Tafsir Ibn Kathir (Urdu)Surah Al NabaTranslated by Muhammad Sahib Juna GarhiNoting by Maulana Salahuddin Yusuf |
شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے
عَمَّ يَتَسَاءَلُونَ یہ لوگ کس کے بارے میں پوچھ گچھ کر رہے ہیں (١) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خلعت نبوت سے نوازا گیا اور آپ نے توحید، قیامت وغیرہ کا بیان فرمایا اور قرآن کی تلاوت فرمائی تو کفار و مشرکین باہم ایک دوسرے سے پوچھتے کہ یہ قیامت کیا واقعی ممکن ہے، جبکہ یہ شخص دعویٰ کر رہا ہے یا یہ قرآن، واقعی اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے جیسا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہتا ہے عَنِ النَّبَإِ الْعَظِيمِ اس بڑی خبر کے متعلق۔ (۲) الَّذِي هُمْ فِيهِ مُخْتَلِفُونَ جس کے بارے میں یہ اختلاف کر رہے ہیں (۳) یعنی جس بڑی خبر کی بابت ان کے درمیان اختلاف ہے اس کے متعلق استفسار ہے۔ اس بڑی خبر سے بعض نے قرآن مجید مراد لیا ہے کافر اس کے بارے میں مختلف باتیں کرتے تھے، کوئی اسے جادو، کوئی کہانت، کوئی شعرا اور کوئی پہلوں کی کہانیاں بتلاتا تھا۔ بعض کے نزدیک اس سے مراد قیامت کا برپا ہونا اور دوبارہ زندہ ہونا ہے۔ اسکا ان کے درمیان کچھ اختلاف تھا کوئی بالکل انکار کرتا تھا کوئی صرف شک کا اظہار بعض کہتے تھے کہ سوال کرنے والے مومن و کافر دونوں ہی تھے، مومنین کا سوال تو اضافہ یقین یا بصیرت کے لئے تھا اور کافروں کا جھٹلانا اور مذاق کے طور پر۔ كَلَّا سَيَعْلَمُونَ یقیناً یہ ابھی جان لیں گے۔ (۴) ثُمَّ كَلَّا سَيَعْلَمُونَ پھر بالیقین انہیں بہت جلد معلوم ہو جائے گا (۵) اللہ تعالیٰ اپنی کاریگری اور عظیم قدرت کا تذکرہ فرما رہا ہے تاکہ توحید کی حقیقت ان کے سامنے واضح ہو اور اللہ کا رسول انہیں جس چیز کی دعوت دے رہا تھا، اس پر ایمان لانا ان کے لئے آسان ہو جائے۔ أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهَادًا کیا ہم نے زمین کو فرش نہیں بنایا؟ (۶) وَالْجِبَالَ أَوْتَادًا اور پہاڑوں کو میخیں (نہیں بنایا)؟ (۷) یعنی پہاڑوں کو زمین کے لئے میخیں بنایا تاکہ ساکن رہے، حرکت نہ کرے۔ وَخَلَقْنَاكُمْ أَزْوَاجًا اور ہم نے تجھے جوڑا جوڑا پیدا کیا۔ (۸) وَجَعَلْنَا نَوْمَكُمْ سُبَاتًا اور ہم نے تمہاری نیند کو آرام کا سبب بنایا۔ (۹) وَجَعَلْنَا اللَّيْلَ لِبَاسًا اور رات کو ہم نے پردہ بنایا (۱۰) یعنی رات کا اندھیرا اور سیاہی ہرچیز کو اپنے دامن میں چھپا لیتی ہے، جس طرح لباس انسان کے جسم کو چھپا لیتا ہے۔ وَجَعَلْنَا النَّهَارَ مَعَاشًا اور دن کو ہم نے وقت روزگار بنایا (۱۱) مطلب ہے کہ دن روشن بنایا تاکہ لوگ کسب معاش کے لئے جدو جہد کر سکیں۔ وَبَنَيْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعًا شِدَادًا تمہارے اوپر ہم نے سات مضبوط آسمان بنائے۔ (۱۲) وَجَعَلْنَا سِرَاجًا وَهَّاجًا اور ایک چمکتا ہوا روشن چراغ(سورج) پیدا کیا۔ (۱۳) وَأَنْزَلْنَا مِنَ الْمُعْصِرَاتِ مَاءً ثَجَّاجًا اور بدلیوں سے ہم نے بکثرت بہتا ہوا پانی برسایا (۱۴) مُعْصِرَات،وہ بدلیاں جو پانی سے بھری ہوئی ہوں لیکن ابھی برسی نہ ہوں جیسے اَلْمَرْاَۃُ الْمُعْتَصِرَۃُ اس عورت کو کہتے ہیں جس کی ماہواری قریب ہو ثَجَّاجًا کثرت سے بہنے والا پانی۔ لِنُخْرِجَ بِهِ حَبًّا وَنَبَاتًا تاکہ اس سے اناج اور سبزہ اگائیں۔ (۱۵) وَجَنَّاتٍ أَلْفَافًا اور گھنے باغ (بھی اگائیں) (۱۶) شاخوں کی کثرت کی وجہ سے ایک دوسرے سے ملے ہوئے درخت یعنی گھنے باغ۔ إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ كَانَ مِيقَاتًا بیشک فیصلہ کا دن کا وقت مقرر ہے۔ (۱۷) يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ فَتَأْتُونَ أَفْوَاجًا جس دن کہ صور پھونکا جائے گا۔ پھر تم فوج در فوج چلے آؤ گے (۱۸) بعض نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ ہر امت اپنے رسول کے ساتھ میدان حشر میں آئے گی۔ یہ دوسرا نفخہ ہوگا، جس میں سب لوگ قبروں سے زندہ اٹھ کر نکل آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ آسمان سے پانی نازل فرمائیے گا، جس سے انسان کھیتی کی طرح اگ آئے گا۔ انسان کی ہرچیز بوسیدہ ہو جائے گی، سوائے ریڑھ کی ہڈی کے آخری سرے کے، اس سے قیامت والے دن تمام مخلوقات کی دوبارہ ترکیب ہوگی۔ (صحیح بخاری) وَفُتِحَتِ السَّمَاءُ فَكَانَتْ أَبْوَابًا اور آسمان کھول دیا جائے گا پھر اس میں دروازے دروازے ہو جائیں گے (۱۹) یعنی فرشتوں کے نزول کے لئے راستے بن جائیں گے اور وہ زمین پر اتر آئیں گے۔ وَسُيِّرَتِ الْجِبَالُ فَكَانَتْ سَرَابًا اور پہاڑ چلائے جائیں گے پس وہ سراب ہو جائں گے (۲۰) وہ ریت جو دور سے پانی محسوس ہوتی ہو، پہاڑ بھی دور سے نظر آنے والی چیز بن کر رہ جائیں گے۔ إِنَّ جَهَنَّمَ كَانَتْ مِرْصَادًا بیشک دوزخ گھات میں ہے ۔ (۲۱) گھات ایسی جگہ کو کہتے ہیں، جہاں چھپ کر دشمن کا انتظار کیا جاتا ہے تاکہ وہاں سے گزرے تو فوراً حملہ کر دیا جائے، جہنم کے دروغے بھی جہنمیوں کے انتظار میں اسی طرح بیٹھے ہیں یا خود جہنم اللہ کے حکم سے کفار کے لئے گھات لگائے بیٹھی ہے۔ لِلطَّاغِينَ مَآبًا سرکشوں کا ٹھکانا وہی ہے۔ (۲۲) لَابِثِينَ فِيهَا أَحْقَابًا اس میں وہ مدتوں تک پڑے رہیں گے۔ (۲۳) لَا يَذُوقُونَ فِيهَا بَرْدًا وَلَا شَرَابًا نہ کبھی اس میں خنکی کا مزہ چکھیں گے، نہ پانی کا۔ (۲۴) إِلَّا حَمِيمًا وَغَسَّاقًا سوائے گرم پانی اور (بہتی) پیپ کے (۲۵) جو جہنمیوں کے جسموں سے نکلے گی۔ جَزَاءً وِفَاقًا (ان کو) پورا پورا بدلہ ملے گا (۲۶) یعنی یہ سزا ان کے اعمال کے مطابق ہے جو وہ دنیا میں کرتے رہے ہیں۔ إِنَّهُمْ كَانُوا لَا يَرْجُونَ حِسَابًا ا نہیں تو حساب کی توقع ہی نہ تھی (۲۷) وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا كِذَّابًا اور بےباقی سے ہماری آیتوں کو جھٹلاتے تھے۔ (۲۸) وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ كِتَابًا ہم نے ہرچیز کو لکھ کر شمار کر رکھا ہے (۲۹) یعنی لوح محفوظ میں۔ یا وہ ریکارڈ مراد ہے جو فرشتے لکھتے رہے۔ پہلا مفہوم زیادہ صحیح ہے۔ فَذُوقُوا فَلَنْ نَزِيدَكُمْ إِلَّا عَذَابًا اب تم (اپنے کئے کا) مزہ چکھو ہم تمہارا عذاب ہی بڑھاتے رہیں گے۔ (۳۰) إِنَّ لِلْمُتَّقِينَ مَفَازًا یقیناً پرہیزگار لوگوں کے لئے کامیابی ہے۔ (۳۱) حَدَائِقَ وَأَعْنَابًا باغات ہیں اور انگور ہیں۔ (۳۲) وَكَوَاعِبَ أَتْرَابًا اور نوجوان کنواری ہم عمر عورتیں ہیں (۳۳) ١ کَوَاعِبَ کَاعِبَۃً کی جمع ہے، یہ کَعْبً (ٹخنہ) سے ہے، ابھرا ہوا ہوتا ہے، ان کی چھاتیوں میں بھی ایسا ہی ابھار ہوگا، جو ان کے حسن و جمال کا ایک مظہر ہے۔ اَتْرَاب،ہم عمر۔ وَكَأْسًا دِهَاقًا چھلکتے ہوئے جام شراب ہیں۔ (۳۴) لَا يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْوًا وَلَا كِذَّابًا اور وہاں نہ تو وہ بیہودہ باتیں سنیں گے اور نہ ہی جھوٹیں باتیں سنیں گے (۳۵) یعنی کوئی بےفائدہ اور بےہودہ بات وہاں نہیں ہوگی، نہ ایک دوسرے سے جھوٹ بولیں گے۔ جَزَاءً مِنْ رَبِّكَ عَطَاءً حِسَابًا (ان کو) تیرے رب کی طرف سے (ان کے نیک اعمال کا) یہ بدلہ ملے گا جو کافی انعام ہوگا (۳۶) یعنی اللہ کی دادو دہشت کی وہاں فروانی ہوگی۔ اس رب کی طرف سے ملے گا جو کہ رَبِّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا الرَّحْمَنِ ۖ آسمانوں کا اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان کا پروردگار ہے اور بڑی بخشش کرنے والا ہے۔ لَا يَمْلِكُونَ مِنْهُ خِطَابًا کسی کو اس سے بات چیت کرنے کا اختیار نہیں ہوگا (۳۸) یعنی اس کی عظمت، ہیبت اور جلالت اتنی ہوگی کہ ابتداء اس سے کسی کو بات کرنے کی ہمت نہ ہوگی، اسی لئے اس کی اجازت کے بغیر کوئی شفاعت کے لئے لب کشائی نہیں کر سکے گا۔ يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلَائِكَةُ صَفًّا ۖ جس دن روح اور فرشتے صفیں باندھ کھڑے ہونگے لَا يَتَكَلَّمُونَ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَنُ وَقَالَ صَوَابًا تو کوئی کلام نہ کر سکے گا مگر جسے رحمٰن اجازت دے دے اور وہ ٹھیک بات زبان سے نکالے (۳۸) یہ اجازت اللہ تعالیٰ ان فرشتوں کو اور اپنے پیغمبروں کو عطا فرمائے گا اور وہ جو بات کریں گے حق و صواب ہی ہوگی، ذَلِكَ الْيَوْمُ الْحَقُّ ۖ فَمَنْ شَاءَ اتَّخَذَ إِلَى رَبِّهِ مَآبًا یہ دن ہے اب جو چاہے اپنے رب کے پاس (نیک اعمال کر کے) ٹھکانا بنالے (۳۹) اس آنے والے دن کو سامنے رکھتے ہوئے ایمان و تقویٰ کی زندگی اختیار کرے تاکہ اس روز وہاں اس کو اچھا ٹھکانا مل جائے۔ إِنَّا أَنْذَرْنَاكُمْ عَذَابًا قَرِيبًا يَوْمَ يَنْظُرُ الْمَرْءُ مَا قَدَّمَتْ يَدَاهُ ہم نے تمہیں عنقریب آنے والے عذاب سے ڈرا دیا اور (چوکنا کر دیا) ہے جسدن انسان اپنے ہاتھوں کی کمائی کو دیکھ لے گا وَيَقُولُ الْكَافِرُ يَا لَيْتَنِي كُنْتُ تُرَابًا اور کافر کہے گا کہ کاش! میں مٹی ہو جاتا (۴۰) یعنی جب وہ اپنے لئے ہولناک عذاب دیکھے گا تو یہ آرزو کرے گا۔ بعض کہتے ہیں کہ اللہ حیوانات کے درمیان بھی عدل و انصاف کے مطابق فیصلہ فرمائے گا، حتیٰ کہ ایک سینگ والی بکری نے بےسینگ والی پر کوئی زیادتی کی ہوگی، تو اس کا بھی بدلہ دلائے گا اس سے فراغت کے بعد اللہ تعالیٰ جانوروں کو حکم دے گا کہ مٹی ہو جاؤ۔ چنانچہ وہ مٹی ہو جائیں گے۔ اسوقت کافر بھی آرزو کریں گے کہ کاش وہ بھی حیوان ہوتے اور آج مٹی بن جاتے (تفسیر ابن کثیر) |
© Copy Rights:Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,Lahore, PakistanEnail: cmaj37@gmail.com |
Visits wef Sep 2024 |