Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Fussilat

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

Noting by Maulana Salahuddin Yusuf

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


حم (۱)

حم‏

اس سورت کا دوسرا نام فُصّلَت ہے اس کی شان نزول کی روایات میں بتلایا گیا ہے:

 ایک مرتبہ سرداران قریش نے باہم مشورہ کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکاروں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہی ہو رہا ہے ہمیں اس کے سد باب کے لیے ضرور کچھ کرنا چاہیے چنانچہ انہوں نے اپنے میں سے سب سے زیادہ بلیغ و فصیح آدمی عتبہ بن ربیعہ کا انتخاب کیا تاکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرے

چنانچہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گیا اور آپ پر عربوں میں انتشار و افتراق پیدا کرنے کا الزام عائد کر کے پیشکش کی کہ اس نئی دعوت سے اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد مال ودولت کا حصول ہے تو وہ ہم جمع کیے دیتے ہیں قیادت وسیادت منوانا چاہتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم اپنا لیڈر اور سردار مان لیتے ہیں کسی حسین عورت سے شادی کرنا چاہتے ہیں تو ایک نہیں ایسی دس عورتوں کا انتظام ہم کر دیتے ہیں اور اگر آپ پر آسیب کا اثر ہے جس کے تحت آپ ہمارے معبودوں کو برا کہتے ہیں تو ہم اپنے خرچ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا علاج کرا دیتے ہیں

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تمام باتیں سن کر اس سورت کی تلاوت اس کے سامنے فرما‏ئی جس سے وہ بڑا متاثر ہوا اس نے واپس جا کر سرداران قریش کو بتلایا کہ وہ جو چیز پیش کرتا ہے وہ جادو اور کہانت ہے نہ شعر وشاعری مطلب اس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر سرداران قریش کو غور و فکر کی دعوت دینا تھا

لیکن وہ غور وفکر کیا کرتے؟ الٹا عتبہ پر الزام لگا دیا کہ تو بھی اس کے سحر کا اسیر ہوگیا ہے

یہ روایات مختلف انداز سے اہل سیر وتفسیر نے بیان کی ہیں امام ابن کثیر اور امام شوکانی نے بھی انہیں نقل کیا ہے

امام شوکانی فرماتے ہیں یہ روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ قریش کا اجتماع ضرور ہوا انہوں نے عتبہ کو گفتگو کے لیے بھیجا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس سورت کا ابتدا‏ئی حصہ سنایا۔

تَنْزِيلٌ مِنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ (۲)

اتاری ہوئی ہے بڑے مہربان بہت رحم والے کی طرف سے۔‏

كِتَابٌ فُصِّلَتْ آيَاتُهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ (۳)

ایسی کتاب جس کی آیتوں کی واضح تفصیل کی گئی ہے (١) (اس حال میں کہ) قرآن عربی زبان میں ہے (٢) اس قوم کے لئے جو جانتی ہے (٣)‏

۱۔ یعنی کیا حلال ہے اور کیا حرام؟

 یا طاعت کیا ہیں اور معاصی کیا؟

یا ثواب والے کام کون سے ہیں اور عقاب والے کون سے؟

۲۔  یہ حال ہے۔ یعنی اس کے الفاظ عربی ہیں، جن کے معانی مفصل اور واضح ہیں۔

۳۔  یعنی اس کے الفاظ عربی ہیں، جن کے معانی و مفا ہیم اور اس کے اسرار و اسلوب کو جانتی ہے۔

بَشِيرًا وَنَذِيرًا فَأَعْرَضَ أَكْثَرُهُمْ فَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ (۴)

خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا (١) ہے پھر بھی ان کی اکثریت نے منہ پھیر لیا اور وہ سنتے ہی نہیں ۔‏(٢)

۱۔ ایمان اور اعمال صالح کے حاملین کو کامیابی اور جنت کی خوشخبری سنانے والا اور مشرکین و مکذبین کو عذاب نار سے ڈرانے والا۔

۲۔  یعنی غور و فکر اور تدبر و تعقل کی نیت سے نہیں سنتے کہ جس سے انہیں فائدہ ہو۔ اسی لئے ان کی اکثریت ہدایت سے محروم ہے۔

وَقَالُوا قُلُوبُنَا فِي أَكِنَّةٍ مِمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ وَفِي آذَانِنَا وَقْرٌ

اور انہوں نے کہا کہ تو جس کی طرف ہمیں بلا رہا ہے ہمارے دل تو اس سے پردے میں ہیں (١) اور ہمارے کانوں میں گرانی ہے (٢)

۱۔ أَكِنَّةٍ ، کنان کی جمع ہے۔ پردہ۔

یعنی ہمارے دل اس بات سے پردوں میں ہیں کہ ہم تیری توحید و ایمان کی دعوت کو سمجھ سکیں۔

۲۔  وَقْرٌ کے اصل معنی بوجھ کے ہیں، یہاں مراد بہرا پن ہے، جو حق کے سننے میں مانع تھا۔

وَمِنْ بَيْنِنَا وَبَيْنِكَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ إِنَّنَا عَامِلُونَ (۵)

اور ہم میں اور تجھ میں ایک حجاب ہے، اچھا تو اب اپنا کام کئے جا ہم بھی یقیناً کام کرنے والے ہیں

یعنی ہمارے اور تیرے درمیان ایسا پردہ حائل ہے کہ تو جو کہتا ہے، وہ سن نہیں سکتے اور جو کرتا ہے، اسے دیکھ نہیں سکتے، اس لئے تو ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دے اور ہم تجھے تیرے حال پر چھوڑ دیں، تو ہمارے دین پر عمل نہیں کرتا، ہم تیرے دین پر عمل نہیں کر سکتے۔

قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَاسْتَقِيمُوا إِلَيْهِ وَاسْتَغْفِرُوهُ ۗ

آپ کہہ دیجئے! کہ میں تم ہی جیسا انسان ہوں مجھ پر وحی نازل کی جاتی ہے (۱) کہ تم سب کا معبود ایک اللہ ہی ہے سو تم اس کی طرف متوجہ ہو جاؤ اور اس سے گناہوں کی معافی چاہو،

یعنی میرے اور تمہارے درمیان کوئی امتیاز نہیں ہے بجز وحی الہی کے پھر یہ بعد وحجاب کیوں؟

علاوہ ازیں میں جو دعوت توحید پیش کر رہا ہوں وہ بھی ایسے نہیں کہ عقل وفہم میں نہ آ سکے پھر اس سے اعراض کیوں؟

وَوَيْلٌ لِلْمُشْرِكِينَ (۶)

اور ان مشرکوں کے لئے (بڑی ہی) خرابی ہے۔‏

الَّذِينَ لَا يُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ بِالْآخِرَةِ هُمْ كَافِرُونَ (۷)

جو زکوٰۃ نہیں دیتے (١) اور آخرت کے بھی منکر ہی رہتے ہیں۔‏

یہ سورت مکی ہے۔

زکوٰۃ ہجرت کے دوسرے سال فرض ہوئی اس لئے اس سے مراد یا تو صدقات ہیں جس کا حکم مسلمانوں کو مکے میں ہی دیا جاتا رہا، جس طرح پہلے صبح وشام کی نماز تھا، پھر ہجرت سے ڈیڑھ سال قبل لیلۃ الاِسراء کو پانچ فرض نمازوں کا حکم ہوا۔

 یا پھر زکوٰۃ سے مراد کلمہ شہادت ہے، جس سے نفس انسانی شرک کی آلودگیوں سے پاک ہو جاتا ہے۔ (ابن کثیر)

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ (۸)

بیشک جو لوگ ایمان لائیں اور بھلے کام کریں ان کے لئے نہ ختم ہونے والا اجر ہے۔

أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ کا وہی مطلب ہے جو عطاء غیر مجذوذ ہود کا ہے یعنی نہ ختم ہونے والا اجر۔

قُلْ أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِي خَلَقَ الْأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَنْدَادًا ۚ

آپ کہہ دیجئے! کہ تم اس اللہ کا انکار کرتے ہو اور تم اس کے شریک مقرر کرتے ہو جس نے دو دن میں زمین پیدا کر دی

قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ نےآسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا فرمایا یہاں اس کی کچھ تفصیل بیان فرما‏ئی گئی ہے

فرمایا زمین کو دو دن میں بنایا اس سے مراد ہیں یوم الاحد اتوار اور یوم الاثنین

سورہ نازعات آ یت ۳۰ـ۳۱میں کہا گیا ہے وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَلِكَ دَحَاهَا جس سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ زمین کو آسمان کے بعد بنایا گیا ہے جب کہ یہاں زمین کی تخلیق کا ذکر آسمان کی تخلیق سے پہلے کیا گیا ہےحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس کی وضاحت اس طرح فرمائی ہے کہ تخلیق اور چیز ہے اور دحی جو اصل میں دحو ہے بچھانا یا پھیلانا اور چیز زمین کی تخلیق آسمان سے پہلے ہوئی جیسا کہ یہاں بھی بیان کیا گیا اور دحو کا مطلب ہے کہ زمین کو رہائش کے قابل بنانے کے لیے اس میں پانی کے ذخائر رکھے گئے اسے پیداواری ضروریات کا مخزن بنایا گیا۔  أَخْرَجَ مِنْهَا مَاءَهَا وَمَرْعَاهَا اس میں پہاڑ ٹیلے اور جمادات رکھے گئے

یہ عمل آسمان کی تخلیق کے بعد دوسرے دو دنوں میں کیا گیا یوں زمین اور اس کے متعلقات کی تخلیق پورے چار دنوں میں مکمل ہوئی۔ (صحیح بخاری، تفسیر سورہ حم السجدۃ)

ذَلِكَ رَبُّ الْعَالَمِينَ (۹)

سارے جہانوں کا پروردگار وہی ہے۔‏

وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِنْ فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا

اور اس نے زمین میں اس کے اوپر سے پہاڑ گاڑ دیئے (١) اور اس میں برکت رکھ دی (٢)

اور اس میں (رہنے والوں) کی غذاؤں کی تجویز بھی اسی میں کر دی (۳)

۱۔ یعنی پہاڑوں کو زمین میں سے ہی پیدا کر کے ان کو اس کے اوپر گاڑ دیا تاکہ زمین ادھر یا ادھر نہ ڈولے۔

۲۔  یہ اشارہ ہے پانی کی کثرت، انواع و اقسام کے رزق، معدنیات اور دیگر اسی قسم کی اشیاء کی طرف یہ زمین کی برکت ہے، کثرت خیر کا نام ہی برکت ہے

۳۔  أَقْوَاتَ ، قوت غذا، خوراک کی جمع ہے یعنی زمین پر بسنے والی تمام مخلوقات کی خوراک اس میں مقدر کر دی ہے یا بندوبست کر دیا ہے اور رب کی اس تقدیر یا بندوبست کا سلسلہ اتنا وسیع ہے کہ کوئی زبان اسے بیان نہیں کر سکتی کوئی قلم اسے رقم نہیں کر سکتا اور کوئی اسے گن نہیں سکتا ۔

فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِلسَّائِلِينَ (۱۰)

 (صرف) چار دن میں (۱) ضرورت مندوں کے لئے یکساں طور پر ۔‏(۲)

۱۔  یعنی تخلیق کے پہلے دو دن اور وحی کے دو دن سارے دن ملا کر یہ کل چار دن ہوئے، جن میں یہ سارا عمل تکمیل کو پہنچا۔

۲۔  سَوَاءً کا مطلب ہے۔ ٹھیک چار دن میں ہوا۔

 یعنی پوچھنے والوں کو بتلا دو کہ یہ عمل ٹھیک چار دن میں ہوا۔ یا پورا یا برابر جواب ہے سائلین کے لئے۔

ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا

پھر آسمانوں کی طرف متوجہ ہوا اور وہ دھواں (سا) تھا پس اسے اور زمین سے فرمایا کہ تم دونوں خوشی سے آؤ یا ناخوشی سے

یہ آنا کس طرح تھا؟

 اس کی کیفیت بیان نہیں کی جا سکتی۔ یہ دونوں اللہ کے پاس آئے جس طرح اس نے چاہا،

بعض نے اس کا مفہوم لیا ہے کہ میرے حکم کی اطاعت کرو، انہوں نے کہا ٹھیک ہے ہم حاضر ہیں،

چنانچہ اللہ نے آسمانوں کو حکم دیا، سورج،چاند ستارے نکال اور زمین کو کہا، نہریں جاری کر دے اور پھل نکال دے (ابن کثیر)

یا مفہوم ہے کہ تم دونوں وجود میں آ جاؤ۔

قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ (۱۱)

دونوں نے عرض کیا بخوشی حاضر ہیں۔‏

فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِي يَوْمَيْنِ وَأَوْحَى فِي كُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَهَا ۚ

پس دو دن میں سات آسمان بنا دیئے اور ہر آسمان میں اس کے مناسب احکام کی وحی بھیج دی

یعنی خود آسمانوں کو یا ان میں آباد فرشتوں کو مخصوص کاموں اور وظائف کا پابند کر دیا۔

وَزَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَحِفْظًا ۚ ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ (۱۲)

اور ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں سے زینت دی اور نگہبانی کی (٢) یہ تدبیر اللہ غا لب و دانا کی ہے۔‏

 یعنی شیطان سے نگہبانی، جیسا کہ دوسرے مقام پر وضاحت کی ہے ستاروں کا ایک تیسرا مقصد دوسری جگہ اَھْتِدَاء (راستہ معلوم کرنا) بھی بیان کیا گیا ۔ (النحل۔١٦)

فَإِنْ أَعْرَضُوا فَقُلْ أَنْذَرْتُكُمْ صَاعِقَةً مِثْلَ صَاعِقَةِ عَادٍ وَثَمُودَ (۱۳)

اب یہ روگردان ہوں تو کہہ دیجئے!

کہ میں تمہیں اس کڑک (عذاب آسمانی) سے ڈراتا ہوں جو مثل عادیوں اور ثمودیوں کی کڑک کے ہوگی۔‏

إِذْ جَاءَتْهُمُ الرُّسُلُ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّهَ ۖ

ان کے پاس جب ان کے آگے پیچھے سے پیغمبر آئے کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو

قَالُوا لَوْ شَاءَ رَبُّنَا لَأَنْزَلَ مَلَائِكَةً فَإِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُمْ بِهِ كَافِرُونَ (۱۴)

 تو انہوں نے جواب دیا کہ اگر ہمارا پروردگار چاہتا تو فرشتوں کو بھیجتا۔ ہم تو تمہاری رسالت کے بالکل منکر ہیں ۔

یعنی چونکہ تم ہماری طرح ہی کے انسان ہو، اس لئے ہم تمہیں نبی نہیں مان سکتے اللہ تعالیٰ کو نبی بھیجنا ہوتا تو فرشتوں کو بھیجتا نہ کہ انسانوں کو۔

فَأَمَّا عَادٌ فَاسْتَكْبَرُوا فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَقَالُوا مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً ۖ

اب قوم عاد نے تو بےوجہ زمین میں سرکشی شروع کردی اور کہنے لگے ہم سے زور آور کون ہے؟

اس فقرے سے ان کا مقصود یہ تھا کہ وہ عذاب روک لینے پر قادر ہیں کیونکہ وہ دراز قد اور نہایت زور آور تھے یہ انہوں نے اس وقت کہا جب ان کے پیغمبر حضرت ہود علیہ السلام نے ان کو انذار وتنبیہ کے لیے عذاب الہی سے ڈرایا۔

أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّهَ الَّذِي خَلَقَهُمْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُمْ قُوَّةً ۖ

کیا انہیں یہ نظر نہ آیا کہ جس نے اسے پیدا کیا وہ ان سے (بہت ہی) زیادہ زور آور ہے،

یعنی کیا وہ اللہ سے بھی زیادہ زور آور ہیں، جس نے انہیں پیدا کیا اور انہیں قوت و طاقت سے نوازا۔ کیا ان کے بنانے کے بعد اس کی اپنی قوت و طاقت ختم ہوگئی ہے؟ یہ استفہام استنکار اور توبیخ کے لیے ہے۔

وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يَجْحَدُونَ (۱۵)

وہ (آخر تک) ہماری آیتوں کا (۳) انکار ہی کرتے رہے۔‏

ان معجزات کا جو انبیاء کو ہم نے دیئے تھے یا ان دلائل کا جو پیغمبروں کے ساتھ نازل کیے تھے یا ان آیات تکوینیہ کا جو کائنات میں پھیلی اور بکھری ہوئی ہیں۔

فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا صَرْصَرًا فِي أَيَّامٍ نَحِسَاتٍ لِنُذِيقَهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ

بالآخر ہم نے ان پر ایک تیز تند آندھی (١) منحوس دنوں میں (٢) بھیج دی کہ انہیں دنیاوی زندگی میں ذلت کے عذاب کا مزہ چکھا دیں،

۱۔ صَرْصَرًا ، صرۃ (آواز) سے ہے۔ یعنی ایسی ہوا جس میں سخت آواز تھی، یعنی نہایت تند اور تیز ہوا، جس میں آواز بھی ہوتی ہے

بعض کہتے ہیں یہ صر سے ہے جس کے معنی برد ٹھنڈک کے ہیں یعنی ایسی پالے والی ہوا جو آگ کی طرح جلا ڈالتی ہے

 امام ابن کثیر فرماتے ہیں والحق انہا متصفۃ بجمیع ذلک وہ ہوا ان تمام ہی باتوں سے متصف تھی۔

۲۔ نَحِسَاتٍ کا ترجمہ، بعض نے متواتر پے درپے کا کیا ہے کیونکہ یہ ہوا سات راتیں اور آٹھ دن مسلسل چلتی رہی،

بعض نے گرد و غبار

یہ ایام جن میں ان پر سخت ہوا کا طوفان جاری رہا، انکے لئے منحوس ثابت ہوئے۔ یہ نہیں کہ ایام ہی منحوس ہیں۔

وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَخْزَى ۖ وَهُمْ لَا يُنْصَرُونَ (۱۶)

 اور (یقین مانو) کہ آخرت کا عذاب اس سے بہت زیادہ رسوائی والا اور وہ مدد نہیں کئے جائیں گے۔‏

وَأَمَّا ثَمُودُ فَهَدَيْنَاهُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمَى عَلَى الْهُدَى

رہے قوم ثمود، سو ہم نے ان کی بھی راہبری کی (١) پھر بھی انہوں نے ہدایت پر اندھے پن کو ترجیح دی (٢)

۱۔ یعنی ان کو توحید کی دعوت دی، اس کے دلائل ان کے سامنے واضح کئے اور ان کے پیغمبر حضرت صالح علیہ السلام کے ذریعے سے ان پر حجت تمام کی۔

۲۔  یعنی انہوں نے مخالفت کی حتیٰ کہ اس اونٹنی تک کو ذبح کر ڈالا جو بطور معجزہ ان کی خواہش پر چٹان سے ظاہر کی گئی تھی اور پیغمبر کی صداقت کی دلیل تھی۔

فَأَخَذَتْهُمْ صَاعِقَةُ الْعَذَابِ الْهُونِ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ (۱۷)

جس بنا پر انہیں (سراپا) ذلت کے عذاب، کی کڑک نے ان کے کرتوتوں کے باعث پکڑ لیا۔

صَاعِقَةُ عذاب شدید کو کہتے ہیں ان پر یہ سخت عذاب چنگھاڑ اور زلزلے کی صورت میں آیا جس نے انہیں ذلت و رسوائی کے ساتھ تباہ وبرباد کر دیا۔

وَنَجَّيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ (۱۸)

اور (ہاں) ایمان دار اور پارساؤں کو ہم نے (بال بال) بچا لیا۔‏

وَيَوْمَ يُحْشَرُ أَعْدَاءُ اللَّهِ إِلَى النَّارِ فَهُمْ يُوزَعُونَ (۱۹)

اور جس دن (١) اللہ کے دشمن دوزخ کی طرف لائے جائیں گے اور ان (سب) کو جمع کر دیا جائے گا۔ (۲)‏

۱۔ یہاں اذکر محذوف ہے وہ وقت یاد کرو جب اللہ کے دشمنوں کو جہنم کے فرشتے جمع کریں گے یعنی اول سے آخر تک کے دشمنوں کا اجتماع ہوگا۔

۲۔  یعنی ان کو روک روک کر اول وآخر کو باہم جمع کیا جائے گا۔ (فتح القدیر)

 اس کی مزید تشریح کے لیے دیکھیے سورۃ النمل آیت نمبر ۱۷ کا حاشیہ

حَتَّى إِذَا مَا جَاءُوهَا شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَأَبْصَارُهُمْ وَجُلُودُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (۲۰)

یہاں تک کہ جب بالکل جہنم کے پاس آجائیں گے ان پر ان کے کان پر اور ان کی آنکھیں اور ان کی کھالیں ان کے اعمال کی گواہی دیں گی

یعنی جب وہ اس بات سے انکار کریں گے کہ انہوں نے شرک کا ارتکاب کیا، تو اللہ تعالیٰ ان کے مونہوں پر مہر لگا دے گا اور ان کے اعضاء بول کر گواہی دیں گے کہ یہ فلاں فلاں کام کرتے رہے۔

إِذَا مَا جَاءُوهَا میں مَا زائد ہے تاکید کے لیے انسان کے اندر پانچ حواس ہیں یہاں دو کا ذکر ہے تیسری جلد( کھال) کا ذکر ہے جو مس یا لمس کا آلہ ہے یوں حواس کی تین قسمیں ہوگئیں باقی دو حواس کا ذکر اس لیے نہیں کیا کہ ذوق بوجہ لمس میں داخل ہے کیونکہ یہ چکھنا اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک اس شئے کو زبان کی جلد پر نہ رکھا جائے اسی طرح سونگھنا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ وہ شئے ناک کی جلد پر نہ گزرے اس اعتبار سے جُلُودُ کے لفظ میں تین حواس آ جاتے ہیں۔ فتح القدیر

وَقَالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنَا ۖ

یہ اپنی کھالوں سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف شہادت کیوں دی

یعنی جب مشرکین اور کفار دیکھیں گے کہ خود ان کے اپنے اعضا ان کے خلاف گواہی دے رہے ہیں، تو ازراہ تعجب یا بطور عتاب اور ناراضگی کے، ان سے کہیں گے۔

قَالُوا أَنْطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَهُوَ خَلَقَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (۲۱)

وہ جواب دیں گی ہمیں اس اللہ نے قوت گویائی عطا فرمائی جس نے ہرچیز کو بولنے کی طاقت بخشی ہے،

اسی نے تمہیں اول مرتبہ پیدا کیا اور اسی کی طرف تم سب لوٹائے جاؤ گے۔ (۲)‏

بعض کے نزدیک وَهُوَ سے اللہ کا کلام مراد ہے اس لحاظ سے یہ جملہ مستانفہ ہے اور بعض کے نزدیک جلود انسانی ہی کا اس اعتبار سے یہ انہی کے کلام کا تتمہ ہے

قیامت والے دن انسانی اعضاء کے گواہی دینے کا ذکر اس سے قبل سورہ نور آیت ٤۲، سورہ یسین آیت ٦٥، میں بھی گزر چکا ہے اور صحیح احادیث میں بھی اسے بیان کیا گیا ہے مثلاً:

 جب اللہ کے حکم سے انسانی اعضا بول کر بتلائیں گے تو بندہ کہے گا

بعدا لکن وسحقا فعنکن کنت اناضل

تمہارے لیے ہلاکت اور دوری ہو میں تو تمہاری ہی خاطر چھگڑ رہا اور مدافعت کر رہا تھا۔ ( صحیح مسلم، کتاب الزہد)

 اسی روایت میں یہ بھی بیان ہوا ہے:

 بندہ کہے گا کہ میں اپنے نفس کے سوا کسی کی گواہی نہیں مانوں گا اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا میں اور میرے فرشتے کراما کاتبین گواہی کے لیے کافی نہیں پھر اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کے اعضاء کو بولنے کا حکم دیا جائے گا ۔ (حوالہ مذکورہ)

وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَنْ يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَا أَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُودُكُمْ

اور تم (اپنی بد اعمالیوں) اس وجہ سے پوشیدہ رکھتے ہی نہ تھے کہ تم پر تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں اور تمہاری کھالیں گواہی دیں گی

اس کا مطلب ہے کہ تم گناہ کا کام کرتے ہوئے لوگوں سے تو چھپنے کی کوشش کرتے تھے لیکن اس بات کا کوئی خوف تمہیں نہیں تھا کہ تمہارے خلاف خود تمہارے اپنے اعضا بھی گواہی دیں گے جن سے چھپنے کی ضرورت محسوس کرتے۔ اس کی وجہ ان کا بعث و نشور سے انکار اور اس پر عدم یقین تھا۔

وَلَكِنْ ظَنَنْتُمْ أَنَّ اللَّهَ لَا يَعْلَمُ كَثِيرًا مِمَّا تَعْمَلُونَ (۲۲)

ہاں تم یہ سمجھتے رہے کہ تم جو کچھ کر رہے ہو اس میں سے بہت سے اعمال سے اللہ بےخبر ہے۔

 اس لیے تم اللہ کی حدیں توڑنے اور اس کی نافرمانی کرنے میں بےباک تھے

وَذَلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِي ظَنَنْتُمْ بِرَبِّكُمْ أَرْدَاكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ مِنَ الْخَاسِرِينَ (۲۳)

تمہاری اس بد گمانی نے جو تم نے اپنے رب سے کر رکھی تھی تمہیں ہلاک کر دیا (۱) اور بالآخر تم زیاں کاروں میں ہوگئے۔‏

یعنی تمہارے اس اعتقاد فاسد اور گمان باطل نے کہ اللہ کو ہمارے بہت سے عملوں کا علم نہیں ہوتا تمہیں ہلاکت میں ڈال دیا کیونکہ اس کی وجہ سے تم ہر قسم کا گناہ کرنے میں دلیر اور بےخوف ہوگئے تھے

 اس کی شان نزول میں ایک روایت ہے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

 خانہ کعبہ کے پاس دو قرشی اور ایک ثقفی یا دو ثقفی اور ایک قرشی جمع ہوئے فربہ بدن قلیل الفہم ان میں سے ایک نے کہا کیا تم سمجھتے ہو ہماری باتیں اللہ سنتا ہے؟

دوسرے نے کہا ہماری جہری باتیں سنتا ہے اور سری باتیں نہیں سنتا

 ایک اور نے کہا اگر وہ ہماری جہری باتیں سنتا ہے تو ہماری سری باتیں بھی یقینا ًسنتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے آیت وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ نازل فرمائی۔  (صحیح بخاری، تفسیر سورہ حم السجدۃ)

فَإِنْ يَصْبِرُوا فَالنَّارُ مَثْوًى لَهُمْ ۖ

اب اگر یہ صبر کریں تو بھی ان کا ٹھکانا جہنم ہی ہے۔

وَإِنْ يَسْتَعْتِبُوا فَمَا هُمْ مِنَ الْمُعْتَبِينَ (۲۴)

 اور اگر یہ(عذر و) معافی کے خواستگار ہوں تو بھی (معذور و) معاف نہیں رکھے جائیں گے

ایک دوسرے معنی یہ کئے گئے ہیں کہ اگر وہ منانا چاہیں گے تاکہ وہ جنت میں چلے جائیں تو یہ چیز ان کو کبھی حاصل نہ ہوگی۔  (ایسر التفاسیر و فتح القدیر)

بعض نے اس کا مفہرم یہ بیان کیا ہے کہ وہ دنیا میں دوبارہ بھیجے جانے کی آرزو کریں گے جو منظور نہیں ہوگی۔

 ابن جریر طبری نے کہا کہ مطلب یہ ہے کہ ان کا ابدی ٹھکانا جہنم ہے اس پر صبر کریں تب بھی رحم نہیں کیا جائے گا جیسا کہ دنیا میں بعض دفعہ صبر کرنے والوں پر ترس آ جاتا ہے یا کسی اور طریقے سے وہاں سے نکلنے کی سعی کریں مگر اس میں بھی انہیں ناکامی ہی ہوگی۔

وَقَيَّضْنَا لَهُمْ قُرَنَاءَ فَزَيَّنُوا لَهُمْ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ

اور ہم نے ان کے کچھ ہم نشین مقرر کر رکھے تھے جنہوں نے ان کے اگلے پچھلے اعمال ان کی نگاہوں میں خوبصورت بنا رکھے تھے

ان سے مراد وہ شیاطین انس و جن ہیں جو باطل پر اصرار کرنے والوں کے ساتھ لگ جاتے ہیں، جو انہیں کفر و معاصی کو خوبصورت کر کے دکھاتے ہیں، پس وہ اس گمراہی کی دلدل میں پھنسے رہتے ہیں، حتیٰ کہ انہیں موت آ جاتی ہے اور وہ خسارہ ابدی کے مستحق قرار پاتے ہیں۔

وَحَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ فِي أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمْ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ ۖ إِنَّهُمْ كَانُوا خَاسِرِينَ (۲۵)

اور ان کے حق میں بھی اللہ کا قول امتوں کے ساتھ پورا ہوا جو ان سے پہلے جنوں اور انسانوں کی گزر چکی ہیں۔ یقیناًوہ زیاں کار ثابت ہوئے۔‏

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَسْمَعُوا لِهَذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ (۲۶)

اور کافروں نے کہا اس قرآن کی سنو ہی مت (١) (اس کے پڑھے جانے کے وقت) اور بےہودہ گوئی کرو (٢) کیا عجب کہ تم غالب آجاؤ (٣)‏

۱۔ یہ انہوں نے باہم ایک دوسرے کو کہا۔بعض نے لَا تَسْمَعُوا کے معنی کیے ہیں اس کی اطاعت نہ کرو۔

۲۔  یعنی شور کرو، تالیاں، سیٹیاں بجاؤ، چیخ چیخ کر باتیں کرو تاکہ حاضرین کے کانوں میں قرآن کی آواز نہ جائے اور ان کے دل قرآن کی بلاغت اور خوبیوں سے متا ثر نہ ہوں۔

۳۔  یعنی ممکن ہے اس طرح شور کرنے کی وجہ سے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) قرآن کی تلاوت ہی نہ کرے جسے سن کر لوگ متاثر ہوتے ہیں۔

فَلَنُذِيقَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا عَذَابًا شَدِيدًا وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي كَانُوا يَعْمَلُونَ (۲۷)

پس یقیناً ہم ان کافروں کو سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔ اور انہیں ان کے بدترین اعمال کا بدلہ (ضرور) ضرور دیں گے

یعنی ان کے بعض اچھے عملوں کی کوئی قیمت نہ ہوگی، مثلاً اکرام ضعیف، صلہ رحمی وغیرہ، کیونکہ ایمان کی دولت سے وہ محروم رہے تھے، البتہ برے عملوں کی جزا انہیں ملے گی، جن میں قرآن کریم سے روکنے کا جرم بھی ہے۔

ذَلِكَ جَزَاءُ أَعْدَاءِ اللَّهِ النَّارُ ۖ لَهُمْ فِيهَا دَارُ الْخُلْدِ ۖ جَزَاءً بِمَا كَانُوا بِآيَاتِنَا يَجْحَدُونَ (۲۸)

اللہ کے دشمنوں کی سزا یہی دوزخ کی آگ ہے جس میں ان کا ہمیشگی کا گھر ہے (یہ) بدلہ ہے ہماری آیتوں سے انکار کرنے کا۔‏

آیتوں سے مراد جیسا کہ پہلے بھی بتلایا گیا ہے وہ دلائل و براہین واضحہ ہیں جو اللہ تعالیٰ انبیاء پر نازل فرماتا ہے یا وہ معجزات ہیں جو انہیں عطا کیے جاتے ہیں یا دلائل تکوینیہ ہیں جو کائنات یعنی آفاق و انفس میں پھیلے ہوئے ہیں کافر ان سب ہی کا انکار کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ایمان کی دولت سے محروم رہتے ہیں۔

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا رَبَّنَا أَرِنَا اللَّذَيْنِ أَضَلَّانَا مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ نَجْعَلْهُمَا تَحْتَ أَقْدَامِنَا لِيَكُونَا مِنَ الْأَسْفَلِينَ (۲۹)

اور کافر لوگ کہیں گے اے ہمارے رب! ہمیں جنوں انسانوں (کے وہ دونوں فریق) دکھا جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا (١) ہے

(تاکہ) ہم انہیں اپنے قدموں تلے ڈال دیں تاکہ وہ جہنم میں سب سے نیچے (سخت عذاب میں) ہوجائیں۔ (۲)‏

۱۔ اس کا مفہوم واضح ہے کہ گمراہ کرنے والے شیاطین ہی نہیں ہوتے تاہم بعض نے جن سے ابلیس اور انسانوں سے قابیل مراد لیا ہے، جس نے انسانوں میں سے سب سے پہلے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کر کے ظلم اور کبیرہ گناہ کا ارتکاب کیا اور حدیث کے مطابق قیامت تک ہونے والے ناجائز قتلوں کے گناہ کا ایک حصہ بھی اس کو ملتا رہے گا ہمارے خیال میں پہلا مفہوم زیادہ صحیح ہے۔

۲۔  یعنی اپنے قدموں سے انہیں روندیں اور اس طرح ہم انہیں خوب ذلیل و رسوا کریں

 جہنمیوں کو اپنے لیڈروں پر جو غصہ ہوگا اس کی تشفی کے لیے وہ یہ کہیں گے ورنہ دونوں ہی مجرم ہیں اور دونوں ہی یکساں جہنم کی سزا بھگتیں گے جیسے دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَلَكِنْ لَا تَعْلَمُونَ۔ (الاعرافـ ۳۸)

جہنمیوں کے تذکرے کے بعد اللہ تعالیٰ اہل ایمان کا تذکرہ فرما رہا ہے جیسا کہ عام طور پر قرآن کا انداز ہے تاکہ ترہیب کے ساتھ ترغیب اور ترغیب کے ساتھ ترہیب کا بھی اہتمام رہے گویا انذار کے بعد اب تبشیر۔

إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ

 (واقعی) جن لوگوں نے کہا ہمارا پروردگار اللہ ہے (١) اور پھر اسی پر قائم رہے (۲) ان کے پاس فرشتے (یہ کہتے ہوئے) آتے ہیں (۳)

۱۔ یعنی ایک اللہ وحدہ لا شریک رب بھی وہی اور معبود بھی وہی یہ نہیں کہ ربوبیت کا تو اقرار لیکن الوہیت میں دوسروں کو بھی شریک کیا جارہا ہے۔

۲۔  یعنی سخت سے سخت حالات میں بھی ایمان و توحید پر قائم رہے، اس سے انحراف نہیں کیا

بعض نے استقامت کے معنی اخلاص کیے ہیں یعنی صرف ایک اللہ ہی کی عبادت واطاعت کی جس طرح حدیث میں بھی آتا ہے:

 ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا مجھے ایسی بات بتلا دیں کہ آپ کے بعد کسی سے مجھے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہ رہے

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 قل آمنت باللہ ثم استقم  

کہہ میں اللہ پر ایمان لایا پھر اس پر استقامت اختیار کر۔(صحیح مسلم کتاب الایمان)

 ۳۔  یعنی موت کے وقت،

 بعض کہتے ہیں، فرشتے یہ خوشخبری تین جگہوں پر دیتے ہیں، موت کے وقت، قبر میں اور قبر سے دوبارہ اٹھتے وقت۔

أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ (۳۰)

کہ تم کچھ بھی اندیشہ اور غم نہ کرو (۱) (بلکہ) اس جنت کی بشارت سن لو جس کا تم وعدہ دیئے گئے ہو ۔‏(۲)

۱۔  یعنی آخرت میں پیش آنے والے حالات کا اندیشہ اور دنیا میں مال و اولاد جو چھوڑ آئے ہو، ان کا غم نہ کرو۔

۲۔ یعنی دنیا میں جس کا وعدہ تمہیں دیا گیا تھا۔

نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ

تمہاری دنیاوی زندگی میں بھی ہم تمہارے رفیق تھے اور آخرت میں بھی رہیں گے

یہ مزید خوشخبری ہے، یہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ بعض کے نزدیک یہ فرشتوں کا قول ہے، دونوں صورتوں میں مؤمن کے لئے یہ عظیم خوشخبری ہے۔

وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ (۳۱)

جس چیز کو تمہارا جی چاہے اور جو کچھ تم مانگو سب تمہارے لئے (جنت میں موجود) ہے۔‏

نُزُلًا مِنْ غَفُورٍ رَحِيمٍ (۳۲)

غفور و رحیم (معبود) کی طرف سے یہ سب کچھ بطور مہمانی کے ہے۔‏

وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ (۳۳)

اور اس سے زیادہ اچھی بات والا کون ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک کام کرے اور کہے کہ میں یقیناً مسلمانوں میں سے ہوں

یعنی لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے کے ساتھ خود بھی ہدایت یافتہ، دین کا پابند اور اللہ کا مطیع ہے۔

وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۚ

نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی

بلکہ ان میں عظیم فرق ہے۔

ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ (۳۴)

برائی کو بھلائی سے دفع کرو پھر وہی جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی ہے ایسا ہو جائے گا جیسے دلی دوست۔

 یہ ایک بہت ہی اہم اخلاقی ہدایت ہے کہ برائی کو اچھائی کے ساتھ ٹالو یعنی برائی کا بدلہ احسان کے ساتھ، زیادتی کا بدلہ عفو کے ساتھ غضب کا صبر کے ساتھ بےہودگیوں کا جواب چشم پوشی کےساتھ اور مکروہات کا جواب برداشت اور حلم کے ساتھ دیا جائے اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہارا دشمن دوست بن جائے گا دور دور رہنے والا قریب ہو جائے گا اور خون کا پیاسا تمہارا گرویدہ اور جانثار ہو جا‏ئے گا۔

وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا

اور یہ بات انہیں نصیب ہوتی ہے جو صبر کریں

یعنی برائی کو بھلائی کے ساتھ ٹالنے کی خوبی اگرچہ نہایت مفید اور بڑی ثمر آور ہے لیکن اس پر عمل وہی کر سکیں گے جو صابر ہونگے۔ غصے کو پی جانے والے اور ناپسندیدہ باتوں کو برداشت کرنے والے۔

وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ (۳۵)

اور اسے سوائے بڑے نصیبے والوں کے کوئی نہیں پا سکتا

 حَظٍّ عَظِيمٍ (بڑا نصیب) سے مراد جنت ہے۔

یعنی مذکورہ خوبیاں اس کو حاصل ہوتی ہیں جو بڑے نصیب والا ہوتا ہے، یعنی جنتی جس کے لئے جنت میں جانا لکھ دیا گیا ہو۔

وَإِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ ۖ

اور اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آئے تو اللہ کی پناہ طلب کرو

یعنی شیطان، شریعت کے کام سے پھیرنا چاہے یا احسن طریقے سے برائی کے دفع کرنے میں رکاوٹ ڈالے تو اس کے شر سے بچنے کے لئے اللہ کی پناہ طلب کرو۔

إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (۳۶)

یقیناً وہ بہت ہی سننے والا جاننے والا ہے

 اور جو ایسا ہو یعنی ہر ایک کی سننے والا اور ہر بات کو جاننے والا، وہی پناہ کے طلب گاروں کو پناہ دے سکتا ہے۔

اس کے بعد اب پھر بعض ان نشانیوں کا تذکرہ کیا جا رہا ہے جو اللہ کی توحید، اس کی قدرت کاملہ اور اس کی قوت تصرف پر دلالت کرتی ہیں۔

وَمِنْ آيَاتِهِ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ ۚ

اور دن رات اور سورج چاند بھی (اسی کی) نشانیوں میں سے ہیں

یعنی رات کو تاریک بنانا تاکہ لوگ اس میں آرام کر سکیں دن کو روشن بنانا تاکہ کسب معاش میں پریشانی نہ ہو پھر یکے بعد دیگرے ایک دوسرے کا آنا جانا اور کبھی رات کا لمبا اور دن کا چھوٹا ہونا اور کبھی اس کے برعکس دن کا لمبا اور رات کا چھوٹا ہوتا اسی طرح سورج اور چاند کا اپنے اپنے وقت پر طلوع وغرب ہونا اور اپنے اپنے مدار پر اپنی منزلیں طے کرتے رہنا اور آپس میں باہمی تصادم محفوظ رہنا، یہ سب اس بات کی دلیلیں ہیں کہ ان کا یقینا کوئی خالق اور مالک ہے نیز وہ ایک اور صرف ایک ہے اور کائنات میں صرف اسی کا تصرف اور حکم چلتا ہے اگر تدبیر و امر کا اختیار رکھنے والے ایک سے زیادہ ہوتے ہیں تو یہ نظام کائنات ایسے مستحکم اور لگے بندھے طریقے سے کبھی نہیں چل سکتا تھا۔

لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ (۳۷)

تم سورج کو سجدہ نہ کرو نہ چاند کو (۱) بلکہ سجدہ اس اللہ کے لئے کرو جس نے سب کو پیدا کیا ہے (۲) اگر تمہیں اس کی عبادت کرنی ہے تو۔‏

۱۔  اس لئے کہ یہ بھی تمہاری طرح اللہ کی مخلوق ہیں، خدائی اختیارات سے بہرہ ور یا ان میں شریک نہیں ہیں

۲۔ خَلَقَهُنَّ میں جمع مونث کی ضمیر اس لیے آئی ہے کہ یہ یا تو خلق ھذہ الاربعۃ المذکورۃ کے مفہوم میں ہے کیونکہ غیر عاقل کی جمع کا حکم جمع مؤنث ہی کا ہے یا اس کا مرجع صرف شمس وقمر ہی ہیں اور بعض ازمہ نحاۃ کے نزدیک تثنیہ بھی جمع ہے یا پھر مراد الآیات ہیں ۔ فتح القدیر

فَإِنِ اسْتَكْبَرُوا فَالَّذِينَ عِنْدَ رَبِّكَ يُسَبِّحُونَ لَهُ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَهُمْ لَا يَسْأَمُونَ  (۳۸) ۩

پھر بھی اگر یہ کبر و غرور کریں تو وہ (فرشتے) جو آپ کے رب کے نزدیک ہیں وہ تو رات دن اس کی تسبیح بیان کر رہے ہیں

 اور (کسی وقت بھی) نہیں اکتاتے۔‏ (سجدہ)

وَمِنْ آيَاتِهِ أَنَّكَ تَرَى الْأَرْضَ خَاشِعَةً فَإِذَا أَنْزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ ۚ

اور اس اللہ کی نشانیوں میں سے (یہ بھی) ہے کہ تو زمین کو دبی دبائی دیکھتا ہے (١) پھر جب ہم اس پر مینہ برساتے ہیں

 تو وہی ترو تازہ ہو کر ابھرنے لگتی ہے (٢)

۱۔ خَاشِعَةً کا مطلب، خشک اور قحط زدہ یعنی مردہ۔

۲۔ یعنی انوارع و اقسام کے خوش ذائقہ پھل اور غلے پیدا کرتی ہے۔

إِنَّ الَّذِي أَحْيَاهَا لَمُحْيِي الْمَوْتَى ۚ إِنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (۳۹)

جس نے اسے زندہ کیا وہی یقینی طور پر مردوں کو بھی زندہ کرنے والا ہے (٣)‏ بیشک وہ ہر (ہر) چیز پر قادر ہے۔

مردہ زمین کو بارش کے ذریعے سے اس طرح زندہ کر دینا اور روئیدگی کے قابل بنا دینا، اس بات کی دلیل ہے کہ وہ مردوں کو بھی یقینا ًزندہ کر دے گا۔

إِنَّ الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي آيَاتِنَا لَا يَخْفَوْنَ عَلَيْنَا ۗ

بیشک جو لوگ ہماری آیتوں میں کج روی کرتے ہیں (۱) وہ (کچھ) ہم سے مخفی نہیں (۲)

۱۔ یعنی ان کو مانتے نہں بلکہ ان سے اعراض، انحراف اور ان کی تکذیب کرتے ہیں۔

 حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے الحاد کے معنی کیے ہیں وضع الکلام علی غیر مواضعہ جس کی رو سے اس میں وہ باطل فرقے بھی آ جاتے ہیں جو اپنے غلط عقائد ونظریات کے اثبات کے لیے آیات الہی میں تحریف معنوی اور دجل وتلبیس سے کام لیتے ہیں۔

۲۔  یہ ملحدین (چاہے وہ کسی قسم کے ہوں) کے لئے سخت وعید ہے۔

أَفَمَنْ يُلْقَى فِي النَّارِ خَيْرٌ أَمْ مَنْ يَأْتِي آمِنًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ

 (بتلاؤ تو) جو آگ میں ڈالا جائے وہ اچھا ہے یا وہ جو امن و امان کے ساتھ قیامت کے دن آئے؟

یعنی کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟

 نہیں، یقینا ًنہیں

 علاوہ ازیں اس سے اشارہ کر دیا کہ کافر آگ میں ڈالے جائیں گے اور اہل ایمان قیامت والے دن بےخوف ہونگے۔

اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ ۖ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (۴۰)

تم جو چاہو کرتے چلے جاؤ (٣) وہ تمہارا سب کیا کرایا دیکھ رہا ہے۔

یہ امر کا لفظ ہے، لیکن یہاں اس سے مقصود وعید اور تہدید ہے۔ کفر و شرک اور معیصت کے لئے اذن اور جواز نہیں ہے۔

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِالذِّكْرِ لَمَّا جَاءَهُمْ ۖ وَإِنَّهُ لَكِتَابٌ عَزِيزٌ (۴۱)

جن لوگوں نے اپنے پاس قرآن پہنچ جانے کے باوجود اس سے کفر کیا، (وہ بھی ہم سے پوشیدہ نہیں) (١)  یہ با وقعت کتاب ہے (٢)‏

۱۔ بریکٹ کے الفاظ ان کی خبر محذوف کا ترجمہ ہیں بعض نے کچھ اور الفاظ محذوف مانے ہیں مثلا ًیجازون بکفرھم انہیں ان کے کفر کی سزا دی جائے گی یا ھالکون وہ ہلاک ہونے والے ہیں یا یعذبون انہیں ان کے کفر کی سزا دی جائے گی یا (وہ ہلاک ہونے والے ہیں)

 ۲۔  یعنی یہ کتاب، جس سے اعراض انحراف کیا جاتا ہے معارضے اور طعن کرنے والوں کے طعن سے بہت بلند اور ہر عیب سے پاک ہے۔

لَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ ۖ

جس کے پاس باطل پھٹک نہیں سکتا نہ اس کے آگے سے اور نہ اس کے پیچھے سے،

تَنْزِيلٌ مِنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ (۴۲)

یہ ہے نازل کردہ حکمتوں والے خوبیوں والے (اللہ) کی طرف سے

یعنی وہ ہر طرح سے محفوظ ہے، آگے سے، کا مطلب ہے کمی اور پیچھے سے، کا مطلب ہے زیادتی یعنی باطل اس کے آگے سے آ کر اس میں کمی اور نہ اس کے پیچھے سے آ کر اضافہ کر سکتا ہے اور نہ کوئی تغیر و تحریف ہی کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ کیونکہ یہ اس کی طرف سے نازل کردہ ہے جو اپنے اقوال وافعال میں حکیم ہے اور حمید یعنی محمود ہے یا وہ جن باتوں کا حکم دیتا ہے اور جن سے منع فرماتا ہے عواقب اور غایات کے اعتبار سے سب محمود ہیں یعنی اچھے اور مفید ہیں۔  (ابن کثیر)

مَا يُقَالُ لَكَ إِلَّا مَا قَدْ قِيلَ لِلرُّسُلِ مِنْ قَبْلِكَ ۚ

آپ سے وہی کہا جاتا ہے جو آپ سے پہلے کے رسولوں سے بھی کہا گیا ہے

یعنی پچھلی قوموں نے اپنے پیغمبروں کی تکذیب کے لئے جو کچھ کہا یہ ساحر ہیں، مجنون ہیں، کذاب ہیں وغیرہ وغیرہ، وہی کچھ کفار مکہ نے بھی آپ کو کہا۔ یہ گویا آپ کو تسلی دی جا رہی ہے کہ آپکی تکذیب اور آپ کی سحر، کذب اور جنون کی طرف نسبت، نئی نہیں ہے، ہر پیغمبر کے ساتھ یہی کچھ ہوتا آیا ہے جیسے دوسرے مقام پر فرمایا:

مَا أَتَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا قَالُوا سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ، أَتَوَاصَوْا بِهِ ۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ ۔(الذاریات ۵۲،۵۳)

دوسرا مطلب اس کا یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے رسولوں کو بھی کہی گئی تھیں اس لیے کہ تمام شریعتیں ان باتوں پر متفق رہی ہیں بلکہ سب کی اولین دعوت ہی توحید و اخلاص تھی۔ فتح القدیر

إِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ وَذُو عِقَابٍ أَلِيمٍ (۴۳)

یقیناً آپ کا رب معافی والا (۱) اور دردناک عذاب والا ہے ۔ (۲) ‏

۱۔  یعنی اہل ایمان و توحید کے لئے جو مستحق مغفرت ہیں۔

۲۔  ان کے لئے جو کافر اور اللہ کے پیغمبروں کے دشمن ہیں۔ یہ آیت بھی سورہ حجر کی  آیت ۴۹،۵۰ کی طرح ہے۔

نَبِّئْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ، وَأَنَّ عَذَابِي هُوَ الْعَذَابُ الْأَلِيمُ

وَلَوْ جَعَلْنَاهُ قُرْآنًا أَعْجَمِيًّا لَقَالُوا لَوْلَا فُصِّلَتْ آيَاتُهُ ۖ

اور اگر ہم اسے عجمی زبان کا قرآن بناتے تو کہتے (۱) کہ اس کی آیتیں صاف صاف بیان کیوں نہیں کی گئیں؟ (۲)

۱۔ یعنی عربی کے بجائے کسی اور زبان میں قرآن نازل کرتے۔

۲۔  یعنی ہماری زبان میں اسے بیان کیوں نہیں کیا گیا جسے ہم سمجھ سکتے کیونکہ ہم تو عرب ہیں عجمی زبان نہیں سمجھتے

أَأَعْجَمِيٌّ وَعَرَبِيٌّ ۗ

یہ کیا کہ عجمی کتاب اور آپ عربی رسول؟

یہ بھی کافروں ہی کا قول ہے کہ وہ تعجب کرتے کہ رسول تو عربی ہے اور قرآن اس پر عجمی زبان میں نازل ہوا ہے

 مطلب یہ ہے کہ قرآن کو عربی زبان میں نازل فرما کر اس کے اولین مخاطب عربوں کے لیے کوئی عذر باقی نہیں رہنے دیا ہے اگر یہ غیر عربی زبان میں ہوتا تو وہ عذر کر سکتے تھے۔

قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدًى وَشِفَاءٌ ۖ

آپ کہہ دیجئے! کہ یہ تو ایمان والوں کے لئے ہدایت و شفا ہے

وَالَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ فِي آذَانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى ۚ

اور جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں تو (بہرہ پن اور) بوجھ ہے اور یہ ان پر اندھا پن ہے،

أُولَئِكَ يُنَادَوْنَ مِنْ مَكَانٍ بَعِيدٍ (۴۴)

یہ وہ لوگ ہیں جو کسی بہت دور دراز جگہ سے پکارے جا رہے ہیں

یعنی جس طرح دور کا شخص، دوری کی وجہ سے پکارنے والے کی آواز سننے سے قاصر رہتا ہے، اسی طرح ان لوگوں کی عقل و فہم میں قرآن نہیں آتا۔

وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَاخْتُلِفَ فِيهِ ۗ

یقیناً ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی تھی، سو اس میں بھی اختلاف کیا گیا

وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۚ

 اور اگر (وہ) بات نہ ہوتی (جو) آپ کے رب کی طرف سے پہلے ہی مقرر ہو چکی ہے (١) تو ان کے درمیان (کبھی) کا فیصلہ ہو چکا ہوتا (٢)

۱۔ کہ ان کے عذاب دینے سے پہلے مہلت دی جائے گی۔

وَلَكِنْ يُؤَخِّرُهُمْ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى (۳۵:۴۵)

۲۔  یعنی فوراً عذاب دے کر ان کو تباہ کر دیا گیا ہوتا۔

وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مُرِيبٍ (۴۵)

یہ لوگ تو اسکے بارے میں سخت بےچین کرنے والے شک میں ہیں

یعنی ان کا انکار عقل و بصیرت کی وجہ سے نہیں، بلکہ محض شک کی وجہ سے ہے جو ان کو بےچین کئے رکھتا ہے۔

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا ۗ وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ (۴۶)

جو شخص نیک کام کرے گا وہ اپنے نفع کے لئے اور جو برا کام کرے گا اس کا وبال بھی اسی پر ہے۔ اور آپ کا رب بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں

اس لئے کہ وہ عذاب صرف اسی کو دیتا ہے جو گناہ گار ہوتا ہے، نہ کہ جس کو چاہے، یوں ہی عذاب میں مبتلا کر دے۔

إِلَيْهِ يُرَدُّ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ

قیامت کا علم اللہ ہی کی طرف لوٹایا جاتا ہے

یعنی اللہ کے سوا اس کے وقوع کا علم کسی کو نہیں۔ اس لئے جب حضرت جبرائیل علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قیامت کے واقع ہونے کے بارے میں پوچھا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا :

 اس کی بابت مجھے بھی اتنا علم ہے، جتنا تجھے ہے، میں تجھ سے زیادہ نہیں جانتا۔

دوسرے مقامات پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

إِلَى رَبِّكَ مُنْتَهَاهَا (۷۹:۴۲)

لَا يُجَلِّيهَا لِوَقْتِهَا إِلَّا هُوَ (۷:۱۸۷)

وَمَا تَخْرُجُ مِنْ ثَمَرَاتٍ مِنْ أَكْمَامِهَا وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنْثَى وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِهِ ۚ

اور جو جو پھل اپنے شگوفوں میں سے نکلتے ہیں اور جو مادہ حمل سے ہوتی ہے اور جو بچے وہ جنتی ہے سب کا علم اسے ہے

یہ اللہ کے علم کامل و محیط کا بیان ہے اور اس کی صفت علم میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے

 یعنی اس طرح کا علم کامل کسی کو حاصل نہیں، حتیٰ کے انبیاء علیہم السلام کو بھی نہیں انہیں بھی اتنا ہی علم ہے جتنا اللہ تعالیٰ نے انہیں وحی کے ذریعے سے بتلا دیتا ہے۔ اور اس علم وحی کا تعلق بھی منصب نبوت اور اس کے تقاضوں کی ادائیگی سے متعلق ہی ہوتا ہے نہ کہ دیگر فنون و معاملات سے متعلق‘ اسی لیے کسی بھی نبی اور رسول کو‘ چاہے وہ کتنی ہی عظمت شان کا حامل ہو’ عالم ما کان وما یکون‘ کہنا جائز نہیں۔ کیونکہ یہ صرف ایک اللہ کی شان اور اس کی صفت ہے۔ جس میں کسی اور کو شریک ماننا شرک ہو گا۔

وَيَوْمَ يُنَادِيهِمْ أَيْنَ شُرَكَائِي قَالُوا آذَنَّاكَ مَا مِنَّا مِنْ شَهِيدٍ (۴۷)

اور جس دن اللہ تعالیٰ ان (مشرکوں) کو بلا کر دریافت فرمائے گا میرے شریک کہاں ہیں، وہ جواب دیں گے کہ

ہم نے تو تجھے کہہ سنایا کہ ہم میں سے تو کوئی اس کا گواہ نہیں ۔‏(٣)

 یعنی آج ہم میں سے کوئی شخص یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ تیرا کوئی شریک ہے؟

وَضَلَّ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَدْعُونَ مِنْ قَبْلُ ۖ وَظَنُّوا مَا لَهُمْ مِنْ مَحِيصٍ (۴۸)

اور یہ جن (جن) کی پرستش اس سے پہلے کرتے تھے وہ ان کی نگاہ سے گم ہوگئے (١) اور انہوں نے سمجھ لیا ان کے لئے کوئی بچاؤ نہیں (٢)‏

۱۔ یعنی وہ ادھر ادھر ہوگئے اور حسب گمان انہوں نے کسی کو فائدہ نہیں پہنچایا۔

۲۔  یہ گمان، یقین کے معنی میں ہیں یعنی قیامت والے دن وہ یقین کرنے پر مجبور ہوں گے کہ انہیں اللہ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہیں۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا:

وَرَأَى الْمُجْرِمُونَ النَّارَ فَظَنُّوا أَنَّهُمْ مُوَاقِعُوهَا وَلَمْ يَجِدُوا عَنْهَا مَصْرِفًا ۔  (۱۸:۵۳)

لَا يَسْأَمُ الْإِنْسَانُ مِنْ دُعَاءِ الْخَيْرِ وَإِنْ مَسَّهُ الشَّرُّ فَيَئُوسٌ قَنُوطٌ (۴۹)

بھلائی کے مانگنے سے انسان تھکتا نہیں (١)اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچ جائے تو مایوس اور نا امید ہو جاتا ہے ۔‏(۲)

۱۔ یعنی دنیا کا مال واسباب، صحت وقوت، عزت و رفعت اور دیگر دنیاوی نعمتوں کے مانگنے سے انسان نہیں تھکتا، بلکہ مانگتا ہی رہتا ہے۔

 انسان سے مراد انسانوں کی غالب اکثریت ہے۔

۲۔ یعنی تکلیف پہنچنے پر فوراً مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے جب کہ اللہ کے مخلص بندوں کا حال اس سے مختلف ہوتا ہے، وہ ایک تو دنیا کے طالب نہیں ہوتے، ان کے سامنے ہر وقت آخرت ہی ہوتی ہے، دوسرے تکلیف پہنچنے پر بھی اللہ کی رحمت اور اس کے فضل سے مایوس نہیں ہوتے، بلکہ آزمائشوں کو بھی کفارہ سیأت اور رفع درجات کا باعث گردانتے ہیں، گویا مایوسی ان کے قریب بھی نہیں پھٹکتی۔

وَلَئِنْ أَذَقْنَاهُ رَحْمَةً مِنَّا مِنْ بَعْدِ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُ لَيَقُولَنَّ هَذَا لِي

اور جو مصیبت اسے پہنچ چکی ہے اس کے بعد اگر ہم اسے کسی رحمت کا مزہ چکھائیں تو وہ کہہ اٹھتا ہے کہ اس کا تو میں حقدار ہی تھا  

یعنی اللہ کے ہاں میں محبوب ہوں، وہ مجھ سے خوش ہے، اسی لئے مجھے وہ اپنی نعمتوں سے نوازتا ہے۔ حالانکہ دنیا کی کمی بیشی اس کی محبت یا نارضگی کی علامت نہیں ہے۔ بلکہ صرف آزمائش کے لئے اللہ ایسا کرتا ہے تاکہ وہ دیکھے کہ نعمتوں میں اس کا شکر کون کر رہا ہے اور تکلیفوں میں صابر کون ہے؟

وَمَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَلَئِنْ رُجِعْتُ إِلَى رَبِّي إِنَّ لِي عِنْدَهُ لَلْحُسْنَى ۚ

میں تو خیال نہیں کر سکتا کہ قیامت قائم ہوگی اور اگر میں اپنے رب کے پاس واپس گیا تو بھی یقیناً میرے لئے اس کے پاس بھی بہتری ہے،

یہ کہنے والا منافق یا کافر ہے، کوئی مؤمن ایسی بات نہیں کہہ سکتا۔ کافر ہی یہ سمجھتا ہے کہ میری دنیا خیر کے ساتھ گزر رہی ہے تو آخرت بھی میرے لئے ایسی ہی ہوگی۔

فَلَنُنَبِّئَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِمَا عَمِلُوا وَلَنُذِيقَنَّهُمْ مِنْ عَذَابٍ غَلِيظٍ (۵۰)

 یقیناً ہم ان کفار کو ان کے اعمال سے خبردار کریں گے اور انہیں سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔‏

وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَى الْإِنْسَانِ أَعْرَضَ وَنَأَى بِجَانِبِهِ

اور جب ہم انسان پر اپنا انعام کرتے ہیں تو وہ منہ پھیر لیتا ہے اور کنارہ کش ہو جاتا ہے

یعنی حق سے منہ پھیر لیتا ہے اور حق کی اطاعت سے اپنا پہلو بدل لیتا ہے اور تکبر کا اظہار کرتا ہے۔

وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ فَذُو دُعَاءٍ عَرِيضٍ (۵۱)

اور جب اسے مصیبت پڑتی ہے تو بڑی لمبی چوڑی دعائیں کرنے والا بن جاتا ہے۔‏

یعنی بارگاہ الہی میں تضرع و زاری کرتا ہے تاکہ وہ مصیبت دور فرما دے۔

یعنی شدت میں اللہ کو یاد کرتا ہے، خوش حالی میں بھول جاتا ہے نزول نقمت کے وقت اللہ سے فریادیں کرتا ہے، حصول نعمت کے وقت اسے وہ یاد نہیں رہتا۔

قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ كَانَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ ثُمَّ كَفَرْتُمْ بِهِ مَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ هُوَ فِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ (۵۲)

آپ کہہ دیجئے! کہ بھلا یہ تو بتاؤ کہ اگر یہ قرآن اللہ کی طرف سے آیا ہوا ہو پھر تم نے اسے نہ مانا

بس اس سے بڑھ کر بہکا ہوا کون ہوگا (١) جو مخالفت میں (حق سے) دور چلا جائے۔‏(۲)

۱۔ یعنی ایسی حالت میں تم سے زیادہ گمراہ اور تم سے زیادہ دشمن کون ہوگا۔

۲۔ شِقَاقٍ کے معنی ہیں ضد، عناد اور مخالفت بَعِيدٍ مل کر اس میں اور مبالغہ ہو جاتا ہے۔

 یعنی جو بہت زیادہ مخالف اور عناد سے کام لیتا ہے، حتی کہ اللہ کے نازل کردہ قرآن کی بھی تکذیب کر دیتا ہے، اس سے بڑھ کر گمراہ اور بد بخت کون ہوسکتا ہے؟

سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ ۗ

عنقریب ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاق عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی اپنی ذات میں بھی یہاں تک کہ ان پر کھل جائے کہ حق یہی ہے

جن سے قرآن کی صداقت اور اس کا من جانب اللہ ہونا واضح ہوجائے گا

یعنی أَنَّهُ میں ضمیر کا مرجع قرآن ہے بعض نے اس کا مرجع اسلام یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا ہے۔ مآل سب کا ایک ہی ہے۔

 آفَاقِ افق کی جمع ہے کنارہ مطلب ہے کہ ہم اپنی نشانیاں باہر کناروں میں بھی دکھائیں گے اور خود انسان کے اپنے نفسوں کے اندر بھی۔ چنانچہ آسمان و زمین کے کناروں میں بھی قدرت کی بڑی بڑی نشانیاں ہیں مثلا ًسورج، چاند، ستارے، رات اور دن، ہوا اور بارش، گرج چمک، بجلی، کڑک، نباتات وجمادات، اشجار، پہاڑ اور انہار و بحار وغیرہ۔

 اور أنْفُس سے انسان کا وجود، جن اخلاط ومواد اور ہیئتوں پر مرکب ہے وہ مراد ہیں۔ جن کی تفصیلات طب وحکمت کا دلچسپ موضوع ہے۔ بعض کہتے ہیں، آفاق سے مراد شرق وغرب کے وہ دور دراز کے علاقے ہیں۔ جن کی فتح کو اللہ نے مسلمانوں کے لیے آسان فرما دیا اور أنْفُس سے مراد خود عرب کی سرزمین پر مسلمانوں کی پیش قدمی ہے جیسے جنگ بدر اور فتح مکہ وغیرہ فتوحات میں مسلمانوں کو عزت وسرفرازی عطا کی گئی

أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ (۵۳)

کیا آپ کے رب کا ہرچیز سے واقف و آگاہ ہونا کافی نہیں

استفہام اقراری ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے اقوال و افعال کے دیکھنے کے لئے کافی ہے، اور وہی اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے جو اس کے سچے رسول حضرت محمدﷺ پر نازل ہوا۔

أَلَا إِنَّهُمْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقَاءِ رَبِّهِمْ ۗ

یقین جانو! کہ یہ لوگ اپنے رب کے روبرو جانے سے شک میں ہیں

اس لئے اس کی بابت غورو فکر نہیں کرتے، نہ اس کے لئے عمل کرتے ہیں اور نہ اس دن کا کوئی خوف ان کے دلوں میں ہے۔

أَلَا إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ (۵۴)

یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ ہرچیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔

بنابریں اس کے لیے قیامت کا وقوع قطعاً مشکل امر نہیں کیونکہ تمام مخلوقات پر اس کا غلبہ وتصرف ہے وہ اس میں جس طرح چاہے تصرف کرے کرتا ہے کرسکتا ہے اور کرے گا کوئی اس کو روکنے والا نہیں ہے۔

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter