Tafsir Ibn Kathir (Urdu)Surah Al HadidTranslated by Muhammad Sahib Juna GarhiNoting by Maulana Salahuddin Yusuf |
شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے
سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ آسمانوں اور زمین میں جو ہے (سب) اللہ کی تسبیح کر رہے ہیں وہ زبردست با حکمت ہے۔ (١) یہ تسبیح زبان حال سے نہیں، بلکہ زبان کی بات چیت سے ہے اسی لئے فرمایا گیا : وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ تم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے (۱۷:۴۴) حضرت داؤد علیہ السلام کے بارے میں آتا ہے کہ ان کے ساتھ پہاڑ بھی تسبیح کرتے تھے (۲۱:۷۹)۔ اگر یہ تسبیح حال یا تسبیح دلالت ہوتی تو حضرت داؤد علیہ السلام کے ساتھ اس کو خاص کرنے کی ضرورت ہی نہ ہوتی۔ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ اور زمین کی بادشاہت اسی کی ہے اس لیے وہ ان میں جس طرح چاہتا ہے تصرف فرماتا ہے اس کے سوا ان میں کسی کا حکم اور تصرف نہیں چلتا ، یا مطلب ہے کہ بارش‘ نباتات اور روزیوں کے سارے خزانے اسی کی مِلک میں ہیں۔ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وہی زندگی دیتا ہے اور موت بھی وہ ہرچیز پر قادر ہے۔ (۲) هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ وہی پہلے ہے اور وہی پیچھے، وہی ظاہر ہے اور وہی مخفی، وہ ہرچیز کو بخوبی جاننے والا ہے۔ (۲) وہی اول ہے یعنی اس سے پہلے کچھ نہ تھا، وہی آخر ہے، اس کے بعد کوئی چیز نہ ہوگی، وہی ظاہر ہے۔ یعنی وہ سب پر غالب ہے، اس پر کوئی غالب نہیں، وہی باطن ہے، یعنی باطن کی ساری باتوں کو صرف وہی جانتا ہے۔ یا لوگوں نظروں اور عقلوں سے مخفی ہے۔ فتح القدیر هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ ۚ وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر مستوی ہوگیا۔ اس مفہوم کی آیات سورہ اعراف، ٥٤، سورہ یونس،۳، اور الم السجدہ،٤ ا میں گزر چکی ہیں، ان کے حواشی ملاحظہ فرمالیے جائیں۔ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنْزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا ۖ اور وہ خوب جانتا ہے اس چیز کو جو زمین میں جائے (۱) اور جو اس سے نکلے (۲) اور جو آسماں سے نیچے آئے (۳) اور جو کچھ چڑھ کر اس میں جائے (۴) ۱۔ یعنی زمین میں بارش کے جو قطرے اور غلہ جات و میوہ جات کے جو بیج داخل ہوتے ہیں کی کیفیت کو وہ جانتا ہے۔ ۲۔ جو درخت، چاہے وہ پھلوں کے ہوں یا غلوں کے یا زینت اور آرائش کے اور خوشبو والے پھولوں یہ جتنے بھی اور جیسے بھی باہر نکلتے ہیں۔ سب اللہ کے علم میں ہیں۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا : وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ ۚ ... وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ اور اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہیں تمام مخفی اشیاء کے خزانے، ان کو کوئی نہیں جانتا بجز اللہ کے، اور وہ تمام چیزوں کو جانتا ہے جو کچھ خشکی میں اور جو کچھ دریاؤں میں ہیں۔ کوئی پتہ نہیں گرتا مگر وہ اسکو بھی جانتا ہے، اور کوئی دانہ کوئی زمین کے تاریک حصوں میں نہیں پڑتا اور نہ کوئی تر اور نہ کوئی خشک چیز گرتی ہے، مگر یہ سب کتاب مبین میں ہیں۔ (۵:۵۹) ۳۔ بارش، اولے، برف تقدیر اور وہ احکام، جو فرشتے لے کر اترتے ہیں۔ ۴۔ فرشتے انسانوں کے جو عمل لے کر چڑھتے ہیں جس طرح حدیث میں آتا ہے کہ اللہ کی طرف رات کے عمل دن سے پہلے اور دن کے عمل رات سے پہلے چڑھتے ہیں۔ صحیح مسلم وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنْتُمْ ۚ اور جہاں کہیں تم ہو وہ تمہارے ساتھ ہے یعنی تم خشکی میں ہو یا تری میں، رات ہو یا دن، گھروں میں ہو یا صحراؤں میں، ہر جگہ ہر وقت وہ اپنے علم وبصر کے لحاظ سے تمہارے ساتھ ہے یعنی تمہارے ایک ایک عمل کو دیکھتا ہے، تمہاری ایک ایک بات کو جانتا اور سنتا ہے۔ یہی مضمون سورہ ہود، ۳۔ سورہ رعد۱۰ اور دیگر آیات میں بھی بیان کیا گیا ہے ۔ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ اور جو تم کر رہے ہو وہ اللہ دیکھ رہا ہے۔ (۴) لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ آسمانوں کی اور زمین کی بادشاہی اسی کی ہے اور تمام کام اس کی طرف لوٹائے جاتے ہیں۔ (۵) يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ ۚ وہی رات کو دن میں لے جاتا ہے اور وہی دن کو رات میں داخل کر دیتا ہے یعنی تمام چیزوں کا مالک وہی ہے‘ وہ یس طرح چاہتا ہے اس میں تصرف فرماتا ہے‘ اس کے حکم و تصرف سے کبھی رات لمبی‘ دن چھوٹااور کبھی اس کے برعکس دن لمبا اور رات چھوٹی ہو جاتی ہے اور کبھی دونوں برابر۔ اس طرح کبھی سردی‘ کبھی گرمی‘ کبھی بہار اور کبھی خزاں، موسموں کا تغیر و تبدل بھی اسی کے حکم و مشیت سے ہوتا ہے۔ وَهُوَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ اور سینوں کے بھید کا پورا عالم ہے۔ (۶) آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَأَنْفِقُوا مِمَّا جَعَلَكُمْ مُسْتَخْلَفِينَ فِيهِ ۖ اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ اور اس مال میں سے خرچ کرو جس میں اللہ نے تمہیں (دوسروں کا) جانشین بنایا ہے یعنی یہ مال کبھی کسی دوسرے کے پاس تھا۔ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تمہارے پاس بھی یہ مال نہیں رہے گا‘ دوسرے اس کے وارث بنیں گے‘ اگر تم نے اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہ کیا تو بعد میں اسکے وارث بننے والے اسے اللہ کی راہ میں خرچ کر کے تم سے زیادہ سعادت حاصل کر سکتے ہیں اور اگر وہ اسے نافرمانی میں خرچ کریں گے تو تم بھی معاونت کے جرم میں ماخوذ ہو سکتے ہو۔ ابن کثیر حدیث میں آتا ہے: انسان کہتا ہے میرا مال‘ میرا مال‘ حالانکہ تیرا مال‘ ایک تو وہ ہے جو تو نے کھا پی کے فنا کر دیا‘ دوسرا وہ ہے جسے پہن کر بوسیدہ کر دیا اور تیسرا وہ ہے جو اللہ کی راہ میں خرچ کر کے آخرت کے لیے ذخیرہ کر لیا۔ اس کے علاوہ جو کچھ ہےوہ سب دوسرے لوگوں کے حصے آ ئے گا۔ صحیح مسلم فَالَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَأَنْفَقُوا لَهُمْ أَجْرٌ كَبِيرٌ پس تم میں سے جو ایمان لائیں اور خیرات کریں انہیں بہت بڑا ثواب ملے گا۔ (۷) وَمَا لَكُمْ لَا تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ ۙ وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ لِتُؤْمِنُوا بِرَبِّكُمْ وَقَدْ أَخَذَ مِيثَاقَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ تم اللہ پر ایمان کیوں نہیں لاتے؟ حالانکہ خود رسول تمہیں اپنے رب پر ایمان لانے کی دعوت دے رہا ہے اور اگر تم مؤمن ہو تو وہ تم سے مضبوط عہد و پیمان بھی لے چکا ہے ۔ (۸) ابن کثیر نے اخذ کا فاعل الرسول کو بنایا ہے اور مراد وہ بیعت لی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام سے لیتے تھے کہ خوشی اور ناخوشی ہر حالت میں اطاعت کرنی ہے اور امام ابن جریر کے نزدیک اس کا فاعل اللہ ہے اور مراد وہ عہد ہے جو اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں سے اس وقت لیا تھا جب انہیں آدم علیہ السلام کی پشت سے نکالا تھا، جو عہد الست کہلاتا ہے، جس کا ذکر سورہ الاعراف، ۱۷۲میں ہے۔ هُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ عَلَى عَبْدِهِ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ لِيُخْرِجَكُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۚ وَإِنَّ اللَّهَ بِكُمْ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ وہ (اللہ) ہی ہے جو اپنے بندے پر واضح آیتیں اتارتا ہے تاکہ وہ تمہیں اندھیروں سے نور کی طرف لے جائے یقیناً اللہ تعالیٰ تم پر نرمی کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔ (۹) وَمَا لَكُمْ أَلَّا تُنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلِلَّهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ تمہیں کیا ہو گیا ہے جو تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے؟ دراصل آسمانوں اور زمینوں کی میراث کا مالک (تنہا) اللہ ہی ہے لَا يَسْتَوِي مِنْكُمْ مَنْ أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ ۚ تم میں سے جن لوگوں نے فتح سے پہلے فی سبیل اللہ دیا ہے اور قتال کیا ہے وہ (دوسروں کے) برابر نہیں فتح سے مراد اکثر مفسرین کے نزدیک فتح مکہ ہے۔ بعض نے صلح حدیبیہ کو فتح مبین کا مصداق سمجھ کر اسے مراد لیا ہے۔ بہر حال صلح حدیبیہ یا فتح مکہ سے قبل مسلمان تعداد اور قوت کے لحاظ سے بھی کم تر تھے اور مسلمانوں کی مالی حالت بھی بہت کمزور تھی۔ ان حالات میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اور جہاد میں حصہ لینا، دونوں کام نہایت مشکل اور بڑے دل گردے کا کام تھا، جب کہ فتح مکہ کے بعد یہ صورت حال بدل گئی۔ مسلمان قوت وتعداد میں بھی بڑھتے چلے گئے اور انکی مالی حالت بھی پہلے سے کہیں زیادہ بہتر ہوگئی۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے دونوں ادوار کے مسلمانوں کی بابت فرمایا کہ یہ اجر میں برابر نہیں ہوسکتے۔ أُولَئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِنَ الَّذِينَ أَنْفَقُوا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوا ۚ بلکہ ان کے بہت بڑے درجے ہیں جنہوں نے فتح کے بعد خیراتیں دیں اور جہاد کیے، کیونکہ پہلوں کا انفاق اور جہاد، دونوں کام نہایت کٹھن حالات میں ہوئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اہل فضل و عزم کو دیگر لوگوں کے مقابلے میں مقدم رکھنا چاہیے۔ اسی لیے اہل سنت کے نزدیک شرف وفضل میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سب سے مقدم ہیں، کیونکہ مؤمن اول بھی وہی ہیں اور منفق اول اور مجاہد اول بھی وہی۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو اپنی زندگی اور موجودگی میں نماز کے لیے آگے کیا، اور اسی بنیاد پر مؤمنوں (صحابہ کرام) نے انہیں استحقاق خلافت میں مقدم رکھا۔ رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ۔ وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى ۚ ہاں بھلائی کا وعدہ تو اللہ تعالیٰ کا ان سب سے ہے اس میں وضاحت فرما دی ہے کہ صحابہ کرام کے درمیان شرف و فضل میں فرق تو ضرور ہے لیکن فرق درجات کا مطلب یہ نہیں کہ بعد میں مسلمان ہونے والے صحابہ کرام ایمان اور اخلاق کے اعتبار سے بالکل ہی گئے گزرے تھے، جیسا کہ بعض حضرات، حضرت معاویہ ؓان کے والد حضرت ابوسفیانؓ اور دیگر بعض ایسے ہی جلیل القدر صحابہ کے بارے میں ہرزہ سرائی یا انہیں طلقاء کہہ کر انکی تنقیص و اہانت کرتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں فرمایا ہے : لا تسبوا اصحابی میرے صحابہ پر سب و شتم نہ کرو، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھوں میں میری جان ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ جتنا سونا بھی اللہ کی راہ میں خرچ کردے تو وہ میرے صحابی کے خرچ کیے ہوئے ایک مد بلکہ نصف مد کے بھی برابر نہیں۔ صحیح بخاری وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ جو کچھ تم کر رہے ہو اس سے اللہ خبردار ہے۔ (۱۰) مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ وَلَهُ أَجْرٌ كَرِيمٌ کون ہے جو اللہ تعالیٰ کو اچھی طرح قرض دے پھر اللہ تعالیٰ اسے اس کے لئے بڑھاتا چلا جائے اور اس کے لئے پسندیدہ اجر ثابت ہو جائے۔ (۱۱) اللہ کو قرض حسن دینے کا مطلب ہے، اللہ کی راہ میں صدقہ و خیرات کرنا، یہ مال، جو انسان اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے، اللہ ہی کا دیا ہوا ہے، اس کے باوجود اسے قرض قرار دینا، یہ اللہ کا فضل و احسان ہے کہ وہ اس انفاق پر اسی طرح اجر دے گا جس طرح قرض کی ادائیگی ضروری ہوتی ہے۔ يَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ يَسْعَى نُورُهُمْ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ (قیامت کے) دن تو دیکھے گا کہ ایماندار مردوں اور عورتوں کا نور انکے آگے آگے اور ان کے دائیں دوڑ رہا ہوگا یہ عرصہ محشر میں پل صراط میں ہوگا، یہ نور ان کے ایمان اور عمل صالح کا صلہ ہوگا، جس کی روشنی میں وہ جنت کا راستہ آسانی سے طے کرلیں گے۔ امام ابن کثیر اور امام ابن جریر نے وَبِأَيْمَانِهِمْ کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ ان کے دائیں ہاتھوں میں ان کے اعمال نامے ہوں گے۔ بُشْرَاكُمُ الْيَوْمَ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ آج تمہیں ان جنتوں کی خوشخبری ہے جنکے نیچے نہریں جاری ہیں جن میں ہمیشہ کی رہائش ہے۔ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ یہ ہے بڑی کامیابی (۱۲) یہ وہ فرشتے کہیں گے جو ان کے استقبال اور پیشوائی کے لیے وہاں ہوں گے۔ يَوْمَ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ لِلَّذِينَ آمَنُوا انْظُرُونَا نَقْتَبِسْ مِنْ نُورِكُمْ اس دن منافق مرد و عورت ایمانداروں سے کہیں گے کہ ہمارا انتظار تو کرو کہ ہم بھی تمہارے نور سے کچھ روشنی حاصل کرلیں۔ یہ منافقین کچھ فاصلے تک اہل ایمان کے ساتھ ان کی روشنی میں چلیں گے، پھر اللہ تعالیٰ منافقین پر اندھیرہ مسلط فرما دے گا، اس وقت وہ اہل ایمان سے یہ کہیں گے۔ قِيلَ ارْجِعُوا وَرَاءَكُمْ فَالْتَمِسُوا نُورًا جواب دیا جائے گا کہ تم اپنے پیچھے لوٹ جاؤ اور روشنی تلاش کرو اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں جاکر اسی طرح ایمان اور عمل صالح کی پونجی لے کر آؤ، جس طرح ہم لائے ہیں یا مذاق کے طور پر اہل ایمان کہیں گے کہ پیچھے جہاں سے ہم نور لائے تھے وہی جا کر تلاش کرو۔ فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ لَهُ بَابٌ بَاطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظَاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذَابُ پھر ان کے اور ان کے درمیان (۱) ایک دیوار حائل کر دی جائے گی جس میں دروازہ بھی ہوگا اس کے اندرونی حصہ میں تو رحمت ہوگی (۲) اور باہر کی طرف عذاب ہوگا۔(۱۳) ۱۔ یعنی مؤمنین اور منافقین کے درمیان۔ ۲۔ اس سے مراد جنت ہے جس میں اہل ایمان داخل ہوچکے ہوں گے۔ ۳۔ یعنی وہ حصہ ہے جس میں جہنم ہوگی۔ يُنَادُونَهُمْ أَلَمْ نَكُنْ مَعَكُمْ ۖ یہ چلا چلا کر ان سے کہیں گے کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے یعنی دیوار حائل ہونے پر منافقین مسلمانوں سے کہیں گے کہ دنیا میں ہم تمھارے ساتھ نمازیں نہیں پڑھتے تھے اور جہاد وغیرہ میں حصہ نہیں لیتے تھے۔ قَالُوا بَلَى وَلَكِنَّكُمْ فَتَنْتُمْ أَنْفُسَكُمْ وہ کہیں گے ہاں تھے تو سہی لیکن تم نے اپنے آپ کو فتنہ میں پھنسا رکھا تھا تم نے اپنے دلوں میں کفر اور نفاق چھپا رکھا تھا۔ وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ وَغَرَّتْكُمُ الْأَمَانِيُّ اور وہ انتظار میں ہی رہے (۱) اور شک وشبہ کرتے رہے (۲) تمہیں تمہاری فضول تمناؤں نے دھوکے میں ہی رکھا (۳) ۱۔ کہ شاید مسلمان کسی گردش کا شکار ہوجائیں ۲۔ دین کے معاملے میں، اسی لیے قرآن کو مانا نہ دلائل ومعجزات کو۔ ۳۔ جس میں تمہیں شیطان نے مبتلا کیے رکھا۔ حَتَّى جَاءَ أَمْرُ اللَّهِ وَغَرَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ یہاں تک کہ اللہ کا حکم آپہنچا ( ۱) اور تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکے رکھنے والے نے دھوکے میں رکھا۔ (۱۴) ۱۔ یعنی تمہیں موت آگئی، یا مسلمان بالآخر غالب رہے اور تمہاری آرزوں پر پانی پھر گیا۔ ۲۔ یعنی اللہ کے حلم اور اس کے قانون امہال کی وجہ سے تمہیں شیطان نے دھوکے میں ڈالے رکھا۔ فَالْيَوْمَ لَا يُؤْخَذُ مِنْكُمْ فِدْيَةٌ وَلَا مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ الغرض، آج تم سے فدیہ (اور نہ بدلہ) قبول کیا جائے گا اور نہ کافروں سے مَأْوَاكُمُ النَّارُ ۖ هِيَ مَوْلَاكُمْ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ تم (سب) کا ٹھکانا دوزخ ہے وہی تمہاری رفیق ہے اور وہ برا ٹھکانا ہے۔ (۱۵) مولیٰ اسے کہتے ہیں جو کسی کے کاموں کا متولی یعنی ذمے دار بنے گویا اب جہنم ہی اس بات کی ذمہ دار ہے کہ انہیں سخت سے سخت تر عذاب کا مزا چکھائے بعض کہتے ہیں کہ ہمیشہ ساتھ رہنے والے کو بھی مولیٰ کہہ لیتے ہیں یعنی اب جہنم کی آگ ہی ان کی ہمیشہ کی ساتھی اور رفیق ہوگی، بعض کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جہنم کو بھی عقل وشعور عطا فرمائے گا پس وہ کافروں کے خلاف غیظ وغضب کا اظہار کرے گی، یعنی ان کی والی بنے گی اور انہیں عذاب الیم سے دوچار کرے گی۔ أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ کیا اب تک ایمان والوں کے لئے وقت نہیں آیا کہ ان کے دل ذکر الٰہی سے اور جو حق اتر چکا ہے اس سے نرم ہوجائیں خطاب اہل ایمان کو ہے اور مطلب ان کو اللہ کی یاد کی طرف مزید متوجہ اور قرآن کریم سے کسب ہدایت کی تلقین کرنا ہے خشوع کے معنی ہیں دلوں کا نرم ہو کر اللہ کی طرف جھک جانا ۔ حق سے مراد قرآن کریم ہے۔ وَلَا يَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ ۖ اور ان کی طرح نہ ہوجائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی (۱) پھر جب زمانہ دراز گزر گیا تو ان کے دل سخت ہوگئے (۲) ۱۔ جیسے یہود و نصاریٰ ہیں، یعنی تم ان کی طرح نہ ہو جانا۔ ۲۔ چنانچہ انہوں نے اللہ کی کتاب میں تحریف اور تبدیلی کردی اس کے عوض دنیا کا ثمن قلیل حاصل کرنے کو انہوں نے شعار بنا لیا، اس کے احکام کو پس پشت ڈال دیا اللہ کے دین میں لوگوں کی تقلید اختیار کرلی اور ان کو اپنا رب بنا لیا‘ مسلمانوں کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ تم یہ کام مت کرو ورنہ تمہارے دل بھی سخت ہو جائیں گے اور پھر یہی کام جو ان پر لعنت الہٰی کا سبب بنے‘ تمہیں اچھے لگیں گے۔ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ فَاسِقُونَ اور ان میں بہت سے فاسق ہیں۔ (۱۶) یعنی ان کے دل فاسد اور اعمال باطل ہیں۔ دوسرے مقام پر اللہ نے فرمایا: فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً ۖ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ ۙ وَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ ۚ (۵:۱۳) اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِي الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ یقین مانو کہ اللہ ہی زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کر دیتا ہے، ہم نے تو تمہارے لئے اپنی آیتیں بیان کر دیں تاکہ تم سمجھو۔ (۱۷) إِنَّ الْمُصَّدِّقِينَ وَالْمُصَّدِّقَاتِ وَأَقْرَضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضَاعَفُ لَهُمْ وَلَهُمْ أَجْرٌ كَرِيمٌ بیشک صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں اور جو اللہ کو خلوص کے ساتھ قرض دے رہے ہیں۔ انکے لئے یہ بڑھایا جائے گا (۱) اور ان کے لئے پسندیدہ اجر و ثواب ہے۔ (۱۸) ۱۔ یعنی ایک کے بدلے میں کم ازکم دس گنا اور اس سے زیادہ سات سو گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ تک۔ اور یہ زیادتی اخلاص نیت، حاجت وضرورت اور مکان کی بنیاد پر ہو سکتی ہے۔ ۲۔ یعنی جنت اور اس کی نعمتیں، جنکو کبھی زوال اور فنا نہیں۔ وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ ۖ وَالشُّهَدَاءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُورُهُمْ ۖ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں وہی لوگ اپنے رب کے نزدیک صدیق (۱) اور شہید ہیں ان کے لئے ان کا اجر اور ان کا نور ہے، بعض مفسرین نے یہاں وقف کیا ہے۔ اور آگے وَالشُّهَدَاءُ کو الگ جملہ قرار دیا ہے۔ صدیقیت کمال ایمان اورکمال صدق و صفا کا نام ہے۔ حدیث میں آتا ہے : آدمی ہمیشہ سچ بولتا ہے اور سچ ہی کی تلاش اور کوشش میں رہتا ہے۔ حتیٰ کہ اللہ کے ہاں اسے صدیق لکھ دیا جاتا ہے۔ متفق علیہ مشکوٰۃ ایک اور حدیث میں صدیقین کا وہ مقام بیان کیا گیا ہے جو جنت میں انہیں حاصل ہو گا۔ فرمایا: جنتی اپنے سے اوپر کے بالاخانے والوں کو اس طرح دیکھیں گے‘ جیسے چمکتے ہوئے مشرقی یا مغربی ستارے کو تم آسمان کے کنارے پر دیکھتے ہو‘ یعنی ان کے درمیان درجات کا اتنا فرق ہو گا۔ صحابہ نے پوچھا‘ یہ انبیا کے درجات ہوں گے جن کو دوسرے حاصل نہیں کر سکیں گے؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں‘ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ پر ایمان لائے اور پیغمبروں کی تصدیق کی۔ صحیح بخاری یعنی ایمان اور تصدیق کا حق ادا کیا۔ فتح الباری وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ اور جو لوگ کفر کرتے ہیں اور ہماری آیتوں کو جھٹلاتے ہیں وہ جہنمی ہیں۔ (۱۹) اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ ۖ خوب جان رکھو کہ دنیا کی زندگی صرف کھیل تماشہ زینت اور آپس میں فخر (و غرور) اور مال اولاد میں ایک دوسرے سے اپنے آپ کو زیادہ بتلانا ہے، كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا ۖ جیسے بارش اور اس کی پیداوار کسانوں کو اچھی معلوم ہوتی ہے (۱) پھر جب وہ خشک ہو جاتی ہے تو زرد رنگ میں اس کو تم دیکھتے ہو پھر وہ بالکل چورا چورا ہوجاتی ہے۔ (۲) ۱۔ كُفَّارَ کسانوں کو کہا گیا ہے‘ اس لیے کہ اس کے لغوی معنی ہیں چھپانے والے۔ کافروں کے دلوں میں اللہ کا اور آخرت کا انکار چھپا ہوتا ہے‘ اس لیے انہیں کافر کہا یاتا ہے۔ اور کاشت کاروں کے لیے یہ لفظ اس لیے بولا گیا ہے کہ وہ بھی زمین میں بیج بوتے یعنی انہیں چھپا دیتے ہیں۔ ۲۔ یہاں دنیا کی زندگی کو سرعت زوال میں کھیتی سے تشبیہ دی گئی ہے کہ جس طرح کھیتی جب شاداب ہوتی ہے تو بڑی بھلی لگتی ہے‘ کاشتکار اسے دیکھ کر بڑے خوش ہوتے ہیں۔ لیکن وہ بہت ہی جلد خشک زرد رو ہو کر چورا چورا ہو جاتی ہے۔ اسی طرح دنیا کی زیب و زینت‘ مال اور اولاد اور دیگر چیزیں انسان کا دل لبھاتی ہیں۔لیکن یہ زندگی چند روزہ ہی ہے‘ اس کو بھی ثبات و رار نہیں۔ وَفِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٌ ۚ اور آخرت میں سخت عذاب (۱) اور اللہ کی مغفرت اور رضامندی ہے ۔ (۲) ۱۔ یعنی اہل کفر کے لئے جو دنیا کے کھیل کود میں ہی مصروف رہے اور اسی کو انہوں نے حاصل زندگی سمجھا۔ ۲۔ یعنی اہل ایمان و طاعت کے لئے، جنہوں نے دنیا کو ہی سب کچھ نہیں سمجھا، بلکہ اسے عارضی، فانی اور دارالا متحان سمجھتے ہوئے اللہ کی ہدایات کے مطابق اس میں زندگی گزاری۔ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ اور دنیا کی زندگی بجز دھوکے کے سامان کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔ (۲۰) لیکن اس کے لیے جو اس کے دھوکے میں مبتلا رہا اور آخرت کے لیے کچھ نہیں کیا۔ لیکن جس نے اس حیات دنیا کو طلب آخرت کے لیے استعمال کیا تو اس کے لیے یہی دنیا‘ اس سے بہتر زندگی حاصل کرنے کا ذریعہ ثابت ہو گی۔ سَابِقُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أُعِدَّتْ لِلَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ۚ (آؤ) دوڑو اپنے رب کی مغفرت کی طرف (۱) اور اس کی جنت کی طرف جس کی وسعت آسماں و زمین کی وسعت کے برابر ہے۔ (۲) یہ ان کے لئے بنائی گئی ہے جو اللہ پر اور اس کے رسولوں ایمان رکھتے ہیں۔ ۱۔ یعنی اعمال صالحہ اور توبۃ النصوح کی طرف کیونکہ یہی چیزیں مغفرت رب کا ذریعہ ہیں۔ ۲ ۔ اور جس کا عرض اتنا ہو، اس کا طول کتنا ہوگا؟ کیونکہ طول عرض سے زیادہ ہی ہوتا ہے۔ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ ۚ یہ اللہ کا فضل ہے جس چاہے دے ظاہر ہے اس کی چاہت اسی کے لیے ہوتی ہے جو کفر و معصیت سے توبہ کر کے ایمان وعمل صالح کی زندگی اختیار کر لیتا ہے اسی لیے وہ ایسے لوگوں کو ایمان صالحہ کی توفیق سے بھی نوازتا دیتا ہے۔ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔ (۲۱) وہ جس پر چاہتا ہے اپنا فضل فرماتا ہے جس کو وہ کچھ دے کوئی روک نہیں سکتا اور جس سے روک لے اسے کوئی نہیں دے سکتا۔ تمام خیر اسی کے ہاتھ میں ہے‘ وہی کریم مطلق اور جواد حقیقی ہے جس کے ہاں بخل کا تصور نہیں۔ مَا أَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنْفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَبْرَأَهَا ۚ نہ کوئی مصیبت دنیا میں آتی ہے (١) نہ (خاص) تمہاری جانوں میں (٢) مگر اس سے پہلے کہ ہم پیدا کریں وہ ایک خاص کتاب میں لکھی ہوئی ہے۔ (۳) ۱۔ مثلاً قحط، سیلاب اور دیگر آفات زمینی اور آسمانی۔ ۲۔ مثلاً بیماریاں، تعب و تکان اور تنگ دستی وغیرہ۔ ۳۔ یعنی اللہ نے اپنے علم کے مطابق تمام مخلوقات کی پیدائش سے پہلے ہی باتیں لکھ دی ہیں جیسے حدیث میں آتا ہے : اللہ نے آسمان و زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار پہلے ہی ساری تقدیریں لکھ دی تھیں۔ إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ یہ کام اللہ تعالیٰ پر بالکل آسان ہے۔ (۲۲) لِكَيْلَا تَأْسَوْا عَلَى مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ ۗ تاکہ تم اپنے فوت شدہ کسی چیز پر رنجیدہ نہ ہو جایا کرو اور نہ عطا کردہ چیز پر گھمنڈ میں آجاؤ یہاں جس حزن اور فرح سے روکا گیا ہے وہ غم اور خوشی ہے جو انسان کو ناجائز کاموں تک پہنچا دیتی ہے ورنہ تکلیف پر رنجیدہ اور راحت پر خوش ہونا یہ ایک فطری عمل ہے لیکن مؤمن تکلیف پر صبر کرتا ہے کہ اللہ کی مشیت اور تقدیر ہے جزع فزع کرنے سے کوئی اس میں تبدیلی نہیں آسکتی اور راحت پر اتراتا نہیں اللہ کا شکر ادا کرتا ہے کہ یہ صرف اس کی اپنی سعی کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اللہ کا فضل و کرم اور اس کا احسان ہے۔ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ اور گھمنڈ اور شیخی خوروں کو اللہ پسند نہیں فرماتا۔ (۲۳) الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ ۗوَمَنْ يَتَوَلَّ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ جو (خود بھی) بخل کریں اور دوسروں کو بھی بخل کی تعلیم دیں، سنو! جو بھی منہ پھیرے اللہ بےنیاز اور سزاوار حمد و ثنا ہے۔ (۲۴) یعنی انفاق فی سبیل اللہ سے، کیونکہ اصل بخل یہی ہے۔ لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۖ ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلی دلیلیں دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان (ترازو) نازل فرمایا (١) تاکہ لوگ عدل پر قائم رہیں میزان سے مراد انصاف ہے اور مطلب ہے کہ ہم نے لوگوں کو انصاف کرنے کا حکم دیا ہے۔ بعض نے اس کا ترجمہ ترازو کیا ہے ترازو کے اتارنے کا مطلب ہے کہ ہم نے ترازو کی طرف لوگوں کی رہنمائی کی کہ اس کے ذریعے سے لوگوں کو تول کر پورا پورا حق دو۔ وَأَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ اور ہم نے لوہے کو اتارا (۱) جس میں سخت ہیبت اور قوت ہے (۲) اور لوگوں کے لئے اور بھی بہت سے فائدے ہیں (۳) ۱۔ یہاں بھی اتارا، پیدا کرنے اور اس کی صنعت سکھانے کے معنی میں ہے۔ لوہے سے بیشمار چیزیں بنتی ہیں یہ سب اللہ کے الہام وارشاد کا نتیجہ ہے جو اس نے انسان کو کیا ہے۔ ۲۔ یعنی لوہے سے جنگی ہتھیار بنتے ہیں جیسے تلوار، نیزہ، بندوق وغیرہ جن سے دشمن پر وار کیا جا سکتا ہے اور اپنا دفاع بھی۔ ۳۔ یعنی جنگی ہتھیاروں کے علاوہ بھی لوہے سے اور بھی بہت سی چیزیں بنتی ہیں جو گھروں میں اور مختلف صنعتوں میں کام آتی ہیں جیسے چھریاں، چاقو، قینچی، سوئی اور عمارت وغیرہ کا سامان اور چھوٹی بڑی مشینیں اور سازو سامان۔ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ وَرُسُلَهُ بِالْغَيْبِ ۚ اور اس لئے بھی کہ اللہ جان لے کہ اس کی اور اس کے رسولوں کی مدد بےدیکھے کون کرتا ہے ۔ یعنی رسولوں کو اس لیے بھیجا ہے تاکہ وہ جان لے کہ کون اس کے رسولوں پر اللہ کو دیکھے بغیر ایمان لاتا اور ان کی مدد کرتا ہے۔ إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ بیشک اللہ قوت والا زبردست ہے۔ (۲۵) اس کو اس بات کی حاجت نہیں کہ لوگ اس کے دین کی اور اس کے رسول کی مدد کریں بلکہ وہ چاہے تو اس کے بغیر ہی ان کو غالب فرما دے لوگوں کو تو ان کی مدد کرنے کا حکم ان کی اپنی بھلائی کے لیے دیا گیا ہے تاکہ وہ اس طرح اپنے اللہ کو راضی کرکے اس کی مغفرت کے مستحق بن جائیں۔ وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا وَإِبْرَاهِيمَ وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِمَا النُّبُوَّةَ وَالْكِتَابَ ۖ فَمِنْهُمْ مُهْتَدٍ ۖ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ فَاسِقُونَ بیشک ہم نے نوح اور ابراہیم (علیہما السلام) کو (پیغمبر بنا کر) بھیجا اور ہم نے دونوں کو اولاد پیغمبری اور کتاب جاری رکھی تو ان میں کچھ تو راہ یافتہ ہوئے اور ان میں سے اکثر نافرمان رہے۔ (۲۶) ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلَى آثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا وَقَفَّيْنَا بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَآتَيْنَاهُ الْإِنْجِيلَ ان کے بعد پھر بھی ہم اپنے رسولوں کو پے درپے بھیجتے رہے اور ان کے بعد عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کو بھیجا اور انہیں انجیل عطا فرمائی وَجَعَلْنَا فِي قُلُوبِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ رَأْفَةً وَرَحْمَةً اور ان کے ماننے والوں کے دلوں میں شفقت اور رحم پیدا کر دیا رَأْفَةً ، کے معنی نرمی اور رحمت کے معنی شفقت کے ہیں ۔ پیروکاروں سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواری ہیں، یعنی ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے پیار اور محبت کے جذبات پیدا کر دئیے۔ جیسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ایک دوسرے کے لیے رحیم و شفیق تھے۔ یہود، آپس میں اس طرح ایک دوسرے کی ہمدر اور غم خوار نہیں، جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکار تھے۔ وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا ۖ ہاں رہبانیت (ترک دنیا) تو ان لوگوں نے از خود ایجاد کر لی تھی (۱) ہم نے ان پر اسے واجب نہ (۲) کیا تھا سوائے اللہ کی رضا جوئی کے۔(۳) سوا انہوں نے اس کی پوری رعایت نہ کی (۴) ۱۔ وَرَهْبَانِيَّةً رھب (خوف) سے ہے یا رہبان (درویش) کی طرف منسوب ہے اس صورت میں رے پر پیش رہے گا، یا اسے رہبنہ کی طرف منسوب مانا جائے تو اس صورت میں رے پر زبر ہوگا۔ رہبانیت کا مفہوم ترک دنیا ہے یعنی دنیا اور علائق دنیا سے منقطع ہو کر کسی جنگل، صحرا میں جاکر اللہ کی عبادت کرنا۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد ایسے بادشاہ ہوئے جنہوں نے تورات اور انجیل میں تبدیلی کردی، جسے ایک جماعت نے قبول نہیں کیا۔ انہوں نے بادشاہوں کے ڈر سے پہاڑوں اور غاروں میں پناہ حاصل کرلی۔ یہ اس کا آغاز تھا، جسکی بنیاد اضطرار پر تھی۔ لیکن انکے بعد آنے والے بہت سے لوگوں نے اپنے بزرگوں کی اندھی تقلید میں اس شہر بدری کو عبادت کا ایک طریقہ بنا لیا اور اپنے آپ کو گرجاؤں اور معبودوں میں محبوس کر لیا اور اسکے لیے علائق دنیا سے انقطاع کو ضروری قرار دے لیا۔ اسی کو اللہ نے ابْتِغَاءَ (خود گھڑنے) سے تعبیر فرمایا ہے۔ ۲۔ یہ پچھلی بات کی تاکید ہے کہ یہ رہبانیت ان کی اپنی ایجاد تھی، اللہ نے اس کا حکم نہیں دیا تھا۔ ۳۔ یعنی ہم نے تو ان پر صرف اپنی رضا جوئی فرض کی تھی۔ دوسرا ترجمہ اس کا ہے کہ انہوں نے یہ کام اللہ کی رضا تلاش کرنے کے لئے کیا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے وضاحت فرمادی کہ اللہ کی رضا، دین میں اپنی طرف سے بدعات ایجاد کرنے سے حاصل نہیں ہوسکتی، چاہے وہ کتنی ہی خوش نما ہو۔ اللہ کی رضا تو اس کی اطاعت سے ہی حاصل ہوگی۔ ۴۔ یعنی گو انہوں نے مقصد اللہ کی رضا جوئی بتلایا، لیکن اس کی انہوں نے پوری رعایت نہیں کی، ورنہ وہ ابتداع (بدعت ایجاد کرنے) کے بجائے اتباع کا راستہ اختیار کرتے۔ فَآتَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا مِنْهُمْ أَجْرَهُمْ ۖ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ فَاسِقُونَ پھر بھی ہم نے ان میں سے جو ایمان لائے انہیں اس کا اجر دیا تھا (۱) اور ان میں زیادہ تر نافرمان لوگ ہیں۔ (۲۷) یہ وہ لوگ ہیں جو دین عیسیٰ پر قائم رہے تھے۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَآمِنُوا بِرَسُولِهِ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِهِ اے لوگوں جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرتے رہا کرو اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اللہ تمہیں اپنی رحمت کا دوہرا حصہ دے گا یہ دگنا اجر اہل ایمان کو ملے گا جو نبی سے قبل پہلے کسی رسول پر ایمان رکھتے تھے پھر نبی پر بھی ایمان لے آئے جیسا کہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔صحیح بخاری ایک دوسری تفسیر کے مطابق جب اہل کتاب نے اس بات پر فخر کا اظہار کیا کہ انہیں دوگنا اجر ملے گا، تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے حق میں یہ آیت نازل فرمائی۔تفصیل کیلئے دیکھئے، تفسیر ابن کثیر وَيَجْعَلْ لَكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِهِ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ اور تمہیں نور دے گا جس کی روشنی میں تم چلو پھرو گے اور تمہارے گناہ بھی معاف فرما دے گا، اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (۲۸) لِئَلَّا يَعْلَمَ أَهْلُ الْكِتَابِ أَلَّا يَقْدِرُونَ عَلَى شَيْءٍ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ ۙ وَأَنَّ الْفَضْلَ بِيَدِ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ ۚ یہ اس لئے کہ اہل کتاب جان لیں کہ اللہ کے فضل کے حصے پر بھی انہیں اختیار نہیں اور یہ کہ (سارا) فضل اللہ ہی کے ہاتھ ہے وہ جسے چاہے دے، وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ اور اللہ ہے ہی بڑے فضل والا۔ (۲۹) |
© Copy Rights:Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,Lahore, PakistanEnail: cmaj37@gmail.com |
Visits wef Sep 2024 |