Tafsir Ibn Kathir (Urdu)Surah Al TakwirTranslated by Muhammad Sahib Juna GarhiNoting by Maulana Salahuddin Yusuf |
شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے
اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ جب سورج لپیٹ میں آ جائے گا (۱) یعنی جس طرح سر پر پگڑی کو لپیٹا جاتا ہے، اسی طرح سورج کے وجود کو لپیٹ کر پھینک دیا جائے گا جس سے اس کی روشنی از خود ختم ہو جائے گی۔ وَإِذَا النُّجُومُ انْكَدَرَتْ اور جب ستارے بےنور ہو جائیں گے (۲) دوسرا ترجمہ کہ جھڑ کر گر جائیں گے یعنی آسمان پر ان کا وجود ہی نہیں رہے گا وَإِذَا الْجِبَالُ سُيِّرَتْ اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے (۳) یعنی انہیں زمین سے اکھیڑ کر ہواؤں میں چلا دیا جائے گا اور دھنی ہوئی روئی کی طرح اڑیں گے۔ وَإِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ اور جب دس ماہ کی حاملہ اونٹنیاں چھوڑ دی جائیں گی (۴) جب قیامت برپا ہوگی تو ایسا ہولناک منظر ہوگا کہ اگر کسی کے پاس اس قسم کی حاملہ اور قیمتی اونٹنی بھی ہوگی تو وہ ان کی پرواہ نہیں کرے گا اور چھوڑ دے گا۔ وَإِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَتْ اور جب وحشی جانور اکھٹے کئے جائیں گے (۵) یعنی انہیں بھی قیامت والے دن جمع کیا جائے گا وَإِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ اور جب سمندر بھڑکائے جائیں گے (۶) وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ اور جب جانیں (جسموں سے) ملا دی جائیں گی (۷) اس کے کئے مفہوم بیان کئے گئے ہیں۔ زیادہ قرین قیاس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان کو اس کے ہم مذہب وہم مشرب کے ساتھ ملا دیا جائے گا۔ مومنوں کو مومنوں کے ساتھ اور بد کو بدوں کے ساتھ یہودی کو یہودیوں کے ساتھ اور عیسائی کو عیسائیوں کے ساتھ۔ وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے سوال کیا جائے گا۔ (۸) بِأَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ کہ کس گناہ کی وجہ سے وہ قتل کی گئی (۹) وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ جب نامہ اعمال کھول دئیے جائیں گے (۱۰) موت کے وقت یہ صحیفے لپیٹ دیئے جاتے ہیں، پھر قیامت والے دن حساب کے لئے کھول دیئے جائیں گے، جنہیں ہر شخص دیکھ لے گا بلکہ ہاتھوں میں پکڑا دیئے جائیں گے۔ وَإِذَا السَّمَاءُ كُشِطَتْ اور جب آسمان کی کھال اتار لی جائے گی (۱۱) یعنی اس طرح ادھیڑ دیئے جائیں گے جس طرح چھت ادھیڑی جاتی ہے۔ وَإِذَا الْجَحِيمُ سُعِّرَتْ اور جب جہنم بھڑکائی جائے گی۔ (۱۲) وَإِذَا الْجَنَّةُ أُزْلِفَتْ اور جب جنت نزدیک کر دی جائے گی۔ (۱۳) عَلِمَتْ نَفْسٌ مَا أَحْضَرَتْ تو اس دن ہر شخص جان لے گا جو کچھ لے کر آیا ہوگا (۱۴) یہ جواب ہے یعنی مذکورہ امور ظہور پذیر ہوں گے، جن میں سے پہلے چھ کا تعلق دنیا سے ہے اور دوسرے چھ امور کا آخرت سے۔ اس وقت ہر ایک کے سامنے اس کی حقیقٹ آ جائے گی۔ فَلَا أُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ میں قسم کھاتا ہوں پیچھے ہٹنے والے۔ (۱۵) الْجَوَارِ الْكُنَّسِ پھر چلنے پھرنے والے چھپنے والے ستاروں کی (۱۶) یہ ستارے دن کے وقت اپنے منظر سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور نظر نہیں آتے اور یہ زحل، مستری، مریخ، زہرہ، عطارد ہیں، یہ خاص طور پر سورج کے رخ پر ہوتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ سارے ہی ستارے مراد ہیں، کیونکہ سب ہی اپنے غائب ہونے کی جگہ پر غائب ہو جاتے ہیں یا دن کو چھپے رہتے ہیں۔ وَاللَّيْلِ إِذَا عَسْعَسَ اور رات کی جب جانے لگے۔ (۱۷) وَالصُّبْحِ إِذَا تَنَفَّسَ اور صبح کی جب چمکنے لگے۔ (۱۸) إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ یقیناً ایک بزرگ رسول کا کہا ہوا ہے (۱۹) اس لئے کہ وہ اسے اللہ کی طرف سے لے کر آیا ہے۔ مراد حضرت جبرائیل علیہ الاسلام ہیں۔ ذِي قُوَّةٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ جو قوت والا ہے عرش والے (اللہ) کے نزدیک بلند مرتبہ ہے۔ (۲۰) مُطَاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ جس کی (آسمانوں میں) اطاعت کی جاتی ہے، امین ہے۔ (۲۱) وَمَا صَاحِبُكُمْ بِمَجْنُونٍ اور تمہارا ساتھی دیوانہ نہیں (۲۲) یہ خطاب اہل مکہ سے ہے اور صاحب سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ صاحب یعنی تم جو گمان رکھتے ہو کہ تمہارا ہم نسب اور ہم وطن ساتھی، (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) دیوانہ ہے۔ نعوذ باللہ ایسا نہیں ہے، ذرا قرآن پڑھ کر تو دیکھو کہ کیا کوئی دیوانہ ایسے حقائق بیان کر سکتا ہے اور گزشتہ قوموں کے صحیح صحیح حالات بتلا سکتا ہے جو اس قرآن میں بیان کئے گئے ہیں۔ وَلَقَدْ رَآهُ بِالْأُفُقِ الْمُبِينِ اس نے اس (فرشتے) کو آسمان کے کھلے کنارے پر دیکھا بھی ہے (۲۳) یہ پہلے گزر چکا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو دو مرتبہ ان کی اصل حالت میں دیکھا ہے، جن میں سے ایک یہاں ذکر ہے۔ یہ ابتدائے نبوت کا واقع ہے، اس وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام کے چھ سو پر تھے، جنہوں نے آسمان کے کناروں کو بھر دیا تھا، دوسری مرتبہ معراج کے موقعہ پر دیکھا جیسا کہ سورہ نجم میں تفصیل گزر چکی ہے۔ وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍ اور یہ غیب کی باتوں کو بتلانے کے لئے بخیل بھی نہیں۔ (۲۴) وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَيْطَانٍ رَجِيمٍ اور یہ قرآن شیطان مردود کا کلام نہیں۔ (۲۵) فَأَيْنَ تَذْهَبُونَ پھر تم کہاں جا رہے ہو (۲۶) یعنی کیوں اس سے روگردانی کرتے ہو؟ اور اس کی اطاعت نہیں کرتے۔ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِلْعَالَمِينَ یہ تمام جہان والوں کے لئے نصیحت نامہ ہے۔ (۲۷) لِمَنْ شَاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ (بالخصوص) اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی راہ پر چلنا چاہے۔ (۲۸) وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ اور تم بغیر پروردگار عالم کے چاہے کچھ نہیں چاہ سکتے (۲۹) یعنی تمہاری چاہت، اللہ کی توفیق پر منحصر ہے، جب تک تمہاری چاہت کے ساتھ اللہ کی مشیت اور اس کی توفیق بھی شامل نہیں ہوگی اس وقت تک تم سیدھا راستہ اختیار نہیں کر سکتے۔ |
© Copy Rights:Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,Lahore, PakistanEnail: cmaj37@gmail.com |
Visits wef Sep 2024 |