Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Talaq

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

Noting by Maulana Salahuddin Yusuf

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ ۖ

اے نبی! (اپنی امت سے کہو کہ) جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو

 تو ان کی عدت (کے دنوں کے آغاز) میں انہیں طلاق دو اور عدت کا حساب رکھو

- نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب آپ کے شرف و مرتب کی وجہ سے ہے، ورنہ حکم تو امت کو دیا جا رہا ہے۔ یا آپ ہی کو بطور خاص خطاب ہے۔ اور جمع کا صیغہ بطور تعظیم کے ہے اور امت کے لیے آپ کا اسوہ ہی کافی ہے۔

 طَلَّقْتُمْ کا مطلب ہے جب طلاق دینے کا پختہ ارادہ کر لو۔

- اس میں طلاق دینے کا طریقہ اور وقت بتلایا ہے

لعدتھن میں لام توقیت کے لیے ہے۔ یعنی لاول یا لاستقبال

 عدتھن عدت کے آغاز میں طلاق دو

 یعنی جب عورت حیض سے پاک ہو جائے تو اس سے ہم بستری کے بغیر طلاق دوحالت طہر میں اسکی عدت کا آغاز ہے۔

 اسکا مطلب یہ ہے حیض کی حالت میں یا طہر میں ہم بستری کرنے کے بعد طلاق دینا غلط طریقہ ہے

 اسکو فقہا طلاق بدعی سے اور پہلے صحیح طریقے کو طلاق سنت سے تعبیر کرتے ہیں۔ اسکی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں آتا ہے:

 حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے حیض کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غضبناک ہوئے اور انہیں اس سے رجوع کرنے کے ساتھ حکم دیا کہ حالت طہر میں طلاق دینا اور اسکے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت سے استدلال فرمایا۔ (صحیح بخاری)

تاہم حیض میں دی گئی طلاق بھی باوجود بدعی ہونے کے واقع ہوجائے گی۔ محدثین اور جمہور علماء اسی بات کے قائل ہیں البتہ امام ابن قیم اور امام ابن تیمیہ طلاق بدعی کے وقوع کے قائل نہیں ہیں ۔

- یعنی اس کی ابتدا اور انتہا کا خیال رکھو، تاکہ عورت اس کے بعد نکاح ثانی کر سکے، یا اگر تم ہی رجوع کرنا چاہو، (پہلی اور دوسری طلاق کی صورت میں) تو عدت کے اندر رجوع کر سکو۔

وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ ۖ

اور اللہ سے جو تمہارا پروردگار ہے ڈرتے رہو،

لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ ۚ

نہ تم انہیں ان کے گھر سے نکالو (اور نہ وہ (خود) نکلیں ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کھلی برائی کر بیٹھیں

- یعنی طلاق دیتے ہی عورت کو اپنے گھر سے مت نکالو، بلکہ عدت تک اسے گھر ہی میں رہنے دو اور اس وقت تک رہائش اور نان و نفقہ تمہاری ذمہ داری ہے۔

-  یعنی عدت کے دوران خود عورت بھی گھر سے باہر نکلنے سے احتراز کرے الا یہ کہ کوئی بہت ہی ضروری معاملہ ہو۔

- یعنی بدکاری کا ارتکاب کر بیٹھے یا بد زبانی اور بد اخلاقی کا مظاہرہ کرے جس سے گھر والوں کو تکلیف ہو۔ دونوں صورتوں میں اس کا اخراج جائز ہوگا۔

وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ ۚ

یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں

وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ ۚ

جو شخص اللہ کی حدوں سے آگے بڑھ جائے اس نے یقیناً اپنے اوپر ظلم کیا

یعنی مرد کے دل میں مطلقہ عورت کی رغبت پیدا کردے اور وہ رجوع کرنے پر آمادہ ہو جائے جیسا کہ پہلی دوسری طلاق کے بعد خاوند کو عدت کے اندر رجوع کرنے کا حق حاصل ہے۔

لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا(1)

تم نہیں جانتے شاید اس کے بعد اللہ تعالیٰ کوئی نئی بات پیدا کردے‏

فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ

پس جب یہ عورتیں اپنی عدت کرنے کے قریب پہنچ جائیں تو انہیں یا تو قاعدہ کے مطابق اپنے نکاح میں رہنے دو

یا دستور کے مطابق انہیں الگ کر دو

  مطلقہ مد خولہ کی عدت تین حیض ہے۔ اگر رجوع کرنا مقصود ہو تو عدت ختم ہونے سے پہلے پہلے رجوع کر لو۔ بصورت دیگر انہیں معروف کے مطابق اپنے سے جدا کردو۔

وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ وَأَقِيمُوا الشَّهَادَةَ لِلَّهِ ۚ

اور آپس میں سے دو عادل شخصوں کو گواہ کر لو اور اللہ کی رضامندی کے لئے ٹھیک ٹھیک گواہی دو

- اس رجعت اور بعض کے نزدیک طلاق پر گواہ کرلو۔ یہ امر وجوب کے لئے نہیں، استحباب کے لئے ہے، یعنی گواہ بنا لینا بہتر ہے تاہم ضروری نہیں۔

-  یہ تاکید گواہوں کو ہے کہ وہ کسی کی رو رعایت اور لالچ کے بغیر صحیح صحیح گواہی دیں۔

ذَلِكُمْ يُوعَظُ بِهِ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ

یہی ہے وہ جس کی نصیحت اسے کی جاتی ہے اور جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو

وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا(2)

اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لئے چھٹکارے کی شکل نکال دیتا ہے ‏

یعنی شدائد اور آزمائشوں سے نکلنے کی سبیل پیدا فرما دیتا ہے

وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۚ

اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہ ہو

وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ۚ

اور جو شخص اللہ پر توکل کرے گا اللہ اسے کافی ہوگا۔

إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ ۚ

اللہ تعالیٰ اپنا کام پورا کر کے ہی رہے گا

 یعنی وہ جو چاہے۔ اسے کوئی روکنے والا نہیں۔

قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا(3)

اللہ تعالیٰ نے ہرچیز کا ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے ۔

تنگیوں کے لئے بھی اور آسانیوں کے لئے بھی۔ یہ دونوں اپنے وقت پر انتہا پذیر ہو جاتے ہیں۔

بعض نے اس سے حیض اور عدت مراد لی ہے۔

وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِنْ نِسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ

تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں حیض سے نا امید ہوگئی ہوں، اگر تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے

وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ ۚ

اور ان کی بھی جنہیں حیض آنا شروع نہ ہوا ہو

یہ ان کی عدت ہے جن کا حیض عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے بند ہوگیا ہو، یا جنہیں حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو۔ واضح رہے کہ نادر طور پر ایسا ہوتا ہے کہ عورت سن بلوغت کو پہنچ جاتی ہے اور اسے حیض ہی نہیں آتا۔

وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ

اور حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل ہے

مطلقہ اگر حاملہ ہو تو اس کی عدت وضع حمل ہے، چاہے دوسرے روز ہی وضع حمل ہو جائے، ہر حاملہ عورت کی عدت یہی ہے چاہے وہ مطلقہ ہو یا اس کا خاوند فوت ہوگیا ہو۔ احادیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے (صحیح بخاری)

اور جن کے خاوند فوت ہوجائیں ان کی عدت چار مہینے دس دن ہے۔

وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا(4)

اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرے گا اللہ اس کے (ہر) کام میں آسانی کر دے گا۔‏

ذَلِكَ أَمْرُ اللَّهِ أَنْزَلَهُ إِلَيْكُمْ ۚ

یہ اللہ کا حکم ہے جو اس نے تمہاری طرف اتارا ہے

وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّئَاتِهِ وَيُعْظِمْ لَهُ أَجْرًا(5)

اور جو شخص اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کے گناہ مٹا دے گا اور اسے بڑا بھاری اجر دے گا۔‏

أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُجْدِكُمْ

تم اپنی طاقت کے مطابق جہاں تم رہتے ہو وہاں ان (طلاق والی) عورتوں کو رکھو

یعنی مطلقہ رجعیہ کو۔ اس لیے کہ مطلقہ بائنہ کے لیے تو رہائش اور نفقہ ضروری ہی نہیں۔

 اپنی طاقت کے مطابق رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر مکان فراخ ہو اور اس میں متعدد کمرے ہوں تو ایک کمرہ اس کے لیے مخصوص کر دیا جائے۔ بصورت دیگر اپنا کمرہ اس کے لیے خالی کردے۔ اس میں حکمت یہی ہے کہ قریب رہ کر عدت گزارے گی تو شاید خاوند کا دل پسیج جائے اور رجوع کرنے کی رغبت اس کے دل میں پیدا ہوجائے خاص طور پر اگر بچے بھی ہوں تو پھر رغبت اور رجوع کا قوی امکان ہے۔

 مگر افسوس ہے کہ مسلمان اس ہدایت پر عمل نہیں کرتے جس کی وجہ سے اس حکم کے فوائد سے بھی محروم ہیں۔ ہمارے معاشرے میں طلاق کے ساتھ ہی جس طرح عورت کو فوراً اچھوت بنا کر گھر سے نکال دیا جاتا ہے، یا بعض دفعہ لڑکی والے اسے اپنے گھر لے جاتے ہیں، یہ رواج قرآن کریم کی صریح تعلیم کے خلاف ہے۔

وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ ۚ

اور انہیں تنگ کرنے کے لئے تکلیف نہ پہنچاؤ

یعنی نان نفقہ میں یا رہائش میں اسے تنگ اور بےآبرو کرنا تاکہ وہ گھر چھوڑ جائے۔ عدت کے دوران ایسا رویہ اختیار نہ کیا جائے۔

بعض نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے عدت ہو جانے کے قریب ہو تو رجوع کر لے اور بار بار ایسا نہ کرے، جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں کیا جاتا تھا۔ جس کے سدباب کے لیے شریعت نے طلاق کے بعد رجوع کرنے کی حد مقرر فرمادی تاکہ کوئی شخص آئندہ اس طرح عورت کو تنگ نہ کرے، اب ایک انسان دو مرتبہ تو ایسا کر سکتا ہے یعنی طلاق دے کر عدت ختم ہونے سے پہلے رجوع کرلے۔ لیکن تیسری مرتبہ جب طلاق دے گا تو اس کے بعد اس کے رجوع کا حق بھی ختم ہوجائے گا۔

وَإِنْ كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنْفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّى يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ

اور اگر وہ حمل سے ہوں تو جب تک بچہ پیدا ہولے انہیں خرچ دیتے رہا کرو پھر

 یعنی مطلقہ خواہ بائنہ ہی کیوں نہ ہو، اگر حاملہ ہے تو اس کا نفقہ و رہائش ضروری ہے، جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے۔

فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ ۖ

اگر تمہارے کہنے سے وہی دودھ پلائیں تو تم انہیں ان کی اجرت دے دو

 یعنی طلاق دینے کے بعد اگر وہ تمہارے بچے کو دودھ پلائے تو اس کی اجرت تمہارے ذمے ہے۔

وَأْتَمِرُوا بَيْنَكُمْ بِمَعْرُوفٍ ۖ

اور باہم مناسب طور پر مشورہ کرلیا کرو

یعنی باہم مشورے سے اجرت اور دیگر معاملات طے کر لئے جائیں۔

 مثلاً بچے کا باپ حیثیت کے مطابق اجرت دے اور ماں، باپ کی حیثیت کے مطابق اجرت طلب کرے، وغیرہ۔

وَإِنْ تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرَى(6)

اور اگر تم آپس میں کشمکش کرو تو اس کے کہنے سے کوئی اور دودھ پلائے گی۔ ‏

یعنی آپس میں اجرت وغیرہ کا معاملہ طے نہ ہوسکے تو کسی دوسری انا کے ساتھ معاملہ کر لے جو اسکے بچے کو دودھ پلائے

لِيُنْفِقْ ذُو سَعَةٍ مِنْ سَعَتِهِ ۖ

کشادگی والے کو اپنی کشادگی سے خرچ کرنا چاہیے

یعنی دودھ پلانے والی عورتوں کو اجرت اپنی طاقت کے مطابق دی جائے اگر اللہ نے مال ودولت میں فراخی عطا فرمائی ہے تو اسی فراخی کے ساتھ مرضعۃ کی خدمت ضروری ہے۔

وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنْفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللَّهُ ۚ

اور جس پر اس کے رزق کی تنگی کی گئی ہو

اسے چاہیے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اسے دے رکھا ہے اسی میں سے (اپنی حسب حیثیت) دے،

یعنی مالی لحاظ سے کمزور ہو۔

لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا ۚ

کسی شخص کو اللہ تکلیف نہیں دیتا مگر اتنی ہی جتنی طاقت اسے دے رکھی ہے،

اس لیے وہ غریب اور کمزور کو یہ حکم نہیں دیتا کہ وہ دودھ پلانے والی کو زیادہ اجرت ہی دے۔

مطلب ان ہدایات کا یہ ہے کہ بچے کی ماں اور بچے کا باپ دونوں ایسا مناسب رویہ اختیار کریں کہ ایک دوسرے کو تکلیف نہ پہنچے اور بچے کو دودھ پلانے کا مسئلہ سنگین نہ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا:

لَا تُضَارَّ وَالِدَةٌ بِوَلَدِهَا وَلَا مَوْلُودٌ لَهُ بِوَلَدِهِ (2:233)

نہ ماں کو بچے کی وجہ سے تکلیف پہنچائی جائے اور نہ باپ کو۔

سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا(7)

اللہ تنگی کے بعد آسانی و فراغت بھی کر دے گا۔

چنانچہ جو اللہ پر اعتماد وتوکل کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو آسانی و کشادگی سے بھی نواز دیتا ہے۔

وَكَأَيِّنْ مِنْ قَرْيَةٍ عَتَتْ عَنْ أَمْرِ رَبِّهَا وَرُسُلِهِ

اور بہت سی بستی والوں نے اپنے رب کے حکم سے اور اس کے رسولوں سے سرتابی  کی

عَتَتْ ، یعنی تم نے سرکشی کی، متکبر ہو گئے، اور خدائے بزرگ و برتر کے حکم اور اس کے رسولوں کے پیروکاروں کی پیروی میں تکبر کیا۔

فَحَاسَبْنَاهَا حِسَابًا شَدِيدًا وَعَذَّبْنَاهَا عَذَابًا نُكْرًا(8)

تو ہم نے بھی ان سے سخت حساب کیا اور انہیں عذاب دیا ان دیکھا (سخت) عذاب۔

نکرا، منکرا فظیعا،، حساب اور عذاب، دونوں سے مراد دنیاوی مواخذہ اور سزا ہے

 یا پھر بقول بعض کلام میں تقدیم وتاخیر ہے۔

عَذَابًا نُكْرًا ، وہ عذاب ہے جو دنیا میں قحط، خسف ومسخ وغیرہ کی شکل میں انہیں پہنچا،

 اور حِسَابًا شَدِيدًا وہ ہے جو آخرت میں ہوگا۔

فَذَاقَتْ وَبَالَ أَمْرِهَا وَكَانَ عَاقِبَةُ أَمْرِهَا خُسْرًا(9)

پس انہوں نے اپنے کرتوت کا مزہ چکھ لیا اور انجام کار ان کا خسارہ ہی ہوا۔‏

أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا ۖ فَاتَّقُوا اللَّهَ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ الَّذِينَ آمَنُوا ۚ

ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے، پس اللہ سے ڈرو اے عقل مند ایمان والو۔

قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْرًا(10)

یقیناً اللہ نے تمہاری طرف نصیحت اتار دی ہے۔‏

رَسُولًا يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِ اللَّهِ مُبَيِّنَاتٍ لِيُخْرِجَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۚ

(یعنی) رسول جو تمہیں اللہ کے صاف صاف احکام پڑھ کر سناتا ہے

تاکہ ان لوگوں کو جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں وہ تاریکیوں سے روشنی کی طرف لے آئے

- رسول، ذکر سے بدل ہے، بطور مبالغہ رسول کو ذکر سے تعبیر فرمایا، جیسے کہتے ہیں، وہ مجسم عدل ہے۔

یا ذکر سے مراد قرآن ہے اور رَسُولًا سے پہلے اَرْسَلْنَا محذوف ہے یعنی ذکر (قرآن) کو نازل کیا اور رسول کو ارسال کیا۔

- یہ رسول کا منصب اور فریضہ بیان کیا گیا کہ وہ قرآن کے ذریعے سے لوگوں کو اخلاقی پستیوں سے شرک و ضلالت کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان و عمل صالح کی روشنی کی طرف لاتا ہے۔

 رسول سے یہاں مراد الرسول یعنی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔

وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ وَيَعْمَلْ صَالِحًا يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۖ

اور جو شخص اللہ پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے

اللہ اسے ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جس کے نیچے نہریں جاری ہیں جن میں یہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔

عمل صالح میں دونوں باتیں شامل ہیں احکام وفرائض کی ادائیگی اور معصیات ومنہیات سے اجتناب،

 مطلب ہے کہ جنت میں وہی اہل ایمان داخل ہوں گے، جنہوں نے صرف زبان سے ہی ایمان کا اظہار نہیں کیا تھا، بلکہ انہوں نے ایمان کے تقاضوں کے مطابق فرائض پر عمل اور معاصی سے اجتناب کیا تھا۔

قَدْ أَحْسَنَ اللَّهُ لَهُ رِزْقًا(11)

بیشک اللہ نے اسے بہترین روزی دے رکھی ہے۔‏

اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ

اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان اور اسی کے مثل زمینیں بھی۔

ای خلق من الارض مثلھن۔ یعنی سات آسمانوں کی طرح، اللہ نے سات زمینیں بھی پیدا کی ہیں۔

بعض نے اس سے سات اقالیم مراد لیے ہیں، لیکن یہ صحیح نہیں۔ بلکہ جس طرح اوپر نیچے سات آسمان ہیں۔ اسی طرح سات زمینیں ہیں، جن کے درمیان بعد و مسافت ہے اور ہر زمین میں اللہ کی مخلوق آباد ہے۔ (القرطبی)

احادیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 من اخذ شبرا من الارض ظلاما فانہ یطوقہ یوم القیامۃ من سبع ارضین

جس نے کسی کی ایک بالشت زمین بھی ہتھیالی تو قیامت والے دن اس زمین کا اتنا حصہ ساتوں زمینوں سے طوق بنا کر اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔ (صحیح مسلم ۔ صحیح  بخاری)

اور صحیح بخاری کے الفاظ ہیں خسف بہ الی سبع ارضین یعنی اس کو ساتوں زمینوں تک دھنسا دیا جائے گا۔

 بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ ہر زمین میں اسی طرح کا پیغمبر ہے جس طرح کا پیغمبر تمہاری زمین پر آیا مثلاً آدم آدم کی طرح، نوح نوح کی طرح، ابراہیم ابراہیم کی طرح، عیسیٰ عیسیٰ کی طرح۔

 لیکن یہ بات کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں۔

يَتَنَزَّلُ الْأَمْرُ بَيْنَهُنَّ

اس کا حکم ان کے درمیان اترتا ہے

یعنی جس طرح ہر آسمان پر اللہ کا حکم نافذ اور غالب ہے، اسی طرح ہر زمین پر اس کا حکم چلتا ہے، آسمانوں کی طرح ساتوں زمینوں کی بھی وہ تدبیر فرماتا ہے۔

لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَأَنَّ اللَّهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا(12)

تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہرچیز پر قادر ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے ہرچیز کو بہ اعتبار علم گھیر رکھا ہے ۔‏

پس اس کے علم سے کوئی چیز باہر نہیں، چاہے وہ کیسی ہی ہو۔

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter