Tafsir Ibn Kathir (English)

Surah Al Tariq

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Noting by Maulana Salahuddin Yusuf

اردو اور عربی فونٹ ڈاؤن لوڈ کرنے کے لئے یہاں کلک کریں

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے

وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِقِ(1)‏

قسم ہے آسمان کی اور اندھیرے میں روشن ہونے والے کی۔‏

وَمَا أَدْرَاكَ مَا الطَّارِقُ(2)‏

تجھے معلوم بھی ہے کہ وہ رات کو نمودار ہونے والی چیز کیا ہے؟‏

النَّجْمُ الثَّاقِبُ(3)‏

وہ روشن ستارہ ہے

طارق سے مراد؟

خود قرآن نے واضح کر دیا۔ روشن ستارہ طارق ہے جس کے لغوی معنی کھٹکھٹانے کے ہیں، لیکن طارق رات کو آنے والے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔

 ستاروں کو بھی طارق اسی لئے کہا گیا ہے کہ یہ دن کو چھپ جاتے ہیں اور رات کو نمودار ہوتے ہیں۔

إِنْ كُلُّ نَفْسٍ لَمَّا عَلَيْهَا حَافِظٌ(4)‏

کوئی ایسا نہیں جس پر نگہبان فرشتہ نہ ہو

یعنی ہر نفس پر اللہ کی طرف سے فرشتے مقرر ہیں جو اس کے اچھے یا برے سارے اعمال لکھتے ہیں۔

 بعض کہتے ہیں کہ یہ انسانوں کی حفاطت کرنے والے فرشتے ہیں۔

فَلْيَنْظُرِ الْإِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ(5)‏

انسان کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے۔

یعنی منی سے جو قضائے شہوت کے بعد زور سے نکلتی ہے۔ یہی قطرہ آب رحم عورت میں جر اللہ کے حکم سے حمل کا باعث بنتا ہے۔

خُلِقَ مِنْ مَاءٍ دَافِقٍ(6)‏

وہ ایک اچھلتے ہوئے پانی سے پیدا کیا گیا ہے۔‏

يَخْرُجُ مِنْ بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَائِبِ(7)‏

جو پیٹھ اور سینے کے درمیان سے نکلتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ پیٹھ مرد کی اور سینہ عورت کا، ان دونوں کے پانی سے انسان کی تخلیق ہوتی ہے۔ لیکن اسے ایک پانی اس لیے کہا کہ یہ دونوں مل کر ایک ہی بن جاتا ہے۔

إِنَّهُ عَلَى رَجْعِهِ لَقَادِرٌ(8)‏

بیشک وہ اسے پھیر لانے پر یقیناً قدرت رکھنے والا ہے

یعنی انسان کے مرنے کے بعد، اسے دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہے۔

 بعض کے نزدیک اس کا مطلب ہے کہ وہ اس قطرہ آب کو دوبارہ شرمگاہ کے اندر لوٹانے کی قدرت رکھتا ہے جہاں سے وہ نکلا تھا

پہلے مفہوم کو امام شوکانی اور امام ابن جریر طبری نے زیادہ صحیح قرار دیا ہے۔

يَوْمَ تُبْلَى السَّرَائِرُ(9)‏

جس دن پوشیدہ باتوں کی جانچ پڑتال ہوگی۔

یعنی ظاہر ہو جائیں گے کیونکہ ان پر جزا و سزا ہوگی بلکہ حدیث میں آتا ہے :

ہر غدر (بدعہدی) کرنے والے کے سرین کے پاس جھنڈا گاڑ دیا جائے گا اور اعلان کر دیا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی غداری ہے۔ (صحیح بخاری)

فَمَا لَهُ مِنْ قُوَّةٍ وَلَا نَاصِرٍ(10)‏

تو نہ ہوگا اس کے پاس کچھ زور نہ مددگار۔

یعنی خود انسان کے پاس اتنی قوت نہ ہوگی کہ وہ خدا کے عذاب سے بچ جائے نہ کسی اور طرف اس کو کوئی ایسا مددگار مل سکے گا جو اس کو اللہ کے عذاب سے بچا دے۔

وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الرَّجْعِ(11)‏

بارش والے آسمان کی قسم  

عرب بارش کو رجع کہتے ہیں اس لئے بارش کو رَجْع کہا اور بطور شگون عرب بارش کو کہتے تھے تاکہ وہ بار بار ہوتی رہے۔

وَالْأَرْضِ ذَاتِ الصَّدْعِ(12)‏

اور پھٹنے والی زمین کی قسم

‏ یعنی زمین پھٹتی ہے تو اس سے پودا باہر نکلتا ہے، زمین پھٹتی ہے تو اس سے چشمہ جاری ہوتا ہے اور اسی طرح ایک دن آئے گا کہ زمین پھٹے گی، سارے مردے زندہ ہو کر باہر نکل آئیں گے۔

اس لیے زمین کو پھٹنے والی اور شگاف والی کہا۔

إِنَّهُ لَقَوْلٌ فَصْلٌ(13)‏

بیشک یہ (قرآن) البتہ دو ٹوک فیصلہ کرنے والا کلام ہے۔

یہ جواب قسم ہے، یعنی کھول کر بیان کرنے والا ہے جس سے حق اور باطل دونوں واضح ہو جاتے ہیں۔

وَمَا هُوَ بِالْهَزْلِ(14)‏

یہ ہنسی کی (اور بےفائدہ) بات نہیں

یعنی کھیل کود اور مذاق والی چیز نہیں ہے (قصد اور ارادہ) کی ضد ہے، یعنی ایک واضح مقصد کی حامل کتاب ہے، لہو و لعب کی طرح بےمقصد نہیں۔

إِنَّهُمْ يَكِيدُونَ كَيْدًا(15)‏

البتہ کافر داؤ گھات میں ہیں

یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو دین حق لے کر آئے ہیں، اس کو ناکام کرنے کے لئے سازشیں کرتے ہیں،

یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دھوکا اور فریب دیتے ہیں اور منہ پر ایسی باتیں کرتے ہیں کہ دل میں اس کے برعکس ہوتا ہے۔

وَأَكِيدُ كَيْدًا(16)‏

اور میں بھی ایک چال چل رہا ہوں  

یعنی میں ان کی چالوں اور سازشوں سے غافل نہیں ہوں، میں بھی ان کے خلاف تدبیر کر رہا ہوں یا ان کی چالوں کا توڑ کر رہا ہوں، جو برے مقصد کے لئے ہو تو بری اور مقصد نیک تو بری نہیں۔

فَمَهِّلِ الْكَافِرِينَ أَمْهِلْهُمْ رُوَيْدًا(17)‏

تو کافروں کو مہلت دے  انہیں تھوڑے دن چھوڑ دے۔

‏ یعنی ان کے لئے جلدی عذاب کا سوال نہ کر بلکہ انہیں کچھ مہلت دے دے۔

*********`

Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Enail: cmaj37@gmail.com

Visits wef Mar 2019

hit counter