Tafsir Ibn Kathir (Urdu)Surah Al GhashiyahAlama Imad ud Din Ibn KathirTranslated by Muhammad Sahib Juna Garhi |
For Better Viewing Download Arabic / Urdu Fonts
شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے
هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ کیا تجھے بھی چھپا لینے والی (قیامت) کی خبر پہنچی ہے ۔ (۱) الْغَاشِيَة قیامت کا نام ہے اس لیے کہ وہ سب پر آئے گی سب کو گھیرے ہوئے ہو گی اور ہر ایک کو ڈھانپ لے گی الْغَاشِيَة ابن ابی حاتم میں ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہیں جا رہے تھے کہ ایک عورت کی قرآن پڑھنے کی آواز آئی آپ کھڑے ہو کر سننے لگے اس نے یہی آیت هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ پڑھی یعنی کیا تیرے پاس ڈھانپ لینے والی قیامت کی بات پہنچی ہے؟ تو آپ نے جواباً فرمایا نعم قد جآء نی یعنی ہاں میرے پاس پہنچ چکی ہے وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ خَاشِعَةٌ اس دن بہت سے چہرے ذلیل ہونگے۔ (۲) عَامِلَةٌ نَاصِبَةٌ (اور) محنت کرنے والے تھکے ہوئے ہونگے (۳) تَصْلَى نَارًا حَامِيَةً اور دہکتی ہوئی آگ میں جائیں گے۔ (۴) اس دن بہت سے لوگ ذلیل چہروں والے ہوں گے پستی ان پر برس رہی ہوں گی ان کے اعمال غارت ہو گئے ہوں گے انہوں نے تو بڑے بڑے اعمال کیے تھے سخت تکلیفیں اٹھائی تھیں وہ آج بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہو گئے ایک مرتبہ حضرت عمرؓ ایک خانقاہ کے پاس سے گزرے وہاں کے راہب کو آواز دی وہ حاضر ہوا آپ اسے دیکھ کر روئے لوگوں نے پوچھا حضرت کیا بات ہے؟ تو فرمایا اسے دیکھ کر یہ آیت یاد آ گئی کہ عبادت اور ریاضت کرتے ہیں لیکن آخر جہنم میں جائیں گے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اس سے مراد نصرانی ہیں تُسْقَى مِنْ عَيْنٍ آنِيَةٍ نہایت گرم چشمے کا پانی ان کو پلایا جائے گا۔ (۵) لَيْسَ لَهُمْ طَعَامٌ إِلَّا مِنْ ضَرِيعٍ ان کے لئے کانٹے دار درختوں کے سوا اور کچھ کھانا نہ ہوگا۔ (۶) لَا يُسْمِنُ وَلَا يُغْنِي مِنْ جُوعٍ جو نہ موٹا کرے گا نہ بھوک مٹائے گا۔ (۷) عکرمہؒ اور سدیؒ فرماتے ہیں کہ دنیا میں گناہوں کے کام کرتے رہے اور آخرت میں عذاب کی اور مار کی تکلیفیں برداشت کریں گے یہ سخت بھڑکنے والی جلتی تپتی آگ میں جائیں گے جہاں سوائے ضَرِيعٍ کے اور کچھ کھانے کو نہ ملے گا جو آگ کا درخت ہے یا جہنم کا پتھر ہے یہ تھوہر کی بیل ہے اس میں زہریلے کانٹے دار پھل لگتے ہیں یہ بدترین کھانا ہے اور نہایت ہی برا نہ بدن بڑھائے نہ بھوک مٹائے یعنی نہ نفع پہنچے نہ نقصان دور ہو۔ اوپر چونکہ بدکاروں کا بیان اور ان کے عذابوں کا ذکر ہوا تھا تو یہاں نیک کاروں اور ان کے ثوابوں کا بیان ہو رہا ہے، چنانچہ فرمایا: وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاعِمَةٌ بہت سے چہرے اس دن تروتازہ اور (آسودہ) حال ہونگے۔ (۸) لِسَعْيِهَا رَاضِيَةٌ اپنی کوشش پر خوش ہونگے۔ (۹) فِي جَنَّةٍ عَالِيَةٍ بلند و بالا جنتوں میں ہونگے۔ (۱۰) لَا تَسْمَعُ فِيهَا لَاغِيَةً جہاں کوئی بیہودہ بات نہیں سنیں گے۔ (۱۱) اس دن بہت سے چہرے ایسے بھی ہوں گے جن پر خوشی اور آسودگی کے آثار ظاہر ہوں گے یہ اپنے اعمال سے خوش ہوں گے، جنتوں کے بلند بالا خانوں میں ہوں گے جس میں کوئی لغو بات کان میں نہ پڑے گی۔ جیسے فرمایا: لاَّ يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْواً إِلاَّ سَلَـماً اس میں سوائے سلامتی اور سلام کے کوئی بری بات نہ سنیں گے (۱۹:۶۲) اور فرمایا: لاَّ لَغْوٌ فِيهَا وَلاَ تَأْثِيمٌ نہ اس میں بیہودگی ہے نہ گناہ کی باتیں (۵۲:۲۳) اور فرمایا: لاَ يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْواً وَلاَ تَأْثِيماً إِلاَّ قِيلاً سَلَـماً سَلَـماً نہ اس میں فضول گوئی سنیں گے نہ بری باتیں سوائے سلام ہی سلام کے اور کچھ نہ ہو گا۔ (۵۶:۲۵،۲۶) فِيهَا عَيْنٌ جَارِيَةٌ جہاں بہتا ہوا چشمہ ہوگا۔ (۱۲) اس میں بہتی ہوئی نہریں ہوں گی یہاں نکرہ اثبات کے سیاق میں ہے ایک ہی نہر مراد نہیں بلکہ جنس نہر مراد ہے یعنی نہریں بہتی ہوں گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: جنت کی نہریں مشک کے پہاڑوں اور مشک کے ٹیلوں سے نکلتی ہیں فِيهَا سُرُرٌ مَرْفُوعَةٌ (اور) اس میں اونچے اونچے تخت ہونگے۔ (۱۳) ان میں اونچے اونچے بلند و بالا تخت ہیں جن پر بہترین فرش ہیں اور ان کے پاس حوریں بیٹھی ہوئی ہیں گویہ تخت بہت اونچے اور ضخامت والے ہیں لیکن جب یہ اللہ کے دوست ان پر بیٹھنا چاہیں گے تو وہ جھک جائیں گے، وَأَكْوَابٌ مَوْضُوعَةٌ اور پینے کے برتن رکھے ہوئے ((ہونگے) ۔ (۱۴) شراب کے بھر پور جام ادھر ادھر قرینے سے چنے ہوئے ہیں جو چاہے جس قسم کا چاہے جس مقدار میں چاہے لے لے اور پی لے، وَنَمَارِقُ مَصْفُوفَةٌ اور قطار میں لگے ہوئے تکیے ہونگے۔ (۱۵) وَزَرَابِيُّ مَبْثُوثَةٌ اور مخملی مسندیں پھیلی پڑی ہونگی۔(۱۶) اور تکیے ایک قطار میں لگے ہوئے اور ادھر ادھر بہترین بستر اور فرش باقاعدہ بچھے ہوئے ہیں ابن ماجہ میں حدیث ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: کوئی ہے جو تہبند چڑھائے جنت کی تیاری کرے اس جنت کی جس کی لمبائی چوڑائی بےحساب ہے رب کعبہ کی قسم وہ ایک چمکتا ہوا نور ہے وہ ایک لہلہاتا ہوا سبزہ ہے وہ بلند و بالا محلات ہیں وہ بہتی ہوئی نہریں ہیں وہ بکثرت ریشمی حلے ہیں وہ پکے پکائے تیار عمدہ پھل ہیں وہ ہمیشگی والی جگہ ہے وہ سرا سر میوہ جات سبزہ راحت اور نعمت ہے وہ تر و تازہ بلند و بالا جگہ ہے سب لوگ بول اٹھے کہ ہم سب اس کے خواہش مند ہیں اور اس کے لیے تیاری کریں گے فرمایا انشاء اللہ تعالیٰ کہو صحابہ کرام نے انشاء اللہ تعالیٰ کہا۔ أَفَلَا يَنْظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ کیا یہ اونٹوں کو نہیں دیکھتے وہ کس طرح پیدا کئے ۔ (۱۷) اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اس کی مخلوقات پر تدبر کے ساتھ نظریں ڈالیں اور دیکھیں کہ اس کی بے انتہا قدرت ان میں سے ہر ایک چیز سے کس طرح ظاہر ہوتی ہے اس کی پاک ذات پر ہر ایک چیز کس طرح دلالت کر رہی ہے اونٹ کو ہی دیکھو کہ کس عجیب و غریب ترکیب اور ہیئت کا ہے کتنا مضبوط اور قوی ہے اور اس کے باوجود کس طرح نرمی اور آسانی سے بوجھ لاد لیتا ہے اور ایک بچے کیساتھ کس طرح اطاعت گزار بن کر چلتا ہے۔ اس کا گوشت بھی تمہارے کھانے میں آئے اس کے بال بھی تمہارے کام آئیں اس کا دودھ تم پیؤ اور طرح طرح کے فائدے اٹھاؤ، اونٹ کا حال سب سے پہلے اس لیے بیان کیا گیا کہ عموماً عرب کے ملک میں اور عربوں کے پاس یہی جانور تھا وَإِلَى السَّمَاءِ كَيْفَ رُفِعَتْ اور آسمان کو کہ کس طرح اونچا کیا گیا۔(۱۸) اور آسمان کی بلندی زمین سے کس طرح ہے اور جگہ ارشاد ہے : أَفَلَمْ يَنظُرُواْ إِلَى السَّمَآءِ فَوْقَهُمْ كَيْفَ بَنَيْنَـهَا وَزَيَّنَّـهَا وَمَا لَهَا مِن فُرُوجٍ ( کیا ان لوگوں نے اپنے اوپر آسمان کو نہیں دیکھا کہ ہم نے اسے کس طرح بنایا کیسے مزین کیااور ایک سوراخ نہیں چھوڑا،۵۰:۶) وَإِلَى الْجِبَالِ كَيْفَ نُصِبَتْ اور پہاڑوں کی طرف کس طرح گاڑھ دیئے گئے ہیں۔ (۱۹) پھر پہاڑوں کو دیکھو کہ کیسے گاڑ دئیے گئے تاکہ زمین ہل نہ سکے اور پہاڑ بھی اپنی جگہ نہ چھوڑ سکیں پھر اس میں جو بھلائی اور نفع کی چیزیں پیدا کی ہیں ان پر بھی نظر ڈالو وَإِلَى الْأَرْضِ كَيْفَ سُطِحَتْ اور زمین کی طرف کس طرح بچھائی گئی ہے۔ (۲۰) زمین کو دیکھو کہ کس طرح پھیلا کر بچھا دی گئی ہے غرض یہاں ان چیزوں کا ذکر کیا جو قرآن کے مخاطب عربوں کے ہر وقت پیش نظر رہا کرتی ہیں ایک بدوی جو اپنے اونٹ پر سوار ہو کر نکلتا ہے زمین اس کے نیچے ہوتی ہے آسمان اس کے اوپر ہوتا ہے پہاڑ اس کی نگاہوں کے سامنے ہوتے ہیں اور اونٹ پر خود سوار ہے ان باتوں سے خالق کی قدرت کاملہ اور صنعت ظاہرہ بالکل ہویدا ہے اور صاف ظاہر ہے کہ خالق، صانع، رب عظمت و عزت والا مالک اور متصرف معبود برحق اور اللہ حقیقی صرف وہی ہے اس کے سوا کوئی ایسا نہیں جس کے سامنے اپنی عاجزی اور پستی کا اظہار کریں جسے ہم حاجتوں کے وقت پکاریں جس کا نام دود زباں بنائیں اور جس کے سامنے سر خم ہوں حضرت ضمام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو سوالات آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیے تھے وہ اس طرح کی قسمیں دے کر کیے تھے بخاری مسلم ترمذی نسائی مسند احمد وغیرہ میں حدیث ہے: حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں بار بار سوالات کرنے سے روک دیا گیا تھا تو ہماری یہ خواہش رہتی تھی کہ باہر کا کوئی عقل مند شخص آئے وہ سوالات کرے ہم بھی موجود ہوں اور پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی جوابات سنیں چنانچہ ایک دن بادیہ نشین آئے اور کہنے لگے اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کے قاصد ہمارے پاس آئے اور ہم سے کہا آپ فرماتے ہیں کہ اللہ نے آپ کو اپنا رسول بنایا ہے آپ نے فرمایا اس نے سچ کہا وہ کہنے لگا بتائیے آسمان کو کس نے پیدا کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ نے کہا زمین کس نے پیدا کی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ نے کہا ان پہاڑوں کو کس نے گاڑ دیا؟ ان سے یہ فائدے کی چیزیں کس نے پیدا کیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ نے کہا پس آپ کو قسم ہے اس اللہ کی جس نے آسمان و زمین پیدا کیے اور ان پہاڑوں کو گاڑا کیا اللہ نے آپ کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں فرمایا اس نے سچ کہا۔ کہا اس اللہ کی آپ کو قسم ہے جس نے آپ کو بھیجا کہ کیا یہ اللہ کا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ کہنے لگے آپ کے قاصد نے یہ بھی کہا کہ ہمارے مالوں میں ہم پر زکوٰۃ فرض ہے فرمایا سچ ہے پھر کہا آپ کو اپنے بھیجنے والے اللہ کی قسم کیا اللہ نے آپ کو یہ حکم دیا ہے؟ فرمایا ہاں مزید کہا کہ آپ کے قاصد نے ہم میں سے طاقت رکھنے والے لوگوں کو حج کا حکم بھی دیا ہے آپ نے فرمایا ہاں اس نے جو کہا سچ کہا وہ یہ سن کر یہ کہتا ہوا چل دیا کہ اس اللہ واحد کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے نہ میں ان پر کچھ زیادتی کروں گا نہ ان میں کوئی کمی کروں گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر اس نے سچ کہا ہے تو یہ جنت میں داخل ہو گا۔ بعض روایات میں ہے کہ اس نے کہا میں ضمام بن ثعلبہ ہوں بنو سعد بن بکر کا بھائی ابو یعلی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں اکثر یہ حدیث سنایا کرتے تھے: زمانہ جاہلیت میں ایک عورت پہاڑ پر تھی اس کے ساتھ اس کا ایک چھوٹا سا بچہ تھا یہ عورت بکریاں چرایا کرتی تھی اس کے لڑکے نے اس سے پوچھا کہ اماں جان تمہیں کس نے پیدا کیا؟ اس نے کہا اللہ نے۔ پوچھا میرے ابا جی کو کس نے پیدا کیا؟ اس نے کہا اللہ نے پوچھا مجھے؟ کہا اللہ نے پوچھا آسمان کو ؟ کہا اللہ نے، پوچھا زمین کو؟ کہا اللہ نے، پوچھا پہاڑوں کو؟ بتایا کہ انہیں بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے بچے نے پھر سوال کیا کہ اچھا ان بکریوں کو کس نے پیدا کیا؟ ماں نے کہا انہیں بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے بچے کے منہ سے بے اختیار نکلا کہ اللہ تعالیٰ بڑی شان والا ہے اس کا دل عظمت اللہ سے بھر گیا وہ اپنے نفس پر قابو نہ رکھ سکا اور پہاڑ پر سے گر پڑا، ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ ابن دینار فرماتے ہیں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بھی یہ حدیث ہم سے اکثر بیان فرمایا کرتے تھے اس حدیث کی سند میں عبداللہ بن جعفر مدینی ضعیف ہیں۔ امام علی بن مدینی جو ان کے صاحبزادے ہیں وہ انہیں یعنی اپنے والد کو ضعیف بتلاتے ہیں۔ فَذَكِّرْ إِنَّمَا أَنْتَ مُذَكِّرٌ پس آپ نصیحت کر دیا کریں (کیونکہ) آپ صرف نصیحت کرنے والے ہیں ۔ (۲۱) اللہ تعالیٰ پھر فرماتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم تو اللہ کی رسالت کی تبلیغ کیا کرو تمہارے ذمہ صرف بلاغ ہے حساب ہمارے ذمہ ہے لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَيْطِرٍ آپ کچھ ان پر دروغہ نہیں ہیں۔(۲۲) آپ ان پر مسلط نہیں ہیں جبر کرنے والے نہیں ہیں ان کے دلوں میں آپ ایمان پیدا نہیں کر سکتے، آپ انہیں ایمان لانے پر مجبور نہیں کر سکتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: مجھے حکم کیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ وہلا الہ الا اللہ کہیں جب وہ اسے کہہ لیں تو انہوں نے اپنے جان و مال مجھ سے بچا لیے مگر حق اسلام کے ساتھ اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی (مسلم ترمذی مسند وغیرہ) إِلَّا مَنْ تَوَلَّى وَكَفَرَ ہاں! جو شخص روگردانی کرے اور کفر کرے۔(۲۳) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مگر وہ جو منہ موڑے اور کفر کرے یعنی نہ عمل کرے نہ ایمان لائے نہ اقرار کرے جیسے فرمان ہے: فَلاَ صَدَّقَ وَلاَ صَلَّى وَلَـكِن كَذَّبَ وَتَوَلَّى نہ تو سچائی کی تصدیق کی نہ نماز پڑھی بلکہ جھٹلایا اور منہ پھیر لیا ۔ (۷۵:۳۱،۳۲) فَيُعَذِّبُهُ اللَّهُ الْعَذَابَ الْأَكْبَرَ اسے اللہ بہت بڑا عذاب دے گا۔ (۲۴) اسی لیے اسے بہت بڑا عذاب ہو گا ابو امامہ باہلی حضرت خالد بن یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو کہا کہ تم نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو آسانی سے آسانی والی حدیث سنی ہو اور اسے مجھے سنا تو آپ نے فرمایا میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے : تم میں سے ہر ایک جنت میں جائیگا مگر وہ جو اس طرح کی سرکشی کرے جیسے شریر اونٹ اپنے مالک سے کرتا ہے (مسند احمد) إِنَّ إِلَيْنَا إِيَابَهُمْ بیشک ہماری طرف ان کا لوٹنا ہے۔(۲۵) ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا حِسَابَهُمْ اور بیشک ہمارے ذمہ ہے ان سے حساب لینا۔ (۲۶) ان سب کا لوٹنا ہماری ہی جانب ہے اور پھر ہم ہی ان سے حساب لیں گے اور انہیں بدلہ دیں گے، نیکی کا نیک بدی کا بد۔ |
© Copy Rights:Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,Lahore, PakistanEnail: cmaj37@gmail.com |
Visits wef Sep 2024 |