Tafsir Ibn Kathir (Urdu)Surah Al IsraTranslated by Muhammad Sahib Juna GarhiNoting by Maulana Salahuddin Yusuf |
شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى پاک ہے (١) وہ اللہ تعالیٰ جو اپنے بندے (٢) کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ (٣) تک لے گیا ۱۔ سُبْحَانَ، عام طور پر اس کا استعمال ایسے موقع پر ہوتا ہے جب کسی عظیم الشان واقعے کا ذکر ہو۔ مطلب یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے نزدیک ظاہری اسباب کے اعتبار سے یہ واقعہ کتنا محال ہو، اللہ کے لئے مشکل نہیں، اس لئے کہ وہ اسباب کا پابند نہیں، وہ لفظ کُنْ سے پلک جھپکنے میں جو چاہے کر سکتا ہے۔ اسباب تو انسانوں کے لئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان پابندیوں اور کوتاہیوں سے پاک ہے۔ ۲۔ أَسْرَى کے معنی ہوتے ہیں، رات کو لے جانا۔ آگے لَيْلًا اس لیے ذکر کیا گیا تاکہ رات کی قلت واضح ہو جائے۔ یعنی رات ایک حصے یا تھوڑے سے حصے میں۔ یعنی چالیس راتوں کا دور دراز کا سفر، پوری رات میں بھی نہیں بلکہ رات کے ایک قلیل حصے میں طے ہوا۔ ۳۔ اقصیٰ دور کو کہتے ہیں بیت المقدس، جو القدس یا ایلیاء (قدیم نام) شہر میں اور فلسطین میں واقع ہے، مکے سے القدس تک مسافت (٤٠) دن کی ہے، اس اعتبار سے مسجد حرام کے مقابلے میں بیت المقدس کو مسجد اقصٰی (دور کی مسجد) کہا گیا ہے۔ الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ جس کے آس پاس ہم نے برکت دے (۱) رکھی ہے اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں (۲) ۱۔ یہ علاقہ قدرتی نہروں اور پھلوں کی کثرت اور انبیاء کا مسکن و مدفن ہونے کے لحاظ سے ممتاز ہے، اس لئے اسے بابرکت قرار دیا گیا ہے۔ ۲۔ یہ اس سیر کا مقصد ہے تاکہ ہم اپنے بندے کو عجائبات اور آیات کبریٰ دکھائیں۔ جن میں سے ایک آیت اور معجزہ یہ سفر بھی ہے کہ اتنا لمبا سفر رات کے ایک قلیل حصے میں ہو گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو معراج ہوئی یعنی آسمانوں پر لے جایا گیا، وہاں مختلف آسمانوں پر انبیاء علیہم السلام سے ملاقاتیں ہوئیں اور سدرۃ المنتہیٰ پر، جو عرش سے نیچے ساتویں آسمان پر ہے، اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے سے نماز اور دیگر بعض چیزیں عطا کیں۔ جس کی تفصیلات صحیح احادیث میں بیان ہوئی ہیں اور صحابہ و تابعین سے لے کر آج تک امت کے اکثر علماء فقہاء اس بات کے قائل چلے آرہے ہیں کہ یہ معراج حالت بیداری میں ہوئی ہے۔ یہ خواب یا روحانی سیر اور مشاہدہ نہیں ہے، بلکہ عینی مشاہدہ ہے جو اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے اپنے پیغمبر کو کرایا ہے۔ اس معراج کے دو حصے ہیں۔ - پہلا حصہ اسراء کہلاتا ہے، جس کا ذکر یہاں کیا گیا ہے اور جو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کے سفر کا نام ہے، یہاں پہنچنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انبیاء کی امامت فرمائی۔ - بیت المقدس سے پھر آپ کو آسمانوں پر لے جایا گیا، یہ سفر کا دوسرا حصہ ہے جسے معراج کہا جاتا ہے۔ اس کا تذکرہ سورہ نجم میں کیا گیا ہے اور باقی تفصیلات احادیث میں بیان کی گئی ہیں۔ عام طور پر اس پورے سفر کو ' معراج ' سے ہی تعبیر کیا جاتا ہے۔ معراج سیڑھی کو کہتے ہیں یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ عُرِجَ بِیْ اِلَی السّمَاءِ (مجھے آسمان پر لے جایا یا چڑھایا گیا) سے ماخوذ ہے۔ کیونکہ اس سفر کا یہ دوسرا حصہ پہلے سے بھی زیادہ اہم اور عظیم الشان ہے، اس لئے معراج کا لفظ ہی زیادہ مشہور ہو گیا۔ اس کی تاریخ میں اختلاف ہے۔ تاہم اس میں اتفاق ہے کہ یہ ہجرت سے قبل کا واقعہ ہے۔ بعض کہتے ہیں ایک سال قبل اور بعض کہتے ہیں کئی سال قبل یہ واقعہ پیش آیا۔ اسی طرح مہینے اور اس کی تاریخ میں اختلاف ہے۔ کوئی ربیع الاول کی ١٧ یا ٢٧، کوئی رجب کی ٢٧ اور بعض کوئی اور مہینہ اس کی تاریخ بتلاتے ہیں۔ (فتح القدیر) إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (۱) یقیناً اللہ تعالیٰ خوب سننے دیکھنے والا ہے۔ وَآتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَجَعَلْنَاهُ هُدًى لِبَنِي إِسْرَائِيلَ أَلَّا تَتَّخِذُوا مِنْ دُونِي وَكِيلًا (۲) ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اسے بنی اسرئیل کے لئے ہدایت بنا دیا کہ تم میرے سوا کسی کو اپنا کارساز نہ بنانا ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ ۚ إِنَّهُ كَانَ عَبْدًا شَكُورًا (۳) اے ان لوگوں کی اولاد! جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ سوار کر دیا تھا، وہ ہمارا بڑا ہی شکر گزار بندہ تھا طوفان نوح علیہ السلام کے بعد نسل انسانی نوح علیہ السلام کے ان بیٹوں کی نسل سے ہے جو کشتی نوح علیہ السلام میں سوار ہوئے تھے اور طوفان سے بچ گئے تھے۔ اس لئے بنو اسرائیل کو خطاب کر کے کہا گیا کہ تمہارا باپ، نوح علیہ السلام، اللہ کا بہت شکر گزار بندہ تھا۔ تم بھی اپنے باپ کی طرح شکر گزاری کا راستہ اختیار کرو اور ہم نے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول بنا کر بھیجا ہے، ان کا انکار کر کے کفران نعمت مت کرو۔ وَقَضَيْنَا إِلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ فِي الْكِتَابِ لَتُفْسِدُنَّ فِي الْأَرْضِ مَرَّتَيْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِيرًا (۴) ہم نے بنو اسرائیل کے لئے انکی کتاب میں صاف فیصلہ کر دیا تھا کہ تم زمین میں دو بار فساد برپا کرو گے اور تم بڑی زبردست زیادتیاں کرو گے فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ أُولَاهُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادًا لَنَا أُولِي بَأْسٍ شَدِيدٍ فَجَاسُوا خِلَالَ الدِّيَارِ ۚ وَكَانَ وَعْدًا مَفْعُولًا (۵) ان دونوں وعدوں میں سے پہلے کے آتے ہی ہم نے تمہارے مقابلہ پر اپنے بندے بھیج دیئے جو بڑے ہی لڑاکے تھے۔ پس وہ تمہارے گھروں کے اندر تک پھیل گئے اور اللہ کا یہ وعدہ پورا ہونا ہی تھا ۔ یہ اشارہ ہے اس ذلت اور تباہی کی طرف جو بابل کے فرمان روا بخت نصر کے ہاتھوں، حضرت مسیح علیہ السلام سے تقریبًا چھ سو سال قبل، یہودیوں پر یروشلم میں نازل ہوئی۔ اس نے بےدریغ یہودیوں کو قتل کیا اور ایک بڑی تعداد کو غلام بنا لیا اور یہ اس وقت ہوا جب انہوں نے اللہ کے نبی حضرت شعیب علیہ السلام کو قتل کیا یا حضرت ارمیا علیہ السلام کو قید کیا اور تورات کے احکام کی خلاف ورزی اور معصیات کا ارتکاب کر کے فساد فی الارض کے مجرم بنے۔ بعض کہتے ہیں کہ بخت نصر کے بجائے جالوت کو اللہ تعالیٰ نے بطور سزا ان پر مسلط کیا، جس نے ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے۔ حتٰی کہ طالوت کی قیادت میں حضرت داؤد علیہ السلام نے جالوت کو قتل کیا۔ ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ وَأَمْدَدْنَاكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَجَعَلْنَاكُمْ أَكْثَرَ نَفِيرًا (۶) پھر ہم نے ان پر تمہارا غلبہ دے کر تمہارے دن پھیرے اور مال اور اولاد سے تمہاری مدد کی اور تمہیں بڑے جتھے والا بنا دیا ۔ یعنی بخت نصر یا جالوت کے قتل کے بعد ہم نے تمہیں پھر مال اور دولت، بیٹوں اور جاہ حشمت سے نوازا، جب کہ یہ ساری چیزیں تم سے چھن چکی تھیں۔ اور تمہیں پھر زیادہ جتھے والا اور طاقتور بنا دیا۔ إِنْ أَحْسَنْتُمْ أَحْسَنْتُمْ لِأَنْفُسِكُمْ ۖ وَإِنْ أَسَأْتُمْ فَلَهَا ۚ اگر تم نے اچھے کام کئے تو خود اپنے ہی فائدے کے لئے، اور اگر تم نے برائیاں کیں تو بھی اپنے ہی لئے، فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ لِيَسُوءُوا وُجُوهَكُمْ وَلِيَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوهُ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَلِيُتَبِّرُوا مَا عَلَوْا تَتْبِيرًا (۷) پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا (تو ہم نے دوسرے کو بھیج دیا تاکہ) وہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں اور پہلی دفعہ کی طرح پھر اسی مسجد میں گھس جائیں اور جس جس چیز پر قابو پائیں توڑ پھوڑ کر جڑ سے اکھاڑ دیں ۔ یہ دوسری مرتبہ انہوں نے فساد برپا کیا کہ حضرت زکریا علیہ السلام کو قتل کر دیا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی قتل کرنے کے درپے رہے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے زندہ آسمان پر اٹھا کر ان سے بچا لیا۔ اس کے نتیجے میں پھر رومی بادشاہ ٹیٹس کو اللہ نے ان پر مسلط کر دیا، اس نے یروشلم پر حملہ کر کے ان کے کشتے کے پشتے لگا دیئے اور بہت سوں کو قیدی بنا لیا، ان کے اموال لوٹ لئے، مذہبی صحیفوں کو پاؤں تلے روندا اور بیت المقدس اور ہیکل سلیمانی کو غارت کیا اور انہیں ہمیشہ کے لئے بیت المقدس سے جلا وطن کر دیا۔ اور یوں ان کی ذلت و رسوائی کا خوب خوب سامان کیا۔ یہ تباہی ٧٠ء میں ان پر آئی۔ عَسَى رَبُّكُمْ أَنْ يَرْحَمَكُمْ ۚ امید ہے کہ تمہارا رب تم پر رحم کرے۔ وَإِنْ عُدْتُمْ عُدْنَا ۘ وَجَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكَافِرِينَ حَصِيرًا (۸) ہاں اگر تم پھر بھی وہی کرنے لگے تو ہم دوبارہ ایسا ہی کریں گے (١) اور ہم نے منکروں کا قید خانہ جہنم بنا رکھا ہے ۔(٢) ۱۔ یہ انہیں تنبیہ کی کہ اگر تم نے اصلاح کر لی تو اللہ کی رحمت کے مستحق ہو گے۔ جس کا مطلب دنیا وآخرت کی سرخ روئی اور کامیابی ہے اور اگر دوبارہ اللہ کی نافرمانی کا راستہ اختیار کر کے تم نے فساد فی الارض کا ارتکاب کیا تو ہم پھر تمہیں اسی طرح ذلت و رسوائی سے دو چار کر دیں گے۔ جیسے اس سے قبل دو مرتبہ ہم تمہارے ساتھ یہ معاملہ کر چکے ہیں چنانچہ ایسا ہی ہوا یہ یہود اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے اور وہی کردار رسالت محمدیہ کے بارے میں دہرایا جو رسالت موسوی اور رسالت عیسوی میں ادا کر چکے تھے جس کے نتیجے میں یہ یہودی تیسری مرتبہ مسلمانوں کے ہاتھوں ذلیل وخوار ہوئے اور بصد رسوائی انہیں مدینے اور خیبر سے نکلنا پڑا۔ ۲۔ یعنی اس دنیا کی رسوائی کے بعد آخرت میں جہنم کی سزا اور اس کا عذاب الگ ہے جو وہاں انہیں بھگتنا ہو گا۔ إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ یقیناً یہ قرآن وہ راستہ دکھاتا ہے جو بہت ہی سیدھا ہے وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا كَبِيرًا (۹) اور ایمان والوں کو جو نیک اعمال کرتے ہیں اس بات کی خوشخبری دیتا ہے کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے۔ وَأَنَّ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا (۱۰) اور یہ کہ جو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے ان کے لئے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے وَيَدْعُ الْإِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَاءَهُ بِالْخَيْرِ ۖ وَكَانَ الْإِنْسَانُ عَجُولًا (۱۱) اور انسان برائی کی دعائیں مانگنے لگتا ہے بالکل اس کی اپنی بھلائی کی دعا کی طرح، انسان ہی بڑا جلد باز ہے ۔ انسان چونکہ جلد باز اور بےحوصلہ ہے اس لیے جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو اپنی ہلاکت کے لیے اسی طرح بد دعا کرتا ہے جس طرح بھلائی کے لیے اپنے رب سے دعائیں کرتا ہے یہ تو رب کا فضل و کرم ہے کہ وہ اس کی بد دعاؤں کو قبول نہیں کرتا ۔ یہی مضمون سورہ یونس آیت ۱۱ میں گزر چکا ہے۔ وَجَعَلْنَا اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ آيَتَيْنِ ۖ ہم نے رات اور دن کو اپنی قدرت کی نشانیاں بنائی ہیں، فَمَحَوْنَا آيَةَ اللَّيْلِ وَجَعَلْنَا آيَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ وَلِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ ۚ رات کی نشانی کو تو ہم نے بےنور کر دیا اور دن کی نشانی کو روشن بنایا ہے تاکہ تم لوگ اپنے رب کا فضل تلاش کر سکو اور اس لئے بھی کہ برسوں کا شمار اور حساب معلوم کر سکو یعنی رات کو بےنور یعنی تاریک کر دیا تاکہ تم آرام کر سکو اور تمہاری دن بھر کی تھکاوٹ دور ہو جائے اور دن کو روشن بنایا تاکہ کسب معاش کے ذریعے سے تم رب کا فضل تلاش کرو۔ علاوہ ازیں رات اور دن کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس طرح ہفتوں، مہینوں اور برسوں کا شمار اور حساب تم کر سکو، اس حساب کے بھی بیشمار فوائد ہیں۔ اگر رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات نہ آتی بلکہ ہمیشہ رات ہی رات یا دن ہی دن رہتا تو تمہیں آرام اور سکون کا یا کاروبار کرنے کا موقع نہ ملتا اور اسی طرح مہینوں اور سالوں کا حساب بھی ممکن نہ رہتا۔ وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْنَاهُ تَفْصِيلًا (۱۲) اور ہرچیز کو ہم نے خوب تفصیل سے بیان فرما دیا ہے ۔ یعنی انسان کے لئے دین اور دنیا کی ضروری باتیں سب کھول کر ہم نے بیان کر دی ہیں تاکہ ان سے انسان فائدہ اٹھائیں، اپنی دنیا سنواریں اور آخرت کی بھی فکر اور اس کے لئے تیاری کریں۔ وَكُلَّ إِنْسَانٍ أَلْزَمْنَاهُ طَائِرَهُ فِي عُنُقِهِ ۖ ہر انسان کی برائی بھلائی کو اس کے گلے لگا دیا ہے طَائِر کے معنی پرندے کے ہیں اور عُنُق کے معنی گردن کے۔ امام ابن کثیر نے طَائِر سے مراد انسان کے عمل کے لئے ہیں۔ فِي عُنُقِهِ کا مطلب ہے، اس کے اچھے یا برے عمل، جس پر اس کو اچھی یا بری جزا دی جائے گی، گلے کے ہار کی طرح اس کے ساتھ ہوں گے۔ یعنی اس کا ہر عمل لکھا جا رہا ہے، اللہ کے ہاں اس کا پورا ریکارڈ محفوظ ہو گا۔ قیامت والے دن اس کے مطابق اس کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اور امام شوکانی نے طَائِر سے مراد انسان کی قسمت لی ہے، جو اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کے مطابق پہلے سے لکھ دی ہے، جسے سعادت مند اور اللہ کا مطیع ہونا تھا وہ اللہ کو معلوم تھا اور جسے نافرمان ہونا تھا، وہ بھی اس کے علم میں تھا، یہی قسمت (سعادت مندی یا بد بختی) ہر انسان کے ساتھ گلے کے ہار کی طرح چمٹی ہوئی ہو گی۔ اسی کے مطابق اس کے عمل ہوں گے اور قیامت والے دن اسی کے مطابق فیصلے ہوں گے۔ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كِتَابًا يَلْقَاهُ مَنْشُورًا (۱۳) اور بروز قیامت ہم اس کے سامنے اس کا نامہ اعمال نکالیں گے جسے وہ اپنے اوپر کھلا ہوا پائے گا۔ اقْرَأْ كِتَابَكَ كَفَى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا (۱۴) لے! خود ہی اپنی کتاب آپ پڑھ لے۔ آج تو تو آپ ہی اپنا خود حساب لینے کو کافی ہے۔ مَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۚ جو راہ راست حاصل کر لے وہ خود اپنے ہی بھلے کے لئے راہ یافتہ ہوتا ہے اور جو بھٹک جائے اس کا بوجھ اسی کے اوپر ہے، وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى ۗ کوئی بوجھ والا کسی اور کا بوجھ اپنے اوپر نہ لادے گا البتہ جو گمراہ اور گمراہ کرنے والے بھی ہوں گے، انہیں اپنی گمراہی کے بوجھ کے ساتھ، ان کے گناہوں کا بار بھی (بغیر ان کے گناہوں میں کمی کیے) اٹھانا پڑے گا جو ان کی کوششوں سے گمراہ ہوئے ہوں گے، جیسا کہ قرآن کے دوسرے مقامات اور احادیث میں واضح ہے۔ یہ دراصل ان کے اپنے ہی گناہوں کا بھار ہوگا جو دوسروں کو گمراہ کر کے انہوں نے کمایا ہوگا۔ وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا (۱۵) اور ہماری سنت نہیں کہ رسول بھیجنے سے پہلے ہی عذاب کرنے لگیں ۔ بعض مفسرین نے اس سے صرف دنیاوی عذاب مراد لیا ہے۔ یعنی آخرت کے عذاب سے مستثنٰی نہیں ہوں گے، لیکن قرآن کریم کے دوسرے مقامات سے واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں سے پوچھے گا کہ تمہارے پاس میرے رسول نہیں آئے تھے؟ جس پر اثبات میں جواب دیں گے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ارسال رسل اور انزال کتب کے بغیر وہ کسی کو عذاب نہیں دے گا۔ تاہم اس کا فیصلہ کہ کس قوم یا فرد تک اس کا پیغام نہیں پہنچا، قیامت والے دن وہ خود ہی فرمائے گا، وہاں یقیناً کسی کے ساتھ ظلم نہیں ہو گا۔ اسی طرح بہرا پاگل فاترالعقل اور زمانہ فترت یعنی دو نبیوں کے درمیانی زمانے میں فوت ہونے والے لوگوں کا مسئلہ ہے ان کی بابت بعض روایات میں آتا ہے کہ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ ان کی طرف فرشتے بھیجے گا اور وہ انہیں کہیں گے کہ جہنم میں داخل ہو جاؤ اگر وہ اللہ کے اس حکم کو مان کر جہنم میں داخل ہو جائیں گے تو جہنم ان کے لیے گل و گلزار بن جائے گی بصورت دیگر انہیں گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ مسند احمد علامہ البانی نے صحیح الجامع الصغیر میں اسے ذکر کیا ہے چھوٹے بچوں کی بابت اختلاف ہے مسلمانوں کے بچے تو جنت میں ہی جائیں گے البتہ کفار و مشرکین کے بچوں میں اختلاف ہے کوئی توقف کا کوئی جنت میں جانے کا اور کوئی جہنم میں جانے کا قائل ہے امام ابن کثیر نے کہا ہے کہ میدان محشر میں ان کا امتحان لیا جائے گا جو اللہ کے حکم کی اطاعت اختیار کرے گا وہ جنت میں اور جو نافرمانی کرے گا جہنم میں جائے گا امام ابن کثیر نے اسی قول کو ترجیح دی ہے اور کہا ہے کہ اس سے متضاد روایات میں تطبیق بھی ہو جاتی ہے۔ تفصیل کے لیے تفسیر ابن کثیر ملاحظہ کیجئے۔ مگر صحیح بخاری کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین کے بچے بھی جنت میں جائیں گے۔ وَإِذَا أَرَدْنَا أَنْ نُهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيرًا (۱۶) اور جب ہم کسی بستی کی ہلاکت کا ارادہ کر لیتے ہیں تو وہاں کے خوشحال لوگوں کو (کچھ) حکم دیتے ہیں اور وہ اس بستی میں کھلی نافرمانی کرنے لگتے ہیں تو ان پر (عذاب کی) بات ثابت ہو جاتی ہے پھر ہم اسے تباہ و برباد کر دیتے ہیں ۔ اس میں وہ اصول بتلایا گیا ہے جس کی روح سے قوموں کی ہلاکت کا فیصلہ کیا جاتا ہے اور یہ کہ ان کا خوش حال طبقہ اللہ کے حکموں کی نافرمانی شروع کر دیتا ہے اور انہی کی تقلید پھر دوسرے لوگ کرتے ہیں، یوں اس قوم میں اللہ کی نافرمانی عام ہو جاتی ہے اور وہ مستحق عذاب قرار پا جاتی ہے۔ وَكَمْ أَهْلَكْنَا مِنَ الْقُرُونِ مِنْ بَعْدِ نُوحٍ ۗ وَكَفَى بِرَبِّكَ بِذُنُوبِ عِبَادِهِ خَبِيرًا بَصِيرًا (۱۷) ہم نے نوح کے بعد بھی بہت سی قومیں ہلاک کیں (١) اور تیرا رب اپنے بندوں کے گناہوں سے کافی خبردار اور خوب دیکھنے بھالنے والا ہے وہ بھی اسی اصول ہلاکت کے تحت ہی ہلاک ہوئیں۔ مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَاءُ لِمَنْ نُرِيدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهُ جَهَنَّمَ يَصْلَاهَا مَذْمُومًا مَدْحُورًا (۱۸) جس کا ارادہ صرف اس جلدی والی دنیا (فوری فائدہ) کا ہی ہو اسے ہم یہاں جس قدر جس کے لئے چاہیں سردست دیتے ہیں بالآخر اس کے لئے ہم جہنم مقرر کر دیتے ہیں جہاں وہ برے حالوں میں دھتکارا ہوا داخل ہوگا (١) یعنی دنیا کے ہر طالب کو دنیا نہیں ملتی، صرف اسی کو ملتی ہے جس کو ہم چاہیں، پھر اس کو بھی اتنی دنیا نہیں جتنی وہ چاہتا ہے بلکہ اتنی ہی ملتی ہے جتنی ہم اس کے لئے فیصلہ کریں۔ لیکن اس دنیا طلبی کا نتیجہ جہنم کا دائمی عذاب اور اس کی رسوائی ہے۔ وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعَى لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَئِكَ كَانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُورًا (۱۹) اور جس کا ارادہ آخرت کا ہو اور جیسی کوشش اس کے لئے ہونی چاہئے، وہ کرتا بھی ہو اور وہ با ایمان بھی ہو، پس یہی لوگ ہیں جن کی کوشش کی اللہ کے ہاں پوری قدر دانی کی جائے گی اللہ تعالیٰ کے ہاں قدر دانی کے لئے تین چیزیں یہاں بیان کی گئی ہیں، - ارادہ آخرت، یعنی اخلاص اور اللہ کی رضا جوئی - ایسی کوشش جو اس کے لائق ہو، یعنی سنت کے مطابق، - ایمان کیونکہ اس کے بغیر تو کوئی عمل بھی قابل توجہ نہیں۔ یعنی قبولیت عمل کے لئے ایمان کے ساتھ اخلاص اور سنت نبوی کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ كُلًّا نُمِدُّ هَؤُلَاءِ وَهَؤُلَاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّكَ ۚ ہر ایک کو ہم بہم پہنچائے جاتے ہیں انہیں بھی اور انہیں بھی تیرے پروردگار کے انعامات میں سے۔ وَمَا كَانَ عَطَاءُ رَبِّكَ مَحْظُورًا (۲۰) تیرے پروردگار کی بخشش رکی ہوئی نہیں ہے ۔ یعنی دنیا کا رزق اور اس کی آسائشیں ہم بلا تفریق مؤمن اور کافر، طالب دنیا اور طالب آخرت سب کو دیتے ہیں۔ اللہ کی نعمتیں کسی سے بھی روکی نہیں جاتیں۔ انْظُرْ كَيْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ ۚ دیکھ لے کہ ان میں ایک کو ایک پر ہم نے کس طرح فضیلت دے رکھی ہے وَلَلْآخِرَةُ أَكْبَرُ دَرَجَاتٍ وَأَكْبَرُ تَفْضِيلًا (۲۱) اور آخرت تو درجوں میں اور بھی بڑھ کر اور فضیلت کے اعتبار سے سے بھی بہت بڑی ہے ۔ تاہم دنیا کی چیزیں کسی کو کم، کسی کو زیادہ ملتی ہیں، اللہ تعالیٰ اپنی حکمت و مصلحت کے مطابق یہ روزی تقسیم فرماتا ہے۔ تاہم آخرت میں درجات کا یہ تفاضل زیادہ واضح اور نمایاں ہوگا اور وہ اس طرح کہ اہل ایمان جنت میں اور اہل کفر جہنم میں جائیں گے۔ لَا تَجْعَلْ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ فَتَقْعُدَ مَذْمُومًا مَخْذُولًا (۲۲) اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ ٹھہرا کہ آخرش تو برے حالوں بےکس ہو کر بیٹھ رہے گا وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے تم اس کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا (۲۳) اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات کرنا اس آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی عبادت کے بعد دوسرے نمبر پر والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے، جس سے والدین کی اطاعت، ان کی خدمت اور ان کے ادب و احترام کی اہمیت واضح ہے۔ گویا ربوبیت الٰہی کے تقاضوں کے ساتھ اطاعت والدین کے تقاضوں کی ادائیگی بھی ضروری ہے۔ احادیث میں بھی اس کی اہمیت اور تاکید کو خوب واضح کر دیا گیا ہے، پھر بڑھاپے میں بطور خاص ان کے سامنے ' ہوں ' تک کہنے اور ان کو ڈانٹنے ڈپٹنے سے منع کیا ہے، کیونکہ بڑھاپے میں والدین تو کمزور، بےبس اور لا چار ہوتے ہیں، جب کہ اولاد جوان اور وسائل معاش پر قابض ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں جوانی کے دیوانے جذبات اور بڑھاپے کے سرد و گرم تجربات میں تصادم ہوتا ہے۔ ان حالات میں والدین کے ادب و احترام کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنا بہت ہی مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ تاہم اللہ کے ہاں سرخ رو وہی ہوگا جو ان تقاضوں کو ملحوظ رکھے گا۔ وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا (۲۴) اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا (١) اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے۔ پرندہ جب اپنے بچوں کو اپنے سایہء شفقت میں لیتا ہے تو ان کے لئے اپنے بازو پست کر دیتا ہے، یعنی تو بھی والدین کے ساتھ اسی طرح اچھا اور پُرشفقت معاملہ کرنا اور ان کی اسی طرح کفالت کر جس طرح انہوں نے بچپن میں تیری کی۔ یا یہ معنی ہیں کہ جب پرندہ اڑنے اور بلند ہونے کا ارادہ کرتا ہے تو اپنے بازو پھیلا لیتا ہے اور جب نیچے اترتا ہے تو بازؤں کو پست کر لیتا ہے۔ اس اعتبار سے بازوؤں کے پست کرنے کے معنی، والدین کے سامنے تواضع اور عاجزی کا اظہار کرنے کے ہوں گے۔ رَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا فِي نُفُوسِكُمْ ۚ إِنْ تَكُونُوا صَالِحِينَ فَإِنَّهُ كَانَ لِلْأَوَّابِينَ غَفُورًا (۲۵) جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اسے تمہارا رب بخوبی جانتا ہے اگر تم نیک ہو تو وہ رجوع کرنے والوں کو بخشنے والا ہے۔ وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا (۲۶) اور رشتے داروں کا اور مسکینوں اور مسافروں کا حق ادا کرتے رہو (١) اور اسراف اور بےجا خرچ سے بچو قرآن کریم کے ان الفاظ سے معلوم ہوا کہ غریب رشتہ داروں، مساکین اور ضرورت مند مسافروں کی امداد کر کے، ان پر احسان نہیں جتلانا چاہیے کیونکہ یہ ان پر احسان نہیں ہے، بلکہ مال کا وہ حق ہے جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اصحاب مال کے مالوں میں مذکورہ ضرورت مندوں کا رکھا ہے، اگر صاحب مال یہ حق ادا نہیں کرے گا تو عند اللہ مجرم ہوگا۔ گویا یہ حق کی ادائیگی ہے، نہ کہ کسی پر احسان علاوہ ازیں رشتے داروں کے پہلے ذکر سے ان کی اولیت اور اہمیت بھی واضح ہوتی ہے۔ رشتے داروں کے حقوق کی ادائیگی اور ان کے ساتھ حسن سلوک کو، صلہ رحمی کہا جاتا ہے، جس کی اسلام میں بڑی تاکید ہے۔ إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ ۖ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا (۲۷) بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ہی ناشکرا ہے تبذیر کی اصل بذر (بیج) ہے، جس طرح زمین میں بیج ڈالتے ہوئے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ یہ صحیح جگہ پر پڑ رہا ہے یا اس سے ادھر اُدھر، بلکہ کسان بیج ڈالے چلا جاتا ہے (فضول خرچی) بھی یہی ہے کہ انسان اپنا مال بیج کی طرح اڑاتا پھرے اور خرچ کرنے میں حد شرع سے تجاوز کرے اور بعض کہتے ہیں کہ تبذیر کے معنی ناجائز امور میں خرچ کرنا ہیں چاہے تھوڑا ہی ہو۔ ہمارے خیال میں دونوں ہی صورتیں تبذیر میں آجاتی ہیں۔ اور یہ اتنا برا عمل ہے کی اس کے مرتکب کو شیطان سے مشابہت ہے اور شیطان کی مماثلت سے بچنا چاہیے وہ کسی ایک ہی خصلت میں ہو، انسان کے لئے واجب ہے، پھر شیطان کو كَفُورًا (بہت ناشکرا) کہہ کر مزید بچنے کی تاکید کر دی ہے اگر شیطان کی مشابہت اختیار کرو گے تو تم بھی اس کی طرح كَفُور قرار دئیے جاؤ گے۔ (فتح القدیر) وَإِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ تَرْجُوهَا فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُورًا (۲۸) اور اگر تجھے ان سے منہ پھیر لینا پڑے اپنے رب کی رحمت کی جستجو میں، جس کی امید رکھتا ہے تو بھی تجھے چاہیے کہ عمدگی اور نرمی سے انہیں سمجھا دے ۔ یعنی مالی استطاعت کے فقدان کی وجہ سے، جس کے دور ہونے کی اور کشائش رزق کی تو اپنے رب سے امید رکھتا ہے۔ اگر تجھے غریب رشتے داروں، مسکینوں اور ضرورت مندوں سے اعراض کرنا یعنی اظہار معذرت کرنا پڑے تو نرمی اور عمدگی کے ساتھ معذرت کر، یعنی جواب بھی دیا جائے تو نرمی اور پیار و محبت کے لہجے میں نہ کہ ترشی اور بد اخلاقی کے ساتھ، جیسا کہ عام طور پر لوگ ضرورت مندوں اور غریبوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَى عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَحْسُورًا (۲۹) اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ اسے بالکل ہی کھول دے کہ پھر ملامت کیا ہوا درماندہ بیٹھ جائے گزشتہ آیت میں انکار کرنے کا ادب بیان فرمایا اب انفاق کا ادب بیان کیا جا رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان بخل کرے کہ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی ضروریات پر بھی خرچ نہ کرے اور نہ فضول خرچی ہی کرے کہ اپنی وسعت اور گنجائش دیکھے بغیر ہی بےدریغ خرچ کرتا رہے۔ بخل کا نتیجہ یہ ہوگا کہ انسان، قابل ملامت و ندمت قرار پائے گا اور فضول خرچی کے نتیجے میں محسور (تھکا ہارا اور پچھتانے والا) محسور اس جانور کو کہتے ہیں جو چل چل کر تھک چکا اور چلنے سے عاجز ہو چکا ہو۔ فضول خرچی کرنے والا بھی بالآخر خالی ہاتھ ہو کر بیٹھ جاتا ہے۔ اپنے ہاتھ کو اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ، یہ کنایہ ہے بخل سے اور ' نہ اسے بالکل ہی کھول دے ' یہ کنایہ ہے فضول خرچی سے۔ مَلُومًا مَحْسُورً الف نشر مرتب ہے، یعنی مَلُوم بخل کا اور مَحْسُور فضول خرچی کا نتیجہ ہے۔ إِنَّ رَبَّكَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقْدِرُ ۚ یقیناً تیرا رب جس کے لئے چاہے روزی کشادہ کر دیتا ہے اور جس کے لئے چاہے تنگ اس میں اہل ایمان کے لئے تسلی ہے کہ ان کے پاس وسائل رزق کی فروانی نہیں ہے، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے اللہ کے ہاں ان کا مقام نہیں ہے بلکہ یہ رزق کی وسعت یا کمی، اس کا تعلق اللہ کی حکمت و مصلحت سے ہے جسے صرف وہی جانتا ہے۔ وہ اپنے دشمنوں کو قارون بنا دے اور اپنوں کو اتنا ہی دے کہ جس سے یہ مشکل وہ اپنا گزارہ کر سکیں۔ یہ اس کی مشیت ہے۔ جس کو وہ زیادہ دے، وہ اس کا محبوب نہیں، اور وہ قوت لا یموت کا مالک اس کا مبغوض نہیں۔ إِنَّهُ كَانَ بِعِبَادِهِ خَبِيرًا بَصِيرًا (۳۰) یقیناً وہ اپنے بندوں سے باخبر اور خوب دیکھنے والا ہے وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ ۖ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ ۚ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئًا كَبِيرًا (۳۱) اور مفلسی کے خوف سے اپنی اولاد کو نہ مار ڈالو، ان کو تم کو ہم ہی روزی دیتے ہیں۔ یقیناً ان کا قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے یہ آیت سورۃ الا نعام، ١٥١ میں بھی گزر چکی ہے، حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک کے بعد جس گناہ کو سب سے بڑا قرار دیا وہ یہی ہے کہ : ان تقتل ولدک خشیۃ ان یطعم معک۔ ' کہ تو اپنی اولاد اس ڈر سے قتل کردے کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گی ' ۔ (صحیح بخاری) آجکل قتل اولاد کا گناہ عظیم طریقے سے خاندانی منصوبہ بندی کے حسین عنوان سے پوری دنیا میں ہو رہا ہے اور مرد حضرات ' بہتر تعلیم و تربیت ' کے نام پر اور خواتین اپنے ' حسن ' کو برقرار رکھنے کے لئے اس جرم کا عام ارتکاب کر رہی ہیں۔ اعاذنا اللہ منہ۔ وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا ۖ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا (۳۲) خبردار زنا کے قریب بھی نہ پھٹکنا کیونکہ وہ بڑی بےحیائی ہے اور بہت ہی بری راہ ہے ۔ اسلام میں زنا چونکہ بہت بڑا جرم ہے، اتنا بڑا کہ کوئی شادی شدہ مرد یا عورت اس کا ارتکاب کر لے تو اسے اسلامی معاشرے میں زندہ رہنے کا ہی حق نہیں ہے۔ پھر اسے تلوار کے ایک وار سے مار دینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ حکم ہے کہ پتھر مار مار کر اس کی زندگی کا خاتمہ کیا جائے تاکہ معاشرے میں نشان عبرت بن جائے۔ اس لئے یہاں فرمایا کہ زنا کے قریب مت جاؤ، یعنی اس کے دواعی و اسباب سے بھی بچ کر رہو، مثلًا غیر محرم عورت کو دیکھنا، ان سے اختلاط، کلام کی راہیں پیدا کرنا، اسی طرح عورتوں کا بےپردہ اور بن سنور کر گھروں سے باہر نکلنا، وغیرہ ان تمام امور سے پرہیز ضروری ہے تاکہ اس بےحیائی سے بچا جا سکے۔ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ۗ اور کسی جان کو جس کا مارنا اللہ نے حرام کر دیا ہرگز ناحق قتل نہ کرنا حق کے ساتھ قتل کرنے کا مطلب قصاص میں قتل کرنا ہے، جس کو انسانی معاشرے کی زندگی اور امن و سکون کا باعث قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح شادی شدہ زانی اور مرتد کو قتل کرنے کا حکم ہے۔ وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَانًا فَلَا يُسْرِفْ فِي الْقَتْلِ ۖ إِنَّهُ كَانَ مَنْصُورًا (۳۳) اور جو شخص مظلوم ہونے کی صورت میں مار ڈالا جائے ہم نے اس کے وارث کو طاقت دے رکھی ہے کہ پس اسے چاہیے کہ مار ڈالنے میں زیادتی نہ کرے بیشک وہ مدد کیا گیا ہے ۔ یعنی مقتول کے وارثوں کو یہ حق یا غلبہ یا طاقت دی گئی ہے کہ وہ قاتل کو حاکم وقت کے شرعی فیصلہ کے بعد قصاص میں قتل کر دیں یا اس سے دیت لے لیں یا معاف کر دیں اور اگر قصاص ہی لینا ہے تو اس میں زیادتی نہ کریں کہ ایک کے بدلے میں دو یا تین چار کو مار دیں، یا اس کا مثلہ کر کے یا عذاب دے کر ماریں، مقتول کا وارث، مدد دیا گیا ہے، یعنی امرا و احکام کو اس کی مدد کرنے کی تاکید کی گئی ہے، اس لئے اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے نہ یہ کہ زیادتی کا ارتکاب کر کے اللہ کی ناشکری کرے۔ وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّهُ ۚ اور یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ بجز اس طریقہ کے جو بہت ہی بہتر ہو، یہاں تک کہ وہ اپنی بلوغت کو پہنچ جائے کسی کی جان کو ناجائز طریقے سے ضائع کرنے کی ممانعت کے بعد، اتلاف مال (مال کے ضائع کرنے) سے روکا جا رہا ہے اور اس میں یتیم کا مال سب سے زیادہ اہم ہے، اس لئے فرمایا کہ یتیم کے بالغ ہونے تک اس کے مال کو ایسے طریقے سے استعمال کرو، جس میں اس کا فائدہ ہو۔ یہ نہ ہو کہ سوچے سمجھے بغیر ایسے کاروبار میں لگا دو کہ وہ ضائع یا خسارے سے دو چار ہو جائے۔ یا عمر شعور سے پہلے تم اسے اڑا ڈالو۔ وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ ۖإِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا (۳۴) اور وعدے پورے کرو کیونکہ قول و قرار کی باز پرس ہونے والی ہے ۔ عہد سے وہ میثاق بھی مراد ہے جو اللہ اور اس کے بندے کے درمیان ہے اور وہ بھی جو انسان آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہیں۔ دونوں قسم کے عہدوں کا پورا کرنا ضروری ہے اور نقص عہد کی صورت میں باز پرس ہوگی۔ وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذَا كِلْتُمْ وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيمِ ۚ اور جب ناپنے لگو تو بھر پورے پیمانے سے ناپو اور سیدھی ترازو سے تولا کرو۔ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا (۳۵) یہی بہتر ہے (١) اور انجام کے لحاظ سے بھی بہت اچھا ہے۔ اجر و ثواب کے لحاظ سے بہتر ہے، علاوہ ازیں لوگوں کے اندر اعتماد پیدا کرنے میں ناپ تول میں دیانت داری مفید ہے وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ جس بات کی تمہیں خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت (١) پڑ فَفَا یَقْفُوْ کے معنی ہیں پیچھے لگنا، یعنی جس چیز کا علم نہیں، اس کے پیچھے مت لگو، یعنی بدگمانی مت کرو، کسی کی ٹوہ میں مت رہو، اسی طرح جس چیز کا علم نہیں، اس پر عمل مت کرو۔ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا (۳۶) کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے ۔ یعنی جس چیز کے پیچھے تم پڑو گے اس کے متعلق کان سے سوال ہوگا کہ کیا اس نے سنا تھا، آنکھ سے سوال ہوگا کیا اس نے دیکھا تھا اور دل سے سوال ہوگا کیا اس نے جانا تھا؟ کیونکہ یہی تینوں علم کا ذریعہ ہیں۔ یعنی ان اعضا کو اللہ تعالیٰ قیامت والے دن قوت گویائی عطا فرمائے گا اور ان سے پوچھا جائیگا۔ وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا ۖ إِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْأَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولًا (۳۷) اور زمین میں اکڑ کر نہ چل کہ نہ تو زمین کو پھاڑ سکتا ہے اور نہ لمبائی میں پہاڑوں کو پہنچ سکتا ہے اترا کر اور اکڑ کر چلنا، اللہ کو سخت ناپسند ہے۔ قارون کو اسی بنا پر اس کے گھر اور خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا (القصص۔٨١) حدیث میں آتا ہے: ایک شخص دو چادریں پہنے اکڑ کر چل رہا تھا کہ اس کو زمین میں دھنسا دیا گیا اور وہ قیامت تک دھنستا چلا جائے گا۔ (صحیح مسلم) اللہ تعالیٰ کو عاجزی پسند ہے۔ كُلُّ ذَلِكَ كَانَ سَيِّئُهُ عِنْدَ رَبِّكَ مَكْرُوهًا (۳۸) ان سب کاموں کی برائی تیرے رب کے نزدیک (سخت) ناپسند ہے ۔ یعنی جو باتیں مذکور ہوئیں، ان میں جو بھی بری ہیں، جن سے منع کیا گیا، وہ ناپسندیدہ ہیں ذَلِكَ مِمَّا أَوْحَى إِلَيْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَةِ ۗ یہ بھی منجملہ اس وحی کے ہے جو تیری جانب تیرے رب نے حکمت سے اتاری ہے وَلَا تَجْعَلْ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ فَتُلْقَى فِي جَهَنَّمَ مَلُومًا مَدْحُورًا (۳۹) تو اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ بنانا کہ ملامت خوردہ اور راندہ درگاہ ہو کر دوزخ میں ڈال دیا جائے۔ أَفَأَصْفَاكُمْ رَبُّكُمْ بِالْبَنِينَ وَاتَّخَذَ مِنَ الْمَلَائِكَةِ إِنَاثًا ۚ إِنَّكُمْ لَتَقُولُونَ قَوْلًا عَظِيمًا (۴۰) کیا بیٹوں کے لئے تو اللہ نے تمہیں چھانٹ لیا اور خود اپنے لئے فرشتوں کو لڑکیاں بنالیں؟ بیشک تم بہت بڑا بول بول رہے ہو۔ وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِي هَذَا الْقُرْآنِ لِيَذَّكَّرُوا وَمَا يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُورًا (۴۱) ہم نے اس قرآن میں ہر ہر طرح بیان (١) فرما دیا کہ لوگ سمجھ جائیں لیکن اس سے انہیں تو نفرت ہی بڑھتی ہے۔ ہر ہر طرح کا مطلب ہے، وعظ و نصیحت، دلائل و بینات اور مثالیں و واقعات، ہر طریقے سے بار بار سمجھایا گیا ہے تاکہ وہ سمجھ جائیں، لیکن وہ کفر شرک کی تاریکیوں میں اس طرح پھنسے ہوئے ہیں کہ وہ حق کے قریب ہونے کی بجائے، اور زیادہ دور ہوگئے ہیں۔ اس لئے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ قرآن جادو، کہانیاں اور شاعری ہے، پھر وہ اس قرآن سے کس طرح راہ یاب ہوں؟ کیونکہ قرآن کی مثال بارش کی ہے کہ اچھی زمین پر پڑے تو وہ بارش سے شاداب ہو جاتی ہے اور اگر وہ گندی ہے تو بارش سے بدبو میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ قُلْ لَوْ كَانَ مَعَهُ آلِهَةٌ كَمَا يَقُولُونَ إِذًا لَابْتَغَوْا إِلَى ذِي الْعَرْشِ سَبِيلًا (۴۲) کہہ دیجئے! کہ اگر اللہ کے ساتھ اور معبود بھی ہوتے جیسے کہ یہ لوگ کہتے ہیں تو ضرور وہ اب تک مالک عرش کی جانب راہ ڈھونڈ نکالتے اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ جس طرح ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ پر لشکر کشی کر کے غلبہ و قوت حاصل کر لیتا ہے، اسی طرح دوسرے معبود بھی اللہ پر غلبے کی کوئی راہ ڈھونڈ نکالتے۔ اور اب تک ایسا نہیں ہوا، جب کہ ان معبودوں کو پوجتے ہوئے صدیاں گزر گئی ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود ہی نہیں، کوئی با اختیار ہی نہیں، دوسرے معنی ہیں کہ وہ اب تک اللہ کا قرب حاصل کر چکے ہوتے اور یہ مشرکین جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کے ذریعے سے وہ اللہ کا قرب حاصل کرتے ہیں، انہیں بھی وہ اللہ کے قریب کر چکے ہوتے سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يَقُولُونَ عُلُوًّا كَبِيرًا (۴۳) جو کچھ یہ کہتے ہیں اس سے پاک اور بالا تر، بہت دور اور بہت بلند ہے ۔ یعنی واقعہ یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ کی بابت جو کہتے ہیں کہ اس کے شریک ہیں، اللہ تعالیٰ ان باتوں سے پاک اور بلند ہے تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْأَرْضُ وَمَنْ فِيهِنَّ ۚ ساتوں آسمان اور زمین اور جو بھی ان میں ہے اسی کی تسبیح کر رہے ہیں۔ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ۗ ایسی کوئی چیز نہیں جو اسے پاکیزگی اور تعریف کے ساتھ یاد نہ کرتی ہو۔ ہاں یہ صحیح ہے کہ تم اس کی تسبیح سمجھ نہیں سکتے۔ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا (۴۴) وہ بڑا برد بار اور بخشنے والا ہے۔ یعنی سب اسی کے مطیع اور اپنے اپنے انداز میں اس کی تسبیح و تحمید میں مصروف ہیں۔ گو ہم ان کی تسبیح و تحمید کو نہ سمجھ سکیں۔ اس کی تائید بعض آیات قرآنی سے بھی ہوتی ہے مثلًا حضرت داؤد علیہ السلام کے بارے میں آتا ہے: إِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهُ يُسَبِّحْنَ بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْرَاقِ ۔ (۳۸:۱۸) ہم نے پہاڑوں کو داؤد علیہ السلام کے تابع کر دیا ' بس وہ شام کو اور صبح کو اس کے ساتھ اللہ کی تسبیح (پاکی) بیان کرتے ہیں۔ بعض پتھروں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ ۗ۔ (۲:۷۴) اور بعض اللہ تعالیٰ کے ڈر سے گر پڑتے ہیں، ایک اور حدیث سے ثابت ہے کہ چیونٹیاں اللہ کی تسبیح کرتی ہیں، اسی طرح جس تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے، جب لکڑی کا منبر بن گیا اور اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑ دیا تو بچے کی طرح اس سے رونے کی آواز آتی تھی۔ (بخاری نمبر ٣٥٨٣) مکے میں ایک پتھر تھا جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا کرتا تھا ۔ (صحیح مسلم۔ ١٧٨٢) ان آیات و صحیح حدیث سے واضح ہے کہ جمادات و نباتات کے اندر بھی ایک مخصوص قسم کا شعور موجود ہے، جسے گو ہم نہ سمجھ سکیں، مگر وہ اس شعور کی بنا پر اللہ کی تسبیح کرتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد تسبیح دلالت ہے یعنی یہ چیزیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ تمام کائنات کا خالق اور ہرچیز پر قادر صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ وفی کل شیء لہ آیۃ۔ تدل علی انہ واحد۔ ہرچیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے لیکن صحیح بات پہلی ہی ہے کہ تسبیح اپنے حقیقی معنی میں ہے۔ وَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ جَعَلْنَا بَيْنَكَ وَبَيْنَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ حِجَابًا مَسْتُورًا (۴۵) تو جب قرآن پڑھتا ہے ہم تیرے اور ان لوگوں کے درمیان جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے ایک پوشیدہ حجاب ڈال دیتے ہیں۔ مَسْتُور بمعنی سَاترٍ(مانع اور حائل) ہے مستور عن الابصار (آنکھوں سے اوجھل) پس وہ اسے دیکھتے ہیں۔ اس کے باوجود، ان کے اور ہدایت کے درمیان حجاب ہے۔ وَجَعَلْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَنْ يَفْقَهُوهُ وَفِي آذَانِهِمْ وَقْرًا ۚ اور ان کے دلوں پر ہم نے پردے ڈال دیئے ہیں کہ وہ اسے سمجھیں اور ان کے کانوں میں بوجھ أَكِنَّةً ، کنان کی جمع ہے ایسا پردہ جو دلوں پر پڑ جائے وَقْرًا کانوں میں ایسا ثقل یا ڈاٹ جو قرآن کے سننے میں مانع ہو۔ وَإِذَا ذَكَرْتَ رَبَّكَ فِي الْقُرْآنِ وَحْدَهُ وَلَّوْا عَلَى أَدْبَارِهِمْ نُفُورًا (۴۶) اور جب تو صرف اللہ ہی کا ذکر اس کی توحید کے ساتھ، اس قرآن میں کرتا ہے تو وہ روگردانی کرتے پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوتے ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے دل قرآن کے سمجھنے سے قاصر اور کان قرآن سن کر ہدایت قبول کرنے سے عاجز ہیں، اور اللہ کی توحید سے انہیں اتنی نفرت ہے کہ اسے سن کر تو بھاگ ہی کھڑے ہوتے ہیں، ان افعال کی نسبت اللہ کی طرف، بہ اعتبار خلق کے ہے۔ ورنہ ہدایت سے محرومی ان کے جمود و عناد ہی کا نتیجہ تھا۔ نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَسْتَمِعُونَ بِهِ إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ وَإِذْ هُمْ نَجْوَى جس غرض سے وہ لوگ اسے سنتے ہیں ان (کی نیتوں) سے ہم خوب آگاہ ہیں، جب یہ آپ کی طرف کان لگائے ہوئے ہوتے ہیں تب بھی اور جب مشورہ کرتے ہیں إِذْ يَقُولُ الظَّالِمُونَ إِنْ تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَسْحُورًا (۴۷) تب بھی جب کہ یہ ظالم کہتے ہیں کہ تم اس کی تابعداری میں لگے ہوئے ہو جن پر جادو (١) کر دیا گیا ہے۔ یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ سحر زدہ سمجھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہوئے قرآن سنتے اور آپس میں سرگوشیاں کرتے ہیں، اس لئے ہدایت سے محروم ہی رہتے ہیں۔ انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثَالَ فَضَلُّوا فَلَا يَسْتَطِيعُونَ سَبِيلًا (۴۸) دیکھیں تو سہی، آپ کے لئے کیا کیا مثالیں بیان کرتے ہیں، پس وہ بہک رہے ہیں۔ اب تو راہ پانا ان کے بس میں نہیں رہا کبھی ساحر، کبھی مسحور، کبھی مجنون اور کبھی کاہن کہتے ہیں، پس اس طرح گمراہ ہو رہے ہیں، ہدایت کا راستہ انہیں کس طرح ملے۔ وَقَالُوا أَإِذَا كُنَّا عِظَامًا وَرُفَاتًا أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ خَلْقًا جَدِيدًا (۴۹) انہوں نے کہا کہ جب ہم ہڈیاں اور (مٹی ہو کر) ریزہ ریزہ ہوجائیں گے تو کیا ہم از سر نو پیدا کرکے پھر دوبارہ اٹھا کر کھڑے کر دیئے جائیں گے قُلْ كُونُوا حِجَارَةً أَوْ حَدِيدًا (۵۰) جواب دیجئے کہ تم پتھر بن جاؤ یا لوہا ۔ جو مٹی اور ہڈیوں سے زیادہ سخت ہے اور جس میں زندگی کے آثار پیدا کرنا زیادہ مشکل ہے۔ أَوْ خَلْقًا مِمَّا يَكْبُرُ فِي صُدُورِكُمْ ۚ یا کوئی اور ایسی خلقت جو تمہارے دلوں میں بہت ہی سخت معلوم ہو، یعنی اس سے بھی زیادہ سخت چیز، جو تمہارے علم میں ہو، وہ بن جاؤ اور پھر پوچھو کہ کون زندہ کرے گا؟ فَسَيَقُولُونَ مَنْ يُعِيدُنَا ۖ قُلِ الَّذِي فَطَرَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ ۚ پھر وہ یہ پوچھیں کہ کون ہے جو دوبارہ ہماری زندگی لوٹائے؟ جواب دیں کہ وہی اللہ جس نے تمہیں اول بار پیدا کیا، فَسَيُنْغِضُونَ إِلَيْكَ رُءُوسَهُمْ وَيَقُولُونَ مَتَى هُوَ ۖ اس پر وہ اپنے سر ہلا ہلا کر (۱) آپ سے دریافت کریں گے کہ اچھا یہ ہے کب؟ اَنْغِضُ کے معنی ہیں سر ہلانا۔ یعنی استہزاء کے طور پر سر ہلا کر وہ کہیں گے کہ یہ دوبارہ زندگی کب ہوگی؟ قُلْ عَسَى أَنْ يَكُونَ قَرِيبًا (۵۱) تو آپ جواب دے دیں کہ کیا عجب کہ وہ (ساعت) قریب ہی آن لگی ہو ۔ قریب کا مطلب ہے، ہونے والی چیز کُلُّ مَا ھُوَ آتٍ فَھُّوَ قَرِیْب ہر وقوع پذیر ہونے والی چیز قریب ہے ' یعنی قیامت کا وقوع یقینی اور ضروری ہے۔ يَوْمَ يَدْعُوكُمْ فَتَسْتَجِيبُونَ بِحَمْدِهِ وَتَظُنُّونَ إِنْ لَبِثْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا (۵۲) جس دن وہ تمہیں (١) بلائے گا تم اس کی تعریف کرتے ہوئے تعمیل ارشاد کرو گے اور گمان کرو گے کہ تمہارا رہنا بہت ہی تھوڑا ہے ۔(٢) ۱۔ ' بلائے گا ' کا مطلب ہے قبروں سے زندہ کر کے اپنی بارگاہ میں حاضر کرے گا، تم اس کی حمد کرتے ہوئے تعمیل ارشاد کرو گے یا اسے پہچانتے ہوئے اس کے پاس حاضر ہو جاؤ گے۔ ۲۔ وہاں یہ دنیا کی زندگی بالکل تھوڑی معلوم ہوگی۔ كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَهَا لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحَاهَا۔ (۷۹:۴۶) جب قیامت کو دیکھ لیں گے، تو دنیا کی زندگی انہیں ایسے لگے گی گویا اس میں ایک شام یا ایک صبح رہے اسی مضمون کو دیگر مقامات میں بھی بیان کیا گیا ہے بعض کہتے ہیں کہ پہلا صور پھونکیں گے تو سب مردے قبروں میں زندہ ہو جائیں گے۔ پھر دوسرے صور پر میدان محشر میں حساب کتاب کے لئے اکٹھے ہونگے۔ دونوں صور کے درمیان چالیس سال کا فاصلہ ہوگا اور اس فاصلے میں انہیں کوئی عذاب نہیں دیا جائے گا، وہ سو جائیں گے۔ دوسرے صور پر اٹھیں گے تو کہیں گے : افسوس، ہمیں ہماری خواب گاہوں سے کس نے اٹھایا؟ ' (سورۃ یٰسں۔٥٢) (فتح القدیر) پہلی بات زیادہ صحیح ہے۔ وَقُلْ لِعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ اور میرے بندوں سے کہہ دیجئے کہ وہ بہت ہی اچھی بات منہ سے نکالا کریں یعنی آپس میں گفتگو کرتے وقت زبان کو احتیاط سے استعمال کریں، اچھے کلمات بولیں، اسی طرح کفار و مشرکین اور اہل کتاب سے اگر مخاطبت کی ضرورت پیش آئے تو ان سے مشفقانہ اور نرم لہجے میں گفتگو کریں۔ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنْزَغُ بَيْنَهُمْ ۚ کیونکہ شیطان آپس میں فساد ڈلواتا ہے۔ زبان کی ذرا سی بے اعتدالی سے شیطان، جو تمہارا کھلا دشمن ہے، تمہارے درمیان آپس میں فساد ڈلوا سکتا ہے، یا کفار یا مشرکین کے دلوں میں تمہارے لئے زیادہ بغض و عناد پیدا کر سکتا ہے۔ حدیث میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی طرف ہتھیار کے ساتھ اشارہ نہ کرے اس لیے کہ وہ نہیں جانتا کہ شیطان شاید اس کے ہاتھ سے وہ ہتھیار چلوا دے اور وہ اس مسلمان بھائی کو جا لگے جس سے اس کی موت واقع ہو جائے پس وہ جہنم کے گڑھے میں جا گرے۔ صحیح بخاری إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلْإِنْسَانِ عَدُوًّا مُبِينًا (۵۳) بیشک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ رَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِكُمْ ۖإِنْ يَشَأْ يَرْحَمْكُمْ أَوْ إِنْ يَشَأْ يُعَذِّبْكُمْ ۚ تمہارا رب تم سے بہ نسبت تمہارے بہت زیادہ جاننے والا ہے، وہ اگر چاہے تو تم پر رحم کر دے یا اگر چاہے تو تمہیں عذاب دے اگر خطاب مشرکین سے ہو تو رحم کے معنی قبول اسلام کی توفیق کے ہونگے اور عذاب سے مراد شرک پر ہی موت ہے، جس پر وہ عذاب کے مستحق ہوں گے۔ اور اگر خطاب مؤمنین سے ہو تو رحم کے معنی ہوں گے کہ وہ کفار سے تمہاری حفاظت فرمائے گا اور عذاب کا مطلب ہے کفار کا مسلمانوں پر غلبہ و تسلط۔ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ وَكِيلًا (۵۴) ہم نے آپ کو ان کا ذمہ دار ٹھہرا کر نہیں بھیجا ۔ کہ آپ انہیں ضرور کفر کی دلدل سے نکالیں یا ان کے کفر پر جمے رہنے پر آپ سے باز پرس ہو۔ وَرَبُّكَ أَعْلَمُ بِمَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہے آپ کا رب سب کو بخوبی جانتا ہے۔ وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِيِّينَ عَلَى بَعْضٍ ۖ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا (۵۵) ہم نے بعض پیغمبروں کو بعض پر بہتری اور برتری دی ہے۔ (١) اور داؤد کو زبور ہم نے عطا فرمائی ہے۔ یہ مضمون تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ ۘ (۲:۲۵۳) بھی گزر چکا ہے۔ یہاں دوبارہ کفار مکہ کے جواب میں یہ مضمون دہرایا گیا ہے، جو کہتے تھے کہ کیا اللہ کو رسالت کے لئے یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی ملا تھا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کسی کو رسالت کے لئے منتخب کرنا اور کسی ایک نبی کو دوسرے پر فضیلت دینا، یہ اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔ قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِهِ فَلَا يَمْلِكُونَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنْكُمْ وَلَا تَحْوِيلًا (۵۶) کہہ دیجئے کہ اللہ کے سوا جنہیں تم معبود سمجھ رہے ہو انہیں پکارو لیکن نہ تو وہ تم سے کسی تکلیف کو دور کر سکتے ہیں اور نہ بدل سکتے ہیں۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ ۚ جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں خود وہ اپنے رب کے تقرب کی جستجو میں رہتے ہیں کہ ان میں سے کون زیادہ نزدیک ہو جائے وہ خود اس کی رحمت کی امید رکھتے اور اس کے عذاب سے خوف زدہ رہتے ہیں، مذکورہ آیت میں مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ سے مراد فرشتوں اور بزرگوں کی وہ تصویریں اور مجسمے ہیں جن کی عبادت کرتے تھے، یا حضرت عزیر و مسیح علہما السلام ہیں جنہیں یہودی اور عیسائی ابن اللہ کہتے ہیں اور انہیں ربوبیت صفات کا حامل مانتے تھے، یا وہ جنات ہیں جو مسلمان ہوگئے تھے اور مشرکین ان کی عبادت کرتے تھے۔ اس لئے کہ اس آیت میں بتلایا جا رہا ہے کہ یہ تو خود اپنے رب کا قرب تلاش کرنے کی جستجو میں رہتے اور اس کی رحمت کی امید رکھتے اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں اور یہ صفت جمادات (پتھروں) میں نہیں ہو سکتی۔ اس آیت سے واضح ہو جاتا ہے کہ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ (اللہ کے سوا جن کی عبات کی جاتی رہی ہے) وہ صرف پتھر کی مورتیاں ہی نہیں تھیں، بلکہ اللہ کے وہ بندے بھی تھے جن میں سے کچھ فرشتے، کچھ صالحین، کچھ انبیاء اور کچھ جنات تھے۔ اللہ تعالیٰ نے سب کی بابت فرمایا کہ وہ کچھ نہیں کر سکتے، نہ کسی کی تکلیف دور کر سکتے ہیں نہ کسی کی حالت بدل سکتے ہیں. ' اپنے رب کے تقرب کی جستجو میں رہتے ہیں ' کا مطلب اعمال صالحہ کے ذریعے سے اللہ کا قرب ڈھونڈتے ہیں۔ یہی الوسیلۃ ہے جسے قرآن نے بیان کیا ہے وہ نہیں ہے جسے قبر پرست بیان کرتے ہیں کہ فوت شدہ اشخاص کے نام کی نذر نیاز دو، ان کی قبروں پر غلاف چڑھاؤ اور میلے ٹھیلے جماؤ اور ان سے استمداد و استغاثہ کرو کیونکہ یہ وسیلہ نہیں یہ تو ان کی عبادت ہے جو شرک ہے اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اس سے محفوظ رکھے۔ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُورًا (۵۷) (بات بھی یہی ہے) کہ تیرے رب کا عذاب ڈرنے کی چیز ہے۔ وَإِنْ مِنْ قَرْيَةٍ إِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوهَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيَامَةِ أَوْ مُعَذِّبُوهَا عَذَابًا شَدِيدًا ۚ جتنی بھی بستیاں ہیں ہم قیامت کے دن سے پہلے پہلے یا تو انہیں ہلاک کر دینے والے ہیں یا سخت تر سزا دینے والے ہیں۔ كَانَ ذَلِكَ فِي الْكِتَابِ مَسْطُورًا (۵۸) یہ کتاب میں لکھا جا چکا ہے (١)۔ کتاب سے مراد لوح محفوظ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بات طے شدہ ہے، جو لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہے کہ ہم کافروں کی ہر بستی کو یا تو موت کے ذریعے سے ہلاک کر دیں گے اور بستی سے مراد، بستی کے باشندگان ہیں اور ہلاکت کی وجہ ان کا کفر و شرک اور ظلم و طغیان ہے۔ علاوہ ازیں یہ ہلاکت قیامت سے قبل وقوع پذیر ہوگی، ورنہ قیامت کے دن تو بلا تفریق ہر بستی ہی شکست و ریخت کا شکار ہو جائے گی۔ وَمَا مَنَعَنَا أَنْ نُرْسِلَ بِالْآيَاتِ إِلَّا أَنْ كَذَّبَ بِهَا الْأَوَّلُونَ ۚ ہمیں نشانات (معجزات) کے نازل کرنے سے روک صرف اسی کی ہے کہ اگلے لوگ انہیں جھٹلا چکے ہیں یہ آیت اس وقت اتری جب کفار مکہ نے مطالبہ کیا کوہ صفا کو سونے کا بنا دیا جائے یا مکے کے پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹا دیئے جائیں تاکہ وہاں کاشت کاری ممکن ہو سکے، جس پر اللہ تعالیٰ نے جبرائیل کے ذریعے سے پیغام بھیجا کہ ان کے مطالبات ہم پورے کرنے کے لئے تیار ہیں، لیکن اگر اس کے بعد بھی وہ ایمان نہ لائے تو پھر ان کی ہلاکت یقینی ہے۔ پھر انہیں مہلت نہیں دی جائے گی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس بات کو پسند فرمایا کہ ان کا مطالبہ پورا نہ کیا جائے تاکہ یہ ہلاکت سے بچ جائیں، اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے یہی مضمون بیان فرمایا کہ ان کی خواہش کے مطابق نشانیاں اتار دینا ہمارے لئے کوئی مشکل نہیں۔ لیکن ہم اس سے گریز اس لئے کر رہے ہیں کہ پہلی قوموں نے بھی اپنی خواہش کے مطابق نشانیاں مانگیں جو انہیں دکھا دی گئیں، لیکن اس کے باوجود انہوں نے تکذیب کی اور ایمان نہ لائے، جس کے نتیجے میں وہ ہلاک کر دی گئیں۔ وَآتَيْنَا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوا بِهَا ۚ ہم نے ثمودیوں کو بطور بصیرت کے اونٹنی دی لیکن انہوں نے اس پر ظلم کیا قوم ثمود کا بطور مثال تذکرہ کیا کیونکہ ان کی خواہش پر پتھر کی چٹان سے اونٹنی ظاہر کر کے دکھائی گئی تھی، لیکن ان ظالموں نے، ایمان لانے کی بجائے، اس اونٹنی ہی کو مار ڈالا، جس پر تین دن کے بعد ان پر عذاب آگیا۔ وَمَا نُرْسِلُ بِالْآيَاتِ إِلَّا تَخْوِيفًا (۵۹) ہم تو لوگوں کو دھمکانے کے لئے ہی نشانی بھیجتے ہیں۔ وَإِذْ قُلْنَا لَكَ إِنَّ رَبَّكَ أَحَاطَ بِالنَّاسِ ۚ اور یاد کرو جب کہ ہم نے آپ سے فرما دیا کے آپ کے رب نے لوگوں کو گھیر لیا ہے۔ یعنی لوگ اللہ کے غلبہ و تصرف میں ہیں اور جو اللہ چاہے گا وہی ہوگا نہ کہ جو وہ چاہیں گے، یا مراد اہل مکہ ہیں کہ وہ اللہ کے زیر اقتدار ہیں، آپ بےخوفی سے تبلیغ رسالت کیجئے، وہ آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے، ہم ان سے آپ کی حفاظت فرمائیں گے۔ یا جنگ بدر اور فتح مکہ کے موقع پر جس طرح اللہ نے کفار مکہ کو عبرت ناک شکست سے دو چار کیا، اس کو واضح کیا جارہا ہے۔ وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلَّا فِتْنَةً لِلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآنِ ۚ جو رویت (عینی روئیت) ہم نے آپ کو دکھا دی تھی وہ لوگوں کے لئے صاف آزمائش ہی تھی اور اسی طرح وہ درخت بھی جس سے قرآن میں اظہار نفرت کیا گیا ہے صحابہ و تابعین نے اس الرُّؤْيَا کی تفسیر عینی رویت سے کی ہے اور مراد اس سے معراج کا واقعہ ہے، جو بہت سے کمزور لوگوں کے لئے فتنے کا باعث بن گیا اور وہ مرتد ہوگئے۔ اور درخت سے مراد (تھوہر) کا درخت ہے، جس کا مشاہدہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج، جہنم میں کیا۔ الْمَلْعُونَةَ سے مراد، کھانے والوں پر یعنی جہنمیوں پر لعنت۔ جیسے دوسرے مقام پر ہے کہ۔ إِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّومِ ۔ طَعَامُ الْأَثِيمِ ۔ (۴۴:۴۳،۴۴) زقوم کا درخت، گناہ گاروں کا کھانا ہے وَنُخَوِّفُهُمْ فَمَا يَزِيدُهُمْ إِلَّا طُغْيَانًا كَبِيرًا (۶۰) ہم انہیں ڈرا رہے ہیں لیکن یہ انہیں اور بڑی سرکشی میں بڑھا رہا ہے یعنی کافروں کے دلوں میں جو خبث و عناد ہے، اس کی وجہ سے، نشانیاں دیکھ کر ایمان لانے کی بجائے، ان کی سرکشی و طغیانی میں اور اضافہ ہو جاتا ہے۔ وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے کیا، قَالَ أَأَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِينًا (۶۱) اس نے کہا کہ کیا میں اسے سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔ قَالَ أَرَأَيْتَكَ هَذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ لَئِنْ أَخَّرْتَنِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَأَحْتَنِكَنَّ ذُرِّيَّتَهُ إِلَّا قَلِيلًا (۶۲) اچھا دیکھ لے اسے تو نے مجھ پر بزرگی تو دی ہے، لیکن اگر مجھے بھی قیامت تک تو نے ڈھیل دی تو میں اس کی اولاد کو بجز تھوڑے لوگوں کے، اپنے بس (١) میں کرلوں گا۔ یعنی اس پر غلبہ حاصل کرلوں گا اور اسے جس طرح چاہوں گا، گمراہ کرلوں گا۔ البتہ تھوڑے سے لوگ میرے داؤ سے بچ جائیں گے۔ آدم علیہ السلام و ابلیس کا یہ قصہ اس سے قبل سورہ بقرہ، اعراف اور حجر میں گزر چکا ہے۔ یہاں چوتھی مرتبہ اسے بیان کیا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں سورہ کہف طٰہٰ اور سورہ ص میں بھی اس کا ذکر آئے گا۔ قَالَ اذْهَبْ فَمَنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ فَإِنَّ جَهَنَّمَ جَزَاؤُكُمْ جَزَاءً مَوْفُورًا (۶۳) ارشاد ہوا کہ جا ان میں سے جو بھی تیرا تابعدار ہو جائے گا تو تم سب کی سزا جہنم ہے جو پورا پورا بدلہ ہے وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ وَأَجْلِبْ عَلَيْهِمْ بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ ان میں سے تو جسے بھی اپنی آواز سے بہکا سکے گا بہکا (١) لے اور ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھالا (٢) ۱۔ آواز سے مراد پر فریب دعوت یا گانے، موسیقی اور لہو و لعب کے دیگر آلات ہیں، جن کے ذریعے سے شیطان بکثرت لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے۔ ۲۔ ان لشکروں سے مراد، انسانوں اور جنوں کے وہ سوار اور پیادے لشکر ہیں جو شیطان کے چیلے اور اس کے پیروکار ہیں اور شیطان ہی کی طرح انسانوں کو گمراہ کرتے ہیں، یا مراد ہے ہر ممکن ذرائع جو شیطان گمراہ کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ وَشَارِكْهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ وَعِدْهُمْ ۚ اور ان کے مال اور اولاد میں سے اپنا بھی حصہ لگا (١) اور انہیں (جھوٹے) وعدے دے لے (٢) ۱۔ مال میں شیطان کے شامل ہونے کا مطلب - حرام ذریعے سے مال کمانا اور حرام طریقے سے خرچ کرنا ہے - اور اسی طرح مویشیوں کو بتوں کے ناموں پر وقف کر دینا مثلًا بحیرہ، سائبہ وغیرہ اور اولاد میں شرکت کا مطلب - زنا کاری، - عبدالات، عبدالعزیٰ وغیرہ نام رکھنا، - غیر اسلامی طریقے سے ان کی تربیت کرنا کہ برے اخلاق و کردار کے حامل ہوں، - ان کو تنگ دستی کے خوف سے ہلاک یا زندہ درگور کر دینا، - اولاد کو مجوسی، یہودی و نصرانی وغیرہ بنانا - اور بغیر مسنون دعا پڑھے بیوی سے ہم بستری کرنا وغیرہ وغیرہ ہے۔ ان تمام صورتوں میں شیطان کی شرکت ہو جاتی ہے۔ ۲۔ کہ کوئی جنت و دوزخ نہیں ہے، یا مرنے کے بعد دوبارہ زندگی نہیں ہے وغیرہ۔ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا (۶۴) ان سے جتنے بھی وعدے شیطان کے ہوتے ہیں سب کے سب سراسر فریب ہیں (٥)۔ غُرُور (فریب) کا مطلب ہوتا ہے غلط کام کو اس طرح مزین کرکے دکھانا کہ وہ اچھا اور درست لگے۔ إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ ۚ میرے سچے بندوں پر تیرا کوئی قابو اور بس نہیں بندوں کی نسبت اپنی طرف کی، بطور شرف اور اعزاز کے ہے، جس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے خاص بندوں کو شیطان بہکانے میں ناکام رہتا ہے۔ وَكَفَى بِرَبِّكَ وَكِيلًا (۶۵) تیرا رب کار سازی کرنے والا کافی ہے۔ یعنی جو صحیح معنوں میں اللہ کا بندہ بن جاتا ہے، اسی پر اعتماد اور توکل کرتا ہے تو اللہ بھی اس کا دوست اور کار ساز بن جاتا ہے۔ رَبُّكُمُ الَّذِي يُزْجِي لَكُمُ الْفُلْكَ فِي الْبَحْرِ لِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ ۚإِنَّهُ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا (۶۶) تمہارا پروردگار وہ ہے جو تمہارے لئے دریا میں کشتیاں چلاتا تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو۔ وہ تمہارے اوپر بہت مہربان ہے یہ اس کا فضل اور رحمت ہی ہے کہ اس نے سمندر کو انسانوں کے تابع کر دیا اور وہ اس پر کشتیاں اور جہاز چلا کر ایک ملک سے دوسرے ملک میں آتے جاتے اور کاروبار کرتے ہیں، نیز اس نے ان چیزوں کی طرف رہنمائی بھی فرمائی جن میں بندوں کے لئے منافع اور مصالح ہیں۔ وَإِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُونَ إِلَّا إِيَّاهُ ۖ اور سمندروں میں مصیبت پہنچتے ہی جنہیں تم پکارتے تھے سب گم ہو جاتے ہیں صرف وہی اللہ باقی رہ جاتا ہے فَلَمَّا نَجَّاكُمْ إِلَى الْبَرِّ أَعْرَضْتُمْ ۚ وَكَانَ الْإِنْسَانُ كَفُورًا (۶۷) پھر جب تمہیں خشکی کی طرف بچا لاتا ہے تو تم منہ پھیر لیتے ہو اور انسان بڑا ہی ناشکرا ہے ۔ یہ مضموں پہلے بھی کئی جگہ گزر چکا ہے۔ أَفَأَمِنْتُمْ أَنْ يَخْسِفَ بِكُمْ جَانِبَ الْبَرِّ أَوْ يُرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا ثُمَّ لَا تَجِدُوا لَكُمْ وَكِيلًا (۶۸) تو کیا تم اس سے بےخوف ہوگئے ہو کہ تمہیں خشکی کی طرف (لے جا کر زمین) میں دھنسا دے یا تم پر پتھروں کی آندھی بھیج دے (١) پھر تم اپنے لئے کسی نگہبان کو نہ پا سکو۔ یعنی سمندر سے نکلنے کے بعد تم جو اللہ کو بھول جاتے ہو تو کیا تمہیں معلوم نہیں کہ وہ خشکی میں بھی تمہاری گرفت کر سکتا ہے، تمہیں وہ زمین میں دھنسا سکتا ہے یا پتھروں کی بارش کر کے تمہیں ہلاک کر سکتا ہے، جس طرح بعض گزشتہ قوموں کو اس نے اس طرح ہلاک کیا۔ أَمْ أَمِنْتُمْ أَنْ يُعِيدَكُمْ فِيهِ تَارَةً أُخْرَى فَيُرْسِلَ عَلَيْكُمْ قَاصِفًا مِنَ الرِّيحِ فَيُغْرِقَكُمْ بِمَا كَفَرْتُمْ ۙ کیا تم اس بات سے بےخوف ہوگئے ہو کہ اللہ تعالیٰ پھر تمہیں دوبارہ دریا کے سفر میں لے آئے اور تم پر تیز و تند ہواؤں کے جھونکے بھیج دے اور تمہارے کفر کے باعث تمہیں ڈبو دے۔ قَاصِف ایسی تند تیز سمندری ہوا جو کشتیوں کو توڑ دے اور انہیں ڈبو دے ثُمَّ لَا تَجِدُوا لَكُمْ عَلَيْنَا بِهِ تَبِيعًا (۶۹) پھر تم اپنے لئے ہم پر اس کا (پیچھا) کرنے والا کسی کو نہ پاؤ گے ۔ تَبِيعًا انتقام لینے والا، پیچھا کرنے والا، یعنی تمہارے ڈوب جانے کے بعد ہم سے پوچھے کہ تو نے ہمارے بندوں کو کیوں ڈبویا؟ مطلب یہ ہے کہ ایک مرتبہ سمندر سے بخریت نکلنے کے بعد، کیا تمہیں دوبارہ سمندر میں جانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی؟ اور وہاں وہ تمہیں بھنور میں نہیں پھنسا سکتا؟ وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ یقیناً ہم نے اولاد آدم کو بڑی عزت دی (١) اور انہیں خشکی اور تری کی سواریاں دیں(٢) ۱۔ یہ شرف اور فعل، بحیثیت انسان کے، ہر انسان کو حاصل ہے چاہے مؤمن ہو یا کافر۔ کیونکہ یہ شرف دوسری مخلوقات، حیوانات، جمادات و نباتات وغیرہ کے مقابلے میں ہے۔ اور یہ شرف متعدد اعتبار سے ہے جس طرح کی شکل و صورت، قدو قامت اور ہیئت اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا کی ہے، وہ کسی دوسری مخلوق کو حاصل نہیں، جو عقل انسان کو دی گئی ہے، جس کے ذریعے سے اس نے اپنے آرام و راحت کے لئے بیشمار چیزیں ایجاد کیں۔ حیوانات وغیرہ اس سے محروم ہیں۔ علاوہ ازیں اسی عقل سے صحیح، مفید و مضر اور حسین قبیح کے درمیان تمیز کرنے پر قادر ہے۔ علاوہ ازیں کائنات کی تمام چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے انسان کی خدمت پر لگا رکھا ہے۔ چاند سورج، ہوا، پانی اور دیگر بیشمار چیزیں ہیں جن سے انسان فیض یاب ہو رہا ہے۔ ۲۔ خشکی میں گھوڑوں خچروں، گدھوں اونٹوں اور اپنی تیار کردہ سواریوں (ریلیں، گاڑیاں، بسیں، ہوائی جہاز، سائیکل اور موٹر سائیکل وغیرہ) پر سوار ہوتا ہے اور اسی طرح سمندر میں کشتیاں اور جہاز ہیں جن پر وہ سوار ہوتا ہے اور سامان لاتا لے جاتا ہے۔ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا (۷۰) اور انہیں پاکیزہ چیزوں کی روزیاں (١) دیں اور اپنی بہت سی مخلوق پر انہیں فضیلت عطا فرمائی ۔(٢) ۱۔ انسان کی خوراک کے لئے جو غلہ جات، میوے اور پھل ہیں سب اسی نے پیدا کئے اور ان میں جو جو لذتیں، ذائقے اور قوتیں رکھیں ہیں۔ انواع اقسام کے کھانے، یہ لذیذ و مرغوب پھل اور یہ قوت بخش اور مفرح مرکبات و مشروبات اور خمیرے اور معجونات، انسان کے علاوہ اور کس مخلوق کو حاصل ہیں؟ ۲۔ مذکورہ تفصیل سے انسان کی، بہت سی مخلوقات پر، فضیلت اور برتری واضح ہے۔ يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ ۖ جس دن ہم ہر جماعت کو اس کے پیشوا سمیت (١) بلائیں گے۔ إِمَام کے معنی پیشوا، لیڈر اور قائد کے ہیں، یہاں اس سے کیا مراد ہے؟ اس میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد پیغمبر ہے یعنی ہر امت کو اس کے پیغمبر کے حوالے سے پکارا جائے گا، بعض کہتے ہیں، اس سے آسمانی کتاب مراد ہے جو انبیاء کے ساتھ نازل ہوتی رہیں۔ یعنی اے اہل تورات! اے اہل انجیل! اور اے اہل قرآن! وغیرہ کہہ کر پکارا جائے گا بعض کہتے ہیں یہاں إِمَام سے مراد نامہ اعمال ہے یعنی ہر شخص کو جب بلایا جائے گا تو اس کا نامہ اعمال اس کے ساتھ ہوگا اور اس کے مطابق اس کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اسی رائے کو امام ابن کثیر اور امام شوکانی نے ترجیح دی ہے۔ فَمَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ فَأُولَئِكَ يَقْرَءُونَ كِتَابَهُمْ پھر جن کا بھی اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دے دیا گیا وہ تو شوق سے اپنا نامہ اعمال پڑھنے لگیں گے وَلَا يُظْلَمُونَ فَتِيلًا (۷۱) اور دھاگے کے برابر (ذرہ برابر) بھی ظلم نہ کئے جائیں گے ۔ فَتِيل اس جھلی یا تاگے کو کہتے ہیں جو کھجور کی گٹھلی میں ہوتا ہے یعنی ذرہ برابر ظلم نہیں ہوگا۔ وَمَنْ كَانَ فِي هَذِهِ أَعْمَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَى وَأَضَلُّ سَبِيلًا (۷۲) اور جو کوئی اس جہان میں اندھا رہا، وہ آخرت میں بھی اندھا اور راستے سے بہت ہی بھٹکا ہوا رہے گا ۔ أَعْمَى (اندھا) سے مراد دل کا اندھا ہے یعنی جو دنیا میں حق کے دیکھنے، سمجھنے اور اسے قبول کرنے سے محروم رہا، وہ آخرت میں اندھا، اور رب کے خصوصی فضل و کرم سے محروم رہے گا۔ وَإِنْ كَادُوا لَيَفْتِنُونَكَ عَنِ الَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ لِتَفْتَرِيَ عَلَيْنَا غَيْرَهُ ۖ وَإِذًا لَاتَّخَذُوكَ خَلِيلًا (۷۳) یہ لوگ آپ کو اس وحی سے جو ہم نے آپ پر اتاری ہے بہکانا چاہتے کہ آپ اس کے سوا کچھ اور ہی ہمارے نام سے گھڑ گھڑا لیں، تب تو آپ کو یہ لوگ اپنا ولی دوست بنا لیتے۔ وَلَوْلَا أَنْ ثَبَّتْنَاكَ لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئًا قَلِيلًا (۷۴) اگر ہم آپ کو ثابت قدم نہ رکھتے تو بہت ممکن تھا کہ ان کی طرف قدرے قلیل مائل ہو ہی جاتے ۔ اس میں اس عصمت کا بیان ہے جو اللہ کی طرف سے انبیاء علیہم السلام کو حاصل ہوتی ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ مشرکین اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی طرف مائل کرنا چاہتے تھے، لیکن اللہ نے آپ کو ان سے بچایا اور آپ ذرا بھی ان کی طرف نہیں جھکے۔ إِذًا لَأَذَقْنَاكَ ضِعْفَ الْحَيَاةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ عَلَيْنَا نَصِيرًا (۷۵) پھر تو ہم بھی آپ کو دوہرا عذاب دنیا کا کرتے اور دوہرا ہی موت کا (١) پھر آپ تو اپنے لئے ہمارے مقابلے میں کسے کو مددگار نہ پاتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ سزا قدرو منزلت کے مطابق ہوتی ہے وَإِنْ كَادُوا لَيَسْتَفِزُّونَكَ مِنَ الْأَرْضِ لِيُخْرِجُوكَ مِنْهَا ۖ وَإِذًا لَا يَلْبَثُونَ خِلَافَكَ إِلَّا قَلِيلًا (۷۶) یہ تو آپ کے قدم اس سرزمین سے اکھاڑنے ہی لگے تھے کہ آپ کو اس سے نکال دیں (١) پھر یہ بھی آپ کے بعد بہت ہی کم ٹھہرتے (٢) ۱۔ یہ سازش کی طرف اشارہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مکے سے نکالنے کے لئے قریش مکہ نے تیار کی تھی، جس سے اللہ نے آپ کو بچا لیا۔ ۲۔ یعنی اگر اپنے منصوبے کے مطابق یہ آپکو مکے سے نکال دیتے تو یہ بھی اسکے بعد زیادہ دیر نہ رہتے یعنی عذاب الٰہی کی گرفت میں آجاتے۔ سُنَّةَ مَنْ قَدْ أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنْ رُسُلِنَا ۖ ایسا ہی دستور ان کا تھا جو آپ سے پہلے رسول ہم نے بھیجے یعنی یہ دستور پرانا چلا آرہا ہے جو آپ سے پہلے رسولوں کے لئے بھی برتا جاتا رہا ہے کہ جب ان قوموں نے انہیں اپنے وطن سے نکال دیا یا انہیں نکلنے پر مجبور کر دیا تو پھر وہ قومیں بھی اللہ کے عذاب سے محفوظ نہ رہیں۔ وَلَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِيلًا (۷۷) اور آپ ہمارے دستور میں کبھی ردو بدل نہ پائیں گے ۔ چنانچہ اہل مکہ کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ رسول اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے ڈیڑھ سال بعد ہی میدان بدر میں وہ عبرت ناک ذلت و شکست سے دو چار ہوئے اور چھ سال بعد ٨ ہجری میں مکہ ہی فتح ہوگیا اور اس ذلت و ہزیمیت کے بعد وہ سر اٹھانے کے قابل نہ رہے۔ أَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَى غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ ۖ نماز کو قائم کریں آفتاب کے ڈھلنے سے لے کر رات کی تاریکی تک (١) اور فجر کا قرآن پڑھنا بھی دُلُوكِ کے معنی زوال کے اور غَسَق کے معنی تاریکی کے ہیں۔ آفتاب کے ڈھلنے کے بعد، ظہر اور عصر کی نماز اور رات کی تاریکی تک مراد مغرب اور عشاء کی نمازیں ہیں اور قرآن الفجر سے مراد فجر کی نماز ہے۔ قرآن، نماز کے معنی میں ہے۔ اس کو قرآن سے اس لئے تعبیر کیا گیا ہے کہ فجر میں قرأت لمبی ہوتی ہے۔ اس طرح اس آیت میں پانچوں فرض نمازوں کا اجمالی ذکر آجاتا ہے۔ جن کی تفیصلات احادیث میں ملتی ہیں اور جو امت کے لئے عملی تواتر سے بھی ثابت ہیں۔ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا (۷۸) یقیناً فجر کے وقت کا قرآن پڑھنا حاضر کیا گیا یعنی اس وقت فرشتے حاضر ہوتے ہیں بلکہ دن کے فرشتوں اور رات کے فرشتوں کا اجتماع ہوتا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے (صحیح بخاری، تفسیر بنی اسرائیل) ایک اور حدیث میں ہے : رات والے فرشتے جب اللہ کے پاس جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے حالانکہ وہ خود خوب جانتا ہے تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا؟ ' فرشتے کہتے ہیں ہم ان کے پاس گئے تھے، اس وقت بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ہم ان کے پاس سے آئے ہیں تو انہیں نماز پڑھتے ہوئے ہی چھوڑ کر آئے ہیں۔ البخاری ومسلم وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَكَ عَسَى رات کے کچھ حصے میں تہجد کی نماز میں قرآن کی تلاوت کریں (١) یہ زیادتی آپ کے لئے (٢) ہے ۱۔ بعض کہتے ہیں تہجد اضداد میں سے ہے جس کے معنی سونے کے بھی ہیں اور نیند سے بیدار ہونے کے بھی۔ اور یہاں یہی دوسرے معنی ہیں کہ رات کو سو کر اٹھیں اور نوافل پڑھیں۔ بعض کہتے ہیں کہ ہجود کے اصل معنی تو رات کو سونے کے ہی ہیں، لیکن باب تفعل میں جانے سے اس میں پرہیز کے معنی پیدا ہوگئے جیسے تأثم کے معنی ہیں اس نے گناہ سے اجتناب کیا، یا بچا، اس طرح تہجد کے معنی ہونگے، سونے سے بچنا جو رات کو سونے سے بچا اور قیام کیا۔ بہرحال تہجد کا مفہوم رات کے پچھلے پہر اٹھ کر نوافل پڑھنا۔ ساری رات قیام اللیل کرنا خلاف سنت ہے۔ نبی رات کے پہلے حصے میں سوتے اور پچھلے حصے میں اٹھ کر تہجد پڑھتے۔ یہی طریقہ سنت ہے۔ ۲۔ بعض نے اس کے معنی کئے ہیں یہ ایک زائد فرض ہے جو آپ کے لئے خاص ہے، اس طرح وہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر تہجد بھی اسی طرح فرض تھی، جس طرح پانچ نمازیں فرض تھیں۔ البتہ امت کے لئے تہجد کی نماز فرض نہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ تہجد آپ پر فرض تھی نہ آپ کی امت پر۔ یہ ایک زائد عبادت ہے جس کی فضیلت یقیناً بہت ہے اور اس وقت اللہ اپنی عبادت سے بڑا خوش ہوتا ہے۔ تاہم یہ نماز فرض و واجب نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر تھی اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر ہی فرض ہے۔ أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا (۷۹) عنقریب آپ کا رب آپ کو مقام محمود میں کھڑا کرے گا ۔ یہ وہ مقام ہے جو قیامت والے دن اللہ تعالیٰ نبی کو عطا فرمائے گا اور اس مقام پر ہی آپ وہ شفاعت عظمٰی فرمائیں گے، جس کے بعد لوگوں کا حساب کتاب ہوگا۔ وَقُلْ رَبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَلْ لِي مِنْ لَدُنْكَ سُلْطَانًا نَصِيرًا (۸۰) اور دعا کیا کریں کہ اے میرے پروردگار مجھے جہاں لے جا اچھی طرح لے جا اور جہاں سے نکال اچھی طرح نکال اور میرے لئے اپنے پاس سے غلبہ اور امداد مقرر فرما دے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ ہجرت کے موقع پر نازل ہوئی جب آپ کو مدینے میں داخل ہونے اور مکہ سے نکلنے کا مسئلہ درپیش تھا، بعض کہتے ہیں اس کے معنی ہیں مجھے سچائی کے ساتھ موت دینا اور سچائی کے ساتھ قیامت والے دن اٹھانا۔ بعض کہتے ہیں کہ مجھے قبر میں سچا داخل کرنا اور قیامت کے دن جب قبر سے اٹھائے تو سچائی کے ساتھ قبر سے نکالنا وغیرہ۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ چونکہ یہ دعا ہے اس لئے اس کے عموم میں سب باتیں آجاتی ہیں۔ وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا (۸۱) اور اعلان کر دے کہ حق آچکا اور ناحق نابود ہوگیا۔ یقیناً باطل تھا بھی نابود ہونے والا ۔ حدیث میں آتا ہے کہ فتح مکہ کے بعد جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ میں داخل ہوئے تو وہاں تین سو ساٹھ بت تھے، آپ کے ہاتھ میں چھڑی تھی، آپ چھڑی کی نوک سے ان بتوں کو مارتے جاتے اور جَاَءَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ اور جَآءَ الْحقُّ وَ مَا یُبْدِیءْ الْبَاطِلُ وَمَا یُعِیْدُ پڑھتے جاتے۔ (صحیح بخاری) وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ ۙ یہ قرآن جو ہم نازل کر رہے ہیں مؤمنوں کے لئے تو سراسر شفا اور رحمت ہے۔ وَلَا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلَّا خَسَارًا (۸۲) ہاں ظالموں کو بجز نقصان کے اور کوئی زیادتی نہیں ہوتی ۔ اس مفہوم کی آیت سورہ یونس۔٥٧ میں گزر چکی ہے، اس کا حاشیہ ملاحظہ فرما لیا جائے۔ وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَى الْإِنْسَانِ أَعْرَضَ وَنَأَى بِجَانِبِهِ ۖ وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ كَانَ يَئُوسًا (۸۳) اور انسان پر جب ہم اپنا انعام کرتے ہیں تو وہ منہ موڑ لیتا ہے اور کروٹ بدل لیتا ہے اور جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ مایوس ہو جاتا ہے اس میں انسان کی حالت و کیفیت کا ذکر ہے جس میں وہ عام طور پر خوش حالی کے وقت اور تکلیف کے وقت مبتلا ہوتا ہے، خوشحالی میں وہ اللہ کو بھول جاتا ہے اور تکلیف میں مایوس ہو جاتا ہے، لیکن اہل ایمان کا معاملہ دونوں حالتوں میں اس سے مختلف ہوتا ہے۔ قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَى شَاكِلَتِهِ فَرَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ أَهْدَى سَبِيلًا (۸۴) کہہ دیجئے! کہ ہر شخص اپنے طریقہ پر عامل ہے جو پوری ہدایت کے راستے پر ہیں انہیں تمہارا رب ہی بخوبی جاننے والا ہے اس میں مشرکین کے لئے تہدید و وعید ہے اور اس کا وہی مفہوم ہے جو سورہ ہود کی آیت ١٢١۔۱٢۲ کا ہے۔ وَقُلْ لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ اعْمَلُوا عَلَى مَكَانَتِكُمْ إِنَّا عَامِلُونَ ۔وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ شَاكِلَتِهِ کے معنی نیت دین طریقے اور مزاج و طبیعت کے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ اس میں کافر کے لیے ذم اور مؤمن کے لیے مدح کا پہلو ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان ایسا عمل کرتا ہے جو اس کے اخلاق و کردار پر مبنی ہوتا ہے جو اس کی عادت و طبیعت ہوتی ہے۔ وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ ۖ اور یہ لوگ آپ سے روح کی بابت سوال کرتے ہیں، قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا (۸۵) آپ جواب دیجئے کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمہیں بہت ہی کم علم دیا گیا ہے روح وہ لطیف شے ہے جو کسی کو نظر نہیں آتی لیکن ہر جاندار کی قوت و توانائی اسی روح کے اندر مضمر ہے اس کی حقیقت و ماہیت کیا ہے؟ کوئی نہیں جانتا۔ یہودیوں نے بھی ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی بابت پوچھا تو یہ آیت اتری (صحیح بخاری) اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ تمہارا علم، اللہ کے علم کے مقابلے میں قلیل ہے، اور یہ روح، جس کے بارے میں تم سے پوچھ رہے ہو، اس کا علم تو اللہ نے انبیاء سمیت کسی کو بھی نہیں دیا ہے اتنا سمجھو کہ یہ میرے رب کا امر (حکم) ہے۔ یا میرے رب کی شان میں سے ہے، جس کی حقیقت کو صرف وہی جانتا ہے۔ وَلَئِنْ شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ بِهِ عَلَيْنَا وَكِيلًا (۸۶) اور اگر ہم چاہیں تو جو وحی آپ کی طرف ہم نے اتاری ہے سلب کرلیں (١) پھر آپکو اسکے لئے ہمارے مقابلے میں کوئی حمایتی میسر نہ آسکے (٢) ۱۔ یعنی وحی کے ذریعے سے جو تھوڑا بہت علم دیا گیا ہے اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اسے بھی سلب کرلے یعنی دل سے محو کر دے یا کتاب سے ہی مٹا دے۔ ۲۔ جو دوبارہ اس وحی کو آپ کی طرف لوٹا دے۔ إِلَّا رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ ۚ إِنَّ فَضْلَهُ كَانَ عَلَيْكَ كَبِيرًا (۸۷) سوائے آپ کے رب کی رحمت کے (١) یقیناً آپ پر اس کا بڑا فضل ہے۔ کہ اس نے نازل کردہ وحی کو سلب نہیں کیا یا وحی سے آپ کو مشرف فرمایا۔ قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا (۸۸) کہہ دیجئے کہ اگر تمام انسان اور کل جنات مل کر اس قرآن کے مثل لانا چاہیں تو ان سب سے اس کے مثل لانا ناممکن ہے گو وہ (آپس میں) ایک دوسرے کے مددگار بھی بن جائیں ۔ قرآن مجید سے متعلق یہ چیلنج اس سے قبل بھی کئی جگہ گزر چکا ہے۔ یہ چیلنج آج تک تشنہ جواب ہے وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِي هَذَا الْقُرْآنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ فَأَبَى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُورًا (۸۹) ہم نے تو اس قرآن میں لوگوں کے سمجھنے کے لئے ہر طرح سے مثالیں بیان کر دی ہیں، مگر اکثر لوگ انکار سے باز نہیں آتے ۔ یہ آیت اسی سورت کے شروع میں بھی گزر چکی ہے۔ وَقَالُوا لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْأَرْضِ يَنْبُوعًا (۹۰) انہوں نے کہا (١) کہ ہم آپ پر ہرگز ایمان لانے کے نہیں تا وقتیکہ آپ ہمارے لئے زمین سے کوئی چشمہ جاری نہ کر دیں۔ ایمان لانے کے لئے قریش مکہ نے یہ مطالبات پیش کئے۔ أَوْ تَكُونَ لَكَ جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْأَنْهَارَ خِلَالَهَا تَفْجِيرًا (۹۱) یا خود آپ کے لئے ہی کوئی باغ ہو کھجوروں اور انگوروں کا اور اس درمیان آپ بہت سی نہریں جاری کر دکھائیں أَوْ تُسْقِطَ السَّمَاءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفًا أَوْ تَأْتِيَ بِاللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ قَبِيلًا (۹۲) یا آپ آسمان کو ہم پر ٹکڑے ٹکڑے کرکے گرا دیں جیسا کہ آپ کا گمان ہے یا آپ خود اللہ تعالیٰ کو اور فرشتوں کو ہمارے سامنے لا کھڑا کر دیں ۔ یعنی ہمارے روبرو آکر کھڑے ہو جائیں اور ہم انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھیں أَوْ يَكُونَ لَكَ بَيْتٌ مِنْ زُخْرُفٍ أَوْ تَرْقَى فِي السَّمَاءِ وَلَنْ نُؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتَّى تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتَابًا نَقْرَؤُهُ ۗ یا آپ کے اپنے لئے کوئی سونے (١) کا گھر ہو جائے یا آپ آسمان پر چڑھ جائیں اور ہم آپ کے چڑھ جانے کا بھی اس وقت ہرگز یقین نہیں کریں گے جب تک کہ آپ ہم پر کوئی کتاب نہ اتار لائیں جسے ہم خود پڑھ لیں، (٢) ۱۔ زُخْرُف کے اصل معنی زینت کے ہیں مَزِخَرَفُ، مزین چیز کو کہتے ہیں۔ لیکن یہاں اسکے معنی سونے کے ہیں۔ ۲۔ یعنی ہم میں سے ہر شخص اسے صاف صاف خود پڑھ سکتا ہو۔ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَسُولًا (۹۳) آپ جواب دیں کہ میرا پروردگار پاک ہے میں تو صرف ایک انسان ہی ہوں جو رسول بنایا گیا ہوں مطلب یہ ہے کہ میرے رب کے اندر تو ہر طرح کی طاقت ہے، وہ چاہے تو تمہارے مطالبے آن واحد میں لفظ ' کُنْ ' سے پورے فرما دے۔ لیکن جہاں تک میرا تعلق ہے میں تو (تمہاری طرح) ایک بشر ہوں۔ کیا کوئی بشر ان چیزوں پر قادر ہے؟ جو مجھ سے مطالبہ کرتے ہو۔ ہاں، اس کے ساتھ میں اللہ کا رسول بھی ہوں۔ لیکن رسول کا کام صرف اللہ کا پیغام پہنچانا ہے، اور وہ میں نے پہنچا دیا اور پہنچا رہا ہوں۔ لوگوں کے مطالبات پر معجزات ظاہر کر کے دکھانا یہ رسالت کا حصہ نہیں ہے۔ البتہ اگر اللہ چاہے تو صدق رسالت کے لئے ایک آدھا معجزہ دکھا دیا جاتا ہے لیکن لوگوں کی خواہشات پر اگر معجزے دکھانے شروع کر دیئے جائیں تو یہ سلسلہ کہیں بھی جا کر نہیں رک سکے گا ہر آدمی اپنی خواہش کے مطابق نیا معجزہ دیکھنے کا آرزو مند ہوگا اور رسول پھر اسی کام پر لگا رہے گا تبلیغ ودعوت کا اصل کام ٹھپ ہو جائے گا اس لیے معجزات کا صدور صرف اللہ کی مشیت سے ہی ممکن ہے اور میں بھی اس کی مشیت میں دخل اندازی کا مجاز نہیں۔ وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَنْ يُؤْمِنُوا إِذْ جَاءَهُمُ الْهُدَى إِلَّا أَنْ قَالُوا أَبَعَثَ اللَّهُ بَشَرًا رَسُولًا (۹۴) لوگوں کے پاس ہدایت پہنچ چکنے کے بعد ایمان سے روکنے والی صرف یہی چیز رہی کہ انہوں نے کہا کیا اللہ نے ایک انسان کو ہی رسول بنا کر بھیجا؟ یعنی کسی انسان کا رسول ہونا، کفار و مشرکین کے لئے سخت تعجب کی بات تھی، وہ یہ بات مانتے ہی نہ تھے کہ ہمارے جیسا انسان، جو ہماری طرح چلتا پھرتا ہے، ہماری طرح کھاتا پیتا ہے، ہماری طرح انسانی رشتوں میں منسلک ہے، وہ رسول بن جائے۔ یہی تعجب ان کے ایمان میں مانع رہا۔ قُلْ لَوْ كَانَ فِي الْأَرْضِ مَلَائِكَةٌ يَمْشُونَ مُطْمَئِنِّينَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِمْ مِنَ السَّمَاءِ مَلَكًا رَسُولًا (۹۵) آپ کہہ دیں کہ اگر زمین میں فرشتے چلتے پھرتے اور رہتے بستے ہوتے تو ہم بھی ان کے پاس کسی آسمانی فرشتے ہی کو رسول بنا کر بھیجتے اللہ تعالیٰ نے فرمایا جب زمین میں انسان بستے ہیں تو ان کی ہدایت کے لئے رسول بھی انسان ہی ہوں گے۔ غیر انسان رسول، انسانوں کی ہدایت کا فریضہ انجام دے ہی نہیں سکتا۔ ہاں اگر زمین میں فرشتے بستے ہوتے تو ان کے لئے رسول بھی یقینا ًفرشتے ہی ہوتے۔ قُلْ كَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۚ کہہ دیجئے کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ تعالیٰ کا گواہ ہونا کافی ہے یعنی میرے ذمے جو تبلیغ و دعوت تھی، وہ میں نے پہنچا دی، اس بارے میرے اور تمہارے درمیان اللہ کا گواہ ہونا کافی ہے، کیونکہ ہرچیز کا فیصلہ اسی کو کرنا ہے۔ إِنَّهُ كَانَ بِعِبَادِهِ خَبِيرًا بَصِيرًا (۹۶) وہ اپنے بندوں سے خوب آگاہ اور بخوبی دیکھنے والا ہے وَمَنْ يَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ ۖ وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَهُمْ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِهِ ۖ اللہ جس کی رہنمائی کرے وہ تو ہدایت یافتہ ہے اور جسے وہ راہ سے بھٹکا دے ناممکن ہے کہ تو اس کا مددگار اس کے سوا کسی اور کو پائے، میری تبلیغ و دعوت سے کون ایمان لاتا ہے، کون نہیں، یہ بھی اللہ کے اختیار میں ہے، میرا کام صرف تبلیغ ہی ہے۔ وَنَحْشُرُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى وُجُوهِهِمْ عُمْيًا وَبُكْمًا وَصُمًّا ۖ ایسے لوگوں کا ہم بروز قیامت اوندھے منہ حشر کریں گے (۱) دراں حالیکہ وہ اندھے گونگے اور بہرے ہونگے (۲) ۱۔ حدیث میں آتا ہے کہ صحابہ کرام نے تعجب کا اظہار کیا کہ اوندھے منہ کس طرح حشر ہوگا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس اللہ نے ان کو پیروں سے چلنے کی قوت عطا کی ہے، وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ انہیں منہ کے بل چلا دے۔ ۲۔ یعنی جس طرح وہ دنیا میں حق کے معاملے میں اندھے، بہرے اور گونگے بنے رہے، قیامت والے دن بطور جزا اندھے، بہرے اور گونگے ہوں گے۔ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنَاهُمْ سَعِيرًا (۹۷) ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا جب کبھی وہ بجھنے لگے گی ہم ان پر اسے اور بھڑکا دیں گے۔ ذَلِكَ جَزَاؤُهُمْ بِأَنَّهُمْ كَفَرُوا بِآيَاتِنَا وَقَالُوا أَإِذَا كُنَّا عِظَامًا وَرُفَاتًا أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ خَلْقًا جَدِيدًا (۹۸) یہ سب ہماری آیتوں سے کفر کرنے اور اس کے کہنے کا بدلہ ہے کہ کیا جب ہم ہڈیاں اور ریزے ریزے ہوجائیں گے پھر ہم نئی پیدائش میں اٹھ کھڑے کئے جائیں گے؟ یعنی جہنم کی یہ سزا ان کو اس لئے دی جائیگی کہ انہوں نے ہماری نازل کردہ آیات کی تصدیق نہیں کی اور کائنات میں پھیلی ہوئی تکوینی آیات پر غور و فکر نہیں کیا، جس کی وجہ سے انہوں نے و قوع قیامت اور بعث بعد الموت کو محال خیال کیا اور کہا کہ ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہو جانے کے بعد ہمیں نئی پیدائش کس طرح مل سکتی ہے؟ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّهَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ قَادِرٌ عَلَى أَنْ يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ کیا انہوں نے اس بات پر نظر نہیں کی کہ جس اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا وہ ان جیسوں کی پیدائش پر پورا قادر ہے اللہ نے ان کے جواب میں فرمایا کہ جو اللہ آسمانوں اور زمین کا خالق ہے، وہ ان جیسوں کی پیدائش یا دوبارہ انہیں زندگی دینے پر بھی قادر ہے، کیونکہ یہ تو آسمان و زمین کی تخلیق سے زیادہ آسان ہے۔ لَخَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ۔ (۴۰:۵۷) آسمان اور زمین کی پیدائش انسانوں کی تخلیق سے زیادہ بڑا اور مشکل کام ہے۔ اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاحقاف آیت ۳۳ میں اور سورہ یٰسین آیات ۸۱،۸۲ میں بھی بیان فرمایا ہے۔ وَجَعَلَ لَهُمْ أَجَلًا لَا رَيْبَ فِيهِ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُورًا (۹۹) اسی نے ان کے لئے ایک ایسا وقت مقرر کر رکھا ہے جو شک و شبہ سے یکسر خالی ہے، (۱) لیکن ظالم لوگ انکار کئے بغیر رہتے ہی نہیں۔ اس أَجَل (وقت مقرر) سے مراد موت یا قیامت ہے۔ یہاں سیاق کلام کے اعتبار سے قیامت مراد لینا زیادہ صحیح ہے یعنی ہم نے انہیں دوبارہ زندہ کر کے قبروں سے اٹھانے کے لئے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے۔ وَمَا نُؤَخِّرُهُ إِلَّا لِأَجَلٍ مَعْدُودٍ (۱۱:۱۰۴) ہم ان کے معاملے کو ایک وقت مقرر تک کے لیے ہی مؤخر کر رہے ہیں۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ خَزَائِنَ رَحْمَةِ رَبِّي إِذًا لَأَمْسَكْتُمْ خَشْيَةَ الْإِنْفَاقِ ۚ کہہ دیجئے کہ اگر بالفرض تم میرے رب کی رحمتوں کے خزانوں کے مالک بن جاتے تو تم اس وقت بھی اس کے خرچ ہو جانے (١) کے خوف سے اس کو روکے رکھتے خَشْيَةَ الْإِنْفَاقِ کا مطلب ہے۔ اس خوف سے کہ خرچ کر کے ختم کر ڈالیں گے، اس کے بعد فقیر ہو جائیں گے۔ حالانکہ یہ خزانہ الٰہی جو ختم ہونے والا نہیں لیکن چونکہ انسان تنگ دل واقع ہوا ہے، اس لئے بخل سے کام لیتا ہے۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِنَ الْمُلْكِ فَإِذًا لَا يُؤْتُونَ النَّاسَ نَقِيرًا۔ (۴:۵۳) یعنی ان کو اگر اللہ کی بادشاہی میں سے کچھ حصہ مل جائے تو یہ لوگوں کو کچھ نہ دیں۔ نَقِير کھجور کی گٹھلی میں جو گڑھا ہوتا ہے اس کو کہتے ہیں یعنی تل برابر بھی کسی کو نہ دیں یہ تو اللہ کی مہربانی اور اس کا فضل وکرم ہے کہ اس نے اپنے خزانوں کے منہ لوگوں کے لیے کھولے ہوئے ہیں جس طرح حدیث میں ہے: اللہ کے ہاتھ بھرے ہوئے ہیں وہ رات دن خرچ کرتا ہے لیکن اس میں کوئی کمی نہیں آتی ذرا دیکھو تو سہی جب سے آسمان و زمین اس نے پیدا کیے ہیں کس قدر خرچ کیا ہوگا لیکن اس کے ہاتھ میں جو کچھ ہے اس میں کمی نہیں وہ بھرے کے بھرے ہیں۔ البخاری، مسلم وَكَانَ الْإِنْسَانُ قَتُورًا (۱۰۰) اور انسان ہے ہی تنگ دل ہے۔ وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ ۖ ہم نے موسیٰ کو نو معجزے (۱) بالکل صاف صاف عطا فرمائے وہ نو معجزے ہیں۔ - ہاتھ، - لاٹھی، - قحط سالی، - نقص ثمرات، - طوفان، - جراد (ٹڈی دل) - قمل (کھٹمل، جوئیں) - ضفاد (مینڈک) اور - خون، امام حسن بصری کہتے ہیں، کہ قحط سالی اور نقص ثمرات ایک ہی چیز ہے اور - نواں معجزہ لاٹھی کا جادو گروں کی شعبدہ بازی کو نگل جانا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ان کے علاوہ بھی معجزات دیئے گئے تھے مثلًا - لاٹھی کا پتھر پر مارنا، جس سے بارہ چشمے ظاہر ہوگئے تھے، - بادلوں کا سایہ کرنا، - من و سلویٰ وغیرہ۔ لیکن یہاں آیات تسعہ سے صرف وہی نو معجزات مراد ہیں، جن کا مشاہدہ فرعون اور اس کی قوم نے کیا۔ اسی لیے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے انفلاق بحر (سمندر کا پھٹ کر راستہ بن جانے) کو بھی ان نو معجزات میں شمار کیا ہے اور قحط سالی اور نقص ثمرات کو ایک معجزہ شمار کیا ہے ترمذی کی ایک روایت میں آیات تسعہ کی تفصیل اس سے مختلف بیان کی گئی ہے لیکن سنداً وہ روایت ضعیف ہے اس لیے آیات تسعہ سے مراد یہی مذکورہ معجزات ہیں۔ فَاسْأَلْ بَنِي إِسْرَائِيلَ إِذْ جَاءَهُمْ فَقَالَ لَهُ فِرْعَوْنُ إِنِّي لَأَظُنُّكَ يَا مُوسَى مَسْحُورًا (۱۰۱) تو خود ہی بنی اسرائیل سے پوچھ لے کہ جب وہ ان کے پاس پہنچے تو فرعون بولا کہ اے موسیٰ! میرے خیال میں تو تجھ پر جادو کر دیا گیا ہے۔ قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا أَنْزَلَ هَؤُلَاءِ إِلَّا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ بَصَائِرَ وَإِنِّي لَأَظُنُّكَ يَا فِرْعَوْنُ مَثْبُورًا (۱۰۲) موسیٰ نے جواب دیا کہ یہ تو تجھے علم ہو چکا ہے کہ آسمان و زمین کے پروردگار ہی نے یہ معجزے دکھانے، سمجھانے کو نازل فرمائے ہیں، اے فرعون! میں تو سمجھ رہا ہوں کہ تو یقیناً تباہ اور ہلاک کیا گیا ہے۔ فَأَرَادَ أَنْ يَسْتَفِزَّهُمْ مِنَ الْأَرْضِ فَأَغْرَقْنَاهُ وَمَنْ مَعَهُ جَمِيعًا (۱۰۳) آخر فرعون نے پختہ ارادہ کر لیا کہ انہیں زمین سے ہی اکھیڑ دے تو ہم نے خود اسے اور اس کے تمام ساتھیوں کو غرق کر دیا۔ وَقُلْنَا مِنْ بَعْدِهِ لِبَنِي إِسْرَائِيلَ اسْكُنُوا الْأَرْضَ اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے فرما دیا کہ اس سرزمین (١) پر رہو سہو۔ بظاہر اس سرزمین جس سے فرعون نے موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو نکالنے کا ارادہ کیا تھا۔ مگر تاریخ بنی اسرائیل کی شہادت یہ ہے کہ مصر سے نکلنے کے بعد دوبارہ مصر نہیں گئے، بلکہ چالیس سال میدان تیہ میں گزار کر فلسطین میں داخل ہوئے۔ اس کی شہادت سورہ اعراف میں قرآن کے بیان سے ملتی ہے۔ اس لئے صحیح یہی ہے کہ اس سے مراد فلسطین کی سرزمین ہے۔ فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيفًا (۱۰۴) ہاں جب آخرت کا وقت آئے گا ہم سب کو سمیٹ لپیٹ کر لے آئیں گے وَبِالْحَقِّ أَنْزَلْنَاهُ وَبِالْحَقِّ نَزَلَ ۗ اور ہم نے اس قرآن کو حق کے ساتھ اتارا اور یہ بھی حق کے ساتھ اترا یعنی با حفاظت آپ تک پہنچ گیا، اس میں راستے میں کوئی کمی بیشی اور کوئی تبدیلی اور آمیزش نہیں کی گئی اس لئے کہ اس کو لانے والا فرشتہ۔ شدید القوی، الامین، المکین اور المطاع فی الملاء الاعلیٰ ہے۔ یہ وہ صفات ہیں جو حضرت جبرائیل علیہ السلام کے متعلق قرآن میں بیان کی گئی ہیں۔ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا مُبَشِّرًا وَنَذِيرًا (۱۰۵) ہم نے آپ کو صرف خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا (۱) بنا کر بھیجا ہے۔ بَشِیْر اطاعت گزار مؤمن کے لئے اور نَذِیْر نافرمان کے لئے۔ وَقُرْآنًا فَرَقْنَاهُ لِتَقْرَأَهُ عَلَى النَّاسِ عَلَى مُكْثٍ وَنَزَّلْنَاهُ تَنْزِيلًا (۱۰۶) قرآن کو ہم نے تھوڑا تھوڑا کر کے اس لئے اتارا (١) ہے کہ آپ اسے بہ مہلت لوگوں کو سنائیں اور ہم نے خود بھی اسے بتدریج نازل فرمایا۔ فَرَقْنَاهُ کے ایک دوسرے معنی بَیَّنَّاہ وَ اَوْضَحْنَاہ (ہم نے اسے کھول کر وضاحت سے بیان کر دیا) بھی کئے گئے ہیں قُلْ آمِنُوا بِهِ أَوْ لَا تُؤْمِنُوا ۚ کہہ دیجئے! تم اس پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ، إِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهِ إِذَا يُتْلَى عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا (۱۰۷) جنہیں اس سے پہلے علم دیا گیا ہے ان کے پاس تو جب بھی اس کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیں ۔ یعنی وہ علماء جنہوں نے نزول قرآن سے قبل کتب سابقہ پڑھی ہیں اور وہ وحی کی حقیقت اور رسالت کی علامات سے واقف ہیں، وہ سجدہ ریز ہوتے ہیں، اس بات پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہ انہیں آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پہچان کی توفیق دی اور قرآن و رسالت پر ایمان لانے کی سعادت نصیب فرمائی۔ وَيَقُولُونَ سُبْحَانَ رَبِّنَا إِنْ كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُولًا (۱۰۸) اور کہتے ہیں کہ ہمارا رب پاک ہے، ہمارے رب کا وعدہ بلا شک و شبہ پورا ہو کر رہنے والا ہی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ کفار مکہ جو ہرچیز سے ناواقف ہیں اگر یہ ایمان نہیں لاتے تو آپ پروانہ کریں اس لیے کہ جو اہل علم ہیں اور وحی ورسالت کی حقیقت سے آشنا ہیں وہ اس پر ایمان لے آئے ہیں بلکہ قرآن سن کر وہ بارگاہ الہی میں سجدہ ریز ہوگئے ہیں اور اس کی پاکیزگی بیان کرتے اور رب کے وعدوں پر یقین رکھتے ہیں۔ وَيَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ يَبْكُونَ وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعًا (۱۰۹)۩ وہ اپنی ٹھوڑیوں کے بل روتے ہوئے سجدہ میں گر پڑتے ہیں اور یہ قرآن ان کی عاجزی اور خشوع اور خضوع بڑھا دیتا ہے ۔ ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر پڑنے کا دوبارہ ذکر کیا، کیونکہ پہلا سجدہ اللہ کی تعظیم کے لئے اور بطور شکر تھا اور قرآن سن کر جو خشیت و رقت ان پر طاری ہوئی اور اس کی تاثیر و اعجاز سے جس درجہ وہ متأثر ہوئے، اس نے دوبارہ انہیں سجدہ ریز کر دیا۔ قُلِ ادْعُوا اللَّهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَنَ ۖ أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى ۚ کہہ دیجئے کہ اللہ کو اللہ کہہ کر پکارو یا رحمٰن کہہ کر، جس نام سے بھی پکارو تمام اچھے نام اسی کے ہیں جس طرح کہ پہلے گزر چکا ہے کہ مشرکین مکہ کے لئے اللہ کا صفتی نام ' رحمٰن ' یا ' رحیم ' نامانوس تھا اور بعض آثار میں آتا ہے کہ بعض مشرکین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یا رحمٰن و رحیم کے الفاظ سنے تو کہا کہ ہمیں تو یہ کہتا ہے کہ صرف ایک اللہ کو پکارو اور خود دو معبودوں کو پکار رہا ہے۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر) وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلًا (۱۱۰) نہ تو تو اپنی نماز بہت بلند آواز سے پڑھ اور نہ بالکل پوشیدہ بلکہ اس کے درمیان کا راستہ تلاش کر لے ۔ اس کی شان نزول میں حضرت ابن عباس بیان فرماتے ہیں: مکے میں رسول اللہﷺ چھپ کر رہتے تھے، جب اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھاتے تو آواز قدرے بلند فرما لیتے، مشرکین قرآن سن کر قرآن کو اور اللہ کو گالی گلوچ کرتے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اپنی آواز کو اتنا اونچا نہ کرو کہ مشرکین سن کر قرآن کو برا بھلا کہیں اور نہ آواز اتنی پست کرو کہ صحابؓہ بھی نہ سن سکیں، خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا واقعہ ہے: ایک رات نبیﷺ کا گزر حضرت ابوبکر صدیق ؓکی طرف سے ہوا تو وہ پست آواز سے نماز پڑھ رہے ہیں، پھر حضرت عمرؓ کو بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا تو وہ اونچی آواز سے نماز پڑھ رہے تھے۔ آپ ﷺنے دونوں سے پوچھا تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا، میں جس سے مصروف مناجات تھا، وہ میری آواز سن رہا تھا، حضرت عمر نے جواب دیا کہ میرا مقصد سوتوں کو جگانا اور شیطان کو بھگانا تھا۔ آپﷺ نے صدیق اکبر ؓسے فرمایا، اپنی آواز قدرے بلند کرو اور حضرت عمر ؓسے کہا، اپنی آواز کچھ پست رکھو۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ یہ آیت دعا کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ (بخاری و مسلم، بحوالہ فتح القدیر) وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ وَلِيٌّ مِنَ الذُّلِّ ۖ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيرًا (۱۱۱) اور یہ کہہ دیجئے کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو نہ اولاد رکھتا ہے نہ اپنی بادشاہت میں کسی کو شریک ساجھی رکھتا ہے اور نہ وہ کمزور ہے کہ اسے کسی کی ضرورت ہو اور تو اس کی پوری پوری بڑائی بیان کرتا رہ۔ *********** |
© Copy Rights:Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,Lahore, PakistanEnail: cmaj37@gmail.com |
Visits wef Sep 2024 |