Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Saff

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

Noting by Maulana Salahuddin Yusuf

For Better Viewing Download Arabic / Urdu Fonts

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ 

زمین و آسمان کی ہر ہرچیز اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتی ہے اور وہی غالب حکمت والا ہے۔‏ (۱)

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ 

اے ایمان والو! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں‏ (۲)

اسکی شان نزول میں آتا ہے کہ کچھ صحابہ ؓ آپس میں بیٹھے کہہ رہے تھے کہ اللہ کو جو سب سے زیادہ پسند یدہ عمل ہیں، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھنے چاہئیں تاکہ ان پر عمل کیا جاسکے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاکر پوچھنے کی جرأت کوئی نہیں کر رہا تھا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی ۔ (مسند احمد)

یہاں ندا اگرچہ عام ہے لیکن اصل خطاب ان مؤمنوں سے ہے جو کہہ رہے تھے کہ ہمیں أحب الاعمال کا علم ہو جائے تو ہم انہیں کریں‘ لیکن جب انہیں بعض پسندیدہ عمل بتلائے گئے تو سست ہو گئے۔ اس لیے ایسے لوگوں کو تنبیح کی جا رہی ہے کہ خیر کی جو  باتیں کہتے ہو‘کرتے کیوں نہیں ہو‘ جو بات منہ سے نکالتے ہو‘ اسے پورا کیوں نہیں کرتے؟ جو زبان سے کہتے ہو‘ اس کی پاسداری کیوں نہیں کرتے؟

كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ 

تم جو کرتے نہیں اس کا کہنا اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے۔  (۳)

یہ اسی کی مزید تاکید ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں پر سخت ناراض ہوتا ہے۔

إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَرْصُوصٌ

بیشک اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں صف بستہ جہاد کرتے ہیں گویا سیسہ پلائی ہوئی عمارت ہیں ۔‏ (۴)

یہ جہاد کا ایک انتہائی نیک عمل بتلایا گیا جو اللہ کو بہت محبوب ہے۔

وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ لِمَ تُؤْذُونَنِي وَقَدْ تَعْلَمُونَ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ ۖ

اور (یاد کرو) جبکہ موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم کے لوگو!

تم مجھے کیوں ستا رہے ہو حالانکہ تمہیں (بخوبی) معلوم ہے کہ میں تمہاری جانب اللہ کا رسول ہوں   

یہ جانتے ہوئے بھی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ کے سچے رسول ہیں، بنی اسرائیل انہیں اپنی زبان سے ایذا پہنچاتے تھے، حتٰی کہ بعض جسمانی عیوب ان کی طرف منسوب کرتے تھے، حالانکہ وہ بیماری ان کے اندر نہیں تھی۔

فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ ۚ

پس جب وہ لوگ ٹیڑھے ہی رہے تو اللہ نے انکے دلوں کو (اور) ٹیڑھا کر دیا   

یعنی علم کے باوجود حق سے اعراض کیا اور حق کے مقابلے میں باطل کو خیر کے مقابلے میں شر کو اور ایمان کے مقابلے میں کفر کو اختیار کیا، تو اللہ تعالیٰ نے اس کی سزا کے طور پر ان کے دلوں کو مستقل طور پر ہدایت سے پھیر دیا۔ کیونکہ یہی سنت اللہ چلی آرہی ہے۔

 کفر وضلالات پر دوام واستمرار ہی دلوں پر مہر لگنے کا باعث ہوتا ہے پھر فسق کفر اور ظلم اس کی طبیعت اور عادت بن جاتی ہے جس کو کوئی بدلنے پر قادر نہیں ہے۔ اس لیے آگے فرمایا اللہ تعالیٰ نافرمانوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو اپنی سنت کے مطابق گمراہ کیا ہوتا ہے اب کون اسے ہدایت دے سکتا ہے جسے اس طریقے سے اللہ نے گمراہ کیا ہو۔

وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ

اور اللہ تعالیٰ نافرمان قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔‏ (۵)

وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ

اور جب مریم کے بیٹے عیسیٰ نے کہا اے میری قوم، بنی اسرائیل!

میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں مجھ سے پہلے کی کتاب تورات کی میں تصدیق کرنے والا ہوں ۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قصہ اس لیے بیان فرمایا کہ بنی اسرائیل نے جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نافرمانی کی، اسی طرح انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بھی انکار کیا، اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی جا رہی ہے کہ یہ یہود آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ساتھ اس طرح نہیں کر رہے ہیں، بلکہ ان کی تو ساری تاریخ ہی انبیاء علیہم السلام کی تکذیب سے بھری پڑی ہے۔

تورات کی تصدیق کا مطلب یہ ہے کہ میں جو دعوت دے رہا ہوں، وہ وہی ہے جو تورات کی بھی دعوت ہے۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ جو پیغمبر مجھ سے پہلے تورات لے کر آئے اور اب میں انجیل لے کر آیا ہوں، ہم دونوں کا اصل ماخذ ایک ہی ہے۔ اس لیے جس طرح تم موسیٰ وہارون اور داؤد وسلیمان علیہم السلام پر ایمان لائے مجھ پر بھی ایمان لاؤ، اس لیے کہ میں تورات کی تصدیق کر رہا ہوں نہ کہ اس کی تردید و تکذیب۔

وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ ۖ

اور اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی میں تمہیں خوشخبری سنانے والا ہوں جن کا نام احمد ہے ۔

یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے بعد آنے والے آخری پیغمبر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشخبری سنائی چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

انا دعوۃ ابی ابراہیم وبشسارۃ عیسی

میں اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت کا مصداق ہوں۔

 احمد یہ فاعل سے اگر مبالغے کا صیغہ ہو تو معنی ہوں گے دوسرے تمام لوگوں سے اللہ کی زیادہ حمد کرنے والا۔

 اور اگر یہ مفعول سے ہوں تو معنی ہوں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبیوں اور کمالات کی وجہ سے جتنی تعریف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کی گئی اتنی کسی کی بھی نہیں کی گئی۔ (فتح القدیر)

فَلَمَّا جَاءَهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا هَذَا سِحْرٌ مُبِينٌ 

پھر جب وہ انکے پاس کھلی دلیلیں لائے تو کہنے لگے، یہ تو کھلا جادو ہے ۔‏ (۶)

یعنی عیسیٰ علیہ السلام کے پیش کردہ معجزات کو جادو سے تعبیر کیا گیا، جس طرح گذشتہ قومیں بھی اپنے پیغمبروں کو اسی طرح کہتی رہیں۔

 بعض نے اس سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم لئے ہیں جیسا کہ کفار مکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے تھے۔

وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُوَ يُدْعَى إِلَى الْإِسْلَامِ ۚ

اس شخص سے زیادہ ظالم اور کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھے حالانکہ وہ اسلام کی طرف بلایا جاتا ہے

یعنی اللہ کی اولاد قرار دے، یا جو جانور اس نے حرام قرار نہیں دیئے ان کو حرام باور کرائے۔

وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ

اور اللہ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں کرتا۔‏ (۷)

جو تمام دینوں میں اشرف اور اعلیٰ ہے، اس لئے جو شخص ایسا ہو، اس کو کب یہ زیب دیتا ہے یہ وہ کسی پر بھی جھوٹ گھڑے، چہ جائیکہ اللہ پر جھوٹ باندھے؟

يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ

وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ سے بجھا دیں   

نور سے مراد قرآن، یا اسلام یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے، یا دلائل و براہین ہیں

 ' منہ سے بجھا دیں ' کا مطلب ہے، وہ طعن کی وہ باتیں ہیں جو ان کے مونہوں سے نکلتی ہیں۔

وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ 

اور اللہ اپنے نور کو کمال تک پہچانے والا ہے گو کافر برا مانیں۔‏ (۸)

یعنی اس کو آفاق میں پھیلانے والا اور دوسرے تمام دینوں پر غالب کرنے والا ہے۔ دلائل کے لحاظ سے، یا مادی غلبے کے لحاظ سے یا دونوں لحاظ سے۔

هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ

وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا تاکہ اسے اور تمام مذاہب پر غالب کر دے

اگرچہ مشرکین ناخوش ہوں۔ (۹)

- یہ گذشتہ بات ہی کی تاکید ہے، اس کی اہمیت کے پیش نظر اسے پھر دہرایا گیا ہے۔

- تاہم یہ لامحالہ ہو کر رہے گا۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنْجِيكُمْ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ 

اے ایمان والو! کیا میں تمہیں وہ تجارت بتلا دوں جو تمہیں دردناک عذاب سے بچا لے۔‏ (۱۰)

اس عمل (یعنی ایمان اور جہاد) کو تجارت سے تعبیر کیا، اس لئے کہ اس میں بھی انہیں تجارت کی طرح ہی نفع ہوگا وہ نفع کیا ہے؟ جنت میں داخلہ اور جہنم سے نجات۔ اس سے بڑا نفع اور کیا ہوگا۔ اور وہ نفع کیا ہے اس بات کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا :

إِنَّ ٱللَّهَ ٱشۡتَرَىٰ مِنَ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ أَنفُسَهُمۡ وَأَمۡوَٲلَهُم بِأَنَّ لَهُمُ ٱلۡجَنَّةَ‌ۚ

اللہ نے مؤمنوں سے ان کی جانوں اور مالوں کا سودا جنت کے بدلے میں کرلیا ہے۔(۹:۱۱۱)

تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ ۚ

اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جانوں سے جہاد کرو،

ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ 

یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم میں ہو۔‏ (۱۱)

يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَيُدْخِلْكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ ۚ

اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ معاف فرما دے گا اور تمہیں ان جنتوں میں پہنچائے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہونگی

اور صاف ستھرے گھروں میں جو جنت عدن میں ہوں گے،

ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ 

یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔‏ (۱۲)

وَأُخْرَى تُحِبُّونَهَا ۖ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ ۗ

اور تمہیں ایک دوسری (نعمت) بھی دے گا جسے تم چاہتے ہو وہ اللہ کی مدد اور جلد فتح یابی ہے،   

یعنی جب تم اس کی راہ میں لڑو گے اور اس کے دین کی مدد کروگے، تو وہ بھی تمہیں فتح و نصرت سے نوازے گا۔

إِن تَنصُرُواْ ٱللَّهَ يَنصُرۡكُمۡ وَيُثَبِّتۡ أَقۡدَامَكُمۡ  (۴۷:۷)

وَلَيَنصُرَنَّ ٱللَّهُ مَن يَنصُرُهُ ۥۤ‌ۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَقَوِىٌّ عَزِيزٌ  (۲۲:۴۰)

آخرت کی نعمتوں کے مقابلے میں اسے فتح قریب قرار دیا اور اس سے مراد فتح مکہ ہے اور بعض نے فارس و روم کی عظیم الشان سلطنتوں پر مسلمانوں کے غلبے کو اس کا مصداق قرار دیا ہے۔ جو خلافت راشدہ میں مسلمانوں کو حاصل ہوا۔

وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ

ایمانداروں کو خوشخبری دے دو ۔ (۱۳)

جنت کی بھی، مرنے کے بعد اور فتح و نصرت کی بھی، دنیا میں، بشرطیکہ اہل ایمان ایمان کے تقاضے پورے کرتے رہیں

وَأَنتُمُ ٱلۡأَعۡلَوۡنَ إِن كُنتُم مُّؤۡمِنِينَ (۳:۱۳۹)

آگے اللہ تعالیٰ مؤمنوں کو اپنے دین کی نصرت کی مزید ترغیب دے رہا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا أَنْصَارَ اللَّهِ

اے ایمان والو! تم اللہ تعالیٰ کے مددگار بن جاؤ   

تمام حالتوں میں، اپنے اقوال وافعال کے ذریعے سے بھی اور جان ومال کے ذریعے سے بھی۔ جب بھی جس وقت بھی اور جس حالت میں بھی تمہیں اللہ اور اس کا رسول اپنے دین کے لیے پکارے تم فورا ان کی پکار پر لبیک کہو، جس طرح حواریین نے عیسیٰ علیہ السلام کی پکار پر لبیک کہا۔

كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيِّينَ مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللَّهِ ۖ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ ۖ

جس طرح حضرت مریم کے بیٹے حضرت عیسیٰ نے حواریوں سے فرمایا کہ کون ہے جو اللہ کی راہ میں میرا مددگار بنے؟

حواریوں نے کہا ہم اللہ کی راہ میں مددگار ہیں

یعنی ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دین کی دعوت و تبلیغ میں مددگار ہیں جس کی نشرو اشاعت کا حکم اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا ہے۔اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایام حج میں فرماتے ' کون ہے جو مجھے پناہ دے تاکہ میں لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچا سکوں، اس لئے کہ قریش مجھے فریضہ رسالت ادا نہیں کرنے دیتے ' حتٰی کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پکار پر مدینے کے اوس اور خزرج نے لبیک کہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر انہوں نے بیعت کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کا وعدہ کیا۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ پیشکش کی کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے تو وعدے کے مطابق انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور آپ کے تمام ساتھیوں کی مدد کی حتٰی کہ اللہ اور اس کے رسول نے ان کا نام ہی انصار رکھ دیا اور اب یہ ان کا علم بن گیا۔ رضی اللہ عنہم وارضاھم۔

فَآمَنَتْ طَائِفَةٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَكَفَرَتْ طَائِفَةٌ ۖ

 پس بنی اسرائیل میں سے ایک جماعت تو ایمان لائی اور ایک جماعت نے کفر کیا   

یہ یہود تھے جنہوں نے نبوت عیسیٰ علیہ السلام ہی کا انکارنہیں کیا  بلکہ ان پر اور ان کی ماں پر بہتان تراشی کی

بعض کہتے ہیں کہ یہ اختلاف و تفرق اس وقت ہوا جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا گیا۔

 ایک نے کہا عیسیٰ علیہ السلام کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے ہی زمین پر ظہور فرمایا تھا، اب وہ پھر آسمان پر چلا گیا، یہ فرقہ یعقوبیہ کہلاتا ہے

 نسطوریہ فرقے نے کہا وہ اب اللہ کے بیٹے تھے، باپ نے بیٹے کو آسمان پر بلا لیا ہے،

تیسرے فرقے نے کہا وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول تھے، یہی فرقہ صحیح تھا۔

فَأَيَّدْنَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَى عَدُوِّهِمْ فَأَصْبَحُوا ظَاهِرِينَ 

تو ہم نے مؤمنوں کی ان کے دشمنوں کے مقابلہ میں مدد کی پس وہ غالب آگئے ۔ (۱۴)

 یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرما کر ہم نے اسی آخری جماعت کی دوسرے باطل گروہوں کے مقابلے میں مدد کی چنانچہ یہ صحیح عقیدے کی حامل جماعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئی اور یوں ہم نے ان کو دلائل کے لحاظ سے بھی سب کافروں پر غلبہ عطا فرمایا اور قوت وسلطنت کے اعتبار سے بھی۔ اس غلبے کا آخری ظہور اس وقت پھر ہوگا۔ جب قیامت کے قریب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دوبارہ نزول ہوگاجیسا کہ اس نزول اور غلبے کی صراحت احادیث صحیحہ میں تواتر کے ساتھ منقول ہے۔



© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Enail: cmaj37@gmail.com

Visits wef Sep 2024

visitor counter widget