے ہیں فرائض نماز بجا لانا۔ رکوع سجدہ تلاوت خشوع اور توجہ کو قائم رکھنا نماز کو قائم رکھنا ہے۔

قتادہ کہتے ہیں وقتوں کا خیال رکھنا، وضو اچھی طرح کرنا، رکوع سجدہ پوری طرح کرنا، اقامت صلوٰۃ ہے۔

مقاتل کہتے ہیں وقت کی نگہبانی کرنا۔ مکمل طہارت کرنا، رکوع، سجدہ پورا کرنا، تلاوت اچھی طرح کرنا۔ التحیات اور درود پڑھنا اقامت صلوٰۃ ہے۔

وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ (۳)

اور ہمارے دیئے ہوئے مال سے خرچ کرتے ہیں

ابن عباسؓ فرماتے ہیں وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ کے معنی زکوٰۃ ادا کرنے کے ہیں۔

ابن عباسؓ ،ابن مسعودؓ اور بعض صحابؓہ نے کہا ہے :

اس سے مراد آدمی کا اپنے بال بچوں کو کھلانا پلانا ہے۔ خرچ میں قربانی دینا جر قرب الہٰی حاصل کرنے کے لئے دی جاتی ہے۔ اپنی استعداد کے مطابق بھی شامل ہے جو زکوٰۃ کے حکم سے پہلے کی آیت ہے۔

حضرت ضحاک فرماتے ہیں  زکوٰۃ کی سات آیتیں جو سورۃ برأت میں ہیں ان کے نازل ہونے سے پہلے یہ حکم تھا کہ اپنی اپنی طاقت کے مطابق تھوڑا بہت جو میسر ہو دیتے رہیں۔

قتادہ فرماتے ہیں یہ مال تمہارے پاس اللہ کی امانت ہے عنقریب تم سے جدا ہو جائے گا۔ اپنی زندگی میں اسے اللہ کی راہ میں لگا دو۔

امام ابن جریر فرماتے ہیں:

یہ آیت عام ہے زکوٰۃ میں اہل و عیال کا خرچ اور جن لوگوں کو دینا ضروری ہے ان سب کو دینا بھی شامل ہے اس لئے کہ پروردگار نے ایک عام وصف بیان فرمایا اور عام تعریف کی ہے۔ لہذا ہر طرح کا خرچ شامل ہو گا۔

 میں کہتا ہوں قرآن کریم میں اکثر جگہ نماز کا اور مال خرچ کرنے کا ذکر ملا جلا آتا ہے اس لئے کہ نماز اللہ کا حق اور اس کی عبادت ہے جو اس کی توحید، اس کی ثناء اس کی بزرگی، اس کی طرف جھکنے، اس پر توکل کرنے، اس سے دعا کرنے کا نام ہے اور خرچ کرنا مخلوق کی طرف احسان کرنا ہے جس سے انہیں نفع پہنچے۔ اس کے زیادہ حقدار اہل و عیال اور غلام ہیں، پھر دور والے اجنبی۔ لہذا تمام واجب خرچ اخراجات اور فرض زکوٰۃ اس میں داخل ہیں۔

صحیحین میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

اسلام کی بنیادیں پانچ ہیں۔

- اللہ تعالیٰ کی توحید اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دینا۔

- نماز قائم رکھنا،

- زکوٰۃ دینا،

- رمضان کے روزے رکھنا

- اور بیت اللہ کا حج کرنا،

اس بارے میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں۔

عربی لغت میں صلوٰۃ کے معنی دعا کے ہیں۔ عرب شاعروں کے شعراس  پر شاہد ہیں۔ پھر شریعت میں اس لفظ کا استعمال نماز کے لئے ہونے لگا جو رکوع سجود اور دوسرے خاص افعال کا نام ہے جو مخصوص اوقات میں جملہ شرائط صفات اور اقسام کے ساتھ بجا لائی جاتی ہے۔

ابن جریر فرماتے ہیں صلوٰۃ کو نماز اس لئے کہا جاتا ہے کہ نمازی اللہ تعالیٰ سے اپنے عمل کا ثواب طلب کرتا ہے اور اپنی حاجتیں اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہے۔

بعض نے کہا ہے کہ جو دو رگیں پیٹھ سے لے کر ریڑھ کی ہڈی کی دونوں طرف آتی ہیں انہیں عربی میں صلوین کہتے ہیں چونکہ صلوٰۃ میں یہ ہلتی ہیں اس لئے اسے صلوٰۃ کہا گیا ہے۔ لیکن یہ قول ٹھیک نہیں

بعض نے کہا یہ ماخوذ ہے صلی سے، جس کے معنی ہیں جھک جانا اور لازم ہو جانا۔جیسے قرآن میں لَا يَصْلَاهَا إِلَّا الْأَشْقَى (۹۲:۱۵)  یعنی جہنم میں ہمیشہ نہ رہے گا مگر بدبخت۔

بعض علماء کا قول ہے کہ جب لکڑی کو درست کرنے کے لئے آگ پر رکھتے ہیں تو عرب تصلیہ کہتے ہیں چونکہ مصلی بھی اپنے نفس کی کجی کو نماز سے درست کرتا ہے اس لئے اسے صلوٰۃ کہتے ہیں۔ جیسے قرآن میں ہے:

إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ (۲۹:۴۵)

نماز ہر بےحیائی اور برائی سے روکتی ہے

لیکن اس کا دعا کے معنی میں ہونا ہی زیادہ صحیح اور زیادہ مشہور ہے واللہ اعلم۔

لفظ زکوٰۃ کی بحث انشاء اللہ اور جگہ آئے گی۔

وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ (۴)

اور جو لوگ ایمان لاتے ہیں اس پر جو آپ کی طرف اتارا گیا اور جو آپ سے پہلے اتارا گیا اور وہ آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں‏

حضرت ابن عباسؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

مطلب یہ ہے کہ جو کچھ اللہ کی طرف سے تم پر نازل ہوا اور تجھ سے پہلے کے انبیاء پر نازل ہوا وہ ان سب کی تصدیق کرتے ہیں ایسا نہیں کہ وہ کسی کو مانیں اور کسی سے انکار کریں بلکہ اپنے رب کی سب باتوں کو مانتے ہیں اور آخرت پر بھی ایمان رکھتے ہیں یعنی بعث و قیامت، جنت و دوزخ، حساب و میزان سب کو مانتے ہیں۔

قیامت چونکہ دنیا کے فنا ہونے کے بعد آئے گی اس لئے اسے آخرت کہتے ہیں۔

بعض مفسرین نے کہا ہے کہ جن کی پہلے ایمان بالغیب وغیرہ کے ساتھ صفت بیان کی گئی تھی انہی کی دوبارہ یہ صفتیں بیان کی گئی ہیں۔ یعنی ایماندار خواہ عرب مؤمن ہوں خواہ اہل کتاب وغیرہ۔

مجاہد ابوالعالیہ، ربیع بن انس اور قتادہ کا یہی قول ہے۔

 بعض نے کہا ہے کہ دونوں ہیں تو ایک مگر مراد اس سے صرف اہل کتاب ہی نہیں۔ ان دونوں صورتوں میں واؤ عطف کا ہو گا اور صفتوں کا عطف صفتوں پر ہو گا جیسے سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى (۸۷:۱) میں صفتوں کا عطف صفتوں پر ہے اور شعراء کے شعروں میں بھی آیا ہے۔

تیسرا قول یہ ہے کہ پہلی صفتیں تو ہیں عرب مؤمنوں کی اور وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ سے مراد اہل کتاب مؤمنوں کی صفتیں ہیں۔

سدی نے حضرت ابن عباس، ابن مسعود اور بعض دیگر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے نقل کیا ہے

 اور ابن جریر نے بھی اسی کو پسند کیا ہے اور اس کی شہادت میں یہ آیت لائے ہیں:

وَإِنَّ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَمَن يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْكُمْ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِمْ خَاشِعِينَ لِلَّهِ (۳:۱۹۹)

یقیناً اہل کتاب میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں اور تمہاری طرف جو اتارا گیا اور انکی طرف جو نازل ہوا اس پر بھی اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں

 اور جگہ ارشاد ہے:

الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ مِن قَبْلِهِ ۔۔۔ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ (۲۸:۵۲،۵۴)

جس کو ہم نے اس سے پہلے کتاب عنایت فرمائی وہ تو اس پر ایمان رکھتے ہیں اور جب اس کی آیتیں ان کے پاس پڑھی جاتی ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ اس کے ہمارے رب کی طرف سے حق ہونے پر ہمارا ایمان ہے

ہم تو اس سے پہلے ہی مسلمان ہیں یہ اپنے کئے ہوئے صبر کے بدلے دوہرا اجر دیئے جائیں گے یہ انکی بدی کو ٹال دیتے ہیں اور ہم نے جو انہیں دے رکھا ہے اس میں سے دیتے رہتے ہیں

بخاری مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

تین شخصوں کو دوہرا اجر ملے گا،

- ایک اہل کتاب جو اپنے نبی پر ایمان لائیں اور مجھ پر ایمان رکھیں۔

- دوسرا وہ غلام جو اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرے اور اپنے مالک کا بھی۔

- تیسرا وہ شخص جو اپنی لونڈی کو اچھا ادب سکھائے پھر اسے آزاد کر کے اس سے نکاح کر لے۔

 امام جریر کے اس فرق کی مناسبت اس سے بھی معلوم ہوتی ہے کہ سورت کے شروع میں مؤمنوں اور کافروں کا بیان ہوا ہے تو جس طرح کفار کی دو قسمیں ہیں کافر اور منافق۔ اسی طرح مؤمنوں کی بھی دو قسمیں ہیں۔

- عربی مؤمن

- اور کتابی مؤمن

میں کہتا ہوں ظاہراً یہ ہے کہ حضرت مجاہد کا یہ قول ٹھیک ہے کہ سورۃ بقرۃ کی اول چار آیتیں مؤمنوں کے اوصاف کے بیان میں ہیں اور دو آیتیں اس کے بعد کی کافروں کے بارے میں ہیں اور ان کے بعد کی تیرہ آیتیں منافقوں سے متعلق ہیں

 پس یہ چاروں آیتیں ہر مؤمن کے حق میں عام ہیں۔ عربی ہو یا عجمی، کتابی ہو یا غیر کتابی، انسانوں میں سے ہو یا جنات میں سے۔ اس لئے کہ ان میں سے ہر ایک وصف دوسرے کو لازم اور شرط ہے ایک بغیر دوسرے کے نہیں ہو سکتا۔

غیب پر ایمان لانا، نماز قائم کرنا، اور زکوٰۃ دینا اس وقت تک صحیح نہیں جب تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور اگلے انبیاء پر جو کتابیں اتری ہیں۔ ان پر ایمان نہ ہو اور ساتھ ہی آخرت کا یقین کامل نہ ہو

جس طرح پہلی تین چیزیں بغیر پچھلی تین چیزوں کے غیر معتبر ہیں۔ اسی طرح پچھلی تینوں بغیر پہلی تینوں کے صحیح نہیں۔ اسی لئے ایمان والوں کو حکم الہٰی ہے:

يَـأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ ءَامِنُواْ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَـبِ الَّذِى نَزَّلَ عَلَى رَسُولِهِ وَالْكِتَـبِ الَّذِى أَنَزلَ مِن قَبْل (۴:۱۳۶)

اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ پر اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول ﷺ پر اتاری ہے اور ان کتابوں پر جو اس سے پہلے نازل فرمائی گئی ہیں، ایمان لاؤ

اور فرمایا:

وَلاَ تُجَـدِلُواْ أَهْلَ الْكِتَـبِ إِلاَّ بِالَّتِى ۔۔۔ وَأُنزِلَ إِلَيْكُمْ وَإِلَـهُنَا وَإِلَـهُكُمْ وَاحِد (۲۹:۴۶)

اور اہل کتاب کے ساتھ بحث و مباحثہ نہ کرو مگر اس طریقہ پر جو عمدہ ہو مگر ان کے ساتھ جو ان میں ظالم ہیں

اور صاف اعلان کردو کہ ہمارا تو اس کتاب پر بھی ایمان ہے جو ہم پر اتاری گئی اور اس پر بھی جو تم پر اتاری گئی ہمارا تمہارا معبود ایک ہی ہے۔ ہم سب اسی کے حکم برادر ہیں۔‏

 ارشاد ہے :

يَـأَيُّهَآ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَـبَ ءَامِنُواْ بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقاً لِّمَا مَعَكُمْ (۴:۴۷)

اے اہل کتاب جو کچھ ہم نے نازل فرمایا جو اس کی تصدیق کرنے والا ہے جو تمہارے پاس ہے اس پر ایمان لاؤ

اور جگہ فرمایا:

قُلْ يَـأَهْلَ الْكِتَـبِ لَسْتُمْ عَلَى شَىْءٍ حَتَّى تُقِيمُواْ التَّوْرَاةَ وَالإِنجِيلَ وَمَآ أُنزِلَ إِلَيْكُمْ مِّن رَّبِّكُمْ (۵:۶۸)

آپ کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب! تم دراصل کسی چیز پر نہیں جب تک کہ تورات و انجیل کو اور جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے اتارا گیا قائم نہ رکھو

دوسری جگہ تمام ایمان والوں کی طرف سے خبر دیتے ہوئے قرآن پاک نے فرمایا :

ءَامَنَ الرَّسُولُ بِمَآ أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ ءَامَنَ بِاللَّهِ وَمَلَـئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لاَ نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِهِ (۲:۲۸۵)

رسول ایمان لایا اس چیز پر جو اس کی طرف اللہ تعالیٰ کی جانب سے اتری اور مؤمن بھی ایمان لائے

یہ سب اللہ تعالیٰ اور اسکے فرشتوں پر اور اسکی کتابوں پر اور اسکے رسولوں پر ایمان لائے، اسکے رسولوں میں سے کسی میں ہم تفریق نہیں کرتے

اسی طرح ارشاد ہوتا ہے:

وَالَّذِينَ ءَامَنُواْ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَلَمْ يُفَرِّقُواْ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ (۴:۱۵۲)

اور جو لوگ اللہ پر اور اس کے تمام پیغمبروں پر ایمان لاتے ہیں اور ان میں سے کسی میں فرق نہیں کرتے ہیں

 اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں جن میں ایمان والوں کا اللہ تعالیٰ پر اس کے تمام رسولوں اور سب کتابوں پر ایمان لانے کا ذکر کیا گیا ہے۔

اور یہ بات ہے کہ اہل کتاب کے ایمان والوں کی ایک خاص خصوصیت ہے کیونکہ ان کا ایمان اپنے ہاں کتابوں میں تفصیل کے ساتھ ہوتا ہے اور پھر جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر وہ اسلام قبول کرتے ہیں تو قرآن کریم پر بھی تفصیل کے ساتھ ایمان لاتے ہیں۔ اسی لئے ان کو دوہرا اجر ملتا ہے اور اس اُمت کے لوگ بھی اگلی کتابوں پر ایمان لاتے ہیں لیکن ان کا ایمان اجمالی طور پر ہوتا ہے۔جیسے صحیح حدیث میں ہے:

جب تم سے اہل کتاب کوئی بات کریں تو تم نہ اسے سچ کہو نہ جھوٹ بلکہ کہہ دیا کرو کہ ہم تو جو کچھ ہم پر اترا اسے بھی مانتے ہیں اور جو کچھ تم پر اترا اس پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔

بعض موقع پر ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتے ہیں ان کا ایمان بہ نسبت اہل کتاب کے زیادہ پورا زیادہ کمال والا زیادہ راسخ اور زیادہ مضبوط ہوتا ہے اس حیثیت سے ممکن ہے کہ انہیں اہل کتاب سے بھی زیادہ اجر ملے چاہے وہ اپنے پیغمبر اور پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے سبب دوہرا اجر پائیں لیکن یہ لوگ کمال ایمان کے سبب اجر میں ان سے بھی بڑھ جائیں۔ واللہ اعلم

أُولَئِكَ عَلَى هُدًى مِنْ رَبِّهِمْ ۖ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (۵)

یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح اور نجات پانے والے ہیں

یعنی وہ لوگ جن کے اوصاف پہلے بیان ہوئے مثلاً غیب پر ایمان لانا، نماز قائم رکھنا، اللہ کے دئیے ہوئے سے دینا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جو اترا اس پر ایمان لانا، آپ سے پہلے جو کتابیں اتریں ان کو ماننا، دار آخرت پر یقین رکھ کر وہاں کام آنے کے لئے نیک اعمال کرنا۔ برائیوں اور حرام کاریوں سے بچنا۔

یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں جنہیں اللہ کی طرف سے نور ملا، اور بیان و بصیرت حاصل ہوا اور انہی لوگوں کے لئے دنیا اور آخرت میں فلاح و نجات ہے۔

 ابن عباسؓ نے ہدایت کی تفسیر نور اور استقامت سے کی ہے اور فلاح کی تفسیر اپنی چاہت کو پا لینے اور برائیوں سے بچ جانے کی ہے۔

 ابن جریر فرماتے ہیں کہ یہ لوگ اپنے رب کی طرف سے نور، دلیل، ثابت قدمی، سچائی اور توفیق میں حق پر ہیں اور یہی لوگ اپنے ان پاکیزہ اعمال کی وجہ سے نجات، ثواب اور دائمی جنت پانے کے مستحق ہیں اور عذاب سے محفوظ ہیں۔

ابن جریر یہ بھی فرماتے ہیں کہ دوسرے أُولَئِكَ کا اشارہ اہل کتاب کی طرف ہے جنکی صفت اس سے پہلے بیان ہو چکی ہے جیسے پہلے گزر چکا۔

 اس اعتبار سے آیت والَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ پہلے کی آیت سے جدا ہو گا اور مبتدا بن کر مرفوع ہو گا اور اس کی خبر آیت أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ہو گی

لیکن پسندیدہ قول یہی ہے کہ اس کا اشارہ پہلے کے سب اوصاف والوں کی طرف ہے اہل کتاب ہوں یا عرب ہوں۔

حضرت ابن عباسؓ، حضرت ابن مسعودؓ اور بعض صحابہ سے مروی ہے کہ آیت يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ سے مراد عرب ایمان دار ہیں اس کے بعد کے جملہ سے مراد اہل کتاب ایماندار ہیں۔ پھر دونوں کے لئے یہ بشارت ہے کہ یہ لوگ ہدایت اور فلاح والے ہیں۔

اور یہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ یہ آیتیں عام ہیں اور یہ اشارہ بھی عام ہے واللہ اعلم۔

 مجاہد، ابوالعالیہ، ربیع بن انس، اور قتادہ سے یہی مروی ہے

 ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ حضور قرآن پاک کی بعض آیتیں تو ہمیں ڈھارس دیتی ہیں اور امید قائم کرا دیتی ہیں اور بعض آیتیں کمر توڑ دیتی ہیں اور قریب ہوتا ہے کہ ہم ناامید ہو جائیں۔

آپ ﷺنے فرمایا لو میں تمہیں جنتی اور جہنمی کی پہچان صاف صاف بتا دوں۔ پھر آپ نے الم سے وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (۲:۱،۵) تک پڑھ کر فرمایا یہ تو جنتی ہیں

صحابہؓ نے خوش ہو کر فرمایا الحمد للہ ہمیں امید ہے کہ ہم انہی میں سے ہوں

 پھر آیت إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سے عَذَابٌ عَظِيمٌ (۲:۶،۷) تک تلاوت کی اور فرمایا یہ جہنمی ہیں۔

انہوں نے کہا ہم ایسے نہیں

آپ ﷺنے فرمایا ہاں۔ (ابن ابی حاتم)

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ (۶)

کافروں کو آپ کا ڈرانا، یا نہ ڈرانا برابر ہے، یہ لوگ ایمان نہ لائیں گے۔

یعنی جو لوگ حق کو پوشیدہ کرنے یا چھپا لینے کے عادی ہیں اور ان کی قسمت میں یہی ہے کہ نہ تو  انہیں آپ کا ڈرانا سود مند ہے اور نہ ہی نہ  ڈرانا۔ یہ کبھی اللہ تعالیٰ کی اس وحی کی تصدیق نہیں کریں گے جو آپ پر نازل ہوئی ہے۔ جیسے اور جگہ فرمایا:

إِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ  (۱۰:۹۶)

یقیناً جن لوگوں کے حق میں آپکے رب کی بات ثابت ہو چکی ہے وہ ایمان نہ لائیں گے

 ایسے ہی سرکش اہل کتاب کی نسبت فرمایا:

وَلَئِنْ أَتَيْتَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَـبَ بِكُلِّ ءَايَةٍ مَّا تَبِعُواْ قِبْلَتَكَ (۲:۱۴۵)

اور آپ اگرچہ اہل کتاب کو تمام دلیلیں دے دیں لیکن وہ آپ کے قبلے کی پیروی نہیں کریں گے

یعنی ان بد نصیبوں کو سعادت حاصل ہی نہیں ہو گی۔ ان گمراہوں کو ہدایت کہاں؟ تو اے نبی ان پر افسوس نہ کر، فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلاَغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ (۱۳:۴۰)تیرا کام صرف رسالت کا حق ادا کر دینا اور پہنچا دینا ہے۔ ماننے والے نصیب دار ہیں وہ مالا مال ہو جائیں گے اور اگر کوئی نہ مانے تو نہ سہی۔ تیرا فرض ادا ہو گیا ہم خود ان سے حساب لے لیں گے۔ إِنَّمَا أَنتَ نَذِيرٌ وَاللّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ (۱۱:۱۲)  تو صرف ڈرانے والا ہے۔ ہر چیز پر اللہ تعالیٰ ہی وکیل ہے۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس بات کی بڑی ہی حرص تھی کہ تمام لوگ ایمان دار ہو جائیں اور ہدایت قبول کر لیں لیکن پروردگار نے فرمایا کہ یہ سعادت ہر ایک کے حصہ نہیں۔ یہ نعمت بٹ چکی ہے جس کے حصے میں آئی ہے وہ آپ کی مانے گا اور جو بد قسمت ہیں وہ ہرگز ہرگز اطاعت کی طرف نہیں جھکیں گے۔

پس مطلب یہ ہے کہ جو قرآن کو تسلیم نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ ہم اگلی کتابوں کو مانتے ہیں انہیں ڈرانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس لئے کہ وہ تو خود اپنی کتاب کو بھی حقیقتاً نہیں مانتے کیونکہ اس میں تیرے ماننے کا عہد موجود ہے تو جب وہ اس کتاب کو اور اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت کو نہیں مانتے جس کے ماننے کا اقرار کر چکے تو بھلا وہ تمہاری باتوں کو کیا مانیں گے؟

ابوالعالیہ کا قول ہے کہ یہ آیت جنگ احزاب کے ان سرداروں کے بارے میں اتری ہے جن کی نسبت فرمان باری ہے:

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُوا نِعْمَتَ اللَّهِ كُفْرًا  (۱۴:۲۸)

کیا آپ نے ان کی طرف نظر نہیں ڈالی جنہوں نے اللہ کی نعمت کے بدلے ناشکری کی

لیکن جو معنی ہم نے پہلے بیان کئے ہیں وہ زیادہ واضح ہیں اور دوسری آیتوں کے مطابق ہیں۔ واللہ اعلم

اس حدیث پر جو ابن ابی حاتم کے حوالے سے ابھی بیان ہوئی ہے دوبارہ نظر ڈالئیے لَا يُؤْمِنُونَ پہلے جملہ کی تاکید ہے یعنی ڈرانا نہ ڈرانا دونوں برابر ہیں، دونوں حالتوں میں ان کا کفر نہ ٹوٹے گا۔

یہ بھی ممکن ہے کہ لَا يُؤْمِنُونَ خبر ہو اس لئے کہ تقدیر کلام إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا يُؤْمِنُونَ ہے اور سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ جملہ معترضہ ہو جائے گا

خَتَمَ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَعَلَى سَمْعِهِمْ ۖ وَعَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (۷)

اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے

حضرت سدی فرماتے ہیں خَتَمَ سے مراد طبع ہے یعنی مہر لگا دی

حضرت قتادہ فرماتے ہیں یعنی ان پر شیطان غالب آگیا وہ اسی کی ماتحتی میں لگ گئے یہاں تک کہ مہر الہٰی ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر لگ گئی اور آنکھوں پر پردہ پڑ گیا۔ ہدایت کو نہ دیکھ سکتے ہیں نہ سن سکتے ہیں، نہ سمجھ سکتے ہیں۔

 حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ گناہ لوگوں کے دلوں میں بستے جاتے ہیں اور انہیں ہر طرف سے گھیر لیتے ہیں۔ بس یہی طبع اور خَتَمَ یعنی مہر ہے۔ دل اور کان کے لئے محاورہ میں مہر آتی ہے۔

مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں قرآن میں رَانَ کا لفظ ہے طبع کا لفظ ہے اور اقفال کا لفظ ہے۔ ران طبع سے کم ہے اور طبع اقفال سے کم ہے، اقفال سب سے زیادہ ہے۔

حضرت مجاہد نے اپنا ہاتھ دکھا کر کہا کہ دل ہتھیلی کی طرح ہے اور بندے کے گناہ کی وجہ سے وہ سمٹ جاتا ہے اور بند ہو جاتا ہے۔ اس طرح کہ ایک گناہ کیا تو گویا چھنگلیا بند ہو گئی پھر دوسرا گناہ کیا دوسری انگلی بند ہو گئی یہاں تک کہ تمام انگلیاں بند ہوگئیں اور اب مٹھی بالکل بند ہو گئی جس میں کوئی چیز داخل نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح گناہوں سے دل پر پردے پڑ جاتے ہیں مہر لگ جاتی ہے پھر اس پر کسی طرح حق اثر نہیں کرتا۔ اسے زین بھی کہتے ہیں

مطلب یہ ہوا کہ تکبر کی وجہ ان کا حق سے منہ پھیر لینا بیان ہو  رہا ہے جیسے کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص اس بات کے سننے سے بہرا بن گیا۔ مطلب یہ ہوتا ہے کہ تکبر اور بےپرواہی کر کے اس نے اس بات کی طرف کان نہ  لگایا۔

 امام ابن جریر فرماتے ہیں یہ مطلب ٹھیک نہیں اس لئے کہ یہاں تو خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی۔

زمحشری نے اس کی تردید کی ہے اور پانچ تاویلیں کی ہیں لیکن سب کی سب بالکل بےمعنی اور فضول ہیں اور صرف اپنے معتزلی ہونے کی وجہ سے اسے یہ تکلفات کرنے پڑے ہیں کیونکہ اس کے نزدیک یہ بات بہت بری ہے کہ کسی کے دل پر اللہ قدوس مہر لگا دے لیکن افسوس اس نے دوسری صاف اور صریح آیات پر غور نہیں کیا۔

 ایک جگہ ارشاد ہے:

فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ (۶۱:۵)

پس جب وہ لوگ ٹیڑھے ہی رہے تو اللہ نے انکے دلوں کو (اور) ٹیڑھا کر دیا

اور فرمایا :

وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوا بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَنَذَرُهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ (۶:۱۱۰)

اور ہم بھی ان کے دلوں کو اور ان کی نگاہوں کو پھیر دیں گے جیسا کہ یہ لوگ اس پر پہلی دفعہ ایمان نہیں لائے اور ہم ان کی سرکشی میں حیران رہنے دیں گے

اس قسم کی اور آیتیں بھی ہیں۔ جو صاف بتاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انکے دلوں پر مہر لگا دی ہے اور ہدایت کو ان سے دور کر دیا ہے۔ حق کو ترک کرنے اور باطل پر جم رہنے کی وجہ سے جو یہ سراسر عدل و انصاف ہے اور عدل اچھی چیز ہے نہ کہ بری۔

اگر زمخشری بھی بغور ان آیات پر نظر ڈالتے تو تاویل نہ کرتے۔ واللہ اعلم

قرطبی فرماتے ہیں کہ اُمت کا  اجماع ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی ایک صفت مہر لگانا بھی بیان کی ہے جو کفار کے کفر کے بدلے ہے۔فرمایا ہے:

بَلْ طَبَعَ اللّهُ عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ (۴:۱۵۵)

بلکہ ان کے کفر کی وجہ سے اللہ نے ان پر مہر لگا دی۔

حدیث میں بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ دلوں کو الٹ پلٹ کرتا ہے۔ایک دعا بھی ہے:

َا مُقَلِبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قُلُوبَنَا عَلى دِينِك

اے دلوں کے پھیرنے والے ہمارے دلوں کو اپنے دین پر قائم رکھ

حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

دلوں پر فتنے اس طرح پیش ہوتے ہیں جیسے ٹوٹے ہوئے بورے کا ایک ایک تنکا جو دل انہیں قبول کر لیتا ہے اس میں ایک سیاہ نکتہ ہو جاتا ہے اور جس دل میں یہ فتنے اثر نہیں کرتے، اس میں ایک سفید نکتہ ہو جاتا ہے جس کی سفیدی بڑھتے بڑھتے بالکل صاف سفید ہو کر سارے دل کو منور کر دیتی ہے۔ پھر اسے کبھی کوئی فتنہ نقصان نہیں پہنچا سکتا اسی طرح دوسرے دل کی سیاہی (جو حق قبول نہیں کرتا) پھیلتی جاتی ہے یہاں تک کہ سارا دل سیاہ ہو جاتا ہے۔ اب وہ الٹے کوزے کی طرح ہو جاتا ہے۔ نہ اچھی بات اسے اچھی لگتی ہے نہ برائی بری معلوم ہوتی ہے۔

 امام ابن جریر کا فیصلہ وہی ہے جو حدیث میں آ چکا ہے کہ مؤمن جب گناہ کرتا ہے اس کے دل میں ایک سیاہ نکتہ ہو جاتا ہے اگر وہ باز آ جائے توبہ کر لے اور رک جائے تو وہ نکتہ مٹ جاتا ہے اور اس کا دل صاف ہو جاتا ہے اور اگر وہ گناہ میں بڑھ جائے تو وہ سیاہی بھی پھیلتی جاتی ہے یہاں تک کہ سارے دل پر چھا جاتی ہے، یہی وہ رَانَ ہے جس کا ذکر اس آیت میں ہے: (ترمذی۔ نسائی۔ ابن جریر)

كَلاَّ بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَّا كَانُواْ يَكْسِبُونَ (۸۳:۱۴)

یقیناً ان کے دلوں پر ران ہے، ان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو حسن صحیح کہا ہے

تو معلوم ہوا کہ گناہوں کی زیادتی دلوں پر غلاف ڈال دیتی ہے اور اس کے بعد مہر الہٰی لگ جاتی ہے جسے خَتَمَ اور طَبَعَ کہا جاتا ہے۔ اب اس دل میں ایمان کے جانے اور کفر کے نکلنے کی کوئی راہ باقی نہیں رہتی۔اسی مہر کا ذکر اس آیت خَتَمَ اللّهُ عَلَى قُلُوبِهمْ وَعَلَى سَمْعِهِمْ میں ہے،

وہ ہماری آنکھوں دیکھی حقیقت ہے کہ جب کسی چیز کا منہ بند کر کے اس پر مہر لگا دی جائے تو جب تک وہ مہر نہ ٹوٹے نہ اس میں کچھ جا سکتا ہے نہ اس سے کوئی چیز نکل سکتی ہے۔ اسی طرح جن کفار کے دلوں اور کانوں پر مہر الہٰی لگ چکی ہے ان میں بھی بغیر اس کے ہٹے اور ٹوٹے نہ ہدایت آئے، نہ کفر جائے۔

سَمْعِهِمْ پر پورا وقف ہے اور آیت وَعَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ الگ پورا جملہ ہے۔

 خَتَمَ اور طَبَعَ دلوں اور کانوں پر ہوتی ہے اور غِشَاوَةٌ یعنی پردہ آنکھوں پر پڑتا ہے۔ جیسے کہ حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبداللہ بن مسعود اور دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔

قرآن میں ہے:

فَإِن يَشَإِ اللَّهُ يَخْتِمْ عَلَىٰ قَلْبِكَ (۴۲:۲۴)

اگر اللہ چاہے تو آپ کے دل پر مہر لگا دے

اور جگہ ہے:

وَخَتَمَ عَلَىٰ سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَىٰ بَصَرِهِ غِشَاوَةً (۴۵:۲۳)

اور اسکے کان اور دل پر مہر لگا دی ہےاور اسکی آنکھ پر بھی پردہ ڈال دیا ہے

ان آیتوں میں دل اور کان پر خَتَمَ کا ذکر ہے اور آنکھ پر پردے کا بعض نے یہاں غِشَاوَةً زبر کے ساتھ بھی پڑھا ہے تو ممکن ہے کہ ان کے نزدیک فعل جعل مقصود ہو اور ممکن ہے کہ نصب محل کی اتباع سے ہو جیسے وَحُورٌ عِينٌ (۵۶:۲۲) میں۔

شروع سورت کی چار آیتوں میں مؤمنین کے اوصاف بیان ہوئے پھر ان دو آیتوں میں کفار کا حال بیان ہوا۔

اب منافقوں کا ذکر ہوتا ہے جو بظاہر ایماندار بنتے ہیں لیکن حقیقت میں کافر ہیں چونکہ ان لوگوں کی چالاکیاں عموماً پوشیدہ رہ جاتی ہیں۔ اس لئے ان کا بیان ذرا تفصیل سے کیا گیا اور بہت کچھ ان کی نشانیاں بیان کی گئیں انہی کے بارے میں سورۃ برأت اتری اور انہی کا ذکر سورۃ نور میں کیا گیا تاکہ ان سے پورا بچاؤ ہو اور ان کی مذموم خصلتوں سے مسلمان دور رہیں۔

پس فرمایا۔

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ (۸)

بعض کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں، لیکن در حقیقت وہ ایمان والے نہیں ہیں۔

نفاق کہتے ہیں بھلائی ظاہر کرنے اور برائی پوشیدہ رکھنے کو۔

نفاق کی دو قسمیں ہیں اعتقادی اور عملی۔

 پہلی قسم کے منافق تو ابدی جہنمی ہیں اور دوسری قسم کے بدترین مجرم ہیں۔اس کا بیان تفصیل کے ساتھ انشاء اللہ کسی مناسب جگہ ہو گا۔

 امام ابن جریج فرماتے ہیں منافق کا قول اسکے فعل کے خلاف، اس کا باطن ظاہر کے خلاف اس کا آنا جانے کے خلاف اور اس کی موجودگی عدم موجودگی ہوا کرتی ہے۔

نفاق مکہ شریف میں تو تھا ہی نہیں بلکہ اس کے الٹ تھا یعنی بعض لوگ ایسے تھے جو زبردستی بظاہر کافروں کا ساتھ دیتے تھے مگر دل میں مسلمان ہوتے تھے۔

جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مکہ چھوڑ کر مدینہ تشریف لائے اور یہاں پر اوس اور خزرج کے قبائل نے انصار بن کر آپ کا ساتھ دیا اور جاہلیت کے زمانہ کی مشرکانہ بت پرستی ترک کر دی اور دونوں قبیلوں میں سے خوش نصیب لوگ مشرف بہ اسلام ہو گئے لیکن یہودی اب تک اللہ تعالیٰ کی اس نعمت سے محروم تھے۔ ان میں سے صرف حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ نے اس سچے دین کو قبول کیا تب تک بھی منافقوں کا خبیث گروہ قائم نہ ہوا تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان یہودیوں اور عرب کے بعض قبائل سے صلح کر لی تھی۔

غرض اس جماعت کے قیام کی ابتدا یوں ہوئی کہ مدینہ شریف کے یہودیوں کے تین قبیلے تھے بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ، بنو قینقاع تو خزرج کے حلیف اور بھائی بند بنے ہوئے تھے اور باقی دو قبیلوں کا بھائی چارہ اوس سے تھا۔

جب جنگ بدر ہوئی اور اس میں پروردگار نے اپنے دین والوں کو غالب کیا۔ شوکت و شان اسلام ظاہر ہوئی، مسلمانوں کا سکہ جم گیا اور کفر کا زور ٹوٹ گیا تب یہ ناپاک گروہ قائم ہوا چنانچہ عبداللہ بن ابی بن سلول تھا تو خزرج کے قبیلے سے لیکن اوس اور خزرج دونوں اسے اپنا بڑا مانتے تھے بلکہ اس کی باقاعدہ سرداری اور بادشاہت کے اعلان کا پختہ ارادہ کر چکے تھے کہ ان دونوں قبیلوں کا رخ اسلام کی طرف پھر گیا اور اس کی سرداری یونہی رہ گئی۔

یہ خار تو اس کے دل میں تھا ہی، اسلام کی روز افزوں ترقی میں لڑائی اور کامیابی نے اسے مخبوط الحواس بنا دیا۔ اب اس نے دیکھا کہ یوں کام نہیں چلے گا اس نے بظاہر اسلام قبول کر لینے اور باطن میں کافر رہنے کی ٹھانی اور جس قدر جماعت اس کے زیر اثر تھی سب کو یہی ہدایت کی، اس طرح منافقین کی ایک جمعیت مدینہ کے آس پاس قائم ہو گئی۔

ان منافقین میں بحمدللہ مکی مہاجر ایک بھی نہ تھا بلکہ یہ بزرگ تو اپنے اہل و عیال، مال و متاع کو نام حق پر قربان کر کے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دے کر آئے تھے۔ فرضی اللہ عنھم اجمعین

حضرت عبداللہ بن عباسؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں

یہ منافق اوس اور خزرج کے قبیلوں میں سے تھے اور یہودی بھی جو ان کے طریقے پر تھے۔ قبیلہ اوس اور خزرج کے نفاق کا ان آیتوں میں بیان ہے۔ ابوالعالیہ، حضرت حسن، قتادہ، سدی نے یہی بیان کیا ہے۔

پروردگار عالم نے منافقوں کی بہت سی بد خصلتوں کا یہاں بیان فرمایا۔ تاکہ ان کے ظاہر حال سے مسلمان دھوکہ میں نہ آ جائیں اور انہیں مسلمان خیال کر کے اپنا نہ سمجھ بیٹھیں۔ جس کی وجہ سے کوئی بڑا فساد پھیل جائے۔

یہ یاد رہے کہ بدکاروں کو نیک سمجھنا بھی بجائے خود بہت برا اور نہایت خوفناک امر ہے جس طرح اس آیت میں فرمایا گیا ہے کہ یہ لوگ زبانی اقرار تو ضرور کرتے ہیں مگر ان کے دل میں ایمان نہیں ہوتا۔

اسی طرح سورۃ منافقون میں بھی کہا گیا ہے:

إِذَا جَآءَكَ الْمُنَـفِقُونَ قَالُواْ نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ (۶۳:۱)

تیرے پاس جب منافق آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم اس بات کے گواہ ہیں کہ بیشک آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ یقیناً آپ اللہ کے رسول ہیں

لیکن چونکہ حقیقت میں منافقوں کا قول ان کے عقیدے کے مطابق نہ تھا اس لئے ان لوگوں کے شاندار اور تاکیدی الفاظ کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انہیں جھٹلا دیااور سورۃ منافقون میں فرمایا :

وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ (۶۳:۱)

اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ بالیقین منافق جھوٹے ہیں

 اور یہاں بھی فرمایا وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ یعنی دراصل وہ ایماندار نہیں

يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ (۹)

وہ اللہ تعالیٰ اور ایمان والوں کو دھوکا دیتے ہیں، لیکن دراصل وہ خود اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں مگر سمجھتے نہیں۔‏

وہ اپنے ایمان کو ظاہر کر کے اور اپنے کفر کو چھپا کر اپنی جہالت سے اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دیتے ہیں اور اسے نفع دینے والی اور اللہ کے ہاں چل جانے والی کاریگری خیال کرتے ہیں۔ جیسے کہ بعض مؤمنوں پر ان کا یہ مکر چل جاتا ہے۔

قرآن میں اور جگہ ہے:

يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهِ جَمِيعاً فَيَحْلِفُونَ لَهُ كَمَا يَحْلِفُونَ لَكُمْ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ عَلَى شَىْءٍ أَلاَ إِنَّهُمْ هُمُ الْكَـذِبُونَ (۵۸:۱۸)

جس دن اللہ تعالیٰ ان سب کو اٹھا کھڑا کرے گا تو یہ جس طرح تمہارے سامنے قسمیں کھاتے ہیں (اللہ تعالیٰ) کے سامنے بھی قسمیں کھانے لگیں گے اور سمجھیں گے کہ وہ بھی کسی (دلیل) پر ہیں۔ یقین مانو کہ بیشک وہی جھوٹے ہیں۔‏

یہاں بھی ان کے اس غلط عقیدے کی وضاحت میں فرمایا کہ دراصل وہ اپنے اس کام کی برائی کو جانتے ہی نہیں۔ یہ دھوکہ خود اپنی جانوں کو دے رہے ہیں جیسے کہ اور جگہ ارشاد ہوا :

إِنَّ الْمُنَافِقِينَ يُخَادِعُونَ اللّهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ (۴:۱۴۲)

بیشک منافق اللہ سے چال بازیاں کر رہے ہیں اور وہ انہیں اس چالبازی کا بدلہ دینے والا ہے

بعض قاریوں نے يَخدَعُونَ پڑھا ہے اور بعض يُخَادِعُونَ مگر دونوں قرأتوں کے معنی کا مطلب ایک ہی ہوتا ہے۔

اگر کوئی کہے کہ  اللہ تعالیٰ کو اور ایمان والوں کو منافق دھوکہ کیسے دیں گے؟ ْوہ جو اپنے دل کے خلاف اظہار کرتے ہیں وہ تو صرف بچاؤ کے لیے ہوتا ہے تو جواباً کہا جائے گا کہ اس طرح کی بات کرنے والے کو بھی جو کسی خوف  سے بچنا چاہتا ہے

عربی زبان میں مخادع کہا جاتا ہے چونکہ منافق بھی قتل، قید اور دنیاوی عذابوں سے محفوظ رہنے کے لئے یہ چال چلتے تھے اور اپنے باطن کے خلاف ظاہری الفاظ کہتے تھے اس لئے انہیں دھوکہ باز کہا گیا۔

 ان کا یہ فعل چاہے کسی کو دنیا میں دھوکا دے بھی دے لیکن درحقیقت وہ خود اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ کیونکہ وہ اسی میں اپنی بھلائی اور کامیابی جانتے ہیں اور دراصل یہ سب ان کے لئے انتہائی برا عذاب اور غضب الہٰی ہو گا جس کے سہنے کی ان میں طاقت نہیں ہو گی پس یہ دھوکہ حقیقتاً ان پر خود وبال ہو گا۔ وہ جس کام کے انجام کو اچھا جانتے ہیں وہ ان کے حق میں برا اور بہت برا ہو گا۔ ان کے کفر، شک اور تکذیب کی وجہ سے ان کا رب ان سے ناراض ہو گا لیکن افسوس انہیں اس کا شعور ہی نہیں اور یہ اپنے اندھے پن میں ہی مست ہیں۔

ابن جریج اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ لا الہ الا اللہ کا اظہار کر کے وہ اپنی جان اور مال کا بچاؤ کرنا چاہتے ہیں، یہ کلمہ ان کے دلوں میں جا گزیں نہیں ہوتا۔

حضرت قتادہ فرماتے ہیں منافقوں کی یہی حالت ہے کہ زبان پر کچھ، دل میں کچھ، عمل کچھ، عقیدہ کچھ، صبح کچھ اور شام کچھ کشتی کی طرح جو ہوا کے جھونکے سے کبھی اِدھر ہو جاتی ہے کبھی اُدھر۔

فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًا ۖ

ان کے دلوں میں بیماری تھی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں بیماری میں مزید بڑھا دیا

بیماری سے مراد یہاں شک و شبہ ہے۔

حضرت ابن عباسؓ حضرت ابن مسعودؓ اور چند صحابہؓ سے یہی مروی ہے۔

 حضرت مجاہد عکرمہ، حسن بصری، ابوالعالیہ، ربیع بن انس، قتادہ، کا بھی یہی قول ہے۔

حضرت عکرمہ اور طاؤس نے اس کی تفسیر سے ریا اور ابن عباسؓ سے اس کی تفسیر نفاق بھی مروی ہے۔

 زید بن اسلم فرماتے ہیں یہاں دینی بیماری مراد ہے نہ کہ جسمانی۔

انہیں اسلام میں شک کی بیماری تھی اور ان کی ناپاکی میں اللہ تعالیٰ نے اور اضافہ کر دیا۔ جیسے قرآن میں اس کا ذکر ایک اور جگہ ہے:

فَأَمَّا الَّذِينَ ءامَنُواْ فَزَادَتْهُمْ إِيمَـناً وَهُمْ يَسْتَبْشِرُونَ ـ ۔۔۔ رِجْسًا إِلَى رِجْسِهِمْ (۹:۱۲۴،۱۲۵)

سو جو لوگ ایماندار ہیں اس سورت نے ان کے ایمان کو زیادہ کیا ہے اور وہ خوش ہو رہے ہیں ۔ اور جن کے دلوں میں روگ ہے اس سورت نے ان میں ان کی گندگی کے ساتھ اور گندگی بڑھا

یعنی اس کی بدی اور گمراہی بڑھ جاتی ہے، یہ بدلہ بالکل ان کے عمل کے مطابق ہے۔

یہ تفسیر ہی درست ہے، ٹھیک اسی کے مثل یہ فرمان بھی ہے:

وَالَّذِينَ اهْتَدَوْاْ زَادَهُمْ هُدًى وَءَاتَـهُمْ تَقُوَاهُمْ (۴۷:۱۷)

اور جو لوگ ہدایت یافتہ ہیں اللہ نے انہیں ہدایت میں بڑھا دیا ہے اور انہیں ان کی پرہیز گاری عطا فرمائی ہے

وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ (۱۰)

اور ان کے جھوٹ کی وجہ سے ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔‏

 يَكْذِبُونَ کو يُكْذِبُونَ بھی قاریوں نے پڑھا ہے یہ دونوں خصلتیں ان میں تھیں جھٹلاتے بھی تھے اور جھوٹے بھی تھے۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض منافقوں کو اچھی طرح جاننے کے باوجود بھی قتل نہ کرنے کیوجہ وہی ہے جو بخاری و مسلم کی روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا میں اس بات کو ناپسند کرتا ہوں کہ لوگوں میں یہ چرچے ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو قتل کر ڈالتے ہیں،

 مطلب یہ ہے کہ جو اعرابی آس پاس ہیں انہیں یہ تو معلوم نہ ہو گا کہ ان منافقوں کے پوشیدہ کفر کی بنا پر انہیں قتل کیا گیا ہے ان کی نظریں تو صرف ظاہر داری پر ہوں گی جب ان میں یہ بات مشہور ہو جائے گی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو قتل کر ڈالتے ہیں تو خوف ہے کہ کہیں وہ اسلام کے قبول کرنے سے رک نہ جائیں۔

قرطبی فرماتے ہیں ہمارے علماء وغیرہ کا بھی یہی قول ہے۔

ٹھیک اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مؤلفتہ القلوب کو جن کے دل اسلام کی جانب مائل کئے جاتے تھے۔ مال عطا فرمایا کرتے تھے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ ان کے اعتقاد بد ہیں۔

 حضرت امام مالک بھی منافقوں کو قتل نہ کرنے کی یہی وجہ بیان فرماتے ہیں جیسے محمد بن جہم، قاضی اسماعیل اور ابہری نے نقل کیا ہے۔

حضرت امام مالک سے بقول ابن ماجشون ایک وجہ یہ بھی نقل کی گئی ہے کہ یہ اس لئے تھا کہ آپ کی اُمت کو معلوم ہو جائے کہ حاکم صرف اپنے علم کی بناء پر فیصلہ نہیں کر سکتا۔

قرطبی فرماتے ہیں گو علماء کا تمام مسائل میں اختلاف ہو لیکن اس مسئلہ میں سب کا اتفاق ہے کہ قاضی صرف اپنی ذاتی معلومات کی بناء پر کسی کو قتل نہیں کر سکتا۔

حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اور وجہ بھی بیان کی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا منافقین کو قتل کرنے سے رکنے کا سبب ان کا اپنی زبان سے اسلام کو ظاہر کرنا تھا گو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم تھا کہ ان کے دل اس کے الٹ ہیں  لیکن ظاہری کلمہ اس پہلی بات کی تردید کرتا تھا جس کی تائید میں بخاری مسلم کی یہ حدیث بھی پیش کی جا سکتی ہے جس میں کہا گیا ہے :

مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کہیں جب وہ اسے کہہ دیں تو وہ مجھ سے اپنی جان اور مال کی امان پا لیں گے اور ان کا حساب اللہ عزوجل پر ہے۔

مطلب یہ ہے کہ اس کلمہ شریف کے کہتے ہی ظاہری احکام اسلام ان پر جاری ہو جائیں گے۔

اب اگر ان کا عقیدہ بھی اس کے مطابق ہے تو آخرت والے دن نجات کا سبب ہو گا ورنہ وہاں کچھ بھی نفع نہ ہو گا لیکن دنیا میں تو مسلمانوں کے احکام ان پر جاری رہیں گے گو یہ لوگ یہاں مسلمانوں کی صفوں میں اور ان کی فہرست میں نظر آئیں گے لیکن آخرت میں عین پل صراط پر ان سے دور کر دئیے جائیں گے اور اندھیروں میں حیران و پریشان ہوتے ہوئے با آواز بلند مسلمانوں کو پکار کر کہیں گے کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ لیکن انہیں جواب ملے گا کہ تھے تو سہی مگر تم فتنوں میں پڑ گئے اور انتظار میں ہی رہ گئے اور اپنی من مانی خواہشوں کے چکر میں پڑ گئے یہاں تک کہ حکم الہٰی آ پہنچا۔

غرض دار آخرت میں بھی مسلمانوں کے پیچھے پڑے لپٹے رہیں گے لیکن بالآخر ان سے الگ کر دئیے جائیں گے اور ان کی امیدوں پر پانی پھر جائے گا وہ چاہیں گے کہ مسلمانوں کے ساتھ سجدے میں گر پڑیں لیکن سجدہ نہیں کر سکیں گے۔ جیسے کہ احادیث میں مفصل بیان آ چکا ہے۔

بعض محققین نے کہا ہے کہ ان کے قتل نہ کئے جانے کی یہ وجہ تھی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ان کی شرارتیں چل نہیں سکتی تھیں۔ مسلمانوں کو باری تعالیٰ اپنی وحی کے ذریعہ ان کی برائیوں سے محفوظ کر لیتا تھا لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر اللہ نہ کرے ایسے لوگ ہوں گے ان کا نفاق کھل جائے اور مسلمان بخوبی معلوم کر لیں تو وہ قتل کر دئیے جائیں گے۔

حضرت امام مالک ؒ کا فتویٰ ہے کہ نفاق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھا لیکن آج کل وہ بےدینی اور زندیقیت ہے

یہ بھی یاد رہے کہ زندیق جو لوگوں کو بھی اسکی تعلیم دیتا ہو اور وہ زندیق جو معلم نہ ہو ان دونوں میں فرق کیا جائے گا یا نہیں

اور یہ ارتداد کئی کئی مرتبہ ہوا تب یہ حکم ہے یا صرف ایک مرتبہ ہونے پر بھی؟

پھر اس میں بھی اختلاف ہے کہ اسلام لانا اور رجوع کرنا خود اس کی اپنی طرف سے ہو یا اس پر غلبہ پا لینے کے بعد بھی یہی حکم ہے؟

غرض اس باتوں میں اختلاف ہے لیکن اس کے بیان کی جگہ احکام کی کتابیں ہیں نہ کہ تفسیریں۔

چودہ شخصوں کے نفاق کا تو آپ کو قطعی علم تھا، یہ وہ بدباطن لوگ تھے جنہوں نے غزوہ تبوک میں مشورہ کر کے یہ امر طے کر لیا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دغابازی کریں اور آپ کے قتل کی پوری سازش کر چکے تھے طے ہوا تھا کہ رات کے اندھیرے میں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم فلاں گھاٹی کے قریب پہنچیں تو آپ کی اونٹنی کو بدکا دیں اور بھڑک کر بھاگے گی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم گھاٹی میں گر پڑیں گے۔

 اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اسی وقت وحی بھیج کر ان کی اس ناپاک سازش کا علم عطا کر دیا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلا کر اس واقعہ کی خبر دی اور ان غداروں کے نام بھی بتلا دئیے پھر بھی آپ نے ان کے قتل کے احکام صادر نہ فرمائے۔

ان کے سوا اور منافقوں کے ناموں کا آپ کو علم نہ تھا۔ چنانچہ قرآن کہتا ہے:

وَمِمَّنْ حَوْلَكُم مِّنَ الاٌّعْرَابِ مُنَـفِقُونَ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُواْ عَلَى النَّفَاقِ لاَ تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ (۹:۱۰۱)

اور کچھ تمہارے گردو پیش والوں میں اور کچھ مدینے والوں میں ایسے منافق ہیں کہ نفاق پر اڑے ہوئے ہیں، آپ ان کو نہیں جانتے ان کو ہم جانتے ہیں

اور دوسری جگہ فرمایا:

لَّئِن لَّمْ يَنتَهِ الْمُنَـفِقُونَ ۔۔۔ أُخِذُواْ وَقُتِّلُواْ تَقْتِيلاً (۳۳:۶۰،۶۱)

اگر (اب بھی) یہ منافق اور وہ جنہوں کے دلوں میں بیماری ہے اور لوگ جو مدینہ میں غلط افواہیں اڑانے والے ہیں باز نہ آئے تو ہم آپ کو ان پر مسلط کر دیں گے پھر  تو وہ چند دن ہی آپ کے ساتھ اس (شہر) میں رہ سکیں گے۔‏

ان پر پھٹکار برسائی گئی، جہاں بھی مل جائیں پکڑے جائیں اور خوب ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے جائیں

ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ان منافقوں کا علم نہ تھا کہ کون کون ہے؟ ہاں ان کی مذموم خصلتیں جو بیان ہوئی تھیں یہ جس میں پائی جاتی تھیں اس پر نفاق صادق آتا تھا۔جیسے اور جگہ ارشاد فرمایا :

وَلَوْ نَشَآءُ لأَرَيْنَـكَهُمْ فَلَعَرَفْتَهُم بِسِيمَـهُمْ وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِى لَحْنِ الْقَوْلِ (۴۷:۳۰)

اور اگر ہم چاہتے تو ان سب کو تجھے دکھا دیتے پس تو انہیں ان کے چہروں سے ہی پہچان لیتا اور یقیناً تو انہیں ان کی بات کے ڈھب سے پہچان لے گا

ان منافقوں میں سب سے زیادہ مشہور عبداللہ بن ابی بن سلول تھا۔ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی منافقانہ خصلتوں پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گواہی بھی دی تھی باوجود اس کے جب یہ  مر تا ہے  تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کے جنازے کی نماز پڑھاتے ہیں اور اس کے دفن میں اسی طرح شرکت کرتے ہیں جس طرح اور مسلمان صحابیوں کے جنازہ میں شرکت کرتے تھے۔  بلکہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ذرا زور سے یاد دلایا تو آپ نے فرمایا میں نہیں چاہتا کہ لوگ چہ میگوئیاں کریں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابیوں کو مار ڈالا کرتے ہیں

اور ایک صحیح روایت میں ہے:

استغفار کرنے یا نہ کرنے کا مجھے اختیار دیا گیا۔ تو میں نے استغفار کو پسند کیا۔

ایک اور روایت میں ہے:

اگر ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کرنے میں بھی اس کی بخشش جانتا تو یقیناً اس سے زیادہ مرتبہ استغفار کرتا۔

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ (۱۱)

اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں۔ ‏

حضرت عبداللہ بن عباس حضرت عبداللہ بن مسعود اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ یہ بیان بھی منافقوں سے ہی متعلق ہے ان کا فساد، کفر اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی تھی

مطلب یہ ہے کہ زمین میں اللہ کی نافرمانی کرنا یا نافرمانی کا حکم دینا زمین میں فساد کرنا ہےاور زمین و آسمان میں اصلاح سے مراد اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے۔

حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ انہیں جب اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے روکا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو ہدایت و اصلاح پر ہیں۔

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اس خصلت کے لوگ اب تک نہیں آئے۔

مطلب یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہ بدخصلت لوگ تھے تو سہی لیکن اب جو آئیں گے وہ ان سے بھی بدتر ہوں گے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ اس وصف کا کوئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھا ہی نہیں۔

 امام ابن جریر فرماتے ہیں :

ان منافقوں کا فساد برپا کرنا یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں کرتے تھے جس کام سے اللہ تعالیٰ منع فرماتا تھا، اسے کرتے تھے۔ فرائض ربانی ضائع کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے سچے دین میں شک و شبہ کرتے تھے۔ اس کی حقیقت اور صداقت پر یقین کامل نہیں رکھتے تھے۔ مؤمنوں کے پاس آ کر اپنی ایمانداری کی ڈینگیں مارتے تھے حالانکہ دل میں طرح طرح کے وسوسے ہوتے تھے موقع پا کر اللہ کے دشمنوں کی امداد و اعانت کرتے تھے اور اللہ کے نیک بندوں کے مقابلہ میں ان کی پاسداری کرتے تھے اور باوجود اس مکاری اور مفسدانہ چلن کے اپنے آپ کو مصلح اور صلح کل کے حامی جانتے تھے۔

 قرآن کریم نے کفار سے موالات اور دوستی رکھنے کو بھی زمین میں فساد ہونے سے تعبیر کیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

وَالَّذينَ كَفَرُواْ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَآءُ بَعْضٍ إِلاَّ تَفْعَلُوهُ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِى الاٌّرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ (۸:۷۳)

کافر آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو ملک میں فتنہ ہوگا اور زبردست فساد ہو جائے گا

 اس آیت نے مسلمان اور کفار کے دوستانہ تعلقات منقطع کر دیئے  اور جگہ فرمایا:

يَـأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْكَـفِرِينَ أَوْلِيَآءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَتُرِيدُونَ أَن تَجْعَلُواْ للَّهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَاناً مُّبِيناً  (۴:۱۴۴)

اے ایمان والو! مؤمنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست نہ بناؤ، کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کی صاف حجت قائم کر لو

یعنی تمہاری دلیل نجات کٹ جائے۔پھر فرمایا :

إِنَّ الْمُنَـفِقِينَ فِى الدَّرْكِ الاٌّسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَن تَجِدَ لَهُمْ نَصِيراً (۴:۱۴۵)

منافق تو یقیناً جہنم کے سب سے نیچے کے طبقہ میں جائیں گے ناممکن ہے کہ تو ان کا کوئی مددگار پالے

أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَكِنْ لَا يَشْعُرُونَ (۱۲)

خبردار ہو یقیناً یہی لوگ فساد کرنے والے ہیں لیکن شعور (سمجھ) نہیں رکھتے۔‏

چونکہ منافقوں کا ظاہر اچھا ہوتا ہے، اس لئے مسلمانوں سے حقیقت پوشیدہ رہ جاتی ہے وہ ایمانداروں کو اپنی چکنی چپڑی باتوں سے دھوکہ دے دیتے ہیں اور ان کے بےحقیقت کلمات اور کفار سے پوشیدہ دوستیوں سے مسلمانوں کو خطرناک مصائب جھیلنے پڑتے ہیں

پس بانی فساد یہ منافقین ہوئے۔ اگر یہ اپنے کفر پر ہی رہتے تو ان کی خوفناک سازشوں اور گہری چالوں سے مسلمانوں کو اتنا نقصان ہرگز نہ پہنچتا اور اگر پورے مسلمان ہو جاتے اور ظاہر باطن یکساں کر لیتے تب تو دنیا کے امن و امان کے ساتھ آخرت کی نجات و فلاح بھی پا لیتے باوجود اس خطرناک پالیسی کے جب انہیں یکسوئی کی نصیحت کی جاتی تو جھٹ کہہ اٹھتے کہ ہم تو صلح جو  ہیں ہم کسی سے بگاڑنا نہیں چاہتے، ہم فریقین کے ساتھ اتفاق رکھتے ہیں۔

حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں :

 وہ کہتے تھے ہم ان دونوں جماعتوں یعنی مؤمنوں اور اہل کتاب کے درمیان صلح کرانے والے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ ان کی نری جہالت ہے جسے یہ صلح سمجھتے ہیں وہ عین فساد ہے لیکن انہیں شعور ہی نہیں۔

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ ۗ

اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اور لوگوں کی طرح تم بھی ایمان لاؤتو جواب دیتے ہیں کہ ہم ایسا ایمان لائیں جیسا بیوقوف لائے ہیں،

مطلب یہ ہے کہ جب ان منافقوں کو صحابہ کی طرح اللہ تعالیٰ پر، اس کے فرشتوں، کتابوں اور رسولوں صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے، موت کے بعد جی اٹھنے، جنت دوزخ کی حقانیت کے تسلیم کرنے، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کر کے نیک اعمال بجا لانے اور برائیوں سے رکے رہنے کو کہا جاتا ہے تو یہ فرقہ ایسے ایمان والوں کو بےوقوف قرار دیتا ہے۔

 ابن عباسؓ، ابن مسعودؓ اور بعض دیگر صحابہ، ربیع، انس، عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم نے یہی تفسیر بیان کی ہے۔

 سُفَهَاءُ سفیه  کی جمع ہے جیسے حکماء حکیم کی اور حلماء حلیم کی۔ جاہل، کم عقل اور نفع نقصان کے پوری طرح نہ جاننے والے کو سفیه  کہتے ہیں۔قرآن میں اور جگہ ہے:

وَلاَ تُؤْتُواْ السُّفَهَآءَ أَمْوَلَكُمُ الَّتِى جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ قِيَـماً (۴:۵)

بے عقل لوگوں کو اپنا مال نہ دے دو جس مال کو اللہ تعالیٰ نے تمہاری گزران کے قائم رکھنے کا ذریعہ بنایا ہے

عام مفسرین کا قول ہے کہ اس آیت میں سُفَهَاءُ سے مراد عورتیں اور بچے ہیں۔

أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَكِنْ لَا يَعْلَمُونَ (۱۳)

خبردار ہو جاؤ یقیناً یہی بیوقوف ہیں، لیکن جانتے نہیں ۔‏

ان منافقین کے جواب میں یہاں بھی خود پروردگار عالم نے جواب دیا اور تاکیداً حصر کے ساتھ فرمایا کہ بیوقوف تو یہی ہیں لیکن ساتھ ہی جاہل بھی ایسے ہیں کہ اپنی بیوقوفی کو جان بھی نہیں سکتے۔ نہ اپنی جہالت و ضلالت کو سمجھ سکتے ہیں، اس سے زیادہ ان کی برائی اور کمال اندھا پن اور ہدایت سے دوری اور کیا ہو گی؟

وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَى شَيَاطِينِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُونَ (۱۴)

اور جب ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم بھی ایمان والے ہیں جب اپنے بڑوں کے پاس جاتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم تو صرف ان سے مذاق کرتے ہیں۔‏

مطلب یہ ہے کہ یہ بدباطن مسلمانوں کے پاس آ کر اپنی ایمان دوستی اور خیر خواہی ظاہر کر کے انہیں دھوکے میں ڈالنا چاہتے ہیں تاکہ مال و جان کا بچاؤ بھی ہو جائے، بھلائی اور غنیمت کے مال میں حصہ بھی قائم ہو جائے۔

 اور جب اپنے ہم مشربوں میں ہوتے ہیں تو ان ہی کی سی کہنے لگتے ہیں۔

خَلَوْا کے معنی یہاں ہیں انصرفوا اذھبوا خلصوا اور مضوا یعنی لوٹتے ہیں اور پہنچتے ہیں اور تنہائی میں ہوتے ہیں اور جاتے ہیں پس خَلَوْا جو کہ إِلَى کے ساتھ متعدی ہے اس کے معنی لوٹ جانے کے ہیں۔فعل مضمر اور ملفوظ دونوں پر یہ دلالت کرتا ہے۔

بعض کہتے ہیں إِلَى معنی میں مع کے مترادف ہے مگر اول ہی ٹھیک ہے ،

ابن جریر کے کلام کا خلاصہ بھی یہ ہے کہ شیاطین سے مراد رؤسا بڑے اور سردار ہیں جیسے یہود علماء اور سرداران کفار قریش و منافقین۔

حضرت ابن عباسؓ اور ابن مسعودؓ اور دیگر صحابہؓ  کا قول ہے کہ یہ شیاطین انکے امیر امراء اور سرداران کفر تھے اور انکے ہم عقیدہ لوگ بھی۔ شیاطین یہود بھی انہیں پیغمبری کے جھٹلانے اور قرآن کی تکذیب کرنے کا مشورہ دیا کرتے تھے۔

 مجاہد کہتے ہیں شیاطین سے مراد ان کے وہ ساتھی ہیں جو یا تو مشرک تھے یا منافق۔

قتادہ فرماتے ہیں اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو برائیوں میں اور شرک میں ان کے سردار تھے۔

ابوالعالیہ، سدی، ربیع بن انس بھی یہی تفسیر کرتے ہیں۔

امام ابن جریر فرماتے ہیں ہر بہکانے اور سرکشی کرنے والے کو شیطان کہتے ہیں۔ جنوں میں سے ہو یا انسانوں میں سے۔

قرآن میں بھی شَيَـطِينَ الإِنْسِ وَالْجِنِّ آیا ہے:

وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نِبِىٍّ عَدُوّاً شَيَـطِينَ الإِنْسِ وَالْجِنِّ يُوحِى بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً (۶:۱۱۲)

اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن بہت سے شیطان پیدا کئے تھے کچھ آدمی اور کچھ جن جن میں سے بعض بعضوں کو چکنی چپڑی باتوں کا وسوسہ ڈالتے رہتے تھے تاکہ ان کو دھوکا میں ڈال دیں

حدیث شریف میں ہے :

ہم جنوں اور انسانوں کے شیطانوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں۔

ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺکیا انسان کے شیطان بھی ہیں؟

آپ ﷺنے فرمایا ہاں

 جب یہ منافق مسلمانوں سے ملتے تو کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں یعنی جیسے تم ہو ویسے ہی ہم ہیں۔ اور اپنوں سے کہتے ہیں کہ ہم تو ان کے ساتھ ہنسی کھیل کرتے ہیں۔ حضرت ابن عباسؓ ربیع بن انس اور قتادہ کی یہی تفسیر ہے۔

اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ (۱۵)

اللہ تعالیٰ بھی ان سے مذاق کرتا ہے اور انہیں ان کی سرکشی اور بہکاوے میں اور بڑھا دیتا ہے۔‏

 اللہ تعالیٰ ان کو جواب دیتے ہوئے ان کے اس مکروہ فعل کے مقابلہےمیں فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی ان سے ٹھٹھا کرے گا اور انہیں ان کی سرکشی میں بہکنے دے گا جیسے دوسری جگہ ہے:

يَوْمَ يَقُولُ الْمُنَـفِقُونَ وَالْمُنَـفِقَـتُ ۔۔۔ وَظَـهِرُهُ مِن قِبَلِهِ الْعَذَابُ (۵۷:۱۳)

اس دن منافق مرد و عورت ایمانداروں سے کہیں گے کہ ہمارا انتظار تو کرو کہ ہم بھی تمہارے نور سے کچھ روشنی حاصل کرلیں۔ جواب دیا جائے گا کہ تم اپنے پیچھے لوٹ جاؤ اور روشنی تلاش کرو

پھر ان کے اور ان کے درمیان ایک دیوار حائل کر دی جائے گی جس میں دروازہ بھی ہوگااس کے اندرونی حصہ میں تو رحمت ہوگی اور باہر کی طرف عذاب ہوگا۔‏

فرمان الہٰی ہے:

وَلاَ يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ أَنَّمَا نُمْلِى لَهُمْ خَيْرٌ لاًّنفُسِهِمْ إِنَّمَا نُمْلِى لَهُمْ لِيَزْدَادُواْ إِثْمَاً (۳:۱۷۸)

کافر لوگ ہماری دی ہوئی مہلت کو اپنے حق میں بہتر نہ سمجھیں، یہ مہلت تو اس لئے ہے کہ وہ گناہوں میں اور بڑھ جائیں

پس قرآن میں جہاں استہزاء مسخریت یعنی مذاق، مکر، خدیعت یعنی دھوکہ کے الفاظ آئے ہیں وہاں یہی مراد ہے۔

 ایک اور جماعت کہتی ہے کہ یہ الفاظ صرف ڈانٹ ڈپٹ اور تنبیہ کے طور پر استعمال کئے گئے ہیں ان کی بدکرداریوں اور کفرو شرک پر انہیں ملامت کی گئی ہے۔

 اور مفسرین کہتے ہیں یہ الفاظ صرف جواب میں لائے گئے ہیں جیسے کوئی بھلا آدمی کسی مکار کے فریب سے بچ کر اس پر غالب آ کر کہتا ہے کہو میں نے کیسا فریب دیا حالانکہ اس کی طرف سے فریب نہیں ہوتا۔ اسی طرح یہ فرمان الہٰی ہے:

وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ (۳:۵۴)

اور کافروں نے مکر کیا اور اللہ تعالیٰ نے بھی (مکر) خفیہ تدبیر کی

اور آیت:

اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ (۲:۱۵)

اللہ تعالیٰ بھی ان سے مذاق کرتا ہے

ورنہ اللہ کی ذات مکر اور مذاق سے پاک ہے

مطلب یہ ہے کہ ان کا فن فریب انہی کو برباد کرتا ہے۔

ان الفاظ کا یہ بھی مطلب بیان کیا گیا ہے کہ اللہ ان کی ہنسی، دھوکہ، تمسخر اور بھول کا ان کو بدلہ دے گا تو بدلے میں بھی وہی الفاظ استعمال کئے گئے دونوں لفظوں کے دونوں جگہ معنی جدا جدا ہیں۔ دیکھئے قرآن کریم میں ہے:

وَجَزَآءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ (۴۲:۴۰)

اور برائی کا بدلہ اسی جیسی برائی ہے اور جو معاف کردے اور اصلاح کر لے اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے،

برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے

فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُواْ عَلَيْهِ (۲:۱۹۴)

جو تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر اسی کے مثل زیادتی کرو

تو ظاہر ہے کہ برائی کا بدلہ لینا حقیقتاً برائی نہیں۔ زیادتی کے مقابلہ میں بدلہ لینا زیادتی نہیں۔

 لیکن لفظ دونوں جگہ ایک ہی ہے حالانکہ پہلی برائی اور زیادتی ظلم ہے اور دوسری برائی اور زیادتی عدل ہے لیکن لفظ دونوں جگہ ایک ہی ہے۔ اسی طرح جہاں جہاں کلام اللہ میں ایسی عبارتیں ہیں وہاں یہی مطلب ہے۔

 ایک اور مطلب بھی سنئے

دنیا میں یہ منافق اپنی اس ناپاک پالیسی سے مسلمانوں کے ساتھ مذاق کرتے تھے اللہ نے بھی ان کے ساتھ یہی کیا کہ دنیا میں انہیں امن و امان مل گیا اور یہ مست ہوگئے حالانکہ یہ عارضی امن ہے، قیامت والے دن انہیں کوئی امن نہیں ملے گا گو یہاں ان کے مال اور جانیں بچ گئیں لیکن اللہ کے ہاں یہ دردناک عذاب کا شکار بنیں گے۔

امام ابن جریر نے اسی قول کو ترجیح دی ہے اور اس کی بہت تائید کی ہے اس لئے کہ مکر، دھوکہ اور مذاق جو بلاوجہ ہو اس سے تو اللہ کی ذات پاک ہے ہاں انتقام، مقابلے اور بدلے کے طور پر یہ الفاظ اللہ کی نسبت کہنے میں کوئی حرج نہیں۔

حضرت عبداللہ بن عباسؓ بھی یہی فرماتے ہیں کہ یہ ان کا بدلہ اور سزا ہے۔

 يَمُدُّهُمْ کا مطلب ڈھیل دینا اور بڑھانا بیان کیا گیا ہے۔جیسے فرمایا :

أَيَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهِ مِن مَّالٍ وَبَنِينَ ـ نُسَارِعُ لَهُمْ فِى الْخَيْرَتِ بَل لاَّ يَشْعُرُونَ (۲۳:۵۵،۵۶)

کیا یہ (یوں) سمجھ بیٹھے ہیں کہ ہم جو بھی ان کے مال و اولاد بڑھا رہے ہیں۔ وہ ان کے لئے بھلائیوں میں جلدی کر رہے ہیں (نہیں نہیں) بلکہ یہ سمجھتے ہی نہیں ‏

اور آیت میں ہے:

وَالَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا سَنَسْتَدْرِجُهُم مِّنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُونَ (۷:۱۸۲)

اور جو لوگ ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں ہم ان کو بتدریج (گرفت میں) لئے جا رہے ہیں اس طور پر کہ انہیں خبر بھی نہیں۔‏

غرض کہ ادھر یہ گناہ کرتے ہیں ادھر دنیوی نعمتیں زیادہ ہوتی ہیں جن پر یہ پھولے نہیں سماتے حالانکہ وہ حقیقت میں عذاب ہی کی ایک صورت ہوتی ہے۔

 قرآن پاک نے اور جگہ فرمایا:

فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ ۔۔۔ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (۶:۴۴،۴۵)

پھر جب وہ لوگ ان چیزوں کو بھولے رہے جن کی ان کو نصیحت کی جاتی تھی تو ہم نے ان پر ہرچیز کے دروازے کشادہ کر دیئے

یہاں تک کہ جب ان چیزوں پر جو کہ ان کو ملی تھیں وہ خوب اترا گئے ہم نے ان کو دفعتاً پکڑ لیا، پھر تو وہ بالکل مایوس ہوگئے۔‏ پھر ظالم لوگوں کی جڑ کٹ گئی اور سب تعریفیں اللہ کی  جو تمام عالم کا پروردگار ہے

ابن جریر فرماتے ہیں کہ انہیں ڈھیل دینے اور انہیں اپنی سرکشی اور بغاوت میں بڑھنے کے لئے ان کو مہلت دی جاتی ہے۔

 جیسے اور جگہ فرمایا:

وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصَـرَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُواْ بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَنَذَرُهُمْ فِى طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ (۶:۱۱۰)

اور ہم بھی ان کے دلوں کو اور ان کی نگاہوں کو پھیر دیں گے جیسا کہ یہ لوگ اس پر پہلی دفعہ ایمان نہیں لائے اور ہم ان کی سرکشی میں حیران رہنے دیں گے

طُغْيَان کہتے ہیں کسی چیز میں گھس جانے کو۔ جیسے فرمایا :

إِنَّا لَمَّا طَغَا الْمَآءُ حَمَلْنَـكُمْ فِى الْجَارِيَةِ (۶۹:۱۱)

جب پانی میں طغیانی آگئی تو اس وقت ہم نے تمہیں کشتی میں چڑھا لیا

ابن عباسؓ فرماتے ہیں وہ اپنے کفر میں گرے جاتے ہیں۔

 عَمْهٌ کہتے ہیں گمراہی کو۔

تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ضلالت و کفر میں ڈوب گئے اور اس ناپاکی نے انہیں گھیر لیا اب یہ اسی دلدل میں اترتے جاتے ہیں، اسی ناپاکی میں پھنسے جاتے ہیں اور اس سے نجات کی تمام راہیں ان پر بند ہو جاتی ہیں۔ بھلا ایسی دلدل میں جو ہو اور پھر اندھا بہرہ اور بیوقوف ہو وہ کیسے نجات پا سکتا ہے۔

 آنکھوں کے اندھے پن کے لئے عربی میں عمی کا لفظ آتا ہے اور دل کے اندھاپے کے لئے عَمْهٌ کا لیکن کبھی دل کے اندھے پن کے لئے بھی عمی کا لفظ آتا ہے جیسے قرآن میں ہے

وَلَـٰكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ (۲۲:۴۶)

يَكَادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ أَبْصَارَهُمْ ۖ

قریب ہے کہ بجلی ان کی آنکھیں اچک لے جائے،

بجلی کا آنکھوں کو اچک لینا، اس کی قوت اور سختی کا اظہار ہے اور منافقین کی بینائی کی کمزوری اور ضعف ایمان ہے۔

كُلَّمَا أَضَاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُوا ۚ

جب ان کے لئے روشنی کرتی ہے تو اس میں چلتے پھرتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا کرتی ہے تو کھڑے ہو جاتے ہیں

حضرت ابن عباسؓ رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ مطلب یہ ہے کہ قرآن کی مضبوط آیتیں ان منافقوں کی قلعی کھول دیں گی اور ان کے چھپے ہوئے عیب ظاہر کر دیں گی اور اپنی نورانیت سے انہیں مبہوث کر دیں گی جب ان پر اندھیرا ہو جاتا ہے تو کھڑے ہو جاتے ہیں یعنی جب ایمان ان پر ظاہر ہو جاتا ہے تو ذرا روشن دل ہو کر پیروی بھی کرنے لگتے ہیں لیکن پھر جہاں شک و شبہ آیا، دل میں کدورت اور ظلمت بھر گئی اور بھونچکے ہو کر کھڑے رہ گئے۔

 اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ اسلام کو ذرا عروج ملا تو ان کے دل میں قدرے اطمینان پیدا ہوا لیکن جہاں اس کے خلاف نظر آیا یہ الٹے پیروں کفر کی طرف لوٹنے لگے۔ جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ عَلَى حَرْفٍ ۖ ۔۔۔ وَإِنْ أَصَابَتْهُ فِتْنَةٌ انْقَلَبَ عَلَى وَجْهِهِ (۲۲:۱۱)

بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ ایک کنارے پر (کھڑے) ہو کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں اگر کوئی نفع مل گیا تو دلچسپی لینے لگتے ہیں اور اگر کوئی آفت آگئی تو اسی وقت منہ پھیر لیتے ہیں

حضرت ابن عباسؓیہ بھی فرماتے ہیں :

ان کا روشنی میں چلنا حق کو جان کر کلمہ اسلام پڑھنا ہے اور اندھیرے میں ٹھہر جانا کفر کی طرف لوٹ جانا ہے۔

دیگر بہت سے مفسرین کا بھی یہی قول ہے اور زیادہ صحیح اور ظاہر بھی یہی قول ہے واللہ اعلم۔

روز قیامت بھی ان کا یہی حال رہے گا کہ جب لوگوں کو ان کے ایمان کے اندازے کے مطابق نور ملے گا بعض کو کئی کئی میلوں تک کا، بعض کو اس سے بھی زیادہ، کسی کو اس سے کم، یہاں تک کہ کسی کو اتنا نور ملے گا کہ کبھی روشن ہو اور کبھی اندھیرا کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جو ذرا سی دور چل سکیں گے پھر ٹھہر جائیں گے پھر ذرا سی دور کا نور ملے گا پھر بجھ جائے گا اور بعض وہ بےنصیب بھی ہوں گے کہ ان کا نور بالکل بجھ جائے گا یہ پورے منافق ہوں گے جن کے بارے میں فرمان الہٰی ہے:

يَوْمَ يَقُولُ الْمُنَـفِقُونَ وَالْمُنَـفِقَـتُ ۔۔۔ فَالْتَمِسُواْ نُوراً (۵۷:۱۳)

اس دن منافق مرد و عورت ایمانداروں سے کہیں گے کہ ہمارا انتظار تو کرو کہ ہم بھی تمہارے نور سے کچھ روشنی حاصل کرلیں۔

جواب دیا جائے گا کہ تم اپنے پیچھے لوٹ جاؤ اور روشنی تلاش کرو

مؤمنوں کے بارے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

يَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَـتِ ۔۔۔ جَنَّـتٌ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا الاٌّنْهَـرُ (۵۷:۱۲)

(قیامت کے) دن تو دیکھے گا کہ ایماندار مردوں اور عورتوں کا نور ان کے آگے آگے اور ان کے دائیں دوڑ رہا ہوگا آج تمہیں ان جنتوں کی خوشخبری ہے جنکے نیچے نہریں جاری ہیں

اور فرمایا :

يَوْمَ لَا يُخْزِي اللَّهُ النَّبِيَّ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ ۔۔۔ وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (۶۶:۸)

جس دن اللہ تعالیٰ نبی کو اور ایمان داروں کو جو ان کے ساتھ ہیں رسوا نہ کرے گا

ان کا نور انکے سامنے اور ان کے دائیں دوڑ رہا ہوگا۔ یہ دعائیں کرتے ہوں گے اے ہمارے رب ہمیں کامل نور عطا فرما اور ہمیں بخش دے یقیناً تو ہرچیز پر قادر ہے۔‏

ان آیتوں کے بعد اب اس مضمون کی حدیثیں بھی سنئے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

بعض مؤمنوں کو مدینہ سے لے کر عدن تک نور ملے گا۔ بعض کو اس سے کم یہاں تک کہ بعض کو اتنا کم کہ صرف پاؤں رکھنے کی جگہ ہی روشن ہو گی (ابن جریر)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

ایمان والوں کو ان کے اعمال کے مطابق نور ملے گا بعض کو کھجور کے درخت جتنا، کسی کو قد آدم جتنا، کسی کو صرف اتنا ہی کہ اس کا انگوٹھا ہی روشن ہو، کبھی بجھ جاتا ہو، کبھی روشن ہو جاتا ہو (ابن ابی حاتم)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیںانہیں نور ملے گا ان کے اعمال کے مطابق جس کی روشنی میں وہ پل صراط سے گزریں گے۔ بعض لوگوں کا نور پہاڑ جتنا ہو گا، بعض کا کھجور جتنا اور سب سے کم نور والا وہ ہو گا جس کا نور اسکے انگوٹھے پر ہو گا کبھی چمک اٹھے گا اور کبھی بجھ جائے گا (ابن ابی حاتم) :

حضرت ابن عباسؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :

 تمام اہل توحید کو قیامت کے دن نور ملے گا۔ جب منافقوں کا نور بجھ جائے گا تو موحد ڈر کر کہیں گے رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا (۶۶:۸) یا رب ہمارے نور کو پورا کر (ابن ابی حاتم)

ضحاک بن مزاحم کا بھی یہی قول ہے۔

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ قیامت والے دن لوگ کئی قسم کے ہوں گے۔

- خالص مؤمن وہ جن کا بیان اگلی چار آیتوں میں ہوا،

- خالص کفار جن کا ذکر اس کے بعد کی دو آیتوں میں ہے

- اور منافق جن کی دو قسمیں ہیں۔ ایک تو خالص منافق جن کی مثال آگ کی روشنی سے دی گئی۔ دوسرے وہ منافق جو تردد میں ہیں کبھی تو ایمان چمک اٹھتا ہے کبھی بجھ جاتا ہے، ان ہی کی مثال بارش سے دی گئی ہے یہ پہلی قسم کے منافقوں سے کچھ کم ہیں۔

ٹھیک اسی طرح سورۃ نور میں بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے مؤمن کی اور اس کے دل کے نور کی مثال اس منور چراغ سے دی ہے جو روشن فانوس میں ہو اور خود فانوس بھی چمکتے ہوئے تارے کی طرح ہو۔ چنانچہ ایمان دار کا ایک تو خود دل روشن، دوسرے خالص شریعت کی اسے امداد، بس روشنی پر روشنی، نور پر نور ہو جاتا ہے۔

اسی طرح دوسری جگہ کافروں کی مثال بھی بیان کی جو اپنی نادانی کی وجہ سے اپنے آپ کو کچھ سمجھتے ہیں اور حقیقت میں وہ کچھ نہیں ہوتے۔ فرمایا :

وَالَّذِينَ كَفَرُواْ أَعْمَـلُهُمْ كَسَرَابٍ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ مَآءً حَتَّى إِذَا جَآءَهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْئاً (۲۴:۳۹)

اور کافروں کے اعمال مثل اس چمکتی ہوئی ریت کے ہیں جو چٹیل میدان میں جیسے پیاسا شخص دور سے پانی سمجھتا ہے لیکن جب اس کے پاس پہنچتا ہے تو اسے کچھ بھی نہیں پاتا،

أَوْ كَظُلُمَـتٍ فِى بَحْرٍ لُّجِّىٍّ يَغْشَـهُ مَوْجٌ ۔۔۔ لَّمْ يَجْعَلِ اللَّهُ لَهُ نُوراً فَمَا لَهُ مِن نُورٍ (۲۴:۴۰)

یا مثل ان اندھیروں کے ہے جو نہایت گہرے سمندر کی تہہ میں ہوں جسے اوپر تلے کی موجوں نے ڈھانپ رکھا ہو پھر اوپر سے بادل چھائے ہوئے ہوں۔

الغرض اندھیریاں ہیں جو اوپر تلے پے درپے ہیں۔ جب اپنا ہاتھ نکالے تو اسے بھی قریب ہے کہ نہ دیکھ سکے اور بات یہ ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ ہی نور نہ دے اس کے پاس کوئی روشنی نہیں ہوتی

جیسے سورۃ حج کے شروع میں ہے:

وَمِنَ النَّاسِ مَن يُجَـدِلُ فِى اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّبِعُ كُلَّ شَيْطَـنٍ مَّرِيدٍ (۲۲:۳)

بعض لوگ اللہ کے بارے میں باتیں بناتے ہیں اور وہ بھی بےعلمی کے ساتھ اور ہر سرکش شیطان کی پیروی کرتے ہیں ۔

ایک اور جگہ فرمایا :

ومِنَ النَّاسِ مَن يُجَـدِلُ فِى اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلاَ هُدًى وَلاَ كِتَـبٍ مُّنِيرٍ (۲۲:۸)

بعض لوگ اللہ کے بارے میں بغیر علم کے بغیر ہدایت کے اور بغیر روشن دلیل کے جھگڑتے ہیں

سورۃ واقعہ کے شروع اور آخر میں اور سورۃ انسان میں مؤمنوں کی بھی دو قسمیں بیان کی ہیں۔ سابقین اور اصحاب یمین یعنی مقربین بارگاہ ربانی اور پرہیزگار و نیک کار لوگ۔

پس ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ مؤمنوں کی دو جماعتیں ہیں مقرب اور ابرار۔

اور کافروں کی بھی دو قسمیں ہیں کفر کی طرف لانے والے اور ان کی تقلید کرنے والے۔

منافقوں کی بھی دو قسمیں ہیں خالص اور پکے منافق اور وہ منافق جن میں نفاق کی ایک آدھ شاخ ہے۔

صحیحین میں حدیث ہے حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

تین خصلتیں ایسی ہیں جس میں یہ تینوں ہوں وہ پختہ منافق ہے اور جس میں ایک ہو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے جب تک اسے نہ چھوڑے۔

- بات کرنے میں جھوٹ بولنا،

- وعدہ خلافی کرنا،

- امانت میں خیانت کرنا،

اس سے ثابت ہوا کہ انسان میں کبھی نفاق کا کچھ حصہ ہوتا ہے خواہ وہ نفاق عملی ہو خواہ اعتقادی جیسے کہ آیت و حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ سلف کی ایک جماعت اور علماء کرام کے ایک گروہ کا یہی مذہب ہے اس کا بیان پہلے بھی گزر چکا ہے اور آئندہ بھی آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ

مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

دل چار قسم کے ہیں

- ایک تو صاف دل جو روشن چراغ کی طرح چمک رہا ہو

- دوسرے وہ دل جو غلاف آلود ہیں،

- تیسرے وہ دل جو الٹے ہیں،

- چوتھے وہ دل جو مخلوط ہیں

پہلا دل مؤمن کا ہے جو پوری طرح نورانی ہے،

دوسرا کافر کا دل ہے جس پر پردے پڑے ہوئے ہیں،

تیسرا دل خالص منافقوں کا ہے جو جانتا ہے اور انکار کرتا ہے،

چوتھا دل اس منافق کا ہے جس میں ایمان و نفاق دونوں جمع ہیں۔

ایمان کی مثال اس سبزے کی طرح ہے جو پاکیزہ پانی سے بڑھ رہا ہو اور نفاق کی مثال اس پھوڑے کی طرح ہے جس میں پیپ اور خون بڑھتا ہی جاتا ہو اب جو مادہ بڑھ جائے وہ سرے پر غالب آ جاتا ہے۔

 اس حدیث کی اسناد بہت ہی عمدہ ہیں۔

وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (۲۰)

اور اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو ان کے کان اور آنکھوں کو بیکار کر دے یقیناً اللہ تعالیٰ ہرچیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔‏

حضرت ابن عباسؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اگر اللہ چاہے تو ان کے کان اور آنکھیں برباد کر دے۔

مطلب یہ ہے کہ جب انہوں نے حق کو جان کر اسے چھوڑ دیا تو اللہ ہر چیز پر قادر ہے یعنی اگر چاہے تو عذاب و سزا دے چاہے تو معاف کر دے۔

 یہاں قدرت کا بیان اس لئے کیا کہ پہلے منافقوں کو اپنے عذاب، اپنی جبروت سے ڈرایا اور کہہ دیا کہ وہ انہیں گھیر لینے پر قادر ہے اور ان کے کانوں کو بہرا کرنے اور آنکھوں کو اندھا کرنے پر قادر ہے۔

 قَدِيرٌ کے معنی قادر کے ہیں جیسے علیم کے معنی عالم کے ہیں۔

 امام ابن جریر فرماتے ہیں:

 یہ دو مثالیں ایک ہی قسم کے منافقوں کی ہیں

أَوْ معنی میں و کے ہےجیسے فرمایا :

وَلَا تُطِعْ مِنْهُمْ آثِمًا أَوْ كَفُورًا (۷۶:۲۴)

اور ان میں سے کسی گنہگار یا ناشکرے کا کہنا نہ مان

یا لفظ أَوْ اختیار کے لئے ہے یعنی خواہ یہ مثال بیان کرو، خواہ وہ مثال بیان کرو اختیار ہے۔

قرطبی فرماتے ہیں اور یہاں پر تساوی یعنی برابری کے لئے ہے جیسے عربی زبان کا محاورہ ہے جالس الحسن

 اور ابن سیرین زمخشری بھی یہی توجیہ کرتے ہیں

 تو مطلب یہ ہو گا کہ ان دونوں مثالوں میں سے جو مثال چاہو بیان کرو دونوں ان کے مطابق ہیں۔

میں کہتا ہوں یہ باعتبار منافقوں کی اقسام کے ہے، ان کے احوال و صفات طرح طرح کے ہیں۔ جیسے کہ سورۃ برأت میں وَمِنْهُم (۴۹)  وَمِنْهُم (۵۸)وَمِنْهُم (۷۵) کر کے ان کی بہت سی قسمیں بہت سے افعال اور بہت سے اقوال بیان کئے ہیں۔ تو یہ دونوں مثالیں دو قسم کے منافقوں کی ہیں جو ان کے احوال اور صفات سے بالکل مشابہ ہیں۔ واللہ اعلم۔

جیسے کہ سورۃ نور میں دو قسم کے کفار کی مثالیں بیان کیں۔ ایک کفر کی طرف بلانے والے دوسرے مقلد۔ فرمایا :

وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍ بِقِيعَةٍ (۲۴:۳۹)

اور کافروں کے اعمال مثل اس چمکتی ہوئی ریت کے ہیں جو چٹیل میدان میں

پھر فرمایا :

أَوْ كَظُلُمَاتٍ فِي بَحْرٍ لُّجِّيٍّ (۲۴:۴۰)

یا مثل ان اندھیروں کے ہے جو نہایت گہرے سمندر کی تہہ میں ہوں

پس پہلی مثال یعنی ریت کے تودے کی کفر کی طرف بلانے والوں کی ہے جو جہل مرکب میں پھنسے ہوئے ہیں۔

 دوسری مثال مقلدین کی ہے جو جہل بسیط میں مبتلا ہیں۔ واللہ اعلم

‎ يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (۲۱)

اے لوگوں اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا، یہی تمہارا بچاؤ ہے۔‏

یہاں سے اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی الوہیت کا بیان شروع ہوتا ہے وہی اپنے بندوں کو عدم سے وجود میں لایا، اسی نے ہر طرح کی ظاہری و باطنی نعمتیں عطا فرمائیں،

الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً

جس نے تمہارے لئے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا

اسی نے زمین کو فرش بنایا اور اس میں مضبوط پہاڑوں کی میخیں گاڑ دیں اور آسمان کو چھت بنایا۔

جیسے کہ دوسری آیت میں آیا :

وَجَعَلْنَا السَّمَآءَ سَقْفاً مَّحْفُوظاً وَهُمْ عَنْ ءَايَـتِهَا مُعْرِضُونَ  (۲۱:۳۲)

آسمان کو مضبوط چھت بھی ہم نے ہی بنایا۔ لیکن لوگ اسکی قدرت کے نمونوں پر دھیان نہیں دھرتے

وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَكُمْ ۖ

اور آسمان سے پانی اتار کر اس سے پھل پیدا کر کے تمہیں روزی دی،

آسمان سے پانی اتارنے کا مطلب بادل نازل فرمانا ہے۔ اس وقت جبکہ لوگ اس کے پورے محتاج ہوں۔ پھر اس پانی سے طرح طرح کے پھل پھول پیدا کرنا ہے جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں اور ان کے جانور بھی۔جیسے کہ قرآن مجید میں جگہ جگہ اس کا بیان آیا ہے۔ایک جگہ فرمایا ہے:

اللَّهُ الَّذِى جَعَـلَ لَكُـمُ الاٌّرْضَ قَـرَاراً ۔۔۔ فَتَـبَـرَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَـلَمِينَ  (۴۰:۶۴)

اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو ٹھہرنے کی جگہ اور آسمان کو چھت بنایا اور تمہاری صورتیں بنائیں اور بہت اچھی بنائیں اور تمہیں عمدہ عمدہ چیزیں کھانے کو عطا فرمائیں

یہی اللہ تمہارا پروردگار ہے، پس بہت برکتوں والا اللہ ہے سارے جہان کا پرورش کرنے والا۔‏

پس سب کا خالق، سب کا رازق، سب کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے اور اس لئے شرک سے مبرا ہر قسم کی عبادت کا وہی مستحق ہے۔

فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ (۲۲)

خبردار باوجود جاننے کے اللہ کے شریک مقرر نہ کرو ۔

اور فرمایااللہ تعالیٰ کے شریک نہ ٹھہراؤ جبکہ تم جانتے ہو۔

صحیحین میں حدیث ہےحضرت ابن مسعودؓپوچھتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑا گناہ کونسا ہے۔

فرمایا اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو تمہارا خالق ہے کسی کو شریک ٹھہرانا

حضرت معاذ والی حدیث میں ہے:

جانتے ہو کہ اللہ کا حق بندوں پر کیا ہے؟ یہ کہ اسی کی عبادت کریں اور کسی کو اس کی عبادت میں شریک نہ کریں

دوسری حدیث میں ہے تم میں سے کوئی یہ نہ کہے کہ جو اللہ چاہے اور فلاں چاہے بلکہ یوں کہے جو کچھ اللہ اکیلا چاہے۔

طفیل بن سنجرہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سوتیلے بھائی فرماتے ہیں:

میں نے خواب میں چند یہودیوں کو دیکھا اور ان سے پوچھا تم کون ہے؟

انہوں نے کہا تم بھی اچھے لوگ ہو لیکن افسوس تم کہتے ہو جو اللہ چاہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں

پھر میں نصرانیوں کی جماعت کے پاس گیا اور ان سے بھی اسی طرح پوچھا انہوں نے بھی یہی جواب دیا۔

میں نے ان سے کہا افسوس تم بھی مسیح علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا مانتے ہو۔

 انہوں نے بھی یہی جواب دیا

میں نے صبح اپنے اس خواب کا ذکر کچھ لوگوں سے کیا پھر دربار نبوی میں حاضر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہی خواب بیان کیا۔

 آپ نے پوچھا کیا کسی اور سے بھی تم نے اس کا ذکر کیا ہے؟

 میں نے کہا ہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اب آپ کھڑے ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا :

طفیل نے ایک خواب دیکھا اور تم میں سے بعض کو بیان بھی کیا میں چاہتا تھا کہ تمہیں اس کلمہ کے کہنے سے روک دوں لیکن فلاں فلاں کاموں کی وجہ سے میں اب تک نہ کہہ سکا۔ یاد رکھو اب ہرگز ہرگز اللہ چاہے اور اس کا رسول کبھی نہ کہنا بلکہ یوں کہو کہ صرف اللہ تعالیٰ اکیلا جو چاہے (ابن مردویہ)

ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا جو اللہ تعالیٰ چاہے اور آپ چاہیں۔

آپ ﷺنے فرمایا کیا تو مجھے اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتا ہے یوں کہہ جو اللہ تعالیٰ اکیلا چاہے (ابن مردویہ)

ایسے تمام کلمات توحید کے سراسر خلاف ہیں۔

توحید باری کی اہمیت کے بارے میں یہ سب احادیث بیان ہوئی ہیں۔ واللہ اعلم

تمام کفار اور منافقوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کا حکم دیا اور فرمایا اللہ کی عبادت کرو یعنی اس کی توحید کے پابند ہو جاؤ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو جو نہ نفع دے سکے نہ نقصان پہنچا سکے اور تم جانتے ہو کہ اس کے سوا کوئی رب نہیں جو تمہیں روزی پہنچا سکے اور تم جانتے ہو کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں اس توحید کی طرف بلا رہے ہیں جس کے حق اور سچ ہونے میں کوئی شک نہیں۔شرک اس سے بھی زیادہ پوشیدہ ہے جیسے چیونٹی جو رات کے اندھیرے میں کسی صاف پتھر پر چل رہی ہو، قسم ہے اللہ کی اور قسم ہے آپ کی حیات کی، یہ بھی شرک ہے انسان کا یہ کہنا اگر یہ کتیا نہ ہوتی تو چور رات کو ہمارے گھر میں گھس آتے یہ بھی شرک ہے۔

آدمی کا یہ قول کہ اگر بطخ  گھر میں نہ ہوتی تو چوری ہو جاتی یہ بھی شرک کا کلمہ ہے

 کسی کا یہ قول کہ جو اللہ چاہے اور آپ یہ بھی شرک ہے

 کسی کا یہ کہنا کہ اگر اللہ نہ ہوتا اور فلاں نہ ہوتا۔ یہ سب کلمات شرک ہیں

صحیح حدیث میں ہےـ

 کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا جو اللہ چاہے اور جو آپ چاہیں تو آپﷺ نے فرمایا کیا تو مجھے اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتا ہے؟

دوسری حدیث میں ہے:

تم اچھے لوگ ہوتے اگر تم شرک نہ کرتے تم کہتے ہو جو اللہ چاہے اور فلاں چاہے۔

ابوالعالیہ فرماتے ہیں أَنْدَادًا کے معنی شریک اور برابر کے ہیں۔

مجاہد فرماتے ہیں تم تورات و انجیل پڑھتے ہو اور جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ ایک اور لا شریک ہے، پھر جانتے ہوئے کیوں اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہو؟

مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

اللہ عزوجل نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کو پانچ چیزوں کا حکم دیا کہ ان پر عمل کرو اور بنی اسرائیل کو بھی ان پر عمل کرنے کا حکم دو، قریب تھا کہ وہ اس میں غفلت کریں تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے انہیں یاد دلایا کہ آپ کو پروردگار عالم کا حکم تھا کہ ان پانچ چیزوں پر خود کاربند ہو کر دوسروں کو بھی حکم دو۔ لہذا یا تو آپ کہہ دیجئے یا میں پہنچا دوں۔

حضرت یحییٰ علیہ السلام نے فرمایا مجھے ڈر ہے کہ اگر آپ سبقت لے گئے تو کہیں مجھے عذاب نہ دیا جائے یا زمین میں دھنسا نہ دیا جاؤں

پس یحییٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو بیت المقدس کی مسجد میں جمع کیا، جب مسجد بھر گئی تو آپ اونچی جگہ پر بیٹھ گئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کر کے کہا اللہ تعالیٰ نے مجھے پانچ باتوں کا حکم کیا ہے کہ خود بھی عمل کریں تم سے بھی ان پر عمل کراؤں۔

ایک یہ کہ اللہ ایک کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص خاص اپنے مال سے کسی غلام کو خریدے اور غلام کام کاج کرے لیکن جو کچھ حاصل ہوا ہے اسے کسی اور کو دے دے کیا۔ تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا غلام ایسا ہو؟ ٹھیک اسی طرح تمہارا پیدا کرنے والا، تمہیں روزی دینے والا، تمہارا حقیقی مالک اللہ تعالیٰ وحدہ لا شریک ہے۔ پس تم اسی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔

دوسری یہ کہ نماز کو ادا کرو اللہ تعالیٰ کی نگاہ بندے کی طرف ہوتی ہے۔ جب تک کہ وہ نماز میں ادھر ادھر منہ پھیرے جب تم نماز میں ہو تو خبردار ادھر ادھر التفات نہ کرنا۔

تیسرا حکم یہ ہے کہ روزے رکھا کرو اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص کے پاس مشک کی تھیلی بھری ہوئی ہو جس سے اس کے تمام ساتھیوں کے دماغ معطر رہیں۔ یاد رکھو روزے دار کے منہ کی خوشبو اللہ تعالیٰ کو مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پسند ہے۔

چوتھا حکم یہ ہے کہ صدقہ دیتے رہا کرو، اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص کو دشمنوں نے قید کر لیا اور گردن کے ساتھ اس کے ساتھ باندھ دئیے گردن مارنے کے لئے لے جانے لگے تو وہ کہنے لگا کہ تم مجھ سے فدیہ لے اور مجھے چھوڑ دو چنانچہ جو کچھ تھا کم زیادہ دے کر اپنی جان چھڑا لی۔

پانچواں اس کا حکم یہ ہے کہ بکثرت اس کے نام کا ذکر کیا کرو اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس کے پیچھے تیزی کے ساتھ دشمن دوڑتا آتا ہے اور وہ ایک مضبوط قلعہ میں گھس جاتا ہے اور وہاں امن و امان پا لیتا ہے اسی طرح بندہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے وقت شیطان سے بچا ہوا ہوتا ہے

یہ فرما کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب میں بھی تمہیں پانچ باتوں کا حکم کرتا ہوں جن کا حکم جناب باری نے مجھے دیا ہے:

- مسلمانوں کی جماعت کو لازم پکڑے رہنا

- اللہ اور اس کے رسول اور مسلمان حاکم وقت کے احکام سننا اور جاننا

- ہجرت کرنا

- اور جہاد کرنا

- جو شخص جماعت سے ایک بالشت بھر نکل جائے گویا وہ اسلام کے پٹے کو اپنے گلے سے اتار پھینکے گا ہاں یہ اور بات ہے کہ رجوع کر لے جو شخص جاہلیت کی پکار پکارے وہ جہنم کا کوڑا کرکٹ ہے

لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اگرچہ وہ روزے دار اور نمازی ہو

فرمایا اگرچہ نماز پڑھتا ہو اور روزے بھی رکھتا ہو اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہو۔

مسلمانوں کو ان کے ان ناموں کے ساتھ پکارتے رہو جو خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے رکھے ہیں مسلمین مؤمنین اور عباد اللہ

یہ حدیث حسن ہے

 اس آیت میں بھی یہی بیان ہے :

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ ۔۔۔ فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ  (۲:۲۱،۲۲)

اے لوگوں اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا، یہی تمہارا بچاؤ ہے۔‏

جس نے تمہارے لئے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی اتار کر اس سے پھل پیدا کر کے تمہیں روزی دی، خبردار باوجود جاننے کے اللہ کے شریک مقرر نہ کرو ۔

اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ عبادت میں توحید باری تعالیٰ کا پورا خیال رکھنا چاہیے کسی اور کی عبادت نہ کرنی چاہئے ہر ایک عبادت کے لائق صرف وہی ہے۔

امام رازی نے اللہ تعالیٰ کے وجود پر بھی اس آیت سے استدلال کیا ہے۔ اور فی الواقع یہ آیت اللہ تعالیٰ کے وجود پر بہت بڑی دلیل ہے زمین اور آسمان کی مختلف شکل و صورت مختلف رنگ مختلف مزاج اور مختلف نفع کی موجودات ان میں سے ہر ایک کا نفع بخش ہونا اور خاص حکمت کا حامل ہونا ان کے خالق کے وجود کا اور اس کی عظیم الشان قدرت، حکمت، زبردست سطوت اور سلطنت کا ثبوت ہے

 کسی بدوی سے پوچھا گیا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی موجودگی کی کیا دلیل ہے؟ تو اس نے کہا :

یا سبحان اللہ ان البعر لیدل علی البعیر وان اثر الا قدام لیدل علی المسیر

فسماء ذات ابراج وارض ذات فجاج  وبحار ذات امواج الا یدل ذالک علی وجود اللطیف الخبیر

مینگنی سے اونٹ معلوم ہو سکے اور پاؤں کے نشان زمین پر دیکھ کر معلوم ہو جائے کہ کوئی آدمی گیا ہے

تو کیا یہ برجوں والا آسمان یہ راستوں والی زمین یہ موجیں مارنے والے سمندر اللہ تعالیٰ باریک بین اور باخبر کے وجود پر دلیل نہیں ہو سکتے؟

حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے ہارون رشید نے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کے وجود پر کیا دلیل ہے

 آپ نے فرمایا زبانوں کا مختلف ہونا، آوازوں کا جداگانہ ہونا، نغموں کا الگ ہونا، ثابت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہے

 امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے بھی یہی سوال ہوتا ہے تو آپ جواب دیتے ہیں :

چھوڑو میں کسی اور سوچ میں ہوں۔  لوگوں نے مجھ سے کہا ہے کہ ایک بہت بڑی کشتی جس میں طرح طرح کی تجارتی چیزیں ہیں نہ کوئی اس کا نگہبان ہے نہ چلانے والا ہے باوجود اس کے وہ برابر آ جا رہی ہے اور بڑی بڑی موجوں کو خود بخود چیرتی پھاڑتی گزر جاتی ہے ٹھہرنے کی جگہ پر ٹھہر جاتی ہے چلنے کی جگہ چلتی رہتی ہے نہ اس کا کوئی ملاح ہے نہ منتظم۔

سوال کرنے والے دہریوں نے کہا آپ کس سوچ میں پڑ گئے کوئی عقلمند ایسی بات کہہ سکتا ہے کہ اتنی بڑی کشتی اتنے بڑے نظام کے ساتھ تلاطم والے سمندر میں آئے جائے اور کوئی اس کا چلانے والا نہ ہو

 آپ نے فرمایا افسوس تمہاری عقلوں پر ایک کشتی تو بغیر چلانے والے کے نہ چل سکے لیکن یہ ساری دنیا آسمان و زمین کی سب چیزیں ٹھیک اپنے کام پر لگی رہیں اور ان کا مالک حاکم خالق کوئی نہ ہو؟

یہ جواب سن کر وہ لوگ ہکا بکا ہو گئے اور حق معلوم کر کے مسلمان ہو گئے

حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی یہی سوال ہوا تو آپ نے جواب دیا :

توت کے پتے ایک ہی ہیں ایک ہی ذائقہ کے ہیں کیڑے اور شہد کی مکھی اور گائیں بکریاں ہرن وغیرہ سب اس کو چباتے کھاتے اور چرتے چگتے ہیں اسی کو کھا کر ریشم کا کیڑا ریشم تیار کرتا ہے مکھی شہد بناتی ہے، ہرن میں مشک پیدا ہوتا ہے اور گائیں بکریاں مینگنیاں دیتی ہیں۔کیا یہ اس امر کی صاف دلیل نہیں کہ ایک پتے میں یہ مختلف خواص پیدا کرنے والا کوئی ہے؟ اور اسی کو ہم اللہ تبارک و تعالیٰ مانتے ہیں وہی موجد اور صانع ہے۔

 حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے بھی ایک مرتبہ وجود باری تعالیٰ پر دلیل طلب کی گئی تو آپ نے فرمایا:

سنو یہاں ایک نہایت مضبوط قلعہ ہے جس میں کوئی دروازہ نہیں نہ کوئی راستہ ہے بلکہ سوراخ تک نہیں باہر سے چاندی کی طرح چمک رہا ہے اور اندر سے سونے کی طرح دمک رہا ہے اوپر نیچے دائیں بائیں چاروں طرف سے بالکل بند ہے ہوا تک اس میں نہیں جا سکتی اچانک اس کی ایک دیوار گرتی ہے اور ایک جاندار آنکھوں کانوں والا خوبصورت شکل اور پیاری بولی والا چلتا پھرتا نکل آتا ہے۔ بتاؤ اس بند اور محفوظ مکان میں اسے پیدا کرنے والا کوئی ہے یا نہیں؟

 اور وہ ہستی انسانی ہستیوں سے بالاتر اور اس کی قدرت غیر محدود ہے یا نہیں؟

 آپ کا مطلب یہ تھا کہ انڈے کو دیکھو چاروں طرف سے بند ہے پھر اس میں پروردگار خالق یکتا جاندار بچہ پیدا کر دیتا ہے۔ یہی دلیل ہے اللہ کے وجود پر اور اس کی توحید پر۔

حضرت ابو نواس سے جب یہ مسئلہ پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا :

آسمان سے بارش برسنا، اس سے درختوں کا پیدا ہونا اور ان ہری ہری شاخوں پر خوش ذائقہ میوؤں کا لگنا ہی اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی وحدانیت کی کافی دلیل ہے

 ابن المعتز فرماتے ہیں افسوس اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کی تکذیب پر لوگ کیسے دلیر ہو جاتے ہیں حالانکہ ہر چیز اس پروردگار کی موجود اور لاشریک ہونے پر گواہ ہے

بزرگوں کا مقولہ ہے:

آسمانوں کو دیکھو ان کی بلندی ان کی وسعت، ان کے چھوٹے بڑے چمکیلے اور روشن ستاروں پر نظریں ڈالو۔ ان کے چمکنے دمکنے ان کے چلنے پھرنے، ٹھہر جانے، ظاہر ہونے اور چھپ جانے کا مطالعہ کرو۔ سمندروں کو دیکھو، جو موجیں مارتے ہوئے زمین کو گھیرے ہوئے ہیں۔ اونچے نیچے مضبوط پہاڑوں کو دیکھو جو زمین میں گڑے ہوئے ہیں اور اسے ہلنے نہیں دیتے، جن کے رنگ، جن کی صورتیں مختلف ہیں۔ قسم قسم کی دوسری مخلوقات پر نظر ڈالو، ادھر سے ادھر پھر جانے والی کھیتیوں اور باغوں کو شاداب کرنے والی خوشنما نہروں کو دیکھو۔ کھیتوں، باغوں کی سبزیوں اور ان کے طرح طرح کے پھل پھول مزے مزے کے میوؤں پر غور کرو زمین ایک پانی ایک، لیکن شکلیں صورتیں، خوشبوئیں، رنگ ذائقہ، فائدہ الگ الگ۔ کیا یہ تمام مصنوعات تمہیں نہیں بتاتیں کہ ان کا صانع کوئی ہے؟

کیا یہ تمام موجودات با آواز بلند نہیں کہہ رہیں کہ ان کا موجد کوئی ہے؟

 کیا یہ ساری مخلوق اپنے خالق کی ہستی اس کی ذات اور اس کی توحید پر دلالت نہیں کرتی۔

یہ ہیں وہ زور دار دلائل جو اللہ جل و علا نے اپنی ذات کے منوانے کے لئے ہر نگاہ کے سامنے پیش کر دئیے ہیں جو اس کی زبردست قدرتوں ، اس کی پرزور حکمتوں، اس کی لاثانی رحمتوں، اس کے بےنظیر انعاموں، اس کے لازوال احسانوں پر دلالت کرنے کے لئے کافی وافی ہیں۔

ہم اقرار کرتے ہیں کہ نہ اس کا کوئی پالنے والا ہے، نہ اس کے سوا کوئی پیدا کرنے اور حفاظت کرنے والا، نہ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہ اس کے سوا کوئی مسجود لاشک۔

 ہاں دنیا کے لوگو! سن لو میرا توکل اور بھروسہ اسی پر ہے میری انابت اور التجا اسی کی طرف ہے، میرا جھکنا اور پست ہونا اسی کے سامنے ہے، میری تمناؤں کا مرکز، میری امیدوں کا آسرا، میرا ماویٰ، ملجا وہی ایک ہے اس کے دست رحمت کو تکتا ہوں اور اسی کا نام جپتا ہوں۔

وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (۲۳)

ہم نے اپنے بندے پر جو کچھ اتارا ہے اس میں اگر تمہیں شک ہو اور تم سچے ہو تو اس جیسی ایک سورت تو بنا لاؤ، تمہیں اختیار ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اپنے مددگاروں کو بھی بلا لو۔

توحید کے بعد اب نبوت کی تصدیق کی جا رہی ہے کفار مکہ کو خطاب کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ ہم نے جو قرآن پاک اپنے بندے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارا ہے اسے اگر تم ہمارا کلام نہیں مانتے تو تم اور تمہارے مددگار سب مل کر پورا قرآن نہیں صرف ایک سورت تو اس جیسی بنا لاؤ۔ جب تم ایسا نہیں کر سکتے اور اس سے عاجز ہو تو پھر اس قرآن کے کلام اللہ ہونے میں کیوں شک کرتے ہو؟ اپنے ہم فکر اور مددگار سب کو جمع کرو تو بھی تم سب ناکام رہو گے۔

مطلب یہ ہے کہ جنہیں تم نے اپنا معبود بنا رکھا ہے انہیں بھی بلا لو اور ان سے بھی مدد چاہو پھر اس جیسی ایک سورت ہی تو بنا لاؤ۔

حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ تم اپنے حاکموں اور اپنے زباں دان فصیح و بلیغ لوگوں سے بھی مدد لے لو۔

قرآن پاک کے اس معجزے کا اظہار اور ایسا انداز خطاب کئی جگہ ہے سورۃ قصص میں ہے:

قُلْ فَأْتُواْ بِكِتَـبٍ مِّنْ عِندِ اللَّهِ هُوَ أَهْدَى مِنْهُمَآ أَتَّبِعْهُ إِن كُنتُمْ صَـدِقِينَ (۲۸:۴۹)

کہہ دے کہ اگر سچے ہو تو تم بھی اللہ کے پاس سے کوئی ایسی کتاب لے آؤ جو ان دونوں سے زیادہ ہدایت والی ہو میں اسی کی پیروی کروں گا

سورۃ سبحان میں فرمایا:

قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَن يَأْتُواْ بِمِثْلِ هَـذَا الْقُرْءَانِ لاَ يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا (۱۷:۸۸)

کہہ دیجئے کہ اگر تمام انسان اور کل جنات مل کر اس قرآن کے مثل لانا چاہیں تو ان سب سے اس کے مثل لانا ناممکن ہے گو وہ (آپس میں) ایک دوسرے کے مددگار بھی بن جائیں ۔

سورۃ ہود میں فرمایا :

أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُواْ بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهِ مُفْتَرَيَاتٍ وَادْعُواْ مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّن دُونِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ صَـدِقِينَ (۱۱:۱۳)

کیا یہ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو اسی نے گھڑا ہے۔ جواب دیجئے کہ پھر تم بھی اسی کے مثل دس سورتیں گھڑی ہوئی لے آؤ اور اللہ کے سوا جسے چاہو اپنے ساتھ بلا بھی لو اگر تم سچے ہو ۔

سورۃ یونس میں ہے:

وَمَا كَانَ هَـذَا الْقُرْءَانُ أَن يُفْتَرَى مِن دُونِ اللَّهِ ۔۔۔ إِن كُنتُمْ صَـدِقِينَ (۱۰:۳۷،۳۸)

اور یہ قرآن ایسا نہیں ہے کہ اللہ (کی وحی) کے بغیر (اپنے ہی سے) گھڑ لیا گیا ہو۔ بلکہ یہ تو (ان کتابوں کی) تصدیق کرنے والا ہے جو اس سے قبل نازل ہو چکی ہیں اور کتاب (احکام ضروریہ) کی تفصیل بیان کرنے والا اس میں کوئی بات شک کی نہیں کہ رب العالمین کی طرف سے ہے ۔

کیا یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ آپ نے اس کو گھڑ لیا ہے؟ آپ کہہ دیجئے کہ پھر تم اس کے مثل ایک ہی سورت لاؤ اور جن جن غیر اللہ کو بلا سکو، بلا لو اگر تم سچے ہو

یہ تمام آیتیں مکہ مکرمہ میں نازل ہوئیں اور اہل مکہ کو اس کے مقابلہ میں عاجز ثابت کر کے پھر مدینہ شریف میں بھی اس مضمون کو دہرایا گیا

اوپر کی آیت مِثْلِهِ کی ضمیر کو بعض نے قرآن کی طرف لوٹایا ہے یعنی کوئی سورت اس قرآن جیسی لاؤ۔

بعض نے یہ ضمیر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹائی ہے یعنی آپ جیسا کوئی اُمی ایسا ہو ہی نہیں سکتا ہے کہ کچھ پڑھا ہوا نہ ہونے کے باوجود وہ کلام کہے جس کا مثل کسی سے نہ بن سکے

 لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے۔مجاہد قتادہ عمرو بن مسعود ابن عباسؓ حسن بصری اور اکثر محققین کا یہی قول ہے

 امام ابن جریر طبری زمحشری رازی نے بھی اسی کو پسند کیا ہے

 اس کی ترجیح کی وجوہات بہت سی ہیں۔

ایک تو یہ کہ اس میں سب کو ڈانٹ ڈپٹ بھی ہے اجتماعی اور الگ الگ بھی۔ خواہ وہ اُمی اور ان پڑھ ہوں یا اہل کتاب اور پڑھے لکھے ہوں اس میں اس معجزے کا کمال ہے اور بہ نسبت اس کے کہ صرف ان پڑھ لوگوں کو عاجز کیا جائے اس میں زیادہ مبالغہ ہے

 پھر دس سورتوں کا مطالبہ کرنا اس کی مثل نہ لا سکنے کی پیشین گوئی کرنا بھی اسی حقیقت کو ثابت کرتا ہے کہ اس سے مراد قرآن ہے نہ کہ ذات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَلَنْ تَفْعَلُوا

پس اگر تم نے نہ کیا۔ اور تم ہرگز نہیں کر سکتے

پس اس عام اعلان سے جو بار بار کیا گیا اور ساتھ ہی پیشینگوئی بھی کر دی گئی کہ یہ لوگ اس پر قادر نہیں۔

 مکہ میں اور مدینہ میں بارہا اس کا اعادہ کیا گیا اور وہ لوگ جن کی مادری زبان عربی تھی جنہیں اپنی فصاحت اور بلاغت پر ناز تھا جو لوگ آپ کی اور آپ کے دین کی دشمنی پر ادھار کھا بیٹھے تھے وہ درحقیقت اس سے عاجز آ گئے نہ پورے قرآن کا جواب دے سکے نہ دس سورتوں کا، نہ ایک سورت کا، پس ایک معجزہ تو یہ ہے کہ اس جیسی ایک چھوٹی سی سورت بھی وہ نہ بنا سکے دوسرا معجزہ یہ ہے کہ پیشین گوئی سچ ثابت ہوئی کہ یہ ہرگز اس جیسا نہیں بنا سکتے چاہے سب جمع ہو جائیں اور قیامت تک محنت کر لیں۔

پس ایسا ہی ہوا نہ تو اس زمانہ میں کسی کی یہ جرأت ہوئی نہ اس کے بعد سے آج تک اور نہ قیامت تک کسی سے یہ ہو سکے گا اور بھلا کیسے ہو سکتا؟ جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات بےمثل اسی طرح اس کا کلام بھی۔

 حقیقت بھی یہ ہے کہ قرآن پاک کو بیک نظر دیکھنے سے ہی اس کے ظاہری اور باطنی لفظی اور معنوی ایسے ایسے کمالات ظاہر ہوتے ہیں جو مخلوق کے بس کے نہیں خود رب العالمین فرماتا ہے:

الر كِتَابٌ أُحْكِمَتْ ءايَـتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِن لَّدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ (۱۱:۱)

الر، یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ اس کی آیتیں محکم کی گئی ہیں پھر صاف صاف بیان کی گئی ہیں ایک حکیم باخبر کی طرف سے

محکم مضبوط اور مفصل الگ الگ ہیں۔ پس الفاظ محکم اور معانی مفصل یا الفاظ مفصل اور معانی محکم

پس قرآن اپنے الفاظ میں اور اپنے مضامین میں بےنظیر ہے جس کے مقابلے، معارضے اور مثل سے دنیا عاجز اور بےبس ہے اس پاک کلام میں اگلی خبریں جو دنیا سے پوشیدہ تھیں وہ ہو بہو بیان کی گئیں آنے والے امور کے تذکرے کئے گئے جو لفظ بہ لفظ پورے اترے۔ تمام بھلائیوں کا حکم تمام برائیوں سے ممانعت اس میں ہے۔ سچ ہے وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ صِدْقاً وَعَدْلاً (۶:۱۱۵) یعنی خبروں میں صداقت اور احکام میں عدل تیرے رب کے کلام میں پورا پورا ہے۔

پاکیزہ قرآن تمام تر حق و صداقت و ہدایت سے پر ہے نہ اس میں واہی تباہی باتیں ہیں نہ ہنسی مذاق نہ کذب و افترا جو شاعروں کے کلام میں عموماً پایا جاتا ہے بلکہ ان کے اشعار کی قدرو قیمت ہی اسی پر ہے۔ مقولہ مشہور ہے کہ اعذبہ اکذبہ جتنا جھوٹ زیادہ اتنا ہی مزیدار تم دیکھو گے کہ لمبے لمبے پر زور قصیدے مبالغہ اور کذب آمیز یا تو عورتوں کی تعریف و توصیف میں ہوں گے یا گھوڑوں کی اور شراب کی ستائش میں ہوں گے یا کسی انسان کی بڑھی چڑھی مدح و تعریف میں ہوں گے یا اونٹنیوں کی آرائش و زیبائش یا بہادری کے مبالغہ آمیز گیت یا لڑائیوں کی چالبازیوں یا ڈر خوف کے خیالی منظروں کے بیان میں ہوں گے جن سے کوئی فائدہ نہیں۔ نہ دین کا نہ دنیا کا صرف شاعر کی زبان دانی اور اس کی قدرت کلام ظاہر ہوتی ہے۔ نہ اخلاق پر ان سے کوئی عمدہ اثر نہ اعمال پر پھر نفس مضمون کے ساتھ پورے قصیدے میں بمشکل دو ایک شعر ہوتے ہیں۔ باقی سب بھرتی کے اور ادھر ادھر کی لایعنی اور فضول بکواس

برخلاف اسکے قرآن پاک کے اس پر نظر ڈالو تو دیکھو گے کہ اس کا ایک ایک لفظ فصاحت و بلاغت سے دین و دنیا کے نفع سے، خیرو برکت سے پر ہے۔ پھر کلام کی ترتیب و تہذیب الفاظ کی بندش، عبارت کی روانی، معانی کی نورانیت، مضمون کی پاکیزگی، سونے پر سہاگہ ہے۔

 اس کی خبروں کی حلاوت، اس کے بیان کردہ واقعات کی سلاست، مردہ دلوں کی زندگی ہے۔ اس کا اختصار کمال کا اعلیٰ نمونہ اور اس کی تفصیل معجزے کی جان ہے اس کا کسی چیز کا دوہرانا قند مکرر کا مزہ دیتا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے گویا سچے موتیوں کی بارش برس رہی ہے۔ بار بار پڑھو دل نہ اکتائے، مزے لیتے جاؤ اور ہر وقت نیا مزہ پاؤ۔ مضامین سمجھتے جاؤ اور ختم نہ ہوں۔

یہ قرآن پاک کا ہی خاصہ ہے اس چاشنی کا ذائقہ، اس مٹھاس کا مزہ کوئی اس سے پوچھے جنہیں عقل و حواس علم و فضل کا کچھ حصہ قدرت نے عطا فرمایا۔ اس کی تنذیر دھمکاوا تعذیب اور پکڑ دھکڑ کا بیان مضبوط پہاڑوں کو ہلا دے۔ انسانی دل کیا ہیں اس کے وعدے اور خوشخبریاں، نعمتوں اور رحمتوں کا بیان دلوں کی پژمردہ کلی کو کھلا دینے والا، شوق و تمنا کے دبے جذبات کو ابھار دینے والا جنتوں اور راحتوں کے پیارے پیارے مناظر کو آنکھوں کے سامنے لانے والا ہے۔ دل کھل جاتے ہیں کان لگ جاتے ہیں اور آنکھیں کھل جاتی ہیں۔

رغبت دیتے ہوئے وہ فرماتا ہے:

فَلاَ تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ أُخْفِىَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَآءً بِمَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ (۳۲:۱۷)

کوئی نفس نہیں جانتا جو کچھ ہم نے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ان کے لئے پوشیدہ کر رکھی ہے جو کچھ کرتے تھے یہ اس کا بدلہ ہے

وَفِيهَا مَا تَشْتَهِيهِ الاٌّنْفُسُ وَتَلَذُّ الاٌّعْيُنُ وَأَنتُمْ فِيهَا خَـلِدُونَ (۴۳:۷۱)

ان کے جی جس چیز کی خواہش کریں اور جس سے ان کی آنکھیں لذت پائیں، سب وہاں ہوگا

ڈراتے اور دھمکاتے ہوئے فرمایا :

أَفَأَمِنتُمْ أَن يَخْسِفَ بِكُمْ جَانِبَ الْبَرِّ (۱۷:۶۸)

تو کیا تم اس سے بےخوف ہوگئے ہو کہ تمہیں خشکی کی طرف (لے جا کر زمین) میں دھنسا دے

أَءَمِنتُمْ مَّن فِى السَّمَآءِ أَن يَخْسِفَ بِكُمُ الاٌّرْضَ فَإِذَا هِىَ تَمُورُ ـ أَمْ أَمِنتُمْ مِّن فِى السَّمَآءِ أَن يُرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَـصِباً فَسَتَعْلَمُونَ كَيْفَ نَذِيرِ (۶۷:۱۶،۱۷)

کیا تم اس بات سے بےخوف ہوگئے ہو کہ آسمان والا تمہیں زمین میں نہ دھنسا دے اور اچانک زمین لرزنے لگے ‏ یا کیا تم اس بات سے نڈر ہوگئے ہو کہ آسمانوں والا تم پر پتھر برسائے پھر تمہیں معلوم ہو ہی جائے گا کہ میرا ڈرانا کیسا تھا

 زجرو تو پیخ ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے:

فَكُلاًّ أَخَذْنَا بِذَنبِهِ (۲۹:۴۰)

پھر تو ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ کے وبال میں گرفتار کر لیا

بطور وعظ و نصیحت بیان ہوتا ہے :

أَفَرَأَيْتَ إِن مَّتَّعْنَـهُمْ سِنِينَ ـ ثُمَّ جَآءَهُم مَّا كَانُواْ يُوعَدُونَ ـ مَآ أَغْنَى عَنْهُمْ مَّا كَانُواْ يُمَتَّعُونَ (۲۶:۲۰۵،۲۰۷)

اچھا یہ بھی بتاؤ کہ اگر ہم نے انہیں کئی سال بھی فائدہ اٹھانے دیا۔‏ پھر انہیں وہ عذاب آلگا جن سے یہ دھمکائے جاتے تھے۔‏ تو جو کچھ بھی یہ برتتے رہے اس میں سے کچھ بھی فائدہ نہ پہنچا سکے گا

غرض کوئی کہاں تک بیان کرے جس مضمون کا ذکر کیا۔ اسے کمال تک پہنچا کر چھوڑا اور طرح طرح کی فصاحت و بلاغت، حلاوت و حکمت سے معمور کر دیا احکام کے حکم اور روک ٹوک کو دیکھئے ہر حکم اچھائی بھلائی نفع اور پاکیزگی کا جامع ہے۔ ہر ممانعت قباحت رذالت اور خباثت کی قاطع ہے۔

 ابن مسعودؓ اسلاف اُمت کا قول ہے کہ جب قرآن میں يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ آئے تو کان لگا دو یا تو کسی اچھائی کا حکم ہو گا یا کسی برائی سے منع کیا جائے گا خود پروردگار عالم فرماتا ہے:

يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَـهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَـتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَـئِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالاٌّغْلَـلَ الَّتِى كَانَتْ عَلَيْهِمْ (۷:۱۵۷)

وہ ان کو نیک باتوں کا حکم فرماتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ہیں

اور پاکیزہ چیزوں کو حلال بناتے ہیں اور گندی چیزوں کو ان پر حرام فرماتے ہیں اور ان لوگوں پر جو بوجھ اور طوق تھے ان کو دور کرتے ہیں۔

قیامت کے بیان کی آیتیں ہیں کہ ہولناک مناظر جنت و دوزخ کا بیان رحمتوں اور زحمتوں کا پورا پورا وصف۔

 اولیاء اللہ کے لئے طرح طرح کی نعمتیں۔ دشمنان اللہ کے لئے طرح طرح کے عذاب۔ کہیں بشارت ہے کہیں ڈراوا ہے کہیں نیکیوں کی طرف رغبت ہے۔ کہیں بدکاریوں سے ممانعت ہے۔ کہیں دنیا کی طرف سے زہد کرنے کی، کہیں آخرت کی طرف رغبت کرنے کی تعلیم ہے۔

 یہی وہ تمام آیتیں ہیں جو راہ راست دکھاتی ہیں اور بہتر رہنمائی کرتی ہیں اللہ کی پسندیدہ شریعت کی طرف جھکاتی ہیں اور دلوں کو جلا دیتی ہیں اور شیطانی دروازوں کو بند کر دیتی ہے اور برے اثرات کو زائل کرتی ہیں۔

صحیح بخاری مسلم میں بروایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

ہر نبی کو ایسے معجزے دئیے گئے کہ جنہیں دیکھ کر لوگ اس پر ایمان لائے اور میرا معجزہ اللہ کی وحی یعنی قرآن پاک ہے اس لئے مجھے امید ہے کہ میرے تابعدار بہ نسبت اور نبیوں کے بہت زیادہ ہوں گے اس لئے کہ اور انبیاء کے معجزے ان کے ساتھ چلے گئے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معجزہ قیامت تک باقی رہے گا۔ لوگ اسے دیکھتے جائیں گے اور اسلام میں داخل ہوتے جائیں گے

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ میرا معجزہ وحی ہے جو مجھ کو دی گئی ہے کا مطلب یہ ہے کہ مجھ کو اس کے ساتھ مخصوص کیا گیا ہے اور قرآن کریم مجھی کو ملا ہے جو اپنے معارضے اور مقابلے میں تمام دنیا کو عاجز کر دینے والا ہے۔ بخلاف دوسری آسمانی کتابوں کے وہ اکثر علماء کے نزدیک اس وصف سے خالی ہیں واللہ اعلم۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت آپ کی صداقت اور دین اسلام کی حقانیت پر اس معجزے کے علاوہ بھی اس قدر دلائل ہیں جو گنے بھی نہیں جا سکتے۔ للہ الحمد والمنتہ

 بعض متکلمین نے قرآن کریم کے اعجاز کو ایسے انداز سے بیان کیا ہے جو اہل سنت کے اور معتزلہ کے قول پر مشترک ہے وہ کہتے ہیں کہ یا تو یہ قرآن فی نفسہ معجزہ ہے جو انسان کے امکان میں ہی نہیں کہ اس جیسا بنا لا سکے انہیں اس کا معارضہ کرنے کی قدرت و طاقت ہی نہیں۔

یا یہ کہ گو اس کا معارضہ ممکن ہے اور انسانی طاقت سے باہر نہیں لیکن باوجود اس کے انہیں معارضہ کا چیلنج دیا جاتا ہے اس لئے کہ وہ عداوت اور دشمنی میں بڑھے ہوئے ہیں دین حق کو مٹانے، ہر وقت ہر طاقت کے خرچ کرنے اور ہر چیز کے برباد کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن تاہم قرآن کا معارضہ اور مقابلہ ان سے نہیں ہو سکتا۔

یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن اللہ کی جانب سے ہے اگر قدرت و طاقت ہو بھی تو بھی وہ انہیں روک دیتا ہے اور وہ قرآن کی مثل پیش کرنے سے عاجز ہو جاتے ہیں۔

 گو یہ پچھلی وجہ اتنی پسندیدہ نہیں تاہم اگر اسے بھی مان لیا جائے تو اس سے بھی قرآن پاک کا معجزہ ہونا ثابت ہوے جو بطریق تنزل حمایت حق اور مناظرے کی خاطر صلاحیت رکھتا ہے

 امام رازی نے بھی چھوٹی چھوٹی سورتوں کے سوال کے جواب میں یہی طریقہ اختیار کیا ہے۔

فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ۖ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ (۲۴)

تو (اسے سچا مان کر) اس آگ سے بچو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔

وَقُود کے معنی ایندھن کے ہیں جس سے آگ جلائی جائے۔ جیسے چپٹیاں لکڑیاں وغیرہ قرآن کریم میں ایک جگہ ہے:

وَأَمَّا الْقَـسِطُونَ فَكَانُواْ لِجَهَنَّمَ حَطَباً (۷۲:۱۵)

اور جو ظالم ہیں وہ جہنم کا ایندھن بن گئے

اور جگہ فرمایا:

إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ أَنتُمْ لَهَا وَارِدُونَ ـ لَوْ كَانَ هَـؤُلاءِ ءَالِهَةً مَّا وَرَدُوهَا وَكُلٌّ فِيهَا خَـلِدُونَ (۲۱:۹۸،۹۹)

تم اور اللہ کے سوا جن جن کی تم عبادت کرتے ہو، سب دوزخ کا ایندھن بنو گے، تم سب دوزخ میں جانے والے ہو ۔ اگر یہ (سچے) معبود ہوتے تو جہنم میں داخل نہ ہوتے، اور سب کے سب اسی میں ہمیشہ رہنے والے ہیں

اور حِجَارَة کہتے ہیں پتھر کو یہاں مراد گندھک کے سخت سیاہ اور بڑے بڑے اور بدبو دار پتھر ہیں جن کی آگ بہت تیز ہوتی ہے

 اللہ تعالیٰ ہمیں محفوظ رکھے

حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں ان پتھروں کو زمین و آسمان کی پیدائش کے ساتھ ہی آسمان اول پر پیدا کیا گیا ہے۔ (ابن جریر ابن ابی حاتم مستدرک حاکم)

ابن عباسؓ ابن مسعودؓ اور چند اور صحابہؓ سے سدی نے نقل کیا ہے:

جہنم میں یہ سیاہ گندھک کے پتھر بھی ہیں جن کی سخت آگ سے کافروں کو عذاب کیا جائے گا۔

حضرت مجاہد فرماتے ہیں ان پتھروں کی بدبو مردار کی بو سے بھی زیادہ ہے

محمد بن علی اور ابن جریج بھی کہتے ہیں کہ مراد گندھک کے بڑے بڑے اور سخت پتھر ہیں۔

بعض نے کہا ہے مراد وہ پتھر جن کی مورتیاں بنائی جاتی ہیں اور پھر ان کی پرستش کی جاتی تھی جیسے اور جگہ ہے:

إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ (۲۱:۹۸)

تم اور اللہ کے سوا جن جن کی تم عبادت کرتے ہو، سب دوزخ کا ایندھن بنو گے

قرطبی اور رازی نے اسی قول کو ترجیح دی ہے اور کہا ہے کہ گندھک کے پتھر جو کسی شکل میں بھی اللہ کے سوا پوجے جاتے ہوںلیکن یہ وجہ کوئی قوی وجہ نہیں اس لئے کہ جب آگ گندھک کے پتھروں سے سلگائی جائے تو ظاہر ہے کہ اس کی تیزی اور حرارت معمولی آگ سے بہت زیادہ ہو گی اس کا بھڑکنا جلنا سوزش اور شعلے بھی بہت زیادہ ہوں گے

علاوہ اس کے پھر سلف سے بھی اس کی تفسیر یہی مروی ہے اسی طرح ان پتھروں میں آگ کا لگنا بھی ظاہر ہے۔ اور آیت کا مقصود آگ کی اور اس کی سوزش کا بیان کرنا ہے اور اس کے بیان کے لئے بھی یہاں پتھر سے مراد گندھک کے پتھر لینا زیادہ مناسب ہے تاکہ وہ آگ تیز ہو اور اس سے بھی عذاب میں سختی ہوقرآن کریم میں ہے:

كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنَاهُمْ سَعِيرًا (۱۷:۸۷)

جب کبھی وہ بجھنے لگے گی ہم ان پر اسے اور بھڑکا دیں گے

ایک حدیث میں ہے ہر موذی آگ میں ہے

لیکن یہ حدیث محفوظ اور معروف نہیں۔

قرطبی فرماتے ہیں اس کے دو معنی ہیں

ایک یہ کہ ہر وہ شخص جو دوسروں کو ایذاء دے جہنمی ہے

 دوسرے یہ کہ ہر ایذاء دہندہ چیز جہنم کی آگ میں موجود ہو گی جو جہنمیوں کو عذاب دے گی۔

 أُعِدَّتْ یعنی تیار کی گئی ہے مراد بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ آگ کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مراد پتھر ہوں یعنی وہ پتھر جو کافروں کے لئے تیار کئے گئے ہیں۔ ابن مسعودؓ کا یہی قول ہے

اور فی الحقیقت دونوں معنی میں کوئی اختلاف نہیں اس لئے کہ پتھروں کا تیار کیا جانا آگ کے جلانے کے لئے ہے۔ لہذا آگ کی تیاری کے لئے پتھروں کا تیار کیا جانا ضروری ہے۔ پس دونوں ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں۔

 ابن عباسؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ہر وہ شخص جو کفر پر ہو اس کے لیے وہ آگ تیار ہے۔

 اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے کہ جہنم اب موجود اور پیدا شدہ ہے کیونکہ أُعِدَّتْ کا لفظ ہی اس کی دلیل میں آیا ہے

 بہت سی حدیثیں بھی ہیں۔

ایک مطول حدیث میں ہے:

جنت اور دوزخ میں جھگڑا ہوا،

دوسری حدیث میں ہے:

جہنم نے اللہ تعالیٰ سے دو سانس لینے کی اجازت چاہی اور اسے سردی میں ایک سانس لینے اور گرمی میں دوسرا سانس لینے کی اجازت دے دی گئی۔

تیسری حدیث میں ہے:

صحابہ کہتے ہیں ہم نے ایک مرتبہ بڑے زور کی ایک آواز سنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یہ کس چیز کی آواز ہے

آپ ﷺنے فرمایا ستر سال پہلے ایک پتھر جہنم میں پھینکا گیا تھا آج وہ تہہ کو پہنچا۔

چوتھی حدیث میں ہے:

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج گرہن کی نماز پڑھتے ہوئے جہنم کو دیکھا۔

پانچویں حدیث میں ہے:

آپﷺ نے شب معراج میں جہنم کو اس میں عذابوں کے سلسلے کو ملاحظہ فرمایا

 اسی طرح اور بہت سی صحیح متواتر حدیثیں مروی ہیں معتزلہ اپنی جہالت کی وجہ سے انہیں نہیں مانتے

قاضی اندلس منذر بن سعید بلوطی نے بھی ان سے اتفاق کیا ہے۔

 مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہاں اور سورۃ یونس میں جو کہا گیا ہے کہ بِسُورَةٍ مِّثْلِهِ  (۱۰:۳۸)  ایک ہی سورت کے مانند لاؤ اس میں ہر چھوٹی بڑی آیت شامل ہے اس لئے عربیت کے قاعدے کے مطابق جو اسم نکرہ ہو اور شرط کے طور پر لایا گیا ہو وہ عمومیت کا فائدہ دیتا ہے جیسے کہ نکرہ نفی کی تحت میں استغراق کا فائدہ دیتا ہے

پس لمبی سورتوں اور چھوٹی سورتوں سب میں اعجاز ہے اور اس بات پر سلف و خلف کا اتفاق ہے

امام رازی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اگر کوئی کہے کہ سورت کا لفظ سورۃ کوثر اور سورۃ العصر اور سورۃ قل یاایھا الکفرون جیسی چھوٹی سورتوں پر بھی مشتمل ہے اور یہ بھی یقین ہو کہ اس جیسی یا اس کے قریب قریب کسی سورت کا بنا لینا ممکن ہے تو اسے انسانی طاقت سے خارج کہنا نری ہٹ دھرمی اور بےجا طرف داری ہے تو ہم جواب دیں گے کہ ہم نے اس کے معجز نما ہونے کے دو طریقے بیان کر کے دوسرے طریقہ کو اسی لئے پسند کیا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر یہ چھوٹی سورتیں بھی فصاحت و بلاغت میں میں اسی پایہ کی ہیں کہ وہ معجزہ کہی جا سکیں اور انکار تعارض ممکن نہ ہو تو مقصود حاصل ہو گیا اور اگر یہ سورتیں ایسی نہیں تو بھی ہمارا مقصود حاصل ہے اس لئے کہ ان جیسی سورتوں کو بنانے کی انسانی قدرت ہونے پر بھی سخت دشمنی اور زبردست کوششوں کے باوجود ناکام رہنا ہے۔ اس بات کی صاف دلیل ہے کہ یہ قرآن مع اپنی چھوٹی چھوٹی سورتوں کے سراسر معجزہ ہے

یہ تو رازی کا کہنا ہے۔ لیکن صحیح قول یہ ہے کہ قرآن پاک کی ہر بڑی چھوٹی سورت فی الواقع معجزہ ہے اور انسان اس کی مانند بنانے سے محض عاجز اور بالکل بےبس ہے۔

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اگر لوگ غورو تدبر سے عقل و ہوش سے سورۃ والعصر کو سمجھ لیں تو انتہائی کافی ہے۔

حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب وفد میں شامل مسیلمہ کذاب کے پاس گئے (تب یہ خود بھی مسلمان نہیں ہوئے تھے) تو مسیلمہ نے ان سے پوچھا کہ تم مکہ سے آ رہے ہو بتاؤ تو آج کل کوئی تازہ وحی بھی نازل ہوئی ہے؟

 انہوں نے کہا ابھی ابھی ایک مختصر سی سورت نازل ہوئی ہے جو بیحد فصیح و بلیغ اور جامع اور مانع ہے پھر سورۃ والعصر پڑھ کر سنائی تو مسلیمہ نے کچھ دیر سوچ کر اس کے مقابلے میں کہا۔ مجھ پر بھی ایک ایسی ہی سورت نازل ہوئی ہے

 انہوں نے کہا ہاں تم بھی سناؤ تو اس نے کہا یاوبریا وبرانما انت اذنان وصدر وسائک حقر فقر یعنی اے جنگلی چوہے اے جنگلی چوہے تیرا وجود سوائے دو کانوں اور سینے کے اور کچھ بھی نہیں باقی تو سراسر بالکل ناچیز ہےپھر فخریہ کہنے لگا کہو اے عمرو کیسی کہی؟

انہوں نے کہا مجھ سے کیا پوچھتے ہو تو خود جانتا ہے کہ یہ سراسر کذب و بہتان ہے بھلا کہاں یہ فضول کلام اور کہاں حکمتوں سے بھرپور وہ کلام؟

وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ

اور ایمان والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو جنت کی خوشخبریاں دو جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔

چونکہ پہلے کافروں اور دشمنان دین کی سزا عذاب اور رسوائی کا ذکر ہوا تھا اس لئے یہاں ایمانداروں اور نیک صالح لوگوں کی جزا ثواب اور سرخروئی کا بیان کیا گیا ہے۔

قرآن کے مثانی ہونے کے ایک معنی یہ بھی ہیں جو صحیح تر قول بھی ہے کہ اس میں ہر مضمون تقابلی جائزہ کے ساتھ ہوا ہے اس کا مفصل بیان بھی کسی مناسب جگہ آئے گا

مطلب یہ ہے کہ ایمان کے ساتھ ہی کفر کا۔ کفر کے ساتھ ایمان کا۔ نیکوں کے ساتھ بدوں کا۔ اور بدوں کے ساتھ نیکوں کا ذکر ضرور آتا ہے جس چیز کا بیان ہوتا ہے اس کے مقابلہ کی چیز کا بھی ذکر کر دیا جاتا ہے چاہے معنی میں متشابہ ہوں، یہ دونوں لفظ قرآن کے اوصاف میں وارد ہوئے ہیں اسے مثانی بھی کہا گیا ہے اور متشابہ بھی فرمایا گیا ہے۔

جنتوں میں نہریں بہنا اس کے درختوں اور بالاخانوں کے نیچے بہنا ہے

حدیث شریف میں ہے کہ نہریں بہتی ہیں لیکن گڑھا نہیں

 اور حدیث میں ہے :

 نہر کوثر کے دونوں کنارے سچے موتیوں کے قبے ہیں اس کی مٹی مشک خالص ہے اور اس کی کنکریاں لولو اور جواہر ہیں۔

 اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہمیں بھی یہ نعمتیں عطا فرمائے وہ احسان کرنے والا بڑا رحیم ہے

حدیث میں ہےجنت کی نہریں مشکی پہاڑوں کے نیچے سے جاری ہوتی ہیں۔ (ابن ابی حاتم)

حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی یہ مروی ہے۔

كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِزْقًا ۙ قَالُوا هَذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ ۖ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا ۖ

جب وہ پھلوں کا رزق دئیے جائیں گے اور ہم شکل لائے جائیں گے تو کہیں گے یہ وہی ہیں جو ہم اس سے پہلے دئیے گئے تھے

 جنتیوں کا یہ قول کہ پہلے بھی ہم کو یہ میوے دئیے گئے تھے اس سے مراد یہ ہے کہ دنیا میں بھی یہ میوے ہمیں ملے تھے

صحابہ اور ابن جریر نے بھی اس کی تائید کی ہے

بعض کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ہم اس سے پہلے یعنی کل بھی یہی دئیے گئے تھے یہ اس لئے کہیں گے کہ ظاہری صورت و شکل میں وہ بالکل مشابہ ہوں گے۔

یحییٰ بن کثیر کہتے ہیں کہ ایک پیالہ آئے گا کھائیں گے پھر دوسرا آئے گا تو کہیں گے یہ تو ابھی کھایا ہے فرشتے کہیں گے کھائیے تو اگرچہ صورت شکل میں یکساں ہیں لیکن مزہ اور ہے۔

فرماتے ہیں جنت کی گھاس زعفران ہے اس کے ٹیلے مشک کے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے خوبصورت غلمان ادھر ادھر سے میوے لا لا کر پیش کر رہے ہیں وہ کھا رہے ہیں وہ پھر پیش کرتے ہیں تو یہ کہتے ہیں اسے تو ابھی کھایا ہے وہ جواب دیتے ہیں حضرت رنگ روپ ایک ہے لیکن ذائقہ اور ہی ہے چکھ کر دیکھئے کھاتے ہیں تو اور ہی لطف پاتے ہیں یہی معنی ہیں کہ ہم شکل لائیں جائیں گے۔ دنیا کے میوؤں سے بھی اور نام شکل اور صورت میں بھی ملتے جلتے ہوں گے لیکن مزہ کچھ دوسرا ہی ہو گا۔

حضرت ابن عباسؓ کا قول ہے صرف نام میں مشابہت ہے ورنہ کہاں یہاں کی چیز کہاں وہاں کی؟ یہاں تو فقط نام ہی ہے

عبدالرحمٰن کا قول ہے دنیا کے پھلوں جیسے پھل دیکھ کر کہہ دیں گے کہ یہ تو دنیا میں کھا چکے ہیں مگر جب چکھیں گے تو لذت کچھ اور ہی ہو گی۔

وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُطَهَّرَةٌ ۖ وَهُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (۲۵)

اور ان کے لئے بیویاں ہیں صاف ستھری اور وہ ان جنتوں میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔

وہاں جو بیویاں انہیں ملیں گی وہ گندگی، ناپاکی، حیض و نفاس، پیشاب، پاخانہ، تھوک، رینٹ، منی وغیرہ سے پاک صاف ہوں گی

حضرت حوا علیہما السلام بھی حیض سے پاک تھیں لیکن نافرمانی سرزد ہوتے ہی یہ بلا آ گئی

یہ قول سنداً غریب ہے

ایک غریب مرفوع حدیث میں ہے کہ حیض پاخانہ تھوک رینٹ سے وہ پاک ہیں۔

اس حدیث کے راوی عبدالرزاق بن عمر یزیعی ہیں مستدرک حاکم میں بیان کیا جنہیں ابو حاتم البستی نے احتجاج کے قابل نہیں سمجھا۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مرفوع حدیث نہیں بلکہ حضرت قتادہ کا قول ہے واللہ اعلم۔

ان تمام نعمتوں کے ساتھ اس زبردست نعمت کو دیکھئے کہ نہ یہ نعمتیں فنا ہوں۔ نہ نعمتوں والے فنا ہوں نہ نعمتیں ان سے چھنیں نہ یہ نعمتوں سے الگ کئے جائیں۔ نہ موت ہے نہ خاتمہ ہے نہ آخر ہے نہ ٹوٹنا اور کم ہونا ہے

 اللہ رب العالمین جواد و کریم برورحیم سے التجا ہے کہ وہ مالک ہمیں بھی اہل جنت کے زمرے میں شامل کرے اور انہیں کے ساتھ ہمارا حشر کرے۔ آمین۔

إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي أَنْ يَضْرِبَ مثلاً مَا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا ۚ

یقیناً اللہ تعالیٰ کسی مثال کے بیان کرنے سے نہیں شرماتا خواہ مچھر کی ہو، یا اس سے بھی ہلکی چیز۔

ابن عباس ابن مسعود اور چند صحابہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے:

جب اوپر کی تین آیتوں میں منافقوں کی دو مثالیں بیان ہوئیں یعنی آگ اور پانی کی تو وہ کہنے لگے کہ ایسی ایسی چھوٹی مثالیں اللہ تعالیٰ ہرگز بیان نہیں کرتا۔ اس پر یہ دونوں آیتیں نازل ہوئیں۔

حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

جب قرآن پاک میں مکڑی اور مکھی کی مثال بیان ہوئی تو مشرک کہنے لگے بھلا ایسی حقیر چیزوں کے بیان کی قرآن جیسی اللہ کی کتاب میں کیا ضرورت تو جواباً یہ آیتیں اتریں اور کہا گیا کہ حق کے بیان سے اللہ تعالیٰ نہیں شرماتا خواہ وہ کم ہو یازیادہ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت مکہ میں اتری حالانکہ ایسا نہیں واللہ اعلم۔

 اور بزرگوں سے بھی اس طرح کا شان نزول مروی ہے۔

ربیع فرماتے ہیں کہ یہ خود ایک مستقل مثال ہے جو دنیا کے بارے میں بیان کی گئی۔ مچھر جب تک بھوکا ہوتا ہے زندہ رہتا ہے جہاں موٹا تازہ ہوا مرا۔ اسی طرح یہ لوگ ہیں کہ جب دنیاوی نعمتیں دل کھول کر حاصل کر لیتے ہیں وہیں اللہ کی پکڑ آ جاتی ہےجیسے اور جگہ فرمایا :

فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّىٰ إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُم بَغْتَةً فَإِذَا هُم مُّبْلِسُونَ (۶:۴۴)

پھر جب وہ لوگ ان چیزوں کو بھولے رہے جس کی ان کو نصیحت کی جاتی تھی تو ہم نے ان پر ہرچیز کے دروازے کشادہ کر دیئے

یہاں تک کہ جب ان چیزوں پر جو کہ ان کو ملی تھیں وہ خوب اترا گئے ہم نے ان کو دفعتاً پکڑ لیا، پھر تو وہ بالکل مایوس ہوگئے

امام ابن جریر نے پہلے قول کو پسند فرمایا ہے اور مناسبت بھی اسی کی زیادہ اچھی معلوم ہوتی ہے واللہ اعلم۔

تو مطلب یہ ہوا کہ مثال چھوٹی سے چھوٹی ہو یا بڑی سے بڑی بیان کرنے سے اللہ تعالیٰ نہ رکتا ہے نہ جھجکتا ہے۔

لفظ مَا یہاں پر کمی کے معنی بتانے کے لئے ہے اور بَعُوضَةً کا زیربدلیت کی بنا پر عربی قاعدے کے مطابق ہے جو ادنیٰ سے ادنیٰ چیز پر صادق آ سکتا ہے

یا مَا نکرہ موصوفہ ہے اور بَعُوضَةً صفت ہے

 ابن جریر مَا کا موصولہ ہونا اور بَعُوضَةً کا اسی اعراب سے معرب ہونا پسند فرماتے ہیں

اور کلام عرب میں یہ بکثرت رائج ہے کہ وہ مَا اور من کے صلہ کو انہی دونوں کا اعراف دیا کرتے ہیں اس لئے کہ کبھی یہ نکرہ ہوتے ہیں اور کبھی معرفہ جیسے حسان بن ثابت کے شعروں میں ہے۔

یکفی بنا فضلا علی من غیرنا حب النبی محمدا یانا

ہمیں غیروں پر صرف یہی فضیلت کافی ہے کہ ہمارے دل جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پر ہیں

اوریہ بھی ہو سکتا ہے کہ بَعُوضَةً منصوب ہو حذف جار کی بنا پر اور اس سے پہلے اور بین کا لفظ مقدر مانا جائے۔

 کسائی اور فرا ءاسی کو پسند کرتے ہیں

ضحاک اور ابراہیم بن عبلہ بَعُوضَةً پڑھتے ہیں۔

ابن جنبی کہتے ہیں یہ مَا کا صلہ ہو گا اور عائد حذف مانی جائے گی جیسے آیت  تَمَامًا عَلَى الَّذِي أَحْسَنَ (۶:۱۵۴)میں فَمَا فَوْقَهَا کے دو معنی بیان کئے ہیں ایک تو یہ کہ اس سے بھی ہلکی اور ردی چیز۔ جیسے کسی شخص کی بخیلی کا ایک شخص ذکر کرے تو دوسرا کہتا ہے وہ اس سے بھی بڑھ کر ہے تو مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ اس سے بھی زیادہ گرا ہوا ہے۔

 کسائی اور ابوعبیدہ یہی کہتے ہیں۔

ایک حدیث میں آتا ہے اگر دنیا کی قدر اللہ کے نزدیک ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو کسی کافر کو ایک گھونٹ پانی بھی نہ پلاتا۔

 دوسرے یہ معنی ہیں کہ اس سے زیادہ بڑی اس لئے کہ بھلا مچھر سے ہلکی اور چھوٹی چیز اور کیا ہو گی؟

قتادہ بن وعامہ کا یہی قول ہے۔ ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں۔

صحیح مسلم میں حدیث ہے :

مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُشَاكُ شَوكَةً فَمَا فَوْقَهَا إِلَّا كُتِبَتْ لَهُ بِهَا دَرَجَةٌ، وَمُحِيَتْ عَنْهُ بِهَا خَطِيئَة

جس کسی مسلمان کو کانٹا چبھے یا اس سے زیادہ تو اس پر بھی اس کے درجے بڑھتے ہیں اور گناہ مٹتے ہیں

 اس حدیث میں بھی یہی لفظ فَوْقَهَا ہے

 تو مطلب یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ ان چھوٹی بڑی چیزوں کے پیدا کرنے سے شرماتا نہیں اور نہ رکتا ہے۔ اسی طرح انہیں مثال کے طور پر بیان کرنے سے بھی اسے عار نہیں۔

ایک جگہ قرآن میں کہا گیا ہے:

يأَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُواْ لَهُ ۔۔۔ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ (۲۲:۷۳)

لوگوایک مثال بیان کی جا رہی ہے، ذرا کان لگا کر سن لو! اللہ کے سوا جن کو تم پکارتے رہے ہو وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے گو سارے کے سارے ہی جمع ہوجائیں،

بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز لے بھاگے تو یہ تو اسے بھی اس سے چھین نہیں سکتے، بڑا بزدل ہے طلب کرنے والا اور بڑا بزدل ہے وہ جس سے طلب کیا جا رہا ہے۔‏

دوسری جگہ فرمایا :

مَثَلُ الَّذِينَ اتَّخَذُواْ مِن دُونِ اللَّهِ ۔۔۔ لَوْ كَانُواْ يَعْلَمُونَ (۲۹:۴۱)

جن لوگوں نے اللہ کے سوا اور کارساز مقرر کر رکھے ہیں ان کی مثال مکڑی کی سی ہے کہ وہ بھی ایک گھر بنا لیتی ہے، حالانکہ تمام گھروں سے زیادہ کمزور گھر مکڑی کا گھر ہی ہے کاش! وہ جان لیتے

 اور جگہ فرمایا :

أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً كَلِمَةً طَيِّبَةً ۔۔۔ وَيَفْعَلُ اللَّهُ مَا يَشَآءُ (۱۴:۲۴،۲۷)

کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے پاکیزہ بات کی مثال کس طرح بیان فرمائی، مثل ایک پاکیزہ درخت کے جس کی جڑ مضبوط ہے اور جس کی ٹہنیاں آسمان میں ہیں۔‏ جو اپنے پروردگار کے حکم سے ہر وقت اپنے پھل لاتا ہے۔

اور اللہ تعالیٰ لوگوں کے سامنے مثالیں بیان فرماتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔‏اور ناپاک بات کی مثال ایسے درخت جیسی ہے جو زمین کے کچھ ہی اوپر سے اکھاڑ لیا گیا۔ اسے کچھ ثبات تو ہے نہیں ۔

ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ پکی بات کے ساتھ مضبوط رکھتا ہے، دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی ہاں نا انصاف لوگوں کو اللہ بہکا دیتا ہے اور اللہ جو چاہے کر گزرے۔‏

دوسری جگہ فرمایا :

ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً عَبْدًا مَّمْلُوكًا لاَّ يَقْدِرُ عَلَى شَىْءٍ (۱۶:۷۵)

اللہ تعالیٰ ایک مثال بیان کرتا ہے کہ ایک غلام ہے دوسرے کی ملکیت کا، جو کسی بات کا اختیار نہیں رکھتا

 اور جگہ فرمایا:

وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً رَّجُلَيْنِ أَحَدُهُمَآ أَبْكَمُ ۔۔۔ وَمَن يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ (۱۶:۷۶)

اللہ تعالیٰ ایک اور مثال بیان فرماتا ہے دو شخصوں کی، جن میں سے ایک تو گونگا ہے اور کسی چیز پر اختیار نہیں رکھتا بلکہ وہ اپنے مالک پر بوجھ ہے کہیں بھی اسے بھیج دو کوئی بھلائی نہیں لاتا،

کیا یہ اور وہ جو عدل کا حکم دیتا ہے اور ہے ، برابر ہو سکتے ہیں؟‏

دوسری جگہ ہے:

ضَرَبَ لَكُمْ مَّثَلاً مِّنْ أَنفُسِكُمْ هَلْ لَّكُمْ مِّن مَّا مَلَكَتْ أَيْمَـنُكُمْ مِّن شُرَكَآءَ فِى مَا رَزَقْنَـكُمْ (۳۰:۲۸)

اللہ تعالیٰ تمہارے لئے خود تمہاری مثال بیان فرماتا ہے کیا تم اپنی چیزوں میں اپنے غلاموں کو بھی اپنا شریک اور برابر کا حصہ دار سمجھتے ہو؟

ہم عقل رکھنے والوں کے لئے اسی طرح کھول کھول کر آیتیں بیان کرتے ہیں۔‏

اور ارشاد ہے:

كَذَ‌ٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ (۳۰:۲۸)

کہ تم اور وہ اس میں برابر درجے کے ہو؟ اور تم ان کا ایسا خطرہ رکھتے ہو جیسا خود اپنوں کا

 ان کے علاوہ اور بھی بہت سی مثالیں قرآن پاک میں بیان ہوئی ہیں۔

بعض سلف صالحین فرماتے ہیں جب میں قرآن کی کسی مثال کو سنتا ہوں اور سمجھ نہیں سکتا تو مجھے رونا آتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ ان مثالوں کو صرف عالم ہی سمجھ سکتے ہیں۔

فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ ۖ

ایمان والے تو اپنے رب کی جانب سے صحیح سمجھتے ہیں

حضرت مجاہد فرماتے ہیں مثالیں خواہ چھوٹی ہوں خواہ بڑی ایماندار ان پر ایمان لاتے ہیں اور انہیں حق جانتے ہیں اور ان سے ہدایت پاتے ہیں۔

قتادہ کا قول ہے کہ وہ انہیں اللہ کا کلام سمجھتے ہیں۔

 أَنَّهُ کی ضمیر کا مرجع مثال ہے یعنی مؤمن اس مثال کو اللہ کی جانب سے اور حق سمجھتے ہیں اور کافر باتیں بناتے ہیں

جیسے سورۃ مدثر میں فرمایا:

وَمَا جَعَلْنَا أَصْحَابَ النَّارِ إِلَّا مَلَائِكَةً ۙ ۔۔۔ وَمَا هِيَ إِلَّا ذِكْرَىٰ لِلْبَشَرِ (۷۴:۳۱)

ہم نے دوزخ کے داروغے صرف فرشتے رکھے ہیں اور ہم نے ان کی تعداد صرف کافروں کی آزمائش کے لئے مقرر کی ہے تاکہ اہل کتاب یقین کرلیں

اور ایماندار ایمان میں اور بڑھ جائیں اور اہل کتاب اور مسلمان شک نہ کریں اور جن کے دلوں میں بیماری ہے اور وہ کافر کہیں کہ اس بیان سے اللہ تعالیٰ کی کیا مراد ہے؟

اس طرح اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا

یہاں بھی اسی ہدایت و ضلالت کو بیان کیا۔

وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَيَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَذَا مثلاً ۘ يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا ۚ

اور کفار کہتے ہیں کہ اس مثال سے اللہ کی کیا مراد ہے؟ اس کے ذریعے بیشتر کو گمراہ کرتا ہے اور اکثر لوگوں کو راہ راست پر لاتا ہے۔

صحابہ کرام سے مروی ہے کہ اس سے گمراہ منافق ہوتے ہیں اور مؤمن راہ پاتے ہیں۔ گمراہ اپنی گمراہی میں بڑھ جاتے ہیں کیونکہ اس مثال کے درست اور صحیح ہونے کا علم ہونے کے باوجود اسے جھٹلاتے ہیں اور مؤمن اقرار کر کے ہدایت ایمان کو بڑھا لیتے ہیں۔

وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ (۲۶)

اور گمراہ تو صرف فاسقوں کو ہی کرتا ہے۔‏

فَاسِقِينَ سے مراد منافق ہیں۔

بعض نے کہا ہے کافر مراد ہیں جو پہچانتے ہیں اور انکار کرتے ہیں۔

حضرت سعد کہتے ہیں مراد خوارج ہیں۔

اگر اس قول کی سند حضرت سعد بن ابی وقاص تک صحیح ہو تو مطلب یہ ہو گا کہ یہ تفسیر معنوی ہے اس سے مراد خوارج نہیں ہیں بلکہ یہ ہے کہ یہ فرقہ بھی فاسقوں میں داخل ہے۔ جنہوں نے نہرو ان میں حضرت علیؓ پر چڑھائی کی تھی تو یہ لوگ گو نزول آیت کے وقت موجود نہ تھے لیکن اپنے بدترین وصف کی وجہ سے معنوی طور پر یہ بھی فاسقوں میں داخل ہیں۔

 انہیں خارجی اس لئے کہا گیا ہے کہ امام کی اطاعت سے نکل گئے تھے اور شریعت اسلام کی پابندی سے آزاد ہو گئے تھے۔

لغت میں فَاسِق کہتے ہیں اطاعت اور فرمانبرداری سے نکل جانے کو۔ جب چھلکا ہٹا کر خوشہ نکلتا ہے تو عرب کہتے ہیں فسقت چوہے کو بھی فویسقہ کہتے ہیں کیونکہ وہ اپنے بل سے نکل کر فساد کرتا ہے۔

صحیحین کی حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 پانچ جانور فاسق ہیں حرم میں اور حرم سے باہر کے قتل کر دئیے جائیں۔

- کوا،

- چیل،

- بچھو،

- چوہا

- اور کالا کتا۔

پس لفظ فَاسِق کافر کو اور ہر نافرمان کو شامل ہے لیکن کافر کا فسق زیادہ سخت اور زیادہ برا ہے اور آیت میں مراد فَاسِق سے کافر ہے واللہ اعلم۔

الَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مِيثَاقِهِ

وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے مضبوط عہد کو توڑ دیتے ہیں

اس کی بڑی دلیل یہ ہے کہ بعد میں ان کا وصف یہ بیان فرمایا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا عہد توڑتے ہیں۔ اس کے فرمان کاٹتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اور یہ سب اوصاف کفار کے ہیں۔

 مؤمنوں کے اوصاف تو اس کے برخلاف ہوتے ہیں جیسے سورۃ رعد میں بیان ہے:

أَفَمَن يَعْلَمُ أَنَّمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَ أَعْمَىٰ ۚ ۔۔۔ أُولَـٰئِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ (۱۳:۱۹،۲۵)

کیا وہ شخص جو یہ علم رکھتا ہے کہ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے جو اتارا گیا ہے وہ حق ہے، اس شخص جیسا ہو سکتا ہے جو اندھا ہو

نصیحت تو وہی قبول کرتے ہیں ہیں جو عقلمند ہوں جو اللہ کے عہد و پیمان کو پورا کرتے ہیں اور قول و قرار کو توڑتے نہیں۔

اور اللہ نے جن چیزوں کو جوڑنے کا حکم دیا ہے وہ اسے جوڑتے ہیں اور وہ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں اور حساب کی سختی کا اندیشہ رکھتے ہیں ‏

اور وہ اپنے رب کی رضامندی کی طلب کے لئے صبر کرتے ہیں اور نمازوں کو برابر قائم رکھتے ہیں

اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے اسے چھپے کھلے خرچ کرتے ہیں اور برائی کو بھی بھلائی سے ٹالتے ہیں

 ان ہی کے لئے عاقبت کا گھر ہے۔ہمیشہ رہنے کے باغات جہاں یہ خود جائیں گے اور ان کے باپ دادوں اور بیوی اور اولادوں میں سے بھی جو نیکوکار ہونگے

ان کے پاس فرشتے ہر دروازے سے آئیں گے۔‏کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو، صبر کے بدلے، کیا ہی اچھا (بدلہ) ہے اس دار آخرت کا۔

‏اور جو اللہ کے عہد کو اس کی مضبوطی کے بعد توڑ دیتے ہیں اور جن چیزوں کے جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا ہے انہیں توڑتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، ان کے لئے لعنتیں ہیں اور ان کے لئے برا گھر ہے

بعض کہتے ہیں عہد توڑنے والے اہل کتاب کے کافر منافق اور ہیں اور عہد وہ ہے جو ان سے تورات میں لیا گیا تھا کہ وہ اس کی تمام باتوں پر عمل کریں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کریں جب بھی آپ تشریف لے آئیں آپ کی نبوت کا اقرار کریں اور جو کچھ آپ اللہ کی جانب سے لے کر آئیں اس کی تصدیق کریں اور اس عہد کو توڑ دینا یہ ہے کہ انہوں نے آپ کی نبوت کا علم ہونے کے باوجود الٹا اطاعت سے انکار کر دیا اور باوجود عہد کا علم ہونے کے اسے چھپایا دنیاوی مصلحتوں کی بنا پر اس کا الٹ کیا۔

 امام ابن جریر اس قول کو پسند کرتے ہیں اور مقاتل بن حیان کا بھی یہی قول ہے۔

بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد کوئی خاص جماعت نہیں بلکہ شک و کفر و نفاق والے سب کے سب مراد ہیں۔

عَهْد سے مراد توحید اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اقرار کرانا ہے جن کی دلیل میں کھلی ہوئی نشانیاں اور بڑے بڑے معجزے موجود ہیں اور اس عہد کو توڑ دینا توحید و سنت سے منہ موڑنا اور انکار کرنا ہے

یہ قول اچھا ہے زمحشری کا میلان بھی اسی طرح ہے وہ کہتے ہیں عہد سے مراد اللہ تعالیٰ کی توحید ماننے کا اقرار ہے جو فطرت انسان میں داخل ہونے کے علاوہ روز میثاق بھی منوایا گیا ہے۔ فرمایا گیا تھا أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ کیا میں تمہارا رب ہوں؟ تو سب نے جواب دیا تھا قَالُوا بَلَىٰ (۷:۱۷۲) بیشک تو ہمارا رب ہے۔پھر وہ کتابیں دی گئیں ان میں بھی اقرار کرایا گیا جیسے فرمایا وَأَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُمْ (۲:۴۰) میرے عہد کو نبھاؤ میں بھی اپنے وعدے پورے کروں گا۔

بعض کہتے ہیں وہ عہد مراد ہے جو روحوں سے لیا گیا تھا جب وہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیٹھ سے نکالی گئی تھیں

جیسے فرماتا ہے:

وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ ۛ شَهِدْنَا  (۷:۱۷۲)

اور جب آپ کے رب نے اولاد آدم کی پشت سے ان کی اولاد کو نکالا اور ان سے ان ہی کے متعلق اقرار لیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا کیوں نہیں! ہم سب گواہ بنتے ہیں۔

اور اس کا توڑنا اس سے انحراف ہے۔

یہ تمام اقوال تفسیر ابن جریر میں منقول ہیں۔

ابوالعالیہ فرماتے ہیں عہد اللہ کو توڑنا منافقوں کا کام ہے جن میں یہ چھ خصلتیں ہوتی ہیں۔

- بات کرنے میں جھوٹ بولنا،

- وعدہ خلافی کرنا،

- امانت میں خیانت کرنا،

- اللہ کے عہد کو مضبوطی کے بعد توڑ دینا،

- اللہ تعالیٰ نے جن رشتوں کے ملانے کا حکم دیا ہے، انہیں نہ ملانا،

- زمین میں فساد پھیلانا۔

یہ چھ خصلتیں انکی اس وقت ظاہر ہوتی ہیں جب کہ ان کا غلبہ ہو اور جب وہ مغلوب ہوتے ہیں تو تین اگلے کام کرتے ہیں۔

سدی فرماتے ہیں قرآن کے احکام کو پڑھنا جاننا سچ کہنا پھر نہ ماننا بھی عہد کو توڑنا تھا

وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ ۚ أُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ (۲۷)

اور اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کے جوڑنے کا حکم دیا ہے، انہیں کاٹتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں

اللہ تعالیٰ نے جن کاموں کے جوڑنے کا حکم دیا ہے ان سے مراد صلہ رحمی کرنا، قرابت کے حقوق ادا کرنا وغیرہ ہے

جیسے اور جگہ قرآن مجید میں ہے:

فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِن تَوَلَّيْتُمْ أَن تُفْسِدُواْ فِى الاٌّرْضِ وَتُقَطِّعُواْ أَرْحَامَكُمْ (۴۷:۲۲)

اور تم سے یہ بھی بعید نہیں کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد برپا کردو اور رشتے ناتے توڑ ڈالو۔‏

ابن جریر اسی کو ترجیح دیتے ہیں

 اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آیت عام ہے یعنی جسے ملانے اور ادا کرنے کا حکم دیا تھا انہوں نے اسے توڑا اور حکم عدولی کی۔

 خَاسِرُون سے مراد آخرت میں نقصان اٹھانے والے ہیں جیسے فرمان باری ہے:

أُوْلَـئِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ (۱۳:۲۵

ان لوگوں کے لئے لعنت ہے اور ان کے لئے برا گھر ہے۔

 حضرت ابن عباسؓ کا فرمان ہے کہ اہل اسلام کے سوا جہاں دوسروں کے لئے یہ لفظ آیا ہے وہاں مراد گنہگار ہیں۔

خَاسِرُون جمع ہے خَاسِر کی۔ چونکہ ان لوگوں نے نفسیاتی خواہشوں اور دنیوی لذتوں میں پڑ کر رحمت اللہ سے علیحدگی کر لی اس لئے انہیں نقصان یافتہ کہا گیا جیسے وہ شخص جسے اپنی تجارت میں گھاٹا آئے اسی طرح یہ کافرو منافق ہیں یعنی قیامت والے دن جب رحم و کرم کی بہت ہی حاجت ہو گی اس دن رحمت الہٰی سے محروم رہ جائیں گے۔

كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنْتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ۖ

تم اللہ کے ساتھ کیسے کفر کرتے ہو؟ حالانکہ تم مردہ تھے اس نے تمہیں زندہ کیا۔

اس بات کا ثبوت دیتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ موجود ہے وہ قدرتوں والا ہے۔ وہی پیدا کرنے والا اور اختیار والا ہے۔ اس آیت میں فرمایا تم اللہ تعالیٰ کے وجود سے انکار کیسے کر سکتے ہو؟ یا اس کے ساتھ دوسرے کو عبادت میں شریک کیسے کر سکتے ہو؟ جبکہ تمہیں عدم سے وجود میں لانے والا ایک وہی ہے۔

دوسری جگہ فرمایا:

أَمْ خُلِقُواْ مِنْ غَيْرِ شَىْءٍ أَمْ هُمُ الْخَـلِقُونَ ـ أَمْ خَلَقُواْ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضَ بَل لاَّ يُوقِنُونَ (۵۲:۳۵،۳۶)

کیا یہ بغیر کسی (پیدا کرنے والے) کے خود بخود پیدا ہوگئے ہیں؟ یا خود پیدا کرنے والے ہیں۔ کیا انہوں نے ہی آسمان اور زمین کو پیدا کیا ہے، بلکہ یہ یقین نہ کرنے والے لوگ ہیں ۔

اور جگہ ارشاد ہوتا ہے:

هَلْ أَتَى عَلَى الإِنسَـنِ حِينٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُن شَيْئاً مَّذْكُوراً  (۷۶:۱)

یقیناً انسان پر وہ زمانہ بھی آیا ہے جس وقت یہ قابل ذکر چیز ہی نہ تھا۔

اور بھی اس طرح کی بہت سی آیتیں ہیں۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کفار کہیں گے:

قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا (۴۰:۱۱)

وہ کہیں گے اے ہمارے پروردگار! تو نے ہمیں دوبار مارا اور دوہی بار جلایا  (زندہ کیا) اب ہم اپنے گناہوں کے اقراری ہیں

 اس سے مراد یہی ہے جو اس آیت وَكُنْتُمْ أَمْوَاتًا میں ہے مطلب یہ ہے کہ تم اپنے باپوں کی پیٹھ میں مردہ تھے یعنی کچھ بھی نہ تھے۔ اس نے تمہیں زندہ کیا یعنی پیدا کیا

ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (۲۸)

پھر تمہیں مار ڈالے گا پھر زندہ کرے گا پھر اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‏

پھر تمہیں مارے گا یعنی موت ایک روز ضرور آئے گی پھر تمہیں قبروں سے اٹھائے گا۔

 پس ایک حالت مردہ پن کی دنیا میں آنے سے پہلے پھر دوسری دنیا میں مرنے اور قبروں کی طرف جانے کی پھر قیامت کے روز اٹھ کھڑے ہونے کی۔ دو زندگیاں اور دو موتیں۔

 ابو صالح فرماتے ہیں کہ قبر میں انسان کو زندہ کر دیا جاتا ہے۔

عبدالرحمٰن بن زید کا بیان ہے:

حضرت آدم علیہ السلام کی پیٹھ میں انہیں پیدا کیا پھر ان سے عہد و پیمان لے کر بےجان کر دیا پھر ماں کے پیٹ میں انہیں پیدا کیا پھر دنیوی موت ان پر آئی پھر قیامت والے دن انہیں زندہ کرے گا

لیکن یہ قول غریب ہے۔ پہلا قول ہی درست ہے۔

 ابن مسعودؓ، ابن عباسؓ اور تابعین کی ایک جماعت کا یہی قول ہے۔

قرآن میں اور جگہ ہے:

اللَّهُ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (۳۰:۱۱)

اللہ ہی تمہیں پیدا کرتا ہے پھر مارتا ہے پھر تمہیں قیامت کے دن جمع کرے گا۔

ان پتھروں اور تصویروں کو جنہیں مشرکین پوجتے تھے قرآن نے مردہ کہا۔

 فرمایا اموات غیر احیاء وہ سب مردہ ہیں زندہ نہیں۔

 زمین کے بارے میں فرمایا:

وَآيَةٌ لَّهُمُ الْأَرْضُ الْمَيْتَةُ أَحْيَيْنَاهَا وَأَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ يَأْكُلُونَ (۳۶:۳۳)

ان کے لئے مردہ زمین بھی ہماری صداقت کی نشانی ہے جسے ہم زندہ کرتے ہیں اور اس سے دانے نکالتے ہیں جسے یہ کھاتے ہیں۔

هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ ۚ

وہ اللہ جس نے تمہارے لئے زمین کی تمام چیزوں کو پیدا کیا پھر آسمان کی طرف قصد کیا اور انکو ٹھیک ٹھاک سات آسمان بنایا

اوپر کی آیات میں ان دلائل قدرت کا بیان تھا جو خود انسان کے اندر ہیں اب اس مبارک آیت میں ان دلائل کا بیان ہو رہا ہے جو روز مرہ آنکھوں کے سامنے ہیں۔

اسْتَوَى یہاں قصد کرنے اور متوجہ ہونے کے معنی میں ہے اس لئے کہ اس کا صلہ إِلَى ہے

 سَوَّاهُنَّ کے معنی درست کرنے اور ساتوں آسمان بنانے کے ہیں

 السَّمَاءِ اسم جنس ہے۔

وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (۲۹)

اور وہ ہرچیز کو جانتا ہے۔‏

پھر بیان فرمایا کہ اس کا علم محیط کل ہے جیسے ارشاد فرمایا:

أَلاَ يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ (۶۷:۱۴)

وہ بےعلم ہو کیسے سکتا ہے جو خالق ہو؟

 سورۃ حم سجدہ کی آیت قُلْ أَءِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ گویا اس آیت کی تفصیل ہے جس میں فرمایا ہے:

قُلْ أَءِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِى خَلَقَ الاٌّرْضَ فِى يَوْمَيْنِ ۔۔۔ ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ (۴۱:۹،۱۲)

آپ کہہ دیجئے! کہ تم اس اللہ کا انکار کرتے ہو اور تم اس کے شریک مقرر کرتے ہو جس نے دو دن میں زمین پیدا کر دی سارے جہانوں کا پروردگار وہی ہے۔

‏ اور اس نے زمین میں اسکے اوپر سے پہاڑ گاڑ دیئے اور اس میں برکت رکھ دی اور اس میں (رہنے والوں) کی غذاؤں کی تجویز بھی اسی میں کر دی (صرف) چار دن میں ضرورت مندوں کے لئے یکساں طور پر ۔

‏ پھر آسمانوں کی طرف متوجہ ہوا اور وہ دھواں (سا) تھا پس اسے اور زمین سے فرمایا کہ تم دونوں خوشی سے آؤ یا ناخوشی سے دونوں نے عرض کیا بخوشی حاضر ہیں۔‏

پس دو دن میں سات آسمان بنا دیئے اور ہر آسمان میں اسکے مناسب احکام کی وحی بھیج دی اور ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں سے زینت دی اور نگہبانی کی یہ تدبیر اللہ غا لب و دانا کی ہے

اس سے معلوم ہوا کہ پہلے زمین پیدا کی پھر ساتوں آسمان۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر عمارت کا یہی قاعدہ ہے کہ پہلے نیچے کا حصہ بنایا جائے پھر اوپر کا مفسرین نے بھی اس کی تصریح کی ہے جس کا بیان بھی ابھی آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔

 لیکن یہ سمجھ لینا چاہیے کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے:

أَءَنتُمْ أَشَدُّ خَلْقاً أَمِ السَّمَآءُ بَنَـهَا ۔۔۔ مَتَـعاً لَّكُمْ وَلاًّنْعَـمِكُمْ  (۷۹:۲۷،۳۳)

کیا تمہارا پیدا کرنا زیادہ دشوار ہے یا آسمان کا؟اللہ نے اسے بنایا۔‏اس کی بلندی اونچی کی پھر اسے ٹھیک ٹھاک کر دیا۔

اسکی رات کو تاریک بنایا اسکے دن کو روشن بنایا۔‏اس کے بعد زمین کو (ہموار) بچھا دیا۔‏اس میں سے پانی اور چارہ نکالا۔‏اور پہاڑوں کو (مضبوط) گاڑھ دیا۔‏

یہ سب تمہارے اور تمہارے جانوروں کے فائدے کے لئے ہیں۔‏

اس آیت میں یہ فرمایا ہے کہ زمین کی پیدائش آسمان کے بعد ہے تو بعض بزرگوں نے تو فرمایا ہے کہ مندرجہ بالا آیت میں ثُمَّ صرف عطف خبر کے لئے ہے عطف فعل کے لئے نہیں یعنی یہ مطلب نہیں کہ زمین کے بعد آسمان کی پیدائش شروع کی بلکہ صرف خبر دینا مقصود ہے کہ آسمانوں کو بھی پیدا کیا اور زمینوں کو بھی۔ عرب شاعروں کے اشعار میں یہ موجود ہے کہ کہیں ثُمَّ صرف خبر کا خبر پر عطف ڈالنے کے لئے ہوتا ہے تقدیم تاخیر مراد نہیں ہوتی۔

 اور بعض بزرگوں نے فرمایا ہے کہ آیت أَءَنتُمْ میں آسمانوں کی پیدائش کے بعد زمین کا پھیلانا اور بچھانا وغیرہ بیان ہوا ہے نہ کہ پیدا کرنا۔

 تو ٹھیک یہ ہے کہ پہلے زمین کو پیدا کیا پھر آسمان کو پھر زمین کو ٹھیک ٹھاک کیا اس طرح دونوں آیتیں ایک دوسرے کے مخالف نہ رہیں گی۔ اس عیب سے اللہ کا کلام بالکل محفوظ ہے۔

 ابن عباسؓ نے یہی معنی بیان فرمائے ہیں (یعنی پہلے زمین کو پیدا کیا پھر آسمان کو اور زمین کی درستی وغیرہ یہ بعد کی چیز ہے)

حضرت ابن مسعودؓ حضرت ابن عباسؓ اور دیگر صحابہ ؓسے مروی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا اور کسی چیز کو پیدا نہیں کیا تھا جب اور مخلوق کو پیدا کرنا چاہا تو پانی سے دھواں بلند کیا وہ اونچا چڑھا اور اس سے آسمان بنائے پھر پانی خشک ہو گیا اور اس کی زمین بنائی پھر اس کو الگ الگ کر کے سات زمینیں بنائیں اتوار اور پیر کے دو دن میں یہ ساتوں زمینیں بن گئیں۔ زمین مچھلی پر ہے اور مچھلی وہ ہے جس کا ذکر قرآن مجید کی اس آیت میں ہے ن وَالْقَلَمِ (۶۸:۱)  

مچھلی پانی میں ہے اور پانی صفاۃ پر ہے اور صفاۃ فرشتے پر اور فرشتے پتھر پرزمین کانپنے لگی تو اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کو گاڑ دیا اور وہ ٹھہر گئی یہی معنی میں اللہ تعالیٰ کے فرمان کے:

وَجَعَلْنَا فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَن تَمِيدَ بِهِمْ وَجَعَلْنَا فِيهَا فِجَاجًا سُبُلًا لَّعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ (۲۱:۳۱)

اور ہم نے زمین میں پہاڑ بنا دیئے تاکہ مخلوق کو ہلا نہ سکے اور ہم نے اس میں کشادہ راہیں بنا دیں تاکہ وہ راستہ حاصل کریں

پہاڑ زمین کی پیداوار درخت وغیرہ زمین کی کل چیزیں منگل اور بدھ کے دو دنوں میں پیدا کیں اسی کا بیان قُلْ أَءِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ (۴۱:۹) والی آیت میں ہے

پھر آسمان کی طرف توجہ فرمائی جو دھواں تھا آسمان بنایا پھر اسی میں سات آسمان بنائے جمعرات اور جمعہ کے دو دنوں میں جمعہ کے دن کو اس لئے جمعہ کہا جاتا ہے کہ اس میں زمین و آسمان کی پیدائش جمع ہو گئی ہر آسمان میں اس نے فرشتوں کو پیدا کیا اور ان ان چیزوں کو جن کا علم اس کے سوا کسی کو نہیں کہ دنیا آسمان کو ستاروں کے ساتھ زینت دی اور انہیں شیطان سے حفاظت کا سبب بنایا ان تمام چیزوں کو پیدا کر کے پروردگار نے عرش عظیم پر قرار پکڑا جیسے فرماتا ہے:

خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ (۷:۵۴)

جس نے سب آسمانوں اور زمین کو چھہ روز میں پیدا کیا ہے پھر عرش پر قائم ہوا

 اور جگہ فرمایا :

أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا ۖ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ (۲۱:۳۰)

آسمان و زمین باہم ملے جلے تھے پھر ہم نے انہیں جدا کیا اور ہر زندہ چیز کو ہم نے پانی سے پیدا کیا

یعنی یہ دونوں دھواں سے تھے ہم نے انہیں پھاڑا اور پانی سے ہر چیز کو زندگی دی (تفسیر سدی)

یہ موقوف قول جس میں کئی قسم کا احتمال ہے بظاہراً ایسی اہم بات میں حجت تامہ نہیں ہو سکتا۔ واللہ اعلم

ابن جریر میں ہے حضرت عبداللہ بن سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :

اتوار سے مخلوق کی پیدائش شروع ہوئی۔ دو دن میں زمینیں پیدا ہوئیں دو دن میں ان میں موجود تمام چیزیں پیدا کیں اور دو دن میں آسمانوں کو پیدا کیا جمعہ کے دن آخری وقت ان کی پیدائش ختم ہوئی اور اسی وقت حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور اسی وقت میں قیامت قائم ہو گی۔

مجاہد فرماتے ہیں :

 اللہ تعالیٰ نے زمین کو آسمان سے پہلے پیدا کیا اس سے جو دھواں اوپر چڑھا اس کے آسمان بنائے جو ایک پر ایک اس طرح سات ہیں اور زمینیں ایک نیچے ایک اوپر اس طرح سات ہیں۔

 اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ زمین کی پیدائش آسمانوں سے پہلے ہے جیسے سورۃ سجدہ کی آیت میں ہے۔ علماء کی اس پر متفق ہیں۔ صرف قتادہ فرماتے ہیں کہ آسمان زمین سے پہلے پیدا ہوئے ہیں۔ قرطبی اس میں توقف کرتے ہیں سورۃ النَّازِعَاتِ کی ان آیات کی وجہ سے:

وَالاٌّرْضَ بَعْدَ ذَلِكَ دَحَـهَا ـ أَخْرَجَ مِنْهَا مَآءَهَا وَمَرْعَـهَا ـ وَالْجِبَالَ أَرْسَـهَا (۷۹:۳۰،۳۲)

اس کے بعد زمین کو (ہموار) بچھا دیا اس میں سے پانی اور چارہ نکالا‏ اور پہاڑوں کو (مضبوط) گاڑھ دیا۔‏

یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہاں آسمان کی پیدائش کا ذکر زمین سے پہلے ہے۔

صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت ابن عباسؓ سے جب یہ سوال ہوا تو آپ نے جواب دیا کہ زمین پیدا تو آسمانوں سے پہلے کی گئی ہے لیکن بعد میں پھیلائی گئی ہے۔

یہی جواب اگلے پچھلے علماء کا ہے۔ سورۃ نازعات کی تفسیر میں بھی اس کا بیان آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ۔

حاصل امر یہ ہے کہ زمین کا پھیلانا اور بچھانا بعد میں ہے اور دَحَـهَا کا لفظ قرآن میں ہے اور اس کے بعد جو پانی چارہ پہاڑ وغیرہ کا ذکر ہے یہ گویا اس لفظ کی تشریح ہے جن جن چیزوں کی نشوونما کی قوت اس زمین میں رکھی تھی ان سب کو ظاہر کر دیا اور زمین کی پیداوار طرح طرح کی مختلف شکلوں اور مختلف قسموں میں نکل آئی۔ اسی طرح آسمان میں بھی ٹھہرے رہنے والے چلنے والے ستارے وغیرہ بنائے۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔

صحیح مسلم اور نسائی میں حدیث میں ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا:

مٹی کو اللہ تعالیٰ نے ہفتہ والے دن پیدا کیا، پہاڑوں کو اتوار کے دن، درختوں کو پیر کے دن، برائیوں کو منگل کے دن ،نور کو بدھ کے دن، جانوروں کو جمعرات کے دن، آدم کو جمعہ کے دن اور عصر کے بعد جمعہ کی آخری ساعت میں عصر کے بعد سے رات تک۔

یہ حدیث غرائب میں سے ہے۔امام ابن مدینی امام بخاری وغیرہ نے اس پر بحث کی ہے اور فرمایا ہے کہ کعب کا اپنا قول اور حضرت ابوہریرہ نے کعب کا یہ قول سنا ہے اور بعض راویوں نے اسے غلطی سے مرفوع حدیث قرار دے لیا ہے۔ امام بیہقی بھی یہی کہتے ہیں۔

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً ۖ

اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں

اللہ تعالیٰ کے اس احسان کو دیکھو کہ اس نے آدم کو پیدا کرنے سے پہلے فرشتوں میں ان کا ذکر کیا جس کا بیان اس آیت میں ہے۔فرماتا ہے کہ اے نبی تم یاد کرو اور اپنی اُمت کو یہ خبر پہنچاؤ۔

 ابو عبیدہ تو کہتے ہیں کہ لفظ إِذْ یہاں زائد ہے لیکن ابن جریر وغیرہ مفسرین اس کی تردید کرتے ہیں

 خَلِيفَة سے مراد یہ ہے کہ ان کے یکے بعد دیگرے بعض کے بعض جانشین ہوں گے اور ایک زمانہ کے بعد دوسری زمانہ میں یونہی صدیوں تک یہ سلسلہ رہے گا۔ جیسے اور جگہ ارشاد ہے:

وَهُوَ الَّذِى جَعَلَكُمْ خَلَـئِفَ الاٌّرْضِ (۶:۱۶۵)

وہ ایسا ہے جس نے تم کو زمین میں خلیفہ بنایا

دوسری جگہ فرمایا:

وَيَجْعَلُكُمْ حُلَفَآءَ الاٌّرْضِ (۲۷:۶۲)

تمہیں اس نے زمین کا خلیفہ بنا دیا

اور ارشاد ہے

فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ (۷:۱۶۹)

ان کے بعد ان کے خلیفہ یعنی جانشین برے لوگ ہوئے۔

بعض مفسرین کہتے ہیں کہ خَلِيفَة سے مراد صرف حضرت آدمؑ ہیں لیکن اس بارے میں تفسیر رازی کے مفسر نے اختلاف کو ذکر کیا ہے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مطلب نہیں۔ اس کی ایک دلیل تو فرشتوں کا یہ قول ہے کہ وہ زمین میں فساد کریں گے اور خون بہائیں گے تو ظاہر ہے کہ انہوں نے اولاد آدم کی نسبت یہ فرمایا تھا نہ کہ خاص حضرت آدم کی نسبت۔

یہ اور بات ہے کہ اس کا علم فرشتوں کو کیونکر ہوا؟ یا تو کسی خاص ذریعہ سے انہیں یہ معلوم ہوا یا بشری طبیعت کے اقتضا کو دیکھ کر انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہو گا کیونکہ یہ فرما دیا گیا تھا کہ اس کی پیدائش مٹی سے ہو گی یا لفظ یہ اور بات ہے کہ اس کا علم فرشتوں کو کیونکر ہوا؟ یا تو کسی خاص ذریعہ سے انہیں یہ معلوم ہوا یا بشری طبیعت کے اقتضا کو دیکھ کر انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہو گا کیونکہ یہ فرما دیا گیا تھا کہ اس کی پیدائش مٹی سے ہو گی یا لفظ خَلِيفَة کے مفہوم سے انہوں نے سمجھ لیا ہو گا کہ وہ فیصلے کرنے والا مظالم کی روک تھام کرنے والا اور حرام کاموں اور گناہوں کی باتوں سے روکنے والا ہو گا یا انہوں نے پہلی مخلوق کو دیکھا تھا اسی بنا پر اسے بھی قیاس کیا ہو گا۔ کے مفہوم سے انہوں نے سمجھ لیا ہو گا کہ وہ فیصلے کرنے والا مظالم کی روک تھام کرنے والا اور حرام کاموں اور گناہوں کی باتوں سے روکنے والا ہو گا یا انہوں نے پہلی مخلوق کو دیکھا تھا اسی بنا پر اسے بھی قیاس کیا ہو گا۔

قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ ۖ

تو انہوں نے کہا کہ ایسے شخص کو کیوں پیدا کرتا ہے جو زمین میں فساد کرے اور خون بہائے ہم تیری تسبیح اور پاکیزگی بیان کرنے والے ہیں

یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ فرشتوں کی یہ عرض بطور اعتراض نہ تھی نہ بنی آدم سے حسد کے طور پر تھی۔ جن لوگوں کا یہ خیال ہے وہ قطعی غلطی کر رہے ہیں۔

فرشتوں کی شان میں قرآن فرماتا ہے:

لَا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُم بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ (۲۱:۲۷)

کسی بات میں اللہ پر پیش دستی نہیں کرتے بلکہ اس کے فرمان پر کار بند ہیں

یعنی جس بات کے دریافت کرنے کی انہیں اجازت نہ ہو اس میں وہ لب نہیں ہلاتے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ فرشتوں کی طبیعت حسد سے پاک ہے بلکہ صحیح مطلب یہ ہے کہ یہ سوال صرف اس حکمت معلوم کرنے کے لئے اور اس راز کے ظاہر کرانے کے لئے تھا جو ان کی سمجھ سے بالاتر تھا۔ یہ تو جانتے تھے کہ اس مخلوق میں فسادی لوگ بھی ہوں گے تو اب با ادب سوال کیا کہ پروردگار ایسی مخلوق کے پیدا کرنے میں کونسی حکمت ہے؟

اگر عبادت مقصود ہے تو عبادت تو ہم کرتے ہی ہیں، تسبیح و تقدیس و تحمید ہر وقت ہماری زبانوں پر ہے اور پھر فساد وغیرہ سے پاک ہیں تو پھر اور مخلوق جن میں فسادی اور خونی بھی ہوں گے کس مصلحت پر پیدا کی جا رہی ہے؟

قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ (۳۰)

اللہ تعالیٰ نے فرمایا، جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔

تو اللہ تعالیٰ نے ان کے سوال کا جواب دیا کہ باوجود اس کے فساد کے اسے جن مصلحتوں اور حکمتوں کی بنا پر میں پیدا کر رہا ہوں انہیں میں ہی جانتا ہوں تمہارا علم ان تک حکمتوں نہیں پہنچ سکتا میں جانتا ہوں کہ ان میں انبیاء اور رسول ہوں گے ان میں صدیق اور شہید ہوں گے۔ ان میں عابد، زاہد، اولیاء ، ابرار، نیکوکار، مقرب بارگاہ، علماء، صلحاء، متقی، پرہیزگار، خوف الہٰی، حب باری تعالیٰ رکھنے والے بھی ہوں گے۔ میرے احکام کی بسر و چشم تعمیل کرنے والے، میرے نبیوں کے ارشاد پر لبیک پکارنے والے بھی ہوں گے۔

 صحیحین کی حدیث میں ہے:

دن کے فرشتے صبح صادق کے وقت آتے ہیں اور عصر کو چلے جاتے ہیں۔ تب رات کے فرشتے آتے ہیں اور صبح کو جاتے ہیں۔ آنے والے جب آتے ہیں تب بھی اور جب جاتے ہیں تب بھی صبح کی اور عصر کی نماز میں لوگوں کو پاتے ہیں اور دربار الہٰی میں پروردگار کے سوال کے جواب میں دونوں جماعتیں یہی کہتی ہیں کہ گئے تو نماز میں پایا اور آئے تو نماز میں چھوڑ کر آئے

یہی وہ مصلحت اللہ ہے جسے فرشتوں کو بتایا گیا کہ میں جانتا ہوں اور تم نہیں جانتے۔ ان فرشتوں کو اسی چیز کو دیکھنے کے لئے بھیجا جاتا ہے اور دن کے اعمال رات سے پہلے اور رات کے دن سے پہلے اللہ العالمین کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں۔

غرض تفصیلی حکمت جو پیدائش انسان میں تھی اسکی نسبت فرمایا کہ یہ میرے مخصوص علم میں ہے۔ جو تمہیں معلوم نہیں

بعض کہتے ہیں یہ جواب فرشتوں کے اس قول کا ہے کہ ہم تیری تسبیح وغیرہ کرتے رہتے ہیں تو انہیں فرمایا گیا کہ میں ہی جانتا ہوں تم جیسا سب کو یکساں سمجھتے ہو ایسا نہیں بلکہ تم میں ایک ابلیس بھی ہے۔

ایک تیسرا قول یہ ہے کہ فرشتوں کا یہ سب کہنا دراصل یہ مطلب رکھتا تھا کہ ہمیں زمین میں بسایا جائے تو جواباً کہا گیا کہ تمہاری آسمانوں میں رہنے کی مصلحت میں ہی جانتا ہوں اور مجھے علم ہے کہ تمہارے لائق جگہ یہی ہے واللہ اعلم۔

حسن قتادہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو خبر دی۔

سدی کہتے ہیں مشورہ لیا۔

لیکن اس کے معنی بھی خبر دینے کے ہو سکتے ہیں۔ اگر نہ ہوں تو پھر یہ بات بےوزن ہو جاتی ہے۔

 ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

 جب مکہ سے زمین پھیلائی اور بچھائی گئی تو بیت اللہ شریف کا طواف سب سے پہلے فرشتوں نے کیا اور زمین میں خلیفہ بنانے سے مراد مکہ میں خلیفہ بنانا ہے۔

یہ حدیث مرسل ہے پھر اس میں ضعف ہے اور مدرج ہے یعنی زمین سے مراد مکہ لینا راوی کا اپنا خیال ہے واللہ اعلم۔

بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ زمین سے ساری زمین مراد ہے۔ فرشتوں نے جب یہ سنا تو پوچھا تھا کہ وہ خلیفہ کیا ہو گا؟

اور جواب میں کہا گیا تھا کہ اس کی اولاد میں ایسے لوگ بھی ہوں گے جو زمین میں فساد کریں، حسد و بغض کریں، قتل و خون کریں ان میں وہ عدل و انصاف کرے گا اور میرے احکام جاری کرے گا تو اس سے مراد حضرت آدمؑ ہیں۔ جو ان کے قائم مقام اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور مخلوق میں عدل و انصاف کرنے کی بنا پر فساد پھیلانے اور خون بہانے والے خلیفہ نہیں۔

لیکن یہ یاد رہے کہ یہاں مراد خلافت سے ایک زمانہ جو دوسرے زمانہ کے بعد آتا ہے۔

خَلِيفَة فعیلہ کے وزن پر ہے۔ جب ایک کے بعد دوسرا اس کے قائم مقام ہو تو عرب کہتے ہیں۔ خلف فلان فلانا فلاں شخص کا خلیفہ ہوا جیسے قرآن میں ہے کہ ہم ان کے بعد تمہیں زمین کا خلیفہ بنا کر دیکھتے ہیں کہ تم کیسے عمل کرتے ہو اور اسی لئے سلطان اعظم کو خلیفہ کہتے ہیں اس لئے کہ وہ اگلے بادشاہ کا جانشین ہوتا ہے

محمد بن اسحق کہتے ہیں مراد یہ ہے کہ زمین کا ساکن اس کی آبادی کرنے والا ہے۔

ابن عباسؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

پہلے زمین میں جنات بستے تھے۔ انہوں نے اس میں فساد کیا اور خون بہایا اور قتل و غارت کی ابلیس کو بھیجا گیا اس نے اور اس کے ساتھیوں نے انہیں مار مار کر جزیروں اور پہاڑوں میں بھگا دیا حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کر کے زمین میں بسایا تو گویا یہ ان پہلے والوں کے خلیفہ اور جانشین ہوئے۔

پس فرشتوں کے قول سے مراد اولاد آدم ہیں جس وقت ان سے کہا گیا کہ میں زمین کو اور اس میں بسنے والی مخلوق کو پیدا کرنا چاہتا ہوں۔ اس وقت زمین تھی لیکن اس میں آبادی نہ تھی۔

بعض صحابہ سے یہ بھی مروی ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں معلوم کروا دیا تھا کہ اولاد آدم ایسے ایسے کام کرے گی تو انہوں نے یہ پوچھا

اور یہ بھی مروی ہے کہ جنات کے فساد پر انہوں نے بنی آدم کے فساد کو قیاس کر کے یہ سوال کیا۔

حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ آدم علیہ السلام سے دو ہزار سال پہلے سے جنات زمین میں آباد تھے۔

ابوالعالیہ فرماتے ہیں فرشتے بدھ کے دن پیدا ہوئے اور جنات کو جمعرات کے دن پیدا کیا اور جمعہ کے دن آدم علیہ السلام پیدا ہوئے

حضرت حسن اور حضرت قتادہ کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں خبر دی تھی کہ ابن آدم ایسا ایسا کریں گے اس بنا پر انہوں نے سوال کیا

ابو جعفر محمد بن علیؒ فرماتے ہیں کہ سجل نامی ایک فرشتہ ہے جس کے ساتھی ہاروت ماروت تھے۔ اسے ہر دن تین مرتبہ لوح محفوظ پر نظر ڈالنے کی اجازت تھی۔ ایک مرتبہ اس نے آدم علیہ السلام کی پپدائش اور دیگر امور کا جب مطالعہ کیا تو چپکے سے اپنے ان دونوں ساتھیوں کو بھی اطلاع کر دی۔ اب جو اللہ تعالیٰ نے اپنا ارادہ ظاہر فرمایا تو ان دونوں نے یہ سوال کیا

لیکن یہ روایت غریب ہے اور صبح مان لینے پر بھی ممکن ہے کہ ابو جعفر نے اسے اہل کتاب یہود و نصاریٰ سے اخذ کیا ہو۔ بہر صورت یہ ایک واہی تواہی روایت ہے اور قابل تردید ہے۔ واللہ اعلم

پھر اس روایت میں ہے کہ دو فرشتوں نے یہ سوال کیا۔ یہ قرآن کی روانی عبارت کے بھی خلاف ہے۔

یہ بھی روایت میں  مروی ہے کہ یہ کہنے والے فرشتے دس ہزار تھے اور وہ سب کے سب جلا دئیے گئے۔ یہ بھی بنی اسرائیلی روایت ہے اور بہت ہی غریب ہے

امام ابن جریر فرماتے ہیں اس سوال کی انہیں اجازت دی گئی تھی اور یہ بھی معلوم کرا دیا گیا تھا کہ یہ مخلوق نافرمان بھی ہو گی تو انہوں نے نہایت تعجب کے ساتھ اللہ کی مصلحت معلوم کرنے کے لئے یہ سوال کیا نہ کہ کوئی مشورہ دیا یا انکار کیا یا اعتراض کیا ہو۔

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ جب آدم علیہ السلام کی پیدائش شروع ہوئی تو فرشتوں نے کہا ناممکن ہے کہ کوئی مخلوق ہم سے زیادہ بزرگ اور عالم ہو تو اس پر یہ امتحان اللہ کی طرف سے آیا اور کوئی مخلوق امتحان سے نہیں چھوٹی۔ زمین اور آسمان پر بھی امتحان آیا تھا اور انہوں نے سرخم کر کے اطاعت الہٰیہ کے لئے آمادگی ظاہر کی

فرشتوں کی تسبیح و تقدیس سے مراد اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرنا نماز پڑھنا بے ادبی سے بچنا، بڑائی اور عظمت کرنا ہے۔ فرماں برداری کرنا سبوح قدوس وغیرہ پڑھنا ہے۔

الْقُدُّوسُ کے معنی پاک کے ہیں۔ پاک زمین کو مقدس کہتے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوتا ہے کہ کونسا کلام افضل ہے جواب دیتے ہیں:

وہ جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کے لئے پسند فرمایا  سبحان اللہ وبحمدہ  (صحیح مسلم)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج والی رات آسمانوں پر فرشتوں کی یہ تسبیح سنی سُبحَانَ الاَعلٰی الاَعلٰی سُبحَانَہُ وَ تَعَالٰی

خلیفہ کے فرائض اور خلافت کی نوعیت

امام قرطبی نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ خلیفہ کا مقرر کرنا واجب ہے تاکہ وہ لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کرے، ان کے جھگڑے چکائے، مظلوب کا بدلہ ظالم سے لے، حدیں قائم کرے، برائیوں کے مرتکب لوگوں کو ڈانٹے ڈپٹے وغیرہ، وہ بڑے بڑے کام جو بغیر امام کے انجام نہیں پا سکتے۔ چونکہ یہ کام واجب ہیں اور یہ بغیر امام کے پورے نہیں ہو سکتے اور جس چیز کے بغیر واجب پورا نہ ہو وہ بھی واجب ہو جاتی ہے لہذا خلیفہ کا مقرر کرنا واجب ثابت ہوا۔

 امامت یا تو قرآن و حدیث کے ظاہری لفظوں سے ملے گی جیسے کہ اہل سنت کی ایک جماعت کا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسبت خیال ہے کہ ان کا نام حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافت کے لئے لیا تھا یا قرآن و حدیث سے اس کی جانب اشارہ ہو۔ جیسے اہل سنت ہی کی دوسری جماعت کا خلیفہ اول کی بابت یہ خیال ہے کہ اشارۃ ان کا ذکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافت کے لئے کیا۔

یا ایک خلیفہ اپنے بعد دوسرے کو نامزد کر جائے جیسے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا جانشین مقرر کر دیا تھا۔

یا وہ صالح لوگوں کی ایک کمیٹی بنا کر انتخاب کا کام ان کے سپرد کر جائے جیسے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا تھا

یا اہل حل و عقد (یعنی بااثر سرداران لشکر علماء و صلحاء وغیرہ) اس کی بیعت پر اجماع کر لیں یا ان میں سے کوئی اس کی بیعت کر لے تو جمہور کے نزدیک اس کا لازم پکڑنا واجب ہو جائے گا۔

 امام الحرمین نے اس پر اجماع نقل کیا ہے واللہ العلم

یا کوئی شخص لوگوں کو بزور و جبر اپنی ماتحتی پر بےبس کر دے تو بھی واجب ہو جاتا ہے کہ اس کے ہاتھ پر بیعت کر لیں تاکہ پھوٹ اور اختلاف نہ پھیلے۔ امام شافعی نے صاف لفظوں میں اس کا فیصلہ کیا ہے۔ اس بیعت کے وقت گواہوں کی موجودگی کے واجب ہونے میں اختلافات ہے

 بعض تو کہتے ہیں یہ شرط نہیں، بعض کہتے ہیں شرط ہے اور دو گواہ کافی ہیں۔ جبائی کہتا ہے بیعت کرنے والے اور جس کے ہاتھ پر بیعت ہو رہی ہے ان دونوں کے علاوہ چار گواہ چاہئیں۔ جیسے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ نے شوریٰ کے چھ ارکان مقرر کئے تھے پھر انہوں نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مختار کر دیا اور آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر باقی چاروں کی موجودگی میں بیعت کی لیکن اس استدلال میں اختلاف ہے۔ واللہ اعلم

 امام کا مرد ہونا، آزاد ہونا، بالغ ہونا، عقلمند ہونا، مسلمان ہونا، عادل ہونا، مجتہد ہونا، آنکھوں والا ہونا، صحیح سالم اعضاء والا ہونا، فنون جنگ سے اور رائے سے خبردار ہونا، قریشی ہونا واجب ہے اور یہی صحیح ہے۔

 امام اگر فاسق ہو جائے تو اسے معزول کر دینا چاہیے یا نہیں؟ اس میں اختلاف ہے اور صحیح یہ ہے کہ معزول نہ کیا جائے کیونکہ حدیث میں ہے کہ جب تک ایسا کھلا کفر نہ دیکھ لو جسکے کفر ہونے کی ظاہر دلیل اللہ کی طرف سے تمہارے پاس ہو،ہاں ہاشمی ہونا اور خطا سے معصوم ہونا شرط نہیں۔ یہ دونوں شرطیں متشدد رافضی لگاتے ہیں

 اسی طرح خود امام اپنے آپ معزول ہو سکتا ہے یا نہیں؟اس میں بھی اختلاف ہے۔ حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ خودبخود آپ ہی معزول ہو گئے تھے اور امر امامت حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سونپ دیا تھا لیکن یہ عذر کے باعث تھا جس پر ان کی تعریف کی گئی ہے۔

روئے زمین پر ایک سے زیادہ امام ایک وقت میں نہیں ہو سکتے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

 جب تم میں اتفاق ہو اور کوئی اگر تم میں جدائی ڈالنی چاہے تو اسے قتل کر دو خواہ کوئی بھی ہو۔

 جمہور کا یہی مذہب ہے اور بہت سے بزرگوں نے اس پر اجماع نقل کیا ہے جن میں سے ایک امام الحرمین ہیں۔

لیکن صحیح مسلم والی حدیث آپ ابھی اوپر چڑھ چکے ہیں کہ دوسرے کو قتل کر ڈالو۔ اس لئے صحیح مذہب وہی ہے جو پہلے بیان ہوا

امام الحرمین نے استاذ ابو اسحاق سے بھی حکایت کی ہے وہ دو اور زیادہ اماموں کا مقرر کرنا اس وقت جائز جانتے ہیں جب مسلمانوں کی سلطنت بہت بڑی وسیع ہو اور چاروں طرف پھیلی ہوئی ہو اور دو اماموں کے درمیان کئی ملکوں کا فاصلہ ہو۔

 امام الحرمین اس میں ترود میں ہیں، خلفائے بنی عباسؓ کا عراق میں اور خلفائے بنی فاطمہ کا مصر میں اور خاندان بنی امیہ کا مغرب میں میرے خیال سے یہی حال تھا۔

 اس کی بسط و تفصیل انشاء اللہ کتاب الاحکام کی کسی مناسب جگہ ہم کریں گے۔

وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَائِكَةِ فَقَالَ أَنْبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَؤُلَاءِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (۳۱)

اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام نام سکھا کر ان چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا، اگر تم سچے ہو تو ان چیزوں کے نام بتاؤ‏

یہاں سے اس بات کا بیان ہو رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک خاص علم میں حضرت آدم ؑ  کو فرشتوں پر بھی فضیلت دی۔

یہ واقعہ فرشتوں کے سجدہ کرنے کے بعد کا ہے لیکن اللہ کی جو حکمت آپ کے پیدا کرنے میں تھی اور جس کا علم فرشتوں کو نہ تھا اور اس کا اجمالی بیان اوپر کی آیت میں گزرا ہے اس کی مناسبت کی وجہ سے اس واقعہ کو پہلے بیان کیا اور فرشتوں کا سجدہ کرنا جو اس سے پہلے واقعہ ہوا تھا بعد میں بیان کر دیا تاکہ خلیفہ کے پیدا کرنے کی مصلحت اور حکمت ظاہر ہو جائے اور یہ معلوم ہو جائے کہ یہ شرافت اور فضیلت حضرت آدمؑ کو اس لئے ملی کہ انہیں وہ علم حاصل ہے جس سے فرشتے خالی ہیں،

فرمایا کہ حضرت آدم علیہ السلام کو تمام نام بتائے یعنی ان کی تمام اولاد کے علاوہ سب جانوروں، زمین، آسمان، پہاڑ، تری، خشکی، گھوڑے، گدھے، برتن، چرند، فرشتے، تارے وغیرہ تمام چھوٹی بڑی چیزوں کے نام بتائے گئے۔

امام ابن جریر فرماتے ہیں کہ فرشتوں اور انسانوں کے نام معلوم کرائے گئے تھے کیونکہ اس کے بعد عَرَضَهُمْ آتا ہے اور یہ ذی عقل لوگوں کے لئے آتا ہے۔ لیکن یہ کوئی ایسی معقول وجہ نہیں جہاں ذی عقل اور غیر ذی عقل جمع ہوتے ہیں وہاں جو لفظ لایا جاتا ہے وہ عقل و ہوش رکھنے والوں کے لئے ہی لایا جاتا ہے جیسے قرآن میں ہے:

وَاللَّهُ خَلَقَ كُلَّ دَابَّةٍ مِّن مَّاءٍ ۖ ۔۔۔ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (۲۴:۴۵)

تمام کے تمام چلنے پھرنے والے جانداروں کو اللہ تعالیٰ ہی نے پانی سے پیدا کیا ان میں سے بعض تو اپنے پیٹ کے بل چلتے ہیں بعض دو پاؤں پر چلتے ہیں بعض چارپاؤں پر ،

اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے بیشک اللہ تعالیٰ ہرچیز پر قادر ہے۔‏

پس اس آیت سے ظاہر ہے کہ غیر ذی عقل بھی داخل ہیں مگر صیغے سب ذی عقل کے ہیں۔

علاوہ ازیں عَرَضَهُنَّ بھی عبداللہ بن مسعودؓ کی قرأت میں ہے اور ابی بن کعب کی قرأت میں عَرَضَهَا بھی ہے۔

صحیح قول یہی ہے کہ تمام چیزوں کے نام سکھائے تھے ذاتی نام بھی صفاتی نام بھی اور کاموں کے نام بھی، جیسے کہ حضرت ابن عباسؓ کا قول ہے کہ گوز کا نام تک بھی بتایا گیا تھا۔

صحیح بخاری کتاب التفسیر میں اس آیت کی تفسیر میں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ حدیث لائے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 ایمان دار قیامت کے دن جمع ہوں گے اور کہیں گے کیا اچھا ہو گا اگر کسی کو ہم اپنا سفارشی بنا کر اللہ کے پاس بھیجیں چنانچہ یہ سب کے سب حضرت آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور ان سے کہیں گے کہ آپ ہم سب کے باپ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اپنے فرشتوں سے آپ کو سجدہ کرایا آپ کو تمام چیزوں کے نام سکھائے۔ آپ اللہ تعالیٰ کے سامنے ہماری سفارش لے جائیں۔ جو ہم اس سے راحت پائیں۔ حضرت آدم علیہ السلام یہ سن کر جواب دیں گے کہ میں اس قابل نہیں۔ انہیں اپنا گناہ یاد آ جائے گا۔ تم نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ وہ پہلے رسول ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے زمین والوں کی طرف بھیجا۔

یہ لوگ جواب سن کر حضرت نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے

 آپ بھی یہی جواب دیں گے اور اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف اپنے بیٹے کے لئے اپنا دعا مانگنا یاد کر کے شرما جائیں گے اور فرمائیں گے تم خلیل الرحمٰن حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ۔

یہ سب آپ کے پاس آئیں گے لیکن یہاں سے بھی یہی جواب پائیں گے۔ آپ فرمائیں گے تم موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ جن سے اللہ نے کلام کیا اور جنہیں تورات عنایت فرمائی۔

یہ سن کر سب کے سب حضرت موسیٰؑ کے پاس آئیں گے اور آپ سے بھی یہی درخواست کریں گے لیکن یہاں سے بھی جواب پائیں گے آپ کو بھی ایک شخص کو بغیر قصاص کے مار ڈالنا یاد آ جائے گا اور شرمندہ ہو جائیں گے اور فرمائیں گے تم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول اور کلمۃ اللہ اور روح اللہ ہیں۔

یہ سب ان کے پاس بھی جائیں گے لیکن یہاں سے بھی یہی جواب ملے گا کہ میں اس لائق نہیں تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ جن کے تمام اگلے پچھلے گناہ بخش دئیے گئے ہیں۔

اب وہ سارے کے سارے میرے پاس آئیں گے میں آمادہ ہو جاؤں گا اور اپنے رب سے اجازت طلب کروں گا۔

 مجھے اجازت دے دی جائے گی میں اپنے رب کو دیکھتے ہی سجدے میں گر پڑوں گا جب تک اللہ کو منظور ہو گا سجدے میں ہی پڑا رہوں گا

پھر آواز آئے گی کہ سر اٹھائیے سوال کیجئے پورا کیا جائے گا، کہئے سنا جائے گا، شفاعت کیجئے قبول کی جائے گی۔

اب میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور اللہ تعالیٰ کی وہ تعریفیں بیان کروں گا جو اسی وقت اللہ تعالیٰ مجھے سکھائے گا پھر میں شفاعت کروں گا۔

 میرے لئے حد مقرر کر دی جائے گی میں انہیں جنت میں پہنچا کر پھر آؤں گا۔ پھر اپنے رب کو دیکھ کر اسی طرح سجدہ میں گر پڑوں گا۔

 پھر شفاعت کروں گا پھر حد مقرر ہو گی انہیں بھی جنت میں پہنچا کر تیسری مرتبہ آؤں گا

 پھر چوتھی بار حاضر  ہوں گا یہاں تک کہ جہنم میں صرف وہی رہ جائیں گے جنہیں قرآن نے روک رکھا ہو اور جن کے لئے جہنم کی مداومت واجب ہو گئی ہو (یعنی شرک و کفر کرنے والے)

صحیح مسلم شریف میں نسائی میں ابن ماجہ وغیرہ میں یہ حدیث شفاعت موجود ہے۔

یہاں اس کے وارد کرنے سے مقصود یہ ہے کہ اس حدیث میں یہ جملہ بھی ہے کہ لوگ حضرت آدم علیہ السلام سے کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام چیزوں کے نام سکھائے۔

پھر ان چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور ان سے فرمایا کہ لو اگر تم اپنے قول میں سچے ہو کہ تم ساری مخلوق سے زیادہ علم والے ہو یا اپنی اس بات میں سچے ہو کہ اللہ تعالیٰ زمین میں خلیفہ نہ بنائے گا تو ان چیزوں کے نام بتاؤ۔

یہ بھی مروی ہے کہ اگر تم اپنی اس بات میں کہ بنی آدم فساد کریں گے اور خون بہائیں گے سچے ہو تو ان کے نام بتاؤ۔

 لیکن قول پہلا ہی ہے۔ گویا اس میں انہیں ڈانٹا گیا کہ بتاؤ تمہارا قول کہ تم ہی زمین کی خلافت کے لائق ہو اور انسان نہیں۔

تم ہی میرے تسبیح خواں اور اطاعت گزار ہو اور انسان نہیں۔

اگر تم صحیح ہو تو لو یہ چیزیں جو تمہارے سامنے موجود ہیں۔ انہی کے نام بتاؤ۔ اور اگر تم نہیں بتا سکتے تو سمجھ لو کہ جب موجودہ چیزوں کے نام بھی تمہیں معلوم نہیں تو آئندہ آنے والی چیزوں کی نسبت تمہیں علم کیسے ہو گا؟

قَالُوا سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ۖ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ (۳۲)

ان سب نے کہا اے اللہ! تیری ذات پاک ہے ہمیں تو صرف اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھا رکھا ہے پورے علم و حکمت والا تو تو ہی ہے‏

فرشتوں نے یہ سنتے ہی اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی اور بڑائی اور اپنے علم کی کمی بیان کرنا شروع کر دی اور کہہ دیا کہ جسے جتنا کچھ اے اللہ تو نے سکھا دیا اتنا ہی علم اسے حاصل ہے تمام چیزوں پر احاطہ رکھنے والا علم تو صرف تجھی کو ہے تو ہر چیز کا جاننے والا ہے اپنے تمام احکام میں حکمت رکھنے والا ہے جسے جو سکھائے وہ بھی حکمت سے اور جسے نہ سکھائے وہ بھی حکمت سے تو حکمتوں والا اور عدل والا ہے۔

ابن عباسؓ فرماتے ہیں سُبْحَانَ اللَّهِ کے معنی اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی کے ہیں کہ وہ ہر برائی سے منزہ ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت علیؓ اور اپنے پاس کے دوسرے اصحاب سے ایک مرتبہ سوال کیا کہ لا الہ الا اللہ تو ہم جانتے ہیں لیکن سُبْحَانَ اللَّهِ کیا کلمہ ہے؟ تو حضرت علیؓ نے جواب دیا کہ اس کلمہ کو باری تعالیٰ نے اپنے نفس کے لئے پسند فرمایا ہے اور اس سے وہ خوش ہوتا ہے اور اس کا کہنا اسے محبوب ہے۔

حضرت میمون بن مہران فرماتے ہیں کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی تعظیم ہے اور تمام برائیوں سے پاکیزگی کا بیان ہے۔

قَالَ يَا آدَمُ أَنْبِئْهُمْ بِأَسْمَائِهِمْ ۖ فَلَمَّا أَنْبَأَهُمْ بِأَسْمَائِهِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ

اللہ تعالیٰ نے آدم ؑ سے فرمایا تم ان کے نام بتا دو۔ جب انہوں نے بتا دئیے تو فرمایا کہ میں نے تمہیں (پہلے ہی) نہ کہا تھا زمین اور آسمان کا غیب میں ہی جانتا ہوں

حضرت آدمؑ نے نام بتا دئیے کہ تمہارا نام جبرائیل ہے تمہارا نام میکائیل ہے، تم اسرافیل ہو یہاں تک کہ چیل کوے وغیرہ سب کے نام بھی جب ان سے پوچھے گئے تو انہوں نے بتا دیئے۔

وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا كُنْتُمْ تَكْتُمُونَ (۳۳)

اور میرے علم میں ہے جو تم ظاہر کر رہے ہو اور جو تم چھپاتے ہو ۔

جب حضرت آدم علیہ السلام کی یہ فضیلت فرشتوں کو معلوم ہوئی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا دیکھو میں نے تم سے پہلے نہ کہا تھا کہ میں ہر پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہوںجیسے اور جگہ ہے:

وَإِن تَجْهَرْ بِالْقَوْلِ فَإِنَّهُ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَى (۲۰:۷)

اگر تو اونچی بات کہے تو وہ تو ہر ایک پوشیدہ، بلکہ پوشیدہ سے پوشیدہ تر بات کو بھی بخوبی جانتا ہے‏

اور ارشاد فرمایا:

أَلاَّ يَسْجُدُواْ للَّهِ الَّذِى يُخْرِجُ الْخَبْءَ ۔۔۔ لاَ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ (۲۷:۲۵،۲۶)

کہ اسی اللہ کے لئے سجدے کریں جو آسمانوں اور زمینوں کی پوشیدہ چیزوں کو باہر نکالتا ہے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو اور ظاہر کرتے ہو وہ سب کچھ جانتا ہے۔

‏ اسکے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ عظمت والے عرش کا مالک ہے

جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو چھپاتے تھے اسے بھی میں جانتا ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ ابلیس کے دل میں جر تکبر اور غرور تھا اسے میں جانتا تھا۔

فرشتوں کا یہ کہنا کہ زمین میں ایسی شخصیت کو کیوں پیدا کرتا ہے جو فساد کرے اور خون بہائے یہ تو وہ قول تھا جسے انہوں نے ظاہر کیا تھا اور جو چھپایا تھا وہ ابلیس کے دل میں غرور اور تکبر تھا۔

ابن عباسؓ ابن مسعودؓ اور بعض صحابہؓ اور سعید بن جبیر اور مجاہد اور سدی اور ضحاک اور ثوری کا یہی قول ہے۔

ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں

 اور ابوالعالیہ ربیع بن انس حسن اور قتادہ کا قول ہے کہ ان کی باطن بات ان کا یہ کہنا تھا کہ جس مخلوق کو اللہ تعالیٰ پیدا کرے گا ہم اس سے زیادہ عالم اور زیادہ بزرگ ہوں گے لیکن بعد میں ثابت ہو گیا اور خود انہوں نے بھی جان لیا کہ آدم علیہ السلام کو علم اور فضیلت دونوں میں ان پر فوقیت حاصل ہے۔

 حضرت عبدالرحمٰن بن زید فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا جس طرح تم ان چیزوں کے ناموں سے بےخبر ہو اسی طرح تم یہ بھی نہیں جان سکتے کہ ان میں بھلے برے ہر طرح کے ہوں گے۔ فرمانبردار بھی ہوں گے اور نافرمان بھی۔ اور میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ مجھے جنت دوزخ دونوں کو بھرنا ہے لیکن تمہیں میں نے اس کی خبر نہیں دی۔ اب جب کہ فرشتوں نے حضرت آدم کو دیا ہوا علم دیکھا تو ان کی بندگی کا اقرار کر لیا۔

امام ابن جریر فرماتے ہیں:

سب سے اولیٰ قول حضرت ابن عباسؓ کا ہے کہ آسمان و زمین کے غیب کا علم تمہارے ظاہر و باطن کا علم مجھے ہے ان کے ظاہری قول کو اور ابلیس کے باطنی عجب و غرور کو بھی جانتا تھا۔ اس میں چھپانے والا صرف ایک ابلیس ہی تھا لیکن صیغہ جمع کا لایا گیا ہے اس لئے کہ عرب میں یہ دستور ہے اور ان کے کلام میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ ایک کے یا بعض کے ایک کام کو سب کی طرف نسبت کر دیا کرتے وہ کہتے ہیں کہ لشکر مار ڈالا گیا یا انہیں شکست ہوئی حالانکہ شکست اور قتل ایک کا یا بعض کا ہوتا ہے اور صیغہ جمع کا لاتے ہیں۔

بنو تمیم کے ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے حجرے کے آگے سے پکارا تھا لیکن قرآن میں اس کا بیان ان لفظوں میں ہے کہ إِنَّ الَّذِينَ يُنَادُونَكَ مِن وَرَاءِ الْحُجُرَاتِ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ (۴۹:۴) جو لوگ تمہیں اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم حجروں کے آگے سے پکارتے ہیں تو دیکھئے کہ پکار نے والا ایک تھا اور صیغہ جمع کا لایا گیا۔اسی طرح آیت وَمَا كُنْتُمْ تَكْتُمُونَ میں بھی اپنے دل میں بدی کو چھپانے والا صرف ایک ابلیس ہی تھا لیکن صیغہ جمع کا لایا گیا۔

وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ

اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا۔

حضرت آدم علیہ السلام کی اس بہت بڑی بزرگی کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر اپنا بہت بڑا احسان فرمایا اور خبر دی کہ اس نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں۔

اس کی تصدیق میں بہت سی حدیثیں ہیں ایک تو حدیث شفاعت جو ابھی بیان ہوئی۔ دوسری حدیث میں ہے :

موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ میری ملاقات حضرت آدم علیہ السلام سے کرا دیجئے جو خود بھی جنت سے نکلے اور ہم سب کو بھی نکالا۔

جب دونوں پیغمبر جمع ہوئے تو موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ تم وہ آدم ہو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور اپنی روح تم میں بھی پھونکی اور اپنے فرشتوں سے تمہیں سجدہ کرایا (آخر تک) پوری حدیث عنقریب بیان ہو گی انشاء اللہ تعالیٰ۔

 ابن عباسؓ فرماتے ہیں ابلیس فرشتوں کے ایک قبیلہ میں سے تھا جنہیں جن کہتے تھے جو آگ کے شعلوں سے پیدا ہوئے تھے۔ اس کا نام حارث تھا اور جنت کا خازن تھا۔ اس قبیلے کے سوا اور فرشتے سب کے سب نوری تھے۔

قرآن نے بھی ان جنوں کی پیدائش کا ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے:

وَخَلَقَ الْجَانَّ مِن مَّارِجٍ مِّن نَّارٍ (۵۵:۱۵)

اور جنات کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا

آگ کے شعلے کی جو تیزی سے بلند ہوتے ہیں اسے مَارِج کہتے ہیں جس سے جن پیدا کئے گئے تھے اور انسان مٹی سے پیدا کیا گیا۔

زمین میں پہلے جن بستے تھے۔ انہوں نے فساد اور خون ریزی شروع کی تو اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو فرشتوں کا لشکر دے کر بھیجا انہی کو جن کہا جاتا تھا۔ ابلیس نے لڑ بھڑ کر مارتے اور قتل کرتے ہوئے انہیں سمندر کے جزیروں اور پہاڑوں کے دامنوں میں پہنچا دیا اور ابلیس کے دل میں یہ تکبر سما گیا کہ میں نے وہ کام کیا ہے جو کسی اور سے نہ ہو سکا۔

چونکہ دل کی اس بدی اور اس پوشیدہ خودی کا علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو تھا۔ جب پروردگار نے فرمایا کہ زمین میں خلیفہ پیدا کرنا چاہتا ہوں تو ان فرشتوں نے عرض کیا کہ ایسے کو کیوں پیدا کرتا ہے جو اگلی قوم کی طرح فساد و خونریزی کریں تو انہیں جواب دیا گیا کہ میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے یعنی ابلیس کے دل میں جو کبرو غرور ہے اس کا مجھی کو علم ہے تمہیں خبر نہیں

پھر آدم علیہ السلام کی مٹی اٹھائی گئی جو چکنی اور اچھی تھی۔ جب اس کا خمیر اٹھا تب اس سے حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور چالیس دن تک وہ یونہی پتلے کی شکل میں رہے ابلیس آتا تھا اور اس پر لات مار کر دیکھتا تھا تو وہ بجتی مٹی ہوتی جیسے کوئی کھوکھلی چیز ہو پھر منہ کے سوراخ سے گھس کر پیچھے کے سوراخ سے اور اس کے خلاف آتا جاتا رہا اور کہتا رہا کہ درحقیقت یہ کوئی چیز نہیں اور اگر میں اس پر مسلط کیا گیا تو اسے برباد کر کے چھوڑ دوں گا اوراگر  اسے مجھ پر مسلط کیا گیا تو میں ہرگز تسلیم نہ کروں گا۔

پھر جب اللہ تعالیٰ نے ان میں روح پھونکی اور وہ سر کی طرف سے نیچے کی طرف آئی تو جہاں جہاں تک پہنچتی گئی خون گوشت بنتا گیا۔ جب ناف تک روح پہنچی تو اپنے جسم کو دیکھ کر خوش ہوئے اور فوراً اٹھنا چاہا لیکن نیچے کے دھڑ میں روح نہیں پہنچتی تھی اس لئے اٹھ نہ سکے اسی جلدی کا بیان اس آیت میں ہے:

وَكَانَ الْإِنسَانُ عَجُولًا (۱۷:۱۱)

انسان ہی بڑا جلد باز ہے

یعنی انسان بےصبرا اور جلد باز ہے نہ تو خوشی میں صبر نہ رنج میں۔

جب روح جسم میں پہنچی اور چھینک آئی تو کہا الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ اللہ تعالیٰ نے جواب دیا  یرحمک اللہ

 پھر صرف ابلیس کے ساتھی فرشتوں سے فرمایا کہ آدم کے سامنے سجدہ کرو تو ان سب نے سجدہ کیا لیکن ابلیس کا وہ غرور و تکبر ظاہر ہو گیا اس نے نہ مانا

أَبَى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ (۳۴)

اس نے انکار کیا اور تکبر کیا اور وہ کافروں میں ہو گیا۔

اور سجدے سے انکار کر دیااور کہنے لگا میں اس سے بہتر ہوں اس سے بڑی عمر والا ہوں۔ اور اس سے قوی اور مضبوط ہوں۔ یہ مٹی سے پیدا کیا گیا ہے اور میں آگ سے بنا ہوں اور آگ مٹی سے قوی ہے۔ اس کے انکار پر اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی رحمت سے ناامید کر دیا اور اسی لئے اسے ابلیس کہا جاتا ہے۔اس کی نافرمانی کی سزا میں اسے راندہ درگاہ شیطان بنا دیا

پھر حضرت آدم علیہ السلام کو انسان جانور زمین سمندر پہاڑ وغیرہ کے نام بتا کر ان کو ان فرشتوں کے سامنے پیش کیا جو ابلیس کے ساتھی تھے اور آگ سے پیدا شدہ تھے اور ان سے فرمایا کہ اگر تم اس بات میں سچے ہو کہ میں زمین میں اسے خلیفہ نہ بناؤں تو ذرا مجھے ان چیزوں کے نام تو بتا دو۔

جب ان فرشتوں نے دیکھا کہ ہماری اگلی بات سے اللہ العالمین ناراض ہے تو وہ کہنے لگے کہ اللہ عزوجل تو اس بات سے پاک ہے کہ تیرے سوا کوئی اور غیب کو جانے ہماری توبہ ہے اور اقرار ہے کہ ہم غیب داں نہیں۔ ہم تو صرف وہی جان سکتے ہیں جس کا علم تو ہمیں دے دے۔ جیسے تو نے ان کے نام صرف حضرت آدم علیہ السلام کو ہی سکھائے ہیں۔

اب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے فرمایا کہ تم انہیں ان تمام چیزوں کے نام بتا دو چنانچہ انہوں نے بتا دئیے تو فرمایا اے فرشتو! کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ آسمان و زمین کے غیب کا جاننے والا صرف میں اکیلا ہی ہوں اور کوئی نہیں۔ میں ہر پوشیدہ چیز کو بھی ویسا ہی جانتا ہوں جیسے ظاہر کو اور تم سب اس سے بےخبر ہو

لیکن یہ قول بھی غریب ہے اور اس میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جن میں خامیاں ہیں ہم اگر انہیں الگ الگ بیان کریں تو مضمون بہت بڑھ جائے گا اور ابن عباسؓ تک اس اثر کی سند بھی وہی ہے جس سے ان کی مشہور تفسیر مروی ہے۔

 ایک اور حدیث میں بھی اسی طرح مروی ہے جس کے متن میں کچھ کمی زیادتی بھی ہے اور اس میں یہ بھی ہے :

زمین کی مٹی لینے کے لئے جب حضرت جبرائیل گئے تو زمین نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتی ہوں کہ تو مجھ میں سے کچھ گھٹائے

وہ واپس چلے گئے پھر ملک الموت کو بھیجا۔زمین نے ان سے بھی یہی کہا لیکن انہوں نے جواب دیا کہ میں بھی اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتا ہوں کہ میں اللہ کا حکم پورا کئے بغیر واپس چلا جاؤں چنانچہ انہوں نے تمام روئے زمین سے ایک ایک مٹھی مٹی لی۔ چونکہ مٹی کا رنگ کہیں سرخ تھا کہیں سفید کہیں سیاہ اسی وجہ سے انسانوں کی رنگتیں بھی طرح طرح کی ہوئیں

لیکن یہ روایت بھی بنو اسرائیل کی روایات سے ماخوذ ہے غالباً اس میں بہت سی باتیں نیچے کے لوگوں کی ملائی گئی ہیں۔ صحابی کا بیان ہی نہیں اگر صحابی کا قول بھی ہو تو بھی انہوں نے بعض اگلی کتابوں سے لیا ہو گا۔ واللہ اعلم

ابلیس

حاکم اپنی مستدرک میں بہت سی ایسی روایتیں لائے ہیں اور ان کی سند کو بخاری سے مشروط کیا ہے۔

مقصد یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ تم حضرت آدم کو سجدہ کرو تو اس خطاب میں ابلیس بھی داخل تھا اس لئے کہ گو وہ ان میں سے نہ تھا لیکن ان ہی جیسا اور ان ہی جیسے کام کرنے والا تھا اس لئے اس خطاب میں داخل تھا اور پھر نافرمانی کی سزا بھگتی۔ اس کی تفصیل انشاء اللہ تعالیٰ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ (۱۸:۵۰)کی تفسیر میں آئے گی۔

ابن عباسؓ کہتے ہیں نافرمانی سے پہلے وہ فرشتوں میں تھا۔ عزازیل اس کا نام تھا زمین پر اس کی رہائش تھی اجتہاد اور علم میں بہت بڑا تھا اور اسی وجہ سے دماغ میں رعونت تھی اور اس کی جماعت کا اور اس کا تعلق جنوں سے تھا۔ اس کے چار پر تھے۔ جنت کا خازن تھا زمین اور آسمان دونوں کا سلطان تھا۔

حضرت حسن فرماتے ہیں۔ ابلیس کبھی فرشتہ نہ تھا اس کی اصل جنات سے ہے جیسے کہ آدم کی اصل انس سے ہے

 اس کی اسناد صحیح ہے۔

عبدالرحمٰن بن زید اور شہر بن حوشب کا بھی یہی قول ہے۔

سعد بن مسعود کہتے ہیں کہ فرشتوں نے جنات کو جب مارا تب اسے قید کیا تھا اور آسمان پر لے گئے تھے وہاں کی عبادت کی وجہ سے رہ پڑا۔

ابن عباسؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ پہلے ایک مخلوق کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا انہیں حضرت آدمؑ کو سجدہ کرنے کو کہا۔ انہوں نے انکار کیا جس پر وہ جلا دئیے گئے ، دوسری مخلوق پیدا کی انکا بھی یہی حشر ہوا پھر تیسری مخلوق پیدا کی انہوں نے تعمیل کی

لیکن یہ اثر بھی غریب ہے اور اس کی اسناد بھی تقریباً غیر صحیح ہے۔ اس میں ایک راوی مبہم ہے اس وجہ سے یہ روایت قابل حجت نہیں

الْكَافِرِينَ سے مراد نافرمان ہے۔

ابلیس کی ابتداء آفرینش ہی کفر و ضلالت پر تھی کچھ دن ٹھیک ٹھاک رہا لیکن پھر اپنی اصلیت پر آ گیا۔ سجدہ کرنے کا حکم بجا لانا اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور آدم علیہ السلام کا اکرام تھا۔

بعض لوگوں کا قول ہے کہ یہ سجدہ سلام اور عزت و اکرام کا تھا جیسے کہ حضرت یوسف ؑکے بارے میں فرمان ہے:

وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ وَخَرُّواْ لَهُ سُجَّدَا وَقَالَ يأَبَتِ هَـذَا تَأْوِيلُ رُؤْيَـى مِن قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّى حَقًّا (۱۲:۱۰۰)

اور اپنے تخت پر اپنے ماں باپ کو اونچا بٹھایا اور سب اسکے سامنے سجدے میں گر گئے تب کہا ابا جی! یہ میرے پہلے کے خواب کی تعبیر ہے میرے رب نے اسے سچا کر دکھایا،

اگلی اُمتوں میں سجدہ تعظیم جائز تھا لیکن ہمارے دین میں یہ منسوخ ہو گیا۔

حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے شامیوں کو اپنے سرداروں اور علماء کے سامنے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا تھا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے گزارش کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ اس کے زیادہ حقدار ہیں کہ آپ کو سجدہ کیا جائے تو آپ ﷺنے فرمایا :

اگر میں کسی انسان کو کسی انسان کے سامنے سجدہ کرنے کی اجازت دینے والا ہوتا تو عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوندوں کو سجدہ کریں کیونکہ ان کا ان پر بہت بڑا حق ہے۔

امام رازی نے اسی کو ترجیح دی ہے

بعض کہتے ہیں کہ سجدہ اللہ تعالیٰ ہی کے لئے تھا۔ حضرت آدم بطور قبلہ (یعنی سمت) کے تھے جیسے قرآن کریم میں ہے:

أَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَىٰ غَسَقِ اللَّ