Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Abasa

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

Noting by Maulana Salahuddin Yusuf

For Better Viewing Download Arabic / Urdu Fonts

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


عَبَسَ وَتَوَلَّى ‏

وہ ترش رو ہوا اور منہ موڑ لیا۔‏  (۱)‏

أَنْ جَاءَهُ الْأَعْمَ 

(صرفٖ اس لئے) کہ اس کے پاس ایک نابینا آیا (۲)‏

ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اشراف قریش بیٹھے گفتگو کر رہے تھے کہ اچانک ابن ام مکثوم جو نابینا تھے، تشریف لے آئے اور آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دین کی باتیں پوچھنے لگے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کچھ ناگواری محسوس کی اور کچھ بےتوجہی سی برتی۔ چنانچہ تنبیہ کے طور پر ان آیات کا نزول ہوا (ترندی، تفسیر سورہ عبس)

وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّ 

تجھے کیا خبر شاید وہ سنور جاتا  (۳)‏

یعنی وہ نابینا تجھ سے دینی رہنمائی حاصل کر کے عمل صالح کرتا، جس سے اس کا اخلاق و کردار سنور جاتا، اس کے باطن کی اصلاح ہو جاتی اور تیری نصیحت سننے سے اس کو فائدہ ہوتا۔

أَوْ يَذَّكَّرُ فَتَنْفَعَهُ الذِّكْرَى 

یا نصیحت سنتا اور اسے نصیحت فائدہ پہنچاتی۔‏ (۴)‏

أَمَّا مَنِ اسْتَغْنَى 

جو بےپروائی کرتا ہے  (۵)‏

‏ ایمان سے اور اس علم سے جو تیرے پاس اللہ کی طرف سے آیا ہے۔

یا دوسرا ترجمہ جو صاحب ثروت و غنا ہے۔

فَأَنْتَ لَهُ تَصَدَّى

اس کی طرف تو پوری توجہ کرتا۔‏ (۶)‏

وَمَا عَلَيْكَ أَلَّا يَزَّكَّى

حالانکہ اس کے نہ سنورنے سے تجھ پر کوئی الزام نہیں۔‏ (۷)‏

وَأَمَّا مَنْ جَاءَكَ يَسْعَى

جو شخص تیرے پاس دوڑتا ہوا آتا ہے (۸)‏

اس بات کا طالب بن کر آتا ہے کہ تو خیر کی طرف اس کی رہنمائی کرے اور اسے واعظ نصیحت سے نوازے۔

وَهُوَ يَخْشَى

اور وہ ڈر (بھی) رہا ہے  (۹)‏

‏ خدا کا خوف بھی اس کے دل میں ہے۔

فَأَنْتَ عَنْهُ تَلَهَّى 

تو اس سے بےرخی برتتا ہے  (۱۰)‏ 

‏ یعنی ایسے لوگوں کی قدر افزائی کی ضرورت ہے نہ کہ ان سے بےرخی برتنے کی۔

 ان آیات سے یہ معلوم ہوا کہ دعوت و تبلیغ میں کسی کو خاص نہیں کرنا چاہیے بلکہ صاحب حیثیت اور بےحیثیت، امیر اور غریب، آقا اور غلام مرد اور عورت، چھوٹے اور بڑے سب کو یکساں حیثیت دی جائے اور سب کو مشترکہ خطاب کیا جائے۔

كَلَّا

یہ ٹھیک نہیں ۔‏

یعنی غریب سے یہ روگردانی اور اصحاب حیثیت کی طرف خصوصی توجہ، یہ ٹھیک نہیں۔

مطلب ہے کہ، آئندہ ایسا دوبارہ نہ ہو۔

إِنَّهَا تَذْكِرَةٌ 

قرآن تو نصیحت کی چیز ہے   (۱۱)‏ 

فَمَنْ شَاءَ ذَكَرَهُ

جو چاہے اس سے نصیحت لے (۱۲)‏ 

یعنی جو اس میں رغبت کرے، وہ اس سے نصیحت حاصل کرے، اور اسے یاد کرے اور اس پر عمل کرے اور جو اس سے منہ پھیرے، جیسے اشراف قریش نے کیا، تو ان کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔

فِي صُحُفٍ مُكَرَّمَةٍ

(یہ تو) پر عظمت آسمانی کتب میں سے (ہے) (۱۳)‏ 

‏ یعنی لوح محفوظ میں، کیونکہ وہیں سے یہ قرآن اترتا ہے کہ یہ صحیفے اللہ کے ہاں بڑے محترم ہیں کیونکہ وہ علم و حکم سے پر ہیں۔

مَرْفُوعَةٍ مُطَهَّرَةٍ

جو بلند بالا اور پاک صاف ہے۔‏ (۱۴)‏ 

بِأَيْدِي سَفَرَةٍ 

ایسے لکھنے والوں کے ہاتھوں میں ہے (۱۵)‏ 

یعنی اللہ اور رسول کے درمیان ایلچی کا کام کرتے ہیں۔ یہ قرآن سفیروں کے ہاتھوں میں ہے جو اسے لوح محفوظ سے نقل کرتے ہیں۔

كِرَامٍ بَرَرَةٍ 

جو بزرگ اور پاکباز ہیں (۱۶)‏ 

‏ یعنی خلق کے اعتبار سے وہ کریم یعنی شریف اور بزرگ ہیں اور افعال کے اعتبار سے وہ نیکوکار اور پاکباز ہیں۔

قُتِلَ الْإِنْسَانُ مَا أَكْفَرَهُ 

اللہ کی مار انسان پر کیسا ناشکرا ہے۔‏ (۱۷)‏ 

مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ 

اسے اللہ نے کس چیز سے پیدا کیا۔‏ (۱۸)‏ 

مِنْ نُطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ 

(اسے) ایک نطفہ سے پھر اندازہ پر رکھا اس کو۔‏ (۱۹)‏ 

یعنی جس کی پیدائش ایسے حقیر قطرہ آب سے ہوئی ہے، کیا اسے تکبر زیب دیتا ہے۔

ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ 

پر اس کے لئے راستہ آسان کیا  (۲۰)‏ 

یعنی خیر اور شر کے راستے اس کے لئے واضح کر دیئے،

بعض کہتے ہیں اس سے مراد ماں کے پیٹ سے نکلنے کا راستہ ہے۔

 لیکن پہلا مفہوم زیادہ صحیح ہے۔

ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ 

پھر اسے موت دی اور پھر قبر میں دفن کیا۔‏ (۲۱)‏ 

ثُمَّ إِذَا شَاءَ أَنْشَرَهُ 

پھر جب چاہے گا اسے زندہ کر دے گا۔‏ (۲۲)‏ 

كَلَّا

ہرگز نہیں

یعنی معاملہ اس طرح نہیں ہے، جس طرح یہ کافر کہتا ہے۔

لَمَّا يَقْضِ مَا أَمَرَهُ 

اب تک اللہ کے حکم کی بجا آوری نہیں کی۔‏ (۲۳)‏ 

فَلْيَنْظُرِ الْإِنْسَانُ إِلَى طَعَامِهِ 

انسان کو چاہیے کہ اپنے کھانے کو دیکھے (۲۴)‏ 

‏ کہ اسے اللہ نے کس طرح پیدا کیا، جو اس کی زندگی کا سبب ہے اور کس طرح اس کے لئے اسباب معاش مہیا کئے تاکہ وہ ان کے ذریعے سعادت آخروی حاصل کر سکے۔

أَنَّا صَبَبْنَا الْمَاءَ صَبًّا 

کہ ہم نے خوب پانی برسایا۔‏ (۲۵)‏ 

ثُمَّ شَقَقْنَا الْأَرْضَ شَقًّا 

پھر پھاڑا زمین کو اچھی طرح۔‏ (۲۶)‏ 

فَأَنْبَتْنَا فِيهَا حَبًّا 

پھر اس میں اناج اگائے۔‏ (۲۷)‏ 

وَعِنَبًا وَقَضْبًا 

اور انگور اور ترکاری۔‏ (۲۸)‏ 

وَزَيْتُونًا وَنَخْلًا 

اور زیتون اور کھجور۔‏ (۲۹)‏ 

وَحَدَائِقَ غُلْبًا 

اور گنجان باغات۔‏ (۳۰)‏ 

وَفَاكِهَةً وَأَبًّا 

اور میوہ اور (گھاس) چارہ (بھی اگایا) ۔‏ (۳۱)‏ 

مَتَاعًا لَكُمْ وَلِأَنْعَامِكُمْ 

تمہارے استعمال و فائدہ کے لئے اور تمہارے چوپایوں کے لئے۔‏ (۳۲)‏ 

فَإِذَا جَاءَتِ الصَّاخَّةُ 

پس جب کان بہرے کر دینے والی (قیامت) آ جائے گی (۳۳)‏ 

‏ یعنی قیامت وہ ایک نہایت سخت چیخ کے ساتھ واقع ہوگی جو کانوں کو بہرہ کر دے گی۔

يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ 

اس دن آدمی بھاگے گا اپنے بھائی سے۔‏ (۳۴)‏ 

وَأُمِّهِ وَأَبِيهِ

اور اپنی ماں اور اپنے باپ سے۔‏ (۳۵)‏ 

وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ 

اور اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے‏ (۳۶)‏ 

لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ 

ان میں سے ہر ایک کو اس دن ایسی فکر (دامن گیر) ہوگی جو اس کے لئے کافی ہوگی ۔‏ (۳۷)‏ 

یا اپنے اقربا اور احباب سے بےنیاز اور بےپروا کر دے گا حدیث میں آتا ہے۔

 نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب لوگ میدان محشر میں ننگے بدن ننگے پیر، پیدل اور بغیر ختنے کئے ہوئے ہوں گے۔

وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُسْفِرَةٌ 

اس دن بہت سے چہرے روشن ہونگے۔‏ (۳۸)‏ 

ضَاحِكَةٌ مُسْتَبْشِرَةٌ 

(جو) ہنستے ہوئے اور ہشاش بشاش ہوں گے (۳۹)‏ 

یہ اہل ایمان کے چہرے ہونگے، جنہیں ان کے اعمال نامے ان کے دائیں ہاتھ میں ملیں گے، جس سے انہیں اپنی آخروی سعادت و کامیابی کا یقین ہو جائے گا، جس سے ان کے چہرے خوشی سے ٹمٹماتے رہے ہونگے۔

وَوُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ عَلَيْهَا غَبَرَةٌ 

اور بہت سے چہرے اس دن غبار آلود ہوں گے۔‏ (۴۰)‏ 

تَرْهَقُهَا قَتَرَةٌ 

جن پر سیاہی چڑھی ہوئی ہوگی (۴۱)‏ 

‏ یعنی ذلت اور عذاب سے ان کے چہرے غبار آلود، کدورت زدہ اور سیاہ ہونگے۔

أُولَئِكَ هُمُ الْكَفَرَةُ الْفَجَرَةُ 

وہ یہی کافر بدکردار لوگ ہوں گے (۴۲)‏ 

وہ یہی کافر بدکردار لوگ ہوں گے



© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Enail: cmaj37@gmail.com

Visits wef Sep 2024

visitor counter widget