Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Qalam

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


ن ۚ

ن

نجیسے حروف ہجا کا مفصل بیان سورہ بقرہ کے شروع میں گزر چکا ہے اس لئے یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں،

ن کے متعلق بیان

 کہا گیا ہے کہ یہاں ان سے مراد وہ بڑی مچھلی ہے جو ایک محیط عالم پانی پر ہے جو ساتوں زمینوں کو اٹھائے ہوئے ہے،

 حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:

 سب سے پہلے اللہ نے قلم کو پیدا کیا اور اس سے فرمایا لکھ

اس نے کہا کیا لکھوں؟

فرمایا تقدیر لکھ ڈال

پس اس دن سے لے کر قیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے اس پر قلم جاری ہو گیا

پھر اللہ تعالیٰ نے مچھلی پیدا کی اور پانی کے بخارات بلند کئے، جس سے آسمان بنے اور زمین کو اس مچھلی کی پیٹھ پر رکھا مچھلی نے حرکت کی جس سے زمین بھی ہلنے لگی پس زمین پر پہاڑ گاڑ کر اسے مضبوط اور ساکن کر دیا،

پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی (ابن ابی حاتم)

مطلب یہ ہے کہ یہاں ن سے مراد یہ مچھلی ہے،

 طبرانی میں مرفوعاً مروی ہے:

 سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قلم کو اور مچھلی کو پیدا کیا قلم نے دریافت کیا میں کیا لکھوں؟

حکم ہوا ہر وہ چیز جو قیامت تک ہونے والی ہے

پھر آپ نے پہلی آیت کی تلاوت کی،

پس ن سے مراد یہ مچھلی ہے اور قلم سے مراد یہ قلم ہے،

 ابن عساکر کی حدیث میں ہے:

 سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قلم کو پیدا کیا پھر ن یعنی دوات کو پھر قلم سے فرمایا لکھ

اس نے پوچھا کیا؟

 فرمایا جو ہو رہا ہے اور جو ہونے والا ہے عمل، رزق عمر، موت وغیرہ،

پس قلم نے سب کچھ لکھ لیا۔

 اس آیت میں یہی مراد ہے، پھر قلم پر مہر لگا دی اب وہ قیامت تک نہ چلے گا،

پھر عقل کو پیدا کیا اور فرمایا :

مجھے اپنی عزت کی قسم اپنے دوستوں میں تو میں تجھے کمال تک پہنچاؤں گا اور اپنے دشمنوں میں تجھے ناقص رکھوں گا،

مجاہد فرماتے ہیں یہ مشہور تھا کہ ن سے مراد وہ مچھلی ہے جو ساتویں زمین کے نیچے ہے،

 بغوی وغیرہ مفسرین فرماتے ہیں کہ اس مچھلی کی پیٹھ پر ایک چٹان ہے جس کی موٹائی آسمان و زمین کے برابر ہے اس پر ایک بیل ہے جس کے چالیس ہزار سینگ ہیں اس کی پیٹھ پر ساتوں زمینیں اور ان پر تمام مخلوق ہے، واللہ اعلم

 اور تعجب تو یہ ہے کہ ان بعض مفسرین نے اس حدیث کو بھی انہی معنی پر محمول کیا ہے جو مسند احمد وغیرہ میں ہے کہ جب حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خبر ملی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آ گئے ہیں تو وہ آپ کے پاس آئے اور بہت کچھ سوالات کئے کہا کہ میں وہ باتیں پوچھنا چاہتا ہوں جنہیں نبیوں کے سوا اور کوئی نہیں جانتا

 بتایئے قیامت کے پہلی نشانی کیا ہے؟

 اور جنتیوں کا پہلا کھانا کیا ہے؟

 اور کیا وجہ ہے کہ کبھی بچہ اپنے باپ کی صورت میں ہوتا ہے کبھی ماں کی صورت پر؟

حضور علیہ السلام نے فرمایا یہ باتیں ابھی ابھی جبرائیل نے مجھے بتا دیں،

 ابن سلام کہنے لگے فرشتوں میں سے یہی فرشتہ ہے جو یہودیوں کا دشمن ہے،

 آپ نے فرمایا :

سنو!

- قیامت کی پہلی نشانی ایک آگ کا نکلنا ہے جو لوگوں کو مشرق کی طرف سے مغرب کی طرف لے جائے گی

- اور جنتیوں کا پہلا کھانا مچھلی کی کلیجی کی زیادتی ہے

- اور مرد کا پانی عورت کے پانی پر سابق آ جائے تو لڑکا ہوتا ہے اور جب عورت کا پانی مرد کے پانی پر سبقت کر جائے تو وہی کھینچ لیتی ہے،

 دوسری حدیث میں اتنی زیادتی ہے کہ پوچھا جنتیوں کے اس کھانے کے بعد انہیں کیا ملے گا

فرمایا جنتی بیل ذبح کیا جائے گا جو جنت میں چرتا چگتا رہا تھا،

پوچھا انہیں پانی کونسا ملے گا؟

 فرمایا سلسبیل نامی نہر کا،

یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد ن سے نور کی تختی ہے

 ایک مرسل غریب حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھ کر فرمایا :

 اس سے مراد نور کی تختی اور نور کا حکم ہے جو قیامت تک کے حال پر چل چکا ہے ،

اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ن سے مراد دولت ہے اور قلم سے مراد قلم ہے، حسنؒ اور قتادہؒ بھی یہی فرماتے ہیں،

 حضرت ابن عباس ؓفرماتے ہیں:

 اللہ تعالیٰ نے ن یعنی دوات کو پیدا کیا اور قلم کو پیدا کیا، پھر فرمایا "لکھ"

اس نے پوچھا "کیا لکھوں؟ "

فرمایا لکھ جو قیامت تک ہونے والا ہے، اعمال خواہ نیک ہوں خواہ بد، روزی خواہ حلال ہو خواہ حرام، پھر یہ بھی کہ کونسی چیز دنیا میں کب جائے گی کس قدر رہے گی، کیسے نکلے گی،

پھر اللہ تعالیٰ نے بندوں پر محافظ فرشتے مقرر کئے اور کتاب پر داروغے مقرر کئے،

محافظ فرشتے ہر دن ان کے عمل خازن فرشتوں سے دریافت کر کے لکھ لیتے ہیں جب رزق ختم ہو جاتا ہے عمر پوری ہو جاتی ہے اجل آ پہنچتی ہے تو محافظ فرشتے داروغہ فرشتوں کے پاس آ کر پوچھتے ہیں کہ بتاؤ آج کے دن کیا سامان ہے؟

 وہ کہتے ہیں بس اس شخص کے لئے ہمارے پاس اب کچھ بھی نہیں رہا

یہ سن کر یہ فرشتے نیچے اترتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ وہ مر گیا

یہ تو تھا لفظ ن کے متعلق بیان، اب قلم کی نسبت سنئے۔

وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ (۱)

قسم ہے قلم کی اور اس کی جو کچھ وہ (فرشتے) لکھتے ہیں۔‏

قلم کےمتعلق بیان

 وَالْقَلَمِ بظاہر مراد یہاں عام قلم ہے جس سے لکھا جاتا ہے جیسے اور جگہ فرمان عالیشان ہے:

الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ  (۹۶:۴)

جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا

پس اس کی قسم کھا کر اس بات پر آگاہی کی جاتی ہے کہ مخلوق پر میری ایک نعمت یہ بھی ہے کہ میں نے انہیں لکھنا سکھایا جس سے علوم تک ان کے رسائی ہو سکے، اس لئے اس کے بعد فرمایا:

وَمَا يَسْطُرُونَ یعنی اس چیز کی قسم جو لکھتے ہیں،

حضرت ابن عباسؓ سے اس کی تفسیر یہ بھی مروی ہے کہ اس چیز کی جو جانتے ہیں،

 سدی فرماتے ہیں مراد اس سے فرشتوں کا لکھنا ہے جو بندوں کے اعمال لکھتے ہیں

 اور مفسرین کہتے ہیں اس سے مراد وہ قلم ہے جو قدرتی طور پر چلا اور تقدیریں لکھیں آسمان و زمین کی پیدائش سے چالیس ہزار سال پہلے اور اس قول کی دلیل میں یہ جماعت وہ حدیثیں وارد کرتی ہے جو قلم کے ذکر میں مروی ہیں،

حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ قلم سے مراد وہ قلم ہے جس سے ذکر لکھا گیا۔

مَا أَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُونٍ (۲)

تو اپنے رب کے فضل سے دیوانہ نہیں ہے ‏

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے نبی تو بحمد اللہ دیوانہ نہیں جیسے کہ تیری قوم کے جاہل منکرین حق کہتے ہیں

وَإِنَّ لَكَ لَأَجْرًا غَيْرَ مَمْنُونٍ (۳)

اور بیشک تیرے لئے بے انتہاء اجر ہے ۔‏

بلکہ تیرے لئے اجر عظیم ہے اور ثواب بےپایاں ہے جو نہ ختم ہو نہ ٹوٹے نہ کٹے کیونکہ تو نے حق رسالت ادا کر دیا ہے اور ہماری راہ میں سخت سے سخت مصیبتیں جھیلی ہیں ہم تجھے بےحساب بدلہ دیں گے،

وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ (۴)

اور بیشک تو بہت بڑے (عمدہ) اخلاق پر ہے۔ ‏

تو بہت بڑے خلق پر ہے یعنی دین اسلام پر اور بہترین ادب پر ہے،

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اخلاق نبوی کے بارے میں سوال ہوتا ہے تو آپ جواب دیتی ہیں :

 آپ ﷺکا خلق قرآن تھا،

سعید فرماتے ہیں یعنی جیسے کہ قرآن میں ہے

 صدیقہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا کہ کیا تو نے قرآن نہیں پڑھا،

سائل حضرت سعید بن ہشام نے کہا ہاں پڑھا ہے

آپ نے فرمایا بس تو آپ کا خلق قرآن کریم تھا،

مسلم میں یہ حدیث پوری ہے جسے ہم سورہ مزمل کی تفسیر میں بیان کریں گے انشاء اللہ تعالیٰ ۔

بنو سواد کے ایک شخص نے حضرت عائشہ سے یہی سوال کیا تھا تو آپ نے یہی فرما کر پھر آیت وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ پڑھی

اس نے کہا کوئی ایک آدھ واقعہ تو بیان کیجئے

 ام المومنین رضی اللہ عنہا نے فرمایا سنو!

ایک مرتبہ میں نے بھی آپ کے لئے کھانا پکایا اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے بھی، میں نے اپنی لونڈی سے کہا دیکھ اگر میرے کھانے سے پہلے حضرت حفصہ ؓکے ہاں کا کھانا آ جائے تو تو برتن گرا دینا چنانچہ اس نے یہی کیا اور برتن بھی ٹوٹ گیا،

حضور ﷺ بکھرے ہوئے کھانے کو سمیٹنے لگے اور فرمایا اس برتن کے بدلے ثابت برتن تم دو واللہ اور کچھ ڈانٹا ڈپٹا نہیں (مسند احمد)

مطلب اس حدیث کا جو کئی طریق سے مختلف الفاظ میں کئی کتابوں میں ہے یہ ہے کہ

- ایک تو آپ کی جبلت اور پیدائش میں ہی اللہ نے پسندیدہ اخلاق بہترین خصلتیں اور پاکیزہ عادتیں رکھی تھیں

- دوسرے آپ کا عمل قرآن کریم پر ایسا تھا کہ گویا احکام قرآن کا مجسم عملی نمونہ ہیں،

- ہر حکم کو بجا لانے اور ہر نہی سے رک جانے میں آپ کی حالت یہ تھی کہ گویا قرآن میں جو کچھ ہے وہ آپ کی عادتوں اور آپ کے کریمانہ اخلاق کا بیان ہے۔

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے :

 میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دس سال تک خدمت کی لیکن کسی دن آپ نے مجھے اُف تک نہیں کہا کسی کرنے کے کام کو نہ کروں یا نہ کرنے کے کام کر گزروں تو بھی ڈانٹ ڈپٹ تو کجا اتنا بھی نہ فرماتے کہ ایسا کیوں ہوا؟

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ خوش خلق تھے

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلی سے زیادہ نرم نہ تو ریشم ہے نہ کوئی اور چیز۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پسینہ سے زیادہ خوشبو والی چیز میں نے تو کوئی نہیں سونگھی نہ مشک اور نہ عطر ۔(بخاری و مسلم)

صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت براء فرماتے ہیں:

- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ خوبصورت اور سب سے زیادہ خلیق تھے

- آپ کا قد نہ تو بہت لانبا تھا نہ آپ پست قامت تھے،

اس بارے میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں،

 شمائل ترمذی میں حضرت عائشہ سے روایات ہے :

- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے نہ تو کبھی کسی خادم یا غلام کو مارا نہ بیوی بچوں کو نہ کسی اور کو، ہاں اللہ کی راہ کا جہاد الگ چیز ہے،

-  جب کبھی دو کاموں میں آپ کو اختیار دیا جاتا تو آپ اسے پسند کرتے جو زیادہ آسان ہوتا ہاں یہ اور بات ہے کہ اس میں کچھ گناہ ہو تو آپ اس سے بہت دور ہو جاتے،

- کبھی بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا بدلہ کسی سے نہیں لیا ہاں یہ اور بات ہے کہ کوئی اللہ کی حرمتوں کو توڑتا ہو تو آپ اللہ کے احکام جاری کرنے کے لئے ضرور انتقام لیتے،

مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:

 میں بہترین اخلاق اور پاکیزہ ترین عادتوں کو پورا کرنے کے لئے آیا ہوں۔

فَسَتُبْصِرُ وَيُبْصِرُونَ (۵)

پس اب تو بھی دیکھ لے گا اور یہ بھی دیکھ لیں گے۔‏

بِأَيْيِكُمُ الْمَفْتُونُ (۶)

کہ تم میں سے کون فتنہ میں پڑا ہوا ہے۔‏

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے نبی ﷺ آپ اور آپ کے مخالف اور منکر ابھی ابھی جان لیں گے کہ دراصل بہکا ہوا اور گمراہ کون تھا؟

جیسے اور جگہ ہے:

سَيَعْلَمُونَ غَدًا مَنِ الْكَذَّابُ الْأَشِرُ (۵۴:۲۶)

انہیں ابھی کل ہی معلوم ہو جائے گا کہ جھوٹا اور شیخی باز کون تھا؟

وَإِنَّا أَوْ إِيَّاكُمْ لَعَلَى هُدًى أَوْ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ  (۳۴:۲۴)

ہم یا تم یا تو یقیناً ہدایت پر ہیں یا کھلی گمراہی میں ہیں؟

حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یعنی یہ حقیقت قیامت کے دن کھل جائے گی،

آپ سے مروی ہے کہ الْمَفْتُونُ مجنون کو کہتے ہیں

 مجاہد وغیرہ کا بھی یہی قول ہے،

 قتادہ وغیرہ فرماتے ہیں یعنی کون شیطان سے نزدیک تر ہے؟

 الْمَفْتُونُ کے ظاہری معنی یہ ہیں کہ جو حق سے بہک جائے اور گمراہ ہو جائے

 أَيْيِكُمُ پر بِ کو اس لئے داخل کیا گیا ہے کہ دلالت ہو جائے کہ آیتفَسَتُبْصِرُ وَيُبْصِرُونَ میں تضمین فعل ہے تو تقدیری عبارت کو ملا کر ترجمہ یوں ہو جائے گا کہ

 تو بھی اور وہ بھی عنقریب جان لیں گے اور تو بھی اور وہ سب بھی بہت جلدی الْمَفْتُونُ کی خبر دیں گے واللہ اعلم ۔

إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (۷)

بیشک تیرا رب اپنی راہ سے بہکنے والوں کو خوب جانتا ہے،اور وہ راہ یافتہ لوگوں کو بھی بخوبی جانتا ہے۔‏

پھر فرمایا کہ تم میں سے بہکنے والے اور راہ راست والے سب اللہ پر ظاہر ہیں اسے خوب معلوم ہے کہ راہ راست سے کس کا قدم پھسل گیا ہے۔‏

فَلَا تُطِعِ الْمُكَذِّبِينَ (۸)

پس تو جھٹلانے والوں کو نہ مان ‏

وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ (۹)

وہ چاہتے ہیں کہ تو ذرا ڈھیلا ہو تو یہ بھی ڈھیلے پڑ جائیں ‏

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو نعمتیں ہم نے تجھے دیں جو صراط مستقیم اور خلق عظیم ہم نے تجھے عطا فرمایا اب تجھے چاہئے کہ ہماری نہ ماننے والوں کی تو نہ مان، ان کی تو عین خوشی ہے کہ آپ ذرا بھی نرم پڑیں تو یہ کھل کھیلیں

اور یہ بھی مطلب ہے کہ یہ چاہتے ہیں کہ آپ ان کے معبودان باطل کی طرف کچھ تو رخ کریں حق سے ذرا سا تو ادھر ادھر ہو جائیں،

وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَهِينٍ (۱۰)

اور تو کسی ایسے شخص کا بھی کہنا نہ ماننا جو زیادہ قسمیں کھانے والا ہے۔‏

اللہ تعالیٰ پھر فرماتا ہے کہ زیادہ قسمیں کھانے والے کمینے شخص کی بھی نہ مان

چونکہ جھوٹے شخص کو اپنی ذلت اور کذب بیانی کے ظاہر ہو جانے کا ڈر رہتا ہے، اس لئے وہ قسمیں کھا کھا کر دوسرے کو اپنا یقین دلانا چاہتا ہے لگاتار قسموں پر قسمیں کھائے چلا جاتا ہے اور اللہ کے ناموں کو بےموقعہ استعمال کرتا پھرتا ہے۔

حضرت ابن عباس فرماتے ہیں مَهِينٍ سے مراد کاذب ہے۔

مجاہد کہتے ہیں ضعیف دل والا۔

حسن کہتے ہیں حَلَّافٍ مکابرہ کرنے والا اور مَهِينٍ ضعیف،

هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ (۱۱)

بےوقار، کمینہ، عیب گو، چغل خور۔‏

هَمَّازٍ غیبت کرنے والا، چغل خور جو اِدھر کی اُدھر لگائے تاکہ فساد ہو جائے۔ طبیعتوں میں نفرت اور دل میں دشمنی آ جائے،

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے میں دو قبریں آ گئیں آپ نے فرمایا:

 ان دونوں کو عذاب ہو رہا اور کسی بڑے امر پر نہیں ایک تو پیشاب کرنے میں پردے کا خیال نہ رکھتا تھا۔ دوسرا چغل خور تھا (بخاری و مسلم)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

چغل خور جنت میں نہ جائے گا (مسند)

دوسری روایت میں ہے کہ حضرت حذیفہ نے یہ حدیث اس وقت سنائی تھی جب آپ سے کہا گیا کہ یہ شخص خفیہ پولیس کا آدمی ہے،

مسند احمد کی حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ تم میں سب سے بھلا شخص کون ہے؟

 لوگوں نے کہا ضرور ارشاد فرمایئے،

 فرمایا وہ کہ جب انہیں دیکھا جائے اللہ یاد آ جائے

 اور سن لو سب سے بدتر شخص وہ ہے جو چغل خور ہو دوستوں میں فساد ڈلوانے والا ہو پاک صاف لوگوں کو تہمت لگانے والا ہو،

 ترمذی میں بھی یہ روایت ہے ،

پھر ان بدلوگوں کے ناپاک خصائل بیان ہو رہے ہیں کہ

مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ مُعْتَدٍ أَثِيمٍ (۱۲)

بھلائی سے روکنے والا حد سے بڑھ جانے والا گنہگار۔‏

عُتُلٍّ بَعْدَ ذَلِكَ زَنِيمٍ (۱۳)

گردن کش پھر ساتھ ہی بےنسب ہو ‏

بھلائیوں سے باز رہنے والا اور باز رکھنے والا ہے، حلال چیزوں اور حلال کاموں سے ہٹ کر حرام خوری اور حرام کاری کرتا ہے، گنہگار، بدکردار، محرمات کو استعمال کرنے والا، بدخو، بدگو جمع کرنے والا اور نہ دینے والا ہے۔

 مسند احمد کی حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جنتی لوگ گرے پڑے عاجز و ضعیف ہیں جو اللہ کے ہاں اس بلند مرتبہ پر ہیں کہ اگر وہ قسم کھا بیٹھیں تو اللہ پوری کر دے

 اور جہنمی لوگ سرکش متکبر اور خودبین ہوتے ہیں

 اور حدیث میں ہے

 جمع کرنے والے اور نہ دینے والے بدگو اور سخت خلق ،

 ایک روایت میں ہے:

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا عُتُلٍّ بَعْدَ ذَلِكَ زَنِيمٍ کون ہے؟

 فرمایا بد خلق خوب کھانے پینے والا لوگوں پر ظلم کرنے والا پیٹو آدمی،

 لیکن اس روایت کو اکثر راویوں نے مرسل بیان کیا ہے،

 ایک اور حدیث میں ہے:

 اس نالائق شخص پر آسمان روتا ہے جسے اللہ نے تندرستی دی پیٹ بھر کھانے کو دیا مال و جاہ بھی عطا فرمائی پھر بھی لوگوں پر ظلم و ستم کر رہا ہے،

 یہ حدیث بھی دو مرسل طریقوں سے مروی ہے،

 غرض عُتُلٍّ کہتے ہیں جس کا بدن صحیح ہو طاقتور ہو اور خوب کھانے پینے والا زور دار شخص ہو ۔

 زَنِيمٍ سے مراد بدنام ہے جو برائی میں مشہور ہو،

 لغت عرب میں زَنِيمٍ اسے کہتے ہیں جو کسی قوم میں سمجھا جاتا ہو لیکن دراصل اس کا نہ ہو، عرب شاعروں نے اسے اسی معنی میں باندھا ہے یعنی جس کا نسب صحیح نہ ہو،

 کہا گیا ہے کہ مراد اس سے اخنس بن شریق ثقفی ہے جو بنو زہرہ کا حلیف تھا

 اور بعض کہتے ہیں یہ اسود بن عبد یغوث زہری ہے،

 عکرمہ فرماتے ہیں ولد الزنا مراد ہے،

یہ بھی بیان ہوا ہے کہ جس طرح ایک بکری جو تمام بکریوں میں سے الگ تھلگ اپنا چرا ہوا کان اپنی گردن پر لٹکائے ہوئے ہو تو بہ یک نگاہ پہچان لی جاتی ہے اسی طرح کافر مؤمنوں میں پہچان لیا جاتا ہے،

 اسی طرح کے اور بھی بہت سے اقوال ہیں لیکن خلاصہ سب کا صرف اسی قدر ہے کہ زَنِيمٍ وہ شخص ہے جو برائی سے مشہور ہو اور عموماً ایسے لوگ ادھر ادھر سے ملے ہوئے ہوتے ہیں جن کے صحیح نسب کا اور حقیقی باپ کا پتہ نہیں ہوتا ایسوں پر شیطان کا غلبہ بہت زیادہ رہا کرتا ہے ،

جیسے حدیث میں ہے:

 زنا کی اولاد جنت میں نہیں جائے گی،

أَنْ كَانَ ذَا مَالٍ وَبَنِينَ (۱۴)

اس کی سرکشی صرف اس لئے ہے کہ وہ مال والا اور بیٹوں والا ہے ‏

إِذَا تُتْلَى عَلَيْهِ آيَاتُنَا قَالَ أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ (۱۵)

جب اس کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کہہ دیتا ہے یہ تو اگلوں کے قصے ہیں۔‏

پھر فرمایا اس کی ان شرارتوں کی وجہ یہ ہے کہ یہ مالدار اور بیٹوں کا باپ بن گیا ہے ہماری اس نعمت کا گن گانا تو کہاں ہماری آیتوں کو جھٹلاتا ہے اور توہین کر کے کہتا پھرتا ہے کہ یہ تو پرانے افسانے ہیں:

 اور جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

ذَرْنِي وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِيدًا..... عَلَيْهَا تِسْعَةَ عَشَرَ (۷۴:۱۱،۳۰)

مجھے چھوڑ دے اور اسے جسے میں نے یکتا پیدا کیا ہے اور بہت سا مال دیا ہے اور حاضر باش لڑکے دیئے ہیں اور بھی بہت کشادگی دے رکھی ہے پھر بھی اس کی طمع ہے کہ میں اسے اور دوں

ہرگز ایسا نہیں ہو سکتا یہ تو میری آیتوں کا مخالف ہے میں اسے عنقریب بدترین مصیبت میں ڈالوں گا

اس نے غور و فکر کے اندازہ لگایا  یہ تباہ ہو کتنی بری تجویز اس نے سوچی میں پھر کہتا ہوں، یہ برباد ہو اس نے کیسی بری تجویز کی اس نے

پھر نظر ڈالی اور ترش رو ہو کہ منہ بنا لیا، پھر منہ پھیر کر اینٹھنے لگا اور کہہ دیا کہ یہ کلام اللہ تو پرانا نقل کیا ہوا جادو ہے، صاف ظاہر ہے کہ یہ انسانی کلام ہے،

اس کی اس بات پر میں بھی اسے (سقر) میں ڈالوں گا تجھے کیا معلوم کہ (سقر) کیا ہے نہ وہ باقی رکھے نہ چھوڑے بدن پر لپیٹ جاتی ہے اس پر انتیس فرشتے متعین ہیں،

اسی طرح یہاں بھی فرمایا:

سَنَسِمُهُ عَلَى الْخُرْطُومِ (۱۶)

ہم بھی اس کی سونڈ(ناک) پر داغ دیں گے

اس کی ناک پر ہم داغ لگائیں گے یعنی اسے ہم اس قدر رسوا کریں گے کہ اس کی برائی کسی پر پوشیدہ نہ رہے ہر ایک اسے جان پہچان لے جیسے نشاندار ناک والے کو بہ یک نگاہ ہزاروں میں لوگ پہچان لیتے ہیں اور جو داغ چھپائے نہ چھپ سکے،

یہ بھی کہا گیا ہے کہ بدر والے دن اس کی ناک پر تلوار لگے گی

 اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ قیامت والے دن جہنم کی مہر لگے گی یعنی منہ کالا کر دیا جائے گا تو ناک سے مراد پورا چہرہ ہوا ۔

 امام ابو جعفر ابن جریر نے ان تمام اقوال کو وارد کر کے فرمایا ہے :

 ان سب میں تطبیق اس طرح ہو جاتی ہے کہ یہ کل امور اس میں جمع ہو جائیں یہ بھی ہو وہ بھی ہو، دنیا میں رسوا ہو سچ مچ ناک پر نشان لگے آخرت میں بھی نشاندار مجرم بنے

فی الواقع یہ بہت درست ہے،

ابن ابی حاتم میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے :

 بندہ ہزارہا برس تک اللہ کے ہاں مؤمن لکھا رہتا ہے لیکن مرتا اس حالت میں ہے کہ اللہ اس پر ناراض ہوتا ہے اور بندہ اللہ کے ہاں کافر ہزارہا سال تک لکھا رہتا ہے پھر مرتے وقت اللہ اس سے خوش ہو جاتا ہے

 جو شخص عیب گوئی اور چغل خوری کی حالت میں مرے جو لوگوں کو بدنام کرنے والا ہو قیامت کے دن اس کی ناک پر دونوں ہونٹوں کی طرف سے نشان لگا دیا جائے جو اس مجرم کی علامت بن جائے گا۔

اب ان کافروں کی جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو جھٹلا رہے تھے مثال بیان ہو رہی ہے کہ جس طرح یہ باغ والے تھے کہ اللہ کی نعمت کی ناشکری کی اور اللہ کے عذابوں میں اپنے آپ کو ڈل دیا، یہی حالت ان کافروں کی ہے کہ اللہ کی نعمت یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیغمبری کی ناشکری یعنی انکار نے انہیں بھی اللہ کی ناراضگی کا مستحق کر دیا ہے، تو فرماتا ہے :

إِنَّا بَلَوْنَاهُمْ كَمَا بَلَوْنَا أَصْحَابَ الْجَنَّةِ

بیشک ہم نے انہیں اسی طرح آزما لیا جس طرح ہم نے باغ والوں کو آزمایا تھا

ہم نے انہیں بھی آزما لیا جس طرح ہم نے باغ والوں کو آزمایا تھا جس باغ میں طرح طرح کے پھل میوے وغیرہ تھے،

إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِينَ (۱۷)

جبکہ انہوں نے قسمیں کھائیں کہ صبح ہوتے ہی اس باغ کے پھل اتار لیں گے۔‏

ان لوگوں نے آپس میں قسمیں کھائیں کہ صبح سے پہلے ہی پہلے رات کے وقت پھل اتار لیں گے تاکہ فقیروں مسکینوں اور سائلوں کو پتہ نہ چلے جو وہ آ کھڑے ہوں اور ہمیں ان کو بھی دینا پڑے بلکہ کل پھل اور میوے خود ہی لے آئیں گے،

وَلَا يَسْتَثْنُونَ (۱۸)

اور انشاء اللہ نہ کہا۔‏

اپنی اس تدبیر کی کامیابی پر انہیں غرور تھا اور اس خوشی میں پھولے ہوئے تھے یہاں تک کہ اللہ کو بھی بھول گئے انشاء اللہ تک کسی کی زبان سے نہ نکلا اس لئے ان کی یہ قسم پوری نہ ہوئی،

فَطَافَ عَلَيْهَا طَائِفٌ مِنْ رَبِّكَ وَهُمْ نَائِمُونَ (۱۹)

پس اس پر تیرے رب کی جانب سے ایک بلا چاروں طرف گھوم گئی اور یہ سو رہے تھے

فَأَصْبَحَتْ كَالصَّرِيمِ (۲۰)

پس وہ باغ ایسا ہوگیا جیسے کٹی ہوئی کھیتی

رات ہی رات میں ان کے پہنچنے سے پہلے آسمانی آفت نے سارے باغ کو جلا کر خاکستر کر دیا ایسا ہو گیا جیسے سیاہ رات اور کٹی ہوئی کھیتی،

 اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:

 لوگو گناہوں سے بچو گناہوں کی شامت کی وجہ سے انسان اس روزی سے بھی محروم کر دیا جاتا ہے جو اس کے لئے تیار کر دی گئی ہے

پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو آیتوں کی تلاوت کی کہ یہ لوگ بہ سبب اپنے گناہ کے اپنے باغ کے پھل اور اس کی پیداوار سے بےنصیب ہو گئے (ابن ابی حاتم)

فَتَنَادَوْا مُصْبِحِينَ (۲۱)

اب صبح ہوتے ہی انہوں نے ایک دوسرے کو آوازیں دیں۔‏

أَنِ اغْدُوا عَلَى حَرْثِكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَارِمِينَ (۲۲)

اگر تمہیں پھل اتارنے ہیں تو اپنی کھیتی پر سویرے ہی سویرے چل پڑو۔‏

صبح کے وقت یہ آپس میں ایک دوسرے کو آوازیں دینے لگے کہ اگر پھل اتارنے کا ارادہ ہے تو اب دیر نہ لگاؤ سویرے ہی چل پڑو،

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ باغ انگور کا تھا،

فَانْطَلَقُوا وَهُمْ يَتَخَافَتُونَ (۲۳)

پھر جب یہ چپکے چپکے یہ باتیں کرتے ہوئے چلے ‏

اب یہ چپکے چپکے باتیں کرتے ہوئے چلے تاکہ کوئی سن نہ لے اور غریب غرباء کو پتہ نہ لگ جائے،

أَنْ لَا يَدْخُلَنَّهَا الْيَوْمَ عَلَيْكُمْ مِسْكِينٌ (۲۴)

کہ آج کے دن کوئی مسکین تمہارے پاس نہ آنے پائے ‏

چونکہ ان کی سرگوشیاں اس اللہ سے تو پوشیدہ نہیں رہ سکتی تھیں جو دلی ارادوں سے بھی پوری طرح واقف رہتا ہے

وہ بیان فرماتا ہے کہ ان کی وہ خفیہ باتیں یہ تھیں کہ دیکھو ہوشیار رہو کوئی مسکین بھنک پا کر کہیں آج آ نہ جائے ہرگز کسی فقیر کو باغ میں گھسنے ہی نہ دینا

وَغَدَوْا عَلَى حَرْدٍ قَادِرِينَ (۲۵)

اور لپکے ہوئے صبح صبح گئے (سمجھ رہے تھے) کہ ہم قابو پا گئے

اب قوت و شدت کے ساتھ پختہ ارادے اور غریبوں پر غصے کے ساتھ اپنے باغ کو چلے، یہ جانتے تھے کہا اب ہم پھلوں پر قابض ہیں ابھی اتار کر سب لے آئیں گے، لیکن جب وہاں پہنچے تو ہکا بکا رہ گئے۔ کہ لہلہاتا ہوا ہرا بھرا باغ میوؤں سے لدے ہوئے درخت اور پکے ہوئے پھل سب غارت اور برباد ہو چکے ہیں سارے باغ میں آندھی پھر گئی ہے اور کل باغ میوؤں سمیت جل کر کوئلہ ہو گیا ہے، کوئی پھل نصف دام کا بھی نہیں رہا، ساری تروتازگی پژمردگی سے بدل گئی ہے، باغ سارا کا سارا جل کر راکھ ہو گیا ہے درختوں کے کالے کالے ڈراؤنے ٹنڈ کھڑے ہوئے ہیں،

فَلَمَّا رَأَوْهَا قَالُوا إِنَّا لَضَالُّونَ (۲۶)

جب انہوں نے باغ دیکھا تو کہنے لگے یقیناً ہم راستہ بھول گئے ہیں۔

پہلے تو سمجھے کہ ہم راہ بھول گئے کسی اور باغ میں چلے آئے

 اور یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ ہمارا طریقہ کار غلط تھا جس کا یہ نتیجہ ہے

بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ (۲۷)

نہیں نہیں ہماری قسمت پھوٹ گئی ‏

پھر بغور دیکھنے سے جب یقین ہو گیا کہ باغ تو یہ ہمارا ہی ہے تب سمجھ گئے اور کہنے لگے ہے تو یہی لیکن ہم بدقسمت ہیں، ہمارے نصیب میں ہی اس کا پھل اور فائدہ نہیں،

قَالَ أَوْسَطُهُمْ أَلَمْ أَقُلْ لَكُمْ لَوْلَا تُسَبِّحُونَ (۲۸)

ان سب میں جو بہتر تھا اس نے کہا میں تم سے نہ کہتا تھا کہ تم اللہ کی پاکیزگی کیوں نہیں بیان کرتے ‏

ان سب میں جو عدل و انصاف والا اور بھلائی اور بہتری والا تھا وہ بول پڑا کہ دیکھو میں تو پہلے ہی تم سے کہتا تھا کہ تم انشاء اللہ کیوں نہیں کہتے،

سدی فرماتے ہیں ان کے زمانہ میں سبحان اللہ کہنا بھی انشاء اللہ کہنے کے قائم مقام تھا،

 امام ابن جریر فرماتے ہیں اس کے معنی ہی انشاء اللہ کہنے کے ہیں

اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کے بہتر شخص نے ان سے کہا کہ دیکھو میں نے تو تمہیں پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ تم کیوں اللہ کی پاکیزگی اور اس کی حمد و ثناء نہیں کرتے؟

قَالُوا سُبْحَانَ رَبِّنَا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ (۲۹)

تو سب کہنے لگے ہمارا رب پاک ہے بیشک ہم ہی ظالم تھے۔

یہ سن کر اب وہ کہنے لگ ہمارا رب پاک ہے بیشک ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا

فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَتَلَاوَمُونَ (۳۰)

پھر ایک دوسرے کی طرف رخ کر کے آپس میں ملامت کرنے لگے۔‏

اب اطاعت بجا لائے جبکہ عذاب پہنچ چکا اب اپنی تقصیر کو مانا جب سزا دے دی گئی، اب تو ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے کہ ہم نے بہت ہی برا کیا کہ مسکینوں کا حق مارنا چاہا اور اللہ کی فرمانبرداری سے رک گئے،

قَالُوا يَا وَيْلَنَا إِنَّا كُنَّا طَاغِينَ (۳۱)

کہنے لگے ہائے افسوس! یقیناً ہم سرکش تھے۔‏

پھر سب نے کہا کہ کوئی شک نہیں ہماری سرکشی حد سے بڑھ گئی اسی وجہ سے اللہ کا عذاب آیا،

عَسَى رَبُّنَا أَنْ يُبْدِلَنَا خَيْرًا مِنْهَا إِنَّا إِلَى رَبِّنَا رَاغِبُونَ (۳۲)

کیا عجب ہے کہ ہمارا رب ہمیں اس سے بہتر بدلہ دے ہم تو اب اپنے رب سے ہی آرزو رکھتے ہیں‏

پھر کہتے ہیں شاید ہمارا رب ہمیں اس سے بہتر بدلہ دے یعنی دنیا میں

اور یہ بھی ممکن ہے کہ آخرت کے خیال سے انہوں نے یہ کہا ہو واللہ اعلم،

بعض سلف کا قول ہے کہ یہ واقعہ اہل یمن کا ہے،

حضرت سعید بن جیبر فرماتے ہیں یہ لوگ فروان کے رہنے والے تھے جو صنعاء سے چھ میل کے فاصلہ پر ایک بستی ہے

 اور مفسرین کہتے ہیں کہ یہ اہل حبشہ تھے:

 مذہباً اہل کتاب تھے یہ باغ انہیں ان کے باپ کے ورثے میں ملا تھا اس کا یہ دستور تھا کہ باغ کی پیداوار میں سے باغ کا خرچ نکال کر اپنے اور اپنے بال بچوں کے لئے سال بھر کا خرچ رکھ کر باقی نفع اللہ کے نام صدقہ کر دیتا تھا

 اس کے انتقال کے بعد ان بچوں نے آپس میں مشورہ کیا اور کہا کہ ہمارا باپ تو بیوقوف تھا جو اتنی بڑی رقم ہر سال ادھر ادھر دے دیتا تھا ہم ان فقیروں کو اگر نہ دیں اور اپنا مال باقاعدہ سنبھالیں تو بہت جلد دولت مند بن جائیں

 یہ ارادہ انہوں نے پختہ کر لیا تو ان پر وہ عذاب آیا جس نے اصل مال بھی تباہ کر دیا اور بالکل خالی ہاتھ رہ گئے،

كَذَلِكَ الْعَذَابُ ۖ

یوں ہی آفت آتی ہے

پھر فرماتا ہے جو شخص بھی اللہ کے حکموں کے خلاف کرے اور اللہ کی نعمتوں میں بخل کرے اور مسکینوں محتاجوں کا حق ادا نہ کرے اور اللہ کی نعمت کی ناشکری کرے اس پر اسی طرح کے عذاب نازل ہوتے ہیں

وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ (۳۳)

اور آخرت کی آفت بہت ہی بڑی ہے کاش انہیں سمجھ ہوتی

اور یہ تو دنیوی عذاب ہیں آخرت کے عذاب تو ابھی باقی ہیں جو سخت تر اور بدتر ہیں،

بیہقی کی ایک حدیث میں ہے:

 رسول اللہ نے رات کے وقت کھیتی کاٹنے اور باغ کے پھل اتارنے سے منع فرما دیا ہے۔

گنہگار اور نیکو کار دونوں کی جزاء کا مختلف ہونا لازم ہے

اوپر چونکہ دنیوی جنت والوں کا حال بیان ہوا تھا اور اللہ کی نافرمانی اور اس کے حکم کے کرنے سے ان پر جو بلا اور آفت آئی اس کا ذکر ہوا تھا اس لئے اب ان متقی پرہیزگار لوگوں کا حال ذکر کیا گیا

إِنَّ لِلْمُتَّقِينَ عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنَّاتِ النَّعِيمِ (۳۴)

پرہیزگاروں کے لئے ان کے رب کے پاس نعمتوں والی جنتیں ہیں۔‏

جنہیں آخرت میں جنتیں ملیں گی جن کی نعمتیں نہ فنا ہوں، نہ گھٹیں ، نہ ختم ہوں، نہ سڑیں، نہ گلیں،

أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِينَ كَالْمُجْرِمِينَ (۳۵)

کیا ہم مسلمانوں کو مثل گناہ گاروں کے کر دیں گے ‏

پھر فرماتا ہے کیا ہو سکتا ہے کہ مسلمان اور گنہگار جزا میں یکساں ہو جائیں؟

 قسم ہے زمین و آسمان کے رب کی کہ یہ نہیں ہو سکتا ،

مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ (۳۶)

تمہیں کیا ہوگیا، کیسے فیصلے کر رہے ہو؟‏

أَمْ لَكُمْ كِتَابٌ فِيهِ تَدْرُسُونَ (۳۷)

کیا تمہارے پاس کوئی کتاب ہے جس میں تم پڑھتے ہو؟‏

إِنَّ لَكُمْ فِيهِ لَمَا تَخَيَّرُونَ (۳۸)

کہ اس میں تمہاری من مانی باتیں ہوں۔‏

کیا تمہارے ہاتھوں میں اللہ کی طرف سے اتری ہوئی کوئی ایسی کتاب ہے جو خود تمہیں بھی محفوظ ہو اور گزشتہ لوگوں کے ہاتھوں تم پچھلوں تک پہنچتی ہو اور اس میں وہی ہو جو تمہاری چاہت ہے

أَمْ لَكُمْ أَيْمَانٌ عَلَيْنَا

یا تم نے ہم سے قسمیں لی ہیں؟

بَالِغَةٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۙ إِنَّ لَكُمْ لَمَا تَحْكُمُونَ (۳۹)

جو قیامت تک باقی رہیں کہ تمہارے لئے وہ سب ہے جو تم اپنی طرف سے مقرر کر لو ۔‏

اور تم کہہ رہے ہو کہ ہمارا کوئی مضبوط وعدہ اور عہد تم سے ہے کہ تم جو کہہ رہے ہو وہی ہو گا اور تمہاری بےجا اور غلط خواہشیں پوری ہو کر ہی رہیں گی؟

سَلْهُمْ أَيُّهُمْ بِذَلِكَ زَعِيمٌ (۴۰)

ان سے پوچھو تو کہ ان میں سے کون اس بات کا ذمہ دار (اور دعویدار) ہے ‏

أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ

کیا ان کے کوئی شریک ہیں؟

ان سے ذرا پوچھو تو کہ اس بات کا کون ضامن ہے اور کس کے ذمے یہ کفالت ہے؟

فَلْيَأْتُوا بِشُرَكَائِهِمْ إِنْ كَانُوا صَادِقِينَ (۴۱)

 تو چاہیے کہ اپنے اپنے شریکوں کو لے آئیں اگر یہ سچے ہیں۔ ‏

نہ سہی تمہارے جو جھوٹے معبود ہیں انہی کو اپنی سچائی کے ثبوت میں پیش کرو۔

اوپر چونکہ بیان ہوا تھا کہ پرہیزگار لوگوں کے لئے نعمتوں والی جنتیں ہیں اسلئے یہاں بیان ہو رہا ہے کہ یہ جنتیں انہیں کب ملیں گی؟

تو فرمایا کہ

يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَيُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ (۴۲)

جس دن پنڈلی کھول دی جائے گی اور سجدے کے لئے بلائے جائیں گے تو (سجدہ) نہ کر سکیں گے ‏

اس دن جس دن پنڈلی کھول دی جائے گی۔ یعنی قیامت کے دن جو دن بڑی ہولناکیوں والا زلزلوں والا امتحان والا اور آزمائش والا اور بڑے بڑے اہم امور کے ظاہر ہونے کا دن ہو گا ۔

صحیح بخاری شریف میں اس جگہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ حدیث ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرماتے تھے:

 ہمارا رب اپنی پنڈلی کھول دے گا پس ہر مؤمن مرد اور ہر مؤمنہ عورت سجدے میں گر پڑے گی ہاں دنیا میں جو لوگ دکھاوے سناوے کے لئے سجدہ کرتے تھے وہ بھی سجدہ کرنا چاہیں گے لیکن ان کی کمر تختہ کی طرف ہو جائے گی، یعنی ان سے سجدے کے لئے جھکا نہ جائے گا،

یہ حدیث بخاری مسلم دونوں میں ہے اور دوسری کتابوں میں بھی ہے کئی کئی سندوں سے الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ مروی ہے اور یہ حدیث مطول ہے اور مشہور ہے،

حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یہ دن تکلیف دکھ درد اور شدت کا دن ہے (ابن جریر)

حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں :

قیامت کے دن کی یہ گھڑی بہت سخت ہو گی،

یہ امر بہت سخت بڑی گھبراہٹ والا اور ہولناک ہے،

جس وقت امر کھول دیا جائے گا اعمال ظاہر ہو جائیں گے اور یہ کھلنا آخرت کا آ جانا ہے اور اس سے کام کا کھل جانا ہے،

یہ سب روایتیں ابن جریر میں ہیں،

خَاشِعَةً أَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ ۖ

نگاہیں نیچی ہوں گی ان پر ذلت و خواری چھا رہی ہوگی

پھر فرمایا جس دن ان لوگوں کی آنکھیں اوپر کو نہ اٹھیں گی اور ذلیل و پست ہو جائیں گے کیونکہ دنیا میں بڑے سرکش اور کبر و غرور والے تھے،

وَقَدْ كَانُوا يُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ وَهُمْ سَالِمُونَ (۴۳)

حالانکہ یہ سجدے کے لئے (اس وقت بھی) بلائے جاتے تھے جبکہ صحیح سلامت تھے ‏

صحت اور سلامتی کی حالت میں دنیا میں جب انہیں سجدے کے لئے بلایا جاتا تھا تو رک جاتا تھے جس کی سزا یہ ملی کہ آج سجدہ کرنا چاہتے ہیں لیکن نہیں کر سکتے پہلے کر سکتے تھے لیکن نہیں کرتے تھے،

اللہ تعالیٰ کی تجلی دیکھ کر مومن سب سجدے میں گر پڑیں گے لیکن کافر و منافق سجدہ نہ کر سکیں گے کمر تختہ ہو جائے گی جھکے گی ہی نہیں بلکہ پیٹھ کے بل چت گر پڑیں گے، یہاں بھی ان کی حالت مؤمنوں کے خلاف تھی وہاں بھی خلاف ہی رہے گی۔

فَذَرْنِي وَمَنْ يُكَذِّبُ بِهَذَا الْحَدِيثِ ۖ سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُونَ (۴۴)

پس مجھے اور اس کلام کو جھٹلانے والے کو چھوڑ دےہم انہیں اس طرح آہستہ آہستہ کھینچیں گے کہ انہیں معلوم بھی نہ ہوگا ‏

پھر فرمایا مجھے اور میری اس حدیث یعنی قرآن کو جھٹلانے والوں کو تو چھوڑ دے،

 اس میں بڑی وعید ہے اور سخت ڈانٹ ہے کہ تو ٹھہر جا میں آپ ان سے نپٹ لوں گا دیکھ تو سہی کہ کس طرح بتدریج انہیں پکڑتا ہوں یہ اپنی سرکشی اور غرور میں پڑتے جائیں گے میری ڈھیل کے راز کو نہ سمجھیں گے اور پھر ایک دم یہ پاپ کا گھڑا پھوٹے گا اور میں اچانک انہیں پکڑ لوں گا۔

میں انہیں بڑھاتا رہوں گا یہ بدمست ہوتے چلے جائیں گے وہ اسے کرامت سمجھیں گے حالانکہ وہ اہانت ہو گی،

جیسے اور جگہ ہے:

أَيَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مَالٍ وَبَنِينَ نُسَارِعُ لَهُمْ فِي الْخَيْرَاتِ ۚ بَلْ لَا يَشْعُرُونَ  (۲۳:۵۵،۵۶)

یعنی کیا ان کا گمان ہے کہ مال و اولاد کا بڑھنا ان کے لئے ہماری جانب سے کسی بھلائی کی بنا پر ہے، نہیں بلکہ یہ بےشعور ہیں

اور جگہ فرمایا :

فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُمْ بَغْتَةً فَإِذَا هُمْ مُبْلِسُونَ  (۶:۴۴)

جب یہ ہمارے وعظ و پند کو بھلا چکے تو ہم نے ان پر تمام چیزوں کے دروازے کھول دیئے یہاں تک کہ انہیں جو دیا گیا تھا اس پر اترانے لگے تو ہم نے انہیں ناگہانی پکڑ لیا اور ان کی امیدیں منقطع ہو گئیں۔

یہاں بھی ارشاد ہوتا ہے

وَأُمْلِي لَهُمْ ۚ

اور میں انہیں ڈھیل دونگا،

میں انہیں ڈھیل دوں گا، بڑھاؤں گا اور اونچا کروں گا

إِنَّ كَيْدِي مَتِينٌ (۴۵)

بیشک میری تدبیر بڑی مضبوط ہے۔‏

یہ میرا داؤ ہے اور میری تدبیر میرے مخالفوں اور میرے نافرمانوں کے ساتھ بہت بڑی ہے۔

 بخاری مسلم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

اللہ تعالیٰ ظالم کو مہلت دیتا ہے پھر جب پکڑتا ہے تو چھوڑتا نہیں

پھر آپ نے یہ آیت پڑھی:

وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَى وَهِيَ ظَالِمَةٌ ۚ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِيمٌ شَدِيدٌ  (۱۱:۱۰۲)

تیرے پروردگار کی پکڑ کا یہی طریقہ ہے جب کہ وہ بستیوں کے رہنے والے ظالموں کو پکڑتا ہے بیشک اس کی پکڑ دکھ دینے والی اور نہایت سخت ہے۔‏

أَمْ تَسْأَلُهُمْ أَجْرًا فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ (۴۶)

کیا تو ان سے کوئی اجرت چاہتا ہے جس کے تاوان سے یہ دبے جاتے ہوں ‏

پھر فرمایا تو کچھ ان سے اجرت اور بدلہ تو مانگتا ہی نہیں جو ان پر بھاری پڑتا ہو جس تاوان سے یہ جھکے جاتے ہوں،

أَمْ عِنْدَهُمُ الْغَيْبُ فَهُمْ يَكْتُبُونَ (۴۷)

یا کیا ان کے پاس علم غیب ہے جسے وہ لکھتے ہوں۔ ‏

نہ ان کے پاس کوئی علم غیب ہے جسے یہ لکھ رہے ہوں۔

ان دونوں جملوں کی تفسیر سورہ والطور میں گذر چکی ہے

 خلاصہ مطلب یہ ہے :

 اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ انہیں اللہ عزوجل کی طرف بغیر اجرت اور بغیر مال طلبی کے اور بغیر بدلے کی چاہت کے بلا رہے ہیں آپ کی غرض سوائے ثواب حاصل کرنے کے اور کوئی نہیں اس پر بھی یہ لوگ صرف اپنی جہالت اور کفر اور سرکشی کی وجہ سے آپکو جھٹلا رہے ہیں

فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ

بس تو اپنے رب کے حکم کا صبر سے انتظار کر

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کی ایذاء پر اور ان کے جھٹلانے پر صبر و ضبط کرو عنقریب اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہونے والا ہے، انجام کار آپ کا اور آپ کے ماتحتوں کا ہی غلبہ ہو گا دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی دیکھو

وَلَا تَكُنْ كَصَاحِبِ الْحُوتِ إِذْ نَادَى وَهُوَ مَكْظُومٌ (۴۸)

اور مچھلی والے کی طرح نہ ہو جا جب کہ اس نے غم کی حالت میں دعا کی

تم مچھلی والے نبی کی طرح نہ ہونا اس سے مراد حضرت یونس بن متی علیہ السلام ہیں جبکہ وہ اپنی قوم پر غضب ناک ہو کر نکل کھڑے ہوئے پھر جو ہوا سو ہوا، یعنی آپ کا جہاز میں سوار ہونا مچھلی کا آپ کو نگل جانا اور سمندر کی تہہ میں بیٹھ جانا اور ان تہہ بہ تہہ اندھیروں میں اس قدر نیچے آپ کا سمندر کو اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی بیان کرتے ہوئے سننا اور خود آپ کا بھی پکارنا

أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ

الٰہی تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے بیشک میں ظالموں میں ہوگیا

اور  پھر آپ کی دعا کا قبول ہونا اس غم سے نجات پانا وغیرہ جس واقعہ کا مفصل بیان پہلے گزر چکا ہے ۔ جس کے بیان کے بعد اللہ سبحان و تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَكَذَلِكَ نُنْجِي الْمُؤْمِنِينَ  (۲۱۸۸)

ہم اسی طرح ایمانداروں کو نجات دیا کرتے ہیں

فَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ لَلَبِثَ فِي بَطْنِهِ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ  (۳۷:۱۴۳،۱۴۴)

پس اگر یہ پاکی بیان کرنے والوں میں سے نہ ہوتےتو لوگوں کے اٹھائے جانے کے دن تک اس کے پیٹ میں ہی رہتے‏

یہاں بھی فرمان ہے کہ إِذْ نَادَى وَهُوَ مَكْظُومٌ جب اس نے غم اور دکھ کی حالت میں ہمیں پکارا،

لَوْلَا أَنْ تَدَارَكَهُ نِعْمَةٌ مِنْ رَبِّهِ لَنُبِذَ بِالْعَرَاءِ وَهُوَ مَذْمُومٌ (۴۹)

اگر اسے اس کے رب کی نعمت نہ پالیتی تو یقیناً وہ برے حالوں میں چٹیل میدان میں ڈال دیا جاتا ۔‏

پہلے بیان ہو چکا ہے کہ یونس علیہ السلام کی زبان سے نکلتے ہی یہ کلمہ عرش پر پہنچا، فرشتوں نے کہا یا رب اس کمزور غیر معروف شخص کی آواز تو ایسی معلوم ہوتی ہے جیسے پہلے کی سنی ہوئی ہو۔

 اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا کیا تم نے اسے پہچانا نہیں؟

فرشتوں نے عرض کیا نہیں،

جناب باری نے فرمایا یہ میرے بندے یونس کی آواز ہے

فرشتوں نے کہا پروردگار پھر تو تیرا یہ بندہ وہ ہے جس کے اعمال صالحہ روز آسمانوں پر چڑھتے رہے جس کی دعائیں ہر وقت قبولیت کا درجہ پاتی رہیں،

 اللہ تعالیٰ نے فرمایا سچ ہے،

 فرشتوں نے کہا اے ارحم الراحمین ان کی آسانیوں کے وقت کے نیک اعمال کی بنا پر انہیں اس سختی سے نجات عطا فرما،

چنانچہ فرمان باری ہوا کہ اے مچھلی تو انہیں اگل دے اور مچھلی نے انہیں کنارے پر آ کر اگل دیا،

یہاں بھی یہی بیان ہو رہا ہے کہ

فَاجْتَبَاهُ رَبُّهُ فَجَعَلَهُ مِنَ الصَّالِحِينَ (۵۰)

اس کے رب نے پھر نوازا اور اسے نیک کاروں میں کر دیا ‏

اللہ نے اسے پھر برگزیدہ بنا لیا اور نیک کاروں میں کر دیا،

مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 کسی کو لائق نہیں کہ وہ اپنے آپ کو حضرت یونس بن متی سے افضل بتائے ۔

بخاری و مسلم میں بھی یہ حدیث ہے،

وَإِنْ يَكَادُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَيُزْلِقُونَكَ بِأَبْصَارِهِمْ

اور قریب ہے کہ کافر اپنی تیز نگاہوں سے آپ کو پھسلا دیں

اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ تیرے بغض و حسد کی وجہ سے یہ کفار تو اپنی آنکھوں سے گھور گھور کر تجھے پھسلا دینا چاہتے ہیں اگر اللہ کی طرف سے حمایت اور بچاؤ نہ ہوتا تو یقیناً یہ ایسا کر گزرتے،

اس آیت میں دلیل ہے اس امر پر کہ نظر کا لگنا اور اس کی تاثیر کا اللہ کے حکم سے ہونا حق ہے جیسا کہ بہت سی احادیث میں بھی ہے جو کئی کئی سندوں سے مروی ہے،

 نظر بد اور بد شگونی

ابو داؤد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 دم جھاڑا صرف نظر کا اور زہریلے جانوروں کا اور نہ تھمنے والے خون کا ہے،

بعض سندوں میں نظر کا لفظ نہیں یہ حدیث ابن ماجہ میں بھی ہے اور صحیح مسلم شریف میں بھی ایک قصہ کے ساتھ موقوفاً مروی ہے، بخاری شریف اور ترمذی میں بھی ہے،

ایک غریب حدیث ابویعلی میں ہے:

 نظر میں کچھ بھی حق نہیں سب سے سچا شگون فال ہے،

یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور امام ترمذی اسے غریب کہتے ہیں

 اور روایت میں ہے: کوئی ڈر، خوف، الو اور نظر نہیں اور نیک فالی سب سے زیادہ سچا فال ہے

 اور روایات میں ہے :

 نظر حق ہے، نظر حق ہے، وہ بلندی والے کو بھی اتار دیتی ہے (مسند احمد)

چند مفید عملیات

صحیح مسلم میں ہے:

 نظر حق ہے اگر کوئی چیز تقدیر سے سبقت کرنے والی ہوتی تو نظر کر جاتی جب تم سے غسل کرایا جائے تو غسل کر لیا کرو،

عبدالرزاق میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو  ان الفاظ کے ساتھ پناہ میں دیتے:

اعیذ کما بکلمات اللہ التامتہ من کل شیطان

وھامتہ  ومن کل عین لامتہ

تم دونوں کو اللہ تعالیٰ کے بھرپور کلمات کی پناہ میں سونپتا ہوں ہر شیطان سے

 اور ہر ایک زہریلے جانور سے اور ہر ایک لگ جانے والی نظر سے

اور فرماتے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی حضرت اسحاق اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کو انہی الفاظ سے اللہ کی پناہ دیا کرتے تھے،

یہ حدیث سنن میں اور بخاری شریف میں بھی ہے،

 ابن ماجہ میں ہے:

 سہل بن حنیف غسل کر رہے تھے عامر بن ربیعہ کہنے لگے میں نے تو آج تک ایسا بدن کسی پردہ نشین کا بھی نہیں دیکھا

بس ذرا سی دیر میں وہ بیہوش ہو کر گر پڑے

لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی خبر لیجئے یہ تو بیہوش ہوگئے

آپ نے فرمایا کسی پر تمہارا شک بھی ہے

 لوگوں نے کا کہاں عامر بن ربیعہ پر،

 آپؐ نے فرمایا:

 تم میں سے کیوں کوئی اپنے بھائی کو قتل کرتا ہے جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کی کسی ایسی چیز کو دیکھے کہ اسے بہت اچھی لگے تو اسے چاہئے کہ اس کے لئے برکت کی دعا کرے

پھر پانی منگوا کر عامر سے فرمایا :

تم وضو کرو منہ اور کہنیوں تک ہاتھ اور گھٹنے اور تہمد کے اندر کا حصہ جسم دھو ڈالو۔

 دوسری روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا:

 برتن کو اس کی پیٹھ کے پیچھے سے اوندھا دو،

 نسائی میں بھی یہ روایت موجود ہے،

حضرت ابو سعید فرماتے ہیں:

 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جنات کی اور انسانوں کی نظر بد سے پناہ مانگا کرتے تھے، جب سورہ معوذتیں نازل ہوئیں تو آپ نے انہیں لے لیا اور سب کو چھوڑ دیا  (ابن ماجہ ترمذی نسائی)

مسند میں ہے :

 حضرت جبرائیل علیہ السلام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا اے نبی صاحب صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ بیمار ہیں؟

 آپ نے فرمایا ہاں تو جبرائیل علیہ السلام نے کہا

بسم اللہ ارقیک من کل شئی یوذیک من شر کل نفس

 وعین واللہ یشفیک بسم اللہ ارقیک

بعض روایات میں کچھ الفاظ کا ہیر پھیر بھی ہے،

بخاری مسلم کی حدیث میں ہے: یقیناً نظر کا لگ جانا برحق ہے،

مسند کی ایک حدیث میں اس کے بعد یوں بھی ہے: اس کا سبب شیطان ہے اور ابن آدم کا حسد ہے،

مسند کی اور روایت میں ہے:

 حضرت ابوہریرہؓ سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا تم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ شگون تین چیزوں میں ہے گھر گھوڑا اور عورت

حضرت ابوہریرہ نے فرمایا پھر تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وہ کہوں گا جو آپ نے نہیں فرمایا ہاں میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ تو سنا ہے کہ آپ نے فرمایا :

سب سے سچا شگون نیک فالی ہے اور نظر کا لگنا حق ہے،

 ترمذی وغیرہ میں ہے:

 حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بچوں کو نظر لگ جایا کرتی ہے تو کیا میں کچھ دم کرا لیا کروں

آپؐ نے فرمایا :

ہاں اگر کوئی چیز تقدیر سے سبقت کر جانے والی ہوتی تو وہ نظر تھی،

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نظر بد سے دم کرنے کا حکم مروی ہے (ابن ماجہ)

 حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں:

 نظر لگانے والے کو حکم کیا جاتا تھا کہ وہ وضو کرے اور جس کو نظر لگی ہے اسے اس پانی سے غسل کرایا جاتا تھا (احمد)

مسند احمد میں بھی حضرت سہل اور حضرت عامر والا قصہ جو اوپر بیان ہوا قدرے تفصیل کے ساتھ مروی ہے،

بعض روایات میں یہ بھی ہے:

 یہ دونوں بزرگ غسل کے ارادے سے چلے اور حضرت عامر پانی میں غسل کے لئے اترے اور ان کا بدن دیکھ کر حضرت سہل کی نظر لگ گئی اور وہ وہیں پانی میں خرخراہٹ کرنے لگے میں نے تین مرتبہ آوازیں دیں لیکن جواب نہ ملا میں

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور واقعہ سنایا

آپ خود تشریف لائے اور تھوڑے سے پانی میں کھچ کھچ کرتے ہوئے تہمد اونچا اٹھائے ہوئے وہاں تک پہنچے اور ان کے سینے میں ہاتھ مارا اور دعا کی

اللھم اصرف عنہ حشرھا و بردھا و وصبھا

اے اللہ تو اس سے اس کی گرمی اور سردی اور تکلیف دور کر دے

 مسند بزار میں ہےآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 میری امت کی قضاء و قدر کے بعد اکثر موت نظر سے ہو گی،

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

نظر حق ہے انسان کو قبر تک پہنچا دیتی ہے اور اونٹ کو ہنڈیا تک میری اُمت کی اکثر ہلاکی اسی میں ہے،

فرمان رسالت ہے:

 ایک کی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی اور نہ الو کی وجہ سے بربادی کا یقین کر لینا کوئی واقعیت رکھتا ہے اور نہ حسد کوئی چیز ہے، ہاں نظر سچ ہے،

 ابن عساکر میں ہے :

 جبرائیل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے آپ اس وقت غمزدہ تھے جب پوچھا تو فرمایا حسنؓ اور حسینؓ کو نظر لگ گئی ہے ،

 فرمایا یہ سچائی کے قابل چیز ہے نظر واقعی لگتی ہے، آپ نے یہ کلمات پڑھ کر انہیں پناہ میں کیوں نہ دیا؟

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا وہ کلمات کیا ہیں؟

فرمایا یوں کہو

اللھم ذا السلطان العظیم ذا المن القدیم ذا الوجہ الکریم ولی الکلمات التامات والدعوت المستجابات

 عاف الحسن والحسین من انفس الجن واعین الانس

اے اللہ اے بہت بڑی بادشاہی والے اے زبردست قدیم احسانوں والے، اے بزرگ تر چہرے والے اے پورے کلموں والے اور اے دعاؤں کو قبولیت کا درجہ دینے والے

تو حسن اور حسین کو تمام جنات کی ہواؤں سے اور تمام انسان کی آنکھوں سے اپنی پناہ دے،

حضور ﷺ نے یہ دعا پڑھی وہیں دونوں بچے اٹھ کھڑے ہوئے اور آپ کے سامنے کھیلنے کودنے لگے تو حضور علیہ السلام نے فرمایا:

 لوگو اپنی جانوں کو اپنی بیویوں کو اور اپنی اولاد کو اسی پناہ کے ساتھ پناہ دیا کرو، اس جیسی اور کوئی پناہ کی دعا نہیں ۔

لَمَّا سَمِعُوا الذِّكْرَ وَيَقُولُونَ إِنَّهُ لَمَجْنُونٌ (۵۱)

جب کبھی قرآن سنتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں یہ تو ضرور دیوانہ ہے ‏

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جہاں یہ کافر اپنی حقارت بھری نظریں آپ پر ڈالتے ہیں وہاں اپنی طعنہ آمیز زبان بھی آپ پر کھولتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو قرآن لانے میں مجنون ہیں ،

 اللہ تعالیٰ ان کے جواب میں فرماتا ہے

وَمَا هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِلْعَالَمِينَ (۵۲)

در حقیقت یہ (قرآن) تو تمام جہان والوں کے لئے سراسر نصیحت ہے ‏

قرآن تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمام عالم کے لئے نصیحت نامہ ہے ۔

***********

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter