Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Luqman

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

Noting by Maulana Salahuddin Yusuf

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


 الم (۱)

الم

یہ حروف مقطعات ہیں جن کے معنی و مراد کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔

تاہم بعض مفسرین نے اس کے دو فوائد بڑے اہم بیان کئے ہیں۔

-  ایک یہ کہ یہ قرآن اسی قسم کے حروف مقطعات سے ترتیب و تالیف پایا ہے جس کی مثل تالیف پیش کرنے سے عرب عاجز آگئے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ قرآن اللہ ہی کا نازل کردہ ہے اور جس پیغمبر پر نازل ہوا ہے وہ سچا رسول ہے جو شریعت وہ لے کر آیا ہے، انسان اس کا محتاج ہے اور اس کی اصلاح اور سعادت کی تکمیل اسی شریعت سے ممکن ہے۔

-  دوسرا یہ کہ مشرکین اپنے ساتھیوں کو اس قرآن کے سننے سے روکتے تھے مبادا وہ اس سے متاثر ہو کر مسلمان ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے مختلف سورتوں کا آغاز ان حروف مقطعات سے فرمایا تاکہ وہ اس کے سننے پر مجبور ہوجائیں کیونکہ یہ انداز بیان نیا اور اچھوتا تھا ۔ واللہ اعلم۔(ایسر التفاسیر)

تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْحَكِيمِ (۲)

یہ حکمت والی کتاب کی آیتیں ہیں۔‏

هُدًى وَرَحْمَةً لِلْمُحْسِنِينَ (۳)

جو نیکوکاروں کے (١) لئے رہبر اور (سراسر) رحمت ہے۔‏

مُحْسِنِينَ محسن کی جمع ہے

 اس کے ایک معنی تو یہ ہیں احسان کرنے والا والدین کے ساتھ رشتے داروں کے ساتھ، مستحقین اور ضرورت مندوں کے ساتھ،

 دوسرے معنی ہیں، نیکیاں کرنے والا، یعنی برائیوں سے مجتنب اور نیکوکار،

 تیسرے معنی ہیں اللہ کی عبادت نہایت اخلاص اور خشوع و خضوع کے ساتھ کرنے والا۔ جس طرح حدیث جبرائیل میں ہے ان تعبد اللہ کانک تراہ۔

 قرآن ویسے تو سارے جہان کے لئے ہدایت اور رحمت کا ذریعہ ہے لیکن اس سے اصل فائدہ چونکہ صرف محسنین اور متقین ہی اٹھاتے ہیں، اس لئے یہاں اس طرح فرمایا۔

الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ بِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ (۴)

جو لوگ نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور آخرت پر (کامل) یقین رکھتے ہیں ۔

نماز زکوٰۃ اور آخرت پر یقین۔ یہ تینوں نہایت اہم ہیں، اس لئے ان کا بطور خاص ذکر کیا، ورنہ محسنین و متقین تمام فرائض و سنت رسول کے مطابق پابندی سے کرتے ہیں۔

أُولَئِكَ عَلَى هُدًى مِنْ رَبِّهِمْ ۖ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (۵)

یہی لوگ ہیں جو اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ نجات پانے والے ہیں ۔

فلاح کے مفہوم کے لئے دیکھئے سورہ بقرہ اور مؤمنون کا آغاز۔

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ

اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو لغو باتوں کو مول لیتے ہیں (۱) کہ بےعلمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں اور اسے ہنسی بنائیں (۲)

۱۔ اہل سعادت جو کتاب الہی سے راہ یاب اور اس کے سماع سے فیض یاب ہوتے ہیں، ان کے ذکر کے بعد اہل شقاوت کا بیان ہو رہا ہے۔ جو کلام الہی کے سننے سے تو اعراض کرتے ہیں۔ البتہ ساز و موسیقی، نغمہ و سرود اور گانے وغیرہ خوب شوق سے سنتے اور ان میں دلچسپی لیتے ہیں۔

خریدنے سے مراد یہی ہے کہ آلات طرب شوق سے اپنے گھروں میں لاتے اور پھر ان سے لذت اندوز ہوتے ہیں۔

 لَهْوَ الْحَدِيثِ سے مراد گانا بجانا، اس کا سازوسامان اور آلات، ساز و موسیقی اور ہر وہ چیز ہے جو انسانوں کو خیر اور معروف سے غافل کر دے۔ اس میں قصے کہانیاں، افسانے ڈرامے، اور جنسی اور سنسنی خیز لٹریچر، رسالے اور بےحیائی کے پرچار اخبارات سب ہی آجاتے ہیں اور جدید ترین ایجادات ریڈیو، ٹی وی، وی سی آر، ویڈیو فلمیں وغیرہ بھی۔

 عہد رسالت میں بعض لوگوں نے گانے بجانے والی لونڈیاں بھی اسی مقصد کے لیے خریدی تھیں کہ وہ لوگوں کا دل گانے سنا کر بہلاتی رہیں تاکہ قرآن و اسلام سے وہ دور رہیں۔ اس اعتبار سے اس میں گلو کارائیں بھی آجاتی ہیں جو آج کل فن کار، فلمی ستارہ اور ثقافتی سفیر اور پتہ نہیں کیسے کیسے مہذب خوش نما اور دل فریب ناموں سے پکاری جاتی ہیں۔

۱۔ ان تمام چیزوں سے یقینا ًانسان اللہ کے راستے سے گمراہ ہو جاتے ہیں اور دین کو مذاق کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔

أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ (۶)

یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے رسوا کرنے والا عذاب ہے ۔

ان کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کرنے والے ارباب حکومت، ادارے، اخبارات کے مالکان، اہل قلم اور فیچر نگار بھی اس عذاب کے مستحق ہوں گے۔

وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِ آيَاتُنَا وَلَّى مُسْتَكْبِرًا كَأَنْ لَمْ يَسْمَعْهَا كَأَنَّ فِي أُذُنَيْهِ وَقْرًا ۖ

جب اس کے سامنے ہماری آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں تو تکبر کرتا ہوا اس طرح منہ پھیر لیتا ہے گویا اس نے سنا ہی نہیں

 گویا کہ اس کے دونوں کانوں میں ڈاٹ لگے ہوئے ہیں

یہ اس شخص کا حال ہے یو مذکورہ لہو لہب کی چیزوں میں مگن رہتا ہے‘ وہ آیات قرآنیہ اور اللہ رسول کی باتیں سن کر بہرا بن یاتا ہے حالانکہ وہ بہرا نہیں ہوتا اور اس طرح منہ پھیر لیتا ہے گویا اس نے سنا ہی نہیں‘ کیونکہ اس کے سننے سے وہ ایذا محسوس کرتا ہے‘ اس لئے اس سے اس کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

وَقْرًا کے معنی ہیإ کانوں میں ایسا بوجھ یو اسے سننے سے محروم کر دے۔

فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ (۷)

آپ اسے دردناک عذاب کی خبر سنا دیجئے۔‏

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُمْ جَنَّاتُ النَّعِيمِ (۸)

بیشک جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور کام بھی نیک کئے ان کے لئے نعمتوں والی جنتیں ہیں۔‏

خَالِدِينَ فِيهَا ۖ وَعْدَ اللَّهِ حَقًّا ۚ

جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ کا سچا وعدہ ہے،

یعنی یہ یقیناً پورا ہوگا، اس لئے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔

وَاللّٰہُ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ

وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (۹)

وہ بہت بڑی عزت و غلبہ والا اور کامل حکمت والا ہے۔‏

خَلَقَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ۖ

اسی نے آسمانوں کو بغیر ستون کے پیدا کیا ہے تم انہیں دیکھ رہے ہو

تَرَوْنَهَا ، اگر عَمَدٍ کی صفت ہو تو معنی ہونگے ایسے ستونوں کے بغیر جنہیں تم دیکھ سکو۔ یعنی آسمان کے ستون ہیں لیکن ایسے کہ تم انہیں دیکھ نہیں سکتے۔

وَأَلْقَى فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَنْ تَمِيدَ بِكُمْ وَبَثَّ فِيهَا مِنْ كُلِّ دَابَّةٍ ۚ

اور اس نے زمین میں پہاڑوں کو ڈال دیا تاکہ وہ تمہیں جنبش نہ دے سکے (۲) اور ہر طرح کے جاندار زمین میں پھیلا دیئے (۳)

۱۔  رَوَاسِيَ راسیۃ کی جمع ہے جس کے معنی ثابتۃ کے ہیں یعنی پہاڑوں کو زمین پر اس طرح بھاری بوجھ بنا کر رکھ دیا ہے کہ جن سے زمین ثابت رہے یعنی حرکت نہ کرے۔

 اسی لیے آگے فرمایا أَنْ تَمِيدَ بِكُمْ یعنی اس بات کی ناپسندیدگی سے کہ زمین تمہارے ساتھ ادھر ادھر ڈولے، یا اس لیے کہ زمین ادھر ادھر نہ ڈولے۔ جس طرح ساحل پر کھڑے بحری جہازوں میں بڑے بڑے لنگر ڈال دیے جاتے ہیں تاکہ جہاز نہ ڈولے زمین کے لیے پہاڑوں کی بھی یہی حیثیت ہے۔

۲۔ یعنی انواع و اقسام کے جانور زمین میں ہر طرف پھیلا دیئے جنہیں انسان کھاتا بھی ہے، سواری اور بار برداری کے لئے بھی استعمال کرتا ہے اور بطور زینت اور آرائش کے بھی اپنے پاس رکھتا ہے۔

وَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَنْبَتْنَا فِيهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ (۱۰)

اور ہم نے آسمان سے پانی برسا کر زمین میں ہر قسم کے نفیس جوڑے اگا دیئے۔

زَوْج یہاں صنف کے معنی میں ہے یعنی ہر قسم کے غلے اور میوے پیدا کیے۔ ان کی صفت کریم ان کے حسن لون اور کثرت منافع کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

هَذَا خَلْقُ اللَّهِ فَأَرُونِي مَاذَا خَلَقَ الَّذِينَ مِنْ دُونِهِ ۚ

یہ ہے اللہ کی مخلوق (١) اب تم مجھے اس کے سوا دوسرے کسی کی کوئی مخلوق تو دکھاؤ (۲)

۱۔ هَذَا (یہ) اشارہ ہے اللہ کی ان پیدا کردہ چیزوں کی طرف جن کا گزشتہ آیات میں ذکر ہوا۔

 ۲۔ یعنی جن کی تم عبادت کرتے ہو اور انہیں مدد کے لیے پکارتے ہو، انہوں نے آسمان و زمین میں کون سی چیز پیدا کی ہے؟

کوئی ایک چیز تو بتلاؤ؟

مطلب یہ ہے کہ جب ہرچیز کا خالق صرف اور صرف اللہ ہے، تو عبادت کا مستحق بھی صرف وہی ہے اس کے سوا کائنات میں کوئی ہستی اس لائق نہیں کہ اس کی عبادت کی جائے اور اسے مدد کے لیے پکارا جائے۔

بَلِ الظَّالِمُونَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ (۱۱)

 (کچھ نہیں) بلکہ یہ ظالم کھلی گمراہی میں ہیں۔‏

وَلَقَدْ آتَيْنَا لُقْمَانَ الْحِكْمَةَ أَنِ اشْكُرْ لِلَّهِ ۚ

اور ہم نے یقیناً لقمان کو حکمت دی (١) تھی کہ تو اللہ تعالیٰ کا شکر کر (٢)

۱۔ حضرت لقمان، اللہ کے نیک بندے تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے حکمت یعنی عقل فہم اور دینی بصیرت میں ممتاز مقام عطا فرمایا تھا۔

ان سے کسی نے پوچھا تمہیں یہ فہم و شعور کس طرح حاصل ہوا؟

 انہوں نے فرمایا، راست بازی، امانت کے اختیار کرنے اور بےفائدہ باتوں سے اجتناب اور خاموشی کی وجہ سے۔

 ان کا حکمت و دانش پر مبنی ایک واقعہ یہ بھی مشہور ہے کہ یہ غلام تھے، ان کے آقا نے کہا کہ بکری ذبح کرکے اس کے سب سے بہترین دو حصے لاؤ، چنانچہ وہ زبان اور دل نکال کر لے گئے۔ ایک دوسرے موقع پر آقا نے ان سے کہا کہ بکری ذبح کرکے اس کے سب سے بدترین حصے لاؤ، چنانچہ وہ زبان اور دل نکال کر لے گئے، پوچھنے پر انہوں نے بتلایا کہ زبان اور دل، اگر صحیح ہوں تو سب سے بہتر ہیں اور اگر یہ بگڑ جائیں تو ان سے بدتر کوئی چیز نہیں۔ (ابن کثیر)

۲۔  شکر کا مطلب ہے، اللہ کی نعمتوں پر اس کی حمد و ثنا اور اس کے احکام کی فرماں برداری۔

وَمَنْ يَشْكُرْ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ (۱۲)

ہر شکر کرنے والا اپنے ہی نفع کے لئے شکر کرتا ہے جو بھی ناشکری کرے وہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ بےنیاز اور تعریفوں والا ہے۔‏

وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ ۖ

اور جب کہ لقمان نے وعظ کہتے ہوئے اپنے لڑکے سے فرمایا کہ میرے پیارے بچے! اللہ کے ساتھ شریک نہ کرنا

اللہ تعالیٰ نے حضرت لقمان کی سب سے پہلی وصیت یہ نقل فرمائی کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو شرک سے منع فرمایا، جس سے یہ واضح ہوا کہ والدین کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی اولاد کو شرک سے بچانے کی سب سے زیادہ کوشش کریں۔

إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ (۱۳)

بیشک شرک بڑا بھاری ظلم ہے۔

یہ بعض کے نزدیک حضرت لقمان ہی کا قول ہے اور بعض نے اسے اللہ کا قول قرار دیا ہے اور اس کی تائید میں وہ حدیث پیش کی ہے جو (الذین اٰمنوا ولم یلبسوا ایمانھم بظلم۔ کے نزول کے تعلق سے وارد ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ یہاں ظلم سے مراد ظلم عظیم ہے اور آیت إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ کا حوالہ دیا۔ مگر درحقیقت اس سے اللہ کا قول ہونے کی نہ تائید ہوتی ہے نہ تردید۔

وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ

ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق نصیحت کی (١) ہے، اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کر (٢) اسے حمل میں رکھا

اور اس کی دودھ چھڑائی دو برس میں ہے (٣)

۱۔ توحید و عبادت الٰہی کے ساتھ ہی والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید سے اس نصیحت کی اہمیت واضح ہے۔

۲۔  اس کا مطلب ہے رحم مادر میں بچہ جس حساب سے بڑھتا جاتا ہے، ماں پر بوجھ بڑھتا جاتا ہے جس سے عورت کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ ماں کی اس مشقت کے ذکر سے اس طرف بھی اشارہ نکلتا ہے کہ والدین کے ساتھ احسان کرتے وقت ماں کو مقدم رکھا جائے، جیسا کہ حدیث میں بھی ہے۔

۳۔  اس سے معلوم ہوا کہ مدت رضاعت دو سال ہے، اس سے زیادہ نہیں۔

أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ (۱۴)

کہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کر، (تم سب کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔‏

وَإِنْ جَاهَدَاكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۖ وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا ۖ

اور اگر وہ دونوں تجھ پر اس بات کا دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ شریک کرے جس کا تجھے علم نہ ہو تو تو ان کا کہنا نہ ماننا،

وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ ۚ

 ہاں دنیا میں ان کے ساتھ اچھی طرح بسر کرنا اور اس کی راہ چلنا جو میری طرف جھکا ہو

یعنی مؤمنین کی راہ۔

ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (۱۵)

تمہارا سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے تم جو کچھ کرتے ہو اس سے پھر میں تمہیں خبردار کردوں گا۔‏

 یعنی میری طرف رجوع کرنے والوں کی پیروی اس لیے کرو کہ بالآخر تم سب کو میری ہی بارگاہ میں آنا ہے، اور میری ہی طرف سے ہر ایک کو اس کے اچھے یا برے عمل کی جزا ملنی ہے۔ اگر تم میرے راستے کی پیروی کرو گے اور مجھے یاد رکھتے ہوئے زندگی گزارو گے تو امید ہے کہ قیامت والے روز میری عدالت میں سرخرو ہو گے بصورت دیگر میرے عذاب میں گرفتار ہو گے۔

 سلسلہ کلام حضرت لقمان کی وصیتوں سے متعلق تھا۔ اب آگے پھر وہی وصیتیں بیان کی جارہی ہیں۔ جو لقمان نے اپنے بیٹے کو کی تھیں۔

درمیان کی دو آیتوں میں اللہ تبارک وتعالی نے جملہ معترضہ کے طور پر ماں باپ کے ساتھ احسان کی تاکید فرمائی۔ جس کی ایک وجہ تو یہ بیان کی گئی ہے کہ لقمان نے یہ وصیت اپنے بیٹے کو نہیں کی تھی کیونکہ اس میں ان کا اپنا ذاتی مفاد بھی تھا۔ دوسرا یہ واضح ہو جائے کہ اللہ کی توحید و عبادت کے بعد والدین کی خدمت و اطاعت ضروری ہے۔ تیسرا یہ کہ شرک اتنا بڑا گناہ ہے کہ اگر اس کا حکم والدین بھی دیں تو ان کی بات نہیں ماننی چاہیے۔

يَا بُنَيَّ إِنَّهَا إِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ فِي صَخْرَةٍ أَوْ فِي السَّمَاوَاتِ أَوْ فِي الْأَرْضِ يَأْتِ بِهَا اللَّهُ ۚ

پیارے بیٹے! اگر کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر ہو (١) پھر وہ (بھی) خواہ کسی چٹان میں ہو یا آسمانوں میں ہو یا زمین میں ہو اسے اللہ تعالیٰ ضرور لائے گا

إِنْ تَكُ کا مرجع خطیئۃ ہو تو مطلب گناہ اور اللہ کی نافرمانی والا کام ہے۔

مطلب یہ کہ انسان اچھا یا برا کام کتنا بھی چھپ کر کرے، اللہ سے چھپا نہیں رہ سکتا، قیامت والے دن اللہ تعالیٰ اسے حاضر کر لے گا، یعنی اس کی جزا دے گا اچھے عمل کی اچھی جزا، برے عمل کی بری جزا،

 رائی کے دانے کی مثال اس لئے دی کہ وہ اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ جس کا وزن محسوس ہوتا ہے نہ تول میں ترازو کے پلڑے جھکا سکتا ہے۔ اسی طرح چٹان (آبادی سے دور جنگل، پہاڑ میں) مخفی ترین جگہ ہے

 یہ مضمون حدیث میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ فرمایا:

 اگر تم میں سے کوئی شخص بےسوراخ کے پتھر میں بھی عمل کرے گا، جس کا کوئی دروازہ ہو نہ کھڑکی، اللہ تعالیٰ اسے لوگوں پر ظاہر فرما دے گا، چاہے وہ کیسا ہی عمل ہو۔ (مسند احمد، ٣۔٢٨)  

إِنَّ اللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ (۱۶)

اللہ تعالیٰ بڑا باریک بین اور خبردار ہے۔‏

اس لیے کہ وہ لطیف وباریک بین ہے۔ اس کا علم مخفی ترین چیز تک محیط ہے اور خَبِيرٌ ہے اندھیری رات میں چلنے والی چیونٹی کی حرکات و سکنات سے بھی وہ باخبر ہے۔

يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاصْبِرْ عَلَى مَا أَصَابَكَ ۖ

اے میرے پیارے بیٹے! تو نماز قائم رکھنا اچھے کاموں کی نصیحت کرتے رہنا، برے کاموں سے منع کیا کرنا اور جو مصیبت تم پر آئے صبر کرنا

اقامۃ صلوۃ، امر بالمعروف، نہی عن المنکر اور مصائب پر صبر کا اس لئے ذکر کیا کہ یہ تینوں اہم ترین عبادات اور امور خیر کی بنیاد ہیں۔

إِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ (۱۷)

 (یقین مان) کہ یہ بڑے تاکیدی کاموں میں سے ہے

یعنی مذکورہ باتیں ان کاموں میں سے ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے تاکید فرمائی ہے اور بندوں پر انہیں فرض قرار دیا ہے۔ یا یہ ترغیب ہے عزم و ہمت پیدا کرنے کی کیونکہ عزم و ہمت کے بغیر اطاعت مذکورہ عمل ممکن نہیں۔

بعض مفسرین کے نزدیک ذَلِكَ کا مرجع صبر ہے۔ اس سے پہلے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی وصیت ہے اور اس راہ میں شدائد و مصائب اور طعن و ملامت ناگزیر ہے، اس لئے اس کے فوراً بعد صبر کی تلقین کرکے واضح کر دیا کہ صبر کا دامن تھامے رکھنا کہ یہ عزم و ہمت کے کاموں میں سے ہے اور اہل عزم و ہمت کا ایک بڑا ہتھیار، اس کے بغیر فریضہ تبلیغ کی ادائیگی ممکن نہیں۔

وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا ۖ

لوگوں کے سامنے اپنے گال نہ پھلا (١) اور زمین پر اکڑ کر نہ چل (٢)

۱۔ یعنی تکبر نہ کر کہ لوگوں کو حقیر سمجھے اور جب وہ تجھ سے ہم کلام ہوں تو ان سے منہ پھیر لے۔

 یا گفتگو کے وقت اپنا منہ پھیرے رکھے؛

 صَعِّرْ ایک بیماری ہے جو اونٹ کے سر یا گردن میں ہوتی ہے، جس سے اس کی گردن مڑ جاتی ہے، یہاں بطور تکبر منہ پھیر لینے کے معنی میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے ۔ (ابن کثیر)

۲۔ یعنی ایسی چال یا رویہ جس سے مال ودولت یا جاہ و منصب یا قوت و طاقت کی وجہ سے فخر و غرور کا اظہار ہوتا ہو، یہ اللہ کو ناپسند ہے، اس لیے کہ انسان ایک بندہ عاجز وحقیر ہے، اللہ تعالیٰ کو یہی پسند ہے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق عاجزی وانکساری ہی اختیار کیے رکھے اس سے تجاوز کر کے بڑائی کا اظہار نہ کرے کہ بڑائی صرف اللہ ہی کے لیے زیبا ہے جو تمام اختیارات کا مالک اور تمام خوبیوں کا منبع ہے۔ اسی لیے حدیث میں فرمایا گیا :

 وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کے دل میں ایک رائی کے دانے کے برابر بھی کبر ہوگا۔ جو تکبر کے طور پر اپنے کپڑے کو گھسیٹتے ہوئے چلے اللہ اس کی طرف قیامت والے دن نہیں دیکھے گا۔ مسند احمد

 تاہم تکبر کا اظہار کیے بغیر اللہ کے انعامات کا ذکر یا اچھا لباس اور خوراک وغیرہ کا استعمال جائز ہے۔

إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ (۱۸)

کسی تکبر کرنے والے شیخی خورے کو اللہ پسند نہیں فرماتا۔‏

وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ ۚ

اپنی رفتار میں میانہ روی اختیار کر (١) اور اپنی آواز پست کر (٢)

۱۔ یعنی چال اتنی سست نہ ہو جیسے کوئی بیمار ہو اور نہ اتنی تیز ہو کہ شرف و وقار کے خلاف ہو۔

اسی کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا :

يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا (۲۵:۶۳)

اللہ کے بندے زمین پر وقار اور سکونت کے ساتھ چلتے ہیں۔

 ۲۔  یعنی چیخ یا چلا کر بات نہ کر، اس لئے کہ زیادہ اونچی آواز سے بات کرنا پسندیدہ ہوتا تو گدھے کی آواز سب سے اچھی سمجھی جاتی لیکن ایسا نہیں، بلکہ گدھے کی آواز سب سے بدتر اور بری ہے۔ اس لئے حدیث میں آتا ہے :

گدھے کی آواز سنو تو شیطان سے پناہ مانگو ۔ (بخاری، کتاب بدء الخلق اور مسلم وغیرہ)

إِنَّ أَنْكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ (۱۹)

یقیناً آوازوں میں سب سے بدتر آواز گدھوں کی آواز ہے۔‏

أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ

کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین اور آسمان کی ہرچیز کو ہمارے کام میں لگا رکھا ہے

تسخیر کا مطلب ہے انتفاع (فائدہ اٹھانا) جس کو ' یہاں کام سے لگا دیا ' سے تعبیر کیا گیا ہے

 جیسے آسمانی مخلوقْ، چاند، سورج، ستارے وغیرہ ہیں، انہیں اللہ تعالیٰ نے ایسے ضابطوں کا پابند بنا دیا ہے کہ یہ انسانوں کے لئے کام کر رہے ہیں اور انسان ان سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔

دوسرا مطلب تسخیر کا تابع بنا دینا ہے۔

چنانچہ بہت سی زمینی مخلوق کو انسان کے تابع بنا دیا گیا ہے جنہیں انسان اپنی حسب منشا استعمال کرتا ہے جیسے زمین اور حیوانات وغیرہ ہیں،

گویا تسخیر کا مفہوم یہ ہوا کہ آسمان و زمین کی تمام چیزیں انسانوں کے فائدے کے لئے کام میں لگی ہوئی ہیں، چاہے وہ انسان کے تابع اور اس کے زیر اثر تصرف ہوں یا اس کے تصرف اور تابعیت سے بالا ہوں۔ (فتح القدیر)

وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً ۗ

اور تمہیں اپنی ظاہری و باطنی نعمتیں بھرپور دے رکھی ہیں

ظاہری سے وہ نعمتیں مراد ہیں جن کا ادراک عقل، حواس وغیرہ سے ممکن ہو اور باطنی نعمتیں وہ جن کا ادراک و احساس انسان کو نہیں۔ یہ دونوں قسم کی نعمتیں اتنی ہیں کہ انسان ان کو شمار بھی نہیں کر سکتا۔

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُجَادِلُ فِي اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلَا هُدًى وَلَا كِتَابٍ مُنِيرٍ (۲۰)

بعض لوگ اللہ کے بارے میں بغیر علم کے بغیر ہدایت کے اور بغیر روشن کتاب کے جھگڑا کرتے ہیں (٣)۔‏

یعنی اس کے باوجود لوگ اللہ کی بابت جھگڑتے ہیں، کوئی اس کے وجود کے بارے میں کوئی اس کے ساتھ شریک گرداننے میں اور کوئی اس کے احکام و شرائع کے بارے میں۔

وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ۚ

اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی اتاری ہوئی وحی کی تابعداری کرو

 تو کہتے ہیں کہ ہم نے تو جس طریق (١) پر اپنے باپ دادوں کو پایا ہے اسی کی تابعداری کریں گے،

یعنی ان کے پاس کوئی عقلی دلیل ہے، نہ کسی ہادی کی ہدایت اور نہ کسی کتاب آسمانی سے کوئی ثبوت، گویا کہ لڑتے ہیں ہاتھ میں تلوار بھی نہیں۔

أَوَلَوْ كَانَ الشَّيْطَانُ يَدْعُوهُمْ إِلَى عَذَابِ السَّعِيرِ (۲۱)

 اگرچہ شیطان ان کے بڑوں کو دوزخ کے عذاب کی طرف بلاتا ہو۔‏

وَمَنْ يُسْلِمْ وَجْهَهُ إِلَى اللَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى ۗ

اور جو (شخص) اپنے آپ کو اللہ کے تابع کر دے (١) اور ہو بھی نیکوکار (٢) یقیناً اس نے مضبوط کڑا تھام لیا (۳)

۱۔ یعنی صرف اللہ کی رضا کے لئے عمل کرے اس کے حکم کی اطاعت اور اس کی شریعت کی پیروی کرے۔

۲۔  یعنی ما مور بہ چیزوں کا اتباع اور منہیات کو ترک کرنے والا۔

۳۔  یعنی اللہ سے اس نے مضبوط عہد لے لیا کہ وہ اس کو عذاب نہیں کرے گا۔

وَإِلَى اللَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ (۲۲)

تمام کاموں کا انجام اللہ کی طرف ہے۔‏

وَمَنْ كَفَرَ فَلَا يَحْزُنْكَ كُفْرُهُ ۚ

کافروں کے کفر سے آپ رنجیدہ نہ ہوں

اس لئے کہ ایمان کی سعادت ان کے نصیب میں ہی نہیں ہے۔ آپ کی کوشش اپنی جگہ بجا اور آپ کی خواہش بھی قابل قدر لیکن اللہ کی تقدیر اور مشیت سب پر غالب ہے۔

إِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ فَنُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوا ۚ

آخر ان سب کا لوٹنا تو ہماری جانب ہی ہے پھر ہم ان کو بتائیں گے جو انہوں نے کیا،

یعنی ان کے عملوں کی جزا دے گا۔

إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ (۲۳)

 بیشک اللہ سینوں کے بھید تک سے واقف ہے۔‏

پس اس پر کوئی چیز چھپی نہیں رہ سکتی۔

نُمَتِّعُهُمْ قَلِيلًا ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ إِلَى عَذَابٍ غَلِيظٍ (۲۴)

ہم انہیں گو کچھ یونہی فائدہ دے دیں لیکن (بالآخر) ہم انہیں نہایت بیچارگی کی حالت میں سخت عذاب کی طرف ہنکالے جائیں گے

یعنی دنیا میں آخر کب تک رہیں گے اور اس کی لذتوں اور نعمتوں سے کہاں تک شاد کام ہونگے؟

یہ دنیا اور اسکی لذتیں تو چند روزہ ہیں، اس کے بعد ان کے لئے سخت عذاب ہی عذاب ہے۔

وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ ۚ

اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ آسمان و زمین کا خالق کون ہے؟ تو ضرور جواب دیں گے کہ اللہ

یعنی ان کو اعتراف ہے کہ آسمانوں و زمین کا خالق اللہ ہے نہ کہ وہ معبود جن کی وہ عبادت کرتے ہیں۔

قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ (۲۵)

تو کہہ دیجئے کہ سب تعریفوں کے لائق اللہ ہی ہے (۱) لیکن ان میں اکثر بےعلم ہیں۔‏

اس لئے کہ ان کے اعتراف سے ان پر حجت قائم ہوگئی۔

لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ

آسمانوں میں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ سب اللہ ہی کا ہے

یعنی ان کا خالق بھی وہی ہے، مالک بھی وہی اور مدبر و متصرف کائنات کا محتاج بھی وہی۔

إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ (۲۶)

یقیناً اللہ تعالیٰ بہت بڑا بےنیاز (۱) اور سزاوار حمد ثنا ہے (٢)

۱۔  بےنیاز ہے اپنے ماسوائے یعنی ہرچیز اس کی محتاج ہے، وہ کسی کا محتاج نہیں۔

 ۲۔  اپنی تمام پیدا کردہ چیزوں میں۔ پس اس نے جو کچھ پیدا کیا اور جو احکام نازل فرمائے، اس پر آسمان و زمین میں سزاوار حمد و ثنا صرف اسی کی ذات ہے۔

وَلَوْ أَنَّمَا فِي الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ أَقْلَامٌ وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ مَا نَفِدَتْ كَلِمَاتُ اللَّهِ ۗ

روئے زمین کے (تمام) درختوں کے اگر قلمیں ہوجائیں اور تمام سمندروں کی سیاہی ہو اور ان کے بعد سات سمندر اور ہوں

 تاہم اللہ کے کلمات ختم نہیں ہو سکتے

اس میں اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی، جلالت شان، اس کے اسمائے حسنٰی اور صفات عالیہ اور اس کی عظمتوں کا بیان ہے کہ وہ اتنے ہیں کہ کسی کے لئے ان کا احاطہ یا ان سے آگاہی یا ان کی حقیقت تک پہنچنا ممکن ہی نہیں

اگر ان کا شمار کرنا احاطہ تحریر میں لانا چاہے، تو دنیا بھر کے درختوں کے قلم گھس جائیں، سمندروں کے پانی سے بنائی ہوئی سیاہی ختم ہو جائے، لیکن اللہ کی معلومات، اس کی تخلیق و صنعت کے عجائبات اور عظمت و جلالت کے مظاہر کو شمار نہیں کیا جاسکتا۔

 سات سمندر بطور مبالغہ ہے، حصر مراد نہیں ۔ (ابن کثیر)

اس لیے کہ اللہ کی آیات و کلمات کا حصر و احصاء ممکن ہی نہیں ہے۔

اسی مفہوم کی ایک آیت سورہ کہف کے آخر میں گزر چکی ہے۔

إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (۲۷)

بیشک اللہ تعالیٰ غالب اور باحکمت ہے۔‏

مَا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ وَاحِدَةٍ ۗ

تم سب کی پیدائش اور مرنے کے بعد زندہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے ایک جی کا،

یعنی اس کی قدرت اتنی عظیم ہے کہ تم سب کا پیدا کرنا یا قیامت والے دن زندہ کرنے یا پیدا کرنے کی طرح ہے۔ اس لئے وہ جو چاہتا ہے لفظ کُنْ سے پلک جھپکتے میں معرض وجود میں آجاتا ہے۔

إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ (۲۸)

بیشک اللہ تعالیٰ سننے والا دیکھنے والا ہے۔‏

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ

کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ رات کو دن میں اور دن کو رات میں کھپا دیتا ہے

یعنی رات کا کچھ حصہ لے کر دن میں شامل کر دیتا ہے، جس سے دن بڑا اور رات چھوٹی ہو جاتی ہے جیسے گرمیوں میں ہوتا ہے، اور پھر دن کا کچھ حصہ لے کر رات میں شامل کر دیتا ہے، جس سے رات بڑی اور دن چھوٹا ہو جاتا ہے جیسے سردیوں میں ہوتا ہے۔

وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى

سورج چاند کو اسی نے فرماں بردار کر رکھا ہے کہ ہر ایک مقررہ وقت تک چلتا رہے

' مقررہ وقت تک ' سے مراد قیامت تک ہے یعنی سورج اور چاند کے طلوع و غروب کا نظام، جس کا اللہ نے ان کو پابند کیا ہوا ہے قیامت تک یوں ہی قائم رہے گا۔

 دوسرا مطلب ہے کہ ایک متعینہ منزل تک، یعنی اللہ نے ان کی گردش کے لیے ایک منزل اور ایک دائرہ متعین کیا ہوا ہے جہاں ان کا سفر ختم ہوتا ہے اور دوسرے روز پھر وہاں سے شروع ہو کر پہلی منزل پر آکر ٹھہر جاتا ہے ایک حدیث سے بھی اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے

 نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا :

جانتے ہو، یہ سورج کہاں جاتا ہے؟

 ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے میں نے کہا اللہ اور کے رسول خوب جانتے ہیں

فرمایا :

اس کی آخری منزل عرش الہی ہے یہ وہاں جاتا ہے اور زیر عرش سجدہ ریز ہوتا ہے پھر وہاں سے نکلنے کی اپنے رب سے اجازت مانگتا ہے ایک وقت آئے گا کہ اس کو کہا جائے تو جہاں سے آیا ہے وہی لوٹ جا۔ تو وہ مشرق سے طلوع ہونے کے بجائے مغرب سے طلوع ہوگا جیسا کہ قرب قیامت کی علامات میں آتا ہے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں سورج رہٹ کی طرح ہے، دن کو آسمان پر اپنے مدار پر چلتا رہتا ہے، جب غروب ہوجاتا ہے، تو رات کو زمین کے نیچے اپنے مدار پر چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ مشرق سے طلوع ہوجاتا ہے۔ اسی طرح چاند کا معاملہ ہے۔

وَأَنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ (۲۹)

اللہ تعالیٰ ہر اس چیز سے جو تم کرتے ہو خبردار ہے۔‏

ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ مَا يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ الْبَاطِلُ

یہ سب (انتظامات) اس وجہ سے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حق ہے اور اس کے سوا جن جن کو لوگ پکارتے ہیں سب باطل ہیں

یعنی یہ انتظامات یا نشانیاں، اللہ تعالیٰ تمہارے لئے ظاہر کرتا ہے تاکہ تم سمجھ لو کہ کائنات کا نظام چلانے والا صرف ایک اللہ ہے، جس کے حکم اور مشیت سے سب کچھ ہو رہا ہے، اور اس کے سوا سب باطل ہے

 یعنی کسی کے پاس کوئی بھی اختیار نہیں ہے بلکہ اس کے محتاج ہیں کیونکہ سب اس کی مخلوق اور اس کے ماتحت ہیں، ان میں سے کوئی بھی ایک ذرے کو بھی ہلانے کی قدرت نہیں رکھتا ہے۔  (ابن کثیر)

وَأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ (۳۰)

اور یقیناً اللہ تعالیٰ بہت بلندیوں والا اور بڑی شان والا ہے

اس سے برتر شان والا کوئی ہے نہ اس سے بڑا کوئی۔ اس کی عظمت شان، علوم مرتبہ اور بڑائی کے سامنے ہرچیز حقیر اور پست ہے۔

أَلَمْ تَرَ أَنَّ الْفُلْكَ تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِنِعْمَتِ اللَّهِ لِيُرِيَكُمْ مِنْ آيَاتِهِ ۚ

کیا تم اس پر غور نہیں کرتے کہ دریا میں کشتیاں اللہ کے فضل سے چل رہی ہیں اس لئے کہ وہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھا دے،

یعنی سمندر میں کشتیوں کا چلنا، یہ بھی اس کے لطف و کرم کا ایک مظہر اور اس کی قدرت تسخیر کا ایک نمونہ ہے، اس نے ہوا اور پانی کو ایسے مناسب انداز سے رکھا کہ سمندر کی سطح پر کشتیاں چل سکیں،  ورنہ وہ چاہے تو ہوا کی تندی اور موجوں کی طغیانی سے کشتیوں کا چلنا ناممکن ہو جائے۔

إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ (۳۱)

یقیناً اس میں ہر ایک صبر و شکر کرنے والے (۱) کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں۔‏

تکلیفوں میں صبر کرنے والے، راحت اور خوشی میں اللہ کا شکر کرنے والے۔

وَإِذَا غَشِيَهُمْ مَوْجٌ كَالظُّلَلِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ

اور جب سمندر پر موجیں سائبانوں کی طرح چھا جاتی ہیں تو وہ (نہایت) خلوص کے ساتھ اعتقاد کر کے اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں

یعنی جب ان کی کشتیاں ایسی طوفانی موجوں میں گھر جاتی ہیں جو بادلوں اور پہاڑوں کی طرح ہوتی ہیں اور موت کا آہنی پنجہ انہیں اپنی گرفت میں لیتا نظر آتا ہے تو پھر سارے زمینی معبود ان کے ذہنوں سے نکل جاتے ہیں اور صرف ایک آسمانی اللہ کو پکارتے ہیں جو واقعی اور حقیقی معبود ہے۔

فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ فَمِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ ۚ

پھر جب وہ (باری تعالیٰ) انہیں نجات دے کر خشکی کی طرف پہنچاتا ہے تو کچھ ان میں سے اعتدال پر رہتے ہیں

بعض نے مُقْتَصِدٌ کے معنی بیان کیے ہیں عہد کو پورا کرنے والا،

 یعنی بعض ایمان، توحید اور اطاعت کے اس عہد پر قائم رہتے ہیں جو موج گرداب میں انہوں نے کیا تھا۔ ان کے نزدیک کلام میں حذف ہے، تقدیر کلام یوں ہوگا۔ فمنھم مقتصد ومنھم کافر۔ پس بعض ان میں سے مؤمن اور بعض کافر ہوتے ہیں،

دوسرے مفسرین کے نزدیک اس کے معنی اعتدال پر رہنے والا اور یہ باب انکار سے ہوگا۔ یعنی اتنے ہولناک حالات اور پھر وہاں رب کی اتنی عظیم آیات کا مشاہدہ کرنے اور اللہ کے اس احسان کے باوجود کہ اس نے وہاں سے نجات دی۔

 انسان اب بھی اللہ کی مکمل عبادت و اطاعت نہیں کرتا؟ اور متوسط راستہ اختیار کرتا ہے، جب کہ وہ حالات، جن سے گزر کر آیا ہے مکمل بندگی کا تقاضا کرتے ہیں۔ نہ کہ اعتدال کا۔

مگر پہلا مفہوم سیاق کے زیادہ قریب ہے۔

وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا كُلُّ خَتَّارٍ كَفُورٍ (۳۲)

اور ہماری آیتوں کا انکار صرف وہی کرتے ہیں جو بدعہد اور ناشکرے ہوں۔

خَتَّار غدار کے معنی میں ہے بد عہدی کرنے والا كَفُور ناشکری کرنے والا۔

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ وَاخْشَوْا يَوْمًا لَا يَجْزِي وَالِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلَا مَوْلُودٌ هُوَ جَازٍ عَنْ وَالِدِهِ شَيْئًا ۚ

لوگو اپنے رب سے ڈرو اور اس دن کا خوف کرو جسدن باپ اپنے بیٹے کو کوئی نفع نہ پہنچا سکے گا اور نہ بیٹا اپنے باپ کا ذرا سا بھی نفع کرنے والا ہوگا

جَاز اسم فاعل ہے جَزْی یَجْزِی سے، بدلہ دینا،

مطلب یہ ہے کہ اگر باپ چاہے کہ بیٹے کو بچانے کے لئے اپنی جان کا بدلہ، یا بیٹا باپ کے بدلے اپنی جان بطور معاوضہ پیش کر دے، تو وہاں ممکن نہیں ہوگا، ہر شخص کو اپنے کئے کی سزا بھگتنی ہوگی۔ جب باپ بیٹا ایک دوسرے کے کام نہ آسکیں گے تو دیگر رشتے داروں کی کیا حیثیت ہوگی، اور وہ کیوں کر ایک دوسرے کو نفع پہنچا سکیں گے۔

إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ ۖ

 (یاد رکھو) اللہ کا وعدہ سچا ہے

فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ (۳۳)

 (دیکھو) تمہیں دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈالے اور نہ دھوکے باز (شیطان) تمہیں دھوکے میں ڈال دے۔‏

إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ ۖ

بیشک اللہ تعالیٰ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے وہی بارش نازل فرماتا ہے اور ماں کے پیٹ میں جو ہے اسے جانتا ہے

وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ ۚ

کوئی (بھی) نہیں جانتا کہ کل کیا (کچھ) کرے گا؟ نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ کس زمین میں مرے گا

حدیث میں آتا ہے کہ پانچ چیزیں مفاتیح الغیب ہیں، جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

 قرب قیامت کی علامات تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائیں ہیں لیکن قیامت کے وقوع کا یقینی علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں، کسی فرشتے کو، نہ کسی نبی مرسل کو،

 بارش کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے آثار و علائم سے تخمینہ تو لگایا جاتا اور لگایا جاسکتا ہے لیکن یہ بات ہر شخص کے تجربہ و مشاہدے کا حصہ ہے کہ یہ تخمینے کبھی صحیح نکلتے ہیں اور کبھی غلط۔ حتی کہ محکمہ موسمیات کے اعلانات بھی بعض دفعہ صحیح ثابت نہیں ہوتے۔ جس سے صاف واضح ہے کہ بارش کا بھی یقینی علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔

 رحم مادر میں مشینی ذرائع سے جنسیت کا ناقص اندازہ تو شاید ممکن ہے کہ بچہ ہے یا بچی؟

 لیکن ماں کے پیٹ میں نشوونما پانے والا یہ بچہ نیک بخت ہے یا بدبخت ناقص ہوگا یا کامل، خوب رو ہوگا یا بد شکل، کالا ہوگا یا گورا، وغیرہ باتوں کا علم اللہ کے سوا کسی کے پاس نہیں۔

 انسان کل کیا کرے گا؟

 وہ دین کا معاملہ ہو یا دنیا کا؟

 کسی کو آنے والے کل کے بارے میں علم نہیں کہ وہ اس کی زندگی میں آئے گا بھی یا نہیں؟

 اور اگر آئے گا تو وہ اس میں کیا کچھ کرے گا؟

موت کہاں آئے گی؟

گھر میں یا گھر سے باہر اپنے وطن میں یا دیار غیر میں جوانی میں آئے گی یا بڑھاپے میں اپنی آرزوؤں اور خواہشات کی تکمیل کے بعد آئے گی یا اس سے پہلے؟

کسی کو معلوم نہیں۔

إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ (۳۴)

 (یاد رکھو) اللہ تعالیٰ پورے علم والا اور صحیح خبروں والا ہے۔‏

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter