Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Mulk

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

Noting by Maulana Salahuddin Yusuf

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ

بہت بابرکت ہے وہ اللہ جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے

اسی کے ہاتھ میں بادشاہی ہے یعنی ہر طرح کی قدرت اور غلبہ اسی کو حاصل ہے،

وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (1)

اور ہرچیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔

‏ وہ کائنات میں جس طرح کا تصرف کرے، کوئی اسے روک نہیں سکتا، وہ شاہ کو گدا اور گدا کو شاہ بنا دے، امیر کو غریب اور غریب کو امیر کردے۔ کوئی اس کی حکمت و مشیت میں دخل نہیں دے سکتا۔

الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ

جس نے موت اور حیات کو اس لئے پیدا کیا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں اچھے کام کون کرتا ہے،

روح ایک ایسی غیر مرئی چیز ہے جس بدن سے اس کا تعلق واتصال ہو جائے وہ زندہ کہلاتا ہے اور جس بدن سے اس کا تعلق منقطع ہو جائے وہ موت سے ہم کنار ہو جاتا ہے

اس نے یہ عارضی زندگی کا سلسلہ، جس کے بعد موت ہے اس لیے قائم کیا ہے تاکہ وہ آزمائے کہ اس زندگی کا صحیح استعمال کون کرتا ہے؟

جو اسے ایماء و اطاعت کے لیے استعمال کرے گا اس کے لیے بہترین جزاء ہے اور دوسروں کے لیے عذاب۔

وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ (2)

اور وہ غالب اور بخشنے والا ہے۔‏

الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا ۖ مَا تَرَى فِي خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِنْ تَفَاوُتٍ ۖ

جس نے سات آسمان اوپر تلے بنائے۔ (تو اسے دیکھنے والے) اللہ رحمٰن کی پیدائش میں کوئی بےضابطگی نہ دیکھے گا

یعنی کوئی نقص، کوئی کجی اور کوئی خلل، بلکہ بالکل سیدھے اور برابر ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ ان سب کا پیدا کرنے والا صرف ایک ہی ہے متعدد نہیں۔

فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَى مِنْ فُطُورٍ (3)

دوبارہ (نظریں ڈال کر) دیکھ لے کیا کوئی شگاف بھی نظر آ رہا ہے ۔‏

 بعض دفعہ دوبارہ دیکھنے سے کوئی نقص اور عیب نکل آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ دعوت دے رہا ہے کہ بار بار دیکھو کہ کیا تمہیں کوئی شگاف تو نظر نہیں آتا۔

ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنْقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَهُوَ حَسِيرٌ (4)

پھر دوہرا کر دو دو بار دیکھ لے تیری نگاہ تیری طرف ذلیل (و عاجز) ہو کر تھکی ہوئی لوٹ آئے گی۔

یہ مزید تاکید ہے کہ جس سے مقصد اپنی عظیم قدرت اور وحدانیت کو واضح تر کرنا ہے۔

وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَجَعَلْنَاهَا رُجُومًا لِلشَّيَاطِينِ ۖ

بیشک ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں (ستاروں) سے آراستہ کیا اور انہیں شیطان کے مارنے کا ذریعہ بنا دیا

یہاں ستاروں کے دو مقصد بیان کئے گئے ہیں

- ایک آسمانوں کی زینت کیونکہ وہ چراغوں سے جلتے ہیں

- دوسرا کہ شیطان آسمانوں کی طرف جانے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ شرارہ بن کر ان پر گرتے ہیں۔

 تیسرا مقصد ان کا یہ ہے جسے دوسرے مقامات پر بیان فرمایا گیا ہے کہ ان سے برو بحر میں راستوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔

وَأَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابَ السَّعِيرِ (5)

 اور شیطانوں کے لئے ہم نے (دوزخ جلانے والا) عذاب تیار کر دیا۔‏

وَلِلَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ (6)

اور اپنے رب کے ساتھ کفر کرنے والوں کے لئے جہنم کا عذاب ہے اور وہ کیا ہی بری جگہ ہے۔‏

إِذَا أُلْقُوا فِيهَا سَمِعُوا لَهَا شَهِيقًا وَهِيَ تَفُورُ (7)

جب اس میں یہ ڈالے جائیں گے تو اس کی بڑے زور سے کی آواز سنیں گے اور وہ جوش مار رہی ہوگی ۔‏

شَھِیْق، اس آواز کو کہتے ہیں جو گدھا پہلی مرتبہ نکالتا ہے، یہ قبیح ترین آواز ہوتی ہے۔ جہنم بھی گدھے کی طرح چیخ اور چلا رہی اور آگ پر رکھی ہوئی ہانڈی کی طرح جوش مار رہی ہوگی۔

تَكَادُ تَمَيَّزُ مِنَ الْغَيْظِ ۖ

قریب ہے کہ (ابھی) غصے کے مارے پھٹ جائے

یا مارے غیظ وغضب کے اس کے حصے ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں گے

یہ جہنم کافروں کو دیکھ کر غضب ناک ہوگی جس کا شعور اللہ تعالیٰ اس کے اندر پیدا فرما دے گا اللہ تعالیٰ کے لیے جہنم کے اندر یہ ادراک وشعور پیدا کر دینا کوئی مشکل نہیں۔

كُلَّمَا أُلْقِيَ فِيهَا فَوْجٌ سَأَلَهُمْ خَزَنَتُهَا أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَذِيرٌ (8)

جب کبھی اس میں کوئی گروہ ڈالا جائیگا اس سے جہنم کے دروغے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس ڈرانے والا کوئی نہیں آیا تھا

جس کی وجہ سے تمہیں آج جہنم کے عذاب کا مزہ چکھنا پڑا ہے۔

قَالُوا بَلَى قَدْ جَاءَنَا نَذِيرٌ فَكَذَّبْنَا وَقُلْنَا مَا نَزَّلَ اللَّهُ مِنْ شَيْءٍ إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا فِي ضَلَالٍ كَبِيرٍ (9)

وہ جواب دیں گے کہ بیشک آیا تھا لیکن ہم نے اسے جھٹلایا اور ہم نے کہا اللہ تعالیٰ نے کچھ بھی نازل نہیں فرمایا۔

 تم بہت بڑی گمراہی میں ہو

یعنی ہم نے پیغمبروں کی تصدیق کرنے کی بجائے انہیں جھٹلایا، آسمانی کتابوں کا ہی سرے سے انکار کر دیا حتٰی کہ اللہ کے پیغمبروں کو ہم نے کہا کہ تم بڑی گمراہی میں مبتلا ہو۔

وَقَالُوا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي أَصْحَابِ السَّعِيرِ (10)

اور کہیں گے کہ اگر ہم سنتے ہوتے یا عقل رکھتے ہوتے تو دوزخیوں میں (شریک) نہ ہوتے ۔‏

یعنی غور اور توجہ سے سنتے اور ان کی باتوں اور نصیحتوں کو آویزہ گوش بنا لیتے، اسی طرح اللہ کی دی ہوئی عقل سے بھی سوچنے سمجھنے کا کام لیتے تو آج ہم دوزخ والوں میں شامل نہ ہوتے۔

فَاعْتَرَفُوا بِذَنْبِهِمْ فَسُحْقًا لِأَصْحَابِ السَّعِيرِ (11)

پس انہوں نے اپنے جرم کا اقبال کر لیا (١) اب یہ دوزخی دفع ہوں (دور ہوں) (٢)۔‏

- جس کی بنا پر مستحق عذاب قرار پائے اور وہ ہے کفر اور انبیاء علیہم السلام کی تکذیب۔

- یعنی اب ان کے لئے اللہ اور اس کی رحمت سے دوری ہی دوری ہے۔

إِنَّ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِيرٌ (12)

بیشک جو لوگ اپنے پروردگار سے غائبانہ طور پر ڈرتے رہتے ہیں ان کے لئے بخشش ہے اور بڑا ثواب ہے۔

یہ اہل کفر وتکذیب کے مقابلے میں اہل ایمان کا اور ان نعمتوں کا ذکر ہے جو انہیں قیامت والے دن اللہ کے ہاں ملیں گی۔

بالغیب کا ایک مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کو دیکھا تو نہیں لیکن پیغمبروں کی تصدیق کرتے ہوئے وہ اللہ عذاب سے ڈرتے رہے

 دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ لوگوں کی نظروں سے غائب یعنی خلوتوں میں اللہ سے ڈرتے رہے۔

وَأَسِرُّوا قَوْلَكُمْ أَوِ اجْهَرُوا بِهِ ۖ

تم اپنی باتوں کو چھپاؤ یا ظاہر کرو

یہ پھر کافروں سے خطاب ہے۔ مطلب ہے کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں چھپ کر باتیں کرو یا اعلان یہ سب اللہ کے علم میں ہے، اس سے کوئی بات پوشیدہ نہیں۔

إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ (13)

 وہ تو سینوں کی پوشیدگی کو بھی بخوبی جانتا ہے‏

وہ تو سینوں کے رازوں اور دلوں کے بھیدوں تک سے واقف ہے تمہاری باتیں کس طرح اس سے پوشیدہ رہ سکتی ہیں۔

أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ (14)

کیا وہی نہ جانے جس نے پیدا کیا پھر وہ باریک بین اور باخبر ہو۔‏

یعنی سینوں اور دلوں اور ان میں پیدا ہونے والے خیالات، سب کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے، تو کیا وہ اپنی مخلوق سے بےعلم رہ سکتا ہے۔

لطیف کے معنی ہے باریک بین یعنی جس کا علم اتنا ہے کہ دلوں میں پرورش پانے والی باتوں کو بھی جانتا ہے۔

هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ ذَلُولًا فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِنْ رِزْقِهِ ۖ

وہ ذات جسنے تمہارے لئے زمین کو پست و مطیع کر دیا تاکہ تم اسکی راہوں میں چلتے پھرتے رہو اور اللہ کی روزیاں کھاؤ (پیؤ)

ذلول کے معنی مطیع۔یعنی زمین کو تمہارے لیے نرم اور آسان کر دیا اس کو اسی طرح سخت نہیں بنایا کہ تمہارا اس پر آباد ہونا اور چلنا پھرنا مشکل ہو۔

 یعنی زمین کی پیداوار سے کھاؤ پیو۔

وَإِلَيْهِ النُّشُورُ (15)

اسی کی طرف (تمہیں) جی کر اٹھ کھڑے ہونا ہے۔‏

أَأَمِنْتُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ أَنْ يَخْسِفَ بِكُمُ الْأَرْضَ فَإِذَا هِيَ تَمُورُ (16)

کیا تم اس بات سے بےخوف ہوگئے ہو کہ آسمان والا تمہیں زمین میں نہ دھنسا دے اور اچانک زمین لرزنے لگے ‏

یہ کافروں کو ڈرایا جا رہا ہے کہ آسمانوں والی ذات جب چاہے تمہیں زمین میں دھنسا دے۔ یعنی وہی زمین جو تمہاری قرار گاہ ہے اور تمہاری روزی کا مخزن و منبع ہے، اللہ تعالیٰ اسی زمین کو، جو نہایت پر سکون ہے، حرکت، جنبش میں لا کر تمہاری ہلاکت کا باعث بنا سکتا ہے۔

أَمْ أَمِنْتُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ أَنْ يُرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا ۖ

یا کیا تم اس بات سے نڈر ہوگئے ہو کہ آسمانوں والا تم پر پتھر برسائے

جیسے اس نے قوم لوط اور اصحاب فیل پر برسائے اور پتھروں کی بارش سے ان کو ہلاک کردیا۔

فَسَتَعْلَمُونَ كَيْفَ نَذِيرِ (17)

پھر تمہیں معلوم ہو ہی جائے گا کہ میرا ڈرانا کیسا تھا ‏

لیکن اس وقت یہ علم، بےفائدہ ہوگا۔

وَلَقَدْ كَذَّبَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَكَيْفَ كَانَ نَكِيرِ (18)

اور ان سے پہلے لوگوں نے بھی جھٹلایا تھا تو دیکھو ان پر میرا عذاب کیسا ہوا؟‏

أَوَلَمْ يَرَوْا إِلَى الطَّيْرِ فَوْقَهُمْ صَافَّاتٍ وَيَقْبِضْنَ ۚ

کیا یہ اپنے پر کھولے ہوئے اور (کبھی کبھی) سمیٹے ہوئے (اڑنے والے) پرندوں کو نہیں دیکھتے

پرندہ جب ہوا میں اڑتا ہے تو وہ پر پھیلاتا ہے اور کبھی دوران پرواز پروں کو سمیٹ لیتا ہے۔ یہ پھیلانا، صَف اور سمیٹ لینا قَبْض ہے۔

مَا يُمْسِكُهُنَّ إِلَّا الرَّحْمَنُ ۚ

انہیں (اللہ) ہی (ہوا فضا) میں تھامے ہوئے ہے

یعنی دوران پرواز ان پرندوں کو تھامے رکھنے والا کون ہے، جو انہیں زمین پر گرنے نہیں دیتا؟

 یہ اللہ رحمان ہی کی قدرت کا ایک نمونہ ہے۔

إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ بَصِيرٌ (19)

بیشک ہرچیز اس کی نگاہ میں ہے۔‏

أَمَّنْ هَذَا الَّذِي هُوَ جُنْدٌ لَكُمْ يَنْصُرُكُمْ مِنْ دُونِ الرَّحْمَنِ ۚ إِنِ الْكَافِرُونَ إِلَّا فِي غُرُورٍ (20)

سوائے اللہ کے تمہارا وہ کون سا لشکر ہے جو تمہاری مدد کر سکے کافر تو سراسر دھو کے میں ہیں ‏

جس میں انہیں شیطان نے مبتلا کر رکھا ہے۔

أَمَّنْ هَذَا الَّذِي يَرْزُقُكُمْ إِنْ أَمْسَكَ رِزْقَهُ ۚ

اگر اللہ تعالیٰ اپنی روزی روک لے تو بتاؤ کون ہے جو پھر تمہیں روزی دے گا

یعنی اللہ بارش نہ برسائے، یا زمین ہی کو پیداوار سے روک دے یا تیار شدہ فصلوں کو تباہ کر دے، جیسا کہ بعض بعض دفعہ وہ ایسا کرتا ہے، جس کی وجہ سے تمہاری خوراک کا سلسلہ موقوف ہو جائے، اگر اللہ تعالیٰ ایسا کر دے تو کیا کوئی اور ہے جو اللہ کی مشیت کے برعکس تمہیں روزی مہیا کر دے؟

بَلْ لَجُّوا فِي عُتُوٍّ وَنُفُورٍ(21)

بلکہ (کافر) تو سرکشی اور بدکنے پر اڑ گئے ہیں۔‏

 یعنی وعظ ونصیحت کی ان باتوں کا ان پر کوئی اثر نہیں پڑتا بلکہ وہ حق سے سرکشی اور اعراض ونفور میں ہی بڑھتے چلے جا رہے ہیں عبرت پکڑتے ہیں اور نہ ہی غور و فکر کرتے ہیں۔

أَفَمَنْ يَمْشِي مُكِبًّا عَلَى وَجْهِهِ أَهْدَى

وہ شخص زیادہ ہدایت والا ہے جو اپنے سرکے بل اوندھا ہو کر چلے

منہ کے بل اوندھے چلنے والے کو دائیں بائیں کچھ نظر نہیں آتا نہ وہ ٹھوکروں سے محفوظ ہوتا ہے کیا ایسا شخص اپنی منزل مقصود تک پہنچ سکتا ہے؟

 یقینا ًنہیں

 اسی طرح دنیا میں اللہ کی معصیتوں میں ڈوبا ہوا شخص آخرت کی کامیابی سے محروم رہے گا۔

أَمَّنْ يَمْشِي سَوِيًّا عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ(22)

یا وہ جو سیدھا (پیروں کے بل) راہ راست پر چلا ہو۔ ‏

جس میں کوئی کجی اور انحراف نہ ہوا اور اس کو آگے اور دائیں بائیں بھی نظر آرہا ہو ظاہر ہے یہ شخص اپنی منزل مقصود کو پہنچ جائے گا یعنی اللہ کی اطاعت کا سیدھا راستہ اپنانے والا آخرت میں سرخرو رہے گا

بعض کہتے ہیں کہ مومن اور کافر دونوں کی اس کیفیت کا بیان ہے جو قیامت والے دن انکی ہوگی کافر منہ کے بل جہنم میں جائے جائیں گے اور مومن سیدھے قدموں سے چل کر جنت میں جائیں گے۔

قُلْ هُوَ الَّذِي أَنْشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ ۖ

کہہ دیجئے کہ وہی اللہ ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور تمہارے کان آنکھیں اور اور دل بنائے

- یعنی پہلی مرتبہ پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے۔

- یعنی کان آنکھیں اور دل بنائیں جن سے تم سن سکو اور اللہ کی مخلوق میں غوروفکر کرکے اللہ کی معرفت حاصل کر سکو تین قوتوں کا ذکر فرمایا ہے جن سے انسان مسموعات، مبصرات اور معقولات کا ادراک کرسکتا ہے یہ ایک طرح سے اتمام حجت بھی ہے اور اللہ کی ان نعمتوں پر شکر نہ کرنے کی مذمت بھی اسی لیے آگے فرمایا تم بہت ہی کم شکرگزاری کرتے ہو۔

قَلِيلًا مَا تَشْكُرُونَ(23)

تم بہت ہی کم شکر گزاری کرتے ہو ۔‏

یعنی شُکْرًا قَلِیْلًا یا زَمْنً قَلِیلًا یا قلت شکر سے مراد ان کی طرف سے شکر کا عدم وجود ہے۔

قُلْ هُوَ الَّذِي ذَرَأَكُمْ فِي الْأَرْضِ وَإِلَيْهِ تُحْشَرُونَ(24)

کہہ دیجئے! کہ وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں پھیلا دیا اور اس کی طرف تم اکٹھے کئے جاؤ گے۔ ‏

یعنی انسانوں کو پیدا کرکے زمین میں پھیلانے والا بھی وہی ہے اور قیامت والے دن سب جمع بھی اس کے پاس ہوں گے کسی اور کے پاس نہیں۔

وَيَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْوَعْدُ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ(25)

(کافر) پوچھتے ہیں کہ وہ وعدہ کب ظاہر ہوگا اگر تم سچے ہو (تو بتاؤ)؟

یہ کافر بطور مذاق قیامت کو دور دراز کی باتیں سمجھتے ہوئے کہتے ہیں۔

قُلْ إِنَّمَا الْعِلْمُ عِنْدَ اللَّهِ وَإِنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُبِينٌ(26)

آپ کہہ دیجئے کہ اس کا علم تو اللہ ہی کو ہے میں تو صرف کھلے طور پر آگاہ کر دینے والا ہوں ‏

یعنی میرا کام تو صرف انجام سے ڈرانا ہے جو میری تکذیب کی وجہ تمہارا ہوگا، دوسرے لفظوں میرا کام انزاز ہے، غیب کی خبریں بتانا نہیں۔ الا یہ کہ جس کی بابت خود اللہ مجھے بتلا دے۔

فَلَمَّا رَأَوْهُ زُلْفَةً سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا

جب یہ لوگ اس وعدے کو قریب تر پا لیں گے اس وقت ان کافروں کے چہرے بگڑ جائیں گے

 یعنی ذلت اور ہولناکی اور دہشت سے ان کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی ہونگی۔ جس کو دوسرے مقام پر چہروں کے سیاہ ہونے سے تعبیر کیا گیا ہے۔

وَقِيلَ هَذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَدَّعُونَ(27)

اور کہہ دیا جائے گا کہ یہی ہے جسے تم طلب کرتے تھے۔‏

یعنی یہ عذاب جو تم دیکھ رہے ہو وہی ہے جسے تم دنیا میں جلد طلب کرتے تھے۔

قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَهْلَكَنِيَ اللَّهُ وَمَنْ مَعِيَ أَوْ رَحِمَنَا فَمَنْ يُجِيرُ الْكَافِرِينَ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ(28)

آپ کہہ دیجئے! اچھا اگر مجھے اور میرے ساتھیوں کو اللہ تعالیٰ ہلاک کر دے یا ہم پر رحم کرے

(بہر صورت یہ تو بتاؤ) کہ کافروں کو دردناک عذاب سے کون بچائے گا؟ ‏

مطلب یہ ہے کہ کافروں کو تو اللہ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہیں ہے چاہے اللہ تعالیٰ اپنے رسول اور اس پر ایمان لانے والوں کو موت یا قتل کے ذریعے ہلا کر دے یا انہیں مہلت دے دے

یا یہ مطلب ہے کہ ہم باوجود ایمان کے خوف اور رجا کے درمیان ہیں  پس تمہیں تمہارے کفر کے باوجود عذاب سے کون بچائے گا۔

قُلْ هُوَ الرَّحْمَنُ آمَنَّا بِهِ وَعَلَيْهِ تَوَكَّلْنَا ۖ

آپ کہہ دیجئے کہ وہی رحمٰن ہے۔ ہم تو اس پر ایمان لاچکے اور اسی پر ہمارا بھروسہ ہے

- یعنی وحدانیت پر، اسی لئے اس کے ساتھ شریک نہیں ٹھہراتے۔

- کسی اور پر نہیں۔ ہم اپنے تمام معاملات اسی کے سپرد کرتے ہیں، کسی اور کے نہیں جیسے مشرک کرتے ہیں۔

فَسَتَعْلَمُونَ مَنْ هُوَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ(29)

تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ صریح گمراہی میں کون ہے۔‏

یعنی تم ہو یا ہم اس میں کافروں کے لیے سخت وعید ہے۔

قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَصْبَحَ مَاؤُكُمْ غَوْرًا فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِمَاءٍ مَعِينٍ(30)

آپ کہہ دیجئے!

 کہ اچھا یہ تو بتاؤ کہ اگر تمہارے (پینے کا) پانی زمین میں اتر جائے تو کون ہے جو تمہارے لئے نتھرا ہوا پانی لائے؟ ‏

غَوْرًا کے معنی ہیں خشک ہو جانا یا اتنی گہرائی میں چلا جانا کہ وہاں سے پانی نکالنا ناممکن ہو۔

 یعنی اگر اللہ تعالیٰ پانی خشک فرما دے کہ اس کا وجود ہی ختم ہو جائے یا اتنی گہرائی میں کر دے کہ ساری مشینیں پانی نکالنے میں ناکام ہو جائیں تو بتلاؤ! پھر کون ہے جو تمہیں جاری، صاف اور نتھرا ہوا پانی مہیا کر دے؟

 یعنی کوئی نہیں ہے کہ تمہیں پانی سے محروم نہیں فرماتا۔

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter