Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Falaq

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ (۱)  

آپ کہہ دیجئے! کہ میں صبح کے رب کی پناہ میں آتا ہوں ‏

حضرت جابرؓ فرماتے ہیں فَلَق کہتے ہیں صبح کو،

خود قرآن میں اور جگہ ہے فَالِقُ ٱلۡإِصۡبَاح (۶:۹۶);

 ابن عباسؓ سے مروی ہے فَلَق سے مراد مخلوق ہے،

 ایک مرفوع حدیث میں بھی اسی کے قریب قریب مروی ہے۔ لیکن وہ حدیث منکر ہے۔

یہ بھی بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ جہنم کا نام ہے۔

 امام ابن جریرؒ فرماتے ہیں کہ سب سے زیادہ ٹھیک قول پہلا ہی ہے یعنی مراد اس سے صبح ہے۔

امام بخاریؒ بھی یہی فرماتے ہیں اور یہی صحیح ہے۔

مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ (۲)  

ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی ہے۔ ‏

تمام مخلوق کی برائی سے جس میں جہنم بھی داخل ہے اور ابلیس اور اولاد ابلیس بھی ۔

وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ (۳)  

اور اندھیری رات کی تاریکی کے شر سے جب اس کا اندھیرا پھیل جائے۔‏

غَاسِقٍ سے مراد رات ہے۔

إِذَا وَقَبَ سے مراد سورج کا غروب ہو جانا ہے، یعنی رات جب اندھیرا لئے ہوئے آ جائے،

 ابن زیدؓ کہتے ہیں کہ عرب ثریا ستارے کے غروب ہونے کو غَاسِقٍ کہتے ہیں۔ بیماریاں اور وبائیں اس کے واقع ہونے کے وقت بڑھ جاتی تھیں اور اس کے طلوع ہونے کے وقت اٹھ جاتی تھیں۔

 ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ ستارہ غاسق ہے، لیکن اس کا مرفوع ہونا صحیح نہیں،

 بعض مفسرین کہتے ہیں مراد اس سے چاند ہے، ان کی دلیل مسند احمد کی یہ حدیث ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ، کا ہاتھ تھامے ہوئے چاند کی طرف اشارہ کر کے فرمایا اللہ تعالیٰ سے اس غاسق کی برائی سے پناہ مانگ

 اور روایت میں ہے کہغَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ سے یہی مراد ہے،

 دونوں قولوں میں با آسانی یہ تطبیق ہو سکتی ہے کہ چاند کا چڑھنا اور ستاروں کا ظاہر ہونا وغیرہ، یہ سب رات ہی کے وقت ہوتا ہے جب رات آ جائے، واللہ اعلم۔

وَمِنْ شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ (۴)  

اور گرہ (لگا کر ان) میں پھونکنے والیوں کے شر سے (بھی) ‏

گرہ لگا کر پھونکنے والیوں سے مراد جادوگر عورتیں ہیں،

حضرت مجاہد ؒ فرماتے ہیں شرک کے بالکل قریب وہ منتر ہیں جنہیں پڑھ کر سانپ کے کاٹے پر دم کیا جاتا ہے اور آسیب زدہ پر ۔

وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ (۵)  

 اور حسد کرنے والے کی برائی سے بھی جب وہ حسد کرے۔‏

 حدیث میں ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کیا آپ بیمار ہیں؟

آپ ﷺنے فرمایا ہاں تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے یہ دعا پڑھی

اللہ تعالیٰ کے نام سے میں دم کرتا ہوں ہر اس بیماری سے جو تجھے دکھ پہنچائے اور ہر حاسد کی برائی اور بدی سے اللہ تجھے شفا دے۔

 اس بیماری سے مراد شاید وہ بیماری ہے جبکہ آپ پر جادو کیا گیا تھا پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو عافیت اور شفا بخشی اور حاسد یہودیوں کے جادوگر کے مکر کو رد کر دیا اور ان کی تدبیروں کو بے اثر کر دیا اور انہیں رسوا اور فضیحت کیا،

 لیکن باوجود اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی اپنے اوپر جادو کرنے والے کو ڈانٹا ڈپٹا تک نہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کی کفایت کی اور آپ کو عافیت اور شفا عطا فرمائی۔

مسند احمد میں ہے:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک یہودی نے جادد کیا جس سے کئی دن تک آپ بیمار رہے پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آ کر بتایا کہ فلاں یہودی نے آپ پرجادو کیا ہے اور فلاں فلاں کنوئیں میں گر ہیں لگا کر کر رکھا ہے آپ کسی کو بھیج کر اسے نکلوا لیجئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آدمی بھیجا اور اس کنوئیں سے وہ جادو نکلوا کر گر ہیں کھول دیں سارا اثر جاتا رہا پھر نہ تو آپ نے اس یہودی سے کبھی اس کا ذکر کیا اور نہ کبھی اس کے سامنے غصہ کا اظہار کیا،

صحیح بخاری شریف کتاب الطب میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے:

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا آپ سمجھتے تھے کہا آپ ازواج مطہرات کے پاس آئے حالانکہ نہ آئے تھے،حضرت سفیان فرماتے ہیں یہی سب سے بڑا جادو کا اثر ہے،

جب یہ حالت آپ ﷺکی ہو گئی ایک دن آپﷺ فرمانے لگے عائشہ میں نے اپنے رب سے پوچھا اور میرے پروردگار نے بتا دیا دو شخص آئے ایک میری سرہانے ایک پائینیوں کی طرف، سرہانے والے نے اس دوسرے سے پوچھا ان کا کیا حال ہے؟

 دوسرے نے کہا ان پر جادو کیا گیا ہے

 پوچھا کس نے جادو کیا ہے؟

کہا عبید بن اعصم نے جو بنو رزیق کے قبیلے کا ہے جو یہود کا حلیف ہے اور منافق شخص ہے،

کہا کس چیز میں؟

کہا تر کھجور کے درخت کی چھال میں پتھر کی چٹان تلے ذروان کے کنوئیں میں،

 پھر حضور صلی اللہ علیہ السلام اس کنوئیں کے پاس آئے اور اس میں سے وہ نکلوایا اس کا پانی ایسا تھا گویا مہندی کا گدلا پانی اس کے پاس کے کھجوروں کے درخت شیطانوں کے سر جیسے تھے ،

 میں نے کہا بھی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بدلہ لینا چاہئے

 آپ نے فرمایا الحمد اللہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تو شفا دے دی اور میں لوگوں میں برائی پھیلانا پسند نہیں کرتا،

دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ ایک کام کرتے نہ تھے اور اسکے اثر سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ گویا میں کر چکا ہوں اور یہ بھی ہے کہ اس کنوئیں کو آپ کے حکم سے بند کر دیا گیا، یہ بھی مروی ہے کہ چھ مہینے تک آپ کی یہی حالت رہی،

تفسیر ثعلبی میں حضرت ابن عباس اور حضرت ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے :

یہود کا ایک بچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا اسے یہودیوں نے بہکا سکھا کر آپ کے چند بال اور آپ کی کنگھی کے چند دندانے منگوا لئے اور ان میں جادو کیا اس کام میں زیادہ تر کوشش کرنے والا لبید بن اعصم تھا پھر ذرو ان نامی کنوئیں میں جو بنوزریق کا تھا اسے ڈال دیا پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیما ہوگئے سر کے بال جھڑنے لگے خیال آتا تھا کہ میں عورتوں کے پاس ہو آیا حالانکہ آتے نہ تھے گو آپ اسے دور کرنے کی کوشش میں تھے لیکن وجہ معلوم نہ ہوتی تھی چھ ماہ تک یہی حال رہا پھر وہ واقعہ ہوا جو اوپر بیان کیا کہ فرشتوں کے ذریعے آپ کو اس کا تمام حال علم ہو گیا اور آپ نے حضرت علی حضرت زبیر اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہم کو بھیج کر کنوئیں میں سے وہ سب چیزیں نکلوائیں ان میں ایک تانت تھی جس میں میں بارہ گرہیں لگی ہوئی تھیں اور ہر گرہ پر ایک سوئی چبی ہوئی تھی،

پھر اللہ تعالیٰ نے یہ دونوں سورتیں اتاریں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک آیت ان کی پڑھتے جاتے تھے اور ایک ایک گرہ اس کی خودبخود کھلتی جاتی تھی، جب یہ دونوں سورتیں پوری ہوئیں وہ سب گر ہیں کھل گئیں اور آپ بالکل شفایاب ہوگئے، ادھر جبرائیل علیہ السلام نے وہ دعا پڑھی جو اوپر گذر چکی ہے،

لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اجازت دیجئے کہ ہم اس خبیث کو پکڑ کر قتل کر دیں

 آپؐ نے فرمایا نہیں اللہ نے مجھے تو تندرستی دے دی اور میں لوگوں میں شر و فساد پھیلانا نہیں چاہتا۔

یہ روایت تفسیر ثعلبی میں بلا سند مروی ہے اس میں غربات بھی ہے اور اس کے بعض حصے میں سخت نکارت ہے اور بعض کے شواہد بھی ہیں جو پہلے بیان ہوچکے ہیں واللہ اعلم۔

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter