Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Dukhan

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi


For Better Viewing Download Arabic / Urdu Fonts

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


حم  

حم  (۱)

وَالْكِتَابِ الْمُبِينِ  

قسم ہے اس وضاحت والی کتاب کی۔(۲) ‏

إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ ۚ

یقیناً ہم نے اسے بابرکت رات میں اتارا ہے

اللہ تبارک وتعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اس عظیم الشان قرآن کریم کو بابرکت رات یعنی لیلۃ القدر میں نازل فرمایا ہے ۔

 جیسے ارشاد ہے:

إِنَّا أَنزَلْنَـهُ فِى لَيْلَةِ الْقَدْرِ 

ہم نے اسے لیلۃ القدر میں نازل فرمایا ہے۔(۹۷:۱)

 اور یہ رات رمضان المبارک میں ہے ۔

 جیسے اور آیت میں ہے:

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِى أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ 

رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا ۔(۲:۱۸۵)

سورہ بقرہ میں اس کی پوری تفسیر گزر چکی ہے اس لئے یہاں دوبارہ نہیں لکھتے

بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ لیلہ مبارکہ جس میں قرآن شریف نازل  ہوا وہ شعبان کی پندرہویں رات ہے

یہ قول سراسر بےدلیل ہے ۔ اس لئے کہ نص قرآن سے قرآن کا رمضان میں نازل ہونا ثابت ہے ۔

 اور جس حدیث میں مروی ہے کہ شعبان میں اگلے شعبان تک کے تمام کام مقرر کر دئیے جاتے ہیں یہاں تک کہ نکاح کا اور اولاد کا اور میت کا ہونا بھی وہ حدیث مرسل ہے اور ایسی احادیث سے نص قرآنی کا معارضہ نہیں کیا جا سکتا

إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ  

بیشک ہم ڈرانے والے ہیں‏(۳)

ہم لوگوں کو آگاہ کر دینے والے ہیں یعنی انہیں خیر و شر نیکی بدی معلوم کرا دینے والے ہیں تاکہ مخلوق پر حجت ثابت ہو جائے اور لوگ علم شرعی حاصل کر لیں

فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ  

اسی رات میں ہر ایک مضبوط کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے‏(۴)

اسی شب ہر محکم کام طے کیا جاتا ہے یعنی لوح محفوظ سے کاتب فرشتوں کے حوالے کیا جاتا ہے تمام سال کے کل اہم کام عمر روزی وغیرہ سب طے کر لی جاتی ہے ۔

حَكِيم  کے معنی محکم اور مضبوط کے ہیں جو بدلے نہیں

أَمْرًا مِنْ عِنْدِنَا ۚ

ہمارے پاس سے حکم ہو کر

وہ سب ہمارے حکم سے ہوتا ہے

إِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَ  

 ہم ہی ہیں رسول بنا کر بھیجنے والے۔‏(۵)

ہم رسل کے ارسال کرنے والے ہیں تاکہ وہ اللہ کی آیتیں اللہ کے بندوں کو پڑھ سنائیں جس کی انہیں سخت ضرورت اور پوری حاجت ہے

رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ  

آپ کے رب کی مہربانی سے وہی سننے والا جاننے والا۔‏(۶)

رَبِّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۖ إِنْ كُنْتُمْ مُوقِنِينَ  

جو رب ہے آسمانوں کا اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، اگر تم یقین کرنے والے ہو۔‏(۷)

یہ تیرے رب کی رحمت ہے اس رحمت کا کرنے والا قرآن کو اتارنے والا اور رسولوں کو بھیجنے والا وہ اللہ ہے جو آسمان زمین اور کل چیز کا مالک ہے اور سب کا خالق ہے ۔ تم اگر یقین کرنے والے ہو تو اس کے باور کرنے کے کافی وجوہ موجود ہیں

لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ رَبُّكُمْ وَرَبُّ آبَائِكُمُ الْأَوَّلِينَ  

کوئی معبود نہیں اس کے سوا وہی جلاتا ہے اور مارتا ہے، وہی تمہارا رب ہے اور تمہارے اگلے باپ دادوں کا۔‏(۸)

پھر ارشاد ہوا کہ معبود برحق بھی صرف وہی ہے اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہر ایک کی موت زیست اسی کے ہاتھ ہے تمہارا اور تم سے اگلوں کا سب کا پالنے پوسنے والا وہی ہے

 اس آیت کا مضمون اس آیت جیسا ہے:

قُلْ يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّى رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِى لَهُ مُلْكُ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ لا إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ يُحْىِ وَيُمِيتُ 

یعنی تو اعلان کر دے کہ اے لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں وہ اللہ جس کی بادشاہت ہے آسمان و زمین کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو جلاتا اور مارتا ہے ۔(۷:۱۵۸)

بَلْ هُمْ فِي شَكٍّ يَلْعَبُونَ  

بلکہ وہ شک میں پڑے کھیل رہے ہیں ۔‏(۹)

فرماتا ہے کہ حق آچکا اور یہ شک شبہ میں اور لہو لعب میں مشغول و مصروف ہیں

فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ  

آپ اس دن کے منتظر رہیں جب کہ آسمان ظاہر دھواں لائے گا (۱۰)

انہیں اس دن سے آگاہ کر دے جس دن آسمان سے سخت دھواں آئے گا

حضرت مسروق فرماتے ہیں کہ ہم ایک مرتبہ کوفے کی مسجد میں گئے جو کندہ کے دروازوں کے پاس ہے تو دیکھا کہ ایک حضرت اپنے ساتھیوں میں قصہ گوئی کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس آیت میں جس دھوئیں کا ذکر ہے اس سے مراد وہ دھواں ہے جو قیامت کے دن منافقوں کے کانوں اور آنکھوں میں بھر جائے گا اور مؤمنوں کو مثل زکام کے ہو جائے گا ۔ ہم وہاں سے جب واپس لوٹے اور حضرت ابن مسعودؓ سے اس کا ذکر کیا تو آپ لیٹے لیٹے بےتابی کے ساتھ بیٹھ گئے اور فرمانے لگے اللہ عزوجل نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ہے میں تم سے اس پر کوئی بدلہ نہیں چاہتا اور میں تکلف کرنے والوں میں نہیں ہوں ۔ یہ بھی علم ہے کہ انسان جس چیز کو نہ جانتا ہو کہہ دے کہ اللہ جانے سنو میں تمہیں اس آیت کا صحیح مطلب سناؤں :

جب کہ قریشیوں نے اسلام قبول کرنے میں تاخیر کی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ستانے لگے تو آپ نے ان پر بددعا کی کہ یوسف کے زمانے جیسا قحط ان پر آپڑے ۔ چنانچہ وہ دعا قبول ہوئی اور ایسی خشک سالی آئی کہ انہوں نے ہڈیاں اور مردار چبانا شروع کیا۔ اور آسمان کی طرف نگاہیں ڈالتے تھے تو دھویں کے سوا کچھ دکھائی نہ دیتا تھا ۔

 ایک روایت میں ہے کہ بوجہ بھوک کے ان کی آنکھوں میں چکر آنے لگے جب آسمان کی طرف نظر اٹھاتے تو درمیان میں ایک دھواں نظر آتا۔ اسی کا بیان ان دو آیتوں میں ہے ۔

 لیکن پھر اس کے بعد لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی ہلاکت کی شکایت کی ۔ آپ کو رحم آگیا اور آپ نے جناب باری تعالیٰ میں التجا کی چنانچہ بارش برسی اسی کا بیان اس کے بعد والی آیت میں ہے کہ عذاب کے ہٹتے ہی پھر کفر کرنے لگیں گے ۔ اس سے صاف ثابت ہے کہ یہ دنیا کا عذاب ہے کیونکہ آخرت کے عذاب تو ہٹتے کھلتے اور دور ہوتے نہیں ۔

حضرت ابن مسعودؓ کا قول ہے کہ پانچ چیزیں گزر چکیں ۔

- دخان ،

-  روم،

- قمر،

- بطشہ،

- اور لزام یعنی آسمان سے دھوئیں کا آنا۔ بخاری، مسلم

 رومیوں کا اپنی شکست کے بعد غلبہ پانا ۔ چاند کے دو ٹکڑے ہونا بدر کی لڑائی میں کفار کا پکڑا جانا اور ہارنا ۔ اور چمٹ جانے والا عذاب

بڑی سخت پکڑ سے مراد بدر کے دن لڑائی ہے

 حضرت ابن مسعودؓ،جو مراد دھویں ے لیتے ہیں یہی قول مجاہدؓ، ابو العالیہؓ، ابراہیم  نخعیؓ ، ضحاکؒ ، عطیہؒ، عوفیؒ ، کا ہے اور اسی کو ابن جریر ؒبھی ترجیح دیتے ہیں ۔

 عبدالرحمٰن اعرج سے مروی ہے کہ یہ فتح مکہ کے دن ہوا ۔ یہ قول بالکل غریب بلکہ منکر ہے اور بعض حضرات فرماتے ہیں یہ گزر نہیں گیا بلکہ قرب قیامت کے آئے گا ۔

 پہلے حدیث گزر چکی ہے کہ صحابہ قیامت کا ذکر کر رہے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم آگئے۔ تو آپ نے فرمایا جب تک دس نشانات تم نہ دیکھ لو قیامت نہیں آئے گی

- سورج کا مغرب سے نکلنا ،

-  دھواں ،

-  یاجوج ماجوج کا آنا،

- حضرت عیسیٰ بن مریم کا آنا،

-  دجال کا آنا

-  مشرق مغرب اور جزیرۃ العرب میں زمین کا دھنسایا جانا،

-  آگ کا عدن سے نکل کر لوگوں کو ہانک کر ایک جا کرنا ۔ جہاں یہ رات گزاریں گے آگ بھی گزارے گی اور جہاں یہ دوپہر کو سوئیں گے آگ بھی قیلولہ کرے گی ۔ (مسلم )

بخاری و مسلم میں ہے:

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن صیاد کے لئے دل میں آیت فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ  چھپا کر اس سے پوچھا کہ بتا میں نے اپنے دل میں کیا چھپا رکھا ہے ؟ اس نے کہا  دخ  

آپ ؐنے فرمایا :

بس برباد ہو اس سے آگے تیری نہیں چلنے کی ۔

 اس میں بھی ایک قسم کا اشارہ ہے کہ ابھی اس کا انتظار باقی ہے اور یہ کوئی آنے والی چیز ہے چونکہ ابن صیاد بطور کاہنوں کے بعض باتیں دل کی زبان سے بتانے کا مدعی تھا اس کے جھوٹ کو ظاہر کرنے کے لئے آپ نے یہ کیا اور جب وہ پورا نہ بتا سکا تو آپ نے لوگوں کو اس کی حالت سے واقف کر دیا کہ اس کے ساتھ شیطان ہے کلام صرف چرا لیتا ہے اور یہ اس سے زیادہ پر قدرت نہیں پانے کا ۔

 ابن جریر میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 قیامت کے اولین نشانیاں یہ ہیں ۔

دجال کا آنا

اور عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کا نازل ہونا

اور آگ کا بیچ عدن سے نکلنا جو لوگوں کو محشر کی طرف لے جائے گی قیلولے کے وقت اور رات کی نیند کے وقت بھی ان کے ساتھ رہے گی

اور دھویں کا آنا ۔

 حضرت حذیفہؓ نے سوال کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم دھواں کیسا ؟

 آپ ﷺنے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا یہ دھواں چالیس دن تک گھٹا رہے گا جس سے مسلمانوں کو تو مثل نزلے کے ہو جائے گا اور کافر بےہوش وبدمست ہو جائے گا اس کے نتھنوں سے کانوں سے اور دوسری جگہ سے دھواں نکلتا رہے گا ۔

یہ حدیث اگر صحیح ہوتی تو پھر دخان کے معنی مقرر ہو جانے میں کوئی بات باقی نہ رہتی ۔ لیکن اس کی صحت کی گواہی نہیں دی جا سکتی اس کے راوی رواد سے محمد بن خلف عسقلانی نے سوال کیا کہ کیا سفیان ثوری سے تو نے خود یہ حدیث سنی ہے ؟ اس نے انکار کیا پوچھا کیا تو نے پڑھی اور اس نے سنی ہے ؟ کہا نہیں ۔ پوچھا اچھا تمہاری موجودگی میں اس کے سامنے یہ حدیث پڑھی گئی ؟ کہا نہیں کہا پھر تم اس حدیث کو کیسے بیان کرتے ہو ؟ کہا میں نے تو بیان نہیں کی میرے پاس کچھ لوگ آئے اس روایت کو پیش کی پھر جا کر میرے نام سے اسے بیان کرنی شروع کر دی بات بھی یہی ہے یہ حدیث بالکل موضوع ہے ابن جریر اسے کئی جگہ لائے ہیں اور اس میں بہت سی منکرات ہیں خصوصًا مسجد اقصیٰ کے بیان میں جو سورہ بنی اسرائیل کے شروع میں ہے واللہ اعلم ۔

 اور حدیث میں ہے:

تمہارے رب نے تمہیں تین چیزوں سے ڈرایا ،

دھواں جو مؤمن کو زکام کر دے گا

اور کافر کا تو سارا جسم پھلا دے گا ۔ روئیں روئیں سے دھواں اٹھے گا

دابتہ الارض

اور دجال ۔

 اس کی سند بہت عمدہ ہے

حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دھواں پھیل جائے گا مؤمن کو تو مثل زکام کے لگے گا اور کافر کے جوڑ جوڑ سے نکلے گا یہ حدیث حضرت ابو سعید خدری کے قول سے بھی مروی ہے اور حضرت حسن کے اپنے قول سے بھی مروی ہے

 حضرت علیؓ فرماتے ہیں دخان گزر نہیں گیا بلکہ اب آئے گا ۔

حضرت ابن عمر ؓسے دھویں کی بابت اوپر کی حدیث کی طرح روایت ہے

 ابن ابی ملکیہ فرماتے ہیں:

 ایک دن صبح کے وقت حضرت ابن عباسؓ کے پاس گیا ۔ تو آپ فرمانے لگے رات کو میں بالکل نہیں سویا

میں نے پوچھا کیوں ؟

فرمایا اس لئے کہ لوگوں سے سنا کہ دم دار ستارہ نکلا ہے تو مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں یہی دخان نہ ہو پس صبح تک میں نے آنکھ سے آنکھ نہیں ملائی ۔

اس کی سند صحیح ہے اور (حبرالامتہ) ترجمان القرآن حضرت ابن عباسؓ کے ساتھ صحابہ اور تابعین بھی ہیں

 اور مرفوع حدیثیں بھی ہیں ۔ جن میں صحیح حسن اور ہر طرح کی ہیں اور ان سے ثابت ہوتا ہے کہ دخان ایک علامت قیامت ہے جو آنے والی ہے ظاہری الفاظ قرآن بھی اسی کی تائید کرتے ہیں کیونکہ قرآن نے اسے واضح اور ظاہر دھواں کہا ہے جسے ہر شخص دیکھ سکے اور بھوک کے دھوئیں سے اسے تعبیر کرنا ٹھیک نہیں کیونکہ وہ تو ایک خیالی چیز ہے بھوک پیاس کی سختی کی وجہ سے دھواں سا آنکھوں کے آگے نمودار ہو جاتا ہے جو دراصل دھواں نہیں اور قرآن کے الفاظ ہیں دُخَانٍ مُبِينٍ  کے ۔

يَغْشَى النَّاسَ ۖ

جو لوگوں کو گھیر لے گا،

 وہ لوگوں کو ڈھانک لے گی

یہ بھی حضرت ابن عباسؓ کی تفسیر کی تائید کرتا ہے کیونکہ بھوک کے اس دھوئیں نے صرف اہل مکہ کو ڈھانپا تھا نہ کہ تمام لوگوں کو

هَذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ  

 یہ دردناک عذاب ہے۔(۱۱) ‏

پھر فرماتا ہے کہ یہ ہے المناک عذاب یعنی ان سے یوں کہا جائے گا

 جیسے اور آیت میں ہے:

يَوْمَ يُدَعُّونَ إِلَى نَارِ جَهَنَّمَ دَعًّا ۔ هَـذِهِ النَّارُ الَّتِى كُنتُم بِهَا تُكَذِّبُونَ 

جس دن انہیں جہنم کی طرف دھکیلا جائے گا کہ یہ وہ آگ ہے جسے تم جھٹلا رہے تھے (۵۲:۱۳،۱۴)

 یا یہ مطلب کہ وہ خود ایک دوسرے سے یوں کہیں گے

رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ إِنَّا مُؤْمِنُونَ  

کہیں گے اے ہمارے رب! یہ آفت ہم سے دور کر ہم ایمان قبول کرتے ہیں  (۱۲)

کافر جب اس عذاب کو دیکھیں گے تو اللہ سے اس کے دور ہونے کی دعا کریں گے

جیسے کہ اس آیت میں ہے:

وَلَوْ تَرَى إِذْ وُقِفُواْ عَلَى النَّارِ فَقَالُواْ يلَيْتَنَا نُرَدُّ وَلاَ نُكَذِّبَ بِـَايَـتِ رَبِّنَا وَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ 

کاش کے تو انہیں دیکھتا جب یہ آگ کے پاس کھڑے کئے جائیں گے اور کہیں گے کاش کے ہم لوٹائے جاتے تو ہم اپنے رب کی آیتوں کو نہ جھٹلاتے اور باایمان بن کر رہتے(۶:۲۷)

 اور آیت میں ہے:

وَأَنذِرِ النَّاسَ يَوْمَ يَأْتِيهِمُ الْعَذَابُ ۔۔۔ أَقْسَمْتُمْ مِّن قَبْلُ مَا لَكُمْ مِّن زَوَالٍ  

لوگوں کو ڈراوے کے ساتھ آگاہ کر دے جس دن ان کے پاس عذاب آئے گا اس دن گنہگار کہیں گے  

پروردگار ہمیں تھوڑے سے وقت تک اور ڈھیل دے دے تو ہم تیری پکار پر لبیک کہہ لیں اور تیرے رسولوں کی فرمانبرداری کر لیں (۱۴:۴۴)

أَنَّى لَهُمُ الذِّكْرَى وَقَدْ جَاءَهُمْ رَسُولٌ مُبِينٌ  

ان کے لئے نصیحت کہاں ہے؟ کھول کھول کر بیان کرنے والے پیغمبر ان کے پاس آچکے۔‏(۱۳)

پس یہاں یہی کہا جاتا ہے کہ ان کے لئے نصیحت کہاں ؟

 ان کے پاس میرے پیغامبر آچکے انہوں نے ان کے سامنے میرے احکام واضح طور پر رکھ دئیے

ثُمَّ تَوَلَّوْا عَنْهُ وَقَالُوا مُعَلَّمٌ مَجْنُونٌ  

پھر بھی انہوں نے منہ پھیرا اور کہہ دیا کہ سکھایا پڑھایا ہوا باؤلا ہے۔ (۱۴) ‏

 لیکن ماننا تو کجا انہوں نے پرواہ تک نہ کی بلکہ انہیں جھوٹا کہا ان کی تعلیم کو غلط کہا اور صاف کہہ٠ دیا کہ یہ تو سکھائے پڑھائے ہیں ، انہیں جنوں ہو گیا ہے:

 جیسے اور آیت میں ہے:

يَوْمَئِذٍ يَتَذَكَّرُ الإِنسَـنُ وَأَنَّى لَهُ الذِّكْرَ 

 اس دن انسان نصیحت حاصل کرے گا لیکن اب اس کے لئے نصیحت کہاں ہے ؟(۸۹:۲۳)

 اور جگہ فرمایا ہے:

وَقَالُواْ ءَامَنَّا بِهِ وَأَنَّى لَهُمُ التَّنَاوُشُ مِن مَّكَانِ بَعِيدٍ 

اس وقت کہیں گے کہ ہم اس قرآن پر ایمان لائے لیکن اس قدر دور جگہ سے (مطلوبہ چیز) کیسے ہاتھ آسکتی ہے۔‏(۳۴:۵۲)

اس دن عذابوں کو دیکھ کر ایمان لانا سراسر بےسود ہے

إِنَّا كَاشِفُو الْعَذَابِ قَلِيلًا ۚ إِنَّكُمْ عَائِدُونَ  

ہ م عذاب کو تھوڑا دور کر دیں گے تو تم پھر اپنی سی حالت پر آجاؤ گے۔(۱۵) ‏

یہ جو ارشاد ہوتا ہے اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں

 ایک تو یہ کہ اگر بالفرض ہم عذاب ہٹا لیں اور تمہیں دوبارہ دنیا میں بھیج دیں تو بھی تم پھر وہاں جا کر یہی کرو گے جو اس سے پہلے کر کے آئے ہو

جیسے فرمایا:

وَلَوْ رَحِمْنَـهُمْ وَكَشَفْنَا مَا بِهِمْ مِّن ضُرٍّ لَّلَجُّواْ فِى طُغْيَـنِهِمْ يَعْمَهُونَ 

ا گر ہم ان پر رحم کریں اور برائی ان سے ہٹا لیں تو پھر یہ اپنی سرکشی میں آنکھیں بند کر کے منہمک ہو جائیں گے (۲۳:۷۵)

 اور جیسے فرمایا :

وَلَوْ رُدُّواْ لَعَـدُواْ لِمَا نُهُواْ عَنْهُ وَإِنَّهُمْ لَكَـذِبُونَ 

اگر یہ لوٹائے جائیں تو قطعًا دوبارہ پھر ہماری نافرمانیاں کرنے لگیں گے اور محض جھوٹے ثابت ہوں گے ۔(۶:۲۸)

دوسرے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ اگر عذاب کے اسباب قائم ہو چکنے اور عذاب آ جانے کے بعد بھی گو ہم اسے کچھ دیر ٹھہرا لیں تاہم یہ اپنی بد باطنی اور خباثت سے باز نہیں آنے کے

 اس سے یہ لازم آتا کہ عذاب انہیں پہنچا اور پھر ہٹ گیا

جیسے قوم یونس کی حضرت حق تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے کہ قوم یونس جب ایمان لائی ہم نے ان سے عذاب ہٹا لیا ۔ گویا عذاب انہیں ہونا شروع نہیں ہوا تھا ہاں اس کے اسباب موجود و فراہم ہو چکے تھے ان تک اللہ کا عذاب پہنچ چکا تھا اور اس سے یہ بھی لازم نہیں آتا کہ وہ اپنے کفر سے ہٹ گئے تھے پھر اس کی طرف لوٹ گئے۔

 چنانچہ حضرت شعیب اور ان پر ایمان لانے والوں سے جب قوم نے کہا کہ یا تو تم ہماری بستی چھوڑ دو یا ہمارے مذہب میں لوٹ آؤ تو جواب میں اللہ کے رسول نے فرمایا کہ گو ہم اسے برا جانتے ہوں ۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس سے نجات دے رکھی ہے پھر بھی اگر ہم تمہاری ملت میں لوٹ آئیں تو ہم سے بڑھ کر جھوٹا اور اللہ کے ذمے بہتان باندھنے والا اور کون ہو گا ؟

 ظاہر ہے کہ حضرت شعیب علیہ السلام نے اس سے پہلے بھی کبھی کفر میں قدم نہیں رکھا تھا

اور حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ تم لوٹنے والے ہو ۔ اس سے مطلب اللہ کے عذاب کی طرف لوٹنا ہے

يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَى إِنَّا مُنْتَقِمُونَ  

جس دن ہم بڑی سخت پکڑ پکڑیں گے بالیقین ہم بدلہ لینے والے ہیں۔‏(۱۶)

 بڑی اور سخت پکڑ سے مراد جنگ بدر ہے

حضرت ابن مسعودؓ اور آپ کے ساتھ کی وہ جماعت جو دخان کو ہو چکا مانتی ہے وہ تو الْبَطْشَةَ کے معنی یہی کرتی ہے

 بلکہ حضرت ابن عباسؓ سے حضرت ابی بن کعبؓ سے ایک اور جماعت سے یہی منقول ہے

گو یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے لیکن بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد قیامت کے دن کی پکڑ ہے گو بدر کا دن بھی پکڑ کا اور کفار پر سخت دن تھا

 ابن جریر میں ہے حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ گو حضرت ابن مسعودؓ اسے بدر کا دن بتاتے ہیں لیکن میرے نزدیک تو اس سے مراد قیامت کا دن ہے

 اس کی اسناد صحیح ہے حضرت حسن بصری اور عکرمہ سے بھی دونوں روایتوں میں زیادہ صحیح روایت یہی ہے واللہ اعلم ۔

وَلَقَدْ فَتَنَّا قَبْلَهُمْ قَوْمَ فِرْعَوْنَ وَجَاءَهُمْ رَسُولٌ كَرِيمٌ  

یقیناً ان سے پہلے ہم قوم فرعون کو (بھی) آزما چکے ہیں جن کے پاس (اللہ کا) با عزت رسول آیا۔‏(۱۷)

ارشاد ہوتا ہے کہ ان مشرکین سے پہلے مصر کے قبطیوں کو ہم نے جانچا ان کی طرف اپنے بزرگ رسول حضرت موسیٰ کو بھیجا

أَنْ أَدُّوا إِلَيَّ عِبَادَ اللَّهِ ۖ إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ  

کہ اللہ کے بندوں کو میرے حوالے کر دو، یقین مانو کہ میں تمہارے لئے امانت دار رسول ہوں ۔(۱۸) ‏

 انہوں نے میرا پیغام پہنچایا کہ بنی اسرائیل کو میرے ساتھ کر دو انہیں دکھ نہ دو میں اپنی نبوت پر گواہی دینے والے معجزے اپنے ساتھ لایا ہوں اور ہدایت کے ماننے والے سلامتی سے رہیں گے مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی کا امانت دار بنا کر تمہاری طرف بھیجا ہے

وَأَنْ لَا تَعْلُوا عَلَى اللَّهِ ۖ إِنِّي آتِيكُمْ بِسُلْطَانٍ مُبِينٍ  

اور تم اللہ تعالیٰ کے سامنے سرکشی نہ کرو میں تمہارے پاس کھلی دلیل لانے والا ہوں ۔(۱۹)

میں تمہیں اس کا پیغام پہنچا رہا ہوں تمہیں رب کی باتوں کے ماننے سے سرکشی نہ کرنی چاہئے اس کے بیان کردہ دلائل و احکام کے سامنے سر تسلیم خم کرنا چاہئے۔ اس کی عبادتوں سے جی چرانے والے ذلیل و خوار ہو کر جہنم واصل ہوتے ہیں میں تو تمہارے سامنے کھلی دلیل اور واضح آیت رکھتا ہوں

وَإِنِّي عُذْتُ بِرَبِّي وَرَبِّكُمْ أَنْ تَرْجُمُونِ  

اور میں اپنے اور تمہارے رب کی پناہ میں آتا ہوں اس سے کہ تم مجھے سنگسار کر دو ۔‏(۲۰)

میں تمہاری بدگوئی اور اہتمام سے اللہ کی پناہ لیتا ہوں ۔

 ابن عباسؓ اور ابو صالہ تو یہی کہتے ہیں

 اور قتادہؓ کہتے ہیں مراد پتھراؤ کرنا پتھروں سے مار ڈالنا ہے یعنی زبانی ایذاء سے اور دستی ایذاء سے

وَإِنْ لَمْ تُؤْمِنُوا لِي فَاعْتَزِلُونِ  

اور اگر تم مجھ پر ایمان نہیں لاتے تو مجھ سے الگ ہی رہو۔‏(۲۱) 

میں اپنے رب کی جو تمہارا بھی مالک ہے پناہ چاہتا ہوں اچھا اگر تم میری نہیں مانتے مجھ پر بھروسہ نہیں کرتے اللہ پر ایمان نہیں لاتے تو کم از کم میری تکلیف دہی اور ایذاء رسانی سے تو باز رہو ۔ اور اس کے منتظر رہو جب کہ خود اللہ ہم میں تم میں فیصلہ کر دے گا

فَدَعَا رَبَّهُ أَنَّ هَؤُلَاءِ قَوْمٌ مُجْرِمُونَ  

پھر انہوں نے اپنے رب سے دعا کی کہ یہ سب گنہگار لوگ ہیں ۔‏(۲۲)

پھر جب اللہ کے نبی کلیم اللہ حضرت موسیٰ نے ایک لمبی مدت ان میں گزاری خوب دل کھول کھول کر تبلیغ کر لی ہر طرح کی خیر خواہی کی ان کی ہدایت کے لئے ہر چند جتن کر لئے اور دیکھا کہ وہ روز بروز اپنے کفر میں بڑھتے جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ سے انکے لئے بددعا کی

 جیسے اور آیت میں ہے:

وَقَالَ مُوسَى رَبَّنَآ إِنَّكَ ءاتَيْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلاّهُ زِينَةً ۔۔۔قَالَ قَدْ أُجِيبَتْ دَّعْوَتُكُمَا فَاسْتَقِيمَا...

حضرت موسیٰ نے کہا اے ہمارے رب تو نے فرعون اور اس کے امراء کو دنیوی نمائش اور مال و متاع دے رکھی ہے

اے اللہ یہ اس سے دوسروں کو بھی تیری راہ سے بھٹکا رہے ہیں تو ان کا مال غارت کر اور ان کے دل اور سخت کر دے تاکہ دردناک عذابوں کے معائنہ تک انہیں ایمان نصیب ہی نہ ہو

اللہ کی طرف سے جواب ملا کہ اے موسیٰ اور اے ہارون میں نے تمہاری دعا قبول کر لی اب تم استقامت پر تل جاؤ (۱۰:۸۸،۸۹)

فَأَسْرِ بِعِبَادِي لَيْلًا إِنَّكُمْ مُتَّبَعُونَ  

(ہم نے کہہ دیا) کہ راتوں رات تو میرے بندوں کو لے کر نکل، یقیناً تمہارا پیچھا کیا جائے گا۔‏(۲۳)

یہاں فرماتا ہے کہ ہم نے موسیٰ سے کہا کہ میرے بندوں یعنی بنی اسرائیل کو راتوں رات فرعون اور فرعونیوں کی بےخبری میں یہاں سے لے کر چلے جاؤ ۔ یہ کفار تمہارا پیچھا کریں گے لیکن تم بےخوف و خطر چلے جاؤ میں تمہارے لئے دریا کو خشک کر دوں گا

وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْوًا ۖ إِنَّهُمْ جُنْدٌ مُغْرَقُونَ  

تو دریا کو ساکن چھوڑ کر چلا جا بلاشبہ یہ لشکر غرق کر دیا جائے گا۔‏(۲۴)

اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو لے کر چل پڑے

 فرعونی لشکر مع فرعون کے ان کے پکڑنے کو چلا بیچ میں دریا حائل ہوا آپ بنی اسرائیل کو لے کر اس میں اتر گئے دریا کا پانی سوکھ گیا اور آپ اپنے ساتھیوں سمیت پار ہوگئے تو چاہا کہ دریا پر لکڑی مار کر اسے کہہ دیں کہ اب تو اپنی روانی پر آجا تاکہ فرعون اس سے گزر نہ سکے وہیں اللہ نے وحی بھیجی کہ اسے اسی حال میں سکون کے ساتھ ہی رہنے دو ساتھ ہی اس کی وجہ بھی بتا دی کہ یہ سب اسی میں ڈوب مریں گے ۔ پھر تو تم سب بالکل ہی مطمئن اور بےخوف ہو جاؤ گے

 غرض حکم ہوا تھا کہ دریا کو خشک چھوڑ کر چل دیں

رَهْوًا کے معنی سوکھا راستہ جو اصلی حالت پر ہو ۔

مقصد یہ ہے کہ پار ہو کہ دریا کو روانی کا حکم نہ دینا یہاں تک کہ دشمنوں میں سے ایک ایک اس میں آ نہ جائے اب اسے جاری ہونے کا حکم ملتے ہی سب کو غرق کر دے گا

كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ  

وہ بہت سے باغات اور چشمے چھوڑ گئے۔‏(۲۵)

وَزُرُوعٍ وَمَقَامٍ كَرِيمٍ  

اور کھتیاں اور راحت بخش ٹھکانے۔‏(۲۶)

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے دیکھو کیسے غارت ہوئے ۔ باغات کھتیاں نہریں مکانات اور بیٹھکیں سب چھوڑ کر فنا ہوگئے

حضرت عبداللہ بن عمروؓ فرماتے ہیں مصر کا دریائے نیل مشرق مغرب کے دریاؤں کا سردار ہے اور سب نہریں اس کے ماتحت ہیں جب اس کی روانی اللہ کو منظور ہوتی ہیں تو تمام نہروں کو اس میں پانی پہنچانے کا حکم ہوتا ہے جہاں تک رب کو منظور ہو اس میں پانی آ جاتا ہے پھر اللہ تبارک و تعالیٰ اور نہروں کو روک دیتا ہے اور حکم دیتا ہے کہ اب اپنی اپنی جگہ چلی جاؤ اور فرعونیوں کے یہ باغات دریائے نیل کے دونوں کناروں پر مسلسل چلے گئے تھے رسواں سے لے کر رشید تک اس کا سلسلہ تھا اور اس کی نو خلیجیں تھیں ۔ خلیج اسکندریہ ، دمیاط ، خلیج سردوس ، خلیج منصف ، خلیج منتہی اور ان سب میں اتصال تھا ایک دوسرے سے متصل تھیں اور پہاڑوں کے دامن میں ان کی کھیتیاں تھیں جو مصر سے لے کر دریا تک برابر چلی آتی تھیں ان تمام کو بھی دریا سیراب کرتا تھا

وَنَعْمَةٍ كَانُوا فِيهَا فَاكِهِينَ  

اور آرام کی چیزیں جن میں عیش کر رہے تھے۔‏(۲۷)

كَذَلِكَ ۖ وَأَوْرَثْنَاهَا قَوْمًا آخَرِينَ  

اسی طرح ہوگیا اور ہم نے ان سب کا وارث دوسری قوم کو بنا دیا  (۲۸)

بڑے امن چین کی زندگی گزار رہے تھے لیکن مغرور ہوگئے اور آخر ساری نعمتیں یونہی چھوڑ کر تباہ کر دئیے گئے۔ مال اولاد جاہ و مال سلطنت و عزت ایک ہی رات میں چھوڑ گئے اور بھس کی طرح اڑا دئیے گئے اور گزشتہ کل کی طرح بےنشان کر دئیے گئے ایسے ڈبوئے گئے کہ ابھر نہ سکے جہنم واصل ہوگئے اور بدترین جگہ پہنچ گئے ان کی یہ تمام چیزیں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو دے دیں ۔

جیسے اور آیت میں فرمایا ہے کہ ہم نے ان کمزوروں کو ان کے صبر کے بدلے اس سرکش قوم کی کل نعمتیں عطافرمادیں اور بے ایمانوں کا بھرکس نکال ڈالا یہاں بھی دوسری قوم جسے وارث بنایا اس سے مراد بھی بنی اسرائیل ہیں

فَمَا بَكَتْ عَلَيْهِمُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ وَمَا كَانُوا مُنْظَرِينَ  

سو ان پر نہ تو آسمان و زمین روئے اور نہ انہیں مہلت ملی۔‏(۲۹)

پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ان پر زمین و آسمان نہ روئے کیونکہ ان پاپیوں کے نیک اعمال تھے ہی نہیں جو آسمانوں پر چڑھتے ہوں اور اب ان کے نہ چڑھنے کی وجہ سے وہ افسوس کریں نہ زمین میں ان کی جگہیں ایسی تھیں کہ جہاں بیٹھ کر یہ اللہ کی عبادت کرتے ہوں اور آج انہیں نہ پا کر زمین کی وہ جگہ ان کا ماتم کرے انہیں مہلت نہ دی گئی ۔

مسند ابو یعلی موصلی میں ہے:

 ہر بندے کے لئے آسمان میں دو دروازے ہیں ایک سے اس کی روزی اترتی ہے دوسرے سے اس کے اعمال اور اس کے کلام چڑھتے ہیں ۔ جب یہ مر جاتا ہے اور وہ عمل و رزق کو گم شدہ پاتے ہیں تو روتے ہیں پھر اسی آیت کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تلاوت کی

 ابن ابی حاتم میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

اسلام غربت سے شروع ہوا اور پھر غربت پر آجائے گا یاد رکھو مؤمن کہیں انجام مسافر کی طرح نہیں مؤمن جہاں کہیں سفر میں ہوتا ہے جہاں اس کا کوئی رونے والا نہ ہو وہاں بھی اس کے رونے والے آسمان و زمین موجود ہیں پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا یہ دونوں کفار پر روتے نہیں

حضرت علیؓ سے کسی نے پوچھا کہ آسمان و زمین کبھی کسی پر روئے بھی ہیں ؟

آپ نے فرمایا آج تو نے وہ بات دریافت کی ہے کہ تجھ سے پہلے مجھ سے اس کا سوال کسی نے نہیں کیا ۔ سنو ہر بندے کے لئے زمین میں ایک نماز کی جگہ ہوتی ہے اور ایک جگہ آسمان میں اس کے عمل کے چڑھنے کی ہوتی ہے اور آل فرعون کے نیک اعمال ہی نہ تھے اس وجہ سے نہ زمین ان پر روئی نہ آسمان کو ان پر رونا آیا اور نہ انہیں ڈھیل دی گئی کہ کوئی نیکی بجا لاسکیں ،

 حضرت ابن عباسؓ سے یہ سوال ہوا تو آپ نے بھی قریب قریب یہی جواب دیا بلکہ آپ سے مروی ہے کہ چالیس دن تک زمین مؤمن پر روتی رہتی ہے

حضرت مجاہدؓ نے جب یہ بیان فرمایا تو کسی نے اس پر تعجب کا اظہار کیا آپ نے فرمایا :

سبحان اللہ اس میں تعجب کی کونسی بات ہے جو بندہ زمین کو اپنے رکوع و سجود سے آباد رکھتا تھا جس بندے کی تکبیر و تسبیح کی آوازیں آسمان برابر سنتا رہا تھا بھلا یہ دونوں اس عابد اللہ پر روئیں گے نہیں ؟

حضرت قتادہؓ فرماتے ہیں فرعونیوں جیسے ذلیل و خوار لوگوں پر یہ کیوں روتے ؟

حضرت ابراہیمؒ فرماتے ہیں دنیا جب سے رچائی گئی ہے تب سے آسمان صرف دو شخصوں پر رویا ہے

 ان کے شاگرد سے سوال ہوا کہ کیا آسمان وزمین ہر ایمان دار پر روتے نہیں ؟

 فرمایا صرف اتنا حصہ جس حصے سے اس کا نیک عمل چڑھتا تھا

سنو آسمان کا رونا اس کا سرخ ہونا اور مثل نری کے گلابی ہو جانا ہے سو یہ حال صرف دو شخصوں کی شہادت پر ہوا ہے ۔ حضرت یحییٰ کے قتل کے موقعے پر تو آسمان سرخ ہو گیا اور خون برسانے لگا اور دوسرے حضرت حسین ؓکے قتل پر بھی آسمان کا رنگ سرخ ہو گیا تھا (ابن ابی حاتم )

یزید ابن ابو زیاد کا قول ہے کہ قتل حسین کی وجہ سے چار ماہ تک آسمان کے کنارے سرخ رہے اور یہی سرخی اس کا رونا ہے

 حضرت عطا فرماتے ہیں اس کے کناروں کا سرخ ہو جانا اس کا رونا ہے

یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ شہادت حسینؓ کے دن جس پتھر کو الٹا جاتا تھا اس کے نیچے سے منجمد خون نکلتا تھا ۔

 اس دن سورج کو بھی گہن لگا ہوا تھا آسمان کے کنارے بھی سرخ تھے اور پتھر گرے تھے ۔

لیکن یہ سب باتیں بےبنیاد ہیں اور شیعوں کے گھڑے ہوئے افسانے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کا واقعہ نہایت درد انگیز اور حسرت و افسوس والا ہے لیکن اس پر شیعوں نے جو حاشیہ چڑھایا ہے اور گھڑ گھڑا کر جو باتیں پھیلا دی ہیں وہ محض جھوٹ اور بالکل گپ ہیں ۔

 خیال تو فرمائیے کہ اس سے بہت زیادہ اہم واقعات ہوئے اور شہادت حسینؓ سے بہت بڑی وارداتیں ہوئیں لیکن ان کے ہونے پر بھی آسمان و زمین وغیرہ میں یہ انقلاب نہ ہو ا۔ آپ ہی کے والد ماجد حضرت علی ؓبھی قتل کئے گئے جو بالاجماع آپ سے افضل تھے لیکن نہ تو پتھروں تلے سے خون نکلا اور کچھ ہوا ۔ حضرت عثمان بن عفانؓ کو گھیر لیا جاتا ہے اور نہایت بےدردی سے بلاوجہ ظلم و ستم کے ساتھ انہیں شہادت کیا جاتا ہے فاروق اعظم حضرت عمر بن خطابؓ کو صبح کی نماز پڑھاتے ہوئے نماز کی جگہ ہی قتل کیا جاتا ہے یہ وہ زبردست مصیبت تھی کہ اس سے پہلے مسلمان کبھی ایسی مصیبت نہیں پہنچائے گئے تھے لیکن ان واقعات میں سے کسی واقعہ کے وقت اب میں سے ایک بھی بات نہیں جو شیعوں نے مقتل حسینؓ کی نسبت مشہور کر رکھی ہے ۔

 ان سب کو بھی جانے دیجئے تمام انسانوں کے دینی اور دنیوی سردار سید البشر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لیجئے جس روز آپ رحلت فرماتے ہیں ان میں سے کچھ بھی نہیں ہوتا اور سنئے جس روز حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کا انتقال ہوتا ہے اتفاقاً اسی روز سورج گہن ہوتا ہے اور کوئی کہہ دیتا ہے کہ ابراہیم کے انتقال کی وجہ سورج کو گہن لگا ہے ۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم گہن کی نماز ادا کر کے فوراً خطبے پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور فرماتے ہیں سورج چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں کسی کی موت زندگی کی وجہ سے انہیں گہن نہیں لگتا

وَلَقَدْ نَجَّيْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنَ الْعَذَابِ الْمُهِينِ  

اور بیشک ہم نے (ہی) بنی اسرائیل کو (سخت) رسوا کن سزا سے نجات دی۔‏(۳۰)

‏ اس آیت میں اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل پر اپنا احسان جتاتا ہے کہ ہم نے انہیں فرعون جیسے متکبر حدود شکن کے ذلیل عذابوں سے نجات دی

مِنْ فِرْعَوْنَ ۚ إِنَّهُ كَانَ عَالِيًا مِنَ الْمُسْرِفِينَ  

(جو) فرعون کی طرف سے (ہو رہی) تھی۔ فی الواقع وہ سرکش اور حد سے گزر جانے والوں میں تھا۔(۳۱)

 اس نے بنی اسرائیل کو پست و خوار کر رکھا تھا ذلیل خدمتیں ان سے لیتا تھا اور اپنے نفس کو تولتا رہتا تھا خودی اور خود بینی میں لگا ہوا تھا بیوقوفی سے کسی چیز کی حد بندی کا خیال نہیں کرتا تھا اللہ کی زمین میں سرکشی کئے ہوئے تھا۔ اور ان بدکاریوں میں اس کی قوم بھی اس کے ساتھ تھی

وَلَقَدِ اخْتَرْنَاهُمْ عَلَى عِلْمٍ عَلَى الْعَالَمِينَ  

ہم نے دانستہ طور پر بنی اسرائیل کو دنیا جہان والوں پر فوقیت دی ۔ (۳۲)

پھر بنی اسرائیل پر ایک اور مہربانی کا ذکر فرما رہا ہے کہ اس زمانے کے تمام لوگوں پر انہیں فضیلت عطا فرمائ

ی ہر زمانے کو عالم کہا جاتا ہے یہ مراد نہیں کہ تمام اگلوں پچھلوں پر انہیں بزرگی دی

 یہ آیت بھی اس آیت کی طرح ہے جس میں فرمان ہے :

قَالَ يَمُوسَى إِنْى اصْطَفَيْتُكَ عَلَى النَّاسِ 

اے موسیٰ میں نے تمہیں لوگوں پر بزرگی عطا فرمائی(۷:۱۴۴)

وَاصْطَفَـكِ عَلَى نِسَآءِ الْعَـلَمِينَ  

اور پسند (برگذیدہ) کیا تجھ (حضرت مریم) کو سب جہان کی عورتوں سے (۳:۴۲)

اس سے بھی یہی مطلب ہے کہ اس زمانے کی تمام عورتوں پر آپ کو فضیلت ہے اس لئے کہ ام المؤمنین حضرت خدیجہؓ ان سے یقینا ًافضل ہیں یا کم ازکم برابر ۔ اسی طرح حضرت آسیہ بنت مزاحم جو فرعون کی بیوی تھیں اور ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کی فضیلت تمام عورتوں پر ایسی ہے جیسی فضیلت شوربے میں بھگوئی روٹی کی اور کھانوں پر

وَآتَيْنَاهُمْ مِنَ الْآيَاتِ مَا فِيهِ بَلَاءٌ مُبِينٌ  

ا ور ہم نے انہیں ایسی نشانیاں دیں جن میں صریح آزمائش تھی۔‏(۳۳)

پھر بنی اسرائیل پر ایک اور احسان بیان ہو رہا ہے کہ ہم نے انہیں وہ حجت و برہان دلیل و نشان اور معجزات و کرامات عطا فرمائے جن میں ہدایت کی تلاش کرنے والوں کے لئے صاف صاف امتحان تھا ۔

إِنَّ هَؤُلَاءِ لَيَقُولُونَ  

یہ لوگ تو یہی کہتے ہیں (۳۴)

إِنْ هِيَ إِلَّا مَوْتَتُنَا الْأُولَى وَمَا نَحْنُ بِمُنْشَرِينَ  

کہ (آخری چیز) یہی ہمارا پہلی بار (دنیا سے) مر جانا اور ہم دوبارہ اٹھائے نہیں جائیں گے۔‏(۳۵)

فَأْتُوا بِآبَائِنَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ  

اگر تم سچے ہو تو ہمارے باپ دادوں کو لے آؤ  (۳۶)

یہاں مشرکین کا انکار قیامت اور اس کی دلیل بیان فرما کر اللہ تعالیٰ اس کی تردید کرتا ہے ان کا خیال تھا کہ قیامت آنی نہیں مرنے کے بعد جینا نہیں ۔ حشر اور نشر سب غلط ہے دلیل یہ پیش کرتے تھے کہ ہمارے باپ دادا مر گئے وہ کیوں دوبارہ جی کر نہیں آئے ؟

خیال کیجئے یہ کس قدر بودی اور بےہودہ دلیل ہے دوبارہ اٹھ کھڑا ہونا مرنے کے بعد جینا قیامت کو ہوگا نہ کہ دنیا میں پھر لوٹ کر آئیں گے ۔ اس دن یہ ظالم جہنم کا ایندھن بنیں گے

 اس وقت یہ اُمت اگلی اُمتوں پر گواہی دے گی اور ان پر انکے نبی صلی اللہ علیہ وسلم گواہی دیں گے

أَهُمْ خَيْرٌ أَمْ قَوْمُ تُبَّعٍ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۚ أَهْلَكْنَاهُمْ ۖ إِنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ  

کیا یہ لوگ بہتر ہیں یا تمہاری قوم کے لوگ اور جو ان سے بھی پہلے تھے ہم نے ان سب کو ہلاک کر دیا یقیناً وہ گنہگار تھے (۳۷)

پھر اللہ تعالیٰ انہیں ڈرا رہا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے جو عذاب اسی جرم پر اگلی قوموں پر آئے وہ تم پر بھی آجائیں اور ان کی طرح بےنام و نشان کر دئیے جاؤ ۔

 ان کے واقعات سورہ سبا میں گزر چکے ہیں وہ لوگ بھی قحطان کے عرب تھے جیسے یہ عدنان کے عرب ہیں حمیر جو سبا کے تھے وہ اپنے بادشاہ کو تبع کہتے تھے جیسے فارس کے بادشاہ کو کسریٰ اور روم کے ہر بادشاہ کو قیصر اور مصر کے ہر بادشاہ کو فرعون اور حبشہ کے ہر بادشاہ کو نجاشی کہا جاتا ہے ۔

 تبع کون ہے

ان میں سے ایک تبع یمن سے نکلا اور زمین پھرتا رہا سمرقند پہنچ گیا ہر جگہ کے بادشاہوں کو شکست دیتا رہا اور اپنا بہت بڑا ملک کر لیا زبردست لشکر اور بیشمار رعایا اس کے ماتحت تھی اس نے حیرہ نامی بستی بسائی یہ اپنے زمانے میں مدینے میں بھی آیا تھا اور یہاں کے باشندوں سے بھی لڑا لیکن اسے لوگوں نے اس سے روکا خود اہل مدینہ کا بھی اس سے یہ سلوک رہا کہ دن کو تو لڑتے تھے اور رات کو انکی مہمان داری کرتے تھے آخر اس کو بھی لحاظ آگیا اور لڑائی بند کر دی اس کے ساتھ یہاں کے دو یہودی عالم ہوگئے تھے جو حضرت موسیٰ کے سچے دین کے عامل بھی تھے وہ اسے ہر وقت بھلائی برائی سمجھاتے رہتے تھے انہوں نے کہا کہ آپ مدینے کو تاخت وتاراج نہیں کر سکتے کیونکہ یہ آخر زمانے کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کی جگہ ہے ۔

پس یہاں سے لوٹ گیا اور ان دونوں عالموں کو اپنے ساتھ لیتا چلا جب یہ مکے پہنچا تو اس نے بیت اللہ کو گرانا چاہا لیکن ان دونوں عالموں نے اسے روکا اور اس پاک گھر کی عظمت و حرمت بیان کی اور کہا کہ اس کے بانی خلیل اللہ حضرت ابراہیم ہیں ۔ اور اس نبی آخر الزمان کے ہاتھوں پھر اس کی اصلی عظمت آشکارا ہو جائے گی ۔ چنانچہ یہ اپنے ارادے سے باز آیا بلکہ بیت اللہ کی بڑی تعظیم و تکریم کی طواف کیا غلاف چڑھایا اور یہاں سے یمن واپس چلا گیا ۔

خود حضرت موسیٰؑ کے دین میں داخل ہوا اور تمام یمن میں یہی دین پھیلایا اس وقت تک حضرت مسیح کا ظہور نہیں ہوا تھا اور اس زمانے والوں کے لئے یہی سچا دین تھا ۔ اس طرح کے واقعات بہت تفصیل سے سیرۃ ابن اسحاق میں موجود ہیں ۔

اور حافظ ابن عساکر بھی اپنی کتاب میں بہت تفصیل کے ساتھ لائے ہیں اس میں ہے کہ اس کا پائے تخت دمشق میں تھا اس کے لشکروں کی صفیں دمشق سے لے کر یمن تک پہنچتی تھیں ۔

 ایک حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

میں نہیں جان سکا کہ حد لگنے سے گناہ کا کفارہ ہو جاتا ہے یا نہیں ؟

 اور نہ مجھے یہ معلوم ہے کہ تبع ملعون تھا یا نہیں ؟

 اور نہ مجھے یہ خبر ہے کہ ذوالقرنین نبی تھے یا بادشاہ

 اور روایت میں ہے :

 یہ بھی فرمایا حضرت عزیر پیغمبر تھے یا نہیں ؟ (ابن ابی حاتم )

دار قطنی فرماتے ہیں اس حدیث کی روایت صرف عبدالرزاق سے ہی ہے اور سند سے مروی ہے کہ حضرت عزیر کا نبی ہونا مجھے معلوم نہیں نہ میں یہ جانتا ہوں کہ تبع پر لعنت کروں یا نہیں ؟ اسے وارد کرنے کے بعد حافظ ابن عساکر نے وہ روایتیں درج کی ہیں جن میں تبع کو گالی دینے اور لعنت کرنے سے ممانعت آئی ہے جیسے کہ ہم بھی وارد کریں گے انشاء اللہ ۔

معلوم ایسا ہوتا ہے کہ یہ پہلے کافر تھے پھر مسلمان ہوگئے یعنی حضرت موسیٰ کلیم اللہ کے دین میں داخل ہوئے اور اس زمانے کے علماء کے ہاتھ پر ایمان قبول کیا ۔ بعثت مسیح سے پہلے کا یہ واقعہ ہے جرہم کے زمانے میں بیت اللہ کا حج بھی کیا غلاف بھی چڑھایا اور بڑی تعظیم و تکریم کی چھ ہزار اونٹ نام اللہ قربان کئے اور بھی بہت بڑا طویل واقعہ ہے جو حضرت ابی بن کعب ، حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے ۔

 اور اصل قصہ کا دارومدار حضرت کعب احبار اور حضرت عبداللہ بن سلام پر ہے ۔ وہب بن منبہ نے بھی اس قصہ کو وارد کیا ہے حافظ ابن عساکر نے اس تبع کے قصے کے ساتھ دوسرے تبع کے قصے کو بھی ملا دیا ہے جو ان کے بہت بعد تھا اس کی قوم تو اس کے ہاتھ پر مسلمان ہو گئی تھی پھر ان کے انتقال کے بعد وہ کفر کی طرف لوٹ گئی۔ اور دوبارہ آگ اور بتوں کی پرستش شروع کر دی ۔ جیسے کہ سورہ سباء میں مذکور ہے اسی کی تفسیر میں ہم نے بھی وہاں اس کی پوری تفصیل لکھ دی ہے فالحمد للہ ۔

حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں اس تبع نے کعبے پر غلاف چڑھایا تھا آپ لوگوں کو منع کرتے تھے کہ اس تبع کو برا نہ کہو یہ درمیان کا تبع ہے اس کا نام اسعد ابو کرب بن ملکیرب یمانی ہے ۔ اس کی سلطنت تین سو چھبیس سال تک رہی اس سے زیادہ لمبی مدت ان بادشاہوں میں سے کسی نے نہیں پائی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تقریبًا سات سو سال پہلے اس کا انتقال ہوا ہے

 مورخین نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ ان دونوں موسوی عالموں نے جو مدینے کے تھے انہوں نے جب تبع بادشاہ کو یقین دلایا کہ یہ شہر نبی آخر الزمان حضرت احمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہجرت گاہ ہے تو اس نے ایک قصیدہ کہا تھا اور اہل مدینہ کو بطور امانت دے گیا تھا جو ان کے پاس ہی رہا اور بطور میراث ایک دوسرے کے ہاتھ لگتا رہا اور اس کی روایت سند کے ساتھ برابر چلی آتی رہی یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے وقت اس کے حافظ ابو ایوب خالد بن زید عضی اللہ عنہ تھے اور اتفاق سے بلکہ بہ حکم اللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نزول اجلال بھی یہیں ہوا تھا اس قصیدے کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں

شھدت علی احمد انہ رسول من اللہ باری النسیم

فلو مد عمری الی عمرہ لکنت وزیر الہ و ابن عم

وجاھدت بالسیف اعداء ہ وفرجت عن صدرہ کل غم

میری تہہ دل سے گواہی ہے کہ حضرت احمد مجتبیٰ ﷺ اس اللہ کے سچے رسول ہیں جو تمام جانداروں کا پیدا کرنے والا ہے ۔

 اگر میں اس کے زمانے تک زندہ رہا تو قسم اللہ کی آپ کا ساتھی اور آپ کا معاون بن کر رہوں گا

اور آپ کے دشمنوں سے تلوار کے ساتھ جہاد کروں گا اور کسی کھٹکے اور غم کو آپ کے پاس تک پھٹکنے نہ دوں گا ۔

 ابن ابی الدنیا میں ہے:

 دور اسلام میں صفا شہر میں اتفاق سے قبر کھد گئی تو دیکھا گیا کہ دو عورتیں مدفون ہیں جن کے جسم بالکل سالم ہیں اور سرہانے پر چاندی کی ایک تختی لگی ہوئی ہے جس میں سونے کے حروف سے یہ لکھا ہوا ہے کہ یہ قبر حی اور لمیس کی ہے

 اور ایک روایت میں ان کے نام حبی اور تماخر ہیں یہ دونوں تبع کی بہنیں ہیں یہ دونوں مرتے وقت تک اس بات کی شہادت دیتی رہیں کہ لائق عبادت صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے یہ دونوں اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتی تھیں ۔ ان سے پہلے کے تمام نیک صالح لوگ بھی اسی شہادت کے ادا کرتے ہوئے انتقال فرماتے رہے ہیں ۔

 سورہ سباء میں ہم نے اس واقعہ کے متعلق سبا کے اشعار بھی نقل کر دئیے ہیں ۔

 حضرت کعب فرمایا کرتے تھے کہ تبع کی تعریف قرآن سے اس طرح معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی قوم کی مذمت کی ان کی نہیں کی

حضرت عائشہؓ سے منقول ہے کہ تبع کو برا نہ کہو وہ صالح شخص تھا

ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تبع کو گالی نہ دو وہ مسلمان ہو چکا تھا

طبرانی اور مسند احمد میں بھی یہ روایت ہے

عبدالرزاق میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ مجھے معلوم نہیں تبع نبی تھا یا نہ تھا ؟

اور روایت میں اس سے پہلے گزر چکی کہ میں نہیں جانتا تبع ملعون تھا یا نہیں ؟ فاللہ اعلم ۔

یہی روایت حضرت ابن عباسؓ سے بھی مروی ہے

 حضرت عطاء بن ابو رباح فرماتے ہیں تبع کو گالی نہ دو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں برا کہنا منع فرمایا ہے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم

وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لَاعِبِينَ  

ہم نے زمین اور آسمانوں اور ان کے درمیان کی چیزوں کو کھیل کے طور پر پیدا نہیں کیا (۳۸)

مَا خَلَقْنَاهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ  

بلکہ ہم نے انہیں درست تدبیر کے ساتھ ہی پیدا کیا ہے لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے۔(۳۹)

یہاں اللہ عزوجل اپنے عدل کا بیان فرما رہا ہے اور بےفائدہ لغو اور عبث کاموں سے اپنی پاکیزگی کا اظہار فرماتا ہے:

 جیسے اور آیت میں ارشاد ہے:

وَمَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَالاٌّرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَـطِلاً ذَلِكَ ظَنُّ الَّذِينَ كَفَرُواْ فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ كَفَرُواْ مِنَ النَّارِ 

ہم نے اپنی مخلوق کو باطل پیدا نہیں کیا ایسا گمان ہماری نسبت صرف ان کا ہے جو کفار ہیں اور جن کا ٹھکانا جہنم ہے(۳۸:۲۷)

 اور ارشاد ہے:

أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَـكُمْ عَبَثاً وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لاَ تُرْجَعُونَ ۔ فَتَعَـلَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ لاَ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ 

کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تمہیں بیکار و عبث پیدا کیا ہے اور تم لوٹ کر ہماری طرف آنے ہی کے نہیں ؟ اللہ حق مالک بلندیوں اور بزرگیوں والا ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ عرش کریم کا رب ہے (۲۳:۱۵،۱۶)

إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ مِيقَاتُهُمْ أَجْمَعِينَ  

یقیناً فیصلے کا دن ان سب کا طے شدہ وقت ہے۔ (۴۰)

فیصلوں کا دن یعنی قیامت کا دن جس دن باری تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان حق فیصلے کرے گا کافروں کو سزا اور مؤمنوں کو جزا ملے گی ۔ اس دن تمام اگلے پچھلے اللہ کے سامنے جمع ہوں گے

يَوْمَ لَا يُغْنِي مَوْلًى عَنْ مَوْلًى شَيْئًا وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ  

اس دن کوئی دوست کسی دوست کے کچھ کام بھی نہ آئے گا اور نہ ان کی امداد کی جائے گی۔‏(۴۱)

یہ وہ وقت ہوگا کہ ایک دوسرے سے جدا ہو جائے گا رشتے دار رشتے دار کو کوئی نفع نہ پہنچا سکے گا

جیسے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے:

فَإِذَا نُفِخَ فِى الصُّورِ فَلاَ أَنسَـبَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَلاَ يَتَسَآءَلُونَ 

جب صور پھونک دیا جائے گا تو نہ تو کوئی نسب باقی رہے گا نہ پوچھ گچھ۔ (۲۳:۱۰۱)

 اور آیت میں ہے:

وَلاَ يَسْـَلُ حَمِيمٌ حَمِيماً يُبَصَّرُونَهُمْ  

کوئی دوست اس دن اپنے دوست کو پریشان حالی میں دیکھتے ہوئے بھی کچھ نہ پوچھے گا(۷۰:۱۰،۱۱)

إِلَّا مَنْ رَحِمَ اللَّهُ ۚ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ  

مگر جس پر اللہ کی مہربانی ہو جائے وہ زبردست اور رحم کرنے والا ہے۔‏(۴۲)

اور نہ کوئی اس دن کسی کی کسی طرح کی مدد کرے گا نہ اور کوئی بیرونی مدد آئے گی مگر ہاں اللہ کی رحمت جو مخلوق پر شامل ہے وہ بڑا غالب اور وسیع رحمت والا ہے ۔

إِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّومِ  

بیشک زقوم (تھوہر) کا درخت۔‏(۴۳)

طَعَامُ الْأَثِيمِ  

گنہگار کا کھانا ہے۔‏(۴۴)

منکرین قیامت کو جو سزا وہاں دی جائے گی اس کا بیان ہو رہا ہے کہ ان مجرموں کو جو اپنے قول اور فعل کو نافرمانی سے ملوث کئے ہوئے تھے آج زقوم کا درخت کھلایا جائے گا ۔

بعض کہتے ہیں اس سے مراد ابوجہل ہے ۔

 گو دراصل وہ بھی اس آیت کی وعید میں داخل ہے لیکن یہ نہ سمجھا جائے کہ آیت صرف اسی کے حق میں نازل ہوئی ہے ۔

حضرت ابو درداء ایک شخص کو یہ آیت پڑھا رہے تھے مگر اس کی زبان سے لفظ اثیم ادا نہیں ہوتا تھا اور وہ بجائے اس کے یتیم کہہ دیا کرتا تھا تو آپ نے اسے طعام الفاجر پڑھوایا یعنی اسے اس کے سوا کھانے کو اور کچھ نہ دیا جائے گا ۔

 حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ اگر زقوم کا ایک قطرہ بھی زمین میں ٹپک جائے تو تمام زمین والوں کی معاش خراب کر دے

 ایک مرفوع حدیث میں بھی یہ آیا ہے جو پہلے بیان ہو چکی ہے ،

كَالْمُهْلِ يَغْلِي فِي الْبُطُونِ  

جو مثل تلچھٹ کے ہے اور پیٹ میں کھولتا رہتا ہے۔‏(۴۵)

كَغَلْيِ الْحَمِيمِ  

مثل تیز گرم پانی کے (۴۶)

یہ مثل تلچھٹ کے ہو گا ۔ اپنی حرارت بدمزگی اور نقصان کے باعث پیٹ میں جوش مارتا رہے گا

خُذُوهُ فَاعْتِلُوهُ إِلَى سَوَاءِ الْجَحِيمِ  

اسے پکڑ لو پھر گھسیٹتے ہوئے بیچ جہنم تک پہنچاؤ (۴۷)

ثُمَّ صُبُّوا فَوْقَ رَأْسِهِ مِنْ عَذَابِ الْحَمِيمِ  

پھر اس کے سر پر سخت گرم پانی کا عذاب بہاؤ۔(۴۸)  ‏

اللہ تعالیٰ جہنم کے داروغوں سے فرمائے گا کہ اس کافر کو پکڑ لو وہیں ستر ہزار فرشتے دوڑیں گے اسے اندھا کر کے منہ کے بل گھسیٹ لے جاؤ اور بیچ جہنم میں ڈال دو پھر اس کے سر پر جوش مارتا گرم پانی ڈالو ۔

 جیسے فرمایا:

يُصَبُّ مِن فَوْقِ رُءُوسِهِمُ الْحَمِيمُ ۔ يُصْهَرُ بِهِ مَا فِى بُطُونِهِمْ وَالْجُلُودُ 

ان کے سروں پر جہنم کا جوش مارتا گرم پانی بہایا جائے گا جس سے ان کی کھالیں اور پیٹ کے اندر کی تمام چیزیں سوخت ہو جائیں گی (۲۲:۱۹،۲۰)

 اور یہ بھی ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ فرشتے انہیں لوہے کے ہتھوڑے ماریں گے جن سے ان کا دماغ پاش پاش ہو جائیں گے پھر اوپر سے یہ حمیم ان پر ڈالا جائے گا یہ جہاں جہاں پہنچے گا ہڈی کو کھال سے جدا کر دے گا یہاں تک کہ اس کی آنتیں کاٹتا ہوا پنڈلیوں تک پہنچ جائے گا ۔

ذُقْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْكَرِيمُ  

(اس سے کہا جائے گا) چکھتا جا تو تو بڑا ذی عزت اور بڑے اکرام والا تھا ۔(۴۹)

پھر انہیں شرمسار کرنے کے لئے اور زیادہ پشیمان بنانے کے لئے کہا جائے گا کہ لو مزہ چکھو تم ہماری نگاہوں میں نہ عزت والے ہو نہ بزرگی والے ۔

 مغازی امویہ میں ہے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہل ملعون سے کہا کہ مجھے اللہ کا حکم ہوا ہے کہ تجھ سے کہہ دوں تیرے لئے ویل ہے تجھ پر افسوس ہے پھر مکرر کہتا ہوں کہ تیرے لئے خرابی اور افسوس ہے ۔

 اس پاجی نے اپنا کپڑا آپ کے ہاتھ سے گھسیٹتے ہوئے کہا جا تو اور تیرا رب میرا کیا بگاڑ سکتے ہو؟

 اس تمام وادی میں سب سے زیادہ عزت و تکریم والا میں ہوں۔

 پس اللہ تعالیٰ نے اسے بدر والے دن قتل کرایا اور اسے ذلیل کیا اور اس سے کہا جائے گا کہ لے اب اپنی عزت کا اور اپنی تکریم کا اور اپنی بزرگی اور بڑائی کا لطف اٹھا

إِنَّ هَذَا مَا كُنْتُمْ بِهِ تَمْتَرُونَ  

یہی وہ چیز ہے جس میں تم شک کیا کرتے تھے۔‏(۵۰)

اور ان کافروں سے کہا جائے گا کہ یہ ہے جس میں ہمیشہ شک شبہ کرتے رہے ۔

 جیسے اور آیتوں میں ہے:

يَوْمَ يُدَعُّونَ إِلَى نَارِ جَهَنَّمَ دَعًّا ۔ هَـذِهِ النَّارُ الَّتِى كُنتُم بِهَا تُكَذِّبُونَ ۔ أَفَسِحْرٌ هَـذَا أَمْ أَنتُمْ لاَ تُبْصِرُونَ  

جس دن انہیں دھکے دیکر جہنم میں پہنچایا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ وہ دوزخ ہے جسے تم جھٹلاتے رہے کیا یہ جادو ہے یا تم دیکھ نہیں رہے ؟ (۵۲:۱۳،۱۵)

اسی کو یہاں بھی فرمایا ہے کہ یہ جس میں تم شک کر رہے تھے ۔

إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقَامٍ أَمِينٍ  

بیشک (اللہ سے) ڈرنے والے امن چین کی جگہ میں ہونگے۔‏(۵۱)

بدبختوں کا ذکر کر کے اب نیک بختوں کا حال بیان ہو رہا ہے ۔ اسی لئے قرآن کریم کو مثانی کہا گیا ہے اس دنیا میں جو اللہ تعالیٰ مالک و خالق و قادر سے ڈرتے دبتے رہے وہ قیامت کے دن جنت میں نہایت امن و امان سے ہوں گے ۔ موت سے وہاں سے نکلنے کے ، غم و رنج ، گھبراہٹ ، مشکلوں ، دکھ درد، تکلیف، مشقت، شیطان اور اس کے مکر سے رب کی ناراضگی سے غرض تمام آفتوں اور مصیبتوں سے نڈر بےفکر مطمئن اور بے اندیشہ ہوں گے ۔

فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ  

باغوں اور چشموں میں۔(۵۲) ‏

يَلْبَسُونَ مِنْ سُنْدُسٍ وَإِسْتَبْرَقٍ مُتَقَابِلِينَ  

باریک اور ریشم کے لباس پہنے ہوئے آمنے سامنے بیٹھے ہونگے ۔ (۵۳)

جہنمیوں کو تو زقوم کا درخت اور آگ جیسا گرم پانی ملے گا اور انہیں جنتیں اور نہریں ملیں گی مختلف قسم کے ریشمی پارچہ جات انہیں پہننے کو ملیں گے جن میں نرم باریک بھی ہو گا اور دبیز چمکیلا بھی ہو گا ۔ یہ تختوں پر بڑے طمطراق سے تکئے لگائے بیٹھے ہوں گے اور کسی کی کسی کی طرف پیٹھ نہ ہوگی بلکہ سب ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے ہوئے ہوں گے

كَذَلِكَ وَزَوَّجْنَاهُمْ بِحُورٍ عِينٍ  

یہ اسی طرح ہے اور ہم بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں سے ان کا نکاح کر دیں گے .(۵۴)

اس عطا کے ساتھ ہی انہیں حوریں دی جائیں گی جو گورے چٹے پنڈے کی بڑی بڑی رسیلی آنکھوں والی ہوں گی جن کے پاک جسم کو ان سے پہلے کسی نے چھوا بھی نہ ہو گا ۔ وہ یاقوت و مرجان کی طرح ہوں گی ۔ اور کیوں نہ ہو جب انہوں نے اللہ کا ڈر دل میں رکھا اور دنیا کی خواہشوں کی چیزوں سے محض فرمان اللہ کو مدنظر رکھ کر بچے رہے تو اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ یہ بہترین سلوک کیوں نہ کرتا ؟

 ایک مرفوع حدیث میں ہے:

 اگر ان حوروں میں سے کوئی کھاری سمندر میں تھوک دے تو اس کا سارا پانی میٹھا ہو جائے

يَدْعُونَ فِيهَا بِكُلِّ فَاكِهَةٍ آمِنِينَ  

دل جمعی کے ساتھ وہاں ہر طرح کے میؤوں کی فرمائشیں کرتے ہونگے (۵۵)

پھر وہاں یہ جس میوے کی طلب کریں گے موجود ہو گا جو مانگیں گے ملے گا ادھر ارادہ کیا ادھر موجود ہوا ، خواہش ہوئی اور حاضر ہوا پھر نہایت بےفکری سے کمی کا خوف نہیں ہو گا ختم ہو جانے کا کھٹکا نہیں ہو گا

لَا يَذُوقُونَ فِيهَا الْمَوْتَ إِلَّا الْمَوْتَةَ الْأُولَى ۖ

وہاں وہ موت چکھنے کے نہیں ہاں پہلی موت (جو وہ مر چکے)

پھر فرمایا وہاں انہیں کبھی موت نہیں آئے گی ۔ پھر استثناء منقطع لَا کر اس کی تاکید کر دی ۔

 بخاری و مسلم میں ہے:

 موت کو بھیڑیے کی صورت میں لا کر جنت دوزخ کے درمیان ذبح کر دیا جائے گا اور ندا کر دی جائے گی کہ جنتیو اب ہمیشگی ہے کبھی موت نہیں ۔ اور اے جہنمیو تمہارے لئے بھی ہمیشہ رہنا ہے کبھی موت نہ آئے گی ۔

 سورہ مریم کی تفسیر میں بھی یہ حدیث گزر چکی ہے ۔

 صحیح مسلم میں ہے :

 اور حدیث میں ہے:

 جو اللہ سے ڈرتا رہے گا جنت میں جائے گا جہاں نعمتیں پائے گا کبھی محتاج نہ ہو گا جئے گا کبھی مرے گا نہیں جہاں کپڑے میلے نہ ہوں گے اور جوانی فنا نہ ہو گی ۔

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ کیا جنتی سوئیں گے بھی ؟

 آپ نے فرمایا نیند موت کی بہن ہے جنتی سوئیں گے نہیں ہر وقت راحت و لذت میں مشغول رہیں گے ۔

یہ حدیث اور سندوں سے بھی مروی ہے اور اس سے پہلے سندوں کا خلاف گزر چکا ہے واللہ اعلم ۔

وَوَقَاهُمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ  

 انہیں اللہ تعالیٰ نے دوزخ کی سزا سے بچا دیا۔‏(۵۶)

فَضْلًا مِنْ رَبِّكَ ۚ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ  

یہ صرف تیرے رب کا فضل ہے یہی ہے بڑی کامیابی۔‏(۵۷)

اس راحت و نعمت کے ساتھ یہ بھی بڑی نعمت ہے کہ انہیں پروردگار عالم نے عذاب جہنم سے نجات دے دی ہے ۔ تو مطلوب حاصل ہے اور خوف زائل ہے اسی لئے ساتھ ہی فرمایا کہ یہ صرف اللہ تعالیٰ کا احسان و فضل ہے ۔

 صحیح حدیث میں ہے:

 تم ٹھیک ٹھاک رہو قریب قریب رہو اور یقین مانو کہ کسی کے اعمال اسے جنت میں نہیں لے جاسکتے

 لوگوں نے کہا کیا آپ کے اعمال بھی؟

 فرمایا ہاں میرے اعمال بھی مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور اسکی رحمت میرے شامل حال ہو

فَإِنَّمَا يَسَّرْنَاهُ بِلِسَانِكَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ  

ہم نے اس (قرآن) کو تیری زبان میں آسان کر دیا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔‏(۵۸)

ہم نے اپنے نازل کردہ اس قرآن کریم کو بہت سہل بالکل آسان صاف ظاہر بہت واضح مدلل اور روشن کر کے تجھ پر تیری زبان میں نازل فرمایا ہے جو بہت فصیح و بلیغ بڑی شیریں اور پختہ ہے تاکہ لوگ بہ آسانی سمجھ لیں اور بخوشی عمل کریں ۔

فَارْتَقِبْ إِنَّهُمْ مُرْتَقِبُونَ  

اب تو منتظر رہ یہ بھی منتظر ہیں  (۵۹)

 باوجود اس کے بھی جو لوگ اسے جھٹلائیں نہ مانیں تو انہیں ہوشیار کر دے اور کہہ دے کہ اچھا اب تم بھی انتظار کرو میں بھی منتظر ہوں تم دیکھ لوگے کہ اللہ کی طرف سے تائید ہوتی ہے ؟

 کس کا کلمہ بلند ہوتا ہے ؟

 کسے دنیا اور آخرت ملتی ہے ؟

 مطلب یہ ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم تسلی رکھو فتح و ظفر تمہیں ہو گی میری عادت ہے کہ اپنے نبیوں اور ان کے ماننے والوں کو اونچا کروں

 جیسے ارشاد ہے:

كَتَبَ اللَّهُ لاّغْلِبَنَّ أَنَاْ وَرُسُلِى 

اللہ تعالیٰ نے یہ لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب رہیں گے(۵۸:۲۱)

 اور آیت میں ہے:

إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ ءَامَنُواْ فِى الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الاٌّشْهَـدُ ۔

يَوْمَ لاَ يَنفَعُ الظَّـلِمِينَ مَعْذِرَتُهُمْ وَلَهُمُ الْلَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ 

یقینا ہم اپنے پیغمبروں کی اور ایمان والوں کی دنیا میں بھی مدد کریں گے اور قیامت میں بھی جس دن گواہ قائم ہوں گے

 اور ظالموں کو ان کے عذر نفع نہ دیں گے ان پر لعنت ہو گی اور ان کے لئے برا گھر ہو گا۔ (۴۰:۵۱،۵۲)



© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Enail: cmaj37@gmail.com

Visits wef Sep 2024

hit counters