Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Munafiqun

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

Noting by Maulana Salahuddin Yusuf

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ۗ

تیرے پاس جب منافق آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم اس بات کے گواہ ہیں کہ بیشک آپ اللہ کے رسول ہیں  

منافقین سے مراد عبد اللہ بن ابی اور اس کے ساتھی ہیں۔ یہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے تو قسمیں کھا کھا کر کہتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔

وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ

اور اللہ جانتا ہے کہ یقیناً آپ اللہ کے رسول ہیں

یہ جملہ معترضہ ہے جو مضمون ماقبل کی تاکید کے لیے ہے جس کا اظہار منافقین بطور منافقت کے کیا کرتے تھے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ تو ویسے ہی زبان سے کہتے ہیں، ان کے دل اس یقین سے خالی ہیں۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم واقعی اللہ کے رسول ہیں۔

وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ (١)

اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق قطعاً جھوٹے ہیں۔

اس بات میں کہ وہ دل سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دیتے ہیں، یعنی دل سے گواہی نہیں دیتے صرف زبان سے دھوکا دینے کے لئے اظہار کرتے ہیں۔

اتَّخَذُوا أَيْمَانَهُمْ جُنَّةً فَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ ۚ

انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے پس اللہ کی راہ سے رک گئے

- یعنی وہ قسم کھا کر کہتے ہیں کہ وہ تمہاری طرح مسلمان ہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں انہوں نے اپنی اس قسم کو ڈھال بنا رکھا ہے۔ اس کے ذریعے سے وہ تم سے بچے رہتے ہیں اور کافروں کی طرح یہ تمہاری تلواروں کی زد میں نہیں آتے۔

-  دوسرا ترجمہ یہ ہے کہ انہوں نے شک و شبہات پیدا کرکے لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکا۔

إِنَّهُمْ سَاءَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (۲)

بیشک برا ہے وہ کام جو یہ کر رہے ہیں۔‏

ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا فَطُبِعَ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَفْقَهُونَ(۳)

یہ سب اس لئے ہے کہ یہ ایمان لا کر پھر کافر ہوگئے پس ان کے دلوں پر مہر کر دی گئی ہے۔ اب یہ نہیں  سمجھتے۔

اس سے معلوم ہوا کہ منافقین بھی صریح کافر ہیں۔

وَإِذَا رَأَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ أَجْسَامُهُمْ ۖ

جب آپ انہیں دیکھ لیں تو ان کے جسم آپ کو خوشنما معلوم ہوں ۔

یعنی ان کے حسن و جمال اور رونق و شادابی کی وجہ سے۔

وَإِنْ يَقُولُوا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْ ۖ

یہ جب باتیں کرنے لگیں تو آپ ان کی باتوں پر (اپنا) کان لگائیں

یعنی زبان کی فصاحت و بلاغت کی وجہ سے۔

كَأَنَّهُمْ خُشُبٌ مُسَنَّدَةٌ ۖ

گویا کہ یہ لکڑیاں ہیں اور دیوار کے سہارے لگائی ہوئی  ہیں۔

یعنی اپنی درازئی قد اور حسن ورعنائی، عدم فہم ور قلت خیر میں ایسے ہیں گویا کہ دیوار پر لگائی ہوئی لکڑیاں ہیں جو دیکھنے والوں کو تو بھلی لگتی ہے لیکن کسی کو فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔

یا یہ مبتدا محذوف کی خبر ہے اور مطلب ہے کہ یہ رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں اس طرح بیٹھتے ہیں جیسے دیوار کے ساتھ لگی ہوئی لکڑیاں ہیں جو کسی بات کو سمجھتی ہیں نہ جانتی ہیں۔  (فتح القدیر)

يَحْسَبُونَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ ۚ

ہر سخت آواز کو اپنے خلاف سمجھتے ہیں ۔

یعنی بزدل ایسے ہیں کہ کوئی زوردار آواز سن لیں تو سمجھتے ہیں کہ ہم پر کوئی آفت نازل ہوگئی یا گھبرا اُٹھتے ہیں کہ ہمارے خلاف کسی کاروائی کا آغاز تونہیں ہو رہا۔ جیسے چور اور خا ئن کا دل اندر سے دھک دھک کر رہا ہوتا ہے۔

هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ ۚ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ ۖ أَنَّى يُؤْفَكُونَ (۴)

یہی حقیقی دشمن ہیں ان سے بچو اللہ انہیں غارت کرے کہاں سے پھرے جاتے ہیں۔‏

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا يَسْتَغْفِرْ لَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ لَوَّوْا رُءُوسَهُمْ

اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ تمہارے لئے اللہ کے رسول استغفار کریں تو اپنے سر مٹکاتے ہیں

یعنی استغفار سے اعراض کرتے ہوئے اپنے سروں کو موڑ لیتے ہیں۔

وَرَأَيْتَهُمْ يَصُدُّونَ وَهُمْ مُسْتَكْبِرُونَ(۵)

اور آپ دیکھیں گے کہ وہ تکبر کرتے ہوئے رک جاتے ہیں ۔‏

یعنی کہنے والے کی بات سے منہ موڑ لیں گے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اعراض کرلیں گے۔

سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ أَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ لَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ ۚ

- اپنے نفاق پر اصرار اور کفر پر قائم رہنے کی وجہ سے وہ ایسے مقام پر پہنچ گئے جہاں استغفار اور عدم استغفار ان کے حق میں برابر ہے۔

- اگر اسی حالت میں نفاق میں مر گئے۔ ہاں اگر وہ زندگی میں کفر و نفاق سے تائب ہوجائیں تو بات اور ہے، پھر ان کی مغفرت ممکن ہے۔

إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ(۶)

بیشک اللہ تعالیٰ (ایسے) نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا،‏

هُمُ الَّذِينَ يَقُولُونَ لَا تُنْفِقُوا عَلَى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّى يَنْفَضُّوا ۗ

یہی وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ جو لوگ رسول اللہ کے پاس ہیں ان پر کچھ خرچ نہ کرو یہاں تک کہ وہ ادھر ادھر ہو جائیں

وَلِلَّهِ خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَفْقَهُونَ(۷)

اور آسمان و زمین کے خزانے اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں لیکن یہ منافق بےسمجھ ہیں ۔‏

- مطلب یہ ہے کہ مہاجرین کا رازق اللہ تعالیٰ ہے اس لیے کہ رزق کے خزانے اسی کے پاس ہیں‘ وہ جس کو جتنا چاہے دے اور جس سے چاہے روک لے۔

- منافق اس حقیقت کو نہیں جانتے‘ اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ انصار اگر مہاجرین کی طرف دست تعاون دراز نہ کریں تو وہ بھوکے مر جائیں گے۔

يَقُولُونَ لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ ۚ

یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم اب لوٹ کر مدینے جائیں گے تو عزت والا وہاں سے ذلت والے کو نکال دے گا

اس کا کہنے والا رئیس المنافق عبد اللہ بن ابی تھا، عزت والے سے اس کی مراد تھی، وہ خود اور اس کے رفقاء اور ذلت والے سے (نعوذ باللہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمان۔

وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ

سنو! عزت تو صرف اللہ تعالیٰ کے لئے اور اس کے رسول کے لئے اور ایمانداروں کے لئے ہے

یعنی عزت اور غلبہ صرف ایک اللہ کے لیے ہے اور پھر وہ اپنی طرف سے جس کو چاہے عزت وغلبہ عطا فرمادے۔

چنانچہ وہ اپنے رسولوں اور ان پر ایمان لانے والوں کو عزت اور سرفرازیاں عطا فرماتا ہے نہ کہ ان کو جو اس کے نافرماں ہوں۔ یہ منافقین کے قول کی تردید فرما ئی کہ عزتوں کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے اور معزز بھی وہی ہے جسے وہ معزز سمجھے‘ نہ کہ وہ جو اپنے آپ کو معزز یا اہل دنیا جس کو معزز سمجئیں اور اللہ کے ہاں معزز صرف اور صرف اہل ایمان ہوں گے‘ کافر اور اہل نفاق نہیں۔

وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ(۸)

لیکن یہ منافق جانتے نہیں۔

اس لیے ایسے کام نہیں کرتے جو ان کے لیے مفید ہیں اور ان چیزوں سے نہیں بچتے جو اس کے لیے نقصان دہ ہیں۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ ۚ

اے مسلمانو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کردیں

یعنی مال اور اولاد کی محبت تم پر غالب آجائے کہ تم اللہ کے بتلائے ہوئے احکام و فرائض سے غافل ہو جاؤ اور اللہ کی قائم کردہ حلال وحرام کی حدوں کی پروا نہ کرو۔

وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ(۹)

اور جو ایسا کریں وہ بڑے ہی زیاں کار لوگ ہیں۔‏

وَأَنْفِقُوا مِنْ مَا رَزَقْنَاكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَيَقُولَ

اور جو کچھ ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے (ہماری راہ میں) اس سے پہلے خرچ کرو  کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے تو کہنے لگے

خرچ کرنے سے مراد زکوٰۃ کی ادائیگی اور دیگر امور خیر میں خرچ کرنا ہے۔

رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِي إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُنْ مِنَ الصَّالِحِينَ(۱۰)

اے میرے پروردگار مجھے تو تھوڑی دیر کی مہلت کیوں نہیں دیتا؟ کہ میں صدقہ کروں اور نیک لوگوں میں ہو جاؤں۔‏

اس سے معلوم ہوا کہ زکوٰۃ کی ادائیگی اور انفاق فی سبیل اللہ میں اور اسی طرح اگر حج کی استطاعت ہو تو اس کی ادائیگی میں قطعاً تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ اس لیے کہ موت کا کوئی پتہ نہیں کس وقت آجائے؟ اور یہ فرائض اس کے ذمے رہ جائیں۔

وَلَنْ يُؤَخِّرَ اللَّهُ نَفْسًا إِذَا جَاءَ أَجَلُهَا ۚ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ(۱۱)

اور جب کسی کا مقررہ وقت آجاتا ہے پھر اسے اللہ تعالیٰ ہرگز مہلت نہیں دیتا

 اور جو کچھ تم کرتے ہو اس سے اللہ تعالیٰ بخوبی باخبر ہے۔‏

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter