Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Ma'arij

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

Noting by Maulana Salahuddin Yusuf

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


سَأَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ(1)

ایک سوال کرنے والے نے اس عذاب کا سوال کیا جو واضح ہونے والا ہے۔‏

کہتے ہیں نضر بن حارث تھا یا ابوجہل تھا جس نے کہا تھا اللّٰھُمَّ اِنْ کَانَ ھٰذَا ھُوَ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِکَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَآءِ (الاَنفا ل،٣٢) چنانچہ یہ شخص جنگ بدر میں مارا گیا۔

بعض کہتے ہیں اس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ جنہوں نے اپنی قوم کے لئے بد دعا کی تھی اور اس کے نتیجے میں اہل مکہ پر قحط سالی مسلط کی گئی تھی۔

لِلْكَافِرِينَ لَيْسَ لَهُ دَافِعٌ(2)

کافروں پر، جسے کوئی ہٹانے والا نہیں‏

مِنَ اللَّهِ ذِي الْمَعَارِجِ(3)

اس اللہ کی طرف سے جو سیڑھیوں والا ہے

یا درجات والا، بلندیوں والا ہے، جس کی طرف فرشتے چڑھتے ہیں۔

تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ(4)

جس کی طرف فرشتے اور روح چڑھتے ہیں ایک دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے‏

روح سے مراد حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں، ان کی عظمت شان کے پیش نظر ان کا الگ خصوصی ذکر کیا گیا ہے ورنہ فرشتوں میں وہ بھی شامل ہیں۔

یا روح سے مراد انسانی روحیں ہیں جو مرنے کے بعد آسمان پر لے جاتی ہیں جیسا کہ بعض روایات میں ہے۔

 اس یوم کی تعریف میں بہت اختلاف ہے جیسا کہ الم سجدہ کے آغاز میں ہم بیان کر آئے ہیں۔

فَاصْبِرْ صَبْرًا جَمِيلًا(5)

پس تو اچھی طرح صبر کر۔‏

إِنَّهُمْ يَرَوْنَهُ بَعِيدًا(6)

بیشک یہ اس (عذاب) کو دور سمجھ رہے ہیں۔‏

وَنَرَاهُ قَرِيبًا(7)

اور ہم اسے قریب دیکھتے ہیں

دور سے مراد ناممکن اور قریب سے اس کا یقینی واقع ہونا ہے۔

 یعنی کافر قیامت کو ناممکن سمجھتے ہیں اور مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ وہ ضرور آکر رہے گی۔

يَوْمَ تَكُونُ السَّمَاءُ كَالْمُهْلِ(8)

جس دن آسمان مثل تیل کی تلچھٹ کے ہو جائے گا۔‏

وَتَكُونُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ(9)

اور پہاڑ مثل رنگین اون کے ہوجائیں گے

یعنی دھنی ہوئی روئی کی طرح، جیسے سورہ القارعۃ میں ہے۔

وَلَا يَسْأَلُ حَمِيمٌ حَمِيمًا(10)

اور کوئی دوست کسی دوست کو نہ پوچھے گا۔‏

يُبَصَّرُونَهُمْ ۚ يَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ يَفْتَدِي مِنْ عَذَابِ يَوْمِئِذٍ بِبَنِيهِ(11)

 (حالانکہ) ایک دوسرے کو دکھا دیئے جائیں گے۔ گنہگار اس دن کے عذاب کے بدلے فدیے میں اپنے بیٹوں کو

لیکن سب کو اپنی اپنی پڑی ہوگی، اس لئے تعارف اور شناخت کے باوجود ایک دوسرے کو نہیں پوچھیں گے

وَصَاحِبَتِهِ وَأَخِيهِ(12)

اپنی بیوی کو اور اپنے بھائی کو۔‏

وَفَصِيلَتِهِ الَّتِي تُؤْوِيهِ(13)

اپنے کنبے کو جو اسے پناہ دیتا تھا۔‏

وَمَنْ فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ يُنْجِيهِ(14)

اور روئے زمین کے سب لوگوں کو دینا چاہے گا تاکہ یہ اسے نجات دلا دے

یعنی اولاد، بیوی، بھائی اور خاندان یہ ساری چیزیں انسان کو نہایت عزیز ہوتی ہیں، لیکن قیامت والے دن مجرم چاہے گا کہ اس سے فدیے میں یہ عزیز چیزیں قبول کر لی جائیں اور اسے چھوڑ دیا جائے۔

كَلَّا ۖ إِنَّهَا لَظَى(15)

مگر یہ ہرگز نہ ہوگا، یقیناً وہ شعلے والی (آگ) ہے

یعنی وہ جہنم، یہ اس کی شدت حرارت کا بیان ہے۔

نَزَّاعَةً لِلشَّوَى(16)

جو منہ اور سر کی کھال کھینچ لانے والی ہے

یعنی گوشت اور کھال کو جلا کر رکھ دے گی۔ انسان صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ جائے گا۔

تَدْعُو مَنْ أَدْبَرَ وَتَوَلَّى(17)

وہ ہر شخص کو پکارے گی جو پیچھے ہٹتا اور منہ موڑتا ہے۔‏

وَجَمَعَ فَأَوْعَى(18)

اور جمع کرکے سنبھال رکھتا ہے

یعنی دنیا میں حق سے پیٹھ پھیرتا اور منہ موڑتا تھا اور مال جمع کرکے خزانوں میں سنبھال سنبھال کر رکھتا تھا، اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرتا تھا نہ اس میں سے زکوٰۃ نکالتا تھا۔ اللہ تعالیٰ جہنم کو قوت گویائی عطا فرمائے گا اور جہنم بزبان قال خود ایسے لوگوں کو پکارے گی،

 بعض کہتے ہیں، پکارنے والے فرشتے ہی ہونگے اسے منسوب جہنم کی طرف کر دیا گیا ہے۔

 بعض کہتے ہیں کوئی نہیں پکارے گا، یہ صرف تمثیل کے طور پر ایسا کہا گیا ہے۔

 مطلب ہے کہ مذکورہ افراد کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔

إِنَّ الْإِنْسَانَ خُلِقَ هَلُوعًا(19)

بیشک انسان بڑے کچے دل والا بنایا گیا ہے

سخت حریص اور بہت جزع فزع کرنے والے کو ھلوع کہا جاتا ہے۔ جس کو ترجمے میں انسان کچے دل والا سے تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ ایسا شخص ہی بخیل و حریص اور زیادہ گریہ جاری کرنے والا ہوتا ہے۔

إِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوعًا(20)

جب اسے مصیبت پہنچتی ہے تو ہڑ بڑا اٹھتا ہے۔‏

وَإِذَا مَسَّهُ الْخَيْرُ مَنُوعًا(21)

اور جب راحت ملتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے۔‏

إِلَّا الْمُصَلِّينَ(22)

مگر وہ نمازی۔‏

الَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ دَائِمُونَ(23)

جو اپنی نمازوں پر ہمیشگی کرنے والے ہیں

مراد ہیں مومن کامل اور اہل توحید، ان کے اندر مذکورہ اخلاقی کمزوریاں نہیں ہوتیں بلکہ اس کے برعکس وہ صفات محمودہ کے پیکر ہوتے ہیں۔

 ہمیشہ نماز پڑھنے کا مطلب ہے کہ نماز میں کوتاہی نہیں کرتے ہر نماز اپنے وقت پر نہایت پابندی اور التزام سے پڑھ لیتے ہیں۔ کوئی مشغولیت انہیں نماز سے نہیں روکتی اور دنیا کا کوئی فائدہ انہیں نماز سے غافل نہیں کرتا۔

وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَعْلُومٌ(24)

اور جن کے مالوں میں مقررہ حصہ ہے

یعنی زکوٰۃ مفروضۃ،

بعض کے نزدیک یہ عام ہے، صدقات واجبہ اور نافلہ دونوں اس میں شامل ہیں۔

لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ(25)

مانگنے والوں کا بھی اور سوال سے بچنے والوں کا بھی۔

محروم میں وہ شخص بھی داخل ہے

- جو رزق سے ہی محروم ہے

- وہ بھی جو کسی آفت سماوی وارضی کی زد میں آکر اپنی پونجی سے محروم ہوگیا

- اور وہ بھی جو ضرورت مند ہونے کے باوجود اپنی صفت تعفف کی وجہ سے لوگوں کی عطا اور صدقات سے محروم رہتا ہے۔

وَالَّذِينَ يُصَدِّقُونَ بِيَوْمِ الدِّينِ(26)

اور جو انصاف کے دن پر یقین رکھتے ہیں۔

یعنی وہ اس کا انکار کرتے ہیں نہ اس میں شک وشبہ کا اظہار۔

وَالَّذِينَ هُمْ مِنْ عَذَابِ رَبِّهِمْ مُشْفِقُونَ(27)

اور جو اپنے رب کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔

یعنی اطاعت اور اعمال صالحہ کے باوجود اللہ کی عظمت وجلالت کے پیش نظر اس کی گرفت سے لرزاں وترساں رہتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ جب تک اللہ کی رحمت ہمیں اپنے دامن میں نہیں ڈھانک لے گی ہمارے یہ اعمال نجات کے لیے کافی نہیں ہوں گے جیسا کہ اس مفہوم کی حدیث پہلے گزر چکی ہے۔

إِنَّ عَذَابَ رَبِّهِمْ غَيْرُ مَأْمُونٍ(28)

بیشک ان کے رب کا عذاب بےخوف ہونے کی چیز نہیں۔

یہ سابقہ مضمون ہی کی تاکید ہے کہ اللہ کے عذاب سے کسی کو بھی بےخوف نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہر وقت اس سے ڈرتے رہنا اور اس سے بچاؤ کی ممکنہ تدابیر اختیار کرتے رہنا چاہیے۔

وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ(29)

اور جو لوگ اپنی شرمگاہوں کی (حرام سے) حفاظت کرتے ہیں۔‏

إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ(30)

ہاں ان کی بیویاں اور لونڈیوں کے بارے میں جن کے وہ مالک ہیں انہیں کوئی ملامت نہیں

یعنی انسان کے جنسی تسکین کے لئے اللہ نے دو جائز ذرائع رکھے ہیں ایک بیوی اور دوسری (لونڈی) بہرحال اہل ایمان کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ جنسی خواہش کی تکمیل و تسکین کے لئے ناجائز ذریعہ اختیار نہیں کرتے۔

فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ(31)

اب جو کوئی اس کے علاوہ (راہ) ڈھونڈے گا تو ایسے لوگ حد سے گزر جانے والے ہونگے۔‏

وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ(32)

جو اپنی امانتوں کا اور اپنے قول و قرار کا پاس رکھتے ہیں۔

یعنی ان کے پاس جو لوگوں کی امانتیں ہیں اس میں وہ خیانت نہیں کرتے اور لوگوں سے جو عہد کرتے ہیں انہیں توڑتے نہیں بلکہ ان کی پاسداری کرتے ہیں۔

وَالَّذِينَ هُمْ بِشَهَادَاتِهِمْ قَائِمُونَ(33)

اور جو اپنی گواہیوں پر سیدھے اور قائم رہتے ہیں۔

یعنی اسے صحیح صحیح ادا کرتے ہیں چاہے اس کی زد میں ان کے قریبی عزیز ہی آجائیں علاوہ ازیں اسے چھپاتے بھی نہیں، نہ اس میں تبدیلی ہی کرتے ہیں۔

وَالَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ(34)

جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔‏

أُولَئِكَ فِي جَنَّاتٍ مُكْرَمُونَ(35)

یہی لوگ جنتوں میں عزت والے ہونگے۔‏

فَمَالِ الَّذِينَ كَفَرُوا قِبَلَكَ مُهْطِعِينَ(36)

پس کافروں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ تیری طرف دوڑتے آتے ہیں۔‏

عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ عِزِينَ(37)

دائیں اور بائیں سے گروہ کے گروہ

یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے کفار کا ذکر ہے کہ وہ آپ کی مجلس میں دوڑتے دوڑتے آتے، لیکن آپ کی باتیں سن کر عمل کرنے کی بجائے ان کا مذاق اڑاتے اور ٹولیوں میں بٹ جاتے۔ اور دعویٰ یہ کرتے کہ اگر مسلمان جنت میں گئے تو ہم ان سے پہلے جنت میں جائیں گے۔ اللہ نے اگلی آیت میں ان کے اس زعم باطل کی تردید فرمائی۔

أَيَطْمَعُ كُلُّ امْرِئٍ مِنْهُمْ أَنْ يُدْخَلَ جَنَّةَ نَعِيمٍ(38)

کیا ان میں سے ہر ایک کی توقع یہ ہے کہ وہ نعمتوں والی جنت میں داخل کیا جائے گا؟‏

كَلَّا ۖ

 (ایسا) ہرگز نہ ہوگا

ایسا کیسا ممکن ہے کہ مومن اور کافر دونوں جنت میں جائیں رسول کو ماننے والے اور اس کی تکذیب کرنے والے دونوں کو اخروی نعمتیں ملیں ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔

إِنَّا خَلَقْنَاهُمْ مِمَّا يَعْلَمُونَ(39)

ہم نے انہیں اس (چیز) سے پیدا کیا ہے جسے وہ جانتے ہیں

یعنی (حقیر قطرے) سے۔ جب یہ بات ہے تو کیا تکبر اس انسان کو زیب دیتا ہے؟ جس تکبر کی وجہ سے ہی یہ اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب بھی کرتا ہے۔

فَلَا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشَارِقِ وَالْمَغَارِبِ إِنَّا لَقَادِرُونَ(40)

پس مجھے قسم ہے مشرقوں اور مغربوں کے رب کی (کہ) ہم یقیناً قادر ہیں‏

تفصیل کے لئے سورہ صافا ت۔ ٥ دیکھئے۔

عَلَى أَنْ نُبَدِّلَ خَيْرًا مِنْهُمْ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوقِينَ(41)

اس پر ان کے عوض ان سے اچھے لوگ لے آئیں گے اور ہم عاجز نہیں ہیں

یعنی ان کو ختم کرکے ایک نئی مخلوق آباد کر دینے پر ہم پوری طرح قادر ہیں۔ جب ایسا ہے تو کیا ہم قیامت والے دن ان کو دوبارہ نہیں اٹھا سکیں گے۔

فَذَرْهُمْ يَخُوضُوا وَيَلْعَبُوا حَتَّى يُلَاقُوا يَوْمَهُمُ الَّذِي يُوعَدُونَ(42)

پس تو انہیں جھگڑتا کھیلتا چھوڑ دے یہاں تک کہ یہ اپنے اس دن سے جا ملیں جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے۔

یعنی فضول اور لامعنی بحثوں میں پھنسے اور اپنی دنیا میں مگن رہیں تاہم آپ اپنی تبلیغ کا کام جاری رکھیں ان کا رویہ آپ کو اپنے منصب سے غافل یا بد دل نہ کر دے۔

يَوْمَ يَخْرُجُونَ مِنَ الْأَجْدَاثِ سِرَاعًا كَأَنَّهُمْ إِلَى نُصُبٍ يُوفِضُونَ(43)

جس دن یہ قبروں سے دوڑتے ہوئے نکلیں گے، گویا کہ وہ کسی جگہ کی طرف تیز تیز جا رہے ہیں۔

جدث کے معنی ہیں قبر۔ جہاں بتوں کے نام پر جانور ذبح کیے جاتے ہیں اور بتوں کے معنی میں بھی استعمال ہے۔

 بتوں کے پجاری جب سورج طلوع ہوتا تھا تو نہایت تیزی سے اپنے بتوں کی طرف دوڑتے کہ کون پہلے اسے بوسہ دیتا ہے۔ اسی طرح قیامت والے دن اپنی قبروں سے برق رفتاری سے نکلیں گے۔

خَاشِعَةً أَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ ۚ

ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہونگیں ان پر ذلت چھا رہی ہوگی

- جس طرح مجرموں کی آنکھیں جھکی ہوتی ہیں کیونکہ انہیں اپنے کرتوتوں کا علم ہوتا ہے۔

- یعنی سخت ذلت انہیں اپنی لپیٹ میں لے رہی ہوگی اور ان کے چہرے مارے خوف کے سیاہ ہوں گے۔

ذَلِكَ الْيَوْمُ الَّذِي كَانُوا يُوعَدُونَ(44)

یہ ہے وہ دن جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔‏

- یعنی رسولوں کی زبانی اور آسمانی کتابوں کے ذریعے سے۔

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter