Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Adiyat

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


وَالْعَادِيَاتِ ضَبْحًا (۱)

ہانپتے ہوئے دوڑنے والے گھوڑوں کی قسم ‏

انسان کا نفسیاتی تجزیہ

مجاہدین کے گھوڑے جبکہ اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے ہانپتے اور ہنہناتے ہوئے دوڑتے ہیں ان کی اللہ تبارک و تعالیٰ قسم کھاتا ہے پھر اس تیزی میں دوڑتے ہوئے پتھروں کے ساتھ ان کے نعل کا ٹکرانا اور اس رگڑ سے آگ کی چنگاڑیاں اڑنا پھر صبح کے وقت دشمن پر ان کا چھاپہ مارنا اور دشمنان رب کو تہہ و بالا کرنا

حضرت عبداللہؓ سے مروی ہے کہ وَالْعَادِيَاتِ سے مراد اونٹ ہیں اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی یہی فرماتے ہیں

حضرت ابن عباس کا قول کہ اس سے مراد گھوڑے ہیں جب حضرت علیؓ  کو معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا گھوڑے ہمارے بدر والے دن تھے ہی کب یہ تو اس چھوٹے لشکر میں تھے جو بھیجا گیا تھا

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک مرتبہ حطیم میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص نے آ کر اس آیت کی تفسیر پوچھی تو آپ نے فرمایا اس سے مراد مجاہدین کے گھوڑے ہیں جو بوقت جہاد دشمنوں پر دھاوا بولتے ہیں پھر رات کے وقت یہ گھڑ سوار مجاہد اپنے کیمپ میں آ کر کھانے پکانے کے لیے آگ جلاتے ہیں وہ یہ پوچھ کر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گیا آپ اس وقت زمزم کا پانی لوگوں کو پلا رہے تھے اس نے آپ سے بھی یہی سوال کیا

 آپ نے فرمایا مجھ سے پہلے کسی اور سے بھی تم نے پوچھا ہے؟

کہا ہاں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا ہے تو انہوں نے فرمایا مجاہدین کے گھوڑے ہیں جو اللہ کی راہ میں دھاوا بولیں

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا جانا ذرا انہیں میرے پاس بلانا جب وہ آ گئے تو حضرت علی نے فرمایا:

 تمہیں معلوم نہیں اور تم لوگوں کو فتوے دے رہے ہو اللہ کی قسم پہلا غزوہ اسلام میں بدر کا ہوا اس لڑائی میں ہمارے ساتھ صرف دو گھوڑے تھے ایک شخص حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دوسرا حضرت مقداد رضی اللہ عنہ کا تو عادیات ضَبْحایہ کیسے ہو سکتے ہیں اس سے مراد تو عرفات سے مزدلفہ کی طرف جانے والے اور پھر مزدلفہ سے منٰی کی طرف جانے والے ہیں

حضرت عبداللہؓ فرماتے ہیں یہ سن کر میں نے اپنے اگلے قول سے رجوع کر لیا اور حضرت علیؓ نے جو فرمایا تھا وہی کہنے لگا مزدلفہ میں پہنچ کر حاجی بھی اپنی ہنڈیا روٹی کے لیے آگ سلگاتے ہیں ، غرض حضرت علیؓ  کا فرمان یہ ہوا کہ اس سے مراد اونٹ ہیں

 اور یہی قول ایک جماعت کا ہے جن میں ابراہیم عبید بن عمیر وغیرہ ہیں

اور حضرت ابن عباسؓ سے گھوڑے مروی ہیں مجاہد، عکرمہ، عطاء قتادہ اور ضحاک بھی یہی کہتے ہیں اور امام ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں بلکہ حضرت ابن عباسؓ اور حضرت عطا سے مروی ہے کہ ضَبْح یعنی ہانپنا کسی جانور کے لیے نہیں ہوتا سوائے گھوڑے اور کتے کے ۔

ابن عباسؓ فرماتے ہیں ان کے منہ سے ہانپتے ہوئے جو آواز اح اح کی نکلتی ہے یہی ضَبْح ہے

فَالْمُورِيَاتِ قَدْحًا (۲)

پھر ٹاپ مار کر آگ جھاڑنے والوں کی قسم ‏

 اور اس دوسرے جملے کے ایک تو معنی یہ کیے گئے ہیں کہ

- ان گھوڑوں کی ٹاپوں کا پتھر سے ٹکرا کر آگ پیدا کرنا

- اور دوسرے معنی یہ بھی کیے گئے ہیں کہ ان کے سواروں کا لڑائی کی آگ کو بھڑکانا

- اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ لڑائی میں مکرو دھوکہ کرنا

- اور یہ بھی مروی ہے کہ راتوں کو اپنی قیام گاہ پر پہنچ کر آگ روشن کرنا

- اور مزدلفہ میں حاجیوں کا بعد از مغرب پہنچ کر آگ جلانا

امام ابن جریرؒ فرماتے ہیں میرے نزدیک سب سے زیادہ ٹھیک قول یہی ہے کہ گھوڑوں کی ٹاپوں اور سموں کا پتھر سے رگڑ کھا کر آگ پیدا کرنا پھر صبح کے وقت مجاہدین کا دشمنوں پر اچانک ٹوٹ پڑنا۔

 اور جن صاحبان نے اس سے مراد اونٹ لیے ہیں وہ فرماتے ہیں اس سے مراد مزدلفہ سے منٰی کی طرف صبح کو جانا ہے پھر یہ سب کہتے ہیں کہ پھر ان کا جس مکان میں یہ اترے ہیں خواہ جہاد میں ہوں خواہ حج میں غبار اڑانا پھر ان مجاہدین کا کفار کی فوجوں میں مردانہ گھس جانا اور چیرتے پھاڑتے مارتے پچھاڑتے ان کے بیچ لشکر میں پہنچ جانا ۔

فَالْمُغِيرَاتِ صُبْحًا (۳)

پھر صبح کے وقت دھاوا بولنے والوں کی قسم

فَأَثَرْنَ بِهِ نَقْعًا (۴)

پس اس وقت گرد و غبار اڑاتے ہیں۔‏

فَوَسَطْنَ بِهِ جَمْعًا (۵)

پھر اسی کے ساتھ فوجوں کے درمیان گھس جاتے ہیں۔

اور یہ بھی مراد ہو سکتی ہے کہ سب جمع ہو کر اس جگہ درمیان میں آ جاتے ہیں تو اس صورت میں جَمْعًا حال موکد ہونے کی وجہ سے منصوب ہو گا

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہی عادت مبارک تھی کہ دشمن کی کسی بستی پر آپ جاتے تو وہاں رات کو ٹھہر کرکان لگا کر سنتے اگر اذان کی آواز آ گئی تو آپ رک جاتے نہ آتی تو لشکر کو حکم دیتے کہ بزن بول دیں۔

إِنَّ الْإِنْسَانَ لِرَبِّهِ لَكَنُودٌ (۶)

یقیناً انسان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔‏

ان قسموں کے بعد اب وہ مضمون بیان ہو رہا ہے جس پر قسمیں کھائیں گئی تھیں کہ انسان اپنے رب کی نعمتوں کا قدردان نہیں اگر کوئی دکھ درد کسی وقت آ گیا ہے تو وہ تو بخوبی یاد رکھتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی ہزارہا نعمتیں جو ہیں سب کو بھلائے ہوئے ہے

 ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے کہ كَنُود وہ ہے جو تنہا کھائے غلاموں کو مارے اور آسان سلوک نہ کرے ۔

اس کی اسناد ضعیف ہے

وَإِنَّهُ عَلَى ذَلِكَ لَشَهِيدٌ (۷)

اور یقیناً وہ خود بھی اس پر گواہ ہے۔ ‏

فرمایا اللہ اس پر شاہد ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ خود اس بات پر اپنا گواہ آپ ہے اس کی ناشکری اس کے افعال و اقوال سے صاف ظاہر ہے

جیسے اور جگہ ہے

مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِينَ أَن يَعْمُرُواْ مَسَاجِدَ الله شَـهِدِينَ عَلَى أَنفُسِهِم بِالْكُفْرِ (۹:۱۷)

مشرکین سے اللہ تعالیٰ کی مسجدوں کی آبادی نہیں ہو سکتی جبکہ یہ اپنے فکر کے آپ گواہ ہیں

وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ (۸)

یہ مال کی محبت میں بھی بڑا سخت ہے

فرمایا یہ مال کی چاہت میں بڑا سخت ہے یعنی اسے مال کی بیحد محبت ہے

 اور یہ بھی معنی ہیں کہ اس کی محبت میں پھنس کر ہماری راہ میں دینے سے جی چراتا اور بخل کرتا ہے

أَفَلَا يَعْلَمُ إِذَا بُعْثِرَ مَا فِي الْقُبُورِ (۹)

کیا اسے وہ وقت معلوم نہیں جب قبروں میں جو (کچھ) ہے نکال لیا جائے گا

وَحُصِّلَ مَا فِي الصُّدُورِ (۱۰)

اور سینوں کی پوشیدہ باتیں ظاہر کر دی جائیں گی۔‏

پروردگار عالم اسے دنیا سے بےرغبت کرنے اور آخرت کی طرف متوجہ کرنے کے لیے فرما رہا ہے کہ کیا انسان کو یہ معلوم نہیں کہ ایک وقت وہ آ رہا ہے کہ جب تمام مردے قبروں سے نکل کھڑے ہوں گے اور جو کچھ باتیں چھپی لگی ہوئی تھیں سب ظاہر ہو جائیں گی

إِنَّ رَبَّهُمْ بِهِمْ يَوْمَئِذٍ لَخَبِيرٌ (۱۱)

بیشک ان کا رب اس دن ان کے حال سے پورا باخبر ہوگا ‏

سن لو ان کا رب ان کے تمام کاموں سے باخبر ہے اور ہر ایک عمل کا بدلہ پورا پورا دینے والا ہے ایک ذرے کے برابر ظلم وہ روا نہیں رکھتا اور نہ رکھے ۔

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter