Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Hujurat

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

Noting by Maulana Salahuddin Yusuf

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (۱)

اے ایمان والے لوگو! اللہ اور اس کے رسول کے آگے نہ بڑھو (١) اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو یقیناً اللہ تعالیٰ سننے والا، جاننے والا ہے۔‏

اس کا مطلب ہے کہ دین کے معاملے میں اپنے طور پر کوئی فیصلہ نہ کرو نہ اپنی سمجھ اور رائے کو ترجیح دو، بلکہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو۔

اپنی طرف سے دین میں اضافہ یا بد عات کی ایجاد، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے بڑھنے کی ناپاک جسارت ہے جو کسی بھی صاحب ایمان کے لائق نہیں۔ اسی طرح کوئی فتویٰ قرآن و حدیث میں غور و فکر کے بغیر نہ دیا جائے۔ مؤمن کی شان تو اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کر دینا ہے نہ کہ ان کے مقابلے میں اپنی بات پر یا کسی امام کی رائے پر اڑے رہنا۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ

اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے اوپر نہ کرو اور نہ ان سے اونچی آواز سے بات کرو جیسے آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو،

أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ (۲)

کہیں (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے اعمال اکارت جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔  

اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس ادب وتعظیم اور احترام وتکریم کا بیان ہے جو ہر مسلمان سے مطلوب ہے ۔

- پہلا ادب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں جب تم آپس میں گفتگو کرو تو تمہاری آواز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے بلند نہ ہو۔

- دوسرا ادب جب خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کلام کرو تو نہایت وقار اور سکون سے کرو اس طرح اونچی اونچی آواز سے نہ کرو جس طرح تم آپس میں بےتکلفی سے ایک دوسرے کے ساتھ کرتے ہو

 بعض نے کہا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یا محمد یا احمد نہ کہو بلکہ ادب سے یا رسول اللہ کہہ کر خطاب کرو اگر ادب واحترام کے ان تقاضوں کو ملحوظ نہ رکھو گے تو بے ادبی کا احتمال ہے جس سے بےشعوری میں تمہارے عمل برباد ہو سکتے ہیں۔

 اس آیت کی شان نزول کے لیے دیکھئے صحیح بخاری تفسیر سورۃ الحجرات تاہم حکم کے اعتبار سے یہ عام ہے ۔

إِنَّ الَّذِينَ يَغُضُّونَ أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ أُولَئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَى ۚ

لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ (۳)

بیشک جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے حضور میں اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں،

یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے پرہیزگاری کے لئے جانچ لیا ہے۔ ان کے لئے مغفرت اور بڑا ثواب ہے ۔‏

اس میں ان لوگوں کی تعریف ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و جلالت کا خیال رکھتے ہوئے اپنی آوازیں پست رکھتے تھے۔

إِنَّ الَّذِينَ يُنَادُونَكَ مِنْ وَرَاءِ الْحُجُرَاتِ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ (۴)

جو لوگ آپ کو حجروں کے پیچھے سے پکارتے ہیں ان میں اکثر (بالکل) بےعقل ہیں ۔‏

یہ آیت قبیلہ بنو تمیم کے بعض اعرابیوں (گنوار قسم کے لوگوں) کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے ایک روز دوپہر کے وقت، جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قیلولے کا وقت تھا، حجرے سے باہر کھڑے ہو کر عامیانہ انداز میں یا محمد یا محمد کی آوازیں لگائیں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے آئیں ۔ (مسند احمد ٨٤۔٣١٨)

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان کی اکثریت بےعقل ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اداب و احترام کے تقاضوں کا خیال نہ رکھنا، بےعقلی ہے۔

وَلَوْ أَنَّهُمْ صَبَرُوا حَتَّى تَخْرُجَ إِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (۵)

اگر یہ لوگ یہاں تک صبر کرتے کہ آپ خود سے نکل کر ان کے پاس آجاتے تو یہی ان کے لئے بہتر ہوتا (١) اور اللہ غفور و رحیم ہے۔ (۲)‏

۱۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکلنے کا انتظار کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آواز دینے میں جلدی نہ کرتے تو دین اور دنیا دونوں لحاظ سے بہتر ہوتا۔

۲۔  اس لیے مؤاخذہ نہیں فرمایا بلکہ آئندہ کے لیے ادب وتعظیم کی تاکید بیان فرما دی ۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ (۶)

اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو (۱)

ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے لئے پریشانی اٹھاؤ۔‏

یہ آیت اکثر مفسرین کے نزدیک حضرت ولید بن عقبہ رضی اللہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو المصطلق کے صدقات وصول کرنے کے لیے بھیجا تھا لیکن انہوں نے آ کر یوں ہی رپورٹ دے دی کہ انہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خلاف فوج کشی کا ارادہ فرما لیا تاہم پھر پتہ لگ گیا کہ یہ بات غلط تھی اور ولید رضی اللہ عنہ تو وہاں گئے ہی نہیں ۔لیکن سند اور امر واقعہ دونوں اعتبار سے یہ روایت صحیح نہیں ہے اس لیے اسے ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر چسپاں کرنا صحیح نہیں ہے ۔

تاہم شان نزول کی بحث سے قطع نظر اس میں ایک نہایت ہی اہم اصول بیان فرمایا گیا ہے جس کی انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر نہایت اہمیت ہے ہر فرد اور ہر حکومت سے تو پہلے اس کی تحقیق کی جائے تاکہ غلظ فہمی میں کسی کے خلاف کوئی کاروائی نہ ہو ۔

وَاعْلَمُوا أَنَّ فِيكُمْ رَسُولَ اللَّهِ ۚ

اور جان رکھو کہ تم میں اللہ کے رسول موجود ہیں

جس کا تقاصا یہ ہے کہ ان کی تعظیم اور اطاعت کرو اس لیے کہ وہ تمہاے مصالح زیادہ بہتر جاتنے ہیں کیونکہ ان پر وحی اترتی ہے پس تم ان کے پیچھے چلو ان کو اپنے پیچھے چلانے کی کوشش مت کرو اس لیے کہ اگر وہ تمہاری پسند کی باتیں ماننا شروع کر دیں تو اس سے تم خود ہی زیادہ مشقت میں پڑ جاو گے جیسے دوسرے مقام پر فرمایا:

وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَهْوَاءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ وَمَنْ فِيهِنَّ۔  (۲۳:۷۱)

لَوْ يُطِيعُكُمْ فِي كَثِيرٍ مِنَ الْأَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ

اگر وہ تمہارا کہا کرتے رہے بہت امور میں تو تم مشکل میں پڑ جاؤ لیکن اللہ تعالیٰ نے ایمان کو تمہارے دلوں میں زینت دے رکھی ہے

وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ ۚ أُولَئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ (۷)

 اور کفر کو اور گناہ کو اور نافرمانی کو تمہاری نگاہوں میں ناپسندیدہ بنا دیا ہے، یہی لوگ راہ یافتہ ہیں۔‏

فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَنِعْمَةً ۚ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (۸)

اللہ کے احسان و انعام سے (١) اور اللہ دانا اور با حکمت ہے۔‏

یہ آیت میں بھی صحابہ کرام کی فضیلت، ان کے ایمان اور ان کے رشد و ہدایت پر ہونے کی واضح دلیل ہے ولو کرہ الکافرون ۔

وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا ۖ

اور اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں میل ملاپ کرا دیا کرو ۔

اور اس صلح کا طریقہ یہ ہے کہ انہیں قرآن و حدیث کی طرف بلایا جائے یعنی ان کی روشنی میں ان کے اختلاف کا حل تلاش کیا جائے۔

فَإِنْ بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّى تَفِيءَ إِلَى أَمْرِ اللَّهِ ۚ

پھر اگر ان دونوں میں سے ایک جماعت دوسری جماعت پر زیادتی کرے تو تم (سب) اس گروہ سے جو زیادتی کرتا ہے لڑو۔

یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے ۔

یعنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے مطابق اپنا اختلاف دور کرنے پر آمادہ نہ ہو بلکہ بغاوت کی روش اختیار کرے تو دوسرے مسلمانوں کی ذمے داری ہے کہ وہ سب مل کر بغاوت کرنے والے گروہ سے لڑائی کریں تاکہ وہ اللہ کے حکم کو ماننے کے لیے تیار ہو جائے ۔

فَإِنْ فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا ۖ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ (۹)

اگر لوٹ آئے تو پھر انصاف کے ساتھ صلح کرا دو (۱) اور عدل کرو بیشک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (۲)‏

۱۔  یعنی باغی گروہ بغاوت سے باز آ جائے تو پھر عدل کے ساتھ یعنی قرآن وحدیث کی روشنی میں دونوں گروہوں کے درمیان صلح کرا دی جائے۔

۲۔ اور ہر معاملے میں انصاف کرو‘ اس لیے کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے اور اس کی یہ پسند اس بات کو مستلزم ہے کہ وہ انصاف کرنے والوں کو بہترین جزا سے نوازے گا۔

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (۱۰)

(یاد رکھو) سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں پس اپنے دو بھائیوں میں ملاپ کرا دیا کرو (۱) اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے (۲)‏

۱۔ یہ پچھلے حکم کی ہی تاکید ہے یعنی جب مؤمن سب آپس میں بھائی بھائی ہیں تو ان سب کی اصل ایمان ہوئی اس لیے اس اصل کی اہمیت کا تقاضا ہے کہ ایک ہی دین پر ایمان رکھنے والے آپس میں نہ لڑیں بلکہ ایک دوسرے کے دست و باز و ہمدرد وغم گسار اور مونس و خیر خواہ بن کر رہیں اور کبھی غلط فہمی سے ان کے درمیان بعد اور نفرت پیدا ہو جائے تو اسے دور کر کے انہیں آپس میں دوبارہ جوڑ دیا جائے۔

مزید دیکھئے سورہ توبہ آیت ۱۷

 ۲۔  اور ہر معاملے میں اللہ سے ڈرو، شاید اس کی وجہ سے تم اللہ کی رحمت کے مستحق قرار پا جاؤ۔ ورنہ اللہ کی رحمت تو اہل ایمان و تقویٰ کے لئے یقینی ہے۔

اس آیت میں باغی گروہ سے قتال کا حکم ہے دراں حالیکہ حدیث میں مسلمان سے قتال کو کفر کہا گیا ہے‘ تو یہ کفر اس وقت ہو گا جب بلاوجہ مسلمان سے قتال کیا جائے۔ لیکن اس قتال کی بنیاد اگر بغاوت ہے تو یہ قتال نہ صرف جائز ہے بلکہ اس کا حکم دیا گیا ہے جو تاکید و استحباب پر دال ہے۔ اسی طرح باغی گروہ کو قرآن نے مؤمن ہی قرار دیا‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ کہ صرف بغاوت سے‘ جو کبیرہ گناہ ہے‘ وہ گروہ ایمان سے خارج نہیں ہو گا۔ جیسا کہ خوارج اور بعض معتزلہ کا عقیدہ ہے کہ مرتکب کبائر ایمان سے خارج ہو جاتا ہے۔

 اب بعض نہایت اہم اخلاقی ہدایات مسلمانوں کو دی جا رہی ہیں۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ

اے ایمان والو! مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں   

ایک شخص دوسرے کسی شخص کا استہزا یعنی اس سے مسخرا پن اسی وقت کرتا ہے جب وہ اپنے کو اس سے بہتر اور اس کو اپنے سے حقیر اور کمتر سمجھتا ہے حالانکہ اللہ کے ہاں ایمان وعمل کے لحاظ سے کون بہتر ہے اور کون نہیں۔ اس کا علم صرف اللہ کو ہے اس لیے اپنے کو بہتر اور دوسرے کو کم تر سمجھنے کا کوئی جواز ہی نہیں ہے بنا بریں آیت میں اس سے منع فرما دیا گیا ہے۔

 اور کہتے ہیں کہ عورتوں میں یہ اخلاقی بیماری زیادہ ہوتی ہے اس لیے عورتوں کا الگ ذکر کر کے انہیں بھی بطور خاص اس سے روک دیا گیا ہے اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں لوگوں کے حقیر سمجھنے کو کبر سے تعبیر کیا گبا ہے:

 الکبر بطر الحق وغمط الناس

اور کبر اللہ کو نہایت ہی ناپسند ہے۔(ابو داؤد)

وَلَا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِنْهُنَّ ۖ

اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں

وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ ۖ

اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ (۱) اور نہ کسی کو برے لقب دو (۲)

۱۔  یعنی ایک دوسرے پر طعنہ زنی مت کرو، مثلاً تو فلاں کا بیٹا ہے، تیری ماں ایسی ویسی ہے، تو فلاں خاندان کا ہے ۔

۲۔  یعنی اپنے طور پر استہزاء اور تحقیر کے لیے لوگوں کے ایسے نام رکھ لینا جو انہیں ناپسند ہوں یا اچھے بھلے ناموں کو بگاڑ کر بولنا یہ تنابز بالالقاب ہے جس کی یہاں ممانعت کی گئی ہے ۔

بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ ۚ

ایمان کے بعد فسق برا نام ہے،   

   یعنی اس طرح نام بگاڑ کر یا برے نام تجویز کر کے بلانا یا قبول اسلام اور توبہ کے بعد اسے سابقہ دین یا گناہ کی طرف منسوب کر کے خطاب کرنا مثلاً اے کافر اے زانی یا شرابی وغیرہ یہ بہت برا کام ہے۔

 الِاسْمُ یہاں الذکر کے معنی میں ہے یعنی بئس الاسم الذی یذکر بالفسق بعد دخولھم فی الایمان۔  فتح القدیر  

البتہ اس سے بعض وہ صفاتی نام بعض حضرات کے نزدیک مستثنیٰ ہیں جو کسی کے لیے مشہور ہو جائیں اور وہ اس پر اپنے دل میں رنج بھی محسوس نہ کریں جیسے لنگڑے پن کی وجہ سے کسی کا نام لنگڑا پڑ جائے کالے رنگ کی بنا پر کالیا یا کالو مشہور ہو جائے وغیرہ۔ القرطبی  

وَمَنْ لَمْ يَتُبْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (۱۱)

اور جو توبہ نہ کریں وہی ظالم لوگ ہیں۔‏

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ

اے ایمان والو! بہت بد گمانیوں سے بچو یقین مانو کہ بعض بد گمانیاں گناہ ہیں

ظن کے معنی ہیں گمان کرنا مطلب ہے کہ اہل خیر واہل اصلاح وتقویٰ کے بارے میں ایسے گمان رکھنا جو بے اصل ہوں اور تہمت وافترا کے ضمن میں آتے ہوں اسی لیے اس کا ترجمہ بد گمانی کیا جاتا ہے اور حدیث میں اس کو اکذب الحدیث سب سے بڑا جھوٹ کہہ کر اس سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔  (البخاری کتاب، صحیح مسلم)

 ورنہ فسق وفجور میں مبتلا لوگوں سے ان کے گناہوں کی وجہ سے اور ان کے گناہوں پر بد گمانی رکھنا یہ وہ بد گمانی نہیں ہے جسے یہاں گناہ کہا گیا ہے اور اس سے اجتناب کی تاکید کی گئی ہے۔ (القرطبی )

وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا ۚ

اور بھید نہ ٹٹولا کرو (۱) اور نہ تم کسی کی غیبت کرو (۲)

۱۔  یعنی اس ٹوہ میں رہنا کہ کوئی خامی یا عیب معلوم ہو جائے تاکہ اسے بدنام کیا جائے یہ تجسس ہے جو منع ہے اور حدیث میں بھی اس سے منع کیا گیا ہے بلکہ حکم دیا گیا ہے کہ اگر کسی کی خامی کوتاہی تمہارے علم میں آ جائے تو اس کی پردہ پوشی کرو نہ کہ اسے لوگوں کے سامنے بیان کرتے پھرو بلکہ جستجو کر کے عیب تلاش کرو۔

 آج کل حریت اور آزادی کا بڑا چرچا ہے اسلام نے بھی تجسس سے روک کر انسان کی حریت اور آزدی کو تسلیم کیا ہے لیکن اس وقت تک جب تک وہ کھلے عام بےحیائی کا ارتکاب نہ کرے یا جب تک دوسروں کے لیے ایذا کا باعث نہ ہو۔

 مغرب نے مطلق آزادی کا درس دے کر لوگوں کو فساد عام کی اجازت دے دی ہے جس سے معاشرے کا تمام امن و سکون برباد ہوگیا ہے ۔

۲۔  غیبت کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے لوگوں کے سامنے کسی کی برائیوں اور گناہوں کا ذکر کیا جائے جسے وہ برا سمجھے اور اگر اس کی طرف ایسی باتیں منسوب کی جائیں جو اس کے اندر موجود ہی نہیں ہیں تو وہ بہتان ہے۔ اپنی اپنی جگہ دونوں ہی بڑے جرم ہیں۔

أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ ۚ

کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟ تم کو اس سے گھن آئے گی ۔

یعنی کسی مسلمان بھائی کی کسی کے سامنے برائی بیان کرنا ایسے ہی ہے جیسے مردار بھائی کا گوشت کھانا تو پسند نہیں کرتا۔ لیکن غیبت لوگوں کی نہایت مرغوب غذا ہے۔

وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَحِيمٌ (۱۲)

اور اللہ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔‏

يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى

اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک (ہی) مرد و عورت سے پیدا کیا ہے

یعنی آدم وحوا علیہما السلام سے

 یعنی تم سب کی اصل ایک ہی ہے ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہو مطلب ہے کسی کو محض خاندان اور نسب کی بنا پر فخر کرنے کا حق نہیں ہے کیونکہ سب کا نسب حضرت آدم علیہ السلام سے ہی جا کر ملتا ہے ۔

وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ

اور اس لئے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو کنبے قبیلے بنا دیئے ہیں،

شعوب،  شعب کی جمع ہے برادری یا بڑا قبیلہ

 شعب کے بعد قبیلہ پھر عمارہ پھر بطن پھر فصیلہ اور پھر عشیرہ ہے ۔ (فتح القدیر)

مطلب یہ ہے کہ مختلف خاندانوں برادریوں اور قبیلوں کی تقسیم محض تعارف کے لیے ہے تاکہ آپس میں صلہ رحمی کر سکو اس کا مقصد ایک دوسرے پر برتری کا اظہار نہیں ہے جیسا کہ بد قسمتی سے حسب ونسب کو برتری کی بنیاد بنا لیا گیا ہے حالانکہ اسلام نے آ کر اسے مٹایا تھا اور اسے جاہلیت سے تعبیر کیا تھا ۔

إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ (۱۳)

یعنی اللہ کے ہاں برتری کا معیار خاندان قبیلہ اور نسل ونسب نہیں ہے جو کسی انسان کے اختیار میں ہی نہیں ہے۔ بلکہ یہ معیار تقویٰ ہے جس کا اختیار کرنا انسان کے ارادہ اختیار میں ہے یہی آیت ان علماء کی دلیل ہے جو نکاح میں کفائت نسب کو ضروری نہیں سمجھتے اور صرف دین کی بنیاد پر نکاح کو پسند کرتے ہیں۔ ابن کثیر

قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا ۖ قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ ۖ

دیہاتی لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے۔ آپ کہہ دیجئے کہ

درحقیقت تم ایمان نہیں لائے لیکن تم یوں کہو کہ ہم اسلام لائے حالانکہ ابھی تک تمہارے دلوں میں ایمان داخل ہی نہیں ہوا

بعض مفسرین کے نزدیک ان اعراب سے مراد بنو اسد اور خزیمہ کے منافقین ہیں جنہوں نے قحط سالی میں محض صدقات کی وصولی کے لیے یا قتل ہونے اور قیدی بننے کے اندیشے کے پیش نظر زبان سے اسلام کا اظہار کیا تھا ان کے دل ایمان اعتقاد صحیح اور خلوص نیت سے خالی تھے ۔ فتح القدیر

لیکن امام ابن کثبر کے نزدیک ان سے وہ اعراب مراد ہیں جو نئے مسلمان ہوئے تھے اور ایمان ابھی ان کے اندر پوری طرح راسخ نہیں ہوا تھا لیکن دعویٰ انہوں نے اپنی اصل حثییت سے بڑھ کر ایمان کا کیا تھا جس پر انہیں یہ ادب سکھایا گیا کہ پہلے مرتبے پر ہی ایمان کا دعویٰ صحیح نہیں آہستہ آہستہ ترقی کے بعد تم ایمان کے مرتبے پر پہنچو گے ۔

وَإِنْ تُطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَا يَلِتْكُمْ مِنْ أَعْمَالِكُمْ شَيْئًا ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (۱۴)

تم اگر اللہ کی اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرنے لگو گے تو اللہ تمہارے اعمال میں سے کچھ بھی کم نہ کرے گا۔

بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے‏

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۚ

مؤمن تو وہ ہیں جو اللہ پر اور اس کے رسول پر (پکا) ایمان لائیں پھر شک و شبہ نہ کریں اور اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے جہاد کرتے رہیں

 أُولَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ (۱۵)

یہی سچے اور راست گو ہیں

نہ کہ وہ جو صرف زبان سے اسلام کا اظہار کر دیتے ہیں اور مذکورہ اعمال کا سرے سے کوئی اہتمام ہی نہیں کرتے۔

قُلْ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۚ

کہہ دیجئے! کہ کیا تم اللہ تعالیٰ کو اپنی دینداری سے آگاہ کر رہے ہو (١) اللہ ہرچیز سے جو آسمانوں میں اور زمین میں ہے بخوبی آگاہ ہے

تعلیم، یہاں اعلام اور اخبار کے معنی میں ہے یعنی آمَنَّا کہہ کر تم اللہ کو اپنے دین و ایمان سے آگاہ کر رہے ہو؟ یا اپنے دلوں کی کیفیت اللہ کو بتلا رہے ہو۔

وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (۱۶)

 اور اللہ ہرچیز کا جاننے والا ہے ۔‏

تو کیا تمہارے دلوں کی کیفیت پر یا تمہارے ایمان کی حقیقت سے وہ آگاہ نہیں۔

يَمُنُّونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا ۖ

اپنے مسلمان ہونے کا آپ پر احسان جتاتے ہیں۔

 قُلْ لَا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلَامَكُمْ ۖ بَلِ اللَّهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ أَنْ هَدَاكُمْ لِلْإِيمَانِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (۱۷)

یہی اعراب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے کہ دیکھو ہم مسلمان ہوگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی، جبکہ دوسرے عرب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے برسر پیکار ہیں۔آپ کہہ دیجئے کہ اپنے مسلمان ہونے کا احسان مجھ پر نہ رکھو، بلکہ دراصل اللہ کا تم پر احسان ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کی ہدایت کی اگر تم راست گو ہو

 اللہ تعالیٰ نے ان کا رد فرماتے ہوئے فرمایا، تم اللہ پر اسلام لانے کا احسان مت جتلاؤ اس لئے کہ اگر تم اخلاص سے مسلمان ہوئے ہو تو اس کا فائدہ تمہیں ہوگا، نہ کہ اللہ کو۔ اس لئے یہ اللہ کا تم پر احسان ہے کہ اس نے تمہیں قبول اسلام کی توفیق دی نہ کہ تمہارا احسان اللہ پر ہے۔

إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (۱۸)

یقین مانو کہ آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتیں اللہ خوب جانتا ہے اور جو کچھ تم کر رہے ہو اسے اللہ خوب دیکھ رہا ہے۔‏

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter