Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al An'am

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

Noting by Maulana Salahuddin Yusuf

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمَاتِ وَالنُّورَ ۖ

تمام تعریفیں اللہ ہی کے لائق ہیں جس نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا اور تاریکیوں اور نور کو بنایا

 الظُّلُمَاتِ سے رات کی تاریکی اور النُّورَ سے دن کی روشنی یا کفر کی تاریکی اور ایمان کی روشنی مراد ہے۔

 نور کے مقابلے میں ظلمات کو جمع ذکر کیا گیا ہے، اس لئے کہ ظلمات کے اسباب بھی بہت سے ہیں اور اس کی قسمیں بھی متعدد ہیں اور نور کا ذکر بطور جنس ہے جو اپنی قسموں میں شامل ہے۔ (فتح القدیر)

یہ بھی ہو سکتا ہے کہ چونکہ ہدایت اور ایمان کا راستہ ایک ہی ہے چار یا پانچ یا متعدد نہیں ہیں اس لئے نور کو واحد ذکر کیا گیا ہے۔

ثُمَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ (۱)

پھر بھی کافر لوگ (غیر اللہ کو) اپنے رب کے برابر قرار دیتے ہیں۔‏

یعنی اس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں۔

هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ طِينٍ ثُمَّ قَضَى أَجَلًا ۖ

وہ ایسا ہے جس نے تم کو مٹی سے بنایا (١) پھر ایک وقت معین کیا (٢)

۱۔ یعنی تمہارے باپ آدم علیہ السلام کو، جو تمہاری اصل ہیں اور جن سے تم سب نکلے ہو۔

اس کا ایک دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے تم جو خوراک اور غذائیں کھاتے ہو، سب زمین سے پیدا ہوتی ہیں اور انہیں غذاؤں سے نطفہ بنتا ہے جو رحم مادر میں جا کر تخلیق انسانی کا باعث بنتا ہے۔ اس لحاظ سے گویا تمہاری پیدائش مٹی سے ہوئی۔

۲۔  یعنی موت کا وقت۔

وَأَجَلٌ مُسَمًّى عِنْدَهُ ۖ ثُمَّ أَنْتُمْ تَمْتَرُونَ (۲)

اور دوسرا معین وقت خاص اللہ ہی کے نزدیک ہے (۱) پھر بھی تم شک رکھتے ہو۔‏(۲)

۱۔ یعنی آخرت کا وقت، اس کا علم صرف اللہ ہی کو ہے۔ گویا پہلی اجل سے مراد پیدائش سے لے کر موت تک انسان کی عمر ہے اور دوسری  أَجَلٌ مُسَمًّى ہے۔ مراد انسان کی موت سے لے کر وقوع قیامت تک دنیا کی کل عمر ہے، جس کے بعد وہ زوال و فنا سے دوچار ہو جائے گی اور ایک دوسری دنیا یعنی آخرت کی زندگی کا آغاز ہو جائے گا۔

۲۔  یعنی قیامت کے وقوع میں جیسا کہ کفار و مشرکین کہا کرتے تھے کہ جب ہم مر کر مٹی میں مل جائیں گے تو کس طرح سے دوبارہ زندہ کیا جاسکے گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جس نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا دوبارہ بھی وہی اللہ تمہیں زندہ کرے گا۔( سورہ یٰسین)

وَهُوَ اللَّهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَفِي الْأَرْضِ ۖ يَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَجَهْرَكُمْ وَيَعْلَمُ مَا تَكْسِبُونَ (۳)

اور وہی ہے معبود برحق آسمانوں میں بھی اور زمین میں بھی، وہ تمہارے پوشیدہ احوال کو بھی اور تمہارے ظاہر احوال کو بھی جانتا ہے اور تم جو کچھ عمل کرتے ہو اس کو بھی جانتا ہے ۔

اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خود تو عرش پر ہے، جس طرح اس کی شان کے لائق ہے۔ لیکن اپنے علم کے لحاظ سے ہر جگہ ہے۔ یعنی اس کے علم و خبر سے کوئی چیز باہر نہیں۔

 البتہ بعض گمراہ فرقے اللہ تعالیٰ کو عرش پر نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے اور اس آیت سے اپنے اس عقیدے کا اثبات کرتے ہیں۔ لیکن یہ عقیدہ جس طرح غلط ہے یہ دلیل بھی صحیح نہیں۔

 آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ ذات جس کو آسمانوں میں اور زمین میں اللہ کہہ کر پکارا جاتا ہے اور آسمانوں اور زمین میں جس کی حکمرانی ہے اور آسمانوں اور زمین میں جس کو معبود برحق سمجھا اور مانا جاتا ہے وہ اللہ تمہارے پوشیدہ اور ظاہر اور جو کچھ تم عمل کرتے ہو سب کو جانتا ہے۔ (فتح القدیر)

اس کی اور بھی بعض توجیہات کی گئی ہیں جنہیں اہل علم تفسیروں میں ملاحظہ کر سکتے ہیں ۔ مثلا تفسیر طبری و ابن کثیر وغیرہ۔

وَمَا تَأْتِيهِمْ مِنْ آيَةٍ مِنْ آيَاتِ رَبِّهِمْ إِلَّا كَانُوا عَنْهَا مُعْرِضِينَ (۴)

اور ان کے پاس کوئی نشانی بھی ان کے رب کی نشانیوں میں سے نہیں آتی مگر وہ اس سے اعراض ہی کرتے ہیں‏

فَقَدْ كَذَّبُوا بِالْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ ۖ

انہوں نے اس سچی کتاب کو بھی جھٹلایا جب کہ وہ ان کے پاس پہنچی،

فَسَوْفَ يَأْتِيهِمْ أَنْبَاءُ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ (۵)

سو جلد یہی ان کو خبر مل جائے گی اس چیز کی جس کے ساتھ یہ لوگ مذاق کیا کرتے تھے ۔

یعنی اس نکتہ چینی اور تکذیب کا وبال انہیں پہنچے گا اس وقت انہیں احساس ہوگا کہ کاش! ہم اس کتاب برحق کی تکذیب اور اسکا استہزا نہ کرتے

أَلَمْ يَرَوْا كَمْ أَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ مِنْ قَرْنٍ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ مَا لَمْ نُمَكِّنْ لَكُمْ

کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ ہم ان سے پہلے کتنی جماعتوں کو ہلاک کر چکے ہیں جنکو ہم نے دنیا میں ایسی قوت دی تھی کہ تم کو وہ قوت نہیں دی

وَأَرْسَلْنَا السَّمَاءَ عَلَيْهِمْ مِدْرَارًا وَجَعَلْنَا الْأَنْهَارَ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمْ

 اور ہم نے ان پر خوب بارشیں برسائیں اور ہم نے ان کے نیچے سے نہریں جاری کیں۔

فَأَهْلَكْنَاهُمْ بِذُنُوبِهِمْ وَأَنْشَأْنَا مِنْ بَعْدِهِمْ قَرْنًا آخَرِينَ (۶)

پھر ہم نے ان کو گناہوں کے سبب ہلاک کر ڈالا (١) اور ان کے بعد دوسری جماعتوں کو پیدا کر دیا ۔‏(٢)

۱۔ یعنی جب گناہوں کی پاداش میں تم سے پہلی امتوں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں درآں حالیکہ وہ طاقتور و قوت میں بھی تم سے کہیں زیادہ تھیں اور خوش حالی اور وسائل رزق کی فروانی میں بھی تم سے بڑھ کر تھیں، تو تمہیں ہلاک کرنا ہمارے لئے کیا مشکل ہے؟ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی قوم کی محض مادی ترقی اور خوش حالی سے یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ وہ بہت کامیاب و کامران ہے۔ یہ استدارج وامہال کی وہ صورتیں ہیں جو بطور امتحان اللہ تعالیٰ قوموں کو عطا فرماتا ہے۔ لیکن جب یہ مہلت عمل ختم ہو جاتی ہے تو پھر یہ ساری ترقیاں اور خوش حالیاں انہیں اللہ کے عذاب سے بچانے میں کامیاب نہیں ہوتیں۔

۲۔  تاکہ انہیں بھی پچھلی قوموں کی طرح آزمائیں۔

وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ كِتَابًا فِي قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوهُ بِأَيْدِيهِمْ لَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَذَا إِلَّا سِحْرٌ مُبِينٌ (۷)

اور اگر ہم کاغذ پر لکھا ہوا کوئی نوشتہ آپ پر نازل فرماتے پھر اس کو یہ لوگ اپنے ہاتھوں سے چھو بھی لیتے تب بھی یہ کافر لوگ یہی کہتے کہ یہ کچھ بھی نہیں مگر صریح جادو ہے  

یہ ان کے عناد جحود اور مکابرہ کا اظہار ہے کہ اتنے واضح نوشتہ الہٰی کے باوجود وہ اسے ماننے کے لئے تیار نہ ہونگے اور اسے ایک سحرانہ کرتب قرار دیں گے۔ جیسے قرآن مجید کے دوسرے مقام پر فرمایا گیا ہے:

وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَابًا مِنَ السَّمَاءِ فَظَلُّوا فِيهِ يَعْرُجُونَ

اگر ہم ان پر آسمان کا کوئی دروازہ کھول دیں اور یہ اس پر چڑھنے بھی لگ جائیں

 لَقَالُوا إِنَّمَا سُكِّرَتْ أَبْصَارُنَا بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ (۱۵:۱۴،۱۵)

 تب بھی کہیں گے آنکھیں متوالی ہوگئی ہیں بلکہ ہم پر جادو کر دیا گیا ہے

وَإِنْ يَرَوْا كِسْفًا مِنَ السَّمَاءِ سَاقِطًا يَقُولُوا سَحَابٌ مَرْكُومٌ (۵۲:۴۴)

اور اگر وہ آسمان سے گرتا ہوا ٹکڑا بھی دیکھ لیں تو کہیں گے کہ تہہ بہ تہہ بادل ہیں۔

یعنی عذاب الہی کی کو‏ئی نہ کوئی توجیہ کرلیں گے کہ جس میں مشیت الہی کا کو‏ئی دخل انھیں تسلیم کرنا نہ پڑے حالانکہ کا‏ئنات میں جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کی مشیت سے ہوتا ہے۔

وَقَالُوا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ مَلَكٌ ۖ

اور یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا

وَلَوْ أَنْزَلْنَا مَلَكًا لَقُضِيَ الْأَمْرُ ثُمَّ لَا يُنْظَرُونَ (۸)

 اور اگر ہم فرشتہ بھی بھیج دیتے تو سارا قصہ ہی ختم ہو جاتا۔ پھر ان کو ذرا مہلت نہ دی جاتی ۔

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے جتنے بھی انبیاء و رسل بھیجے وہ انسانوں میں سے ہی تھے اور ہر قوم میں اسی کے ایک فرد کو وحی و رسالت سے نواز دیا جاتا تھا۔ یہ اس لئے کہ اس کے بغیر کوئی رسول فریضہ تبلیغ و دعوت ادا ہی نہیں کر سکتا تھا،

مثلاً اگر فرشتوں کو اللہ تعالیٰ رسول بنا کر بھیجتا تو ایک تو وہ انسانی زبان میں گفتگو ہی نہ کر پاتے اور دوسرے وہ انسانی جذبات سے عاری ہونے کی وجہ سے انسان کے مختلف حالات میں مختلف کیفیات و جذبات کے سمجھنے سے بھی قاصر رہتے۔ ایسی صورت میں ہدایت اور رہنمائی کا فریضہ کس طرح انجام دے سکتے تھے۔؟

 اس لئے اللہ تعالیٰ کا انسانوں پر ایک بڑا احسان ہے کہ اس نے انسانوں کو ہی نبی اور رسول بنایا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بھی اسے بطور احسان ہی قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے:

لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ (۳:۱۶۴)

اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں پر احسان فرمایا جب کہ انہی کی جانوں میں سے ایک شخص کو رسول بنا کر بھیجا

 لیکن پیغمبروں کی بشریت کافروں کے لیے حیرت و استعجاب کا باعث رہی وہ سمجھتے تھے کہ رسول انسانوں میں سے نہیں فرشتوں میں سے ہونا چاہیے گویا ان کے نزدیک بشریت رسالت کے شایان شان نہیں تھی جیسا کہ آج کل کے اہل بدعت بھی یہی سمجھتے ہیں۔

  تشابھت قلوبھم اہل کفر و شرک رسولوں کی بشریت کا تو انکار کر نہیں سکتے تھے کیونکہ وہ ان کے خاندان حسب نسب ہرچیز سے واقف ہوتے تھے لیکن رسالت کا وہ انکار کر تے رہے جبکہ آج کل کے اہل بدعت رسالت کا انکار تو نہیں کرتے لیکن بشریت کو رسالت کے منافی سمجھنے کی وجہ سے رسولوں کی بشریت کا انکار کرتے ہیں

 بہرحال اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرما رہا ہے کہ اگر ہم کافروں کے مطالبے پر کسی فرشتے کو رسول بنا کر بھیجتے یا اس رسول کی تصدیق کے لئے ہم کوئی فرشتہ نازل کر دیتے جیسا کہ یہاں یہی بات بیان کی گئی ہے اور پھر وہ اس پر ایمان نہ لاتے تو انھیں مہلت دیئے بغیر ہلاک کر دیا جاتا۔

وَلَوْ جَعَلْنَاهُ مَلَكًا لَجَعَلْنَاهُ رَجُلًا وَلَلَبَسْنَا عَلَيْهِمْ مَا يَلْبِسُونَ (۹)

اور اگر ہم اس کو فرشتہ تجویز کرتے تو ہم اس کو آدمی ہی بناتے اور ہمارے اس فعل سے پھر ان پر وہی اشکال ہوتا جو اب کا اشکال کر رہے ہیں

یعنی اگر ہم فرشتے ہی کو رسول بنا کر بھیجنے کا فیصلہ کرتے تو ظاہر بات ہے کہ وہ فرشتے کی اصل شکل میں تو انھیں نہیں بھیج سکتا تھا، کیونکہ اس طرح انسان اس سے خوف زدہ ہونے اور قریب و مانوس ہونے کی بجائے، دور بھاگتے اس لئے ناگزیر تھا کہ اسے انسانی شکل میں بھیجا جاتا۔ لیکن تمہارے لیڈر پھر یہی اعتراض اور شبہ پیش کرتے کہ یہ تو انسان ہی ہے، جو اس وقت بھی وہ رسول کی بشریت کے حوالے پیش کر رہے ہیں تو پھر فرشتے کے بھیجنے کا کیا فائدہ۔

وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِينَ سَخِرُوا مِنْهُمْ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ (۱۰)

اور واقع آپ سے پہلے جو پیغمبر ہوئے ہیں ان کے ساتھ بھی مذاق کیا گیا ہے۔ پھر جن لوگوں نے ان سے مذاق کیا تھا ان کو اس عذاب نے آگھیرا جس کا مذاق اڑاتے تھے۔‏

قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ ثُمَّ انْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ (۱۱)

آپ فرما دیجئے کہ ذرا زمین میں چلو پھرو پھر دیکھ لو کہ تکذیب کرنے والے کا کیا انجام ہوا۔‏

قُلْ لِمَنْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ قُلْ لِلَّهِ ۚ

آپ کہئے کہ جو کچھ آسمانوں میں اور زمین میں موجود ہے یہ سب کس کی ملکیت ہے، آپ کہہ دیجئے سب اللہ ہی کی ملکیت ہے،

كَتَبَ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ۚ

اللہ نے مہربانی فرمانا اپنے اوپر لازم فرما لیا ہے

جس طرح حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو عرش پر لکھ دیا  

اِنَّ رَحمَتِی تَغْلِبُ غَضَبِیْ ـ

"یقیناً میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے"

لیکن یہ رحمت قیامت والے دن صرف اہل ایمان کے لئے ہوگی،

 کافروں کے لئے رب سخت غضب ناک ہوگا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں تو اس کی رحمت یقیناً ًعام ہے، جس سے مؤمن اور کافر نیک اور بد فرماں دار اور نافرمان سب ہی فیض یاب ہو رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی شخص کی بھی روزی نافرمانی کی وجہ سے بند نہیں کرتا، لیکن اس کی رحمت کا یہ اہتمام صرف دنیا کی حد تک ہے۔

آخرت میں جو کہ دار الجزا ہے وہاں اللہ کی صفت عدل کا کامل ظہور ہوگا، جس کے نتیجے میں اہل ایمان و امان رحمت میں جگہ پائیں گے اور اہل کفر و فسق جہنم کے دائمی عذاب کے مستحق ٹھہریں گے۔ اسی لئے قرآن میں فرمایا گیا ہے:

وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُمْ بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ (۷:۱۵۶)

اور میری رحمت تمام اشیا پر محیط ہے

 تو وہ رحمت ان لوگوں کے نام ضرور لکھوں گا جو اللہ سے ڈرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں۔

لَيَجْمَعَنَّكُمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا رَيْبَ فِيهِ ۚ

تم کو اللہ قیامت کے روز جمع کرے گا، اس میں کوئی شک نہیں،

الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ (۱۲)

جن لوگوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈالا ہے اور وہ ایمان نہیں لائیں گے۔‏

وَلَهُ مَا سَكَنَ فِي اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (۱۳)

اور اللہ ہی کی ملک ہیں وہ سب کچھ جو رات میں اور دن میں رہتی ہیں اور وہی بڑا سننے والا بڑا جاننے والا ہے۔‏

قُلْ أَغَيْرَ اللَّهِ أَتَّخِذُ وَلِيًّا فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ يُطْعِمُ وَلَا يُطْعَمُ ۗ

آپ کہئے کہ کیا اللہ کے سوا، جو کہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے جو کہ کھانے کو دیتا ہے اور اس کو کوئی کھانے نہیں دیتا اور کسی کو معبود قرار دوں

 ولی سے مراد یہاں معبود ہے جیسا کہ ترجمہ سے واضح ہے ورنہ دوست بنانا تو جائز ہے۔

قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ ۖ وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِينَ (۱۴)

آپ فرما دیجئے کہ مجھ کو یہ حکم ہوا ہے کہ سب سے پہلے میں اسلام قبول کروں اور تو مشرکین میں سے ہرگز نہ ہونا۔‏

قُلْ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ (۱۵)

آپ کہہ دیجئے کہ میں اگر اپنے رب کا کہنا نہ مانوں تو میں ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں ۔

یعنی اگر میں نے بھی رب کی نافرمانی کرتے ہوئے اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو معبود بنا لیا تو میں بھی اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکوں گا۔

مَنْ يُصْرَفْ عَنْهُ يَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمَهُ ۚوَذَلِكَ الْفَوْزُ الْمُبِينُ (۱۶)

جس شخص سے اس روز وہ عذاب ہٹا دیا جائے تو اس پر اللہ نے بڑا رحم کیا اور یہ صریح کامیابی ہے۔‏

جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا

فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ۔ (۳:۱۸۵)

جو آگ سے دور اور جنت میں داخل کر دیا گیا، وہ کامیاب ہوگیا

 اس لئے کامیابی، خسارے سے بچ جانے اور نفع حاصل کر لینے کا نام ہے۔ جنت سے بڑھ کر نفع کیا ہوگا؟

وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِنْ يَمْسَسْكَ بِخَيْرٍ فَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (۱۷)

اور اگر تجھ کو اللہ تعالیٰ کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کا دور کرنے والا سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں۔

اور اگر تجھ کو اللہ تعالیٰ کوئی نفع پہنچائے تو وہ ہرچیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے ۔

یعنی نفع و ضرر کا مالک، کائنات میں ہر طرح کا تصرف کرنے والا صرف اللہ ہے اور اس کے حکم و قضا کو کوئی رد کرنے والا نہیں ہے۔ ایک حدیث میں اس مضمون کو اس طرح بیان کیا گیا ہے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے بعد یہ دعا پڑھاکرتے تھے۔

اللھم لا مانع لما اعطیت ولا معطی لما منعت ولا ینفع ذا الجد منک الجد

جس کو تو دے اس کو کوئی روکنے والا نہیں اور جس سے تو روک لے تو اس کو کوئی دینے والا نہیں اور کسی صاحب حیثیت کو اس کی حیثیت تیرے مقابلے میں نفع نہیں پہنچا سکتی ' (صحیح بخاری، مسلم )

وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ ۚ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُ (۱۸)

اور وہی اللہ اپنے بندوں کے اوپر غالب ہے برتر ہے (١) اور وہی بڑی حکمت والا اور پوری خبر رکھنے والا ہے۔‏

یعنی تمام گردنیں اس کے سامنے جھکی ہوئی ہیں، بڑے بڑے جابر لوگ اس کے سامنے بےبس ہیں، وہ ہرچیز پر غالب ہے اور تمام کائنات اس کی مطیع ہے وہ اپنے ہر کام میں حکیم ہے اور ہرچیز سے باخبر ہے، پس اسے معلوم ہے کہ اس کے احسان و عطا کا کون مستحق ہے اور کون غیر مستحق۔

قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً ۖ قُلِ اللَّهُ ۖ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۚ

آپ کہیئے کہ سب سے بڑی چیز گواہی دینے کے لئے کون ہے، آپ کہیئے کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے

یعنی اللہ ہی اپنی واحدنیت اور ربوبیت کا سب سے بڑا گواہ ہے اس سے بڑھ کر کوئی گواہ نہیں۔

وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَذَا الْقُرْآنُ لِأُنْذِرَكُمْ بِهِ وَمَنْ بَلَغَ ۚ

اور میرے پاس یہ قرآن بطور وحی کے بھیجا گیا ہے تاکہ میں اس قرآن کے ذریعہ سے تم کو اور جس جس کو یہ قرآن پہنچے ان سب کو ڈراؤں

ربیع بن انس کہتے ہیں اب جس کے پاس بھی قرآن پہنچ جائے اگر وہ سچا مطیع رسول ہے تو اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھی لوگوں کو اللہ کی طرف اسی طرح بلائے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو دعوت دی اور اس طرح ڈرائے جس طرح آپ نے لوگوں کو ڈرایا۔ (ابن کثیر)

أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ اللَّهِ آلِهَةً أُخْرَى ۚ

کیا تم سچ مچ یہی گواہی دو گے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کچھ اور معبود بھی ہیں،

قُلْ لَا أَشْهَدُ ۚ

 آپ کہہ دیجئے کہ میں تو گواہی نہیں دیتا۔

قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَهٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِي بَرِيءٌ مِمَّا تُشْرِكُونَ (۱۹)

آپ فرما دیجئے کہ بس وہ تو ایک ہی معبود ہے اور بیشک میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں۔‏

الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمُ ۘ

جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ لوگ رسول کو پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں،

الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ (۲۰)

جن لوگوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈالا ہے سو وہ ایمان نہیں لائیں گے ۔

 يَعْرِفُونَ میں ضمیر کا مرجع رسل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں یعنی اہل کتاب آپ کو اپنے بیٹوں کی طرح پہچانتے ہیں کیونکہ آپ کی صفات ان کی کتابوں میں بیان کی گئیں تھیں اور ان صفات کی وجہ سے وہ آخری نبی کے منتظر بھی تھے۔

 اس لئے اب ان میں سے ایمان نہ لانے والے سخت خسارے میں ہیں کیونکہ یہ علم رکھتے ہوئے بھی انکار کر رہے ہیں۔

فان کنت لا تدری فتلک مصیبۃ  وان کنت تدری فالمصیبۃ اعظم

اگر تجھے علم نہیں ہے تو یہ بھی اگرچہ مصیبت ہی ہے  تاہم اگر علم ہے تو پھر زیادہ بڑی مصیبت ہے۔

وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِآيَاتِهِ ۗ

اور اس سے زیادہ بے انصاف کون ہوگا جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بہتان باندھے یا اللہ کی آیات کو جھوٹا بتلائے

یعنی جس طرح اللہ پر جھوٹ گھڑنے والا (یعنی نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والا) سب سے بڑا ظالم ہے، اس طرح وہ بھی بڑا ظالم ہے جو اللہ کی آیات اور اس کے سچے رسول کی تکذیب کرے۔ جھوٹے دعوے نبوت پر اتنی سخت وعید کے باوجود یہ واقعہ ہے کہ متعدد لوگوں نے ہر دور میں نبوت کے جھوٹے دعوے کئے ہیں اور یوں یقیناً نبی کی پیش گوئی کہ تیس جھوٹے دجال ہونگے۔ ہر ایک کا دعویٰ ہوگا کہ وہ نبی ہے۔

گزشتہ صدی میں بھی قادیاں کے ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا اور آج اس کے پیروکار اس لئے نبی اور بعض مسیح موعود مانتے ہیں کہ اسے ایک قلیل تعداد نبی مانتی ہے۔ حالانکہ کچھ لوگوں کا کسی جھوٹے کو سچا مان لینا، اس کی سچائی کی دلیل نہیں بن سکتا۔ صداقت کے لئے تو قرآن و حدیث کے واضح دلائل کی ضرورت ہے۔

إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ (۲۱)

ایسے بے انصافوں کو کامیابی نہ ہوگی ۔

جب یہ دونوں ہی ظالم ہیں تو نہ (جھوٹ گھڑنے والا) کامیاب ہوگا اور نہ ہی تکذیب (جھٹلانے والا) اس لئے ضروری ہے کہ ہر ایک اپنے انجام پر اچھی طرح غور کرلے۔

وَيَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِينَ أَشْرَكُوا أَيْنَ شُرَكَاؤُكُمُ الَّذِينَ كُنْتُمْ تَزْعُمُونَ (۲۲)

وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جس روز ہم ان تمام خلائق کو جمع کریں گے، پھر ہم مشرکین سے کہیں گے کہ تمہارے وہ شرکا، جن کے معبود ہونے کا تم دعویٰ کرتے تھے کہاں گئے۔‏

ثُمَّ لَمْ تَكُنْ فِتْنَتُهُمْ إِلَّا أَنْ قَالُوا وَاللَّهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِينَ (۲۳)

پھر ان کے شرک کا انجام اس کے سوا اور کچھ بھی نہ ہوگا کہ وہ یوں کہیں گے کہ قسم اللہ کی اپنے پروردگار کی ہم مشرک نہ تھے ۔

 فِتْنَتُه کے ایک معنی حجت اور ایک معنی معذرت کے کئے گئے ہیں، بالآخر یہ حجت یا معذرت پیش کر کے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کریں گے کہ ہم تو مشرک ہی نہ تھے۔

 اور امام ابن جریر نے اس کے معنی یہ بیان کئے ہیں۔

جب ہم انھیں سوال کی بھٹی میں جھونکیں گے تو دنیا میں جو انہوں نے شرک کیا، اس کی معذرت کے لئے یہ کہے بغیر ان کے لئے کوئی چارہ نہ ہوگا کہ ہم تو مشرک ہی نہ تھے۔

یہاں یہ اشکال پیش نہ آئے کہ وہاں تو انسانوں کے ہاتھ پیر گواہی دیں گے اور زبانوں پر تو مہریں لگا دی جائیں گی پھر یہ انکار کس طرح کریں گے؟

اس کا جواب حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ دیا ہے کہ جب مشرکین دیکھیں گے کہ اہل توحید مسلمان جنت میں جا رہے ہیں تو یہ باہم مشورہ کر کے اپنے شرک کرنے سے انکار کر دیں گے۔ تب اللہ تعالیٰ ان کے مونہوں پر مہر لگادے گا اور ان کے ہاتھ پاؤں جو کچھ انہوں نے کیا ہوگا اس کی گواہی دیں گے اور یہ اللہ سے کوئی بات چھپانے پر قادر نہ ہو سکیں گے۔  (ابن کثیر)

انْظُرْ كَيْفَ كَذَبُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ ۚ

ذرا دیکھو تو انہوں نے کس طرح جھوٹ بولا اپنی جانوں پر

وَضَلَّ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَفْتَرُونَ (۲۴)

 اور جن چیزوں کو وہ جھوٹ موٹ تراشا کرتے تھے وہ سب غائب ہوگئے ۔

لیکن وہاں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، جس طرح بعض دفعہ دنیا میں انسان ایسا محسوس کرتا ہے اسی طرح ان کے معبودان باطل بھی، جن کو اللہ کا شریک اپنا حمائتی و مددگار اور سفارشی سمجھتے تھے، غائب ہونگے اور وہاں ان پر شرکا ءکی حقیقت واضح ہوگی، لیکن وہاں اس کے ازالے کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔

وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ ۖ

اور ان میں بعض ایسے ہیں کہ آپ کی طرف کان لگاتے ہیں

یعنی مشرکین آپ کے پاس آکر قرآن تو سنتے ہیں لیکن چونکہ مقصد طلب ہدایت نہیں، اس لئے بےفائدہ ہے۔

وَجَعَلْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَنْ يَفْقَهُوهُ وَفِي آذَانِهِمْ وَقْرًا ۚ

اور ہم نے ان کے دلوں پر پردہ ڈال رکھا ہے اس سے کہ وہ اس کو سمجھیں اور ان کے کانوں میں ڈاٹ دے رکھی ہے

علاوہ ازیں ان کے کفر کے نتیجے میں ان کے دلوں پر بھی ہم نے پردے ڈال دیئے ہیں اور ان کے کانوں میں ڈاٹ جس کی وجہ سے ان کے دل حق بات سمجھنے سے قاصر اور ان کے کان حق کو سننے سے عاجز ہیں۔

وَإِنْ يَرَوْا كُلَّ آيَةٍ لَا يُؤْمِنُوا بِهَا ۚ

اور اگر وہ لوگ تمام دلائل کو دیکھ لیں تو بھی ان پر کبھی ایمان نہ لائیں،

حَتَّى إِذَا جَاءُوكَ يُجَادِلُونَكَ يَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ (۲۵)

یہاں تک کہ جب یہ لوگ آپ کے پاس آتے ہیں تو آپ سے خواہ مخواہ جھگڑتے ہیں یہ لوگ جو کافر ہیں یوں کہتے ہیں کہ یہ تو کچھ بھی نہیں صرف بےسند باتیں ہیں جو پہلوں سے چلی آرہی ہیں

اب وہ گمراہی کی ایسی دلدل میں پھنس گئے ہیں کہ بڑے سے بڑا معجزہ بھی دیکھ لیں، تب بھی ایمان لانے کی توفیق سے محروم رہیں گے

 اور ان کا عناد و جحود اتنا بڑھ گیا ہے کہ وہ قرآن کریم کو پہلے لوگوں کی بےسند کہانیاں کہتے ہیں۔

وَهُمْ يَنْهَوْنَ عَنْهُ وَيَنْأَوْنَ عَنْهُ ۖ

اور یہ لوگ اس سے دوسروں کو بھی روکتے ہیں اور خود بھی اس سے دور دور رہتے ہیں

یعنی عام لوگوں کو آپ سے اور قرآن سے روکتے ہیں تاکہ وہ ایمان نہ لائیں اور خود بھی دور دور رہتے ہیں۔

وَإِنْ يُهْلِكُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ (۲۶)

اور یہ لوگ اپنے ہی کو تباہ کر رہے ہیں اور کچھ خبر نہیں رکھتے ۔

لیکن لوگوں کو روکنا اور خود بھی دور رہنا، اس سے ہمارا یا ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا بگڑے گا؟ اس طرح کے کام کر کے وہ خود ہی بےشعوری میں اپنی ہلاکت کا سامان کر رہے ہیں۔

وَلَوْ تَرَى إِذْ وُقِفُوا عَلَى النَّارِ فَقَالُوا يَا لَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِآيَاتِ رَبِّنَا وَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ (۲۷)

اور اگر آپ اس وقت دیکھیں جب دوزخ کے پاس کھڑے کئے جائیں (١) تو کہیں گے ہائے کیا اچھی بات ہو کہ ہم پھر واپس بھیج دیئے جائ

اور اگر ایسا ہو جائے تو ہم اپنے رب کی آیات کو جھوٹا نہ بتلائیں اور ہم ایمان والوں میں سے ہوجائیں (٢)‏

۱۔ یہاں  لَوْ کا جواب محذوف ہے تقدیری عبارت یوں ہوگی ' تو آپ کو ہولناک منظر نظر آئے گا۔

۲۔  لیکن وہاں سے دوبارہ دنیا میں آنا ممکن ہی نہیں ہوگا کہ وہ اپنی اس آرزو کی تکمیل کرسکیں۔ کافروں کی اس آرزو کا قرآن نے متعدد مقامات پر ذکر کیا ہے:

رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْهَا فَإِنْ عُدْنَا فَإِنَّا ظَالِمُونَ قَالَ اخْسَئُوا فِيهَا وَلَا تُكَلِّمُونِ (۲۳:۱۰۷،۱۰۸)

اے ہمارے رب ہمیں اس جہنم سے نکال لے اگر ہم دوبارہ تیری نافرمانی کریں تو یقیناً ظالم ہیں

 اللہ تعالیٰ فرما‏ئے گا اسی میں ذلیل و خوار پڑے رہو مجھ سے بات نہ کرو

رَبَّنَا أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا إِنَّا مُوقِنُونَ (۳۲:۱۲)

اے ہمارے رب ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا پس ہمیں دوبارہ دنیا میں بھیج دے تاکہ ہم نیک عمل کریں اب ہمیں یقین آ گیا ہے۔

بَلْ بَدَا لَهُمْ مَا كَانُوا يُخْفُونَ مِنْ قَبْلُ ۖ

بلکہ جس چیز کو اس سے قبل چھپایا کرتے تھے وہ ان کے سامنے آگئی ہے

 بَلْ پہلی بات سے گریز کرنےکے لیے آتا ہے۔ اس کے کئی مفہوم بیان کئے گئے ہیں

- ان کے لئے وہ کفر اور عناد و تکذیب ظاہر ہوجائے گی، جو اس سے قبل وہ دنیا یا آخرت میں چھپاتے تھے۔ یعنی جس کا انکار کرتے تھے، جیسے وہاں بھی کہیں گے ہم تو مشرک ہی نہ تھے  یا

- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کی صداقت کا علم جو ان کے دلوں میں تھا۔ لیکن پیروکاروں سے چھپاتے تھے۔ وہاں ظاہر ہوجائے گا

- یا منافقین کا نفاق وہاں ظاہر ہوجائے گا جسے وہ دنیا میں اہل ایمان سے چھپاتے تھے۔ (تفسیر ابن کثیر)

وَلَوْ رُدُّوا لَعَادُوا لِمَا نُهُوا عَنْهُ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ (۲۸)

 اور اگر یہ لوگ پھر واپس بھیج دیئے جائیں تب بھی یہ وہی کام کریں گے جس سے ان کو منع کیا گیا تھا اور یقیناً یہ بالکل جھو ٹے ہیں

یعنی دوبارہ دنیا میں آنے کی خواہش ایمان لانے کے لئے نہیں، صرف عذاب سے بچنے کے لئے ہے، جو ان پر قیامت کے دن ظاہر ہوجائے گا اور جس کا وہ معائنہ کرلیں گے ورنہ اگر یہ دنیا میں دوبارہ بھیج دیئے جائیں تب بھی یہ وہی کچھ کریں گے جو پہلے کرتے رہے ہیں۔

وَقَالُوا إِنْ هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِينَ (۲۹)

اور یہ کہتے ہیں کہ صرف یہی دنیاوی زندگی ہماری زندگی ہے اور ہم زندہ نہ کئے جائیں گے

یہ مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے کا انکار ہے جو ہر کافر کرتا ہے اور اس حقیقت سے انکار ہی دراصل ان کے کفر و عصیان کی سب سے بڑی وجہ ہے ورنہ اگر انسان کے دل میں صحیح معنوں میں اس عقیدہ آخرت کی صداقت راسخ ہوجائے تو کفر و جرم کے راستے سے فوراً تائب ہوجائے۔

وَلَوْ تَرَى إِذْ وُقِفُوا عَلَى رَبِّهِمْ ۚ قَالَ أَلَيْسَ هَذَا بِالْحَقِّ ۚ

اور اگر آپ اس وقت دیکھیں جب یہ اپنے رب کے سامنے کھڑے کئے جائیں گے۔ اللہ فرمائے گا کیا یہ امر واقعی نہیں ہے؟

قَالُوا بَلَى وَرَبِّنَا ۚ قَالَ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ (۳۰)

وہ کہیں گے بیشک قسم اپنے رب کی۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو اب اپنے کفر کے عوض عذاب چکھو ۔‏

یعنی آنکھوں سے مشاہدہ کر لینے کے بعد تو وہ اعتراف کرلیں گے کہ آخرت کی زندگی واقعی برحق ہے۔ لیکن وہاں اس اعتراف کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا کہ اب تو اپنے کفر کے بدلے عذاب کا مزہ چکھو۔

قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِلِقَاءِ اللَّهِ ۖ

بیشک خسارے میں پڑے وہ لوگ جس نے اللہ سے ملنے کی تکذیب کی،

حَتَّى إِذَا جَاءَتْهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً قَالُوا يَا حَسْرَتَنَا عَلَى مَا فَرَّطْنَا فِيهَا وَهُمْ يَحْمِلُونَ أَوْزَارَهُمْ عَلَى ظُهُورِهِمْ ۚ

یہاں تک کہ جب وہ معین وقت ان پر دفعتاً آپہنچے گا، کہیں گے کہ ہائے افسوس ہماری کوتاہی پر جو اس کے بارے میں ہوئی، اور حالت ان کی یہ ہوگی کہ وہ اپنے بار اپنی پیٹھوں پر لادے ہونگے،

أَلَا سَاءَ مَا يَزِرُونَ (۳۱)

خوب سن لو کہ بری ہوگی وہ شے جس کو وہ لادیں گے

اللہ کی ملاقات کی تکذیب کرنے والے جس خسارے اور نامرادی سے دو چار ہوں گے اپنی کوتاہیوں پر جس طرح نادم ہوں گے اور برے اعمال کا جو بوجھ اپنے اوپر لادے ہوں گے آیت میں اس کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔

  فَرَّطْنَا فِيهَا میں ضمیر  السَّاعَةُ کی طرف راجع ہے یعنی قیامت کی تیاری اور تصدیق کے معاملے میں جو کوتاہی ہم سے ہوئی

یا  اَلصَّفْقَۃُ (سودا) کی طرف راجع ہے جو اگرچہ عبارت میں موجود نہیں ہے لیکن سیاق اس پر دلالت کناں ہے اس لئے کہ نقصان سودے میں ہی ہوتا ہے اور مراد اس سودے سے وہ ہے جو ایمان کے بدلے کفر خرید کر انہوں نے کیا یعنی یہ سودا کر کے ہم نے سخت کوتاہی کی

 یا  حَيَاةُ کی طرف راجع ہے یعنی ہم نے اپنی زندگی میں برائیوں اور کفر و شرک کا ارتکاب کرکے جو کوتاہیاں کیں۔ (فتح القدیر)

وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَعِبٌ وَلَهْوٌ ۖ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ ۗ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (۳۲)

اور دنیاوی زندگانی تو کچھ بھی نہیں بجز لہو لعب کے اور دار آخرت متقیوں کے لئے بہتر ہے، کیا تم سوچتے سمجھتے نہیں۔‏

قَدْ نَعْلَمُ إِنَّهُ لَيَحْزُنُكَ الَّذِي يَقُولُونَ ۖ فَإِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُونَكَ وَلَكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ (۳۳)

ہم خوب جانتے ہیں کہ آپ کو انکے اقوال مغموم کرتے ہیں، سو یہ لوگ آپ کو جھوٹا نہیں کہتے لیکن یہ ظالم تو اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں ۔‏

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار کی طرف سے اپنی تکذیب کی وجہ سے جو غم و ملال پہنچتا اس کے ازالے اور آپ کی تسلی کے لئے فرمایا جا رہا ہے کہ یہ تکذیب آپ کی نہیں۔ (آپ کو وہ صادق و امین مانتے ہیں) اصل یہ آیات الٰہی کی تکذیب ہے اور یہ ظلم ہے۔ جس کا وہ ارتکاب کر رہے ہیں۔

ترمذی کی ایک روایت میں ہے کہ ابوجہل نے ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہم تم کو نہیں بلکہ جو کچھ تم لے کر آئے ہو اس کو جھٹلاتے ہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی

 ترمذی کی یہ روایت اگرچہ سندا ضعیف ہے لیکن دوسری صحیح روایات سے اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ کفار مکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت و دیانت اور صداقت کے قائل تھے لیکن اس کے باوجود وہ آپ کی رسالت پر ایمان لانے سے گریزاں رہے

 آج بھی جو لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اخلاق رفعت کردار اور امانت و صداقت کو تو خوب جھوم جھوم کر بیان کرتے ہیں اور اس موضوع پر فصاحت و بلاغت کے دریا بہاتے ہیں لیکن اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں وہ انقباض محسوس کرتےآپ کی بات کے مقابلے میں فقہ وقیاس اور اقوال ائمہ کو ترجیح دیتے ہیں انھیں سوچنا چاہئیے کہ یہ کس کا کردار ہے جسے انہوں نے اپنايا ہوا ہے؟

وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِكَ فَصَبَرُوا عَلَى

اور بہت سے پیغمبر جو آپ سے پہلے ہوئے ہیں ان کی بھی تکذیب کی جاچکی ہے سو انہوں نے اس پر صبر ہی کیا،

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مزید تسلی کے لئے کہا جا رہا ہے کہ یہ پہلا واقع نہیں ہے کہ کافر اللہ کے پیغمبر کا انکار کر رہے ہیں بلکہ اس سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں جن کی تکذیب کی جاتی رہی ہے پس آپ بھی ان کی اقتدا کرتے ہوئے اسی طرح صبر اور حوصلے سے کام لیں،

مَا كُذِّبُوا وَأُوذُوا حَتَّى أَتَاهُمْ نَصْرُنَا ۚ

ان کی تکذیب کی گئی اور ان کو ایذائیں پہنچائی گئیں یہاں تک کہ کہ ہماری امداد ان کو پہنچی

حتٰی کہ آپ کے پاس بھی اسی طرح ہماری مدد آجائے، جس طرح پہلے رسولوں کی ہم نے مدد کی اور ہم اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتے۔ ہم نے وعدہ کیا ہوا ہے:

إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا ۔  (۴۰:۵۱)

یقیناً ہم اپنے پیغمبروں اور اہل ایمان کی مدد کریں گے

‏كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي  ۔ (۵۸:۲۱)

اللہ نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب رہیں گے

وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِ اللَّهِ ۚ وَلَقَدْ جَاءَكَ مِنْ نَبَإِ الْمُرْسَلِينَ (۳۴)

اور اللہ کی باتوں کا کوئی بدلنے والا نہیں (۱) اور آپ کے پاس بعض پیغمبروں کی بعض خبریں پہنچ چکی ہیں ۔‏(۲)

۱۔  بلکہ اس کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا کہ آپ کافروں پر غالب و منصور رہیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔

۲۔  جن سے واضح ہے کہ ابتدا میں گو ان کی قوموں نے انھیں جھٹلایا، انھیں ایذائیں پہنچائیں اور ان کے لئے عرصہ حیات تنگ کر دیا لیکن بالآخر اللہ کی نصرت سے کامیابی و کامرانی اور نجات ابدی انہی کا مقدر بنی۔

وَإِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَيْكَ إِعْرَاضُهُمْ فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَبْتَغِيَ نَفَقًا فِي الْأَرْضِ أَوْ سُلَّمًا فِي السَّمَاءِ فَتَأْتِيَهُمْ بِآيَةٍ ۚ

اگر آپ کو ان کا اعراض گراں گزرتا ہے تو اگر آپ کو یہ قدرت ہے کہ زمین میں کوئی سرنگ یا آسمان میں کوئی سیڑھی ڈھونڈ لو اور پھر کوئی معجزہ لے آؤ

وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَى الْهُدَى ۚ

تو اور اگر اللہ کو منظور ہو تو ان سب کو جمع کر دینا

۱۔ نبی ﷺ معاندین و کافرین کی تکذیب (جھٹلانا) جو گرانی اور مشقت ہوتی تھی، اسی کے حوالے سے اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور تقدیر سے ہونا ہی تھا اور اللہ کے حکم کے بغیر آپ ان کو قبول اسلام پر آمادہ نہیں کر سکتے۔ حتٰی کہ اگر آپ کوئی سرنگ کھود کر یا آسمان پر سیڑھی لگا کر بھی کوئی نشانی ان کو لا کر دکھائیں، اول تو ایسا کرنا آپ کے لئے ایسا کرنا محال ہے اور اگر بالفرض آپ ایسا کر بھی دکھائیں تو بھی یہ ایمان نہیں لائیں گے۔ کیونکہ ان کا ایمان نہ لانا اللہ کی حکمت و مشیت کے تحت ہے جس کا مکمل احاطہ انسانی عقل و فہم نہیں کرسکتے البتہ جس کی ایک ظاہری حکمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں اختیار و ارادے کی آزادی دے کر آزما رہا ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کے لیے تمام انسانوں کو ہدایت کے ایک راستے پر لگا دینا مشکل کام نہ تھا اس کے لیے لفظ کن سے پلک جھپکتے میں یہ کام ہو سکتا ہے۔

فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْجَاهِلِينَ (۳۵)

سو آپ نادانوں میں سے نہ ہو جایئے ۔

۲۔  یعنی آپ ان کے کفر پر زیادہ حسرت و افسوس نہ کریں کیونکہ اس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی مشیت و تقدیر سے ہے اس لئے اسے اللہ ہی کے سپرد کر دیں، وہی اس کی حکمت و مصلحت کو بہتر سمجھتا ہے۔

إِنَّمَا يَسْتَجِيبُ الَّذِينَ يَسْمَعُونَ ۘ وَالْمَوْتَى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ ثُمَّ إِلَيْهِ يُرْجَعُونَ (۳۶)

وہ ہی لوگ قبول کرتے ہیں جو سنتے ہیں (١) اور مردوں کو اللہ زندہ کر کے اٹھائے گا پھر سب اللہ ہی کی طرف لائے جائیں گے

اور ان کافروں کی حیثیت تو ایسی ہے جیسے مردوں کی ہوتی ہے۔ جس طرح وہ سننے اور سمجھنے کی قدرت سے محروم ہیں یہ بھی چونکہ اپنی عقل فہم سے حق کو سمجھنے کا کام نہیں لیتے اس لئے یہ بھی مردہ ہیں۔

وَقَالُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِنْ رَبِّهِ ۚ

اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ ان پر کوئی معجزہ کیوں نہیں نازل کیا گیا ان کے رب کی طرف سے

قُلْ إِنَّ اللَّهَ قَادِرٌ عَلَى أَنْ يُنَزِّلَ آيَةً وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ (۳۷)

آپ فرما دیجئے کہ اللہ تعالیٰ کو بیشک پوری قدرت ہے اس پر کہ وہ معجزہ نازل فرما دے (١) لیکن ان میں اکثر بےخبر ہیں ۔(٢)‏

۱۔ یعنی ایسا معجزہ، جو ان کو ایمان لانے پر مجبور کر دے، جیسے ان کی آنکھوں کے سامنے فرشتہ اترے، یا پہاڑ ان پر اٹھا کر بلند کر دیا جائے، جس طرح بنی اسرئیل پر کیا گیا۔

 فرمایا : اللہ تعالیٰ تو یقیناً ایسا کر سکتا ہے لیکن اس نے ایسا اس لئے نہیں کیا کہ پھر انسانوں کے امتحان کا مسئلہ ختم ہو جاتا۔

 علاوہ ازیں ان کے مطالبے پر اگر کوئی معجزہ دکھلایا جاتا اور پھر بھی وہ ایمان نہ لاتے تو پھر فورا انھیں اسی دنیا ہی میں سخت سزا دے دی جاتی یوں گویا اللہ کی اس حکمت میں بھی انہی کا دنیاوی فائدہ ہے۔

٢ ۔جو اللہ کے حکم و مشیت کی حکمت کا ادراک نہیں کر سکتے۔

وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ ۚ

اور جتنے قسم کے جاندار زمین پر چلنے والے ہیں اور جتنے قسم کے پرند جانور ہیں کہ اپنے دونوں بازؤں سے اڑتے ہیں ان میں کوئی قسم ایسی نہیں جو کہ تمہاری طرح کے گروہ نہ ہوں

یعنی انھیں بھی اللہ نے اسی طرح پیدا فرمایا جس طرح تمہیں پیدا کیا، اسی طرح انھیں روزی دیتا ہے جس طرح تمہیں دیتا ہے اور تمہاری ہی طرح وہ بھی اس کی قدرت و علم کے تحت داخل ہیں۔

مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ ۚ ثُمَّ إِلَى رَبِّهِمْ يُحْشَرُونَ (۳۸)

ہم نے دفتر میں کوئی چیز نہیں چھوڑی (۱) پھر سب اپنے پروردگار کے پاس جمع کئے جائیں گے ۔‏(۲)

۱۔  کتاب دفتر سے مراد لوح محفوظ ہے۔ یعنی وہاں ہرچیز درج ہے یا مراد قرآن ہے جس میں اجمالاً یا تفصیلاً دین کے ہر معاملے پر روشنی ڈالی گئی ہے، جیسے دوسرے مقام پر فرمایا:

وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ (۱۶:۸۹)

ہم نے آپ پر ایسی کتاب اتاری ہے جس میں ہرچیز کا بیان ہے۔

یہاں پر سیاق کے لحاظ سے پہلا معنی اقرب ہے۔

۲۔  یعنی تمام مذکورہ گروہ اکٹھے کئے جائیں گے۔

 اس سے علماء کے ایک گروہ نے استدلال (ثبوت) کیا ہے، جس طرح تمام انسانوں کو زندہ کر کے ان کا حساب کتاب لیا جائے گا، جانوروں اور دیگر تمام مخلوقات کو بھی زندہ کرکے ان کا حساب کتاب بھی ہوگا، جس طرح ایک حدیث میں بھی نبی نے فرمایا:

کسی سینگ والی بکری نے اگر بغیر سینگ والی بکری پر کوئی زیادتی کی ہوگی تو قیامت والے دن سینگ والی بکری سے بدلہ لیا جائے گا۔(صحیح مسلم )

بعض علماء نے  حشر سے مراد صرف موت لی ہے یعنی سب کو موت آئے گی اور بعض علماء نے کہا ہے کہ یہاں حشر سے مراد کفار کا حشر ہے اور درمیان میں مزید جو باتیں آئی ہیں وہ جملہ معترضہ کے طور پر ہیں اور حدیث مذکور جس میں بکری سے بدلہ لیے جانے کا ذکر ہے بطور تمثیل ہے جس سے مقصد قیامت کے حساب و کتاب کی اہمیت و عظمت کو واضح کرنا ہے یا یہ کہ حیوانات میں سے صرف ظالم اور مظلوم کو زندہ کر کے ظالم سے مظلوم کو بدلہ دلا دیا جائے گا پھر دونوں معدوم کر دئیے جائیں گے۔( فتح القدیر) وغیرو اس کی تائید بعض احادیث سے بھی ہوتی ہے۔

 حشر

وَالَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا صُمٌّ وَبُكْمٌ فِي الظُّلُمَاتِ ۗ

اور جو لوگ ہماری آیتوں کی تکذیب کرتے ہیں وہ تو طرح طرح کی ظلمتوں میں بہرے گونگے ہو رہے ہیں

آیات الٰہی کو جھٹلانے والے چونکہ اپنے کانوں سے حق بات سنتے نہیں اور اپنی زبانوں سے حق بات بولتے نہیں، اس لئے وہ ایسے ہی ہیں جیسے گونگے اور بہرے ہوتے ہیں، علاوہ ازیں یہ کفر اور ضلالت کی تاریکیوں میں بھی گھرے ہوئے ہیں۔ اس لئے انھیں کوئی چیز نظر نہیں آتی جس سے ان کی اصلاح ہو سکے۔ پس ان کے حواس گویا مسلوب ہوگئے جن سے کسی حال میں وہ فائدہ نہیں اٹھا سکتے

مَنْ يَشَإِ اللَّهُ يُضْلِلْهُ وَمَنْ يَشَأْ يَجْعَلْهُ عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (۳۹)

اللہ جس کو چاہے بے راہ کر دے‘جس کو چاہے سیدھی راہ پر لگا دے۔‏

 پھر فرمایا تمام اختیارات اللہ کے ہاتھ میں ہیں وہ جسے چاہے گمراہ کردے اور جسے چاہے سیدھی راہ پر لگا دے لیکن اس کا یہ فیصلہ یوں ہی الل ٹپ نہیں ہو جاتا بلکہ عدل وانصاف کے تقاضوں کے مطابق ہوتا ہے گمراہ اسی کو کرتا ہے جو خود گمراہی میں پھنسا ہوتا ہے اس سے نکلنے کی وہ سعی کرتا ہے نہ نکلنے کو وہ پسند ہی کرتا ہے مزید دیکھئے سورہ بقرہ آیت ۲٦ کا حاشیہ

قُلْ أَرَأَيْتَكُمْ إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ أَغَيْرَ اللَّهِ تَدْعُونَ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (۴۰)

آپ کہئے کہ اپنا حال تو بتلاؤ کہ اگر تم پر اللہ کا کوئی عذاب آپڑے یا تم پر قیامت ہی آپہنچے تو کیا اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے۔ اگر تم سچے ہو۔‏

بَلْ إِيَّاهُ تَدْعُونَ فَيَكْشِفُ مَا تَدْعُونَ إِلَيْهِ إِنْ شَاءَ وَتَنْسَوْنَ مَا تُشْرِكُونَ (۴۱)

بلکہ خاص اسی کو پکارو گے، پھر جسکے لئے تم پکارو گے اگر وہ چاہے تو اسکو ہٹا بھی دے اور جنکو شریک ٹھہراتے ہو ان سب کو بھول بھال جاؤ گے

أَرَأَيْتَكُمْ میں کاف اور میم خطاب کے لیے ہے اس کے معنی’ مجھے بتلاؤ یا خبر دو‘ کے ہیں۔ اس مضمون کو بھی قرآن کریم میں کئی جگہ بیان کیا گیا ہے (دیکھئے سورۃء بقرہ آیت ٥٦١ کا حاشیہ)

اس کا مطلب یہ ہوا کہ توحید انسانی فطرت کی آواز ہے۔ انسان ماحول، یا آباؤ اجداد کی مشرکانہ عقائد و اعمال میں مبتلا رہتا ہے اور غیر اللہ کو اپنا حاجت روا و مشکل کشا سمجھتا رہتا ہے۔ نذر نیاز بھی انہی کے نام نکالتا ہے لیکن جب کسی مصیبت سے دو چار ہوتا ہے تو پھر سب بھول جاتا ہے اور فطرت ان سب پر غالب آجاتی ہے اور بے اختیار پھر اسی ذات کو پکارتا ہے جس کو پکارنا چاہیئے۔

کاش لوگ اسی فطرت پر قائم رہیں کہ نجات اخروی تو مکمل طور پر اسی صدائے فطرت یعنی توحید کے اختیار کرنے میں ہی ہے۔

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَى أُمَمٍ مِنْ قَبْلِكَ فَأَخَذْنَاهُمْ بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ (۴۲)

اور ہم نے اور امتوں کی طرف بھی جو کہ آپ سے پہلے گزر چکی ہیں پیغمبر بھیجے تھے، سو ہم نے ان کو تنگدستی اور بیماری سے پکڑا، تاکہ وہ اظہار عجز کر سکیں۔‏

فَلَوْلَا إِذْ جَاءَهُمْ بَأْسُنَا تَضَرَّعُوا

سو جب ان کو ہماری سزا پہنچتی تھی تو انہوں نے عاجزی کیوں اختیار نہیں کی،

وَلَكِنْ قَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (۴۳)

لیکن ان کے قلوب سخت ہوگئے اور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے خیال میں آراستہ کر دیا

قومیں جب اخلاق و کردار کی پستی میں مبتلا ہو کر اپنے دلوں کو زنگ آلود کر لیتی ہیں تو اس وقت اللہ کے عذاب انھیں خواب غفلت سے بیدار کرنے اور جھنجھوڑنے میں ناکام رہتے ہیں۔ پھر ان کے ہاتھ طلب مغفرت کے لئے اللہ کے سامنے نہیں اٹھتے ہیں دل اس کی بارگاہ میں نہیں جھکتے اور ان کے رخ اصلاح کی طرف نہیں مڑتے بلکہ اپنی بد اعمالیوں پر تاویلات اور توجیہات کے حسین غلاف چڑھا کر اپنے دل کو مطمئن کرلیتی ہیں۔

 اس آیت میں ایسی ہی قوموں کا وہ کردار بیان کیا گیا ہے جسے شیطان نے ان کے لئے خوبصورت بنا دیا ہے۔

فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ

پھر جب وہ لوگ ان چیزوں کو بھولے رہے جس کی ان کو نصیحت کی جاتی تھی تو ہم نے ان پر ہرچیز کے دروازے کشادہ کر دیئے

حَتَّى إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُمْ بَغْتَةً فَإِذَا هُمْ مُبْلِسُونَ (۴۴)

یہاں تک کہ جب ان چیزوں پر جو کہ ان کو ملی تھیں وہ خوب اترا گئے ہم نے ان کو دفعتاً پکڑ لیا، پھر تو وہ بالکل مایوس ہوگئے۔‏

فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا ۚ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (۴۵)

پھر ظالم لوگوں کی جڑ کٹ گئی اور اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جو تمام عالم کا پروردگار ہے۔

اس میں خدا فراموش قوموں کی بابت اللہ تعالیٰ یہی بیان فرماتا ہے کہ ہم بعض دفعہ وقتی طور پر ایسی قوموں پر دنیا کی آسائشوں اور فراوانیوں کے دروازے کھول دیتے ہیں، یہاں تک کہ جب اس میں خوب مگن ہو جاتی ہیں اور اپنی مادی خوش حالی و ترقی پر اترانے لگ جاتی ہیں تو پھر ہم اچانک انھیں اپنے مؤاخذے کی گرفت میں لے لیتے ہیں اور جڑ ہی کاٹ کر رکھ دیتے ہیں۔

حدیث میں بھی آتا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

 جب تم دیکھو کہ اللہ تعالیٰ نافرمانیوں کے باوجود کسی کو اس کی خواہشات کے مطابق دنیا دے رہا ہے تو یہ استدراج (ڈھیل دینا) ہے۔ پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی،

 قرآن کریم کی آیت اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم ہوا کہ دنیاوی ترقی اور خوشحالی اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ جس فرد یا قوم کو یہ حاصل ہو تو وہ اللہ کی چہیتی اور اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہے جیسا کہ بعض لوگ ایسا سمجھتے ہیں بلکہ بعض تو انھیں  ان الارض یرثھا عبادی الصلحون کے مصداق قرار دیکر انھیں اللہ کے نیک بندے تک قرار دیتے ہیں‘  ایسا سمجھنا اور کہنا غلط ہے۔ گمراہ قوموں یا افراد کی دنیاوی خوش حالی ابتلا اور مہلت کے طور پر ہے نہ کہ یہ ان کے کفر و معاصی کا صلہ ہے۔

قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَخَذَ اللَّهُ سَمْعَكُمْ وَأَبْصَارَكُمْ وَخَتَمَ عَلَى قُلُوبِكُمْ مَنْ إِلَهٌ غَيْرُ اللَّهِ يَأْتِيكُمْ بِهِ ۗ

آپ کہئے کہ یہ بتلاؤ اگر اللہ تعالیٰ تمہاری سماعت اور بصارت بالکل لے لے اور تمہارے دلوں پر مہر کر دے تو اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی معبود نہیں ہے کہ یہ تم کو پھیر دے۔

انْظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ ثُمَّ هُمْ يَصْدِفُونَ (۴۶)

 آپ دیکھئے تو ہم کس طرح دلائل کو مختلف پہلوؤں سے پیش کر رہے ہیں پھر بھی یہ اعراض کرتے ہیں ۔

آنکھیں کان اور دل، یہ انسان کے نہایت اہم اعضا ہیں۔

اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ اگر وہ چاہے تو ان کی وہ خصوصیات سلب کر لے، جو اللہ نے ان کے اندر رکھی ہیں یعنی سننے دیکھنے اور سمجھنے کی خصوصیات، جس طرح کافروں کے یہ اعضا ان خصوصیات سے محروم ہوتے ہیں۔

یا اگر وہ چاہے تو اعضا کو ویسے ہی ختم کر دے، وہ دونوں ہی باتوں پر قادر ہے، اس کی گرفت سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ مگر یہ کہ وہ خود کسی کو جچانا چاہے

 آیات کو مختلف پہلووں سے پیش کرنے کا مطلب ہے کبھی انذار وتبشیر اور ترغیب و ترہیب کے ذریعے سے اور کبھی کسی اور ذریعے سے۔

قُلْ أَرَأَيْتَكُمْ إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ بَغْتَةً أَوْ جَهْرَةً هَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الظَّالِمُونَ (۴۷)

آپ کہئے کہ یہ بتلاؤ اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آپڑے خواہ اچانک یا اعلانیہ تو کیا بجز ظالم لوگوں کے اور بھی کوئی ہلاک کیا جائے گا ۔

 بَغْتَة بےخبری سے مراد رات اور  جَهْرَة خبر داری سے دن مراد ہے جسے سورہ یونس میں  بَیَاتًا اَوْ نَہَارًا سے تعبیر کیا گیا ہے یعنی دن کو عذاب آ جائے یا رات کو

یا پھر  بَغْتَة وہ عذاب ہے جو اچانک بغیر تمہید اور مقدمات کے آ جائے اور  جَهْرَة وہ عذاب جو تمہید اور مقدمات کے بعد آئے۔

یہ عذاب جو قوموں کی ہلاکت کے لئے آتا ہے۔ ان ہی پر آتا ہے جو ظالم ہوتی ہیں یعنی کفر و طغیان اور معصیت الٰہی میں حد سے تجاور کر جاتی ہیں۔

وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ ۖ

اور ہم پیغمبروں کو صرف اس واسطے بھیجا کرتے ہیں کہ وہ بشارت دیں اور ڈرائیں

وہ اطاعت گزاروں کو ان نعمتوں اور اجر جلیل کی خوشخبری دیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے جنت کی صورت میں ان کے لئے تیار کر رکھی ہے اور نافرمانوں کو ان عذابوں سے ڈراتے ہیں جو اللہ نے ان کے لئے جہنم کی صورت میں تیار کئے ہوئے ہیں۔

فَمَنْ آمَنَ وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (۴۸)

پھر جو ایمان لے آئے وہ درستی کر لے سو ان لوگوں پر کوئی اندیشہ نہیں اور نہ وہ مغموم ہوں گے ۔

مستقبل (یعنی آخرت) میں پیش آنے والے حالات کا انھیں اندیشہ نہیں اور اپنے پیچھے دنیا میں جو کچھ چھوڑ آئے یا دنیا کی جو آسودگیاں وہ حاصل نہ کر سکے، اس پر مغموم نہیں ہوں گے کیونکہ دونوں جہانوں میں ان کا ولی اور کارساز وہ رب ہے جو دونوں جہانوں کا رب ہے۔

وَالَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا يَمَسُّهُمُ الْعَذَابُ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ (۴۹)

اور جو لوگ ہماری آیتوں کو جھوٹا بتلائیں عذاب پہنچے گا بوجہ اس کے کہ وہ نافرمانی کرتے ہیں ۔

یعنی عذاب اس لئے پہنچے گا کہ انہوں نے تکفیر اور تکذیب کا راستہ اختیار کیا، اللہ کی اطاعت اور اس کے اوامر کی پرواہ نہیں کی اور اس کی حرمتوں کو پامال کیا۔

قُلْ لَا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَيَّ ۚ

آپ کہہ دیجئے کہ نہ تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔

میں تو صرف جو کچھ میرے پاس ہے وحی آتی ہے اس کا اتباع کرتا ہوں

میرے پاس اللہ کے خزانے بھی نہیں (جس سے مراد ہر طرح کی قدرت و طاقت ہے) کہ میں تمہیں اللہ کے اذن و مشیت کے بغیر کوئی ایسا معجزه کر کے دکھا سکو، جیسا کہ تم چاہتے ہو، جسے دیکھ كر میری نبوت کا یقین ہوجائے،

 میرے پاس غیب کا علم بھی نہیں کہ مستقبل میں پیش آنے والے حالات سے تمہیں مطلع کردوں، مجھے فرشتہ ہونے کا بھی دعویٰ نہیں کہ تم مجھے ایسے امور پر مجبور کرو جو انسانی طاقت سے بالا ہوں۔ میں تو صرف اس وحی کا پیرو ہوں جو مجھ پر نازل ہوتی ہے

 اور اس میں حدیث بھی شامل ہے جیسا کہ آپ نے فرمایا:

 اوتیت القرآن و مثلہ معہ مجھے قرآن کے ساتھ اس کی مثل بھی دیا گیا

 یہ مثل حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہے۔

قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَى وَالْبَصِيرُ ۚ أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ (۵۰)

آپ کہئے کہ اندھا اور بینا کہیں برابر ہو سکتے ہیں (۱) سو کیا تم غور نہیں کرتے۔‏

یہ استفہام انکار کے لئے ہے یعنی اندھا اور بینا گمراہ اور ہدایت یافتہ اور مؤمن اور کافر برابر نہیں ہو سکتے۔

وَأَنْذِرْ بِهِ الَّذِينَ يَخَافُونَ أَنْ يُحْشَرُوا إِلَى رَبِّهِمْ ۙ لَيْسَ لَهُمْ مِنْ دُونِهِ وَلِيٌّ وَلَا شَفِيعٌ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ (۵۱)

اور ایسے لوگوں کو ڈرائیے جو اس بات سے اندیشہ رکھتے ہیں کہ اپنے رب کے پاس ایسی حالت میں جمع کئے جائیں گے کہ جتنے غیر اللہ ہیں نہ ان کا کوئی مددگار ہوگا اور نہ کوئی شفاعت کرنے والا، اس امید پر کہ وہ ڈر جائیں ۔

یعنی انذار کا فائدہ ایسے ہی لوگوں کو ہو سکتا ہے ورنہ جو بعث بعد الموت حشر نشر پر یقین ہی نہیں رکھتے وہ اپنے کفر و جحود پر ہی قائم رہتے ہیں۔

علاوہ ازیں اس میں ان اہل کتاب اور کافروں اور مشرکوں کا عقیدہ رہے کہ وہ اپنے آباؤ اجداد کے بتوں کو اپنا سفارشی سمجھتے تھے۔

 نیز کارساز اور سفارشی نہیں ہوگا کا مطلب‘ یعنی ان کے لئے جو عذاب جہنم کے مستحق قرار پا چکے ہوں گے۔ ورنہ مؤمنوں کے لئے اللہ کے نیک بندے، اللہ کے حکم سے سفارش کریں گے۔ یعنی شفاعت کی نفی اہل کفر و شرک کے لئے ہے اور اس کا اثبات ان کے لئے جو گناہ گار مؤمن و موحد ہوں گے، اسی طرح دونوں قسم کی آیات میں کوئی تعارض بھی نہیں رہتا۔

وَلَا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ ۖ

اور ان لوگوں کو نہ نکالئے جو صبح شام اپنے پروردگار کی عبادت کرتے ہیں، خاص اس کی رضامندی کا قصد رکھتے ہیں۔

مَا عَلَيْكَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِنْ شَيْءٍ وَمَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَيْهِمْ مِنْ شَيْءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُونَ مِنَ الظَّالِمِينَ (۵۲)

 ان کا حساب ذرا بھی آپ کے متعلق نہیں اور آپ کا حساب ذرا بھی ان کے متعلق نہیں کہ آپ ان کو نکال دیں۔ ورنہ آپ ظلم کرنے والوں میں سے ہوجائیں گے۔‏

یعنی یہ بےسہارا اور غریب مسلمان، جو بڑے اخلاص سے رات دن اپنے رب کو پکارتے ہیں یعنی اس کی عبادت کرتے ہیں، آپ مشرکیں کے اس طعن یا مطالبہ سے اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے ارد گرد تو غربا ءو فقرا ءکا ہی ہجوم رہتا ہے ذرا انھیں ہٹاؤ تو ہم بھی تمہارے پاس بیٹھیں، ان غربا ءکو اپنے سے دور نہ کرنا، بالخصوص جب کہ آپ کا کوئی احسان ان کے متعلق نہیں اور اگر ایسا کریں گے تو یہ ظلم ہوگا جو آپ کی شایان شان نہیں۔

مقصد اُمت کو سمجھانا ہے کہ بےوسائل لوگوں کو حقیر سمجھنا یا ان کی صحبت سے گریز کرنا اور وابستگی نہ رکھنا، یہ نادانوں کا کام ہے۔ اہل ایمان کا نہیں۔

اہل ایمان تو اہل ایمان سے محبت رکھتے ہیں چاہے وہ غریب اور مسکین ہی کیوں نہ ہو۔

وَكَذَلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لِيَقُولُوا أَهَؤُلَاءِ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنْ بَيْنِنَا ۗ

اور اسی طرح ہم نے بعض کو بعض کے ذریعہ سے آزمائش میں ڈال رکھا ہے تاکہ یہ لوگ کہا کریں، کیا یہ وہ لوگ ہیں کہ ہم سب میں سے ان پر اللہ تعالیٰ نے فضل کیا

ابتدا ءمیں اکثر غریب، غلام قسم کے لوگ ہی مسلمان ہوئے تھے۔ اس لئے یہی چیز رؤسائے کفار کی آزمائش کا ذریعہ بن گئی اور وہ ان غریبوں کا مذاق بھی اڑاتے اور جن پر ان کا بس چلتا انھیں تعزیب و اذیت سے بھی دوچار کرتے اور کہتے کہ کیا یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے احسان فرمایا؟

مقصد ان کا یہ تھا کہ ایمان اور اسلام پر واقع اللہ کا احسان ہوتا تو سب سے پہلے ہم پر ہوتا جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا :

لَوْ كَانَ خَيْرًا مَا سَبَقُونَا إِلَيْهِ (۴۶:۱۱)

اگر یہ بہتر چیز ہوتی تو اس کے قبول کرنے میں یہ ہم سے سبقت نہ کرتے '

یعنی ان غربا کے مقابلے میں ہم پہلے مسلمان ہوتے۔

أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِالشَّاكِرِينَ (۵۳)

کیا یہ بات نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ شکرگزاروں کو خوب جانتا ہے

یعنی اللہ تعالیٰ ظاہری چمک دمک ٹھاٹھ باٹھ اور رئیسانہ کروفر وغیرہ نہیں دیکھتا، وہ تو دلوں کی کیفیت کو دیکھتا ہے اور اس اعتبار سے وہ جانتا ہے اس کے شکرگزار بندے اور حق سناش کون ہیں؟

 پس اس نے جن کے اندر شکر گزاری کی خوبی دیکھی، انھیں ایمان کی سعادت سے سرفراز کر دیا جس طرح حدیث میں آتا ہے :

اللہ تعالیٰ تمہاری صورتیں اور تمہارے رنگ نہیں دیکھتا وہ تو تمہارے دل اور تمہارے عمل دیکھتا ہے ۔

وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ ۖ

یہ لوگ جب آپ کے پاس آئیں جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں تو (یوں) کہہ دیجئے کہ تم پر سلامتی ہے

یعنی ان پر سلام کر کے یا ان کے سلام کا جواب دے کر ان کی تکریم اور قدر افزائی کریں۔

كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ۖ

تمہارے رب نے مہربانی فرمانا اپنے ذمہ مقرر کر لیا ہے

اور انھیں خوشخبری دیں کہ فضل و احسان کے طور پر اللہ تعالیٰ نے اپنے شکر گزار بندوں پر اپنی رحمت کرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ جس طرح حدیث میں آتا ہے:

 جب اللہ تعالیٰ تخلیق کائنات سے فارغ ہوگیا تو اس نے عرش پر لکھ دیا  انَّ رَحْمَتِیْ تَغْلِبُ میری رحمت، میرے غضب پر غالب ہے۔(صحیح بخاری و مسلم)

أَنَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوءًا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَصْلَحَ فَأَنَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (۵۴)

کہ جو شخص تم میں سے برا کام کر بیٹھے جہالت سے پھر وہ اس کے بعد توبہ کر لے اور اصلاح رکھے تو اللہ (کی یہ شان ہے کہ وہ) بڑی مغفرت کرنے والا ہے

اس میں بھی اہل ایمان کے لئے بشارت ہے کیونکہ ان ہی کی یہ صفت ہے اگر نادانی یا برضائے بشریت کسی گناہ کا ارتکاب کر بیٹھے تو پھر فوراً توبہ کر کے اپنی صلاح کر لیتے ہیں۔ گناہ پر اصرار اور دوام اور توبہ انابت سے روگردانی نہیں کرتے۔

وَكَذَلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ وَلِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ (۵۵)

اسی طرح ہم آیات کی تفصیل کرتے رہتے ہیں اور تاکہ مجرمین کا طریقہ ظاہر ہو جائے۔‏

قُلْ إِنِّي نُهِيتُ أَنْ أَعْبُدَ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ۚ

آپ کہہ دیجئے کہ مجھ کو اس سے ممانعت کی گئی ہے کہ ان کی عبادت کروں جن کو تم لوگ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر پکارتے ہو۔

قُلْ لَا أَتَّبِعُ أَهْوَاءَكُمْ ۙ قَدْ ضَلَلْتُ إِذًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُهْتَدِينَ (۵۶)

آپ کہہ دیجئے کہ میں تمہاری خواہشات کی اتباع نہ کروں گا کیونکہ اس حالت میں تو میں بےراہ ہو جاؤں گا اور راہ راست پر چلنے والوں میں نہ رہوں گا ۔

یعنی اگر میں بھی تمہاری طرح اللہ کی عبادت کرنے کی بجائے، تمہاری خواہشات کے مطابق غیر اللہ کی عبادت شروع کردوں تو یقیناً میں بھی گمراہ ہو جاؤں گا۔

مطلب یہ ہے کہ غیر اللہ کی عبادت و پرستش، سب سے بڑی گمراہی ہے لیکن بد قسمتی سے یہ گمراہی اتنی عام ہے۔ حتٰی کے مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد اس میں مبتلا ہے۔ ھداھم اللہ تعالیٰ

قُلْ إِنِّي عَلَى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّي وَكَذَّبْتُمْ بِهِ ۚ

آپ کہہ دیجئے کہ میرے پاس تو ایک دلیل ہے میرے رب کی طرف سے اور تم اس کی تکذیب ہو،

مراد وہ شریعت ہے جو وحی کے ذریعے سے آپ پر نازل کی گئی، جس میں توحید کو اولین حیثیت حاصل ہے۔

 ان اللہ لا ینظر الی صورکم ولا الی اموالکم ولکن ینظر الی قلوبکم واعمالکم  

(صحیح مسلم)

مَا عِنْدِي مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِهِ ۚ

جس چیز کی تم جلد بازی کر رہے ہو وہ میرے پاس نہیں

إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۖ يَقُصُّ الْحَقَّ ۖ وَهُوَ خَيْرُ الْفَاصِلِينَ (۵۷)

حکم کسی کا نہیں بجز اللہ تعالیٰ کے (۱) اللہ تعالیٰ واقعی بات کو بتلا دیتا ہے (۲) اور سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا وہی ہے۔‏

۱۔  تمام کائنات پر اللہ ہی کا حکم چلتا ہے اور تمام معاملات اس کے ہاتھ میں ہیں۔ اس لئے تم جو چاہتے ہو کہ جلدی اللہ کا عذاب تم پر آجائے تاکہ تمہیں میری صداقت کا پتہ چل جائے، تو یہ بھی اللہ ہی کے اختیار میں ہے، وہ اگر چاہے تو تمہاری خواہش کے مطابق جلدی عذاب بھیج کر تمہیں متنبہ کر دے اور چاہے تو اس وقت تک مہلت دے دے جب تک اس کی حکمت اس کی متقضی ہو۔

۲۔   يَقُصُّ ، قَصَصْ سے ہے یعنی  يَقُصُّ ،  قَصَصْ الْحَق حق باتیں بیان کرتا یا بتلاتا ہے یا  قص اثرہ (کسی کے پیچھے پیروی کرنا) سے ہے یعنی اپنے فیصلوں میں وہ حق کی پیروی کرتا ہے یعنی حق کے مطابق فیصلے کرتا ہے ۔ (فتح القدیر)

قُلْ لَوْ أَنَّ عِنْدِي مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِهِ لَقُضِيَ الْأَمْرُ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۗ

آپ کہہ دیجئے کہ اگر میرے پاس وہ چیز ہوتی جس کا تم تقاضا کر رہے ہو تو میرا اور تمہارا باہمی قصہ فیصل (١) ہو چکا ہوتا

یعنی اگر اللہ تعالیٰ میرے طلب کرنے پر فوراً عذاب بھیج دیتا یا اللہ میرے اختیار یہ چیز دے دیتا تو پھر تمہاری خواہش کے مطابق عذاب بھیج کر جلدی ہی یہ فیصلہ کر دیا جاتا۔ لیکن یہ معاملہ چونکہ اللہ کی مشیت پر موقوف ہے اس لئے اس نے مجھے اس کا اختیار دیا ہے اور نہ ہی ممکن ہے کہ میری درخواست پر فوراً عذاب نازل ہو۔

ضروری وضاحت :

حدیث میں جو آتا ہے:

ایک موقع پر اللہ کے حکم سے پہاڑوں کا فرشتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور اس نے کہا کہ اگر آپ حکم دیں تو میں ساری آبادی کو دونوں پہاڑوں کے درميان کچل دوں آپ نے فرمایا:

 نہیں، بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسلوں سے اللہ کی عبادت کرنے والے پیدا فرمائے گا جو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے ۔ (صحیح مسلم)

یہ حدیث آیت زیر وضاحت کے خلاف نہیں ہے جیسا کہ بظاہر معلوم ہوتی ہے اس لیے کہ آیت میں عذاب طلب کرنے پر عذاب دینے کا اظہار ہے جبکہ اس حدیث میں مشرکین کے طلب کیے بغیر صرف ان کی ایذا دہی کی وجہ سے ان پر عذاب بھیجنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند نہیں فرمایا۔

وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِالظَّالِمِينَ (۵۸)

اور ظالموں کو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔‏

وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ ۚ

اور اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہیں غیب کی کنجیاں (خزانے) ان کو کوئی نہیں جانتا بجز اللہ تعالیٰ کے

وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۚ

 اور وہ تمام چیزوں کو جانتا ہے جو کچھ خشکی میں ہے اور جو کچھ دریاؤں میں ہے

وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ

 اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر وہ اس کو بھی جانتا ہے اور کوئی دانا زمین کے تاریک حصوں میں پڑتا

وَلَا رَطْبٍ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ (۵۹)

اور نہ کوئی تر اور نہ کوئی خشک چیز گرتی ہے مگر یہ سب کتاب مبین میں ہیں

 كِتَابٍ مُبِينٍ سے مراد لوح محفوظ ہے۔

 اس آیت سے بھی معلوم ہوا کہ عالم الغیب صرف اللہ کی ذات ہے غیب کے سارے خزانے اسی کے پاس ہیں اس لئے کفار و مشرکین اور معاندین کو کب عذاب دیا جائے؟

اس کا علم بھی صرف اسی کو ہے اور وہی اپنی حکمت کے مطابق فیصلہ کرنے والا ہے۔

حدیث میں آتا ہے :

 مفاتح الغیب پانچ ہیں

- قیامت کا علم،

- بارش کا نزول،

-  رحم مادر میں پلنے والا بچہ،

- آئندہ کل میں پیش آنے والے واقعات

-  اور موت کہاں آئے گی۔

ان پانچوں کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔  (صحیح بخاری)

وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ

اور وہ ایسا ہے کہ رات میں تمہاری روح کو (ایک گونہ) قبض کر دیتا ہے

یہاں نیند کو وفات سے تعبیر کیا گیا ہے، اسی لئے اسے وفات اصغر اور موت کو وفات اکبر کہا جاتا ہے ۔

(وفات کی وضاحت کے لئے دیکھئے آل عمران کی آیت ٥٥ کا حاشیہ)

وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ لِيُقْضَى أَجَلٌ مُسَمًّى ۖ

اور جو کچھ تم دن میں کرتے ہو اس کو جانتا ہے پھر تم کو جگا اٹھاتا ہے (۱) تاکہ میعاد معین تمام کر دی جائے (٢)

۱۔ یعنی دن کے وقت روح واپس لوٹا کر زندہ کر دینا ہے۔

۲۔  یعنی یہ سلسلہ شب و روز اور وفات اصغر سے ہمکنار ہو کر دن کو پھر اٹھ کر کھڑے ہونے کا معمول، انسان کی وفات اکبر تک جاری رہے گا

ثُمَّ إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ يُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (۶۰)

پھر اسی کی طرف تم کو جانا ہے پھر تم کو بتلائے گا جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔‏

یعنی پھر قیامت والے دن زندہ ہو کر سب کو اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے۔

وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ ۖ

اور وہی اپنے بندے کے اوپر غالب ہے برتر ہے

وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُونَ (۶۱)

اور تم پر نگہداشت رکھنے والا بھیجتا ہے یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت آپہنچتی ہے، اس کی روح ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے قبض کر لیتے ہیں اور وہ ذرا کوتاہی نہیں کرتے ۔

یعنی اپنے اس مفوضہ کام میں اور روح کی حفاظت میں بلکہ وہ فرشتہ، مرنے والا اگر نیک ہوتا ہے تو اس کی روح  عِلِّیِّیْنَ میں اور اگر بد ہے تو  سِجِّیْنَ میں بھیج دیتا ہے۔

ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلَاهُمُ الْحَقِّ ۚ

پھر سب اپنے مالک حقیقی کے پاس لائے جائیں گے

آیت میں  رُدُّوا (لوٹائے جائیں گے) کا مرجع بعض نے فرشتوں کو قرار دیا ہے۔ یعنی قبض روح کے بعد فرشتے اللہ کی بارگاہ لوٹ جاتے ہیں۔ اور بعض نے اس کا مرجع تمام لوگوں کو بنایا ہے۔ یعنی سب لوگ حشر کے بعد اللہ کی بارگاہ میں لوٹائے جائیں گے (پیش کئے جائیں گے) پھر وہ سب کا فیصلہ فرمائے گا۔

آیت میں روح قبض کرنے والے فرشتوں کو  رسل (جمع کے صیغے کے ساتھ) بیان کیا ہے جس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ روح قبض کرنے والا فرشتہ ایک نہیں متعدد ہیں۔ اس کی تشریح بعض مفسرین نے اسطرح کی ہے کہ قرآن مجید میں روح قبض کرنے کی نسبت اللہ کی طرف بھی ہے۔  اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا  (الزمر۔ ۴۲)" اللہ لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کر لیتا ہے "

اور اس کی نسبت ایک فرشتے (ملک الموت) کی طرف بھی کی گئی ہے ـ  قُلْ يَتَوَفَّاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ (الم السجدہ۔ ۱۱) ' کہہ دو تمہاری روحیں وہ فرشتہ موت قبض کرتا ہے جو تمہارے لئے مقرر کیا گیا ہے '

اور اس کی نسبت متعدد فرشتوں کی طرف بھی کی گئی ہے، جیسا کہ اس مقام پر ہے اور اسی طرح سورہ نساء آیت ٩٧ اور الانعام آیت ٩٣ میں بھی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کی طرف اس کی نسبت اس لحاظ سے ہے کہ وہی اصل امر (حکم دینے والا) بلکہ فاعل حقیقی ہے۔

 متعدد فرشتوں کی طرف نسبت اس لحاظ سے ہے کہ وہ ملک الموت کے مددگار ہیں وہ رگوں شریانوں پٹھوں سے روح نکالنے اور اس کا تعلق ان تمام چیزوں سے کاٹنے کا کام کرتے ہیں اور ملک الموت کی طرف نسبت کے معنی یہ ہیں کہ پھر آخر میں وہ روح قبض کر کے آسمانوں کی طرف لے جاتا ہے۔ (تفسیر روح المعانی جلد ۵ )

حافظ ابن کثیر امام شوکانی اور جمہور علماء اس بات کے قائل ہیں کہ ملک الموت ایک ہی ہے جیسا کہ سورہ الم السجدہ کی آیت سے

 اور مسند احمد میں حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے اور جہاں جمع کے صیغے میں ان کا ذکر ہے تو وہ اس کے اعوان و انصار ہیں اور بعض آثار میں ملک الموت کا نام عزرائیل بتلایا گیا ہے واللہ اعلم ۔  تفسیر ابن کثیر

أَلَا لَهُ الْحُكْمُ وَهُوَ أَسْرَعُ الْحَاسِبِينَ (۶۲)

خوب سن لو فیصلہ اللہ ہی کا ہوگا اور وہ بہت جلد حساب لے گا۔‏

قُلْ مَنْ يُنَجِّيكُمْ مِنْ ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ

آپ کہئے کہ وہ کون ہے جو تم کو خشکی اور دریا کی ظلمات سے نجات دیتا ہے۔

تَدْعُونَهُ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً لَئِنْ أَنْجَانَا مِنْ هَذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ (۶۳)

تم اس کو پکارتے ہو تو گڑگڑا کر اور چپکے چپکے کہ اگر تو ہم کو ان سے نجات دے دے تو ہم ضرور شکر کرنے والوں میں سے ہوجائیں گے۔‏

قُلِ اللَّهُ يُنَجِّيكُمْ مِنْهَا وَمِنْ كُلِّ كَرْبٍ ثُمَّ أَنْتُمْ تُشْرِكُونَ (۶۴)

آپ کہہ دیجئے کہ اللہ ہی تم کو ان سے نجات دیتا ہے اور ہر غم سے، تم پھر بھی شرک کرنے لگتے ہو۔‏

قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُمْ بَأْسَ بَعْضٍ ۗ

آپ کہئیے کہ اس پر بھی وہی قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب تمہارے لئے بھیج دے (١) یا تو تمہارے پاؤں تلے سے (٢) یا کہ تم کو گروہ گروہ کر کے سب کو بھڑا دے اور تمہارے ایک کو دوسرے کی لڑائی چکھا دے (٣)

۱۔ یعنی آسمان، جیسے بارش کی کثرت، یا ہوا، پتھر کے ذریعے سے عذاب یا امرا اور احکام کی طرف سے ظلم و ستم۔

۲۔ جیسے دھنسا جانا، طوفانی سیلاب، جس میں سب کچھ غرق ہو جائے۔

یا مراد ہے ماتحتوں، غلاموں اور نوکروں چاکروں کی طرف سے عذاب کہ وہ بدیانت اور خائن ہوجائیں۔

۳۔ یاتمہارے معاملے کو غلط ملط یا مشتبہ کردے جس کی وجہ سے تم گروہوں اور جماعتوں میں بٹ جاؤ اور تمہارا ایک دوسرے کو قتل کرنا اس طرح ہر گروہ دوسرے گروہ کی لڑائی کا مزہ چکھے۔

حدیث میں آتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے تین دعائیں کیں

- میری امت غرق کے ذریعے ہلاک نہ کی جائے

- قحط عام کے ذریعے اس کی تباہی نہ ہو۔

اللہ تعالیٰ نے پہلی دو دعائیں قبول فرمالیں اور تیسری دعا سے مجھے روک دیا گیا ۔ (صحیح مسلم، نمبر٢٢١٦)

یعنی اللہ تعالیٰ کے علم میں یہ بات تھی کہ امت محمدیہ میں اختلاف و الشقاق واقع ہوگا اور اس کی وجہ اللہ کی نافرمانی اور قرآن پاک و حدیث سے اعراض (منہ پھیرنا) ہوگا جس کے نتیجے میں عذاب کی اس صورت سے امت محمدیہ بھی محفوظ نہ رہ سکے گی۔

 گویا اس کا تعلق اس سنت اللہ سے ہے جو قوموں کے اخلاق و کردار کے بارے میں ہمیشہ رہی ہے جس میں تبدیلی ممکن نہیں۔

فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَبْدِيلًا ۖ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا (فاطر۔۴۳)

انْظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ (۶۵)

آپ دیکھئے تو سہی ہم کس طرح دلائل مختلف پہلوؤں سے بیان کرتے ہیں۔ شاید وہ سمجھ جائیں۔‏

وَكَذَّبَ بِهِ قَوْمُكَ وَهُوَ الْحَقُّ ۚ قُلْ لَسْتُ عَلَيْكُمْ بِوَكِيلٍ (۶۶)

اور آپ کی قوم اس کی تکذیب کرتی ہے حالانکہ وہ یقینی ہے۔ آپ کہہ دیجئے کہ میں تم پر تعینات نہیں کیا گیا ہوں

 بِهِ کا مرجع قرآن ہے یا عذاب ۔فتح القدیر

یعنی مجھے اس امر کا مکلف نہیں کیا گیا ہے کہ میں تمہیں ہدایت کے راستے پر لگا کر ہی چھوڑوں۔ بلکہ میرا کام صرف دعوت و تبلیغ ہے۔

فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ  (الکھف۔۲۹)

لِكُلِّ نَبَإٍ مُسْتَقَرٌّ ۚ وَسَوْفَ تَعْلَمُونَ (۶۷)

ہر خبر (کے وقوع) کا ایک وقت ہے جلد ہی تم کو معلوم ہو جائے گا۔‏

وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ ۚ

اور جب آپ ان لوگوں کو دیکھیں جو ہماری آیات میں عیب جوئی کر رہے ہیں تو ان لوگوں سے کنارہ کش ہوجائیں یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں لگ جائیں

وَإِمَّا يُنْسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَى مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ (۶۸)

 اور اگر آپ کو شیطان بھلا دے تو یاد آنے کے بعد پھر ایسے ظالم لوگوں کے ساتھ مت بیٹھیں

آیت میں خطاب اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے لیکن مخاطب امت مسلمہ کا ہر فرد ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ایک تاکیدی حکم ہے جسے قرآن مجید میں متعدد جگہ بیان کیا گیا ہے۔ سورہ نساء آیت نمبر ١٤٠ میں بھی مضموں گزر چکا ہے۔

 اس سے ہر وہ مجلس مراد ہے جہاں اللہ رسول کے احکام کا مذاق اڑایا جا رہا ہو۔ یا عملا ًان کا استخفاف کیا جارہا ہو یا اہل بدعت و اہل زیغ اپنی تاویلات رکیکہ اور توجیہات نحیفہ کے ذریعے سے آیات الہی کو توڑ مروڑ رہے ہوں ایسی مجالس میں غلط باتوں پر تنقید کرنے اور کلمہ حق بلند کرنے کی نیت سے تو شرکت جائز ہے بصورت دیگر سخت گناہ اور غضب الہی کا باعث ہے۔

وَمَا عَلَى الَّذِينَ يَتَّقُونَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِنْ شَيْءٍ وَلَكِنْ ذِكْرَى لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ (۶۹)

اور جو لوگ پرہیزگار ہیں ان پر انکی باز پرس کا کوئی اثر نہ پہنچے گا (١) اور لیکن ان کے ذمہ نصیحت کر دینا ہے شاید وہ بھی تقویٰ اختیار کریں (٢)۔‏

۱۔  مِنْ حِسَابِهِمْ کا تعلق آیات الٰہی کا استہزاد (جھٹلانے) کرنے والوں سے ہے۔

یعنی وہ لوگ جو ایسی مجالس سے اجتناب کریں گے کہ اللہ کا جو گناہ استہزاد کرنے والوں کو ملے گا وہ اس گناہ سے محفوظ رہیں گے۔

۲۔  یعنی اجتناب و علیحدگی کے باوجود وعظ و نصیحت اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ حتی المقدر ادا کرتے رہیں۔ شاید وہ بھی اپنی اس حرکت سے باز آجائیں۔

وَذَرِ الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَهُمْ لَعِبًا وَلَهْوًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا ۚ

اور ایسے لوگوں سے بالکل کنارہ کش رہیں جنہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشہ بنا رکھا ہے اور دنیوی زندگی نے انھیں دھوکا میں ڈال رکھا ہے

وَذَكِّرْ بِهِ أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِمَا كَسَبَتْ لَيْسَ لَهَا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلِيٌّ وَلَا شَفِيعٌ وَإِنْ تَعْدِلْ كُلَّ عَدْلٍ لَا يُؤْخَذْ مِنْهَا ۗ

اور اس قرآن کے ذریعے سے نصیحت بھی کرتے ہیں تاکہ کوئی شخص اپنے کردار میں (اس طرح) پھنس نہ جائے (١) کہ کوئی غیر اللہ اس کا نہ مددگار ہو اور نہ سفارشی

اور یہ کیفیت ہو کہ اگر دنیا بھر کا معاوضہ بھی دے ڈالے تب بھی اس سے نہ لیا جائے (٢)

 تُبْسَلَ ، کے اصل معنی تو منع کے ہیں اسی سے ہے لیکن یہاں اس کے مختلف معنی کیے گئے ہیں۔

-  تُسَلَّمُ سونپ دیئے جائیں۔

-  تُفْضَحُ رسوا کردیا جا‏ئے

-  تُؤَاخَذُ مؤاخذہ کیا جائے۔

-  تُجَازی بدلہ دیا جائے

 امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ سب کے معنی قریب قریب ہیں۔

امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ انھیں اس قرآن کے ذریعے نصیحت کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ نفس کو، جو اس نے کما یا، اس کے بدلے ہلاکت کے سپرد کر دیا جائے۔ یا رسوائی اس کا مقدر بن جائے یا وہ مواخذہ اور مجازات کی گرفت میں آجائے۔

 ان تمام مفہوم کو فاضل مترجم نے " پھنس نہ جائے "سے تعبیر کیا ہے۔

٧٠۔٢ دنیا میں انسان عام طور پر کسی دوست کی مدد یا کسی کی سفارش سے مالی معاوضہ دے کر چھوٹ جاتا ہے۔ لیکن آخرت میں یہ تینوں ذریعے کام نہیں آئیں گے، وہاں کافروں کا کوئی دوست نہ ہوگا جو انھیں اللہ کی گرفت سے بچا لے نہ کوئی سفارشی ہوگا جو عذاب الٰہی سے نجات دلا دے اور نہ کسی کے پاس معاوضہ ہوگا اگر بالفرض محال ہو بھی تو قبول نہیں کیا جائے گا کہ وہ دے کر چھوٹ جائے،یہ مضمون قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان ہوا ہے۔

أُولَئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِمَا كَسَبُوا ۖ

ایسے ہی ہیں کہ اپنے کردار کے سبب پھنس گئے،

لَهُمْ شَرَابٌ مِنْ حَمِيمٍ وَعَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْفُرُونَ (۷۰)

ان کے لئے نہایت گرم پانی پینے کے لئے ہوگا اور دردناک سزا ہوگی اپنے کفر کے سبب۔‏

قُلْ أَنَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنْفَعُنَا وَلَا يَضُرُّنَا

آپ کہہ دیجئے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا ایسی چیز کو پکاریں کہ وہ نہ ہم کو نفع پہنچائے اور نہ ہم کو نقصان پہنچائے

وَنُرَدُّ عَلَى أَعْقَابِنَا بَعْدَ إِذْ هَدَانَا اللَّهُ

 کیا ہم الٹے پھر جائیں اسکے بعد کہ ہم کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کر دی ہے،

كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّيَاطِينُ فِي الْأَرْضِ حَيْرَانَ لَهُ أَصْحَابٌ يَدْعُونَهُ إِلَى الْهُدَى ائْتِنَا ۗ

 جیسے کوئی شخص ہو کہ اس کو شیطان نے کہیں جنگل میں بےراہ کر دیا ہو اور وہ بھٹکتا پھرتا ہو اس کے ساتھی بھی ہوں کہ ہمارے پاس آ۔

یہ ان لوگوں کی مثال بیان فرمائی ہے جو ایمان کے بعد کفر اور توحید کے بعد شرک کی طرف لوٹ جائیں ان کی مثال ایسے ہی ہے کہ ایک شخص اپنے ساتھیوں سے بچھڑ جائے جو سیدھے راہ پر جا رہے ہوں۔ اور بچھڑ جانے والا جنگلوں میں حیران و پریشان بھٹکتا پھر رہا ہو، ساتھی اسے بلا رہے ہوں لیکن حیرانی میں اسے کچھ سجھائی نہ دے رہا ہو یا جنات کے نرغے میں پھنس جانے کے باعث صحیح راستے کی طرف مراجع اس کے لئے ممکن نہ رہی ہو۔

قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَى ۖ وَأُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ (۷۱)

آپ کہہ دیجئے کہ یقینی بات ہے کہ راہ راست وہ خاص اللہ ہی کی راہ ہے (۱) اور ہم کو یہ حکم ہوا ہے کہ ہم پروردگار عالم کے مطیع ہوجائیں۔‏

مطلب یہ کہ کفر اور شرک اختیار کر کے جو گمراہ ہوگیا، وہ بھٹک ہوئے راہی کی طرح ہدایت کی طرف نہیں آسکتا۔ ہاں البتہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے ہدایت مقدر کردی ہے تو یقیناً اللہ کی توفیق سے وہ راہ یاب ہوجائے گا۔ کیونکہ ہدایت پر چلا دینا اسی کا کام ہے۔

 جیسے دوسرے مقامات پر فرمایا گیا:

فَإِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ يُضِلُّ وَمَا لَهُمْ مِنْ نَاصِرِينَ (۱۶:۳۷)

جس کو وہ گمراہ کر دے۔ اور ان کے لئے کوئی مددگار نہیں ہوگا۔

 لیکن یہ ہدایت اور گمراہی اسی اصول کے تحت ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے بنایا ہوا ہے یہ نہیں ہے کہ یوں ہی جسے چاہے گمراہ اور جسے چاہے راہ یاب کرے جیسا کہ اس کی وضاحت متعدد جگہ کی جا چکی ہے۔

وَأَنْ أَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَاتَّقُوهُ ۚ وَهُوَ الَّذِي إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ (۷۲)

اور یہ کہ نماز کی پابندی کرو اور اس سے ڈرو (١) اور وہی ہے جس کے پاس تم جمع کئے جاؤ گے۔‏

 وَأَنْ أَقِيمُوا کا عطف  لِنُسْلِمُ پر ہے۔ یعنی ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم رب العالمین کے مطیع ہوجائیں اور یہ کہ ہم نماز قائم کریں اور اس سے ڈریں تسلیم و انقیاد الٰہی کے بعد سب سے پہلا حکم اقامت صلات کا دیا گیا ہے جس سے نماز کی اہمیت واضح ہے اور اس کے بعد تقویٰ اور خشوع کے بغیر ممکن نہیں۔

وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ (البقرہ۔ ۴۵)

وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ۖ وَيَوْمَ يَقُولُ كُنْ فَيَكُونُ ۚ

اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا (١) اور جس وقت(۲)  اللہ تعالیٰ اتنا کہہ دے گا تو ہوجا وہ ہو پڑے گا۔

۱۔ حق کے ساتھ یا بافا‏ئدہ پیدا کیا یعنی ان کو عبث اور بےفائدہ کھیل کود کے طور پر پیدا نہیں کیا بلکہ ایک خاص مقصد کے لیے کائنات کی تخلیق فرمائی ہے اور وہ یہ کہ اس اللہ کو یاد رکھا اور اس کا شکر ادا کیا جائے جس نے یہ سب کچھ بنایا۔

۲۔   يَوْمَ فعل محذوف  واذکر یا  واتقوا کی وجہ سے منصوب ہے۔ یعنی اس دن کو یاد کرو یا اس دن سے ڈرو! کہ اس کے لفظ  کُن (ہوجا) سے وہ جو چاہے گا، ہو جائے گا۔

یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ حساب کتاب کے کٹھن مراحل بھی بڑی سرعت کے ساتھ طے ہوجائیں گے، لیکن کن کے لئے؟

ایمانداروں کے لئے۔

دوسروں کو یہ دن ہزار سال یا پچاس ہزار سال کی طرح بھاری لگے گا۔

قَوْلُهُ الْحَقُّ ۚ وَلَهُ الْمُلْكُ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ ۚ

 اس کا کہنا حق اور با اثر ہے اور ساری حکومت خاص اس کی ہوگی جب کہ صور میں پھونک ماری جائے گی

الصُّورِ سے مراد نرسنگا یا بگل ہے جس کے متعلق حدیث میں آتا ہے :

 اسرافیل اسے منہ میں لئے اور اپنی پیشانی جھکائے، حکم الہی کے منتظر کھڑے ہیں کہ جب انھیں کہا جائے تو اس کے منہ میں پھونک مار دیں۔ ابن کثیر

ابو داؤد اور ترندی میں ہے۔  الصور قرن ینفخ فیہ (صور ایک قرن (نرسنگا) ہے جس میں پھونکا جائے گا بعض علماء کے نزدیک تین نفخے ہوں گے

-  نفخۃ الصعق جس سے تمام لوگ بےہوش ہوجائیں گے

-   نفخۃ الفناء جس سے تمام لوگ فنا ہو جا‏ئیں گے

-  نفخۃ الانشاء جس سے تمام انسان دوبارہ زندہ ہوجائیں گے

بعض علماء آخری دو نفخوں کے ہی قائل ہیں۔

عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ۚ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُ (۷۳)

وہ جاننے والا ہے پوشیدہ چیزوں کا اور ظاہر چیزوں کا اور وہی ہے بڑی حکمت والا پوری خبر رکھنے والا۔‏

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لِأَبِيهِ آزَرَ أَتَتَّخِذُ أَصْنَامًا آلِهَةً ۖ إِنِّي أَرَاكَ وَقَوْمَكَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ (۷۴)

اور وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جب ابراہیم ؑ نے اپنے باپ آزر (١) سے فرمایا کہ کیا تو بتوں کو معبود قرار دیتا ہے؟ بیشک میں تجھ کو اور تیری ساری قوم کو صریح گمراہی میں دیکھتا ہوں۔‏

مؤرخین حضرت ابراہیم علیہ السلام کے باپ کے دو نام ذکر کرتے ہیں، آزر اور تارخ۔ ممکن ہے دوسرا نام لقب ہو۔

 بعض کہتے ہیں کہ آزر آپ کے چچا کا نام تھا، لیکن یہ صحیح نہیں، اس لئے کہ قرآن نے آزر کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے باپ کے طور پر ذکر کیا ہے، لہذا یہ صحیح ہے۔

وَكَذَلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ (۷۵)

ہم نے ایسے ہی طور پر ابراہیم ؑ کو آسمانوں اور زمین کی مخلوقات دکھلائیں اور تاکہ کامل یقین کرنے والوں سے ہوجائیں ۔

 مَلَكُوتَ مبالغہ کا صیغہ ہے اس سے مراد مخلوقات ہے، جیسا کہ ترجمہ میں یہی مفہوم اختیار کیا گیا ہے۔

یا ربوبیت ہے یعنی ہم نے اس کو یہ دکھلائی اور اس کی معرفت کی توفیق دی۔

یا یہ مطلب ہے کہ عرش سے لے کر اسفل ارض تک کا ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو امور غیبی کا مشاہدہ کرایا۔ (فتح القدیر)

فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأَى كَوْكَبًا ۖ قَالَ هَذَا رَبِّي ۖ

پھر جب رات کی تاریکی ان پر چھا گئی تو انہوں نے ایک ستارہ دیکھا آپ نے فرمایا کہ یہ میرا رب ہے

فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَا أُحِبُّ الْآفِلِينَ (۷۶)

 لیکن جب وہ غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا کہ میں غروب ہو جانے والوں سے محبت نہیں رکھتا

یعنی غروب ہونے والے معبودوں کو پسند نہیں کرتا، اس لئے غروب، تغیر حال پر دلالت کرتا ہے جو حادث ہونے کی دلیل ہے اور جو حادث ہو معبود نہیں ہو سکتا۔

فَلَمَّا رَأَى الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هَذَا رَبِّي ۖ

پھر جب چاند کو دیکھا تو فرمایا یہ میرا رب ہے

فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَئِنْ لَمْ يَهْدِنِي رَبِّي لَأَكُونَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّالِّينَ (۷۷)

لیکن جب وہ غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا اگر مجھ کو میرے رب نے ہدایت نہ کی تو میں گمراہ لوگوں میں شامل ہو جاؤں گا۔‏

فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَذَا رَبِّي هَذَا أَكْبَرُ ۖ

پھر جب آفتاب کو دیکھا چمکتا ہوا تو فرمایا کہ (١) یہ میرا رب ہے یہ تو سب سے بڑا ہے

 الشَّمْسَ سورج عربی میں مؤنث ہے لیکن اسم اشارہ مذکر ہے مراد الطالع ہے یعنی طلوع ہونے والا سورج، میرا رب ہے، کیونکہ یہ سب سے بڑا ہے۔ جس طرح کے سورج پرستوں کو مغالطہ لگا اور وہ اس کی پرستش کرتے ہیں

 (اجرام فلکی) میں سورج سب سے بڑا ہے اور سب سے زیادہ روشن اور انسانی زندگی کی بقا وجود کے لئے اس کی اہمیت و افادیت محتاج وضاحت نہیں اس لئے مظاہر پرستوں میں سورج کی پرستش عام رہی ہے۔

 حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نہایت لطیف پیرائے میں چاند سورج کے پجاریوں پر ان کے معبودوں کی بےحیثیتی کو واضح فرمایا۔

فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِمَّا تُشْرِكُونَ (۷۸)

 پھر جب وہ بھی غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا بیشک میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں ۔

یعنی ان تمام چیزوں سے، جن کو تم اللہ کا شریک بناتے ہو اور جن کی عبادت کرتے ہو، میں بیزار ہوں۔ اس لئے کہ ان میں تبدیلی آتی رہتی ہے، کبھی طلوع ہوتے ہیں، کبھی غروب ہوتے ہیں، جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ مخلوق ہیں اور ان کا خالق کوئی اور ہے جس کے حکم کے یہ تابع ہیں۔ جب یہ خود مخلوق اور کسی کے تابع ہیں تو کسی کو نفع نقصان پہنچانے پر کس طرح قادر ہو سکتے ہیں؟

 مشہور ہے کہ اس وقت کے بادشاہ نمرود نے اپنے ایک خواب اور کاہنوں کی تعبیر کی وجہ سے نومولود لڑکوں کو قتل کرنے کا حکم دے رکھا تھا حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی انہی ایام میں پیدا ہوئے جس کی وجہ سے انھیں ایک غار میں رکھا گیا تاکہ نمرود اور اس کے کارندوں کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچ جائیں وہیں غار میں جب کچھ شعور آیا اور چاند سورج دیکھے تو یہ تاثرات ظاہر فرمائے

لیکن یہ غار والی بات مستند نہیں ہے قرآن کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم سے گفتگو اور مکالمے کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ باتیں کی ہیں اسی لیے آخر میں قوم سے خطاب کر کے فرمایا کہ میں تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں سے بیزار ہوں اور مقصد اس مکالمے سے معبودان باطل کی اصل حقیقت کی وضاحت تھی۔

إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا ۖ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ (۷۹)

میں اپنا رخ اس کی طرف کرتا ہوں (١) جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا یکسو ہو کر اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔‏

رخ یا چہرے کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ چہرے سے ہی انسان کی اصل شناخت ہوتی ہے مراد اس سے شخص ہی ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ میری عبادت اور توحید سے مقصود اللہ عزوجل ہے جو آسمان اور زمین کا خالق ہے۔

وَحَاجَّهُ قَوْمُهُ ۚ

اور ان سے ان کی قوم نے حجت کرنا شروع کر دی

جب قوم نے توحید کا یہ وعظ سنا جس میں ان کے خود ساختہ معبودوں کی تردید بھی تھی تو انہوں نے بھی اپنے دلائل دینے شروع کیے جس سے معلوم ہوا کہ مشرکین نے بھی اپنے شرک کے لیے کچھ نہ کچھ دلائل تراش رکھے تھے جس کا مشاہدہ آج بھی کیا جا سکتا ہے

 جتنے بھی مشرکانہ عقائد رکھنے والے گروہ ہیں سب نے اپنے اپنے عوام کو مطمئن کرنے اور رکھنے کے لیے ایسے سہارے تلاش کر رکھے ہیں جن کو وہ دلائل سمجھتے ہیں یا جن سے کم از کم دام تزویر میں پھنسے ہوئے عوام کو جال میں پھنسائے رکھا جاسکتا ہے۔

قَالَ أَتُحَاجُّونِّي فِي اللَّهِ وَقَدْ هَدَانِ ۚ

آپ نے فرمایا کہ تم اللہ کے معاملے میں مجھ سے حجت کرتے ہو حالانکہ کہ اس نے مجھے طریقہ بتلایا ہے

وَلَا أَخَافُ مَا تُشْرِكُونَ بِهِ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ رَبِّي شَيْئًا ۗ

اور میں ان چیزوں سے جن کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک بناتے ہو نہیں ڈرتا

وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا ۗ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ (۸۰)

 ہاں اگر میرا پروردگار ہی ہرچیز کو اپنے علم میں گھیرے ہوئے ہے، کیا تم پھر بھی خیال نہیں کرتے۔‏

وَكَيْفَ أَخَافُ مَا أَشْرَكْتُمْ وَلَا تَخَافُونَ أَنَّكُمْ أَشْرَكْتُمْ بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا ۚ

اور میں ان چیزوں سے کیسے ڈروں جن کو تم نے شریک بنایا ہے حالانکہ تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ تم نے اللہ کے ساتھ ایسی چیزوں کو شریک ٹھہرایا ہے جن پر اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نہیں فرمائی،

فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِالْأَمْنِ ۖ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (۸۱)

سو ان دو جماعتوں میں سے امن کا زیادہ مسحق کون ہے (١) اگر تم خبر رکھتے ہو۔‏

یعنی مؤمن اور مشرک میں سے؟

مؤمن کے پاس تو توحید کے بھرپور دلائل ہیں، جب کہ مشرک کے پاس اللہ کی اتاری ہوئی کوئی دلیل نہیں، صرف اوہام باطلہ ہیں یا دور ازکار تاویلات اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ امن اور نجات کا مستحق کون ہوگا۔

الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ (۸۲)

جو لوگ ایمان رکھتے ہیں اور اپنے ایمان کو شرک کے ساتھ مخلوط نہیں کرتے۔ ایسوں ہی کے لئے امن ہے اور وہی راہ راست پر چل رہے ہیں

آیت میں یہاں  ظلم سے مراد شرک ہے جیسا کہ ترجمہ سے واضح ہے

حدیث میں آتا ہے:

جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام ظلم کا عام مطلب (کوتاہی اور غلطی، گناہ اور زیادتی وغیرہ) سمجھا، جس سے وہ پریشان ہوگئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آکر کہنے لگے، ہم میں سے کون شخص ایسا ہے جس نے ظلم نہ کیا ہو،

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 اس ظلم سے مراد وہ ظلم نہیں جو تم سمجھ رہے ہو بلکہ اس سے مراد شرک ہے جس طرح حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو کہا اِنَّ الشِّرکَ لظُلْم عَظِیْم یقیناً شرک ظلم عظیم ہے۔  (صحیح بخاری)

وَتِلْكَ حُجَّتُنَا آتَيْنَاهَا إِبْرَاهِيمَ عَلَى قَوْمِهِ ۚ

اور ہماری حجت تھی وہ ہم نے ابراہیم ؑ  کو ان کی قوم کے مقابلہ میں دی تھی

یعنی توحید الٰہی پر ایسی حجت اور دلیل، جس کا کوئی جواب ابراہیم علیہ السلام کی قوم سے بن نہ پڑا۔

اور وہ بعض کے نزدیک یہ قول تھا آیت ۸۱ :

وَكَيْفَ أَخَافُ مَا أَشْرَكْتُمْ وَلَا تَخَافُونَ أَنَّكُمْ أَشْرَكْتُمْ بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا ۚ فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِالْأَمْنِ

اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس قول کی تصدیق فرمائی اور کہا آیت ۸۲ :

الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ

نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَنْ نَشَاءُ ۗإِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ (۸۳)

ہم جس کو چاہتے ہیں مرتبوں میں بڑھا دیتے ہیں۔ بیشک آپ کا رب بڑا حکمت والا بڑا علم والا ہے۔‏

وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ ۚ

اور ہم نے ان کو اسحاق دیا اور یعقوب

یعنی بڑھاپے میں، جب کہ وہ اولاد سے نا امید ہوگئے تھے، جیسا کہ سورہ ہود آیت ٧٢، ٧٣ میں ہے پھر بیٹے کے ساتھ ایسے پوتے کی بھی بشارت دی جو یعقوب ؑہوگا،

  جس کے معنی میں یہ مفہوم شامل ہے کہ اس کے بعد ان کی اولاد کا سلسلہ چلے گا، اس لئے یہ عقب (پیچھے سے) مشتق ہے۔

كُلًّا هَدَيْنَا ۚ وَنُوحًا هَدَيْنَا مِنْ قَبْلُ ۖ

ہر ایک کو ہم نے ہدایت کی اور پہلے زمانے میں ہم نے نوح کو ہدایت کی

وَمِنْ ذُرِّيَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ وَأَيُّوبَ وَيُوسُفَ وَمُوسَى وَهَارُونَ ۚ

 اور ان کی اولاد میں سے (۱) داؤد اور سلیمان کو اور ایوب کو اور یوسف کو اور موسیٰ کو اور ہارون کو

ذُرِّيَّتِهِ میں ضمیر کا مرجع بعض مفسرین نے حضرت نوح علیہ السلام کو قرار دیا ہے کیونکہ وہی اقرب ہیں یعنی حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان علیہما السلام کو قرار دیا ہے کیونکہ وہی اقرب ہیں یعنی حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان علیہما السلام کو

 اور بعض نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس لیے کہ ساری گفتگو انہی کے ضمن میں ہو رہی ہے لیکن اس صورت میں یہ اشکال پیش آتا ہے کہ پھر لوط علیہ السلام کا ذکر اس فہرست میں نہیں آنا چاہیے تھا کیونکہ وہ ذریت ابراہیم علیہ السلام میں سے نہیں ہیں وہ ان کے بھائی ہاران بن آزر کے بیٹے یعنی ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے ہیں اور ابراہیم علیہ السلام لوط علیہ السلام کے باپ نہیں چچا ہیں لیکن بطور تغلیب انھیں بھی ذریت ابراہیم علیہ السلام میں شمار کر لیا گیا ہے اس کی ایک اور مثال قرآن مجید میں ہے جہاں حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اولاد یعقوب علیہ السلام کے آباء میں شمار کیا گیا ہے جب کہ وہ ان کے چچا تھے دیکھیے سورہ بقرہ آیت ۱۳۳

وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ (۸۴)

 اور اسی طرح ہم نیک کام کرنے والوں کو جزا دیا کرتے ہیں۔‏

وَزَكَرِيَّا وَيَحْيَى وَعِيسَى وَإِلْيَاسَ ۖ كُلٌّ مِنَ الصَّالِحِينَ (۸۵)

اور (نیز) زکریا کو یحییٰ کو عیسیٰ (١) اور الیاس کو، سب نیک لوگوں میں شامل تھے۔‏

عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر حضرت نوح علیہ السلام یا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں اس لئے کہا گیا (حالانکہ ان کا باپ نہیں تھا) کہ لڑکی کی اولاد بھی ذریت رجال میں ہی شامل ہوتی ہے۔ جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسنؓ (اپنی بیٹی حضرت فاطمہؓ کے صاحبزادے) کو اپنا بیٹا فرمایا:

 ان ابنی ھذا سید و لعل اللہ ان یصلح بہ بین فئتین عظمتین من المسلمین

(صحیح بخاری) (تفصیل کے لئے دیکھئے تفسیر ابن کثیر)

وَإِسْمَاعِيلَ وَالْيَسَعَ وَيُونُسَ وَلُوطًا ۚ وَكُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعَالَمِينَ (۸۶)

اور نیز اسماعیل کو اور یسع کو اور یونس کو اور لوط کو اور ہر ایک کو تمام جہان والوں پر ہم نے فضیلت دی۔‏

وَمِنْ آبَائِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ وَإِخْوَانِهِمْ ۖ

اور نیز ان کے کچھ باپ دادوں کو اور کچھ اولاد کو اور کچھ بھائیوں کو (١)

آبَا سے اصول اور ذُرِّيَّات سے فروع مراد ہے۔ یعنی ان اصولوں و فروع اور اخوان میں سے بھی بہت سوں کو ہم نے مقام ہدایت سے نوازا

وَاجْتَبَيْنَاهُمْ وَهَدَيْنَاهُمْ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (۸۷)

اور ہم نے ان کو مقبول بنایا اور ہم نے ان کو راہ راست کی ہدایت کی۔‏

وَاجْتَبَيْنَاء کے معنی چن لینا اور اپنے خاص بندوں میں شمار کرنا اور ان کے ساتھ ملا لینا۔

ذَلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهْدِي بِهِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۚ

اللہ کی ہدایت ہی ہے جس کے ذریعہ سے اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے اس کی ہدایت کرتا ہے

اٹھارہ انبیاء کے اسمائے گرامی ذکر کر کے اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے، اگر یہ حضرات بھی شرک کا ارتکاب کرلیتے تو ان کے سارے اعمال برباد ہو جاتے۔ جس طرح دوسرے مقام پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ' اے پیغمبر! اگر تو نے بھی شرک کیا تو تیرے سارے عمل برباد ہوجائیں گے، حالانکہ پیغمبروں سے شرک کا صدور ممکن نہیں۔ مقصد امتوں کو شرک کی خطرناک اور ہلاکت خیزی سے آگاہ کرنا ہے۔

وَلَوْ أَشْرَكُوا لَحَبِطَ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (۸۸)

 اگر فرضاً یہ حضرات بھی شرک کرتے تو جو کچھ یہ اعمال کرتے تھے وہ سب اکارت ہوجاتے۔‏

أُولَئِكَ الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ۚ

یہ لوگ ایسے تھے کہ ہم نے ان کو کتاب اور حکمت اور نبوت عطا کی تھی

فَإِنْ يَكْفُرْ بِهَا هَؤُلَاءِ فَقَدْ وَكَّلْنَا بِهَا قَوْمًا لَيْسُوا بِهَا بِكَافِرِينَ (۸۹)

سو اگر یہ لوگ نبوت کا انکار کریں (١) تو ہم نے اس کے لئے ایسے بہت سے لوگ مقرر کر دیئے ہیں۔ جو اس کے منکر نہیں ہیں ۔(٢)‏

۱۔ اس سے مراد رسول اللہ کے مخالفیں، مشرکین اور کفار ہیں۔

۲۔  اس سے مراد مہاجرین و انصار اور قیامت تک آنے والے ایماندار ہیں۔

أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ ۖ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ

یہی لوگ ایسے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی تھی، سو آپ بھی ان ہی کے طریق پر چلیئے

اس سے مراد انبیاء مذکورین ہیں۔ ان کی پیروی کا حكم مسئلہ توحید ميں اور ان احکام و شرائع میں ہے جو منسوخ نہیں ہوئے ۔(فتح القدیر)

 کیونکہ اصول دین تمام شریعتوں میں ایک ہی رہے ہیں گو شرائع اور مناہج میں کچھ کچھ اختلاف رہا جیسا کہ آیت شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا (الشوری۔۱۳) سے واضح ہے

قُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا ۖ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرَى لِلْعَالَمِينَ (۹۰)

آپ کہہ دیجیئے کہ میں تم سے اس پر کوئی معاوضہ نہیں چاہتا (۱) یہ تو صرف تمام جہان والوں کے واسطے ایک نصیحت ہے ۔(٢)

۱۔  یعنی تبلیغی دعوت کا، کیونکہ مجھے اس کا صلہ ہی کافی ہے جو آخرت میں عند اللہ ملے گا۔

۲۔  جہان والے اس سے نصیحت حاصل کریں۔ پس یہ قرآن انھیں کفر و شرک کے اندھیروں سے نکال کر ہدایت کی روشنی عطا کرے گا اور ضلالت کی پگڈنڈیوں سے نکال کر ایمان کی صراط مسقیم پر گامزن کردے گا۔ بشرطیکہ کوئی اس سے نصیحت حاصل کرنا چاہے، ورنہ دیدہ کور کو کیا نظر آئے کیا دیکھنے والا معاملہ ہوگا۔

وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِذْ قَالُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى بَشَرٍ مِنْ شَيْءٍ ۗ

اور ان لوگوں نے اللہ کی جیسی قدر کرنا واجب تھی ویسی قدر نہ کی جب کہ یوں کہہ دیا کہ اللہ نے کسی بشر پر کوئی چیز نازل نہیں کی

قَدَر کے معنی اندازہ کرنے کے ہیں اور یہ کسی چیز کی اصل حقیقت جاننے اور اس کی معرفت حاصل کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔

مطلب یہ ہے کہ یہ مشرکین مکہ رسل اور انزال کتب کا انکار کرتے ہیں، جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ انھیں اللہ کی صحیح معرفت ہی حاصل نہیں ورنہ وہ ان چیزوں کا انکار نہ کرتے، علاوہ ازیں اسی عدم معرفت الٰہی کی وجہ سے وہ نبوت و رسالت کی معرفت سے بھی قاصر رہے کہ انسان پر اللہ تعالیٰ کا کلام کس طرح نازل ہو سکتا ہے؟

جس طرح دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا أَنْ أَوْحَيْنَا إِلَى رَجُلٍ مِنْهُمْ أَنْ أَنْذِرِ النَّاسَ (۱۰:۲)

کیا یہ بات لوگوں کے لیے باعث تعجب ہے کہ ہم نے ان ہی میں سے ایک آدمی پر وحی نازل کر کے اسے لوگوں کو ڈرانے پر مامور کر دیا ہے؟

دوسرے مقام پر فرمایا:

وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَنْ يُؤْمِنُوا إِذْ جَاءَهُمُ الْهُدَى إِلَّا أَنْ قَالُوا أَبَعَثَ اللَّهُ بَشَرًا رَسُولًا (۱۷:۹۴)

ہدایت آجانے کے بعد لوگ اسے قبول کرنے سے اس لیے رک گئے کہ انہوں نے کہا کہ کیا اللہ نے ایک بشر کو رسول بنا کر بھیج دیا ہے؟

 اس کی کچھ تفصیل اس سے قبل آیت نمبر ۸ کے حاشیے میں بھی گزر چکی ہے

آیت زیر وضاحت میں بھی انہوں نے اپنے اس خیال کی بنیاد پر اس بات کی نفی کی کہ اللہ تعالیٰ نے کسی انسان پر کوئی کتاب نازل کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر یہ ہی بات ہے تو ان سے پوچھو! موسیٰ علیہ السلام پر تورات کس نے نازل کی تھی (جس کو یہ مانتے ہیں)

قُلْ مَنْ أَنْزَلَ الْكِتَابَ الَّذِي جَاءَ بِهِ مُوسَى نُورًا وَهُدًى لِلنَّاسِ ۖ

آپ یہ کہئے وہ کتاب کس نے نازل کی ہے جس کو موسیٰ لائے تھے جس کی کیفیت یہ ہے کہ وہ نور ہے اور لوگوں کے لئے وہ ہدایت ہے

تَجْعَلُونَهُ قَرَاطِيسَ تُبْدُونَهَا وَتُخْفُونَ كَثِيرًا ۖ

جس کو تم نے ان متفرق اوراق میں رکھ چھوڑا (٢) ہے جن کو ظاہر کرتے ہو اور بہت سی باتوں کو چھپاتے ہو

آیت کی مذکورہ تفسیر کے مطابق اب یہود سے خطاب کر کے کہا جا رہا ہے کہ تم اس کتاب کو متفرق اوراق میں رکھتے ہو جن میں سے جس کو چاہتے ہو ظاہر کر دیتے ہو اور جن کو چاہتے ہو چھپا لیتے ہو۔ جیسے رجم کا مسئلہ یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات کا مسئلہ ہے۔

حافظ ابن کثیر اور امام ابن جریر طبری وغیرہ نے دلیل یہ دی ہے کہ یہ مکی آیت ہے، اس میں یہود سے خطاب کس طرح ہو سکتا ہے؟

 اور بعض مفسرین نے پوری آیت کو ہی یہود سے متعلق قرار دیا ہے اور اس میں سرے سے نبوت و رسالت کا جو انکار ہے اسے یہود کی ہٹ دھرمی، ضد اور عناد پر مبنی قول قرار دیا ہے۔

 گویا اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کی تین رائے ہیں۔

-  ایک پوری آیت کو یہود سے،

- دوسرے پوری آیت کو مشرکین سے اور

- تیسرے آیت کی ابتدائی حصے کو مشرکین سے متعلق اور یہود سے متعلق قرار دیتے ہیں۔ واللّٰہ اَعْلَمُ

وَعُلِّمْتُمْ مَا لَمْ تَعْلَمُوا أَنْتُمْ وَلَا آبَاؤُكُمْ ۖ

اور تم کو بہت سی ایسی باتیں بتائی گئی ہیں جن کو تم نہیں جانتے تھے اور نہ تمہارے بڑے۔

یہود سے متعلقْ ماننے کی صورت میں اس کی تفسیر ہوگی کہ تورات کے ذریعے سے تمہیں بتائی گئیں، بصورت دیگر قرآن کے ذریعے سے۔

قُلِ اللَّهُ ۖ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ (۹۱)

آپ کہہ دیجئے کہ اللہ نے نازل فرمایا (۱) پھر ان کو ان کے خرافات میں کھیلتے رہنے دیجئے۔‏

یہ مَنْ أَنْزَل (کس نے اتارا) کا جواب ہے

وَهَذَا كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ مُصَدِّقُ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَلِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا ۚ

اور یہ بھی ایسی ہی کتاب ہے جس کو ہم نے نازل کیا ہے جو بڑی برکت والی ہے، اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے تاکہ آپ مکہ والوں کو اور آس پاس والوں کو ڈرائیں۔

وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۖ وَهُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ (۹۲)

 اور جو لوگ آخرت کا یقین رکھتے ہیں ایسے لوگ اس پر ایمان لے آتے ہیں اور وہ اپنی نماز پر مداومت رکھتے ہیں۔‏

وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ قَالَ أُوحِيَ إِلَيَّ وَلَمْ يُوحَ إِلَيْهِ شَيْءٌ

اور اس شخص سے زیادہ کون ظالم ہوگا جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ تہمت لگائے یا یوں کہے کہ مجھ پر وحی آتی ہے حالانکہ اس کے پاس کسی بات کی بھی وحی نہیں آئی

وَمَنْ قَالَ سَأُنْزِلُ مِثْلَ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ ۗ

 اور جو شخص یوں کہے کہ جیسا کلام اللہ نے نازل کیا ہے اسی طرح کا میں بھی لاتا ہوں

وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَائِكَةُ بَاسِطُو أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ ۖ

 اور اگر آپ اس وقت دیکھیں جب کہ یہ ظالم لوگ موت کی سختیوں میں ہونگے اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھا رہے ہونگے کہ ہاں اپنی جانیں نکالو،

ظالم سے مراد ہر ظالم ہے اور اس میں کتاب الٰہی کا انکار کرنے والے اور جھوٹے مدعیان نبوت سب سے پہلے شامل ہیں۔

 ' فرشتے ہاتھ بڑھا رہے ہونگے، یعنی جان نکالنے کے لئے

الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنْتُمْ عَنْ آيَاتِهِ تَسْتَكْبِرُونَ (۹۳)

آج تمہیں ذلت کی سزا دی جائے گی (١) اس سبب سے کہ تم اللہ تعالیٰ کے ذمہ جھوٹی باتیں لگاتے تھے اور تم اللہ تعالیٰ کی آیات سے تکبر کرتے تھے ۔‏(٢)

۱۔  الْيَوْمَ (آج) سے مراد قبض روح کا دن اور یہی عذاب کے آغاز کا وقت بھی ہے جس کا مبداء قبر ہے۔

اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عذاب قبر برحق ہے۔ ورنہ ہاتھ پھیلانے اور جان نکالنے کا حکم دینے کے ساتھ اس بات کے کہنے کے کوئی معنی نہیں کہ آج تمہیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا۔

 خیال رہے قبر سے مراد برزخ کی زندگی ہے۔ یعنی دنیا کی زندگی کے بعد آخرت کی زندگی سے قبل، یہ ایک درمیان کی زندگی ہے جس کا عرصہ انسان کی موت سے قیامت کے وقوع تک ہے۔ یہ برزخی زندگی کہلاتی ہے۔ چاہے اسے کسی درندے نے کھایا ہو، اس کی لاش سمندر کی موجوں کی نذر ہوگئی ہو یا اسے جلا کر راکھ بنا دیا گیا یا قبر میں دفنا دیا گیا ہو۔ یہ برزخ کی زندگی ہے جس میں عذاب دینے پر اللہ تعالیٰ قادر ہے۔

۲۔  اللہ کے ذمے جھوٹی باتیں لگانے میں انزال کتب اور ارسال رسل کا انکار بھی ہے اور جھوٹا دعوائے نبوت بھی ہے اسی طرح نبوت و رسالت کا انکار و استکبار ہے۔ ان دونوں وجوہ سے انھیں ذلت و رسوائی کا عذاب دیا جائے گا۔

وَلَقَدْ جِئْتُمُونَا فُرَادَى كَمَا خَلَقْنَاكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَتَرَكْتُمْ مَا خَوَّلْنَاكُمْ وَرَاءَ ظُهُورِكُمْ ۖ

اور تم ہمارے پاس تن تنہا آگئے (١) جس طرح ہم نے اول بار تم کو پیدا کیا تھا اور جو کچھ ہم نے تم کو دیا تھا اس کو اپنے پیچھے ہی چھوڑ آئے

فُرَادَى فرد کی جمع ہے مطلب ہے کہ تم علیحدہ علیحدہ ایک ایک کر کے میرے پاس آؤ گے، تمہارے ساتھ نہ مال ہوگا نہ اولاد اور نہ معبود، جن کو تم نے اللہ کا شریک اور اپنا مددگار سمجھ رکھا تھا، یعنی ان میں سے کوئی چیز بھی فائدہ پہنچانے پر قادر نہ ہوگی۔

 اگلے جملوں میں انہی امور کی مزید وضاحت ہے۔

وَمَا نَرَى مَعَكُمْ شُفَعَاءَكُمُ الَّذِينَ زَعَمْتُمْ أَنَّهُمْ فِيكُمْ شُرَكَاءُ ۚ

اور ہم تمہارے ہمراہ تمہارے ان شفاعت کرنے والوں کو نہیں دیکھتے جنکی نسبت تم دعویٰ رکھتے تھے کہ وہ تمہارے معاملہ میں شریک ہیں۔

لَقَدْ تَقَطَّعَ بَيْنَكُمْ وَضَلَّ عَنْكُمْ مَا كُنْتُمْ تَزْعُمُونَ (۹۴)

 واقع تمہارے آپس میں قطع تعلق تو ہوگیا اور تمہارا دعویٰ سب تم سے گیا گزرا ہوا ہے۔‏

إِنَّ اللَّهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوَى ۖ

بیشک اللہ تعالیٰ دانہ کو اور گٹھلیوں کو پھاڑنے والا ہے

یہاں سے اللہ تعالیٰ کی بےمثال قدرت اور کاریگری کا بیان شروع ہو رہا ہے، فرمایا :

اللہ تعالیٰ دانے اور گھٹلی کو، جسے کاشتکار زمین کی طے میں دبا دیتا ہے، پھاڑ کر اس سے انواع و اقسام کے درخت پیدا فرماتا ہے۔ زمین ایک ہوتی ہے پانی بھی جس سے کھیتیاں سیراب ہوتی ہیں، ایک ہی ہوتا ہے۔ لیکن جس جس چیز کے وہ دانے یا گٹھلیاں ہوتی ہیں، اس کے مطابق ہی اللہ تعالیٰ مختلف قسم کے غلوں اور پھلوں کے درخت ان سے پیدا فرماتا دیتا ہے۔

 کیا اللہ کے سوا بھی کوئی ہے، جو یہ کام کرتا ہو یا کر سکتا ہو؟

يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَمُخْرِجُ الْمَيِّتِ مِنَ الْحَيِّ ۚ

وہ جاندار کو بےجان سے نکال لاتا ہے (۱) اور وہ بےجان کو جاندار سے نکالنے والا ہے (۲)

۱۔  یعنی دانے اور گٹھلیوں سے درخت اگا دیتا ہے جس میں زندگی ہوتی ہے اور وہ بڑھتا پھیلتا ہے اور پھل یا غلہ دیتا ہے یا وہ خوشبو دار رنگ برنگ کے پھول ہوتے ہیں جن کو دیکھ کر یا سونگھ کر انسان فرحت و انبسات محسوس کرتا یا نطفے اور انڈے سے انسان اور حیوانات پیدا کرتا ہے۔

۲۔  یعنی حیوانات سے انڈے، جو مردہ کے حکم میں ہیں۔

 الْحَيَّ اور الْمَيِّتِ کی تعبیر مؤمن اور کافر سے بھی کی گئی ہے، یعنی مؤمن کے گھر میں کافر اور کافر کے گھر میں مؤمن پیدا کر دیتا ہے۔

ذَلِكُمُ اللَّهُ ۖ فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ (۹۵)

اللہ تعالیٰ یہ ہے، سو تم کہاں الٹے چلے جا رہے ہو۔‏

فَالِقُ الْإِصْبَاحِ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَنًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًا ۚ

وہ صبح کا نکالنے والا (١) اس نے رات کو راحت کی چیز بنایا ہے (٢) اور سورج اور چاند کو حساب سے رکھا ہے (٣)

۱۔ اندھیرے اور روشنی کا خالق بھی وہی ہے۔ وہ رات کی تاریکی سے صبح روشن پیدا کرتا ہے جس سے ہرچیز روشن ہوتی ہو جاتی ہے۔

۲۔  یعنی رات کو تاریکیوں میں بدل دیتا ہے تاکہ لوگ روشنی کی تمام مصروفيات ترک کر کے آرام کر سکیں۔

۳۔  یعنی دونوں کے لئے ایک حساب بھی مقدر ہے جس میں کوئی تغیر و اضطراب نہیں ہوتا، بلکہ دونوں کی اپنی اپنی منزلیں ہیں، جن پر وہ گرمی اور سردی میں رواں رہتے ہیں۔ جس کی بنیاد پر سردی میں دن چھوٹے اور راتیں لمبی اور گرمی میں اس سے برعکس دن لمبے اور راتیں چھوٹی ہوجاتی ہیں۔ جس کی تفصیل سورہ یونس۔٥ سورۃ یٰسین ٤٠ اور سورہ اعراف ٥٤ میں بھی بیان کی گئی ہے۔

ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ (۹۶)

یہ ٹھہرائی بات ہے ایسی ذات کی جو قادر ہے بڑے علم والا ہے۔‏

وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِهَا فِي ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۗ

اور وہ ایسا ہے جس نے تمہارے لئے ستاروں کو پیدا کیا تاکہ تم ان کے ذریعہ سے اندھیروں میں، خشکی میں اور دریا میں راستہ معلوم کر سکو

ستاروں کا یہاں یہ ایک فائدہ اور مقصد بیان کیا گیا ہے، ان کے دو مقصد اور ہیں جو دوسرے مقام پر بیان کئے گئے ہیں۔

 آسمانوں کی زینت اور شیطانوں کی مرمت۔

رجو ما للشیطین۔ یعنی شیطان آسمان پر جانے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ ان پر شعلہ بن کر گرتے ہی۔

 بعض علماء کا قول ہے۔ ان تینوں باتوں کے علاوہ ان ستاروں کے بارے میں اگر کوئی شخص کوئی اور عقیدہ رکھتا ہے تو وہ غلطی پر ہے اور اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ ہمارے ملک میں جو علم نجوم کا چرچا ہے، جس میں ستاروں کے ذریعے سے مستقبل کے حالات اور انسانی زندگی یا کائنات میں ان کے اثرات بتانے کا دعویٰ کیا جاتا ہے وہ بےبنیاد ہے اور شریعت کے خلاف بھی۔ چنانچہ ایک حدیث میں اسے جادو ہی کا ایک شعبہ بتلایا گیا ہے۔

 من اقتبس علماء من النجوم اقتبس شعبۃ من السحر زاد ما زاد

( حسنہ الالبانی صحیح ابی داؤد)

قَدْ فَصَّلْنَا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ (۹۷)

بیشک ہم نے دلائل خوب کھول کھول کر بیان کر دیئے ان لوگوں کے لئے جو خبر رکھتے ہیں۔‏

وَهُوَ الَّذِي أَنْشَأَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ ۗ

اور وہ ایسا ہے جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا پھر ایک جگہ زیادہ رہنے کی ہے اور ایک جگہ چندے‘ رہنے کی

اکثر مفسرین کے نزدیک مُسْتَقَرٌّ، سے رحم مادر اور مُسْتَوْدَعٌ ، سے صلب پدر مراد ہے۔  (فتح القدیر)

قَدْ فَصَّلْنَا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَفْقَهُونَ (۹۸)

بیشک ہم نے دلائل خوب کھول کھول کر بیان کر دیئے ان لوگوں کے لئے جو سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔‏

وَهُوَ الَّذِي أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجْنَا بِهِ نَبَاتَ كُلِّ شَيْءٍ

اور وہ ایسا ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا پھر ہم نے اس کے ذریعہ سے ہر قسم کے نباتات کو نکالا

يہاں سے اس کی ایک اور عجیب صنعت (کاریگری) کا بیان ہو رہا ہے یعنی بارش کا پانی جس سے وہ ہر قسم کے درخت پیدا فرماتا ہے۔

فَأَخْرَجْنَا مِنْهُ خَضِرًا نُخْرِجُ مِنْهُ حَبًّا مُتَرَاكِبًا

پھر ہم نے اس سے سبز شاخ نکالی (۱) کہ اس سے ہم اوپر تلے دانے چڑھے ہوئے نکالتے ہیں ۔ (۲)

۱۔  اس سے مراد سبز شاخیں اور کونپلیں ہیں جو زمین میں دبے ہوئے دانے سے اللہ تعالیٰ زمین کے اوپر ظاہر فرما رہا ہے، پھر وہ پودا یا درخت نشو نما پاتا ہے۔

۲۔  یعنی ان سبز شاخوں سے ہم اوپر تلے دانے چڑھے ہوئے نکالتے ہیں۔ جس طرح گندم اور چاول کی بالیاں ہوتی ہیں۔ مراد یہ سب غلہ جات مثلاً جو، جوار، باجرہ، مکئی، گندم اور چاول وغیرہ۔

وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِهَا قِنْوَانٌ دَانِيَةٌ وَجَنَّاتٍ مِنْ أَعْنَابٍ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُشْتَبِهًا وَغَيْرَ مُتَشَابِهٍ ۗ

اور کھجور کے درختوں سے ان کے گچھے میں سے، خوشے ہیں جو نیچے کو لٹک جاتے ہیں اور انگوروں کے باغ اور زیتوں اور انار کے(۱)  بعض ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہوتے ہیں اور کچھ ایک دوسرے سے ملتے جلتے نہیں ہوتے (۲)

۱۔ قِنْوَانٌ سے  مراد خوشے ہیں۔

 طَلْعِ ،وہ گابھا یا گچھا ہے جو کھجور کی ابتدائی شکل ہے، یہی بڑھ کر خوشہ بنتا ہے اور پھر رطب کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔

 دَانِيَة ، سے مراد وہ خوشے ہیں جو قریب ہوں۔ اور کچھ خوشے دور ہوتے ہیں جن تک ہاتھ نہیں پہنچتے بطور امتنان دَانِيَة کا ذکر فرما دیا ہے مطلب ہے منھا دانیہ ومنھا بعیدۃ (کچھ خوشے قریب ہیں اور کچھ دور) بَعِیدۃُ، مخدوف ہے۔ (فتح الْقدیر)

 وَجَنَّاتٍ زيْتُونَ اور رُّمَّان یہ سب منصوب ہیں جن کا عطف نبات پر ہے یعنی فَأَخْرَجْنَا بِهِ وَجَنَّات یعنی بارش کے پانی سے ہم نے انگوروں کے باغات اور زیتون اور انار پیدا کیے۔

۲۔  یعنی بعض اوصاف میں یہ باہم ملتے جلتے ہیں اور بعض میں ملتے جلتے نہیں ہیں یا ان کے پتے ایک دوسرے سے ملتے ہیں پھل نہیں ملتے یا شکل میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں لیکن مزے اور ذائقے میں باہم مختلف ہیں۔

انْظُرُوا إِلَى ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَيَنْعِهِ ۚ إِنَّ فِي ذَلِكُمْ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (۹۹)

ہر ایک کے پھل کو دیکھو جب وہ پھلتا ہے اور اس کے پکنے کو دیکھو ان میں دلائل ہیں (۱) ان لوگوں کے لئے جو ایمان رکھتے ہیں۔‏

یعنی مذکورہ تمام چیزوں میں خالق کائنات کے کمال قدرت اور اس کی حکمت و رحمت کے دلائل ہیں۔

وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ الْجِنَّ وَخَلَقَهُمْ ۖ

اور لوگوں نے شیاطین کو اللہ تعالیٰ کا شریک قرار دے رکھا ہے حالانکہ ان لوگوں کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے

وَخَرَقُوا لَهُ بَنِينَ وَبَنَاتٍ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يَصِفُونَ (۱۰۰)

 اور ان لوگوں نے اللہ کے حق میں بیٹے اور بیٹیاں بلا سند تراش رکھی ہیں اور وہ پاک اور برتر ہے ان باتوں سے جو یہ کرتے ہیں۔‏

بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ أَنَّى يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُنْ لَهُ صَاحِبَةٌ ۖ

وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے، اللہ تعالیٰ کے اولاد کہاں ہوسکتی ہے حالانکہ اس کے کوئی بیوی تو ہے نہیں

وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (۱۰۱)

اور اللہ تعالیٰ نے ہرچیز کو پیدا کیا (١) اور وہ ہرچیز کو خوب جانتا ہے۔‏

یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ ان تمام چیزوں کو پیدا کرنے میں واحد ہے، کوئی اس کا شریک نہیں اس طرح وہ اس لائق ہے اس اکیلے کی عبادت کی جائے، عبادت میں کسی اور کو شریک نہ بنایا جائے۔ لیکن لوگوں نے اس ذات واحد کو چھوڑ کر جنوں کو اس کا شریک بنا رکھا ہے، حالانکہ وہ خود اللہ کے پیدا کردہ ہیں مشرکین عبادت تو بتوں کی یا قبروں میں مدفون اشخاص کی کرتے ہیں لیکن یہاں کہا گیا ہے کہ انہوں نے جنات کو اللہ کا شریک بنایا ہوا ہے، بات دراصل یہ ہے کہ جنات سے مراد شیاطین کے کہنے سے ہی شرک کیا جاتا ہے اس لئے گویا شیطان ہی کی عبادت کی جاتی ہے۔ اس مضمون کو قرآن کریم میں متعددجگہ بیان کیا گیا ہے مثلاً سورہ نساء۔١١٧ سورۃ مریم۔ ٤٤ سورۃ یٰسین ٦٠، سورہ سبا۔٤١۔

ذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ ۖ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ ۖ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوهُ ۚ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ (۱۰۲)

یہ اللہ تعالیٰ تمہارا رب! اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، ہرچیز کا پیدا کرنے والا ہے تم اس کی عبادت کرو اور وہ ہرچیز کا کارساز ہے۔‏

لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ۖ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ (۱۰۳)

اس کو تو کسی کی نگاہ محیط نہیں ہوسکتی (١) اور وہ سب نگاہوں کو محیط ہو جاتا ہے اور وہی بڑا باریک بین باخبر ہے۔‏

ابصار بصر نگاہ کی جمع ہے۔ یعنی انسان کی آنکھیں اللہ کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتیں۔ اور اگر اس سے مراد روئیت بصری ہو تو اس کا تعلق دنیا سے ہوگا۔ یعنی دنیا کی آنکھ سے کوئی اللہ کو نہیں دیکھ سکتا۔

تاہم یہ صحیح اور متواتر روایات سے ثابت ہے کہ قیامت والے دن اہل ایمان اللہ تعالیٰ کو دیکھیں گے اور جنت میں بھی دیدار سے مشرف ہونگے۔ اس لئے مسلمانوں کا ایک فرقہ کا اس آیت سے ثبوت و دلیل کرتے ہوئے یہ کہنا کہ اللہ کو کوئی بھی نہیں دیکھ سکتا، دنیا میں نہ آخرت میں، صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ اس نفی کا تعلق صرف دنیا سے ہے۔ اسی لئے حضرت عائشہ بھی اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے فرماتی ہیں،

جس شخص نے بھی یہ دعویٰ کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (شب معراج میں) اللہ تعالیٰ کی زیارت کی ہے، اس نے قطعاً جھوٹ بولا ۔ (صحیح بخاری)،

کیونکہ اس آیت کی روح سے پیغمبر سمیت کوئی بھی اللہ کو دیکھنے پر قادر نہیں ہے۔ البتہ آخرت کی زندگی میں دیدار ممکن ہوگا، جیسے دوسرے مقام پر قرآن نے اس کا اثبات فرمایا :

وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ (۷۵:۲۲،۲۳)

کئی چہرے اس دن ترو تازہ ہوں گے، اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہونگے۔

قَدْ جَاءَكُمْ بَصَائِرُ مِنْ رَبِّكُمْ ۖ

اب بلاشبہ تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے حق بینی کے ذرائع پہنچ چکے ہیں

فَمَنْ أَبْصَرَ فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ عَمِيَ فَعَلَيْهَا ۚ وَمَا أَنَا عَلَيْكُمْ بِحَفِيظٍ (۱۰۴)

 سو جو شخص دیکھ لے گا وہ اپنا فائدہ کرے گا اور جو شخص اندھا رہے گا وہ اپنا نقصان کرے گا (١) اور میں تمہارا نگران نہیں ہوں (٢)‏

۱۔ بصائر بصیرۃ کی جمع ہے جو اصل میں دل کی روشنی کا نام ہے یہاں مراد وہ دلائل ہیں، جو قرآن نے جگہ جگہ اور بار بار بیان کئے ہیں اور جنہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی احادیث میں بیان فرمایا ہے:

 جو ان دلائل کو دیکھ کر ہدایت کا راستہ اپنا لے گا اس میں اسی کا فائدہ ہے، نہیں اپنائے گا تو اسی کا نقصان ہے۔

جیسے فرمایا :

مَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا  (۱۷:۱۵)

 اس کا مطلب بھی وہی ہے جو زیر وضاحت آیت کا ہے

۲۔  بلکہ صرف مبلغ داعی اور بشیر و نذیر ہوں راہ دکھلانا میرا کام ہے راہ پر چلا دینا یہ اللہ کے اختیار میں ہے۔

وَكَذَلِكَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ وَلِيَقُولُوا دَرَسْتَ وَلِنُبَيِّنَهُ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ (۱۰۵)

اور ہم اس طور پر دلائل کو مختلف پہلوؤں سے بیان کرتے ہیں تاکہ یوں کہیں کہ آپ نے کسی سے پڑھ لیا ہے (١) اور تاکہ ہم کو دانشمندوں کے لئے خوب ظاہر کر دیں۔‏

یعنی ہم توحید اور اس کے دلائل کو اس طرح کھول کھول کر اور مختلف انداز سے بیان کرتے ہیں کہ مشرکین یہ کہنے لگتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہیں سے پڑھ کر اور سیکھ کر آیا ہے۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا:

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَذَا إِلَّا إِفْكٌ افْتَرَاهُ وَأَعَانَهُ عَلَيْهِ قَوْمٌ آخَرُونَ فَقَدْ جَاءُوا ظُلْمًا وَزُورًا 

کافروں نے کہا، یہ قرآن تو اس کا اپنا گھڑا ہوا ہے، جس پر دوسروں نے بھی اس کی مدد کی ہے۔ یہ لوگ ایسا دعوٰی کر کے ظلم اور جھوٹ پر اتر آئے ہیں۔

 وَقَالُوا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَهَا (۲۵:۴،۵)

نیز انہوں نے کہا کہ یہ پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں، جس کو اس نے لکھ کر رکھا ہے '

حالانکہ بات یہ نہیں ہے، جس طرح یہ سمجھتے یا دعویٰ کرتے ہیں بلکہ مقصد اس تفصیل سے سمجھ دار لوگوں کے لئے بیان و تشریح ہے تاکہ ان پر حجت بھی ہو جائے۔

اتَّبِعْ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ ۖ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ ۖ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ (۱۰۶)

آپ خود اس طریقہ پر چلتے رہئے جس کی وحی آپ کے رب تعالیٰ کی طرف سے آپ کے پاس آئی ہے، اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں اور مشرکین کی طرف خیال نہ کیجئے۔‏

وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا أَشْرَكُوا ۗ وَمَا جَعَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا ۖوَمَا أَنْتَ عَلَيْهِمْ بِوَكِيلٍ (۱۰۷)

اگر اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا تو یہ شرک نہ کرتے (١) اور ہم نے آپ کو ان کا نگران نہیں بنایا۔ اور نہ آپ ان پر مختار ہیں ۔‏(٢)

۱۔ اس نکتے کی وضاحت پہلے کی جا چکی ہے کہ اللہ کی مشیت اور چیز ہے اور اس کی رضا تو اسی میں ہے کہ اس کے ساتھ شرک نہ کیا جائے۔ تاہم اس نے اس پر انسانوں کو مجبور نہیں کیا کیونکہ جبر کی صورت میں انسان کی آزمائش نہ ہوتی، ورنہ اللہ تعالیٰ کے پاس تو ایسے اختیارات ہیں کہ وہ چاہے تو کوئی انسان شرک کرنے پر قادر ہی نہ ہو سکے (مزید دیکھئے سورۃ بقرہ آیت ٢٥٣ اور سورہ الانعام آیت٣٥ کا حاشیہ)۔

۲۔ یہ مضمون بھی قرآن مجید میں متعدد جگہ بیان کیا گیا ہے مقصد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی داعیانہ اور مبلغانہ حیثیت کی وضاحت ہے جو منصب رسالت کا تقاضا ہے اور آپ صرف اسی حد تک مکلف تھے اس سے زیادہ آپ کے پاس اگر اختیارات ہوتے تو آپ اپنے محسن چچا ابو طالب کو ضرور مسلمان کر لیتے جن کے قبول اسلام کی آپ شدید خواہش رکھتے تھے

وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ

اور گالی مت دو انکو جنکی یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں کیونکہ پھر وہ جاہلانہ ضد سے گزر کر اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کریں گے

یہ سد ذریعہ کے اصول پر مبنی ہے کہ اگر ایک درست کام، اس سے بھی زیادہ بڑی خرابی کا سبب بنتا ہو تو وہاں اس درست کام کا ترک راجح اور بہتر ہے۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

 تم کسی کے ماں باپ کو گالی مت دو کہ اس طرح تم خود اپنے والدین کے لئے گالی کا سبب بن جاؤ گے۔  (صحیح مسلم)

كَذَلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّهِمْ مَرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (۱۰۸)

ہم نے اسی طرح ہر طریقہ والوں کو انکا عمل مرغوب بنا رکھا ہے پھر اپنے رب ہی کے پاس انکو جانا ہے سو وہ انکو بتلا دیگا جو کچھ بھی کیا کرتے تھے

وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِنْ جَاءَتْهُمْ آيَةٌ لَيُؤْمِنُنَّ بِهَا ۚ

اور ان لوگوں نے قسموں میں بڑا زور لگا کر اللہ تعالیٰ کی قسم کھائی (١) اگر انکے پاس کوئی نشانی آجائے (٢) تو وہ ضرور ہی اس پر ایمان لے آئینگے

۱۔ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ ، بڑی تاکید سے قسمیں کھائیں۔

۲۔  یعنی کوئی بڑا معجزہ جو ان کی خواہش کے مطابق ہو، جیسے عصائے موسیٰ علیہ السلام۔ احیائے موتی اور ناقہء خمود وغیرہ جیسا۔

قُلْ إِنَّمَا الْآيَاتُ عِنْدَ اللَّهِ ۖ وَمَا يُشْعِرُكُمْ أَنَّهَا إِذَا جَاءَتْ لَا يُؤْمِنُونَ (۱۰۹)

آپ کہہ دیجئے کہ نشانیاں سب اللہ کے قبضہ میں ہیں (۱) اور تم کو اسکی کیا خبر وہ نشانیاں جس وقت آجائیں گی یہ لوگ تب بھی ایمان نہ لائیں گے‏

ان کا یہ مطالبہ خرق عادت تعنت و عناد کے طور پر ہے، طلب ہدایت کی نیت سے نہیں ہے۔ تاہم ان نشانیوں کا ظہور تمام تر اللہ کے اختیار میں ہے، وہ چاہے تو ان کا مطالبہ پورا کردے۔

 بعض مرسل روایات میں ہے کہ کفار نے مطالبہ کیا تھا کہ صفا پہاڑ سونے کا بنا دیا جائے تو وہ ایمان لے آئیں گے، جس پر جبرائیل علیہ السلام نے آکر کہا کہ اگر اس کے بعد بھی ایمان نہ لائے تو پھر انھیں ہلاک کر دیا جائے گا جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند نہ فرمایا۔ (ابن کثیر)

وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوا بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَنَذَرُهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ (۱۱۰)

اور ہم بھی ان کے دلوں کو اور ان کی نگاہوں کو پھیر دیں گے جیسا کہ یہ لوگ اس پر پہلی دفعہ ایمان نہیں لائے (١) اور ہم ان کی سرکشی میں حیران رہنے دیں گے۔‏

اس کا مطلب ہے کہ جب پہلی مرتبہ ایمان نہیں لائے تو اس کا وبال ان پر اس طرح پڑا کہ آئندہ بھی ان کے ایمان لانے کا امکان ختم ہوگیا۔ دلوں اور نگاہوں کو پھیر دینے کا یہی مفہوم ہے۔  (ابن کثیر)

وَلَوْ أَنَّنَا نَزَّلْنَا إِلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةَ وَكَلَّمَهُمُ الْمَوْتَى وَحَشَرْنَا عَلَيْهِمْ كُلَّ شَيْءٍ قُبُلًا مَا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ

اور اگر ہم ان کے پاس فرشتوں کو بھی بھیج دیتے اور ان سے مردے باتیں کرنے لگتے (١) اور ہم تمام موجودات کو ان کے پاس ان کی آنکھوں کے روبرو لا کر جمع کر دیتے ہیں (٢)

تب بھی یہ لوگ ہرگز ایمان نہ لاتے ہاں اگر اللہ ہی چاہے تو اور بات ہے

۱۔ اور وہ حضرت محمد رسول اللہ کی رسالت کی تصدیق کر دیتے۔

۲۔  دوسرا مفہوم اس کا بیان کیا گیا ہے کہ جو نشانیاں وہ طلب کرتے ہیں وہ سب ان کے روبرو پیش کر دیتے۔

 اور ایک مفہوم یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ ہرچیز جمع ہو کر گروہ در گروہ یہ گواہی دے کہ پیغمبروں کا سلسلہ برحق ہے تو ان تمام نشانیوں اور مطالبوں کے پورا کر دینے کے باوجود یہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ مگر جس کو اللہ چاہے اسی مفہوم کی یہ آیت بھی ہے (سورۃ یونس ٩٦۔٩٧)

جن پر تیرے رب کی بات ثابت ہوگئی ہے وہ ایمان نہیں لائیں گے، اگرچہ ان کے پاس ہر قسم کی نشانی آجائے یہاں تک کہ کہ وہ دردناک عذاب دیکھ لیں۔

وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُونَ (۱۱۱)

 لیکن ان میں زیادہ لوگ جہالت کی باتیں کرتے ہیں۔

اور یہ جہالت کی باتیں ہی ان کے اور حق قبول کرنے کے درمیان حائل ہیں۔ اگر جہالت کا پردہ اٹھ جائے تو شاید حق ان کی سمجھ میں آجائے اور اللہ کی مشیت سے حق کو اپنا لیں۔

وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا ۚ

اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن بہت سے شیطان پیدا کئے تھے کچھ آدمی اور کچھ جن (١) جن میں سے بعض بعضوں کو چکنی چپڑی باتوں کا وسوسہ ڈالتے رہتے تھے تاکہ ان کو دھوکا میں ڈال دیں (٢)

۱۔ یہ وہی بات ہے جو مختلف انداز میں رسول اللہ کی تسلی کے لئے فرمائی گئی ہے کہ آپ سے پہلے جتنے بھی انبیاء گزرے ان کو جھٹلایا گیا انھیں ایذائیں دی گئیں وغیرہ وغیرہ۔ مقصد یہ ہے کہ جس طرح انہوں نے صبر اور حوصلے سے کام لیا، آپ بھی ان دشمنان حق کے مقابلے میں صبر و استقامت کا مظاہرہ فرمائیں،

اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شیطان کے پیروکار جنوں میں سے بھی ہیں اور یہ وہ ہیں جو دونوں گروہوں میں سے، باغی اور متکبر قسم کے ہیں۔

۲۔  وَحْیُ، خفیہ بات کو کہتے ہیں یعنی انسانوں اور جنوں کو گمراہ کرنے کے لئے ایک دوسرے کو چالبازیاں اور حیلے سکھاتے ہیں تاکہ لوگوں کو دھوکے اور فریب میں مبتلا کر سکیں۔ یہ بات عام مشاہدے میں بھی آئی ہے کہ شیطانی کاموں میں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ خوب بڑھ چڑھ کر تعاون کرتے ہیں جسکی وجہ سے برائی بہت جلدی فروغ پا جاتی ہے۔

وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ ۖ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ (۱۱۲)

اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو یہ ایسے کام نہ کر سکتے (۱) سو ان لوگوں کو اور جو کچھ یہ الزام تراشی کر رہے ہیں اس کو آپ رہنے دیجئے۔‏

یعنی اللہ تعالیٰ تو ان شیطانی ہتھکنڈوں کو ناکام بنانے پر قادر ہے۔ لیکن بالجبر ایسا نہیں کرے گا کیونکہ ایسا کرنا اس کے نظام اور اصول کے خلاف ہے جو اس نے اپنی مشیت کے تحت اختیار کیا، جس کی حکمتیں وہ بہتر جانتا ہے۔

وَلِتَصْغَى إِلَيْهِ أَفْئِدَةُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَلِيَرْضَوْهُ وَلِيَقْتَرِفُوا مَا هُمْ مُقْتَرِفُونَ (۱۱۳)

اور تاکہ اس طرف ان لوگوں کے قلوب مائل ہوجائیں جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے اور تاکہ اس کو پسند کرلیں اور مرتکب ہوجائیں ان امور کے جن کے وہ مرتکب ہوتے تھے ۔

یعنی شیطانی وسوسہ کا شکار وہی لوگ ہوتے ہیں اور وہی اس کو پسند کرتے ہیں اور اس کے مطابق عمل کرتے ہیں جو آخرت میں ایمان نہیں رکھتے۔ اور یہ حقیقت ہے کی جس حساب سے لوگوں کے اندر عقیدہ آخرت کے بارے میں ضعف پیدا ہو رہا ہے، اسی حساب سے لوگ شیطانی جال میں پھنس رہے ہیں۔

أَفَغَيْرَ اللَّهِ أَبْتَغِي حَكَمًا وَهُوَ الَّذِي أَنْزَلَ إِلَيْكُمُ الْكِتَابَ مُفَصَّلًا ۚ

تو کیا اللہ کے سوا کسی اور فیصلہ کرنے والے کو تلاش کروں حالانکہ وہ ایسا ہے اس نے ایک کتاب کامل تمہارے پاس بھیج دی اس کے مضامین خوب صاف صاف بیان کئے گئے ہیں

وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْلَمُونَ أَنَّهُ مُنَزَّلٌ مِنْ رَبِّكَ بِالْحَقِّ ۖ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ (۱۱۴)

اور جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس بات کو یقین کے ساتھ جانتے ہیں کہ یہ آپ کے رب کی طرف سے حق کے ساتھ بھیجی گئی ہے سو آپ شبہ کرنے والوں میں سے نہ ہوں ۔

آپ کو خطاب کرکے دراصل امت کو تعلیم دی جا رہی ہے۔

وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلًا ۚ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ ۚ

آپ کے رب کا کلام سچائی اور انصاف کے اعتبار سے کامل ہے (١) اس کلام کا کوئی بنانے والا نہیں (٢)

۱۔ اخبار اور واقعات کے لحاظ سے سچا ہے اور احکام و مسائل کے اعتبار سے عادل ہے، یعنی اس کا ہر امر اور نہی عدل و انصاف پر مبنی ہے، کیونکہ اس نے انہی باتوں کا حکم دیا ہے جن میں انسانوں کا فائدہ ہے اور انہی چیزوں سے روکا ہے جس میں نقصان اور فساد ہے۔ گو انسان اپنی نادانی یا اغوائے شیطانی کی وجہ سے اس حقیقت کو نہ سمجھ سکیں۔

۲۔ یعنی کوئی ایسا نہیں جو رب کے کسی حکم میں تبدیلی کردے، کیونکہ اس سے بڑھ کر کوئی طاقتور نہیں۔

وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (۱۱۵)

اور وہ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے (٣)۔‏

یعنی بندوں کے اقوال سننے والا اور ان کی ایک ایک حرکت و ادا کو جاننے والا ہے اور اس کے مطابق ہر ایک کو جزا دے گا۔

وَإِنْ تُطِعْ أَكْثَرَ مَنْ فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ ۚ

اور دنیا میں زیادہ لوگ ایسے ہیں کہ اگر آپ ان کا کہنا ماننے لگیں تو آپ کو اللہ کی راہ سے بےراہ کر دیں

إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ (۱۱۶)

 محض بے اصل خیالات پر چلتے ہیں اور بالکل قیاسی باتیں کرتے ہیں۔

قرآن کی اس بیان کردہ حقیقت کا بھی، واقعہ کے طور پر ہر دور میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا (سورہ یوسف،١٠٣)

آپ کی خوہش کے باوجود اکثر لوگ ایمان والے نہیں،

اس سے معلوم ہوا، حق اور صداقت کے راستے پر چلنے والے لوگ ہمیشہ تھوڑے ہی ہوتے ہیں۔ جس سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ حق وباطل کا معیار، دلائل وبراہین ہیں، لوگوں کی اکثریت و اقلیت نہیں۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ جس بات کو اکثریت نے اختیار کیا ہوا ہو، وہ حق ہو اور اقلیت میں رہنے والے باطل پر ہوں۔ بلکہ مذکورہ حقیقت قرآنی کی رو سے یہ زیادہ ممکن ہے کہ اہل حق تعداد کے لحاظ سے اقلیت میں ہوں اور اہل باطل اکثریت میں۔ جس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :

 میری امت ۷۳ فرقوں میں بٹ جائے گی، جن میں سے صرف ایک فرقہ جنتی ہوگا، باقی سب جہنمی۔

اور اس جنتی فرقے کی نشانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمائی کہ جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر چلنے والا ہوگا۔

إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ مَنْ يَضِلُّ عَنْ سَبِيلِهِ ۖ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (۱۱۷)

بالیقین آپ کا رب ان کو خوب جانتا ہے اور جو اس کی راہ سے بےراہ ہو جاتا ہے۔ اور وہ ان کو بھی خوب جانتا ہے جو اس کی راہ پر چلتے ہیں۔‏

فَكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كُنْتُمْ بِآيَاتِهِ مُؤْمِنِينَ (۱۱۸)

جس جانور پر اللہ کا نام لیا جائے اس میں سے کھاؤ! اگر تم اس کے احکام پر ایمان رکھتے ہو ۔

یعنی جس جانور پر شکار کرتے وقت یا ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لیا جائے۔ اسے کھالو بشرطیکہ وہ ان جانوروں میں سے ہو جن کا کھانا حلال ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس جانور پر اللہ کا نام نہ لیا جائے وہ حلال و طیب نہیں البتہ اس سے ایسی صورت مستشنٰی ہے جس میں یہ التباس ہو کہ ذبح کے وقت ذبح کرنے والے نے اللہ کا نام لیا ہے یا نہیں؟ اس میں حکم یہ ہے کہ اللہ کا نام لے کر اسے کھالو۔

 حدیث میں آتا ہے:

 حضرت عائشہ نے رسول اللہ سے پوچھا کہ کچھ لوگ ہمارے پاس گوشت لے کر آتے ہیں (اس سے مراد اعرابی تھے جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور اسلامی تعلیم و تربیت سے پوری طرح بہرہ ور نہیں تھے) ہم نہیں جانتے کہ انہوں نے اللہ کا نام لیا یا نہیں؟

آپ نے فرمایا تم اللہ کا نام لے کر اسے کھا لو ' البتہ شبہ کی صورت میں یہ رخصت ہے۔

 اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر قسم کے جانور کا گوشت بسم اللہ پڑھ لینے سے حلال ہو جائے گا۔ اس سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی منڈیوں اور دکانوں پر ملنے والا گوشت حلال ہے۔ ہاں اگر کسی کو وہم اور التباس ہو تو وہ کھاتے وقت بسم اللہ پڑھ لے۔

وَمَا لَكُمْ أَلَّا تَأْكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَقَدْ فَصَّلَ لَكُمْ مَا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ ۗ

اور آخر کیا وجہ ہے کہ تم ایسے جانور میں سے نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان سب جانوروں کی تفصیل بتا دی ہے جن کو تم پر حرام کیا ہے (١)

مگر وہ بھی جب تمہیں سخت ضرورت پڑ جائے تو حلال ہے

جس کی تفصیل اسی سورت میں آگے آرہی ہے، اس کے علاوہ بھی اور سورتوں نیز احادیث میں محرمات کی تفصیل بیان کر دی گئی ہے۔ ان کے علاوہ باقی حلال ہیں اور حرام جانور بھی عند الاضطرار سد رمق کی حد تک جائز ہیں۔

وَإِنَّ كَثِيرًا لَيُضِلُّونَ بِأَهْوَائِهِمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ

 اور یہ یقینی بات ہے کہ بہت سے آدمی اپنے خیالات پر بلا کسی سند کے گمراہ کرتے ہیں

إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِينَ (۱۱۹)

 اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ حد سے نکل جانے والوں کو خوب جانتا ہے۔‏

وَذَرُوا ظَاهِرَ الْإِثْمِ وَبَاطِنَهُ ۚ

اور تم ظاہری گناہ کو بھی چھوڑ دو اور باطنی گناہ کو بھی چھوڑ دو

إِنَّ الَّذِينَ يَكْسِبُونَ الْإِثْمَ سَيُجْزَوْنَ بِمَا كَانُوا يَقْتَرِفُونَ (۱۲۰)

 بلاشبہ جو لوگ گناہ کر رہے ہیں ان کو ان کے کئے کی عنقریب سزا ملے گی۔‏

وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ ۗ

اور ایسے جانوروں میں سے مت کھاؤ جن پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اور یہ کام نافرمانی کا ہے

یعنی عمداً اللہ کا نام جس جانور پر نہ لیا گیا، اس کا کھانا فسق اور ناجائز ہے،

 حضرت ابن عباس نے اس کے یہی معنی بیان کئے ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ بھول جانے والے کو فاسق نہیں کہا جاتا اور امام بخاری کا رجحان بھی یہی ہے تاہم امام شافعی کا مسلک یہ ہے کہ مسلمان کا ذبیحہ دونوں صورتوں میں حلال ہے چاہے وہ اللہ کا نام لے یا چھوڑ دے اور وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ ،کو غیر اللہ کے نام ذبح کئے گئے جانور سے متعلق قرار دیتے ہیں

وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَى أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ ۖ

اور یقیناً شیاطین اپنے دوستوں کے دل میں ڈالتے ہیں تاکہ یہ تم سے جدال کریں

شیطان نے اپنے ساتھیوں کے ذریعے سے یہ بات پھیلائی کہ یہ مسلمان اللہ کے ذبح کئے ہوئے جانور (یعنی مردہ) کو تو حرام اور اپنے ہاتھ سے ذبح شدہ کو حلال قرار دیتے ہیں اور دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ ہم اللہ کو ماننے والے ہیں۔

 اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ شیطان اور اس کے دوستوں کے وسوسوں کے پیچھے مت لگو، جو جانور مردہ ہے یعنی بغیر ذبح کئے مر گیا (سوائے سمندرى مچھلی کے وہ حلال ہے) اس پر چونکہ اللہ کا نام نہیں لیا گیا، اس لئے اس کا کھانا حلال نہیں ہے۔

وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ (۱۲۱)

اور اگر تم ان لوگوں کی اطاعت کرنے لگو تو یقیناً تم مشرک ہو جاؤ گے۔‏

أَوَمَنْ كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَاهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُمَاتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِنْهَا ۚ

ایسا شخص جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کر دیا اور ہم نے اس کو ایک ایسا نور دیا کہ وہ اس کو لئے ہوئے آدمیوں میں چلتا پھرتا ہے کیا ایسا شخص اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے؟ جو تاریکیوں سے نکل ہی نہیں پاتا

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کافروں کو میت (مردہ) مؤمن کو حی (زندہ) قرار دیا۔ اس لئے کہ کافر کفرو ضلالت کی تاریکیوں میں بھٹکتا پھرتا ہے اور اس سے نکل ہی نہیں پاتا جس کا نتیجہ ہلاکت و بربادی ہے۔

 اور مؤمن کے دل کو اللہ تعالیٰ ایمان کے ذریعے سے زندہ فرماتا ہے جس سے زندگی کی راہیں اس کے لئے روشن ہو جاتی ہیں اور وہ ایمان اور ہدایت کے راستے پر گامزن ہو جاتا ہے، جس کا نتیجہ کامیابی اور کامرانی ہے۔

 یہ وہی مضمون ہے جو حسب ذیل آیات میں بیان کیا گیا ہے۔ سورہ بقرہ ۲۵۷، سورہ ھود ۲٤، سورہ فاطر، ۱۹،۲۲،

كَذَلِكَ زُيِّنَ لِلْكَافِرِينَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (۱۲۲)

اسی طرح کافروں کو ان کے اعمال خوش نما معلوم ہوا کرتے ہیں۔‏

وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا فِي كُلِّ قَرْيَةٍ أَكَابِرَ مُجْرِمِيهَا لِيَمْكُرُوا فِيهَا ۖ

اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں وہاں کے رئیسوں ہی کو جرائم کا مرتکب بنایا تاکہ وہ لوگ وہاں فریب کریں

أَكَابِرَ سے مراد کافروں اور فاسقوں کے سرغنے اور کھڑپینچ ہیں کیونکہ یہی انبیاء اور داعیان حق کی مخالفت میں پیش پیش ہوتے ہیں اور عام لوگ تو صرف ان کے پیچھے لگنے والے ہوتے ہیں۔

 علاوہ ازیں ایسے لوگ عام طور پر دنیاوی دولت اور خاندانی وجاہت کے اعتبار سے بھی نمایاں ہوتے ہیں۔ اس لیے مخالفت حق میں بھی ممتاز ہوتے ہیں

یہی مضمون سورہ سبا کی آیات ۳۱ تا ۳۳ سورہ زخرف ۲۳ سورہ نوح ۲۲ وغیرھا میں بھی بیان کیا گیا ہے۔

وَمَا يَمْكُرُونَ إِلَّا بِأَنْفُسِهِمْ وَمَا يَشْعُرُونَ (۱۲۳)

اور لوگ اپنے ہی ساتھ فریب کر رہے ہیں اور ان کو ذرا خبر نہیں ۔

یعنی ان کی اپنی شرارت کا وبال اور اسی طرح ان کے پیچھے لگنے والے کا وبال، انہی پر پڑے گا

 (مزید دیکھے سورۃ عنکبوت ١٣ سورہ نحل ٢٥)

وَإِذَا جَاءَتْهُمْ آيَةٌ قَالُوا لَنْ نُؤْمِنَ حَتَّى نُؤْتَى مِثْلَ مَا أُوتِيَ رُسُلُ اللَّهِ ۘ اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ ۗ

اور جب ان کو کوئی آیت پہنچتی ہے تو یوں کہتے ہیں کہ ہم ہرگز ایمان نہ لائیں گے جب تک کہ ہم کو بھی ایسی ہی چیز نہ دی جائے جو اللہ کے رسولوں کو دی جاتی ہے (١)

اس موقع کو تو اللہ تعالیٰ ہی خوب جانتا ہے کہ کہاں وہ اپنی پیغمبری رکھے (٢)

۱۔ یعنی ان کے پاس بھی فرشتے وحی لے کر آئیں ان کے سروں پر بھی نبوت اور رسالت کا تاج رکھا جائے۔

۲۔ یعنی یہ فیصلہ کرنا کہ کس کو نبی بنایا جائے؟ یہ تو اللہ ہی کام ہے کیونکہ وہی ہر بات کی حکمت و مصلحت کو جانتا ہے اور اسے ہی معلوم ہے کون اس منصب کا اہل ہے؟ مکہ کا کوئی چوہدری اور رئیس یا جناب عبد اللہ و حضرت آمنہ کا در یتیم۔

سَيُصِيبُ الَّذِينَ أَجْرَمُوا صَغَارٌ عِنْدَ اللَّهِ وَعَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا كَانُوا يَمْكُرُونَ (۱۲۴)

عنقریب ان لوگوں کو جنہوں نے جرم کیا اللہ کے پاس پہنچ کر ذلت پہنچے گی اور ان کی شرارتوں کے مقابلے میں سزائے سخت۔‏

فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ ۖ وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقًا حَرَجًا كَأَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاءِ ۚ

سو جس شخص کو اللہ تعالیٰ راستہ پر ڈالنا چاہے اس کے سینہ کو اسلام کے لئے کشادہ کر دیتا ہے جس کو بےراہ رکھنا چاہے اس کے سینے کو بہت تنگ کر دیتا ہے جیسے کوئی آسمان پر چڑھتا ہے

یعنی جس طرح زور لگا کر آسمان پر چڑھنا ممکن نہیں۔ اسی طرح جس شخص کے سینے کو اللہ تعالیٰ تنگ کردے اس میں توحید اور ایمان کا داخلہ ممکن نہیں، الایہ کہ اللہ تعالیٰ ہی اس کا سینہ اس کے لئے کھول دے۔

كَذَلِكَ يَجْعَلُ اللَّهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ (۱۲۵)

اس طرح اللہ تعالیٰ ایمان نہ لانے والوں پر ناپاکی مسلط کر دیتا ہے ۔

یعنی جس طرح سینہ تنگ کر دیتا ہے اسی طرح رجس میں مبتلا کر دیتا ہے، رجس سے مراد پلیدی یا عذاب یا شیطان کا تسلط ہے۔

وَهَذَا صِرَاطُ رَبِّكَ مُسْتَقِيمًا ۗ قَدْ فَصَّلْنَا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَذَّكَّرُونَ (۱۲۶)

اور یہی تیرے رب کا سیدھا راستہ ہے ہم نے نصیحت حاصل کرنے والوں کے واسطے ان آیتوں کو صاف صاف بیان کر دیا۔‏

لَهُمْ دَارُ السَّلَامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۖ وَهُوَ وَلِيُّهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (۱۲۷)

ان لوگوں کے واسطے ان کے رب کے پاس سلامتی کا گھر ہے اور اللہ تعالیٰ ان سے محبت رکھتا ہے ان کے اعمال کی وجہ سے ۔‏

یعنی جس طرح دنیا میں اہل ایمان کفر و ضلالت کے کج راستوں سے بچ کر ایمان و ہدایت کی صراط مستقیم پر گامزن رہے، اب آخرت میں بھی ان کے لئے سلامتی کا گھر ہے اور اللہ تعالیٰ بھی ان کا، ان کے نیک عملوں کی وجہ سے دوست اور کار ساز ہے۔

وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُمْ مِنَ الْإِنْسِ ۖ

اور جس روز اللہ تعالیٰ تمام خلائق کو جمع کرے گا (کہے گا) اے جماعت جنات کی! تم نے انسانوں میں سے بہت سے اپنا لئے

یعنی انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد تم نے گمراہ کرکے اپنا پیروکار بنا لیا۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے سورۃ یٰسین میں فرمایا :

اے بنی آدم کیا میں نے تمہیں خبردار نہیں کر دیا تھا کہ تم شیطان کی پوجا مت کرنا، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے

اور یہ کہ تم صرف میری عبادت کرنا یہی سیدھا راستہ ہے اور شیطان نے تمہاری ایک بہت بڑی تعداد کو گمراہ کر دیا ہے کیا پس تم نہیں سمجھتے ۔ (یٰسین۔ ٦٠،٦٢)

وَقَالَ أَوْلِيَاؤُهُمْ مِنَ الْإِنْسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَبَلَغْنَا أَجَلَنَا الَّذِي أَجَّلْتَ لَنَا ۚ

جو انسان ان کے ساتھ تعلق رکھنے والے تھے وہ کہیں گے

اے ہمارے پروردگار! ہم میں ایک نے دوسرے سے فائدہ حاصل کیا تھا (۱) اور ہم اپنی اس معین میعاد تک آپہنچے جو تو نے جو ہمارے لئے معین فرمائی

جنوں اور انسانوں نے ایک دوسر سے کیا فائدہ حاصل کیا؟

 اس کے دو مفہوم بیان کئے گئے ہیں۔

جنوں کا انسانوں سے فائدہ اٹھانا ان کو اپنا پیروکار بنا کر تلذذ حاصل کرنا

 اور انسانوں کا جنوں سے فائدہ اٹھانا یہ ہے کہ شیطان نے گناہوں کو ان کے لئے خوبصورت بنا دیا جسے انہوں نے قبول کیا اور گناہوں کی لذت میں پھنسے رہے۔

دوسرا مفہوم یہ ہے کی انسان ان غیبی خبروں کی تصدیق کرتے رہے جو شیاطین و جنات کی طرف سے کہانت کے طور پر پھیلائی جاتی تھیں

 یہ گویا جنات نے انسانوں کو بیوقوف بنا کر فائدہ اٹھایا یہ ہی انسان جنات کا بیان کردہ جھوٹی اٹکل پچو باتوں سے لطف اندوز ہوتے اور کاہن قسم کے لوگ ان سے دنیاوی مفادات حاصل کرتے۔

قَالَ النَّارُ مَثْوَاكُمْ خَالِدِينَ فِيهَا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۗ

 اللہ فرمائے گا کہ تم سب کا ٹھکانہ دوزخ ہے جس میں ہمیشہ رہو گے ہاں اگر اللہ ہی کو منظور ہو تو دوسری بات ہے۔

یعنی قیامت واقع ہوگئی جسے ہم دنیا میں نہیں مانتے تھے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اب جہنم تمہارا دائمی ٹھکانا ہے۔

إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ (۱۲۸)

بیشک آپ کا رب بڑی حکمت والا بڑا علم والا ہے۔‏

وَكَذَلِكَ نُوَلِّي بَعْضَ الظَّالِمِينَ بَعْضًا بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ (۱۲۹)

اور اسی طرح ہم بعض کفار کو بعض کے قریب رکھیں گے ان کے اعمال کے سبب

یعنی جہنم میں جیسا کہ ترجمہ سے واضح ہے۔

 دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح ہم نے انسانوں اور جنوں کو ایک دوسرے کے ساتھی اور مددگار بنایا اسی طرح ہم نے ظالموں کے ساتھ معاملہ کرتے ہیں ایک ظالم کو دوسرے ظالم پر ہم مسلط کر دیتے ہیں اس ایک ظالم دوسرے ظالم کو ہلاک اور تباہ کرتا ہے اور ایک ظالم کا انتقام دوسرے ظالم سے لے لیتے ہیں۔

يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي وَيُنْذِرُونَكُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَذَا ۚ

اے جنات اور انسانوں کی جماعت! کیا تمہارے پاس تم میں سے پیغمبر نہیں آئے تھے (١) جو تم سے میرے احکام بیان کرتے اور تم کو آج کے دن کی خبر دیتے؟

رسالت و نبوت کے معاملے میں جنات انسانوں کے ہی تابع ہیں ورنہ جنات میں الگ نبی نہیں آئے البتہ رسولوں کا پیغام پہنچانے والے اور منذرین جنات میں ہوتے رہے ہیں جو اپنی قوم کے جنوں کو اللہ کی طرف دیتے رہے ہیں اور دیتے ہیں۔ لیکن ایک خیال یہ بھی ہے کہ چونکہ جنات کا وجود انسان کے وجود سے پہلے سے ہے تو ان کی ہدایت کے لئے انہیں میں سے کوئی نبی آیا ہوگا پھر آدم علیہ السلام کے وجود کے بعد ہو سکتا ہے وہ انسانی نبیوں کے تابع رہے ہوں، البتہ نبی کریم کی رسالت بہرحال تمام جن انس کے لئے ہے اس میں کوئی شبہ نہیں۔

قَالُوا شَهِدْنَا عَلَى أَنْفُسِنَا ۖ

وہ سب عرض کریں گے کہ ہم اپنے اوپر اقرار کرتے ہیں

وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَشَهِدُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُوا كَافِرِينَ (۱۳۰)

 اور ان کو دنیاوی زندگی نے بھول میں ڈالے رکھا اور یہ لوگ اقرار کرنے والے ہوں گے کہ وہ کافر تھے

میدان حشر میں کافر مختلف پینترے بدلیں گے، کبھی اپنے مشرک ہونے کا انکار کریں گے (الا نعام،١٢٣) اور کبھی اقرار کئے بغیر چارہ نہیں ہوگا، جیسے یہاں ان کا اقرار نقل کیا گیا ہے۔

ذَلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرَى بِظُلْمٍ وَأَهْلُهَا غَافِلُونَ (۱۳۱)

اس وجہ سے کہ آپ کا رب کسی بستی والوں کو کفر کے سبب ایسی حالت میں ہلاک نہیں کرتا کہ اس بستی کے رہنے والے بےخبر ہوں ۔

یعنی رسولوں کے ذریعے سے جب تک اپنی حجت قائم نہیں کردیتا، ہلاک نہیں کرتا جیسا کہ یہی بات سورۃ فاطر آیت، ٤٢۔ سورۃ نحل ٦٢، سورۃ بنی اسرائیل ١٥ اور سورہ ملک ٨،٩ وغیرہ میں بیان کی گئی ہے۔

وَلِكُلٍّ دَرَجَاتٌ مِمَّا عَمِلُوا ۚ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ (۱۳۲)

اور ہر ایک کے لئے ان کے اعمال کے سبب درجے ملیں گے اور آپ کا رب (١) ان کے اعمال سے بےخبر نہیں ہے۔‏

یعنی ہر انسان اور جن کے، ان کے با ہمی درجات میں، عملوں کے مطابق، فرق، تفاوت ہوگا، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جنات بھی انسانوں کی طرح جنتی اور جہنمی ہونگے۔

وَرَبُّكَ الْغَنِيُّ ذُو الرَّحْمَةِ ۚ

اور آپ کا رب بالکل غنی ہی ہے رحمت والا ہے۔

وہ غنی بےنیاز ہے اپنی مخلوقات سے۔ ان کا محتاج ہے نہ ان کی عبادتوں کا ضرورت مند ہے، ان کا ایمان اس کے لیے نفع مند ہے نہ ان کا کفر اس کے لیے ضرر رساں لیکن اس شان غنا کے ساتھ وہ اپنی مخلوق کے لیے رحیم بھی ہے۔ اس کی بےنیازی اپنی مخلوق پر رحمت کرنے میں مانع نہیں ہے۔

إِنْ يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَسْتَخْلِفْ مِنْ بَعْدِكُمْ مَا يَشَاءُ كَمَا أَنْشَأَكُمْ مِنْ ذُرِّيَّةِ قَوْمٍ آخَرِينَ (۱۳۳)

 اگر وہ چاہے تم سب کو اٹھا لے اور تمہارے بعد جس کو چاہے تمہای جگہ آباد کردے جیسا کہ تم کو ایک دوسری قوم کی نسل سے پیدا کیا ہے۔

یہ اس کی بےپناہ قوت اور غیر محدود قدرت کا اظہار ہے جس طرح پچھلی کئی قوموں کو اس نے حرف غلط کی طرح مٹا دیا اور ان کی جگہ نئی قوموں کو اٹھا کھڑا کیا، وہ اب بھی اس بات پر قادر ہے کہ جب چاہے تمہیں نیست و نبود کردے اور تمہاری جگہ ایسی قوم پیدا کردے جو تم جیسی نہ ہو۔

 مزید ملاحظہ ہو سورہ نساء ۱۳۳، سورہ ابراہیم ۲۰، سورہ فاطر ۱۵،۱۷، سورہ محمد۳۸۔

إِنَّ مَا تُوعَدُونَ لَآتٍ ۖ وَمَا أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ (۱۳۴)

جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ بیشک آنے والی چیز ہے تم عاجز نہیں کر سکتے۔‏

اس سے مراد قیامت ہے

 اور تم عاجز نہیں کرسکتے کا مطلب ہے کہ وہ تمہیں دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے چاہے تم مٹی میں مل کر ریزہ ریزہ ہوچکے ہو۔

قُلْ يَا قَوْمِ اعْمَلُوا عَلَى مَكَانَتِكُمْ إِنِّي عَامِلٌ ۖ

آپ یہ فرما دیجئے اے میری قوم! تم اپنی حالت پر عمل کرتے رہو میں بھی عمل کر رہا ہوں

یہ کفر اور معصیت پر قائم رہنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ سخت وعید ہے جیسا کہ اگلے الفاظ سے واضح ہے۔

جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا :

جو ایمان نہیں لاتے ان سے کہہ دیجئے! کہ تم اپنی جگہ عمل کئے جاؤ ہم بھی عمل کرتے ہیں اور انتظار کرو ہم بھی منتظر ہیں۔ سورۃ ہود ۔٢١

فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ مَنْ تَكُونُ لَهُ عَاقِبَةُ الدَّارِ ۗ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ (۱۳۵)

سو اب جلد ہی تم کو معلوم ہوا جاتا ہے کہ اس عالم کا انجام کار کس کیلئے نافع ہوگا یہ یقینی بات ہے کہ حق تلفی کرنے والوں کو کبھی فلاح نہ ہوگی۔‏

جیساکہ تھوڑے ہی عرصے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ وعدہ سچا کر دکھا یا۔

۸ ہجری میں مکہ فتح ہوگیا اور اس کی فتح کے بعد عرب قبائل جوق در جوق مسلمان ہونا شروع ہوگئے اور پورا جزیرہ عرب مسلمانوں کے زیرنگیں آگیا۔

وَجَعَلُوا لِلَّهِ مِمَّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْأَنْعَامِ نَصِيبًا فَقَالُوا هَذَا لِلَّهِ بِزَعْمِهِمْ وَهَذَا لِشُرَكَائِنَا ۖ

اور اللہ تعالیٰ نے جو کھیتی اور مویشی پیدا کئے ہیں ان لوگوں نے ان میں سے کچھ حصہ اللہ کا مقرر کیا اور خود کہتے ہیں کہ یہ تو اللہ کا ہے اور یہ ہمارے معبودوں کا ہے

اس آیت میں مشرکوں کے عقیدہ و عمل کا ایک نمونہ بتلایا گیا ہے جو انہوں نے اپنے طور پر گھڑ رکھا تھا اور وہ زمینی پیداوار اور مال مویشی میں سے کچھ حصہ اللہ کے لئے اور کچھ اپنے خود ساختہ معبودوں کے لئے مقرر کر لیتے اللہ کے حصے کو مہمانوں، فقرا اور صلہ رحمی پر خرچ کرتے اور بتوں کے حصے کو مجاورین اور ان کی ضروریات پر خرچ کرتے۔

 پھر اگر بتوں کے مقرر حصے میں توقع کے مطابق پیداوار نہ ہوتی تو اللہ کے حصے میں سے نکال کر اس میں شامل کر لیتے اور اس کے برعکس معاملہ ہو تو بتوں کے حصے میں سے نہ نکالتے اور کہتے کہ اللہ تو غنی ہے۔

فَمَا كَانَ لِشُرَكَائِهِمْ فَلَا يَصِلُ إِلَى اللَّهِ ۖ

پھر جو چیز ان کے معبودوں کی ہوتی ہے وہ تو اللہ کی طرف نہیں پہنچتی

یعنی اللہ کے حصہ کی کمی کی صورت میں بتوں کی مقررہ حصے میں سے صدقات و خیرات نہ کرتے۔

وَمَا كَانَ لِلَّهِ فَهُوَ يَصِلُ إِلَى شُرَكَائِهِمْ ۗ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ (۱۳۶)

اور جو چیز اللہ کی ہوتی ہے وہ ان کے معبودوں کی طرف پہنچ جاتی ہے (۱) کیا برا فیصلہ وہ کرتے ہیں۔‏

ہاں اگر بتوں کے مقررہ حصے میں کمی ہوجاتی تو وہ اللہ کے مقررہ حصے سے لے کر بتوں کے مصالح اور ضروریات پر خرچ کر لیتے۔

یعنی اللہ کے مقابلے میں بتوں کی عظمت اور ان کا خوف ان کے دلوں میں زیادہ تھا جس کا مشاہدہ آج کے مشرکین کے رویے سے بھی کیا جاسکتا ہے۔

وَكَذَلِكَ زَيَّنَ لِكَثِيرٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ قَتْلَ أَوْلَادِهِمْ شُرَكَاؤُهُمْ لِيُرْدُوهُمْ وَلِيَلْبِسُوا عَلَيْهِمْ دِينَهُمْ ۖ

اور اسی طرح بہت سے مشرکین کے خیال میں ان کے معبودوں نے ان کی اولاد کے قتل کرنے کو مستحسن بنا رکھا ہے (١) تاکہ وہ ان کو برباد نہ کریں اور تاکہ ان کے دین کو ان پر مشتبہ کردیں (٢)

۱۔ یہ اشارہ ہے ان کی بچیوں کے زندہ درگور کر دینے یا بتوں کی بھینٹ چڑھانے کی طرف۔

۲۔ یعنی ان کے دین میں شرک کی آمیزش کر دیں۔

وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا فَعَلُوهُ ۖ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ (۱۳۷)

اور اگر اللہ کو منظور ہوتا تو ایسا کام نہ کرتے (۱) تو آپ نے ان کو اور جو کچھ غلط باتیں بنا رہے ہیں یونہی رہنے دیجئے۔‏

یعنی اللہ تعالیٰ اپنے اختیارات اور قدرت سے ان کے ارادہ و اختیار کی آزادی کو سلب کر لیتا، تو پھر یقیناً یہ وہ کام نہ کرتے جو مذکور ہوئے ہی لیکن ایسا کرنا چونکہ جبر ہوتا، جس میں انسان کی آزمائش نہیں ہوسکتی تھی، جب کہ اللہ انسان کو ارادہ و اختیار کی آزادی دے کر آزمانا چاہتا ہے، اس لئے اللہ نے جبر نہیں فرمایا۔

وَقَالُوا هَذِهِ أَنْعَامٌ وَحَرْثٌ حِجْرٌ لَا يَطْعَمُهَا إِلَّا مَنْ نَشَاءُ بِزَعْمِهِمْ

اور وہ اپنے خیال پر یہ بھی کہتے ہیں یہ کچھ مویشی ہیں اور کھیت میں جن کا استعمال ہر شخص کو جائز نہیں ان کو کوئی نہیں کھا سکتا سوائے ان کے جن کو ہم چاہیں

اس میں ان کی جاہلی شریعت اور اباطیل کی تین صورتیں اور بیان فرمائی ہیں۔

حِجْرٌ (بمعنی منع) اگرچہ مصدر ہے لیکن مفعول یعنی مَحْجُوْر (ممنوع) کے معنی ہیں یہ پہلی صورت ہے کہ جانور یا فلاں کھیت کی پیداوار، ان کا استعمال ممنوع ہے۔ اسے صرف وہی کھائے گا جسے ہم اجازت دیں گے۔ یہ اجازت بتوں کے خادم اور مجاورین کے لئے ہوتی ہے۔

وَأَنْعَامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُهَا وَأَنْعَامٌ لَا يَذْكُرُونَ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا افْتِرَاءً عَلَيْهِ ۚ

اور مویشی ہیں جن پر سواری یا بار برداری حرام کر دی گئی (۱) اور کچھ مویشی ہیں جن پر لوگ اللہ تعالیٰ کا نام نہیں لیتے محض اللہ پر افترا (بہتان) باندھنے کے طور پر ۔(۲)

۱۔  یہ دوسری صورت ہے کہ مختلف قسم کے جانوروں کو اپنے بتوں کے نام آزاد چھوڑ دیتے ہیں جن سے وہ بار برداری یا سواری کا کام نہ لیتے جیسے تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔

۲۔  یہ تیسری صورت ہے کہ وہ ذبح کرتے وقت صرف اپنے بتوں کا نام لیتے ہیں، اللہ کا نام نہ لیتے،

 بعض نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ جانوروں پر بیٹھ کر وہ حج کے لئے نہ جاتے۔ بہرحال یہ ساری صورتیں گھڑی ہوئی تو ان کی اپنی تھیں لیکن اللہ پر افترا باندھتے یعنی یہ باور کراتے کہ اللہ کے حکم سے ہی سب کچھ کر رہے ہیں۔

سَيَجْزِيهِمْ بِمَا كَانُوا يَفْتَرُونَ (۱۳۸)

 ابھی اللہ تعالیٰ ان کو ان کے افترا کی سزا دیئے دیتا ہے۔‏

وَقَالُوا مَا فِي بُطُونِ هَذِهِ الْأَنْعَامِ خَالِصَةٌ لِذُكُورِنَا وَمُحَرَّمٌ عَلَى أَزْوَاجِنَا ۖ

اور وہ کہتے ہیں کہ جو چیز مویشی کے پیٹ میں ہے وہ خالص ہمارے مردوں کے لئے ہے اور ہماری عورتوں پر حرام ہیں۔

وَإِنْ يَكُنْ مَيْتَةً فَهُمْ فِيهِ شُرَكَاءُ ۚ

اور اگر وہ مردہ ہے تو اس میں سب برابر ہیں۔

یہ ایک اور شکل ہے کہ جو جانور وہ اپنے بتوں کے نام وقف کرتے،

ان میں سے بعض کے بارے میں کہتے کہ ان کا دودھ اور ان کے پیٹ سے پیدا ہونے زندہ بچہ صرف ہمارے مردوں کے لیے حلال ہے، عورتوں کے لیے حرام ہے ہاں اگر بچہ مردہ پیدا ہوتا تو پھر اس کے کھانے میں مردوعورت برابر ہیں۔

سَيَجْزِيهِمْ وَصْفَهُمْ ۚ إِنَّهُ حَكِيمٌ عَلِيمٌ (۱۳۹)

 ابھی اللہ ان کی غلط بیانی کی سزا دیئے دیتا ہے (۱) بلاشبہ وہ حکمت والا اور بڑا علم والا ہے۔‏

اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ جو غلط بیانی کرتے ہیں اور اللہ پر افترا باندھتے ہیں، ان پر اللہ تعالیٰ انہیں سزا دے گا۔ وہ اپنے فیصلوں میں حکیم ہے اور اپنے بندوں کے بارے میں پوری طرح علم رکھنے والا ہے اور اپنے علم اور حکمت کے مطابق وہ جزا اور سزا کا اہتمام فرمائے گا۔

قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ قَتَلُوا أَوْلَادَهُمْ سَفَهًا بِغَيْرِ عِلْمٍ وَحَرَّمُوا مَا رَزَقَهُمُ اللَّهُ افْتِرَاءً عَلَى اللَّهِ ۚ

واقع ہی خرابی میں پڑ گئے وہ لوگ جنہوں نے اپنی اولاد کو محض برائے حماقت بلا کسی سند کے قتل کر ڈالا اور جو چیزیں ان کو اللہ نے ان کو کھانے پینے کے لئے دی تھیں ان کو حرام کر لیا جو اللہ پر افترا باندھنے کے طور پر۔

قَدْ ضَلُّوا وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ (۱۴۰)

بیشک یہ لوگ گمراہی میں پڑ گئے اور کبھی راہ راست پر چلنے والے نہیں ہوئے۔‏

وَهُوَ الَّذِي أَنْشَأَ جَنَّاتٍ مَعْرُوشَاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشَاتٍ وَالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا أُكُلُهُ

اور وہی ہے جس نے باغات پیدا کئے وہ بھی جو ٹٹیوں میں چڑھائے جاتے ہیں اور وہ بھی جو ٹٹیوں پر نہیں چڑھائے جاتے اور کھجور کے درخت اور کھیتی جن میں کھانے کی مختلف چیزیں مختلف طور کی ہوتی ہیں

مَعْرُوشَات کا مادہ عرش ہے جس کے معنی بلند کرنے اور اٹھانے کے ہیں۔ مَعْرُوشَات سے مراد بعض درختوں کی وہ بیلیں ہیں ٹٹیوں (چھپروں منڈیروں وغیرہ) پر چڑھائی جاتی ہیں، جیسے انگور اور بعض ترکاریوں کی بیلیں ہیں۔ اور غیر مَعْرُوشَات ، وہ درخت ہیں جن کی بیلیں اوپر نہیں چڑھائی جاتیں بلکہ زمین پر ہی پھیلتی ہیں، جیسے خربوزہ اور تربوز کی بیلیں درخت اور کھجور کے درخت اور کھیتیاں، جن کے ذائقے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں اور زیتون اور انار، ان سب کا پیدا کرنے والا اللہ ہے۔

وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَغَيْرَ مُتَشَابِهٍ ۚ

اور زیتون اور انار جو باہم ایک دوسر کے مشابہ بھی ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے مشابہ بھی نہیں ہوتے

اس کے لیے دیکھئے آیت ٩٩ کا حاشیہ۔

كُلُوا مِنْ ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ ۖ وَلَا تُسْرِفُوا ۚ

ان سب کے پھلوں میں سے کھاؤ جب وہ نکل آئے اور اس میں جو حق واجب ہے وہ اسکے کاٹنے کے دن دیا کرو (۱) اور حد سے (۲) مت گزرو

۱۔  یعنی جب کھیتی سے غلہ کاٹ کر صاف کرلو اور پھل درختوں سے توڑ لو، تو اس کا حق ادا کرو۔

 حَقَّهُ سے مراد علماء کے نزدیک نفلی صدقہ ہے اور بعض کے نزدیک صدقہ واجبہ یعنی عشر، دسواں حصہ اگر زمین بارانی ہو تو نصف عشر یعنی بیسواں حصہ (اگر زمین کنویں، ٹیوب ویل یا نہری پانی سے سیراب کی جاتی ہے)۔

۲۔  یعنی صدقہ خیرات میں بھی حد سے تجاور نہ کرو، ایسا نہ ہو کل کو تم ضرورت مند ہو جاؤ۔

بعض کہتے ہیں اس کا تعلق حکام سے ہے یعنی صدقات اور زکوٰۃ کی وصولی میں حد سے تجاور نہ کرو اور امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ سیاق آیت کی رو سے زیادہ صحیح لگتی ہے کہ کھانے میں اسراف مت کرو کیونکہ بسیار خوری عقل اور جسم کے لئے مضر ہے

 دوسرے مقامات پر بھی اللہ تعالیٰ نے کھانے پینے میں اسراف سے منع فرمایا، جس سے واضح ہے کہ کھانے پینے میں بھی اعتدال بہت ضروری ہے اور اس سے تجاوز اللہ کی نافرمانی ہے۔آج کل مسلمانوں نے اس اسراف کو اپنی امارت کے اظہار کی علامت بنا لیا ہے۔

إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ (۱۴۱)

 یقیناً وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ہے ۔

اس لئے اسراف کسی چیز میں بھی پسندیدہ نہیں، صدقہ و خیرات دینے میں نہ کسی اور چیز میں، ہرچیز میں اعتدال اور میانہ روی مطلوب اور محبوب ہے اس کی تاکید کی گئی ہے۔

وَمِنَ الْأَنْعَامِ حَمُولَةً وَفَرْشًا ۚ كُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ

اور مویشی میں اونچے قد کے اور چھوٹے قد کے (١) پیدا کیے ہیں جو کچھ اللہ نے تم کو دیا کھاؤ (٢) اور شیطان کے قدم بقدم مت چلو (٣)

۱۔ حَمُولَة (بوجھ اٹھانے والے) مراد اونٹ، بیل، گدھا خچر وغیرہ ہیں، جو بار برداری کے کام آتے ہیں

اور فَرْشًا سے مراد زمین سے لگے ہوئے جانور، جیسے بکری وغیرہ جس کا دودھ پیتے ہو گوشت کھاتے ہو۔

۲۔  یعنی پھلوں کھیتوں اور چوپایوں سے۔ ان سب کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا اور ان کو تمہاری خوراک بنایا ہے۔

۳۔  جس طرح مشرکین اس کے پیچھے لگ گئے اور حلال جانوروں کو بھی اپنے اوپر حرام کر لیا گویا اللہ کی حلال کردہ چیز کو حرام یا حرام کو حلال کر لینا، یہ شیطان کی پیروی ہے۔

إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ (۱۴۲)

بلاشبہ وہ تمہارا صریح دشمن ہے۔‏

ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ ۖ مِنَ الضَّأْنِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَيْنِ ۗ

 (پیدا کئے) آٹھ نر مادہ (١) یعنی بھیڑ میں دو قسم اور بکری میں دو قسم (٢)

۱۔ یعنی ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ اسی اللہ تعالیٰ نے آٹھ زوج پیدا کیئے ایک ہی جنس کے نر اور مادہ کو زوج (جوڑا) کہا جاتا ہے اور ان دونوں کے ایک فرد کو بھی زوج کہہ لیا جاتا ہے کیا ان کہ ہر ایک دوسرے کے لئے زوج ہوتا ہے۔

 قرآن میں اس مقام پر بھی ازواج، افراد ہی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی ۸ افراد اللہ نے پیدا کیے۔ جو باہم ایک دوسرے کا جوڑا ہیں یہ نہیں کہ زوج کہ بمعنی جوڑے پیدا کیے کیونکہ اس طرح تعداد ۸ کے بجائے ۱٦ ہوجائے گی جو آیت کے اگلے حصہ کے مطابق نہیں ہے۔

۲۔  یہ ثَمَانِيَةَ سے بدل ہے اور مراد دو قسم نر اور مادہ یعنی بھیڑ سے نر اور مادہ۔ اور بکری سے نر اور مادہ پیدا کیئے (بھیڑ میں ہی دنبہ چھترا شامل ہے)۔

قُلْ آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ أَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ أَرْحَامُ الْأُنْثَيَيْنِ ۖ

آپ کہئے کہ کیا اللہ نے ان دونوں نروں کو حرام کیا ہے یا دونوں مادہ کو؟ یا اس کو جس کو دونوں مادہ پیٹ میں لئے ہوئے ہے (٣)

مشرکین بعض جانوروں کو اپنے طور پر ہی حرام کر لیتے تھے، اس کے حوالے سے اللہ تعالیٰ پوچھ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے نروں کو حرام کیا ہے یا ماداؤں کو یا اس بچے کو جو دونوں ماداؤں کے پیٹ میں ہیں؟

مطلب یہ کہ اللہ نے کسی کو حرام نہیں کیا۔

نَبِّئُونِي بِعِلْمٍ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (۱۴۳)

تم مجھ کو کسی دلیل سے بتاؤ اگر سچے ہو ۔

تمہارے پاس حرام کر دینے کی کوئی دلیل ہے تو پیش کرو کہ بَحِیْرَۃ، سَاَئِبَۃِ، وَصِیْلَۃِ اور حَامِ وغیرہ اس دلیل کی بنیاد پر حرام ہیں۔

وَمِنَ الْإِبِلِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ اثْنَيْنِ ۗ

اور اونٹ میں دو قسم اور گائے میں دو قسم

یہ بھی ثَمَانِيَةَ سے بدل ہے اور یہاں بھی دو دو قسم سے دونوں کے نر مادہ مراد ہیں اور یوں یہ آٹھ قسمیں پوری ہوگئیں۔

قُلْ آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ أَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ أَرْحَامُ الْأُنْثَيَيْنِ ۖ

آپ کہئے کہ کیا یہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں نروں کو حرام کیا ہے یا دونوں مادہ کو؟ یا اسکو جس کو دونوں مادہ پیٹ میں لئے ہوئے ہوں؟

أَمْ كُنْتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ وَصَّاكُمُ اللَّهُ بِهَذَا ۚ

کیا تم حاضر تھے جس وقت اللہ تعالیٰ نے تم کو اس کا حکم دیا

یعنی تم جو بعض جانوروں کو حرام قرار دیتے ہو، کیا جب اللہ نے ان کی حرمت کا حکم دیا تو تم اس کے پاس موجود تھے، مطلب یہ ہے کہ اللہ نے ان کی حرمت کا کوئی حکم ہی نہیں دیا۔ یہ سب تمہارا افترا ہے اور اللہ پر جھوٹ باند ھتے ہو۔

فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا لِيُضِلَّ النَّاسَ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ

تو اس سے زیادہ کون ظالم ہوگا جو اللہ تعالیٰ پر بلا دلیل جھوٹی تہمت لگائے (۱) تاکہ لوگوں کو گمراہ کرے

یعنی یہ ہی سب سے بڑا ظالم ہے۔

حدیث میں آتا ہے نبی ﷺنے فرمایا :

 میں نے عمر بن لحی کو جہنم میں اپنی انتڑیاں کھنچتے ہوئے دیکھا، اس نے سب سے پہلے بتوں کے نام پر وصیلہ اور حام وغیرہ جانور چھوڑنے کا سلسلہ شروع کیا،

امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ یہ عمر بن لحی، خزعہ قبیلے کے سرداروں میں سے تھا جو جرہم قبیلے کے بعد خانہ کعبہ کا ولی بنايا تھا، اس نے سب سے پہلے دین ابراہیمی میں تبدیلی کی قائم کرکے لوگوں کو ان کی عبادت کرنے کی دعوت دی اور مشرکانہ رسمیں جاری کیں۔

بہرحال مقصود آیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آٹھ قسم کے جانور پیدا کرکے بندوں پر احسان فرمایا ہے، ان میں سے بعض جانوروں کو اپنی طرف سے حرام کر لینا، اللہ کے احسان کو رد کرنا بھی ہے اور شرک کا ارتکاب بھی۔

إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (۱۴۴)

 یقیناً اللہ تعالیٰ ظالم کو راست نہیں دکھلاتا۔‏

قُلْ لَا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ

آپ کہہ دیجئے جو کچھ احکام بذریعہ وحی میرے پاس آئے ان میں تو میں کوئی حرام نہیں پاتا کسی کھانے والے کے لئے جو اس کو کھائے،

إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنْزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ ۚ

مگر یہ کہ وہ مردار ہو یا بہتا ہوا خون ہو یا خنزیر کا گوشت ہو، کیونکہ وہ بالکل ناپاک ہے یا جو شرک کا ذریعہ ہو کر غیر اللہ کے لئے نامزد کر دیا گیا ہو

اس آیت میں جن چار محرمات کا ذکر ہے، اس کی ضروری تفصیل سورۃ بقرہ ١٧٣ کے حاشیہ میں گزر چکی ہے یہاں یہ نکتہ مزید قابل وضاحت ہے کہ ان چار محرمات کا ذکر کلمہ حصر سے کیا گیا ہے جس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان چار قسموں کے علاوہ اور جانور بھی شریعت میں حرام ہیں، پھر یہاں حصر کیوں کیا گیا؟

 بات دراصل یہ ہے کہ اس سے قبل مشرکین جاہلانہ طریقوں اور ان کے رد کا بیان چلا رہا ہے۔ ان ہی میں بعض جانوروں کا بھی ذکر آیا ہے جو انہوں نے اپنے طور پر حرام کر رکھے تھے۔

 امام شوکانی نے اس کی توجیہ اس طرح کی ہے اگر یہ آیت مکی نہ ہوتی تو پھر یقیناً محرمات کا حصر قابل تسلیم تھا لیکن چونکہ اس کے بعد خود قرآن نےسورۃ  المائدہ میں بعض محرمات کا ذکر کیا ہے اور نبی نے بھی کچھ محرمات بیان فرمائیں ہیں، تو اب وہ بھی ان میں شامل ہونگے۔

اس کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پرندوں اور درندوں کے حلت وحرمت معلوم کرنے کے لیے دو اصول بیان فرمادئیے ہیں جن کی وضاحت بھی مذکورہ محولہ حاشیہ میں موجود ہے۔

 أَوْ فِسْقًا کا عطف لَحْمَ خِنْزِيرٍ پر ہے۔ اس لیے منصوب ہے،وہ جانور جو بتوں کے نام پر یا ان کے تھانوں پر ان کا تقرب حاصل کرنے کے لیے ذبح کیے جائیں۔ یعنی ایسے جانوروں پر گو عند الذبح اللہ کا نام لیا جائے تب بھی حرام ہوں گے کیونکہ ان سے اللہ کا تقرب نہیں۔ غیر اللہ کا تقرب حاصل کرنا مقصود ہے۔

 فِسْق رب کی اطاعت سے خروج کا نام ہے۔ رب نے حکم دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نام پر جانور ذبح کیا جائے اور سارا اسی کے تقرب ونیاز کے لیے کیا جائے اگر ایسا نہیں کیا جائے گا تو یہی فِسْق اور شرک ہے۔

فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (۱۴۵)

پھر جو شخص مجبور ہو جائے بشرطیکہ نہ تو طالب لذت ہو اور نہ تجاوز کرنے والا ہو تو واقع ہی آپ کا رب غفور و رحیم ہے۔‏

وَعَلَى الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمْنَا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ ۖ

اور یہود پر ہم نے تمام ناخن والے جانور حرام کر دئیے تھے

ناخن والے جانوروں سے مراد وہ ہاتھ والے جانور جن کی انگلیاں پھٹی ہوئی یعنی جدا جدا نہ ہوں۔

جیسے اونٹ شتر مرغ، بطخ، قاز گائے اور بکری وغیرہ۔ ایسے سب چرند پرند حرام تھے۔ گویا صرف وہ جانور اور پرندے ان کے لئے حلال تھے جن کے پنجے کھلے ہوں۔

وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ شُحُومَهُمَا إِلَّا مَا حَمَلَتْ ظُهُورُهُمَا أَوِ الْحَوَايَا أَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ ۚ

اور گائے اور بکری میں سے ان دونوں کی چربیاں ان پر ہم نے حرام کر دی تھیں مگر وہ جو ان کی پشت پر یا انتڑیوں میں لگی ہو یا ہڈی سے ملی ہو

یعنی جو چربی گائے یا بکری کی پشت پر ہو (دنبے کی چکی ہو) یا انتڑیوں (یا اوجھ) یا ہڈیوں کے ساتھ ملی ہو۔ چربی کی یہ مقدار حلال تھی۔

ذَلِكَ جَزَيْنَاهُمْ بِبَغْيِهِمْ ۖ وَإِنَّا لَصَادِقُونَ (۱۴۶)

ان کی شرارت کے سبب ہم نے ان کو یہ سزا دی (۱) اور ہم یقیناً سچے ہیں ۔‏(۲)

۱۔  یہ چیزیں ہم نے بطور سزا ان پر حرام کی تھیں یعنی یہود کا یہ دعویٰ صحیح نہیں کہ یہ چیزیں حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے اوپر حرام کی ہوئی تھیں اور ہم تو ان کو اتباع میں ان کو حرام سمجھتے ہیں۔

۲۔  اس کا مطلب یہ ہے کہ یہود یقیناً اپنے مذکورہ دعوے میں جھوٹے تھے۔

فَإِنْ كَذَّبُوكَ فَقُلْ رَبُّكُمْ ذُو رَحْمَةٍ وَاسِعَةٍ وَلَا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ (۱۴۷)

پھر اگر یہ آپ کو جھوٹا کہیں تو آپ فرما دیجئے کہ تمہارا رب بڑی وسیع رحمت والا ہے (۱) اور اس کا عذاب مجرم لوگوں سے نہ ٹلے گا ۔(۲)‏

۱۔ اس لئے تکذیب کے باوجود عذاب دینے میں جلدی نہیں کرتا۔

۲۔  یعنی مہلت دینے کا مطلب ہمیشہ کے لئے عذاب الٰہی سے محفوظ ہونا نہیں ہے۔ وہ جب بھی عذاب دینے کا فیصلہ کرے گا تو پھر اسے کوئی ٹال نہیں سکے گا۔

سَيَقُولُ الَّذِينَ أَشْرَكُوا لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا أَشْرَكْنَا وَلَا آبَاؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِنْ شَيْءٍ ۚ

یہ مشرکین (یوں) کہیں گے کہ اگر اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم کسی چیز کو حرام کر سکتے

یہ وہی مغالطہ ہے جو مشیت الٰہی اور رضائے الٰہی کو ہم معنی سمجھ لینے کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے۔ حالانکہ یہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ جس کی وضاحت پہلے کی جا چکی ہے۔

كَذَلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ حَتَّى ذَاقُوا بَأْسَنَا ۗ

اس طرح جو لوگ ان سے پہلے ہو چکے ہیں انہوں نے بھی تکذیب کی تھی یہاں تک کہ کہ انہوں نے ہمارے عذاب کا مزہ چکھا

اللہ تعالیٰ نے اس مغالطے کا ازالہ اس طرح فرمایا اگر یہ شرک اللہ کی رضا کا مظہر تھا تو پھر ان پر عذاب کیوں آیا، عذاب الٰہی سے اس بات کی دلیل ہے کہ مشیت اور چیز ہے اور رضائے الٰہی اور چیز۔

قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنَا ۖ

آپ کہیے کیا تمہارے پاس کوئی دلیل ہے تو اس کو ہمارے سامنے ظاہر کرو

یعنی اپنے دعوے پر تمہارے پاس دلیل ہے تو پیش کرو

لیکن ان کے پاس دلیل کہاں؟

وہاں تو صرف اوہام و ظنون ہی ہیں۔

إِنْ تَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ أَنْتُمْ إِلَّا تَخْرُصُونَ (۱۴۸)

تم لوگ محض خیالی باتوں پر چلتے ہو اور تم بالکل اٹکل پچو سے باتیں بناتے ہو۔‏

قُلْ فَلِلَّهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ ۖ فَلَوْ شَاءَ لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ (۱۴۹)

آپ کہئے کہ بس پوری حجت اللہ ہی کی ہی رہی۔ پھر اگر وہ چاہتا تو تم سب کو راہ راست پر لے آتا۔‏

قُلْ هَلُمَّ شُهَدَاءَكُمُ الَّذِينَ يَشْهَدُونَ أَنَّ اللَّهَ حَرَّمَ هَذَا ۖ

آپ کہیے کہ اپنے گواہوں کو لاؤ جو اس بات پر شہادت دیں کہ اللہ نے ان چیزوں کو حرام کر دیا ہے

یعنی وہ جانور، جن کو مشرکین حرام قرار دیے ہوئے تھے۔

فَإِنْ شَهِدُوا فَلَا تَشْهَدْ مَعَهُمْ ۚ

پھر اگر وہ گواہی دے دیں تو آپ اس کی شہادت نہ دیجئے

کیونکہ ان کے پاس سوائے کذب و افترا کے کچھ نہیں۔

وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَالَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَهُمْ بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ (۱۵۰)

اور ایسے لوگوں کے باطل خیالات کا اتباع مت کیجئے! جو ہماری آیتوں کی تکذیب کرتے ہیں اور وہ جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور وہ اپنے رب کے برابر دوسروں کو ٹھہراتے ہیں ۔

یعنی اس کا عدیل (برابر کا) ٹھہرا کر شرک کرتے ہیں۔

قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ ۖ

آپ کہیے کہ آؤ تم کو وہ چیزیں پڑھ کر سناؤں جن کو تمہارے رب نے تم پر حرام فرما دیا ہے

یعنی حرام وہ نہیں ہیں جن کو تم بلا دلیل، محض اپنے اوبام باطلہ اور ظنون فاسدہ کی بنیاد پر قرار دے رکھا ہے۔ بلکہ حرام تو وہ چیزیں ہیں جن کو تمہارے رب نے حرام کیا ہے، کیونکہ تمہارا پیدا کرنے والا اور تمہارا پالنہار وہی ہے ہرچیز کا علم بھی اسی کے پاس ہے اس لئے اسی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جس چیز چاہے حلال اور جس چیز کو چاہے حرام کرے۔ چنانچہ میں تم کو ان باتوں کی تفصیل بتلاتا ہوں جن کی تاکید تمہارے رب نے کی ہے۔

أَلَّا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۖ

وہ یہ کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت ٹھہراؤ (۱) اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو (۲)

۱۔  أَلَّا تُشْرِكُوا سے پہلے اوصاکم محذوف ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس بات کا حکم دیا ہے کہ اس کے ساتھ کسی چیز کو تم شریک مت ٹھہراؤ شرک سب سے بڑا گناہ ہے، جس کے لئے معافی نہیں، مشرک پر جنت حرام اور دوزخ واجب ہے۔

 قرآن مجید میں ساری چیزیں مختلف انداز سے بار بار بیان ہوئی ہیں۔ اور نبی کریم نے بھی حدیث میں ان کو تفصیل اور وضاحت بیان فرمایا ہے۔ اس کے باوجود یہ واقع ہے کہ لوگ شیطان کے بہکاوے میں آکر شرک کا عام ارتکاب کر تے ہیں۔

۲۔  اللہ تعالیٰ کی توحید و اطاعت کے بعد یہاں بھی (اور قرآن کے دوسرے مقامات پر بھی) والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے جس سے یہ چیز واضح ہوتی ہے کہ اطاعت رب کے بعد اطاعت والدین کی بڑے اہمیت ہے، اگر کسی نے اس ربوبیت صغریٰ (والدین کی اطاعت اور ان سے حسن سلوک کے تقاضے پورے نہیں کئے تو وہ ربوبیت کبریٰ کے تقاضے بھی پورے کرنے میں ناکام رہے گا۔

وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ مِنْ إِمْلَاقٍ ۖ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ ۖ

اور اپنی اولاد کو افلاس کے سبب قتل مت کرو ہم تم کو اور ان کو رزق دیتے ہیں

زمانہء جاہلیت کا یہ فعل قبیح آج کل ضبط ولادت یا خاندانی منصوبہ بندی کے نام سے پوری دنیا میں زورو شور سے جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے محفوظ رکھے۔

وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ ۖ

اور بےحیائی کے جتنے طریقے ہیں ان کے پاس مت جاؤ خواہ وہ اعلانیہ ہوں خواہ پوشیدہ

وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ۚ

 اور جس کا خون کرنا اللہ تعالیٰ نے حرام کر دیا اس کو قتل مت کرو ہاں مگر حق کے ساتھ

یعنی قصاص کے طور پر، نہ صرف جائز ہے بلکہ اگر مقتول کے وارث معاف نہ کریں تو یہ قتل نہایت ضروری ہے

وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ

قصاص میں تمہاری زندگی ہے ۔(۲:۱۷۹)

ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ (۱۵۱)

ان کا تم کو تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم سمجھو۔‏

وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّهُ ۖ

اور یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ مگر ایسے طریقے سے جو کہ مستحسن ہے یہاں تک کہ وہ اپنے سن رشد تک پہنچ جائے

جس یتیم کی کفالت تمہاری ذمہ داری قرار پائے، تو اس کی ہر طرح خیر خواہی کرنا تمہارا فرض ہے اس خیر خواہی کا تقاضا ہے کہ اگر اس کے مال سے وراثت میں سے اس کو حصہ ملا ہے، چاہے وہ نقدی کی صورت میں ہو یا زمین اور جائداد کی صورت میں، تاہم ابھی وہ اس کی حفاظت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ اس کے مال کی اس وقت تک پورے خلوص سے حفاظت کی جائے جب تک وہ بلوغت اور شعور کی عمر کو نہ پہنچ جائے۔ یہ نہ ہو کہ کفالت کے نام پر، اس کی عمر شعور سے پہلے ہی اس کے مال یا جایئداد کو ٹھکانے لگا دیا جائے۔

وَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ ۖ

اور ناپ تول پوری پوری کرو، انصاف کے ساتھ

ناپ تول میں کمی کرنا لیتے وقت تو پورا ناپ یا تول کر لینا، مگر دیتے وقت ایسا نہ کرنا بلکہ ڈنڈی مار کر دوسرے کو کم دینا، یہ نہایت پست اور اخلاق سے گری ہوئی بات ہے۔ قوم شعیب میں یہی اخلاقی بیماری تھی جو ان کی تباہی کے من جملہ اسباب میں تھی۔

لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۖ

ہم کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے

یہاں اس بات کے بیان سے یہ مقصد ہے کہ جن باتوں کی تاکید کر رہے ہیں، یہ ایسے نہیں ہیں کہ جن پر عمل کرنا مشکل ہو، اگر ایسا ہوتا تو ہم ان کا حکم ہی نہ دیتے اس لئے کہ طاقت سے بڑھ کر ہم کسی کو مکلف ہی نہیں ٹھہراتے۔ اس لئے اگر نجات اخروی اور دنیا میں عزت اور سرفرازی چاہتے ہو تو ان احکام الٰہی پر عمل کرو اور ان سے گریز مت کرو۔

وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَى ۖ وَبِعَهْدِ اللَّهِ أَوْفُوا ۚ

اور جب تم بات کرو تو انصاف کرو گو وہ شخص قرابت دار ہی ہو اور اللہ تعالیٰ سے جو عہد کیا اس کو پورا کرو

ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (۱۵۲)

 ان کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے تاکہ تم یاد رکھو۔‏

وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ ۚ

اور یہ کہ دین (١) میرا راستہ ہے جو مستقیم ہے سو اس راہ پر چلو (٢) دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کردیں گی۔

۱۔  هَذَا (یہ) سے مراد قرآن مجید یا دین اسلام یا وہ احکام ہیں جو بطور خاص اس سورت میں بیان کئے گئے ہیں اور وہ ہیں توحید، معاد اور رسالت اور یہی اسلام کے ثلاثہ ہیں جن کے گرد پورا دین گھومتا ہے، اس لئے جو مراد لیا جائے مفہوم سب کا ایک ہے۔

۲۔  صراط مستقیم کو واحد کے صیغے سے بیان فرمایا ہے کیونکہ اللہ کی، یا قرآن کی، یارسول اللہ کی راہ ایک ہے ایک سے زیادہ نہیں۔ اس لئے پیروی صرف اس ایک راہ کی کرنی ہے کسی اور کی نہیں، یہی ملت مسلمہ کی وحدت و اجماع کی بنیاد ہے جس سے بہت ہٹ کر یہ امت مختلف فرقوں اور گروہوں میں بٹ گئی ہے، حالانکہ اس کی تاکید کی گئی ہے کہ دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کر دیں گی۔

دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا دین کو قائم رکھو اور اس میں پھوٹ نہ ڈالو (سورۃ شوریٰ)

گویا اختلاف اور تفرقہ کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔

 اسی بات کو حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح واضح فرمایا:

 آپ نے اپنے ہاتھ سے ایک خط کھینچا اور فرمایا کہ یہ اللہ کا سیدھا راستہ ہے۔ اور چند خطوط اس کی دائیں اور بائیں طرف کھینچے اور فرمایا یہ راستے ہیں جن پر شیطان بیٹھا ہوا ہے اور وہ ان کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت تلاوت فرمائی جو زیر وضاحت ہے۔

ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (۱۵۳)

اس کا تم کو اللہ تعالیٰ نے تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم پرہیزگاری اختیار کرو۔‏

ثُمَّ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ تَمَامًا عَلَى الَّذِي أَحْسَنَ وَتَفْصِيلًا لِكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لَعَلَّهُمْ بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُونَ (۱۵۴)

پھر ہم نے موسیٰؑ کو کتاب دی تھی جس سے اچھی طرح عمل کرنے والوں پر نعمت پوری ہو اور رحمت ہو (١) تاکہ وہ لوگ اپنے رب کو ملنے پر یقین لائیں۔‏

قرآن کریم کا یہ اسلوب ہے جو متعدد جگہ دہرایا کہ جہاں قرآن کا ذکر ہوتا ہے وہاں تورات کا اور جہاں تورات کا ذکر ہو وہاں قرآن کا بھی ذکر کر دیا جاتا ہے۔ اس کی متعدد مثالیں حافظ ابن کثیر نے نقل کی ہیں۔ اسی اسلوب کے مطابق یہاں تورات کا اور اس کے وصف کا بیان ہے کہ وہ بھی اپنے دور کی ایک جامع کتاب تھی جس میں ان کی دینی ضروریات کی تمام باتیں تفصیل سے بیان کی گئی تھیں اور وہ ہدایت اور رحمت کا باعث تھی۔

وَهَذَا كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (۱۵۵)

اور یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے بھیجا بڑی خیرو برکت والی (۱) سو اس کا اتباع کرو اور ڈرو تاکہ تم پر رحمت ہو۔‏

اس سے مراد قرآن مجید ہے جس میں دین و دنیا کی برکتیں اور بھلائیاں ہیں۔

أَنْ تَقُولُوا إِنَّمَا أُنْزِلَ الْكِتَابُ عَلَى طَائِفَتَيْنِ مِنْ قَبْلِنَا وَإِنْ كُنَّا عَنْ دِرَاسَتِهِمْ لَغَافِلِينَ (۱۵۶)

کہیں تم لوگ یوں نہ کہو (۱) کہ کتاب تو صرف ہم سے پہلے جو دو فرقے تھے ان پر نازل ہوئی تھی اور ہم انکے پڑھنے پڑھانے سے بیخبر تھے (۲)‏

۱۔ یعنی یہ قرآن اس لئے اتارا تاکہ تم یہ نہ کہو۔

دو فرقوں سے مراد یہود و انصاریٰ ہیں۔

۲۔  اس لئے کہ وہ ہماری زبان میں نہ تھی۔ چنانچہ اس عذر کو قرآن عربی میں اتار کر ختم کر دیا۔

أَوْ تَقُولُوا لَوْ أَنَّا أُنْزِلَ عَلَيْنَا الْكِتَابُ لَكُنَّا أَهْدَى مِنْهُمْ ۚ

یا یوں نہ کہو کہ اگر ہم پر کوئی کتاب نازل ہوتی تو ہم اب سے بھی زیادہ راہ راست پر ہوتے۔

فَقَدْ جَاءَكُمْ بَيِّنَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ ۚ

سو اب تمہارے پاس رب کے پاس سے ایک کتاب واضح اور رہنمائی کا ذریعہ اور رحمت آچکی ہے

گویا یہ عذر بھی تم نہیں کر سکتے۔

فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَّبَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَصَدَفَ عَنْهَا ۗ

ان میں اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہوگا جو ہماری ان آیتوں کو جھوٹا بتائے اور اس سے روکے

یعنی کتاب ہدایت و رحمت کے نزول کے بعد اب جو شخص ہدایت (اسلام) کا راستہ اختیار کرکے رحمت الٰہی کا مستحق نہیں بنتا، بلکہ تکذیب و اعراض کا راستہ اپناتا ہے تو اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے؟ صَدَفَ کے معنی اعراض کرنے کے بھی کئے گئے ہیں اور دوسروں کو روکنے کے بھی۔

سَنَجْزِي الَّذِينَ يَصْدِفُونَ عَنْ آيَاتِنَا سُوءَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوا يَصْدِفُونَ (۱۵۷)

ہم جلدی ہی ان لوگوں کو جو ہماری آیتوں سے روکتے ہیں ان کے اس روکنے کے سبب سخت سزا دیں گے۔‏

هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلَائِكَةُ أَوْ يَأْتِيَ رَبُّكَ أَوْ يَأْتِيَ بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ ۗ

کیا یہ لوگ اس امر کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا ان کے پاس رب آئے یا آپ کے رب کی کوئی (بڑی) نشانی آئے

قرآن مجید کے نزول اور حضرت محمد ﷺکی رسالت کے ذریعے سے ہم نے حجت قائم کر دی ہے۔ اب بھی اگر یہ اپنی گمراہی سے باز نہ آئے تو کیا اس بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یعنی ان کی روحیں قبض کرنے کے لئے اس وقت یہ ایمان لائیں گے،

یا آپ کا رب ان کے پاس آئے۔ یعنی قیامت برپا ہو جائے اور اللہ کے ربرو پیش کئے جائیں۔ اس وقت یہ ایمان لائیں گے؟

یا آپ کے رب کی کوئی بڑی نشانی آئے، جیسے قیامت کے قریب سورج مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع ہوگا، تو اس قسم کی بڑی نشانی دیکھ کر یہ ایمان لائیں گے۔اگلے جملے میں وضاحت کی جارہی ہے کہ اگر یہ اس انتظار میں ہیں تو بہت ہی نادانی کا مظاہر کر رہے ہیں۔ کیونکہ بڑی نشانی کے ظہور کے بعد کافر کا ایمان اور فاسق وفاجر شخص کی توبہ قبول نہیں ہوگی۔

 صحیح حدیث ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ سورج مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہو پس جب ایسا ہوگا اور لوگ اسے مغرب سے طلوع ہوتے دیکھیں گے تو سب ایمان لے آئیں گے۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی

لاینفع نفسا ایمانھا لم تکن اٰمنت من قبل۔

یعنی اس وقت ایمان لانا کسی کو نفع نہیں دے گا جو اس سے قبل ایمان نہ لایا ہوگا۔

يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا ۗ

جس روز آپ کے رب کی کوئی بڑی نشانی آپہنچے گی کسی ایسے شخص کا ایمان اس کے کام نہیں آئے گا جو پہلے سے ایمان نہیں رکھتا (۱) یا اس نے اپنے ایمان میں کوئی نیک عمل نہ کیا ہو (٢)

۱۔  یعنی کافر کا ایمان فائدہ مند، یعنی قبول نہ ہوگا۔

۲۔  اس کا مطلب ہے کہ کوئی گناہ گار مؤمن گناہوں سے توبہ کرے گا تو اس وقت اس توبہ قبول نہیں ہوگی اور اس کے بعد عمل صالح غیر مقبول ہوگا۔ جیسا کہ احادیث بھی اس پر دلالت کرتی ہے۔

قُلِ انْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ (۱۵۸)

آپ فرما دیجئے کہ تم منتظر رہو ہم بھی منتظر ہیں۔‏

إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ ۚ

بیشک جن لوگوں نے اپنے دین کو جدا جدا کر دیا اور گروہ گروہ بن گئے (١) آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں

اس سے بعض لوگ یہود و نصاریٰ مراد لیتے ہیں جو مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے تھے۔ بعض مشرکین مراد لیتے ہیں کہ کچھ مشرک ملائکہ کی، کچھ ستاروں کی، کچھ مختلف بتوں کی عبادت کرتے تھے۔

 لیکن یہ آیت عام ہے کہ کفار و مشرکین سمیت وہ سب لوگ اس میں داخل ہیں۔ جو اللہ کے دین کو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے کو چھوڑ کر دوسرے دین یا دوسرے طریقے کو اختیار کر کے تفرق وتخرب کا راستہ اپناتے ہیں۔

 شِيَعًا کے معنی فرقے اور گروہ اور یہ بات ہر اس قوم پر صادق آتی ہے جو دین کے معاملے میں مجتمع تھی لیکن پھر ان کے مختلف افراد نے اپنے کسی بڑے کی رائے کو ہی مستند اور حرف آخر قرار دے کر اپنا راستہ الگ کرلیا، چاہے وہ رائے حق وصواب کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔

إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ (۱۵۹)

بس ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حوالے ہے پھر ان کو ان کا کیا ہوا جتلا دیں گے۔‏

مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا ۖ وَمَنْ جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزَى إِلَّا مِثْلَهَا وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ (۱۶۰)

جو شخص نیک کام کریگا اسکو اس کے دس گنا ملیں گے (١) جو شخص برا کام کرے گا اس کو اس کے برابر ہی سزا ملے گی اور ان پر ظلم نہ ہو گا۔‏(۲)

۱۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اس فضل و احسان کا بیان ہے کہ جو اہل ایمان کے ساتھ وہ کرے گا کہ ایک نیکی کا بدلہ دس نیکیوں کے برابر عطا فرمائے گا، یہ کم از کم اجر ہے۔ ورنہ قرآن اور حدیث دونوں سے ثابت ہے کی بعض نیکیوں کا اجر کئی سو گنا ہے بلکہ ہزار گنا تک ملے گا۔

۲۔  یعنی جن گناہوں پر سزا مقرر نہیں ہے اور اس کے ارتکاب کے بعد اس نے اس سے توبہ بھی نہیں کی یا اس کی نیکیاں اس کی برائیوں پر غالب نہ آئیں یا اللہ نے اپنے فضل خاص سے اسے معاف نہیں فرمادیا کیونکہ ان تمام صورتوں میں مجازات کا قانون بروئے عمل نہیں آئے گا تو پھر اللہ تعالیٰ ایسی برائی کی سزا دے اور اس کے برابر ہی دے گا۔

قُلْ إِنَّنِي هَدَانِي رَبِّي إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ دِينًا قِيَمًا مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۚ

آپ کہ دیجئے کہ مجھ کو میرے رب نے ایک سیدھا راستہ بتایا ہے کہ وہ دین مستحکم ہے جو طریقہ ابراہیمؑ کا جو اللہ کی طرف یکسو تھے

وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ (۱۶۱)

اور وہ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے۔‏

قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (۱۶۲)

آپ فرما دیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے جو سارے جہان کا مالک ہے۔‏

لَا شَرِيكَ لَهُ ۖ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ (۱۶۳)

اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھ کو اسی کا حکم ہوا ہے اور میں سب ماننے والوں میں سے پہلا ہوں

توحید الوہیت کی یہ دعوت تمام انبیاء نے دی، جس طرح یہاں آخری پیغمبر کی زبان مبارک سے کہلوایا گیا کہ ' مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب ماننے والوں سے پہلا ہوں۔ '

دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ  (۲۱:۲۵)

ہم نے آپ سے پہلے جتنے بھی انبیاء بھیجے، سب کو یہ وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں پس تم میری ہی عبادت کرو۔

چنانچہ حضرت نوح  علیہ السلام  ے بھی یہ اعلان فرمایا  

 وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ (۱۰:۷۲)

چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں آتا ہے جب اللہ تعالیٰ نے انہیں کہا کہ أَسْلِمْ (فرماں بردار ہو جا) تو انہوں نے فرمایا  

أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ ۔  (۲:۱۳۱)

حضرت ابراہیم علیہ السلام و یعقوب علیہ السلام نے اپنی اولاد کو وصیت فرمائی کہ

 فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ

تمہیں موت اسلام پر آنی چاہیے۔ (۲:۱۳۲)

حضرت یوسف علیہ السلام نے دعا فرمائی کہ

تَوَفَّنِي مُسْلِمًا

مجھے اسلام کی حالت میں دنیا سے اٹھانا۔ (۱۲:۱۰۱)

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا

فَعَلَيْهِ تَوَكَّلُوا إِنْ كُنْتُمْ مُسْلِمِينَ

اگر تم مسلمان ہو تو اسی اللہ پر بھروسہ کرو۔ (۱۰:۸۴)

 حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں نے کہا

وَاشْهَدْ بِأَنَّنَا مُسْلِمُونَ (۵:۱۱۱)

اسی طرح اور بھی تمام انبیاء اور ان کے مخلص پیروکاروں نے اسی اسلام کو اپنایا جس میں توحید الوہیت کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔ گو بعض بعض شرع احکام ایک دوسرے سے مختلف تھی۔

قُلْ أَغَيْرَ اللَّهِ أَبْغِي رَبًّا وَهُوَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ ۚ

آپ فرما دیجئے کہ میں اللہ کے سوا کسی اور کو رب بنانے کے لئے تلاش کروں حالانکہ وہ مالک ہے ہرچیز کا

یہاں رب سے مراد وہی اللہ ماننا ہے جس کا انکار مشرکین کرتے رہے ہیں اور جو اس کی ربوبیت کا تقاضا ہے۔ لیکن مشرکین اس کی ربوبیت کو تو مانتے تھے۔ اور اس میں کسی کو شریک نہیں گردانتے تھے لیکن اس کی الوہیت میں شریک ٹھہراتے تھے۔

وَلَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ إِلَّا عَلَيْهَا ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى ۚ

اور جو شخص بھی کوئی عمل کرتا ہے اور وہ اسی پر رہتا ہے اور کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا

یعنی اللہ تعالیٰ عدل و انصاف کا پورا اہتمام فرمائے گا اور جس نے اچھا، یا برا، جو کچھ کیا ہوگا اس کے مطابق جزا اور سزا دے گا، نیکی پر اچھی جزا اور بدی پر سزا دے گا اور ایک کا بوجھ دوسرے پر نہیں ڈالے گا۔

ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ مَرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ (۱۶۴)

پھر تم سب کو اپنے رب کے پاس جانا ہوگا، پھر تم کو جتلائے گا جس جس چیز میں تم اختلاف کرتے تھے ۔

اس لئے اگر تم اس دعوت توحید کو نہیں مانتے جو تمام انبیاء کی مشترکہ دعوت رہی ہے تو تم اپنا کام کئے جاؤ، ہم اپنا کئے جاتے ہیں۔ قیامت والے دن اللہ کی بارگاہ میں ہی ہمارا تمہارا فیصلہ ہوگا۔

وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلَائِفَ الْأَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ ۗ

وہ ایسا ہے جس نے تم کو زمین میں خلیفہ بنایا (١) اور ایک کا دوسرے پر رتبہ بڑھایا تاکہ تم کو آزمائے ان چیزوں میں جو تم کو دی ہیں (٢)

۱۔ یعنی حکمران بنا کر اختیارات سے نوازا۔ یا ایک کے بعد دوسرے کو اس کا وارث (خلیفہ) بنایا۔

۲۔  یعنی فقر و غنی، علم و جہل، صحت اور بیماری، جس کو جو دیا، اسی میں اس کی آزمائش ہے۔

إِنَّ رَبَّكَ سَرِيعُ الْعِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَحِيمٌ (۱۶۵)

بالیقین آپ کا رب جلد سزا دینے والا ہے اور بالیقین وہ واقعی بڑی مغفرت کرنے والا مہربانی کرنے والا ہے۔‏

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter