Tafsir Ibn Kathir (Urdu)Surah Al IsraAlama Imad ud Din Ibn KathirTranslated by Muhammad Sahib Juna Garhi |
For Better Viewing Download Arabic / Urdu Fonts
شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى پاک ہے وہ اللہ تعالیٰ جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا اللہ تعالیٰ اپنی ذات پاک کی عزت و عظمت اور اپنی پاکیزگی و قدرت بیان فرماتا ہے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے اس کی سی قدرت کسی میں نہیں۔ وہی عبادتوں کے لائق اور صرف وہی ساری مخلوق کی پرورش کرنے والا ہے۔ وہ اپنے بندے یعنی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو ایک ہی رات کے ایک حصے میں مکہ مکرمہ کی مسجد سے بیت المقدس کی مسجد تک لے گیا جو حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے زمانے سے انبیاء کرام علیہم السلام کا مرکز رہا ۔ اس لئے تمام انبیاء علیہم السلام وہیں آپ کے پاس جمع کئے گئے اور آپ نے وہیں انہی کی جگہ ان کی امامت کی۔جو دلیل ہے اس امر کی کہ امام اعظم رئیس مقدم آپ ہی ہیں۔ الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ جسکے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے اسلئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں اس مسجد کے اردگرد ہم نے برکت دے رکھی ہے پھل پھول کھیت اور باغات وغیرہ سے یہ اس لئے کہ ہمارا ارادہ اپنے اس محترم رسول ﷺ کو اپنی زبردست نشانیاں دکھانے کا تھا جو آپﷺ نے اس رات ملاحظہ فرمائیں ۔ ِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ یقیناً اللہ تعالیٰ خوب سننے دیکھنے والا ہے۔ (۱) اللہ تعالیٰ اپنے مؤمنوں اور کافروں کی یقین والوں اور منکروں کی باتیں سننے والا ہے اور سب کو دیکھ رہا ہے۔ ہر ایک کو وہی دے گا جس کا وہ مستحق ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ سر گزشت معراج معراج کی بابت بہت سی حدیثیں ہیں جو اب بیان ہو رہی ہیں۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو جس رات مسجد حرام سے بیت المقدس کی مسجد تک پہنچایا گیا اس رات آپ زمزم اور مقام ابراہیم کے درمیان تھے کہ جبرئیل ؑ دائیں اور میکائیل بائیں سے آپ کو اڑا لے گئے۔ یہاں تک کہ آپ آسمان کی بلندیوں تک پہنچے۔ لوٹتے ہوئے آپ نے ان کی تسبیحیں مع اور تسبیحوں کے سنیں یہ روایت اسی سورت کی آیت تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْأَرْضُ وَمَنْ فِيهِنَّ (۴۴) کی تفسیر میں آئے گی۔ مسند میں ہے کہ امیر المؤمنین حضرت عمر بن خطابؓ جابیہ میں تھے۔ بیت المقدس کی فتح کا ذکر ہوا۔ آپ نے حضرت کعبؓ سے پوچھا کہ تمہارے خیال میں مجھے وہاں کس جگہ نماز پڑھنی چاہئے۔ انہوں نے فرمایا مجھ سے پوچھتے ہو تو میں تو کہوں گا کہ صخرہ کے پیچھے نماز پڑھے تا کہ سارا بیت المقدس آپ کے سامنے رہے۔ آپ نے فرمایا تم نے وہی یہودیت کی مشابہت کی میں اس جگہ نمازپڑھوں گا جہاں رسول اللہﷺ نے پڑھی ہے پس آپ نے آگے بڑھ کر قبلے کی طرف نماز ادا کی بعد از ادائے نماز آپ نے صخرہ کے آس پاس سے تمام کوڑا سمیٹا اور اپنی چادر میں باندھ کر باہر پھینکنا شروع کیا اور اوروں نے بھی آپ کا ہاتھ بڑایا۔ پس آپ نے نہ تو صخرہ کی ایسی تعظیم کی جیسے یہود کرتے تھے کہ نماز بھی اسی کے پیچھے پڑھتے تھے بلکہ اسی کو قبلہ بنا رکھا تھا۔ چونکہ حضرت کعب رحمۃ اللہ عیہ بھی اسلام سے پہلے یہودی تھے اسی لئے آپ نے ایسی رائے پیش کی تھی جسے خلیفۃ المسلمین نے ٹھکرا دیا اور نہ آپ نے نصرانیوں کی طرح صخرہ کی اہانت کی کہ انہوں نے تو اسے کوڑا کرکٹ ڈالنے کی جگہ بنا رکھا ۔ بلکہ آپ نے خود اس کے آس پاس سے کوڑا اٹھا کر پھینکا یہ بالکل اس حدیث کے مشابہ ہے جس میں ہے کہ نہ تو قبروں پر بیٹھو نہ ان کی طرف نماز ادا کرو۔ ایک طویل روایت معراج کی بابت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے غرب والی بھی مروی ہے: اس میں ہے کہ جبرائیل اور میکائیل علیہ السلام آپ کے پاس آئے۔ جبرائیل علیہ السلام نے میکائیل علیہ السلام سے کہا کہ کہ میرے پاس زمزم کے پانی کا طشت بھر لاؤ کہ میں ان کے دل کو پاک کروں اور ان کے سینے کو کھول دوں۔ پھر آپ کا پیٹ چاک کیا اور اسے تین بار دھویا اور تینوں مرتبہ حضرت میکائیل کے لائے ہوئے پانی کے طشت سے اسے دھویا اور آپ کے سینے کو کھول دیا سب غل و غش دور کر دیا اور علم و حلم ایمان و یقین سے اس پر کیا اسلام میں بھر دیا اور آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت لگا دی ۔ اور ایک گھوڑے پر بٹھا کر آپ کو حضرت جبرائیل علیہ السلام لے چلے دیکھا ایک قوم ہے ادھر کھیتی کاٹتی ہے ادھر بڑھ جاتی ہے ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایا یہ اللہ کی راہ کے مجاہد ہیں جن کی نیکیاں سات سات سو تک بڑھتی ہیں جو خرچ کریں اس کا بدلہ پاتے ہیں اللہ تعالیٰ بہترین رزاق ہے ۔ پھر آپ کا گزر اس قوم پر ہوا جن کے سر پتھروں سے کچلے جار ہے تھے ہر بار ٹھیک ہو جاتے اور پھر کچلے جاتے دم بھر کی انہیں مہلت نہ ملتی تھی آپ ﷺ نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا یہ وہ لوگ ہیں کہ فرض نمازوں کے وقت ان کے سر بھاری ہو جایا کرتے تھے ۔ ؟ پھر کچھ لوگوں کو میں نے دیکھا کہ ان کے آگے پیچھے دھجیاں لٹک رہی ہیں اور اونٹ اور جانوروں کی طرح کانٹوں دار جہنمی درخت چر چگ رہے اور جہنم کے پتھر اور انگارے کھا رہے ہیں میں نے کہا یہ کیسے لوگ ہیں ؟ فرمایا اپنے مال کی زکوٰۃ نہ دینے والے ۔ اللہ نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ یہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے ۔ پھر میں نے ایسے لوگوں کو دیکھا کہ ان کے سامنے ایک ہنڈیا میں تو صاف ستھرا گوشت ہے دوسری میں خبیث سڑا بھسا گندہ گوشت ہے یہ اس اچھے گوشت سے تو روک دئے گئے ہیں اور اس بدبو دار بد مزہ سڑے ہوئے گوشت کو کھا رہے ہیں میں نے سوال کیا یہ کس گناہ کے مرتکب ہیں ؟ جواب ملا کہ یہ وہ مرد ہیں جو اپنی حلال بیویوں کو چھوڑ کر حرام عورتوں کے پاس رات گزارتے تھے ۔ اور وہ عورتیں ہیں جو اپنے حلال خاوند کو چھوڑ کر اوروں کے ہاں رات گزارتی تھیں ۔ پھر آپ نے دیکھا کہ راستے میں ایک لکڑی ہے کہ ہر کپڑے کو پھاڑ دیتی ہے اور ہر چیز کو زخمی کر دیتی ہے ۔ پوچھا یہ کیا ؟ فرمایا یہ آپ کے ان اُمتیوں کی مثال ہے جو راستے روک کر بیٹھ جاتے ہیں پھر اس آیت کو پڑھا: وَلَا تَقْعُدُوا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوعِدُونَ وَتَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِهِ وَتَبْغُونَهَا عِوَجًا اور تم سڑکوں پر اس غرض سے مت بیٹھا کرو کہ اللہ پر ایمان لانے والوں کو دھمکیاں دو اور اللہ کی راہ سے روکو اور اس میں کجی کی تلاش میں لگے رہو (۷:۸۶) پھر دیکھا کہ ایک شخص بہت بڑا ڈھیر جمع کئے ہوئے ہے جسے اٹھا نہیں سکتا پھر بھی وہ اور بڑھا رہا ہے ۔ پوچھا جبرائیل علیہ السلام یہ کیا ہے ؟ فرمایا یہ آپ کی اُمت کا وہ شخص ہے جس کے اوپر لوگوں کے حقوق اس قدر ہیں کہ وہ ہر گز ادار نہیں کر سکتا تاہم وہ اور حقوق چڑھا رہا ہے اور امانتیں لئے جا رہا ہے ۔ پھر آپ نے ایک جماعت کو دیکھا جن کی زبان اور ہونٹ لوہے کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے ہیں ادھر کٹے ، ادھر درست ہو گئے ، پھر کٹ گئے ، یہی حال برابر جاری ہے ۔ پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایا یہ فتنے کے واعظ اور خطیب ہیں ۔ پھر دیکھا کہ ایک چھوٹے سے پتھر کے سوارخ میں سے ایک بڑا بھاری بیل نکل رہا ہے پھر وہ لوٹنا چاہتا ہے لیکن نہیں جا سکتا ا۔ پوچھا جبرائیل علیہ السلام یہ کیا ہے ؟ فرمایا یہ وہ شخص ہے جو کوئی بڑا بول بولتا تھا پھر اس پر نادم تو ہوتا تھا لیکن لوٹا نہیں سکتا تھا۔ پھر آپ ایک وادی میں پہنچے وہاں نہایت نفیس خوش گوار ٹھنڈی ہوا اور دل خوش کن معطر خوشبودار راحت و سکون کی مبارک صدائیں سن کر آپ نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا یہ جنت کی آواز ہے وہ کہہ رہی ہے کہ یا اللہ مجھ سے اپنا وعدہ پورا کر ۔ میرے بالا خانے ، ریشم ، موتی ، مونگے ، سونا ، چاندی ، جام ، کٹورے اور پانی ، دودھ ، شراب وغیر نعمتیں بہت زیادہ ہو گئیں ۔ اسے اللہ کی طرف سے جواب ملا کہ ہر ایک مسلمان مؤمن مرد و عورت جو مجھے اور میرے رسولوں کو مانتا ہو نیک عمل کرتا ہو میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا ہو میرے برابر کسی کو نہ سمجھتا ہو وہ سب تجھ میں داخل ہوں گے ۔ سن جس کے دل میں میرا ڈر ہے وہ ہر خوف سے محفوظ ہے ۔ جو مجھ سے سوال کرتا ہم وہ محروم نہیں رہتا ۔ جو مجھے قرض دیتا ہے میں اسے بدلہ دیتا ہوں ، جو مجھ پر توکل کرتا ہم میں اسے کفایت کرتا ہوں ، میں سچا معبود ہوں میرے سوا اور کوئی معبود نہیں ۔ میرے وعدے خلاف نہیں ہوتے مؤمن نجات یافتہ ہیں اللہ تعالیٰ بابرکت ہے جو سب سے بہتر خالق ہے ۔ یہ سن کر جنت نے کہا بس میں خوش ہو گئی ۔ پھر آپ ایک دوسری وادی میں پہنچے جہاں نہایت بری اور بھیانگ مکروہ آوازیں آ رہی تھیں اور بدبو تھی آپ نے اس کی بابت بھی جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا انہوں نے بتلایا کہ یہ جہنم کی آواز ہے وہ کہہ رہی ہے کہ اے اللہ مجھ سے اپنا وعدہ کر اور مجھے وہ دے میرے طوق و زنجیر ، میرے شعلے اور گرمائی ، میرا تھور اور لہو پیپ میرے عذاب اور سزا کے سامان بہت وافر ہو گئے ہیں میرا گہراؤ بہت زیادہ ہے میری آگ بہت تیز ہے یہ سن کر جہنم نے اپنی رضا مندی ظاہر کی ۔ آپ پھر چلے یہاں تک کہ بیت المقدس پہنچے اتر کر صخرہ میں اپنے گھوڑے کو باندھا اندر جا کر فرشتوں کے ساتھ نماز ادا کی فراغت کے بعد انہوں نے پوچھا کہ جبرائیل یہ آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ انہوں نے کہا آپ کی طرف بھیجا گیا ؟ فرمایا ہاں ، سب نے مرحبا کہا کہ بہترین بھائی اور بہت ہی اچھے خلیفہ ہیں اور بہت اچھائی اور عزت سے آئے ہیں ۔ پھر آپ کی ملاقات نبیوں کی روحوں سے ہوئی سب نے اپنے پروردگار کی ثنا بیان کی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے اپنا خلیل بنایا اور مجھے بہت بڑا ملک دیا اور میرے اُمت کو ایسے فرمانبردار بنایا کہ ان کی اقتدا کی جاتی ہے ، اسی نے مجھے آگ سے بچا لیا اور اسے میرے لئے ٹھنڈک اور سلاُمتی بنا دی ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اللہ ہی کی مہربانی ہے کہ اس نے مجھ سے کلام کیا میرے دشمنوں کو ، آل فرعون کو ہلاک کیا ، ۔ بنی اسرائیل کو میرے ہاتھوں نجات دی میرے اُمت میں ایسی جماعت رکھی جو حق کی ہادی اور حق کے ساتھ عدل کرنے والی تھی ۔ پھر حضرت داؤد علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی ثنا بیان کرنی شروع کی کہ الحمد للہ اللہ نے مجھے عظیم الشان ملک دیا مجھے زبور کا علم دیا میرے لئے لوہا نرم کر دیا پہاڑوں کو مسخر کر دیا اور پرندوں کو بھی جو میرے ساتھ اللہ کی تسبیح کرتے تھے مجھے حکمت اور پر زور کلام عطا فرمایا ۔ پھر حضرت سلیمان علیہ السلام نے ثنا خوانی شروع کی کہ الحمد للہ اللہ نے ہواؤں کو میری تابع کر دیا اور شیاطین کو بھی کہ وہ میری فرمان کے ماتحت بڑے بڑے محلات اور نقشے اور برتن وغیر بناتے تھے ۔ اس نے مجھے جانوروں کی گفتگو کے سمجھنے کا علم فرمایا ۔ ہر چیز میں مجھے فضیلت دی ، انسانوں کے ، جنوں کے ، پرندوں کے لشکر میرں ماتحت کر دئے اور اپنے بہت سے مؤمن بندوں پر مجھے فضیلت دی اور مجھے وہ سلطنت دی جو میرے بعد کسی کے لائق نہیں اور وہ بھی ایسی جس میں پاکیزگی تھی اور کوئی حساب نہ تھا ۔ پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کرنی شروع کی کہ اس نے مجھے اپنا کلمہ بنایا اور میری مثال حضرت آدم علیہ السلام کی سی کی۔ جسے مٹی سے پیداکر کے کہہ دیا تھا کہ ہو جا اور وہ ہو گئے تھے اس نے مجھے کتاب و حکمت تورات انجیل سکھائی میں مٹی کا پرند بناتا پھر اس میں پھونک مارتا تو وہ بحکم الہٰی زندہ پرند بن کر اڑ جاتا ۔ میں بچپن کے اندھوں کو اور جذامیوں کو بحکم الہی اچھا کر دیتا تھا مردے اللہ کی اجازت سے زندہ ہو جاتے تھے مجھے اس نے اٹھا لیا مجھے پاک صاف کر دیا مجھے اور میری والدہ کو شیطان سے بچا لیا ہم پر شیطان کا کچھ دخل نہ تھا ، اب جناب رسول آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم سب نے اللہ کی تعریفیں بیان کر لیں اب میں کرتا ہوں ۔ اللہ ہی کے لئے حمد و ثنا ہے جس نے مجھے رحمت للعالمین بنا کر اپنی تمام مخلوق کے لئے ڈرانے اور خوشخبری دینے والا بنا کر بھیجا مجھ پر قرآن کریم نازل فرمایا ۔ جس میں ہر چیز کا بیان ہے میری اُمت کو تمام اور اُمتوں سے افضل بنایا جو کہ اوروں کی بھلائی کے لئے بنائی گئی ہے ۔ اسے بہترین اُمت بنایا انہی کو اول کی اور آخر کی اُمت بنایا ۔ میرا سینہ کھول دیا میرے بوچھ دور کر دئے میرا ذکر بلند کر دیا مجھے شروع کرنے والا اور ختم کرنے والا بنایا ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا انہی وجوہ سے آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سب سے افضل ہیں ۔ امام ابو جعفر رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں شروع کرنے والے آپ ہیں یعنی بروز قیامت شفاعت آپ ہی سے شروع ہو گی ، پھر آپ کے سامنے تین ڈھکے ہوئے برتن پیش کئے گئے ۔ پانی کے برتن میں سے آپ نے تھوڑا سا پی کر واپس کر دیا پھر دودھ کا برتن لے کر آپ نے پیٹ بھر کر دودھ پیا ۔ پھر شراب کا برتن لایا گیا تو آپ نے اس کے پینے سے انکار کر دیا کہ میں شکم سیر ہو چکا ہوں ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا یہ آپ کی اُمت پر حرام کر دی جانے والی ہے اور اگر آپ اسے پی لیتے تو آپ کی اُمت میں سے آپ کے تابعدار بہت ہی کم ہوتے ۔ پھر آپ کو آسمان کی طرف چڑھایا گیا دروازہ کھلوانا چاہا تو پوچھا گیا یہ کون ہیں ؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا محمد ہیں ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پوچھا گیا کیا آپ کی طرف بھیج دیا گیا ؟ فرمایا ہاں انہوں نے کہا اللہ تعالیٰ اس بھائی اور خلیفہ کو خوش رکھے یہ بڑے اچھے بھائی اور نہایت عمدہ خلیفہ ہیں اسی وقت دروازہ کھول دیا گیا ۔ آپ نے دیکھا کہ ایک شخص ہیں پوری پیدائش کے عام لوگوں کی طرح انکی پیدائش میں کوئی نقصان نہیں ان کے دائیں ایک دروازہ ہے جہاں سے خوشبو کی لپٹیں آ رہی ہیں اور بائیں جانب ایک دروازہ ہے جہاں سے خبیث ہوا آ رہی ہے داہنی طرف کے دروازے کو دیکھ کر ہنس دیتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں اور بائیں طرف کے دروازے کو دیکھ کر رو دیتے ہیں اور غمگین ہو جاتے ہیں میں نے کہا جبرائیل علیہ السلام یہ شیخ پوری پیدائش والے کون ہیں ؟ جن کی خلقت میں کچھ بھی نہیں گھٹا ۔ اور یہ دونوں دروازے کیسے ہیں ؟ جواب ملا کہ یہ آپ کے والد حضرت آدم علیہ السلام ہیں دائیں جانب جنت کا دروازہ ہے اپنی جنتی اولاد کو دیکھ کر خوش ہو کر ہنس دیتے ہیں اور بائیں جانب جہنم کا دروازہ ہے آب اپنی دوزخی اولاد کو دیکھ کر رو دیتے ہیں اور غمگین ہو جاتے ہیں ۔ پھر دوسرے آسمان کی طرف چڑھے اسی طرح کے سوال جواب کے بعد دروازہ کھلا وہاں آپ نے دو جوانوں کو دیکھا دریافت پر معلوم ہوا کہ یہ حضرت عیسیٰ بن مریم اور حضرت یحیٰی بن زکریا علیہما السلام ہیں یہ دونوں آپس میں خالہ زاد بھائی ہوتے ہیں ۔ پھر اسی طرح تیسرے آسمان پر پہنچے وہاں حضرت یوسف علیہ السلام کو پایا جنہیں حسن میں اور لوگوں پر وہی فضیلت تھی جو چاند کو باقی ستاروں پر ۔ پھر چوتھے آسمان پر اسی طرح پہنچے وہاں حضرت ادریس علیہ السلام کو پایا جنہیں اللہ تعالیٰ نے بلند مکان پر چڑھا لیا ہے پھر آپ پانچویں آسمان پر بھی انہی سوالات و جوابات کے بعد پہنچے دیکھا کہ ایک صاحب بیٹھے ہوئے ہیں ان کے پاس کچھ لوگ ہیں جو ان سے باتیں کر رہے ہیں پوچھا یہ کون ہیں ؟ جواب ملا کہ حضرت ہارون علیہ السلام ہیں جو اپنی قوم میں ہر دلعزیز تھے اور یہ لوگ بنی اسرائیل ہیں ۔ پھر اسی طرح چھٹے آسمان پر پہنچے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا آپ کے ان سے بھی آگے نکل جانے پر وہ رو دئے ، دریافت کرنے پر سبب یہ معلوم ہوا کہ نبی اسرائیل میری نسبت یہ سمجھتے تھے کہ تمام اولاد آدم میں اللہ کے پاس سب سے زیادہ بزرگ میں ہوں لیکن یہ ہیں میرے خلیفہ جو دنیا میں ہیں اور میں آخرت میں ہوں خیر صرف یہی ہوتے تو بھی چنداں مضائقہ نہ تھا لیکن ہر نبی کے ساتھ ان کی اُمت ہے ۔ پھر آپ اسی طرح ساتویں آسمان پر پہنچے وہاں ایک صاحب کو دیکھا جن کی داڑھی میں کچھ سفید بال تھے وہ جنت کے دروازے پر ایک کرسی لگائے بیٹھے ہوئے ہیں ان کے پاس کچھ اور لوگ بھی ہیں بعض کے چہرے تو روشن ہیں اور بعض کے چہروں پر کچھ کم چمک ہے بلکہ رنگ میں کچھ اور بھی ہے یہ لوگ اٹھے اور نہر میں ایک غوطہ لگایا جس سے رنک قدرے نکھر گیا پھر دوسری نہر میں نہائے کچھ اور نکھر گئے پھر تیسری میں غسل کیا بالکل روشن سفید چہرے ہو گئے ۔ آ کر دوسروں کے ساتھ مل کر بیٹھ گئے اور انہی جیسے ہو گئے ۔ آپ کے سوال پر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے بتلایا کہ یہ آپ کے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں روئے زمین پر سفید بال سب سے پہلے ان ہی کے نکلے یہ سفید منہ والے وہ ایماندار لوگ ہیں جو برائیوں سے بالکل بچے رہے اور جن کے چہروں کے رنگ میں کچھ کدورت تھی یہ وہ لوگ ہیں جن سے نیکیوں کے ساتھ کچھ بدیاں بھی سرزد ہو گئی تھیں ان کی توبہ پر اللہ تعالیٰ مہربان ہو گیا۔ اول نہر اللہ کی رحمت ہے ، دوسری نعمت ہے ، تیسری شراب طہور کی نہر ہے جو جنتیوں کی خاص شراب ہے ۔ پھر آپ سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے تو آپ سے کہا گیا کہ آپ ہی کی سنتوں پر جو پابندی کرے وہ یہاں تک پہچایا جاتا ہے اس کی جڑ سے پاکیزہ پانی کی صاف ستھرے دودھ کی لذیذ بےنشہ شراب کی اور صاف شہد کی نہریں جاری تھیں اس درخت کے سائے میں کوئی سوار اگر ستر سال بھی چلا جائے تاہم اس کا سایہ ختم نہیں ہوتا ۔ اس کا ایک ایک پتہ اتنا بڑا ہے کہ ایک ایک اُمت کو ڈھانپ لے ۔ اللہ تعالیٰ عز و جل کے نور نے اسے چاروں طرف ڈھک رکھا تھا اور پرند کی شکل کے فرشتوں نے اسے چھپا لیا تھا جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی محبت میں وہاں تھے ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ جل شانہ نے آپ سے باتین کیں فرمایا کہ مانگو کیا مانگتے ہو ؟ آپ نے گزارش کی کہ اے اللہ تو نے ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل بنایا اور انہیں بڑا ملک دیا ، موسیٰ علیہ السلام سے تونے باتیں کیں ، داؤد علیہ السلام کو عظیم الشان سلطنت دی اور ان کے لئے لوہا نرم کر دیا ، سلیمان علیہ السلام کو تو نے بادشاہت دی ، جنات انسان شیاطین ہوائیں ان کے تابع فرمان کیں اور وہ بادشاہت دی جو کسی کے لائق ان کے سوا نہیں ۔ عیسیٰ علیہ السلام کو تو نے تورات و انجیل سکھائی اپنے حکم سے اندھوں اور کوڑھیوں کو اچھا کرنے والا اور مردوں کو جلانے والا بنایا انہیں اور ان کی والدہ کو شیطان رجیم سے بچایا کہ اسے ان پر کوئی دخل نہ تھا میری نسبت فرمان ہو ۔ رب العالمین عز و جل نے فرمایا تو میرا خلیل ہے توراۃ میں میں نے تجھے خلیل الرحمٰن کا لقب دیا ہے تجھے تمام لوگوں کی طرف بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے ، تیرا سینہ کھول دیا ہے ، تیرا بوجھ اتار دیا ہے ، تیرا ذکر بلند کر دیا ہے جہاں میرا ذکر آئے وہاں تیرا ذکر بھی ہوتا ہے اور تیری اُمت کو میں نے سب اُمتوں سے بہتر بنایا ہے ۔ جو لوگوں کے لئے ظہور میں لائی گی ہے ۔ تیری اُمت کو بہترین اُمت بنایا ہے ، تیری ہی اُمت کو اولین اور آخرین بنایا ہے ۔ ان کا خطبہ جائز نہیں جب تک وہ تیرے بندے اور رسول ہونے کی شہادت نہ دے لیں ۔ میں نے تیری اُمت میں ایسے لوگ بنائے ہیں جن کے دل میں الکتاب ہے ۔ تجھے از روئے پیدائش سب سے اول کیا اور از روئے بعثت کے سب سے آخر کیا اور از روئے فیصلہ کے بھی سب سے اول کیا تجھے میں نے سات ایسی آیتیں دیں جو باربار دہرائی جاتی ہیں جو تجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں ملیں تجھے میں نے اپنے عرش تلے سے سورۃ بقرہ کے خاتمے کی آیتیں دیں جو تجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں میں نے تجھے کوثر عطا فرمائی اور میں نے تجھے اسلام کے آٹھ حصے دئے ۔ اسلام ، ہجرت ، جہاد ، نماز ، صدقہ ، رمضان کے روزے ، نیکی کا حکم ، برائی سے روک اور میں نے تجھے شروع کرنے والا اور ختم کرنے والا بنایا ۔ پس آپ فرمانے لگے مجھے میرے رب نے چھ باتوں کی فضیلت مرحمت فرمائی کلام کی ابتداء اور اس کی انتہا دی ۔ جامع باتیں دیں ۔ تمام لوکوں کی طرف خوشخبری دی نے والا اور آگاہ کرنے والا بنا کر بھیجا ۔ میرے دشمن مجھ سے مہینہ بھر کی راہ پر ہوں وہیں سے اس کے دل میں میرا رعب ڈال دیا گیا ۔ میرے لئے غنیمتیں حلال کی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال نہیں ہوئیں میرے لئے ساری زمین مسجد اور وضو بینائی گئی ۔ پھر آپ پر پچاس نمازوں کے فرض ہونے کا اور بہ مشورہ حضرت موسیٰ علیہ السلام تخفیف طلب کرنے کا اور آخر میں پانچ رہ جانے کا ذکر ہے۔ جیسے کہ اس سے پہلے گزر چکا ہے پس پانچ رہیں اور ثواب پچاس کا جس سے آپ بہت ہی خوش ہوئے۔ جاتے وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام سخت تھے اور آتے وقت نہایت نرم اور سب سے بہتر ۔ اور کتاب کی اس حدیث میں بھی ہے کہ اسی آیت سُبْحَانَ الَّذِى أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً کی تفسیر میں آپ نے یہ واقعہ بیان فرمایا یہ بھی واضح رہے کہ اس لمبی حدیث کا ایک راوی ابو جعفر رازی بظاہر حافظہ کے کچھ ایسے اچھے نہیں معلوم ہوتے اس کے بعد الفاظ میں سخت غرابت اور بہت زیادہ نکارت ہے ۔ انہیں ضعیف بھی کہا کیا ہے اور صرف انہی کی روایت والی حدیث قابل توجہ ہے ۔ ایک اور بات یہ ہے کہ خواب والی حدیث کا کچھ حصہ بھی اس میں آگیا ہے ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ بہت سی اجادیث کا مجموعہ ہو یا خواب یا معراج کے سوا کم واقعہ کی اس میں روایت ہو ۔ واللہ اعلم ۔ بخاری مسلم کی ایک روایت میں: آپ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کا حلیہ بیان کرنا وغیرہ بھی مروی ہے ۔ صحیح مسلم کی حدیث میں حطیم میں آپ سے بیت المقدس کے سوالات کئے جانے اور پہر اس کے ظاہر ہو جانے کا واقعہ بھی ہے ، اس میں بھی ان تینوں نبیوں سے ملاقات کرنے کا اور ان کے حلیہ بیان ہے اور یہ بھی ہے کہ آپ نے انہیں نماز میں کھڑا پایا ۔ آپ نے مالک خازن جہنم کو بھی دیکھا اور انہوں نے ہی ابتدء آپ سے سلام کیا ۔ بیہقی وغیرہ میں کئی ایک صحابہ علیہ السلام سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت اُم ہانی کے مکان پر سوئے ہوئے تھے آب عشا کی نماز سے فارغ ہو گئے تھے وہیں سے آپ کو معراج ہوئی ۔ پھر امام حاکم نے بہت لمبی حدیث بیان فرمائی ہے جس میں درجوں کا اور فرشتوں وغیرہ کا ذکر ہے اللہ کی قدرت سے تو کوئی چیز بعید نہیں بشرطیکہ وہ روایت صحیح ثابت ہو جائے ۔ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ اس روایت کو بیان کر کے فرماتے ہیں کہ مکے شریف سے بیت المقدس تک جانے اور معراج کے بارے میں اس حدیث میں پوری کفایت ہے لیکن اس راویت کو بہت ائمہ حدیث نے مرسل بیان کیا ہے واللہ اعلم ۔ اب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی روایت سنئے : بیہقی میں ہے کہ جب صبح کے وقت لوگوں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا ذکر کیا تو بہت سے لوگ مرتد ہو گئے جو اس سے پہلے با ایمان اور تصدیق کرنے والے تھے ، پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس ان کا جانا اور آپ کا سچا ماننا اور صدیق لقب پانا مروی ہے خود حضرت اُم ہانی سے راویت ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج میرے ہی مکان سے کرائی گئ ہے اس رات آپ نماز عشاء کے بعد میرے مکان پر آرام فرما تھے ۔ آپ بھی سو گئے اور ہم سب بھی ۔ صبح سے کجھ ہی پہلے ہم نے حضور علیہ السلام کو جگایا ۔ پھر آپ کے ساتھ ہی ہم نے صبح کی نماز ادا کی تو آپ نے فرمایا ام ہانی میں نے تمہارے ساتھ ہی عشاء کی نماز ادا کی اور اب صبح کی نماز میں بھی تمہارے ساتھ ہی ہوں اس درمیان میں اللہ تعالیٰ نے مجھے بیت المقدس پہنچایا اور میں نے وہاں نماز بھی پڑھی ۔ ایک راوی کلبی متروک ہے اور بالکل ساقط ہے لیکن اسے ابویعلی میں اور سند سے خوب تفصیل سے روایت کیا ہے ۔ طبرانی میں حضرت ام ہانی علیہ السلام سے منقول ہے : حضور صلی اللہ علیہ وسلم شب معراج میرے ہاں سوئے ہوئے تھے میں نے رات کو آپ کی ہر چند تلاش کی لیکن نہ پایا ڈر تھا کہ کہیں قریشیوں نے کوئی دھوکا نہ کیا لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور میرا ہاتھ تھام کر مجھے لے چلے دروازے پر ایک جانور تھا جو خچر سے چھوٹا اور گدھے سے اونچا تھا مجھے اس پر سوار کیا پھر مجھے بیت المقدس پہنچایا ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیکھایا وہ اخلاق میں اور صورت شکل میں بالکل میرے مشابہ تھے۔ حضرت موسٰی علیہ السلام کو دکھایا لانبے قد کے سیدھے بالوں کے ایسے تھے جیسے ازدشنوہ کے قبیلے کے لوگ ہوا کرتے ہیں۔ اسی طرح مجھے حضرت عیسٰی علیہ السلام کو بھی دکھایا درمیانہ قد سفید سرخی مائل رنگ بالکل ایسے جیسے عروہ بن مسعود ثقفی ہیں ۔ دجال کو دیکھا ایک آنکھ اس کی بالکل مٹی ہوئی تھی ۔ ایسا تھا جیسے قطن بن عبد العزی ۔ یہ فرما کر اچھا اب میں جاتا ہوں جو کچھ دیکھا ہے وہ قریش سے بیان کرتا ہوں ۔ میں نے آپ کا دامن تھام لیا اور عرض کیا للہ آپ اپنی قوم میں اس خواب کو بیان نہ کریں وہ آپ کو جھٹلائیں گے آپ کی بات ہرگز نہ مانیں گے اور اگر بس چلا تو آپ کی بے ادبی کریں گے۔ لیکن آپ نے جھٹکا مار کر اپنا دامن میرے ہاتھ سے چھڑا لیا اور سیدھے قریش کے مجمع میں پہنچ کر ساری باتیں بیان فرما دیں ۔ جبیر من مطعم کہنے لگا بس حضرت آج ہمیں معلوم ہو گیا اگر آپ سچے ہوتے تو ایسی بات ہم میں بیٹھ کر نہ کہتے۔ ایک شخص نے کہا کیوں حضرت راستے میں ہمارا فلاں قافلہ بھی ملا تھا ؟ آپ نے فرمایا ہاں اور ان کا ایک اونٹ کھو گیا تھا جس کی تلاش کر رہے تھے ۔ کسی نے کہا اور فلاں قبیلے والوں کے اونٹ بھی راستے میں ملے ؟ آپ نے فرمایا وہ بھی ملے تھے فلاں جگہ تھے ان میں ایک سرخ رنگ اونٹنی تھے جس کا پاؤں ٹوٹ کیا تھا ان کے پاس ایک بڑے پیالے میں پانی تھا ۔ جسے میں نے بھی پیا ۔ انہوں نے کہا اچھا ان کے اونٹوں کی گنتی بتاؤ ان میں چرواہے کون کون تھے یہ بھی بتاؤ ؟ اسی وقت اللہ تعالیٰ نے قافلہ آپ کے سامنے کر دیا آپ نے ساری گنتی بھی بتا دی اور چرواہوں کے نام بھی بتا دئیے ایک چرواہا ان میں ابن ابی قحافہ تھا اور یہ بھی فرما دیا کہ کل صبح کو وہ ثنیہ پہنچ جائیں گے ۔ چنانچہ اس وقت اکثر لوگ بطور آزمائش ثنیہ جا پہنچے دیکھا کہ واقعی قافلہ آ گیا ان سے پوچھا کہ تمہارا اونٹ گم ہو گیا تھا ؟ انہوں نے کہا درست ہے گم ہو گیا تھا ۔ دوسرے قافلے والوں سے پوچھا تمہاری کسی سرخ رنگ اونٹنی کا پاؤں ٹوٹ گیا ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں یہ بھی صحیح ہے ۔ پوچھا کیا تمہارے پاس بڑا پیالہ پانی کا بھی تھا ۔ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ہاں اللہ کی قسم اسے تو میں نے خود رکھا تھا اور ان میں سے نہ کسی نے اسے پیا نہ وہ پانی گرایا گیا ۔ بیشک محمد صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں ۔ یہ آپ پر ایمان لائے اور اس دن سے ان کا نام صدیق رکھا گیا ۔ فصل ان تمام احادیث کی واقفیت کے بعد جن میں صحیح بھی ہیں حسن بھی ہیں ضعیف بھی ہیں ۔ کم از کم اتنا تو ضرور معلوم ہو گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مکے شریف سے بیت المقدس تک لے جانا ہوا ۔ اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ یہ صرف ایک ہی مرتبہ ہوا ہے ۔ گو راویوں کی عبارتیں اس باب میں مختلف الفاظ سے ہیں۔ گو ان میں کمی بیشی بھی ہے یہ کوئی بات نہیں اور سوائے انبیاء علیہم السلام کے خطا سے پاک ہے کون ؟ بعض لوگوں نے ہر ایسی روایت کو ایک الگ واقعہ کہا جاتا ہے اور اس کے قائل ہوئے ہیں کہ یہ وافعہ کئی بار ہوا لیکن یہ لوگ بہت دور نکل گئے اور بالکل انوکھی بات کہی اور نہ جانے کی جگہ چلے گئے اور پہر بھی مطلب حاصل نہ ہوا ۔ متاخرین میں سے بعض نے ایک اور ہی توجیہہ پیش کی ہے اور اس پر انہیں بڑا ناز ہے وہ یہ کہ ایک مرتبہ تو آپ کو مکے سے صرف بیت المقدس تک کی سیر ہوئی ایک مرتبہ مکے سے آسمانوں پر چڑھائے گے اور ایک مرتبہ مکے سے بیت المقدس اور بیت المقدس سے آسمانوں تک ۔ لیکن یہ قول بھی بعید از قیاس اور بالکل غریب ہے ۔ سلف میں سے تو اس کا کوئی قائل نہیں اگر ایسا ہوتا تو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود ہی اسے کھول کر بیان فرما دیتے اور راوی آپ سے اس کے بار بار ہونے کی روایت بیان کرتے ۔ بقول حضرت زہری معراج کا یہ واقعہ ہجرت سے ایک سال پہلے کا ہے ۔ عروہ بھی یہی کہتے ہیں ۔ سدی کہتے ہیں چھ ماہ پہلے کا ہے ۔ لہذا حق بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جاگتے میں نہ کہ خواب میں مکہ شریف سے بیت المقدس تک کی اسرا کرائی گئی اس وقت آپ براق پر سوار تھے ۔ مسجد قدس کے دروازے پر آپ نے براق کو باندھا وہاں جا کر اس کے قبلہ رخ تحیۃ المسجد کے دور پر دو رکعت نماز ادا کی ۔ پھر معراج لائے گئے جو درجوں والی ہے اور بطور سیڑھی کے ہے اس سے آپ آسمان دنیا پر چڑھائے گئے پھر ساتوں آسمانوں پر پہنچائے گئے ہر آسمان کے مقربین الہی سے ملاقاتیں ہوئیں انبیاء علیہم السلام سے ان کے منازل و درجات کے مطابق سلام علیک ہوئی چھٹے آسمان میں کلیم اللہ علیہ السلام سے اور ساتوں میں خلیل اللہ علیہ السلام سے ملے پھر ان سے بھی آگے بڑھ گئے ۔ صلی اللہ علیہ وسلم وعلی سائر الانبیاء علیہم الصلوۃ و السلام ۔ یہاں تک کہ آپ مستویٰ میں پہنچے جہاں قضا و قدر کی قلموں کی آوازیں آپ نے سنیں ۔ سدرۃالمنتہیٰ کو دیکھا جس پر عظمت ربی چھا رہی تھی ۔ سونے کی ٹڈیاں اور طرح طرح کے رنگ وہاں پر نظر آ رہے تھے فرشتے چاروں طرف سے اسے گھیرے ہوئے تھے ۔ وہیں پر آپ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو ان کی اصلی صورت میں دیکھا جن کے چھ سو پر تھے ۔ وہیں آپ نے رفرف سبز رنگ کا دیکھا ۔ جس نے آسمان کے کناروں کو ڈھک رکھا تھا ۔ بیت المعمور کی زیارت کی جو خلیل اللہ علیہ و صلوات اللہ کے زمینی کعبے کے ٹھیک اوپر آسمانوں پر ہے ، یہی آسمانی کعبہ ہے ۔ خلیل اللہ علیہ السلام اس سے ٹیک لگائے بیٹھے ہوئے تھے ۔ اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے عبادت ربانی کے لئے جاتے ہیں مگر جو آج گئے پھر ان کی باری قیامت تک نہیں آتی ۔ آپ نے جنت دوزخ دیکھی ، یہیں اللہ تعالیٰ رحمٰن و رحیم نے پچاس نمازیں فرض کر کے پھر تخفیف کر دی ۔ اور پانچ رکھیں جو خاص اس کی رحمت تھی ۔ اس سے نماز کی بزرگی اور فضیلت بھی صاف طور پر ظاہر ہے پھر آپ واپس بیت المقدس کی طرف اترے اور آپ کے ساتھ ہی تمام انبیاء علیہم السلام بھی اترے وہاں آپ نے ان سب کو نماز پڑھائی جب کہ نماز کا وقت ہو گیا ممکن ہے وہ اس دن کی صبح کی نماز ہو ۔ ہاں بعض حضرات کا قول ہے کہ اماُمت انبیاء آپ نے آسمانوں میں کی ۔ لیکن صحیح روایات سے بظاہر یہ واقعہ بیت المقدس کا معلوم ہوتا ہے ۔ گو بعض روایتوں میں یہ بھی آیا ہے کہ جاتے ہوئے آپ نے یہ نماز پڑھائی لیکن ظاہر یہ ہے کہ آپ نے واپسی میں اماُمت کرائی ۔ اس کی ایک دلیل تو یہ ہے کہ جب آسمانوں پر انبیاء علیہم السلام سے آپ کی ملاقات ہوتی ہے تو آپ ہر ایک کی بابت حضرت جبرائیل علیہ السلام سے پوچھتے ہیں کہ یہ کون ہیں ؟ اگر بیت المقدس میں ہی ان کی اماُمت آپ نے کرائی ہوئی ہوتی تو اب چنداں اس سوال کی ضرورت نہیں رہتی دوسرے یہ کہ سب سے پہلے اور سب سے بڑی غرض تو بلندی پر جناب باری تعالیٰ کے حضور میں حاضر ہونا تھا تو بظاہر یہی بات سب پر مقدم تھی ۔ جب یہ ہو چکا اور آپ پر اور آپ کی اُمت پر اس رات میں جو فریضہ نماز مقرر ہونا تھا تو بھی ہو چکا ، اب آپ کو اپنے بھائیوں کے ساتھ جمع ہونے کا موقعہ ملا اور ان سب کے سامنے آپ کی بزرگی اور فضیلت ظاہر کرنے کے لئے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے اشارے سے آپ نے امام بن کر انہیں نماز پڑھائی ۔ پھر بیت المقدس سے بذریعہ براق آپ واپس رات کے اندھیرے اور صبح کے کچھ ہی اجالے کے وقت مکہ شریف پہنچ گئے ۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم اب یہ جو مروی ہے کہ آپ کے سامنے دودھ اور شہد اور شراب یا دودھ اور پانی پیش کیا گیا یا چاروں ہی چیزیں اس کی بابت روایتوں میں یہ بھی ہے کہ یہ واقعہ بیت المقدس کا ہے اور یہ بھی کہ یہ واقعہ آسمانوں کا ہو ، لیکن یہ ہو سکتا ہے کہ دونوں ہی جگہ یہ چیز آپ کے سامنے پیش ہوئی ہو اس لئے کہ جیسے کسی آنے والے کے سامنے بطور مہمانی کے کچھ چیز رکھی جاتی ہے اسی طرح یہ تھا واللہ اعلم ۔ پھر اس میں بھی لوگوں نے اختلاف کیا ہے کہ معراج آپ کے جسم و روح سمیت کرائی گئی تھی یا صرف روحانی طور پر ؟ اکثر علماء کرام تو یہی فرماتے ہیں کہ جسم و روح سمیت آپ کو معراج ہوئی اور ہوئی بھی جاگتے میں نہ کہ بطور خواب کے ۔ ہاں اس کا انکار نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے خواب میں یہی چیزیں دکھائی گئی ہوں ۔ آپ خواب میں جو کچھ ملاحظہ فرماتے اسے اسی طرح پھر واقعہ میں جاگتے ہوئے بھی ملاحظہ فرما لیتے ۔ اس کی بڑی دلیل ایک تو یہ ہے کہ اس کے بعد کی بات کوئی بڑی اہم ہے ۔ اگر یہ واقعہ خواب کا مانا جائے تو خواب میں ایسی باتیں دیکھ لینا اتنا اہم نہیں کہ اس کو بیان فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ پہلے سے بطور احسان اور بطور اظہار قدرت اپنی تسبیح بیان کرے ۔ پھر اگر یہ واقعہ خواب کا ہی تھا تو کفار اس طرح جلدی سے آپ کی تکذیب نہ کرتے ایک شخص اپنا خواب اور خواب میں دیکھی ہوئی عجیب چیزیں بیان کر رہا ہے یا کرے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ بھڑ بھڑا کر آ جائیں اور سنتے ہی سختی سے انکار کرنے لگیں ۔ پھر جو لوگ کہ اس سے پہلے آپ پر ایمان لا چکے تھے اور آپ کی رسالت کو قبول کر چکے تھے کیا وجہ ہے کہ وہ واقعہ معراج کو سن کر اسلام سے پھر جاتے ہیں ؟ اس سے بھی ظاہر ہے کہ آپ نے خواب کا قصہ بیان نہیں فرمایا تھا پھر قرآن کے لفظ بعبدہ پر غور کیجئے ۔ عبد کا اطلاق روح اور جسم دونوں کے مجموعے پر آتا ہے ۔ پھر اسری بعبدہ لیلا کا فرمانا اس چیز کو اور صاف کر دیتا ہے کہ وہ اپنے بندے کو رات کے تھوڑے سے حصے میں لے گیا ۔ اس دیکھنے کو لوگوں کی آزمائش کا سبب آیت وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ (۱۷:۶۰) میں فرمایا گیا ہے ۔ اگر یہ خواب ہی تھا تو اس میں لوگوں کی ایسی بڑی کون سی آزمائش تھی جسے مستقل طور پر بیان فرمایا جاتا ؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: یہ آنکھوں کا دیکھنا تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھایا گیا (بخاری) خود قرآن فرماتا ہے مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَى ((۵۳:۱۱نہ تو نگاہ بہکی نہ بھٹکی ۔ ظاہر ہے کہ بصر یعنی نگاہ انسان کی ذات کا ایک وصف ہے نہ کہ صرف روح کا ۔ پھر براق کی سواری کا لایا جانا اور اس سفید چمکیلے جانور پر سوار کرا کر آپ کو لے جانا بھی اسی کی دلیل ہے کہ یہ واقعہ جاگنے کا اور جسمانی ہے ورنہ صرف روح کے لئے سواری کی ضرورت نہیں واللہ اعلم ۔ اور لوگ کہتے ہیں کہ یہ معراج صرف روحانی تھی نہ کہ جسمانی ۔ چنانچہ محمد بن اسحاق لکھتے ہیں کہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان کا یہ قول مروی ہے: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ جسم غائب نہیں ہوا تھا بلکہ روحانی معراج تھی ۔ اس قول کا انکار نہیں کیا گیا کیونکہ حسن رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں آیت وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ (۱۷:۶۰) اتری ہے ۔ اور حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام کی نسبت خبر دی ہے کہ انہوں نے فرمایا میں نے خواب میں تیرا ذبح کرنا دیکھا ہے اب تو سوچ لے کیا دیکھتا ہے ؟ پھر یہی حال رہا پس ظاہر ہے کہ انبیاء علیہم السلام پر وحی جاگتے میں بھی آتی ہے اور خواب میں بھی ۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ میری آنکھیں سو جاتی ہیں اور دل جاگتا رہتا ہے ۔ واللہ اعلم اس میں سے کون سی سچی بات تھی؟ آپ گئے اور آپ نے بہت سی باتیں دیکھیں جس حال میں بھی آپ تھے سوتے یا جاگتے سب حق اور سچ ہے ۔ یہ تو تھا محمد بن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کا قول ۔ امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی بہت کچھ تردید کی ہے اور ہر طرح اسے رد کیا ہے اور اسے خلاف ظاہر قرار دیا ہے کہ الفاظ قرآنی کے سراسر خلاف یہ قول ہے پھر اس کے خلاف بہت سی دلیلیں پیش کی ہیں جن میں سے چند ہم نے بھی اوپر بیان کر دی ہیں ۔ واللہ اعلم ۔ فائدہ ایک نہایت عمدہ اور بہت زبردست فائدہ اس بیان میں اس روایت سے ہوتا ہے جو حافظ ابو نعیم اصبہانی کتاب دلائل النبوۃ میں لائے ہیں کہ جب وحیہ بن خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیصر روم کے پاس بطور قاصد کے اپنے نامہ مبارک کے ساتھ بھیجا ۔ یہ گئے ، پہنچے اور عرب تاجروں کو جو ملک شام میں تھے ہرقل نے جمع کیا ان میں ابو سفیان صخر بن حرب تھا اور اس کے ساتھی مکے کے دوسرے کافر بھی تھے پھر اس نے ان سے بہت سے سوالات کئے جو بخاری و مسلم وغیرہ میں مذکور ہیں ۔ ابو سفیان کی اول سے آخر تک یہی کوشش رہی کہ کسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی برائی اور حقارت اس کے سامنے کرے تاکہ بادشاہ کے دل کا میلان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہ ہو وہ خود کہتا ہے کہ میں صرف اس خوف سے غلط باتیں کرنے اور تہمتیں دھرنے سے باز رہا کہ کہیں میرا کوئی جھوٹ اس پر کھل نہ جائے پھر تو یہ میری بات کو جھٹلا دے گا اور بڑی ندامت ہو گی ۔ اسی وقت دل میں خیال آ گیا اور میں نے کہا بادشاہ سلامت سنئے میں ایک واقعہ بیان کروں جس سے آپ پر یہ بات کھل جائے گی کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) بڑے جھوٹے آدمی ہیں سنیے ایک دن وہ کہنے لگا کہ اس رات وہ مکہ سے چلا اور آپ کی اس مسجد میں یعنی بیت المقدس کی مسجد قدس میں آیا اور پھر واپس صبح سے پہلے مکہ پہنچ گیا ۔ میری یہ بات سنتے ہی بیت المقدس کا لاٹ پادری جو شاہ روم کی اس مجلس میں اس کے پاس پڑی عزت سے بیٹھا تھا فوراً ہی بول اٹھا کہ یہ بالکل سچ ہے مجھے اس رات کا علم ہے ۔ قیصر نے تعجب خیز نظر سے اس کی طرف دیکھا اور ادب سے پوچھا جناب کو کیسے معلوم ہوا؟ اس نے کہا سنئے میری عادت تھی اور یہ کام میں نے اپنے متعلق کر رکھا تھا کہ جب تک مسجد شریف کے تمام دروازے اپنے ہاتھ سے بند نہ کروں سوتا نہ تھا ۔ اس رات میں دروازے بند کرنے کو کھڑا ہوا سب دروازے اچھی طرح بند کر دئے لیکن ایک دروازہ مجھ سے بند نہ ہو سکا ۔ میں نے ہر چند زور لگایا لیکن کواڑ اپنی جگہ سے سرکا بھی نہیں میں نے اسی وقت اپنے آدمیوں کو آواز دی وہ آئے ہم سب نے مل کر طاقت لگائی لیکن سب کے سب ناکام رہے ۔ بس یہ معلوم ہو رہا تھا کہ گویا ہم کسی پہاڑ کو اس کی جگہ سے سرکانا چاہتے ہیں لیکن اس کا پہیہ تک بھی تو نہیں ہلا ۔ میں نے بڑھئی بلوائے انہوں نے بہت ترکیبیں کیں، کوششیں کیں لیکن وہ بھی ہار گئے اور کہنے لگے صبح پر رکھئے چنانچہ وہ دروازہ اس شب یونہی رہا دونوں کواڑ بالکل کھلے رہے ۔ صبح ہی جب میں اسی دروازے کے پاس گیا تو دیکھا کہ اس کے پاس کونے میں جو چٹان پتھر کی تھی اس میں ایک سوراخ ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس میں رات کو کسی نے کوئی جانور باندھا ہے اس کے اثر اور نشان موجود تھے ۔ میں سمجھ گیا اور میں نے اسی وقت اپنی جماعت سے کہا کہ آج کی رات ہماری یہ مسجد کسی نبی کے لئے کھلی رکھی گئی اور اس نے یہاں ضرور نماز ادا کی ہے ۔ یہ حدیث بہت لمبی ہے ۔ فائدہ حضرت ابوالخطاب عمر بن وحیہ اپنی کتاب التنویر فی مولد السراج المنیر میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے معراج کی حدیث وارد کر کے اس کے متعلق نہایت عمدہ کلام کر کے پھر فرماتے ہیں: معراج کی حدیث متواتر ہے ۔ حضرت عمر بن خطاب ، حضرت علی ، حضرت ابن مسعود ، حضرت ابوذر ، حضرت مالک بن صعصعہ ، حضرت ابوہریرہ ، حضرت ابو سعید ، حضرت ابن عباس ، حضرت شداد بن اوس ، حضرت ابی بن کعب ، حضرت عبد الرحمن بن قرظ ، حضرت ابو حبہ ، حضرت ابو لیلی ، حضرت عبداللہ بن عمر ، حضرت جابر ، حضرت حذیفہ ، حضرت بریدہ ، حضرت ابو ایوب ، حضرت ابو امامہ ، حضرت سمرہ بن جندب ، حضرت ابو الخمراء ، حضرت صہیب رومی ، حضرت ام ہانی ، حضرت عائشہ ، اور حضرت اسماء وغیرہ سے مروی ہے رضی اللہ عنہم اجمعین ان میں سے بعض نے تو اسے مطول بیان کیا ہے اور بعض نے مختصر ۔ گو ان میں سے بعض روایتیں سندا ًصحیح نہیں لیکن بالجملہ صحت کے ساتھ واقعہ معراج ثابت ہے اور مسلمان اجماعی طور پر اس کے قائل ہیں ہاں بیشک زندیق اور ملحد لوگ اس کے منکر ہیں وہ اللہ کے نوارانی چراغ کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھانا چاہتے یہں ۔ لیکن وہ پوری روشنی کے ساتھ چمکتا ہوا ہی رہے گا کافروں کو برا لگے ۔ وَآتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَجَعَلْنَاهُ هُدًى لِبَنِي إِسْرَائِيلَ أَلَّا تَتَّخِذُوا مِنْ دُونِي وَكِيلًا ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اسے بنی اسرئیل کے لئے ہدایت بنا دیا کہ تم میرے سوا کسی کو اپنا کارساز نہ بنانا (۲) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج کے واقعہ کے بیان کے بعد اپنے پیغمبر کلیم اللہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر بیان فرماتا ہے قرآن کریم میں عموماً یہ دونوں بیان ایک ساتھ آئے ہیں اسی طرح تورات اور قرآن کا بیان بھی ملا جلا ہوتا ہے حضرت موسیٰ کی کتاب کا نام تورات ہے ۔ وہ کتاب بنی اسرائیل کیلئے ہادی تھی انہیں حکم ہوا تھا کہ اللہ کے سوا کسی اور کو ولی اور مددگار اور معبود نہ سمجھیں ہر ایک نبی اللہ کی توحید لے کر آتا رہا ہے ۔ ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ ۚ إِنَّهُ كَانَ عَبْدًا شَكُورًا اے ان لوگوں کی اولاد! جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ سوار کر دیا تھا، وہ ہمارا بڑا ہی شکر گزار بندہ تھا (۳) پھر انہیں کہا جاتا ہے کہ اے ان بزرگوں کی اولادو جنہیں ہم نے اپنے اس احسان سے نوازا تھا کہ طوفان نوح کی عالمگیر ہلاکت سے انہیں بچا لیا اور اپنے پیارے نبی حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھ کشتی پر چڑھا لیا تھا ۔ تمہیں اپنے بڑوں کی طرح ہماری شکر گزاری کرنی چاہئے دیکھو میں نے تمہاری طرف اپنے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا ہے ۔ مروی ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام چونکہ کھاتے پیتے اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتےغرض ہر وقت اللہ کی حمد و ثنا بیان فرماتے تھے اس لئے آپ کو شکر گزار بندہ کہا گیا ۔ مسند احمد وغیرہ میں فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے : اللہ تعالیٰ اپنے اس بندے سے بہت خوش ہوتا ہے جو نوالہ کھائے تو اللہ کا شکر بجا لائے اور پانی کا گھونٹ پئے تو اللہ کا شکر ادا کرے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ آپ ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرتے رہتے ۔ شفاعت والی لمبی حدیث جو بخاری وغیرہ میں ہے اس میں ہے کہ جب لوگ طلب شفاعت کے لئے حضرت نوح نبی علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو ان سے کہیں گے کہ زمین والوں کی طرف آپ ہی پہلے رسول ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام شکر گزار بندہ رکھا ہے ۔ آپ اپنے رب سے ہماری سفارش کیجئے ۔ وَقَضَيْنَا إِلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ فِي الْكِتَابِ لَتُفْسِدُنَّ فِي الْأَرْضِ مَرَّتَيْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِيرًا ہم نے بنو اسرائیل کے لئے انکی کتاب میں صاف فیصلہ کر دیا تھا کہ تم زمین میں دو بار فساد برپا کرو گے اور تم بڑی زبردست زیادتیاں کرو گے (۴) جو کتاب بنی اسرائیل پر اتری تھی اس میں ہی اللہ تعالیٰ نے انہیں پہلے ہی سے خبر دے دی تھی کہ وہ زمین پر دو مرتبہ سرکشی کریں گے اور سخت فساد برپا کریں گے پس یہاں پر قَضَيْنَا کے معنی مقرر کر دینا اور پہلے ہی سے خبر دے دینا کے ہیں ۔ جیسے آیت وَقَضَيْنَآ إِلَيْهِ ذَلِكَ الاٌّمْرَ أَنَّ دَابِرَ هَـؤُلآْءِ مَقْطُوعٌ مُّصْبِحِينَ (۱۵:۶۶) میں یہی معنی ہیں ۔ فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ أُولَاهُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادًا لَنَا أُولِي بَأْسٍ شَدِيدٍ فَجَاسُوا خِلَالَ الدِّيَارِ ۚ وَكَانَ وَعْدًا مَفْعُولًا ان دونوں وعدوں میں سے پہلے کے آتے ہی ہم نے تمہارے مقابلہ پر اپنے بندے بھیج دیئے جو بڑے ہی لڑاکے تھے۔ (۵) پس وہ تمہارے گھروں کے اندر تک پھیل گئے اور اللہ کا یہ وعدہ پورا ہونا ہی تھا ۔ بس ان کے پہلے فساد کے وقت ہم نے اپنی مخلوق میں سے ان لوگوں کو ان کے اوپر مسلط کیا جو بڑے ہی لڑنے والے سخت جان اور سازو سامان سے پورے لیس تھے وہ ان پر چھا گئے ان کے شہر چھین لئے لوٹ مار کر کے ان کے گھروں تک کو خالی کر کے بےخوف و خطر واپس چلے گئے ، اللہ کا وعدہ پورا ہونا ہی تھا کہتے ہیں کہ یہ جالوت کا لشکر تھا ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ موصل کے بادشاہ سخایرب اور اس کے لشکر نے ان پر فوج کشی کی تھے ۔ بعض کہتے ہیں بابل کا بادشاہ بخت نصر چڑھ آیا تھا ۔ ابن ابی حاتم نے یہاں پر ایک عجیب و غریب قصہ نقل کیا ہے کہ کس طرح اس شخص نے بتدریج ترقی کی تھے ۔ اولاً یہ ایک فقیر تھا پڑا رہتا تھا اور بھیک مانگ کر گزارہ کرتا تھا پھر تو بیت المقدس تک اس نے فتح کر لیا اور وہاں پر بنی اسرائیل کو بےدریخ قتل کیا ۔ ابن جریر نے اس آیت کی تفسیر میں ایک مطول مرفوع حدیث بیان کی ہے جو محض موضوع ہے اور اس کے موضوع ہونے میں کسی کو ذرا سا بھی شک نہیں ہو سکتا ۔ تعجب ہے کہ باوجود اس قدر وافر علم کے حضرت امام صاحب نے یہ حدیث وارد کر دی ہمارے استاد شیخ حافظ علامہ ابو الحجاج مزی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے موضوع ہونے کی تصریح کی ہے ۔ اور کتاب کے حاشیہ پر لکھ بھی دیا ہے ۔ اس باب میں بنی اسرائیلی روایتیں بھی بہت سی ہیں لیکن ہم انہیں وارد کر کے بےفائدہ اپنی کتاب کو طول دینا نہیں چاہتے کیونکہ ان میں سے بعض تو موضوع ہیں اور بعض گو ایسی نہ ہوں لیکن بحمد للہ ہمیں ان روایتوں کی کوئی ضرورت نہیں ۔ کتاب اللہ ہمیں اور تمام کتابوں سے بےنیاز کر دینے والی ہے ۔اللہ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثوں نے ہمیں ان چیزوں کا محتاج نہیں رکھا مطلب صرف اس قدر ہے کہ بنی اسرائیل کی سرکشی کے وقت اللہ نے ان کے دشمن ان پر مسلط کر دئے جنہوں نے انہیں خوب مزہ چکھایا بری طرح درگت بنائی ان کے بال بچوں کو تہ تیغ کیا انہیں اس قدر و ذلیل کیا کہ ان کے گھروں تک میں گھس کر ان کا ستیاناس کیا اور ان کی سرکشی کی پوری سزا دی ۔ انہوں نے بھی ظلم و زیادتی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی عوام تو عوام انہوں نے تو نبیوں کے گلے کاٹے تھے ، علماء کو سر بازار قتل کیا تھا ۔ بخت نصر ملک شام پر غالب آیا بیت المقدس کو ویران کر دیا وہاں کم باشندوں کو قتل کیا پھر دمشق پہنچا یہاں دیکھا کہ ایک سخت پتھر پر خون جوش مار رہا ہے پوچھا یہ کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا ہم نے تو اسے باپ دادوں سے اسی طرح دیکھا ہے یہ خون برابر ابلتا رہتا ہے ٹھہرتا نہیں اس نے وہیں پر قتل عام شروع کر دیا ستر ہزرا مسلمان وغیرہ اس کے ہاتھوں یہاں یہ قتل ہوئے پس وہ خون ٹہر گیا ۔ لیکن چونکہ صحیح روایتوں سے بلکہ صحت کے قریب والی روایتوں سے بھی تفصیلات نہیں ملتی اس لئے ہم نے انہیں چھوڑ دیا ہے واللہ اعلم ۔ ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ وَأَمْدَدْنَاكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَجَعَلْنَاكُمْ أَكْثَرَ نَفِيرًا پھر ہم نے ان پر تمہارا غلبہ دے کر تمہارے دن پھیرے اور مال اور اولاد سے تمہاری مدد کی اور تمہیں بڑے جتھے والا بنا دیا ۔ (۶) پھر اللہ نے بنی اسرائیل کی مدد کی اور یہ حضرت طالوت کی بادشاہت میں پھر لڑے اور حضرت داؤد علیہ السلام نے جالوت کو قتل کیا ۔ إِنْ أَحْسَنْتُمْ أَحْسَنْتُمْ لِأَنْفُسِكُمْ ۖ وَإِنْ أَسَأْتُمْ فَلَهَا ۚ اگر تم نے اچھے کام کئے تو خود اپنے ہی فائدے کے لئے، اور اگر تم نے برائیاں کیں تو بھی اپنے ہی لئے، پھر فرماتا ہے نیکی کرنے والا دراصل اپنے لئے ہی بھلا کرتا ہے اور برائی کرنے والا حقیقت میں اپنا ہی برا کرتا ہے جیسے ارشاد ہے: مَّنْ عَمِلَ صَـلِحاً فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ أَسَآءَ فَعَلَيْهَا جو شخص نیک کام کرے وہ اس کے اپنے لئے ہے اور جو برائی کرے اس کا بوجھ اسی پر ہے ۔ (۴۵:۱۵) فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ لِيَسُوءُوا وُجُوهَكُمْ وَلِيَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوهُ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَلِيُتَبِّرُوا مَا عَلَوْا تَتْبِيرًا پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا (تو ہم نے دوسرے کو بھیج دیا تاکہ) وہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں اور پہلی دفعہ کی طرح پھر اسی مسجد میں گھس جائیں اور جس جس چیز پر قابو پائیں توڑ پھوڑ کر جڑ سے اکھاڑ دیں ۔ (۷) پھر جب دوسرا وعدہ آیا اور پھر بنی اسرائیل نے اللہ کی نافرمانیوں پر کھلے عام کمر کس لی اور بےباکی اور بےحیائی کے ساتھ ظلم کرنے شروع کر دئے تو پھر ان کے دشمن چڑھ دوڑے کہ وہ ان کی شکلیں بگاڑ دیں اور بیت المقدس کی مسجد جس طرح پہلے انہوں نے اپنے قبضے میں کر لی تھی اب پھر دوبارہ کر لیں اور جہاں تک بن پڑے ہر چیز کا ستیاناس کر دیں چنانچہ یہ بھی ہو کر رہا ۔ عَسَى رَبُّكُمْ أَنْ يَرْحَمَكُمْ ۚ امید ہے کہ تمہارا رب تم پر رحم کرے۔ تمہارا رب تو ہے ہی رحم و کرم کرنے والا اور اس سے ناامیدی نازیبا ہے ، یہ ممکن ہے کہ پھر سے دشمنوں کو پست کر دے وَإِنْ عُدْتُمْ عُدْنَا ۘ وَجَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكَافِرِينَ حَصِيرًا ہاں اگر تم پھر بھی وہی کرنے لگے تو ہم دوبارہ ایسا ہی کریں گے اور ہم نے منکروں کا قید خانہ جہنم بنا رکھا ہے ۔ (۸) ہاں یہ یاد رہے کہ ادھر تم نے سر اٹھایا ادھر ہم نے تمہارا سر کچلا ۔ ادھر تم نے فساد مچایا ادھر ہم نے برباد کیا ۔ یہ تو ہوئی دنیوی سزا ۔ ابھی آخرت کی زبردست اور غیر فانی سزا باقی ہے ۔ جہنم کافروں کا قید خانہ ہے جہاں سے نہ وہ نکل سکین نہ چھوٹ سکیں نہ بھاگ سکیں ۔ ہمیشہ کے لئے ان کا اوڑھنا بچونا یہی ہے ۔ حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: پھر بھی انہوں نے سر اٹھایا اور بالکل فرمان الہٰی کو چھوڑا اور مسلمانوں سے ٹکرا گئے تو اللہ تعالیٰ نے اُمت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ان پر غالب کیا اور انہیں جزیہ دینا پڑا ۔ إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ یقیناً یہ قرآن وہ راستہ دکھاتا ہے جو بہت ہی سیدھا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی کتاب کی تعریف میں فرماتا ہے کہ یہ قرآن بہترین راہ کی طرف رہبری کرتا ہے ۔ وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا كَبِيرًا اور ایمان والوں کو جو نیک اعمال کرتے ہیں اس بات کی خوشخبری دیتا ہے کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے۔ (۹) ایماندار جو ایمان کے مطابق فرمان نبوی پر عمل بھی کریں انہیں یہ بشارتیں سناتا ہے کہ ان کے لئے اللہ کے پاس بہت بڑا اجر ہے انہیں بیشمار ثواب ملے گا ۔ وَأَنَّ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا اور یہ کہ جو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے ان کے لئے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے (۱۰) اور جو ایمان سے خالی ہیں انہیں یہ قرآن قیامت کے دن کے دردناک عذابوں کی خبر دیتا ہے جیسے فرمان ہے: فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ انہیں المناک عذابوں کی خبر پہنچا دے (۸۴:۲۴) وَيَدْعُ الْإِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَاءَهُ بِالْخَيْرِ ۖ اور انسان برائی کی دعائیں مانگنے لگتا ہے بالکل اس کی اپنی بھلائی کی دعا کی طرح، یعنی انسان کبھی کبھی دلگیر اور ناامید ہو کر اپنی سخت غلطی سے خود اپنے لئے برائی کی دعا مانگنے لگتا ہے ۔ کبھی اپنے مال واولاد کے لئے بد دعا کرنے لگتا ہے کبھی موت کی ، کبھی ہلاکت کی ، کبھی بردباری اور لعنت کی ۔ وَلَوْ يُعَجِّلُ اللَّهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اور اگر اللہ لوگوں پر جلدی سے نقصان واقع کر دیا کرتا (۱۰:۱۱) لیکن اس کا اللہ اس پر خود اس سے بھی زیادہ مہربان ہے ادھر وہ دعا کرے ادھر وہ قبول فرما لے تو ابھی ہلاک ہو جائے ۔ حدیث میں بھی ہے: اپنی جان و مال کے لئے دعا نہ کرو ایسا نہ ہو کہ کسی قبولیت کی ساعت میں کوئی ایسا بد کلمہ زبان سے نکل جائے ۔ اس کی وجہ صرف انسان کی اضطرابی حالت اور اس کی جلد بازی ہے ۔ وَكَانَ الْإِنْسَانُ عَجُولًا انسان ہی بڑا جلد باز ہے ۔ (۱۱) انسان ہے ہی جلد باز ۔ حضرت سلمان فارسی اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس موقعہ پر حضرت آدم علیہ السلام کا واقعہ ذکر کیا ہے کہ ابھی پیروں تلے روح نہیں پہنچتی تھی کہ آپ نے کھڑے ہونے کا ارادہ کیا روح سر کی طرف سے آ رہی تھی ناک تک پہنچی تو چھینک آئی آپ نے کہا الحمد للہ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا یرحمک ربک یا آدم اے آدم تجھ پر تیرا رب رحم کرے جب آنکھوں تک پہنچی تو آنکھیں کھول کر دیکھنے لگے ۔ جب اور نیچے کے اعضا میں پہنچی تو خوشی سے اپنے آپ کو دیکھنے لگے ۔ جب اور نیچے کے اعضا میں پہنچی تو خوشی سے اپنے آپ کو دیکھنے لگے ابھی پیروں تک نہیں پہنچی تو چلنے کا ارادہ کیا لیکن نہ چل سکے تو دعا کرنے لگے کہ اے اللہ رات سے پہلے روح آ جائے ۔ وَجَعَلْنَا اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ آيَتَيْنِ ۖ ہم نے رات اور دن کو اپنی قدرت کی نشانیاں بنائی ہیں، اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کی بڑی بڑی نشانیوں میں سے دو کا یہاں بیان فرماتا ہے کہ دن رات اس نے الگ الگ طرح کے بنائے ۔ فَمَحَوْنَا آيَةَ اللَّيْلِ وَجَعَلْنَا آيَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ وَلِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ ۚ رات کی نشانی کو تو ہم نے بےنور کر دیا اور دن کی نشانی کو روشن بنایا ہے تاکہ تم لوگ اپنے رب کا فضل تلاش کر سکواور اس لئے بھی کہ برسوں کا شمار اور حساب معلوم کر سکو رات آرام کے لئے دن تلاش معاش کیلئے ۔ کہ اس میں کام کاج کرو صنعت و حرفت کرو سیر و سفر کرو ۔ رات دن کے اختلاف سے دنوں کی ، جمعوں کی ، مہینوں کی ، برسوں کی گنتی معلوم کر سکو تاکہ لین دین میں ، معاملات میں ، قرض میں ، مدت میں ، عبادت کے کاموں میں سہولت اور پہچان ہو جائے ۔ اور جگہ فرمایا: قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِن جَعَلَ اللَّهُ عَلَيْكُمُ الَّيْلَ سَرْمَداً إِلَى يَوْمِ الْقِيَـمَةِ ... وَلِتَبتَغُواْ مِن فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ کہہ دیجئے! کہ دیکھو تو سہی اگر اللہ تعالیٰ تم پر رات ہی رات قیامت تک برابر کر دے تو سوائے اللہ کے کون معبود ہےجو تمہارے پاس دن کی روشنی لائے؟ کیا تم سنتے نہیں ہو؟ پوچھئے! کہ یہ بھی بتا دو کہ اگر اللہ تعالیٰ تم پر ہمیشہ قیامت تک دن ہی دن رکھےتو بھی سوائے اللہ کے کوئی معبود ہے جو تمہارے پاس رات لے آئے؟ جس میں تم آرام حاصل کر سکو، کیا تم دیکھ نہیں رہے ہو؟ اس نے تو تمہارے لئے اپنے فضل و کرم سے دن رات مقرر کر دیئے ہیں کہ تم رات میں آرام کرو اور دن میں اسکی بھیجی ہوئی روزی تلاش کرو یہ اس لئے کہ تم شکر ادا کرو ۔ (۲۸:۷۱،۷۳) یعنی اگر ایک وقت رہتا تو بڑی مشکل ہو جاتی سچ ہے اگر اللہ چاہتا تو ہمیشہ رات ہی رات رکھتا کوئی اتنی قدرت نہیں رکھتا کہ دن کر دے اور اگر وہ ہمیشہ رات ہی رات رکھتا کوئی اتنی قدرت نہیں رکھتا کہ دن کر دے اور اگر وہ ہمیشہ دن ہی دن رکھتا تو کس کی مجال تھی کہ رات لا دے ؟ یہ نشانات قدرت سننے دیکھنے کے قابل ہیں ۔ یہ اسی کی رحمت ہے کہ رات سکون کے لئے بنائی اور دن تلاش معاش کے لئے ۔ ان دونوں کو ایک دوسرے کے پیچھے لگا تار آنے والے بنایا تاکہ شکر و نصیحت کا ارادہ رکھنے والے کامیاب ہو سکیں ۔ تَبَارَكَ الَّذِى جَعَلَ فِى السَّمَآءِ بُرُوجاً ،،، خِلْفَةً لِّمَنْ أَرَادَ أَن يَذَّكَّرَ أَوْ أَرَادَ شُكُوراً بابرکت ہے وہ جس نے آسمان میں برج بنائے اور اس میں آفتاب بنایا اور منور مہتاب بھی۔ اور اسی نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بنایا اس شخص کی نصیحت کے لئے جو نصیحت حاصل کرنےیا شکر گزاری کرنے کا ارادہ رکھتا ہو۔ (۲۵:۶۱،۶۲) اور فرمایا: وَلَهُ اخْتِلَـفُ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ اور رات دن کے ردو بدل کا مختار بھی وہی ہے (۲۳:۸۰) اور فرمایا: يُكَوِّرُ الَّيْـلَ عَلَى النَّهَـارِ وَيُكَوِّرُ النَّـهَارَ عَلَى الَّيْلِ وَسَخَّـرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُـلٌّ يَجْرِى لاًّجَـلٍ مُّسَـمًّى أَلا هُوَ الْعَزِيزُ الْغَفَّارُ وہ رات کو دن پر اور دن کو رات پر لپیٹ دیتا ہے اور اس نے سورج چاند کو کام پر لگا رکھا ہے۔ ہر ایک مقررہ مدت تک چل رہا ہے یقین مانو کہ وہی زبردست اور گناہوں کا بخشنے والا ہے۔ (۳۹:۵) اسی کے ہاتھ رات دن کا اختلاف ہے وہ رات کا پردہ دن پر اور دن کا نقاب رات پر چڑھا دیتا ہے ۔ سورج چاند اسی کی ماتحتی میں ہے ہر ایک اپنے مقررہ وقت پر چل پھر رہا ہے وہ اللہ غالب اور غفار ہے ۔ اور فرمایا: فَالِقُ الإِصْبَاحِ وَجَعَلَ الَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَاناً ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ وہ صبح کا نکالنے والا اس نے رات کو راحت کی چیز بنایا ہے اور سورج اور چاند کو حساب سے رکھا ہےیہ ٹھہرائی بات ہے ایسی ذات کی جو قادر ہے بڑے علم والا ہے۔ (۶:۹۶) صبح کا چاک کرنے والا ہے اسی نے رات کو سکون والی بنایا ہے اور سورج چاند کو مقرر کیا ہے یہ اللہ عزیز و حلیم کا مقرر کیا ہوا انداہ ہے ۔ اور فرمایا: وَءَايَةٌ لَّهُمُ الَّيْلُ نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهَارَ فَإِذَا هُم مُّظْلِمُونَ ـ وَالشَّمْسُ تَجْرِى لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَـا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ اور ان کے لئے ایک نشانی رات ہے جس سے ہم دن کو کھینچ دیتے ہیں تو یکایک اندھیرے میں رہ جاتے ہیں اور سورج کے لئے جو مقررہ راہ ہے وہ اسی پر چلتا رہتا ہے یہ ہے مقرر کردہ غالب، باعلم اللہ تعالیٰ کا۔ (۳۶:۳۷،۳۸) رات اپنے اندھیرے سے چاند کے ظاہر ہونے سے پہچانی جاتی ہے اور دن روشنی سے اور سورج کے چڑھنے سے معلوم ہو جاتا ہے ۔ اور فرمایا: هُوَ الَّذِى جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَآءً وَالْقَمَرَ نُوراً وَقَدَّرَهُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُواْ عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ مَا خَلَقَ اللَّهُ ذَلِكَ إِلاَّ بِالْحَقِّ وہ اللہ تعالیٰ ایسا ہے جس نے آفتاب کو چمکتا ہوا بنایا اور چاند کو نورانی بنایا اور اس کے لئے منزلیں مقرر کیں تاکہ تم برسوں کی گنتی اور حساب معلوم کر لیا کرو اللہ تعالیٰ نے یہ چیزیں بےفائدہ نہیں پیدا کیں۔ (۱۰:۶) سورج چاند دونوں ہی روشن اور منور ہیں لیکن ان میں بھی پورا تفاوت رکھا کہ ہر ایک پہچان لیا جا سکے ۔ سورج کو بہت روشن اور چاند کو نورانی اسی نے بنایا ہے منزلیں اسی نے مقرر کی ہیں تاکہ حساب اور سال معلوم رہیں اللہ کی یہ پیدائش حق ہے ۔ قرآن میں ہے : يَسْـَلُونَكَ عَنِ الأَهِلَّةِ قُلْ هِىَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ لوگ آپ سے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ یہ لوگوں (کی عبادت) کے وقتوں اور حج کے موسم کے لئے ہے (۲:۱۸۹) وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْنَاهُ تَفْصِيلًا اور ہرچیز کو ہم نے خوب تفصیل سے بیان فرما دیا ہے ۔ (۱۲) رات کا اندھیرا ہٹ جاتا ہے دن کا اجالا آ جاتا ہے ۔ سورج دن کی علامت ہے چاند رات کا نشان ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے چاند کو کچھ سیاہی والا پیدا کیا ہے پس رات کی نشانی چاند کو بنسبت سورج کے اندر کر دیا ہے اس میں ایک طرح کا دھبہ رکھ دیا ہے ۔ ابن الکواء نے امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ چاند پر یہ چھائیں کیسی ہے ؟ آپ نے فرمایا اسی کا بیان اس آیت میں ہے کہ ہم نے رات کے نشان یعنی چاند میں سیاہ دھندلکا ڈال دیا اور دن کا نشان خوب روشن ہے یہ چاند سے زیادہ منور اور چاند سے بہت بڑا ہے دن رات کو دو نشانیاں مقرر کر دی ہیں پیدائش ہی ان کی اسی طرح کی ہے ۔ وَكُلَّ إِنْسَانٍ أَلْزَمْنَاهُ طَائِرَهُ فِي عُنُقِهِ ۖ ہر انسان کی برائی بھلائی کو اس کے گلے لگا دیا ہے اوپر کی آیتوں میں زمانے کا ذکر کیا جس میں انسان کے اعمال ہوتے ہیں اب یہاں فرمایا ہے کہ اس کا جو عمل ہوتا ہے بھلا ہو یا برا وہ اس پر چپک جاتا ہے بدلہ ملے گا ۔ نیکی کا نیک ۔ بدی کا بد ۔ خواہ وہ کتنی ہی کم مقدار میں کیوں نہ ہو ؟ جیسے فرمان ہے: فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْراً يَرَهُ ـ وَمَن يَعْـمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرّاً يَرَهُ پس جس نے ذرہ برابر بھی نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا۔ اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا۔ (۹۹:۷،۸) یعنی ذرہ برابر کی خیر اور اتنی ہی شر ہر شر ہر شخص قیامت کے دن دیکھ لے گا ۔ اور جیسے فرمان ہے: إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌ ـ مَّا يَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلاَّ لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ جس وقت دو لینے والے جا لیتے ہیں ایک دائیں طرف اور ایک بائیں طرف بیٹھا ہوا ہے۔ منہ سے کوئی لفظ نکال نہیں پاتا مگر اس کے پاس نگہبان تیار ہے ۔ (۵۰:۱۷،۱۸) یعنی دائیں اور بائیں جانب وہ بیٹھے ہوئے ہیں جو بات منہ سے نکلے وہ اسی وقت لکھ لیتے ہیں ۔ اور جگہ ہے : وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَـفِظِينَ ـ كِرَاماً كَـتِبِينَ ـ يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ یقیناً تم پر نگہبان عزت والے۔ لکھنے والے مقرر ہیں۔ جو کچھ تم کرتے ہو وہ جانتے ہیں۔ (۸۲:۱۰،۱۲) یعنی تم پر نگہبان ہیں جو بزرگ ہیں اور لکھنے والے ہیں ۔ تمہارے ہر ہر فعل سے باخبر ہیں ۔ اور آیت میں ہے: إِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ تمہیں صرف تمہارے کئے ہوئے اعمال کا بدلہ ملے گا ۔ (۵۲:۱۶) اور جگہ ہے: مَن يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ ہر برائی کرنے والے کو سزا دی جائے گی ۔ (۴:۱۲۳) مقصود یہ کہ ابن آدم کے چھوٹے بڑے ظاہر و باطن نیک و بد اعمال صبح شام دن رات برابر لکھے جا رہے ہیں ۔ مسند احمد میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں البتہ ہر انسان کی شامت عمل اس کی گردن میں ہے ۔ ابن لہیعہ فرماتے ہیں یہاں تک کہ شگون لینا بھی، لیکن اس حدیث کی یہ تفسیر غریب ہے واللہ اعلم ، گردن کا ذکر خاص طریقے پر اس لئے کیا کہ وہ ایک مخصوص حصہ ہم اس میں جو چیز لٹکا دی گئی ہو چپک گئی ضروری ہو گئی شاعرونں نے بھی اس خیال کو ظاہر کیا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: بیماری کا متعدی ہونا کوئی چیز نہیں ، فال کوئی چیز نہیں ، ہر انسان کا عمل اس کے گلے کا ہار ہے اور روایت میں ہے کہ ہر انسان کا شگون اس کے گلے کا ہار ہے ۔ آپ کا فرمان ہے: ہر دن کے عمل پر مہر لگ جاتی ہے جب مؤمن بیمار پڑتا ہے تو فرشتے کہتے ہیں اے اللہ تو نے فلاں کو تو روک لیا ہے اللہ تعالیٰ جل جلالہ فرماتا ہے اس کے جو عمل تھے وہ برابر لکھتے جاؤ یہاں تک کہ میں اسے تندرست کر دوں یا فوت کر دوں قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں طَائِرَهُ سے مراد عمل ہیں ۔ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كِتَابًا يَلْقَاهُ مَنْشُورًا اور بروز قیامت ہم اس کے سامنے اس کا نامہ اعمال نکالیں گے جسے وہ اپنے اوپر کھلا ہوا پائے گا۔ (۱۳) اس کے اعمال کے مجموعے کی کتاب قیامت کے دن یا تو اس کے دائیں ہاتھ میں دی جائے گی یا بائیں میں ۔ نیکوں کے دائیں ہاتھ میں اور بروں کے بائیں ہاتھ میں کھلی ہوئی ہو گی کہ وہ بھی پڑھ لے اور دوسرے بھی دیکھ لیں اس کی تمام عمر کے کل عمل اس میں لکھے ہوئے ہوں گے ۔ جیسے فرمان ہے: يُنَبَّأُ الإِنسَـنُ يَوْمَئِذِ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ ـ بَلِ الإِنسَـنُ عَلَى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ ـ وَلَوْ أَلْقَى مَعَاذِيرَهُ آج انسان کو اس کے آگے بھیجے ہوئے اور پیچھے چھوڑے ہوئے سے آگاہ کیا جائے گا بلکہ انسان خود اپنے اوپر حجت ہے ۔ اگرچہ کتنے ہی بہانے پیش کرے ۔ (۷۵:۱۳،۱۵) اقْرَأْ كِتَابَكَ كَفَى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا لے! خود ہی اپنی کتاب آپ پڑھ لے۔ آج تو تو آپ ہی اپنا خود حساب لینے کو کافی ہے۔ (۱۴) اس وقت اس سے فرمایا جائے گا کہ تو خوب جانتا ہے کہ تجھ پر ظلم نہ کیا جائے گا ۔ اس میں وہی لکھا گیا ہے جو تو نے کیا ہے اس وقت چونکہ بھولی بسری چیزیں بھی یاد آ جائیں گی ۔ اس لئے درحقیقت کوئی عذر پیش کرنے کی گنجائش نہ رہے گی پھر سامنے کتاب ہے جو پڑھ رہا ہے خواہ وہ دنیا میں ان پڑھ ہی تھا لیکن آج ہر شخص اسے پڑھ لے گا ۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اے ابن آدم تیرے دائیں بائیں فرشتے بیٹھے ہیں صحیفے کھلے رکھے ہیں داہنی جانب والا نیکیاں اور بائیں طرف والا بدیاں لکھ رہا ہے اب تجھے اختیار ہے نیکی کر یا بدی کر یا زیادہ تیری موت پر یہ دفتر لپیٹ دئے جائیں گے اور تیری قبر میں تیری گردن میں لٹکا دیئے جائیں گے قیامت کے دن کھلے ہوئے تیرے سامنے پیش کر دئے جائیں گے اور تجھ سے کہا جائے گا لے اپنا نامہ اعمال خود پڑھ لے اور تو ہی حساب اور انصاف کر لے ۔ اللہ کی قسم وہ بڑا ہی عادل ہے جو تیرا معاملہ تیرے ہی سپرد کر رہا ہے ۔ مَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۚ جو راہ راست حاصل کر لے وہ خود اپنے ہی بھلے کے لئے راہ یافتہ ہوتا ہے اور جو بھٹک جائے اس کا بوجھ اسی کے اوپر ہے، جس نے راہ راست اختیار کی حق کی اتباع کی نبوت کی مانی اس کے اپنے حق میں اچھائی ہے اور جو حق سے ہٹا صحیح راہ سے پھرا اس کا وبال اسی پر ہے کوئی کسی کے گناہ میں پکڑا نہ جائے گا ہر ایک کا عمل اسی کے ساتھ ہے ۔ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى ۗ کوئی بوجھ والا کسی اور کا بوجھ اپنے اوپر نہ لادے گا کوئی نہ ہو گا جو دوسرے کا بوجھ بٹائے اور جگہ قرآن میں ہے: وَإِن تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلَى حِمْلِهَا لاَ يُحْمَلْ مِنْهُ شَىْءٌ اگر کوئی گراں بار دوسرے کو اپنا بوجھ اٹھانے کے لئے بلائے گا تو وہ اس میں سے کچھ بھی نہ اٹھائے گا (۳۵:۱۸) اور قرآن میں ہے: وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقَالَهُمْ وَأَثْقَالاً مَّعَ أَثْقَالِهِمْ البتہ یہ اپنے بوجھ ڈھولیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ ہی اور بوجھ بھی (۲۹:۱۳) اور آیت میں ہے: وَمِنْ أَوْزَارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ دن یہ لوگ اپنے پورے بوجھ کے ساتھ ہی انکے بوجھ کے حصے دار ہوں گے جنہیں بےعلمی سے گمراہ کرتے رہے (۱۶:۲۵) یعنی اپنے بوجھ کے ساتھ یہ ان کے بوجھ بھی اٹھائیں گے جنہیں انہوں نے بہکا رکھا تھا ۔ لہذا ان دونوں مضمونوں میں کوئی نفی کا پہلو نہ سمجھا جائے اس لیے کہ گمراہ کرنے والوں پر ان کے گمراہ کرنے کا بوجھ ہے نہ کہ ان کے بوجھ ہلکے کئے جائیں گے اور ان پر لادے جائیں گے ہمارا عادل اللہ ایسا نہیں کرتا ۔ وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا اور ہماری سنت نہیں کہ رسول بھیجنے سے پہلے ہی عذاب کرنے لگیں ۔ (۱۵) پھر اپنی ایک اور رحمت بیان فرماتا ہے کہ وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پہنچنے سے پہلے کسی اُمت کو عذاب نہیں کرتا ۔ چنانچہ سورہ تبارک میں ہے: أُلْقِىَ فِيهَا فَوْجٌ سَأَلَهُمْ خَزَنَتُهَآ أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَذِيرٌ ـ ... إِنْ أَنتُمْ إِلاَّ فِى ضَلَـلٍ كَبِيرٍ جب کبھی اس میں کوئی گروہ ڈالا جائیگا اس سے جہنم کے دروغے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس ڈرانے والا کوئی نہیں آیا تھا (۶۷:۸،۹) وہ جواب دیں گے کہ بیشک آیا تھا لیکن ہم نے اسے جھٹلایا اور ہم نے کہا اللہ تعالیٰ نے کچھ بھی نازل نہیں فرمایا۔ تم بہت بڑی گمراہی میں ہو یعنی دوزخیوں سے داروغے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس ڈرانے والے نہیں آئے تھے ؟ وہ جواب دیں گے بیشک آئے تھے لیکن ہم نے انہیں سچا نہ جانا انہیں جھٹلا دیا اور صاف کہہ دیا کہ تم تو یونہی بہک رہے ہو ،سرے سے یہ بات ہی ان ہونی ہے کہ اللہ کسی پر کچھ اتارے ۔ اورجیسے سورہ زمر میں ہے کہ اسی طرح جب یہ لوگ جہنم کی طرف کشاں کشاں پہنچائے جا رہے ہوں گے ، اس وقت بھی داروغے ان سے پوچھیں گے کہ کیا تم میں سے ہی رسول نہیں آئے تھے ؟ جو تمہارے رب کی آیتیں تمہارے سامنے پڑھتے ہوں اور تمہیں اس دن کی ملاقات سے ڈراتے ہوں ؟ یہ جواب دیں گے کہ ہاں یقیناً آئے لیکن کلمہ عذاب کافروں پر ٹھیک اترا ۔ وَسِيقَ الَّذِينَ كَـفَرُواْ إِلَى جَهَنَّمَ زُمَراً ... وَلَـكِنْ حَقَّتْ كَلِمَةُ الْعَذَابِ عَلَى الْكَـفِرِينَ کافروں کے غول کے غول جہنم کی طرف ہنکائے جائیں گے جب وہ اس کے پاس پہنچ جائیں گے اس کے دروازے ان کے لئے کھول دیئے جائیں گے اور وہاں کے نگہبان ان سے سوال کریں گے کہ کیا تمہارے پاس تم میں سے رسول نہیں آئے تھے؟ جو تمہارے رب کی آیتیں پڑھتے تھے اور تمہیں اس دن کی ملاقات سے ڈراتے رہتے؟ یہ جواب دیں گے ہاں درست ہے لیکن عذاب کا حکم کافروں پر ثابت ہوگیا۔ (۳۹:۷۱) اور آیت میں ہے : وَهُمْ يَصْطَرِخُونَ فِيهَا رَبَّنَآ أَخْرِجْنَا ... فَذُوقُواْ فَمَا لِلظَّـلِمِينَ مِن نَّصِيرٍ اور وہ لوگ جو اس طرح چلائیں گے کہ اے ہمارے رب! ہم کو نکال لے ہم اچھے کام کریں گے برخلاف ان کاموں کے جو کیا کرتے تھے (اللہ کہے گا) کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی جس کو سمجھنا ہوتا وہ سمجھ سکتا اور تمہارے پاس ڈرانے والا بھی پہنچا تھا سو مزہ چکھو کہ (ایسے) ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔ (۳۵:۳۷) الغرض اور بھی بہت سی آیتوں سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ بغیر رسول بھیجے کسی کو جہنم میں نہیں بھیجتا ۔ إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ صحیح بخاری میں آیت إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ (۷:۵۶) کی تفسیر میں ایک لمبی حدیث مروی ہے جس میں جنت دوزخ کا کلام ہے ۔ پھر ہے کہ جنت کے بارے میں اللہ اپنی مخلوق میں سے کسی پر ظلم نہ کرے گا اور وہ جہنم کے لئے ایک نئی مخلوق پیدا کرے گا جو اس میں ڈال دی جائے گی جہنم کہتی رہے گی کہ کیا ابھی اور زیادہ ہے ؟ اس کے بابت علما کی ایک جماعت نے بہت کچھ کلام کیا ہے دراصل یہ جنت کے بارے میں ہے اس لئے کہ وہ دار فضل ہے اور جہنم دار عدل ہے اس میں بغیر عذر توڑے بغیر حجت ظاہر کئے کوئی داخل نہ کیا جائے گا ۔ اس لئے حفاظ حدیث کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ راوی کو اس میں الٹا یاد رہ گیا اور اس کی دلیل بخاری مسلم کی وہ روایت ہے جس میں اسی حدیث کے آخر میں ہے کہ دوزخ پر نہ ہو گی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس میں اپنا قدم رکھ دے گا اس وقت وہ کہے گی بس بس اور اس وقت بھر جائے گی اور چاورں طرف سے سمٹ جائے گی ۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہ کرے گا۔ ہاں جنت کے لئے ایک نئی مخلوق پیدا کرے گا ۔ باقی رہا یہ مسئلہ کہ کافروں کے جو نابالغ چھوٹے بچے بچپن میں مر جاتے ہیں اور جو دیوانے لوگ ہیں اور نیم بہرے اور جو ایسے زمانے میں گزرے ہیں جس وقت زمین پر کوئی رسول یا دین کی صحیح تعلیم نہیں ہوتی اور انہیں دعوت اسلام نہیں پہنچتی اور جو بالکل بڈھے حواس باختہ ہوں ان کے لئے کیا حکم ہے ؟ اس بارے میں شروع سے اختلاف چلا آ رہا ہے ۔ ان کے بارے میں جو حدیثیں ہیں وہ میں آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں پھر ائمہ کا کلام بھی مختصرا ًذکر کروں گا ، اللہ تعالیٰ مدد کرے ۔ پہلی حدیث مسند احمد میں ہے: چار قسم کے لوگ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے گفتگو کریں گے - ایک تو بالکل بہرا آدمی جو کچھ بھی نہیں سنتا - اور دوسرا بالکل احمق پاگل آدمی جو کچھ بھی نہیں جانتا ، - تیسرا بالکل بڈھا پھوس آدمی جس کے حواس درست نہیں ، - چوتھے وہ لوگ جو ایسے زمانوں میں گزرے ہیں جن میں کوئی پیغمبر یا اس کی تعلیم موجود نہ تھی ۔ بہرا تو کہے گا اسلام آیا لیکن میرے کان میں کوئی آواز نہیں پہنچی ، دیوانہ کہے گا کہ اسلام آیا لیکن میری حالت تو یہ تھی کہ بچے مجھ پر مینگنیاں پھینک رہے تھے اور بالکل بڈھے بےحواس آدمی کہیں گے کہ اسلام آیا لیکن میرے ہوش حواس ہی درست نہ تھے جو میں سمجھ کر سکتا رسولوں کے زمانوں کا اور ان کی تعلیم کو موجود نہ پانے والوں کا قول ہو گا کہ نہ رسول آئے نہ میں نے حق پایا پھر میں کیسے عمل کرتا ؟ اللہ تعالیٰ ان کی طرف پیغام بھیجے گا کہ اچھا جاؤ جہنم میں کود جاؤ اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر وہ فرماں برداری کر لیں اور جہنم میں کود پڑیں تو جہنم کی آگ ان پر ٹھنڈک اور سلامتی ہو جائے گی ۔ اور روایت میں ہے کہ جو کود پڑیں گے ان پر تو سلامتی اور ٹھنڈک ہو جائے گی اور جو رکیں گے انہیں حکم عدولی کے باعث گھسیٹ کی جہنم میں ڈال دیا جائے گا ۔ ابن جریر میں اس حدیث کے بیان کے بعد حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ فرمان بھی ہے کہ اگر تم چاہو تو اس کی تصدیق میں کلام اللہ کی آیت وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا پڑھ لو دوسری حدیث ابو داؤد طیالسی میں ہے : ہم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ ابو حمزہ مشرکوں کے بچوں کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ وہ گنہگار نہیں جو دوزخ میں عذاب کئے جائیں اور نیکوکار بھی نہیں جو جنت میں بدلہ دیئے جائیں ۔ تیسری حدیث ابو یعلی میں ہے: ان چاورں کے عذر سن کر جناب باری فرمائے گا کہ اوروں کے پاس تو میں اپنے رسول بھیجتا تھا لیکن تم سے میں آپ کہتا ہوں کہ جاؤ اس جہنم میں چلے جاؤ جہنم میں سے بھی فرمان باری سے ایک گردن اونچی ہو گی اس فرمان کو سنتے ہی وہ لوگ جو نیک طبع ہیں فورا دوڑ کر اس میں کود پڑیں گے اور جو باطل ہیں وہ کہیں گے اللہ پاک ہم اسی سے بچنے کے لئے تو یہ عذر معذرت کر رہے تھے اللہ فرمائے گا جب تم خود میری نہیں مانتے تو میرے رسولوں کی کیا مانتے اب تمہارے لئے فیصلہ یہی ہے کہ تم جہنمی ہو اور ان فرمانبرداروں سے کہا جائے گا کہ تم بیشک جنتی ہو تم نے اطاعت کر لی ۔ چوتھی حدیث مسند حافظ ابو یعلی موسلی میں ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسلمانوں کی اولاد کے بارے میں سوال ہوا تو آپ نے فرمایا وہ اپنے باپوں کے ساتھ ہے ۔ پھر مشرکین کی اولاد کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا وہ اپنے باپوں کے ساتھ ، تو کہا گیا یا رسول اللہ انہوں نے کوئی عمل تو نہیں کیا آپ نے فرمایا ہاں لیکن اللہ انہیں بخوبی جانتا ہے ۔ پانچویں حدیث حافظ ابوبکر احمد بن عمر بن عبدالخالق بزار رحمۃ اللہ علیہ اپنی مسند میں روایت کرتے ہیں: قیامت کے دن اہل جاہلیت اپنے بوجھ اپنی کمروں پر لادے ہوئے آئیں گے اور اللہ کے سامنے عذر کریں گے کہ نہ ہمارے پاس تیرے رسول پہنچے نہ ہمیں تیرا کوئی حکم پہنچا اگر ایسا ہوتا تو ہم جی کھول کر مان لیتے اللہ تعالیٰ فرمائے گا اچھا اب اگر حکم کروں تو مان لو گے ؟ وہ کہیں گے ہاں ہاں بیشک بلا چون و چرا ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرمائے گا اچھا جاؤ جہنم کے پاس جا کر اس میں داخل ہو جاؤ یہ چلیں گے یہاں تک کہ اس کے پاس پہنچ جائیں گے اب جو اس کا جوش اور اس کی آواز اور اس کے عذاب دیکھیں گے تو واپس آ جائیں گے اور کہیں گے اے اللہ ہمیں اس سے تو بچا لے ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا دیکھو تو اقرار کر چکے ہو کہ میری فرمانبرداری کرو گے پھر یہ نافرمانی کیوں ؟ وہ کہیں گے اچھا اب اسے مان لیں گے اور کر گزریں گے چنانچہ ان سے مضبوط عہد و پیمان لئے جائیں گے ، پھر یہی حکم ہو گا یہ جائیں گے اور پھر خوفزدہ ہو کر واپس لوٹیں گے اور کہیں گے اے اللہ ہم تو ڈر گئے ہم سے تو اس فرمان پر کار بند نہیں ہوا جاتا اب جناب باری فرمائے گا تم نافرمانی کر چکے اب جاؤ ذلت کے ساتھ جہنمی بن جاؤ ۔ امام بزار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس حدیث کا متن معروف نہیں ایوب سے صرف عباد ہی روایت کرتے ہیں اور عباد سے صرف ریحان بن سعید روایت کرتے ہیں ۔ میں کہتا ہوں اسے ابن حبان نے ثفہ بتلایا ہے ۔ یحیی بن معین اور نسائی کہتے ہیں ان میں کوئی ڈر خوف کی بات نہیں ۔ ابو داؤد نے ان سے روایت نہیں کی ۔ ابو حاتم کہتے ہیں یہ شیخ ہیں ان میں کوئی حرج نہیں ۔ ان کی حدیثیں لکھائی جاتی ہیں اور ان سے دلیل نہیں لی جاتی ۔ چھٹی حدیث امام محمد بن یحیٰی ذہلی رحمۃ اللہ علیہ روایت لائے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے خالی زمانے والے اور مجنون اور بچے اللہ کے سامنے آئیں گے ایک کہے گا میرے پاس تیری کتاب پہنچی ہی نہیں ، مجنوں کہے گا میں بھلائی برائی کی تمیز ہی نہیں رکھتا ۔ بچہ کہے گا میں نے سمجھ بوجھ کا بلوغت کا زمانہ پایا ہی نہیں ۔ اسی وقت ان کے سامنے آگ شعلے مارنے لگے گی ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اسے ہٹا دو تو جو لوگ آئندہ نیکی کرنے والے تھے وہ تو اطاعت گزار ہو جائیں گے اور جو اس عذر کے ہٹ جانے کے بعد بھی نافرمانی کرنے والے تھے وہ رک جائیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا جب تم میری ہی براہ راست نہیں مانتے تو میرے پیغمبروں کی کیا مانتے ؟ ساتویں حدیث انہی تین شخصوں کے بارے میں اوپر والی احادیث کی طرح اس میں یہ بھی ہے کہ جب یہ جہنم کے پاس پہنچیں گے تو اس میں سے ایسے شعلے بلند ہوں گے کہ یہ سمجھ لیں گے کہ یہ تو ساری دنیا کو جلا کر بھسم کر دیں گے دوڑتے ہوئے واپس لوٹ آئیں گے پھر دوبارہ یہی ہو گا اللہ عز و جل فرمائے گا ۔ تمہاری پیدائش سے پہلے ہی تمہارے اعمال کی خبر تھی میں نے علم ہوتے ہوئے تمہیں پیدا کیا تھا اسی علم کے مطابق تم ہو ۔ اے جہنم انہیں دبوچ لے چنانچہ اسی وقت آگ انہیں لقمہ بنا لے گی ۔ آٹھویں حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ان کے اپنے قول سمیت پہلے بیان ہو چکی ہے ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ان کے اپنے قول سمیت پہلے بیان ہو چکی ہے ۔ بخاری و مسلم میں آپ ہی سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہر بچہ دین اسلام پر پیدا ہوتا ہے ۔ پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی ، نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں۔ جیسے کہ بکری کے صحیح سالم بچے کے کان کاٹ دیا کرتے ہیں ۔ لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اگر وہ بچپن میں ہی مر جائے تو؟ آپ ﷺنے فرمایا اللہ کو ان کے اعمال کی صحیح اور پوری خبر تھی ۔ مسند کی حدیث میں ہے: مسلمان بچوں کی کفالت جنت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سپرد ہے ۔ صحیح مسلم میں حدیث قدسی ہے : میں نے اپنے بندوں کو موحد یکسو مخلص بنایا ہے ۔ ایک روایت میں اس کے ساتھ ہی مسلمان کا لفظ بھی ہے ۔ نویں حدیث حافظ ابوبکر یرقانی اپنی کتاب المستخرج علی البخاری میں روایت لائے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمای: ا ہر بچہ فطرت پر پیدا کیا جاتا ہے لوگوں نے باآواز بلند دریافت کیا کہ مشرکوں کے بچے بھی ؟ آپ نے فرمایا ہاں مشرکوں کے بچے بھی ۔ طبرانی کی حدیث میں ہے : مشرکوں کے بچے اہل جنت کے خادم بنائے جائیں گے ۔ دسویں حدیث مسند احمد میں ہے کہ ایک صحابی نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنت میں کون کون جائیں گے ۔ آپ ﷺنے فرمایا نبی اور شہید بچے اور زندہ درگور کئے ہوئے بچے ۔ علماء میں سے بعض کا مسلک تو یہ ہے کہ ان کے بارے میں ہم تؤقف کرتے ہیں ، خاموش ہیں ان کی بھی گزر چکی ۔ بعض کہتے ہیں یہ جنتی ہیں ان کی دلیل معراج والی وہ حدیث ہے جو صحیح بخاری شریف میں حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے: آپ نے اپنے اس خواب میں ایک شیخ کو ایک جنتی درخت تلے دیکھا ، جن کے پاس بہت سے بچے تھے ۔ سوال پر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں اور ان کے پاس یہ بچے مسلمانوں کی اور مشرکوں کی اولاد ہیں ، لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین کی اولاد بھی ؟ آپ نے فرمایا ہاں مشرکین کی اولاد بھی۔ بعض علماء فرماتے ہیں یہ دوزخی ہیں کیونکہ ایک حدیث میں ہے کہ وہ اپنے باپوں کے ساتھ ہیں ۔ بعض علماء کہتے ہیں ان کا امتحان قیامت کے میدانوں میں ہو جائے گا ۔ اطاعت گزار جنت میں جائیں گے ، اللہ اپنے سابق علم کا اظہار کر کے پھر انہیں جنت میں پہنچائے گا اور بعض بوجہ اپنی نافرمانی کے جو اس امتحان کے وقت ان سے سرزد ہو گی اور اللہ تعالیٰ اپنے پہلا علم آشکارا کر دیگا ۔ اس وقت انہیں جہنم کا حکم ہو گا ۔ اس مذہب سے تمام احادیث اور مختلف دلیلوں میں جمع ہو جاتی ہے اور پہلے کی حدیثیں جو ایک دوسری کو تقویت پہنچاتی ہیں اس معنی کی کئی ایک ہیں ۔ شیخ ابو الحسن علی بن اسماعیل اشعری رحمۃاللہ علیہ نے یہی مذہب اہل سنت والجماعت کا نقل فرمایا ہے ۔ اور اسی کی تائید امام بہیقی رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الاعتقاد میں کی ہے ۔ اور بھی بہت سے محققین علماء اور پرکھ والے حافظوں نے یہی فرمایا ہے ۔ شیخ ابو عمر بن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ عزی نے امتحان کی بعض روایتیں بیان کر کے لکھا ہے اس بارے کی حدیثیں قوی نہیں ہیں اور ان سے جحت ثابت نہیں ہوتی اور اہل علم کا انکار کرتے ہیں اس لئے کہ آخرت دار جزا ہے ، دار عمل نہیں ہے اور نہ دار امتحان ہے ۔ اور جہنم میں جانے کا حکم بھی تو انسانی طاقت سے باہر کا حکم ہے اور اللہ کی یہ عادت نہیں ۔ امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول کا جواب بھی سن لیجئے ، اس بارے جو حدیثیں ہیں ، ان میں سے بعض تو بالکل صحیح ہیں ۔ جیسے کہ آئمہ علماء نے تصریح کی ہے ۔ بعض حسن ہیں اور بعض ضعیف بھی ہیں لیکن وہ بوجہ صحیح اور حسن احادیث کے قوی ہو جاتی ہیں ۔ اور جب یہ ہے تو ظاہر ہے کہ یہ حدیثیں حجت و دلیل کے قابل ہو گئیں اب رہا امام صاحب کا یہ فرمان کہ آخرت دار عمل اور دار امتحان نہیں وہ دار جزا ہے ۔ یہ بیشک صحیح ہے لیکن اس سے اس کی نفی کیسے ہو گئی کہ قیامت کے مختلف میدانوں کی پیشیوں میں جنت دوزخ میں داخلے سے پہلے کوئی حکم احکام نہ دئے جائیں گے ۔ شیخ ابو الحسن اشعری رحمۃ اللہ علیہ نے تو مذہب اہلسنت والجماعت کے عقائد میں بچوں کے امتحان کو داخل کیا ہے ۔ مزید بارں آیت قرآن آیت يَوْمَ يُكْشَفُ عَن سَاقٍ وَيُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ (۶۸:۴۲) اس کی کھلی دلیل ہے کہ منافق و مؤمن کی تمیز کے لئے پنڈلی کھول دی جائے گی اور سجدے کا حکم ہو گا ۔ صحاح کی احادیث میں ہے کہ مؤمن تو سجدہ کر لیں گے اور منافق الٹے منہ پیٹھ کے بل گر پڑیں گے ۔ بخاری و مسلم میں اس شخص کا قصہ بھی ہے جو سب سے آخر میں جہنم سے نکلے گا : وہ اللہ سے وعدے وعید کرے گا سوا اس سوال کے اور کوئی سوال نہ کرے گا اس کے پورا ہونے کے بعد وہ اپنے قول قرار سے پھر جائے گا اور ایک اور سوال کر بیٹھے گا وغیرہ ۔ آخرت میں اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ابن آدم تو بڑا ہی عہد شکن ہے اچھا جا ، جنت میں چلا جا ۔ پھر امام صاحب کا یہ فرمانا کہ انہیں ان کی طاقت سے خارج بات کا یعنی جہنم میں کود پڑنے کا حکم کیسے ہو گیا ؟ اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ۔ یہ بھی صحت حدیث میں کوئی روک پیدا نہیں کر سکتا ۔ خود امام صاحب اور تمام مسلمان مانتے ہیں کہ پل صراط پر سے گزرنے کا حکم سب کو ہو گا جو جہنم کی پیٹھ پر ہو گا اور تلوار سے زیادہ تیز اور بال سے زیادہ باریک ہو گا ۔ مؤمن اس پر سے اپنی نیکیوں کے اندازے سے گزر جائیں گے ۔ بعض مثل بجلی کے، بعض مثل ہوا کے ، بعض مثل گھوڑوں کے بعض مثل اونٹوں کے ، بعض مثل بھاگنے والوں کے ، بعض مثل پیدل جانے والوں کے ، بعض گھٹنوں کے بل سرک سرک کر ، بعض کٹ کٹ کر ، جہنم میں پڑیں گے ۔ پس جب یہ چیز وہاں ہے تو انہیں جہنم میں کود پڑنے کا حکم تو اس سے کوئی نہیں بلکہ یہ اس سے بڑا اور بہت بھاری ہے ۔ اور سنئے حدیث میں ہے کہ دجال کے ساتھ آگ اور باغ ہو گا ۔ شارع علیہ السلام نے مؤمنوں کو حکم دیا ہے کہ وہ جسے آگ دیکھ رہے ہیں اس میں سے پیئیں وہ ان کے لئے ٹھنڈک اور سلامتی کی چیز ہے ۔ پس یہ اس واقعہ کی صاف نظیر ہے ۔ اور لیجئے بنو اسرائیل نے جب گو سالہ پرستی کی اس کی سزا میں اللہ نے حکم دیا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کو قتل کریں ایک ابر نے آ کر انہیں ڈھانپ لیا اب جو تلوار چلی تو صبح ہی صبح ابر پھٹنے سے پہلے ان میں سے ستر ہزار آدمی قتل ہو چکے تھے ۔ بیٹے نے باپ کو اور باپ نے بیٹے کو قتل کیا کیا یہ حکم اس حکم سے کم تھا ؟ کیا اس کا عمل نفس پر گراں نہیں ؟ پھر تو اس کی نسبت بھی کہہ دینا چاہیے تھے کہ اللہ کسی نفس کو اس کی برداشت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ۔ ان تمام بحثوں کے صاف ہونے کے بعد اب سنئے ۔ مشرکین کے بچپن میں مرے ہوئے بچوں کی بابت بھی بہت سے اقوال ہیں ۔ ایک یہ کہ یہ سب جنتی ہیں، ان کی دلیل وہی معراج میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس مشرکوں اور مسلمانوں کے بچوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دیکھنا ہے اور دلیل ان کی مسند کی وہ روایت ہے جو پہلے گزر چکی کہ آپ نے فرمایا بچے جنت میں ہیں ۔ ہاں امتحان ہونے کی جو حدیثیں گزریں وہ ان میں سے خصوص ہیں ۔ پس جن کی نسبت رب العالمین کو معلوم ہے کہ وہ مطیع اور فرمانبردار ہیں ان کی روحیں عالم برزخ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس ہیں اور مسلمانوں کے بچوں کی روحیں بھی ۔ اور جن کی نسبت اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ وہ قبول کرنے والی نہیں ، ان کا امر اللہ کے سپرد ہے وہ قیامت کے دن جہنمی ہوں گے ۔ جیسے کہ احادیث امتحان سے ظاہر ہے ۔ امام اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے اہل سنت سے نقل کیا ہے اب کوئی تو کہتا ہے کہ یہ مستقل طور پر جنتی ہیں کوئی کہتا ہے یہ اہل جنت کے خادم ہیں ۔ گو ایسی حدیث داؤد طیالسی میں ہے لیکن اس کی سند ضعیف ہے واللہ اعلم ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ مشرکوں کے بچے بھی اپنے باپ دادوں کے ساتھ جہنم میں جائیں گے جیسے کہ مسند وغیرہ کی حدیث میں ہے کہ وہ اپنے باپ دادوں کے تابعدار ہیں ۔ یہ سن کر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا بھی کہ باوجود بےعمل ہونے کے ؟ آپﷺ نے فرمایا وہ کیا عمل کرنے والے تھے ، اسے اللہ تعالیٰ بخوبی جانتا ہے ۔ ابو داؤد میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسلمانوں کی اولاد کی بابت سوال کیا تو آپﷺ نے فرمایا وہ اپنے باپ دادوں کے ساتھ ہیں ۔ میں نے کہا مشرکوں کی اولاد ؟ آپ ﷺنے فرمایا وہ اپنے باپ دادوں کے ساتھ ہیں ۔ میں کہا بغیر اس کے کہ انہوں نے کوئی عمل کیا ہو ؟ آپ ﷺنے فرمایا وہ کیا کرتے یہ اللہ کے علم میں ہے ۔ مسند کی حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا اگر تو چاہے تو میں ان کا رونا پیٹنا اور چیخنا چلانا بھی تجھے سنا دوں ۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے روایت لائے ہیں : حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے ان دو بچوں کی نسبت سوال کیا جو جاہلیت کم زمانے میں فوت ہوئے تھے آپ نے فرمایا وہ دونوں دوزخ میں ہیں جب آپ نے دیکھا کہ بات انہیں بھاری پڑی ہے تو آپ نے فرمایا اگر تم ان کی جگہ دیکھ لیتیں تو تم خود ان سے بےزار ہو جاتیں ۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پوچھا اچھا جو بچہ آپ سے ہوا تھا ؟ آپ نے فرمایا سنو مؤمن اور ان کی اولاد جنتی ہے اور مشرک اور ان کی اولاد جہنمی ہے ۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُم بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ان کی اتباع کی ایمان کے ساتھ کی ۔ ہم ان کی اولاد انہی کے ساتھ ملا دیں گے (۵۲:۴۲) یہ حدیث غریب ہے اس کی اسناد میں محمد بن عثمان راوی مجہول الحال ہیں اور ان کے شیخ زاذان نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہیں پایا واللہ اعلم ۔ ابو داؤد میں حدیث ہے زندہ درگور کرنے والی اور زندہ درگور کردہ شدہ دوزخی ہیں ۔ ابو داؤد میں یہ سند حسن مروی ہے حضرت سلمہ بن قیس اشجعی رشی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں اپنے بھائی کو لئے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہماری ماں جاہلیت کے زمانے میں مر گئی ہیں ، وہ صلہ رحمی کرنے والی اور مہمان نواز تھیں ، ہماری ایک نابالغ بہن انہوں نے زندہ دفن کر دی تھی ۔ آپ ﷺنے فرمایا ایسا کرنے والی اور جس کے ساتھ ایسا کیا گیا ہے دونوں دوزخی ہیں یہ اور بات ہے کہ وہ اسلام کو پالے اور اسے قبول کر لے ۔ تیسرا قول یہ ہے کہ ان کے بارے میں تؤقف کرنا چاہیے کوئی فیصلہ کن بات یکطرفہ نہ کہنی چاہئے ۔ ان کا اعتماد آپ کے اس فرمان پر ہے کہ ان کے اعمال کا صحیح اور پورا علم اللہ تعالیٰ کو ہے ۔ بخاری میں ہے کہ مشرکوں کی اولاد کے بارے میں جب آپ سے سوال ہوا تو آب نے انہی لفظوں میں جواب دیا تھا ۔ بعض بزرگ کہتے ہیں کہ یہ اعراف میں رکھے جائیں گے ۔ اس قول کا نتیجہ یہی ہے کہ یہ جنتی ہیں اس لئے کہ اعراف کوئی رہنے سہنے کی جگہ نہیں یہاں والے بالآخر جنت میں ہی جائیں گے ۔ جیسے کہ سورہ اعراف کی تفسیر میں ہم اس کی تفسیر کر آئے ہیں ، واللہ اعلم ۔ یہ تو تھا اختلاف مشرکوں کی اولاد کے بارے میں لیکن مؤمنوں کی نابالغ اولاد کے بارے میں تو علما کا بلااختلاف یہی قول ہے کہ وہ جنتی ہیں ۔ جیسے کہ حضرت امام احمد کا قول ہے اور یہی لوگوں میں مشہور بھی ہے اور انشاء اللہ عز و جل ہمیں بھی یہی امید ہے ۔ لیکن بعض علماء سے منقول ہے کہ وہ ان کے بارے میں تؤقف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سب بچے اللہ کی مرضی اور اس کی چاہت کے ماتحت ہیں ۔ اہل فقہ اور اہل حدیث کی ایک جماعت اس طرف بھی گئی ہے ۔ موطا امام مالک کی ابواب القدر کی احادیث میں بھی کچھ اسی جیسا ہے گو امام مالک کا کوئی فیصلہ اس میں نہیں ۔ لیکن بعض متاخرین کا قول ہے کہ مسلمان بچے تو جنتی ہیں اور مشرکوں کے بچے مشیت الہٰی کے ماتحت ہیں ۔ ابن عبد البر نے اس بات کو اسی وضاحت سے بیان کیا ہے لیکن یہ قول غریب ہے ۔ کتاب التذکرہ میں امام قرطبی رحمۃاللہ علیہ نے بھی یہی فرمایا ہے واللہ اعلم ۔ اس بارے میں ان بزرگوں نے ایک حدیث یہ بھی وارد کی ہے: انصاریوں کے ایک بچے کے جنازے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا گیا تو ماں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا اس بچے کو مرحبا ہو یہ تو جنت کی چڑیا ہے نہ برائی کا کوئی کام کیا نہ اس زمانے کو پہنچا تو آپ ﷺنے فرمایا: اس کے سوا کچھ اور بھی اے عائشہ ؟ سنو اللہ تبارک و تعالیٰ نے جنت والے پیدا کئے ہیں حالانکہ وہ اپنے باپ کی پیٹھ میں تھے ۔ اسی طرح اس نے جہنم کو پیدا کیا ہے اور اس میں جلنے والے پیدا کئے ہیں حالانکہ وہ ابھی اپنے باپ کی پیٹھ میں ہیں ۔ مسلم اور سنن کی یہ حدیث ہے چونکہ یہ مسئلہ صحیح دلیل بغیر ثابت نہیں ہو سکتا اور لوگ اپنی بےعلمی کے باعث بغیر ثبوت شارع کے اس میں کلام کرنے لگے ہیں ۔ اس لئے علماء کی ایک جماعت نے اس میں کلام کرنا ہی نا پسند رکھا ہے ۔ ابن عباس ، قاسم بن محمد بن ابی بکر صدیق اور محمد بن حنفیہ وغیرہ کا مذہب یہی ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تو منبر پر خطبے میں فرمایا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اس اُمت کا کام ٹھیک ٹھاک رہے گا جب تک کہ یہ بچوں کے بارے میں اور تقدیر کے بارے میں کچھ کلام نہ کریں گے (ابن حبان) امام ابن حبان کہتے ہیں مراد اس سے مشرکوں کے بچوں کے بارے میں کلام نہ کرنا ہے ۔ اور کتابوں میں یہ روایت حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اپنے قول سے موقوفاً مروی ہے ۔ وَإِذَا أَرَدْنَا أَنْ نُهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيرًا اور جب ہم کسی بستی کی ہلاکت کا ارادہ کر لیتے ہیں تو وہاں کے خوشحال لوگوں کو (کچھ) حکم دیتے ہیں اور وہ اس بستی میں کھلی نافرمانی کرنے لگتے ہیں تو ان پر (عذاب کی) بات ثابت ہو جاتی ہے پھر ہم اسے تباہ و برباد کر دیتے ہیں ۔ (۱۶) مشہور قرأت تو اس امر سے مراد تقدیری أَمَرْنَا ہے جیسے اور آیت میں ہے: أَتَاهَآ أَمْرُنَا لَيْلاً أَوْ نَهَارًا تو دن میں یا رات میں اس پر ہماری طرف سے کوئی حکم (عذاب) آپڑا (۱۰:۲۴) یاد رہے کہ اللہ برائیوں کا حکم نہیں کرتا۔ مطلب یہ ہے کہ وہ فحش کاریوں میں مبتلا ہو جاتے ہین اور اس وجہ سے مستحق عذاب ہو جاتے ہیں کہ ہم انہیں اپنی اطاعت کے احکام کرتے ہین اور برائئوں میں لگ جاتے ہیں پھر ہمارا سزا کا قول ان پر راست آ جاتا ہے جن کی قرأت أَمُرْنَا ہے وہ کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ وہاں کے سردار ہم بدکاروں کو بنا دیتے ہیں وہ وہاں اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں یہاں تک کہ عذاب الہٰی انہیں اس بستی سمیت تہس نہس کر دیتا۔ جیسے فرمان ہے: وَكَذلِكَ جَعَلْنَا فِي كُلِّ قَرْيَةٍ أَكَـبِرَ مُجْرِمِيهَا اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں وہاں کے رئیسوں ہی کو جرائم کا مرتکب بنایا (۶:۱۲۳) ابن عباسؓ فرماتے ہیں یعنی ہم ان کے دشمن بڑھا دیتے ہیں وہاں سرکشوں کی زیادتی کر دیتے ہیں۔ مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے: بہتر مال جانور ہے جو زیادہ بچے دینے والا ہو یا راستہ ہے جو کھجور کے درختوں سے پٹا ہوا ہے جیسے آپ کا قول ہے گناہ والیاں نہ کہ اجر پانے والیاں وَكَمْ أَهْلَكْنَا مِنَ الْقُرُونِ مِنْ بَعْدِ نُوحٍ ۗ وَكَفَى بِرَبِّكَ بِذُنُوبِ عِبَادِهِ خَبِيرًا بَصِيرًا ہم نے نوح کے بعد بھی بہت سی قومیں ہلاک کیں اور تیرا رب اپنے بندوں کے گناہوں سے کافی خبردار اور خوب دیکھنے بھالنے والا ہے (۱۷) اے قریشیوں ! ہوش سنبھالو میرے اس بزرگ رسول کی تکذیب کر کے بےخوف نہ ہو جاؤتم اپنے سے پہلے نوح علیہ السلام کے بعد کے لوگوں کو دیکھو کہ رسولوں کی تکذیب نے ان کا نام و نشان مٹا دیا ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نوح سے پہلے کے حضرت آدم علیہ السلام تک کے لوگ دین اسلام پر تھے ۔ پس تم اے قریشیو کچھ ان سے زیادہ ساز و سامان اور گنتی اور طاقت والے نہیں ہو ۔ اس کے باوجود کہ تم الشرف الرسل خاتم الانبیاء کو جھٹلا رہے ہو پس تم عذاب اور سزا کے زیادہ لائق ہو۔ اللہ تعالیٰ پر اپنے کسی بندے کا کوئی عمل پوشیدہ نہیں خیر و شر سب پر ظاہر ہے ، کھلا چھپا سب وہ جانتا ہے ہر عمل کو خود دیکھ رہا ہے ۔ مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَاءُ لِمَنْ نُرِيدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهُ جَهَنَّمَ يَصْلَاهَا مَذْمُومًا مَدْحُورًا جس کا ارادہ صرف اس جلدی والی دنیا (فوری فائدہ) کا ہی ہو اسے ہم یہاں جس قدر جس کے لئے چاہیں سردست دیتے ہیں بالآخر اس کے لئے ہم جہنم مقرر کر دیتے ہیں جہاں وہ برے حالوں میں دھتکارا ہوا داخل ہوگا (۱۸) کچھ ضروری نہیں کہ دنیا کی ہر ایک چاہت پوری ہو ، جس کا جو ارادہ اللہ پورا کرنا چاہے کر دے لیکن ہاں ایسے لوگ آخرت میں خالی ہاتھ رہ جائیں گے ۔ یہ تو وہاں جہنم کے گڑھے میں گھرے ہوئے ہوں گے نہایت برے حال میں ذلت و خواری میں ہوں گے ۔ کیونکہ یہاں انہوں نے یہی کیا تھا ، فانی کو باقی پر دنیا کو آخرت پر ترجیح دی تھی اس لئے وہاں رحمت الہٰی سے دور ہیں ۔ وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعَى لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَئِكَ كَانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُورًا اور جس کا ارادہ آخرت کا ہو اور جیسی کوشش اس کے لئے ہونی چاہئے، وہ کرتا بھی ہو اور وہ با ایمان بھی ہو، پس یہی لوگ ہیں جن کی کوشش کی اللہ کے ہاں پوری قدر دانی کی جائے گی (۱۹) مسند احمد میں ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: دنیا اس کا گھر ہے جس کے پاس اپنی گرہ کی عقل بالکل نہ ہو ۔ ہاں جو صحیح طریقے سے طالب دار آخرت میں کام آنے والی نیکیاں سنت کے مطابق کرتا رہے اور اس کے دل میں بھی ایمان تصدیق اور یقین ہو عذاب ثواب کے وعدے صحیح جانتا ہو ، اللہ و رسول کو مانتا ہو ، ان کی کوشش قدر دانی سے دیکھی جائے گی نیک بدلہ ملے گا ۔ كُلًّا نُمِدُّ هَؤُلَاءِ وَهَؤُلَاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّكَ ۚ ہر ایک کو ہم بہم پہنچائے جاتے ہیں انہیں بھی اور انہیں بھی تیرے پروردگار کے انعامات میں سے۔ یعنی ان دونوں قسم کے لوگوں کو ایک وہ جن کا مطلب صرف دنیا ہے دوسرے وہ جو طالب آخرت ہیں دونوں قسم کے لوگوں کو ہم بڑھاتے رہتے ہیں جس میں بھی وہ ہیں ، یہ تیرے رب کی عطا ہے ، وہ ایسا متصرف اور حاکم ہے جو کبھی ظلم نہیں کرتا ۔ مستحق سعادت کو سعادت اور مستحق شقاوت کو شقاوت دے دیتا ہے ۔ اس کے احکام کوئی رد نہیں کر سکتا ، اس کے روکے ہوئے کو کوئی دے نہیں سکتا اس کے ارادوں کو کوئی ڈال نہیں سکتا ۔ وَمَا كَانَ عَطَاءُ رَبِّكَ مَحْظُورًا تیرے پروردگار کی بخشش رکی ہوئی نہیں ہے ۔ (۲۰) تیرے رب کی نعمتیں عام ہیں ، نہ کسی کے روکے رکیں ، نہ کسی کے ہٹائے ہٹیں وہ نہ کم ہوتی ہیں نہ گھٹتی ہیں ۔ انْظُرْ كَيْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ ۚ دیکھ لے کہ ان میں ایک کو ایک پر ہم نے کس طرح فضیلت دے رکھی ہے دیکھ لو کہ دنیا میں ہم نے انسانوں کے کیسے مختلف درجے رکھے ہیں ان میں امیر بھی ہیں ، فقیر بھی ہیں درمیانہ حالت میں بھی ہیں ، اچھے بھی ہیں ، برے بھی ہیں اور درمیانہ درجے کے بھی ۔ کوئی بچپن میں مرتا ہے ، کوئی بوڑھا بڑا ہو کر ، کوئی اس کے درمیان ۔ وَلَلْآخِرَةُ أَكْبَرُ دَرَجَاتٍ وَأَكْبَرُ تَفْضِيلًا اور آخرت تو درجوں میں اور بھی بڑھ کر اور فضیلت کے اعتبار سے سے بھی بہت بڑی ہے ۔ (۲۱) آخرت درجوں کے اعتبار سے دنیا سے بھی بڑھی ہوئی ہے کچھ تو طوق و زنجیر پہنے ہوئے جہنم کے گڑھوں میں ہوں گے ، کچھ جنت کے درجوں میں ہوں گے ، بلند و بالا بالا خانوں میں نعمت و راحت سرور و خوشی میں ، پھر خود جنتیوں میں بھی درجوں کا تفاوت ہو گا ایک ایک درجے میں زمین و آسمان کا سا تفاوت ہو گا ۔ جنت میں ایسے ایک سو درجے ہیں ۔ بلند درجوں والے اہل علین کو اس طرح دیکھیں گے جیسے تم کسی چمکتے ستارے کو آسمان کی اونچائی پر دیکھتے ہو ۔ پس آخرت درجوں اور فضیلتوں کے اعتبار سے بہت بڑی ہے ، طبرانی میں ہے: جو بندہ دنیا میں جو درجہ چڑھنا چاہے گا اور اپنی خواہش میں کامیاب ہو جائے گا درجہ گھٹا دے گا جو اس سے بہت بڑا ہے پھر آپ نے یہی آیت پڑھی ۔ لَا تَجْعَلْ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ فَتَقْعُدَ مَذْمُومًا مَخْذُولًا اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ ٹھہرا کہ آخرش تو برے حالوں بےکس ہو کر بیٹھ رہے گا (۲۲) یہ خطاب ہر ایک مکلف سے ہے ۔ آپ کی تمام اُمت کو حق تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرو۔ اگر ایسا کرو گے تو ذلیل ہو جاؤ گے اللہ کی مدد ہٹ جائے گی ۔ جس کی عبادت کرو گے اسی کے سپرد کر دئے جاؤ گے اور یہ ظاہر ہے کہ اللہ کے سوا کوئی نفع نقصان کا مالک نہیں وہ واحد لا شریک ہے ۔ مسند احمد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: جسے فاقہ پہنچے اور وہ لوگوں سے اسے بند کروانا چاہے اس کا فاقہ بند نہ ہو گا اور جو اللہ سے اس کی بابت دعا کرے اللہ اس کے پاس تونگری بھیج دے گا یا تو جلدی یا دیر سے ۔ یہ حدیث ابو داؤد و ترمذی میں ہے ۔ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اسے حسن صحیح غریب بتلاتے ہیں ۔ وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے تم اس کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ یہاں قَضَى معنی میں حکم فرمانے کے ہے تاکیدی حکم الہٰی جو کبھی ٹلنے والا نہیں یہی ہے کہ عبادت اللہ ہی کی ہو اور والدین کی اطاعت میں سرمو فرق نہ آئے ۔ ابی ابن کعب ، ابن مسعود اور ضحاک بن مزاحم کی قرأت میں قَضَى کے بدلے وصی ہے ۔ یہ دونوں حکم ایک ساتھ جیسے یہاں ہیں ایسے ہی اور بھی بہت سی آیتوں میں ہیں ۔ جیسے فرمان ہے: أَنِ اشْكُرْ لِى وَلِوَلِدَيْكَ إِلَىَّ الْمَصِيرُ میرا شکر کر اور اپنے ماں باپ کا بھی احسان مند رہ ۔ (۳۱:۱۴) إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اُف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات کرنا (۲۳) خصوصاً ان کے بڑھاپے کے زمانے میں ان کا پورا ادب کرنا ، کوئی بری بات زبان سے نہ نکلنا یہاں تک کے ان کے سامنے ہوں بھی نہ کرنا ، نہ کوئی ایسا کام کرنا جو انہیں برا معلوم ہو، اپنا ہاتھ ان کی طرف بے ادبی سے نہ بڑھانا ، بلکہ ادب عزت اور احترام کے ساتھ ان سے بات چیت کرنا، نرمی اور تہذیب سے گفتگو کرنا ، ان کی رضا مندی کے کام کرنا ، دکھ نہ دینا ، ستانا نہیں ، وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے۔ (۲۴) ان کے سامنے تواضع ، عاجزی ، فروتنی اور خاکساری سے رہنا ان کے لئے ان کے بڑھاپے میں ان کے انتقال کے بعد دعائیں کرتے رہنا ۔ خصوصاً دعا کہ اے اللہ ان پر رحم کر جیسے رحم سے انہوں نے میرے بچپن کے زمانے میں میری پرورش کی ۔ ہاں ایمانداروں کو کافروں کے لئے دعا کرنا منع ہو گئی ہے گو وہ باپ ہی کیوں نہ ہوں ؟ ماں باپ سے سلوک و احسان کے احکام کی حدیثیں بہت سی ہیں ۔ ایک روایت میں ہے : آپ نے منبر پر چڑھتے ہوئے تین دفعہ آمین کہی، جب آپ سے وجہ دریافت کی گئی تو آپ نے فرمایا میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور کہا اے نبی اس شخص کی ناک خاک آلود ہو، جس کے پاس تیرا ذکر ہو اور اس نے تجھ پر درود بھی نہ پڑھا ہو ۔ کہئے آمین چنانچہ میں نے کہا آمین کہی ۔ پھر فرمایا اس شخص کی ناک بھی اللہ تعالیٰ خاک آلود کرے جس کی زندگی میں ماہ رمضان آیا اور چلا بھی گیا اور اس کی بخشش نہ ہوئی ۔ آمین کہئے چنانچہ میں نے اس پر بھی آمین کہی ۔ پھر فرمایا اللہ اسے بھی برباد کرے ۔ جس نے اپنے ماں باپ کو یا ان میں سے ایک کو پا لیا اور پھر بھی ان کی خدمت کر کے جنت میں نہ پہنچ سکا کہئے آمین میں نے کہا آمین ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے: جس نے کسی مسلمان ماں باپ کے یتیم بچہ کو پالا اور کھلایا پلایا یہاں تک کہ وہ بےنیاز ہو گیا اس کے لئے یقیناً جنت واجب ہے اور جس نے کسی مسلمان غلام کو آزاد کیا اللہ اسے جہنم سے آزاد کرے گا اس کے ایک ایک عضو کے بدلے اس کا ایک ایک عضو جہنم سے آزاد ہو گا ۔ اس حدیث کی ایک سند میں ہے جس نے اپنے ماں باپ کو یا دونوں میں سے کسی ایک کو پا لیا پھر بھی دوزخ میں گیا اللہ اسے اپنی رحمت سے دور کرے ۔ مسند احمد کی ایک روایت میں: یہ تینوں چیزیں ایک ساتھ بیان ہوئی ہیں یعنی گردن آزاد کرنا خدمت والدین اور پرورش یتیم ۔ ایک روایت میں ماں باپ کی نسبت یہ بھی ہے کہ اللہ اسے دور کرے اور اسے برباد کرے ۔ ایک روایت میں تین مرتبہ اس کے لئے یہ بدعا ہے ۔ ایک روایت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام سن کر درود نہ پڑھنے والے اور ماہ رمضان میں بخشش الہٰی سے محروم رہ جانے والے اور ماں باپ کی خدمت اور رضا مندی سے جنت میں نہ پہنچنے والے کے لئے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بدعا کرنا منقول ہے ۔ ایک انصاری نے حضور ﷺ سے سوال کیا کہ میرے ماں باپ کے انتقال کے بعد بھی ان کے ساتھ میں کوئی سلوک کر سکتا ہوں ؟ آپ نے فرمایا ہاں چار سلوک - ان کے جنازے کی نماز - ان کے لئے دعا و استغفار - ان کے وعدوں کو پورا کرنا - ان کے دوستوں کی عزت کرنا اور وہ صلہ رحمی جو صرف ان کی وجہ سے ہو ۔ یہ ہے وہ سلوک جو ان کی موت کے بعد بھی تو ان کے ساتھ کر سکتا ہے (ابوداؤد ابن ماجہ ) ایک شخص نے آ کر حضورwسے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں جہاد کے ارادے سے آپکی خدمت میں خوشخبری لے کر آیا ہوں ۔ آپ ﷺنے فرمایا تیری ماں ہے ؟ اس نے کہا ہاں فرمایا جا اسی کی خدمت میں لگا رہ ۔ جنت اسی کے پیروں کے پاس ہے ۔ دوبارہ سہ بارہ اس نے مختلف مواقع پر اپنی یہی بات دہرائی اور یہی جواب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دہرایا (نسائی ابن ماجہ وغیرہ) فرماتے ہیں: اللہ تمہیں تمہارے باپوں کی نسبت وصیت فرماتا ہے اللہ تمہیں تمہاری ماؤں کی نسبت وصیت فرماتا ہے ۔ پچھلے جملے کو تین بار بیان فرمایا اللہ تمہیں تمہارے قرابت داروں کی بابت وصیت کرتا ہے ، سب سے زیادہ نزدیک والا پھر اس کے پاس والا (ابن ماجہ مسند احمد ) فرماتے ہیں: دینے والے کا ہاتھ اونچا ہے اپنے ماں سے سلوک کر اور اور اپنے باپ سے اور اپنی بہن سے اور اپنے بھائی سے پھر جو اس کے بعد ہو اسی طرح درجہ بدرجہ (مسند احمد) بزار کی مسند میں ضعیف سند سے مروی ہے: ایک صاحب اپنی ماں کو اٹھائے ہوئے طواف کرا رہے تھے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرنے لگے کہ اب تو میں نے اپنی والدہ کا حق ادا کر دیا ہے ؟ آپ نے فرمایا ایک شمہ بھی نہیں ۔ واللہ اعلم رَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا فِي نُفُوسِكُمْ ۚ إِنْ تَكُونُوا صَالِحِينَ فَإِنَّهُ كَانَ لِلْأَوَّابِينَ غَفُورًا جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اسے تمہارا رب بخوبی جانتا ہے اگر تم نیک ہو تو وہ رجوع کرنے والوں کو بخشنے والا ہے۔ (۲۵) اس سے مراد وہ لوگ ہیں ، جن سے جلدی میں اپنے ماں باپ کے ساتھ کوئی ایسی بات ہو جاتی ہے جسے وہ اپنے نزدیک عیب کی اور گناہ کی بات نہیں سمجھتے ہیں چونکہ ان کی نیت بخیر ہوتی ہے ، اس لیے اللہ ان پر رحمت کرتا ہے جو ماں باپ کا فرمانبردار نمازی ہو اس کی خطائیں اللہ کے ہاں معاف ہیں ۔ کہتے ہیں کہ أَوَّابِينَ وہ لوگ ہیں جو مغرب عشا کی درمیان نوافل پڑھیں ۔ بعض کہتے ہیں جو صبح کی نماز ادا کرتے رہیں جو ہر گناہ کے بعد توبہ کر لیا کریں ۔ جو جلدی سے بھلائی کی طرف لوٹ آیا کریں ۔ تنہائی میں اپنے گناہوں کو یاد کر کے خلوص دل سے استغفار کر لیا کریں ۔ عبید کہتے ہیں جو برابر ہر مجلس سے اٹھتے ہوئے یہ دعا پڑھ لیا کریں ۔ اللہم اغفرلی ما اصبت فی مجلسی ھذا ابن دریر فرماتے ہیں اولیٰ قول یہ ہے کہ جو گناہ سے توبہ کر لیا کریں ۔ معصیت سے طاعت کی طرف آ جایا کریں ۔ اللہ کی ناپسندیدگی کے کاموں کو ترک کر کے اس کے اس کی رضا مندی اور پسندیدگی کے کام کرنے لگیں ۔ یہی قول بہت ٹھیک ہے کیونکہ لفظ اواب مشتق ہے اوب سے اور اس کے معنی رجوع کرنے کے ہیں جیسے عرب کہتے ہیں اب فلاں اور جیسے قرآن میں ہے: إِنَّ إِلَيْنَآ إِيَابَهُمْ ان کا لوٹنا ہماری ہی طرف ہے ۔ (۸۸:۲۵) صحیح حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر سے لوٹتے تو فرماتے : آيِبُونَ تَائِبُونَ، عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُون لوٹنے والے توبہ کرنے والے عبادتیں کرنے والے اپنے رب کی ہی تعریفیں کرنے والے ۔ وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ اور رشتے داروں کا اور مسکینوں اور مسافروں کا حق ادا کرتے رہو ماں باپ کے ساتھ سلوک و احسان کا حکم دے کر اب قرابتداروں کے ساتھ صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے۔ حدیث میں ہے اپنی ماں سے سلوک کر اور اپنے باپ سے پھر جو زیادہ قریب ہو اور جو زیادہ قریب ہو ، اور حدیث میں ہے جو اپنے رزق کی اور اپنی عمر کی ترقی چاہتا ہو اسے صلہ رحمی کرنی چاہئے ۔ بزاز میں ہے اس آیت کے اترتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ کو بلا کر فدک عطا فرمایا ۔ اس حدیث کی سند صحیح نہیں ۔ اور واقعہ بھی کچھ ٹھیک نہیں معلوم ہوتا اس لئے کہ یہ آیت مکیہ ہے اور اس وقت تک باغ فدک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قبضے میں نہ تھا۔۷ھ میں خیبر فتح ہوا تب باغ آپ کے قبضے میں آیا پس یہ قصہ اس پر پورا نہیں اترتا ۔ مساکین اور مسافرین کی پوری تفسیر سورہ برأت میں گزر چکی ہے یہاں دہرانے کی چنداں ضرورت نہیں ۔ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا اور اسراف اور بےجا خرچ سے بچو (۲۶) خرچ کا حکم کر کے پھر اسراف سے منع فرماتا ہے ۔ نہ تو انسان کو بخیل ہونا چأہیے نہ مسرف بلکہ درمیانہ درجہ رکھے ۔ جیسے اور آیت میں ہے: وَالَّذِينَ إِذَآ أَنفَقُواْ لَمْ يُسْرِفُواْ وَلَمْ يَقْتُرُواْ ایماندار اپنے خرچ میں نہ تو حد سے گزرتے ہیں نہ بالکل ہاتھ روک لیتے ہیں ۔ (۲۵:۶۷) إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ ۖ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ہی ناشکرا ہے (۲۷) پھر اسراف کی برائی بیان فرماتا ہے کہ ایسے لوگ شیطان جیسے ہیں ۔ تبذیر کہتے ہیں غیر حق میں خرچ کرنے کو ۔ اپنا کل مال بھی اگر راہ للہ دے دے تو یہ تبدیر و اسراف نہیں اور غیر حق میں تھوڑا سا بھی دے تو مبذر ہے بنو تمیم کے ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں مالدار آدمی ہوں اور اہل و عیال کنبے قبیلے والا ہوں تو مجھے بتائیے کہ میں کیا روش اختیار کروں ؟ آپ ﷺنے فرمایا اپنے مال کی زکوٰۃ الگ کر ، اس سے تو پاک صاف ہو جائے گا۔ اپنے رشتے داروں سے سلوک کر سائل کا حق پہنچاتا رہ اور پڑوسی اور مسکین کا بھی ۔ اس نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور تھوڑے الفاظ میں پوری بات سمجھا دیجئے ۔ آپ ﷺنے فرمایا قرابت داروں مسکینوں اور مسافروں کا حق ادا کر اور بےجا خرچ نہ کر ۔ اس نے کہا حسبی اللہ اچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب میں آپ کے قاصد کو زکوٰۃ ادا کر دوں تو اللہ و رسول کے نزدیک میں بری ہو گیا ؟ آپ ﷺنے فرمایا ہاں جب تو نے میرے قاصد کو دے دیا تو تو بری ہو گیا اور تیرے لئے جو اجر ثابت ہو گیا ۔ اب جو اسے بدل ڈالے اس کا گناہ اس کے ذمے ہے ۔ یہاں فرمان ہے کہ اسراف اور بیوقوفی اور اللہ کی اطاعت کے ترک اور نافرمانی کے ارتکاب کی وجہ سے مسرف لوگ شیطان کے بھائی بن جاتے ہیں ۔ شیطان میں یہی بد خصلت ہے کہ وہ رب کی نعمتوں کا شکر اس کی اطاعت کا تارک اسی کی نافرمانی اور مخالفت کا عامل ہے ۔ وَإِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ تَرْجُوهَا فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُورًا اور اگر تجھے ان سے منہ پھیر لینا پڑے اپنے رب کی رحمت کی جستجو میں، جس کی امید رکھتا ہے تو بھی تجھے چاہیے کہ عمدگی اور نرمی سے انہیں سمجھا دے ۔ (۲۸) پھر فرماتا ہے کہ ان قرابت داروں ، مسکینوں ، مسافروں میں سے کوئی کبھی تجھ سے کچھ سوال کر بیٹھے اور اس وقت تیرے ہاتھ تلے کچھ نہ ہو اور اس وجہ سے تجھے ان سے منہ پھیر لینا پڑے تو بھی جواب نرم دے کہ بھائی جب اللہ ہمیں دے گا انشاء اللہ ہم آپ کا حق نہ بھولیں گے وغیرہ ۔ وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَى عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَحْسُورًا اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ اسے بالکل ہی کھول دے کہ پھر ملامت کیا ہوا درماندہ بیٹھ جائے (۲۹) حکم ہو رہا ہے کہ اپنی زندگی میں میانہ روش رکھو نہ بخیل بنو نہ مسرف ۔ ہاتھ گردن سے نہ باندھ لو یعنی بخیل نہ بنو کہ کسی کو نہ دو۔ ہاتھ گردن سے نہ باندھ لو یعنی بخیل نہ بنو کہ کسی کو نہ دو۔ یہودیوں نے بھی اسی محاورے کو استعمال کیا ہے اور کہا ہے کہ اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ۔ ان پر اللہ کی لعنتیں نازل ہوں کہ یہ اللہ کو بخیلی کی طرف منسوب کرتے تھے ۔ جس سے اللہ تعالیٰ کریم و وہاب پاک اور بہت دور ہے ۔ پس بخل سے منع کر کے پھر اسراف سے روکتا ہے کہ اتنا کھل نہ کھیلو کہ اپنی طاقت سے زیادہ دے ڈالو ۔ پھر ان دونوں حکموں کا سبب بیان فرماتا ہے کہ بخیلی سے تو ملامتی بن جاؤ گے ہر ایک کی انگلی اٹھے گی کہ یہ بڑا بخیل ہے ہر ایک دور ہو جائے گا کہ یہ محض بےفیض آدمی ہے ۔ جیسے زہیر نے اپنے معلقہ میں کہا ہے ومن کان ذا مال ویبخل بمالہ علی قومہ یستغن عنہ و یذمم جو مالدار ہو کر بخیلی کرے لوگ اس سے بےنیاز ہو کر اس کی برائی کرتے ہیں ۔ پس بخیلی کی وجہ سے انسان برا بن جاتا ہے اور لوگوں کی نظروں سے گر جاتا ہے ہر ایک اسے ملامت کرنے لگتا ہے اور جو حد سے زیادہ خرچ کر گزرتا ہے وہ تھک کر بیٹھ جاتا ہے اس کے ہاتھ میں کچھ نہیں رہتا ۔ ضعیف اور عاجز ہو جاتا ہے جیسے کوئی جانور جو چلتے چلتے تھک جائے اور راستے میں اڑ جائے۔ لفظ حسیر سورہ تبارک میں بھی آیا ہے ۔ پس یہ بطور لف و نشر کے ہے ۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے: بخیل اور سخی کی مثال ان دو شخصوں جیسی ہے جن پر دو لوہے کے جبے ہوں ، سینے سے گلے تک ، سخی تو جوں جوں خرچ کرتا ہے اس کی کڑیاں ڈھیلی ہوتی جاتی ہیں اور اس کے ہاتھ کھلتے جاتے ہیں اور وہ جبہ بڑھ جاتا ہے یہاں تک کہ اس کی پوریوں تک پہنچ جاتا ہے اور اس کے اثر کو مٹاتا ہے اور بخیل جب کبھی خرچ کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے جبے کی کڑیاں اور سمٹ جاتی ہیں وہ ہر چند اسے وسیع کرنا چاہتا ہے لیکن اس میں گنجائش نہیں نکلتی ۔ بخاری و مسلم میں ہے: آپ ﷺنے حضرت اسما بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اللہ کی راہ میں خرچ کرتی رہ جمع نہ رکھا کر ، ورنہ اللہ بھی روک لے گا بند بھی روک لے گا بند باندھ کر روک نہ لیا کر ورنہ پھر اللہ بھی رزق کا منہ بند کر لے گا ۔ ایک اور روایت میں ہے شمار کر ورنہ اللہ بھی روک لے گا بند باندھ کر روک نہ لیا کر ورنہ پھر اللہ بھی رزق کا منہ بند کر لے گا ایک اور روایت میں ہے شمار کر کے نہ رکھا کرو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی گنتی نہ کر کے لے گا ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا : تو اللہ کی راہ میں خرچ کیا کر ، اللہ تعالیٰ تجھے دیتا رہے گا ۔ بخاری و مسلم میں ہے : حضور علیہ السلام فرماتے ہیں ہر صبح دو فرشتے آسمان سے اترتے ہیں ایک دعا کرتا ہے کہ اے اللہ سخی کو بدلہ دے اور دوسرا دعا کرتا ہے کہ بخیل کا مال تلف کر ۔ مسلم شریف میں ہے: صدقے خیرات سے کسی کا مال نہیں گھٹتا اور ہر سخاوت کرنے والے کو اللہ ذی عزت کر دیتا ہے اور جو شخص اللہ کے حکم کی وجہ سے دوسروں سے عاجزانہ برتاؤ کرے اللہ اسے بلند درجے کا کر دیتا ہے ۔ ایک اور حدیث میں ہے: طمع سے بچو اسی نے تم سے اگلے لوگوں کو ہلاک کیا ہے ۔ طمع کا پہلا حکم یہ ہوتا ہے کہ بخیلی کرو انہوں نے بخیلی کی پھر اس نے انہیں صلہ رحمی توڑنے کو کہا انہوں نے یہ بھی کیا پھر فسق و فجور کا حکم دیا یہ اس پر بھی کار بند ہوئے ۔ بیہقی میں ہے جب انسان خیرات کرتا ہے ستر شیطانوں کے جبڑے ٹوٹ جاتے ہیں ۔ مسند کی حدیث میں ہے درمیانہ خرچ رکھنے والا کبھی فقیر نہیں ہوتا ۔ إِنَّ رَبَّكَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقْدِرُ ۚ یقیناً تیرا رب جس کے لئے چاہے روزی کشادہ کر دیتا ہے اور جس کے لئے چاہے تنگ پھر فرماتا ہے کہ رزق دینے والا ، کشادگی کرنے والا ، تنگی میں ڈالنے والا ، اپنی مخلوق میں اپنی حسب منشا ہیر پھیر کرنے والا ، جسے چاہے غنی اور جسے چاہے فقیر کرنے والا اللہ ہی ہے ۔ ہر بات میں اس کی حکمت ہے ، وہی اپنی حکمتوں کا علیم ہے ، إِنَّهُ كَانَ بِعِبَادِهِ خَبِيرًا بَصِيرًا یقیناً وہ اپنے بندوں سے باخبر اور خوب دیکھنے والا ہے (۳۰) وہ خوب جانتا ہے اور دیکھتا ہے کہ مستحق امارت کون ہے اور مستحق فقیری کون ہے ؟ حدیث قدسی میں ہے: میرے بعض بندے وہ ہیں کہ فقیری ہی کے قابل ہیں اگر میں انہیں امیر بنا دوں تو ان کا دین تباہ ہو جائے اور میرے بعض بندے ایسے بھی ہیں جو امیری کے لائق ہیں اگر میں انہیں فقیر بنا دوں تو ان کا دین بگڑ جائے ۔ ہاں یہ یاد رہے کہ بعض لوگوں کے حق میں امیری اللہ کی طرف سے ڈھیل کے طور پر ہوتی ہے اور بعض کے لئے فقیری بطور عذاب ہوتی ہے اللہ تعالیٰ ہمیں ان دونوں سے بچائے ۔ وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ ۖ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ ۚ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئًا كَبِيرًا اور مفلسی کے خوف سے اپنی اولاد کو نہ مار ڈالو، ان کو تم کو ہم ہی روزی دیتے ہیں۔ یقیناً ان کا قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے (۳۱) دیکھو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بہ نسبت ان کے ماں باپ کے بھی زیادہ مہربان ہے ۔ ایک طرف ماں باپ کو حکم دیتا ہے کہ اپنا مال اپنے بچوں کو بطور ورثے کے دو اور دوسری جانب فرماتا ہے کہ انہیں مار نہ ڈالا کرو۔ جاہلیت کے لوگ نہ تو لڑکیوں کو ورثہ دیتے تھے نہ ان کا زندہ رکھنا پسند کرتے تھے بلکہ دختر کشی ان کی قوم کا ایک عام رواج تھا ۔ قرآن اس نافرجام رواج کی تردید کرتا ہے کہ یہ خیال کس قدر بودا ہے کہ انہیں کھلائیں گے کہاں سے ؟ کسی کی روزی کسی کے ذمہ نہیں سب کا روزی رساں اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ سورہ انعام میں فرمایا: وَلاَ تَقْتُلُواْ أَوْلَـدَكُمْ مِّنْ إمْلَـقٍ فقیری اور تنگ دستی کے خوف سے اپنی اولاد کی جان نہ لیا کرو۔ (۶:۱۵۱) اور فرمایا: نَّحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُم تمہیں اور انہیں روزیاں دینے والے ہم ہیں ۔ (۶:۱۵۱) ان کا قتل جرم عظیم اور گناہ کبیرہ ہے ۔ خِطْئًا کی دوسری قرأت خِطْئًا خطا ہے دونوں کے معنی ایک ہی ہیں ۔ بخاری و مسلم میں ہے : حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ کیا ہے ؟ آپ ﷺنے فرمایا یہ تو کسی کو اللہ کا شریک ٹھہرائے حالانکہ اسی اکیلے نے تجھے پیدا کیا ہے ۔ میں نے پوچھا اس کے بعد ؟ فرمایا یہ کہ تو اپنی اولاد کو اس خوف سے مار ڈالے کہ وہ تیرے ساتھ کھائیں گے ۔ میں نے کہا اس کے بعد ؟ فرمایا یہ کہ تو اپنی پڑوسن سے زنا کاری کرے ۔ وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا ۖ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا خبردار زنا کے قریب بھی نہ پھٹکنا کیونکہ وہ بڑی بےحیائی ہے اور بہت ہی بری راہ ہے ۔ (۳۲) زنا کاری اور اس کے اردگرد کی تمام سیاہ کاریوں سے قرآن روک رہا ہے زنا کو شریعت نے کبیرہ اور بہت سخت گناہ بتایا ہے وہ بدترین طریقہ اور نہایت بری راہ ہے ۔ مسند احمد میں ہے: ایک نوجوان نے زنا کاری کی اجازت آپ سے چاہی لوگ اس پر جھک پڑے کہ چپ رہ کیا کر رہا ہے ، کیا کہہ رہا ہے ۔ آپ ﷺنے اسے اپنے قریب بلا کر فرمایا بیٹھ جا جب وہ بیٹھ گیا تو آپ نے فرمایا کیا تو اس کام کو اپنی ماں کے لئے پسند کرتا ہے ؟ اس نے کہا نہیں اللہ کی قسم نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے آپ پر اللہ فدا کرے ہرگز نہیں ۔ آپﷺ نے فرمایا پھر سوچ لے کہ کوئی اور کیسے پسند کرے گا؟ آپ ﷺنے فرمایا اچھا تو اسے اپنی بیٹی کے لئے پسند کرتا ہے ؟ اس نے اسی طرح تاکید سے انکار کیا ۔ آپ ﷺنے فرمایا ٹھیک اسی طرح کوئی بھی اسے اپنی بیٹیوں کے لئے پسند نہیں کرتا اچھا اپنی بہن کے لئے اسے تو پسند کرے گا ؟ اس نے اسی طرح سے انکار کیا آپ ﷺ نے فرمایا اسی طرح دوسرے بھی اپنی بہنوں کے لئے اسے مکروہ سمجھتے ہیں ۔ بتا کیا تو چاہے گا کہ کوئی تیری پھوپھی سے ایسا کرے ؟ اس نے اسی سختی سے انکار کیا ۔ آپ ﷺنے فرمایا اسی طرح اور سب لوگ بھی ۔ پھر آپ نے اپنا ہاتھ اس کے سر پر رکھ کر دعا کی کہ الہٰی اس کے گناہ بخش ، اس کے دل کو پاک کر ، اسے عصمت والا بنا ۔ پھر تو یہ حالت تھی کہ یہ نوجوان کسی کی طرف نظر بھی نہ اٹھاتا ۔ ابن ابی الدنیا میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتےہیں شرک کے بعد کوئی گناہ زنا کاری سے بڑھ کر نہیں کہ آدمی اپنا نطفہ کسی ایسے رحم میں ڈالے جو اس کے لئے حلال نہیں ۔ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ۗ اور کسی جان کو جس کا مارنا اللہ نے حرام کر دیا ہرگز ناحق قتل نہ کرنا وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَانًا فَلَا يُسْرِفْ فِي الْقَتْلِ ۖ إِنَّهُ كَانَ مَنْصُورًا اور جو شخص مظلوم ہونے کی صورت میں مار ڈالا جائے ہم نے اس کے وارث کو طاقت دے رکھی ہے کہ پس اسے چاہیے کہ مار ڈالنے میں زیادتی نہ کرے بیشک وہ مدد کیا گیا ہے ۔ (۳۳) بغیر حق شرعی کے کسی کو قتل کرنا حرام ہے ۔ بخاری مسلم میں ہے: جو مسلمان اللہ کے واحد ہونے کی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے کی شہادت دیتا ہو اس کا قتل تین باتوں کے سوا حلال نہیں ۔ - یا تو اس نے کسی کو قتل کیا ہو - یا شادی شدہ ہو اور پھر زنا کیا ہو - یا دین کو چھوڑ کر جماعت کو چھوڑ دیا ہو ۔ سنن میں ہے: ساری دنیا کا فنا ہو جانا اللہ کے نزدیک ایک مؤمن کی قتل سے زیادہ آسان ہے ۔ اگر کوئی شخص نا حق دوسرے کے ہاتھوں قتل کیا گیا ہے تو اس کے وارثوں کو اللہ تعالیٰ نے قتل پر غالب کر دیا ہے ۔ اسے قصاص لینے اور دیت لینے اور بالکل معاف کر دینے میں سے ایک کا اختیار ہے ۔ ایک عجیب بات یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس آیت کریمہ کے عموم سے حضرت معاویہ کی سلطنت پر استدلال کیا ہے کہ وہ بادشاہ بن جائیں گے اس لئے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ انتہائی مظلومی کے ساتھ شہید کئے گئے تھے ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قاتلان حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے طلب کرتے تھے کہ ان سے قصاص لیں اس لئے کہ یہ بھی اموی تھے اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اموی تھے ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس میں ذرا ڈھیل کررہے تھے ۔ ادھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مطالبہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ تھا کہ ملک شام ان کے سپرد کر دیں ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں تا وقتیکہ آپ قاتلان عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہ دیں میں ملک شام کو آپ کی زیر حکومت نہ کروں گا چنانچہ آپ نے مع کل اہل شام کے بیعت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے انکار کر دیا ۔ اس جھگڑے نے طول پکڑا اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ شام کے حکمران بن گئے ۔ معجم طبرانی میں یہ روایت ہے: حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رات کی گفتگو میں ایک دفعہ فرمایا کہ آج میں تمہیں ایک بات سناتا ہوں نہ تو وہ ایسی پوشیدہ ہے ، نہ ایسی علانیہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ جو کچھ کیا گیا ، اس وقت میں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مشورہ دیا کہ آپ یکسوئی اختیار کر لیں ، واللہ اگر آپ کسی پتھر میں چھپے ہوئے ہوں گے تو نکال لئے جائیں گے لیکن انہوں نے میری نہ مانی ۔ اب ایک اور سنو اللہ کی قسم معاویہ تم پر بادشاہ ہو جائیں گے ، اس لئے کہ اللہ کا فرمان ہے ، جو مظلوم مار ڈالا جائے ، ہم اس کے وارثوں کو غلبہ اور طاقت دیتے ہیں ۔ پھر انہیں قتل کے بدلے میں قتل میں حد سے نہ گزرنا چاہئے ۔ سنو یہ قریشی تو تمہیں فارس و روم کے طریقوں پر آمادہ کر دیں گے اور سنو تم پر نصاریٰ اور یہود اور مجوسی کھڑے ہو جائیں گے اس وقت جس نے معروف کو تھام لیا اس نے نجات پا لی اور جس نے چھوڑ دیا اور افسوس کہ تم چھوڑنے والوں میں سے ہی ہو تو مثل ایک زمانے والوں کے ہوؤگے کہ وہ بھی ہلاک ہونے والوں میں ہلاک ہو گئے ۔ اب فرمایا ولی کو قتل کے بدلے میں حد سے نہ گزر جانا چاہئے کہ وہ قتل کے ساتھ مثلہ کرے ۔ کان ، ناک ، کاٹے یا قتل کے سوا اور سے بدلہ لے ۔ ولی مقتول شریعت ، غلبے اور مقدرت کے لحاظ سے ہر طرح مدد کیا گیا ہے ۔ وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّهُ ۚ اور یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ بجز اس طریقہ کے جو بہت ہی بہتر ہو، یہاں تک کہ وہ اپنی بلوغت کو پہنچ جائے یتیم کے مال میں بد نیتی سے ہیر پھیر نہ کرو ، ان کے مال ان کی بلوغت سے پہلے صاف ڈالنے کے ناپاک ارادوں سے بچو ۔ جس کی پرورش میں یہ یتیم بچے ہوں اگر وہ خود مالدار ہے تب تو اسے ان یتیموں کے مال سے بالکل الگ رہنا چاہئے اور اگر وہ فقیر محتاج ہے تو خیر بقدر معروف کھا لے صحیح مسلم شریف میں ہے : حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا میں تو تجھے بہت کمزور دیکھ رہا ہوں اور تیرے لئے وہی پسند فرماتا ہوں ، جو خود اپنے لئے چاہتا ہوں ۔ خبردار کبھی دو شخصوں کا والی نہ بننا اور نہ کبھی یتیم کے مال کا متولی بننا ۔ وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ ۖ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا اور وعدے پورے کرو کیونکہ قول و قرار کی باز پرس ہونے والی ہے ۔ (۳۴) پھر فرماتا ہے وعدہ وفائی کیا کرو جو وعدے وعید جو لین دین ہو جائے اس کی پاسبانی کرو اس کی بابت قیامت کے دن جواب دہی ہو گی ۔ ناپ پیمانہ پورا پورا کر دیا لوگوں کو ان کی چیز گھٹا کر کم نہ دو ۔ وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذَا كِلْتُمْ وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيمِ ۚ اور جب ناپنے لگو تو بھر پورے پیمانے سے ناپو اور سیدھی ترازو سے تولا کرو۔ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا یہی بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے بھی بہت اچھا ہے۔ (۳۵) قِسْطَاسِ کی دوسری قرأت قَسْطَاسِ بھی ہے پھر حکم ہوتا ہے بغیر پاسنگ کی صحیح وزن بتانے والی سیدھی ترازو سے بغیر ڈنڈی مارے تولا کرو ، دونوں جہان میں تم سب کے لئے یہی بہتری ہے دنیا میں بھی یہ تمہارے لین دین کی رونق ہے اور آخرت میں بھی یہ تمہارے چھٹکارے کی دلیل ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اے تاجرو تمہیں ان دو چیزوں کو سونپا گیا ہے جن کی وجہ سے تم سے پہلے کے لوگ برباد ہو گئے یعنی ناپ تول نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : جو شخص کسی حرام پر قدرت رکھتے ہوئے صرف خوف اللہ سے اسے چھوڑ دے تو اللہ تعالیٰ اسی دنیا میں اسے اس سے بہتر چیز عطا فرمائے گا ۔ وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ جس بات کی تمہیں خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑ یعنی جس بات کا علم نہ ہو اس میں زبان نہ ہلاؤ ۔ - بغیر علم کے کسی کی عیب جوئی اور بہتان بازی نہ کرو ۔ - جھوٹی شہادتیں نہ دیتے پھرو ۔ - بن دیکھے نہ کہہ دیا کرو کہ میں نے دیکھا ، - نہ بےسنے سننا بیان کرو، - نہ بےعلمی پر اپنا جاننا بیان کرو ۔ کیونکہ ان تمام باتوں کی جواب دہی اللہ کے ہاں ہو گی ۔ غرض وہم خیال اور گمان کے طور پر کچھ کہنا منع ہو رہا ہے ۔ جیسے فرمان قرآن ہے: اجْتَنِبُواْ كَثِيراً مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ زیادہ گمان سے بچو ، بعض گمان گناہ ہیں ۔ (۴۹:۱۲) حدیث میں ہے: گمان سے بچو ، گمان بدترین جھوٹی بات ہے ۔ ابو داؤد کی حدیث میں ہے: انسان کا یہ تکیہ کلام بہت ہی برا ہے کہ لوگ خیال کرتے ہیں ۔ اور حدیث میں ہے: بدترین بہتان یہ ہے کہ انسان جھوٹ موٹ کوئی خواب گھڑ لے اور صحیح حدیث میں ہے: جو شخص ایسا خواب از خود گھڑ لے قیامت کے دن اسے یہ تکلیف دی جائے گی کہ وہ دو جو کے درمیان گرہ لگائے اور یہ اس سے ہرگز نہیں ہونا۔ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے ۔ (۳۶) قیامت کے دن آنکھ کان دل سب سے باز پرس ہو گی سب کو جواب دہی کرنی ہو گی ۔ یہاں تلک کی جگہ أُولَئِكَ کا استعمال ہے، عرب میں استعمال برابر جاری ہے یہاں تک کہ شاعروں کے شعروں میں بھی۔ وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا ۖ إِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْأَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولًا اور زمین میں اکڑ کر نہ چل کہ نہ تو زمین کو پھاڑ سکتا ہے اور نہ لمبائی میں پہاڑوں کو پہنچ سکتا ہے (۳۷) اکڑ کر ، اترا کر ، تکبر کے ساتھ چلنے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو منع فرماتا ہے ۔ یہ عادت سرکش اور مغرور لوگوں کی ہے پھر اسے نیچا دکھانے کے لئے فرماتا ہے کہ گو کتنے ہی بلند سر ہو کر چلو لیکن پہاڑی کی بلندی سے پست ہی رہو گے اور گو کیسے ہی کھٹ پٹ کرتے ہوئے پاؤں مار مار کر چلو لیکن زمین کو پھاڑنے سے رہے ۔ بلکہ ایسے لوگوں کا حال برعکس ہوتا ہے جیسے کہ حدیث میں ہے: ایک شخص چادر جوڑے میں اتراتا ہوا چلا جا رہا تھا جو وہیں زمین میں دھنسا دیا گیا جو آج تک دھنستا ہوا چلا جا رہا ہے ۔ قرآن میں قارون کا قصہ موجود ہے کہ وہ مع اپنے محلات کے زمین دوز کر دیا گیا ۔ ہاں تواضع ، نرمی ، فروتنی اور عاجزی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ بلند کرتا ہے وہ اپنے آپ کو حقیر سمجھتا ہے اور لوگ اسے جلیل القدر سمجھتے ہیں اور تکبر کرنے والا اپنے تئیں بڑا آدمی سمجھتا ہے اور لوگوں کی نگاہوں میں وہ ذلیل و خوار ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ اسے کتوں اور سوروں سے بھی زیادہ حقیر جانتے ہیں ۔ امام ابوبکر بن ابی الدنیا رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب المحمول والتواضع میں لائے ہیں: ابن الاہیم دربار منصور میں جا رہا تھے ریشمی جبہ پہنے ہوئے تھا اور پنڈلیوں کے اوپر سے اسے دوہرا سلوایا تھا کہ نیچے سے قبا بھی دکھائی دیتی رہے اور اکڑتا اینڈتا جا رہا تھا ۔ حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ نے اسے اس حالت میں دیکھ کر فرمایا افوہ نک چڑھا ، بل کھایا ، رخساروں پھولا ، اپنے ڈنڑ بازو دیکھتا ، اپنے تیئں تولتا ، مستوں کے ذکر و شکر کو بھولا ، رب کے احکام کو چھوڑے ہوئے ، اللہ کے حق کو توڑا ، دیوانوں کی چال چلتا ، عضو عضو میں کسی کی دی ہوئی نعمت رکھتا ، شیطان کی لعنت کا مارا ہوا دیکھو جا رہا ہے ۔ الاہیم نے سن لیا اور اسی وقت لوٹ آیا اور عذر بہانہ کرنے لگا ۔ آپ نے فرمایا مجھ سے کیا معذرت کرتا ہے اللہ تعالیٰ سے توبہ کر اور اسے ترک کر ۔ کیا تو نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سنا : وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا عابد بختری رحمۃ اللہ علیہ نے آل علی میں سے ایک شخص کو اکڑتے ہوئے چلتا دیکھ کر فرمایا اے شخص جس نے تجھے یہ اکرام دیا ہے اس کی روش ایسی نہ تھی ۔ اس نے اسی وقت توبہ کر لی ۔ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک ایسے شخص کو دیکھ کر فرمایا کہ شیطان کے یہی بھائی ہوتے ہیں ۔ ابن ابی الدنیا میں حدیث ہے: جب میری اُمت غرور اور تکبر کی چال چلنے لگے گی اور فارسیوں اور رومیوں کو اپنی خدمت میں لگائے گی تو اللہ تعالیٰ ایک کو ایک پر مسلط کر دے گا ۔ كُلُّ ذَلِكَ كَانَ سَيِّئُهُ عِنْدَ رَبِّكَ مَكْرُوهًا ان سب کاموں کی برائی تیرے رب کے نزدیک (سخت) ناپسند ہے ۔ (۳۸) سَيِّئُهُ سیئہ کی دوسری قرأت سَيِّئُۃُ ہے تو معنی یہ ہوئے کہ جن جن کاموں سے ہم نے تمہیں روکا ہے یہ سب کام نہایت برے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ناپسندیدہ ہیں ۔ یعنی اپنی اولاد کو قتل نہ کرو سے لے کر اکڑ کر نہ چلو تک کے تمام کام ۔ اور سَيِّئُهُ کی قرأت پر مطلب یہ ہے کہ آیت وَقَضَى رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّـهُ (۱۷:۲۳)سے یہاں تک جو حکم احکام اور جو ممانعت اور روک بیان ہوئی اس میں جن برے کاموں کا ذکر ہے وہ سب اللہ کے نزدیک مکروہ کام ہیں ۔ امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے یہی توجیہ بیان فرمائی ہے ۔ ذَلِكَ مِمَّا أَوْحَى إِلَيْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَةِ ۗ یہ بھی منجملہ اس وحی کے ہے جو تیری جانب تیرے رب نے حکمت سے اتاری ہے یہ احکام ہم نے دئیے ہیں ۔ سب بہترین اوصاف ہیں اور جن باتوں سے ہم نے روکا ہے وہ بڑی ذلیل خصلتیں ہیں ہم یہ سب باتیں تیری طرف بذریعہ وحی کے نازل فرما رہے ہیں کہ تو لوگوں کو حکم دے اور منع کرے ۔ وَلَا تَجْعَلْ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ فَتُلْقَى فِي جَهَنَّمَ مَلُومًا مَدْحُورًا تو اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ بنانا کہ ملامت خوردہ اور راندہ درگاہ ہو کر دوزخ میں ڈال دیا جائے۔ (۳۹) دیکھ میرے ساتھ کسی کو معبود نہ ٹھہرانا ورنہ وہ وقت آئے گا کہ خود اپنے آپ کو ملامت کرنے لگے گا اور اللہ کی طرف سے بھی ملامت ہو گی بلکہ تمام اور مخلوق کی طرف سے بھی ۔ اور تو ہر بھلائی سے دور کر دیا جائے گا ۔ اس آیت میں بواسطہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی اُمت سے خطاب ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو معصوم ہیں ۔ أَفَأَصْفَاكُمْ رَبُّكُمْ بِالْبَنِينَ وَاتَّخَذَ مِنَ الْمَلَائِكَةِ إِنَاثًا ۚ إِنَّكُمْ لَتَقُولُونَ قَوْلًا عَظِيمًا کیا بیٹوں کے لئے تو اللہ نے تمہیں چھانٹ لیا اور خود اپنے لئے فرشتوں کو لڑکیاں بنالیں؟ بیشک تم بہت بڑا بول بول رہے ہو۔ (۴۰) ملعون مشرکوں کی تردید ہو رہی ہے کہ یہ تم نے خوب تقسیم کی ہے کہ بیٹے تمہارے اور بیٹیاں اللہ کی ۔ جو تمہیں ناپسند جن سے تم جلو کڑھو ۔ بلکہ زندہ درگور کر دو انہیں اللہ کے لئے ثابت کرو ۔ اور آیتوں میں بھی ان کا یہ کمینہ پن بیان ہوا ہے کہ یہ کہتے ہیں: وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَنُ وَلَدًا ـ لَقَدْ جِئْتُمْ شَيْئًا ... وَكُلُّهُمْ آتِيهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَرْدًا ان کا قول یہ ہے کہ اللہ رحمٰن نے بھی اولاد اختیار کی ہے۔ یقیناً تم بہت بری اور بھاری چیز لائے ہو۔ قریب ہے کہ اس قول کی وجہ سے آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں کہ وہ رحمٰن کی اولاد ثابت کرنے بیٹھے ۔ شان رحمٰن کے لائق نہیں کہ وہ اولاد رکھے۔ آسمان و زمین میں جو بھی ہیں سب کے سب اللہ کے غلام بن کر ہی آنے والے ہیں ۔ ان سب کو اس نے گھیر رکھا ہے اور سب کو پورے گن بھی رکھا ہے یہ سارے کے سارے قیامت کے دن اکیلے اس کے پاس حاضر ہونے والے ہیں (۱۹:۸۸،۹۵) وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِي هَذَا الْقُرْآنِ لِيَذَّكَّرُوا وَمَا يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُورًا ہم نے اس قرآن میں ہر ہر طرح بیان فرما دیا کہ لوگ سمجھ جائیں لیکن اس سے انہیں تو نفرت ہی بڑھتی ہے۔ (۴۱) اس پاک کتاب میں ہم نے تمام مثالیں کھول کھول کر بیان فرما دی ہیں ۔ وعدے وعید صاف طور پر مذکور ہیں تاکہ لوگ برائیوں سے اور اللہ کی نافرمانیوں سے بچیں ۔ لیکن تاہم ظالم لوگ تو حق سے نفرت رکھتے اور اس سے دور بھاگنے میں ہی بڑھ رہے ہیں ۔ قُلْ لَوْ كَانَ مَعَهُ آلِهَةٌ كَمَا يَقُولُونَ إِذًا لَابْتَغَوْا إِلَى ذِي الْعَرْشِ سَبِيلًا کہہ دیجئے! کہ اگر اللہ کے ساتھ اور معبود بھی ہوتے جیسے کہ یہ لوگ کہتے ہیں تو ضرور وہ اب تک مالک عرش کی جانب راہ ڈھونڈ نکالتے (۴۲) جو مشرک اللہ کے ساتھ اوروں کی بھی عبادت کرتے ہیں اور انہیں شریک الہٰی مانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہی کی وجہ سے ہم قرب الہٰی حاصل کر سکتے ہیں ان سے کہو کہ اگر تمہارا یہ گمان فاسد کچھ بھی جان رکھتا ہوتا اور اللہ کے ساتھ واقعی کوئی ایسے معبود ہوتے کہ وہ جسے چاہیں قرب الہٰی دلوا دیں اور جس کی جو چاہیں سفارش کر دیں تو خود وہ معبود ہی اس کی عبادت کرتے اس کا قرب ڈھونڈتے پس تمہیں صرف اسی کی عبادت کرنی چاہیے ، نہ اس کے سوا دوسرے کی عبادت ، نہ دوسرے معبود کی کوئی ضرورت کہ اللہ میں اور تم میں وہ واسطہ بنے ۔ اللہ کو یہ واسطے سخت نا پسند اور مکروہ معلوم ہوتے ہیں اور ان سے وہ انکار کرتا ہے اپنے تمام نبیوں رسولوں کی زبان سے اس سے منع فرماتا ہے ۔ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يَقُولُونَ عُلُوًّا كَبِيرًا جو کچھ یہ کہتے ہیں اس سے پاک اور بالا تر، بہت دور اور بہت بلند ہے ۔ (۴۳) اس کی ذات ظالموں کے بیان کردہ اس وصف سے بالکل پاک ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ ان آلودگیوں سے ہمارا مولا پاک ہے ، وہ احمد اور صمد ہے ، وہ ماں باپ اور اولاد سے پاک ہے ، اس کی جنس کا کوئی نہیں ۔ تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْأَرْضُ وَمَنْ فِيهِنَّ ۚ ساتوں آسمان اور زمین اور جو بھی ان میں ہے اسی کی تسبیح کر رہے ہیں۔ ساتوں آسمان و زمین اور ان میں بسنے والی کل مخلوق اس کی قدوسیت ، تسبیح ، تنزیہ ، تعظیم ، جلالت ، بزرگی ، بڑائی ، پاکیزگی اور تعریف بیان کرتی ہے اور مشرکین جو نکمے اور باطل اوصاف ذات حق کے لئے مانتے ہیں ، ان سے یہ تمام مخلوق برأت کا اظہار کرتی ہے اور اس کی الوہیت اور ربوبیت میں اسے واحد اور لا شریک مانتی ہے ۔ ہر ہستی اللہ کی توحید کی زندہ شہادت ہے ۔ ان نالائق لوگوں کے اقوال سے مخلوق تکلیف میں ہے ۔ تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا ـ أَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمَنِ وَلَدًا قریب ہے کہ اس قول کی وجہ سے آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں کہ وہ رحمٰن کی اولاد ثابت کرنے بیٹھے ۔ (۱۹:۹۰،۹۱) طبرانی میں مروی ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام ابراہیم اور زمزم کے درمیان سے جبرائیل و میکائیل مسجد اقصیٰ تک شب معراج میں لے گئے ، جبرائیل آپ کے دائیں تھے اور میکائیل بائیں ۔ آپ کو ساتوں آسمان تک اڑا لے گئے وہاں سے آپ لوٹے ۔ آپﷺ فرماتے ہیں کہ میں نے بلند آسمانوں میں بہت سی تسبیحات کے ساتھ یہ تسبیح سنی کہ سبحت السموات العلی من ذی المہابة مشفقات الذوی العلو بما علا سبحان العلی سبحانہ وتعالٰی مخلوق میں سے ہر ایک چیز اس کی پاکیزگی اور تعریف بیان کر رتی ہے ۔ لیکن اے لوگو تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے اس لئے کہ وہ تماری زبان میں نہیں ۔ حیوانات ، نباتات، جمادات سب اس کے تسبیح خواں ہیں ۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری میں ثابت ہے کہ کھانا کھاتے میں کھانے کی تسبیح ہم سنتے رہتے تھے ۔ ابوذر والی حدیث میں ہے : حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مٹھی میں چند کنکریاں لیں ، میں نے خود سنا کہ وہ شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح تسبیح باری کر رہی تھیں ۔اسی طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں بھی ۔ یہ حدیث صحیح میں اور مسندوں میں مشہور ہے ۔ کچھ لوگوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اونٹنیوں اور جانوروں پر سوار کھڑے ہوئے دیکھ کر فرمایا : سواری سلامتی کے ساتھ لو اور پھر اچھائی سے چھوڑ دیا کرو راستوں اور بازاروں میں اپنی سواریوں کو لوگوں سے باتیں کرنے کی کرسیاں اپنی سواریوں کو نہ بنا لیا کرو ۔ سنو بہت سے سواریاں اپنے سواروں سے بھی زیادہ ذکر اللہ کرنے والی اور ان سے بھی بہتر افضل ہوتی ہیں ۔ (مسند احمد) سنن نسائی میں ہے : حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مینڈک کے مار ڈالنے کو منع فرمایا اور فرمایا اس کا بولنا تسبیح الہٰی ہے ۔ اور حدیث میں ہے: - لا الہ الا اللہ کا کلمہ اخلاص کہنے کے بعد ہی کسی کی نیکی قابل قبول ہوتی ہے ۔ - الحمد للہ کلمہ شکر ہے اس کا نہ کہنے والا اللہ کا نا شکرا ہے ۔ - اللہ اکبر زمین و آسمان کی فضا بھر دیتا ہے ، - سبحان اللہ کا کلمہ مخلوق کی تسبیح ہے ۔ اللہ نے کسی مخلوق کو تسبیح اور نماز کے اقرار سے باقی نہیں چھوڑا ۔ جب کوئی لا حول والا قوة الا باللہ پڑھتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میرا بندہ مطیع ہوا اور مجھے سونپا ۔ مسند احمد میں ہے: ایک اعرابی طیالسی جبہ پہنے ہوئے جس میں ریشمی کف اور ریشمی گھنڈیاں تھیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اس شخص کا ارادہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ چرواہوں کے لڑکوں کو اونچا کرے اور سرداروں کے لڑکوں کو ذلیل کرے ۔ آپﷺ کو غصہ آ گیا اور اس کا دامن گھسیٹتے ہوئے فرمایا کہ تجھے میں جانورں کا لباس پہنے ہوئے تو نہیں دیکھتا ؟ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم واپس چلے ديئے اور بیٹھ کر فرمانے لگے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی وفات کے وقت اپنے بچوں کو بلا کر فرمایا کہ میں تمہیں بطور وصیت کے دو حکم دیتا ہوں اور دو ممانعت - ایک تو میں تمہیں اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنے سے منع کرتا ہوں - دوسرے تکبر سے روکتا ہوں اور پہلے حکم تو تمہیں یہ کرتا ہوں کہ لا الہ الا اللہ کہتے رہو اس لئے کہ اگر آسمان اور زمین اور ان کی تمام چیزیں ترازو کے پلڑے میں رکھ دی جائیں اور دوسرے میں صرف یہی کلمہ ہو تو بھی یہی کلمہ وزنی رہے گا سو اگر تمام آسمان و زمین ایک حلقہ بنا دئے جائیں اور ان پر اس کو رکھ دیا جائے تو وہ انہیں پاش پاش کر دے ، دوسرا حکم میرا سبحان اللہ و بحمدہ پڑھنے کا ہے کہ یہ ہر چیز کی نماز ہے اور اسی کی وجہ سے ہر ایک کو رزق دیا جاتا ہے ۔ ابن جریر میں ہے: آپ ﷺنے فرمایا آؤ میں تمہیں بتلاؤں کہ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے لڑکے کو کیا حکم دیا : فرمایا کہ پیارے بچے میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ سبحان اللہ کہا کرو ، یہ کل مخلوق کی تسبیح ہے اور اسی سے مخلوق کو روزی دی جاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہر چیز اس کی تسبیح و حمد بیان کرتی ہے اس کی اسناد بوجہ اودی راوی کے ضعیف ہے ۔ عکرمہ ؒ فرماتے ہیں ستون ، درخت ، دروازوں کی چولیں ، ان کی کھلنے اور بند ہونے کی آواز ، پانی کی کھڑ کھڑاہٹ یہ سب تسبیح الہٰی ہے ۔ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ۗ ایسی کوئی چیز نہیں جو اسے پاکیزگی اور تعریف کے ساتھ یاد نہ کرتی ہو۔ ہاں یہ صحیح ہے کہ تم اس کی تسبیح سمجھ نہیں سکتے۔ اللہ فرماتا ہے کہ ہر چیز حمد و ثنا کے بیان میں مشغول ہے ۔ ابراہیم کہتے ہیں طعام بھی تسبیح خوانی کرتا ہے سورہ حج کی آیت بھی اس کی شہادت دیتی ہے ۔ اور مفسرین کہتے ہیں کہ ہر ذی روح چیز تسبیح خواں ہے ، جیسے حیوانات اور نباتات ۔ ایک مرتبہ حضرت حسن رحمۃ اللہ کے پاس خوان آیا تو ابو یزید قاشی نے کہا کہ اے ابو سعید کیا یہ خوان بھی تسبیح گو ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں تھا ۔ مطلب یہ ہے کہ جب تک تر لکڑی کی صورت میں تھا تسبیح گو تھا جب کٹ کر سوکھ گیا تسبیح جاتی رہی ۔ اس قول کی تائید میں اس حدیث سے بھی مدد لی جا سکتی ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرتے ہیں فرماتے ہیں: انہیں عذاب کیا جا رہا ہے اور کسی بڑی چیز میں نہیں ایک تو پیشاب کے وقت پردے کا خیال نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغل خور تھا ، پھر آپ نے ایک تر ٹہنی لے کر اس کے دو ٹکڑے کر کے دونوں قبروں پر گاڑ دئے اور فرمایا کہ شاید جب تک یہ خشک نہ ہوں ، ان کے عذاب میں تخفیف رہے (بخاری ومسلم ) اس سے بعض علماء نے کہا ہے کہ جب تک یہ تر رہیں گی تسبیح پڑھتی رہیں گی جب خشک ہو جائیں گی تسبیح بند ہو جائے گی واللہ اعلم ۔ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا وہ بڑا برد بار اور بخشنے والا ہے۔ (۴۴) اللہ تعالیٰ حلیم و غفور ہے اپنے گنہگاروں کو سزا کرنے میں جلدی نہیں کرتا ، تاخیر کرتا ہے ، ڈھیل دیتا ہے ، پھر بھی اگر کفر و فسق پر اڑا رہے تو اچانک عذاب مسلط کر دیتا ہے ۔ بخاری و مسلم میں ہے: اللہ تعالیٰ کو مہلت دیتا ہے ، پھر جب مؤاخذہ کرتا ہے تو نہیں چھوڑتا ۔ دیکھو قرآن میں ہے : وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَى وَهِيَ ظَالِمَةٌ تیرے پروردگار کی پکڑ کا یہی طریقہ ہے جبکہ وہ بستیوں کے رہنے والے ظالموں کو پکڑتا ہے (۱۱:۱۰۲) اور آیت میں ہے فَكَأَيِّنْ مِنْ قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَا وَهِيَ ظَالِمَةٌ فَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا وَبِئْرٍ مُعَطَّلَةٍ وَقَصْرٍ مَشِيدٍ بہت سی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے تہہ و بالا کر دیا اس لئے کہ وہ ظالم تھے پس وہ اپنی چھتوں کے بل اوندھی ہوئی پڑی ہیں اور بہت سے آباد کنوئیں بیکار پڑے ہیں اور بہت سے پکے اور بلند محل ویران پڑے ہیں۔ (۲۲:۴۵) اور آیت میں ہے : وَكَأَيِّنْ مِنْ قَرْيَةٍ أَمْلَيْتُ لَهَا وَهِيَ ظَالِمَةٌ بہت سی ظلم کرنے والی بستیوں کو میں نے ڈھیل دی پھر آخر انہیں پکڑ لیا (۲۲:۴۸) آیت وکاین من قریۃ اھلکناھا وھی ظالمۃ الخ ہاں جو گناہوں سے رک جائے ، ان سے ہٹ جائے ، توبہ کرے تو اللہ بھی اس پر رحم اور مہربانی کرتا ہے ۔ اور آیت میں ہے : وَمَنْ يَعْمَلْ سُوءًا أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللَّهَ يَجِدِ اللَّهَ غَفُورًا رَحِيمًا جو شخص کوئی برائی کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ سے استغفار کرے تو اللہ کو بخشنے والا، مہربانی کرنے والا پائے گا۔ (۴:۱۰) سورہ فاطر کے آخر کی آیتوں میں یہی بیان ہے ۔ وَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ جَعَلْنَا بَيْنَكَ وَبَيْنَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ حِجَابًا مَسْتُورًا تو جب قرآن پڑھتا ہے ہم تیرے اور ان لوگوں کے درمیان جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے ایک پوشیدہ حجاب ڈال دیتے ہیں۔ (۴۵) فرماتا ہے کہ قرآن کی تلاوت کے وقت ان کے دلوں پر پردے پڑجاتے ہیں ، کوئی اثر انکے دلوں تک نہیں پہنچتا ۔ وہ حجاب انہیں چھپا لیتا ہے ۔ یہاں مَسْتُورًا ساتر کے معنی میں ہے ۔ وہ پردے گو بظاہر نظر نہ آئیں لیکن ہدایت میں اور ان میں وہ حد فاصل ہو جاتے ہیں ۔ مسند ابو یعلی موصلی میں ہے: سورہ تَبَّتْ يَدَا کے اترنے پر عورت اُم جمیل شور مچاتی دھاری دار پتھر ہاتھ میں لئے یہ کہتی ہوئی آئی کہ اس مذمم کو ہم ماننے والے نہیں ہمیں اس کا دین ناپسند ہے ، ہم اس کے فرمان کے مخالف ہیں ۔ اس وقت رسول الکریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے ، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے پاس تھے ، کہنے لگے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ آ رہی ہے اور آپ کو دیکھ لے گی ۔ آپ ﷺنے فرمایا بےفکر رہو یہ مجھے نہیں دیکھ سکتی اور آپ نے اس سے بچنے کے لئے تلاوت قرآن شروع کر دی ۔ یہی آیت تلاوت فرمائی وہ آئی اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھنے لگی کہ میں نے سنا ہے ۔ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میری ہجو کی ہے ، آپ نے فرمایا ، نہیں ، رب کعبہ کی قسم تیری ہجو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کی ، وہ یہ کہتی ہوئی لوٹی کہ تمام قریش جانتے ہیں کہ میں ان کے سردار کی لڑکی ہوں ۔ وَجَعَلْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَنْ يَفْقَهُوهُ وَفِي آذَانِهِمْ وَقْرًا ۚ اور ان کے دلوں پر ہم نے پردے ڈال دیئے ہیں کہ وہ اسے سمجھیں اور ان کے کانوں میں بوجھ أَكِنَّةً کنان کی جمع ہے اس پردے نے ان کے دلوں کو ڈھک رکھا ہے جس سے یہ قرآن سمجھ نہیں سکتے ان کے کانوں میں بوجھ ہے ، جس سے وہ قرآن اس طرح سن نہیں سکتے کہ انہیں فائدہ پہنچے وَإِذَا ذَكَرْتَ رَبَّكَ فِي الْقُرْآنِ وَحْدَهُ وَلَّوْا عَلَى أَدْبَارِهِمْ نُفُورًا اور جب تو صرف اللہ ہی کا ذکر اس کی توحید کے ساتھ، اس قرآن میں کرتا ہے تو وہ روگردانی کرتے پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوتے ہیں ۔ (۴۶) اور جب تو قرآن میں اللہ کی وحدانیت کا ذکر پڑھتا ہے تو یہ بےطرح بھاگ کھڑے ہوتے ہیں ۔ نُفُورًا جمع ہے نافر کی جیسے قاعد کی جمع عقود آتی ہے اور ہو سکتا ہے کہ یہ مصدر بغیر فعل ہو واللہ اعلم ۔ جیسے اور آیت میں ہے: وَإِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَحْدَهُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ الَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ بِالاٌّخِرَةِ اور جب اس کے سوا (اور کا) ذکر کیا جائے تو ان کے دل کھل کر خوش ہو جاتے ہیں (۳۹:۴۵) مسلمانوں کا لا الہ الا اللہ کا مشرکوں پر بہت گراں گزرتا تھا ابلیس اور اس کا لشکر اس سے بہت چڑتا تھا ۔ اس کے دبانے کی پوری کوشش کرتا تھا لیکن اللہ کا ارادہ ان کے برخلاف اسے بلند کرنے اور عزت دینے اور پھیلانے کا تھا ۔ یہی وہ کلمہ ہے کہ اس کا قائل فلاح پاتا ہے اس کا عامل مدد دیا جاتا ہے دیکھ لو اس جزیرے کے حالات تمہارے سامنے ہیں کہ یہاں سے وہاں تک یہ پاک کلمہ پھیل گیا ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد شیطانوں کا بھاگنا ہے گو بات یہ ٹھیک ہے ۔ اللہ کے ذکر سے ، اذان سے ، تلاوت قرآن سے ، شیطان بھاگتا ہے لیکن اس آیت کی تفسیر کرنا غرابت سے خالی نہیں ۔ نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَسْتَمِعُونَ بِهِ إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ وَإِذْ هُمْ نَجْوَى جس غرض سے وہ لوگ اسے سنتے ہیں ان (کی نیتوں) سے ہم خوب آگاہ ہیں، جب یہ آپ کی طرف کان لگائے ہوئے ہوتے ہیں تب بھی اور جب مشورہ کرتے ہیں تب بھی سراداران کفر جو آپس میں باتیں بناتے تھے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچائی جا رہی ہیں کہ آپ تو تلاوت میں مشغول ہوتے ہیں یہ چپکے چپکے کہا کرتے ہیں کہ اس پر کسی نے جادو کر دیا ہے اور ہو سکتا ہے کہ یہ مطلب ہو کہ یہ تو ایک انسان ہے جو کھانے پینے کا محتاج ہے ۔ گو یہ لفظ اسی معنی میں شعر میں بھی ہے اور امام ابن جریر نے اسی کو ٹھیک بھی بتلایا ہے لیکن یہ غور طلب ہے ۔ إِذْ يَقُولُ الظَّالِمُونَ إِنْ تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَسْحُورًا جب کہ یہ ظالم کہتے ہیں کہ تم اس کی تابعداری میں لگے ہوئے ہو جن پر جادو کر دیا گیا ہے۔ (۴۷) ان کا ارادہ اس موقع پر اس کہنے سے یہ تھا کہ خود یہ جادو میں مبتلا ہے کوئی ہے جو اسے اس موقع پر کچھ پڑھا جاتا۔ انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثَالَ فَضَلُّوا فَلَا يَسْتَطِيعُونَ سَبِيلًا دیکھیں تو سہی، آپ کے لئے کیا کیا مثالیں بیان کرتے ہیں، پس وہ بہک رہے ہیں۔ اب تو راہ پانا ان کے بس میں نہیں رہا (۴۸) کافر لوگ طرح طرح کے وہم آپ کی نسبت ظاہر کرتے تھے کوئی کہتا آپ شاعر ہیں ، کوئی کہتا کاہن ہیں ، کوئی مجنوں بتلاتا ، کوئی جادوگر وغیرہ ۔ اس لئے فرماتا ہے کہ دیکھو یہ کیسے بہک رہے ہیں کہ حق کی جانب آ ہی نہیں سکتے۔ سیرۃ محمد بن اسحاق میں ہے: ابو سفیان بن حرب ، ابوجہل بن ہشام ، اخنس بن شریق رات کے وقت اپنے اپنے گھروں سے کلام اللہ شریف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سننے کے لئے نکلے آپ اپنے گھر میں رات کو نماز پڑھ رہے تھے ۔ یہ لوگ آ کر چپ چاپ چھپ کر ادھر ادھر بیٹھ گئے ایک کو دوسرے کی خبر نہ تھی ، رات کو سنتے رہے فجر ہوتے وقت یہاں سے چلے ، اتفاقا ًراستے میں سب کی آپس میں ملاقات ہو گئی ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے اور کہنے لگے اب سے یہ حرکت نہ کرنا ورنہ اور لوگ تو بالکل اسی کے ہو جائیں گے ۔ لیکن رات کو پھر یہ تینوں آ گئے اور اپنی اپنی جگہ بیٹھ کر قرآن سننے میں رات گزاری ۔ صبح واپس چلے راستے میں مل گئے ، پھر سے کل کی باتیں دہرائیں اور آج پختہ ارادہ کیا کہ اب سے ایسا کام ہرگز کوئی نہ کرے گا۔ تیسری رات پھر یہی ہوا اب کے انہوں نے کہا آؤ عہد کر لیں کہ اب نہیں آئیں گے چنانچہ قول قرار کر کے جدا ہوئے صبح کو اخنس اپنی لاٹھی سنبھالے ابو سفیان کے گھر پہچا اور کہنے لگا ابو حنظلہ مجھے بتاؤ تمہاری اپنی رائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت کیا ہے ؟ اس نے کہا ابو ثعلبہ جو آیتیں قرآن کی میں نے سنی ہیں ، ان میں سے بہت سی آیتوں کا تو مطلب میں جان گیا ، لیکن بہت سی آتیوں کی مراد مجھے معلوم نہیں ہوئی ۔ اخنس نے کہا واللہ میرا بھی یہی حال ہے ۔ یہاں سے ہو کر اخنس ابوجہل کے پاس پہنچا ۔ اس سے بھی یہی سوال کیا اس نے کہا سنئے ۔ شرافت و سرداری کے بارے میں ہمارا بنو عبد مناف سے مدت کا جھگڑا چلا آتا ہے انہوں نے کھلایا تو ہم نے بھی کھلانا شروع کر دیا ، انہوں نے سواریاں دیں تو ہم نے بھی انہیں سواریوں کے جانور دئے ۔ انہوں نے لوگوں کے ساتھ سلوک کئے اور ان انعامات میں ہم نے بھی ان سے پیچھے رہنا پسند نہ کیا ۔ اب جب کہ تمام باتوں میں وہ اور ہم برابر رہے اس دوڑ میں جب وہ بازی لے جا نہ سکے تو جھٹ سے انہوں نے کہہ دیا کہ ہم میں نبوت ہے ، ہم میں ایک شخص ہے ، جس کے پاس آسمانی وحی آتی ہے ، اب بتاؤ اس کو ہم کیسے مان لیں ؟ واللہ نہ اس پر ہم ایمان لائیں گے نہ کبھی اسے سچا کہیں گے اسی وقت اخنس اسے چھوڑ کر چل دیا ۔ وَقَالُوا أَإِذَا كُنَّا عِظَامًا وَرُفَاتًا أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ خَلْقًا جَدِيدًا انہوں نے کہا کہ جب ہم ہڈیاں اور (مٹی ہو کر) ریزہ ریزہ ہوجائیں گے تو کیا ہم از سر نو پیدا کرکے پھر دوبارہ اٹھا کر کھڑے کر دیئے جائیں گے (۴۹) کافر جو قیامت کے قائل نہ تھے اور مرنے کے بعد کے جینے کو محال جانتے تھے وہ بطور انکار پوچھا کرتے تھے کہ کیا ہم جب ہڈی اور مٹی ہو جائیں گے ، غبار بن جائیں گے ، کچھ نہ رہیں گے بالکل مٹ جائیں گے ۔ پھر بھی نئی پیدائش سے پیدا ہوں گے ؟ سورہ نازعات میں ان منکروں کا قول بیان ہوا ہے: يَقُولُونَ أَءِنَّا لَمَرْدُودُونَ فِى الْحَـفِرَةِ ـ أَءِذَا كُنَّا عِظَـماً نَّخِرَةً ـ قَالُواْ تِلْكَ إِذاً كَرَّةٌ خَـسِرَةٌ کیا ہم مرنے کے بعد الٹے پاؤں زندگی میں لوٹائے جائیں گے اور وہ بھی ایسی حالت میں کہ ہماری ہڈیاں بھی گل سڑ گئی ہو؟بھئی یہ تو بڑے ہی خسارے کی بات ہے ۔ (۷۹:۱۰،۱۲) سورہ یٰسین میں ہے: وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَنَسِيَ خَلْقَهُ ۖ ... وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ اور اس نے ہمارے لئے مثال بیان کی اور اپنی (اصل) پیدائش کو بھول گیا، کہنے لگا ان کی گلی سڑی ہڈیوں کو کون زندہ کر سکتا ہے؟ آپ جواب دیجئے! کہ انہیں وہ زندہ کرے گا جس نے اول مرتبہ پیدا کیا ہے جو سب طرح کی پیدائش کا بخوبی جاننے والا ہے۔ (۳۸:۷۸،۷۹) قُلْ كُونُوا حِجَارَةً أَوْ حَدِيدًا جواب دیجئے کہ تم پتھر بن جاؤ یا لوہا ۔ (۵۰) پس انہیں جواب دیا جاتا ہے کہ ہڈیاں تو کیا تم خواہ پتھر بن جاؤ خواہ لوہا بن جاؤ ۔ أَوْ خَلْقًا مِمَّا يَكْبُرُ فِي صُدُورِكُمْ ۚ یا کوئی اور ایسی خلقت جو تمہارے دلوں میں بہت ہی سخت معلوم ہو، خواہ اس سے بھی زیادہ سخت چیز بن جاؤ مثلاً پہاڑ یا زمین یا آسمان بلکہ تم خود موت ہی کیوں نہ بن جاؤ اللہ پر تمہارا جلانا مشکل نہیں جو چاہو ہو جاؤ دوبارہ اٹھو گے ضرور ۔ حدیث میں ہے: بھیڑ یے کی صورت میں موت کو قیامت کے دن جنت دوزخ کے درمیان لایا جاتا ہے اور دونوں سے کہا جائے گا کہ اسے پہچانتے ہو ؟ سب کہیں گے ہاں پھر اسے وہیں ذبح کر دیا جائے گا اور منادی ہو جائے گی کہ اے جنتیو اب دوام ہے موت نہیں اور اے جہنمیو اب ہمیشہ قیام ہے موت نہیں ۔ فَسَيَقُولُونَ مَنْ يُعِيدُنَا ۖ قُلِ الَّذِي فَطَرَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ ۚ پھر وہ یہ پوچھیں کہ کون ہے جو دوبارہ ہماری زندگی لوٹائے؟ جواب دیں کہ وہی اللہ جس نے تمہیں اول بار پیدا کیا، یہاں فرمان ہے کہ یہ پوچھتے ہیں کہ اچھا جب ہم ہڈیاں اور چورا ہو جائیں یا پتھر اور لوہا ہو جائیں گے یا جو ہم چاہیں اور جو بڑی سے بڑی سخت چیز ہو وہ ہم ہو جائیں تو یہ تو بتلاؤ کہ کس کے اختیار میں ہے کہ اب ہمیں پھر سے اس زندگی کی طرف لوٹا دے ؟ ان کے اس سوال اور بےجا اعتراض کے جواب میں تو انہیں سمجھا کہ تمہیں لوٹانے والا تمہارا سچا خالق اللہ تعالیٰ ہے ۔ وَهُوَ الَّذِى يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ وہی ہے جو اول بار مخلوق کو پیدا کرتا ہے پھر سے دوبارہ پیدا کرے گا اور یہ تو اس پر بہت ہی آسان ہے۔ (۳۰:۲۷) جس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا ہے جب کہ تم کچھ نہ تھے ۔ پھر اس پر دوسری بار کی پیدائش کیا گراں ہے ؟ بلکہ بہت آسان ہے تم خواہ کچھ بھی بن جاؤ ۔ فَسَيُنْغِضُونَ إِلَيْكَ رُءُوسَهُمْ وَيَقُولُونَ مَتَى هُوَ ۖ اس پر وہ اپنے سر ہلا ہلا کر آپ سے دریافت کریں گے کہ اچھا یہ ہے کب؟ یہ جواب چونکہ لا جواب ہے حیران تو ہو جائیں گے لیکن پھر بھی اپنی شرارت سے باز نہ آئیں گے ، ، بد عقیدگی نہ چھوڑیں گے اور بطور مذاق سر ہلاتے ہوئے کہیں گے کہ اچھایہ ہوگا کب ؟ سچے ہو تو وقت کا تعین کر دو ۔ جیسے اور جگہ ہے: وَيَقُولُونَ مَتَى هَـذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَـدِقِينَ وہ کہتے ہیں کہ یہ وعدہ کب ہوگا، سچے ہو تو بتلاؤ۔ (۳۶:۴۸) بے ایمانوں کا یہ شیوہ ہے کہ وہ جلدی مچاتے رہتے ہیں ۔ جیسے فرمایا: يَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ بِهَا اس کی جلدی انہیں پڑی ہے جو اسے نہیں مانتے (۴۲:۱۸) قُلْ عَسَى أَنْ يَكُونَ قَرِيبًا تو آپ جواب دے دیں کہ کیا عجب کہ وہ (ساعت) قریب ہی آن لگی ہو ۔ (۵۱) ہاں ہے تو وہ وقت قریب ہی ، تم اس کے لئے انتظار کر لو ، غفلت نہ برتو۔ اسکے آنے میں کوئی شک نہیں ۔ آنے والی چیز کو آئی ہوئی سمجھا کرو ۔ يَوْمَ يَدْعُوكُمْ فَتَسْتَجِيبُونَ بِحَمْدِهِ وَتَظُنُّونَ إِنْ لَبِثْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا جس دن وہ تمہیں بلائے گا تم اس کی تعریف کرتے ہوئے تعمیل ارشاد کرو گے اور گمان کرو گے کہ تمہارا رہنا بہت ہی تھوڑا ہے ۔ (۵۲) اللہ کی ایک آواز کے ساتھ ہی تم زمین سے نکل کھڑے ہوگے إِذَا دَعَاكُمْ دَعْوَةً مِّنَ الاٌّرْضِ إِذَآ أَنتُمْ تَخْرُجُونَ پھر بھی جب وہ تمہیں آواز دے گا صرف ایک بار کی آواز کے ساتھ ہی تم سب زمین سے نکل آؤ گے (۳۰:۲۵) وَمَآ أَمْرُنَآ إِلاَّ وَحِدَةٌ كَلَمْحٍ بِالْبَصَرِ اور ہمارا حکم صرف ایک دفعہ (کا ایک کلمہ) ہی ہوتا ہے جیسے آنکھ کا جھپکنا۔ (۵۴:۵۰) ایک آنکھ جھپکانے کی دیر بھی تو نہ لگے گی ۔ اللہ کے فرمان کے ساتھ ہی تم سے میدان محشر پر ہو جائے گا ۔ قبروں سے اٹھ کر اللہ کی تعریفیں کرتے ہوئے اس کے احکام کی بجا آوری میں کھڑے ہو جاؤ گے ۔ حمد کے لائق وہی ہے تم اس کے حکم سے اور ارادے سے باہر نہیں ہو ۔ حدیث میں ہے: لا الہ الا اللہ کہنے والوں پر ان کی والوں پر ان کی قبر میں کوئی وحشت نہیں ہو گی ۔ گویا کہ میں انہیں دیکھ رہا ہوں کہ وہ قبروں سے اٹھ رہے ہیں اپنے سر سے مٹی جھاڑتے ہوئے لا الہ الا اللہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوں گے ۔ کہیں گے کہ اللہ کی حمد ہے جس نے ہم سے غم دور کر دیا ۔ سورہ فاطر کی تفسیر میں یہ بیان آ رہا ہے ان شاء اللہ ۔ اس وقت تمہارا یقین ہو گا کہ تم بہت ہی کم مدت دنیا میں رہے گویا صبح یا شام کوئی کہے گا دس دن کوئی کہے گا ایک دن کوئی سمجھے گا ایک ساعت ہی ۔ كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَهَا لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحَاهَا سوال پر یہی کہیں گے کہ ایک دن یا دن کا کچھ حصہ ہی ۔ (۷۹:۴۶) جب قیامت کو دیکھ لیں گے، تو دنیا کی زندگی انہیں ایسے لگے گی گویا اس میں ایک شام یا ایک صبح رہے اور اس پر قسمیں کھائیں گے ۔ اسی طرح دنیا میں بھی اپنے جھوٹ پر قسمیں کھاتے رہے تھے ۔ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُقْسِمُ الْمُجْرِمُونَ مَا لَبِثُواْ غَيْرَ سَاعَةٍ كَذَلِكَ كَانُواْ يُؤْفَكُونَ اور جس دن قیامت برپا ہو جائے گی گناہگار لوگ قسمیں کھائیں گے کہ (دنیا میں) ایک گھڑی کے سوا نہیں ٹھہرے (۳۰:۵۵) وَقُلْ لِعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ اور میرے بندوں سے کہہ دیجئے کہ وہ بہت ہی اچھی بات منہ سے نکالا کریں اللہ تعالیٰ اپنے نبیﷺ سے فرماتا ہے کہ آپ مؤمن بندوں سے فرما دیں کہ وہ اچھے الفاظ ، بہتر فقروں اور تہذیب سے کلام کرتے رہیں ، إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنْزَغُ بَيْنَهُمْ ۚ کیونکہ شیطان آپس میں فساد ڈلواتا ہے۔ ورنہ شیطان ان کے آپس میں سر پھٹول اور برائی ڈلوا دے گا ، لڑائی جھگڑے شروع ہو جائیں گے ۔ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلْإِنْسَانِ عَدُوًّا مُبِينًا بیشک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ (۵۳) وہ انسان کا دشمن ہے گھات میں لگا رہتا ہے ، اسی لئے حدیث میں مسلمان بھائی کی طرف کسی ہتھیار سے اشارہ کرنا بھی حرام ہے کہ کہیں شیطان اسے لگا نہ دے اور یہ جہنمی نہ بن جائے ۔ ملاحظہ ہو مسند احمد ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے ایک مجمع میں فرمایا: سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں کوئی کسی پر ظلم و ستم نہ کرے کوئی کسی کو بےعزت نہ کرے پھر آپ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا تقویٰ یہاں ہے جو دو شخص آپس میں دینی دوست ہوں پھر ان میں جدائی ہو جائے اسے ان میں سے جو بیان کرے وہ بیان کرنے والا برا ہے وہ بدتر ہے وہ نہایت شریر ہے (مسند) رَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِكُمْ ۖ إِنْ يَشَأْ يَرْحَمْكُمْ أَوْ إِنْ يَشَأْ يُعَذِّبْكُمْ ۚ تمہارا رب تم سے بہ نسبت تمہارے بہت زیادہ جاننے والا ہے، وہ اگر چاہے تو تم پر رحم کر دے یا اگر چاہے تو تمہیں عذاب دے تمہارا رب تم سے بخوبی واقف ہے وہ ہدایت کے مستحق لوگوں کو بخوبی جانتا ہے ۔ وہ جس پر چاہتا ہے رحم کرتا ہے ، اپنی اطاعت کی توفیق دیتا ہے اور اپنی جانب جھکا لیتا ہے ۔ اسی طرح جسے چاہے بد اعمالی پر پکڑ لیتا ہے اور سزا دیتا ہے ۔ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ وَكِيلًا ہم نے آپ کو ان کا ذمہ دار ٹھہرا کر نہیں بھیجا ۔ (۵۴) ہم نے تجھے ان کا ذمہ دار نہیں بنایا تیرا کام ہوشیار کر دینا ہے تیری ماننے والے جنتی ہوں گے اور نہ ماننے والے دوزخی بنیں گے ۔ وَرَبُّكَ أَعْلَمُ بِمَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہے آپ کا رب سب کو بخوبی جانتا ہے۔ زمین و آسمان کے تمام انسان جنات فرشتوں کا اسے علم ہے ، وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِيِّينَ عَلَى بَعْضٍ ۖ ہم نے بعض پیغمبروں کو بعض پر بہتری اور برتری دی ہے۔ ہر ایک کے مراتب کا اسے علم ہے ، ایک کو ایک پر فضیلت ہے ، نبیوں میں بھی درجے ہیں ، کوئی کلیم اللہ ہے ، کوئی بلند درجہ ہے ۔ جیسے فرمایا: تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ مِّنْهُمْ مَّن كَلَّمَ اللَّهُ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَـتٍ یہ رسول ہیں جن میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ان میں سے بعض وہ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے بات چیت کی ہے اور بعض کے درجے بلند کئے ہیں (۲:۲۵۳) ایک حدیث میں ہے: نبیوں میں فضیلتیں قائم نہ کیا کرو ، اس سے مطلب صرف تعصب اور نفس پرستی سے اپنے طور پر فضیلت قائم کرنا ہے نہ یہ کہ قرآن و حدیث سے ثابت شدہ فضیلت سے بھی انکار ۔ جو فضیلت جس نبی کی از روئے دلیل ثابت ہو جائے گی اس کا ماننا واجب ہے مانی ہوئی بات ہے کہ تمام انبیاء سے رسول افضل ہیں اور رسولوں میں پانچ اولو العزم رسول سب سے افضل ہیں جن کا نام سورۃ احزاب کی آیت میں ہے یعنی محمد ، نوح ، ابراہیم ، موسیٰ ، عیسیٰ صلوۃ اللہ علیہم اجمعین ۔ وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّيْنَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنْكَ وَمِن نُّوحٍ وَإِبْرَهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ جب کہ ہم نے تمام نبیوں سے عہد لیا اور (بالخصوص) آپ سے اور نوح سے اور ابراہیم سے اور موسیٰ سے اور مریم کے بیٹے عیسیٰ سے، (۳۳:۷) اور شَرَعَ لَكُم مِّنَ الِدِينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحاً ... أَنْ أَقِيمُواْ الدِّينَ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے وہی دین مقرر کر دیا ہے جس کے قائم کرنے کا اس نے نوح (علیہ السلام) کو حکم دیا تھا اور جو (بذریعہ وحی) ہم نے تیری طرف بھیج دی ہے، اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ (علیہم السلام) کو دیا تھا (۴۲:۱۳) جس طرح یہ سب چیزیں ساری اُمت مانتی ہے ، اسی طرح بغیر اختلاف کے یہ بھی ثابت ہے کہ ان میں بھی سب سے افضل حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسا کہ مشہور ہے ہم نے اس کے دلائل دوسری جگہ تفصیل سے بیان کئے ہیں واللہ الموفق ۔ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا اور داؤد کو زبور ہم نے عطا فرمائی ہے۔ (۵۵) پھر فرماتا ہے ہم نے داؤد پیغمبر علیہ السلام کو زبور دی ۔ یہ بھی ان کی فضیلت اور شرف کی دلیل ہے ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے: حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں حضرت داؤد علیہ السلام پر قرآن اتنا آسان کر دیا گیا تھا کہ جانور پر زین کسی جائے اتنی سی دیر میں آپ قرآن پڑھ لیا کرتے تھے ۔ قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِهِ فَلَا يَمْلِكُونَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنْكُمْ وَلَا تَحْوِيلًا کہہ دیجئے کہ اللہ کے سوا جنہیں تم معبود سمجھ رہے ہو انہیں پکارو لیکن نہ تو وہ تم سے کسی تکلیف کو دور کر سکتے ہیں اور نہ بدل سکتے ہیں۔ (۵۶) اللہ کے سوا اوروں کی عبادت کرنے والوں سے کہئے کہ تم انہیں خوب پکار کر دیکھ لو کہ آیا وہ تمہارے کچھ کام آ سکتے ہیں ؟ نہ ان کے بس کی یہ بات ہے کہ مشکل کشائی کر دیں نہ یہ بات کہ اسے کسی اور پر ٹال دیں وہ محض بےبس ہیں ، قادر اور طاقت والا صرف اللہ واحد ہی ہے ۔ مخلوق کا خالق اور سب کا حکمران وہی ہے ۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ ۚ جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں خود وہ اپنے رب کے تقرب کی جستجو میں رہتے ہیں کہ ان میں سے کون زیادہ نزدیک ہو جائے وہ خود اس کی رحمت کی امید رکھتے اور اس کے عذاب سے خوف زدہ رہتے ہیں، یہ مشرک کہا کرتے تھے کہ ہم فرشتوں ، مسیح اور عزیر کی عبادت کرتے ہیں ۔ ان کے معبود تو خود اللہ کی نزدیکی کی جستجو میں ہیں ۔ صحیح بخاری میں ہے : جن جنات کی یہ مشرکین پرستش کرتے تھے وہ خود مسلمان ہو گئے تھے لیکن یہ اب تک اپنے کفر پر جمے ہوئے ہیں ، اس لئے انہیں خبردار کیا گیا کہ تمہارے معبود خود اللہ کی طرف جھک گئے ۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں یہ جن فرشتوں کی ایک قسم سے تھے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ، حضرت مریم علیہ السلام ، حضرت عزیر علیہ السلام ، سورج چاند ، فرشتے سب قرب الہٰی کی تلاش میں ہیں ۔ ابن جریر فرماتے ہیں: ٹھیک مطلب یہ ہے کہ جن جنوں کو یہ پوجتے تھے آیت میں وہی مراد ہیں کیونکہ حضرت مسیح علیہ السلام وغیرہ کا زمانہ تو گزر چکا تھا اور فرشتے پہلے ہی سے عابد الہٰی تھے تو مراد یہاں بھی جنات ہیں ۔ الْوَسِيلَةَ کے معنی قربت و نزدیکی کے ہیں جیسے کہ حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے ۔ یہ سب بزرگ اسی دھن میں ہیں کہ کون اللہ سے زیادہ نزدیکی حاصل کر لے ؟ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُورًا (بات بھی یہی ہے) کہ تیرے رب کا عذاب ڈرنے کی چیز ہے۔ (۵۷) وہ اللہ کی رحمت کے خواہاں اور اس کے عذاب سے ترساں ہیں ۔ حقیقت میں بغیر ان دونوں باتوں کے عبادت نا مکمل ہے ۔ خوف گناہوں سے روکتا ہے اور امید اطاعت پر آمادہ کرتی ہے درحقیقت اس کے عذاب ڈرنے کے لائق ہیں ۔ اللہ ہمیں بچائے وَإِنْ مِنْ قَرْيَةٍ إِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوهَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيَامَةِ أَوْ مُعَذِّبُوهَا عَذَابًا شَدِيدًا ۚ جتنی بھی بستیاں ہیں ہم قیامت کے دن سے پہلے پہلے یا تو انہیں ہلاک کر دینے والے ہیں یا سخت تر سزا دینے والے ہیں۔ كَانَ ذَلِكَ فِي الْكِتَابِ مَسْطُورًا یہ کتاب میں لکھا جا چکا ہے ۔ (۵۸) وہ نوشتہ جو لوح محفوظ میں لکھ دیا گیا ہے وہ حکم جو جاری کر دیا گیا ہے اس کا بیان اس آیت میں ہے کہ گنہگاروں کی بستیاں یقیناً ویران کر دی جائیں گی یا ان کے گناہوں کی وجہ سے تباہی کے قریب ہو جائیں گی اس میں ہماری جانب سے کوئی ظلم نہ ہو گا جیسے فرمایا: وَمَا ظَلَمْنَـهُمْ وَلَـكِن ظَلَمُواْ أَنفُسَهُمْ ہم نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ خود انہوں نے ہی اپنے اوپر ظلم کیا (۱۱:۱۰۱) بلکہ انکے اپنے کرتوت کا خمیازہ ہو گا ، رب کی آیتوں اور اسکے رسولوں سے سرکشی کرنے کا پھل ہو گا۔ فَذَاقَتْ وَبَالَ أَمْرِهَا وَكَانَ عَـقِبَةُ أَمْرِهَا خُسْراً پس انہوں نے اپنے کرتوت کا مزہ چکھ لیا اور انجام کار ان کا خسارہ ہی ہوا۔ (۶۵:۹) اور وَكَأِيِّن مِّن قَرْيَةٍ عَتَتْ عَنْ أَمْرِ رَبِّهَا وَرُسُلِهِ اور بہت سی بستی والوں نے اپنے رب کے حکم سے اور اس کے رسولوں سے سرتابی کی (۶۵:۸) وَمَا مَنَعَنَا أَنْ نُرْسِلَ بِالْآيَاتِ إِلَّا أَنْ كَذَّبَ بِهَا الْأَوَّلُونَ ۚ ہمیں نشانات (معجزات) کے نازل کرنے سے روک صرف اسی کی ہے کہ اگلے لوگ انہیں جھٹلا چکے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے کافروں نے آپ ﷺسے کہا کہ حضرت آپ کے پہلے کے انبیاء میں سے بعض کے تابع ہوا تھی ، بعض مردوں کو زندہ کر دیا کرتے تھے ، وغیرہ ۔ اب اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہم بھی آپ پر ایمان لائیں تو آپ اس صفا پہاڑ کو سونے کا کر دیجئے ، ہم آپ کی سچائی کے قائل ہو جائیں گے ۔ آپﷺ پر وحی آئی کہ اگر آپ کی بھی یہی خواہش ہو تو میں اس پہاڑ کو ابھی سونے کا بنا دیتا ہوں ۔ لیکن یہ خیال رہے کہ اگر پھر بھی یہ ایمان نہ لائے تو اب انہیں مہلت نہ ملے گی ، فی الفور عذاب آ جائے گا اور تباہ کر دئے جائیں گے ۔ اور اگر آپ کو انہیں تاخیر دینے اور سوچنے کا موقع دینا منظور ہے تو میں ایسا نہ کروں ۔ آپ نے فرمایا اے اللہ میں انہیں باقی رکھنے میں ہی خوش ہوں ۔ مسند میں اتنا اور بھی ہے کہ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ باقی کی اور پہاڑیاں یہاں سے کھسک جائیں تاکہ ہم یہاں کھیتی باڑی کر سکیں ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اور روایت میں ہے کہ آپ ﷺنے دعا مانگی ، جبرائیل علیہ السلام آئے اور کہا آپ کا پروردگار آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ اگر آپ چاہیں تو صبح کو ہی یہ پہاڑ سونے کا ہو جائے لیکن اگر پھر بھی ان میں سے کوئی ایمان نہ لایا تو اسے وہ سزا ہو گی جو اس سے پہلے کسی کو نہ ہوئی ہو اور اگر آپ کا ارادہ ہو تو میں ان پر توبہ اور رحمت کے دروازے کھلے چھوڑوں ۔ آپ نے دوسری شق اختیار کی ۔ مسند ابو یعلی میں ہے آیت وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ (۲۶:۲۱۴) جب اتری تو تعمیل ارشاد کے لئے جبل ابی قبیس پر چڑھ گئے اور فرمانے لگے اے بنی عبد مناف میں تمہیں ڈرانے والا ہوں ۔ قریش یہ آواز سنتے ہی جمع ہو گئے پھر کہنے لگے سنئے آپ نبوت کے مدعی ہیں ۔ سلیمان نبی علیہ السلام کے تابع ہوا تھی ، موسیٰ نبی علیہ السلام کے تابع دریا ہو گیا تھا ، عیسیٰ نبی علیہ السلام مردوں کو زندہ کر دیا کرتے تھے ۔ تو بھی نبی ہے اللہ سے کہہ کہ یہ پہاڑ یہاں سے ہٹوا کر زمین قابل زراعت بنا دے تاکہ ہم کھیتی باڑی کریں ۔ یہ نہیں تو ہمارے مردوں کی زندگی کی دعا اللہ سے کر کہ ہم اور وہ مل کر بیٹھیں اور ان سے باتیں کریں ۔ یہ بھی نہیں تو اس پہاڑ کو سونے کا بنوا دے کہ ہم جاڑے اور گرمیوں کے سفر سے نجات پائیں اسی وقت آپ پر وحی اترنی شروع ہو گئی اس کے خاتمے پر آپ ﷺنے فرمایا: اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم نے جو کچھ مجھ سے طلب کیا تھا مجھے اس کے ہو جانے میں اور اس بات میں کہ دروازہ رحمت میں چلے جاؤ ، اختیار دیا گیا کہ ایمان اسلام کے بعد تم رحمت الہٰی سمیٹ لو یا تم یہ نشانات دیکھ لو لیکن پھر نہ مانو تو گمراہ ہو جاؤ اور رحمت کے دروازے تم پر بند ہو جائیں تو میں تو ڈر گیا اور میں نے در رحمت کا کھلا ہونا ہی پسند کیا ۔ کیونکہ دوسری صورت میں تمہارے ایمان نہ لانے پر تم پر وہ عذاب اترتے جو تم سے پہلے کسی پر نہ اترے ہوں اس پر یہ آیتیں اتریں ۔اور آیت وَلَوْ أَنَّ قُرْآنًا سُيِّرَتْ (۱۳:۳۱) ، نازل ہوئی یعنی آیتوں کے بھیجنے اور منہ مانگے معجزوں کے دکھانے سے ہم عاجز تو نہیں بلکہ یہ ہم پر بہت آسان ہے جو تیری قوم چاہتی ہے ، ہم انہیں دکھا دیتے لیکن اس صورت میں ان کے نہ ماننے پر پھر ہمارے عذاب نہ رکتے ۔ اگلوں کو دیکھ لو کہ اسی میں برباد ہوئے ۔ چنانچہ سورہ مائدہ میں ہے: قَالَ اللَّهُ إِنِّي مُنَزِّلُهَا عَلَيْكُمْ ۖ فَمَنْ يَكْفُرْ بَعْدُ مِنْكُمْ فَإِنِّي أُعَذِّبُهُ عَذَابًا لَا أُعَذِّبُهُ أَحَدًا مِنَ الْعَالَمِينَ حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ میں وہ کھانا تم لوگوں پر نازل کرنے والا ہوں، پھر جو شخص تم میں سے اس کے بعد ناحق شناسی کرے گا تو میں اس کو ایسی سزا دوں گا کہ وہ سزا دنیا جہان والوں میں سے کسی کو نہ دونگا (۵:۱۱۵) وَآتَيْنَا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوا بِهَا ۚ ہم نے ثمودیوں کو بطور بصیرت کے اونٹنی دی لیکن انہوں نے اس پر ظلم کیا ثمودیوں کو دیکھو کہ انہوں نے ایک خاص پتھر میں سے اونٹنی کا نکلنا طلب کیا ۔ حضرت صالح علیہ السلام کی دعا پر وہ نکلی لیکن وہ نہ مانے بلکہ اس اونٹنی کی کوچیں کاٹ دیں ، رسول کو جھٹلاتے رہے ، جس پر انہیں تین دن کی مہلت ملی اور آخر غارت کر دئے گئے ۔ ان کی یہ اونٹنی بھی اللہ کی وحدانیت کی ایک نشانی تھی اور اس کے رسول کی صداقت کی علامت تھی ۔ لیکن ان لوگوں نے پھر بھی کفر کیا، اس کا پانی بند کیا بالآخر اسے قتل کر دیا ، جس کی پاداش میں اول سے لے کر آخر تک سب مار ڈالے گئے اور اللہ غالب کی پکڑ میں آ گئے ، وَمَا نُرْسِلُ بِالْآيَاتِ إِلَّا تَخْوِيفًا ہم تو لوگوں کو دھمکانے کے لئے ہی نشانی بھیجتے ہیں۔ (۵۹) آیتیں صرف دھمکانے کے لئے ہوتی ہیں کہ وہ عبرت و نصیحت حاصل کر لیں ۔ مروی ہے: حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں کوفے میں زلزلہ آیا تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم اس کی جانب جھکو ، تمہیں فوراً اس کی طرف متوجہ ہو جانا چاہئے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں مدینہ شریف میں کئی بار جھٹکے محسوس ہوئے تو آپ نے فرمایا واللہ تم نے ضرور کوئی نئی بات کی ہے ، دیکھو اگر اب ایسا ہوا تو میں تمہیں سخت سزائیں کروں گا ۔ متفق علیہ حدیث میں ہے: آپ ﷺنے فرمایا: سورج چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں ان میں کسی کی موت و حیات سے گرہن نہیں لگتا بلکہ اللہ تعالیٰ ان سے اپنے بندوں کو خوفزدہ کر دیتا ہے ، جب تم یہ دیکھو تو ذکر اللہ دعا اور استغفار کی طرف جھک پڑو ۔ اے اُمت محمد واللہ اللہ سے زیادہ غیرت والا کوئی نہیں کہ اس کے لونڈی غلام زنا کاری کریں ۔ اے اُمت محمد واللہ جو میں جانتا ہوں ، اگر تم جانتے تو بہت کم ہنستے زیادہ روتے ۔ وَإِذْ قُلْنَا لَكَ إِنَّ رَبَّكَ أَحَاطَ بِالنَّاسِ ۚ اور یاد کرو جب کہ ہم نے آپ سے فرما دیا کے آپ کے رب نے لوگوں کو گھیر لیا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے رسول علیہ السلام کو تبلیغ دین کی رغبت دلا رہا ہے اور آپ کے بچاؤ کی ذمہ داری لے رہا ہے کہ سب لوگ اسی کی قدرت تلے ہیں ، وہ سب پر غالب ہے ، سب اس کے ماتحت ہیں ، وہ ان سب سے تجھے بچاتا رہے گا ۔ وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلَّا فِتْنَةً لِلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآنِ ۚ جو رویت (عینی روئیت) ہم نے آپ کو دکھا دی تھی وہ لوگوں کے لئے صاف آزمائش ہی تھی اور اسی طرح وہ درخت بھی جس سے قرآن میں اظہار نفرت کیا گیا ہے جو ہم نے تجھے دکھایا وہ لوگوں کے لیے ایک صریح آزمائش ہے۔ یہ دکھانا معراج والی رات تھا،جو آپ کی آنکھوں نے دیکھا۔ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ نفرتی درخت سے مراد زقوم کا درخت ہے ۔ إِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّومِ ۔ طَعَامُ الْأَثِيمِ زقوم کا درخت، گناہ گاروں کا کھانا ہے (۴۴:۴۳،۴۴) بہت سے تابعین اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ یہ دکھانا آنکھ کا دکھانا ، مشاہدہ تھا جو شب معراج میں کرایا گیا تھا ۔ معراج کی حدیثیں بہت پوری تفصیل کیساتھ اس سورت کے شروع میں بیان ہو چکی ہیں ۔ یہ بھی گزر چکا ہے کہ معراج کے واقعہ کو سن کے بہت سے مسلمان مرتد ہو گئے اور حق سے پھر گئے کیونکہ ان کی عقل میں یہ نہ آیا تو اپنی جہالت سے اسے جھوٹا جانا اور دین کو چھوڑ کر بیٹھے۔ ان کے برخلاف کامل ایمان والے اپنے یقین میں اور بڑھ گئے اور ان کے ایمان اور مضبوط ہو گئے ۔ ثابت قدمی اور استقلال میں زیادہ ہو گئے ۔ پس اس واقعہ کو لوگوں کی آزمائش اور ان کے امتحان کا ذریعہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے کر دیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب خبر دی اور قرآن میں آیت اتری کہ دوزخیوں کو زقوم کا درخت کھلایا جائے گا اور آپ نے اسے دیکھا بھی تو کافروں نے اسے سچ نہ مانا اور ابوجہل ملعون مذاق اڑاتے ہوئے کہنے لگا لاؤ کھجور اور مکھن لاؤ اور اس کا زقوم کرو یعنی دونوں کو ملا دو اور خوب شوق سے کھاؤ بس یہی زقوم ہے ، پھر اس خوراک سے گھبرانے کے کیا معنی ؟ ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد بنو امیہ ہیں لیکن یہ قول بالکل ضعیف اور غریب ہے ۔ پہلے قول کے قائل وہ تمام مفسر ہیں جو اس آیت کو معراج کے بارے میں مانتے ہیں ۔ جیسے ابن عباس مسروق ، ابو مالک ، حسن بصری وغیرہ ۔ سہل بن سعید کہتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں قبیلے والوں کو اپنے منبر پر بندروں کی طرح ناچتے ہوئے دیکھا اور آپ کو اس سے بہت رنج ہوا پھر انتقال تک آپ پوری ہنسی سے ہنستے ہوئے نہیں دکھائی دئے اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے ۔ (ابن جریر) لیکن یہ سند بالکل ضعیف ہے ۔محمد بن حسن بن زبالہ متروک ہے اور ان کے استاد بھی بالکل ضعیف ہیں ۔ خود امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ کا پسندید قول بھی یہی ہے کہ مراد اس سے شب معراج ہے اور شجرۃالزقوم ہے کیونکہ مفسرین کا اس پر اتفاق ہے ۔ وَنُخَوِّفُهُمْ فَمَا يَزِيدُهُمْ إِلَّا طُغْيَانًا كَبِيرًا ہم انہیں ڈرا رہے ہیں لیکن یہ انہیں اور بڑی سرکشی میں بڑھا رہا ہے (۶۰) ہم کافروں کو اپنے عذابوں وغیرہ سے ڈرا رہے ہیں لیکن وہ اپنی ضد ، تکبر ، ہٹ دھرمی اور بے ایمانی میں اور بڑھ رہے ہیں ۔ وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے کیا، ابلیس کی قدیمی عداوت سے انسان کو اگاہ کیا جا رہا ہے کہ وہ باپ حضرت آدم علیہ السلام کا کھلا دشمن تھا ، اس کی اولاد برابر اسی طرح تمہاری دشمن ہے ، سجدے کا حکم سن کر سب فرشتوں نے تو سر جھکا دیا لیکن اس نے تکبر جتایا ، قَالَ أَأَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِينًا اس نے کہا کہ کیا میں اسے سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔ (۶۱) اسے حقیر سمجھا اور صاف انکار کر دیا کہ ناممکن ہے کہ میرا سر کسی مٹی سے بنے ہوئے کے سامنے جھکے ، میں اس سے کہیں افضل ہوں ، میں آگ ہوں یہ خاک ہے ۔ أَنَاْ خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ کہنے لگا میں اس سے بہتر ہوں آپ نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا اور اس کو آپ نے خاک سے پیدا کیا (۷:۱۲) قَالَ أَرَأَيْتَكَ هَذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ لَئِنْ أَخَّرْتَنِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَأَحْتَنِكَنَّ ذُرِّيَّتَهُ إِلَّا قَلِيلًا اچھا دیکھ لے اسے تو نے مجھ پر بزرگی تو دی ہے،لیکن اگر مجھے بھی قیامت تک تو نے ڈھیل دی تو میں اس کی اولاد کو بجز تھوڑے لوگوں کے، اپنے بس میں کرلوں گا۔ (۶۲) پھر اس کی ڈھٹائی دیکھیے کہ اللہ جل و علیٰ کے دربار میں گستاخانہ لہجے سے کہتا ہے کہ اچھا اسے اگر تو نے مجھ پر فضیلت دی تو کیا ہوا میں بھی اس کی اولاد کو برباد کر کے ہی چھوڑوں گا، سب کو اپنا تابعدار بنا لوں گا اور بہکا دوں گا ، بس تھوڑے سے میرے پھندے سے چھوٹ جائیں گے باقی سب کو غارت کر دوں گا ۔ قَالَ اذْهَبْ فَمَنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ فَإِنَّ جَهَنَّمَ جَزَاؤُكُمْ جَزَاءً مَوْفُورًا ارشاد ہوا کہ جا ان میں سے جو بھی تیرا تابعدار ہو جائے گا تو تم سب کی سزا جہنم ہے جو پورا پورا بدلہ ہے (۶۳) وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ وَأَجْلِبْ عَلَيْهِمْ بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ ان میں سے تو جسے بھی اپنی آواز سے بہکا سکے گا بہکا لے اور ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھالا اپنی آواز سے بہکا سکے بہکا لے یعنی گانے اور تماشوں سے انہیں بہکاتا پھر ۔ جو بھی اللہ کی نافرمانی کی طرف بلانے والی صدا ہو وہ شیطانی آواز ہے ۔ اسی طرح تو اپنے پیادے اور سوار لگ کر جس پر تجھ سے حملہ ہو سکے ۔ حملہ کر لے ۔ رَجِل جمع ہے رَاجِل کی جیسے رکب جمع راکب کی اور صحب جمع ہے صاحب کی ۔ مطلب یہ ہے کہ جس قدر تجھ سے ہو سکے ان پر اپنا تسلط اور اقتدار جما ۔ یہ امر قدری ہے نہ کہ حکم ۔ شیطانوں کی یہی خصلت ہے کہ وہ بندگان رب کو بھڑکاتے اور بہکاتے رہتے ہیں ۔ انہیں گناہوں پر آمادہ کرتے رہتے ہیں ۔ اللہ کی معصیت میں جو سواری پر ہو اور پیدل ہو ، وہ شیطانی لشکر میں ہے ، ایسے جن بھی ہیں اور انسان بھی ہیں ، جو اس کے مطیع ہیں ۔ جب کسی پر آوازیں اٹھائی جائیں تو عرب کہتے ہیں اجلب فلان علی فلان آپ کا یہ فرمان کہ گھوڑ دوڑ میں جلب نہیں ، وہ بھی اسی سے ماخوذ ہے ۔ جبلہ کا اشتقاق بھی اسی سے ہے یعنی آوازوں کا بلند ہونا ۔ وَشَارِكْهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ وَعِدْهُمْ ۚ اور ان کے مال اور اولاد میں سے اپنا بھی حصہ لگا اور انہیں (جھوٹے) وعدے دے لے ان کے مال اور اولاد میں بھی تو شریک رہ ۔یعنی اللہ کی نافرمانیوں میں ان کا مال خرچ کرا ، سود خواری ان سے کرا ۔ برائی سے مال جمع کریں اور حرام کاریوں میں خرچ کریں ۔ حلال جانوروں کو اپنی خواہش سے حرام قرار دیں وغیرہ ۔ اولاد میں شرکت یہ ہے مثلاً زنا کاری جس سے اولاد ہو ۔ جو اولاد بچپن میں بوجہ بےوقوفی ان کے ماں باپ نے زندہ درگور کر دی ہو یا مار ڈالی ہو یا اسے یہودی نصرانی مجوسی وغیرہ بنا دیا ہو۔ اولادوں کے نام عبد الحارث ، عبد الشمس اور فلاں رکھا ہو ۔ غرض کسی صورت میں بھی شیطان کو اس میں داخل کیا ہو ، یا اس کو ساتھ کیا ہو ، یہی شیطان کی شرکت ہے ۔ صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ اللہ عز و جل فرماتا ہے: میں نے اپنے بندوں کو ایک طرف موحد پیدا کیا پھر شیطان نے آ کر انہیں بہکا دیا اور حلال چیزیں حرام کر دیں ۔ بخاری و مسلم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: تم میں سے جو اپنی بیوی کے پاس جانے کا ارادہ کرے یہ پڑھ لے: اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ وَجَنِّبِ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا یا اللہ تو ہمیں شیطان سے بچا اور اسے بھی جو تو ہمیں عطا فرمائے ۔ تو اگر اس میں کوئی بچہ اللہ کی طرف سے ٹھہر جائے گا تو اسے ہرگز ہرگز کبھی بھی شیطان کوئی ضرر نہ پہنچا سکے گا ۔ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا (۶۴) ان سے جتنے بھی وعدے شیطان کے ہوتے ہیں سب کے سب سراسر فریب ہیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ جا تو انہیں دھوکے کے جھوٹے وعدے دیا کر، چنانچہ قیامت کے دن یہ خود کہے گا: إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتُّكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ اللہ کے وعدے تو سب سچے تھے اور میرے وعدے سب غلط تھے ۔ (۱۴:۲۲) إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ ۚ میرے سچے بندوں پر تیرا کوئی قابو اور بس نہیں پھر فرماتا ہے کہ میرے مؤمن بندے میری حفاظت میں ہیں ، میں انہیں شیطان رجیم سے بچاتا رہوں گا ۔ وَكَفَى بِرَبِّكَ وَكِيلًا تیرا رب کار سازی کرنے والا کافی ہے۔ (۶۵) اللہ کی وکالت اس کی حفاظت اس کی نصرت اس کی تائید بندوں کو کافی ہے مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مؤمن اپنے شیطان پر اس طرح قابو پالیتا ہے جیسے وہ شخص جو کسی جانور کو لگام چڑھائے ہوئے ہو۔: مؤمن اپنے شیطان پر اس طرح قابو پالیتا ہے جیسے وہ شخص جو کسی جانور کو لگام چڑھائے ہوئے ہو۔ رَبُّكُمُ الَّذِي يُزْجِي لَكُمُ الْفُلْكَ فِي الْبَحْرِ لِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ ۚ إِنَّهُ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا تمہارا پروردگار وہ ہے جو تمہارے لئے دریا میں کشتیاں چلاتا تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو۔ وہ تمہارے اوپر بہت مہربان ہے (۶۶) اللہ تعالیٰ اپنا احسان بناتا ہے کہ اس نے اپنے بندوں کی آسانی اور سہولت کے لئے اور ان کی تجارت و سفر کے لئے دریاؤں میں کشتیاں چلا دی ہیں ، اس کے فضل و کرم لطف و رحم کا ایک نشان یہ بھی ہے کہ تم دور دراز ملکوں میں جا آ سکتے ہو اور خاص فضل یعنی اپنی روزیاں حاصل کر سکتے ہو۔ وَإِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُونَ إِلَّا إِيَّاهُ ۖ اور سمندروں میں مصیبت پہنچتے ہی جنہیں تم پکارتے تھے سب گم ہو جاتے ہیں صرف وہی اللہ باقی رہ جاتا ہے اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہو رہا ہے کہ بندے مصیبت کے وقت تو خلوص کے ساتھ اپنے پروردگار کی طرف جھکتے ہیں اور اس سے دلی دعائیں کرنے لگتے ہیں اور جہاں وہ مصیبت اللہ تعالیٰ نے ٹال دی تو یہ آنکھیں پھیر لیتے ہیں ۔ فتح مکہ کے وقت جب کہ ابوجہل کا لڑکا عکرمہ حبشہ جانے کے ارادے سے بھاگا اور کشتی میں بیٹھ کر چلا اتفاقاً کشتی طوفان میں پھنس گئی ، باد مخالف کے جھونکے اسے پتے کی طرح ہلانے لگے ، اس وقت کشتی میں جتنے کفار تھے ، سب ایک دوسرے سے کہنے لگے اس وقت سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی کچھ کام نہیں آنے گا ۔ اسی کو پکارو ۔ عکرمہ کے دل میں اسی وقت خیال آیا کہ جب تری میں صرف وہی کام کر سکتا ہے تو ظاہر ہے کہ خشکی میں بھی وہ کام آ سکتا ہے ۔ اے اللہ میں نذر مانتا ہوں کہ اگر تو نے مجھے اس آفت سے بچا لیا تو میں سیدھا جا کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ہاتھ دے دوں گا اور یقیناً وہ مجھ پر مہربانی اور رحم و کرم فرمائیں گے چنانچہ سمندر سے پار ہوتے ہی وہ سیدھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کیا پھر تو اسلام کے پہلوان ثابت ہوئے رضی اللہ عنہ وارضاہ ۔ فَلَمَّا نَجَّاكُمْ إِلَى الْبَرِّ أَعْرَضْتُمْ ۚ پھر جب تمہیں خشکی کی طرف بچا لاتا ہے تو تم منہ پھیر لیتے ہو پس فرماتا ہے کہ سمندر کی اس مصیبت کے وقت تو اللہ کے سوا سب کو بھول جاتے ہو لیکن پھر اس کے ہٹتے ہی اللہ کی توحید ہٹا دیتے ہو اور دوسروں سے التجائیں کرنے لگتے ہو ۔ وَكَانَ الْإِنْسَانُ كَفُورًا اور انسان بڑا ہی ناشکرا ہے ۔ (۶۷) انسان ہے ہی ایسا ناشکرا کہ نعمتوں کو بھلا بیٹھتا ہے بلکہ منکر ہو جاتا ہے ہاں جسے اللہ بچا لے اور توفیق خیر دے ۔ أَفَأَمِنْتُمْ أَنْ يَخْسِفَ بِكُمْ جَانِبَ الْبَرِّ أَوْ يُرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا تو کیا تم اس سے بےخوف ہوگئے ہو کہ تمہیں خشکی کی طرف (لے جا کر زمین) میں دھنسا دے یا تم پر پتھروں کی آندھی بھیج دے رب العالمین لوگوں کو ڈرا رہا ہے کہ جو تری میں تمہیں ڈبو سکتا تھا ، وہ خشکی میں دھنسانے کی قدرت بھی رکھتا ہے پھر وہاں تو صرف اسی کو پکارنا اور یہاں اس کے ساتھ اوروں کو شریک کرنا یہ کس قدر ناانصافی ہے ؟ وہ تو تم پر پتھروں کی بارش بھی برسا کر ہلاک کر سکتا ہے جیسے لوطیوں پر ہوئی تھے ۔ جس کا بیان خود قرآن میں کئی جگہ ہے ۔ إِنَّا أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ حَاصِبًا إِلَّا آلَ لُوطٍ بیشک ہم نے ان پر پتھر برسانے والی ہوا بھیجی سوائے لوط (علیہ السلام) کے گھر والوں کے (۵۴:۳۴،۳۵) سورہ تبارک میں فرمایا : أَءَمِنتُمْ مَّن فِى السَّمَآءِ ... فَسَتَعْلَمُونَ كَيْفَ نَذِيرِ کیا تمہیں اس اللہ کا ڈر نہیں جو آسمانوں میں ہے کہ کہیں وہ تمہیں زمین میں نہ دھنسا دے کہ یکایک زمین جنبش کرنے لگے ۔ کیا تمہیں آسمانوں والے اللہ کا خوف نہیں کہ کہیں وہ تم پر پتھر نہ برسا دے پھر جان لو کہ ڈرانے کا انجام کیا ہوتا ہے ۔ (۶۷:۱۶،۱۷) ثُمَّ لَا تَجِدُوا لَكُمْ وَكِيلًا پھر تم اپنے لئے کسی نگہبان کو نہ پا سکو۔ (۶۸) پھر فرماتا ہے کہ اس وقت تم نہ اپنا مددگار پاؤ گے ، نہ دستگیر ، نہ وکیل نہ کار ساز ، نہ نگہبان ، نہ پاسبان ۔ أَمْ أَمِنْتُمْ أَنْ يُعِيدَكُمْ فِيهِ تَارَةً أُخْرَى فَيُرْسِلَ عَلَيْكُمْ قَاصِفًا مِنَ الرِّيحِ فَيُغْرِقَكُمْ بِمَا كَفَرْتُمْ ۙ کیا تم اس بات سے بےخوف ہوگئے ہو کہ اللہ تعالیٰ پھر تمہیں دوبارہ دریا کے سفر میں لے آئے اور تم پر تیز و تند ہواؤں کے جھونکے بھیج دے اور تمہارے کفر کے باعث تمہیں ڈبو دے۔ ارشاد ہو رہا ہے کہ اے منکرو سمندر میں تم میری توحید کے قائل ہوئے باہر آ کر پھر انکار کر گئے تو کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ پھر تم دوبارہ دریائی سفر کرو اور باد تند کے تھپیڑے تمہاری کشتی کو ڈگمگا دیں اور آخر ڈبو دیں اور تمہیں تمہارے کفر کا مزہ آ جائے ثُمَّ لَا تَجِدُوا لَكُمْ عَلَيْنَا بِهِ تَبِيعًا پھر تم اپنے لئے ہم پر اس کا (پیچھا) کرنے والا کسی کو نہ پاؤ گے ۔ (۶۹) پھر تو کوئی مددگار کھڑا نہ ہو نہ کوئی ایسا مل سکے کہ ہم سے تمہارا بدلہ لے ۔ ہمارا پیچھا کوئی نہیں کر سکتا ، کس کی مجال کہ ہمارے فعل پر انگلی اٹھائے ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ یقیناً ہم نے اولاد آدم کو بڑی عزت دی اور انہیں خشکی اور تری کی سواریاں دیں سب سے اچھی پیدائش انسان کی ہے جیسے فرمان ہے : لَقَدْ خَلَقْنَا الإِنسَـنَ فِى أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ یقیناً ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا (۹۵:۴) یعنی ہم نے انسان کو بہترین مسافت پر پیدا کیا ہے۔ وہ اپنے پیروں پر سیدھا کھڑا ہو کر صحیح چال چلتا ہے ، اپنے ہاتھوں سے تمیز کے ساتھ اپنی غذا کھاتا ہے اور حیوانات ہاتھ پاؤں سے چلتے ہیں منہ سے چارہ چگتے ہیں ۔ پھر اسے سمجھ بوجھ دی ہے جس سے نفع نقصان بھلائی برائی سوچتا ہے ۔ دینی دنیوی فائدہ معلوم کر لیتا ہے ۔ اس کی سواری کے لئے خشکی میں جانور چوپائے گھوڑے خچر اونٹ وغیرہ۔ اور تری کے سفر کے لئے اسے کشتیاں بنانی سکھا دیں ۔ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا اور انہیں پاکیزہ چیزوں کی روزیاں دیں اور اپنی بہت سی مخلوق پر انہیں فضیلت عطا فرمائی ۔ (۷۰) اسے بہترین ، خوشگوار اور خوش ذائقہ کھانے پینے کی چیزیں دیں ۔ کھیتیاں ہیں ، پھل ہیں ، گوشت ہیں ، دودھ ہیں اور بہترین بہت سی ذائقے دار لذیذ مزیدار چیزیں ۔ پھر عمدہ مکانات رہنے کو ، اچھے خوشنما لباس پہننے کو ، قسم قسم کے ، رنگ برنگ کے ، یہاں کی چیزیں یہاں لے جانے لے آنے کے اسباب اس کے لئے مہیا کر دئے اور مخلوق میں سے عموماً ہر ایک پر اسے برتری بخشی ۔ اس آیت کریمہ سے امر پر استدلال کیا گیا ہے کہ انسان فرشتوں سے افضل ہے ۔ حضرت زید بن اسلم کہتے ہیں: فرشتوں نے کہا اے اللہ تو نے اولاد آدم کو دنیا دے رکھی ہے کہ وہ کھاتے پیتے ہیں اور موج مزے کر رہے ہیں تو تو اس کے بدلے ہمیں آخرت میں ہی عطا فرما کیونکہ ہم اس دنیا سے محروم ہیں ۔ اس کے جواب میں اللہ جل شانہ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے اپنی عزت اور جلال کی قسم اس کی نیک اولاد کو جسے میں نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اس کے برابر میں ہرگز نہ کروں گا جسے میں نے کلمہ کن سے پیدا کیا ہے ۔ یہ روایت مرسل ہے ۔ لیکن اور سند سے متصل بھی مروی ہے ابن عساکر میں ہے: فرشتوں نے کہا اے ہمارے پروردگار ہمیں بھی تونے پیدا کیا اور بنو آدم کا خالق بھی تو ہی ہے انہیں تو کھانا پینا دے رہا ، کپڑے لتے وہ پہنتے ہیں ، نکاح شادیاں وہ کرتے ہیں ، سورایاں ان کے لے ہیں ، راحت و آرام انہیں حاصل ہے ، ان میں سے کسی چیز کے حصے دار ہم نہیں ۔ خیر یہ اگر دنیا میں ان کے لئے ہے تو یہ چیزیں آخرت میں تو ہمارے لئے کر دے ۔ اس کے جواب میں جناب باری تعالیٰ نے فرمایا جسے میں نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ہے اور اپنی روح جس میں میں نے پھونکی ہے اس میں اس جیسا نہ کروں گا جسے میں نے کہہ دیا کہ ہو جاؤ وہ ہو گیا ۔ طبرانی میں ہے: قیامت کے دن ابن آدم سے زیادہ بزرگ اللہ کے ہاں کوئی نہ ہو گا ۔ پوچھا گیا کہ فرشتے بھی نہیں ؟ فرمایا فرشتے بھی نہیں وہ تو مجبور ہیں جیسے سورج چاند ۔ یہ روایت بہت ہی غریب ہے ۔ يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ ۖ جس دن ہم ہر جماعت کو اس کے پیشوا سمیت بلائیں گے۔ امام سے مراد یہاں نبی ہیں ہر اُمت قیامت کے دن اپنے نبی کے ساتھ بلائی جائے گی جیسے اس آیت میں ہے: وَلِكُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولٌ ۖ فَإِذَا جَاءَ رَسُولُهُمْ قُضِيَ بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ ہر اُمت کا رسول ہے ، پھر جب ان کے رسول آئیں گے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ حساب کیا جائے ۔ (۱۰:۴۷) بعض سلف کا قول ہے کہ اس میں اہل حدیث کی بہت بڑی بزرگی ہے ، اس لئے کہ ان کے امام آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ ابن زید کہتے ہیں مراد یہاں امام سے کتاب اللہ ہے جو ان کی شریعت کے بارے میں اتری تھی ۔ ابن جریر اس تفسیر کو بہت پسند فرماتے ہیں اور اسی کو مختار کہتے ہیں ۔ مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں مراد اس سے ان کی کتابیں ہیں ۔ ممکن ہے کتاب سے مراد یا تو احکام کی کتاب اللہ ہو یا نامہ اعمال ۔ چنانچہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس سے مراد اعمال نامہ لیتے ہیں ۔ ابو العالیہ ، حسن ، ضحاک بھی یہی کہتے ہیں اور یہی زیادہ ترجیع والا قول ہے جیسے فرمان الہٰی ہے: وَكُلَّ شىْءٍ أَحْصَيْنَـهُ فِى إِمَامٍ مُّبِينٍ ہر چیز کا ہم نے ظاہر کتاب میں احاطہ کر لیا ہے ۔ (۳۶:۱۲) اور آیت میں ہے: وَوُضِعَ الْكِتَـبُ فَتَرَى الْمُجْرِمِينَ مُشْفِقِينَ مِمَّا فِيهِ نامہ اعمال درمیان میں رکھ دیا جائے گا اس وقت تو دیکھے گا کہ گنہگار لوگ اس کی تحریر سے خوفزدہ ہو رہے ہوں گے ۔ (۱۸:۴۹) اور آیت میں ہے: وَتَرَى كُلَّ أُمَّةٍ جَاثِيَةً كُلُّ ... إِنَّا كُنَّا نَسْتَنسِخُ مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ اور آپ دیکھیں گے کہ ہر امت گھٹنوں کے بل گری ہوئی ہوگی ہر گروہ اپنے نامہ اعمال کی طرف بلایا جائے گا آج تمہیں اپنے کئے کا بدلہ دیا جائے گا۔ یہ ہماری کتاب جو تمہارے بارے میں سچ سچ بول رہی ہے۔ ہم تمہارے اعمال لکھواتے جاتے تھے ۔ (۴۵:۲۸،۲۹) یہ یاد رہے کہ یہ تفسیر پہلی تفسیر کے خلاف نہیں ایک طرف نامہ اعمال ہاتھ میں ہو گا دوسری جانب خود نبی سامنے موجود ہو گا ۔ جیسے فرمان ہے: وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتَابُ وَجِيءَ بِالنَّبِيِّينَ وَالشُّهَدَاءِ زمین اپنے رب کے نور سے چمکنے لگے گی نامہ اعمال رکھ دیا جائے گا اور نبیوں اور گواہوں کو موجود کر دیا جائے گا (۳۹:۶۹) اور آیت میں ہے: فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَىٰ هَـٰؤُلَاءِ شَهِيدًا کیا کیفیت ہو گی اس وقت جب کہ ہر اُمت کا ہم گواہ لائیں گے اور تجھے اس تیری اُمت پر گواہ کر کے لائیں گے ۔ (۴:۴۱) فَمَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ فَأُولَئِكَ يَقْرَءُونَ كِتَابَهُمْ پھر جن کا بھی اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دے دیا گیا وہ تو شوق سے اپنا نامہ اعمال پڑھنے لگیں گے لیکن مراد یہاں امام سے نامہ اعمال ہے اسی لیے اس کے بعد ہی فرمایا کہ جن کے دائیں ہاتھ میں دے دیا گیاوہ تو اپنی نیکیاں فرحت و سرور ، خوشی اور راحت سے پڑھنے لگیں گے بلکہ دوسروں کو دکھاتے اور پڑھواتے پھریں گے ۔ اسی کا مزید بیان سورہ الحاقہ میں ہے ۔ بزار میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: لیکن کافر کا چہرہ سیاہ ہو جائے گا اس کا جسم بڑھ جائے گا ، اسے دیکھ کر اس کے ساتھی کہنے لگیں گے اللہ اسے رسوا کر ، ایک شخص کو بلوا کر اس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا ۔ اس کا جسم بڑھ جائے گا ، چہرہ چمکنے لگے گا ، سر پر چمکتے ہوئے ہیروں کا تاج رکھ دیا جائے گا ، یہ اپنے گروہ کی طرف بڑھے گا اسے اس حال میں آتا دیکھ کر وہ سب آرزو کرنے لگیں گے ، کہ اے اللہ ہمیں بھی یہ عطا فرما اور ہمیں اس میں برکت دے وہ آتے ہی کہے گا کہ خوش ہو جاؤ تم میں سے ہر ایک کو یہی ملنا ہے ۔ یہ جواب دے گا ، اللہ تمہیں غارت کرے ، تم میں سے ہر شخص کے لئے یہی اللہ کی مار ہے ۔ وَلَا يُظْلَمُونَ فَتِيلًا اور دھاگے کے برابر (ذرہ برابر) بھی ظلم نہ کئے جائیں گے ۔ فَتِيل سے مراد لمبا دھاگہ ہے جو کھجور کی گٹھلی کے بیچ میں ہوتا ہے ۔ وَمَنْ كَانَ فِي هَذِهِ أَعْمَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَى وَأَضَلُّ سَبِيلًا اور جو کوئی اس جہان میں اندھا رہا، وہ آخرت میں بھی اندھا اور راستے سے بہت ہی بھٹکا ہوا رہے گا ۔ (۷۲) اس دنیا میں جس نے اللہ کی آیتوں سے اس کی کتاب سے اس کی راہ ہدایت سے چشم پوشی کی وہ آخرت میں سچ مچ رسوا ہو گا اور دنیا سے بھی زیادہ راہ بھولا ہوا ہو گا۔ وَإِنْ كَادُوا لَيَفْتِنُونَكَ عَنِ الَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ لِتَفْتَرِيَ عَلَيْنَا غَيْرَهُ ۖ وَإِذًا لَاتَّخَذُوكَ خَلِيلًا یہ لوگ آپ کو اس وحی سے جو ہم نے آپ پر اتاری ہے بہکانا چاہتے کہ آپ اس کے سوا کچھ اور ہی ہمارے نام سے گھڑ گھڑا لیں، تب تو آپ کو یہ لوگ اپنا ولی دوست بنا لیتے۔ (۷۳) مکار و فجار کی چالاکیوں سے اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے رسول کو بچاتا رہا وَلَوْلَا أَنْ ثَبَّتْنَاكَ لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئًا قَلِيلًا اگر ہم آپ کو ثابت قدم نہ رکھتے تو بہت ممکن تھا کہ ان کی طرف قدرے قلیل مائل ہو ہی جاتے ۔ (۷۴) آپ کو معصوم اور ثابت قدم ہی رکھا خود ہی آپ کا ولی و ناصر رہا اپنی ہی حفاظت اور صیانت میں ہمیشہ آپ کو رکھا آپ کی تائید اور نصرت برابر کرتا رہا آپ کے دین کو دنیا کے تمام دینوں پر غالب کر دیا آپ کے مخالفین کے بلند بانگ ارادوں کو پست کر دیا مشرق سے مغرب تک آپ کا کلمہ پھیلا دیا اسی کا بیان ان دونوں آیتوں میں ہے ۔ اللہ تعالیٰ آپ پر قیامت تک بیشمار درود و سلام بھیجتا رہے ۔ آمین ۔ إِذًا لَأَذَقْنَاكَ ضِعْفَ الْحَيَاةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ عَلَيْنَا نَصِيرًا پھر تو ہم بھی آپ کو دوہرا عذاب دنیا کا کرتے اور دوہرا ہی موت کا پھر آپ تو اپنے لئے ہمارے مقابلے میں کسی کو مددگار نہ پاتے۔ (۷۵) کہتے ہیں کہ یہودیوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ آپ کو ملک شام چلا جانا چاہئے وہی نبیوں کا وطن ہے اس شہر مدینہ کو چھوڑ دینا چاہئے اس پر یہ آیت اتری ۔ لیکن یہ قول ضعیف ہے اس لئے کہ آیت مکی ہے اور مدینے میں آپ کی رہائش اس کے بعد ہوئی ہے کہتے ہیں کہ تبوک کے بارے میں یہ آیت اتری ہے یہودیوں کے کہنے سے کہ شام جو نبیوں کی اور محشر کی زمین ہے آپ کو وہیں رہنا چاہئے ، اگر آپ سچے پیغمبر ہیں تو وہاں چلے جائیے آپ ے انہیں ایک حد تک سچا سمجھا۔ غزوہ تبوک سے آپ کی نیت یہی تھی لیکن تبوک پہنچتے ہی سورہ بنی اسرائیل کی آیتیں اتریں ، اس کے بعد سورت ختم کر دی گئی تھی آیت وَإِنْ كَادُوا (۷۳) سے وَلَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِيلًا (۷۷) تک اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو مدینے کی واپسی کا حکم دیا اور فرمایا وہیں آپ کی موت زیست اور وہیں سے دوبارہ اٹھ کر کھڑا ہونا ہے ۔ لیکن اس کی سند بھی غور طلب ہے اور صاف ظاہر ہے کہ یہ واقعہ بھی ٹھیک نہیں تبوک کا غزوہ یہود کے کہنے سے نہ تھا بلکہ اللہ کا فرمان موجود ہے: قَاتِلُوا الَّذِينَ يَلُونَكُم مِّنَ الْكُفَّارِ جو کفار تمہارے ارد گرد ہیں ان سے جہاد کرو ۔ (۹:۱۲۳) اور آیت میں ہے: قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ ... حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ ان لوگوں سے لڑو جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں لاتے جو اللہ اور اس کے رسول کی حرام کردہ شے کو حرام نہیں جانتے، نہ دین حق کو قبول کرتے ہیں ان لوگوں میں سے جنہیں کتاب دی گئی ہے، یہاں تک کہ وہ ذلیل و خوار ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں ۔ (۹:۲۹) اور اس غزوے کی وجہ یہ تھی کہ آپ کے جو اصحاب جنگ موتہ میں شہید کر دئے گئے تھے ان کا بدلہ لیا جائے ، واللہ اعلم ۔ اور اگر مندرجہ بالا واقعہ صحیح ہو جائے تو اسی پر وہ حدیث محمول کی جائے گی ، جس میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مکہ مدینہ اور شام میں قرآن نازل ہوا ہے ۔ ولید تو اس کی شرح میں لکھتے ہیں کہ شام سے مراد بیت المقدس ہے لیکن شام سے مراد تبوک کیوں نہ لیا جائے جو بالکل صاف اور بہت درست ہے ۔ واللہ اعلم ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد کافروں کا وہ ارادہ ہے جو انہوں نے مکے سے جلا وطن کرنے کے بارے میں کیا تھا وَإِنْ كَادُوا لَيَسْتَفِزُّونَكَ مِنَ الْأَرْضِ لِيُخْرِجُوكَ مِنْهَا ۖ وَإِذًا لَا يَلْبَثُونَ خِلَافَكَ إِلَّا قَلِيلًا یہ تو آپ کے قدم اس سرزمین سے اکھاڑنے ہی لگے تھے کہ آپ کو اس سے نکال دیں پھر یہ بھی آپ کے بعد بہت ہی کم ٹھہرتے (۷۶) چنانچہ یہی ہوا بھی کہ جب انہوں نے آپ کو نکالا ۔ پھر یہ بھی وہاں زیادہ مدت نہ گزار سکے ، اللہ تعالیٰ نے فورا ہی آپ کو غالب کیا ۔ ڈیرھ سال ہی گزرا تھا کہ بدر کی لڑائی بغیر کسی تیاری اور اطلاع کے اچانک ہو گئی اور وہیں کافروں کا اور کفر کا دھڑا ٹوٹ گیا ، ان کے شریف و رئیس تہ تیغ ہوئے ، ان کی شان و شوکت خاک میں مل گئی ، ان کے سردار قید میں آ گئے ۔ سُنَّةَ مَنْ قَدْ أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنْ رُسُلِنَا ۖ وَلَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِيلًا ایسا ہی دستور ان کا تھا جو آپ سے پہلے رسول ہم نے بھیجے اور آپ ہمارے دستور میں کبھی ردو بدل نہ پائیں گے ۔ (۷۷) پس فرمایا کہ یہی عادت پہلے سے جاری ہے ۔ سابقہ رسولوں کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ کفار نے جب انہیں تنگ کیا اور دیس سے نکال دیا پھر وہ بچ نہ سکے ، عذاب اللہ نے انہیں غارت اور بےنشان کر دیا ۔ ہاں چونکہ ہمارے پیغمبر رسول رحمت تھے ، اس لئے کوئی آسمانی عام عذاب ان کافروں پر نہ آیا ۔ جیسے فرمان ہے: وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ تیری موجودگی میں اللہ انہیں عذاب نہ کرے گا ۔ (۸:۳۳) أَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَى غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ ۖ نماز کو قائم کریں آفتاب کے ڈھلنے سے لے کر رات کی تاریکی تک اور فجر کا قرآن پڑھنا بھی نمازوں کو وقتوں کی پابندی کے ساتھ ادا کرنے کا حکم ہو رہا ہے دُلُوكِ سے مراد غروب ہے یا زوال ہے ۔ امام ابن جریر زوال کے قول کو پسند فرماتے ہیں اور اکثر مفسرین کا قول بھی یہی ہے ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اور آپ کے ساتھ ان صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جنہیں آپ نے چاہا دعوت کی ، کھانا کھا کر سورج ڈھل جانے کے بعد آپ میرے ہاں سے چلے ، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا ، چلو یہی وقت دُلُوكِ شمس کا ہے ۔ پس پانچوں نمازوں کا وقت اس آیت میں بیان ہو گیا ۔ غَسَقِ سے مراد اندھیرا ہے إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا یقیناً فجر کے وقت کا قرآن پڑھنا حاضر کیا گیا (۷۸) جو کہتے ہیں کہ دُلُوكِ سے مراد غروبی ہے ، ان کے نزدیک ظہر عصر مغرب عشا کا بیان تو اس میں ہے اور فجر کا بیان قُرْآنَ الْفَجْرِ میں ہے ۔ حدیث سے یہ اقوال وافعال تواتر سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پانچوں نمازوں کے اوقات ثابت ہیں اور مسلمان بحمد للہ اب تک اس پر ہیں ، ہر پچھلے زمانے کے لوگ اگلے زمانے والوں سے برابر لیتے چلے آتے ہیں۔ جیسے کہ ان مسائل کے بیان کی جگہ اس کی تفصیل موجود ہے والحمد للہ ۔ صبح کی تلاوت قرآن پر دن اور رات کے فرشتے آتے ہیں ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے: تنہا شخص کی نماز پر جماعت کی نماز پچیس درجے زیادہ فضیلت رکھتی ہے ۔ صبح کن نماز کے وقت دن اور رات کے فرشتے اکھٹے ہوتے ہیں ۔ اسے بیان فرما کر راوی حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تم قرآن کی آیت کو پڑھ لو إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا ، بخاری و مسلم میں ہے: رات کے اور دن کے فرشتے تم میں برابر پے در پے آتے رہتے ہیں ، صبح کی اور عصر کی نماز کے وقت ان کا اجتماع ہو جاتا ہے تم میں جن فرشتوں نے رات گزاری وہ جب چڑھ جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے دریافت فرماتا ہے ، باوجود یہ کہ وہ ان سے زیادہ جاننے والا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم ان کے پاس پہنچے تو انہیں نماز میں پایا اور واپس آئے تو نماز میں چھوڑ کر آئے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ چوکیدار فرشتے صبح کی نماز میں جمع ہوتے ہیں پھر یہ چڑھ جاتے ہیں اور وہ ٹھہر جاتے ہیں ۔ ابن جریر کی ایک حدیث میں اللہ تعالیٰ کے نزول فرمانے اور اس ارشاد فرمانے کا ذکر کیا : کوئی ہے جو مجھ سے استغفار کرے اور میں اسے بخشوں کوئی ہے ؟ کوئی مجھ سے سوال کرے اور میں اسے دوں کوئی ہے جو مجھ سے دعا کرے اور میں اس کی دعا کو قبول کروں ۔ یہاں تک کہ صبح طلوع ہو جاتی ہے پس اس وقت پر اللہ تعالیٰ موجود ہوتا ہے اور رات کے فرشتے جمع ہوتے ہیں ۔ وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَكَ عَسَى رات کے کچھ حصے میں تہجد کی نماز میں قرآن کی تلاوت کریں یہ زیادتی آپ کے لئے ہے پھر اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو تہجد کی نماز کا حکم فرماتا ہے ، فرضوں کا تو حکم تو ہے ہی۔ صحیح مسلم شریف میں ہے : حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ فرض نماز کے بعد کونسی نماز افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا رات کی نماز ۔ تہجد کہتے ہیں نیند کے بعد کی نماز کو ، لغت میں مفسرین کی تفسیروں میں اور حدیث میں یہ موجود ہے آپ کی عادت بھی یہی تھی کہ سو کر اٹھتے پھر تہجد پڑھتے ۔ جیسے کہ اپنی جگہ بیان موجود ہے ۔ ہاں حسن بصری کا قول ہے کہ جو نماز عشا کے بعد ہو ۔ ممکن ہے کہ اس سے بھی مراد سو جانے کے بعد ہو ۔ پھر فرمایا یہ زیادتی تیرے لئے ہے ۔ بعض تو کہتے ہیں ، تہجد کی نمازوں کے برخلاف صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر فرض تھی ۔ بعض کہتے ہیں یہ خصوصیت اس وجہ سے ہے کہ آپ کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف تھے اور اُمتیوں کی اس نماز کے وجہ سے ان کے گناہ دور ہو جاتے ہیں ۔ أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا عنقریب آپ کا رب آپ کو مقام محمود میں کھڑا کرے گا ۔ (۷۹) ہمارے اس حکم کی بجا آوری پر ہم تجھے اس جگہ کھڑا کریں گے کہ جہاں کھڑا ہونے پر تمام مخلوق آپ کی تعریفیں کرے گی اور خود خالق اکبر بھی ۔ کہتے ہیں کہ مقام محمود پر قیامت کے دن آپ اپنی اُمت کی شفاعت کے لئے جائیں گے تاکہ اس دن کی گھبراہٹ سے آپ انہیں راحت دیں ۔ حضرت حدیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: لوگ ایک ہی میدان میں جمع کئے جائیں گے پکارنے والا اپنی آواز انہیں سنائے گا ، آنکھیں کھل جائیں گے ، ننگے پاؤں ننگ بدن ہوں گے ، جیسے کہ پیدا کئے گے تھے ، سب کھڑے ہوں گے ، کوئی بھی بغیر اجازت الہٰی بات نہ کر سکے گا، آواز آئے گی ، اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! آپ ﷺکہیں گے لبیک وسعدیک ۔ اے اللہ تمام بھلائی تیرے ہی ہاتھ ہے ۔ برائی تیری جانب سے نہیں ۔ راہ یافتہ وہی ہے جسے تو ہدایت بخشے ، تیرا غلام تیرے سامنے موجود ہے ، وہ تیری ہی مدد سے قائم ہے ، وہ تیری ہی جانب جھکنے والا ہے ۔ تیری پکڑ سے سوائے تیرے دربار کے اور کوئی پناہ نہیں تو برکتوںں اور بلندیوں والا ہے اے رب البیت تو پاک ہے ۔ یہ ہے مقام محمود جس کا ذکر اللہ عز و جل نے اس آیت میں کیا ہے ۔ پس یہ مقام شفاعت ہے ۔ قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: قیامت کے دن سب سے پہلے زمین سے آپ باہر آئیں گے ۔ اور سب سے پہلے شفاعت آپ ہی کریں گے ۔ اہل علم کہتے ہیں کہ یہی مقام محمود ہے جس کا وعدہ اللہ کریم نے اپنے رسول مقبول سے کیا ہے ۔ صلی اللہ علیہ وسلم بیشک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی بزرگیاں ایسی ملیں گی جن میں کوئی آپ کی برابری کا نہیں۔ - سب سے پہلے آپ ہی کی قبر کی زمین شق ہو گی اور آپ سواری پر سوار محشر کی طرف جائیں گے ، - آپ کا ایک جھنڈا ہو گا کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر سب کے سب اسکے نیچے ہوں گے۔ - آپ کو حوض کوثر ملے گا جس پر سب سے زیادہ لوگ وارد ہوں گے۔ - بہت بڑی شفاعت آپ کی ہو گی کہ اللہ تعالیٰ مخلوق کے فیصلوں کے لئے آئے اور یہ اس کے بعد ہو گی کہ لوگ حضرت آدم علیہ السلام ، حضرت نوح علیہ السلام ، حضرت ابراہیم علیہ السلام ، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس ہو آئیں اور سب انکار کر دیں ۔ پھر آپ کے پاس آئیں گے اور آپ اس کے لئے تیار ہوں گے جیسے کہ اس کی حدیثیں مفصل آ رہی ہے ان شاء اللہ آپ ان لوگوں کی شفاعت کریں گے - جن کی بابت حکم ہو چکا ہو گا کہ انہیں جہنم کی طرف لے جائیں ۔ پھر وہ آپ کی شفاعت سے واپس لوٹا دئے جائیں گے ، - سب سے پہلے آپ ہی جنت میں لے جانے کی پہلے سفارشی ہوں گے ۔ جیسے کہ صحیح مسلم کی حدیث سے ثابت ہے صور کی حدیث میں ہے: تمام مؤمن آپ ہی کی شفاعت سے جنت میں جائیں گے ۔ سب سے پہلے آپ جنت میں جائیں گے اور آپ کی اُمت اور اُمتوں سے پہلے جائے گی ۔ آپ کی شفاعت سے کم درجے کے جنتی اعلی اور بلند درجے پائیں گے ۔ آپ ہی صاحب وسیلہ ہیں جو جنت کی سب سے اعلی منزل ہے جو آپ کے سوا کسی اور کو نہیں ملنے کی ۔ یہ صحیح ہے کہ بحکم الہٰی گنہگاروں کی شفاعت فرشتے بھی کریں گے ، نبی بھی کریں گے ، مؤمن بھی کریں گے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت جس قدر لوگوں کے بارے میں ہو گی ان کی گنتی کا سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کو علم نہیں اس میں کوئی آپ کی مثل اور برابر نہیں ۔ کتاب السیرت کے آخر میں باب الخصائص میں میں نے اسے خوب تفصیل سے بیان کیا ہے والحمد للہ ۔ مقام محمود کے بارے کی حدیثیں بخاری میں ہے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: لوگ قیامت کے دن گھٹنوں کے بل گرے ہوئے ہوں گے ہر اُمت اپنے نبی کے پیچھے ہو گی کہ اے فلاں ہماری شفاعت کیجئے ، اے فلاں ہماری شفاعت کیجئے یہاں تک کہ شفاعت کی انتہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہو گی ۔ پس یہی وہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو مقام محمود پر کھڑا کرے گا۔ ابن جریر میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: بخاری میں ہے جو شخص اذان سن کریہ دعا پڑھ لے اس کے لئے قیامت کے دن میری شفاعت حلال ہے ۔ اللہم رب ھذہ الدعوة التامة مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: قیامت کے دن میں نبیوں کا امام اور ان کا خطیب اور ان کا سفارشی ہوں گا میں یہ کچھ بطور فخر کے نہیں کہتا ۔ اسے ترمذی بھی لائے ہیں اور حسن صحیح کہا ہے ۔ ابن ماجہ میں بھی یہ ہے ۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے وہ حدیث گزر چکی ہے جس میں قرآن کو سات قرأتوں پر پڑھنے کا بیان ہے اس کے آخر میں ہے: میں نے کہا اے اللہ میری اُمت کو بخش ، الہٰی میری اُمت کو بخش ، تیری دعا میں نے اس دن کے لئے اٹھا رکھی ہے ، جس دن تمام مخلوق میری طرف رغبت کرے گی ، یہاں تک کہ ابراہیم علیہ السلام بھی ۔ مسند احمد میں ہے: مؤمن قیامت کے دن جمع ہوں گے پھر ان کے دل میں خیال ڈالا جائے گا کہ ہم کس سے کہیں کہ وہ ہماری سفارش کر کے ہمیں اس جگہ سے آرام دے ، پس سب کے سب حضرت آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ اے آدم آپ تمام انسانوں کے باپ ہیں ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ، آپ کے لئے اپنے فرشتوں سے سجدہ کرایا آپ کو تمام چیزوں کے نام بتائے آپ اپنے رب کے پاس ہماری سفارش لے جائیے تاکہ ہمیں اس جگہ سے راحت ملے ، حضرت آدم علیہ السلام جواب دیں گے کہ میں اس قابل نہیں ہوں آپ کو اپنا گناہ یاد آ جائے گا اور اللہ تعالیٰ سے شرمانے لگیں ، فرمائیں گے تم حضرت نوح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جاؤ وہ اللہ کے پہلے رسول ہیں ، جنہیں زمین والوں کی طرف اللہ پاک نے بھیجا یہ آئیں گے یہاں سے بھی جواب پائیں گے کہ میں اس کے لائق نہیں ہوں ، آپ کو بھی اپنی خطا یاد آئے گی کہ اللہ سے وہ سوال کیا تھا جس کا آپ کو علم نہ تھا ۔ پس اپنے پروردگار سے شرما جائیں گے اور فرمائیں گے تم ابراہیم خلیل الرحمن علیہ السلام کے پاس جاؤ وہ آپ کے پاس آئیں گے ، آپ فرمائیں کے ، میں اس قابل نہیں تم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ ، ان سے اللہ نے کلام کیا ہے اور انہیں تورات دی ہے لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے لیکن وہ کہیں گے مجھ میں اتنی قابلیت کہاں ؟ پھر آپ اس قتل کا ذکر کریں گے جو بغیر کسی مقتول کے معاوضے کے آپ نے کر دیا تھا پس بوجہ اس کے شرمانے لگیں گے اور کہیں گے تم عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ جو اللہ کے بندے اس کا کلمہ اور اس کی روح ہے ۔ وہ یہاں آئیں گے لیکن آپ فرمائیں گے میں اس جگہ کے قابل نہیں ہوں ۔ تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ جن کے اول آخر تمام گناہ بخش دئیے گئے ہیں، پس وہ میرے پاس آئیں گے میں کھڑا ہوجاؤں گا ۔ اپنے رب سے اجازت چاہوں گا جب اسے دیکھوں گا تو سجدے میں گر پڑوں گا ۔ جب تک اللہ کو منظور ہو گا میں سجدے میں ہی رہوں گا پھر فرمایا جائے گا، اے محمد سر اٹھائیے ، کہئے ، سنا جائے گا ، شفاعت کیجئے ، قبول کی جائے گی ، مانگئے دیا جائے گا ، پس میں سر اٹھاؤں گا اور اللہ کی وہ تعریفیں کروں گا جو وہ مجھے سکھائے گا ۔ پھر میں سفارش پیش کروں گا، میرے لئے ایک حد مقرر کر دی جائے گی ، میں انہیں جنت میں پہچا آؤں گا ، پھر دوبارہ جناب باری میں حاضر ہو کر اپنے رب کی وہ حمد بیان کروں گا جو وہ مجھے سکھائے گا پھر میں شفاعت کروں گا تو میرے لئے ایک حد مقرر کر دی جائے گی میں انہیں بھی جنت میں پہنچا آؤں گا ۔ پھر تیسری مرتبہ لوٹوں گا اپنے رب کو دیکھتے ہی سجدے میں گر پڑوں گا جب تک وہ چاہے اسی حالت میں پڑا رہوں گا پھر فرمایا جائے گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سر اٹھا ، بات کر ، سنی جائے گی ۔ سوال کر ، عطا فرمایا جائے گا ۔ سفارش کر ، قبول کی جائے ۔ چنانچہ میں سر اٹھا کر وہ حمد بیان کر کے جو مجھے وہی سکھائے گا سفارش کروں گا ۔ پھر چوتھی بار واپس آؤں گا اور کہوں گا باری تعالیٰ اب تو صرف وہی باقی رہ گئے ہیں جنہیں قرآن نے روک لیا ہے ۔ فرماتے ہیں جہنم میں سے ہر وہ شخص بھی نکل آئے گا جس نے لا الہ الا اللہ کہا ہو اور ان کے دل میں ایک ذرے جتنا ایمان ہو ۔ یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے ۔ مسند احمد میں ہے آپﷺ فرماتے ہیں: میری اُمت پل صراط سے گزر رہی ہو گی میں وہیں کھڑا دیکھ رہا ہوں گا جو میرے پاس حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئیں اور فرمائیں گے اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم انبیا ءکی جماعت آپ سے کچھ مانگتی ہے وہ سب آپ کے لئے جمع ہیں اور اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ تمام اُمتوں کو جہاں بھی چاہے ، الگ الگ کر دے ، اس وقت وہ سخت غم میں ہیں ، تمام مخلوق پسینوں میں گویا لگام چڑھا دی گئی ہے ۔ مؤمن پر تو وہ مثل زکام کے ہے لیکن کافر پر تو موت کا ڈھانپ لینا ہے ۔ آپ فرمائیں گے کہ ٹھہرو میں آتا ہوں پس آپ جائیں گے عرش تلے کھڑے رہیں گے اور وہ عزت و آبرو ملے گی کہ کسی برگزیدہ فرشتے اور کسی بھیجے ہوئے نبی رسول کو نہ ملی ہو پھر اللہ تعالیٰ حضرت جبرائیل علیہ السلام کی طرف وحی کرے گا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس جاؤ اور کہو کہ آپ سر اٹھائیے ، مانگئے ، ملے گا ، سفارش کیجئے ، قبول ہو گی ، پس مجھے اپنی اُمت کی شفاعت ملے گی کہ ہر ننانوے میں سے ایک نکال لاؤں میں بار بار اپنے رب عز و جل کی طرف آتا جاتا رہوں گا اور ہر بار سفاش کروں گا یہاں تک کہ جناب باری مجھ سے ارشاد فرمائے گا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) جاؤ مخلوق الہٰی میں سے جس نے ایک دن بھی خلوص کے ساتھ لا الہ الا اللہ کی گواہی دی ہو اور اسی پر مرا ہو ، اسے بھی جنت میں پہنچا آؤ۔ مسند احمد میں ہے : حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت معاویہ سے رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گئے اس وقت ایک شخص کچھ کہہ رہا تھا، انہوں نے بھی کچھ کہنے کی اجازت مانگی ، حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اجازت دی ۔ آپ کا خیال یہ تھا کہ جو کچھ یہ پہلا شخص کہہ رہا ہے وہی بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی کہیں گے ۔ حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ فرماتے ہیں مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ زمین پر جتنے درخت اور کنکر ہیں ، ان کی گنتی کے برابر لوگوں کی شفاعت میں کروں گا ، پس اے معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کو تو اس کی امید ہو اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس سے ناامید ہوں؟ مسند احمد میں ہے: ملیکہ کے دونوں لڑکے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے ہماری ماں ہمارے والد کی بڑی ہی عزت کرتی تھیں ، بچوں پر بڑی مہربانی اور شفقت کرتی تھیں ، مہمانداری میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھتی تھیں ۔ ہاں انہوں نے جاہلیت کے زمانے میں اپنی زندہ لڑکیاں درگور کر دی تھیں ، آپ ﷺنے فرمایا پھر وہ جہنم میں پہنچی ۔ وہ دونوں ملول خاطر ہو کر لوٹے تو آپ نے حکم دیا کہ انہیں واپس بلا لاؤ وہ لوٹے اور ان کے چہروں پر خوشی تھی کہ اب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کوئی اچھی بات سنائیں گے ۔ آپﷺ نے فرمایا سنو میری ماں اور تمہاری ماں دونوں ایک ساتھ ہی ہیں ، ایک منافق یہ سن کر کہنے لگا کہ اس سے اس کی ماں کو کیا فائدہ ؟ ہم اس کے پیچھے جاتے ہیں ایک انصاری جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ سوالات کرنے کا عادی تھا ، کہنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا اس کے یا ان دونوں کے بارے میں آپ سے اللہ تعالیٰ نے کوئی وعدہ کیا ہے ؟ آپ سمجھ گئے کہ اس نے کچھ سنا ہے ، فرمانے لگے نہ میرے رب نے چاہا نہ مجھے اس بارے میں کوئی طمع دی ۔ سنو میں قیامت کے دن مقام محمود پر پہنچایا جاؤں گا انصاری نے کہا وہ کیا مقام ہے ؟ آپ ﷺنے فرمایا یہ اس وقت جب کہ تمہیں ننگے بدن بےختنہ لایا جائے گا ۔ سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کپڑے پہنائے جائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میرے خلیل کو کپڑے پہناؤ ۔ پس دو چادریں سفید رنگ کی پہنائی جائیں گی اور آپ عرش کی طرف منہ کئے بیٹھ جائیں گے پھر میرا لباس لایا جائے گا میں ان کی دائیں طرف اس جگہ کھڑا ہوؤں گا کہ تمام اگلے پچھلے لوگ رشک کریں گے اور کوثر سے لگ کر حوض تک ان کے لئے کھول دیا جائے گا ، منافق کہنے لگے پانی کے جاری ہونے کے لئے تو مٹی اور کنکر لازمی ہیں آپ ﷺنے فرمایا اس کی مٹی مشک ہے اور کنکر موتی ہیں ۔ اس نے کہا ، ہم نے تو کبھی ایسا نہیں سنا ۔ اچھا پانی کے کنارے درخت بھی ہونے چاہیئں، انصاری نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا وہاں درخت بھی ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا ہاں سونے کی شاخوں والے ۔ منافق نے کہا آج جیسی بات تو ہم نے کبھی نہیں سنی ۔ اچھا درختوں میں پتے اور پھل بھی ہونے چاہئیں ۔ انصاری نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا ان درختوں میں پھل بھی ہوں گے ؟ آپ ﷺنے فرمایا ہاں رنگا رنگ کے جواہر اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید ہو گا اور شہد سے زیادہ میٹھا ہو گا ۔ ایک گھونٹ بھی جس نم اس میں سے پی لیا ، وہ کبھی بھی پیاسا نہ ہو گا اور جو اس سے محروم رہ گیا وہ پھر کبھی آسودہ نہ ہو گا ۔ ابو داؤد طیالسی میں ہے : پھر اللہ تعالیٰ عز و جل شفاعت کی اجازت دے گا ، پس روح القدس حضرت جبرائیل علیہ السلام کھڑے ہوں گے ، پھر حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کھڑے ہوں گے آپ سے زیادہ کسی کی شفاعت نہ ہو گی یہی مقام محمود ہے جس کا ذکر اس آیت میں ہے ۔ مسند احمد میں ہے لوگ قیامت کے دن اٹھائے جائیں گے ، میں اپنی اُمت سمیت ایک ٹیلے پر کھڑا ہوؤں گا ، مجھے اللہ تعالیٰ سبز رنگ حلہ پہنائے گا ، پھر مجھے اجازت دی جائے گی اور جو کچھ کہنا چاہوں گا ، کہوں گا یہی مقام محمود ہے جس کا ذکر اس آیت میں ہے ۔ مسند احمد میں ہے: قیامت کے دن سب سے پہلے مجھے سجدہ کرنے کی اجازت دی جائے گی اور مجھے ہی سب سے پہلے سر اٹھانے کی اجازت ملے گی ، میں اپنے آگے پیچھے دائیں بائیں دیکھ کر اپنی اُمت کو اور اُمتوں میں پہچان لوں گا ، کسی نے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور ساری اُمتیں جو حضرت نوح کے وقت تک کی ہوں گی ان سب میں سے آپ خاص اپنی اُمت کیسے پہچان لیں گے ؟ آپ ﷺنے فرمایا - وضو کے اثر سے ان کے ہاتھ پاؤں منہ چمک رہے ہوں گے ان کے سوا اور کوئی ایسا نہ ہو گا - اور میں انہیں یوں پہچان لوں گا کہ ان کے نامہ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں ملیں گے - اور نشان یہ ہے کہ ان کی اولادیں ان کے آگے آگے چل پھر رہی ہوں گی ۔ مسند احمد میں ہے: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گوشت لایا گیا اور شانے کا گوشت چونکہ آپ کو زیادہ مرغوب تھا ، وہی آپ کو دیا گیا آپ اس میں سے گوشت توڑ توڑ کر کھانے لگے اور فرمایا قیامت کے دن تمام لوگوں کا سردار میں ہوں ۔ اللہ تعالیٰ تمام اگلوں پچھلوں کو ایک ہی میدان میں جمع کرے گا آواز دینے والا انہیں سنائے گا ۔ نگاہیں اوپر کو چڑھ جائیں گی سورج بالکل نزدیک ہو جائے گا اور لوگ ایسی سختی اور رنج و غم میں مبتلا ہو جائیں گے جو ناقابل برداشت ہے ۔ اس وقت وہ آپس میں کہیں گے کہ دیکھو تو سہی ہم سب کس مصیبت میں مبتلا ہیں ، چلو کسی سے کہہ کر اسے سفارشی بنا کر اللہ تعالیٰ کے پاس بھیجیں ۔ چنانچہ مشورہ سے طے ہو گا اور لوگ حضرت آدم علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور کہیں گے آپ تمام انسانوں کے باپ ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ہے ، آپ میں اپنی روح پھونکی ہے ، اپنے فرشتوں کو آپ کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دے کر ان سے سجدہ کرایا ہے ۔ آپ کیا ہماری خستہ حالی ملاحظہ نہیں فرما رہے ؟ آپ پروردگار سے شفاعت کی دعا کیجئے ۔ چنانچہ مشورہ سے طے ہو گا اور لوگ حضرت آدم علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور کہیں گے آپ تمام انسانوں کے باپ ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ہے ، آپ میں اپنی روح پھونکی ہے ، اپنے فرشتوں کو آپ کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دے کر ان سے سجدہ کرایا ہے ۔ آپ کیا ہماری خستہ حالی ملاحظہ نہیں فرما رہے ؟ آپ پروردگار سے شفاعت کی دعا کیجئے ۔ حضرت آدم علیہ السلام جواب دیں گے کہ میرا رب آج اس قدر غضبناک ہو رہا ہے کہ کبھی اس سے پہلے ایسا غضبناک نہیں ہوا اور نہ اس کے بعد کبھی ہو گا ۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک درخت سے روکا تھا ، لیکن مجھ سے نافرمانی ہو گئی ۔ آج تو مجھے خود اپنا خیال لگا ہوا ہے ۔ نفسا نفسی لگی ہوئی ہے ۔ تم کسی اور کے پاس جاؤ نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ ۔ لوگ وہاں سے حضرت نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ اے نوح علیہ السلام آپ کو زمین والوں کی طرف سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے رسول بنا کر بھیجا ۔ آپ کا نام اس نے شکر گزار بندہ رکھا ۔ آپ ہمارے لئے اپنے رب کے پاس شفاعت کیجئے ، دیکھئے تو ہم کس مصیبت میں مبتلا ہیں ؟ حضرت نوح علیہ السلام جواب دیں گے کہ آج تو میرا پروردگار اس قدر غضبناک ہے کہ اس سے پہلے کبھی ایسا غصے میں ہوا نہ اسے کے بعد کبھی ایسا غصے ہو گا ۔ میرے لئے ایک دعا تھی جو میں نے اپنے قوم کے خلاف مانگ لی مجھے تو آج اپنی پڑی ہے ، نفسا نفسی لگ رہی ہے تم کسی اور کے پاس جاؤ ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ ۔ لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور کہیں کے ، آپ نبی اللہ ہیں ، آپ خلیل اللہ ہیں ، کیا آپ ہماری یہ بپتا نہیں دیکھتے ؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام فرمائیں گے کہ میرا رب آج اس قدر غضبناک ہے کہ کبھی اس سے پہلے ایسا ناراض ہوا اور نہ اس کے بعد کبھی اس سے زیادہ غصے میں آئے گا پھر آپ آپنے جھوٹ یاد کر کے نفسی نفسی کرنے لگیں گے اور فرمائیں گے میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ ۔ لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور کہیں گے اے موسیٰ علیہ السلام ہماری شفاعت لے جائیے دیکھئے تو کیسی سخت آفت میں ہیں ؟ آپ فرمائیں گے آج تو میرا رب اس قدر نارض ہے ایسا کہ اس سے پہلے کبھی ایسا ناراض نہیں ہوا اور نہ کبھی اس کے بعد ایسا ناراض ہو گا ، میں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر ایک انسان کو مار ڈالا تھا ۔ نفسی نفسی تم مجھے چھوڑ کسی اور سے کہو تم حضرت عیسیٰ ؑ کے پاس چلے جاؤ۔ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور کہیں گے اے عیسیٰ علیہ السلام آپ رسول اللہ کلمۃ اللہ اور روح اللہ ہیں جو مریم علیہ السلام کی طرف بھیجی گئی بچپن میں گہوارے میں ہی آپ نے بولنا شروع کر دیا تھا چاہے ہمارے رب سے ہماری شفاعت کیجئے خیال تو فرمائیے کہ ہم کس قدر بےچین ہیں ؟ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جواب دیں گے کہ آج جیسا غصہ تو نہ پہلے تھا ، نہ بعد میں ہو گا ، نفسی نفسی نفسی ، آپ اپنے کسی گناہ کا ذکر نہ کریں گے ۔ فرمائیں گے تم کسی اور ہی کے پاس جاؤ ۔ دیکھو میں بتاؤں تم سب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ چنانچہ وہ سب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں گے اور کہیں گے اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ رسول اللہ ہیں ، آپ خاتم الانبیاء ہیں ، اللہ تعالیٰ نے آپ کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دئیے ہیں ۔ آپ ہماری شفاعت کیجئے دیکھئے تو ہم کیسی سخت بلاؤں میں گھرے ہوئے ہیں ، پھر میں کھڑا ہوؤں گأ اور عرش تلے آ کر اپنے رب عز و جل کے سامنے سجدے میں گر پڑوں گا۔ پھر اللہ تعالیٰ مجھ پر اپنی حمد و ثنا کے وہ الفاظ کھولے گا جو مجھ سے پہلے کسی اور پر نہیں کھلے تھے ۔ پھر مجھ سے فرمایا جائے گا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر اٹھاؤ ، مانگو ، تمہیں ملے گا ، شفاعت کرو ، منظور ہو گی ۔ میں اپنا سر سجدے سے اٹھاؤں گا اور کہوں گا میرے پروردگار میری اُمت ، میرے رب میری اُمت ، اے اللہ میری اُمت ، پس مجھ سے فرمایا جائے گا ، جاؤ اپنی اُمت میں سے ان لوگوں کو جن پر حساب نہیں ، جنت میں لے جاؤ انہیں جنت کے داہنی طرف کے دروازے سے پہنچاؤ لیکن اور تمام دروازوں سے بھی روک نہیں ۔ اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے ، جنت کی دو چوکھٹوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا مکہ ور حمیر میں یا مکہ اور بصری میں ۔ یہ حدیث بخاری و مسلم میں بھی ہے ۔ مسلم شریف میں ہے: قیامت کے دن اولاد آدم کا سردار میں ہوں اس دن سب سے پہلے میری قبر کی زمین شق ہو گی ، میں ہی پہلا شفیع ہوں اور پہلا شفاعت قبول کیا گیا ۔ ابن جریر میں ہے: حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کا مطلب پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا یہ شفاعت ہے ۔ مسند احمد میں ہے مقام محمود وہ مقام ہے ، جس میں میں اپنی اُمت کی شفاعت کروں گا ۔ عبد الرزاق میں ہے: قیامت کے دن کھال کی طرح اللہ تعالیٰ زمین کو کھینچ لے گا یہاں تک کہ ہر شخص کے لئے صرف اپنے دونوں قدم ٹکانے کی جگہ ہی رہے گی سب سے پہلے اسے اس نے نہیں دیکھا ۔ میں کہوں گا کہ باری تعالیٰ اس فرشتے نے مجھ سے کہا تھا کہ اسے تو میری طرف بھیج رہا تھا اللہ تعالیٰ عز و جل فرمائے گا اس نے سچ کہا اب میں یہ کہہ کر شفاعت کروں گا کہ اے اللہ تیرے بندوں نے زمین کے مختلف حصوں میں تیری عبادت کی ہے ، آپ فرماتے ہیں یہی مقام محمود ہے ۔ یہ حدیث مرسل ہے ۔ وَقُلْ رَبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ اور دعا کیا کریں کہ اے میرے پروردگار مجھے جہاں لے جا اچھی طرح لے جا اور جہاں سے نکال اچھی طرح نکال مسند احمد میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ مکہ شریف میں تھے پھر آپ کو ہجرت کا حکم ہوا اور یہ آیت اتری ۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کفار مکہ نے مشورہ کیا کہ آپ کو قتل کر دیں یا نکال دیں یا قید کر لیں پس اللہ کیا یہی ارادہ ہوا کہ اہل مکہ کو ان کی بداعمالیوں کا مزہ چکھا دے ۔ اس نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینے جانے کا حکم فرمایا ۔ یہی اس آیت میں بیان ہو رہا ہے ۔ قتادہ رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں مدینے میں داخل ہونا اور مکے سے نکلنا یہی قول سب سے زیادہ مشہور ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ سچائی کے داخلے سے مراد موت ہے اور سچائی سے نکلنے سے مراد موت کے بعد کی زندگی ہے اور اقوال بھی ہیں لیکن زیادہ صحیح پہلا قول ہی ہے ۔امام ابن جریر بھی اسی کو اختیار کرتے ہیں وَاجْعَلْ لِي مِنْ لَدُنْكَ سُلْطَانًا نَصِيرًا اور میرے لئے اپنے پاس سے غلبہ اور امداد مقرر فرما دے۔ (۸۰) پھر حکم ہوا کہ غلبے اور مدد کی دعا ہم سے کرو۔ اس دعا پر اللہ تعالیٰ نے فارس اور روم کا ملک اور عزت دینے کا وعدہ فرما لیا اتنا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم معلوم کر چکے تھے کہ بغیر غلبے کے دین کی اشاعت اور زور ناممکن ہے اس لئے اللہ تعالیٰ سے مدد و غلبہ طلب کیا تاکہ کتاب اللہ اور حدود اللہ ، فرائض شرع اور قیام دین آپ کر سکیں یہ غلبہ بھی اللہ کی ایک زبردست رحمت ہے ۔ اگر یہ نہ ہوتا تو ایک دوسرے کو کھا جاتا ۔ ہر زور اور کمزور کا شکار کر لیتا ۔ سُلْطَانًا نَصِيرًا سے مراد کھلی دلیل بھی ہے لیکن پہلا قول اولیٰ ہے اس لئے کہ حق کے ساتھ غلبہ اور طاقت بھی ضروری چیز ہے تاکہ مخالفین حق دبے رہیں اسی لئے اللہ تعالیٰ نے لوہے کے اتارنے کے احسان کو قرآن میں خاص طور پر ذکر کیا ہے ۔ لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَـتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَـبَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ وَأَنزْلْنَا الْحَدِيدَ ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلی دلیلیں دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان (ترازو) نازل فرمایا تاکہ لوگ عدل پر قائم رہیں اور ہم نے لوہے کو اتارا (۵۷:۲۵) ایک حدیث میں ہے: سلطنت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بہت سی برائیوں کو روک دیتا ہے جو صرف قرآن سے نہیں رک سکتی تھیں ۔ یہ بالکل واقعہ ہے بہت سے لوگ ہیں کہ قرآن کی نصیحتیں اس کے وعدے وعید ان کو بدکاریوں سے نہیں ہٹا سکتے ۔ لیکن اسلامی طاقت سے مرعوب ہو کر وہ برائیوں سے رک جاتے ہیں وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا اور اعلان کر دے کہ حق آچکا اور ناحق نابود ہوگیا۔ یقیناً باطل تھا بھی نابود ہونے والا ۔ (۸۱) پھر کافروں کی گوشمالی کی جاتی ہے کہ اللہ کی جانب سے حق آ چکا ۔ سچائی اتر آئی ، جس میں کوئی شک شبہ نہیں ، قرآن ایمان نفع دینے والا سچا علم منجانب اللہ آ گیا ، کفر برباد و غارت اور بےنام و نشان ہو گیا ، وہ حق کے مقابلہ میں بےدست و پاثابت ہوا ، بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَـطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ بلکہ ہم سچ کو جھوٹ پر پھینک مارتے ہیں پس سچ جھوٹ کا سر توڑ دیتا ہے اور وہ اسی وقت نابود ہو جاتا ہے (۲۱:۱۸) حق نے باطل کا دماغ پاش پاش کر دیا اور نابود اور بےوجود ہو گیا ۔ جَآءَ الْحَقُّ وَمَا يُبْدِىءُ الْبَـطِلُ وَمَا يُعِيدُ کہہ دیجیئے! کہ حق آ چکا باطل نہ تو پہلے کچھ کر سکا ہے اور نہ کر سکے گا۔ صحیح بخاری شریف میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکے میں آئے بیت اللہ کے آس پاس تین سو ساٹھ بت تھے ، آپ اپنے ہاتھ کی لکڑی سے انہیں کچوکے دے رہے تھے اور یہی آیت پڑھتے تھے اور فرماتے جاتے تھے حق آ چکا باطل نہ دوبارہ آ سکتا ہے نہ لوٹ سکتا ہے ۔ ابو یعلی میں ہے کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکے میں آئے ، بیت اللہ کے اردگرد تین سو ساٹھ بت تھے ، جن کی پوجا پاٹ کی جاتی تھی آپ نے فورا ًحکم دیا کا ان سب کو اوندھے منہ گرا دو پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی ۔ وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ ۙ یہ قرآن جو ہم نازل کر رہے ہیں مؤمنوں کے لئے تو سراسر شفا اور رحمت ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب کی بابت جس میں باطل کا شائبہ بھی نہیں ، فرماتا ہے کہ وہ ایمانداروں کے دلوں کی تمام بیماریوں کے لئے شفا ہے ۔ شک ، نفاق ، شرک ، ٹیڑھ پن اور باطل کی لگاوٹ سب اس سے دور ہو جاتی ہے ۔ ایمان، حکمت ، بھلائی، رحمت ، نیکیوں کی رغبت ، اس سے حاصل ہوتی ہے ۔ جو بھی اس پر ایمان و یقین لائے اسے سچ سمجھ کر اس کی تابعداری کرے ، یہ اسے اللہ کی رحمت کے نیچے لا کھڑا کرتا ہے ۔ وَلَا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلَّا خَسَارًا ہاں ظالموں کو بجز نقصان کے اور کوئی زیادتی نہیں ہوتی ۔ (۸۲) ہاں جو ظالم جابر ہو ، جو اس سے انکار کرے وہ اللہ سے اور دور ہو جاتا ہے ۔ قرآن سن کر اس کا کفر اور بڑھ جاتا ہے پس یہ آفت خود کافر کی طرف سے ، اس کے کفر کی وجہ سے ہوتی ہے نہ کہ قرآن کی طرف سے وہ تو سراسر رحمت و شفا ہے چنانچھ اور آیت قرآن میں ہے: قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ ءَامَنُواْ هُدًى وَشِفَآءٌ ... أُوْلَـئِكَ يُنَادَوْنَ مِن مَّكَانٍ بَعِيدٍ آپ کہہ دیجئے! کہ یہ تو ایمان والوں کے لئے ہدایت و شفا ہے اور جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں تو (بہرہ پن اور) بوجھ ہے اور یہ ان پر اندھا پن ہے، (۴۱:۴۴) یہ وہ لوگ ہیں جو کسی بہت دور دراز جگہ سے پکارے جا رہے ہیں اور آیت میں ہے: وَإِذَا مَآ أُنزِلَتْ سُورَةٌ فَمِنْهُمْ مَّن يَقُولُ ... وَمَاتُواْ وَهُمْ كَـفِرُونَ اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو بعض منافقین کہتے ہیں کہ اس سورت نے تم میں سے کس کے ایمان کو زیادہ کیا سو جو لوگ ایماندار ہیں اس سورت نے ان کے ایمان کو زیادہ کیا ہے اور وہ خوش ہو رہے ہیں ۔ اور جن کے دلوں میں روگ ہے اس سورت نے ان میں ان کی گندگی کے ساتھ اور گندگی بڑھا دی اور وہ حالت کفر ہی میں مر گئے (۹:۱۲۴،۱۲۵) اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں ۔ الغرض مؤمن اس پاک کتاب کو سن کر نفع اٹھاتا ہے ، اسے حفظ کرتا ہے ، اسے یاد کرتا ہے، اس کا خیال رکھتا ہے ۔ بے انصاف لوگ نہ اس سے نفع حاصل کرتے ہیں ، نہ اسے حفظ کرتے ہیں ، نہ اس کی نگہبانی کرتے ہیں ، اللہ نے اسے شفا و رحمت صرف مؤمنوں کے لئے بنایا ہے ۔ وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَى الْإِنْسَانِ أَعْرَضَ وَنَأَى بِجَانِبِهِ ۖ وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ كَانَ يَئُوسًا اور انسان پر جب ہم اپنا انعام کرتے ہیں تو وہ منہ موڑ لیتا ہے اور کروٹ بدل لیتا ہے اور جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ مایوس ہو جاتا ہے (۸۳) خیر و شر برائی بھلائی جو انسان کی فطرت میں ہیں ، قرآن کریم ان کو بیان فرما رہا ہے ۔ مال ، عافیت ، فتح ، رزق ، نصرت ، تائید ، کشادگی ، آرام پاتے ہی نظریں پھیر لیتا ہے ۔ اللہ سے دور ہو جاتا ہے گویا اسے کبھی برائی پہنچنے گی ہی نہیں ۔ اللہ سے کروٹ بدل لیتا ہے گویا کبھی کی جان پہچان ہی نہیں فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَن لَّمْ يَدْعُنَآ إِلَى ضُرٍّ مَّسَّهُ پھر جب ہم اس کی تکلیف اس سے ہٹا دیتے ہیں تو وہ ایسا ہو جاتا ہے کہ گویا اس نے اپنی تکلیف کے لئے جو اسے پہنچی تھی کبھی ہمیں پکارا ہی نہیں تھا (۱۰:۱۲) اور جہاں مصیبت ، تکلیف ، دکھ ، درد ، آفت ، حادثہ پہنچا اور یہ نا امید ہوا ، سمجھ لیتا ہے کہ اب بھلائی ، عافیت ، راحت ، آرام ملنے ہی کا نہیں ۔ قرآن کریم اور جگہ ارشاد فرماتا ہے: وَلَئِنْ أَذَقْنَا الإِنْسَـنَ مِنَّا رَحْمَةً ... لَيَقُولَنَّ ذَهَبَ السَّيِّئَاتُ عَنِّي اگر ہم انسان کو اپنی کسی نعمت کا ذائقہ چکھا کر پھر اسے اس سے لے لیں تو وہ بہت ہی ناامید اور بڑا نا شکرا بن جاتا ہے اور اگر ہم اسے کوئی مزہ چکھائیں اس سختی کے بعد جو اسے پہنچ چکی تھی تو وہ کہنے لگتا ہے کہ بس برائیاں مجھ سے جاتی رہیں (۱۱:۹،۱۰) قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَى شَاكِلَتِهِ فَرَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ أَهْدَى سَبِيلًا کہہ دیجئے! کہ ہر شخص اپنے طریقہ پر عامل ہے جو پوری ہدایت کے راستے پر ہیں انہیں تمہارا رب ہی بخوبی جاننے والا ہے (۸۴) فرماتا ہے کہ ہر شخص اپنی اپنی طرز پر ، اپنی طبیعت پر ، اپنی نیت پر ، اپنے دین اور طریقے پر عامل ہے تو لگے رہیں ۔ اس کا علم کہ فی الواقع راہ راست پر کون ہے ، صرف اللہ ہی کو ہے ۔ اس میں مشرکین کو تنبیہ ہے کہ وہ اپنے مسلک پر گو کار بند ہوں اور اچھا سمجھ رہے ہوں لیکن اللہ کے پاس جا کر کھلے گا کہ جس راہ پر وہ تھے وہ کیسی خطرناک تھی ۔ جیسے فرمان ہے : وَقُل لِّلَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ اعْمَلُواْ عَلَى مَكَانَتِكُمْ بے ایمانوں سے کہہ دو کہ اچھا ہم اپنی جگہ اپنے کام کرتے جاؤ ، (۱۱:۱۲۱) بدلے کا وقت یہ نہیں ، قیامت کا دن ہے ، نیکی بدی کی تمیز اس دن ہو گی ، سب کو بدلے ملیں گے ، اللہ پر کوئی امر پوشیدہ نہیں ۔ وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ ۖ اور یہ لوگ آپ سے روح کی بابت سوال کرتے ہیں، بخاری میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے: حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینے کے کھیتوں میں جا رہے تھے آپ کے ہاتھ میں لکڑی تھی میں آپ کے ہمراہ تھا ۔ یہودیوں کے ایک گروہ نے آپ کو دیکھ کر آپس میں کانا پھوسی شروع کی کہ آؤ ان سے روح کی بابت سوال کریں ۔ کوئی کہنے لگا اچھا ، کسی نے کہا مت پوچھو ۔ کوئی کہنے لگے تمہیں اس سے کیا نتیجہ کوئی کہنے لگا شاید کوئی جواب ایسا دیں جو تمہارے خلاف ہو ۔ جانے دو نہ پوچھو ۔ آخر وہ آئے اور حضرت ﷺسے سوال کیا اور آپ اپنی لکڑی پر ٹیک لگا کر ٹھہر گئے میں سمجھ گیا کہ وحی اتر رہی ہے خاموش کھڑا رہ گیا اس کے بعد آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی ۔ اس سے تو بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت مدنی ہے حالانکہ پوری سورت مکی ہے لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مکے کی اتری ہوئی آیت سے ہی اس موقعہ پر مدینے کے یہودیوں کو جواب دینے کی وحی ہوئی ہو یا یہ کہ دوبارہ یہی آیت نازل ہوئی ہو ۔ مسند احمد کی روایت سے بھی اس آیت کا مکے میں اترنا ہی معلوم ہوتا ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: قریشیوں نے یہودیوں سے درخواست کی کوئی مشکل سوال بتاؤ کہ ہم ان سے پوچھیں انہوں نے سوال سجھایا ۔ اس کے جواب میں یہ آیت اتری تو یہ سرکش کہنے لگے ہمیں بڑا علم ہے تورات ہمیں ملی ہے اور جس کے پاس تورات ہو اسے بہت سی بھلائی مل گئی ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: قُل لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَن تَنفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا کہہ دیجئے کہ اگر میرے پروردگار کی باتوں کے لکھنے کے لئے سمندر سیاہی بن جائے تو وہ بھی میرے رب کی باتوں کے ختم ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جائے گا، گو ہم اسی جیسا اور بھی اس کی مدد میں لے آئیں۔ (۸:۱۰۹) عکرمہ نے یہودیوں کے سوال پر اس آیت کا اترنا اور ان کے اس مکروہ قول پر دوسری آیت کا بیان فرمایا ہے وَلَوْ أَنَّمَا فِي الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ أَقْلَامٌ وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ مَا نَفِدَتْ كَلِمَاتُ اللَّهِ روئے زمین کے (تمام) درختوں کے اگر قلمیں ہوجائیں اور تمام سمندروں کی سیاہی ہو اور ان کے بعد سات سمندر اور ہوں تاہم اللہ کے کلمات ختم نہیں ہو سکتے (۳۱:۲۷) امام محمد بن اسحاق رحمۃ اللہ عیہ نے ذکر کیا ہے کہ مکے میں یہ آیت اتری کہ تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے ۔ جب آپ ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو مدینے کے علماء یہود آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے ہم نے سنا ہے آپ یوں کہتے ہیں کہ تمہیں تو بہت ہی کم عطا فرمایا گیا ہے اس سے مراد آپ کی قوم ہے یا ہم ؟ آپ ﷺنے فرمایا تم بھی اور وہ بھی ۔ انہوں نے کہا سنو خود قرآن میں پڑھتے ہو کہ ہم کو توراۃ ملی ہے اور یہ بھی قرآن میں ہے کہ اس میں ہر چیز کا بیان ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : علم الہٰی کے مقابلے میں یہ بھی کم ہے ۔ ہاں بیشک تمہیں اللہ نے اتنا علم دے رکھا ہے کہ اگر تم اس پر عمل کرو تو تمہیں بہت کچھ نفع ملےاور یہ آیت اتری وَلَوْ أَنَّمَا فِي الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ أَقْلَامٌ وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ مَا نَفِدَتْ كَلِمَاتُ اللَّهِ ۔ (۳۱:۲۷) حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے: یہودیوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روح کی بابت سوال کیا کہ اسی جسم کے ساتھ عذاب کیوں ہوتا ہے ؟ وہ تو اللہ کی طرف سے ہے چونکہ اس بارے میں کوئی آیت وحی آپ پر نہیں اتری تھی آپ نے انہیں کچھ نہ فرمایا اسی وقت آپ کے پاس حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور یہ آیت اتری یہ سن کر یہودیوں نے کہا آپ کو اس کی خبر کس نے دی ؟ آپ ﷺنے فرمایا جبرائیل اللہ کی طرف سے یہ فرمان لائے وہ کہنے لگے وہ تو ہمارا دشمن ہے اس پر آیت آخر تک نازل ہوئی: قُلْ مَن كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيلَ ..... (۲:۹۷) جبرائیل کے دشمن کا دشمن اللہ ہے اور ایسا شخص کافر ہے ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہاں روح سے مراد حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں ایک قول یہ بھی ہے کہ مراد ایک ایسا عظیم الشان فرشتہ ہے جو تمام مخلوق کے برابر ہے ۔ ایک حدیث میں ہے: اللہ کا ایک فرشتہ ایسا بھی ہے کہ اگر اس سے ساتوں زمینوں اور ساتوں آسمانوں کو ایک لقمہ بنانے کو کہا جائے تو وہ بنا لے ۔ اس کی تسبیح یہ ہے سبحانک حیث کنت اے اللہ تو پاک ہے جہاں بھی ہے ۔ یہ حدیث غریب ہے بلکہ منکر ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے: یہ ایک فرشتہ ہے جس کے ستر ہزار منہ ہیں اور ہر منہ میں ستر ہزار زبانیں ہیں اور ہر زبان پر ستر ہزار لغت ہیں وہ ان تمام زبانوں سے ہر بولی میں اللہ کی تسبیح کرتا ہے ۔ اس کی ہر ایک تسبیح سے اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ پیدا کرتا ہے جو اور فرشتوں کے ساتھ اللہ کی عبادت میں قیامت تک اڑتا رہتا ہے ۔ یہ اثر بھی عجیب و غریب ہے ۔ واللہ اعلم ۔ سہیلی کی روایت میں تو ہے کہ اس کے ایک لاکھ سر ہیں ۔ اور ہر سر میں ایک لاکھ منہ ہیں اور ہر منہ میں ایک لاکھ زبانیں ہیں جن سے مختلف بولیوں میں وہ اللہ کی پاکی بیان کرتا رہتا ہے ۔ یہ بھی کہا گاہے کہ مراد اس سے فرشتوں کی وہ جماعت ہے جو انسانی صورت پر ہے ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ وہ فرشتے ہیں کہ اور فرشتوں کو تو وہ دیکھتے ہیں لیکن اور فرشتے انہیں نہیں دیکھتے پس وہ فرشتوں کے لئے ایسے ہی ہیں جیسے ہمارے لئے یہ فرشتے ۔ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا آپ جواب دیجئے کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمہیں بہت ہی کم علم دیا گیا ہے (۸۵) پھر فرماتا ہے کہ انہیں جواب دے کہ روح امر ربی ہے یعنی اس کی شان سے ہے اس کا علم صرف اسی کو ہے تم میں سے کسی کو نہیں تمہیں جو علم ہے وہ اللہ ہی کا دیا ہوا ہے پس وہ بہت ہی کم ہے مخلوق کو صرف وہی معلوم ہے جو اس نے انہیں معلوم کرایا ہے ۔ خضر علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کے قصے میں ہے: جب یہ دونوں بزرگ کشتی پر سوار ہو رہے تھے اس وقت ایک چڑیا کشتی کے تختے پر بیٹھ کر اپنی چونچ پانی میں ڈبو کر اڑ گئی تو جناب خضر نے فرمایا اے موسیٰ میرا اور تیرا اور تمام مخلوق کا علم اللہ کے علم کے سامنے ایسا اور اتنا ہی ہے جتنا یہ چڑیا اس سمندر سے لے اڑی ۔ بقول سہیلی بعض لوگ کہتے ہیں کہ انہیں ان کے سوال کا جواب نہیں دیا کیونکہ ان کا سوال ضد کرنے اور نہ ماننے کے طور پر تھا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جواب ہو گیا ۔ مراد یہ ہے کہ روح شریعت الہٰی میں سے ہے تمہیں اس میں نہ جانا چاہے تم جان رہے ہو کہ اس کے پہچاننے کی کوئی طبعی اور علمی راہ نہیں بلکہ وہ شریعت کی جہت سے ہے پس تم شریعت کو قبول کر لو لیکن ہمیں تو یہ طریقہ خطرے سے خالی نظر نہیں آتا واللہ اعلم ۔ پھر سہیلی نے اختلاف علماء بیان کیا ہے: روح نفس ہی ہے یا اس کے سوا ۔ اور اس بات کو ثابت کیا ہے روح جسم میں مثل ہوا کے جاری ہے اور نہایت لطیف چیز ہے جیسے کہ درختوں کی رگوں میں پانی چڑھتا ہے اور فرشتہ جو روح ماں کے پیٹ میں بچے میں پھونکتا ہے وہ جسم کے ساتھ ملتے ہی نفس بن جاتی ہے اور جسم کی مدد سے وہ اچھی بری صفتیں اپنے اندر حاصل کر لیتی ہے یا تو ذکر اللہ کے ساتھ مطمئن ہونے والی ہو جاتی ہے یا برائیوں کا حکم کرنے والی بن جاتی ہے مثلاً پانی درخت کی حیات ہے اس کے درخت سے ملنے کے باعث وہ ایک خاص بات اپنے اندر پیدا کر لیتا ہے مثلا اًنگور پیدا ہوئے پھر ان کا پانی نکالا گیا یا شراب بنائی گئی پس وہ اصلی پانی اب جس صورت میں آیا اسے اصلی پانی نہیں کہا جا سکتا ۔ اسی طرح اب جسم کے اتصال کے بعد روح کو اعلیٰ روح نہیں کہا جا سکتا اسی طرح اسے نفس اس سے اور اس کے بدن کے ساتھ کے اتصال سے مرکب ہے ۔ پس روح نفس ہے لیکن ایک وجہ سے نہ کہ تمام وجوہ سے ۔ بات تو یہ دل کو لگتی ہے لیکن حقیقت کا علم اللہ ہی کو ہے ۔ لوگوں نے اس بارے میں بہت کچھ کہا ہے اور بڑی بڑی مستقل کتابیں اس پر لکھی ہیں ۔ اس مضمون پر بہترین کتاب حافظ ابن مندہ کی کتاب الروح ہے ۔ وَلَئِنْ شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ بِهِ عَلَيْنَا وَكِيلًا اور اگر ہم چاہیں تو جو وحی آپ کی طرف ہم نے اتاری ہے سلب کرلیں پھر آپکو اسکے لئے ہمارے مقابلے میں کوئی حمایتی میسر نہ آسکے (۸۶) اللہ تعالیٰ اپنے زبردست احسان اور عظیم الشان نعمت کو بیان فرما رہا ہے جو اس نے اپنے حبیب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر انعام کی ہے یعنی آپ پر وہ کتاب نازل فرمائی جس میں کہیں سے بھی کسی وقت باطل کی آمیزش ناممکن ہے ۔ اگر وہ چاہے تو اس وحی کو سلب بھی کر سکتا ہے ۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: آخر زمانے میں ایک سرخ ہوا چلے گی شام کی طرف سے یہ اٹھے گی اس وقت قرآں کے ورقوں میں سے اور حافظوں کے دلوں میں سے قرآن سلب ہو جائے گا ۔ ایک حرف بھی باقی نہیں رہے گا پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی ۔ إِلَّا رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ ۚ إِنَّ فَضْلَهُ كَانَ عَلَيْكَ كَبِيرًا سوائے آپ کے رب کی رحمت کے یقیناً آپ پر اس کا بڑا فضل ہے۔ (۸۷) پھر اپنا فضل و کرم اور احسان بیان فرماتا ہے قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ کہہ دیجئے کہ اگر تمام انسان اور کل جنات مل کر اس قرآن کے مثل لانا چاہیں تو ان سب سے اس کے مثل لانا ناممکن ہے وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا گو وہ (آپس میں) ایک دوسرے کے مددگار بھی بن جائیں ۔ (۸۸) اس قرآن کریم کی بزرگی ایک یہ بھی ہے کہ تمام مخلوق اس کے مقابلے سے عاجز ہے ۔ کسی کے بس میں اس جیسا کلام نہیں جس طرح اللہ تعالیٰ بےمثل بےنظیر بےشریک ہے اسی طرح اس کا کلام مثال سے نظیر سے اپنے جیسے سے پاک ہے ۔ ابن اسحاق نے وارد کیا ہے: یہودی آئے تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ ہم بھی اسی جیسا کلام بنا لاتے ہیں پس یہ آیت اتری لیکن ہمیں اس کے ماننے میں تامل ہے اس لئے کہ یہ سورت مکی ہے اور اس کا کل بیان قریشوں سے ہے وہی مخاطب ہیں اور یہود کے ساتھ مکے میں آپ کا اجتماع نہیں ہوا مدینے میں ان سے میل ہوا واللہ اعلم ۔ وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِي هَذَا الْقُرْآنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ فَأَبَى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُورًا ہم نے تو اس قرآن میں لوگوں کے سمجھنے کے لئے ہر طرح سے مثالیں بیان کر دی ہیں، مگر اکثر لوگ انکار سے باز نہیں آتے ۔ (۸۹) ہم نے اس پاک کتاب میں ہر قسم کی دلیلیں بیان فرما کر حق کو واضح کر دیا ہے اور ہر بات کو شرح و بسط سے بیان فرما دیا ہے باوجود اس کے بھی اکثر لوگ حق کی مخالفت کر رہے ہیں اور حق کو دھکے دے رہے ہیں اور اللہ کی ناشکری میں لگے ہوئے ہیں ۔ وَقَالُوا لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْأَرْضِ يَنْبُوعًا انہوں نے کہا کہ ہم آپ پر ہرگز ایمان لانے کے نہیں تا وقتیکہ آپ ہمارے لئے زمین سے کوئی چشمہ جاری نہ کر دیں۔ (۹۰) أَوْ تَكُونَ لَكَ جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْأَنْهَارَ خِلَالَهَا تَفْجِيرًا یا خود آپ کے لئے ہی کوئی باغ ہو کھجوروں اور انگوروں کا اور اس درمیان آپ بہت سی نہریں جاری کر دکھائیں (۹۱) ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ربیعہ کے جو بیٹے عتبہ اور شیبہ اور ابو سفیان بن حرب اور بنی عبدالدار قبیلے کے دو شخص اور ابوالبحتری بنی اسد کا اور اسود بن مطلب بن اسعد اور زمعہ بن اسود اور ولید بن مغیرہ اور ابوجہل بن ہشام اور عبداللہ بن ابی امیہ اور امیہ بن خلف اور عاص بن وائل اور نبیہ اور منبہ سہمی حجاج کے لڑکے ، یہ سب یا ان میں سے کچھ سورج کے غروب ہو جانے کے بعد کعبۃ اللہ کے پیچھے جمع ہوئے اور کہنے لگے بھئی کسی کو بھیج کر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کو بلوا لو اور اس سے کہہ سن کر آج فیصلہ کر لو تاکہ کوئی عذر باقی نہ رہے چنانچہ قاصد گیا اور خبر دی کہ آپ کی قوم کے اشراف لوگ جمع ہوئے ہیں اور آپ کو یاد کیا ہے چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ان لوگوں کا ہر وقت خیال رہتا تھا آپ کے جی میں آئی کہ بہت ممکن ہے اللہ نے انہیں صحیح سمجھ دے دی ہو اور یہ راہ راست پر آ جائیں اس لئے آپ فورا ًہی تشریف لائے ۔ قریشیوں نے آپ کو دیکھتے ہی کہا سنئے آج ہم آپ پر حجت پوری کر دیتے ہیں تاکہ پھر ہم پر کسی قسم کا الزام نہ آئے اسی لئے ہم نے آپ کو بلوایا ہے واللہ کسی نے اپنی قوم کو اس مصیبت میں نہیں ڈالا ہو گا جو مصیبت تم نے ہم پر کھڑی کر رکھی ہے ، تم ہمارے باپ دادوں کو گالیاں دیتے ہو ہمارے دین کو برا کہتے ہو ہمارے بزرگوں کو بیوقوف بتاتے ہو ہمارے مبعودوں کو برا کہتے ہو تم نے ہم میں تفریق ڈال دی لڑائیاں کھڑی کر دیں واللہ آپ نے ہمیں کسی برائی کے پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ، اب صاف صاف سن لیجئے اور سوچ سمجھ کر جواب دیجیئے اگر آپ کا ارادہ ان تمام باتوں سے مال جمع کرنے کا ہے تو ہم موجود ہیں ہم خود آپ کو اس قدر مال جمع کر دیتے ہیں کہ آپ کے برابر ہم میں سے کوئی مالدار نہ ہو اور اگر آپ کا ارادہ اس سے یہ ہے کہ آپ ہم پر سرداری کریں تو لو ہم اس کے لئے بھی تیار ہیں ہم آپ کی سرداری کو تسلیم کرتے ہیں اور آپ کی تابعداری منظور کرتے ہیں۔ اگر آپ بادشاہت کے طالب ہیں تو واللہ ہم آپ کی بادشاہت کا اعلان کر دیتے ہیں اور اگر واقعی آپ کے دماغ میں کوئی فتور ہے ، کوئی جن آپ کو ستا رہا ہے تو ہم موجود ہیں دل کھول کر رقمیں خرچ کر کے تمہارا علاج معالجہ کریں گے یہاں تک کہ آپ کو شفا ہو جائے یا ہم معذور سمجھ لئے جائیں ۔ یہ سب سن کر سردار رسولاں شفیع پیغمبراں صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ سنو بحمد اللہ مجھے کوئی دماغی عارضہ یا خلل یا آسیب نہیں نہ میں اپنی اس رسالت کی وجہ سے مالدار بننا چاہتا ہوں نہ کسی سرداری کی طمع ہے نہ بادشاہ بننا چاہتا ہوں بلکہ مجھے اللہ تعالیٰ نے تم سب کی طرف اپنا رسول برحق بنا کر بھیجا ہے اور مجھ پر اپنی کتاب نازل فرمائی ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں خوشخبریاں سنا دوں اور ڈرا دھمکا دوں ۔ میں نے اپنے رب کے پیغامات تمہیں پہنچا دئیے ، تمہاری سچی خیر خواہی کی ، تم اگر قبول کر لو گے تو دونوں جہان میں جہان نصیب دار بن جاؤ گے اور اگر نا منظور کر دو گے تو میں صبر کروں گا یہاں تک کہ جناب باری تعالیٰ شانہ مجھ میں اور تم میں سچا فیصلہ فرما دے (او کماقال ) اب سرداران قوم نے کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اگر آپ کو ہماری ان باتوں میں سے ایک بھی منظور نہیں تو اب اور سنو یہ تو خود تمہیں بھی معلوم ہے کہ ہم سے زیادہ تنگ شہر کسی اور کا نہیں ، ہم سے زیادہ کم مال کوئی قوم نہیں ، ہم سے پیٹ پیٹ کر بہت کم روزی حاصل کرنے والی بھی کوئی قوم نہیں تو آپ اپنے رب سے جس نے آپ کو اپنی رسالت دے کر بھیجا ہے دعا کیجئے کہ یہ پہاڑ یہاں سے ہٹا لے تاکہ ہمارا علاقہ کشادہ ہو جائے ، ہمارے شہروں کو وسعت ہو جائے ۔ اس میں نہریں چشمے اور دریا جاری ہو جائیں جیسے کہ شام اور عراق میں ہیں اور یہ بھی دعا کیجئے کہ ہمارے باپ دادا زندہ ہو جائیں اور ان میں قصی بن کلاب ضرور ہو وہ ہم میں ایک بزرگ اور سچا شخص تھا ہم اس سے پوچھ لیں گے وہ آپ کی بابت جو کہہ دے گا ہمیں اطمینان ہو جائے گا اگر آپ نے یہ کر دیا تو ہمیں آپ کی رسالت پر ایمان آ جائے گا اور ہم آپ کی دل سے تصدیق کرنے لگیں گے اور آپ کی بزرگی کے قائل ہو جائیں گے ۔ آپﷺ نے فرمایا میں ان چیزوں کے ساتھ نہیں بھیجا گیا ۔ ان میں سے کوئی کام میرے بس کا نہیں ۔ میں تو اللہ کی باتیں تمہیں پہنچانے کے لئے آیا ہوں ۔ تم قبول کر لو ، دونوں جہان میں خوش رہو گے ۔ نہ قبول کرو گے تو میں صبر کروں گا ۔ اللہ کے حکم پر منتظر رہوں گا یہاں تک کہ پروردگار عالم مجھ میں اور تم میں فیصلہ فرما دے ۔ انہوں نے کہا اچھا یہ بھی نہ سہی لیجئے ہم خود آپ کے لئے ہی تجویز کرتے ہیں آپ اللہ سے دعا کیجئے کہ وہ کوئی فرشتہ آپ کے پاس بھیجے جو آپ کی باتوں کی سچائی اور تصدیق کر دے آپ کی طرف سے ہمیں جواب دے اور اس سے کہہ کر آپ اپنے لئے باغات اور خزانے اور سونے چاندی کے محل بنوا لیجئے تاکہ خود آپ کی حالت تو سنور جائے بازاروں میں چلنا پھرنا ہماری تلاش معاش میں نکلنا یہ تو چھوٹ جائے ۔ یہ اگر ہو جائے تو ہم مان لیں گے کہ واقعی اللہ تعالیٰ کے ہاں آپ کی عزت ہے اور آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں ۔ اس کے جواب میں آپ ﷺنے فرمایا نہ میں یہ کروں نہ اپنے رب سے یہ طلب کروں نہ اس کے ساتھ میں بھیجا گیا مجھے تو اللہ تعالیٰ نے بشیر و نذیر بنایا ہے بس اور کچھ نہیں ۔ تم مان لو تو دونوں جہان میں اپنا بھلا کرو گے اور نہ مانو نہ سہی ۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ میرا پرودگار میرے اور تمہارے درمیان کیا فیصلہ چاہے نہ کرے ۔ مشرکین نے کہا سنئے کیا اللہ تعالیٰ کو یہ معلوم نہ تھا کہ وہ تجھے پہلے سے مطلع کر دیتا اور یہ بھی بتا دیتا کہ تجھے کیا جواب دینا چاہئے اور جب ہم تیری نہ مانیں تو وہ ہمارے ساتھ کیا کرے گا ۔ سنئے ہم نے تو سنا ہے کہ آپ کو یہ سب کچھ یمامہ کا ایک شخص رحمان نامی ہے وہ سکھا جاتا ہے اللہ کی قسم ہم تو رحمان پر ایمان لانے کے نہیں ۔ ناممکن ہے کہ ہم اسے مانیں ہم نے آپ سے سبکدوشی حاصل کر لی جو کچھ کہنا سننا تھا کہہ سن چکے اور آپ نے ہماری واجبی اور انصاف کی بات بھی نہیں مانی اب کان کھول کر ہوشیار ہو کر سن لیجئے کہ ہم آپ کو اس حالت میں آزاد نہیں رکھ سکتے اب یا تو ہم آپ کو ہلاک کر دیں گے یا آپ ہمیں تباہ کر دیں کوئی کہنے لگا ہم تو فرشتوں کو پوجتے ہیں جو اللہ کی بیٹیاں ہیں کسی نے کہا جب تک تو اللہ تعالیٰ کو اور اس کے فرشتوں کو کھلم کھلا ہمارے پاس نہ لائے ہم ایمان نہ لائیں گے ۔ پھر مجلس برخاست ہوئی ۔ عبداللہ بن ابی ، امیہ بن مغیرہ بن عبداللہ بن مخزوم جو آب کی پھوپھی حضرت عاتکہ بن عبدالمطلب کا لڑکا تھا آپ کے ساتھ ہو لیا اور کہنے لگا کہ یہ تو بڑی نامنصفی کی بات ہے کہ قوم نے جو کہا وہ بھی آپ نے منظور نہ کیا پھر جو طلب کیا وہ بھی آپ نے پورا نہ کیا پھر جس چیز سے آپ انہیں ڈراتے تھے وہ مانگا وہ بھی آپ نے نہ کیا اب تو اللہ کی قسم میں آپ پر ایمان لاؤں گا ہی نہیں جب تک کہ آپ سیڑھی لگا کر آسمان پر چڑھ کر کوئی کتاب نہ لائیں اور چار فرشتے اپنے ساتھ اپنے گواہ بنا کر نہ لائیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان تمام باتوں سے سخت رنجیدہ ہوئے ۔ گئے تو آپ بڑے شوق سے تھے کہ شاید قوم کے سردار میری کچھ مان لیں لیکن جب ان کی سرکشی اور ایمان سے دوری آپنے دیکھی بڑے ہی مغموم ہو کر واپس اپنے گھر آئے ،۔ بات یہ ہے کہ ان کی یہ تمام باتیں بطور کفر و عناد اور بطور نیچا دکھانے اور لاجواب کرنے کے تھیں ورنہ اگر ایمان لانے کے لئے نیک نیتی سے یہ سوالات ہوتے تو بہت ممکن تھا کہ اللہ تعالیٰ انہیں یہ معجزے دکھا دیتاچنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا گیا کہ اگر آپ کی چاہت ہو تو جو یہ مانگتے ہیں میں دکھا دوں لیکن یہ یاد رہے کہ اگر پھر بھی ایمان نہ لائے تو انہیں وہ عبرتناک سزائیں دوں گا جو کسی کو نہ دی ہوں ۔ اور اگر آپ چاہیں تو میں ان پر توبہ کی قبولیت کا اور رحمت کا دروازہ کھلا رکھوں آپ نے دوسری بات پسند فرمائی ۔ اللہ اپنے نبی رحمت اور نبی توبہ پر درود و سلام بہت بہت نازل فرمائے اسی بات اور اسی حکمت کا ذکران آیات میں ہے : وَمَا مَنَعَنَا أَن نُّرْسِلَ بِالْآيَاتِ ... وَمَا نُرْسِلُ بِالْآيَاتِ إِلَّا تَخْوِيفًا ہمیں نشانات (معجزات) کے نازل کرنے سے روک صرف اسی کی ہے کہ اگلے لوگ انہیں جھٹلا چکے ہیں ہم نے ثمودیوں کو بطور بصیرت کے اونٹنی دی لیکن انہوں نے اس پر ظلم کیا ہم تو لوگوں کو دھمکانے کے لئے ہی نشانی بھیجتے ہیں۔ (۱۷:۵۹) وَقَالُوا مَالِ هَـٰذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْوَاقِ ۙ لَوْلَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مَلَكٌ فَيَكُونَ مَعَهُ نَذِيرًا اور انہوں نے کہا کہ یہ کیسا رسول ہے؟ کہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے ، اس کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں بھیجا جاتا، کہ وہ بھی اس کے ساتھ ہو کر ڈرانے والا بن جا تا۔ (۲۵:۷) یہ سب چیزیں ہمارے بس میں ہیں اور یہ سب ممکن ہے لیکن اسی وجہ سے کہ ان کے ظاہر ہو جانے کے بعد ایمان نہ لانے والوں کو پھر ہم چھوڑا نہیں کرتے ۔ ہم ان نشانات کو روک رکھتے ہیں اور ان کفار کو ڈھیل دے رکھی ہے اور ان کا آخر ٹھکارنا جہنم بنا رکھاہے ۔ پس ان کا سوال تھا کہ ریگستان عرب میں نہریں چل پڑیں دریا ابل پڑیں وغیرہ ظاہر ہے کہ ان میں کوئی کام بھی اس قادر و قیوم اللہ پر بھاری نہیں سب کچھ اس کی قدرت تلے اور اس کے فرمان تلے ہے ۔ لیکن وہ بخوبی جانتا ہے کہ یہ ازلی کافر ان معجزوں کو دیکھ کر بھی ایمان نہیں لانے کے ۔ جیسے فرمان ہے: إِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ ـ وَلَوْ جَاءَتْهُمْ كُلُّ آيَةٍ حَتَّى يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ جن پر تیرے رب کی بات ثابت ہو چکی ہے انہیں باوجود تمام تر معجزات دیکھ لینے کے بھی ایمان نصیب نہ ہو گا یہاں تک کہ وہ المناک عذابوں کا معائنہ نہ کر لیں ۔ (۱۰:۹۶،۹۷) اور فرمایا : وَلَوْ أَنَّنَا نَزَّلْنَا إِلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةَ وَكَلَّمَهُمُ ... وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُونَ اور اگر ہم ان کے پاس فرشتوں کو بھی بھیج دیتے اور ان سے مردے باتیں کرنے لگتے اور ہم تمام موجودات کو ان کے پاس ان کی آنکھوں کے روبرو لا کر جمع کر دیتے ہیں تب بھی یہ لوگ ہرگز ایمان نہ لاتے ہاں اگر اللہ ہی چاہے تو اور بات ہے لیکن ان میں زیادہ لوگ جہالت کی باتیں کرتے ہیں۔ (۶:۱۱۱) اپنے لئے دریا طلب کرنے کے بعد انہوں نے کہا اچھا آپ ہی کے لئے باغات اور نہریں ہو جائیں ۔ پس یہاں جن نو نشانیوں کا بیان ہے یہ وہی ہیں اور ان کا بیان وَأَلْقِ عَصَاكَ سے قَوْماً فَـسِقِينَ (۲۷:۱۰،۱۲) تک میں ہے ان آیتوں میں لکڑی کا اور ہاتھ کا ذکر موجود ہے اور باقی آیتوں کا بیان سورہ اعراف میں ہے ۔ ان کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بہت سے معجزے دئیے تھے مثلاً آپ کی لکڑی کے لگنے سے ایک پتھر میں سے بارہ چشموں کا جاری ہو جانا ، بادل کا سایہ کرنا ، من وسلویٰ کا اترنا وغیرہ وغیرہ ۔ یہ سب نعمتیں بنی اسرائیل کو مصر کے شہر چھوڑنے کے بعد ملیں پس ان معجزوں کو یہاں اس لئے بیان نہیں فرمایا کہ وہ فرعونیوں نے دیکھے تھے اور انہیں جھٹلایا تھا ۔ مسند احمد میں ہے: ایک یہودی نے اپنے ساتھی سے کہا چل تو ذرا اس نبی سے ان کے قران کی اس آیت کے بارے میں پوچھ لیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وہ نو آیات کیا ملی تھیں ؟ دوسرے نے کہا نبی نہ کہہ ، سن لیا تو اس کی چار آنکھیں ہو جائیں گی ۔ اب دونوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا آپ ﷺنے فرمایا یہ کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ، چوری نہ کرو ، زنا نہ کرو ، کسی جان کو ناحق قتل نہ کرو، جادو نہ کرو ، سود نہ کھاؤ، بےگناہ لوگوں کو پکڑ کر بادشاہ کے دربار میں نہ لے جاؤ کہ اسے قتل کرا دو اور پاک دامن عورتوں پر بہتان نہ باندھو یا فرمایا جہاد سے نہ بھاگو ۔ اور اے یہودیو! تم پر خاص کر یہ حکم بھی تھا کہ ہفتے کے دن زیادتی نہ کرو۔ اب تو وہ بےساختہ آپ کے ہاتھ پاؤں چومنے لگے اور کہنے لگے ہماری گواہی ہے کہ آپ اللہ کی نبی ہیں ۔ آپ ﷺنے فرمایا پھر تم میری تابعداری کیوں نہیں کرتے ؟ کہنے لگے حضرت داؤد علیہ السلام نے دعا کی تھی کہ میری نسل میں نبی ضرور رہیں اور ہمیں خوف ہے کہ آپ کی تابعداری کے بعد یہود ہمیں زندہ نہ چھوڑیں گے ۔ ترمذی نسائی اور ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث ہے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اسے حسن صحیح بتلاتے ہیں لیکن ہے ذرا مشکل کام اس لئے کہ اس کے راوی عبداللہ بن سلمہ کے حافظ میں قدرے قصور ہے اور ان پر جرح بھی ہے ممکن ہے نو کلمات کا شبہ نو آیات سے انہیں ہو گیا ہو اس لئے کہ یہ توراۃ کے احکام ہیں فرعون پر حجت قائم کرنے والی یہ چیزں نہیں ۔ واللہ اعلم ۔ قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا أَنْزَلَ هَؤُلَاءِ إِلَّا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ بَصَائِرَ موسیٰ نے جواب دیا کہ یہ تو تجھے علم ہو چکا ہے کہ آسمان و زمین کے پروردگار ہی نے یہ معجزے دکھانے، سمجھانے کو نازل فرمائے ہیں، وَإِنِّي لَأَظُنُّكَ يَا فِرْعَوْنُ مَثْبُورًا اے فرعون! میں تو سمجھ رہا ہوں کہ تو یقیناً تباہ اور ہلاک کیا گیا ہے۔ (۱۰۲) اسی لئے فرعون سے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ اے فرعون یہ تو تجھے بھی معلوم ہے کہ یہ سب معجزے سچے ہیں اور ان میں سے ایک ایک میری سچائی کی جیتی جاگتی دلیل ہے میرا خیال ہے کہ تو ہلاک ہونا چاہتا ہے اللہ کی لعنت تجھ پر اترا ہی چاہتی ہم تو مغلوب ہو گا اور تباہی کو پہنچے گا۔ مَثْبُورًا کے معنی ہلاک ہونے کے اس شعر میں بھی ہیں اذا جار الشیطان فی سنن الغی ومن مال میلہ مثبور یعنی شیطان کے دوست ہلاک شدہ ہیں ۔ عَلِمْتَ کی دوسری قرأت عَلِمْتُ بھی ہے لیکن جمہور کی قرأت کے زبر سے ہی ہے ۔ اور اسی معنی کو وضاحت سے اس آیت میں بیان فرماتا ہے: وَجَحَدُوا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنفُسُهُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّا ۚ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ جب ان کے پاس ہماری ظاہر اور بصیرت افروز نشانیاں پہنچ چکیں تو وہ بولے کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے یہ کہہ کر منکرین انکار کر بیٹھے حالانکہ ان کے دلوں میں یقین آ چکا تھا لیکن صرف ظلم و زیادتی کی راہ سے نہ مانے (۲۷:۱۴) الغرض یہ صاف بات ہے کہ جن نو نشانیوں کا ذکر ہوا ہے یہ عصا ، ہاتھ ، قحط سالی ، پھلوں کی کم پیداواری ، ٹڈیاں ، جوئیں ، مینڈک ، اور دم (خون ) تھیں ۔ جو فرعون اور اس کی قوم کے لئے اللہ کی طرف سے دلیل برہان تھا اور آپ کے معجزے تھے جو آپ کی سچائی اور اللہ کے وجود پر دلائل تھے ان نو نشانیوں سے مراد احکام نہیں جو اوپر کی حدیث میں بیان ہوئے کیونکہ وہ فرعون اور فرعونیوں پر حجت ہونے اور ان احکام کے بیان ہونے کے درمیان کوئی مناسبت ہی نہیں۔ یہ وہم صرف عبداللہ بن سلمہ راوی حدیث کی وجہ سے لوگوں کو پیدا ہوا اس کی بعض باتیں واقعی قابل انکار ہیں ، واللہ اعلم ۔ بہت ممکن ہے کہ ان دونوں یہودیوں نے دس کلمات کا سوال کیا ہو اور راوی کو نو آیتوں کا وہم رہ گیا ہو ۔ فَأَرَادَ أَنْ يَسْتَفِزَّهُمْ مِنَ الْأَرْضِ فَأَغْرَقْنَاهُ وَمَنْ مَعَهُ جَمِيعًا آخر فرعون نے پختہ ارادہ کر لیا کہ انہیں زمین سے ہی اکھیڑ دے تو ہم نے خود اسے اور اس کے تمام ساتھیوں کو غرق کر دیا۔ (۱۰۳) فرعون نے ارادہ کیا کہ انہیں جلا وطن کر دیا جائے ۔ پس ہم نے خود اسے مچھلیوں کا لقمہ بنایا اور اس کے تمام ساتھیوں کو بھی ۔ وَقُلْنَا مِنْ بَعْدِهِ لِبَنِي إِسْرَائِيلَ اسْكُنُوا الْأَرْضَ فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيفًا اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے فرما دیا کہ اس سرزمین پر رہو سہو۔ہاں جب آخرت کا وقت آئے گا ہم سبکو سمیٹ لپیٹ کر لے آئیں گے (۱۰۴) اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے فرما دیا کہ اب زمین تمہاری ہے رہو سہو کھاؤ پیو ۔ اس آیت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی زبردست بشارت ہے کہ مکہ آپ کے ہاتھوں فتح ہو گا ۔ حالانکہ سورت مکی ہے ہجرت سے پہلے نازل ہوئی ۔ واقع میں ہوا بھی اسی طرح کہ اہل مکہ نے آپ کو مکہ شریف سے نکال دینا چاہا جیسے قرآن نے آیت وَإِن كَادُواْ لَيَسْتَفِزُّونَكَ مِنَ الاٌّرْضِ لِيُخْرِجُوكَ مِنْهَا (۱۷:۷۶،۷۷) میں بیان فرمایا ہے پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غالب کیا اور مکے کا مالک بنا دیا اور فاتحانہ حیثیت سے آپ بعد از جنگ مکے میں آئے اور یہاں اپنا قبضہ کیا اور پھر اپنے حلم و کرم سے کام لے کر مکے کے مجرموں کو اور اپنے جانی دشمنوں کو عام طور پر معافی عطا فرما دی ،۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بنی اسرائیل جیسی ضعیف قوم کو مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا تھا اور فرعون جیسے سخت اور متکبر بادشاہ کے مال ، زمین ، پھل ، کھیتی اور خزانوں کا مالک کر دیا جیسے آیت كَذَلِكَ وَأَوْرَثْنَـهَا بَنِى إِسْرَءِيلَ (۲۶:۵۹) میں بیان ہوا ہے ۔ یہاں بھی فرماتا ہے کہ فرعون کی ہلاکت کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے فرمایا کہ اب تم یہاں رہو سہو قیامت کے وعدے کے دن تم اور تمہارے دشمن سب ہمارے سامنے اکٹھے لائے جاؤ گے ، ہم تم سب کو جمع کر لائیں گے ۔ وَبِالْحَقِّ أَنْزَلْنَاهُ وَبِالْحَقِّ نَزَلَ ۗ اور ہم نے اس قرآن کو حق کے ساتھ اتارا اور یہ بھی حق کے ساتھ اترا وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا مُبَشِّرًا وَنَذِيرًا ہم نے آپ کو صرف خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ (۱۰۵) وَقُرْآنًا فَرَقْنَاهُ لِتَقْرَأَهُ عَلَى النَّاسِ عَلَى مُكْثٍ وَنَزَّلْنَاهُ تَنْزِيلًا قرآن کو ہم نے تھوڑا تھوڑا کر کے اس لئے اتارا ہے کہ آپ اسے بہ مہلت لوگوں کو سنائیں اور ہم نے خود بھی اسے بتدریج نازل فرمایا۔ (۱۰۶) ارشاد ہے کہ قرآن حق کے ساتھ نازل ہوا ، یہ سراسر حق ہے ۔ لَّـكِنِ اللَّهُ يَشْهَدُ بِمَآ أَنزَلَ إِلَيْكَ أَنزَلَهُ بِعِلْمِهِ وَالْمَلَـئِكَةُ يَشْهَدُونَ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کے ساتھ اسے نازل فرمایا ہے اس کی حقانیت پر وہ خود شاہد ہے اور فرشتے بھی گواہ ہیں (۴:۱۶۶) اس میں وہی ہے جو اس نے خود اپنی دانست کے ساتھ اتارا ہے اس کے تمام حکم احکام اور نہی و ممانعت اسی طرف سے ہے حق والے نے حق کے ساتھ اسے اتارا اور یہ حق کے ساتھ ہی تجھ تک پہنچا نہ راستے میں کوئی باطل اس میں ملا نہ باطل کی یہ شان کہ اس سے مخلوط ہو سکے ۔ یہ بالکل محفوظ ہے ، کمی زیادتی سے یکسر پاک ہے ۔ پوری طاقت والے امانتدار فرشتے کی معرفت نازل ہوا ہے جو آسمانوں میں ذی عزت اور وہاں کا سردار ہے ۔ تیرا کام مؤمنوں کو خوشی سنانا اور کافروں کو ڈرانا ہے ۔ اس قرآن کو ہم نے لوح محفوظ سے بیت العزۃ پر نازل فرمایا جو آسمان اول میں ہے ۔ وہاں سے متفرق تھوڑا تھوڑا کر کے واقعات کے مطابق تیئس برس میں دنیا پر نازل ہوا ۔ فَرَقْنَاهُ کی دوسری قرأت فَرَّقْنَاهُ ہے یعنی ایک ایک آیت کر کے تفسیر اور تفصیل اور تبیین کے ساتھ اتارا ہے کہ تو اسے لوگوں کو بہ سہولت پہنچا دے اور آہستہ آہستہ انہیں سنا دے ہم نے اسے تھوڑا تھوڑا کر کے نازل فرمایا ہے ۔ قُلْ آمِنُوا بِهِ أَوْ لَا تُؤْمِنُوا ۚ کہہ دیجئے! تم اس پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ، فرمان ہے کہ تمہارے ایمان پر صداقت قرآن موقوف نہیں تم مانو یا نہ مانو قرآن فی نفسہ کلام اللہ اور بیشک بر حق ہے ۔ إِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهِ إِذَا يُتْلَى عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا جنہیں اس سے پہلے علم دیا گیا ہے ان کے پاس تو جب بھی اس کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیں ۔ (۱۰۷) اس کا ذکر تو ہمیشہ سے قدیم کتابوں میں چلا آ رہا ہے ۔ جو اہل کتاب ، صالح اور عامل کتاب اللہ ہیں ، جنہوں نے اگلی کتابوں میں کوئی تحریف و تبدیلی نہیں کی وہ تو اس قرآن کو سنتے ہی بےچین ہو کر شکریہ کا سجدہ کرتے ہیں کہ اللہ تیرا شکر ہے کہ تو نے ہماری موجودگی میں اس رسول کو بھیجا اور اس کلام کو نازل فرمایا ۔ اپنے رب کی قدرت کاملہ پر اس کی تعظیم و توقیر کرتے ہیں ۔ جانتے تھے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے ، غلط نہیں ہوتا ۔ وَيَقُولُونَ سُبْحَانَ رَبِّنَا إِنْ كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُولًا اور کہتے ہیں کہ ہمارا رب پاک ہے، ہمارے رب کا وعدہ بلا شک و شبہ پورا ہو کر رہنے والا ہی ہے۔ (۱۰۸) آج وہ وعدہ پورا دیکھ کر خوش ہوتے ہیں، اپنے رب کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور اس کے وعدے کی سچائی کا اقرار کرتے ہیں۔ وَيَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ يَبْكُونَ وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعًا ۩ وہ اپنی ٹھوڑیوں کے بل روتے ہوئے سجدہ میں گر پڑتے ہیں اور یہ قرآن ان کی عاجزی اور خشوع اور خضوع بڑھا دیتا ہے ۔ (۱۰۹) خشوع و خضوع ، فروتنی اور عاجزی کے ساتھ روتے گڑ گڑاتے اللہ کے سامنے اپنی ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر پڑتے ہیں ایمان و تصدیق اور کلام الہٰی اور رسول اللہ کی وجہ سے وہ ایمان و اسلام میں ، ہدایت و تقویٰ میں ، ڈر اور خوف میں اور بڑھ جاتے ہیں ۔ یہ عطف صفت کا صفت پر ہے سجدے کا سجدے پر نہیں ۔ قُلِ ادْعُوا اللَّهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَنَ ۖ أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى ۚ کہہ دیجئے کہ اللہ کو اللہ کہہ کر پکارو یا رحمٰن کہہ کر، جس نام سے بھی پکارو تمام اچھے نام اسی کے ہیں کفار اللہ کی رحمت کی صفت کے منکر تھے اس کا نام رحمٰن نہیں سمجھتے تھے تو جناب باری تعالیٰ اپنے نفس کے لئے اس نام کو ثابت کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ یہی نہیں کہ اللہ کا نام اللہ ہو رحمٰن ہو یا رحیم اور بس ان کے سوا بھی بہت سے بہترین اور احسن نام اس کے ہیں ۔ جس پاک نام سے چاہو اس سے دعائیں کرو ۔ سورہ حشر کے آخر میں بھی اپنے بہت سے نام اس نے بیان فرمائے ہیں ۔ هُوَ اللَّهُ الَّذِى لاَ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَـدَةِ هُوَ الرَّحْمَـنُ الرَّحِيمُ (۵۹:۲۲) لَهُ الاٌّسْمَآءُ الْحُسْنَى يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِى السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ (۵۹:۲۴) ایک مشرک نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سجدے کی حالت میں یا رحمٰن یا رحیم سن کر کہا کہ لیجئے یہ موحد ہیں دو معبودوں کو پکارتے ہیں اس پر یہ آیت اتری ۔ وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلًا نہ تو تو اپنی نماز بہت بلند آواز سے پڑھ اور نہ بالکل پوشیدہ بلکہ اس کے درمیان کا راستہ تلاش کر لے ۔ (۱۱۰) پھر فرماتا ہے اپنی نماز کو بہت اونچی آواز سے نہ پڑھو ۔ اس آیت کے نزول کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکے میں پوشیدہ تھے جب صحابہ کو نماز پڑھاتے اور بلند آواز سے اس میں قرأت پڑھتے تو مشرکین قرآن کو ، اللہ کو ، رسول کو گالیاں دیتے اس لئے حکم ہوا کہ اس قدر بلند آواز سے پڑھنے کی ضرورت نہیں کہ مشرکین سنیں اور گالیاں بکیں ہاں ایسا آہستہ بھی نہ پڑھنا کہ آپ کے ساتھی بھی نہ سن سکیں بلکہ درمیانی آواز سے قرأت کیا کرو ۔ پھر جب آپ ہجرت کر کے مدینے پہنچے تو یہ تکلیف جاتی رہی اب جس طرح چاہیں پڑھیں ۔ مشرکین جہاں قرآن کی تلاوت شروع ہوتی تو بھاگ کھڑے ہوتے ۔ اگر کوئی سننا چاہتا تو انکے خوف کے مارے چھپ چھپ کر بچ بچا کر کچھ سن لیتا ۔ لیکن جہاں مشرکوں کو معلوم ہوا تو انہوں نے انہیں سخت ایذاء دہی شروع کی اب اگر بہت بلند آواز کریں تو ان کی چڑ اور ان کی گالیوں کا خیال اور اگر بہت پست کر لیں تو وہ جو چھپے لگے کان لگائے بیٹھے ہیں وہ محروم اس لئے درمیانہ آواز سے قرآت کرنے کا حکم ہوا ۔ الغرض نماز کی قرأت کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے ۔ مروی ہے: حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی نماز میں پست آواز سے قرأت پڑھتے تھے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ باآواز بلند قرأت پڑھا کر تے تھے۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا کہ آپ آہستہ کیوں پڑھتے ہیں ؟ آپ نے جواب دیا کہ اپنے رب سے سرگوشی ہے وہ میری حاجات کا علم رکھتا ہےتو فرمایا کہ یہ بہت اچھا ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ بلند آواز سے کیوں پڑھتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا شیطان کو بھگاتا ہوں اور سوتوں کو جگاتا ہوں تو آپ سے بھی فرمایا گیا بہت اچھا ہے لیکن جب یہ آیت اتری تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قدرے بلند آواز کرنے کو اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قدرے پست آواز کرنے کو فرمایا گیا ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یہ آیت دعا کے بارے میں نازل ہوئی ہے اسی طرح ثوری اور مالک ہشام بن عروہ سے وہ اپنے باپ سے وہ حضرت عائشہ سے روایت کرتے ہیں آپ فرماتی ہیں: یہ آیت دعا کے بارے میں نازل ہوئی ہے یہی قول حضرت مجاہد ، حضرت سعید بن جبیر ، حضرت ابو عیاض ، حضرت مکحول ، حضرت عروہ بن زبیر رحمہم اللہ کا بھی ہے ۔ مروی ہے: بنو تمیم قبیلے کا ایک اعرابی جب بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے سلام پھیرتے یہ دعا کرتا کہ اے اللہ مجھے اونٹ عطا فرما مجھے اولاد دے پس یہ آیت اتری ۔ ایک دوسرا قول یہ بھی ہے کہ یہ آیت تشہد کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد اس سے یہ ہے کہ نہ تو ریا کاری کرو نہ عمل چھوڑو ۔ یہ بھی نہ کرو کہ علانیہ تو عمدہ کر کے پڑھو اور خفیہ برا کر کے پڑھو ۔ اہل کتاب پوشیدہ پڑھتے اور اسی درمیان کوئی فقرہ بہت بلند آواز سے چیخ کر زبان سے نکالتے اس پر سب ساتھ مل کر شور مچا دیتے تو ان کی موافقت سے ممانعت ہوئی اور جس طرح اور لوگ چھپاتے تھے اس سے بھی روکا گیا پھر اس کے درمیان کا راستہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے بتلایا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسنون فرمایا ہے ۔ وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ اور یہ کہہ دیجئے کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو نہ اولاد رکھتا ہے نہ اپنی بادشاہت میں کسی کو شریک ساجھی رکھتا ہے وَلَمْ يَكُنْ لَهُ وَلِيٌّ مِنَ الذُّلِّ ۖ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيرًا اور نہ وہ کمزور ہے کہ اسے کسی کی ضرورت ہو اور تو اس کی پوری پوری بڑائی بیان کرتا رہ۔ (۱۱۱) اللہ کی حمد کرو جس میں تمام تر کمالات اور پاکیزگی کی صفتیں ہیں۔ جس کے تمام تر بہترین نام ہیں جو تمام تر نقصانات سے پاک ہے ۔ اس کی اولاد نہیں ، اس کا شریک نہیں ، وہ واحد ہے ، صمد ہے ، نہ اس کے ماں باپ ، نہ اولاد ، نہ اس کی جنس کا کوئی اور ، نہ وہ ایسا حقیر کہ کسی کی حمایت کا محتاج ہو یا وزیر و مشیر کی اسے جاجت ہو بلکہ تمام چیزوں کا خالق مالک صرف وہی ہے سب کا مدبر مقدر وہی ہے اسی کی مشیت تمام مخلوق میں چلتی ہے وہ وحدہ لا شریک لہ ہے نہ اس کی کسی سے بھائی بندی ہے نہ وہ کسی کی مدد کا طالب ہے ۔ تو ہر وقت اس کی عظمت و جلالت کبریائی بڑائی اور بزرگی بیان کرتا رہ اور مشرکین جو تہمتیں اس پر باندھتے ہیں تو ان سے اس کی ذات کی بزرگی بڑائی اور پاکیزگی بیان کرتا رہ۔ یہود و نصاریٰ تو کہتے تھے کہ اللہ کی اولاد ہے ۔ مشرکین کہتے تھے لبیک لا شریک لک الا شریکا ھو لک تملکہ وما ملک یعنی ہم حاضر باش غلام ہیں اے اللہ تیرا کوئی شریک نہیں لیکن جو خود تیری ملکیت میں ہیں تو ہی ان کا اور ان کی ملکیت کا مالک ہے ۔ صابی اور مجوسی کہتے تھے کہ اگر اولیاء اللہ نہ ہوں تو اللہ سارے انتظام آپ نہیں کر سکتا ۔ اس پر یہ آیت اتری اور ان سب باطل پرستوں کی تردید کر دی گئی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر کے تمام چھوٹے بڑے لوگوں کو یہ آیت سکھایا کرتے تھے ۔ آپ ﷺنے اس آیت کا نام آیت العز یعنی عزت والی آیت رکھا ہے ۔ بعض آثار میں ہے کہ جس گھر میں رات کو یہ آیت پڑھی جائے ۔ اس گھر میں کوئی آفت یا چوری نہیں ہو سکتی واللہ اعلم ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلا میرا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں تھا یا آپ کا ہاتھ میرے ہاتھ میں تھا راہ چلتے ایک شخص کو آپ نے دیکھا نہایت ردی حالت میں ہے اس سے پوچھا کہ کیا بات ہے ؟ اس نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیماریوں اور نقصانات نے میری یہ درگت کر رکھی ہے آپ ﷺنے فرمایا کیا میں تمہیں کچھ وظیفہ بتا دوں کہ یہ دکھ بیماری سب کچھ جاتی رہے؟ اس نے کہا ہاں ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور بتلائیے احد اور بدر میں آپ کے ساتھ نہ ہونے کا افسوس میرا جاتا رہے گا اس پر آپ ہنس پڑے اور فرمایا تو بدری اور احدی صحابہ کے مرتبے کو کہاں سے پا سکتا ہے تو ان کے مقابلے میں محض خالی ہاتھ اور بےسرمایہ ہے ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں جانے دیجئے آپ مجھے بتلا دیجئے ۔ آپ نے فرمایا ابوہریرہ ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) یوں کہو توکلت علی الذی لا یموت الحمد لله الذی لم یتخذ ولدا میں نے یہ وظیفہ پڑھنا شروع کر دیا تھا چند دن گزرے تھے کہ میری حالت بہت ہی سنور گئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا اور پوچھا ابوہریرہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) یہ کیا ہے ؟ میں نے کہا ان کلمات کی وجہ سے اللہ کی طرف سے برکت ہے جو آپ نے مجھے سکھائے تھے اس کی سند ضعیف ہے اور اس کے متن میں بھی نکارت ہے ۔ اسے حافظ ابو یعلی اپنی کتاب میں لائے ہیں واللہ اعلم ۔ |
© Copy Rights:Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,Lahore, PakistanEnail: cmaj37@gmail.com |
Visits wef Sep 2024 |