صحیح بخاری شریف

فرد واحد کی خبر  کا بیان

Ahadith 7246-7267

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


ایک سچے شخص کی خبر پر اذان، نماز، روزے فرائض سارے احکام میں عمل ہونا

اور اللہ تعالیٰ نے  سورۃ التوبہ میں  فرمایا

فَلَوْلاَ نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ

ایسا کیوں نہیں کرتے ہر فرقہ میں سے کچھ لوگ نکلیں تاکہ وہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور لوٹ کر اپنی قوم کے لوگوں کو ڈرائیں اس لیے کہ وہ تباہی سے بچے رہیں۔(۹:۱۲۲)

اور ایک شخص کو بھی طائفہ کہہ سکتے ہیں جیسے  سورۃ الحجرات کی اس آیت میں فرمایا  :

‏‏‏‏وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا  

اگر مسلمانوں کے دو طائفے لڑ پڑیں ۔ (۴۹:۹)

اور اس میں وہ دو مسلمان بھی داخل ہیں جو آپس میں لڑ پڑیں  تو ہر ایک مسلمان ایک طائفہ ہوا

اور اسی سورت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا  :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُو

مسلمانو! جلدی مت کیا کرو  اگر تمہارے پاس بدکار شخص کچھ خبر لائے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو۔(۴۹:۶)

 اور اگر خبر واحد مقبول نہ ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کو حاکم بنا کر اور اس کے بعد دوسرے شخص کو کیوں بھیجتے اور یہ کیوں فرماتے کہ اگر پہلا حاکم کچھ بھول جائے تو دوسرا حاکم اس کو سنت کے طریق پر لگا دے۔

حدیث نمبر ۷۲۴۶

راوی: مالک رضی اللہ عنہ

ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ہم سب جوان اور ہم عمر تھے، ہم آپ کی خدمت میں بیس دن تک ٹھہرے رہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہت شفیق تھے۔ جب آپ نے معلوم کیا کہ اب ہمارا دل اپنے گھر والوں کی طرف مشتاق ہے تو آپ نے ہم سے پوچھا کہ اپنے پیچھے ہم کن لوگوں کو چھوڑ کر آئے ہیں۔ ہم نے آپ کو بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے گھر چلے جاؤ اور ان کے ساتھ رہو اور انہیں اسلام سکھاؤ اور دین بتاؤ اور بہت سی باتیں آپ نے کہیں جن میں بعض مجھے یاد نہیں ہیں اور بعض یاد ہیں اور  فرمایا کہ جس طرح مجھے تم نے نماز پڑھتے دیکھا اسی طرح نماز پڑھو۔ پس جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے ایک تمہارے لیے اذان کہے اور جو عمر میں سب سے بڑا ہو وہ امامت کرائے۔

حدیث نمبر ۷۲۴۷

راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  کسی شخص کو بلال رضی اللہ عنہ کی اذان سحری کھانے سے نہ روکے کیونکہ وہ صرف اس لیے اذان دیتے ہیں یا نداء کرتے ہیں تاکہ جو نماز کے لیے بیدار ہیں وہ واپس آ جائیں اور جو سوئے ہوئے ہیں وہ بیدار ہو جائیں اور فجر وہ نہیں ہے جو اس طرح لمبی دھار ہوتی ہے۔

 یحییٰ نے اس کے اظہار کے لیے اپنے دونوں ہاتھ ملائے اور کہا یہاں تک کہ وہ اس طرح ظاہر ہو جائے اور اس کے اظہار کے لیے انہوں نے اپنی دونوں شہادت کی انگلیوں کو پھیلا کر بتلایا۔

حدیث نمبر ۷۲۴۸

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  بلال  رمضان میں رات ہی میں اذان دیتے ہیں  وہ نماز فجر کی اذان نہیں ہوتی پس تم کھاؤ پیو، یہاں تک کہ عبداللہ ابن ام مکتوم اذان دیں  تو کھانا پینا بند کر دو۔

حدیث نمبر ۷۲۴۹

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ظہر کی پانچ رکعت نماز پڑھائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کیا نماز کی رکعتوں میں کچھ بڑھ گیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا بات ہے؟ صحابہ نے کہا کہ آپ نے پانچ رکعت نماز پڑھائی ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کے بعد دو سجدے  سہو کےکئے۔

حدیث نمبر ۷۲۵۰

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ہی رکعت پر مغرب یا عشاء کی نماز میں نماز ختم کر دی تو ذوالیدین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ!نماز کم کر دی گئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا ذوالیدین صحیح کہتے ہیں؟ لوگوں نے کہا جی ہاں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور آخری رکعتیں پڑھیں پھر سلام پھیرا، تکبیر کی اور سجدہ کیا نماز کے عام سجدے جیسا یا اس سے طویل، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا، پھر تکبیر کہی اور نماز کے سجدے جیسا سجدہ کیا، پھر سر اٹھایا۔

حدیث نمبر ۷۲۵۱

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

مسجد قباء میں لوگ صبح کی نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک آنے والے نے ان کے پاس پہنچ کر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر رات قرآن کی آیت نازل ہوئی ہے اور آپ کو حکم دیا گیا ہے کہ نماز میں کعبہ کی طرف منہ کر لیں پس تم بھی اسی طرف رخ کر لو۔ ان لوگوں کے چہرے شام یعنی بیت المقدس کی طرف تھے، پھر وہ لوگ کعبہ کی طرف مڑ گئے۔

حدیث نمبر ۷۲۵۲

راوی: براء بن عازب رضی اللہ عنہ

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ سولہ یا سترہ مہینے تک بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے لیکن آپ کی آرزو تھی کہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے  سورۃ البقرہ میں یہ آیت نازل کی  :

قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا  

ہم آپ کے منہ کے باربار آسمان کی طرف اٹھنے کو دیکھتے ہیں، عنقریب ہم آپ کو منہ کو اس قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جس سے آپ خوش ہوں گے۔چنانچہ رخ کعبہ کی طرف کر دیا گیا۔(۲:۱۴۴)  

 ایک صاحب نے عصر کی نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھی، پھر وہ مدینہ سے نکل کر انصار کی ایک جماعت تک پہنچے اور کہا کہ وہ گواہی دیتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی ہے اور کعبہ کی طرف منہ کرنے کا حکم ہو گیا ہے چنانچہ سب لوگ کعبہ رخ ہو گئے حالانکہ وہ عصر کی نماز کے رکوع میں تھے۔

حدیث نمبر ۷۲۵۳

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

میں ابوطلحہ انصاری، ابوعبیدہ بن الجراح اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہم کو کھجور کی شراب پلا رہا تھا۔ اتنے میں ایک آنے والے شخص نے آ کر خبر دی کہ شراب حرام کر دی گئی ہے۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے اس شخص کی خبر سنتے ہی کہا انس!ان مٹکوں کو بڑھ کر سب کو توڑ دے۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں ایک ہاون دستہ کی طرف بڑھا جو ہمارے پاس تھا اور میں نے اس کے نچلے حصہ سے ان مٹکوں پر مارا جس سے وہ سب ٹوٹ گئے۔

حدیث نمبر ۷۲۵۴

راوی: حذیفہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل نجران سے فرمایا  میں تمہارے پاس ایک امانت دار آدمی جو حقیقی امانت دار ہو گا بھیجوں گا۔  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ منتظر رہے کہ کون اس صفت سے موصوف ہےتو آپ نے ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو بھیجا۔

حدیث نمبر ۷۲۵۵

راوی: انس رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  ہر امت میں ایک امانت دار ہوتا ہے اور اس امت کے امانت دار ابوعبیدہ ابن الجراح رضی اللہ عنہ ہیں۔

حدیث نمبر ۷۲۵۶

راوی: عمر رضی اللہ عنہ

قبیلہ انصار کے ایک صاحب تھے  اوس بن خولیٰ نامجب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں شرکت نہ کر سکتے اور میں شریک ہوتا تو انہیں آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس کی خبریں بتاتا اور جب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں شریک نہ ہو پاتا اور وہ شریک ہوتے تو وہ آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس کی خبر مجھے بتاتے۔

حدیث نمبر ۷۲۵۷

راوی: علی رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا اور اس کا امیر عبداللہ بن حذافہ سہمی کو بنایا، پھر اس نے کیا کیا کہ آگ جلوائی اور لشکریوں سےکہا کہ اس میں داخل ہو جاؤ۔ جس پر بعض لوگوں نے داخل ہونا چاہا لیکن کچھ لوگوں نے کہا کہ ہم آگ ہی سے بھاگ کر آئے ہیں۔ پھر اس کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ جنہوں نے آگ میں داخل ہونے کا ارادہ کیا تھا کہ اگر تم اس میں داخل ہو جاتے تو اس میں قیامت تک رہتے۔ اور دوسرے لوگوں سے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت حلال نہیں ہے اطاعت صرف نیک کاموں میں ہے۔

حدیث نمبر ۷۲۵۸ - ۷۲۵۹

راوی: ابوہریرہ اور زید بن خالد رضی اللہ عنہما

دو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنا جھگڑا لائے۔

 تفصیل آگے حدیث ذیل میں ہے۔

حدیث نمبر ۷۲۶۰

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے کہ دیہاتیوں میں سے ایک صاحب کھڑے ہوئے اور کہا کہ یا رسول اللہ!کتاب اللہ کے مطابق میرا فیصلہ فرما دیجئیے۔ اس کے بعد ان کا مقابل فریق کھڑا ہوا اور کہا انہوں نے صحیح کہا یا رسول اللہ!ہمارا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کر دیجئیے اور مجھے کہنے کی اجازت دیجئیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کہو۔

انہوں نے کہا کہ میرا لڑکا ان کے یہاں مزدوری کیا کرتا تھا، پھر اس نے ان کی عورت سے زنا کر لیا تو لوگوں نے مجھے بتایا کہ میرے بیٹے پر رجم کی سزا ہو گی لیکن میں نے اس کی طرف سے سو بکریوں اور ایک باندی کا فدیہ دیا (اور لڑکے کو چھڑا لیا) پھر میں نے اہل علم سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اس کی بیوی پر رجم کی سزا لاگو ہو گی اور میرے لڑکے کو سو کوڑے اور ایک سال کے لیے جلا وطنی کی۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!میں تمہارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا، باندی اور بکریاں تو اسے واپس کر دو اور تمہارے لڑکے پر سو کوڑے اور ایک سال جلا وطنی کی سزا ہے اور اے انیس! اس کی بیوی کے پاس جاؤ، اگر وہ زنا کا اقرار کرے تو اسے رجم کر دو۔ چنانچہ انیس رضی اللہ عنہ ان کے پاس گئے اور اس نے اقرار کر لیا پھر انیس رضی اللہ عنہ نے اس کو سنگسار کر ڈالا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زبیر رضی اللہ عنہ کو اکیلے کافروں کی خبر لانے کے لیے بھیجنا

حدیث نمبر ۷۲۶۱

راوی: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما

غزوہ خندق کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمن سے خبر لانے کے لیےصحابہ سے کہا تو زبیر رضی اللہ عنہ تیار ہو گئے پھر ان سے کہا تو زبیر رضی اللہ عنہ ہی تیار ہوئے۔ پھر کہا، پھر بھی انہوں نے ہی آمادگی دکھلائی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر نبی کے حواری ہوتے ہیں اور میری حواری زبیر ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا سورۃ الاحزاب میں فرمان

لَا تَدۡخُلُواْ بُيُوتَ ٱلنَّبِىِّ إِلَّآ أَن يُؤۡذَنَ لَكُمۡ إِلَىٰ طَعَامٍ غَيۡرَ نَـٰظِرِينَ إِنَٮٰهُ

نبی کے گھروں میں نہ داخل ہو مگر اجازت لے کر جب تم کو کھانے کے لیے بلایا جائے۔ (۳۳:۵۳)

ظاہر ہے کہ اجازت کے لیے ایک شخص کا بھی اذن دینا کافی ہے۔

حدیث نمبر ۷۲۶۲

راوی: ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک باغ میں داخل ہوئے اور مجھے دروازہ کی نگرانی کا حکم دیا، پھر ایک صحابی آئے اور اجازت چاہی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں اجازت دے دو اور انہیں جنت کی بشارت دے دو۔ وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے، پھر عمر رضی اللہ عنہ آئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں اجازت دے دو اور انہیں جنت کی بشارت دے دو، پھر عثمان رضی اللہ عنہ آئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں بھی اجازت دے دو اور جنت کی بشارت دے دو۔

حدیث نمبر ۷۲۶۳

راوی: عمر رضی اللہ عنہ

میں حاضر ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بالا خانہ میں تشریف رکھتے تھے اور آپ کا ایک کالا غلام سیڑھی کے اوپر نگرانی کر رہاتھا میں نے اس سے کہا کہ کہو کہ عمر بن خطاب کھڑا ہے اور اجازت چاہتا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عاملوں اور قاصدوں کو یکے بعد دیگرے بھیجنا

 

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کو اپنے خط کے ساتھ عظیم بصریٰ کے پاس بھیجا کہ وہ یہ خط قیصر شاہ روم تک پہنچا دے۔

حدیث نمبر ۷۲۶۴

راوی: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسریٰ پرویز شاہ ایران کو خط بھیجا اور قاصد عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ خط بحرین کے گورنر منذر بن ساوی کے حوالہ کریں وہ اسے کسریٰ تک پہنچائے گا۔ جب کسریٰ نے وہ خط پڑھا تو اسے پھاڑ دیا۔

مجھے یاد ہے کہ سعید بن المسیب نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بددعا دی کہ اللہ انہیں بھی ٹکڑے ٹکڑے کر دے۔

حدیث نمبر ۷۲۶۵

راوی: سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ اسلم کے ایک صاحب ہند بن اسماء سے فرمایا کہ اپنی قوم میں یا لوگوں میں اعلان کر دو عاشورہ کے دن کہ جس نے کھا لیا ہو وہ اپنا بقیہ دن بے کھائےپورا کرے اور اس نے نہ کھایا ہو وہ روزہ رکھے۔

وفود عرب کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ وصیت کہ ان لوگوں کو جو موجود نہیں ہیں دین کی باتیں پہنچا دیں

حدیث نمبر ۷۲۶۶

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

قبیلہ عبدالقیس کا وفد آیا جب وہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کس قوم کا وفد ہے؟ انہوں نے کہا کہ ربیعہ قبیلہ کانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مبارک ہو بلا رسوائی اور شرمندگی اٹھائے آئے ہو۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ!ہمارے اور آپ کے بیچ میں مضر کافروں کا ملک پڑتا ہے۔ آپ ہمیں ایسی بات کا حکم دیجئیے جس سے ہم جنت میں داخل ہوں اور پیچھے رہ جانے والوں کو بھی بتائیں۔ پھر انہوں نے شراب کے برتنوں کے متعلق پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں چار چیزوں سے روکا اور چار چیزوں کا حکم دیا۔ آپ نے ایمان بااللہ کا حکم دیا۔

دریافت فرمایا جانتے ہو ایمان باللہ کیا چیز ہے؟ انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ فرمایا کہ گواہی دینا کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کرنے کا  حکم دیا اور زکوٰۃ دینے کا۔

 میرا خیال ہے کہ حدیث میں رمضان کے روزوں کا بھی ذکر ہے اور غنیمت میں سے پانچواں حصہ بیت المال میں دینا اور آپ نے انہیں دباء، حنتم، مزفت اور نقیر کے برتن جن میں عرب لوگ شراب رکھتے اور بناتے تھےکے استعمال سے منع کیا ۔ فرمایا کہ انہیں یاد رکھو اور انہیں پہنچا دو جو نہیں آ سکے ہیں۔

ایک عورت کی خبر کا بیان

حدیث نمبر ۷۲۶۷

راوی: توبہ بن کیسان العنبری

میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کی خدمت میں تقریباً اڑھائی سال رہا لیکن میں نے ان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس حدیث کے سوا اور کوئی حدیث بیان کرتے نہیں سنا۔ انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کئی اصحاب جن میں سعد رضی اللہ عنہ بھی تھے دستر خوان پر بیٹھے ہوئے تھےلوگوں نے گوشت کھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو ازواج مطہرات میں سے ایک زوجہ مطہرہ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا نے آگاہ کیا کہ یہ سانڈے کا گوشت ہے۔ سب لوگ کھانے سے رک گئے، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کھاؤ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے كُلُوا فرمایا یا اطْعَمُوا اس لیے کہ حلال ہے یا فرمایا کہ اس کھانے میں کوئی حرج نہیں البتہ یہ جانور میری خوراک نہیں ہے، مجھ کو اس کے کھانے سے ایک قسم کی نفرت آتی ہے۔



© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Enail: cmaj37@gmail.com

Visits wef Nov 2024

website counters