Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Ta Ha

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

Noting by Maulana Salahuddin Yusuf

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


 طه (۱)

طٰہٰ

مَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَى (۲)

ہم نے یہ قرآن تجھ پر اس  لیے نہیں اتارا کہ تو مشقت میں پڑ جائے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے قرآن اس لئے نہیں اتارا کہ تو ان کے کفر پر کثرت افسوس اور ان کے عدم ایمان پر حسرت سے اپنے آپ کو مشقت میں ڈال لے اور غم میں پڑ جائے جیسا کہ اس آیت میں اشارہ ہے:

فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى آثَارِهِمْ إِنْ لَمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا ۜ۔ (۱۸:۶)

پس اگر یہ لوگ اس بات پر ایمان نہ لائیں تو کیا ان کے پیچھے اسی رنج میں اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے بلکہ ہم نے تو قرآن کو نصیحت اور یاد دہانی کے لیے اتارا ہے تاکہ ہر انسان کے تحت الشعور میں ہماری توحید کا جو جذبہ چھپا ہوا ہے۔

واضح اور نمایاں ہو جائے گویا یہاں  شقآء عنآء تعب کے معنی میں ہے یعنی تکلیف اور تھکاوٹ۔

إِلَّا تَذْكِرَةً لِمَنْ يَخْشَى (۳)

بلکہ اس کی نصیحت کے لئے جو اللہ سے ڈرتا ہے۔‏

تَنْزِيلًا مِمَّنْ خَلَقَ الْأَرْضَ وَالسَّمَاوَاتِ الْعُلَى (۴)

اس کا اتارنا اس کی طرف سے ہے جس نے زمین کو اور بلند آسمان کو پیدا کیا ہے۔‏

الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى (۵)

جو رحمٰن ہے، عرش پر قائم ہے

بغیر کسی حد بندی اور کیفیت بیان کرنے کے، جس طرح کہ اس کی شان کے لائق ہے یعنی اللہ تعالیٰ عرش پر قائم ہے، لیکن کس طرح اور کیسے؟ یہ کیفیت کسی کو معلوم نہیں۔

لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَمَا تَحْتَ الثَّرَى (۶)

جس کی ملکیت آسمانوں اور زمین اور ان دونوں کے درمیان اور (کرہ خاک) کے نیچے کی ہر ایک چیز پر ہے (١)۔‏

الثَّرَى کے معنی ہیں زمین کا سب سے نچلا حصہ

وَإِنْ تَجْهَرْ بِالْقَوْلِ فَإِنَّهُ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَى (۷)

اگر تو اونچی بات کہے تو وہ تو ہر ایک پوشیدہ، بلکہ پوشیدہ سے پوشیدہ تر بات کو بھی بخوبی جانتا ہے‏

یعنی اللہ کا ذکر یا اس سے دعا اونچی آواز میں کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لئے کہ وہ پوشیدہ سے پوشیدہ تر بات کو بھی جانتا ہے

یا أَخْفَى کے معنی ہیں کہ اللہ تو ان باتوں کو بھی جانتا ہے جن کو اس نے تقدیر میں لکھ دیا اور ابھی تک لوگوں سے مخفی رکھا ہے۔ یعنی قیامت تک وقوع پذیر ہونے والے واقعات کا اسے علم ہے۔

اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ ۖ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى (۸)

وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، بہترین نام اسی کے ہیں ۔

یعنی معبود وہی ہے جو مذکورہ صفات سے متصف ہے اور بہترین نام بھی اسی کے ہیں جن سے اس کو پکارا جاتا ہے۔ نہ معبود اس کے سوا کوئی اور ہے اور نہ اس کے اسمائے حسنٰی ہی کسی کے ہیں۔ پس اسی کی صحیح معرفت حاصل کر کے اُسی سے ڈرایا جائے، اسی سے محبت رکھی جائے، اسی پر ایمان لایا جائے اور اسی کی اطاعت کی جائے۔ تاکہ انسان جب اس کی بارگاہ میں واپس جائے تو وہاں شرمسار نہ ہو بلکہ اس کی رحمت و مغفرت سے شاد کام اور اس کی رضا سے سعادت مند ہو۔

وَهَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ مُوسَى (۹)

تجھے موسیٰ ؑ کا قصہ بھی معلوم ہے۔‏

إِذْ رَأَى نَارًا فَقَالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا إِنِّي آنَسْتُ نَارًا لَعَلِّي آتِيكُمْ مِنْهَا بِقَبَسٍ أَوْ أَجِدُ عَلَى النَّارِ هُدًى (۱۰)

جبکہ اس نے آگ دیکھ کر اپنے گھر والوں سے کہا کہ تم ذرا سی دیر ٹھہر جاؤ مجھے آگ دکھائی دی ہے۔

بہت ممکن ہے کہ میں اس کا کوئی انگارا تمہارے پاس لاؤں یا آگ کے پاس سے راستے کی اطلاع پاؤں ۔

یہ اس وقت کا واقعہ ہے۔ جب موسیٰ علیہ السلام مدین سے اپنی بیوی کے ہمراہ (جو ایک قول کے مطابق حضرت شعیب علیہ السلام کی دختر نیک اختر تھیں) اپنی والدہ کی طرف سے واپس جا رہے تھے، اندھیری رات تھی اور راستہ بھی نامعلوم۔

 بعض مفسرین کے بقول بیوی کی زچگی کا وقت بالکل قریب تھا اور انہیں حرارت کی ضرورت تھی۔ یا سردی کی وجہ سے گرمی کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اتنے میں دور سے انہیں آگ کے شعلے بلند ہوتے ہوئے نظر آئے۔ گھر والوں سے یعنی بیوی سے (یا بعض کہتے ہیں خادم اور بچہ بھی تھا اس لئے جمع کا لفظ استعمال فرمایا) کہا تم یہاں ٹھہرو! شاید میں آگ کا کوئی انگارا وہاں سے لے آؤں یا کم از کم وہاں سے راستے کی نشان دہی ہو جائے۔

فَلَمَّا أَتَاهَا نُودِيَ يَا مُوسَى (۱۱)

جب وہ وہاں پہنچے تو آواز دی گئی اے موسیٰ۔‏

موسیٰ علیہ السلام جب آگ والی جگہ پہنچے تو وہاں ایک درخت سے (جیسا کہ سورہ قصص۔٣٠ میں صراحت ہے) آواز آئی۔

إِنِّي أَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ ۖ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى (۱۲)

یقیناً میں تیرا پروردگار ہوں تو اپنی جوتیاں اتار دے، (١) کیونکہ تو پاک میدان طویٰ میں ہے ۔‏(٢)

۱۔ جوتیاں اتارنے کا حکم اس لئے دیا کہ اس میں تواضع کا اظہار اور شرف و تکریم کا پہلو زیادہ اور وادی کی پاکیزگی اس کا سبب تھا، جیسا کہ قرآن کے الفاظ سے واضح ہوتا ہے۔ تاہم اس کے دو پہلو ہیں۔

 یہ حکم وادی کی تعظیم کے لئے تھا

یا اس لئے کہ وادی کی پاکیزگی کے اثرات ننگے پیر ہونے کی صورت میں موسیٰ علیہ السلام کے اندر زیادہ جذب ہو سکیں۔ واللہ اعلم

۲۔   طُوَی وادی کا نام ہے، اسے بعض نے منصرف اور بعض نے غیر منصرف کہا ہے ۔ (فتح القدیر)

وَأَنَا اخْتَرْتُكَ فَاسْتَمِعْ لِمَا يُوحَى (۱۳)

اور میں نے تجھے منتخب کر لیا ہے (١) اب جو وحی کی جائے اسے کان لگا کر سن۔‏

یعنی نبوت و رسالت اور ہم کلامی کے لئے۔

إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي (۱۴)

بیشک میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا عبادت کے لائق اور کوئی نہیں پس تو میری ہی عبادت کر (١) اور میری یاد کے لئے نماز قائم رکھ ۔‏(٢)

۱۔ یعنی تکلیفات میں سب سے پہلا اور سب سے اہم حکم ہے جس کا ہر انسان پر تکلف ہی ہے۔ علاوہ ازیں جب الوہیت کا مستحق بھی وہی ہے تو عبادت بھی صرف اسی کا حق ہے۔

۲۔  عبادت کے بعد نماز کا خصوصی حکم دیا۔ حالانکہ عبادت میں نماز بھی شامل تھی، تاکہ اس کی وہ اہمیت واضح ہو جائے جیسے کہ اس کی ہے۔

 لِذِكْرِي کا ایک مطلب یہ ہے کہ تو مجھے یاد کرے، اسلئے یاد کرنے کا طریقہ عبادت ہے اور عبادت میں نماز کو خصوصی اہمیت وفضیلت حاصل ہے۔

 دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جب بھی میں تجھے یاد آ جاؤں نماز پڑھ،

 یعنی اگر کسی وقت غفلت یا نیند کا غلبہ ہو تو اس کیفیت سے نکلتے ہی اور میری یاد آتے ہی نماز پڑھ۔

 جس طرح کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 جو نماز سے سو جائے یا بھول جائے، تو اس کا کفارہ یہی ہے کہ جب بھی اسے یاد آئے پڑھ لے۔  (صحیح بخاری)

إِنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ أَكَادُ أُخْفِيهَا لِتُجْزَى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعَى (۱۵)

قیامت یقیناً آنے والی ہے جسے میں پوشیدہ رکھنا چاہتا ہوں تاکہ ہر شخص کو وہ بدلہ دیا جائے جو اس نے کوشش کی ہو۔‏

فَلَا يَصُدَّنَّكَ عَنْهَا مَنْ لَا يُؤْمِنُ بِهَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ فَتَرْدَى (۱۶)

پس اب اسکے یقین سے تجھے کوئی ایسا شخص روک نہ دے جو اس پر ایمان نہ رکھتا ہو اور اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہو، ورنہ تو ہلاک ہو جائے گا ۔‏

اس لئے کہ آخرت پر یقین کرنے سے یا اس کے ذکر و مراقبے سے گریز، دونوں ہی باتیں ہلاکت کا باعث ہیں۔

وَمَا تِلْكَ بِيَمِينِكَ يَا مُوسَى (۱۷)

اے موسیٰ! تیرے اس دائیں ہاتھ میں کیا ہے؟‏

قَالَ هِيَ عَصَايَ أَتَوَكَّأُ عَلَيْهَا وَأَهُشُّ بِهَا عَلَى غَنَمِي وَلِيَ فِيهَا مَآرِبُ أُخْرَى (۱۸)

جواب دیا کہ یہ میری لاٹھی ہے، جس پر میں ٹیک لگاتا ہوں اور جس سے میں اپنی بکریوں کے لئے پتے جھاڑ لیا کرتا ہوں

 اور بھی اس میں مجھے بہت سے فائدے ہیں۔‏

قَالَ أَلْقِهَا يَا مُوسَى (۱۹)

فرمایا اے موسیٰ! اسے ہاتھ سے نیچے ڈال دے۔‏

فَأَلْقَاهَا فَإِذَا هِيَ حَيَّةٌ تَسْعَى (۲۰)

ڈالتے ہی وہ سانپ بن کر دوڑنے لگی۔‏

قَالَ خُذْهَا وَلَا تَخَفْ ۖ سَنُعِيدُهَا سِيرَتَهَا الْأُولَى (۲۱)

فرمایا بےخوف ہو کر اسے پکڑ لے، ہم اسے اسی پہلی سی صورت میں دوبارہ لادیں گے

یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو معجزہ عطا کیا گیا جو عصائے موسیٰ علیہ السلام کے نام سے مشہور ہے۔

وَاضْمُمْ يَدَكَ إِلَى جَنَاحِكَ تَخْرُجْ بَيْضَاءَ مِنْ غَيْرِ سُوءٍ آيَةً أُخْرَى (۲۲)

اور اپنا ہاتھ بغل میں ڈال لے تو وہ سفید چمکتا ہوا ہو کر نکلے گا، لیکن بغیر کسی عیب (اور روگ) کے (١) یہ دوسرا معجزہ ہے‏

بغیر عیب اور روگ کے، کا مطلب یہ ہے کہ ہاتھ کا اس طرح سفید اور چمک دار ہو کر نکلنا، کسی بیماری کی وجہ سے نہیں ہے جیسا کہ برص کے مریض کی چمڑی سفید ہو جاتی ہے۔ بلکہ یہ دوسرا معجزہ ہے، جو ہم تجھے عطا کر رہے ہیں۔

 جس طرح دوسرے مقام پر ان دونوں معجزوں کا ذکر فرمایا :

فَذَانِكَ بُرْهَانَانِ مِنْ رَبِّكَ إِلَى فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ ٰ ۔ (۲۸:۳۲)

پس یہ دو دلیلیں ہیں تیرے پروردگار کی طرف سے، فرعون اور اس کے سرداروں کے لئے

لِنُرِيَكَ مِنْ آيَاتِنَا الْكُبْرَى (۲۳)

یہ اس لئے کہ ہم تجھے اپنی بڑی بڑی نشانیاں دکھانا چاہتے ہیں‏

اذْهَبْ إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَى (۲۴)

اب تو فرعون کی طرف جا اس نے بڑی سرکشی مچا رکھی ہے

فرعون کا ذکر اس لئے کیا کہ اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا تھا اور اس پر طرح طرح کے ظلم روا رکھتا تھا۔ علاوہ ازیں اس کی سرکشی و طغیانی بھی بہت بڑھ گئی تھی حتٰی کہ وہ دعویٰ کرنے لگا تھا  اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعَلٰی ' میں تمہارا بلند تر رب ہوں '

قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي (۲۵)

موسیٰ ؑنے کہا اے میرے پروردگار! میرا سینہ میرے لئے کھول دے۔‏

وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي (۲۶)

اور میرے کام کو مجھ پر آسان کر دے‏

وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسَانِي (۲۷)

اور میری زبان کی گرہ بھی کھول دے۔‏

يَفْقَهُوا قَوْلِي (۲۸)

تاکہ لوگ میری بات اچھی طرح سمجھ سکیں۔‏

وَاجْعَلْ لِي وَزِيرًا مِنْ أَهْلِي (۲۹)

وَاجْعَلْ لِي وَزِيرًا مِنْ أَهْلِي (۲۹)

اور میرا وزیر میرے کنبے میں سے کر دے۔‏

هَارُونَ أَخِي (۳۰)

یعنی میرا بھائی ہارونؑ کو۔‏

اشْدُدْ بِهِ أَزْرِي (۳۱)

تو اس سے میری کمر کس دے۔‏

وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي (۳۲)

اور اسے میرا شریک کار کر دے

کہتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام جب فرعون کے شاہی محل میں زیر پرورش تھے تو کھجور یا موتی کی بجائے آگ کا انگارا منہ میں ڈال لیا تھا جس سے ان کی زبان جل گئی اور اس میں لکنت پیدا ہوگئی ۔ (ا بن کثیر)

جب اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ فرعون کے پاس جا کر میرا پیغام پہنچاؤ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دل میں دو باتیں آئیں ایک تو یہ کہ وہ بڑا جابر اور متکبر بادشاہ ہے بلکہ رب ہونے تک کا دعویدار ہے دوسرا یہ کہ موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں اس کی قوم کا ایک آدمی مارا گیا تھا اور جس کی وجہ سے موسیٰ کو اپنی جان بچانے کے لیے وہاں سے نکلنا پڑا تھا

یعنی ایک فرعون کی عظمت وجباریت کا خوف اور دوسرا اپنے ہاتھوں ہونے والے واقعہ کا اندیشہ

 اور ان دونوں پر زائد تیسری بات زبان میں لکنت حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا فرمائی کہ یا اللہ ! میرا سینہ کھول دے تاکہ میں رسالت کا بوجھ اٹھا سکوں میرے کام کو آسان فرما دے یعنی جو مہم مجھے درپیش ہے اس میں میری مدد فرما اور میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ فرعون کے سامنے میں پوری وضاحت سے تیرا پیغام پہنچا سکوں اور اگر ضرورت پیش آئے تو اپنا دفاع بھی کر سکوں اس کے ساتھ یہ دعا بھی کی کہ میرے بھائی ہارون علیہ السلام کو (کہتے ہیں کہ یہ عمر میں موسیٰ علیہ السلام سے بڑے تھے) بطور معین اور مددگار میرا وزیر اور شریک کار بنا دے

 وزیر موازر کے معنی میں ہے یعنی بوجھ اٹھانے والا جس طرح ایک وزیر بادشاہ کا بوجھ اٹھاتا ہے اور امور مملکت میں اسکا مشیر ہوتا ہے اسی طرح ہارون علیہ السلام میرا مشیر اور بوجھ اٹھانے والا ساتھی ہو۔

كَيْ نُسَبِّحَكَ كَثِيرًا (۳۳)

تاکہ ہم دونوں بکثرت تیری تسبیح بیان کریں‏

وَنَذْكُرَكَ كَثِيرًا (۳۴)

اور بکثرت تیری یاد کریں ۔

یہ دعاؤں کی علت بیان کی کہ اس طرح ہم تبلیغ رسالت کے ساتھ ساتھ تیری تسبیح اور تیرا ذکر بھی زیادہ کر سکیں۔

إِنَّكَ كُنْتَ بِنَا بَصِيرًا (۳۵)

بیشک تو ہمیں خوب دیکھنے بھالنے والا ہے (١)۔‏

یعنی تجھے سارے حالات کا علم ہے اور بچپن میں جس طرح تو نے ہم پر احسان کئے، اب بھی اپنے احسانات سے ہمیں محروم نہ رکھ۔

قَالَ قَدْ أُوتِيتَ سُؤْلَكَ يَا مُوسَى (۳۶)

جناب باری تعالیٰ نے فرمایا موسیٰ تیرے تمام سوالات پورے کر دیے گئے

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ، اللہ تعالیٰ نے زبان کی لکنت کو بھی دور فرما دیا ہوگا۔ اس لئے یہ کہنا صحیح نہیں کہ موسیٰ علیہ السلام نے چونکہ پوری لکنت دور کرنے کی دعا نہیں کی تھی، اس لئے کچھ باقی رہ گئی تھی۔

 باقی رہا فرعون کا یہ کہنا ' یہ تو صاف بول بھی نہیں سکتا ' یہ ان کی تحقیق گزشتہ کیفیت کے اعتبار سے ہے۔

وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلَيْكَ مَرَّةً أُخْرَى (۳۷)

ہم نے تو تجھ پر ایک بار اور بھی بڑا احسان کیا ہے

قبولیت دعا کی خوشخبری کے ساتھ مزید تسلی اور حوصلے کے لئے اللہ تعالیٰ بچپن کے اس احسان کا ذکر فرما رہا ہے، جب موسیٰ علیہ السلام کی ماں نے قتل کے اندیشے سے اللہ کے حکم سے، جب وہ شیر خوار بچے تھے تابوت میں ڈل کر دریا کے سپرد کر دیا تھا

إِذْ أَوْحَيْنَا إِلَى أُمِّكَ مَا يُوحَى (۳۸)

جب کہ ہم نے تیری ماں کو وہ الہام کیا جس کا ذکر اب کیا جا رہا ہے۔‏

أَنِ اقْذِفِيهِ فِي التَّابُوتِ فَاقْذِفِيهِ فِي الْيَمِّ فَلْيُلْقِهِ الْيَمُّ بِالسَّاحِلِ يَأْخُذْهُ عَدُوٌّ لِي وَعَدُوٌّ لَهُ ۚ

کہ تو اسے صندوق میں بند کر کے دریا میں چھوڑ دے، پس دریا اسے کنارے لا ڈالے گا اور میرا اور خود اس کا دشمن اسے لے لے گا

مراد فرعون ہے جو اللہ کا بھی دشمن اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا بھی دشمن تھا۔ یعنی لکڑی کا وہ تابوت تیرتا ہواجب شاہی محل کے کنارے پہنچا تو اسے باہر نکال کر دیکھا گیا، تو اس میں ایک معصوم بچہ تھا، فرعون نے اپنی بیوی کی خواہش پر پرورش کے لئے شاہی محل میں رکھ لیا۔

وَأَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِنِّي وَلِتُصْنَعَ عَلَى عَيْنِي (۳۹)

اور میں نے اپنی طرف کی خاص محبت و مقبولیت تجھ پر ڈال دی (۱) تاکہ تیری پرورش میری آنکھوں کے سامنے (۲) کی جائے۔‏

۱۔  یعنی فرعون کے دل میں ڈال دی یا عام لوگوں کے دلوں میں تیری محبت ڈال دی۔

۲۔  چنانچہ اللہ کی قدرت کا اور اس کی حفاظت و نگہبانی کا کمال اور کرشمہ دیکھئے کہ جس بچے کی خاطر، فرعون بےشمار بچوں کو قتل کروا چکا، تاکہ وہ زندہ نہ رہے، اسی بچے کو اللہ تعالیٰ اس کی گود میں پلوا رہا ہے، اور ماں اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہے، لیکن اس کی اجرت بھی اسی دشمن موسیٰ علیہ السلام سے وصول کر رہی ہے۔

إِذْ تَمْشِي أُخْتُكَ فَتَقُولُ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى مَنْ يَكْفُلُهُ ۖ

 (یاد کر) جبکہ تیری بہن چل رہی تھی اور کہہ رہی تھی کہ اگر تم کہو تو میں بتادوں جو اس کی نگہبانی کرے

یہ اس وقت ہوا، جب ماں نے تابوت دریا میں پھینک دیا تو بیٹی سے کہا، ذرا دیکھتی رہو، یہ کہاں کنارے لگتا ہے اور اس کے ساتھ کیا معاملہ ہوتا ہے؟

جب اللہ کی مشیت سے موسیٰ علیہ السلام فرعون کے محل میں پہنچ گئے، شیرخوارگی کا عالم تھا، چنانچہ دودھ پلانے والی عورتوں اور آیاؤں کو بلایا گیا لیکن موسیٰ علیہ السلام کسی کا دودھ نہ پیتے موسیٰ علیہ السلام کی بہن خاموشی سے سارا منظر دیکھ رہی تھی،  

بالآخر اس نے کہا میں تمہیں ایسی عورت بتاتی ہوں جو تمہاری یہ مشکل دور کر دے گی،

 انہوں نے کہا ٹھیک ہے، چنانچہ وہ اپنی ماں کو، جو موسیٰ علیہ السلام کی بھی ماں تھی، بلا لائی،

 جب ماں نے بیٹے کو چھاتی سے لگایا تو موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کی تدبیر و مشیت سے غٹا غٹ دودھ پینا شروع کر دیا۔

فَرَجَعْنَاكَ إِلَى أُمِّكَ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ ۚ

اس تدبیر سے ہم نے تجھے تیری ماں کے پاس پہنچایا کہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور وہ غمگین نہ ہو،

وَقَتَلْتَ نَفْسًا فَنَجَّيْنَاكَ مِنَ الْغَمِّ وَفَتَنَّاكَ فُتُونًا ۚ

اور تو نے ایک شخص کو مار ڈالا تھا (۱) اس پر بھی ہم نے تمہیں غم سے بچا لیا، غرض ہم نے تجھے اچھی طرح آزما لیا (۲)۔

۱۔  یہ ایک دوسرے احسان کا ذکر ہے، جب موسیٰ علیہ السلام سے غیر ارادی طور پر ایک فرعونی کو صرف گھونسہ مارنے سے مر گیا، جس کا ذکر سورہ قصص میں آئے گا ۔

۲۔  فتون دخول اور خروج کی طرح مصدر ہے یعنی ہم نے تجھے خوب آزمایا۔

یا یہ جمع ہے  فتنہ کی جیسے  حجرۃ کی  حجور اور  بدرۃ کی  بدور کی جمع ہے یعنی ہم نے تجھے کئی مرتبہ یا بار بار آزمایا یا آزمائشوں سے نکالا

مثلا ًجو سال بچوں کے قتل کا تھا تجھے پیدا کیا تیری ماں نے تجھے سمندر کی موجوں کے سپرد کر دیا تمام دایاؤں کا دودھ تجھ پر حرام کر دیا تو نے فرعون کی داڑھی پکڑ لی تھی جس پر اس نے تیرے قتل کا ارادہ کر لیا تھا تیرے ہاتھوں قبطی کا قتل ہوگیا وغیرہ ان تمام مواقع آزمائش میں ہم ہی تیری مدد اور چارہ سازی کرتے رہے۔

فَلَبِثْتَ سِنِينَ فِي أَهْلِ مَدْيَنَ ثُمَّ جِئْتَ عَلَى قَدَرٍ يَا مُوسَى (۴۰)

پھر تو کئی سال تک مدین کے لوگوں میں ٹھہرا رہا (۱) پھر تقدیر الٰہی کے مطابق(۲)  اے موسیٰ! تو آیا۔‏

۱۔ یعنی فرعونی کے غیر ارادی قتل کے بعد تو یہاں سے نکل کر مدین چلا گیا اور وہاں کئی سال رہا۔

۲۔  یعنی ایسے وقت میں تو آیا جو وقت میں نے اپنے فیصلے اور تقدیر میں تجھ سے ہم کلامی اور نبوت کے لئے لکھا ہوا تھا

 یا  قَدَرٍ سے مراد، عمر ہے یعنی عمر کے اس مرحلے میں آیا جو نبوت کے لئے موزوں ہے۔ یعنی چالیس سال کی عمر میں۔

وَاصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِي (۴۱)

اور میں نے تجھے خاص اپنی ذات کے لئے پسند فرمایا لیا۔‏

اذْهَبْ أَنْتَ وَأَخُوكَ بِآيَاتِي وَلَا تَنِيَا فِي ذِكْرِي (۴۲)

اب تو اپنے بھائی سمیت میری نشانیاں ہمراہ لئے ہوئے جا، اور خبردار میرے ذکر میں سستی نہ کرنا

اس میں اللہ سے دعا کے لئے بڑا سبق ہے کہ انہیں کثرت سے اللہ کا ذکر کرنا چاہئے

اذْهَبَا إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَى (۴۳)

تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ اس نے بڑی سرکشی کی ہے‏

فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَيِّنًا لَعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَى (۴۴)

اسے نرمی (١) سے سمجھاؤ کہ شاید وہ سمجھ لے یا ڈر جائے۔‏

یہ وصف بھی اللہ سے دعا کے لئے بہت ضروری ہے۔ کیونکہ سختی سے لوگ بدکتے ہیں اور دور بھاگتے ہیں اور نرمی سے قریب آتے ہیں اور متاثر ہوتے ہیں اگر وہ ہدایت قبول کرنے والے ہوتے ہیں۔

قَالَا رَبَّنَا إِنَّنَا نَخَافُ أَنْ يَفْرُطَ عَلَيْنَا أَوْ أَنْ يَطْغَى (۴۵)

دونوں نے کہا اے ہمارے رب! ہمیں خوف ہے کہ کہیں فرعون ہم پر کوئی زیادتی نہ کرے یا اپنی سرکشی میں بڑھ نہ جائے۔‏

قَالَ لَا تَخَافَا ۖ إِنَّنِي مَعَكُمَا أَسْمَعُ وَأَرَى (۴۶)

جواب ملا کہ تم مطلقاً خوف نہ کرو میں تمہارے ساتھ ہوں اور سنتا اور دیکھتا رہوں گا

تم فرعون کو جا کر کہو گے اور اس کے جواب میں جو کہے گا، میں وہ سنتا اور تمہارے اور اس کے طرز عمل کو دیکھتا رہوں گا۔ اس کے مطابق میں تمہاری مدد اور اس کی چالوں کو ناکام کروں گا، اس لئے اس کے پاس جاؤ، فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

فَأْتِيَاهُ فَقُولَا إِنَّا رَسُولَا رَبِّكَ فَأَرْسِلْ مَعَنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا تُعَذِّبْهُمْ ۖ

تم اس کے پاس جا کر کہو کہ ہم تیرے پروردگار کے پیغمبر ہیں تو ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دے، ان کی سزائیں موقوف کر۔

قَدْ جِئْنَاكَ بِآيَةٍ مِنْ رَبِّكَ ۖ وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى (۴۷)

ہم تو تیرے پاس تیرے رب کی طرف سے نشانی لے کر آئے ہیں اور سلامتی اس کے لئے ہے جو ہدایت کا پابند (١) ہو جائے۔‏

یہ سلام تحیہ نہیں ہے، بلکہ امن و سلامتی کی طرف دعوت ہے۔

جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روم کے بادشاہ ہرقل کے نام مکتوب میں لکھا تھا،  و اَسْلِمْ، تَسْلَمْ، (اسلام قبول کر لے، سلامتی میں رہے گا) اس طرح مکتوب کے شروع میں آپﷺ نے  وَالسَّلٰمُ عَلٰی مَنِ اتَبَعَ الْھُدٰی بھی تحریر فرمایا۔ (ابن کثیر)

اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی غیر مسلم کو مکتوب یا مجلس میں مخاطب کرنا ہو تو اسے انہی الفاظ میں سلام کہا جائے، جو مشروط ہے ہدایت کے اپنانے کے ساتھ۔

إِنَّا قَدْ أُوحِيَ إِلَيْنَا أَنَّ الْعَذَابَ عَلَى مَنْ كَذَّبَ وَتَوَلَّى (۴۸)

ہمارے طرف وحی کی گئی ہے کہ جو جھٹلائے اور روگردانی کرے اس کے لئے عذاب ہے‏

قَالَ فَمَنْ رَبُّكُمَا يَا مُوسَى (۴۹)

فرعون نے پوچھا کہ اے موسیٰ! تم دونوں کا رب کون ہے؟‏

قَالَ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَى (۵۰)

جواب دیا کہ ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر ایک کو اس کی خاص صورت، شکل عنایت فرمائی پھر راہ سجھا دی ۔

مثلاً جو شکل صورت انسان کے مناسب حال تھی، وہ اسے، جو جانوروں کے مطابق تھی وہ جانوروں کو عطا فرمائی '

راہ سجھائی ' کا مطلب ہر مخلوق کو اس کی طبعی ضروریات کے مطابق رہن سہن، کھانے پینے اور بود و باش کا طریقہ سمجھا دیا، اس کے مطابق ہر مخلوق کا سامان زندگی فراہم کرتی اور حیات مستعار کے دن گزارتی ہے۔

قَالَ فَمَا بَالُ الْقُرُونِ الْأُولَى (۵۱)

اس نے کہا اچھا یہ تو بتاؤ اگلے زمانے والوں کا حال کیا ہونا ہے

فرعون نے بات کا رخ دوسری طرف پھیرنے کے لئے یہ سوال کیا، یعنی پہلے لوگ جو غیر اللہ کی عبادت کرتے ہوئے دنیا سے چلے گئے، ان کا حال کیا ہوگا؟

قَالَ عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّي فِي كِتَابٍ ۖ لَا يَضِلُّ رَبِّي وَلَا يَنْسَى (۵۲)

جواب دیا کہ ان کا علم میرے رب کے ہاں کتاب میں موجود ہے، نہ تو میرا رب غلطی کرتا ہے نہ بھولتا ہے

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جواب میں فرمایا، ان کا علم نہ تجھے ہے نہ مجھے۔ البتہ ان کا علم میرے رب کو ہے، جو اس کے پاس کتاب میں موجود ہے وہ اس کے مطابق جزا و سزا دے گا، پھر اس کا علم اس طرح ہرچیز کو محیط ہے کہ اس کی نظر سے کوئی چھوٹی بڑی چیز اوجھل نہیں ہو سکتی، نہ اسے بھول ہی لا حق ہو سکتی ہے۔

 جب کہ مخلوق کے علم میں دونوں نقص موجود ہیں۔ ایک تو ان کا علم محیط کل نہیں، بلکہ ناقص ہے۔ دوسرے، علم کے بعد وہ بھول بھی سکتے ہیں، میرا رب ان دونوں نقصوں سے پاک ہے۔ آگے، رب کی مزید صفات بیان کی جا رہی ہیں۔

الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْدًا وَسَلَكَ لَكُمْ فِيهَا سُبُلًا وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِنْ نَبَاتٍ شَتَّى (۵۳)

اسی نے تمہارے لئے زمین کو فرش بنایا اور اس میں تمہارے چلنے کے لئے راستے بنائے ہیں اور آسمان سے پانی بھی وہی برساتا ہے،

پھر برسات کی وجہ سے مختلف قسم کی پیداوار بھی ہم ہی پیدا کرتے ہیں۔‏

كُلُوا وَارْعَوْا أَنْعَامَكُمْ ۗ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِأُولِي النُّهَى (۵۴)

تم خود کھاؤ اور اپنے چوپاؤں کو بھی چراؤ (١) کچھ شک نہیں کہ اس میں عقلمندوں کے لئے (٢) بہت سی نشانیاں ہیں۔‏

۱۔ یعنی بیشمار اقسام کی پیداوار میں کچھ چیزیں تمہاری خوراک اور لذت اور راحت کا سامان ہیں اور کچھ تمہارے چوپاؤں اور جانوروں کے لئے ہیں۔

۲۔   لِأُولِي النُّهَى عقل والے۔

 عقل کو  نُھْبَۃ اور عقلمند کو  ذُوْ نُھْیَۃٍ، اس لئے کہا جاتا ہے کہ بالآخر انہی کی رائے پر معاملہ انتہا پذیر ہوتا ہے، یا اس لئے کہ یہ نفس کو گناہوں سے روکتے ہیں۔  (فتح القدیر)

مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَى (۵۵)

اس زمین میں سے ہم نے تمہیں پیدا کیا اور اسی میں پھر واپس لوٹائیں گے اور اسی سے پھر دوبارہ تم سب کو نکال کھڑا کریں گے۔‏

بعض روایات میں دفنانے کے بعد تین مٹھیاں (یا بکے) مٹی ڈالتے وقت اس آیت کا پڑھنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے، لیکن سنداً یہ روایات ضعیف ہیں۔تاہم آیت کے بغیر تین لپیں ڈالنے والی روایت، جو ابن ماجہ میں ہے، صحیح ہے، اس لئے دفنانے کے بعد دونوں ہاتھوں سے تین تین مرتبہ مٹی ڈالنے کو علماء نے مستحب قرارا دیا ہے۔ ملاحظہ ہو کتاب الجنائر صفحہ ١٥٢۔

وَلَقَدْ أَرَيْنَاهُ آيَاتِنَا كُلَّهَا فَكَذَّبَ وَأَبَى (۵۶)

ہم نے اسے اپنی سب نشانیاں دکھا دیں لیکن پھر بھی اس نے جھٹلایا اور انکار کر دیا۔‏

قَالَ أَجِئْتَنَا لِتُخْرِجَنَا مِنْ أَرْضِنَا بِسِحْرِكَ يَا مُوسَى (۵۷)

کہنے لگا اے موسیٰ! کیا تو اسی لئے آیا ہے کہ ہمیں اپنے جادو کے زور سے ہمارے ملک سے باہر نکال دے

جب فرعون کو دلائل واضح کے ساتھ وہ معجزات بھی دکھلائے گئے، جو عصا اور ید بیضا کی صورت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا کئے گئے تھے، تو فرعون نے اسے جادو کا کرتب سمجھا اور کہنے لگا اچھا تو ہمیں اس جادو کے زور سے ہماری زمین سے نکالنا چاہتا ہے؟

فَلَنَأْتِيَنَّكَ بِسِحْرٍ مِثْلِهِ

اچھا ہم بھی تیرے مقابلے میں اسی جیسا جادو ضرور لائیں گے،

فَاجْعَلْ بَيْنَنَا وَبَيْنَكَ مَوْعِدًا لَا نُخْلِفُهُ نَحْنُ وَلَا أَنْتَ مَكَانًا سُوًى (۵۸)

پس تو ہمارے اور اپنے درمیان ایک وعدے کا وقت مقرر کر لے (١) کہ نہ ہم اس کا خلاف کریں اور نہ تو، صاف میدان میں مقابلہ ہو۔ (٢)‏

۱۔  مَوْعِدًا مصدر ہے یا اگر ظرف ہے تو زمان اور مکان دونوں مراد ہو سکتے ہیں کوئی جگہ اور دن مقرر کر لے۔

۲۔   مَكَانًا سُوًى ۔ صاف ہموار جگہ، جہاں ہونے والے مقابلے کو ہر شخص آسانی سے دیکھ سکے یا ایسی برابر کی جگہ، جہاں فریقین سہولت سے پہنچ سکیں۔

قَالَ مَوْعِدُكُمْ يَوْمُ الزِّينَةِ وَأَنْ يُحْشَرَ النَّاسُ ضُحًى (۵۹)

موسیٰ ؑ نے جواب دیا کہ زینت اور جشن کے دن (١) کا وعدہ ہے اور یہ کہ لوگ دن چڑھے ہی جمع ہوجائیں‏

اس سے مراد نو روز یا کوئی اور سالانہ میلے یا جشن کا دن ہے جسے وہ عید کے طور پر مناتے تھے۔

فَتَوَلَّى فِرْعَوْنُ فَجَمَعَ كَيْدَهُ ثُمَّ أَتَى (۶۰)

پس فرعون لوٹ گیا اور اس نے اپنے ہتھکنڈے جمع کئے پھر آگیا

یعنی مختلف شہروں سے ماہر جادو گروں کو جمع کر کے اجتماع گاہ میں آ گیا۔

قَالَ لَهُمْ مُوسَى وَيْلَكُمْ لَا تَفْتَرُوا عَلَى اللَّهِ كَذِبًا فَيُسْحِتَكُمْ بِعَذَابٍ ۖ وَقَدْ خَابَ مَنِ افْتَرَى (۶۱)

موسیٰؑ نے کہا تمہاری شامت آچکی، اللہ تعالیٰ پر جھوٹ اور افتراء نہ باندھو کہ تمہیں عذابوں سے ملیامیٹ کردے،

 یاد رکھو وہ کبھی کامیاب نہ ہوگا جس نے جھوٹی بات گھڑی۔

جب فرعون اجتماع گاہ میں جادو گروں کو مقابلہ کی ترغیب دے رہا تھا اور ان کو انعامات اور قرب خصوصی سے نواز نے کا اظہار کر رہا تھا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی مقابلے سے پہلے انہیں وعظ کیا اور ان کے موجودہ رویے پر انہیں عذاب الٰہی سے ڈرایا۔

فَتَنَازَعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ وَأَسَرُّوا النَّجْوَى (۶۲)

پس یہ لوگ آپس کے مشوروں میں مختلف رائے ہوگئے اور چھپ کر چپکے چپکے مشورہ کرنے لگے ۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وعظ سے ان میں باہم کچھ اختلاف ہوا اور بعض چپکے چپکے کہنے لگے کہ یہ واقعی اللہ کا نبی ہی نہ ہو، اس کی گفتگو تو جادو گروں والی نہیں پیغمبرانہ لگتی ہے۔ بعض نے اس کے برعکس رائے کا اظہار کیا۔

قَالُوا إِنْ هَذَانِ لَسَاحِرَانِ يُرِيدَانِ أَنْ يُخْرِجَاكُمْ مِنْ أَرْضِكُمْ بِسِحْرِهِمَا وَيَذْهَبَا بِطَرِيقَتِكُمُ الْمُثْلَى (۶۳)

کہنے لگے یہ دونوں محض جادوگر ہیں اور ان کا پختہ ارادہ ہے کہ اپنے جادو کے زور سے تمہیں تمہارے ملک سے نکال باہر کریں

 اور تمہارے بہترین مذہب کو برباد کریں ۔

 الْمُثْلَى، طریقۃ کی صفت ہے یہ امثل کی تانیث ہے افضل کے معنی میں مطلب یہ ہے کہ اگر یہ دونوں بھائی اپنے ' جادو ' کے زور سے غالب آ گئے، تو سادات و اشراف اس کی طرف مائل ہو جائیں گے، جس سے ہمارا اقتدار خطرے میں اور ان کے اقتدار کا امکان بڑھ جائے گا۔

علاوہ ازیں ہمارا بہترین طریقہ یا مذہب، اسے بھی یہ ختم کر دیں گے۔ یعنی اپنے مشرکانہ مذہب کو بھی انہوں نے "بہترین"قرار دیا جیسا کہ آج بھی ہر باطل مذہب اور فرقے کے پیروکار اسی زعم فاسد میں مبتلا ہیں سچ فرمایا اللہ نے:

كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ۔ (۳۰:۳۲)

ہر فرقہ جو اس کے پاس ہے اس پر ریچھ رہا ہے۔

فَأَجْمِعُوا كَيْدَكُمْ ثُمَّ ائْتُوا صَفًّا ۚ وَقَدْ أَفْلَحَ الْيَوْمَ مَنِ اسْتَعْلَى (۶۴)

تو تم بھی اپنا کوئی داؤ اٹھا نہ رکھو، پھر صف بندی کرکے آؤ، جو آج غالب آگیا وہی بازی لے گیا۔‏

قَالُوا يَا مُوسَى إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ أَوَّلَ مَنْ أَلْقَى (۶۵)

کہنے لگے اے موسیٰ! یا تو پہلے ڈال یا ہم پہلے ڈالنے والے بن جائیں۔‏

قَالَ بَلْ أَلْقُوا ۖ

جواب دیا کہ نہیں تم ہی پہلے ڈالو

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انہیں پہلے اپنا کرتب دکھانے کے لئے کہا، تاکہ ان پر یہ واضح ہو جائے کہ وہ جادو گروں کی اتنی بڑی تعداد سے، جو فرعون جمع کر کے لے آیا ہے، اسی طرح ان کے ساحرانہ کمال اور کرتبوں سے خوف زدہ نہیں ہیں۔

دوسرے، ان کی ساحرانہ شعبدہ بازیاں، جب معجزہ الٰہی سے چشم زدن میں ہوا ہو جائیں گی، تو اس کا بہت اچھا اثر پڑے گا اور جادوگر یہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ یہ جادو نہیں ہے، واقعی اسے اللہ کی تائید حاصل ہے کہ آن واحد میں اس کی ایک لاٹھی ہمارے سارے کرتبوں کو نگل گئی۔

فَإِذَا حِبَالُهُمْ وَعِصِيُّهُمْ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِنْ سِحْرِهِمْ أَنَّهَا تَسْعَى (۶۶)

اب تو موسیٰ ؑ  کو یہ خیال گزرنے لگا کہ ان کی رسیاں اور لکڑیاں ان کے جادو کے زور سے دوڑ بھاگ رہی ہیں

قرآن کے ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسیاں اور لاٹھیاں حقیقتاً سانپ نہیں بنی تھیں، بلکہ جادو کے زور سے ایسا محسوس ہوتا تھا، جیسے مسمریزم کے ذریعے سے نظر بندی کر دی جاتی ہے۔ تاہم اس کا اثر یہ ضرور ہوتا ہے کہ عارضی اور وقتی طور پر دیکھنے والوں پر ایک دہشت طاری ہو جاتی ہے، گو شے کی حقیقت تبدیل نہ ہو۔

 دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ جادو کتنا بھی اونچے درجے کا ہو، وہ شے کی حقیقت تبدیل نہیں کر سکتا۔

فَأَوْجَسَ فِي نَفْسِهِ خِيفَةً مُوسَى (۶۷)

پس موسیٰؑ نے اپنے دل ہی دل میں ڈر محسوس کیا۔‏

قُلْنَا لَا تَخَفْ إِنَّكَ أَنْتَ الْأَعْلَى (۶۸)

ہم نے فرمایا کچھ خوف نہ کر یقیناً تو ہی غالب اور برتر رہے گا ۔

اس دہشت ناک منظر کو دیکھ کر اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خوف محسوس کیا، تو یہ ایک طبعی چیز تھی، جو کمال نبوت کے منافی ہے نہ عصمت کے۔ کیونکہ نبی بھی بشر ہی ہوتا ہے اور بشریت کے طبعی تقاضوں سے نہ وہ بالا ہوتا ہے نہ ہو سکتا ہے، بہرحال موسیٰ علیہ السلام کے اندیشے اور خوف کو دور کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا، موسیٰؑ کسی بھی لحاظ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، تو ہی غالب رہے گا،

اس جملے سے طبعی خوف اور دیگر اندیشوں، سب کا ہی ازالہ فرما دیا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، جیسا کہ اگلی آیت میں ہے۔

وَأَلْقِ مَا فِي يَمِينِكَ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوا ۖ

اور تیرے دائیں ہاتھ میں جو ہے اسے ڈال دے کہ ان کی تمام کاریگری کو وہ نگل جائے،

إِنَّمَا صَنَعُوا كَيْدُ سَاحِرٍ ۖ وَلَا يُفْلِحُ السَّاحِرُ حَيْثُ أَتَى (۶۹)

 انہوں نے جو کچھ بنایا ہے یہ صرف جادوگروں کے کرتب ہیں اور جادوگر کہیں سے بھی آئے کامیاب نہیں ہوتا۔‏

فَأُلْقِيَ السَّحَرَةُ سُجَّدًا قَالُوا آمَنَّا بِرَبِّ هَارُونَ وَمُوسَى (۷۰)

اب تو تمام جادوگر سجدے میں گر پڑے اور پکار اٹھے کہ ہم تو ہارون اور موسیٰ (علیہما السلام) کے رب پر ایمان لائے‏

قَالَ آمَنْتُمْ لَهُ قَبْلَ أَنْ آذَنَ لَكُمْ ۖ إِنَّهُ لَكَبِيرُكُمُ الَّذِي عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ ۖ

فرعون کہنے لگا کہ کیا میری اجازت سے پہلے ہی تم اس پر ایمان لے آئے؟ یقیناً تمہارا بڑا بزرگ ہے جس نے تم سب کو جادو سکھایا ہے،

فَلَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلَافٍ وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ فِي جُذُوعِ النَّخْلِ وَلَتَعْلَمُنَّ أَيُّنَا أَشَدُّ عَذَابًا وَأَبْقَى (۷۱)

 (سن لو) میں تمہارے ہاتھ پاؤں الٹے سیدھے (١) کٹوا کر تم سب کو کھجور کے تنوں میں سولی پر لٹکوا دوں گا،

اور تمہیں پوری طرح معلوم ہو جائے گا کہ ہم میں سے کس کی مار زیادہ سخت اور دیرپا ہے۔‏

 مِنْ خِلَافٍ (الٹے سیدھے) کا مطلب ہے سیدھا ہاتھ تو بایاں پاؤں یا بایاں ہاتھ تو سیدھا پاؤں

قَالُوا لَنْ نُؤْثِرَكَ عَلَى مَا جَاءَنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالَّذِي فَطَرَنَا ۖ

انہوں نے جواب دیا کہ ناممکن ہے کہ ہم تجھے ترجیح دیں ان دلیلوں پر جو ہمارے سامنےآ چکیں ہیں، اور اس اللہ پر جس نے ہمیں پیدا کیا ہے

یہ ترجمہ اس صورت میں ہے جب  وَالَّذِي فَطَرَنَا کا عطف  مَا جَاءَنَا پر ہو اور یہ بھی صحیح ہے

تاہم بعض مفسرین نے اسے قسم قرار دیا ہے۔ یعنی قسم ہے اس ذات کی جس نے ہمیں پیدا کیا، ہم تجھے ان دلیلوں پر ترجیح نہیں دیں گے جو ہمارے سامنے آ چکیں۔

فَاقْضِ مَا أَنْتَ قَاضٍ ۖ إِنَّمَا تَقْضِي هَذِهِ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا (۷۲)

اب تو تو جو کچھ کرنے والا ہے کر گزر، تو جو کچھ بھی حکم چلا سکتا ہے وہ اسی دنیاوی زندگی میں ہی ہے۔‏

یعنی تیرے بس میں جو کچھ ہے وہ کر لے ہمیں معلوم ہے کہ تیرا بس صرف اس دنیا میں ہی چل سکتا ہے جب کہ ہم جس پروردگار پر ایمان لائے ہیں اس کی حکمرانی تو دنیا وآخرت دونوں جگہوں پر ہے مرنے کے بعد ہم تیری حکمرانی اور تیرے ظلم وستم سے تو بچ جائیں گے کیونکہ جسموں سے روح کے نکل جانے کے بعد تیرا اختیار ختم ہو جائے گا لیکن اگر ہم اپنے رب کے نافرمان رہے تو ہم مرنے کے بعد بھی رب کے اختیار سے باہر نہیں نکل سکتے وہ ہمیں سخت عذاب دینے پر قادر ہے

 رب پر ایمان لانے کے بعد ایک مؤمن کی زندگی میں جو عظیم انقلاب آنا اور دنیا کی بےثباتی اور آخرت کی دائمی زندگی پر جس طرح یقین ہونا چاہیے اور پھر اس عقیدہ وایمان پر جو تکلیفیں آئیں انہیں جس حوصلہ وصبر اور عزم و استقامت سے برداشت کرنا چاہیے جادو گروں نے اس کا ایک بہترین نمونہ پیش کیا کہ ایمان لانے سے قبل کس طرح وہ فرعون سے انعامات اور دنیاوی جاہ ومنصب کے طالب تھے لیکن ایمان لانے کے بعد کوئی ترغیب وتحریض انہیں متزلزل کر سکی نہ تشدید وتعذیب کی دھمکیاں انہیں ایمان سے منحرف کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔

إِنَّا آمَنَّا بِرَبِّنَا لِيَغْفِرَ لَنَا خَطَايَانَا وَمَا أَكْرَهْتَنَا عَلَيْهِ مِنَ السِّحْرِ ۗ

ہم (اس امید سے) اپنے پروردگار پر ایمان لائے کہ وہ ہماری خطائیں معاف فرما دے اور جادوگری جس پر تم نے ہمیں مجبور کیا ہے

دوسرا ترجمہ اس کا یہ ہے کہ ' ہماری وہ غلطیاں بھی معاف فرما دے جو موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے میں تیرے مجبور کرنے پر ہم نے عمل جادو کی صورت میں کیں۔ ' اس صورت میں وَمَا أَكْرَهْتَنَا کا عطف خَطَايَانَا پر ہوگا۔

وَاللَّهُ خَيْرٌ وَأَبْقَى (۷۳)

اللہ ہی بہتر اور ہمیشہ باقی رہنے والا ہے ۔

یہ فرعون کے الفاظ، وَلَتَعْلَمُنَّ أَيُّنَا أَشَدُّ عَذَابًا وَأَبْقَى کا جواب ہے کہ اے فرعون! تو جو سخت ترین عذاب کی ہمیں دھمکی دے رہا ہے، اللہ تعالیٰ کے ہاں ہمیں اجر و ثواب ملے گا، وہ اس سے کہیں زیادہ بہتر اور پائیدار ہے۔

إِنَّهُ مَنْ يَأْتِ رَبَّهُ مُجْرِمًا فَإِنَّ لَهُ جَهَنَّمَ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيَى (۷۴)

بات یہی ہے کہ جو بھی گناہ گار بن کر اللہ تعالیٰ کے ہاں حاضر ہوگا اس کے لئے دوزخ ہے، جہاں نہ موت ہوگی اور نہ زندگی

یعنی عذاب سے تنگ آ کر موت کی آرزو کریں گے، تو موت نہیں آئے گی اور رات دن عذاب میں مبتلا رہنا، کھانے پینے کو زقوم جیسا تلخ درخت اور جہنمیوں کے جسموں سے نچڑا ہوا خون اور پیپ ملنا، یہ کوئی زندگی ہوگی؟

وَمَنْ يَأْتِهِ مُؤْمِنًا قَدْ عَمِلَ الصَّالِحَاتِ فَأُولَئِكَ لَهُمُ الدَّرَجَاتُ الْعُلَى (۷۵)

اور جو بھی اس کے پاس ایماندار ہو کر حاضر ہوگا اور اس نے اعمال بھی نیک کئے ہونگے اس کے لئے بلند و بالا درجے ہیں۔‏

جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَذَلِكَ جَزَاءُ مَنْ تَزَكَّى (۷۶)

ہمیشگی والی جنتیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جہاں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہی انعام ہے ہر اس شخص کا جو پاک ہوا ۔

جہنمیوں کے مقابلے میں اہل ایمان کو جو جنت کی پر آسائش زندگی ملے گی، اس کا ذکر فرمایا اور واضح کر دیا کہ اس کے مستحق وہ لوگ ہونگے جو ایمان لانے کے بعد اس کے تقاضے پورے کریں گے۔ یعنی اعمال صالح اختیار اور اپنے نفس کو گناہوں کی آلودگی سے پاک کریں گے۔ اس لئے کہ ایمان زبان سے صرف چند کلمات ادا کر دینے کا نام نہیں ہے بلکہ عقیدہ و عمل کے مجموعے کا نام ہے۔

وَلَقَدْ أَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى أَنْ أَسْرِ بِعِبَادِي فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقًا فِي الْبَحْرِ يَبَسًا لَا تَخَافُ دَرَكًا وَلَا تَخْشَى (۷۷)

ہم نے موسیٰ کی طرف وحی نازل فرمائی کہ تو راتوں رات میرے بندوں کو لے چل (١) اور ان کے لیے دریا میں خشک راستہ بنا لے‘(۲)

پھر نہ تجھے کسی کے آپکڑنے کا خطرہ ہوگا نہ ڈر ۔(۲)

۱۔ جب فرعون ایمان بھی نہیں لایا اور بنی اسرائیل کو بھی آزاد کرنے پر آمادہ نہیں ہوا، تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو یہ حکم دیا۔

۲۔  اس کی تفصیل سورۃ الشعرا میں آئے گی کہ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے سمندر میں لاٹھی ماری، جس سے سمندر میں گزرنے کے لئے خشک راستہ بن گیا۔

۳۔  خطرہ فرعون اور اس کے لشکر کا اور ڈر پانی میں ڈوبنے کا۔

فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ بِجُنُودِهِ فَغَشِيَهُمْ مِنَ الْيَمِّ مَا غَشِيَهُمْ (۷۸)

فرعون نے اپنے لشکروں سمیت ان کا تعاقب کیا پھر تو دریا ان سب پر چھا گیا جیسا کچھ چھا جانے والا تھا

یعنی اس خشک راستے پر جب فرعون اور اس کا لشکر چلنے لگا، تو اللہ نے سمندر کو حکم دیا کہ حسب سابق رواں دواں ہو جا، چنانچہ وہ خشک راستہ چشم زدن پانی کی موجوں میں تبدیل ہوگیا اور فرعون سمیت سارا لشکر غرق ہوگیا۔

 غَشِيَهُمْ ، کے معنی ہیں  علاھم وأصابھم سمندر کا پانی ان پر غالب آ گیا۔

  مَا غَشِيَهُمْ یہ تکرار  تعثیم وتہویل یعنی ہولناکی کے بیان کے لیے ہے یا اس کے معنی ہیں جو کہ مشہور ومعروف ہے۔ ۔

وَأَضَلَّ فِرْعَوْنُ قَوْمَهُ وَمَا هَدَى (۷۹)

فرعون نے اپنی قوم کو گمراہی میں ڈال دیا اور سیدھا راستہ نہ دکھایا

اس لئے کہ سمندر میں غرق ہونا ان کا مقدر تھا

يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ قَدْ أَنْجَيْنَاكُمْ مِنْ عَدُوِّكُمْ وَوَاعَدْنَاكُمْ جَانِبَ الطُّورِ الْأَيْمَنَ وَنَزَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَى (۸۰)

اے بنی اسرائیل! دیکھو ہم نے تمہیں تمہارے دشمن سے نجات دی اور تم سے کوہ طور کی دائیں طرف کا وعدہ (١) اور تم پر من و سلویٰ اتارا (٢)‏

۱۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر تمہیں یعنی تمہارے نمائندے بھی ساتھ لے کر آئیں تاکہ تمہارے سامنے ہی ہم موسیٰ علیہ السلام سے ہم کلام ہوں، یا ضمیر جمع اس لئے لائی گئی کہ کوہ طور پر موسیٰ علیہ السلام کو بلانا، بنی اسرائیل ہی کی خاطر اور انہی کی ہدایت و رہنمائی کے لئے تھا۔

۲۔   من و سلویٰ کے نزول کا واقعہ، سورہ بقرہ کے آغاز میں گزر چکا ہے۔

 من کوئی میٹھی چیز تھی جو آسمان سے نازل ہوئی تھی اور سلویٰ سے مراد بٹیر پرندے ہیں جو کثرت سے ان کے پاس آتے اور وہ حسب ضرورت انہیں پکڑ کر پکاتے اور کھا لیتے۔ (ابن کثیر)

كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَلَا تَطْغَوْا فِيهِ فَيَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبِي ۖ

تم ہماری دی ہوئی پاکیزہ روزی کھاؤ، اور اس میں حد سے آگے نہ بڑھو (١) ورنہ تم پر میرا غضب نازل ہوگا،

یعنی حلال اور جائز چیزوں کو چھوڑ کر حرام اور ناجائز چیزوں کی طرف تجاوز مت کرو، یا اللہ کی نعمتوں کا انکار کر کے یا کفر ان نعمت کا ارتکاب کر کے اور نافرمانی کر کے حد سے تجاوز نہ کرو، ان تمام مفہومات پر طغیان کا لفظ صادق آتا ہے

اور بعض نے کہا کہ  طغیان کا مفہوم ہے، ضرورت و حاجت سے زیادہ پرندے پکڑنا یعنی حاجت کے مطابق پرندے پکڑو اور اس سے تجاوز مت کرو۔

وَمَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي فَقَدْ هَوَى (۸۱)

اور جس پر میرا غضب نازل ہو جائے وہ یقیناً تباہ ہوا ۔

دوسرے معنی یہ بیان کئے گئے ہیں کہ وہ  ہاویہ یعنی جہنم میں گرا۔

  ہاویہ جہنم کا نچلا حصہ ہے، یعنی جہنم کی گہرائی والے حصے کا مستحق ہوگیا۔

وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدَى (۸۲)

ہاں بیشک میں انہیں بخش دینے والا ہوں جو توبہ کریں ایمان لائیں نیک عمل کریں اور راہ راست پر بھی رہیں

یعنی مغفرت الٰہی کا مستحق بننے کے لئے چار چیزیں ضروری ہیں۔

 کفر و شرک اور معاصی سے توبہ، ایمان، عمل صالح اور راہ راست پر چلتے رہنا یعنی استقلال حتٰی کہ ایمان ہی پر اسے موت آئے، ورنہ ظاہر بات ہے کہ توبہ و ایمان کے بعد اگر اس نے پھر شرک کا راستہ اختیار کر لیا، حتٰی کہ موت بھی اسے کفر و شرک پر ہی آئے تو مغفرت الٰہی کے بجائے عذاب کا مستحق ہوگا۔

وَمَا أَعْجَلَكَ عَنْ قَوْمِكَ يَا مُوسَى (۸۳)

اے موسیٰ! تجھے اپنی قوم سے (غافل کرکے) کون سی چیز جلدی لے آئی؟‏

قَالَ هُمْ أُولَاءِ عَلَى أَثَرِي وَعَجِلْتُ إِلَيْكَ رَبِّ لِتَرْضَى (۸۴)

کہا کہ وہ لوگ بھی میرے پیچھے ہی پیچھے ہیں، اور میں نے اے رب! تیری طرف جلدی اس لئے کی کہ تو خوش ہو جائے ۔

سمندر پار کرنے کے بعد موسیٰ علیہ السلام اسرائیل کے سربرآوردہ لوگوں کو ساتھ لے کر کوہ طور کی طرف چلے، لیکن رب کے شوق ملاقات میں تیز رفتاری سے ساتھیوں کو پیچھے چھوڑ کر اکیلے ہی طور پر پہنچ گئے، سوال کرنے پر جواب دیا، مجھے تو تیری رضا کی طلب اور اس کی جلدی تھی۔ وہ لوگ میرے پیچھے ہی آ رہے ہیں۔

 بعض کہتے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ میرے پیچھے آ رہے ہیں بلکہ یہ ہے کہ وہ میرے پیچھے کوہ طور کے قریب ہی ہیں اور وہاں میری واپسی کے منتظر ہیں۔

قَالَ فَإِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَكَ مِنْ بَعْدِكَ وَأَضَلَّهُمُ السَّامِرِيُّ (۸۵)

فرمایا! ہم نے تیری قوم کو تیرے پیچھے آزمائش میں ڈال دیا اور انہیں سامری نے بہکا دیا ہے

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد سامری نامی شخص نے بنی اسرائیل کو بچھڑا پوجنے پر لگا دیا، جس کی اطلاع اللہ تعالیٰ نے طور پر موسیٰ علیہ السلام کو دی کہ سامری نے تیری قوم کو گمراہ کر دیا ہے،

 فتنے میں ڈالنے کی نسبت اللہ نے اپنی طرف باحیثیت خالق کے کی ہے، ورنہ اس گمراہی کا سبب تو سامری ہی تھا۔ جیسا کہ  أَضَلَّهُمُ السَّامِرِيُّ سے واضح ہے۔

فَرَجَعَ مُوسَى إِلَى قَوْمِهِ غَضْبَانَ أَسِفًا ۚ

پس موسیٰ ؑ سخت غضبناک ہو کر رنج کے ساتھ واپس لوٹے،

قَالَ يَا قَوْمِ أَلَمْ يَعِدْكُمْ رَبُّكُمْ وَعْدًا حَسَنًا ۚ

اور کہنے لگے کہ اے میری قوم والو! کیا تم سے تمہارے پروردگار نے نیک وعدہ نہیں کیا تھا؟

اس سے مراد جنت کا یا فتح و ظفر کا وعدہ ہے اگر وہ دین پر قائم رہے یا تورات عطا کرنے کا وعدہ ہے، جس کے لئے طور پر انہیں بلایا گیا تھا۔

أَفَطَالَ عَلَيْكُمُ الْعَهْدُ

 کیا اس کی مدت تمہیں لمبی معلوم ہوئی؟

کیا اس عہد کو مدت دراز گزر گئی تھی کہ تم بھول گئے، اور بچھڑے کی پوجا شروع کر دی۔

أَمْ أَرَدْتُمْ أَنْ يَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبٌ مِنْ رَبِّكُمْ فَأَخْلَفْتُمْ مَوْعِدِي (۸۶)

بلکہ تمہارا ارادہ ہی یہ ہے کہ تم پر تمہارے پروردگار کا غضب نازل ہو؟ کہ تم نے میرے وعدے کے خلاف کیا

قوم نے موسیٰ علیہ السلام سے وعدہ کیا تھا کہ ان کی طور سے واپسی تک وہ اللہ کی اطاعت و عبادت پر قائم رہیں گے، یا یہ وعدہ تھا کہ ہم بھی طور پر آپ کے پیچھے پیچھے آ رہے ہیں لیکن راستے میں ہی رک کر انہوں نے گو سالہ پرستی شروع کر دی۔

قَالُوا مَا أَخْلَفْنَا مَوْعِدَكَ بِمَلْكِنَا وَلَكِنَّا حُمِّلْنَا أَوْزَارًا مِنْ زِينَةِ الْقَوْمِ فَقَذَفْنَاهَا فَكَذَلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُّ (۸۷)

انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے اپنے اختیار سے آپ کے ساتھ وعدے کے خلاف نہیں کیا (١)

بلکہ ہم پر زیورات قوم کے جو بوجھ لاد دیئے گئے تھے، انہیں ہم نے ڈال دیا، اور اسی طرح سامری نے بھی ڈال دیئے۔‏

 زِينَةِ سے زیورات اور  الْقَوْمِ سے قوم فرعون مراد ہے۔ کہتے ہیں

یعنی ہم نے اپنے اختیار سے یہ کام نہیں کیا بلکہ غلطی ہم سے اضطراری طور پر ہوگئی، آگے اس کی وجہ بیان کی

فَأَخْرَجَ لَهُمْ عِجْلًا جَسَدًا لَهُ خُوَارٌ فَقَالُوا هَذَا إِلَهُكُمْ وَإِلَهُ مُوسَى فَنَسِيَ (۸۸)

پھر اس نے لوگوں کے لئے ایک بچھڑا نکال کھڑا کیا یعنی بچھڑے کا بت، جس کی گائے کی سی آواز بھی تھی

 پھر کہنے لگے کہ یہی تمہارا بھی معبود ہے (١) اور موسیٰ کا بھی۔ لیکن موسیٰ بھول گیا ہے۔‏

 یہ زیورات انہوں نے فرعونیوں سے عاریتاً لئے تھے، اسی لئے انہیں بوجھ کہا گیا کیونکہ یہ ان کے لئے جائز نہیں تھے، چنانچہ انہیں جمع کر کے ایک گڑھے میں ڈال دیا گیا، سامری نے بھی (جو مسلمانوں کے بعض گمراہ فرقوں کی طرح) گمراہ تھا اس نے تمام زیورات کو تپا کر ایک طرح بچھڑا بنا دیا کہ جس میں ہوا کے اندر باہر آنے جانے سے ایک قسم کی آواز پیدا ہوتی تھی۔ اس آواز سے اس نے بنی اسرائیل کو گمراہ کیا کہ موسیٰ علیہ السلام تو گمراہ ہوگئے ہیں کہ وہ اللہ سے ملنے کے لئے طور پر گئے ہیں، جبکہ تمہارا اور موسیٰ علیہ السلام کا معبود تو یہ ہے۔

أَفَلَا يَرَوْنَ أَلَّا يَرْجِعُ إِلَيْهِمْ قَوْلًا وَلَا يَمْلِكُ لَهُمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا (۸۹)

کیا یہ گمراہ لوگ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ وہ تو ان کی بات کا جواب بھی نہیں دے سکتا اور نہ ان کے کسی برے بھلے کا اختیار رکھتا ہے

اللہ تعالیٰ نے ان کی جہالت و نادنی کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ان عقل کے اندھوں کو اتنا بھی نہیں پتہ چلا کہ یہ بچھڑا کوئی جواب دے سکتا ہے۔ نہ نفع نقصان پہنچانے پر قادر ہے۔ جب کہ معبود تو وہی ہو سکتا ہے جو ہر ایک کی فریاد سننے پر، نفع و نقصان پہنچانے پر اور حاجت برآوری پر قادر ہو۔

وَلَقَدْ قَالَ لَهُمْ هَارُونُ مِنْ قَبْلُ يَا قَوْمِ إِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِهِ ۖ

اور ہارونؑ نے اس سے پہلے ہی ان سے کہہ دیا تھا اے میری قوم والو! اس بچھڑے سے صرف تمہاری آزمائش کی گئی ہے،

وَإِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمَنُ فَاتَّبِعُونِي وَأَطِيعُوا أَمْرِي (۹۰)

تمہارا حقیقی پروردگار تو اللہ رحمٰن ہی ہے، پس تم سب میری تابعداری کرو۔ اور میری بات مانتے چلے جاؤ ۔

حضرت ہارون علیہ السلام نے یہ اس وقت کہا جب یہ قوم سامری کے پیچھے لگ کر بچھڑے کی عبادت میں لگ گئی

قَالُوا لَنْ نَبْرَحَ عَلَيْهِ عَاكِفِينَ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَيْنَا مُوسَى (۹۱)

انہوں نے جواب دیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی واپسی تک تو ہم اسی کے مجاور بنے بیٹھے رہیں گے

اسرائیلیوں کو یہ گو سالہ اتنا اچھا لگا کہ ہارون علیہ السلام کی بات کی بھی پروا نہیں کی اور اس کی تعظیم و عبادت چھوڑنے سے انکار کر دیا۔

قَالَ يَا هَارُونُ مَا مَنَعَكَ إِذْ رَأَيْتَهُمْ ضَلُّوا (۹۲)

موسیٰ ؑ  کہنے لگے اے ہارون! انہیں گمراہ ہوتا ہوا دیکھتے ہوئے تجھے کس چیز نے روکا تھا۔‏

أَلَّا تَتَّبِعَنِ ۖ أَفَعَصَيْتَ أَمْرِي (۹۳)

کہ تو میرے پیچھے نہ آیا۔ کیا تو بھی میرے فرمان کا نافرمان بن بیٹھا

یعنی اگر انہوں نے تیری بات ماننے سے انکار کر دیا تھا، تو تجھ کو فوراً میرے پیچھے کوہ طور پر آ کر مجھے بتلانا چاہیے تھا تو نے بھی میرے حکم کی پروا نہ کی۔ یعنی جانشینی کا صحیح حق ادا نہیں کیا۔

قَالَ يَا ابْنَ أُمَّ لَا تَأْخُذْ بِلِحْيَتِي وَلَا بِرَأْسِي ۖ

ہارونؑ نے کہا اے میرے ماں جائے بھائی! میری داڑھی نہ پکڑ اور سر کے بال نہ کھینچ،

إِنِّي خَشِيتُ أَنْ تَقُولَ فَرَّقْتَ بَيْنَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَمْ تَرْقُبْ قَوْلِي (۹۴)

 مجھے تو صرف یہ خیال دامن گیر ہوا کہ کہیں آپ یہ (نہ) فرمائیں (١) کہ تو نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا اور میری بات کا انتظار نہ کیا۔ (۲)‏

۱۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام قوم کو شرک کی گمراہی میں دیکھ کر سخت غضب ناک تھے اور سمجھتے تھے کہ شاید اس میں ان کے بھائی ہارون علیہ السلام کی، جن کو وہ اپنا خلیفہ بنا کر گئے تھے، خوشامد کا بھی دخل ہو، اس لئے سخت غصے میں ہارون علیہ السلام کی داڑھی اور سر پکڑ کر انہیں جھنجھوڑنا اور پوچھنا شروع کیا، جس پر حضرت ہارون علیہ السلام نے انہیں اتنا سخت رویہ اپنانے سے روکا۔

۲۔  سورہ اعراف میں حضرت ہارون علیہ السلام کا جواب یہ نقل ہوا ہے کہ قوم نے مجھے کمزور خیال کیا اور میرے قتل کے درپے ہوگئی (آیت۔ ۱٤۲) جس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام نے اپنی ذمے داری پوری طرح نبھائی اور انہیں سمجھا نے اور گو سالہ پرستی سے روکنے میں مداہنت اور کوتاہی نہیں کی۔ لیکن معاملے کو اس حد تک نہیں جانے دیا کہ خانہ جنگی شروع ہو جائے کیونکہ ہارون علیہ السلام کے قتل کا مطلب پھر ان کے حامیوں اور مخالفوں میں آپس میں خونی تصادم ہوتا اور بنی اسرائیل واضح طور پر دو گروہوں میں بٹ جاتے جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوتے حضرت موسیٰ علیہ السلام چونکہ خود وہاں موجود نہ تھے اس لیے صورت حال کی نزاکت سے بےخبر تھے اسی بنا پر حضرت ہارون علیہ السلام کو انہوں نے سخت سست کہا لیکن پھر وضاحت پر وہ اصل مجرم کی طرف متوجہ ہوئے اس لیے یہ استدلال صحیح نہیں (جیسا کہ بعض لوگ کرتے ہیں) کہ مسلمانوں کے اتحاد وارفاق کی خاطر شرکیہ امور اور باطل چیزوں کو بھی برداشت کر لینا چاہیے کیونکہ حضرت ہارون علیہ السلام نے نہ ایسا کیا ہی ہے نہ ان کے قول کا یہ مطلب ہی ہے۔

قَالَ فَمَا خَطْبُكَ يَا سَامِرِيُّ (۹۵)

موسیٰ ؑ نے پوچھا سامری تیرا کیا معاملہ ہے۔‏

قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوا بِهِ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِنْ أَثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا وَكَذَلِكَ سَوَّلَتْ لِي نَفْسِي (۹۶)

اس نے جواب دیا کہ مجھے وہ چیز دکھائی دی جو انہیں دکھائی نہیں دی، تو میں نے قاصدِ الٰہی کے نقش قدم سے ایک مٹھی بھر لی اسے اس میں ڈال دیا (١) اسی طرح میرے دل نے یہ بات میرے لئے بھلی بنا دی۔‏

مطلب یہ بیان کیا ہے کہ جبرائیل علیہ السلام کے گھوڑے کو گزرتے ہوئے سامری نے دیکھا اور اس کے قدموں کے نیچے کی مٹی اس نے سنبھال رکھ لی، جس میں کچھ کرامات کے اثرات تھے۔ اس مٹی کی مٹھی اس نے پگھلے ہوئے زیورات یا بچھڑے میں ڈالی تو اس میں سے ایک قسم کی آواز نکلنی شروع ہوگئی جو ان کے فتنے کا باعث بن گئی۔

قَالَ فَاذْهَبْ فَإِنَّ لَكَ فِي الْحَيَاةِ أَنْ تَقُولَ لَا مِسَاسَ ۖ

کہا اچھا جا دنیا کی زندگی میں تیری سزا یہی ہے کہ تو کہتا رہے کہ مجھے نہ چھونا

یعنی عمر بھر تو یہی کہتا رہے گا کہ مجھ سے دور رہو، مجھے نہ چھونا، اس لئے کہ اسے چھو تے ہی چھونے والا بھی اور یہ سامری بھی دونوں بخار میں مبتلا ہو جاتے۔ اس لئے جب کسی انسان کو دیکھتا تو فوراً چیخ اٹھتا

 کہا جاتا ہے کہ پھر یہ انسانوں کی بستی سے نکل کر جنگل میں چلا گیا، جہاں جانوروں کے ساتھ اس کی زندگی گزری اور یوں عبرت کا نمونہ بنا رہا،

گویا لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے جو شخص جتنا زیادہ حیلہ و فن اور مکر و فریب اختیار کرے گا، دنیا اور آخرت میں اس کی سزا بھی اسی حساب سے شدید تر اور نہایت عبرت ناک ہوگی۔

وَإِنَّ لَكَ مَوْعِدًا لَنْ تُخْلَفَهُ ۖ

اور ایک اور بھی وعدہ تیرے ساتھ ہے جو تجھ سے ہرگز نہیں ٹلے گا

یعنی آخرت کا عذاب اس کے علاوہ ہے جو ہرصورت بھگتنا پڑے گا۔

وَانْظُرْ إِلَى إِلَهِكَ الَّذِي ظَلْتَ عَلَيْهِ عَاكِفًا ۖ لَنُحَرِّقَنَّهُ ثُمَّ لَنَنْسِفَنَّهُ فِي الْيَمِّ نَسْفًا (۹۷)

اور اب تو اپنے اس معبود کو بھی دیکھ لینا جس کا اعتکاف کئے ہوئے تھا کہ ہم اسے جلا کر دریا میں ریزہ ریزہ اڑائیں گے۔

 اس سے معلوم ہوا کہ شرک کے آثار ختم کرنا بلکہ ان کا نام ونشان تک مٹا ڈالنا چاہیے ان کی نسبت کتنی ہی مقدس ہستیوں کی طرف ہو، توہین نہیں، جیسا کہ اہل بدعت، قبر پرست اور تعزیہ پرست باور کراتے ہیں بلکہ یہ توحید کا منشا اور دینی غیرت کا تقاضا ہے جیسے اس واقعے میں اس اثرالرسول کو نہیں دیکھا گیا جس سے ظاہری طور پر روحانی برکات کا مشاہدہ بھی کیا گیا اس کے باوجود اس کی پروا نہیں کی گئی اس لیے کہ وہ شرک کا ذریعہ بن گیا تھا۔

إِنَّمَا إِلَهُكُمُ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ ۚ وَسِعَ كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا (۹۸)

اصل بات یہی ہے کہ تم سب کا معبود برحق صرف اللہ ہی ہے اس کے سوا کوئی پرستش کے قابل نہیں۔ اس کا علم تمام چیزوں پر حاوی ہے‏

كَذَلِكَ نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنْبَاءِ مَا قَدْ سَبَقَ ۚ وَقَدْ آتَيْنَاكَ مِنْ لَدُنَّا ذِكْرًا (۹۹)

اس طرح ہم تیرے سامنے (١) پہلے کی گزری ہوئی وارداتیں بیان فرما رہے ہیں اور یقیناً ہم تجھے اپنے پاس سے نصیحت عطا فرما چکے ہیں ۔‏(٢)

۱۔ یعنی جس طرح ہم نے فرعون و موسیٰ علیہ السلام کا قصہ بیان کیا، اسی طرح انبیاء کے حالات ہم آپ پر بیان کر رہے ہیں تاکہ آپ ان سے باخبر ہوں، اور اس میں عبرت کے پہلو ہوں، انہیں لوگوں کے سامنے نمایاں کریں تاکہ لوگ اس کی روشنی میں صحیح رویہ اختیار کریں۔

۲۔  نصیحت ( ذِكْرًا) سے مراد قرآن عظیم ہے۔ جس سے بندہ اپنے رب کو یاد کرتا، ہدایت اختیار کرتا اور نجات و سعادت کا راستہ اپناتا ہے۔

مَنْ أَعْرَضَ عَنْهُ فَإِنَّهُ يَحْمِلُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وِزْرًا (۱۰۰)

اس سے جو منہ پھیر لے گا (١) وہ یقیناً قیامت کے دن اپنا بھاری بوجھ لادے ہوئے ہوگا ۔‏(٢)

۱۔ یعنی اس پر ایمان نہیں لائے گا اور اس میں جو کچھ درج ہے، اس پر عمل نہیں کرے گا۔

 ۲۔  یعنی گناہ عظیم اس لئے کہ اس کا نامہ اعمال، نیکیوں سے خالی اور برائیوں سے پر ہوگا۔

خَالِدِينَ فِيهِ ۖوَسَاءَ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حِمْلًا (۱۰۱)

جس میں ہمیشہ رہے گا (١) اور ان کے لئے قیامت کے دن (بڑا) برا بوجھ ہے‏

جس سے وہ بچ نہ سکے گا، نہ ہی بھاگ سکے گا

يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ ۚ

جس دن صور پھونکا جائے گا

صور سے مراد وہ (نرسنگا) ہے، جس میں اسرافیل علیہ السلام اللہ کے حکم سے پھونک ماریں گے تو قیامت برپا ہو جائے گی، حضرت اسرافیل علیہ السلام کے پہلے پھونکنے سے سب پر موت طاری ہو جائیگی، اور دوسرے پھونکنے سے بحکم الٰہی سب زندہ اور میدان محشر میں جمع ہو جائیں گے۔ آیت میں یہی دوسرا پھونکنا مراد ہے۔

وَنَحْشُرُ الْمُجْرِمِينَ يَوْمَئِذٍ زُرْقًا (۱۰۲)

اور گناہ گاروں کو ہم اس دن (دہشت کی وجہ سے) نیلی پیلی آنکھوں کے ساتھ گھیر لائیں گے‏

يَتَخَافَتُونَ بَيْنَهُمْ إِنْ لَبِثْتُمْ إِلَّا عَشْرًا (۱۰۳)

وہ آپس میں چپکے چپکے کہہ رہے (١) ہونگے کہ ہم تو (دنیا میں) صرف دس دن ہی رہے۔‏

شدت ہول اور دہشت کی وجہ سے ایک دوسرے سے چپکے چپکے باتیں کریں گے۔

نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُونَ إِذْ يَقُولُ أَمْثَلُهُمْ طَرِيقَةً إِنْ لَبِثْتُمْ إِلَّا يَوْمًا (۱۰۴)

جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں اسکی حقیقت سے ہم باخبر ہیں ان میں سب سے زیادہ اچھی رائے (١) والا کہہ رہا ہوگا کہ تم صرف ایک ہی دن دنیا میں رہے

یعنی سب سے زیادہ عاقل اور سمجھدار۔

یعنی دنیا کی زندگی انہیں چند دن بلکہ گھڑی دو گھڑی کی محسوس ہوگی۔ جس طرح دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُقْسِمُ الْمُجْرِمُونَ مَا لَبِثُوا غَيْرَ سَاعَةٍ ۚ۔ (۳۰:۵۵)

جس دن قیامت برپا ہوگی کافر قسمیں کھا کر کہیں گے کہ وہ (دنیا میں )ایک گھڑی سے زیادہ نہیں رہے

یہی مضمون اور بھی متعدد جگہ بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً سورہ فاطر، ۳۷سورۃ المؤمنون۔،۱۱۲۔۱۱٤سورۃ النازعات

مطلب یہی ہے فانی زندگی کو باقی رہنے والی زندگی پر ترجیح نہ دی جائے۔

وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ يَنْسِفُهَا رَبِّي نَسْفًا (۱۰۵)

وہ آپ سے پہاڑوں کی نسبت سوال کرتے ہیں، تو آپ کہہ دیں کہ انہیں میرا رب ریزہ ریزہ کرکے اڑا دے گا۔‏

فَيَذَرُهَا قَاعًا صَفْصَفًا (۱۰۶)

اور زمین کو بالکل ہموار صاف میدان کرکے چھوڑے گا۔‏

لَا تَرَى فِيهَا عِوَجًا وَلَا أَمْتًا (۱۰۷)

جس میں تو نہ کہیں موڑ توڑ دیکھے گا، نہ اونچ نیچ۔‏

يَوْمَئِذٍ يَتَّبِعُونَ الدَّاعِيَ لَا عِوَجَ لَهُ ۖ

جس دن لوگ پکارنے والے کے پیچھے چلیں (١) گے جس میں کوئی کجی نہ ہوگی (٢)

۱۔ یعنی جس دن اونچے نیچے پہاڑ، وادیاں، فلک بوس عمارتیں، سب صاف ہو جائیں گی، سمندر اور دریا خشک ہو جائیں گے، اور ساری زمین صاف چٹیل میدان ہو جائی گی۔ پھر ایک آواز آئیگی، جس کے پیچھے سارے لوگ لگ جائیں گے یعنی جس طرف وہ بلائے گا، جائیں گے۔

۲۔  یعنی اس بلانے والے سے ادھر ادھر نہیں ہو نگے۔

وَخَشَعَتِ الْأَصْوَاتُ لِلرَّحْمَنِ فَلَا تَسْمَعُ إِلَّا هَمْسًا (۱۰۸)

اور اللہ رحمٰن کے سامنے تمام آوازیں پست ہوجائیں گی سوائے کھسر پھسر کے تجھے کچھ بھی سنائی نہ دے گا ۔

یعنی مکمل سناٹا ہوگا سوائے قدموں کی آہٹ اور کھسر پھسر کے کچھ سنائی نہیں دے گا۔

يَوْمَئِذٍ لَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَنُ وَرَضِيَ لَهُ قَوْلًا (۱۰۹)

اس دن سفارش کچھ کام نہ آئیگی مگر جسے رحمٰن حکم دے اور اس کی بات کو پسند فرمائے

یعنی اس دن کسی کی سفارش کسی کو فائدہ نہیں پہنچائے گی، سوائے ان کے جن کو رحمٰن شفاعت کرنے کی اجازت دے گا، اور وہ بھی ہر کسی کی سفارش نہیں کریں گے بلکہ صرف ان کی سفارش کریں گے جن کی بابت سفارش کو اللہ پسند فرمائے گا اور یہ کون لوگ ہونگے؟ صرف اہل توحید، جن کے حق میں اللہ تعالیٰ سفارش کرنے کی اجازت دے گا۔

یہ مضمون قرآن میں متعدد جگہ بیان فرمایا گیا ہے۔ مثلاً سورہ نجم،۲ ٦ ، سورہ انبیاء، ۲۸۔ سورہ سباء،۲۳۔ سورہ النباء ۳۸۔ اور آیت الکرسی۔

يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِهِ عِلْمًا (۱۱۰)

جو کچھ ان کے آگے پیچھے ہے اسے اللہ ہی جانتا ہے مخلوق کا علم اس پر حاوی نہیں ہو سکتا۔

گزشتہ آیت میں شفاعت کے لیے جو اصول بیان فرمایا گیا ہے اس میں اس کی وجہ اور علت بیان کر دی گئی ہے کہ چونکہ اللہ کے سوا کسی کو بھی کسی کی بابت پورا علم نہیں ہے کہ کون کتنا بڑا مجرم ہے؟

 اور وہ اس بات کا مستحق ہے بھی یا نہیں کہ اس کی سفارش کی جا سکے؟

اس لیے اس بات کا فیصلہ بھی اللہ تعالیٰ ہی فرمائے گا کہ کون کون لوگ انبیاء وصلحا کی سفارش کے مستحق ہیں؟

 کیونکہ ہر شخص کے جرائم کی نوعیت وکیفیت کو اس کے سواء کوئی نہیں جانتا اور نہ جان ہی سکتا ہے۔

وَعَنَتِ الْوُجُوهُ لِلْحَيِّ الْقَيُّومِ ۖ وَقَدْ خَابَ مَنْ حَمَلَ ظُلْمًا (۱۱۱)

تمام چہرے اس زندہ اور قائم دائم اور مدبر، اللہ کے سامنے کمال عاجزی سے جھکے ہوئے ہونگے، یقیناً وہ برباد ہوا جس نے ظلم لاد لیا  

اس لئے کہ اس روز اللہ تعالیٰ مکمل انصاف فرمائے گا اور ہر صاحب حق کو اس کا حق دلائے گا۔ حتٰی کہ اگر ایک سینگ والی بکری نے بغیر سینگ والی بکری پر ظلم کیا ہوگا، تو اس کا بھی بدلہ دلایا جائے گا،

 اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی حدیث میں یہ بھی فرمایا:

لتؤدن الحقوق الی اھلھا

ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دو ' ورنہ قیامت کو دینا پڑے گا۔

دوسری حدیث میں فرمایا :

اِیَّاکُمْ و الظُّلْمَ فَاِنَّ الظُلْمَ ظُلُمَات،ُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ

ظلم سے بچو اس لئے کہ ظلم قیامت کے دن اندھیروں کا باعث ہوگا،

سب سے نامراد وہ شخص ہوگا جس نے شرک کا بوجھ بھی لاد رکھا ہوگا، اس لئے کہ شرک ظلم عظیم بھی ہے اور ناقابل معافی بھی۔

وَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا يَخَافُ ظُلْمًا وَلَا هَضْمًا (۱۱۲)

اور جو نیک اعمال کرے اور ایمان دار بھی ہو تو نہ اسے بے انصافی کا کھٹکا ہوگا نہ حق تلفی کا

بے انصافی یہ ہے کہ اس پر دوسروں کے گناہوں کا بوجھ بھی ڈال دیا جائے اور حق تلفی یہ ہے کہ نیکیوں کا اجر کم دیا جائے۔ یہ دونوں باتیں وہاں نہیں ہونگی۔

وَكَذَلِكَ أَنْزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا وَصَرَّفْنَا فِيهِ مِنَ الْوَعِيدِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ أَوْ يُحْدِثُ لَهُمْ ذِكْرًا (۱۱۳)

اس طرح ہم نے تجھ پر عربی میں قرآن نازل فرمایا ہے اور طرح طرح سے اس میں ڈر کا بیان سنایا ہے تاکہ لوگ پرہیزگار بن (١) جائیں

یا ان کے دل میں سوچ سمجھ تو پیدا کرے (٢)‏

۱۔ یعنی گناہ، محرمات اور فواحش کے ارتکاب سے باز آ جائیں۔

۲۔  یعنی اطاعت اور قرب حاصل کرنے کا شوق یا پچھلی امتوں کے حالات و واقعات سے عبرت حاصل کرنے کا جذبہ ان کے اندر پیدا کر دے۔

فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ ۗ

پس اللہ عالی شان والا سچا اور حقیقی بادشاہ ہے۔

جس کا وعدہ اور وعید حق ہے، جنت دوزخ حق ہے اور اس کی ہر بات حق ہے۔

وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُقْضَى إِلَيْكَ وَحْيُهُ ۖ

تو قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کر اس سے پہلے کہ تیری طرف جو وحی کی جاتی ہے وہ پوری کی جائے،

جبرائیل علیہ السلام جب وحی لے کر آتے اور سناتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی جلدی جلدی ساتھ ساتھ پڑھتے جاتے، کہ کہیں کچھ بھول نہ جائیں، اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا اور تاکید کی کہ غور سے، پہلے وحی کو سنیں، اس کو یاد کرانا اور دل میں بٹھا دینا ہمارا کام ہے۔ جیسا کہ سورۃ ق میں آئے گا۔

وَقُلْ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا (۱۱۴)

ہاں یہ دعا کر کہ پروردگار میرا علم بڑھا

یعنی اللہ تعالیٰ سے زیادتی علم کی دعا فرماتے رہیں۔

 اس میں علماء کے لئے بھی نصیحت ہے کہ وہ فتویٰ میں پوری تحقیق اور غور سے کام لیں، جلد بازی سے بچیں اور علم میں اضافہ کی صورتیں اختیار کرنے میں کوتاہی نہ کریں

 علاوہ ازیں علم سے مراد قرآن و حدیث کا علم ہے۔ قرآن میں اسی کو علم سے تعبیر کیا گیا اور ان کے حاملین کو علماء دیگر چیزوں کا علم، جو انسان کسب معاش کے لئے حاصل کرتا ہے، وہ سب فن ہیں، ہنر ہیں اور صنعت و حرفت ہیں۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس علم کے لئے دعا فرماتے تھے، وہ وحی و رسالت ہی کا علم ہے جو قرآن و حدیث میں محفوظ ہے، جس سے انسان کا ربط و تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم ہوتا ہے، اس کے اخلاق و کردار کی اصلاح ہوتی اور اللہ کی رضا و عدم رضا کا پتہ چلتا ہے ایسی دعاؤں میں ایک دعا یہ ہے جو آپ پڑھا کرتے تھے:

اللَّھُمَّ اُنْفْعُنِیْ بِمَا عَلَّمْتَنِیْ، وَ عَلِّمْنِیْ مَا یَنْفَعُنِیْ وَ زِدْ نِیْ عِلْمًا، وَالْحمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی کُلِّ حَال (ابن ماجہ)

وَلَقَدْ عَهِدْنَا إِلَى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْمًا (۱۱۵)

ہم نے آدم کو پہلے تاکیدی حکم دے دیا تھا لیکن وہ بھول گیا اور ہم نے اس میں کوئی عزم نہیں پایا

نسیان، (بھول جانا) ہر انسان کی سرشت میں داخل ہے اور ارادے کی کمزوری یعنی فقدان عزم۔ یہ بھی انسانی خصلت میں بالعموم پائی جاتی ہے۔ یہ دونوں کمزوریاں ہی شیطان کے وسوسوں میں پھنس جانے کا باعث بنتی ہیں۔ اگر ان کمزوریوں میں اللہ کے حکم سے بغاوت و سرکشی کا جذبہ اور اللہ کی نافرمانی کا عزم مصمم شامل نہ ہو، تو بھول اور ضعف ارادہ سے ہونے والی غلطی عصمت و کمال نبوت کے منافی نہیں، کیونکہ اس کے بعد انسان فوراً نادم ہو کر اللہ کی بارگاہ میں جھک جاتا اور توبہ و استفغار میں مصروف ہو جاتا ہے۔ (جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام نے کیا) حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ نے سمجھایا تھا کہ شیطان تیرا اور تیری بیوی کا دشمن ہے، یہ تمہیں جنت سے نہ نکلوا دے گا۔

یہی وہ بات ہے جسے یہاں عہد سے تعبیر کیا گیا ہے۔ آدم علیہ السلام اس عہد کو بھول گئے اور اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو ایک درخت کے قریب جانے یعنی اس سے کچھ کھانے سے منع فرمایا تھا۔ حضرت آدم علیہ السلام کے دل میں یہ بات تھی کہ وہ اس درخت کے قریب نہیں جائیں گے۔ لیکن جب شیطان نے اللہ کی قسمیں کھا کر انہیں یہ باور کرایا کہ اس کا پھل تو یہ تاثیر رکھتا ہے کہ جو کھا لیتا ہے، اسے زندگی جاوداں اور دائمی بادشاہت مل جاتی ہے۔ تو ارادے پر قائم نہ رہ سکے اور اس فقدان عزم کی وجہ سے شیطانی وسوسے کا شکار ہوگئے۔

وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَى (۱۱۶)

اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم ؑ کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے کیا۔ اس نے صاف انکار کر دیا۔‏

فَقُلْنَا يَا آدَمُ إِنَّ هَذَا عَدُوٌّ لَكَ وَلِزَوْجِكَ فَلَا يُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقَى (۱۱۷)

تو ہم نے کہا اے آدم! یہ تیرا اور تیری بیوی کا دشمن ہے (خیال رکھنا) ایسا نہ ہو کہ وہ تم دونوں کو جنت سے نکلوا دے کہ تو مصیبت میں پڑ جائے

یہ  شقا، محنت ومشقت کے معنی میں ہے، یعنی جنت میں کھانے پینے، لباس اور مسکن جو سہولتیں بغیر کسی محنت کے حاصل ہیں۔ جنت سے نکل جانے کی صورت میں ان چاروں چیزوں کے لئے محنت و مشقت کرنی پڑے گی، جس طرح کہ ہر انسان کو دنیا میں ان بنیادی ضروریات کی فراہمی کے لئے محنت کرنی پڑ رہی ہے۔

علاوہ ازیں صرف آدم علیہ السلام سے کہا گیا کہ محنت مشقت میں پڑ جائیگا۔ دونوں کو نہیں کہا گیا حالانکہ درخت کا پھل کھانے والے آدم علیہ السلام و حوا دونوں ہی تھے۔ اس لئے اصل مخاطب آدم ہی تھے۔

نیز بنیادی ضروریات کی فراہمی بھی مرد ہی کی ذمہ داری ہے عورت کی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کو اس محنت و مشقت سے بچا کر گھر کی ملکہ کا اعزاز عطا فرمایا ہے۔ لیکن آج عورت کو یہ "اعزاز الہٰی ""طوق غلامی "نظر آتا ہے جس سے آزاد ہونے کے لیے وہ بےقرار اور مصروف جہد ہے آہ! اغوائے شیطانی بھی کتنا موثر اور اس کا جال بھی کتنا حسین اور دلفریب ہے۔

إِنَّ لَكَ أَلَّا تَجُوعَ فِيهَا وَلَا تَعْرَى (۱۱۸)

یہاں تو تجھے یہ آرام ہے کہ نہ تو بھوکا ہوتا ہے نہ ننگا۔‏

وَأَنَّكَ لَا تَظْمَأُ فِيهَا وَلَا تَضْحَى (۱۱۹)

اور نہ تو یہاں پیاسا ہوتا ہے نہ دھوپ سے تکلیف اٹھاتا ہے۔‏

فَوَسْوَسَ إِلَيْهِ الشَّيْطَانُ قَالَ يَا آدَمُ هَلْ أَدُلُّكَ عَلَى شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْكٍ لَا يَبْلَى (۱۲۰)

لیکن شیطان نے وسوسہ ڈالا، کہنے لگا کہ کیا میں تجھے دائمی زندگی کا درخت اور بادشاہت بتلاؤں کہ جو کبھی پرانی نہ ہو‏

فَأَكَلَا مِنْهَا فَبَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِنْ وَرَقِ الْجَنَّةِ ۚ

چنانچہ ان دونوں نے اس درخت سے کچھ کھا لیا پس ان کے ستر کھل گئے اور بہشت کے پتے اپنے اوپر ٹانکنے لگے۔

وَعَصَى آدَمُ رَبَّهُ فَغَوَى (۱۲۱)

آدم (علیہ السلام) نے اپنے رب کی نافرمانی کی پس بہک گیا

یعنی درخت کا پھل کھا کر نافرمانی کی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مطلوب یا راہ راست سے بہک گئے

ثُمَّ اجْتَبَاهُ رَبُّهُ فَتَابَ عَلَيْهِ وَهَدَى (۱۲۲)

پھر اس کے رب نے نوازا، اس کی توبہ قبول کی اور اس کی راہنمائی کی  

اس سے بعض لوگ استدال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام سے مذکورہ غلطیوں کا ہونا، نبوت سے قبل ہوا، اور نبوت سے اس کے بعد آپ کو نوازا گیا۔ لیکن ہم نے گزشتہ صفحے میں اس ' معصیت ' کی حقیقت بیان کی ہے، وہ عصمت کے منافی نہیں رہتی۔ کیونکہ ایسا وعظ و نصیحت، جس کا تعلق تبلیغ رسالت اور تشریع سے نہ ہو، بلکہ ذاتی افعال سے ہو اور اس میں بھی اس کا سبب ضعف کا اطلاق کیا گیا ہے تو محض ان کی عظمت شان اور مقام بلند کی وجہ سے کہ بڑوں کی معمولی غلطی کو بھی بڑا سمجھ لیا جاتا ہے، اس لئے آیت کا مطلب یہ نہیں کہ ہم نے اس کے بعد اسے نبوت کے لئے چن لیا، بلکہ مطلب یہ ہے کہ ندامت اور توبہ کے بعد ہم نے اسے پھر اسی مقام پر فائز کر دیا، جو پہلے انہیں حاصل تھا۔ ان کو زمین پر اتار نے کا فیصلہ، ہماری مشیت اور حکمت و مصلحت پر مبنی تھا، اس سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ یہ ہمارا غضب ہے جو آدم پر نازل ہوا ہے۔

قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيعًا ۖ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ

فرمایا، تم دونوں یہاں سے اتر جاؤ تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہو،

فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَى (۱۲۳)

اب تمہارے پاس جب کبھی میری طرف سے ہدایت پہنچے تو میری ہدایت کی پیروی کرے نہ تو وہ بہکے گا نہ تکلیف میں پڑے گا۔‏

وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى (۱۲۴)

اور (ہاں) جو میری یاد سے روگردانی کرے گا اس کی زندگی تنگی میں رہے گی، (١) اور ہم اسے بروز قیامت اندھا کرکے اٹھائیں گے (٢)‏

۱۔ اس تنگی سے بعض نے عذاب قبر اور بعض نے وہ، قلق واضطراب، بےچینی اور بےکلی مراد لی ہے جس میں اللہ کی یاد سے غافل بڑے بڑے دولت مند مبتلا رہتے ہیں۔

۲۔  اس سے مراد فی الواقع آنکھوں سے اندھا ہونا ہے یا پھر بصیرت سے محرومی مراد ہے یعنی وہاں اس کو کوئی ایسی دلیل نہیں سوجھے گی جسے پیش کر کے وہ عذاب سے چھوٹ سکے۔

قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَى وَقَدْ كُنْتُ بَصِيرًا (۱۲۵)

وہ کہے گا کہ الٰہی! مجھے تو نے اندھا بنا کر کیوں اٹھایا؟ حالانکہ میں تو دیکھتا بھالتا تھا۔‏

قَالَ كَذَلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا ۖ وَكَذَلِكَ الْيَوْمَ تُنْسَى (۱۲۶)

(جواب ملے گا کہ) اسی طرح ہونا چاہیے تھا تو میری آئی ہوئی آیتوں کو بھول گیا تو آج تو بھی بھلا دیا جاتا ہے‏

وَكَذَلِكَ نَجْزِي مَنْ أَسْرَفَ وَلَمْ يُؤْمِنْ بِآيَاتِ رَبِّهِ ۚ

ہم ایسا ہی بدلہ ہر اس شخص کو دیا کرتے ہیں جو حد سے گزر جائے اور اپنے رب کی آیتوں پر ایمان نہ لائے،

وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَشَدُّ وَأَبْقَى (۱۲۷)

 اور بیشک آخرت کا عذاب نہایت ہی سخت اور باقی رہنے والا ہے۔‏

أَفَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ كَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِنَ الْقُرُونِ يَمْشُونَ فِي مَسَاكِنِهِمْ ۗ

کیا انکی رہبری اس بات نے بھی نہیں کی کہ ہم نے ان سے پہلے بہت سی بستیاں ہلاک کر دی ہیں جنکے رہنے سہنے کی جگہ یہ چل پھر رہے ہیں۔

إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِأُولِي النُّهَى (۱۲۸)

یقیناً اس میں عقلمندوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں۔‏

وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَبِّكَ لَكَانَ لِزَامًا وَأَجَلٌ مُسَمًّى (۱۲۹)

اگر تیرے رب کی بات پہلے ہی سے مقرر شدہ اور وقت معین کردہ نہ ہوتا تو اسی وقت عذاب آچمٹتا ۔

یعنی یہ مکذبین اور مشرکین مکہ دیکھتے نہیں کہ ان سے پہلے کئی امتیں گزر چکی ہیں، جن کے جانشین ہیں اور ان کی رہائش گاہوں سے گزر کر آگے جاتے ہیں انہیں ہم اسکے جھٹلانے کی وجہ سے ہلاک کر چکے ہیں، جن کے عبرت ناک انجام میں اہل عقل و دانش کے لئے بڑی نشانیاں ہیں، لیکن اہل مکہ ان سے آنکھیں بند کئے ہوئے انہی کی روش اپنائے ہوئے ہیں۔

اگر اللہ تعالیٰ نے پہلے سے یہ فیصلہ نہ کیا ہوتا کہ وہ تمام حجت کے بغیر اور اس مدت کے آنے سے پہلے جو وہ مہلت کے لئے کسی قوم کو عطا فرماتا ہے، کسی کو ہلاک نہیں کرتا۔ تو فورا! انہیں عذاب الٰہی آ چمٹتا اور یہ ہلاکت سے دو چار ہو چکے ہوتے۔

مطلب یہ ہے کہ تکذیب رسالت کے باوجود اگر ان پر اب تک عذاب نہیں آیا تو یہ سمجھیں کہ آئندہ بھی نہیں آئے گا بلکہ ابھی ان کو اللہ کی طرف سے مہلت ملی ہوئی ہے، جیسا کہ وہ ہر قوم کو دیتا ہے۔ مہلت عمل ختم ہو جانے کے بعد ان کو عذاب الٰہی سے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا۔

فَاصْبِرْ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا ۖ

پس ان کی باتوں پر صبر کر اور اپنے پروردگار کی تسبیح اور تعریف بیان کرتا رہ، سورج نکلنے سے پہلے اور اس کے ڈوبنے سے پہلے،

وَمِنْ آنَاءِ اللَّيْلِ فَسَبِّحْ وَأَطْرَافَ النَّهَارِ لَعَلَّكَ تَرْضَى (۱۳۰)

 رات کے مختلف وقتوں میں بھی اور دن کے حصوں میں بھی تسبیح کرتا رہ (١) بہت ممکن ہے کہ تو راضی ہو جائے (٢)‏

۱۔ بعض مفسرین کے نزدیک تسبیح سے مراد نماز ہے اور وہ اسے پانچ نمازوں سے مراد لیتے ہیں۔

طلوع شمس سے قبل فجر، غروب سے قبل، عصر ،رات کی گھڑیوں سے مغرب و عشاء اور اطراف النھار سے ظہر کی نماز مراد ہے کیونکہ ظہر کا وقت، یہ نماز اول کا طرف آخر اور نہار آخر کا طرف اول ہے۔

 اور بعض کے نزدیک ان اوقات میں ایسے ہی اللہ کی تسبیح و توحید ہے، جس میں نماز، تلاوت، ذکر اذکار، دعا مناجات اور نوافل سب داخل ہیں۔مطلب یہ ہے کہ آپ ان مشرکین کی تکذیب سے بددل نہ ہوں۔ اللہ کی تسبیح و تحمید کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ جب چاہے گا، ان کی گرفت فرما لے گا۔

۲۔  یہ متعلق ہے  فَسَبِّحْ سے یعنی ان اوقات میں تسبیح کریں، یہ امید رکھتے ہوئے کہ اللہ کے ہاں آپ کو وہ مقام و درجہ حاصل ہو جائے گا جس سے آپ کا نفس راضی ہو جائے۔

وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَى مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ ۚ

اور اپنی نگاہیں ہرگز چیزوں کی طرف نہ دوڑانا جو ہم نے ان میں سے مختلف لوگوں کو آرائش دنیا کی دے رکھی ہیں تاکہ انہیں اس میں آزمالیں

یہ وہی مضمون ہے جو اس سے قبل سورہ عمران ١٩٦۔١٩٧، سورہ حجر، ٨٧۔٨٨ اور سورہ کہف،٧ وغیرہ میں بیان ہوا ہے۔

وَرِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَأَبْقَى (۱۳۱)

تیرے رب کا دیا ہوا ہی (بہت) بہتر اور بہت باقی رہنے والا ہے ۔‏

اس سے مراد آخرت کا اجر و ثواب ہے جو دنیا کے مال و اسباب سے بہتر بھی ہے اور اس کے مقابلے میں باقی رہنے والا بھی۔

 حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عمر، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، دیکھا کہ آپ ایک کھردری چٹائی پر لیٹے ہوئے ہیں اور بےسرو سامانی کا یہ عالم ہے، کہ گھر میں چمڑے کی دو چیزوں کے علاوہ کچھ نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو آ گئے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، عمر کیا بات ہے، روتے کیوں ہو؟

عرض کیا یا رسول اللہ! قیصرو کسرٰی، کس طرح آرام و راحت کی زندگی گزار رہے ہیں اور آپ کا، باوجود اس بات کے کہ آپ افضل الخلق ہیں، یہ حال ہے، فرمایا:

 عمر کیا تم اب تک شک میں ہو۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو ان کے آرام کی چیزیں دنیا میں ہی دے دی گئی ہیں۔  یعنی آخرت میں ان کے لئے کچھ نہیں ہوگا ۔ (مسلم بخاری)

وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا ۖ

اپنے گھرانے کے لوگوں پر نماز کی تاکید رکھ اور خود بھی اس پر جما رہ

اس خطاب میں ساری امت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہے۔ یعنی مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ خود بھی نماز کی پا بندی کرے اور اپنے گھر والوں کو بھی نماز کی تاکید کرتا رہے۔

لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا ۖ نَحْنُ نَرْزُقُكَ ۗ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَى (۱۳۲)

ہم تجھ سے روزی نہیں مانگتے، بلکہ ہم خود تجھے روزی دیتے ہیں، آخر میں بول بالا پرہیزگاری ہی کا ہے۔‏

وَقَالُوا لَوْلَا يَأْتِينَا بِآيَةٍ مِنْ رَبِّهِ ۚ

انہوں نے کہا کہ یہ نبی ہمارے پاس اپنے پروردگار کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہیں لایا؟

یعنی ان کی خواہش کے مطابق نشانی، جیسے ثمود کے لئے اونٹنی ظاہر کی گئی۔

أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ مَا فِي الصُّحُفِ الْأُولَى (۱۳۳)

کیا ان کے پاس اگلی کتابوں کی واضح دلیل نہیں پہنچی؟

ان سے مراد تورات، انجیل اور زبور وغیرہ ہیں، یعنی کیا ان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات موجود نہیں، جن سے ان کی نبوت کی تصدیق ہوتی ہے۔ یا یہ مطلب ہے کہ کیا ان کے پاس پچھلی قوموں کے حالات نہیں پہنچے کہ انہوں نے جب اپنی حسب خواہش معجزے کا مطالبہ کیا اور وہ انہیں دکھا دیا گیا لیکن اس کے باوجود وہ ایمان نہیں لائے، تو انہیں ہلاک کر دیا گیا۔

وَلَوْ أَنَّا أَهْلَكْنَاهُمْ بِعَذَابٍ مِنْ قَبْلِهِ لَقَالُوا رَبَّنَا لَوْلَا أَرْسَلْتَ إِلَيْنَا رَسُولًا

اور ہم اس سے پہلے ہی انہیں عذاب سے ہلاک کر دیتے تو یقیناً یہ کہہ اٹھتے کہ اے ہمارے پروردگار تو نے ہمارے پاس اپنا رسول کیوں نہ بھیجا؟

مراد آخر الزماں پیغمبر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔

فَنَتَّبِعَ آيَاتِكَ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَذِلَّ وَنَخْزَى (۱۳۴)

 کہ ہم تیری آیتوں کی تابعداری کرتے اس سے پہلے کہ ہم ذلیل و رسوا ہوتے۔‏

قُلْ كُلٌّ مُتَرَبِّصٌ فَتَرَبَّصُوا ۖ

کہہ دیجئے! ہر ایک انجام کا منتظر (١) ہے پس تم بھی انتظار میں رہو۔

یعنی مسلمان اور کافر دونوں اس انتظار میں ہیں کہ دیکھو کفر غالب رہتا ہے یا اسلام غالب آتا ہے۔

فَسَتَعْلَمُونَ مَنْ أَصْحَابُ الصِّرَاطِ السَّوِيِّ وَمَنِ اهْتَدَى (۱۳۵)

ابھی ابھی قطعاً جان لو گے کہ راہ راست والے کون ہیں اور کون راہ یافتہ ہیں ۔‏

اس کا علم تمہیں اس سے ہو جائے گا کہ اللہ کی مدد سے کامیاب اور سرخرو کون ہوتا ہے؟

چنانچہ یہ کامیابی مسلمانوں کے حصے میں آئی، جس سے واضح ہوگیا کہ اسلام ہی سیدھا راستہ اور اس کے حاملین ہی ہدایت یافتہ ہیں۔

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter