صحیح بخاری شریفدل کو نرم کرنے والی باتیںAhadith 6412-6593 |
شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے
صحت اور فراغت کے بیان میںاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ زندگی درحقیقت آخرت ہی کی زندگی ہے حدیث نمبر ۶۴۱۲ راوی: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو نعمتیں ایسی ہیں کہ اکثر لوگ ان کی قدر نہیں کرتے، صحت اور فراغت۔ حدیث نمبر ۶۴۱۳ راوی: انس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللَّهُمَّ لَا عَيْشَ إِلَّا عَيْشُ الْآخِرَهْ، فَأَصْلِحْ الْأَنْصَارَ، وَالْمُهَاجِرَهْ اے اللہ! آخرت کی زندگی کے سوا اور کوئی زندگی نہیں۔ پس تو انصار و مہاجرین میں صلاح کو باقی رکھ۔ حدیث نمبر ۶۴۱۴ راوی: سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ خندق کے موقع پر موجود تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی خندق کھودتے جاتے تھے اور ہم مٹی کو اٹھاتے جاتے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے قریب سے گزرتے ہوئے فرماتے: اللَّهُمَّ لَا عَيْشَ إِلَّا عَيْشُ الْآخِرَهْ، فَأَصْلِحْ الْأَنْصَارَ، وَالْمُهَاجِرَهْ اے اللہ! زندگی تو بس آخرت ہی کی زندگی ہے، پس تو انصار و مہاجرین کی مغفرت کر۔ آخرت کے سامنے دنیا کی کیا حقیقت ہےاللہ تعالیٰ نے سورۃ الحدید میں فرمایا: اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ ... وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ بلاشبہ دنیا کی زندگی محض ایک کھیل کود کی طرح ہے اور زینت ہے اور آپس میں ایک دوسرے پر فخر کرنے اور مال اولاد کو بڑھانے کی کوشش کا نام ہے، اس کی مثال اس بارش کی ہے جس کے سبزہ نے کاشتکاروں کو بھا لیا ہے، پھر جب اس کھیتی میں ابھار آتا ہے تو تم دیکھو گے کہ وہ پک کر زرد ہو چکا ہے۔ پھر وہ دانہ نکالنے کے لیے روند ڈالا جاتا ہے (یہی حال زندگی کا ہے) اور آخرت میں کافروں کے لیے سخت عذاب ہے اور مسلمانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور اس کی خوشنودی بھی ہے اور دنیا کی زندگی تو محض ایک دھوکے کا سامان ہے۔(۵۷:۲۰) حدیث نمبر ۶۴۱۵ راوی: سہل رضی اللہ عنہ میں نے آپؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جنت میں ایک کوڑے جتنی جگہ دنیا اور اس میں جو کچھ ہے سب سے بہتر ہے اور اللہ کے راستے میں صبح کو یا شام کو تھوڑا سا چلنا بھی الدنيا وما فيها سے بہتر ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان دنیا میں اس طرح زندگی بسر کرو جیسے تم مسافر ہو یا عارضی طور پر کسی راستہ پر چلنے والے ہوحدیث نمبر ۶۴۱۶ راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا شانہ پکڑ کر فرمایا دنیا میں اس طرح ہو جا جیسے تو مسافر یا راستہ چلنے والا ہو۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے شام ہو جائے تو صبح کے منتظر نہ رہو اور صبح کے وقت شام کے منتظر نہ رہو، اپنی صحت کو مرض سے پہلے غنیمت جانو اور زندگی کو موت سے پہلے۔ آرزو کی رسی کا دراز ہونااللہ تعالیٰ نے فرمایا : فَمَنْ زُحْزِحَ عَن النَّارِ ِوَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلا مَتَاعُ الْغُرُورِ پس جو شخص دوزخ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کیا گیا وہ کامیاب ہوا اور دنیا کی زندگی تو محض دھوکے کا سامان ہے۔ (۳:۱۸۵) اور سورۃ الحجر میں فرمایا: ذَرْهُمْ يَأْكُلُوا وَيَتَمَتَّعُوا وَيُلْهِهِمُ الأَمَلُ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ اے نبی! ان کافروں کو چھوڑ کہ وہ کھاتے رہیں اور مزے کرتے رہیں اور آرزو ان کو دھوکے میں غافل رکھتی رہے، پس وہ عنقریب جان لیں گے جب ان کو موت اچانک دبوچ لے گی۔ (۱۵:۳) علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ دنیا پیٹھ پھیرنے والی ہے اور آخرت سامنے آ رہی ہے۔ انسانوں میں دنیا و آخرت دونوں کے چاہنے والے ہیں۔ پس تم آخرت کے چاہنے والے بنو، دنیا کے چاہنے والے نہ بنو، کیونکہ آج تو کام ہی کام ہے حساب نہیں ہے اور کل حساب ہی حساب ہو گا اور عمل کا وقت باقی نہیں رہے گا۔ سورۃ البقرہ میں لفظ بِمُزَحْزِحِهِ بمعنی بِمُبَاعِدِهِ ہے اس کے معنی ٰ ہٹانے والا۔ حدیث نمبر ۶۴۱۷ راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چوکھٹا خط کھینچا۔ پھر اس کے درمیان ایک خط کھینچا جو چوکھٹے کے درمیان میں تھا۔ اس کے بعد درمیان والے خط کے اس حصے میں جو چوکھٹے کے درمیان میں تھا چھوٹے چھوٹے بہت سے خطوط کھینچے اور پھر فرمایا کہ یہ انسان ہے اور یہ اس کی موت ہے جو اسے گھیرے ہوئے ہے اور یہ جو (بیچ کا) خط باہر نکلا ہوا ہے وہ اس کی امید ہے اور چھوٹے چھوٹے خطوط اس کی دنیاوی مشکلات ہیں۔ پس انسان جب ایک (مشکل) سے بچ کر نکلتا ہے تو دوسری میں پھنس جاتا ہے اور دوسری سے نکلتا ہے تو تیسری میں پھنس جاتا ہے۔ حدیث نمبر ۶۴۱۸ راوی: انس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چند خطوط کھینچے اور فرمایا کہ یہ امید ہے اور یہ موت ہے، انسان اسی حالت امیدوں تک پہنچنے کی میں رہتا ہے کہ قریب والا خط (موت) اس تک پہنچ جاتا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چند خطوط کھینچے اور فرمایا کہ یہ امید ہے اور یہ موت ہے، انسان اسی حالت امیدوں تک پہنچنے کی میں رہتا ہے کہ قریب والا خط (موت) اس تک پہنچ جاتا ہے۔ جو شخص ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ گیا تو پھر اللہ تعالیٰ نے عمر کے بارے میں اس کے لیے عذر کا کوئی موقع باقی نہیں رکھاکیونکہ اللہ نے فرمایا ہے أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَا يَتَذَكَّرُ فِيهِ مَنْ تَذَكَّرَ وَجَاءَكُمُ النَّذِيرُ کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی کہ جو اس میں نصیحت حاصل کرنا چاہتا کر لیتا اور تمہارے پاس ڈرانے والا آیا، پھر بھی تم نے ہوش سے کام نہیں لیا (۳۵:۳۷) حدیث نمبر ۶۴۱۹ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اس آدمی کے عذر کے سلسلے میں حجت تمام کر دی جس کی موت کو مؤخر کیا یہاں تک کہ وہ ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ گیا۔ حدیث نمبر ۶۴۲۰ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بوڑھے انسان کا دل دو چیزوں کے بارے میں ہمیشہ جوان رہتا ہے، دنیا کی محبت اور زندگی کی لمبی امید۔ حدیث نمبر ۶۴۲۱ راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انسان کی عمر بڑھتی جاتی ہے اور اس کے ساتھ دو چیزیں اس کے اندر بڑھتی جاتی ہیں، مال کی محبت اور عمر کی درازی۔ ایسا کام جس سے خالص اللہ تعالیٰ کی رضا مندی مقصود ہواس باب میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی روایت ہے جو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کی ہے۔ حدیث نمبر ۶۴۲۲ راوی: محمود بن ربیع انصاری وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات خوب میرے ذہن میں محفوظ ہے۔ انہیں یاد ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ایک ڈول میں سے پانی لے کر مجھ پر کلی کر دی تھی۔ حدیث نمبر ۶۴۲۳ راوی: عتبان بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں تشریف لائے اور فرمایا کوئی بندہ جب قیامت کے دن اس حالت میں پیش ہو گا کہ اس نے کلمہ لا إله إلا الله کا اقرار کیا ہو گا اور اس سے اس کا مقصود اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا ہو گی تو اللہ تعالیٰ دوزخ کی آگ کو اس پر حرم کر دے گا۔ حدیث نمبر ۶۴۲۴ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے اس مؤمن بندے کا جس کی، میں کوئی عزیز چیز دنیا سے اٹھا لوں اور وہ اس پر ثواب کی نیت سے صبر کر لے، تو اس کا بدلہ میرے یہاں جنت کے سوا اور کچھ نہیں۔ دنیا کی بہار اور رونق اور اس کی ریجھ کرنے سے ڈرناحدیث نمبر ۶۴۲۵ راوی: عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو بحرین وہاں کا جزیہ لانے کے لیے بھیجا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بحرین والوں سے صلح کر لی تھی اور ان پر علاء بن الحضرمی کو امیر مقرر کیا تھا۔ جب ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ بحرین سے جزیہ کا مال لے کر آئے تو انصار نے ان کے آنے کے متعلق سنا اور صبح کی نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھی اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا میرا خیال ہے کہ ابوعبیدہ کے آنے کے متعلق تم نے سن لیا ہے اور یہ بھی کہ وہ کچھ لے کر آئے ہیں؟ انصار نے عرض کیا جی ہاں، یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تمہیں خوشخبری ہو تم اس کی امید رکھو جو تمہیں خوش کر دے گی، اللہ کی قسم! فقر و محتاجی وہ چیز نہیں ہے جس سے میں تمہارے متعلق ڈرتا ہوں بلکہ میں تو اس سے ڈرتا ہوں کہ دنیا تم پر بھی اسی طرح کشادہ کر دی جائے گی، جس طرح ان لوگوں پر کر دی گئی تھی جو تم سے پہلے تھے اور تم بھی اس کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی اسی طرح کوشش کرو گے جس طرح وہ کرتے تھے اور تمہیں بھی اسی طرح غافل کر دے گی جس طرح ان کو غافل کیا تھا۔ حدیث نمبر ۶۴۲۶ راوی: عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور جنگ احد کے شہیدوں کے لیے اس طرح نماز پڑھی جس طرح مردہ پر نماز پڑھی جاتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ممبر پر تشریف لائے اور فرمایا آخرت میں میں تم سے آگے جاؤں گا اور میں تم پر گواہ ہوں گا، واللہ میں اپنے حوض کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں اور اللہ کی قسم! میں تمہارے متعلق اس سے نہیں ڈرتا کہ تم میرے بعد شرک کرو گے بلکہ مجھے تمہارے متعلق یہ خوف ہے کہ تم دنیا کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنے لگو گے۔ حدیث نمبر ۶۴۲۷ راوی: ابوسعید رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہارے متعلق سب سے زیادہ اس سے خوف کھاتا ہوں کہ جب اللہ تعالیٰ زمین کی برکتیں تمہارے لیے نکال دے گا۔ پوچھا گیا زمین کی برکتیں کیا ہیں؟ فرمایا کہ دنیا کی چمک دمک، اس پر ایک صحابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا بھلائی سے برائی پیدا ہو سکتی ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس پر خاموش ہو گئے اور ہم نے خیال کیا کہ شاید آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ اس کے بعد اپنی پیشانی کو صاف کرنے لگے اور دریافت فرمایا، پوچھنے والے کہاں ہیں؟ پوچھنے والے نے کہا کہ حاضر ہوں۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب اس سوال کا حل ہمارے سامنے آ گیا تو ہم نے ان صاحب کی تعریف کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بھلائی سے تو صرف بھلائی ہی پیدا ہوتی ہے لیکن یہ مال سرسبز اور خوشگوار (گھاس کی طرح) ہے اور جو چیز بھی ربیع کے موسم میں اگتی ہیں وہ حرص کے ساتھ کھانے والوں کو ہلاک کر دیتی ہیں یا ہلاکت کے قریب پہنچا دیتی ہیں۔ سوائے اس جانور کے جو پیٹ بھر کے کھائے کہ جب اس نے کھا لیا اور اس کی دونوں کوکھ بھر گئیں تو اس نے سورج کی طرف منہ کر کے جگالی کر لی اور پھر پاخانہ پیشاب کر دیا اور اس کے بعد پھر لوٹ کے کھا لیا اور یہ مال بھی بہت شیریں ہے جس نے اسے حق کے ساتھ لیا اور حق میں خرچ کیا تو وہ بہترین ذریعہ ہے اور جس نے اسے ناجائز طریقہ سے حاصل کیا تو وہ اس شخص جیسا ہے جو کھاتا ہے لیکن آسودہ نہیں ہوتا۔ حدیث نمبر ۶۴۲۸ راوی: زہدم بن مضرب عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سب سے بہتر میرا زمانہ ہے، پھر ان لوگوں کا زمانہ ہے جو اس کے بعد ہوں گے۔ پھر اس کے بعد وہ لوگ ہوں گے کہ وہ گواہی دیں گے لیکن ان کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی، وہ خیانت کریں گے اور ان پر سے اعتماد جاتا رہے گا۔ وہ نذر مانیں گے لیکن پوری نہیں کریں گے اور ان میں مٹاپا پھیل جائے گا۔ حدیث نمبر ۶۴۲۹ راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے بہتر میرا زمانہ ہے، اس کے بعد ان لوگوں کا جو اس کے بعد ہوں گے پھر جو ان کے بعد ہوں گے اور اس کے بعد ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قسم سے پہلے گواہی دیں گے کبھی گواہی سے پہلے قسم کھائیں گے۔ حدیث نمبر ۶۴۳۰ راوی: قیس بن ابی حازم میں نے خباب بن ارت رضی اللہ عنہ سے سنا، اس دن ان کے پیٹ میں سات داغ لگائے گئے تھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر ہمیں موت کی دعا کرنے سے منع نہ کیا ہوتا تو میں اپنی موت کی دعا کرتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ گزر گئے اور دنیا نے ان کے (اعمال خیر میں سے) کچھ نہیں گھٹایا اور ہم نے دنیا سے اتنا کچھ حاصل کیا کہ مٹی کے سوا اس کی کوئی جگہ نہیں۔ حدیث نمبر ۶۴۳۱ راوی: قیس بن ابی حازم میں خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، وہ اپنے مکان کی دیوار بنوا رہے تھے، انہوں نے کہا کہ ہمارے ساتھی جو گزر گئے دنیا نے ان کے نیک اعمال میں سے کچھ کمی نہیں کی لیکن ان کے بعد ہم کو اتنا پیسہ ملا کہ ہم اس کو کہاں خرچ کریں بس اس مٹی اور پانی یعنی عمارت میں ہم کو اسے خرچ کا موقع ملا ہے۔ حدیث نمبر ۶۴۳۲ راوی: خباب بن ارت رضی اللہ عنہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی تھی اور اس کا قصہ بیان کیا۔ اللہ پاک کا سورۃ فاطر میں فرمانا :يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ ۖ ... إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ اللہ کا وعدہ حق ہے پس تمہیں دنیا کی زندگی دھوکہ میں نہ ڈال دے (کہ آخرت کو بھول جاؤ) اور نہ کوئی دھوکہ دینے والی چیز تمہیں اللہ سے غافل کر دے۔ بلاشبہ شیطان تمہارا دشمن ہے پس تم اسے اپنا دشمن ہی سمجھو، وہ تو اپنے گروہ کو بلاتا ہے کہ وہ جہنمی ہو جائے۔ (۳۵:۵،۶) آیت میں سُعُرٌ کا لفظ ہے جس کی جمع سعر آتی ہے۔ مجاہد نے کہا کہ غرور سے شیطان مراد ہے۔ حدیث نمبر ۶۴۳۳ راوی: مران بن ابان میں عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے وضو کا پانی لے کر آیا وہ چبوترے پر بیٹھے ہوئے تھے، پھر انہوں نے اچھی طرح وضو کیا۔ اس کے بعد کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی جگہ وضو کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھی طرح وضو کیا، پھر فرمایا کہ جس نے اس طرح وضو کیا اور پھر مسجد میں آ کر دو رکعت نماز پڑھی تو اس کے پچھلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر یہ بھی فرمایا کہ اس پر مغرور نہ ہو جاؤ۔ صالحین کا گزر جاناحدیث نمبر ۶۴۳۴ راوی: مرداس اسلمی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نیک لوگ یکے بعد دیگرے گزر جائیں گے اس کے بعد جَو کے بھوسے یا کھجور کے کچرے کی طرح کچھ لوگ دنیا میں رہ جائیں گے جن کی اللہ پاک کو کچھ ذرا بھی پروا نہ ہو گی۔ مال کے فتنے سے ڈرتے رہنااللہ تعالیٰ نے سورۃ التغابن میں فرمایا : إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلادُكُمْ فِتْنَةٌ بلاشبہ تمہارے مال و اولاد تمہارے لیے اللہ کی طرف سے آزمائش ہیں۔(۶۴:۱۵) حدیث نمبر ۶۴۳۵ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دینار و درہم کے بندے، عمدہ ریشمی چادروں کے بندے، سیاہ کملی کے بندے، تباہ ہو گئے کہ اگر انہیں دیا جائے تو وہ خوش ہو جاتے ہیں اور اگر نہ دیا جائے تو ناراض رہتے ہیں۔ حدیث نمبر ۶۴۳۶ راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر انسان کے پاس مال کی دو وادیاں ہوں تو تیسری کا خواہشمند ہو گا اور انسان کا پیٹ مٹی کے سوا اور کوئی چیز نہیں بھر سکتی اور اللہ اس شخص کی توبہ قبول کرتا ہے جو دل سےسچی توبہ کرتا ہے۔ حدیث نمبر ۶۴۳۷ راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر انسان کے پاس مال (بھیڑ بکری) کی پوری وادی ہو تو وہ چاہے گا کہ اسے ویسی ہی ایک اور مل جائے اور انسان کی آنکھ مٹی کے سوا اور کوئی چیز نہیں بھر سکتی اور جو اللہ سے توبہ کرتا ہے، وہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔ حدیث نمبر ۶۴۳۸ راوی: عباس بن سہل بن سعد میں نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو مکہ مکرمہ میں منبر پر یہ کہتے سنا۔ انہوں نے اپنے خطبہ میں کہا کہ اے لوگو! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اگر انسان کو ایک وادی سونا بھر کے دے دیا جائے تو وہ دوسری کا خواہشمند رہے گا اگر دوسری دے دی جائے تو تیسری کا خواہشمند رہے گا اور انسان کا پیٹ مٹی کے سوا اور کوئی چیز نہیں بھر سکتی اور اللہ پاک اس کی توبہ قبول کرتا ہے جو توبہ کرے۔ حدیث نمبر ۶۴۳۹ راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر انسان کے پاس سونے کی ایک وادی ہو تو وہ چاہے گا کہ دو ہو جائیں اور اس کا منہ قبر کی مٹی کے سوا اور کوئی چیز نہیں بھر سکتی اور اللہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے جو توبہ کرے۔ حدیث نمبر ۶۴۴۰ راوی: ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ہم اسے قرآن ہی میں سے سمجھتے تھے یہاں تک کہ آیت ألهاكم التكاثر نازل ہوئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ یہ (دنیا کا) مال سرسبز میٹھا ہےاور اللہ تعالیٰ نے سورۃ آل عمران میں فرمایا: زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ ... ذَلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا انسانوں کو خواہشات کی تڑپ، عورتوں، بال، بچوں ڈھیروں سونے چاندی، نشان لگے ہوئے گھوڑوں اور چوپایوں کھیتوں میں محبوب بنا دی گئی ہے، یہ چند روزہ زندگانی کا سرمایہ ہے۔ (۳:۱۴) عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے اللہ! ہم تو سوا اس کے کچھ طاقت ہی نہیں رکھتے کہ جس چیز سے تو نے ہمیں زینت بخشی ہے اس پر ہم طبعی طور پر خوش ہوں۔ اے اللہ! میں تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ اس مال کو تو حق جگہ پر خرچ کروانا۔ حدیث نمبر ۶۴۴۱ راوی: حکیم بن حزام میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے عطا فرمایا۔ میں نے پھر مانگا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر عطا فرمایا۔ میں نے پھر مانگا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر عطا فرمایا۔ پھر فرمایا : اے حکیم! یہ مال سرسبز اور خوشگوار نظر آتا ہے پس جو شخص اسے نیک نیتی سے لے اس میں برکت ہوتی ہے اور جو لالچ کے ساتھ لیتا ہے تو اس کے مال میں برکت نہیں ہوتی بلکہ وہ اس شخص جیسا ہو جاتا ہے جو کھاتا جاتا ہے لیکن اس کا پیٹ نہیں بھرتا اور اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے۔ آدمی جو اللہ کی راہ میں دیدے وہی اس کا اصلی مال ہےحدیث نمبر ۶۴۴۲ راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں کون ہے جسے اپنے مال سے زیادہ اپنے وارث کا مال پیارا ہو۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم میں کوئی ایسا نہیں جسے مال زیادہ پیارا نہ ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر اس کا مال وہ ہے جو اس نے (موت سے) پہلے (اللہ کے راستہ میں خرچ) کیا اور اس کے وارث کا مال وہ ہے جو وہ چھوڑ کر مرا۔ جو لوگ دنیا میں زیادہ (مالدار) ہیں وہی آخرت میں کم ہوں گےاور اللہ تعالیٰ نے سورۃ ہود میں فرمایا : مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا ... وَبَاطِلٌ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ جو شخص دنیا کی زندگی اور اس کی زینت کا طالب ہے تو ہم اس کے تمام اعمال کا بدلہ اسی دنیا میں اس کو بھر پور دے دیتے ہیں اور اس میں ان کے لیے کسی طرح کی کمی نہیں کی جاتی یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں دوزخ کے سوا اور کچھ نہیں ہے اور جو کچھ انہوں نے اس دنیا کی زندگی میں کیا وہ (آخرت کے حق میں) بیکار ثابت ہوا اور جو کچھ (اپنے خیال میں) وہ کرتے ہیں سب بیکار محض ہے۔ (۱۱:۱۵،۱۶) حدیث نمبر ۶۴۴۳ راوی: ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ ایک روز میں باہر نکلا تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تنہا چل رہے تھے اور آپ کے ساتھ کوئی بھی نہ تھا، اس سے میں سمجھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے پسند نہیں فرمائیں گے کہ آپ کے ساتھ اس وقت کوئی رہے۔ اس لیے میں چاند کے سائے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ اس کے بعد آپ مڑے تو مجھے دیکھا اور دریافت فرمایا کون ہے؟ میں نے عرض کیا ابوذر! اللہ مجھے آپ پر قربان کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ابوذر! یہاں آؤ۔ کہ پھر میں تھوڑی دیر تک آپ کے ساتھ چلتا رہا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو لوگ (دنیا میں) زیادہ مال و دولت جمع کئے ہوئے ہیں قیامت کے دن وہی خسارے میں ہوں گے۔ سوائے ان کے جنہیں اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہو اور انہوں نے اسے دائیں بائیں، آگے پیچھے خرچ کیا ہو اور اسے بھلے کاموں میں لگایا ہو۔ پھر تھوڑی دیر تک میں آپ کے ساتھ چلتا رہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہاں بیٹھ جاؤ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک ہموار زمین پر بٹھا دیا جس کے چاروں طرف پتھر تھے اور فرمایا کہ یہاں اس وقت تک بیٹھے رہو جب تک میں تمہارے پاس لوٹ آؤں۔ پھر آپ پتھریلی زمین کی طرف چلے گئے اور نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ آپ وہاں رہے اور دیر تک وہیں رہے۔ پھر میں نے آپ سے سنا، آپ یہ کہتے ہوئے تشریف لا رہے تھے چاہے چوری ہو، چاہے زنا ہو ابوذر کہتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو مجھ سے صبر نہیں ہو سکا اور میں نے عرض کیا اے اللہ کے نبی! اللہ آپ پر مجھے قربان کرے۔ اس پتھریلی زمین کے کنارے آپ کس سے باتیں کر رہے تھے۔ میں نے تو کسی دوسرے کو آپ سے بات کرتے نہیں دیکھا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ جبرائیل علیہ السلام تھے۔ پتھریلی زمین (حرہ) کے کنارے وہ مجھ سے ملے اور کہا کہ اپنی امت کو خوشخبری سنا دو کہ جو بھی اس حال میں مرے گا کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو وہ جنت میں جائے گا۔ میں نے عرض کیا اے جبرائیل! خواہ اس نے چوری کی ہو، زنا کیا ہو؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا ہاں، خواہ اس نے شراب ہی پی ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ اگر احد پہاڑ کے برابر سونا میرے پاس ہو تو بھی مجھ کو یہ پسند نہیںحدیث نمبر ۶۴۴۴ راوی: ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کے پتھریلے علاقہ میں چل رہا تھا کہ احد پہاڑ ہمارے سامنے آ گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا ابوذر! میں نے عرض کیا، حاضر ہوں یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اس سے بالکل خوشی نہیں ہو گی کہ میرے پاس اس احد کے برابر سونا ہو اور اس پر تین دن اس طرح گذر جائیں کہ اس میں سے ایک دینار بھی باقی رہ جائے سوا اس تھوڑی سی رقم کے جو میں قرض کی ادائیگی کے لیے چھوڑ دوں بلکہ میں اسے اللہ کے بندوں میں اس طرح خرچ کروں اپنی دائیں طرف سے، بائیں طرف سے اور پیچھے سے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے، اس کے بعد فرمایا، زیادہ مال جمع رکھنے والے ہی قیامت کے دن مفلس ہوں گے سوا اس شخص کے جو اس مال کو اس اس طرح دائیں طرف سے، بائیں طرف سے اور پیچھے سے خرچ کرے اور ایسے لوگ کم ہیں۔ پھر مجھ سے فرمایا، یہیں ٹھہرے رہو، یہاں سے اس وقت تک نہ جانا جب تک میں آ نہ جاؤں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کی تاریکی میں چلے گئے اور نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ اس کے بعد میں نے آواز سنی جو بلند تھی۔ مجھے ڈر لگا کہ کہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی دشواری نہ پیش آ گئی ہو۔ میں نے آپ کی خدمت میں پہنچنے کا ارادہ کیا لیکن آپ کا ارشاد یاد آیا کہ اپنی جگہ سے نہ ہٹنا، جب تک میں نہ آ جاؤں۔ چنانچہ جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف نہیں لائے میں وہاں سے نہیں ہٹا۔ پھر آپ آئے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے ایک آواز سنی تھی، مجھے ڈر لگا لیکن پھر آپ کا ارشاد یاد آیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کیا تم نے سنا تھا؟ میں نے عرض کیا، جی ہاں۔ فرمایا کہ وہ جبرائیل علیہ السلام تھے اور انہوں نے کہا کہ آپ کی امت کا جو شخص اس حال میں مر جائے کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو تو جنت میں جائے گا۔ میں نے پوچھا خواہ اس نے زنا اور چوری بھی کی ہو؟ انہوں نے کہا ہاں زنا اور چوری ہی کیوں نہ کی ہو۔ حدیث نمبر ۶۴۴۵ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہو تو مجھے اس میں خوشی ہو گی کہ تین دن بھی مجھ پر اس حال میں نہ گزرنے پائیں کہ اس میں سے میرے پاس کچھ بھی باقی بچے۔ البتہ اگر کسی کا قرض دور کرنے کے لیے کچھ رکھ چھوڑوں تو یہ اور بات ہے۔ مالدار وہ ہے جس کا دل غنی ہواور اللہ تعالیٰ نے سورۃ مؤمنون میں فرمایا : أَيَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مَالٍ وَبَنِينَ ... وَلَهُمْ أَعْمَالٌ مِنْ دُونِ ذَلِكَ هُمْ لَهَا عَامِلُونَ کیا یہ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم جو دنیا میں ان کو مال اور بیٹوں کی مدد دیتے ہیں ... اور اسکے سوا اور اعمال بھی ہیں جو یہ کرتے رہتے ہیں ۔ (۲۳:۵۵،۶۳) سفیان بن عیینہ نے کہا کہ هم لَمْ يَعْمَلُوهَا لَا سے مراد یہ ہے کہ ابھی وہ اعمال انہوں نے نہیں کئے لیکن ضرور ان کو کرنے والے ہیں۔ حدیث نمبر ۶۴۴۶ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تونگری یہ نہیں ہے کہ سامان زیادہ ہو، بلکہ امیری یہ ہے کہ دل غنی ہو۔ فقر کی فضیلت کا بیانحدیث نمبر ۶۴۴۷ راوی: سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے گزرا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دوسرے شخص ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ سے جو آپ کے قریب بیٹھے ہوئے تھے، پوچھا کہ اس شخص (گزرے والے) کے متعلق تم کیا کہتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ یہ معزز لوگوں میں سے ہے اور اللہ کی قسم! یہ اس قابل ہے کہ اگر یہ پیغام نکاح بھیجے تو اس سے نکاح کر دیا جائے۔ اگر یہ سفارش کرے تو ان کی سفارش قبول کر لی جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر خاموش ہو گئے۔ اس کے بعد ایک دوسرے صاحب گزرے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ان کے متعلق بھی پوچھا کہ ان کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ انہوں نے کہا، یا رسول اللہ! یہ صاحب مسلمانوں کے غریب طبقہ سے ہیں اور یہ ایسے ہیں کہ اگر یہ نکاح کا پیغام بھیجیں تو ان کا نکاح نہ کیا جائے، اگر یہ کسی کی سفارش کریں تو ان کی سفارش قبول نہ کی جائے اور اگر کچھ کہیں تو ان کی بات نہ سنی جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد فرمایا کہ اللہ کے نزدیک یہ پچھلا محتاج شخص اگلے مالدار شخص سے، گو ویسے آدمی زمین بھر کر ہوں، بہتر ہے۔ حدیث نمبر ۶۴۴۸ راوی: ابووائل خباب بن ارت رضی اللہ عنہ بیان کیا ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہجرت کی۔ چنانچہ ہمارا اجر اللہ کے ذمہ رہا۔ پس ہم میں سے کوئی تو گزر گیا اور اپنا اجر (اس دنیا میں) نہیں لیا۔ مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ انہی میں سے تھے، وہ جنگ احد کے موقع پر شہید ہو گئے تھے اور ایک چادر چھوڑی تھی اس چادر کا ان کو کفن دیا گیا تھااس چادر سے ہم اگر ان کا سر ڈھکتے تو ان کے پاؤں کھل جاتے اور پاؤں ڈھکتے تو سر کھل جاتا۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم ان کا سر ڈھک دیں اور پاؤں پر اذخر گھاس ڈال دیں اور کوئی ہم میں سے ایسے ہوئے جن کے پھل خوب پکے اور وہ مزے سے چن چن کر کھا رہے ہیں۔ حدیث نمبر ۶۴۴۹ راوی: عمران بن حصین رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے جنت میں جھانکا تو اس میں رہنے والے اکثر غریب لوگ تھے اور میں نے دوزخ میں جھانکا تو اس کی رہنے والیاں اکثر عورتیں تھیں۔ حدیث نمبر ۶۴۵۰ راوی: انس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی میز پر کھانا نہیں کھایا۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی اور نہ وفات تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی باریک چپاتی تناول فرمائی۔ حدیث نمبر ۶۴۵۱ راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو میرے توشہ خانہ میں کوئی غلہ نہ تھا جو کسی جاندار کے کھانے کے قابل ہوتا، سوا تھوڑے سے جَو کے جو میرے توشہ خانہ میں تھے، میں ان میں ہی سے کھاتی رہی آخر اکتا کر جب بہت دن ہو گئے تو میں نے انہیں ناپا تو وہ ختم ہو گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے گزران کا بیان اور دنیا سے کنارہ کشی کا بیانحدیث نمبر ۶۴۵۲ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں میں (زمانہ نبوی میں) بھوک کے مارے زمین پر اپنے پیٹ کے بل لیٹ جاتا تھا اور کبھی میں بھوک کے مارے اپنے پیٹ پر پتھر باندھا کرتا تھا۔ ایک دن میں اس راستے پر بیٹھ گیا جس سے صحابہ نکلتے تھے۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ گزرے اور میں نے ان سے کتاب اللہ کی ایک آیت کے بارے میں پوچھا، میرے پوچھنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ وہ مجھے کچھ کھلا دیں مگر وہ چلے گئے اور کچھ نہیں کیا۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ میرے پاس سے گزرے، میں نے ان سے بھی قرآن مجید کی ایک آیت پوچھی اور پوچھنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ وہ مجھے کچھ کھلا دیں مگر وہ بھی گزر گئے اور کچھ نہیں کیا۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گزرے اور آپ نے جب مجھے دیکھا تو آپ مسکرا دئیے اور جو میرے دل میں اور جو میرے چہرے پر تھا آپ نے پہچان لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اباہر! میں نے عرض کیا لبیک، یا رسول اللہ! فرمایا میرے ساتھ آ جاؤ اور آپ چلنے لگے۔ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چل دیا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اندر گھر میں تشریف لے گئے۔ پھر میں نے اجازت چاہی اور مجھے اجازت ملی۔ جب آپ داخل ہوئے تو ایک پیالے میں دودھ ملا۔ دریافت فرمایا کہ یہ دودھ کہاں سے آیا ہے؟ کہا فلاں یا فلانی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تحفہ میں بھیجا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اباہر! میں نے عرض کیا لبیک، یا رسول اللہ! فرمایا، اہل صفہ کے پاس جاؤ اور انہیں بھی میرے پاس بلا لاؤ۔ کہا کہ اہل صفہ اسلام کے مہمان ہیں، وہ نہ کسی کے گھر پناہ ڈھونڈھتے، نہ کسی کے مال میں اور نہ کسی کے پاس! جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صدقہ آتا تو اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں کے پاس بھیج دیتے اور خود اس میں سے کچھ نہ رکھتے۔ البتہ جب آپ کے پاس تحفہ آتا تو انہیں بلوا بھیجتے اور خود بھی اس میں سے کچھ کھاتے اور انہیں بھی شریک کرتے۔ چنانچہ مجھے یہ بات ناگوار گزری اور میں نے سوچا کہ یہ دودھ ہے ہی کتنا کہ سارے صفہ والوں میں تقسیم ہو، اس کا حقدار میں تھا کہ اسے پی کر کچھ قوت حاصل کرتا۔ جب صفہ والے آئیں گے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے فرمائیں گے اور میں انہیں اسے دے دوں گا۔ مجھے تو شاید اس دودھ میں سے کچھ بھی نہیں ملے گا لیکن اللہ اور اس کے رسول کی حکم برداری کے سوا کوئی اور چارہ بھی نہیں تھا۔ چنانچہ میں ان کے پاس آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پہنچائی، وہ آ گئے اور اجازت چاہی۔ انہیں اجازت مل گئی پھر وہ گھر میں اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اباہر! میں نے عرض کیا لبیک، یا رسول اللہ! فرمایا لو اور اسے ان سب حاضرین کو دے دو۔ بیان کیا کہ پھر میں نے پیالہ پکڑ لیا اور ایک ایک کو دینے لگا۔ ایک شخص دودھ پی کر جب سیراب ہو جاتا تو مجھے پیالہ واپس کر دیتا پھر دوسرے شخص کو دیتا وہ بھی سیراب ہو کر پیتا پھر پیالہ مجھ کو واپس کر دیتا اور اسی طرح تیسرا پی کر پھر مجھے پیالہ واپس کر دیتا۔ اس طرح میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا لوگ پی کر سیراب ہو چکے تھے۔ آخر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیالہ پکڑا اور اپنے ہاتھ پر رکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف دیکھا اور مسکرا کر فرمایا، اباہر! میں نے عرض کیا، لبیک، یا رسول اللہ! فرمایا، اب میں اور تم باقی رہ گئے ہیں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ نے سچ فرمایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیٹھ جاؤ اور پیئو۔ میں بیٹھ گیا اور میں نے دودھ پیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم برابر فرماتے رہے کہ اور پیئو آخر مجھے کہنا پڑا، نہیں اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، اب بالکل گنجائش نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، پھر مجھے دے دو، میں نے پیالہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمد بیان کی اور بسم اللہ پڑھ کر بچا ہوا خود پی گئے۔ حدیث نمبر ۶۴۵۳ راوی: سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ میں سب سے پہلا عرب ہوں جس نے اللہ کے راستے میں تیر چلائے۔ ہم نے اس حال میں وقت گزارا ہے کہ جہاد کر رہے ہیں اور ہمارے پاس کھانے کی کوئی چیز حبلہ کے پتوں اور اس ببول کے سوا کھانے کے لیے نہیں تھی اور بکری کی مینگنیوں کی طرح ہم پاخانہ کیا کرتے تھے۔ اب یہ بنو اسد کے لوگ مجھ کو اسلام سکھلا کر درست کرنا چاہتے ہیں پھر تو میں بالکل بدنصیب ٹھہرا اور میرا سارا کیا کرایا اکارت گیا۔ حدیث نمبر ۶۴۵۴ راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں کو مدینہ آنے کے بعد کبھی تین دن تک برابر گیہوں کی روٹی کھانے کے لیے نہیں ملی، یہاں تک کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روح قبض ہو گئی۔ حدیث نمبر ۶۴۵۵ راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانہ نے اگر کبھی ایک دن میں دو مرتبہ کھانا کھایا تو ضرور اس میں ایک وقت صرف کھجوریں ہوتی تھیں۔ حدیث نمبر ۶۴۵۶ راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر چمڑے کا تھا اور اس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔ حدیث نمبر ۶۴۵۷ راوی: قتادہ ہم انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوتے، ان کا نان بائی وہیں موجود ہوتا (جو روٹیاں پکا پکا کر دیتا جاتا) انس رضی اللہ عنہ لوگوں سے کہتے کہ کھاؤ، میں نے کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پتلی روٹی کھاتے نہیں دیکھا اور نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنی آنکھ سے سموچی بھنی ہوئی بکری دیکھی۔ یہاں تک کہ آپ کا انتقال ہو گیا۔ حدیث نمبر ۶۴۵۸ راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا ہمارے اوپر ایسا مہینہ بھی گزر جاتا تھا کہ چولھا نہیں جلتا تھا، صرف کھجور اور پانی ہوتا تھا، ہاں اگر کبھی کسی جگہ سے کچھ تھوڑا سا گوشت آ جاتا تو اس کو بھی کھا لیتے تھے۔ حدیث نمبر ۶۴۵۹ راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا انہوں نے عروہ سے کہا، بیٹے! ہم دو مہینوں میں تین چاند دیکھ لیتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کی بیویوں) کے گھروں میں چولھا نہیں جلتا تھا۔ میں نے پوچھا پھر آپ لوگ زندہ کس چیز پر رہتی تھیں؟ بتلایا کہ صرف دو کالی چیزوں پر، کھجور اور پانی۔ ہاں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ انصاری پڑوسی تھے جن کے یہاں دودہیل اونٹنیاں تھیں وہ اپنے گھروں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دودھ بھیج دیتے اور آپ ہمیں وہی دودھ پلا دیتے تھے۔ حدیث نمبر ۶۴۶۰ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اللَّهُمَّ ارْزُقْ آلَ مُحَمَّدٍ قُوتًا اے اللہ! آل محمد کو اتنی روزی دے کہ وہ زندہ رہ سکیں۔ نیک عمل پر ہمیشگی کرنا اور درمیانی چال چلناحدیث نمبر ۶۴۶۱ راوی: مسروق میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا، کون سی عبادت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ پسند تھی، فرمایا کہ جس پر ہمیشگی ہو سکے، میں نے پوچھا آپ رات کو تہجد کے لیے کب اٹھتے تھے؟ بتلایا کہ جب مرغ کی آواز سن لیتے۔ حدیث نمبر ۶۴۶۲ راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ پسندیدہ وہ عمل تھا جس کو آدمی ہمیشہ کرتا رہے۔ حدیث نمبر ۶۴۶۳ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم سے کسی شخص کو اس کا عمل نجات نہیں دلا سکے گا۔ صحابہ نے عرض کی اور آپ کو بھی نہیں یا رسول اللہ؟ فرمایا اور مجھے بھی نہیں، سوا اس کے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی رحمت کے سایہ میں لے لے۔ پس تم کو چاہئے کہ درستی کے ساتھ عمل کرو اور میانہ روی اختیار کرو۔ صبح اور شام، اسی طرح رات کو ذرا سا چل لیا کرو اور اعتدال کے ساتھ چلا کرو منزل مقصود کو پہنچ جاؤ گے۔ حدیث نمبر ۶۴۶۴ راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا درمیانی چال اختیار کرو اور بلند پروازی نہ کرو اور عمل کرتے رہو، تم میں سے کسی کا عمل اسے جنت میں نہیں داخل کر سکے گا، میرے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل وہ ہے جس پر ہمیشگی کی جائے خواہ کم ہی کیوں نہ ہو۔ حدیث نمبر ۶۴۶۵ راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کون سا عمل اللہ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے؟ فرمایا کہ جس پر ہمیشگی کی جائے، خواہ وہ تھوڑی ہی ہو اور فرمایا نیک کام کرنے میں اتنی ہی تکلیف اٹھاؤ جتنی طاقت ہے ۔ حدیث نمبر ۶۴۶۶ راوی: علقمہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا ام المؤمنین! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیونکر عبادت کیا کرتے تھے کیا آپ نے کچھ خاص دن خاص کر رکھے تھے؟ بتلایا کہ نہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل میں ہمیشگی ہوتی تھی اور تم میں کون ہے جو ان عملوں کی طاقت رکھتا ہو جن کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم طاقت رکھتے تھے۔ حدیث نمبر ۶۴۶۷ راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھو جو نیک کام کرو ٹھیک طور سے کرو اور حد سے نہ بڑھ جاؤ بلکہ اس کے قریب رہو (میانہ روی اختیار کرو) اور خوش رہو اور یاد رکھو کہ کوئی بھی اپنے عمل کی وجہ سے جنت میں نہیں جائے گا۔ صحابہ نے عرض کیا اور آپ بھی نہیں یا رسول اللہ! فرمایا اور میں بھی نہیں۔ سوا اس کے کہ اللہ اپنی مغفرت و رحمت کے سایہ میں مجھے ڈھانک لے۔ حدیث نمبر ۶۴۶۸ راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک دن نماز پڑھائی، پھر منبر پر چڑھے اور اپنے ہاتھ سے مسجد کے قبلہ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ اس وقت جب میں نے تمہیں نماز پڑھائی تو مجھے اس دیوار کی طرف جنت اور دوزخ کی تصویر دکھائی گئی میں نے (ساری عمر میں) آج کی طرح نہ کوئی بہشت کی سی خوبصورت چیز دیکھی نہ دوزخ کی سی ڈراؤنی، میں نے آج کی طرح نہ کوئی بہشت جیسی خوبصورت چیز دیکھی نہ دوزخ جیسی ڈراونی چیز۔ اللہ کے خوف کے ساتھ امید بھی رکھناسفیان بن عیینہ نے کہا کہ قرآن کی کوئی آیت مجھ پر اتنی سخت نہیں گزری جتنی کی یہ آیت ہے : لَسْتُمْ عَلَى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْرَاةَ وَالإِنْجِيلَ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ اے پیغمبر کے اقارب والو! تمہارا طریق (مذہب) کوئی چیز نہیں ہے جب تک توراۃ اور انجیل اور ان کتابوں پر جو تم پر اتری ہیں پورا عمل نہ کرو۔(۵:۶۸) حدیث نمبر ۶۴۶۹ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے رحمت کو جس دن بنایا تو اس کے سو حصے کئے اور اپنے پاس ان میں سے نناوے رکھے۔ اس کے بعد تمام مخلوق کے لیے صرف ایک حصہ رحمت کا بھیجا۔ پس اگر کافر کو وہ تمام رحم معلوم ہو جائے جو اللہ کے پاس ہے تو وہ جنت سے ناامید نہ ہو اور اگر مؤمن کو وہ تمام عذاب معلوم ہو جائیں جو اللہ کے پاس ہیں تو دوزخ سے کبھی بےخوف نہ ہو۔ اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں سے بچنا ان سے صبر کئے رہنااور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ بلاشبہ صبر کرنے والوں کو ان کا ثواب بے حساب دیا جائے گا ۔ (۳۹:۱۰) اور عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم نے سب سے عمدہ زندگی صبر ہی میں پائی ہے۔ حدیث نمبر ۶۴۷۰ راوی: ابوسعید رضی اللہ عنہ چند انصاری صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگا اور جس نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیا، یہاں تک کہ جو مال آپ کے پاس تھا وہ ختم ہو گیا۔ جب سب کچھ ختم ہو گیا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں سے دیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو بھی اچھی چیز میرے پاس ہو گی میں اسے تم سے بچا کے نہیں رکھتا ہوں۔ بات یہ ہے کہ جو تم میں (سوال سے) بچتا رہے گا اللہ بھی اسے غیب سے دے گا اور جو شخص دل پر زور ڈال کر صبر کرے گا اللہ بھی اسے صبر دے گا اور جو بےپرواہ رہنا اختیار کرے گا اللہ بھی اسے بےپرواہ کر دے گا اور اللہ کی کوئی نعمت صبر سے بڑھ کر تم کو نہیں ملی۔ حدیث نمبر ۶۴۷۱ راوی: مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اتنی نماز پڑھتے کہ آپ کے قدموں میں ورم آ جاتا یا کہا کہ آپ کے قدم پھول جاتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی جاتی کہ آپ تو بخشے ہوئے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔ جو اللہ پر بھروسہ کرے گا اللہ بھی اس کے لیے کافی ہو گاربیع بن خثیم تابعی نے بیان کیا کہ مراد ہے کہ تمام انسانی مشکلات میں اللہ پر بھروسہ اختیار کرے۔ حدیث نمبر ۶۴۷۲ راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت کے ستر ہزار لوگ بے حساب جنت میں جائیں گے۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جو جھاڑ پھونک نہیں کراتے نہ شگون لیتے ہیں اور اپنے رب ہی پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ بےفائدہ بات چیت کرنا منع ہےحدیث نمبر ۶۴۷۳ راوی: کاتب وراد معاویہ رضی اللہ عنہ نے مغیرہ کو لکھا کہ کوئی حدیث جو آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو وہ مجھے لکھ بھیجو۔ پھر مغیرہ رضی اللہ عنہ نے انہیں لکھا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ نماز سے فارغ ہونے کے بعد تین مرتبہ یہ دعا پڑھتے: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، بادشاہت اسی کی ہے اور تمام تعریفیں اسی کے لیے ہیں اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بےفائدہ بات چیت کرنے، زیادہ سوال کرنے، مال ضائع کرنے، اپنی چیز بچا کر رکھنے اور دوسروں کی مانگتے رہنے، ماؤں کی نافرمانی کرنے اور لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے سے منع فرماتے تھے۔ زبان کی (غلط باتوں سے) حفاظت کرنانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ وہ اچھی بات کہے یا پھر چپ رہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا : مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ کہ انسان جو بات بھی زبان سے نکالتا ہے تو اس کے (لکھنے کے لیے) ایک چوکیدار فرشتہ تیار رہتا ہے۔(۵۰:۱۸) حدیث نمبر ۶۴۷۴ راوی: سہل بن سعد رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے لیے جو شخص دونوں جبڑوں کے درمیان کی چیز (زبان) اور دونوں ٹانگوں کے درمیان کی چیز (شرمگاہ) کی ذمہ داری دیدے میں اس کے لیے جنت کی ذمہ داری دیتا ہوں۔ حدیث نمبر ۶۴۷۵ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : - جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اچھی بات کہے ورنہ خاموش رہے اور - جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے اور - جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت کرے۔ حدیث نمبر ۶۴۷۶ راوی: ابوشریح خزاعی میرے دونوں کانوں نے سنا ہے اور میرے دل نے یاد رکھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا: مہمانی تین دن کی ہوتی ہے مگر جو لازمی ہے وہ تو پوری کرو۔ پوچھا گیا لازمی کتنی ہے؟ فرمایا کہ ایک دن اور ایک رات اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اپنے مہمان کی خاطر کرے اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اچھی بات کہے ورنہ چپ رہے۔ حدیث نمبر ۶۴۷۷ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندہ ایک بات زبان سے نکالتا ہے اور اس کے متعلق سوچتا نہیں (کتنی کفر اور بےادبی کی بات ہے) جس کی وجہ سے وہ دوزخ کے گڑھے میں اتنی دور گر پڑتا ہے جتنا مغرب سے مشرق دور ہے۔ حدیث نمبر ۶۴۷۸ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بندہ اللہ کی رضا مندی کے لیے ایک بات زبان سے نکالتا ہے اسے وہ کوئی اہمیت نہیں دیتا مگر اسی کی وجہ سے اللہ اس کے درجے بلند کر دیتا ہے اور ایک دوسرا بندہ ایک ایسا کلمہ زبان سے نکالتا ہے جو اللہ کی ناراضگی کا باعث ہوتا ہے اسے وہ کوئی اہمیت نہیں دیتا لیکن اس کی وجہ سے وہ جہنم میں چلا جاتا ہے۔ اللہ کے ڈر سے رونے کی فضیلت کا بیانحدیث نمبر ۶۴۷۹ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سات طرح کے لوگ وہ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے سایہ میں پناہ دے گا۔ (ان میں) ایک وہ شخص بھی ہے جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا تو اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ اللہ سے ڈرنے کی فضیلت کا بیانحدیث نمبر ۶۴۸۰ راوی: حذیفہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پچھلی امتوں میں کا، ایک شخص جسے اپنے برے عملوں کا ڈر تھا۔ اس نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ جب میں مر جاؤں تو میری لاش ریزہ ریزہ کر کے گرم دن میں اٹھا کے دریا میں ڈال دینا۔ اس کے گھر والوں نے اس کے ساتھ ایسا ہی کیا پھر اللہ تعالیٰ نے اسے جمع کیا اور اس سے پوچھا کہ یہ جو تم نے کیا اس کی وجہ کیا ہے؟ اس شخص نے کہا کہ پروردگار مجھے اس پر صرف تیرے خوف نے آمادہ کیا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کی مغفرت فرما دی۔ حدیث نمبر ۶۴۸۱ راوی: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھلی امتوں کے ایک شخص کا ذکر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے مال و اولاد عطا فرمائی تھی۔ جب اس کی موت کا وقت آیا تو اس نے اپنے لڑکوں سے پوچھا، باپ کی حیثیت سے میں نے کیسا اپنے آپ کو ثابت کیا؟ لڑکوں نے کہا کہ بہترین باپ۔ پھر اس شخص نے کہا کہ اس نے اللہ کے پاس کوئی نیکی نہیں جمع کی ہے ۔ اور اس نے یہ بھی کہا کہ اگر اسے اللہ کے حضور میں پیش کیا گیا تو اللہ تعالیٰ اسے عذاب دے گا اس نے اپنے لڑکوں سے کہا کہ دیکھو، جب میں مر جاؤں تو میری لاش کو جلا دینا اور جب میں کوئلہ ہو جاؤں تو مجھے پیس دینا اور کسی تیز ہوا کے دن مجھے اس میں اڑا دینا۔ اس نے اپنے لڑکوں سے اس پر وعدہ لیا چنانچہ لڑکوں نے اس کے ساتھ ایسا ہی کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہو جا۔ چنانچہ وہ ایک مرد کی شکل میں کھڑا نظر آیا۔ پھر فرمایا، میرے بندے! یہ جو تو نے کرایا ہے اس پر تجھے کس چیز نے آمادہ کیا تھا؟ اس نے کہا کہ تیرے خوف نے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا بدلہ یہ دیا کہ اس پر رحم فرمایا۔ گناہوں سے باز رہنے کا بیانحدیث نمبر ۶۴۸۲ راوی: ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری اور جو کچھ کلام اللہ نے میرے ساتھ بھیجا ہے اس کی مثال ایک ایسے شخص جیسی ہے جو اپنی قوم کے پاس آیا اور کہا کہ میں نے (تمہارے دشمن کا) لشکر اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور میں واضح ڈرانے والا ہوں۔ پس بھاگو، پس بھاگو (اپنی جان بچاؤ) اس پر ایک جماعت نے اس کی بات مان لی اور رات ہی رات اطمینان سے کسی محفوظ جگہ پر نکل گئے اور نجات پائی۔ لیکن دوسری جماعت نے اسے جھٹلایا اور دشمن کے لشکر نے صبح کے وقت اچانک انہیں آ لیا اور تباہ کر دیا۔ حدیث نمبر ۶۴۸۳ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اور لوگوں کی مثال ایک ایسے شخص کی ہے جس نے آگ جلائی، جب اس کے چاروں طرف روشنی ہو گئی تو پروانے اور یہ کیڑے مکوڑے جو آگ پر گرتے ہیں اس میں گرنے لگے اور آگ جلانے والا انہیں اس میں سے نکالنے لگا لیکن وہ اس کے قابو میں نہیں آئے اور آگ میں گرتے رہے۔ اسی طرح میں تمہاری کمر کو پکڑ کر آگ سے تمہیں نکالتا ہوں اور تم ہو کہ اسی میں گرتے جاتے ہو۔ حدیث نمبر ۶۴۸۴ راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمان وہ ہے جو مسلمانوں کو اپنی زبان اور ہاتھ سے (تکلیف پہنچنے سے) محفوظ رکھے اور مہاجر وہ ہے جو ان چیزوں سے رک جائے جس سے اللہ نے منع کیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد اگر تمہیں معلوم ہو جاتا جو مجھے معلوم ہے تو تم ہنستے کم اور روتے زیادہحدیث نمبر ۶۴۸۵ راوی: سعید بن مسیب ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کیا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تمہیں وہ معلوم ہو جائے جو میں جانتا ہوں تو تم ہنستے کم اور روتے زیادہ۔ حدیث نمبر ۶۴۸۶ راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تمہیں وہ معلوم ہوتا جو میں جانتا ہوں تو تم ہنستے کم اور روتے زیادہ۔ دوزخ کو خواہشات نفسانی سے ڈھک دیا گیا ہےحدیث نمبر ۶۴۸۷ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دوزخ خواہشات نفسانی سے ڈھک دی گئی ہے اور جنت مشکلات اور دشواریوں سے ڈھکی ہوئی ہے۔ جنت تمہارے جوتے کے تسمے سے بھی زیادہ تمہارے قریب ہے اور اسی طرح دوزخ بھی ہےحدیث نمبر ۶۴۸۸ راوی: عبداللہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت تمہارے جوتے کے تسمے سے بھی زیادہ تمہارے قریب ہے اور اسی طرح دوزخ بھی۔ حدیث نمبر ۶۴۸۹ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے سچا شعر جسے شاعر نے کہا ہے یہ ہے ہاں اللہ کے سوا تمام چیزیں بےبنیاد ہیں۔ اسے دیکھنا چاہئے جو نیچے درجہ کا ہے اسے نہیں دیکھنا چاہئے جس کا مرتبہ اس سے اونچا ہےحدیث نمبر ۶۴۹۰ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں نے کوئی شخص کسی ایسے آدمی کو دیکھے جو مال اور شکل و صورت میں اس سے بڑھ کر ہے تو اسے ایسے شخص کا دھیان کرنا چاہئے جو اس سے کم درجہ کا ہے۔ جس نے کسی نیکی یا بدی کا ارادہ کیا اس کا نتیجہ کیا ہے؟حدیث نمبر ۶۴۹۱ راوی: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا: اللہ تعالیٰ نے نیکیاں اور برائیاں مقدر کر دی ہیں اور پھر انہیں صاف صاف بیان کر دیا ہے۔ پس جس نے کسی نیکی کا ارادہ کیا لیکن اس پر عمل نہ کر سکا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے ایک مکمل نیکی کا بدلہ لکھا ہے اور اگر اس نے ارادہ کے بعد اس پر عمل بھی کر لیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے اپنے یہاں دس گنا سے سات سو گنا تک نیکیاں لکھی ہیں اور اس سے بڑھ کر اور جس نے کسی برائی کا ارادہ کیا اور پھر اس پر عمل نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے اپنے یہاں نیکی لکھی ہے اور اگر اس نے ارادہ کے بعد اس پر عمل بھی کر لیا تو اپنے یہاں اس کے لیے ایک برائی لکھی ہے۔ چھوٹے اور حقیر گناہوں سے بھی بچتے رہناحدیث نمبر ۶۴۹۲ راوی: غیلان ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم ایسے ایسے عمل کرتے ہو جو تمہاری نظر میں بال سے زیادہ باریک ہیں (تم اسے حقیر سمجھتے ہو، بڑا گناہ نہیں سمجھتے) اور ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ان کاموں کو ہلاک کر دینے والا سمجھتے تھے۔ عملوں کا اعتبار خاتمہ پر ہے اور خاتمہ سے ڈرتے رہناحدیث نمبر ۶۴۹۳ راوی: سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جو مشرکین سے جنگ میں مصروف تھا، یہ شخص مسلمانوں کے صاحب مال و دولت لوگوں میں سے تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی چاہتا ہے کہ کسی جہنمی کو دیکھے تو وہ اس شخص کو دیکھے۔ اس پر ایک صحابی اس شخص کے پیچھے لگ گئے وہ شخص برابر لڑتا رہا اور آخر زخمی ہو گیا۔ پھر اس نے چاہا کہ جلدی مر جائے۔ پس اپنی تلوار ہی کی دھار اپنے سینے کے درمیان رکھ کر اس پر اپنے آپ کو ڈال دیا اور تلوار اس کے شانوں کو چیرتی ہوئی نکل گئی (اس طرح وہ خودکشی کر کے مر گیا)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بندہ لوگوں کی نظر میں اہل جنت کے کام کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جہنم میں سے ہوتا ہے۔ ایک دوسرا بندہ لوگوں کی نظر میں اہل جہنم کے کام کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے اور اعمال کا اعتبار تو خاتمہ پر موقوف ہے۔ بری صحبت سے تنہائی بہتر ہےحدیث نمبر ۶۴۹۴ راوی: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ایک اعرابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا یا رسول اللہ! کون شخص سب سے اچھا ہے؟ فرمایا کہ وہ شخص جس نے اپنی جان اور مال کے ذریعہ جہاد کیا اور وہ شخص جو کسی پہاڑ کی کھوہ میں ٹھہرا ہوا اپنے رب کی عبادت کرتا ہے اور لوگوں کو اپنی برائی سے محفوظ رکھتا ہے۔ حدیث نمبر ۶۴۹۵ راوی: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں پر ایک ایسا دور آئے گا جب ایک مسلمان کا سب سے بہتر مال بھیڑیں ہوں گی وہ انہیں لے کر پہاڑ کی چوٹیوں اور بارش کی جگہوں پر چلا جائے گا، اس دن وہ اپنے دین کو لے کر فسادوں سے ڈر کر وہاں سے بھاگ جائے گا۔ آخر زمانہ میں دنیا سے امانت داری کا اٹھ جاناحدیث نمبر ۶۴۹۶ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب امانت ضائع کی جائے تو قیامت کا انتظار کرو۔ پوچھا یا رسول اللہ! امانت کس طرح ضائع کی جائے گی؟ فرمایا جب کام نااہل لوگوں کے سپرد کر دئیے جائیں تو قیامت کا انتظار کرو۔ حدیث نمبر ۶۴۹۷ راوی: حذیفہ رضی اللہ عنہ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو حدیثیں ارشاد فرمائیں۔ ایک کا ظہور تو میں دیکھ چکا ہوں اور دوسری کا منتظر ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا کہ امانت لوگوں کے دلوں کی گہرائیوں میں اترتی ہے۔ پھر قرآن شریف سے، پھر حدیث شریف سے اس کی مضبوطی ہوتی جاتی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے اس کے اٹھ جانے کے متعلق ارشاد فرمایا کہ آدمی ایک نیند سوئے گا اور (اسی میں) امانت اس کے دل سے ختم ہو گی اور اس بےایمانی کا ہلکا نشان پڑ جائے گا۔ پھر ایک اور نیند لے گا اب اس کا نشان چھالے کی طرح ہو جائے گا جیسے تو پاؤں پر ایک چنگاری لڑھکائے تو ظاہر میں ایک چھالا پھول آتا ہے اس کو پھولا دیکھتا ہے، پر اندر کچھ نہیں ہوتا۔ پھر حال یہ ہو جائے گا کہ صبح اٹھ کر لوگ خرید و فروخت کریں گے اور کوئی شخص امانت دار نہیں ہو گا، کہا جائے گا کہ بنی فلاں میں ایک امانت دار شخص ہے۔ کسی شخص کے متعلق کہا جائے گا کہ کتنا عقلمند ہے، کتنا بلند حوصلہ ہے اور کتنا بہادر ہے۔ حالانکہ اس کے دل میں رائی برابر بھی ایمان (امانت) نہیں ہو گا۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے ایک ایسا وقت بھی گزارا ہے کہ میں اس کی پروا نہیں کرتا تھا کہ کس سے خرید و فروخت کرتا ہوں۔ اگر وہ مسلمان ہوتا تو اس کو اسلام (بےایمانی سے) روکتا تھا۔ اگر وہ نصرانی ہوتا تو اس کا مددگار اسے روکتا تھا لیکن اب میں فلاں اور فلاں کے سوا کسی سے خرید و فروخت ہی نہیں کرتا۔ حدیث نمبر ۶۴۹۸ راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں کی مثال اونٹوں کی سی ہے قریب ہے کہ تو ان میں سے ایک کو بھی سواری کے قابل نہ پائے۔ ریا اور شہرت طلبی کی مذمت میںحدیث نمبر ۶۴۹۹ راوی: جندب رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (کسی نیک کام کے نتیجہ میں) جو شہرت کا طالب ہو اللہ تعالیٰ اس کی بدنیتی قیامت کے دن سب کو سنا دے گا۔ اسی طرح جو کوئی لوگوں کو دکھانے کے لیے نیک کام کرے گا اللہ بھی قیامت کے دن اس کو سب لوگوں کو دکھلا دے گا۔ جو اللہ کی اطاعت میں اپنے نفس کو دبائے اس کی فضیلت کا بیانحدیث نمبر ۶۵۰۰ راوی: معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر آپ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔ سوا کجاوہ کے آخری حصہ کے میرے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے معاذ! میں نے عرض کیا لبیک وسعدیک، یا رسول اللہ! پھر تھوڑی دیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے پھر فرمایا، اے معاذ! میں نے عرض کیا لبیک وسعدیک یا رسول اللہ! پھر تھوڑی دیر مزید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے۔ پھر فرمایا، اے معاذ! میں نے عرض کیا لبیک وسعدیک یا رسول اللہ! فرمایا، تمہیں معلوم ہے کہ اللہ کا اپنے بندوں پر کیا حق ہے؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ فرمایا، اللہ کا بندوں پر یہ حق ہے کہ وہ اللہ ہی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر چلتے رہے اور فرمایا، اے معاذ بن جبل! میں نے عرض کیا لبیک وسعدیک یا رسول اللہ! فرمایا، تمہیں معلوم ہے کہ جب بندے یہ کر لیں تو ان کا اللہ پر کیا حق ہے؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ فرمایا کہ بندوں کا اللہ پر یہ حق ہے کہ وہ انہیں عذاب نہ دے۔ عاجزی کرنے کے بیان میںحدیث نمبر ۶۵۰۱ راوی: انس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اونٹنی تھی جس کا نام عضباء تھا کوئی جانور دوڑ میں اس سے آگے نہیں بڑھ پاتا تھا۔ پھر ایک اعرابی اپنے اونٹ پر سوار ہو کر آیا اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی سے آگے بڑھ گیا۔ مسلمانوں پر یہ معاملہ بڑا شاق گزرا اور کہنے لگے کہ افسوس عضباء پیچھے رہ گئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر یہ لازم کر لیا ہے کہ جب دنیا میں وہ کسی چیز کو بڑھاتا ہے تو اسے وہ گھٹاتا بھی ہے۔ حدیث نمبر ۶۵۰۲ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ جن جن عبادتوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے اور کوئی عبادت مجھ کو اس سے زیادہ پسند نہیں ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے (یعنی فرائض مجھ کو بہت پسند ہیں جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ) اور میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعد نفل عبادتیں کر کے مجھ سے اتنا نزدیک ہو جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اگر وہ کسی دشمن یا شیطان سے میری پناہ مانگتا ہے تو میں اسے محفوظ رکھتا ہوں اور میں جو کام کرنا چاہتا ہوں اس میں مجھے اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا کہ مجھے اپنے مؤمن بندے کی جان نکالنے میں ہوتا ہے۔ وہ تو موت کو بوجہ تکلیف جسمانی کے پسند نہیں کرتا اور مجھ کو بھی اسے تکلیف دینا برا لگتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد کہ میں اور قیامت دونوں ایسے نزدیک ہیں جیسے یہ (کلمہ اور بیچ کی انگلیاں) نزدیک ہیںاللہ تعالیٰ کا ارشاد: وَمَا أَمْرُ السَّاعَةِ إِلا كَلَمْحِ الْبَصَرِ أَوْ هُوَ أَقْرَبُ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ اور قیامت کا معاملہ تو بس آنکھ جھپکنے کی طرح ہے یا وہ اس سے بھی جلد ہے بیشک اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔(۱۶:۷۷) حدیث نمبر ۶۵۰۳ راوی: سہل رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اور قیامت اتنے نزدیک نزدیک بھیجے گئے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دو انگلیوں کے اشارہ سے (اس نزدیکی کو) بتایا پھر ان دونوں کو پھیلایا۔ حدیث نمبر ۶۵۰۴ راوی: انس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اور قیامت ان دونوں (انگلیوں) کی طرح (نزدیک نزدیک) بھیجے گئے ہیں۔ حدیث نمبر ۶۵۰۵ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اور قیامت ان دو کی طرح بھیجے گئے ہیں۔ آپ کی مراد دو انگلیوں سے تھی۔ حدیث نمبر ۶۵۰۶ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک سورج مغرب سے نہ نکلے گا۔ جب سورج مغرب سے نکلے گا اور لوگ دیکھ لیں گے تو سب ایمان لے آئیں گے، یہی وہ وقت ہو گا جب کسی کو اس کا ایمان نفع نہیں دے گا جو اس سے پہلے ایمان نہ لایا ہو گا یا جس نے ایمان کے بعد عمل خیر نہ کیا ہو۔ پس قیامت آ جائے گی اور دو آدمی کپڑا درمیان میں (خرید و فروخت کے لیے) پھیلائے ہوئے ہوں گے۔ ابھی خرید و فروخت بھی نہیں ہوئی ہو گی اور نہ انہوں نے اسے لپیٹا ہی ہو گا (کہ قیامت قائم ہو جائے گی) اور قیامت اس حال میں قائم ہو جائے گی کہ ایک شخص اپنی اونٹنی کا دودھ لے کر آ رہا ہو گا اور اسے پی بھی نہیں سکے گا اور قیامت اس حال میں قائم ہو جائے گی کہ ایک شخص اپنا حوض تیار کرا رہا ہو گا اور اس کا پانی بھی نہ پی پائے گا۔ قیامت اس حال میں قائم ہو جائے گی کہ ایک شخص اپنا لقمہ اپنے منہ کی طرف اٹھائے گا اور اسے کھانے بھی نہ پائے گا۔ جو اللہ سے ملاقات کو پسند رکھتا ہے اللہ بھی اس سے ملنے کو پسند رکھتا ہےحدیث نمبر ۶۵۰۷ راوی: عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اللہ سے ملنے کو محبوب رکھتا ہے، اللہ بھی اس سے ملنے کو محبوب رکھتا ہے اور جو اللہ سے ملنے کو پسند نہیں کرتا ہے اللہ بھی اس سے ملنے کو پسند نہیں کرتا۔ اور عائشہ رضی اللہ عنہا یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض ازواج نے عرض کیا کہ مرنا تو ہم بھی پسند نہیں کرتے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے ملنے سے موت مراد نہیں ہے بلکہ بات یہ ہے کہ ایماندار آدمی کو جب موت آتی ہے تو اسے اللہ کی خوشنودی اور اس کے یہاں اس کی عزت کی خوشخبری دی جاتی ہے۔ اس وقت مؤمن کو کوئی چیز اس سے زیادہ عزیز نہیں ہوتی جو اس کے آگے (اللہ سے ملاقات اور اس کی رضا اور جنت کے حصول کے لیے) ہوتی ہے، اس لیے وہ اللہ سے ملاقات کا خواہشمند ہو جاتا ہے اور اللہ بھی اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اور جب کافر کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو اسے اللہ کے عذاب اور اس کی سزا کی بشارت دی جاتی ہے، اس وقت کوئی چیز اس کے دل میں اس سے زیادہ ناگوار نہیں ہوتی جو اس کے آگے ہوتی ہے۔ وہ اللہ سے جا ملنے کو ناپسند کرنے لگتا ہے، پس اللہ بھی اس سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے۔ حدیث نمبر ۶۵۰۸ راوی: ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اللہ سے ملنے کو پسند کرتا ہے اللہ بھی اس سے ملنے کو پسند کرتا ہے اور جو شخص اللہ سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے اللہ بھی اس سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے۔ حدیث نمبر ۶۵۰۹ راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب آپ خاصے تندرست تھے فرمایا تھا کسی نبی کی اس وقت تک روح قبض نہیں کی جاتی جب تک جنت میں اس کے رہنے کی جگہ اسے دکھا نہ دی جاتی ہو اور پھر اسے (دنیا یا آخرت کے لیے) اختیار دیا جاتا ہے۔ پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک میری ران پر تھا تو آپ پر تھوڑی دیر کے لیے غشی چھا گئی، پھر جب آپ کو ہوش آیا تو آپ چھت کی طرف ٹکٹکی لگا کر دیکھنے لگے۔ پھر فرمایا للَّهُمَّ الرَّفِيقَ الْأَعْلَى میں نے کہا کہ اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ترجیح نہیں دے سکتے اور میں سمجھ گئی کہ یہ وہی حدیث ہے جو آپ نے ایک مرتبہ ارشاد فرمائی تھی۔ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری کلمہ تھا جو آپ نے اپنی زبان مبارک سے ادا فرمایا یعنی یہ ارشاد کہ للَّهُمَّ الرَّفِيقَ الْأَعْلَى یعنی یا اللہ! مجھ کو بلند رفیقوں کا ساتھ پسند ہے۔ موت کی سختیوں کا بیانحدیث نمبر ۶۵۱۰ راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کی وفات کے وقت) آپ کے سامنے ایک بڑا پانی کا پیالہ رکھا ہوا تھا جس میں پانی تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنا ہاتھ اس برتن میں ڈالتے اور پھر اس ہاتھ کو اپنے چہرہ پر ملتے اور فرماتے لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، بلاشبہ موت میں تکلیف ہوتی ہے، پھر آپ اپنا ہاتھ اٹھا کر فرمانے لگے فِي الرَّفِيقِ الْأَعْلَى یہاں تک کہ آپ کی روح مبارک قبض ہو گئی اور آپ کا ہاتھ جھک گیا۔ حدیث نمبر ۶۵۱۱ راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا چند بدوی جو ننگے پاؤں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے تھے اور آپ سے دریافت کرتے تھے کہ قیامت کب آئے گی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے کم عمر والے کو دیکھ کر فرمانے لگے کہ اگر یہ بچہ زندہ رہا تو اس کے بڑھاپے سے پہلے تم پر تمہاری قیامت آ جائے گی۔ ہشام نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد (قیامت سے) ان کی موت تھی۔ حدیث نمبر ۶۵۱۲ راوی: ابوقتادہ بن ربعی انصاری رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب سے لوگ ایک جنازہ لے کر گزرے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مُسْتَرِيحٌ وَمُسْتَرَاحٌ ہے یعنی اسے آرام مل گیا، یا اس سے آرام مل گیا۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! مَا الْمُسْتَرِيحُ وَالْمُسْتَرَاحُ مِنْهُ کا کیا مطلب ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مؤمن بندہ دنیا کی مشقتوں اور تکلیفوں سے اللہ کی رحمت میں نجات پا جاتا ہے وہ مُسْتَرِيحُ ہے اور مُسْتَرَاحُ مِنْهُ وہ ہے کہ فاجر بندہ سے اللہ کے بندے، شہر، درخت اور چوپائے سب آرام پا جاتے ہیں۔ حدیث نمبر ۶۵۱۳ راوی: ابوقتادہ بن ربعی انصاری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ مرنے والا یا تو آرام پانے والا ہے یا دوسرے بندوں کو آرام دینے والا ہے۔ حدیث نمبر ۶۵۱۴ راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میت کے ساتھ تین چیزیں چلتی ہیں دو تو واپس آ جاتی ہیں صرف ایک کام اس کے ساتھ رہ جاتا ہے، اس کے ساتھ اس کے گھر والے اس کا مال اور اس کا عمل چلتا ہے اس کے گھر والے اور مال تو واپس آ جاتا ہے اور اس کا عمل اس کے ساتھ باقی رہ جاتا ہے۔ حدیث نمبر ۶۵۱۵ راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی مرتا ہے تو صبح و شام (جب تک وہ برزخ میں ہے) اس کے رہنے کی جگہ اسے ہر روز دکھائی جاتی ہے یا دوزخ ہو یا جنت اور کہا جاتا ہے کہ یہ تیرے رہنے کی جگہ ہے یہاں تک کہ تو اٹھایا جائے (یعنی قیامت کے دن تک)۔ حدیث نمبر ۶۵۱۶ راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو لوگ مر گئے ان کو برا نہ کہو کیونکہ جو کچھ انہوں نے آگے بھیجا تھا اس کے پاس وہ خود پہنچ چکے ہیں، انہوں نے برے بھلے جو بھی عمل کئے تھے ویسا بدلہ پا لیا۔ صور پھونکنے کا بیانمجاہد نے کہا کہ صور ایک سینگ کی طرح ہے۔ اور سورۃ یٰسین میں جو ہے فانما هی زجرة واحدة تو زَجْرَةٌ کے معنی چیخ کے ہیدوسری بار پھونکنا اور صَيْحَةٌ پہلی بار پھونکنا۔ اور ابن عباس نے کہا النَّاقُورِ جو سورۃ المائدہ میں الصُّورِ کو کہتے ہیں ۔ الرَّاجِفَةُ جو سورۃ والنازعات میں ہےپہلی بار صور کا پھونکنا، والرَّادِفَةُ جو اسی سورت میں ہےدوسری بار کا پھونکنا۔ حدیث نمبر ۶۵۱۷ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ دو آدمیوں نے آپس میں گالی گلوچ کی۔ جن میں سے ایک مسلمان تھا اور دوسرا یہودی تھا۔ مسلمان نے کہا کہ اس پروردگار کی قسم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہان پر برگزیدہ کیا۔ یہودی نے کہا کہ اس پروردگار کی قسم جس نے موسیٰ علیہ السلام کو تمام جہان پر برگزیدہ کیا۔ مسلمان یہودی کی بات سن کر خفا ہو گیا اور اس کے منہ پر ایک طمانچہ رسید کیا۔ وہ یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا اور مسلمان کا سارا واقعہ بیان کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دیکھو موسیٰ علیہ السلام پر مجھ کو فضیلت مت دو کیونکہ قیامت کے دن ایسا ہو گا کہ صور پھونکتے ہی تمام لوگ بیہوش ہو جائیں گے اور میں سب سے پہلا شخص ہوں گا جسے ہوش آئے گا۔ میں کیا دیکھوں گا کہ موسیٰ علیہ السلام عرش الٰہی کا کونہ تھامے ہوئے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کی موسیٰ علیہ السلام بھی ان لوگوں میں ہوں گے جو بیہوش ہوئے تھے اور پھر مجھ سے پہلے ہی ہوش میں آ گئے تھے یا ان میں سے ہوں گے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس سے مستثنیٰ کر دیا۔ حدیث نمبر ۶۵۱۸ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے ہوشی کے وقت تمام لوگ بیہوش ہو جائیں گے اور سب سے پہلے اٹھنے والا میں ہوں گا۔ اس وقت موسیٰ علیہ السلام عرش الٰہی کا کونہ تھامے ہوں گے۔ اب میں نہیں جانتا کہ وہ بیہوش بھی ہوں گے یا نہیں۔ اللہ تعالیٰ زمین کو اپنی مٹھی میں لے لے گااس امر کو نافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ حدیث نمبر ۶۵۱۹ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ زمین کو اپنی مٹھی میں لے لے گا اور آسمانوں کو اپنے دائیں ہاتھ میں لپیٹ لے گا، پھر فرمائے گا کہ اب میں ہوں بادشاہ، آج زمین کے بادشاہ کہاں گئے؟ حدیث نمبر ۶۵۲۰ راوی: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن ساری زمین ایک روٹی کی طرح ہو جائے گی جسے اللہ تعالیٰ اہل جنت کی میزبانی کے لیے اپنے ہاتھ سے الٹے پلٹے گا جس طرح تم دستر خوان پر روٹی لہراتے پھراتے ہو۔ پھر ایک یہودی آیا اور بولا ابوالقاسم! تم پر رحمٰن برکت نازل کرے کیا میں تمہیں قیامت کے دن اہل جنت کی سب سے پہلی ضیافت کے بارے میں خبر نہ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کیوں نہیں۔ تو اس نے (بھی یہی) کہا کہ ساری زمین ایک روٹی کی طرح ہو جائے گی جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف دیکھا اور مسکرائے جس سے آپ کے آگے کے دانت دکھائی دینے لگے۔ پھر (س نے) خود ہی پوچھا کیا میں تمہیں اس کے سالن کے متعلق خبر نہ دوں؟ (پھر خود ہی) بولا کہ ان کا سالن بَالَامٌ وَنُونٌ ہو گا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا کہ یہ کیا چیز ہے؟ اس نے کہا کہ بیل اور مچھلی جس کی کلیجی کے ساتھ زائد چربی کے حصے کو ستر ہزار آدمی کھائیں گے۔ حدیث نمبر ۶۵۲۱ راوی: سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن لوگوں کا حشر سفید و سرخی آمیز زمین پر ہو گا جیسے میدہ کی روٹی صاف و سفید ہوتی ہے۔ اس زمین پر کسی چیزکا کوئی نشان نہ ہو گا۔ حشر کی کیفیت کے بیان میںحدیث نمبر ۶۵۲۲ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگوں کا حشر تین فرقوں میں ہو گا - ایک فرقہ والےلوگ رغبت کرنے نیز ڈرنے والے ہوں گے۔ - دوسرا فرقہ ایسے لوگوں کا ہو گا کہایک اونٹ پر دو آدمی سوار ہوں گے کسی اونٹ پر تین ہوں گے، کسی اونٹ پر چار ہوں گے اور کسی پر دس ہوں گے۔ - اور باقی لوگوں کو آگ جمع کرے گی اہل شرک کا یہ تیسرا فرقہ ہو گاجب وہ قیلولہ کریں گے تو آگ بھی ان کے ساتھ ٹھہری ہو گی جب وہ رات گزاریں گے تو آگ بھی ان کے ساتھ وہاں ٹھہری ہو گی جب وہ صبح کریں گے تو آگ بھی صبح کے وقت وہاں موجود ہو گی اور جب وہ شام کریں گے تو آگ بھی شام کے وقت ان کے ساتھ موجود ہو گی۔ حدیث نمبر ۶۵۲۳ راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ ایک صحابی نے کہا، اے اللہ کے نبی! قیامت میں کافروں کو ان کے چہرے کے بل کس طرح حشر کیا جائے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ ذات جس نے انہیں دنیا میں دو پاؤں پر چلایا اسے اس پر قدرت نہیں ہے کہ قیامت کے دن انہیں چہرے کے بل چلا دے۔ قتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ضرور ہے، ہمارے رب کی عزت کی قسم، بیشک وہ منہ کے بل چلا سکتا ہے۔ حدیث نمبر ۶۵۲۴ راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اللہ سے قیامت کے دن ننگے پاؤں، ننگے بدن اور پیدل چل کر بن ختنہ ملو گے۔ حدیث نمبر ۶۵۲۵ راوی: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ منبر پر خطبہ میں فرما رہے تھے کہ تم اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملو گے کہ ننگے پاؤں، ننگے جسم اور بغیر ختنہ ہو گے۔ حدیث نمبر ۶۵۲۶ راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا تم لوگ قیامت کے دن اس حال میں جمع کئے جاؤ گے کہ ننگے پاؤں اور ننگے جسم ہو گے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ جس طرح ہم نے شروع میں پیدا کیا تھا اسی طرح لوٹا دیں گے۔ (۲۱:۱۰۴) اور تمام مخلوقات میں سب سے پہلے جسے کپڑا پہنایا جائے گا وہ ابراہیم علیہ السلام ہوں گے اور میری امت کے بہت سے لوگ لائے جائیں گے جن کے اعمال نامے بائیں ہاتھ میں ہوں گے۔ میں اس پر کہوں گا اے میرے رب! یہ تو میرے ساتھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تمہیں معلوم نہیں کہ انہوں نے تمہارے بعد کیا کیا نئی نئی بدعات نکالی تھیں۔ اس وقت میں بھی وہی کہوں گا جو نیک بندے (عیسیٰ علیہ السلام) نے کہا وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ ۔۔۔ الْحَكِيمُ یا اللہ! میں جب تک ان میں موجود رہا اس وقت تک میں ان پر گواہ تھا۔(۵:۱۱۷،۸) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا کہ فرشتے (مجھ سے) کہیں گے کہ یہ لوگ ہمیشہ اپنی ایڑیوں کے بل پھرتے ہی رہے (مرتد ہوتے رہے)۔ حدیث نمبر ۶۵۲۷ راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم ننگے پاؤں، ننگے جسم، بلا ختنہ کے اٹھائے جاؤ گے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس پر میں نے پوچھا یا رسول اللہ! تو کیا مرد عورتیں ایک دوسرے کو دیکھتے ہوں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس وقت معاملہ اس سے کہیں زیادہ سخت ہو گا، اس کا خیال بھی کوئی نہیں کر سکے گا۔ حدیث نمبر ۶۵۲۸ راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک خیمہ میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس پر راضی ہو کہ اہل جنت کا ایک چوتھائی رہو؟ ہم نے کہا کہ جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس پر راضی ہو کہ اہل جنت کا تم ایک تہائی رہو؟ ہم نے کہا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس پر راضی ہو کہ اہل جنت کا تم نصف رہو؟ ہم نے کہا جی ہاں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے، مجھے امید ہے کہ تم لوگ (امت مسلمہ) اہل جنت کا حصہ ہو گے اور ایسا اس لیے ہو گا کہ جنت میں فرمانبردار نفس کے علاوہ اور کوئی داخل نہ ہو گا اور تم لوگ شرک کرنے والوں کے درمیان (تعداد میں) اس طرح ہو گے جیسے سیاہ بیل کے جسم پر سفید بال ہوتے ہیں یا جیسے سرخ کے جسم پر ایک سیاہ بال ہو۔ حدیث نمبر ۶۵۲۹ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن سب سے پہلے آدم علیہ السلام کو پکارا جائے گا۔ پھر ان کی نسل ان کو دیکھے گی تو کہا جائے گا کہ یہ تمہارے بزرگ دادا آدم ہیں۔ (پکارنے پر) وہ کہیں گے کہ لبیک و سعدیک۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اپنی نسل میں سے دوزخ کا حصہ نکال لو۔ آدم علیہ السلام عرض کریں گے اے پروردگار! کتنوں کو نکالوں؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا فیصد (ننانوے فیصد دوزخی ایک جنتی)۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! جب ہم میں سو میں ننانوے نکال دئیے جائیں تو پھر باقی کیا رہ جائیں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمام امتوں میں میری امت اتنی ہی تعداد میں ہو گی جیسے سیاہ بیل کے جسم پر سفید بال ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد قیامت کی ہلچل ایک بڑی مصیبت ہو گیاور سورۃ النجم اور سورۃ انبیاء میں فرمایا اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ قیامت قریب آ گئی۔ حدیث نمبر ۶۵۳۰ راوی: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا، اے آدم! آدم علیہ السلام کہیں گے حاضر ہوں فرماں بردار ہوں اور ہر بھلائی تیرے ہاتھ میں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا جو لوگ جہنم میں ڈالے جائیں گے انہیں نکال لو۔ آدم علیہ السلام پوچھیں گے جہنم میں ڈالے جانے والے لوگ کتنے ہیں؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ہر ایک ہزار میں سے نو سو ننانوے۔ یہی وہ وقت ہو گا جب بچے غم سے بوڑھے ہو جائیں گے اور حاملہ عورتیں اپنا حمل گرا دیں گی اور تم لوگوں کو نشہ کی حالت میں دیکھو گے، حالانکہ وہ واقعی نشہ کی حالت میں نہ ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب سخت ہو گا۔ صحابہ کو یہ بات بہت سخت معلوم ہوئی تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! پھر ہم میں سے وہ (خوش نصیب) شخص کون ہو گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں خوشخبری ہو، ایک ہزار یاجوج ماجوج کی قوم سے ہوں گے۔ اور تم میں سے وہ ایک جنتی ہو گا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، مجھے امید ہے کہ تم لوگ اہل جنت کا ایک تہائی حصہ ہو گے۔ ہم نے اس پر اللہ کی حمد بیان کی اور اس کی تکبیر کہی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے مجھے امید ہے کہ آدھا حصہ اہل جنت کا تم لوگ ہو گے۔ تمہاری مثال دوسری امتوں کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسے کسی سیاہ بیل کے جسم پر سفید بالوں کی (معمولی تعداد) ہوتی ہے یا وہ سفید داغ جو گدھے کے آگے کے پاؤں پر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان: أَلَا يَظُنُّ أُولَئِكَ أَنَّهُمْ مَبْعُوثُونَ - لِيَوْمٍ عَظِيمٍ - يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ اٹھائے بھی جائیں گے (یعنی) ایک بڑے (سخت) دن میں جس دن تمام لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ (۸۳:۴-۶) ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْأَسْبَابُ کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے رشتے ناطے جو یہاں ایک دوسرے سے تھے وہ ختم ہو جائیں گے۔ حدیث نمبر ۶۵۳۱ راوی: ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ (۸۳:۶) کی تفسیر میں فرمایا کہ تم میں سے ہر کوئی سارے جہانوں کے پروردگار کے آگے کھڑا ہو گا اس حال میں کہ اس کا پسینہ کانوں کی لو تک پہنچا ہوا ہو گا۔ حدیث نمبر ۶۵۳۲ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن لوگ پسینے میں شرابور ہو جائیں گے اور حالت یہ ہو جائے گی کہ تم میں سے ہر کسی کا پسینہ زمین پر ستر ہاتھ تک پھیل جائے گا اور منہ تک پہنچ کر کانوں کو چھونے لگے گا۔ قیامت کے دن بدلہ لیا جانا
قیامت کو الْحَاقَّةُ بھی کہتے ہیں کیونکہ اس دن بدلہ ملے گا اور وہ کام ہوں گے جو ثابت اور حق ہیں۔ الْحَقَّةُ، کے ایک ہی معنی ہیں اور وَالْقَارِعَةُ، وَالْغَاشِيَةُ، وَالصَّاخَّةُ وَالصَّاخَّةُ بھی قیامت ہی کو کہتے ہیں۔ اسی طرح يوم وَالتَّغَابُنُ بھی کیونکہ اس دن جنتی کافروں کی جائیداد دبا لیں گے۔ حدیث نمبر ۶۵۳۳ راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے پہلے جس چیز کا فیصلہ لوگوں کے درمیان ہو گا وہ ناحق خون کے بدلہ کا ہو گا۔ حدیث نمبر ۶۵۳۴ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اپنے کسی بھائی پر ظلم کیا ہو تو اسے چاہئے کہ اس سے (اس دنیا میں) معاف کرا لے۔ اس لیے کہ آخرت میں روپے پیسے نہیں ہوں گے۔ اس سے پہلے (معاف کرا لے) کہ اس کے بھائی کے لیے اس کی نیکیوں میں سے حق دلایا جائے گا اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوں گی تو اس (مظلوم) بھائی کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی۔ حدیث نمبر ۶۵۳۵ راوی: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مؤمنین جہنم سے چھٹکارا پا جائیں گے لیکن دوزخ و جنت کے درمیان ایک پل پر انہیں روک لیا جائے گا اور پھر ایک کے دوسرے پر ان مظالم کا بدلہ لیا جائے گا جو دنیا میں ان کے درمیان آپس میں ہوئے تھے اور جب کانٹ چھانٹ کر لی جائے گی اور صفائی ہو جائے گی تب انہیں جنت میں داخل ہونے کی اجازت ملے گی۔ پس اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے! جنتیوں میں سے ہر کوئی جنت میں اپنے گھر کو دنیا کے اپنے گھر کے مقابلہ میں زیادہ بہتر طریقے پر پہچان لے گا۔ جس کے حساب میں کھود کرید کی گئی اس کو عذاب کیا جائے گاحدیث نمبر ۶۵۳۶ راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کے حساب میں کھود کرید کی گئی اس کو ضرور عذاب ہو گا۔ وہ کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا کیا اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں ہے فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا (۸۴:۸) پھر عنقریب ان سے ہلکا حساب لیا جائے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس سے مراد صرف پیشی ہے۔ حدیث نمبر ۶۵۳۷ راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص سے بھی قیامت کے دن حساب لیا گیا پس وہ ہلاک ہوا۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا اللہ تعالیٰ نے خود نہیں فرمایا ہے فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ ۔ فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا پس جس کا نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا گیا تو عنقریب اس سے ایک آسان حساب لیا جائے گا۔ (۸۲:۷،۸) اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو صرف پیشی ہو گی۔ اللہ رب العزت کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن جس کے بھی حساب میں کھود کرید کی گئی اس کو عذاب یقینی ہو گا۔ حدیث نمبر ۶۵۳۸ راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ قیامت کے دن کافر کو لایا جائے گا اور اس سے پوچھا جائے گا کہ تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر زمین بھر کر تمہارے پاس سونا ہو تو کیا سب کو اپنی نجات کے لیےفدیہ میں دے دو گے؟ وہ کہے گا کہ ہاں، تو اس وقت اس سے کہا جائے گا کہ تم سے اس سے بہت آسان چیز کا دنیا میں مطالبہ کیا گیا تھا۔ حدیث نمبر ۶۵۳۹ راوی: عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں ہر ہر فرد سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس طرح کلام کرے گا کہ اللہ کے اور بندے کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہو گا۔ پھر وہ دیکھے گا تو اس کے آگے کوئی چیز نظر نہیں آئے گی۔ پھر وہ اپنے سامنے دیکھے گا اور اس کے سامنے آگ ہو گی۔ پس تم میں سے جو شخص بھی چاہے کہ وہ آگ سے بچے تو وہ اللہ کی راہ میں خیر خیرات کرتا رہے، خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعہ ہی ممکن ہو۔ حدیث نمبر ۶۵۴۰ راوی: عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جہنم سے بچو، پھر آپ نے چہرہ پھیر لیا، پھر فرمایا کہ جہنم سے بچو اور پھر اس کے بعد چہرہ مبارک پھیر لیا، پھر فرمایا جہنم سے بچو۔ تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا۔ ہم نے اس سے یہ خیال کیا کہ آپ جہنم دیکھ رہے ہیں۔ پھر فرمایا کہ جہنم سے بچو خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے ہی کے ذریعہ ہو سکے اور جسے یہ بھی نہ ملے تو اسے (لوگوں میں) کسی اچھی بات کہنے کے ذریعہ سے ہی (جہنم سے) بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ جنت میں ستر ہزار آدمی بلاحساب داخل ہوں گےحدیث نمبر ۶۵۴۱ راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے سامنے امتیں پیش کی گئیں کسی نبی کے ساتھ پوری امت گزری، کسی نبی کے ساتھ چند آدمی گزرے، کسی نبی کے ساتھ دس آدمی گزرے، کسی نبی کے ساتھ پانچ آدمی گزرے اور کوئی نبی تنہا گزرا۔ پھر میں نے دیکھا تو انسانوں کی ایک بہت بڑی جماعت دور سے نظر آئی۔ میں نے جبرائیل سے پوچھا کیا یہ میری امت ہے؟ انہوں نے کہا نہیں بلکہ افق کی طرف دیکھو۔ میں نے دیکھا تو ایک بہت زبردست جماعت دکھائی دی۔ فرمایا کہ یہ ہے آپ کی امت اور یہ جو آگے آگے ستر ہزار کی تعداد ہے ان لوگوں سے حساب نہ لیا جائے گا اور نہ ان پر عذاب ہو گا۔ میں نے پوچھا ایسا کیوں ہو گا؟ انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ داغ نہیں لگواتے تھے۔ دم جھاڑ نہیں کرواتے تھے، شگون نہیں لیتے تھے، اپنے رب پر بھروسہ کرتے تھے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ اٹھ کر بڑھے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی ان لوگوں میں کر دے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ اے اللہ! انہیں بھی ان میں سے کر دے۔ اس کے بعد ایک اور صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ میرے لیے بھی دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی ان میں سے کر دے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عکاشہ اس میں تم سے آگے بڑھ گئے۔ حدیث نمبر ۶۵۴۲ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کی ایک جماعت جنت میں داخل ہو گی جس کی تعداد ستر ہزار ہو گی۔ ان کے چہرے اس طرح روشن ہوں گے جیسے چودہویں رات کا چاند روشن ہوتا ہے۔ اس پر عکاشہ بن محصن اسدی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے، اپنی دھاری دار کملی جو ان کے جسم پر تھی، اٹھاتے ہوئے عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ مجھے بھی ان میں سے کر دے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ اے اللہ! انہیں بھی ان میں سے کر دے۔ اس کے بعد ایک اور صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! دعا کیجئے کہ اللہ مجھے بھی ان میں سے کر دے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عکاشہ تم پر سبقت لے گئے۔ حدیث نمبر ۶۵۴۳ راوی: سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت میں میری امت کے ستر ہزار یا سات لاکھ (راوی کو ان میں سے کسی ایک تعداد میں شک تھا) آدمی اس طرح داخل ہوں گے کہ بعض بعض کو پکڑے ہوئے ہوں گے اور اس طرح ان میں کے اگلے پچھلے سب جنت میں داخل ہو جائیں گے اور ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن ہوں گے۔ حدیث نمبر ۶۵۴۴ راوی: ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب اہل جنت جنت میں اور اہل جہنم جہنم میں داخل ہو جائیں گے تو ایک آواز دینے والا ان کے درمیان کھڑا ہو کر پکارے گا کہ اے جہنم والو! اب تمہیں موت نہیں آئے گی اور اے جنت والو! تمہیں بھی موت نہیں آئے گی بلکہ ہمیشہ یہیں رہنا ہو گا۔ حدیث نمبر ۶۵۴۵ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اہل جنت سے کہا جائے گا کہ اے اہل جنت! ہمیشہ (تمہیں یہیں) رہنا ہے، تمہیں موت نہیں آئے گی اور اہل دوزخ سے کہا جائے گا کہ اے دوزخ والو! ہمیشہ (تم کو یہیں) رہنا ہے، تم کو موت نہیں آئے گی۔ جنت و جہنم کا بیاناور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے پہلے کھانا جسے اہل جنت کھائیں گے وہ مچھلی کی کلیجی کی بڑھی ہوئی چربی ہو گی۔ عَدْنٌ کے معنی ہمیشہ رہنا۔ عرب لوگ کہتے ہیں عَدَنْتُ بِأَرْضٍ یعنی میں نے اس جگہ قیام کیا اور اسی سے الْمَعْدِنُ آتا ہے فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ جو سورۃ القمر میں ہےیعنی سچائی پیدا ہونے کی جگہ۔ حدیث نمبر ۶۵۴۶ راوی: عمران بن حصین رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا کہ میں نے جنت میں جھانک کر دیکھا تو وہاں رہنے والے اکثر غریب لوگ تھے اور میں نے جہنم میں جھانک کر دیکھا (شب معراج میں) تو وہاں عورتیں تھیں۔ حدیث نمبر ۶۵۴۷ راوی: اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں جنت کے دروازے پر کھڑا ہوا تو وہاں اکثر داخل ہونے والے محتاج لوگ تھے اور محنت مزدوری کرنے والے تھے اور مالدار لوگ ایک طرف روکے گئے ہیں، ان کا حساب لینے کے لیے باقی ہے اور جو لوگ دوزخی تھے وہ تو دوزخ کے لیے بھیج دئیے گئے اور میں نے جہنم کے دروازے پر کھڑے ہو کر دیکھا تو اس میں اکثر داخل ہونے والی عورتیں تھیں۔ حدیث نمبر ۶۵۴۸ راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب اہل جنت جنت میں چلے جائیں گے اور اہل دوزخ دوزخ میں چلے جائیں گے تو موت کو لایا جائے گا اور اسے جنت اور دوزخ کے درمیان رکھ کر ذبح کر دیا جائے گا۔ پھر ایک آواز دینے والا آواز دے گا کہ اے جنت والو! تمہیں اب موت نہیں آئے گی اور اے دوزخ والو! تمہیں بھی اب موت نہیں آئے گی۔ اس بات سے جنتی اور زیادہ خوش ہو جائیں گے اور جہنمی اور زیادہ غمگین ہو جائیں گے۔ حدیث نمبر ۶۵۴۹ راوی: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اہل جنت سے فرمائے گا کہ اے جنت والو! جنتی جواب دیں گے ہم حاضر ہیں اے ہمارے پروردگار! تیری سعادت حاصل کرنے کے لیے۔ اللہ تعالیٰ پوچھے گا کیا اب تم لوگ خوش ہوئے؟ وہ کہیں گے اب بھی بھلا ہم راضی نہ ہوں گے کیونکہ اب تو، تو نے ہمیں وہ سب کچھ دے دیا جو اپنی مخلوق کے کسی آدمی کو نہیں دیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں تمہیں اس سے بھی بہتر چیز دوں گا۔ جنتی کہیں گے اے رب! اس سے بہتر اور کیا چیز ہو گی؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اب میں تمہارے لیے اپنی رضا مندی کو ہمیشہ کے لیے دائمی کر دوں گا یعنی اس کے بعد کبھی تم پر ناراض نہیں ہوں گا۔ حدیث نمبر ۶۵۵۰ راوی: انس رضی اللہ عنہ حارثہ بن سراقہ رضی اللہ عنہ بدر کی لڑائی میں شہید ہو گئے۔ وہ اس وقت نوعمر تھے تو ان کی والدہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کو معلوم ہے کہ حارثہ سے مجھے کتنی محبت تھی، آپ مجھے بتائیںاگر وہ جنت میں ہے تو میں صبر کر لوں گی اور صبر پر ثواب کی امیدوار رہوں گی اور اگر کوئی اور بات ہے تو آپ دیکھیں گے کہ میں اس کے لیے کیا کرتی ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ افسوس کیا تم پاگل ہو گئی ہو؟ جنت ایک ہی نہیں ہے، بہت سی جنتیں ہیں اور وہ حارثہجنت الفردوس میں ہے۔ حدیث نمبر ۶۵۵۱ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کافر کے دونوں شانوں کے درمیان تیز چلنے والے کے لیے تین دن کی مسافت کا فاصلہ ہو گا۔ حدیث نمبر ۶۵۵۲ راوی: سہل بن سعد رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت میں ایک درخت ہے جس کے سایہ میں سوار سو سال تک چلنے کے بعد بھی اسے طے نہیں کر سکے گا۔ حدیث نمبر ۶۵۵۳ راوی: ابوسعید رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت میں ایک درخت ہو گا جس کے سایہ میں عمدہ اور تیز رفتار گھوڑے پر سوار شخص سو سال تک چلتا رہے گا اور پھر بھی اسے طے نہ کر سکے گا۔ حدیث نمبر ۶۵۵۴ راوی: سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت میں ستر ہزار یا سات لاکھ آدمی جنت میں جائیں گے۔ راوی کو شک ہوا کہ سہل سے کون سی تعداد بیان ہوئی تھی، (وہ جنت میں اس طرح داخل ہوں گے کہ) وہ ایک دوسرے کو تھامے ہوئے ہوں گے۔ ان کا پہلا ابھی اندر داخل نہ ہونے پائے گا کہ جب تک آخری بھی داخل نہ ہو جائے۔ ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن ہوں گے۔ حدیث نمبر ۶۵۵۵ راوی: سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت والے (اپنے اوپر کے درجوں کے) بالاخانوں کو اس طرح دیکھیں گے جیسے تم آسمان میں ستاروں کو دیکھتے ہو۔ حدیث نمبر ۶۵۵۶ اور اس لفظ کا اضافہ کرتے تھے کہ جیسے تم مشرقی اور مغربی کناروں میں ڈوبتے ستاروں کو دیکھتے ہو۔ حدیث نمبر ۶۵۵۷ راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن دوزخ کے سب سے کم عذاب پانے والے سے پوچھے گا اگر تمہیں روئے زمین کی ساری چیزیں میسر ہوں تو کیا تم ان کو فدیہ میں (اس عذاب سے نجات پانے کے لیے) دے دو گے، وہ کہے گا کہ ہاں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے تم سے اس سے بھی سہل چیز کا اس وقت مطالبہ کیا تھا جب تم آدم علیہ السلام کی پیٹھ میں تھے کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا لیکن تم نے (توحید کا) انکار کیا اور نہ مانا آخر شرک ہی کیا۔ حدیث نمبر ۶۵۵۸ راوی: جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کچھ لوگ دوزخ سے شفاعت کے ذریعہ نکلیں گے گویا کہ الثَّعَارِيرُ ہوں۔ حماد کہتے ہیں کہ میں نے عمرو بن دینار سے پوچھا کہ الثَّعَارِيرُ کیا چیز ہے؟ انہوں نے کہا کہ اس سے مراد چھوٹی ککڑیاں ہیں اور ہوا یہ تھا کہ آخر عمر میں عمرو بن دینار کے دانت گر گئے تھے۔ حماد کہتے ہیں کہ میں نے عمرو بن دینار سے کہا اے ابومحمد! (یہ عمرو بن دینار کی کنیت ہے) کیا آپ نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے یہ سنا ہے؟ انہوں نے بیان کیا کہ ہاں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جہنم سے شفاعت کے ذریعہ لوگ نکلیں گے؟ انہوں نے کہا ہاں بیشک سنا ہے۔ حدیث نمبر ۶۵۵۹ راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک جماعت جہنم سے نکلے گی اس کے بعد کہ جہنم کی آگ نے ان کو جلا ڈالا ہو گا اور پھر وہ جنت میں داخل ہوں گے۔ اہل جنت ان کو الْجَهَنَّمِيِّينَ کے نام سے یاد کریں گے۔ حدیث نمبر ۶۵۶۰ راوی: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب اہل جنت جنت میں اور اہل جہنم جہنم میں داخل ہو چکیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہو تو اسے دوزخ سے نکال لو۔ اس وقت ایسے لوگ نکالے جائیں گے اور وہ اس وقت جل کر کوئلے کی طرح ہو گئے ہوں گے۔ اس کے بعد انہیں نہر حیاۃ (زندگی بخش دریا) میں ڈالا جائے گا۔ اس وقت وہ اس طرح تروتازہ اور شگفتہ ہو جائیں گے جس طرح سیلاب کی جگہ پر کوڑے کرکٹ کا دانہ (اسی رات یا دن میں) اگ آتا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم نے دیکھا نہیں کہ اس دانہ سے زرد رنگ کا لپٹا ہوا بارونق پودا اگتا ہے۔ حدیث نمبر ۶۵۶۱ راوی: نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن عذاب کے اعتبار سے سب سے کم وہ شخص ہو گا جس کے دونوں قدموں کے نیچے آگے کا انگارہ رکھا جائے گا اور اس کی وجہ سے اس کا دماغ کھول رہا ہو گا۔ حدیث نمبر ۶۵۶۲ راوی: نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن دوزخیوں میں عذاب کے اعتبار سے سب سے ہلکا عذاب پانے والا وہ شخص ہو گا جس کے دونوں پیروں کے نیچے دو انگارے رکھ دئیے جائیں گے جن کی وجہ سے اس کا دماغ کھول رہا ہو گا جس طرح ہانڈی اور کیتلی جوش کھاتی ہے۔ حدیث نمبر ۶۵۶۳ راوی: عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہنم کا ذکر کیا اور روئے مبارک پھیر لیا اور اس سے پناہ مانگی۔ پھر جہنم کا ذکر کیا اور روئے مبارک پھیر لیا اور اس سے پناہ مانگی۔ اس کے بعد فرمایا کہ دوزخ سے بچو صدقہ دے کر خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے ہی کے ذریعہ ہو سکے، جسے یہ بھی نہ ملے اسے چاہئے کہ اچھی بات کہہ کر۔ حدیث نمبر ۶۵۶۴ راوی: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آپ کے چچا ابوطالب کا ذکر کیا گیا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ممکن ہے قیامت کے دن میری شفاعت ان کے کام آ جائے اور انہیں جہنم میں ٹخنوں تک رکھا جائے جس سے ان کا بھیجا کھولتا رہے گا۔ حدیث نمبر ۶۵۶۵ راوی: انس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کو جمع کرے گا۔ اس وقت لوگ کہیں گے کہ اگر ہم اپنے رب کے حضور میں کسی کی شفاعت لے جائیں تو نفع بخش ثابت ہو سکتی ہے۔ ممکن ہے ہم اپنی اس حالت سے نجات پا جائیں۔ چنانچہ لوگ آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے آپ ہی وہ بزرگ نبی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے بنایا اور آپ کے اندر اپنی چھپائی ہوئی روح پھونکی اور فرشتوں کو حکم دیا تو انہوں نے آپ کو سجدہ کیا، آپ ہمارے رب کے حضور میں ہماری شفاعت کریں۔ وہ کہیں گے کہ میں تو اس لائق نہیں ہوں، پھر وہ اپنی لغزش یاد کریں گے اور کہیں گے کہ نوح کے پاس جاؤ، وہ سب سے پہلے رسول ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے بھیجا۔ لوگ نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے لیکن وہ بھی یہی جواب دیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں۔ وہ اپنی لغزش کا ذکر کریں گے اور کہیں کہ تم ابراہیم کے پاس جاؤ جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنا خلیل بنایا تھا۔ لوگ ان کے پاس آئیں گے لیکن یہ بھی یہی کہیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں، اپنی خطا کا ذکر کریں گے اور کہیں گے کہ تم لوگ موسیٰ کے پاس جاؤ جن سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا تھا۔ لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے لیکن وہ بھی یہی جواب دیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں، اپنی خطا کا ذکر کریں گے اور کہیں گے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے، لیکن یہ بھی کہیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ کیونکہ ان کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف کر دئیے گئے ہیں۔ چنانچہ لوگ میرے پاس آئیں گے۔ اس وقت میں اپنے رب سے (شفاعت کی) اجازت چاہوں گا اور سجدہ میں گر جاؤں گا۔ اللہ تعالیٰ جتنی دیر تک چاہے گا مجھے سجدہ میں رہنے دے گا۔ پھر کہا جائے گا کہ اپنا سر اٹھا لو، مانگو دیا جائے گا، کہو سنا جائے گا، شفاعت کرو، شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں اپنے رب کی اس وقت ایسی حمد بیان کروں گا کہ جو اللہ تعالیٰ مجھے سکھائے گا۔ پھر شفاعت کروں گا اور میرے لیے حد مقرر کر دی جائے گی اور میں لوگوں کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کر دوں گا اور اسی طرح سجدہ میں گر جاؤں گا، تیسری یا چوتھی مرتبہ جہنم میں صرف وہی لوگ باقی رہ جائیں گے جنہیں قرآن نے روکا ہے (یعنی جن کے جہنم میں ہمیشہ رہنے کا ذکر قرآن میں صراحت کے ساتھ ہے) قتادہ رحمہ اللہ اس موقع پر کہا کرتے کہ اس سے وہ لوگ مراد ہیں جن پر جہنم میں ہمیشہ رہنا واجب ہو گیا ہے۔ حدیث نمبر ۶۵۶۶ راوی: عمران بن حصین رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک جماعت جہنم سے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی شفاعت کی وجہ سے نکلے گی اور جنت میں داخل ہو گی جن کو الْجَهَنَّمِيِّينَ کے نام سے پکارا جائے گا۔ حدیث نمبر ۶۵۶۷ راوی: انس رضی اللہ عنہ حارثہ بن سراقہ بن حارث رضی اللہ عنہ کی والدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ حارثہ بدر کی لڑائی میں ایک نامعلوم تیر لگ جانے کی وجہ سے شہید ہو گئے تھے اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ! آپ کو معلوم ہے کہ حارثہ سے مجھے کتنی محبت تھی، اگر وہ جنت میں ہے تو اس پر میں نہیں روؤں گی، ورنہ آپ دیکھیں گے کہ میں کیا کرتی ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ بیوقوف ہوئی ہو، کیا کوئی جنت ایک ہی ہے، جنتیں تو بہت سی ہیں اور حارثہ فردوس اعلیٰ (جنت کے اونچے درجے) میں ہے۔ حدیث نمبر ۶۵۶۸ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے راستے میں جہاد کے لیے ایک صبح یا ایک شام سفر کرنا دنیا اور جو کچھ اس میں ہے، سے بڑھ کر ہے اور جنت میں تمہاری ایک کمان کے برابر جگہ یا ایک قدم کے فاصلے کے برابر جگہ دنیا اور جو کچھ اس میں ہے، سے بہتر ہے اور اگر جنت کی عورتوں میں سے کوئی عورت روئے زمین کی طرف جھانک کر دیکھ لے تو آسمان سے لے کر زمین تک منور کر دے اور ان تمام کو خوشبو سے بھر دے اور اس کا دوپٹہ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا بڑھ کر ہے۔ حدیث نمبر ۶۵۶۹ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت میں جو بھی داخل ہو گا اسے اس کا جہنم کا ٹھکانا بھی دکھایا جائے گا کہ اگر نافرمانی کی ہوتی (تو وہاں اسے جگہ ملتی) تاکہ وہ اور زیادہ شکر کرے اور جو بھی جہنم میں داخل ہو گا اسے اس کا جنت کا ٹھکانا بھی دکھایا جائے گا کہ اگر اچھے عمل کئے ہوتے (تو وہاں جگہ ملتی) تاکہ اس کے لیے حسرت و افسوس کا باعث ہو۔ حدیث نمبر ۶۵۷۰ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ! قیامت کے دن آپ کی شفاعت کی سعادت سب سے زیادہ کون حاصل کرے گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابوہریرہ! میرا بھی خیال تھا کہ یہ حدیث تم سے پہلے اور کوئی مجھ سے نہیں پوچھے گا، کیونکہ حدیث کے لینے کے لیے میں تمہاری بہت زیادہ حرص دیکھا کرتا ہوں۔ قیامت کے دن میری شفاعت کی سعادت سب سے زیادہ اسے حاصل ہو گی جس نے کلمہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ خلوص دل سے کہا۔ حدیث نمبر ۶۵۷۱ راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں خوب جانتا ہوں کہ اہل جہنم میں سے کون سب سے آخر میں وہاں سے نکلے گا اور اہل جنت میں کون سب سے آخر میں اس میں داخل ہو گا۔ ایک شخص جہنم سے گھٹنوں کے بل گھسٹتے ہوئے نکلے گا اور اللہ تعالیٰ اس سے کہے گا کہ جاؤ اور جنت میں داخل ہو جاؤ، وہ جنت کے پاس آئے گا لیکن اسے ایسا معلوم ہو گا کہ جنت بھری ہوئی ہے۔ چنانچہ وہ واپس آئے گا اور عرض کرے گا اے میرے رب! میں نے جنت کو بھرا ہوا پایا، اللہ تعالیٰ پھر اس سے کہے گا کہ جاؤ اور جنت میں داخل ہو جاؤ۔ وہ پھر آئے گا لیکن اسے ایسا معلوم ہو گا کہ جنت بھری ہوئی ہے وہ واپس لوٹے گا اور عرض کرے گا کہ اے میرے رب! میں نے جنت کو بھرا ہوا پایا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا جاؤ اور جنت میں داخل ہو جاؤ تمہیں دنیا اور اس سے دس گنا دیا جاتا ہے یا (اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ) تمہیں دنیا کے دس گنا دیا جاتا ہے۔ وہ شخص کہے گا تو میرا مذاق بناتا ہے حالانکہ تو شہنشاہ ہے۔ میں نے دیکھا کہ اس بات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس دئیے اور آپ کے آگے کے دندان مبارک ظاہر ہو گئے اور کہا جاتا ہے کہ وہ جنت کا سب سے کم درجے والا شخص ہو گا۔ حدیث نمبر ۶۵۷۲ راوی: عباس رضی اللہ عنہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا آپ نے ابوطالب کو کوئی نفع پہنچایا؟ صراط ایک پل ہے جو دوزخ پر بنایا گیا ہےحدیث نمبر ۶۵۷۳ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کچھ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا قیامت کے دن ہم اپنے رب کو دیکھ سکیں گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا سورج کو دیکھنے میں تمہیں کوئی دشواری ہوتی ہے جبکہ اس پر کوئی بادل (ابر) وغیرہ نہ ہو؟صحابہ نے عرض کیا نہیں یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا جب کوئی بادل نہ ہو تو تمہیں چودہویں رات کے چاند کو دیکھنے میں کوئی دشواری ہوتی ہے؟ صحابہ نے عرض کیا نہیں یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تم اللہ تعالیٰ کو اسی طرح قیامت کے دن دیکھو گے۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو جمع کرے گا اور کہے گا کہ تم میں سے جو شخص جس چیز کی پوجا پاٹ کیا کرتا تھا وہ اسی کے پیچھے لگ جائے، چنانچہ جو لوگ سورج کی پرستش کیا کرتے تھے وہ اس کے پیچھے لگ جائیں گے اور جو لوگ چاند کی پوجا کرتے تھے وہ ان کے پیچھے ہو لیں گے۔ جو لوگ بتوں کی پرستش کرتے تھے وہ ان کے پیچھے لگ جائیں گے اور آخر میں یہ امت باقی رہ جائے گی اور اس میں منافقین کی جماعت بھی ہو گی، اس وقت اللہ تعالیٰ ان کے سامنے اس صورت میں آئے گا جس کو وہ پہچانتے نہ ہوں گے اور کہے گا کہ میں تمہارا رب ہوں۔ لوگ کہیں گے تجھ سے اللہ کی پناہ۔ ہم اپنی جگہ پر اس وقت تک رہیں گے جب تک کہ ہمارا پروردگار ہمارے سامنے نہ آئے۔ جب ہمارا رب ہمارے پاس آئے گا تو ہم اسے پہچان لیں گے (کیونکہ وہ حشر میں ایک بار اس کو پہلے دیکھ چکے ہوں گے) پھر حق تعالیٰ اس صورت میں آئے گا جس کو وہ پہچانتے ہوں گے اور ان سے کہا جائے گا (آؤ میرے ساتھ ہو لو) میں تمہارا رب ہوں! لوگ کہیں گے کہ تو ہمارا رب ہے، پھر اسی کے پیچھے ہو جائیں گے اور جہنم پر پل بنا دیا جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں سب سے پہلا شخص ہوں گا جو اس پل کو پار کروں گا اور اس دن رسولوں کی دعا یہ ہو گی کہ اے اللہ! مجھ کو سلامت رکھیو۔ اے اللہ! مجھ کو سلامت رکھیو اور وہاں السَّعْدَانِ کے کانٹوں کی طرح آنکڑے ہوں گے۔ تم نے السَّعْدَانِ کے کانٹے دیکھے ہیں؟ صحابہ کرام نے عرض کیا جی ہاں دیکھے ہیں یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ پھر السَّعْدَانِ کے کانٹوں کی طرح ہوں گے البتہ اس کی لمبائی چوڑائی اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ وہ لوگوں کو ان کے اعمال کے مطابق اچک لیں گے اور اس طرح ان میں سے بعض تو اپنے عمل کی وجہ سے ہلاک ہو جائیں گے اور بعض کا عمل رائی کے دانے کے برابر ہو گا، پھر وہ نجات پا جائے گا۔ آخر جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلے سے فارغ ہو جائے گا اور جہنم سے انہیں نکالنا چاہے گا جنہیں نکالنے کی اس کی مشیت ہو گی۔ یعنی وہ جنہوں نے کلمہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کی گواہی دی ہو گی اور اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دے گا کہ وہ ایسے لوگوں کو جہنم سے نکالیں۔ فرشتے انہیں سجدوں کے نشانات سے پہچان لیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آگ پر حرام کر دیا ہے کہ وہ ابن آدم کے جسم میں سجدوں کے نشان کو کھائے۔ چنانچہ فرشتے ان لوگوں کو نکالیں گے۔ یہ جل کر کوئلے ہو چکے ہوں گے پھر ان پر پانی چھڑکا جائے گا جسے مَاءُ الْحَيَاةِ زندگی بخشنے والا پانی کہتے ہیں۔ اس وقت وہ اس طرح تروتازہ ہو جائیں گے جیسے سیلاب کے بعد زرخیز زمین میں دانہ اگ آتا ہے۔ ایک ایسا شخص باقی رہ جائے گا جس کا چہرہ جہنم کی طرف ہو گا اور وہ کہے گا اے میرے رب! اس کی بدبوں نے مجھے پریشان کر دیا ہے اور اس کی لپٹ نے مجھے جھلسا دیا ہے اور اس کی تیزی نے مجھے جلا ڈالا ہے، ذرا میرا منہ آگ کی طرف سے دوسری طرف پھیر دے۔ وہ اسی طرح اللہ سے دعا کرتا رہے گا۔ آخر اللہ تعالیٰ فرمائے گا اگر میں تیرا یہ مطالبہ پورا کر دوں تو کہیں تو کوئی دوسری چیز مانگنی شروع نہ کر دے۔ وہ شخص عرض کرے گا نہیں، تیری عزت کی قسم! میں اس کے سوا کوئی دوسری چیز نہیں مانگوں گا۔ چنانچہ اس کا چہرہ جہنم کی طرف سے دوسری طرف پھیر دیا جائے گا۔ اب اس کے بعد وہ کہے گا۔ اے میرے رب! مجھے جنت کے دروازے کے قریب کر دیجئیے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا تو نے ابھی یقین نہیں دلایا تھا کہ اس کے سوا اور کوئی چیز نہیں مانگے گا۔ افسوس! اے ابن آدم! تو بہت زیادہ وعدہ خلاف ہے۔ پھر وہ برابر اسی طرح دعا کرتا رہے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اگر میں تیری یہ دعا قبول کر لوں تو تو پھر اس کے علاوہ کچھ اور چیز مانگنے لگے گا۔ وہ شخص کہے گا نہیں، تیری عزت کی قسم! میں اس کے سوا اور کوئی چیز تجھ سے نہیں مانگوں گا اور وہ اللہ سے عہد و پیمان کرے گا کہ اس کے سوا اب کوئی اور چیز نہیں مانگے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اسے جنت کے دروازے کے قریب کر دے گا۔ جب وہ جنت کے اندر کی نعمتوں کو دیکھے گا تو جتنی دیر تک اللہ تعالیٰ چاہے گا وہ شخص خاموش رہے گا، پھر کہے گا اے میرے رب! مجھے جنت میں داخل کر دے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ کیا تو نے یہ یقین نہیں دلایا تھا کہ اب تو اس کے سوا کوئی چیز نہیں مانگے گا۔ اے ابن آدم! افسوس، تو کتنا وعدہ خلاف ہے۔ وہ شخص عرض کرے گا اے میرے رب! مجھے اپنی مخلوق کا سب سے بدبخت بندہ نہ بنا۔ وہ برابر دعا کرتا رہے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ہنس دے گا۔ جب اللہ ہنس دے گا تو اس شخص کو جنت میں داخل ہونے کی اجازت مل جائے گی۔ جب وہ اندر چلا جائے گا تو اس سے کہا جائے گا کہ فلاں چیز کی خواہش کر چنانچہ وہ اس کی خواہش کرے گا۔ پھر اس سے کہا جائے گا کہ فلاں چیز کی خواہش کرو، چنانچہ وہ پھر خواہش کرے گا یہاں تک کہ اس کی خواہشات ختم ہو جائیں گی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہا جائے گا کہ تیری یہ ساری خواہشات پوری کی جاتی ہیں اور اتنی ہی زیادہ نعمتیں اور دی جاتی ہیں۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اسی سند سے کہا کہ یہ شخص جنت میں سب سے آخر میں داخل ہونے والا ہو گا۔ حدیث نمبر ۶۵۷۴ راوی: عطاء ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بھی اس وقت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور انہوں نے ان کی کسی بات پر اعتراض نہیں کیا لیکن جب ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حدیث کے اس ٹکڑے تک پہنچے کہ تمہاری یہ ساری خواہشات پوری کی جاتی ہیں اور اتنی ہی اور زیادہ نعمتیں دی جاتی ہیں تو ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری یہ ساری خواہشات پوری کی جاتی ہیں اور اس سے دس گنا اور زیادہ نعمتیں دی جاتی ہیں۔ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نہیں میں نے یوں ہی سنا ہے، یہ سب چیزیں اور اتنی ہی اور۔ حوض کوثر کے بیان میںاور اللہ تعالیٰ نے سورۃ الکوثر میں فرمایا إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ بلاشبہ ہم نے آپ کو کوثر دیا۔ ؎ عبداللہ بن زید مازنی نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے فرمایا کہ تم اس وقت تک صبر کئے رہنا کہ مجھ سے حوض کوثر پر ملو۔ حدیث نمبر ۶۵۷۵ راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مجھ سے یحییٰ بن حماد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے سلیمان نے، ان سے شقیق نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا کہ میں تم سے پہلے ہی حوض پر موجود رہوں گا۔ حدیث نمبر ۶۵۷۶ راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اپنے حوض پر تم سے پہلے ہی موجود رہوں گا اور تم میں سے کچھ لوگ میرے سامنے لائے جائیں گے پھر انہیں میرے سامنے سے ہٹا دیا جائے گا تو میں کہوں گا کہ اے میرے رب! یہ میرے ساتھی ہیں لیکن مجھ سے کہا جائے گا کہ آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد دین میں کیا کیا نئی چیزیں ایجاد کر لی تھیں۔ حدیث نمبر ۶۵۷۷ راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے سامنے ہی میرا حوض ہو گا وہ اتنا بڑا ہے جتنا جرباء اور اذرحاء کے درمیان فاصلہ ہے۔ حدیث نمبر ۶۵۷۸ راوی: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کوثر سے مراد بہت زیادہ بھلائی (خیر کثیر) ہے جو اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی ہے۔ ابوبشر نے بیان کیا کہ میں نے سعید بن جبیر سے کہا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کوثر جنت میں ایک نہر ہے تو انہوں نے کہا کہ جو نہر جنت میں ہے وہ بھی اس خیر (بھلائی) کا ایک حصہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی ہے۔ حدیث نمبر ۶۵۷۹ راوی: عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرا حوض ایک مہینے کی مسافت کے برابر ہو گا۔ اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور اس کی خوشبو مشک سے زیادہ اچھی ہو گی اور اس کے کوزے آسمان کے ستاروں کی تعداد کے برابر ہوں گے۔ جو شخص اس میں سے ایک مرتبہ پی لے گا وہ پھر کبھی بھی (میدان محشر میں) پیاسا نہ ہو گا۔ حدیث نمبر ۶۵۸۰ راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے حوض کی لمبائی اتنی ہو گی جتنی ایلہ اور یمن اور شہر صنعاء کے درمیان کی لمبائی ہے۔ اور وہاں اتنی بڑی تعداد میں پیالے ہوں گے جتنی آسمان کے ستاروں کی تعداد ہے۔ حدیث نمبر ۶۵۸۱ راوی: انس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا کہ میں جنت میں چل رہا تھا کہ میں ایک نہر پر پہنچا اس کے دونوں کناروں پر خولدار موتیوں کے گنبد بنے ہوئے تھے۔ میں نے پوچھا جبرائیل! یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا یہ کوثر ہے جو آپ کے رب نے آپ کو دیا ہے۔ میں نے دیکھا کہ اس کی خوشبو یا مٹی تیز مشک جیسی تھی۔ حدیث نمبر ۶۵۸۲ راوی: انس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے کچھ ساتھی حوض پر میرے سامنے لائے جائیں گے میں انہیں پہچان لوں گا لیکن پھر وہ میرے سامنے سے ہٹا دئیے جائیں گےاس پر میں کہوں گا کہ یہ تو میرے ساتھی ہیں۔ لیکن مجھ سے کہا جائے گا کہ آپ کو معلوم نہیں کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا نئی چیزیں ایجاد کر لی تھیں۔ حدیث نمبر ۶۵۸۳ راوی: سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اپنے حوض کوثر پر تم سے پہلے موجود رہوں گا۔ جو شخص بھی میری طرف سے گزرے گا وہ اس کا پانی پئے گا اور جو اس کا پانی پئے گا وہ پھر کبھی پیاسا نہیں ہو گا اور وہاں کچھ ایسے لوگ بھی آئیں گے جنہیں میں پہچانوں گا اور وہ مجھے پہچانیں گے لیکن پھر انہیں میرے سامنے سے ہٹا دیا جائے گا۔ حدیث نمبر ۶۵۸۴ راوی: ابوحازم نعمان بن ابی عیاش نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث اسی طرح سنی تھی اور وہ اس حدیث میں کچھ زیادتی کے ساتھ بیان کرتے تھے۔ (یعنی یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں گے کہ) میں کہوں گا کہ یہ تو مجھ میں سے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا جائے گا کہ آپ کو نہیں معلوم کہ انہوں نے آپ کے بعد دین میں کیا کیا نئی چیزیں ایجاد کر لی تھیں۔ اس پر میں کہوں گا کہ دور ہو وہ شخص جس نے میرے بعد دین میں تبدیلی کر لی تھی۔ حدیث نمبر ۶۵۸۵ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن میرے صحابہ میں سے ایک جماعت مجھ پر پیش کی جائے گی۔ پھر وہ حوض سے دور کر دئیے جائیں گے۔ میں عرض کروں گا اے میرے رب! یہ تو میرے صحابہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تمہیں معلوم نہیں کہ انہوں نے تمہارے بعد کیا کیا نئی چیزیں گھڑ لی تھیں؟ یہ لوگ (دین سے) الٹے قدموں واپس لوٹ گئے تھے حدیث نمبر ۶۵۸۶ راوی: ابن مسیب وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے روایت کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حوض پر میرے صحابہ کی ایک جماعت آئے گی۔ پھر انہیں اس سے دور کر دیا جائے گا۔ میں عرض کروں گا میرے رب! یہ تو میرے صحابہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تمہیں معلوم نہیں کہ انہوں نے تمہارے بعد کیا کیا نئی چیزیں ایجاد کر لی تھیں، یہ الٹے پاؤں (اسلام سے) واپس لوٹ گئے تھے۔ حدیث نمبر ۶۵۸۷ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں (حوض پر) کھڑا ہوں گا کہ ایک جماعت میرے سامنے آئے گی اور جب میں انہیں پہچان لوں گا تو ایک شخص (فرشتہ) میرے اور ان کے درمیان سے نکلے گا اور ان سے کہے گا کہ ادھر آؤ۔ میں کہوں گا کہ کدھر؟ وہ کہے گا کہ واللہ جہنم کی طرف۔ میں کہوں گا کہ ان کے حالات کیا ہیں؟ وہ کہے گا کہ یہ لوگ آپ کے بعد الٹے پاؤں (دین سے) واپس لوٹ گئے تھے۔ پھر ایک اور گروہ میرے سامنے آئے گا اور جب میں انہیں بھی پہچان لوں گا تو ایک شخص (فرشتہ) میرے اور ان کے درمیان میں سے نکلے گا اور ان سے کہے گا کہ ادھر آؤ۔ میں پوچھوں گا کہ کہاں؟ تو وہ کہے گا، اللہ کی قسم! جہنم کی طرف۔ میں کہوں گا کہ ان کے حالات کیا ہیں؟ فرشتہ کہے گا کہ یہ لوگ آپ کے بعد الٹے پاؤں واپس لوٹ گئے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان گروہوں میں سے ایک آدمی بھی نہیں بچے گا۔ ان سب کو دوزخ میں لے جائیں گے۔ حدیث نمبر ۶۵۸۸ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان کی جگہ کا جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر میرے حوض پر ہے۔ حدیث نمبر ۶۵۸۹ راوی: جندب رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں حوض پر تم سے پہلے موجود ہوں گا۔ حدیث نمبر ۶۵۹۰ راوی: عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور شہداء احد کے لیے اس طرح دعا کی جس طرح میت کے لیے جنازہ میں دعا کی جاتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا لوگو! میں تم سے آگے جاؤں گا اور تم پر گواہ رہوں گا اور میں واللہ اپنے حوض کی طرف اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں یا فرمایا کہ زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں۔ اللہ کی قسم! میں تمہارے بارے میں اس بات سے نہیں ڈرتا کہ تم میرے بعد شرک کرو گے، البتہ اس سے ڈرتا ہوں کہ تم دنیا کے لالچ میں پڑ کر ایک دوسرے سے حسد کرنے لگو گے۔ حدیث نمبر ۶۵۹۱ راوی: حارثہ بن وہب رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حوض کا ذکر کیا اور فرمایا کہ (وہ اتنا بڑا ہے) جتنی مدینہ اور صنعاء کے درمیان دوری ہے۔ حدیث نمبر ۶۵۹۲ راوی: حارثہ رضی اللہ عنہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سنا، اس میں اتنا زیادہ ہے کہ آپ کا حوض اتنا لمبا ہو گا جتنی صنعاء اور مدینہ کے درمیان دوری ہے۔ اس پر مستورد نے کہا کیا آپ نے برتنوں والی روایت نہیں سنی؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ مستورد نے کہا کہ کہ اس میں برتن (پینے کے) اس طرح نظر آئیں گے جس طرح آسمان میں ستارے نظر آتے ہیں۔ حدیث نمبر ۶۵۹۳ راوی: اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں حوض پر موجود رہوں گا اور دیکھوں گا کہ تم میں سے کون میرے پاس آتا ہے۔ پھر کچھ لوگوں کو مجھ سے الگ کر دیا جائے گا۔ میں عرض کروں گا کہ اے میرے رب! یہ تو میرے ہی آدمی ہیں اور میری امت کے لوگ ہیں۔ مجھ سے کہا جائے گا کہ تمہیں معلوم بھی ہے انہوں نے تمہارے بعد کیا کام کئے تھے؟ واللہ یہ مسلسل الٹے پاؤں لوٹتے رہے۔ (دین اسلام سے پھر گئے) ابن ابی ملیکہ (جو کہ یہ حدیث اسماء سے روایت فرماتے ہیں) کہا کرتے تھے کہ اے اللہ! ہم اس بات سے تیری پناہ مانگتے ہیں کہ ہم الٹے پاؤں (دین سے) لوٹ جائیں یا اپنے دین کے بارے میں فتنہ میں ڈال دئیے جائیں۔ ابوعبداللہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ سورۃ مؤمن ون میں جو اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے أعقابكم تنكصون اس کا معنی بھی یہی ہے کہ تم دین سے اپنی ایڑیوں کے بل الٹے پھر گئے تھے یعنی اسلام سے مرتد ہو گئے تھے۔ |
© Copy Rights:Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,Lahore, PakistanEnail: cmaj37@gmail.com |
Visits wef Nov 2024 |