Tafsir Ibn Kathir (Urdu)

Surah Al Nisa

Alama Imad ud Din Ibn Kathir

Translated by Muhammad Sahib Juna Garhi

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے

Part I Ayah 1-79


يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ

اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا

اللہ تعالیٰ اپنے تقویٰ کا حکم دیتا ہے کہ جسم سے اسی ایک ہی کی عبادتیں کی جائیں اور دل میں صرف اسی کا خوف رکھا جائے،

پھر اپنی قدرت کاملہ کا بیان فرماتا ہے کہ اس نے تم سب کو ایک ہی شخص یعنی حضرت آدم علیہ السلام سے پیدا کیا ہے،

وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً ۚ

اسی سے اس کی بیوی کو پیدا کر کے ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں

ان کی بیوی یعنی حضرت حوا علیہما السلام کو بھی انہی سے پیدا کیا، آپ سوئے ہوئے تھے کہ بائیں طرف کی پسلی کی پچھلی طرف سے حضرت حوا کو پیدا کیا، آپ نے بیدار ہو کر انہیں دیکھا اور اپنی طبیعت کو ان کی طرف راغب پایا اور انہیں بھی ان سے اُنس پیدا ہوا،

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں:

عورت مرد سے پیدا کی گئی ہے اس لئے اس کی حاجت و شہوت مرد میں رکھی گئی ہے اور مرد زمین سے پیدا کئے گئے ہیں اس لئے ان کی حاجت زمین میں رکھی گئی ہے۔ پس تم اپنی عورتوں کو روکے رکھو،

صحیح حدیث میں ہے :

عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور سب سے بلند پسلی سب سے زیادہ ٹیڑھی ہے پس اگر تو اسے بالکل سیدھی کرنے کو جائے گا تو توڑ دے گا اور اگر اس میں کچھ کجی باقی چھوڑتے ہوئے فائدہ اٹھانا چاہے گا تو بیشک فائدہ اٹھا سکتا ہے ۔

اور  فرمایا ان دونوں سے یعنی آدم اور حوا سے بہت سے انسان مردو عورت چاروں طرف دنیا میں پھیلا دیئے جن کی قِسمیں صفتیں رنگ روپ بول چال میں بہت کچھ اختلاف ہے، جس طرح یہ سب پہلے اللہ تعالیٰ کے قبضے میں تھے اور پھر انہیں اس نے ادھر ادھر پھیلا دیا، ایک وقت ان سب کو سمیٹ کر پھر اپنے قبضے میں کر کے ایک میدان میں جمع کرے گا۔

وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ ۚ

اس اللہ سے ڈرو جس کے نام پر ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رشتے ناتے توڑنے سے بھی بچو

پس اللہ سے ڈرتے رہو اس کی اطاعت عبادت بجا لاتے رہو، اسی اللہ کے واسطے سے اور اسی کے پاک نام پر تم آپس میں ایک دوسرے سے مانگتے ہو، مثلاً یہ کہ ان میں تجھے اللہ کو یاد دلا کر اور رشتے کو یاد دلا کر یوں کہتا ہوں اسی کے نام کی قسمیں کھاتے ہو اور عہد و پیمان مضبوط کرتے ہو، اللہ جل شانہ سے ڈر کر رشتوں ناتوں کی حفاظت کرو انہیں توڑو نہیں بلکہ جوڑو صلہ رحمی نیکی اور سلوک آپس میں کرتے رہو

إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا (۱)

بیشک اللہ تعالیٰ تم پر نگہبان ہے۔‏

اللہ تمہارے تمام احوال اور اعمال سے واقف ہے خوب دیکھ بھال رہا ہے، جیسے اور جگہ ہے:

وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ شَهِيدٌ (۵۸:۶)

اللہ ہر چیز پر گواہ اور حاضر ہے،

 صحیح حدیث میں ہے:

 اللہ عزوجل کی ایسی عبادت کر کہ گویا تو اسے دیکھ رہا ہے پس اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا تو وہ تو تجھے دیکھ ہی رہا ہے،

مطلب یہ ہے کہ اس کا لحاظ رکھو جو تمہارے ہر اٹھنے بیٹھنے چلنے پھرنے پر نگراں ہے،

یہاں فرمایا گیا کہ لوگو تم سب ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہو ایک دوسرے پر شفقت کیا کرو، کمزور اور ناتواں کا ساتھ دو اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو،

صحیح مسلم شریف میں  حدیث ہے:

 جب قبیلہ مضر کے چند لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چادریں لپیٹے ہوئے آئے کیونکہ ان کے جسم پر کپڑا تک نہ تھا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر نماز ظہر کے بعد وعظ بیان فرمایا جس میں اس آیت کی تلاوت کی پھر سورۃ حشر کی یہ آیت  تلاوت کر کے  لوگوں کو خیرات کرنے کی ترغیب دی

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ (۵۹:۱۸)

اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص دیکھ (بھال) لے کہ کل (قیامت) کے واسطے اس نے (اعمال کا) کیا (ذخیرہ) بھیجا ہے

چنانچہ جس سے جو ہو سکا ان لوگوں کے لئے دیا درہم و دینار بھی اور کھجور و گیہوں بھی

یہ حدیث، مسند اور سنن میں خطبہ حاجات کے بیان میں ہے پھر تین آیتیں پڑھیں جن میں سے ایک آیت یہی ہے۔

وَآتُوا الْيَتَامَى أَمْوَالَهُمْ ۖ وَلَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِيثَ بِالطَّيِّبِ ۖ وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَهُمْ إِلَى أَمْوَالِكُمْ ۚ

اور یتیموں کا مال انکو دے دو اور حلال چیز کے بدلے ناپاک اور حرام چیز نہ لو اور اپنے مالوں کے ساتھ انکے مال ملا کر کھا نہ جاؤ

اللہ تعالیٰ یتیموں کے والیوں کو حکم دیتا ہے کہ جب یتیم بلوغت اور سمجھداری کو پہنچ جائیں تو ان کے جو مال تمہارے پاس ہو انہیں سونپ دو، پورے پورے بغیر کمی اور خیانت کے ان کے حوالے کرو، اپنے مالوں کے ساتھ ملا کر گڈمڈ کر کے کھا جانے کی نیت نہ رکھو، حلال رزق جب اللہ رحیم تمہیں دے رہا ہے پھر حرام کی طرف کیوں منہ اٹھاؤ؟

 تقدیر کی روزی مل کر ہی رہے گی اپنے حلال مال چھوڑ کر لوگوں کے مالوں کو جو تم پر حرام ہیں نہ لو، دبلا پتلا جانور دے کر موٹا تازہ نہ لو، بوٹی دے کر بکرے کی فکر نہ کرو، ردی دے کر اچھے کی اور کھوٹا دے کر کھرے کی نیت نہ رکھو،

پہلے لوگ ایسا کر لیا کرتے تھے کہ یتیموں کی بکریوں کے ریوڑ میں سے عمدہ بکری لے لی اور اپنی دبلی پتلی بکری دے کر گنتی پوری کر دی، کھوٹا درہم اس کے مال میں ڈال کر کھرا نکال لیا اور پھر سمجھ لیا کہ ہم نے تو بکری کے بدلے بکری اور درہم کے بدلے درہم لیا ہے۔ ان کے مالوں میں اپنا مال خلط ملط کر کے پھر یہ حیلہ کر کےکہ  اب امتیاز کیا ہے؟

إِنَّهُ كَانَ حُوبًا كَبِيرًا (۲)

بیشک یہ بہت بڑا گناہ ہے

 ان کے مال تلف نہ کرو، یہ بڑا گناہ ہے،

 ایک ضعیف حدیث میں بھی یہی معنی مروی ہیں،

ابو داؤد کی حدیث میں ایک دعا میں بھی حُوب کا لفظ گناہ کے معنی میں آیا ہے،

حضرت ابو ایوب نے جب اپنی بیوی صاحبہ کو طلاق دینے کا ارادہ کیا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا تھا کہ اس طلاق میں گناہ ہے، چنانچہ وہ اپنے ارادے سے باز رہے،

 ایک روایت میں یہ واقعہ حضرت ابو طلحہ اور ام سلیم کا مروی ہے۔

وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ

اگر تمہیں ڈر ہو کہ یتیم لڑکیوں سے نکاح کر کے تم انصاف نہ رکھ سکو گے تو اور عورتوں میں سے جو بھی تمہیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کر لو، دو دو، تین تین، چار چار سے،

اللہ  فرماتا ہے کہ تمہاری پرورش میں کوئی یتیم لڑکی ہو اور تم اس سے نکاح کرنا چاہتے ہو لیکن چونکہ اس کا کوئی اور نہیں اس لئے تم تو ایسا نہ کرو کہ مہر اور حقوق میں کمی کر کے اسے اپنے گھر ڈال لو اس سے باز رہو اور عورتیں بہت ہیں جس سے چاہو نکاح کر لو،

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں:

 ایک یتیم لڑکی تھی جس کے پاس مال بھی تھا اور باغ بھی جس کی پرورش میں وہ تھی اس نے صرف اس مال کے لالچ میں بغیر اس کا پورا مہر وغیرہ مقرر کرنے کے اس سے نکاح کر لیا جس پر یہ آیت اتری میرا خیال ہے کہ اس باغ اور مال میں یہ لڑکی حصہ دار تھی،

صحیح بخاری شریف میں ہے  کہ حضرت ابن شہاب نے حضرت عائشہؓ سے اس آیت کا مطلب پوچھا تو آپ نے فرمایا :

بھانجے، یہ ذکر اس یتیم لڑکی کا ہے جو اپنے ولی کے قبضہ میں ہے اس کے مال میں شریک ہے اور اسے اس کا مال و جمال اچھا لگتا ہے چاہتا ہے کہ اس سے نکاح کر لے لیکن جو مہر وغیرہ اور جگہ سے اسے ملتا ہے اتنا یہ نہیں دیتا تو اسے منع کیا جا رہا ہے کہ وہ اس اپنی نیت چھوڑ دے اور کسی دوسری عورت سے جس سے چاہے اپنا نکاح کر لے،

پھر اس کے بعد لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کی بابت دریافت کیا اور آیت وَيَسْتَفْتُونَكَ نازل ہوئی وہاں فرمایا گیا ہے:

وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ ۖ ۔۔۔ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِهِ عَلِيمًا (۴:۱۲۷)

آپ سے عورتوں کے بارے میں حکم دریافت کرتے ہیں آپ کہہ دیجئے! خود اللہ انکے بارے میں حکم دے رہا ہے اور قرآن کی وہ آیتیں جو تم پر یتیم لڑکیوں کے بارے میں پڑھی جاتی ہیں

جنہیں ان کا مقرر حق نہیں دیتے اور انہیں اپنے نکاح میں لانے کی رغبت رکھتے ہو اور کمزور بچوں کے بارے میں اور اس بارے میں کہ یتیموں کی کارگزاری انصاف کے ساتھ کرو

تم جو نیک کام کرو،  بلاشبہ اللہ اسے پوری طرح جاننے والا ہے ۔

 یعنی جب یتیم لڑکی کم مال والی اور کم جمال والی ہوتی ہے اس وقت تو اس کے والی اس سے بےرغبتی کرتے ہیں پھر کوئی وجہ نہیں کہ مال و جمال پر مائل ہو کر اس کے پورے حقوق ادا نہ کر کے اس سے اپنا نکاح کر لیں، ہاں عدل و انصاف سے پورا مہر وغیرہ مقرر کریں تو کوئی حرج نہیں، ورنہ پھر عورتوں کی کمی نہیں اور کسی سے جس سے چاہیں اظہار نکاح کر لیں دو دو عورتیں اپنے نکاح میں رکھیں اگر چاہیں تین تین رکھیں اگر چاہیں چار چار، جیسے اور جگہ یہ الفاظ ان ہی معنوں میں ہیں،

فرماتا ہے :

جَاعِلِ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا أُولِي أَجْنِحَةٍ مَّثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ (۳۵:۱)

اور دو دو تین تین چار چار پروں والے فرشتوں کو اپنا پیغمبر (قاصد) بنانے والا ہے

یعنی جن فرشتوں کو اللہ تعالیٰ اپنا قاصد بنا کر بھیجتا ہے ان میں سے بعض دو دو پروں والے ہیں بعض تین تین پروں والے بعض چار پروں والے فرشتوں میں اس سے زیادہ پر والے فرشتے بھی ہیں کیونکہ دلیل سے یہ ثابت شدہ ہے،

لیکن مرد کو ایک وقت میں چار سے زیادہ بیویوں کا جمع کرنا منع ہے جیسے کہ اس آیت میں موجود ہے اور جیسے کہ حضرت ابن عباسؓ اور جمہور کا قول ہے،

یہاں اللہ تعالیٰ اپنے احسان اور انعام بیان فرما رہا ہے پس اگر چار سے زیادہ کی اجازت دینی منظور ہوتی تو ضرور فرما دیا جاتا،

حضرت امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں حدیث جو قرآن کی وضاحت کرنے والی ہے اس نے بتلا دیا ہے کہ سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی کے لئے چار سے زیادہ بیویوں کا بہ یک وقت جمع کرنا جائز نہیں اسی پر علماء کرام کا اجماع ہے، البتہ بعض شیعہ کا قول ہے کہ نو تک جمع کرنی جائز ہیں،

بلکہ بعض شیعہ نے تو کہا ہے کہ نو سے بھی زیادہ جمع کر لینے میں بھی کوئی حرج نہیں کوئی تعداد مقرر ہے ہی نہیں، ان کا استدلال ایک تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے ہے جیسا کہ صحیح حدیث میں آچکا ہے کہ آپ کی نو بیویاں تھیں اور بخاری شریف کی معلق حدیث کے بعض راویوں نے گیارہ کہا ہے، حضرت انس سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پندرہ بیویوں سے عقد کیا تیرہ کی رخصتی ہوئی ایک وقت میں گیارہ بیویاں آپ کے پاس تھیں۔ انتقال کے وقت آپ کی نو بیویاں تھیں رضی اللہ تعالیٰ عنہما اجمعین،

ہمارے علماء کرام اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ یہ آپ کی خصوصیت تھی اُمتی کو ایک وقت میں چار سے زیادہ پاس رکھنے کی اجازت نہیں، جیسے کہ یہ حدیثیں اس امر پر دلالت کرتی ہیں،

 حضرت غیلان بن سلمہ ثقفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب مسلمان ہوتے ہیں تو ان کے پاس ان کی دس بیویاں تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ ان میں سے جنہیں چاہو چار رکھ لو باقی کو چھوڑ دو چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا پھر حضرت عمر ؓکی خلافت کے زمانے میں اپنی ان بیویوں کو بھی طلاق دے دی اور اپنے لڑکوں کو اپنا مال بانٹ دیا،

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب یہ معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا :

شاید تیرے شیطان نے بات اچک لی اور تیرے دل میں خیال جما دیا کہ تو عنقریب مرنے والا ہے اس لئے اپنی بیویوں کو تو نے الگ کر دیا کہ وہ تیرا مال نہ پائیں اور اپنا مال اپنی اولاد میں تقسیم کر دیا میں تجھے حکم دیتا ہوں کہ اپنی بیویوں سے رجوع کر لے اور اپنے اولاد سے مال واپس لے اگر تو نے ایسا نہ کیا تو تیرے بعد تیری ان مطلقہ بیویوں کو بھی تیرا وارث بناؤں گا کیونکہ تو نے انہیں اسی ڈر سے طلاق دی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ تیری زندگی بھی اب ختم ہونے والی ہے اور اگر تو نے میری بات نہ مانی تو یاد رکھ میں حکم دوں گا کہ لوگ تیری قبر پر پتھر پھینکیں جیسے کہ ابو رغال کی قبر پر پتھر پھینکے جاتے ہیں (مسند احمد شافعی ترمذی ابن ماجہ دار قطنی بیہقی وغیرہ)

مرفوع حدیث تک تو ان سب کتابوں میں ہے ہاں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ والا واقعہ صرف مسند احمد میں ہی ہے لیکن یہ زیادتی حسن ہے، اگرچہ امام بخاری نے اسے ضعیف کہا ہے اور اس کی اسناد کا دوسرا طریقہ بتا کر اس طریقہ کو غیر محفوظ کہا ہے مگر اس تعلیل میں بھی اختلاف ہے واللہ اعلم اور بزرگ محدثین نے بھی اس پر کلام کیا ہے لیکن مسند احمد والی حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں اور شرط شیخین پر ہیں ایک اور روایت میں ہے کہ یہ دس عورتیں بھی اپنے خاوند کے ساتھ مسلمان ہوئی تھیں ملاحظہ ہو (سنن نسائی)،

اس حدیث سے صاف ظاہر ہو گیا کہ اگر چار سے زیادہ کا ایک وقت میں نکاح میں رکھنا جائز ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان سے یہ نہ فرماتے کہ اپنی ان دس بیویوں میں سے چار کو جنہیں تم چاہو روک لو باقی کو چھوڑ دو کیونکہ یہ سب بھی اسلام لا چکی تھیں،

 یہاں یہ بات بھی خیال میں رکھنی چاہئے کہ ثقفی کے ہاں تو یہ دس عورتیں بھی موجود تھی اس پر بھی آپ نے چھ علیحدہ کرا دیں پھر بھلا کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص نئے سرے سے چار سے زیادہ جمع کرے؟ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم با الصواب

ابو داؤد ابن ماجہ میں ہے حضرت عمیرہ اسدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں  کہ میں نے جس وقت اسلام قبول کیا میرے نکاح میں آٹھ عورتیں تھیں میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا آپﷺ نے فرمایا ان میں سے جن چار کو چاہو رکھ لو،

 اس کی سند حسن ہے اور اس کے شواہد بھی ہیں راویوں کے ناموں کا ہیر پھیر وغیرہ ایسی روایات میں نقصان دہ نہیں ہوتا

مسند شافعی میں ہے:

 حضرت نوفل بن معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے جب اسلام قبول کیا اس وقت میری پانچ بیویاں تھیں مجھ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان میں سے پسند کر کے چار کو رکھ لو اور ایک کو الگ کر دو میں نے جو سب سے زیادہ عمر کی بڑھیا اور بے اولاد بیوی ساٹھ سال کی تھیں انہیں طلاق دے دی،

پس یہ حدیثیں حضرت غیلان والی پہلی حدیث کی شواہد ہیں جیسے کہ حضرت امام بیہقی نے فرمایا۔

فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۚ

لیکن اگر تمہیں برابری نہ کر سکنے کا خوف ہو تو ایک ہی کافی ہے یا تمہاری ملکیت کی لونڈی

اللہ  فرماتا ہے ہاں اگر ایک سے زیادہ بیویوں میں عدل و انصاف نہ ہو سکنے کا خوف ہو تو صرف ایک ہی پر اکتفا کرو اور اپنی کنیزوں سے استمتاع کرو جیسے اور جگہ ہے :

وَلَن تَسْتَطِيعُواْ أَن تَعْدِلُواْ بَيْنَ النِّسَآءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ (۴:۱۲۹)

تم سے یہ کبھی نہیں ہو سکے گا کہ اپنی تمام بیویوں میں ہر طرح عدل کرو گو تم اس کی کتنی ہی خواہش و کوشش کر لو

پس بالکل ایک ہی طرف جھک کر دوسری کو مصیبت میں نہ ڈال دو، ہاں یاد رہے کہ لونڈیاں میں باری وغیرہ کی تقسیم واجب نہیں البتہ مستحب ہے جو کرے اس نے اچھا کیا اور جو نہ کرے اس پر حرج نہیں۔

ذَلِكَ أَدْنَى أَلَّا تَعُولُوا (۳)

یہ زیادہ قریب ہے (کہ ایسا کرنے سے نا انصافی اور) ایک طرف جھکنے سے بچ جاؤ ۔‏

اس کے مطلب میں بعض نے تو کہا ہے کہ یہ قریب ہے اس کے کہ تمہاری عیال یعنی فقیری زیادہ نہ ہو جیسے اور جگہ ہے :

وَإِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً (۹:۲۸)

اگر تمہیں مفلسی کا خوف ہے

عربی شاعر کہتا ہے۔

فما یدری الفقیر متی غناہ وما یدری الغنی متی یعیل

فقیر نہیں جانتا کہ کب امیر ہو جائے گا، اور امیر کو معلوم نہیں کہ کب فقیر بن جائے گا،

جب کوئی مسکین محتاج ہو جائے تو عرب کہتے ہیں عال الرج یعنی یہ شخص فقیر ہو گیا

غرض اس معنی میں یہ لفظ مستعمل تو ہے لیکن یہاں یہ تفسیر کچھ زیادہ اچھی نہیں معلوم ہوتی، کیونکہ اگر آزاد عورتوں کی کثرت فقیری کا باعث بن سکتی ہے تو لونڈیوں کی کثرت بھی فقیری کا سبب ہو سکتی ہے، پس صحیح قول جمہور کا ہے کہ مرادیہ ہے کہ یہ قریب ہے اس سے کہ تم ظلم سے بچ جاؤ،

عرب میں کہا جاتا ہےعال فی الحکم جبکہ ظلم و جور کیا ہو،

 ابو طالب کے مشہور قصیدے میں ہے ۔

بمیزان قسط لا یخبس شعیرۃ لہ شاہدمن نفسہ غیر عائل

ضمیر بہترین ترازو ہےیعنی ایسی ترازو سے تولتا ہے جو ایک جو برابر کی بھی کمی نہیں کرتا اسکے پاس اس کا گواہ خود اس کا نفس ہے جو ظالم نہیں ہے

ابن جریر میں ہے کہ جب کوفیوں نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ایک خط میں کچھ الزام لکھ کر بھیجے تو ان کے جواب میں خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھا کہ انی لست بمیزان اعول میں ظلم کا ترازو نہیں ہوں،

صحیح ابن حبان میں ایک مرفوع حدیث اس جملہ کی تفسیر میں مروی ہے کہ اس کا معنی ہے تم ظلم نہ کرو،

 ابو حاتم رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس کا مرفوع ہونا تو خطا ہے ہاں یہ حضرت عائشہ کا قول ہے

 اسی طرح لَا تَعُولُوا کے یہی معنی میں یعنی تم ظلم نہ کرو

وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً ۚ فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَيْءٍ مِنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَرِيئًا (۴)

اور عورتوں کو انکے مہر راضی خوشی دیدو ہاں اگر وہ خود اپنی خوشی سے کچھ مہر چھوڑ دیں تو اسے شوق سے خوش ہو کر کھاؤ پیؤ

اللہ  فرماتا ہے اپنی بیویوں کو ان کے مہر خوش دلی سے ادا کر دیا کرو جو بھی مقرر ہوئے ہوں اور جن کو تم نے منظور کیا ہو، ہاں اگر عورت خود اپنا سارا یا تھوڑا بہت مہر اپنی خوشی سے مرد کو معاف کر دے تو اسے اختیار ہے اور اس صورت میں بیشک مرد کو اس کا اپنے استعمال میں لانا حلال طیب ہے،

 نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو جائز نہیں کہ بغیر مہر واجب کے نکاح کرے نہ یہ کہ جھوٹ موٹ مہر کا نام ہی نام ہو،

 ابن ابی حاتم میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول مروی ہے کہ تم میں سے جب کوئی بیمار پڑے تو اسے چاہئے کہ اپنی بیوی سے اس کے مال کے تین درہم یا کم و بیش لے ان کا شہد خرید لے اور بارش کا آسمانی پانی اس میں ملالے تو تین تین بھلائیاں مل جائیں گی تو مال عورت اور شفاء شہد اور مبارک بارش کا پانی۔

حضرت ابو صالح فرماتے ہیں کہ لوگ اپنی بیٹیوں کا مہر آپ لیتے تھے جس پر یہ آیت اتری اور انہیں اس سے روک دیا گیا  

(ابن ابی حاتم اور ابن جریر)

اس حکم کو سن کر لوگوں نے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ان کا مہر کیا ہونا چاہئے؟

 آپ ﷺنے فرمایا جس چیز پر بھی ان کے ولی رضامند ہو جائیں (ابن ابی حاتم)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں تین مرتبہ فرمایا کہ بیوہ عورتوں کا نکاح کر دیا کرو،

 ایک شخص نے کھڑے ہو کر پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسی صورت میں ان کا مہر کیا ہوگا؟ آپ ﷺنے فرمایا جس پر ان کے گھر والے راضی ہو جائیں،

 اس کے ایک راوی ابن سلمانی ضعیف ہیں، پھر اس میں انقطاع بھی ہے۔

وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ قِيَامًا

بے عقل لوگوں کو اپنا مال نہ دے دو جس مال کو اللہ تعالیٰ نے تمہاری گزران کے قائم رکھنے کا ذریعہ بنایا ہے

اللہ سبحانہ و تعالیٰ لوگوں کو منع فرماتا ہے کہ کم عقل بیویوں کو مال کے تصرف سے روکیں، مال کو اللہ تعالیٰ نے تجارتوں وغیرہ میں لگا کر انسان کا ذریعہ معاش بنایا ہے،

 اس سے معلوم ہوا کہ کم عقل لوگوں کو ان کے مال کے خرچ سے روک دینا چاہئے، مثلاً نابالغ بچہ ہو یا مجنون و دیوانہ ہو یا کم عقل بےوقوف ہو اور بےدین ہو بری طرح اپنے مال کو لٹا رہا ہو، اسی طرح ایسا شخص جس پر قرض بہت چڑھ گیا ہو جسے وہ اپنے کل مال سے بھی ادا نہیں کر سکتا اگر قرض خواہ حاکم وقت سے درخواست کریں تو حاکم وہ سب مال اس کے قبضے سے لے لے گا اور اسے بےدخل کر دے گا،

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں یہاں السُّفَهَاءَ سے مراد تیری اولاد اور عورتیں ہیں،

اسی طرح حضرت ابن مسعود حکم بن عبینہ حسن اور ضحاک ؒ سے بھی مروی ہے کہ اس سے مراد عورتیں اور بچے ہیں،

حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں یتیم مراد ہیں،

مجاہد عکرمہ اور قتادہ کا قول ہے کہ عورتیں مراد ہیں،

 ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

بیشک عورتیں بیوقوف ہیں مگر جو اپنے خاوند کی اطاعت گزار ہوں،

 ابن مردویہ میں بھی یہ حدیث مطول مروی ہے،

حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد سرکش خادم ہیں۔

وَارْزُقُوهُمْ فِيهَا وَاكْسُوهُمْ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَعْرُوفًا (۵)

 ہاں انہیں اس مال سے کھلاؤ پلاؤ، پہناؤ، اوڑھاؤ اور انہیں معقولیت سے نرم بات کہو۔‏

اللہ  فرماتا ہے انہیں کھلاؤ پہناؤ اور اچھی بات کہو

 ابن عباسؓ فرماتے ہیں یعنی تیرا مال جس پر تیری گزر بسر موقوف ہے اسے اپنی بیوی بچوں کو نہ دے ڈال کہ پھر ان کا ہاتھ تکتا پھرے بلکہ اپنا مال اپنے قبضے میں رکھ اس کی اصلاح کرتا رہ اور خود اپنے ہاتھ سے ان کے کھانے کپڑے کا بندوبست کر اور ان کے خرچ اٹھا،

حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

 تین قسم کے لوگ ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرماتا،

- ایک وہ شخص جس کی بیوی بدخلق ہو اور پھر بھی وہ اسے طلاق نہ دے

- دوسرا وہ شخص جو اپنا مال بیوقوف کو دے دے حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے بیوقوف کو اپنا مال نہ دو

- تیسرا وہ شخص جس کا قرض کسی پر ہو اور اس نے اس قرض پر کسی کو گواہ نہ کیا ہو۔

ان سے بھلی بات کہو یعنی ان سے نیکی اور صلہ رحمی کرو،

 اس آیت سے معلوم ہوا کہ محتاجوں سے سلوک کرنا چاہئے اسے جسے بالفعل تصرف کا حق نہ ہو اس کے کھانے کپڑے کی خبر گیری کرنی چاہئے اور اس کے ساتھ نرم زبانی اور خوش خلقی سے پیش آنا چاہئے۔

وَابْتَلُوا الْيَتَامَى حَتَّى إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ

اور یتیموں کو ان کے بالغ ہونے تک سدھارتے اور آزماتے رہو

فرمایا یتیموں کی دیکھ بھال رکھو یہاں تک کہ وہ جوانی کو پہنچ جائیں،

یہاں النِّكَاحَ سے مراد بلوغت ہے اور بلوغت اس وقت ثابت ہوتی ہے جب اسے خاص قسم کے خواب آنے لگیں جن میں خاص پانی اچھل کر نکلتا ہے،

حضرت علیؓ فرماتے ہیں:

 مجھے رسول ﷺکا یہ فرمان بخوبی یاد ہے کہ احتلام کے بعد یتیمی نہیں اور نہ چپ رہنا ہے تمام دن رات تک۔

دوسری حدیث میں ہے:

 تین قسم کے لوگوں سے قلم اٹھا لیا گیا ہے،

- بچے سے جب تک بالغ نہ ہو،

- سوتے سے جب تک جاگ نہ جائے،

- مجنوں سے جب تک ہوش نہ آ جائے،

پس ایک تو علامت بلوغ یہ ہے دوسری علامت بلوغ بعض کے نزدیک یہ ہے کہ پندرہ سال کی عمر ہو جائے اس کی دلیل بخاری مسلم کی حضرت ابن عمر ؓوالی حدیث ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ احد والی لڑائی میں مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھ اس لئے نہیں لیا تھا کہ اس وقت میری عمر چودہ سال کی تھی اور خندق کی لڑائی میں جب میں حاضر کیا گیا تو آپ نے قبول فرما لیا اس وقت میں پندرہ سال کا تھا

حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ کو جب یہ حدیث پہنچی تو آپ نے فرمایا نابالغ بالغ کی حد یہی ہے،

تیسری علامت بلوغت کی زیر ناف کے بالوں کا نکلنا ہے، اس میں علماء کے تین قول ہیں

-  ایک یہ کہ علامت بلوغ ہے

-  دوسرے یہ کہ نہیں

- تیسرے یہ کہ مسلمانوں میں نہیں اور ذمیوں میں ہے اس لئے کہ ممکن ہے کسی دوا سے یہ بال جلد نکل آتے ہوں اور ذمی پر جوان ہوتے ہی جزیہ لگ جاتا ہے تو وہ اسے کیوں استعمال کرنے لگا؟

 لیکن صحیح بات یہ ہے کہ سب کے حق میں یہ علامت بلوغت ہے کیونکہ اولاً تو جبلی امر ہے علاج معالجہ کا احتمال بہت دور کا احتمال ہے ٹھیک یہی ہے کہ یہ بال اپنے وقت پر ہی نکلتے ہیں،

دوسری دلیل مسند احمد کی حدیث ہے، جس میں حضرت عطیہ قرضی کا بیان ہے کہ بنو قریظہ کی لڑائی کے بعد ہم لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کئے گئے تو آپ نے حکم دیا کہ ایک شخص دیکھے جس کے یہ بال نکل آئے ہوں اسے قتل کر دیا جائے اور نہ نکلے ہوں اسے چھوڑ دیا جائے چنانچہ یہ بال میرے بھی نہ نکلے تھے مجھے چھوڑ دیا گیا،

 سنن اربعہ میں بھی یہ حدیث ہے اور امام ترمذی اسے حسن صحیح فرماتے ہیں،

 حضرت سعد کے فیصلے پر راضی ہو کر یہ قبیلہ لڑائی سے باز آیا تھا پھر حضرت سعد نے یہ فیصلہ کیا کہ ان میں سے لڑنے والے تو قتل کر دئیے جائیں اور بچے قیدی بنا لئے جائیں

غرائب ابی عبید میں ہے کہ ایک لڑکے نے ایک نوجوان لڑکی کی نسبت کہا کہ میں نے اس سے بدکاری کی ہے دراصل یہ تہمت تھی حضرت عمر ؓنے اسے تہمت کی حد لگانی چاہی لیکن فرمایا دیکھ لو اگر اس کے زیر ناف کے بال اُگ آئے ہوں تو اس پر حد جاری کر دو ورنہ نہیں ۔ دیکھا تو آگے نہ تھے چنانچہ اس پر سے حد ہٹا دی۔

فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ ۖ

پھر اگر ان میں تم ہوشیاری اور حسن تدبیر پاؤ تو انہیں ان کے مال سونپ دو

اللہ  فرماتا ہے جب تم دیکھو کہ یہ اپنے دین کی صلاحیت اور مال کی حفاظت کے لائق ہو گئے ہیں تو ان کے ولیوں کو چاہئے کہ ان کے مال انہیں دے دیں۔

وَلَا تَأْكُلُوهَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَنْ يَكْبَرُوا ۚ

اور ان کے بڑے ہو جانے کے ڈر سے ان کے مالوں کو جلدی جلدی فضول خرچیوں میں تباہ نہ کر دو

بغیر ضروری حاجت کے صرف اس ڈر سے کہ یہ بڑے ہوتے ہی اپنا مال ہم سے لے لیں گے تو ہم اس سے پہلے ہی ان کے مال کو ختم کر دیں ان کا مال نہ کھاؤ۔

وَمَنْ كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ ۖ وَمَنْ كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ ۚ

 مال داروں کو چاہیے کہ (ان کے مال سے) بچتے رہیں ہاں مسکین محتاج ہو تو دستور کے مطابق واجبی طرح سے کھالے،

جسے ضرورت نہ ہو خود امیر ہو کھاتا پیتا ہو تو اسے تو چاہئے کہ ان کے مال میں سے کچھ بھی نہ لے، مثل مردار اور بہے ہوئے خون کی طرح یہ مال ان پر حرام محض ہے،ہاں اگر والی مسکین محتاج ہو تو بیشک اسے جائز ہے کہ اپنی پرورش کے حق کے مطابق وقت کی حاجت اور دستور کے موجب اس مال میں سے کھا پی لے اپنی حاجت کو دیکھے اور اپنی محنت کو اگر حاجت محنت سے کم ہو تو حاجت کے مطابق لے اور اگر محنت حاجت سے کم ہو تو محنت کا بدلہ لے لے،

پھر ایسا ولی اگر مالدار بن جائے تو اسے اس کھائے ہوئے اور لئے ہوئے مال کو واپس کرنا پڑے گا یا نہیں؟

اس میں دو قول ہیں

 ایک تو یہ کہ واپس نہ دینا ہو گا اس لئے کہ اس نے اپنے کام کے بدلے لے لیا ہے امام شافعی کے ساتھیوں کے نزدیک یہی صحیح ہے، اس لئے کہ آیت میں بغیر بدل کے مباح قرار دیا ہے

 مسند احمد میں ہے :

 ایک شخص نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس مال نہیں ایک یتیم میری پرورش میں ہے تو کیا میں اس کے کھانے سے کھا سکتا ہوں

 آپ ﷺنے فرمایا ہاں اس یتیم کا مال اپنے کام میں لا سکتا ہے بشرطیکہ حاجت سے زیادہ نہ اڑا نہ جمع کر نہ یہ ہو کہ اپنے مال کو تو بچا رکھے اور اس کے مال کو کھاتا چلا جائے،

 ابن ابی حاتم میں بھی ایسی ہی روایت ہے،

 ابن حبان میں ہے کہ ایک شخص نے حضور ﷺ سے سوال کیا کہ میں اپنے یتیم کو ادب سکھانے کے لئے ضرورتاً کس چیز سے ماروں؟

 فرمایا جس سے تو اپنے بچے کو تنبیہ کرتا ہے اپنا مال بچا کر اس کا مال خرچ نہ کر نہ اسکے مال سے دولت مند بننے کی کوشش کر،

حضرت ابن عباسؓ سے کسی نے پوچھا کہ میرے پاس بھی اونٹ ہیں اور میرے ہاں جو یتیم پل رہے ہیں ان کے بھی اونٹ ہیں میں اپنی اونٹنیاں دودھ پینے کے لئے فقیروں کو تحفہ دے دیتا ہوں تو کیا میرے لئے جائز ہے کہ ان یتیموں کی اونٹنیوں کا دودھ پی لوں؟

 آپؓ نے فرمایا اگر ان یتیموں کی گم شدہ اونٹنیوں کو تو ڈھونڈ لاتا ہے ان کے چارے پانی کی خبر گیری رکھتا ہے ان کے حوض درست کرتا رہتا ہے اور ان کی نگہبانی کیا کرتا ہے تو بیشک دودھ سے نفع بھی اٹھا لیکن اس طرح کہ نہ ان کے بچوں کو نقصان پہنچے نہ حاجت سے زیادہ لے، (موطا مالک)

عطاء بن رباح، عکرمہ، ابراہیم نخعی، عطیہ عوفی ، حسن بصری رحمتہ اللہ علیہم اجمعین کا یہی قول ہے

 دوسرا قول یہ ہے:

 تنگ دستی کے دور ہو جانے کے بعد وہ مال یتیم کو واپس دینا پڑے گا اس لئے کہ اصل تو ممانعت ہے البتہ ایک وجہ سے جواز ہو گیا تھا جب وہ وجہ جاتی رہی تو اس کا بدل دینا پڑے گا جیسے کوئی بےبس اور مضطر ہو کر کسی غیر کا مال کھا لے لیکن حاجت کے نکل جانے کے بعد اگر اچھا وقت آیا تو اسے واپس دینا ہو گا،

 دوسری دلیل یہ ہے  کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب تخت خلافت پر بیٹھے تو اعلان فرمایا تھا کہ میری حیثیت یہاں یتیم کے والی کی حیثیت ہے اگر مجھے ضرورت ہی نہ ہوئی تو میں بیت المال سے کچھ نہ لوں گا اور اگر محتاجی ہوئی تو بطور قرض لوں گا جب آسانی ہوئی پھر واپس کر دوں گا (ابن ابی الدنیا)

یہ حدیث سعید بن منصور میں بھی ہے اور اس کو اسناد صحیح ہے، بیہقی میں بھی یہ حدیث ہے،

 ابن عباسؓ سے آیت کے اس جملہ کی تفسیر میں مروی ہے کہ بطور قرض کھائے اور بھی مفسرین سے یہ مروی ہے،

حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں مَعْرُوف سے کھانے کا مطلب یہ ہے کہ تین انگلیوں سے کھائے

 اور روایت میں آپ سے یہ مروی ہے کہ وہ اپنے ہی مال کو صرف اپنی ضرورت پوری ہو جانے کے لائق ہی خرچ کرے تا کہ اسے یتیم کے مال کی حاجت ہی نہ پڑے،

 حصرت عامر شعبی فرماتے ہیں اگر ایسی بےبسی ہو جس میں مردار کھانا جائز ہو جاتا ہے تو بیشک کھا لے لیکن پھر ادا کرنا ہوگا،

یحییٰ بن سعید انصار اور ربیعہ سے اس کی تفسیریوں مروی ہے کہ اگر یتیم فقیر ہو تو اس کا ولی اس کی ضرورت کے موافق دے اور پھر اس ولی کو کچھ نہ ملے گا، عبارت میں یہ ٹھیک نہیں بیٹھتا اس لئے کہ اس سے پہلے یہ جملہ بھی ہے کہ جو غنی ہو وہ کچھ نہ لے، یعنی جو ولی غنی ہو تو یہاں بھی یہی مطلب ہو گا جو ولی فقیر ہو نہ یہ کہ جو یتیم فقیر ہو،

دوسری آیت میں ہے:

وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّىٰ يَبْلُغَ أَشُدَّهُ (۶:۱۵۲)

 اور یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ مگر ایسے طریقے سے جو کہ مستحسن ہے یہاں تک کہ وہ اپنے سن رشد تک پہنچ جائے

فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُوا عَلَيْهِمْ ۚ وَكَفَى بِاللَّهِ حَسِيبًا (۶)

پھر جب انہیں ان کے مال سونپو تو گواہ بنا لو دراصل حساب لینے والا اللہ تعالیٰ ہی کافی ہے

اولیاء سے کہا جاتا ہے کہ جب وہ بلوغت کو پہنچ جائیں اور تم دیکھ لو کہ ان میں تمیز آچکی ہے تو گواہ رکھ کر ان کے مال ان کے سپرد کر دو، تا کہ انکار کرنے کا وقت ہی نہ آئے،یوں تو دراصل سچا شاہد اور پورا نگراں اور باریک حساب لینے والا اللہ ہی ہے وہ خوب جانتا ہے کہ ولی نے یتیم کے مال میں نیت کیسی رکھی؟ آیا خورد برد کیا تباہ و برباد کیا جھوٹ سچ حساب لکھا اور دیا یا صاف دل اور نیک نیتی سے نہایت چوکسی اور صفائی سے اس کے مال کا پورا پورا خیال رکھا اور حساب کتاب صاف رکھا، ان سب باتوں کا حقیقی علم تو اسی دانا و بینا نگران و نگہبان کو ہے،

صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا:

 اے ابوذر میں تمہیں ناتواں پاتا ہوں اور جو اپنے لئے چاہتا ہوں وہی تیرے لئے بھی پسند کرتا ہوں خبردار ہرگز دو شخصوں کا بھی سردار اور امیر نہ بننا نہ کبھی کسی یتیم کا ولی بننا۔

لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ ۚ نَصِيبًا مَفْرُوضًا (۷)

ماں باپ اور خویش واقارب کے ترکہ میں مردوں کا حصہ بھی ہے اور عورتوں کا بھی (جو مال ماں باپ اور خویش و اقارب چھوڑ کر مریں) خواہ وہ مال کم ہو یا زیادہ (اس میں) حصہ مقرر کیا ہوا ہے ۔

مشرکین عرب کا دستور تھا کہ جب کوئی مر جاتا تو اس کی بڑی اولاد کو اس کا مال مل جاتا چھوٹی اولاد اور عورتیں بالکل محروم رہتیں اسلام نے یہ حکم نازل فرما کر سب کی مساویانہ حیثیت قائم کر دی کہ وارث تو سب ہوں گے خواہ قرابت حقیقی ہو یا خواہ بوجہ عقد زوجیت کے ہو یا بوجہ نسبت آزادی ہو حصہ سب کو ملے گا گو کم و بیش ہو ،

اُم کجہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتی ہیں کہ حضور میرے دو لڑکے ہیں ان کے والد فوت ہو گئے ہیں ان کے پاس اب کچھ نہیں پس یہ آیت نازل ہوئی ،

یہی حدیث دوسرے الفاظ سے میراث کی اور دونوں آیتوں کی تفسیر میں بھی عنقریب انشاء اللہ آئے گی واللہ اعلم،

وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُو الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينُ فَارْزُقُوهُمْ مِنْهُ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَعْرُوفًا (۸)

جب تقسیم کے وقت قرابت دار اور یتیم اور مسکین آجائیں تو تم اس میں سے تھوڑا بہت انہیں بھی دے دو اور ان سے نرمی سے بولو ۔

آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی مرنے والے کا ورثہ بٹنے لگے اور وہاں اس کا کوئی دور کا رشتہ دار بھی آ جائے جس کا کوئی حصہ مقرر نہ ہو اور یتیم و مساکین آ جائیں تو انہیں بھی کچھ نہ کچھ دے دو۔ابتداء اسلام میں تو یہ واجب تھا اور بعض کہتے ہیں مستحب تھا اور اب بھی یہ حکم باقی ہے یا نہیں؟

 اس میں بھی دو قول ہیں،

 حضرت ابن عباسؓ  تو اسے باقی بتاتے ہیں

مجاہد، ابن مسعود، ابو موسیٰ، عبدالرحمٰن بن ابوبکر، ابو العالیہ، شعبی، حسن، سعید بن جیر ، ابن سیرین ، عطاء بن ابو رباح ، زہری، یحیٰی بن معمر رحمتہ اللہ علیہم اجمعین بھی باقی بتاتے ہیں، بلکہ یہ حضرات سوائے حضرت ابن عباسؓ کے وجوب کے قائل ہیں،

 حضرت عبیدہ ایک وصیت کے ولی تھے۔ انہوں نے ایک بکری ذبح کی اور تینوں قسموں کے لوگوں کو کھلائی اور فرمایا اگر یہ آیت نہ ہوتی تو یہ بھی میرا مال تھا،

حضرت عروہ نے حضرت مصعب کے مال کی تقسیم کے وقت بھی دیا،

حضرت زہری کا بھی قول ہے کہ یہ آیت محکم ہے منسوخ نہیں،

 ایک روایت میں حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ یہ وصیت پر موقوف ہے۔ چنانچہ جب عبدالرحمٰن بن حضرت ابوبکر کے انتقال کے بعد ان کے صاحبزادے حضرت عبداللہ نے اپنے باپ کا ورثہ تقسیم کیا اور یہ واقعہ حضرت مائی عائشہؓ کی موجودگی کا ہے تو گھر میں جتنے مسکین اور قرابت دار تھے سب کو دیا اور اسی آیت کی تلاوت کی،

حضرت ابن عباسؓ کو جب یہ معلوم ہوا تو فرمایا اس نے ٹھیک نہیں کیا اس آیت سے تو مراد یہ ہے کہ جب مرنے والے نے اس کی وصیت کی ہو (ابن ابی حاتم)

بعض حضرات کا قول ہے کہ یہ آیت بالکل منسوخ ہی ہے مثلاً

حصرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں یہ آیت منسوخ ہے۔ اور ناسخ آیت يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ (۴:۱۱) ہے، حصے مقرر ہونے سے پہلے یہ حکم تھا پھر جب حصے مقرر ہو چکے اور ہر حقدار کو خود اللہ تعالیٰ نے حق پہنچا دیا تو اب صدقہ صرف وہی رہ گیا جو مرنے والا کہہ گیا ہو

حضرت سعید بن مسیب رحمتہ اللہ علیہ بھی یہی فرماتے ہیں کہ ہاں اگر وصیت ان لوگوں کے لئے ہو تو اور بات ہے ورنہ یہ آیت منسوخ ہے،

جمہور کا اور چاروں اماموں کا یہی مذہب ہے،

 امام ابن جریر نے یہاں ایک عجیب قول اختیار کیا ہے ان کی لمبی اور کئی بار کی تحریر کا ماحصل یہ ہے کہ مال وصیت کی تقسیم کے وقت جب میت کے رشتہ دار آ جائیں تو انہیں بھی دے دو اور یتیم مسکین جو آگئے ہوں ان سے نرم کلامی اور اچھے جواب سے پیش آؤ، لیکن اس میں نظر ہے واللہ اعلم،

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں تقسیم سے مراد یہاں ورثے کی تقسیم ہے،پس یہ قول امام ابن جریر ؒ کے خلاف ہے،

 ٹھیک مطلب آیت کا یہ ہے کہ جب یہ غریب لوگ ترکے کی تقسیم کے وقت آجائیں اور تم اپنا اپنا حصہ الگ الگ کر کے لے رہے ہو اور یہ بیچارے تک رہے ہوں تو انہیں بھی خالی ہاتھ نہ پھیرو ان کا وہاں سے مایوس اور خالی ہاتھ واپس جانا اللہ تعالیٰ رؤف و رحیم کو اچھا نہیں لگتا بطور صدقہ کے راہ اللہ ان سے بھی کچھ اچھا سلوک کر دو تا کہ یہ خوش ہو کر جائیں، جیسے اور جگہ فرمان باری ہے کہ کھیتی کے کٹنے کے دن اس کا حق ادا کرو اور فاقہ زدہ اور مسکینوں سے چھپا کر اپنے باغ کا پھل لانے والوں کی اللہ تعالیٰ نے بڑی مذمت فرمائی ہے جیسے کہ سورۃ القلممیں ہے:

أَنِ اغْدُوا عَلَى حَرْثِكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَارِمِينَ ۔۔۔ قَالُوا إِنَّا لَضَالُّونَ ـ بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ (۶۸:۲۲،۲۷)

اگر تمہیں پھل اتارنے ہیں تو اپنی کھیتی پر سویرے ہی سویرے چل پڑو۔ پھر جب یہ چپکے چپکے یہ باتیں کرتے ہوئے چلے کہ آج کے دن کوئی مسکین تمہارے پاس نہ آنے پائے اور لپکے ہوئے صبح صبح گئے (سمجھ رہے تھے) کہ ہم قابو پا گئے

جب انہوں نے باغ دیکھا تو کہنے لگے یقیناً ہم راستہ بھول گئے ہیں۔ نہیں نہیں ہماری قسمت پھوٹ گئی

وہ رات کے وقت چھپ کر پوشیدگی سے کھیت اور باغ کے دانے اور پھل لانے کے لئے چلتے ہیں وہاں اللہ کا عذاب ان سے پہلے پہنچ جاتا ہے اور سارے باغ کو جلا کر خاک سیاہ کر دیتا ہے دوسروں کے حق برباد کرنے والوں کا یہی حشر ہوتا ہے،

حدیث شریف میں ہے :

جس مال میں صدقہ مل جائے یعنی جو شخص اپنے مال سے صدقہ نہ دے اس کا مال اس وجہ سے غارت ہو جاتا ہے۔

وَلْيَخْشَ الَّذِينَ لَوْ تَرَكُوا مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّيَّةً ضِعَافًا خَافُوا عَلَيْهِمْ فَلْيَتَّقُوا اللَّهَ وَلْيَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (۹)

چاہئے کہ وہ اس بات سے ڈریں کہ اگر وہ خود اپنے پیچھے (ننھے ننھے) ناتواں بچے چھوڑ جاتے جنکے ضائع ہو جانے کا اندیشہ رہتا (تو ان کی چاہت کیا ہوتی)

پس اللہ تعالیٰ سے ڈر کر جچی تلی بات کہا کریں

اللہ  فرماتا ہے ڈریں وہ لوگ جو اگر اپنے پیچھے چھوڑ جائیں یعنی ایک شخص اپنی موت کے وقت وصیت کر رہا ہے اور اس میں اپنے وارثوں کو ضرر پہنچا رہا ہے تو اس وصیت کے سننے والے کو چاہئے کہ اللہ کا خوف کرے اور اسے ٹھیک بات کی رہنمائی کرے اس کے وارثوں کے لئے ایسی بھلائی چاہئے جیسے اپنے وارثوں کے ساتھ بھلائی کرانا چاہتا ہے جب کہ ان کی بربادی اور تباہی کا خوف ہو، بخاری و مسلم میں ہے:

 جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے پاس ان کی بیماری کے زمانے میں ان کی عیادت کو گئے اور حضرت سعد نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس مال بہت ہے اور صرف میری ایک لڑکی ہی میرے پیچھے ہے تو اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنے مال کی دو تہائیاں اللہ کی راہ میں صدقہ کر دوں

 آپ ﷺنے فرمایا نہیں

انہوں نے کہا پھر ایک تہائی کی اجازت دیجئے

آپ ﷺنے فرمایا خیر لیکن ہے یہ بھی زیادہ تو اگر اپنے پیچھے اپنے وارثوں کو توانگر چھوڑ کر جائے اس سے بہتر ہے تو کہ تو انہیں فقیر چھوڑ کر جائے کہ وہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں،

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں لوگ ایک تہائی سے بھی کم یعنی چوتھائی کی ہی وصیت کریں تو اچھا ہے اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تہائی کو بھی زیادہ فرمایا ہے

 فقہاء فرماتے ہیں اگر میت کے وارث امیر ہوں تب تو خیر تہائی کی وصیت کرنا مستحب ہے اور اگر فقیر ہوں تو اس سے کم کی وصیت کرنا مستحب ہے،

دوسرا مطلب اس آیت کا یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ تم یتیموں کا اتنا ہی خیال رکھو جتنا تم تمہاری چھوٹی اولاد کا تمہارے مرنے کے بعد چاہتے ہو اور لوگ خیال رکھیں جس طرح تم نہیں چاہتے کہ ان کے مال دوسرے ظلم سے کھا جائیں اور وہ بالغ ہو کر فقیر رہ جائیں اسی طرح تم دوسروں کی اولادوں کے مال نہ کھا جاؤ،

یہ مطلب بھی بہت عمدہ ہے اسی لئے اس کے بعد ہی یتیموں کا مال ناحق مار لینے والوں کی سزا بیان فرمائی، کہ

إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا ۖ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا (۱۰)

جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں، وہ اپنے پیٹ میں آگ ہی بھر رہے ہیں اور عنقریب وہ دوزخ میں جائیں گے‏

یہ لوگ اپنے پیٹ میں انگارے بھرنے والے اور جہنم و اصل ہونے والے ہیں،

بخاری و مسلم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

سات گناہوں سے بچو جو ہلاکت کا باعث ہیں

پوچھا گیا کیا کیا؟ فرمایا

- اللہ کے ساتھ شرک،

- جادو،

- بےوجہ قتل،

- سود خوری،

- یتیم کا مال کھا جانا،

- جہاد سے پیٹھ موڑنا،

-  بھولی بھالی ناواقف عورتوں پر تہمت لگانا،

ابن ابی حاتم میں ہے صحابہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے معراج کی رات کا واقعہ پوچھا جس میں آپ نے فرمایا :

 میں نے بہت سے لوگوں کو دیکھا کہ ان کے ہونٹ نیچے لٹک رہے ہیں اور فرشتے انہیں گھسیٹ کر ان کا منہ خوب کھول دیتے ہیں پھر جہنم کے گرم پتھر ان میں ٹھونس دیتے ہیں جو ان کے پیٹ میں اتر کر پیچھے کے راستے سے نکل جاتے ہیں اور وہ بےطرح چیخ چلا رہے ہیں ہائے ہائے مچا رہے ہیں۔ میں نے حضرت جبرائیل سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟

 کہا یہ یتیموں کا مال کھا جانے والے ہیں جو اپنے پیٹوں میں آگ بھر رہے ہیں اور عنقریب جہنم میں جائیں گے،

حضرت سدی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

یتیم کا مال کھا جانے والا قیامت کے روز اپنی قبر سے اس طرح اٹھایا جائے گا کہ اس کے منہ آنکھوں نتھنوں اور روئیں روئیں سے آگ کے شعلے نکل رہے ہوں گے ہر شخص دیکھتے ہی پہچان لے گا کہ اس نے کسی یتیم کا مال ناحق کھا رکھا ہے۔

 ابن مردویہ میں ایک مرفوع حدیث بھی اسی مضمون کے قریب قریب مروی ہے

 اور حدیث میں ہے میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ ان دونوں ضعیفوں کا مال پہنچا دو عورتوں کا اور یتیم کا، انکے مال سے بچو،

 سورۃ بقرہ میں یہ روایت گزر چکی ہے کہ جب یہ آیت اتری تو جن کے پاس یتیم تھے انہوں نے انکا اناج پانی بھی الگ کر دیا

 اب عموماً ایسا ہوتا کہ کھانے پینے کی ان کی کوئی چیز بچ رہتی تو یا تو دوسرے وقت اسی باسی چیز کو کھاتے یا سڑنے کے بعد پھینک دی جاتی گھر والوں میں سے کوئی اسے ہاتھ بھی نہ لگاتا تھا یہ بات دونوں طرف ناگوار گزری حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھی اس کا ذکر آیا ہے اس پر یہ آیت اتری :

وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْيَتَامَىٰ ۖ قُلْ إِصْلَاحٌ لَّهُمْ خَيْرٌ ۖ وَإِن تُخَالِطُوهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ (۲:۲۲۰)

اور تجھ سے یتیموں کے بارے میں بھی سوال کرتے ہیں

آپ کہہ دیجئے کہ ان کی خیر خواہی بہتر ہے، تم اگر ان کا مال اپنے مال میں ملا بھی لو تو وہ تمہارے بھائی ہیں،

جس کا مطلب یہ ہے کہ جس کام میں یتیموں کی بہتری سمجھو کرو چنانچہ اس کے بعد پھر کھانا پانی ایک ساتھ ہوا۔

يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ ۚ

اللہ تعالیٰ تمہیں اولاد کے بارے میں حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے

یہ آیت کریمہ اور اس کے بعد کی آیت اور اس سورت کے خاتمہ کی آیت علم فرائض کی آیتیں ہیں، یہ پورا علم ان آیتوں اور میراث کی احادیث سے استنباط کیا گیا ہے، جو حدیثیں ان آیتوں کی گویا تفسیر اور توضیح ہیں، یہاں ہم اس آیت کی تفسیر لکھتے ہیں باقی جو میراث کے مسائل کی پوری تقریر ہے اور اس میں جن دلائل کی سمجھ میں جو کچھ اختلاف ہوا ہے اس کے بیان کرنے کی مناسب جگہ احکام کی کتابیں ہیں نہ کہ تفسیر، اللہ تعالیٰ ہماری مدد فرمائے،

 علم فرائض سیکھنے کی رغبت میں بہت سی حدیثیں آئی ہیں، ان آیتوں میں جن فرائض کا بیان ہے یہ سب سے زیادہ اہم ہیں،

 ابو داؤد اور ابن ماجہ میں ہے علم دراصل تین ہیں اور اس کے ماسوا فضول بھرتی ہے،

-  آیات قرآنیہ جو مضبوط ہیں اور جن کے احکام باقی ہیں،

- سنت قائمہ یعنی جو احادیث ثابت شدہ ہیں

-  اور فریضہ عادلہ یعنی مسائل میراث جو ان دو سے ثابت ہیں۔

 ابن ماجہ کی دوسری ضعیف سند والی حدیث میں ہے کہ فرائض سیکھو اور دوسروں کو سکھاؤ۔ یہ نصف علم ہے اور یہ بھول بھول جاتے ہیں اور یہی پہلی وہ چیز ہے جو میری اُمت سے چھن جائے گی،

حضرت ابن عینیہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اسے آدھا علم اس لئے کہا گیا ہے کہ تمام لوگوں کو عموماً یہ پیش آتے ہیں،

صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے:

 میں بیمار تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ میری بیمار پرسی کے لئے بنو سلمہ کے محلے میں پیادہ پا تشریف لائے میں اس وقت بیہوش تھا آپ نے پانی منگوا کر وضو کیا پھر وضو کے پانی کا چھینٹا مجھے دیا جس سے مجھے ہوش آیا، تو میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنے مال کی تقسیم کس طرح کروں؟ اس پر آیت شریفہ نازل ہوئی،

صحیح مسلم شریف نسائی شریف وغیرہ میں بھی یہ حدیث موجود ہے،

ابو داؤد ترمذی ابن ماجہ مسند امام احمد بن حنبل وغیرہ میں مروی ہے :

حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی صاحبہ ؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دونوں حضرت سعدؓ  کی لڑکیاں ہیں، انکے والد آپکے ساتھ جنگ احد میں شریک تھے اور وہیں شہید ہوئے انکے چچا نے ان کا کل مال لے لیا ہے ان کے لئے کچھ نہیں چھوڑا اور یہ ظاہر ہے کہ ان کے نکاح بغیر مال کے نہیں ہو سکتے،

 آپ ﷺنے فرمایا اس کا فیصلہ خود اللہ کرے گا چنانچہ آیت میراث نازل ہوئی،

 آپ ﷺنے ان کے چچا کے پاس آدمی بھیج کر حکم بھیجا کہ دو تہائیاں تو ان دونوں لڑکیوں کو دو اور آٹھواں حصہ ان کی ماں کو دو اور باقی مال تمہارا ہے،

بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت جابرؓ کے سوال پر اس سورت کی آخری آیت اتری ہوگی جیسے عنقریب آ رہا ہے انشاء اللہ تعالیٰ اس لئے کہ ان کی وارث صرف ان کی بہنیں ہی تھیں لڑکیاں تھیں ہی نہیں وہ تو کلالہ تھے اور یہ آیت اسی بارے میں یعنی سعد بن ربیع کے ورثے کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور اس کے راوی بھی خود جابر ؓہیں ہاں حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے اس حدیث کو اسی آیت کی تفسیر میں وارد کیا ہے اس لئے ہم نے بھی ان کی تابعداری کی، واللہ اعلم

مطلب آیت کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں عدل سکھاتا ہے، اہل جاہلیت تمام مال لڑکوں کو دیتے تھے اور لڑکیاں خالی ہاتھ رہ جاتی تھیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کا حصہ بھی مقرر کردیا ہاں دونوں کے حصوں میں فرق رکھا، اس لئے کہ مردوں کے ذمہ جو ضروریات ہیں وہ عورتوں کے ذمہ نہیں مثلاً اپنے متعلقین کے کھانے پینے اور خرچ اخراجات کی کفالت تجارت اور کسب اور اسی طرح کی اور مشقتیں تو انہیں ان کی حاجت کے مطابق عورتوں سے دوگنا دلوایا،

 بعض دانا بزرگوں نے یہاں ایک نہایت باریک نکتہ بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بہ نسبت ماں باپ کے بھی زیادہ مہربان ہے، ماں باپ کو ان کی اولادوں کے بارے میں وصیت کر رہا ہے، پس معلوم ہوا کہ ماں باپ اپنی اولاد پر اتنے مہربان نہیں جتنا مہربان ہمارا خالق اپنی مخلوق پر ہے۔چنانچہ ایک صحیح حدیث میں ہے:

 قیدیوں میں سے ایک عورت کا بچہ اس سے چھوٹ گیا وہ پاگلوں کی طرح اسے ڈھونڈتی پھرتی تھی اور جیسے ہی ملا اپنے سینے سے لگا کر اسے دودھ پلانے لگی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر اپنے اصحاب سے فرمایا بھلا بتاؤ تو کیا یہ عورت باوجود اپنے اختیار کے اپنے بچے کو آگ میں ڈال دے گی؟

لوگوں نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہرگز نہیں

 آپ ﷺنے فرمایا اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ مہربان ہے۔

حضرت ابن عباسؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں  کہ پہلے حصہ دار مال کا صرف لڑکا تھا، ماں باپ کو بطور وصیت کے کچھ مل جاتا تھا اللہ تعالیٰ نے اسے منسوخ کیا اور لڑکے کو لڑکی سے دوگنا دلوایا اور ماں باپ کو چھٹا چھٹا حصہ دلوایا اور تیسرا حصہ بھی اور بیوی کو آٹھواں حصہ اور چوتھا حصہ اور خاوند کو آدھا اور پاؤ۔

 فرماتے ہیں میراث کے احکام اترنے پر بعض لوگوں نے کہا یہ اچھی بات ہے کہ عورت کو چوتھا اور آٹھواں حصہ دلوایا جا رہا ہے اور لڑکی کو آدھوں آدھ دلوایا جا رہا ہے اور ننھے ننھے بچوں کا حصہ مقرر کیا جا رہا ہے حالانکہ ان میں سے کوئی بھی نہ لڑائی میں نکل سکتا ہے، نہ مال غنیمت لا سکتا ہے اچھا تم اس حدیث سے خاموشی برتو شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھول جائے ہمارے کہنے کی وجہ سے آپ ان احکام کو بدل دیں، پھر انہوں نے آپﷺ سے کہا کہ آپ لڑکی کو اس کے باپ کا آدھا مال دلوا رہے ہیں حالانکہ نہ وہ گھوڑے پر بیٹھنے کے لائق نہ دشمن سے لڑنے کے قابل، آپ بچے کو ورثہ دلا رہے ہیں بھلا وہ کیا فائدہ پہنچا سکتا ہے؟

یہ لوگ جاہلیت کے زمانہ میں ایسا ہی کرتے تھے کہ میراث صرف اسے دیتے تھے جو لڑنے مرنے کے قابل ہو سب سے بڑے لڑکے کو وارث قرار دیتے تھے

اگر مرنے والے کے لڑکے لڑکیاں دونوں ہوں  تو تو فرما دیا کہ لڑکی کو جتنا آئے اس سے دوگنا لڑکے کو دیا جائے یعنی ایک لڑکی ایک لڑکا ہے تو کل مال کے تین حصے کر کے دو حصے لڑکے کو اور ایک حصہ لڑکی کو دے دیا جائے

اب بیان فرماتا ہے کہ اگر صرف لڑکیاں ہوں تو انہیں کیا ملے گا؟

فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ ۖ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ ۚ

اور اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں اور دو سے زیادہ ہوں تو انہیں مال متروکہ کا دو تہائی ملے گا اور اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اس کے لئے آدھا ہے

لفظ فَوْقَ کو بعض لوگ زائد بتاتے ہیں جیسے آیت فَاضْرِبُوا فَوْقَ الْأَعْنَاقِ (۸:۱۲)  میں لفظ فَوْقَ زائد ہے

لیکن ہم یہ نہیں مانتے نہ اس آیت میں نہ اس آیت میں، کیونکہ قرآن میں کوئی ایسی زائد چیز نہیں ہے جو محض بےفائدہ ہو اللہ کے کلام میں ایسا ہونا محال ہے، پھر یہ بھی خیال فرمائیے کہ اگر ایسا ہی ہوتا تو اس کے بعد آیت فَلَهُنَّ نہ آتا بلکہ فَلَهُمَا آتا۔

 ہاں اسے ہم جانتے ہیں کہ اگر لڑکیاں دو سے زیادہ نہ ہوں یعنی صرف دو ہوں تو بھی یہی حکم ہے یعنی انہیں بھی دو ثلث ملے گا کیونکہ دوسری آیت میں دو بہنوں کو دو ثلث دلوایا گیا ہے اور جبکہ دو بہنیں دو ثلث پاتی ہیں تو دو لڑکیوں کو دو ثلث کیوں نہ ملے گا؟ ان کے لئے تو دو تہائی بطور اولی ٰہونا چاہئے،اور حدیث میں آچکا ہے دو لڑکیوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو تہائی مال ترکہ کا دلوایا جیسا کہ اس آیت کی شان نزول کے بیان میں حضرت سعد کی لڑکیوں کے ذکر میں اس سے پہلے بیان ہو چکا ہے

 پس کتاب و سنت سے یہ ثابت ہو گیا اسی طرح اس کی دلیل یہ بھی ہے کہ ایک لڑکی اگر ہو یعنی لڑکا نہ ہونے کی صورت میں تو اسے آدھوں آدھ دلوایا گیا ہے پس اگر دو کو بھی آدھا ہی دینے کا حکم کرنا مقصود ہوتا تو یہیں بیان ہو جاتا جب ایک کو الگ کر دیا تو معلوم ہوا کہ دو کا حکم وہی ہے جو دو سے زائد کا ہے واللہ اعلم۔

وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ ۚ

اور میت کے ماں باپ میں سے ہر ایک لئے اس کے چھوڑے ہوئے مال کا چھٹا حصہ ہے اگر اس میت کی اولاد ہو

پھر ماں باپ کا حصہ بیان ہو رہا ہے ان کے ورثے کی مختلف صورتیں ہیں، ایک تو یہ کہ مرنے والے کی اولاد ایک لڑکی سے زیادہ ہو اور ماں باپ بھی ہوں تو تو انہیں چھٹا چھٹا حصہ ملے گا یعنی چھٹا حصہ ماں کو اور چھٹا حصہ باپ کو،

 اگر مرنے والے کی صرف ایک لڑکی ہی ہے تو آدھا مال تو وہ لڑکی لے لے گی اور چھٹا حصہ ماں لے لے گی چھٹا حصہ باپ کو ملے گا اور چھٹا حصہ جو باقی رہا وہ بھی بطور عصبہ باپ کو مل جائے گا پس اس حالت میں باپ فرض اور تنصیب دونوں کو جمع کر لے گا یعنی مقررہ چھٹا حصہ اور بطور عصبہ بچت کا مال

فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ ۚ

اگر اولاد نہ ہو اور ماں باپ وارث ہوتے ہوں تو اس کی ماں کے لئے تیسرا حصہ ہے

دوسری صورت یہ ہے کہ صرف ماں باپ ہی وارث ہوں تو ماں کو تیسرا حصہ مل جائے گا اور باقی کا کل ماں باپ کو بطور عصبہ کے مل جائے گا تو گویا دو ثلث مال اس کے ہاتھ لگے گا یعنی بہ نسبت مال کے دگنا باپ کو مل جائے گا اب اگر مرنے والی عورت کا خاوند بھی ہے مرنے والے مرد کی بیوی ہے یعنی اولاد نہیں صرف ماں باپ ہیں اور خاوند سے یا بیوی تو اس پر تو اتفاق ہے کہ خاوند کو آدھا اور بیوی کو پاؤ ملے گا،

پھر علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ ماں کو اس صورت میں اس کے بعد کیا ملے گا؟

تین قول ہیں ایک تو یہ کہ جو مال باقی رہا اس میں سے تیسرا حصہ ملے گا دونوں صورتوں میں یعنی خواہ عورت خاوند چھوڑ کر مری ہو خواہ مرد عورت چھوڑ کر مرا ہو اس لئے کہ باقی کا مال ان کی نسبت سے گویا کل مال ہے اور ماں کا حصہ باپ سے آدھا ہے تو اس باقی کے مال سے تیسرا حصہ یہ لے لے اور وہ تیسرے حصے جو باقی رہے وہ باپ لے لے گا

حضرت عمر حضرت عثمان اور بہ اعتبار زیادہ صحیح روایت حضرت علی رضی اللہ عنہم کا یہی فیصلہ ہے، حضرت ابن مسعود اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا یہی قول ہے، ساتوں فقہاء اور چاروں اماموں اور جمہور علماء کا بھی یہی فتویٰ ہے

 دوسرا قول یہ ہے کہ ان دونوں صورتوں میں بھی ماں کو کل مال کا ثلث مل جائے گا، اس لئے کہ آیت عام ہے خاوند بیوی کے ساتھ ہو تو اور نہ ہو تو عام طور پر میت کی اولاد نہ ہونے کی صورت میں ماں کو ثلث دلوایا گیا ہے،

 حضرت ابن عباسؓ کا یہی قول ہے، حضرت علیؓ اور حضرت معاذ بن جبل ؓسے بھی اسی طرح مروی ہے۔

حضرت شریح اور حضرت داؤد ظاہری بھی یہی فرماتے ہیں، حضرت ابو الحسین بن لبان بصری بھی اپنی کتاب ایجاز میں جو علم فرائض کے بارے میں ہے اسی قول کو پسند کرتے ہیں،

 لیکن اس قول میں نظر ہے بلکہ یہ قول ضعیف ہے کیونکہ آیت نے اس کا یہ حصہ اس وقت مقرر فرمایا ہے جبکہ کل مال کی وراثت صرف ماں باپ کو ہی پہنچتی ہو، اور جبکہ زوج یا زوجہ سے اور وہ اپنے مقررہ حصے کے مستحق ہیں تو پھر جو باقی رہ جائے گا بیشک وہ ان دونوں ہی کا حصہ ہے تو اس میں ثلث ملے گا، کیونکہ اس عورت کو کل مال کی چوتھائی ملے گی اگر کل مال کے بارہ حصے کئے جائیں تو تین حصے تو یہ لے گی اور چار حصے ماں کو ملے گا باقی بچے پانچ حصے وہ باپ لے لے گا

 لیکن اگر عورت مری ہے اور اس کا خاوند موجود ہے تو ماں کو باقی مال کا تیسرا حصہ ملے گا اگر کل مال کا تیسرا حصہ اس صورت میں بھی ماں کو دلوایا جائے تو اسے باپ سے بھی زیادہ پہنچ جاتا ہے مثلاً میت کے مال کے چھ حصے کئے تین تو خاوند لے گیا دو ماں لے گئی تو باپ کے پلے ایک ہی پڑے گا جو ماں سے بھی تھوڑا ہے، اس لئے اس صورت میں چھ میں سے تین تو خاوند کو دئے جائیں گے ایک ماں کو اور دو باپ کو،

حضرت امام ابن سیرین رحمتہ اللہ علیہ کا یہی قول ہے، یوں سمجھنا چاہئے کہ یہ قول دو قولوں سے مرکب ہے، ضعیف یہ بھی ہے اور صحیح قول پہلا ہی ہے واللہ اعلم،

فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ ۚ

ہاں اگر میت کے کئی بھائی ہوں تو پھر اس کی ماں کا چھٹا حصہ ہے

ماں باپ کے احوال میں سے تیسرا حال یہ ہے کہ وہ بھائیوں کے ساتھ ہوں خواہ وہ سگے بھائی ہوں یا صرف باپ کی طرف سے یا صرف ماں کی طرف سے تو وہ باپ کے ہوتے ہوئے اپنے بھائی کے ورثے میں کچھ پائیں گے نہیں لیکن ہاں ماں کو تہائی سے ہٹا کر چھٹا حصہ دلوائیں گے اور اگر کوئی اور وارث ہی نہ ہو اور صرف ماں کے ساتھ باپ ہی ہو تو باقی مال کل کا کل باپ لے لے گا اور بھائی بھی شریعت میں بہت سے بھائیوں کے مترادف ہیں جمہور کا یہی قول ہے،

 ہاں حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ آپ نے ایک مرتبہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ دو بھائی ماں کو ثلث سے ہٹا کر سدس تک نہیں لے جاتے قرآن میں اخوۃ جمع کا لفظ ہے دو بھائی اگر مراد ہوتے اخوان کہا جاتا

خلیفہ ثالث نے جواب دیا کہ پہلے ہی سے یہ چلا آتا ہے اور چاروں طرف یہ مسئلہ اسی طرح پہنچا ہوا ہے تمام لوگ اس کے عامل ہیں میں اسے نہیں بدل سکتا،

 اولاً تو یہ اثر ثابت ہی نہیں اس کے راوی حضرت شعبہ کے بارے میں حضرت امام مالک کی جرح موجود ہے پھر یہ قول ابن عباسؓ کا نہ ہونے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ خود حضرت ابن عباسؓ کے خاص اصحاب اور اعلیٰ شاگرد بھی اس کے خلاف ہیں حضرت زید فرماتے ہیں دو کو بھی اخوۃ کہا جاتا ہے، الحمد للہ میں نے اس مسئلہ کو پوری طرح ایک علیحدہ رسالے میں لکھا ہے

 سعید بن قتادہ سے بھی اسی طرح مروی ہے، ہاں میت کا اگر ایک ہی بھائی ہو تو ماں کو تیسرے حصے سے ہٹا نہیں سکتا،

علماء کرام کا فرمان ہے کہ اس میں حکمت یہ ہے کہ میت کے بھائیوں کی شادیوں کا اور کھانے پینے وغیرہ کا کل خرچ باپ کے ذمہ ہے نہ کہ ماں کے ذمے اس لئے متقضائے حکمت یہی تھا کہ باپ کو زیادہ دیا جائے، یہ توجیہ بہت ہی عمدہ ہے،

لیکن حضرت ابن عباسؓ سے بہ سند صحیح مروی ہے کہ یہ چھٹا حصہ جو ماں کا کم ہو گیا انہیں دیدیا جائے گا یہ قول شاذ ہے

 امام ابن جریر فرماتے ہیں حضرت عبداللہؓ کا یہ قول تمام اُمت کے خلاف ہے،

 ابن عباسؓ کا قول ہے کہ کلالہ اسے کہتے ہیں جس کا بیٹا اور باپ نہ ہو۔

مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۗ

یہ حصے اس کی وصیت (کی تکمیل) کے بعد ہیں جو مرنے والا کر گیا ہو یا ادائے قرض کے بعد

فرمایا وصیت اور قرض کے بعد تقسیم میراث ہو گی،

 تمام سلف خلف کا اجماع ہے کہ قرض وصیت پر مقدم ہے اور فحوائے آیت کو بھی اگر بغور دیکھا جائے تو یہی معلوم ہوتا ہے،

 ترمذی میں ہے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ تم قرآن میں وصیت کا حکم پہلے پڑھتے ہو اور قرض کا بعد میں لیکن یاد رکھنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض پہلے ادا کرایا ہے، پھر وصیت جاری کی ہے،ایک ماں زاد بھائی آپس میں وارث ہوں گے بغیر علاتی بھائیوں کے، آدمی اپنے سگے بھائی کا وارث ہوگا نہ اس کا جس کی ماں دوسری ہو،

یہ حدیث صرف حضرت حارث سے مروی ہے اور ان پر بعض محدثین نے جرح کی ہے، لیکن یہ حافظ فرائض تھے اس علم میں آپ کو خاص دلچسپی اور دسترس تھی اور حساب کے بڑے ماہر تھے واللہ اعلم۔

آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا ۚ

 تمہارے باپ ہوں یا تمہارے بیٹے تمہیں نہیں معلوم کہ ان میں سے کون تمہیں نفع پہنچانے میں زیادہ قریب ہے

فرمایا کہ ہم نے باپ بیٹوں کو اصل میراث میں اپنا اپنا مقررہ حصہ لینے والا بنایا اور جاہلیت کی رسم ہٹا دی بلکہ اسلام میں بھی پہلے بھی ایسا ہی حکم تھا کہ مال اولاد کو مل جاتا ماں باپ کو صرف بطور وصیت کے ملتا تھا جیسے حضرت ابن عباسؓ سے پہلے بیان ہو چکا

یہ منسوخ کر کے اب یہ حکم ہوا تمہیں یہ نہیں معلوم کہ تمہیں باپ سے زیادہ نفع پہنچے گا یا اولاد نفع دے گی امید دونوں سے نفع کی ہے یقین کسی پر بھی ایک سے زیادہ نہیں، ممکن ہے باپ سے زیادہ بیٹا کام آئے اور نفع پہنچائے اور ممکن ہے بیٹے سے زیادہ باپ سے نفع پہنچے اور وہ کام آئے،

فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا (۱۱)

یہ حصے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ ہیں بیشک اللہ تعالیٰ پورے علم اور کامل حکمتوں والا ہے۔‏

 پھر فرماتا ہے یہ مقررہ حصے اور میراث کے یہ احکام اللہ کی طرف سے فرض ہیں اس میں کسی کمی پیشی کی کسی امید یا کسی خوف سے گنجائش نہیں نہ کسی کو محروم کر دینا لائق سے نہ کسی کو زیادہ دلوا دینا،

 اللہ تعالیٰ علیم و حکیم ہے جو جس کا مستحق ہے اسے اتنا دلواتا ہے ہر چیز کی جگہ کو وہ بخوبی جانتا ہے تمہارے نفع نقصان کا اسے پورا علم ہے اس کا کوئی کام اور کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں تمہیں چاہئے کہ اس کے احکام اس کے فرمان مانتے چلے جاؤ۔

وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ ۚ

تمہاری بیویاں جو چھوڑ مریں اور ان کی اولاد نہ ہو تو آدھوں آدھ تمہارا

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے مرد و تمہاری عورتیں جو چھوڑ کر مریں اگر ان کی اولاد نہ ہو تو اس میں سے آدھا حصہ تمہارا ہے

فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ ۚ

 اگر ان کی اولاد ہو تو ان کے چھوڑے ہوئے مال میں سے تمہارے لئے چوتھائی حصہ ہے

اور اگر ان کے بال بچے ہوں تو تمہیں چوتھائی ملے گا،

مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۚ

اس کی وصیت کی ادائیگی کے بعد جو وہ کر گئیں ہوں یا قرض کے بعد۔

وصیت اور قرض کے بعد۔ ترتیب اس طرح ہے پہلے قرض ادا کیا جائے پھر وصیت پوری کی جائے پھر ورثہ تقسیم ہو،یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر تمام علماء اُمت کا اجماع ہے،

وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ ۚ

اور جو (ترکہ) تم چھوڑ جاؤ اس میں سے ان کے لئے چوتھائی ہے اگر تمہاری اولاد نہ ہو

پوتے بھی اس مسئلہ میں حکم میں بیٹوں کی ہی طرح ہیں بلکہ انکی اولاد در اولاد کا بھی یہی حکم ہے کہ ان کی موجودگی میں خاوند کو چوتھائی ملے گا۔

فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ ۚ

اور اگر تمہاری اولاد ہو تو پھر انہیں تمہارے ترکہ کا آٹھواں حصہ ملے گا

پھر عورتوں کو حصہ بتایا کہ انہیں یا چوتھائی ملے گا یا آٹھواں حصہ چوتھائی تو اس حالت میں کہ مرنے والے خاوند کی اولاد نہ ہو، اور آٹھواں حصہ اس حالت میں کہ اولاد ہو، اس چوتھائی یا آٹھویں حصے میں مرنے والے کی سب بیویاں شامل ہیں چار ہوں تو ان میں یہ حصہ برابر برابر تقسیم ہو جائے گا تین یا دو ہوں تب بھی اور اگر ایک ہو تو اسی کا یہ حصہ ہے

مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۗ

اس وصیت کے بعد جو تم کر گئے ہو اور قرض کی ادائیگی کے بعد۔

اس  کی تفسیر اس سے پہلی آیت میں گزر چکی ہے۔

وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ

اور جن کی میراث لی جاتی ہے وہ مرد یا عورت کلالہ ہو یعنی اس کا باپ بیٹا نہ ہو

كَلَالَةً مشتق ہے اکلیل سے اکلیل کہتے ہیں اس تاج وغیرہ کو جو سر کو ہر طرف سے گھیر لے، یہاں مراد یہ ہے کہ اس کے وارث ارد گرد حاشیہ کے لوگ ہیں اصل اور فرع یعنی جڑیا شاخ نہیں،

صرف ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے كَلَالَة کا معنی پوچھا جاتا ہے تو آپ فرماتے ہیں میں اپنی رائے سے جواب دیتا ہوں اگر ٹھیک ہو تو اللہ کی طرف سے ہے اور اگر غلط ہو تو میری اور شیطان کی طرف سے ہے اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بری الذمہ ہیں،

 كَلَالَة وہ ہے جس کا نہ لڑکا ہو نہ باپ،

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب خلیفہ ہوئے تو آپ نے بھی اس سے موافقت کی اور فرمایا مجھے ابوبکرؓ کی رائے سے خلاف کرتے ہوئے شرم آتی ہے (ابن جریر وغیرہ)

ابن عباسؓ فرماتے ہیں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے آخری زمانہ پانے والا میں ہوں میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرماتے تھے بات وہی ہے جو میں نے کہی ٹھیک اور درست یہی ہے کہ كَلَالَة اسے کہتے ہیں جس کا نہ ولد ہو والد،

حضرت علی، ابن مسعود، ابن عباس، زید بن ثابت رضوان اللہ علیہم اجمعین، شعبی، نخعی، حسن، قتادہ، جابر بن زید، حکم رحمتہ اللہ علیہم اجمعین بھی یہی فرماتے ہیں، اہل مدینہ اہل کوفہ اہل بصرہ کا بھی یہی قول ہے ساتوں فقہاء چاروں امام اور جمہور سلف و خلف بلکہ تمام یہی فرماتے ہیں،

بہت سے بزرگوں نے اس پر اجماع نقل کیا ہے اور ایک مرفوع حدیث میں بھی یہی آیا ہے،

ابن لباب فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباسؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ كَلَالَة وہ ہے جس کی اولاد نہ ہو لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے اور ممکن ہے کہ راوی نے مراد سمجھی ہی نہ ہو

وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ ۚ

 اور اس کا ایک بھائی اور ایک بہن ہو تو ان دونوں میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ

فرمایا کہ اس کا بھائی یا بہن ہو یعنی ماں زاد، تو ان میں سے ہر ایک کے لئے چھٹا حصہ ہے

فَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ ۚ

 اگر اس سے زیادہ ہوں تو ایک تہائی میں سب شریک ہیں

 اگر زیادہ ہوں تو ایک ثلث میں سب شریک ہیں،

ماں زاد بھائی باقی وارثوں سے کئی وجہ سے مختلف ہیں، ایک تو یہ کہ یہ باوجود اپنے ورثے کے دلانے والے کے بھی وارث ہوتے ہیں مثلاً ماں

 دوسرے یہ کہ ان کے مرد و عورت یعنی بہن بھائی میراث میں برابر ہیں

 تیسرے یہ کہ یہ اسی وقت وارث ہوتے ہیں جبکہ میت كَلَالَة ہو پس باپ دادا کی یعنی پوتے کی موجودگی میں یہ وارث نہیں ہوتے،

چوتھے یہ کہ انہیں ثلث سے زیادہ نہیں ملتا تو گویہ کتنے ہی ہوں مرد ہوں یا عورت،

حضرت عمر ؓکا فیصلہ ہے کہ ماں زاد بہن بھائی کا ورثہ آپس میں اس طرح بٹے گا کہ مرد کیلئے دوہرا اور عورت کے لئے اکہرا،

حضرت زہری فرماتے ہیں حضرت عمرؓ ایسا فیصلہ نہیں کر سکتے تاوقتیکہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہو،

 آیت میں اتنا تو صاف ہے کہ اگر اس سے زیادہ ہوں تو ثلث میں شریک ہیں، اس صورت میں علماء کا اختلاف ہے کہ اگر میت کے وارثوں میں خاوند ہو اور ماں ہو یا دادی ہو اور دو ماں زاد بھائی ہوں اور ایک یا ایک سے زیادہ باپ کی طرف سے بھائی ہوں تو جمہور تو کہتے ہیں کہ اس صورت میں خاوند کو آدھا ملے گا اور ماں یا دادی کو چھٹا حصہ ملے گا اور ماں زاد بھائی کو تہائی ملے گا اور اسی میں سگے بھائی بھی شامل ہوں گے قدر مشترک کے طور پر جو ماں زاد بھائی ہے،

 امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں ایک ایسی ہی صورت پیش آئی تھی تو آپ نے خاوند کو آدھا دلوایا اور ثلث ماں زاد بھائیوں کو دلوایا تو سگے بھائیوں نے بھی اپنے تئیں پیش کیا آپ نے فرمایا تم ان کے ساتھ شریک ہو،

حضرت عثمان ؓسے بھی اسی طرح شریک کر دینا مروی ہے،

اور دو روایتوں میں سے ایک روایت ایسی ہے

 ابن مسعود اور زید بن ثابت اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے بھی مروی ہے، سعید بن مسیب، قاضی شریح، مسروق، طاؤس، محمد بن سیرین، ابراہیم نخعی، عمر بن عبدالعزیز، ثوری اور شریک رحہم اللہ کا قول بھی یہی ہے، امام مالک اور امام شافعی اور امام اسحق بن راھویہ بھی اسی طرف گئے ہیں،

 ہاں حضرت علی ؓ اس میں شرکت کے قائل نہ تھے بلکہ آپ اولاد اُم کو اس حالت میں ثلث دلواتے تھے اور ایک ماں باپ کی اولاد کو کچھ نہیں دلاتے تھے اس لئے کہ یہ عصبہ ہیں اور عصبہ اس وقت پاتے ہیں جب ذوی الفرض سے بچ جائے،

بلکہ وکیع بن جراح کہتے ہیں حضرت علیؓ سے اس کے خلاف مروی ہی نہیں،

حضرت ابی بن کعب حضرت ابو موسیٰ اشعری کا قول بھی یہی ہے، ابن عباسؓ سے بھی مشہور یہی ہے، شعبی، ابن ابی لیلی، ابو حنیفہ، ابو یوسف، محمد بن حسن، حسن بن زیادہ، زفر بن ہذیل، امام احمد، یحییٰ بن آدم، نعیم بن حماد، ابو ثور، داؤد ظاہری بھی اسی طرف گئے ہیں ابوالحسن بن لبان فرضی نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے، ملاحظہ ہو ان کی کتاب الایجاز

مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارٍّ ۚ

اس وصیت کے بعد جو کی جائے اور قرض کے بعد جب کہ اوروں کا نقصان نہ کیا گیا ہو

فرمایا یہ وصیت کے جاری کرنے کے بعد ہے، وصیت ایسی ہو جس میں خلاف عدل نہ ہو کسی کو ضرر اور نقصان نہ پہنچایا گیا ہو نہ کسی پر جبر و ظلم کیا گیا ہو، کسی وارث کا نہ ورثہ مارا گیا ہو نہ کم و بیش کیا گیا ہو، اسکے خلاف وصیت کرنے والا اور ایسی خلاف شرع وصیت میں کوشش کرنے والا اللہ کے حکم اور اسکی شریعت میں اس کے خلاف کرنے والا اور اس سے لڑنے والا ہے

  وصیت میں کسی کو ضرر و نقصان پہنچانا کبیرہ گناہ ہے (ابن ابی حاتم) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

نسائی میں حضرت ابن عباسؓ کا قول بھی اسی طرح مروی ہے

 بعض روایتوں میں حضرت ابن عباسؓ سے اس فرمان کے بعد آیت کے اس ٹکڑے کی تلاوت کرنا بھی مروی ہے،

 امام ابن جریر کے قول کے مطابق ٹھیک بات یہی ہے کہ یہ مرفوع حدیث نہیں موقوف قول ہے،

 آئمہ کرام کا اس میں اختلاف ہے کہ وارث کے لئے جو اقرار میت کر جائے آیا وہ صحیح ہے یا نہیں؟

 بعض کہتے ہیں صحیح نہیں ہے اس لئے کہ اس میں تہمت لگنے کی گنجائش ہے،

 حدیث میں بہ سند صحیح آ چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق پہنچا دیا ہے اب وارث کے لئے کوئی وصیت نہیں،

 مالک احمد بن حنبل ابو حنیفہ کا قول یہی ہے،

 شافعیؒ کا بھی پہلا قول یہی تھا لیکن آخری قول یہ ہے کہ اقرار کرنا صحیح مانا جائے گا

طاؤس حسن عمر بن عبدالعزیز کا قول بھی یہی ہے،

حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ بھی اسی کو پسند کرتے ہیں اور اپنی کتاب صحیح بخاری شریف میں اسی کو ترجیح دیتے ہیں،ان کی دلیل ایک یہ روایت بھی ہے کہ حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وصیت کی کہ فزاریہ نے جس چیز پر اپنے دروازے بند کر رکھے ہوں وہ نہ کھولے جائیں،

حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے پھر فرمایا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں بہ سبب وارثوں کے ساتھ بدگمانی کے اسکا یہ اقرار جائز نہیں، لیکن میں کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا ہے بدگمانی سے بچو بدگمانی تو سب سے زیادہ جھوٹ ہے، قرآن کریم میں فرمان اللہ موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ جس کی جو امانت ہو وہ پہنچا دو، اس وارث اور غیر وارث کی کوئی تخصیص نہیں،

یہ یاد رہے کہ یہ اختلاف اس وقت ہے جب اقرار فی الواقع صحیح ہو اور نفس الامر کے مطابق ہو اور اگر صرف حیلہ سازی ہو اور بعض وارثوں کو زیادہ دینے اور بعض کو کم پہنچانے کے لئے ایک بہانہ بنا لیا ہو تو بالاجماع اسے پورا کرنا حرام ہے اور اس آیت کے صاف الفاظ بھی اس کی حرمت کا فتویٰ دیتے ہیں

اقرار فی الواقع صحیح ہونے کی صورت میں اسکا پورا کرنا ضروری ہے جیسا کہ دوسری جماعت کا قول ہے اور جیسا کہ امام بخاری ؒ کا مذہب ہے مترجم

وَصِيَّةً مِنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ (۱۲)

یہ مقرر کیا ہوا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اللہ تعالیٰ دانا ہے بردبار۔‏

یہ اللہ عزوجل احکام ہیں اللہ عظیم و اعلیٰ علم و حلم والا ہے۔

تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ ۚ

یہ حدیں اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی ہیں

اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرے اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں سے آگے نکل جائے اسے وہ جہنم میں ڈال دے گا جس میں ہمیشہ رہے گا ایسوں کے لئے اہانت کرنے والا عذاب ہے،

 یعنی یہ فرائض اور یہ مقدار جسے اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا ہے اور میت کے وارثوں کو ان کی قرابت کی نزدیکی اور ان کی حاجت کے مطابق جتنا جسے دلوایا ہے یہ سب اللہ کی حدود ہیں تم ان حدوں کو نہ توڑو نہ اس سے آگے بڑھو۔

وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (۱۳)

اور جو اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول ﷺ کی فرمانبرداری کرے گا اسے اللہ تعالیٰ جنتوں میں لے جائے گا

جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔‏

جو شخص اللہ عزوجل کے ان احکام کو مان لے، کوئی حیلہ حوالہ کر کے کسی وارث کو کم بیش دلوانے کی کوشش نہ کرے حکم اللہ اور فریضہ اللہ جوں کا توں بجا لائے اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ اسے ہمیشہ بہنے  والی نہروں کی جنت میں داخل کرے گا،

یہ کامیاب نصیب ور اور مقصد کو پہنچنے والا اور مراد کو پانے والا ہو گا،

وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُهِينٌ (۱۴)

اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کرے اور اس کی مقررہ حدوں سے آگے نکلے اسے وہ جہنم میں ڈال دے گا

جس میں وہ ہمیشہ رہے گا ایسوں کے لئے رسوا کن عذاب ہے۔‏

اور جو اللہ کے کسی حکم کو بدل دے کسی وارث کے ورثے کو کم و بیش کر دے رضائے الہٰی کو پیش نظر نہ رکھے بلکہ اس کے حکم کو رد کر دے اور اس کے خلاف عمل کرے وہ اللہ کی تقسیم کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتا اور اس کے حکم کو عدل نہیں سمجھتا تو ایسا شخص ہمیشہ رہنے والی رسوائی اور اہانت والے درد ناک اور ہیبت ناک عذابوں میں مبتلا رہے گا،

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 ایک شخص ستر سال تک نیکی کے عمل کرتا رہتا ہے پھر وصیت کے وقت ظلم و ستم کرتا ہے اس کا خاتمہ برے عمل پر ہوتا ہے اور وہ جہنمی بن جاتا ہے اور ایک شخص برائی کا عمل ستر سال تک کرتا رہتا ہے پھر اپنی وصیت میں عدل کرتا ہے اور خاتمہ اس کا بہتر ہو جاتا ہے تو جنت میں داخل جاتا ہے،

پھر اس حدیث کے راوی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اس آیت کو پڑھو آیت تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ  سے عَذَابٌ مُهِينٌ تک۔

سنن ابی داؤد کے باب الاضرار فی الوصیتہ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 ایک مرد یا عورت اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں ساٹھ سال تک لگے رہے ہیں پھر موت کے وقت وصیت میں کوئی کمی بیشی کر جاتے ہیں تو ان کے لئے جہنم واجب ہو جاتی ہے

 پھر حضرت ابوہریرہؓ نے آیت مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ سے آخر آیت تک پڑھی

 ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث ہے، امام ترمذی اسے غریب کہتے ہیں،مسند احمد میں یہ حدیث تمام و کمال کے ساتھ موجود ہے۔

وَاللَّاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِسَائِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِنْكُمْ ۖ

تمہاری عورتوں میں سے جو بےحیائی کا کام کریں ان پر اپنے میں سے چار گواہ طلب کرو

ابتدائے اسلام میں یہ حکم تھا کہ جب عادل گواہوں کی سچی گواہی سے کسی عورت کی سیاہ کاری ثابت ہو جائے تو اسے گھر سے باہر نہ نکلنے دیا جائے

فَإِنْ شَهِدُوا فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّى يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلًا (۱۵)

اگر وہ گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں قید رکھو یہاں تک کہ موت ان کی عمریں پوری کر دے یا اللہ تعالیٰ ان کے لئے کوئی اور راستہ نکالے

گھر میں ہی قید کر دیا جائے اور جنم قید یعنی موت سے پہلے اسے چھوڑا نہ جائے، اس فیصلہ کے بعد یہ اور بات ہے کہ اللہ ان کے لئے کوئی اور راستہ پیدا کر دے،

پھر جب دوسری صورت کی سزا تجویز ہوئی تو وہ منسوخ ہو گئی اور یہ حکم بھی منسوخ ہوا،

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں جب تک سورۃ نور کی آیت نہیں اتری تھی زنا کار عورت کے لئے یہی حکم رہا پھر اس آیت میں شادی شدہ کو رجم کرنے یعنی پتھر مار مار کر مار ڈالنے اور بےشادی شدہ کو کوڑے مارنے کا حکم اترا،

عکرمہ ، سعید بن جبیر ، حسن ، عطاء خرسانی ٫ ابو صالح ، قتادہ ، زید بن اسلم اور ضحاک کا بھی یہی قول ہے کہ یہ آیت منسوخ ہے اور اس پر سب کا اتفاق ہے،

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی اترتی تو آپ پر اس کا بڑا اثر ہوتا اور تکلیف محسوس ہوتی اور چہرے کا رنگ بدل جاتا پس اللہ تعالیٰ نے ایک دن اپنے نبی پر وحی نازل فرمائی کیفیت وحی سے نکلے تو آپ ﷺنے فرمایا :

مجھ سے حکم الہٰی لو اللہ تعالیٰ نے سیاہ کار عورتوں کے لئے راستہ نکال دیا ہے اگر شادی شدہ عورت یا شادی شدہ مرد سے اس جرم کا ارتکاب ہو تو ایک سو کوڑے اور پتھروں سے مار ڈالنا اور غیر شادی شدہ ہوں تو ایک سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی (مسلم)

ترمذی وغیرہ میں بھی یہ حدیث الفاظ کچھ تبدیلی کے ساتھ سے مروی ہے، امام ترمذی اسے حسن صحیح کہتے ہیں، اسی طرح ابو داؤد میں بھی،

 ابن مردویہ کی غریب حدیث میں کنوارے اور بیاہے ہوئے کے حکم کے ساتھ ہی یہ بھی ہے کہ دونوں اگر بوڑھے ہوں تو انہیں رجم کر دیا جائے لیکن یہ حدیث غریب ہے،

طبرانی میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 سورۃ نساء کے اترنے کے بعد اب روک رکھنے کا یعنی عورتوں کو گھروں میں قید رکھنے کا حکم نہیں رہا،

 امام احمد کا مذہب اس حدیث کے مطابق یہی ہے کہ زانی شادی شدہ کو کوڑے بھی لگائے جائیں گے اور رجم بھی کیا جائے گا

اور جمہور کہتے ہیں کوڑے نہیں لگیں گے صرف رجم کیا جائے گا اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ماعز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اور غامدیہ عورت کو رجم کیا لیکن کوڑے نہیں مارے،

 اسی طرح دو یہودیوں کو بھی آپ نے رجم کا حکم دیا اور رجم سے پہلے بھی انہیں کوڑے نہیں لگوائے،

پھر جمہور کے اس قول کے مطابق معلوم ہوا کہ انہیں کوڑے لگانے کا حکم منسوخ ہے واللہ اعلم۔

وَاللَّذَانِ يَأْتِيَانِهَا مِنْكُمْ فَآذُوهُمَا ۖ

تم میں سے جو دو افراد ایسا کام کرلیں انہیں ایذا دو

فرمایا اس بےحیائی کے کام کو دو مرد اگر آپس میں کریں انہیں ایذاء پہنچاؤ یعنی برا بھلا کہہ کر شرم و غیرہ دلا کر جوتیاں لگا کر،

یہ حکم بھی اسی طرح پر رہا یہاں تک کہ اسے بھی اللہ تعالیٰ نے کوڑے اور رجم سے منسوخ فرمایا،

حضرت عکرمہ عطاء حسن عبداللہ بن کثیر فرماتے ہیں اس سے مراد بھی مرد و عورت ہیں،

سدی فرماتے ہیں مراد وہ نوجوان مرد ہیں جو شادی شدہ نہ ہوں

مجاہد فرماتے ہیں لواطت کے بارے میں یہ آیت ہے،

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :

جسے تم لوطی فعل کرتے دیکھو تو فاعل مفعول دونوں کو قتل کر ڈالو،

فَإِنْ تَابَا وَأَصْلَحَا فَأَعْرِضُوا عَنْهُمَا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ تَوَّابًا رَحِيمًا (۱۶)

اگر وہ توبہ اور اصلاح کرلیں تو ان سے منہ پھیر لو بیشک اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا ہے اور رحم کرنے والا ہے۔‏

 ہاں اگر یہ دونوں باز آجائیں اپنی بدکاری سے توبہ کریں اپنے اعمال کی اصلاح کر لیں اور ٹھیک ٹھاک ہو جائیں تو اب انکے ساتھ درشت کلامی اور سختی سے پیش نہ آؤ، اس لئے کہ گناہ سے توبہ کر لینے والا مثل گناہ نہ کرنے والے کے ہے۔ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا اور درگزر کرنے والا ہے،

بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 اگر کسی کی لونڈی بدکاری کرے تو اس کا مالک اسے حد لگا دے اور ڈانٹ ڈپٹ نہ کرے، یعنی حد لگ جانے کے بعد پھر اسے عار نہ دلایا کرے کیونکہ حد کفارہ ہے۔

إِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَى اللَّهِ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ يَتُوبُونَ مِنْ قَرِيبٍ

اللہ تعالیٰ انہی لوگوں کی توبہ قبول فرماتا ہے جو بوجہ نادانی کوئی برائی کر گزریں پھر جلد اس سے باز آجائیں اور توبہ کریں

مطلب یہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے ان بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے جو ناواقفیت کی وجہ سے کوئی برا کام کر بیٹھیں پھر توبہ کر لیں گو یہ توبہ فرشتہ موت کو دیکھ لینے کے بعد عالم نزع سے پہلے ہو،

مجاہد فرماتے ہیں جو بھی قصداً یا غلطی سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرے وہ جاہل ہے جب تک کہ اس سے باز نہ آ جائے۔

 ابو العالیہ فرماتے ہیں صحابہ کرامؓ فرمایا کرتے تھے کہ بندہ جو گناہ کرے وہ جہالت ہے،

قتادہ بھی صحابہ کے مجمع سے اس طرح کی روایت کرتے ہیں عطاء اور حضرت ابن عباسؓ سے بھی اسی طرح مروی ہے۔

 توبہ جلدی کر لینے کی تفسیر میں منقول ہے:

 ملک الموت کو دیکھ لینے سے پہلے، عالم سکرات کے قریب مراد ہے، اپنی صحت میں توبہ کر لینی چاہئے، غر غرے کے وقت سے پہلے کی توبہ قبول ہے،

حضرت عکرمہ فرماتے ہیں ساری دنیا قریب ہی ہے،

اس کے متعلق حدیثیں

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے جب تک سانسوں کا ٹوٹنا شروع نہ ہو، (ترمذی)

جو بھی مؤمن بندہ اپنی موت سے مہینہ بھر پہلے توبہ کر لے اس کی توبہ اللہ تعالیٰ قبول فرما لیتا ہے یہاں تک کہ اس کے بعد بھی بلکہ موت سے ایک دن پہلے تک بھی بلکہ ایک سانس پہلے بھی جو بھی اخلاص اور سچائی کے ساتھ اپنے رب کی طرف جھکے اللہ تعالیٰ اسے قبول فرماتا ہے،

حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں  کہ جو اپنی موت سے ایک سال پہلے توبہ کرے اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے اور جو مہینہ بھر پہلے توبہ کرے اللہ تعالیٰ اس کی توبہ بھی قبول فرماتا ہے اور جو ہفتہ بھر پہلے توبہ کرے اللہ تعالیٰ اس کی توبہ بھی قبول فرماتا ہے اور جو ایک دن پہلے توبہ کرے اللہ تعالیٰ اس کی توبہ بھی قبول فرماتا ہے،

یہ سن کر حضرت ایوب نے یہ آیت پڑھی تو آپ نے فرمایا وہی کہتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے

مسند احمد میں ہے:

چار صحابی جمع ہوئے ان میں سے ایک نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے جو شخص اپنی موت سے ایک دن پہلے بھی توبہ کر لے اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے،

 دوسرے نے پوچھا کیا سچ مچ تم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے ہی سنا ہے؟ اس نے کہا ہاں تو دوسرے نے کہا کہ میں نے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے  سنا ہے کہ کہ اگر آدھا دن پہلے بھی توبہ کر لے تو بھی اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے۔

تیسرے نے کہا تم نے یہ سنا ہے؟

 اس نے کہا ہاں، اس نے کہا میں نےخود سنا ہے۔ کہا میں نے سنا ہے کہ اگر ایک پہر پہلے توبہ نصیب ہو جائے تو وہ بھی قبول ہوتی ہے۔

چوتھے نے کہا تم نے یہ سنا ہے؟

 اس نے کہا ہاں۔ کہا میں نے تو  تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہاں تک سنا ہے کہ جب تک اس کے نرخرے میں روح نہ آ جائے توبہ کے دروازے اس کے لئے بھی کھلے رہتے ہیں،

 ابن مردویہ میں مروی ہے کہ جب تک جان نکلتے ہوئے گلے سے نکلنے والی آواز شروع نہ ہو تب تک توبہ قبول ہے،

 کئی ایک مرسل احادیث میں بھی یہ مضمون ہے،

حضرت ابو قلابہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جب ابلیس پر لعنت نازل فرمائی تو اس نے مہلت طلب کی اور کہا تیری عزت اور تیرے جلال کی قسم کہ ابن آدم کے جسم میں جب تک روح رہے گی میں اس کے دل سے نہ نکلوں گا،

اللہ تعالیٰ عزوجل نے فرمایا مجھے اپنی عزت اور اپنے جلال کی قسم کہ میں بھی جب تک اس میں روح رہے گی اس کی توبہ قبول کروں گا،

 ایک مرفوع حدیث میں بھی اس کے قریب قریب مروی ہے

فَأُولَئِكَ يَتُوبُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا (۱۷)

تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی توبہ قبول کرتا ہے اللہ تعالیٰ بڑے علم والا حکمت والا ہے۔

پس ان تمام احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک بندہ زندہ ہے اور اسے اپنی حیاتی کی امید ہے تب تک وہ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکے توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے اور اس پر رجوع کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس علیم و حکیم ہے،

 ہاں جب زندگی سے مایوس ہو جائے فرشتوں کو دیکھ لے اور روح بدن سے نکل کر حلق تک پہنچ جائے سینے میں گھٹن لگے حلق میں اٹکے سانسوں سے غرغرہ شروع ہو تو اس کی توبہ قبول نہیں ہوتی۔ اسی لئے اس کے بعد فرمایا کہ

وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ حَتَّى إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّي تُبْتُ الْآنَ

ان کی توبہ نہیں جو برائیاں کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آجائے تو کہہ دے کہ میں نے اب توبہ کی

مرتے دم تک جو گناہوں پر اڑا رہے اور موت دیکھ کر کہنے لگے کہ اب میں توبہ کرتا ہوں تو ایسے شخص کی توبہ قبول نہیں ہوتی،

جیسے اور جگہ ہے:

فَلَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا قَالُوا آمَنَّا بِاللَّهِ ۔۔۔ فَلَمْ يَكُ يَنْفَعُهُمْ إِيمَانُهُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا (۴۰:۸۴،۸۵)

 ہمارا عذاب دیکھتے ہی کہنے لگے کہ اللہ واحد پر ہم ایمان لائے اور جن جن کو ہم شریک بنا رہے تھے ہم نے ان سب سے انکار کیا۔‏ لیکن ہمارے عذاب کو دیکھ لینے کے بعد ان کے ایمان نے انہیں نفع نہ دیا۔

اور جگہ ہے:

يَوْمَ يَأْتِى بَعْضُ ءَايَـتِ رَبِّكَ ۔۔۔ مِن قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ فِى إِيمَـنِهَا خَيْرًا (۶:۱۵۸)

جس روز آپ کے رب کی کوئی بڑی نشانی آپہنچے گی کسی ایسے شخص کا ایمان اس کے کام نہیں آئے گا جو پہلے سے ایمان نہیں رکھتا یا اس نے اپنے ایمان میں کوئی نیک عمل نہ کیا ہو

وَلَا الَّذِينَ يَمُوتُونَ وَهُمْ كُفَّارٌ ۚ

اور ان کی توبہ بھی قبول نہیں جو کفر پر ہی مر جائیں

اللہ  فرماتا ہے کہ کفر و شرک پر مرنے والے کو بھی ندامت و توبہ کوئی فائدہ نہ دے گی نہ ہی اس فدیہ اور بدلہ قبول کیا جائے گا چاہے زمین بھر کر سونا دینا چاہئے

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں یہ آیت اہل شرک کے بارے میں نازل ہوئی ہے،

مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور اسے بخش دیتا ہے جب تک پردہ نہ پڑ جائے

پوچھا گیا پردہ پڑنے سے کیا مطلب ہے؟

 فرمایا شرک کی حالت میں جان نکل جانا۔

أُولَئِكَ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا (۱۸)

یہی لوگ ہیں جن کے لئے ہم نے المناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔‏

 ایسے لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے سخت درد ناک المناک ہمیشہ رہنے والے عذاب تیار کر رکھے ہیں۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا ۖ

ایمان والو! تمہیں حلال نہیں کہ زبردستی عورتوں کو ورثے میں لے بیٹھو

صحیح بخاری میں ہے حضرت ابن عباسؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :

 قبل اسلام جب کوئی شخص مر جاتا ہے تو اسکے وارث اس کی عورت کے پورے حقدار سمجھے جاتے اگر ان میں سے کوئی چاہتا تو اپنے نکاح میں لے لیتا اگر وہ چاہتے تو دوسرے کسی کے نکاح میں دے دیتے اگر چاہتے تو نکاح ہی نہ کرنے دیتے میکے والوں سے زیادہ اس عورت کے حقدار سسرال والے ہی گنے جاتے تھے اس رسم کے خلاف یہ آیت نازل ہوئی،

دوسری روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ وہ لوگ اس عورت کو مجبور کرتے کہ وہ مہر کے حق سے دست بردار ہو جائے یا یونہی بےنکاحی بیٹھی رہے،

 یہ بھی مروی ہے کہ اس عورت کا خاوند مرتے ہی کوئی بھی آ کر اس پر اپنا کپڑا ڈال دیتا اور وہی اس کا مختار سمجھا جاتا، تو روایت میں ہے کہ یہ کپڑا ڈالنے والا اسے حسین پاتا تو اپنے نکاح میں لے لیتا اگر یہ بدصورت ہوتی تو اسے یونہی روکے رکھتا یہاں تک کہ مر جائے پھر اس کے مال کا وارث بنتا۔

یہ بھی مروی ہے کہ مرنے والے کا کوئی گہرا دوست کپڑا ڈال دیتا پھر اگر وہ عورت کچھ فدیہ اور بدلہ دے تو وہ اسے نکاح کرنے کی اجازت دیتا ورنہ یونہی مر جاتی

حضرت زید بن اسلم فرماتے ہیں اہل مدینہ کا یہ دستور تھا کہ وارث اس عورت کے بھی وارث بن جاتے

غرض یہ لوگ عورتوں کے ساتھ بڑے بری طرح پیش آتے تھے یہاں تک کہ طلاق دیتے وقت بھی شرط کر لیتے تھے کہ جہاں میں چاہوں تیرا نکاح ہو اس طرح کی قید و بند سے رہائی پانے کی پھر یہ صورت ہوتی کہ وہ عورت کچھ دے کر جان چھڑاتی، اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں کو اس سے منع فرما دیا،

ابن مردویہ میں ہے کہ جب ابو قیس بن اسلت کا انتقال ہوا تو ان کے بیٹے نے ان کی بیوی سے نکاح کرنا چاہا جیسے کہ جاہلیت میں یہ دستور تھا اس پر یہ آیت نازل ہوئی

حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ کسی بچے کی سنبھال پر اسے لگا دیتے تھے

حضرت مجاہد فرماتے ہیں جب کوئی مر جاتا تو اس کا لڑکا اس کی بیوی کا زیادہ حقدار سمجھا جاتا اگر چاہتا خود اپنی سوتیلی ماں سے نکاح کر لیتا اور اگر چاہتا دوسرے کے نکاح میں دے دیتا مثلاً بھائی کے بھتیجے یا جس کو چاہے،

حضرت عکرمہ کی روایت میں ہے کہ ابو قیس کی جس بیوی کا نام کبینہ رضی اللہ عنہا تھا اس نے اس صورت کی خبر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دی کہ یہ لوگ نہ مجھے وارثوں میں شمار کر کے میرے خاوند کا ورثہ دیتے ہیں نہ مجھے چھوڑتے ہیں کہ میں اور کہیں اپنا نکاح کر لوں اس پر یہ آیت نازل ہوئی،

ایک روایت میں ہے کہ کپڑا ڈالنے کی رسم سے پہلے ہی اگر کوئی عورت بھاگ کھڑی ہو اور اپنے میکے آجائے تو وہ چھوٹ جاتی تھی،

حضرت مجاہد فرماتے ہیں جو یتیم بچی ان کی ولایت میں ہوتی اسے یہ روکے رکھتے تھے اس امید پر کہ جب ہماری بیوی مر جائے گی ہم اس سے نکاح کر لیں گے یا اپنے لڑکے سے اس کا نکاح کرا دیں گے،

ان سب اقوال سے معلوم ہوا کہ ان تمام صورتوں کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ممانعت کر دی اور عورتوں کی جان اس مصیبت سے چھڑا دی واللہ اعلم ۔

وَلَا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ

انہیں اسلئے روک نہ رکھو کہ جو تم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے کچھ لے لو

ارشاد ہے عورتوں کی بود و باش میں انہیں تنگ کر کے تکلیف دے کر مجبور نہ کرو کہ وہ اپنا سارا مہر چھوڑ دیں یا اس میں سے کچھ چھوڑ دیں یا اپنے کسی اور واجبی حق وغیرہ سے دست بردار ہونے پر آمادہ ہو جائیں کیونکہ انہیں ستایا اور مجبور کیا جا رہا ہے،

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں :

مطلب یہ ہے کہ عورت ناپسند ہے دل نہیں ملا چھوڑ دینا چاہتا ہے تو اس صورت میں حق مہر کے علاوہ بھی تمام حقوق دینے پڑیں گے اس صورت حال سے بچنے کے لئے اسے ستانا یا طرح طرح سے تنگ کرنا تا کہ وہ خود اپنے حقوق چھوڑ کر چلے جانے پر آمادہ ہو جائے ایسا رویہ اختیار کرنے سے قرآن پاک نے مسلمانوں کو روک دیا

ابن سلمانی فرماتے ہیں ان دونوں آیتوں میں سے پہلی آیت امر جاہلیت کو ختم کرنے اور دوسری امر اسلام کی اصلاح کے لئے نازل ہوئی، ابن مبارک بھی یہی فرماتے ہیں۔

جیسے سورۃ بقرہ کی آیت میں ہے:

وَلاَ يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَأْخُذُواْ مِمَّآ ءَاتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلاَّ أَن يَخَافَآ أَلاَّ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ (۲:۲۲۹)

 اور تمہیں حلال نہیں تم نے انہیں جو دیا ہے اس میں سے کچھ بھی لو، ہاں یہ اور بات ہے کہ دونوں کو اللہ کی حدیں قائم نہ رکھ سکنے کا خوف ہو

إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ ۚ

ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کوئی کھلی برائی اور بےحیائی کریں

بعض بزرگوں نے فرمایا ہے فَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ سے مراد خاوند کے خلاف کام کرنا اس کی نافرمانی کرنا بد زبانی کج خلقی کرنا حقوق زوجیت اچھی طرح ادا نہ کرنا وغیرہ ہے،

 امام ابن جریر فرماتے ہیں آیت کے الفاظ عام ہیں زنا کو اور تمام مذکورہ عوامل بھی شامل ہیں یعنی ان تمام صورتوں میں خاوند کو مباح ہے کہ اسے تنگ کرے تا کہ وہ اپنا کل حق یا تھوڑا حق چھوڑ دے اور پھر یہ اسے الگ کر دے

 امام صاحب کا یہ فرمان بہت ہی مناسب ہے واللہ اعلم،

 یہ روایت بھی پہلے گزر چکی ہے کہ یہاں اس آیت کے اترنے کا سبب وہی جاہلیت کی رسم ہے جس سے اللہ نے منع فرما دیا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پورا بیان جاہلیت کی رسم کو اسلام میں سے خارج کرنے کے لئے ہوا ہے،

مگر اس صورت میں کہ ان سے کھلی بےحیائی کا کام صادر ہو جائے،اس سے مراد بقول اکثر مفسرین صحابہ تابعین وغیرہ زنا کاری ہے،یعنی اس صورت میں جائز ہے کہ اس سے مہر لوٹا لینا چاہئے اور اسے تنگ کرے تا کہ خلع پر رضامند ہو،

ابن زید فرماتے ہیں مکہ کے قریش میں یہ رواج تھا کہ کسی شخص نے کسی شریف عورت سے نکاح کیا موافقت نہ ہوئی تو اسے طلاق دے دی لیکن یہ شرط کر لیتا تھا کہ بغیر اس کی اجازت کے یہ دوسری جگہ نکاح نہیں کر سکتی اس بات پر گواہ مقرر ہو جاتے اور اقرار نامہ لکھ لیا جاتا اب اگر کہیں سے پیغام آئے اور وہ عورت راضی ہو تو یہ کہتا مجھے اتنی رقم دے تو میں تجھے نکاح کی اجازت دوں گا اگر وہ ادا کر دیتی تو تو خیر ورنہ یونہی اسے قید رکھتا اور دوسرا نکاح نہ کرنے دیتا اس کی ممانعت اس آیت میں نازل ہوئی،

بقول مجاہد رحمتہ اللہ علیہ یہ حکم اور سورۃ بقرہ کی آیت کا حکم دونوں ایک ہی ہیں۔

وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ

ان کے ساتھ اچھے طریقے سے بودوباش رکھو

فرمایا عورتوں کے ساتھ خوش سلوکی کا رویہ رکھو ان کے ساتھ اچھا برتاؤ برتو، نرم بات کہو نیک سلوک کرو اپنی حالت بھی اپنی طاقت کے مطابق اچھی رکھو، جیسے تم چاہتے ہو کہ وہ تمہارے لئے بنی سنوری ہوئی اچھی حالت میں رہے تم خود اپنی حالت بھی اچھی رکھو جیسے اور جگہ فرمایا :

وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِى عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ (۲:۲۲۸)

اور عورتوں کو بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان پر مردوں کے ہیں اچھائی کے ساتھ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :

تم سب سے بہتر شخص وہ ہے جو اپنی گھر والی کے ساتھ بہتر سے بہتر سلوک کرنے والا ہو میں اپنی بیویوں سے بہت اچھا رویہ رکھتا ہوں،

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے ساتھ بہت لطف و خوشی بہت نرم اخلاقی اور خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے، انہیں خوش رکھتے تھے ان سے ہنسی دل لگی کی باتیں کیا کرتے تھے، ان کے دل اپنی مٹھی میں رکھتے تھے، انہیں اچھی طرح کھانے پینے کو دیتے تھے کشادہ دلی کے ساتھ ان پر خرچ کرتے تھے ایسی خوش طبعی کی باتیں بیان فرماتے جن سے وہ ہنس دیتیں،ایسا بھی ہوا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کے ساتھ آپ نے دوڑ لگائی اس دوڑ میں عائشہ صدیقہؓ آگے نکل گئیں کچھ مدت بعد پھر دوڑ لگی اب کے حضرت عائشہ پیچھے رہ گئیں تو آپ ﷺنے فرمایا معاملہ برابر ہو گیا، اس سے بھی آپ کا مطلب یہ تھا کہ حضرت صدیقہؓ خوش رہیں ان کا دل بہلے

 جس بیوی صاحبہ کے ہاں آپ کو رات گزارنی ہوتی وہیں آپ کی کل بیویاں جمع ہو جاتیں دو گھڑی بیٹھتیں بات چیت ہوتی

کبھی ایسا بھی ہوتا کہ ان سب کے ساتھ ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم رات کا کھانا تناول فرماتے پھر سب اپنے اپنے گھر چلی جاتیں اور آپ وہیں آرام فرماتے جن کی باری ہوتی، اپنی بیوی صاحبہ کے ساتھ ایک ہی چادر میں سوتے کرتا نکال ڈالتے صرف تہبند بندھا ہوا ہوتا عشاء کی نماز کے بعد گھر جا کر دو گھڑی ادھر ادھر کی کچھ باتیں کرتے جس سے گھر والیوں کا جی خوش ہوتا الغرض نہایت ہی محبت پیار کے ساتھ اپنی بیویوں کو آپ رکھتے تھے۔ صلی اللہ علیہ وسلم

پس مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ اپنی بیویوں کے ساتھ اچھی طرح راضی خوشی محبت پیار سے رہیں،

 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فرماں برداری کا دوسرا نام اچھائی ہے،

 اس کے تفصیلی احکام کی جگہ تفسیر نہیں بلکہ اسی مضمون کی کتابیں ہیں والحمد للہ

فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا (۱۹)

گو تم انہیں ناپسند کرو لیکن بہت ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو برا جانو اور اللہ تعالیٰ اس میں بہت بھلائی کر دے۔

پھر فرماتا ہے کہ باوجود جی نہ چاہنے کے بھی عورتوں سے اچھی بود و باش رکھنے میں بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ بہت بڑی بھلائی عطا فرمائے، ممکن ہے نیک اولاد ہو جائے اور اس سے اللہ تعالیٰ بہت سی بھلائیاں نصیب کرے،

صحیح حدیث میں ہے:

مؤمن مرد مؤمنہ عورت کو الگ نہ کرے اگر اس کی ایک آدھ بات سے ناراض ہو گا تو ایک آدھ خصلت اچھی بھی ہو گی۔

وَإِنْ أَرَدْتُمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَكَانَ زَوْجٍ وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا ۚ

اور اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی کرنا ہی چاہو اور ان میں کسی کو تم نے خزانے کا خزانہ دے رکھا ہو تو بھی اس میں سے کچھ نہ لو

پھر فرماتا ہے کہ جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہے اور اس کی جگہ دوسری عورت سے نکاح کرنا چاہے تو اسے دئیے ہوئے مہر میں سے کچھ بھی واپس نہ لے چاہے خزانہ کا خزانہ دیا ہوا ہو۔

حق مہر کے مسائل

سورۃ آل عمران کی تفسیر میں قِنْطَار کا پورا بیان گزر چکا ہے اس لئے یہاں دوبارہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں،

 اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مہر میں بہت سارا مال دینا بھی جائز ہے، امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق نے پہلے بہت لمبے چوڑے مہر سے منع فرما دیا تھا پھر اپنے قول سے رجوع کیا، جیسے کہ مسند احمد میں ہے :

 آپ نے فرمایا عورتوں کے مہر باندھنے میں زیادتی نہ کرو اگر یہ دنیوی طور پر کوئی بھی چیز ہوتی یا اللہ کے نزدیک یہ تقویٰ کی چیز ہوتی تو تم سب سے پہلے اس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم عمل کرتے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی بیوی کا یا کسی بیٹی کا مہر بارہ اوقیہ سے زیادہ مقرر نہیں کیا (تقریباً سوا سو روپیہ) انسان زیادہ مہر باندھ کر پھر مصیبت میں پڑ جاتا ہے یہاں تک کہ رفتہ رفتہ اس کی بیوی اسے بوجھ معلوم ہونے لگتی ہے اور اس کے دل میں اس کی دشمنی بیٹھ جاتی ہے اور کہنے لگتا ہے کہ تو نے تو میرے کندھے پر مشک لٹکا دی،

یہ حدیث بہت سی کتابوں میں مختلف الفاظ سے مروی ہے ایک میں ہے کہ آپ نے منبر نبوی پر کھڑے ہو کر فرمایا

لوگو تم نے کیوں لمبے چوڑے مہر باندھنے شروع کر دئیے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے زمانہ کے آپ کے اصحاب نے تو چار سو درہم (تقریباً سو روپیہ) مہر باندھا ہے اگر یہ تقویٰ اور کرامت کا سبب ہوتا تو تم زیادہ حق مہر ادا کرنے میں بھی ان پر سبقت نہیں لے سکتے تھے خبردار آج سے میں نہ سنوں کہ کسی نے چار سو درہم سے زیادہ کا مہر مقرر کیا یہ فرما کر آپ نیچے اتر آئے تو ایک قریشی خاتون سامنے آئیں اور کہنے لگیں امیر المؤمنین کیا آپ نے چار سو درہم سے زیادہ کے حق مہر سے لوگوں کو منع فرما دیا ہے۔

 آپ نے فرمایا ہاں

کہا کیا آپ نے اللہ کا کلام جو اس نے نازل فرمایا ہے نہیں سنا؟

 کہا وہ کیا ؟

کہا سنئے اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا تم نے انہیں خزانہ دیا ہو ؟

حضرت عمرؓنے فرمایا اللہ مجھے معاف فرما عمر سے تو ہر شخص زیادہ سمجھدار ہے پھر واپس اسی وقت منبر پر کھڑے ہو کر لوگوں سے فرمایا لوگو میں نے تمہیں چار سو درہم سے زیادہ کے مہر سے روک دیا تھا لیکن اب کہتا ہوں جو شخص اپنے مال میں سے مہر میں جتنا چاہے دے اپنی خوشی سے جتنا مہر مقرر کرنا چاہے کرے میں نہیں روکتا،

اور ایک روایت میں اس عورت کا آیت کو اس طرح پڑھنا مروی ہے آیت وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا مِن ذھب حضرت عبداللہ بن مسعود کی قرأت میں بھی اسی طرح ہے اور حضرت عمر کا یہ فرمانا بھی مروی ہے کہ ایک عورت عمر پر غالب آ گئی

 اور روایت میں ہے:

 آپ نے فرمایا تھا گو ذی القصہیعنی یزیدین حصین حارثی کی بیٹی ہو پھر بھی مہر اس کا زیادہ مقرر نہ کرو اور اگر تم نے ایسا کیا تو وہ زائد رقم میں بیت المال کے لئے لے لوں گا اس پر ایک دراز قد چوڑی ناک والی عورت نے کہا حضرت آپ یہ حکم نہیں دے سکتے۔

أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا (۲۰)

کیا تم اسے ناحق اور کھلا گناہ ہوتے ہوئے بھی لے لو گے تم اسے کیسے لے لو گے۔‏

پھر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ تم اپنی بیوی کو دیا ہوا حق مہر واپس کیسے لے سکتے ہو؟

وَكَيْفَ تَأْخُذُونَهُ وَقَدْ أَفْضَى بَعْضُكُمْ إِلَى بَعْضٍ وَأَخَذْنَ مِنْكُمْ مِيثَاقًا غَلِيظًا (۲۱)

حالانکہ تم ایک دوسرے کو مل چکے ہو اور ان عورتوں نے تم سے مضبوط عہد و پیمان لے رکھا ہے ۔

جبکہ تم نے اس سے فائدہ اٹھایا یا ضرورت پوری کی وہ تم سے اور تم اس سے مل گئی یعنی میاں بیوی کے تعلقات بھی قائم ہو گئے، بخاری و مسلم کی اس حدیث میں ہے:

 ایک شخص نے اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگایا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوا۔ بیوی نے بھی اپنے بےگناہ ہونے شوہر نے اپنے سچا ہونے کی قسم کھائی پھر ان دونوں کا قسمیں کھانا اور اس کے بعد آپ کا یہ فرمان کہ اللہ تعالیٰ کو بخوبی علم ہے کہ تم دونوں میں سے کون جھوٹا ہے؟ کیا تم میں سے کوئی اب بھی توبہ کرتا ہے؟ تین دفعہ فرمایا

 تو اس مرد نے کہا میں نے جو مال اس کے مہر میں دیا ہے اس کی بابت کیا فرماتے ہیں؟

 آپ ﷺنے فرمایا اسی کے بدلے تو یہ تیرے لئے حلال ہوئی تھیں اب اگر تو نے اس پر جھوٹی تہمت لگائی ہے تو پھر اور ناممکن بات ہو گئی

اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ حضرت نفرہ نے ایک کنواری لڑکی سے نکاح کیا جب اس سے ملے تو دیکھا کہ اسے زنا کا حمل ہےحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا آپ نے اسے الگ کرا دیا اور مہر دلوا دیا اور عورت کو کوڑے مارنے کا حکم دیا اور فرمایا جو بچہ ہوگا وہ تیرا غلام ہوگا اور مہر تو اس کی حلت کا سبب تھا (ابوداؤد)

غرض آیت کا مطلب بھی یہی ہے کہ دونوں میاں بیوی میں خلوت و صحبت ہو چکی ہے پھر مہر واپس لینا کیا معنی رکھتا ہے۔

پھر فرمایا کہ عقد نکاح جو مضبوط عہد و پیمان ہے اس میں تم جکڑے جا چکے ہو’ اللہ کا یہ فرمان تم سن چکے کہ بساؤ تو اچھی طرح اور الگ کرو تو عمدہ طریقہ سے چنانچہ ایک حدیث میں بھی ہے :

 تم ان عورتوں کو اللہ تعالیٰ کی امانت سے لیتے ہو اور ان کو اپنے لئے اللہ تعالیٰ کے کلمہ سے حلال کرتے ہو یعنی خطبہ نکاح کے تشہد سے۔

رسول اللہ ﷺکو معراج والی رات جو بہترین انعامات عطا ہوئے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ آپ ﷺ سے فرمایا گیا تیری اُمت کا کوئی خطبہ جائز نہیں جب تک وہ اس امر کی گواہی نہ دیں کہ تو میرا بندہ اور میرا رسول ہے۔ ابن ابی حاتم

صحیح مسلم میں حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے حجۃالوداع کے خطبہ میں فرمایا ہے تم نے عورتوں کو اللہ تعالیٰ کی امانت سے لیا ہے اور انہیں اللہ تعالیٰ کے کلمے سے اپنے لئے حلال کیا ہے۔

وَلَا تَنْكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُمْ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ ۚ

اور ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمہارے باپوں نے نکاح کیا ہے مگر جو گزر چکا ہے

اللہ تعالیٰ سوتیلی ماں کی حرمت بیان فرماتا ہے اور ان کی تعظیم و توقیر ظاہر کرتا ہے یہاں تک کہ باپ نے کسی عورت سے صرف نکاح کیا ابھی وہ رخصت ہو کر بھی نہیں آئی جو طلاق ہو گئی یا باپ مر گیا توبھی وہ عورت اس کے بیٹے پر حرام ہو جاتی ہے اس پر اجماع ہے،

حضرت ابو قیسؓ جو بڑے بزرگ اور نیک انصاری صحابی تھے ان کے انتقال کے بعد ان کے لڑکے قیس نے ان کی بیوی سے نکاح کی خواہش کی جو ان کی سوتیلی ماں تھیں اس پر اس بیوی صاحبہ نے فرمایا بیشک تو اپنی قوم میں نیک ہے لیکن میں تو تجھے اپنا بیٹا شمار کرتی ہوں خیر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاتی ہوں جو وہ حکم فرمائیں وہ حاضر ہوئیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری کیفیت بیان کی آپ ﷺنے فرمایا اپنے گھر لوٹ جاؤ پھر یہ آیت اتری کہ جس سے باپ نے نکاح کیا اس سے بیٹے کا نکاح حرام ہے،

 ایسے واقعات اور بھی اس وقت موجود تھے جنہیں اس ارادے سے باز رکھا گیا ایک تو یہی ابو قیس والا واقعہ ان بیوی صاحبہ کا نام ام عبید اللہ ضمرہ تھادوسرا واقعہ خلف کا تھا ان کے گھر میں ابو طلحہ کی صاحبزادی تھیں اس کے انتقال کے بعد اس کے لڑکے صفوان نے اسے اپنے نکاح میں لانا چاہا تھا

سہیلی میں لکھا ہے جاہلیت میں اس نکاح کا معمول تھا جسے باقاعدہ نکاح سمجھا جاتا تھا اور بالکل حلال گنا جاتا تھا اسی لئے یہاں بھی فرمایا گیا کہ جو پہلے گزر چکا سو گزر چکا، جیسے دو بہنوں کو نکاح میں جمع کرنے کی حرمت کو بیان فرما کر بھی یہی کہا گیا

کنانہ بن خزیمہ نے اپنے باپ کی بیوی سے نکاح کیا تھا نصر اسی کے بطن سے پیدا ہوا تھا

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ میری اوپر کی نسل بھی باقاعدہ نکاح سے ہی ہے نہ کہ زنا سے تو معلوم ہوا کہ یہ رسم ان میں برابر جاری تھی اور جائز تھی اور اسے نکاح شمار کرتے تھے،

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں:

 جاہلیت والے بھی جن جن رشتوں کو اللہ نے حرام کیا ہے، سوتیلی ماں اور دو بہنوں کو ایک ساتھ نکاح میں رکھنے کے سوا سب کو حرام ہی جانتے تھے پس اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں ان دونوں رشتوں کو بھی حرام ٹھہرایا

حضرت عطا اور حضرت قتادہ بھی یہی فرماتے ہیں

 یاد رہے کہ سہیلی نے کنانہ کا جو واقعہ نقل کیا ہے وہ غور طلب ہے بالکل صحیح نہیں، واللہ اعلم۔

إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَمَقْتًا وَسَاءَ سَبِيلًا (۲۲)

یہ بےحیائی کا کام اور بغض کا سبب ہے اور بڑی بری راہ ہے۔‏

بہر صورت یہ رشتہ اُمت مسلمہ پر حرام ہے اور نہایت قبیح امر ہے۔ یہاں تک کہ فرمایا یہ نہایت فحش برا کام بغض کا ہے۔

اور جگہ فرما ن ہے:

وَلاَ تَقْرَبُواْ الْفَوَحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ (۶:۱۵۱)

کسی برائی بےحیائی اور فحش کام کے قریب بھی نہ جاؤ یا وہ بالکل ظاہر ہو خواہ پوشیدہ ہو

 اور فرمان ہے:

وَلاَ تَقْرَبُواْ الزِّنَى إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَآءَ سَبِيلاً (۱۷:۳۲)

زنا کے قریب نہ جاؤ یقیناً وہ فحش کام اور بری راہ ہے

یہاں مزید فرمایا کہ یہ کام بڑے بغض کا بھی ہے یعنی فی نفسہ بھی بڑا برا امر ہے اس سے باپ بیٹے میں عداوت پڑ جاتی ہے اور دشمنی قائم ہو جاتی ہے، یہی مشاہدہ میں آیا ہے اور عموماً یہ بھی دیکھا  گیا ہے کہ جو شخص کسی عورت سے دوسرا نکاح کرتا ہے وہ اس کے پہلے خاوند سے بغض ہی رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں امہات المؤمنین قرار دی گئیں اور اُمت پر مثل ماں کے حرام کی گئیں کیونکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں ہیں اور آپ مثل باپ کے ہیں، بلکہ اجماعاً ثابت ہے کہ آپ کے حق باپ دادا کے حقوق سے بھی بہت زیادہ اور بہت بڑے ہیں بلکہ آپ کی محبت خود اپنی جانوں کی محبت پر بھی مقدم ہے صلوات اللہ وسلامہ علیہ

یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ کام اللہ کے بغض کا موجب ہے اور برا راستہ ہے اب جو ایسا کام کرے وہ دین سے مرتد ہے اسے قتل کر دیا جائے اور اس کا مال بیت المال میں بطور فے کے داخل کر لیا جائے،

سنن اور مسند احمد میں مروی ہے کہ ایک صحابی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کی طرف بھیجا جس نے اپنے باپ کی بیوی سے باپ کے بعد نکاح کیا تھا کہ اسے قتل کر ڈالو اور اس کے مال پر قبضہ کر لو،

حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں کہ میرے چچا حارث بن عمیر اپنے ہاتھ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دیا ہوا جھنڈا لے کر میرے پاس سے گزرے میں نے پوچھا کہ چچا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو کہاں بھیجا ہے؟

 فرمایا اس شخص کی طرف جس نے اپنے باپ کی بیوی سے نکاح کیا ہے مجھے حکم ہے کہ میں اس کی گردن ماروں (مسند احمد)

مسئلہ

 اس پر تو علماء کا اجماع ہے کہ جس عورت سے باپ نے مباشرت کر لی خواہ نکاح کر کے خواہ ملکیت میں لا کر خواہ شبہ سے وہ عورت بیٹے پر حرام ہے، ہاں اگر جماع نہ ہوا ہو تو صرف مباشرت ہوئی ہو یا وہ اعضاء دیکھے ہوں جن کا دیکھنا اجنبی ہونے کی صورت میں حلال نہ تھا تو اس میں اختلاف ہے

 امام احمد تو اس صورت میں بھی اس عورت کو لڑکے پر حرام بتاتے ہیں،

حافظ ابن عساکر کے اس واقعہ سے بھی اس روایت کی تصدیق ہوتی ہے:

 حضرت خدیج حمصی نے جو حضرت معاویہ کے مولیٰ تھے حضرت معاویہؓ کے لئے ایک لونڈی خریدی جو گورے رنگ کی اور خوبصورت تھی اسے برہنہ ان کے پاس بھیج دیا ان کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی اس سے اشارہ کر کے کہنے لگے اچھا نفع تھا اگر یہ ملبوس ہوتی پھر کہنے لگے اسے یزید بن معاویہ کے پاس لے جاؤ پھر کہا نہیں نہیں ٹھہرو ربیعہ بن عمرو حرسی کو میرے پاس بلا لاؤ یہ بڑے فقیہ تھے جب آئے تو حضرت معاویہؓ نے ان سے یہ مسئلہ پوچھا کہ میں نے اس عورت کے یہ اعضاء مخصوص دیکھے ہیں، یہ برہنہ تھی۔ اب میں اسے اپنے لڑکے یزید کے پاس بھیجنا چاہتا ہوں تو کیا اس کے لئے یہ حلال ہے؟

حضرت ربیعہ نے فرمایا امیر المؤمنین ایسا نہ کیجئے یہ اس کے قابل نہیں رہی

فرمایا تم ٹھیک کہتے ہو اچھا جاؤ عبداللہ بن مسعدہ فزاری کو بلا لاؤ وہ آئے وہ تو گندم گوں رنگ کے تھے اس سے حضرت معاویہؓ نے فرمایا اس لونڈی کو میں تمہیں دیتا ہوں تا کہ تمہاری اولاد سفید رنگ پیدا ہو

یہ عبداللہ بن مسعدہ وہ ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہؓ کو دیا تھا آپ نے انہیں پالا پرورش کیا پھر اللہ تعالیٰ کے نام سے آزاد کر دیا پھر یہ حضرت معاویہؓ کے پاس چلے آئے تھے۔

حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ

حرام کی گئی ہیں تم پر تمہاری مائیں ، تمہاری لڑکیاں ، تمہاری بہنیں، تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اور بھائی کی لڑکیاں

نسبی، رضاعی اور سسرالی رشتے سے جو عورتیں مرد پر حرام ہیں ان کا بیان آیہ کریمہ میں ہو رہا ہے،

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں سات عورتیں بوجہ نسب حرام ہیں اور سات بوجہ سسرال کے پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی جس میں بہن کی لڑکیوں تک نسبی رشتوں کا ذکر ہےجمہور علماء کرام نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ زنا سے جو لڑکی پیدا ہوئی وہ بھی اس زانی پر حرام ہے کیونکہ یہ بھی بیٹی ہے اور بیٹیاں حرام ہیں،

 یہی مذہب ابو حنیفہ مالک اور احمد بن حنبل کا ہے،

 امام شافعی سے کچھ اس کی اباحت میں بھی بحث کی گئی ہے اس لئے کہ شرعاً یہ بیٹی نہیں پس جیسے کہ ورثے کے حوالے سے یہ بیٹی کے حکم سے خارج ہے اور ورثہ نہیں پاتی اسی طرح اس آیت حرمت میں بھی وہ داخل نہیں ہے واللہ اعلم،

وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ مِنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ

 اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری دودھ شریک بہنیں اور تمہاری ساس

فرمایا کہ جس طرح تم پر تمہاری سگی ماں حرام ہے اسی طرح رضاعی ماں بھی حرام ہے

بخاری و مسلم میں ہے:

رضاعت بھی اسے حرام کرتی ہے جسے ولادت حرام کرتی ہے

صحیح مسلم میں ہے :

رضاعت سے بھی وہ حرام ہے جو نسب سے ہے،

بعض فقہاء نے اس میں سے چار صورتیں بعض نے چھ صورتیں مخصوص کی ہیں جو احکام کی فروع کی کتابوں میں مذکور ہیں لیکن تحقیقی بات یہ ہے کہ اس میں سے کچھ بھی مخصوص نہیں اس لئے کہ اسی کے مانند بعض صورتیں نسبت میں بھی پائی جاتی ہیں اور ان صورتوں میں سے بعض صرف سسرالی رشتہ کی وجہ سے حرام ہیں لہذا حدیث پر اعتراض خارج از بحث ہے والحمد للہ۔

 آئمہ کا اس میں بھی اختلاف ہے کہ کتنی مرتبہ دودھ پینے سے حرمت ثبات ہوتی ہے،

بعض تو کہتے ہیں کہ تعداد معین نہیں دودھ پیتے ہی حرمت ثابت ہو گئی امام مالک یہی فرماتے ہیں، ابن عمر سعید بن مسیب عروہ بن زبیر اور زہری کا قول بھی یہی ہے، دلیل یہ ہے کہ رضاعت یہاں عام ہے

 بعض کہتے ہیں تین مرتبہ جب پئیے تو حرمت ثابت ہو گئی، جیسے کہ صحیح مسلم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 ایک مرتبہ کا چوسنا یا دو مرتبہ کا پی لینا حرام نہیں کرتا

یہ حدیث مختلف الفاظ سے مروی ہے،

 امام احمد، اسحاق بن راہویہ ، ابو عبیدہ ، ابو ثور بھی یہی فرماتے ہیں،

حضرت علی ، حضرت عائشہ ، ام الفضل ، ابن زبیر ، سلیمان بن یسار ، سعید بن جبیر رحمہم اللہ سے بھی یہی مروی ہے

بعض کہتے ہیں پانچ مرتبہ کے دودھ پینے سے حرمت ثابت ہوتی ہے اس سے کم نہیں، اس کی دلیل صحیح مسلم کی یہ روایت ہے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں:

 پہلے قرآن میں دس مرتبہ کی دودھ پلائی پر حرمت کا حکم اترا تھا پھر وہ منسوخ ہو کر پانچ رہ گئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فوت ہونے تک وہ قرآن میں پڑھا جاتا رہا

دوسری دلیل سہلہ بنت سہیل کی روایت ہے:

 انکو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ حضرت سالم کو جو حضرت ابو حذیفہ کے مولیٰ تھے پانچ مرتبہ دودھ پلا دیں،

حضرت عائشہ اسی حدیث کے مطابق جس عورت کے گھر کسی کا آنا جانا دیکھتیں اسے یہی حکم دیتیں،

 امام شافعی اور ان کے اصحاب کا فرمان بھی یہی ہے کہ پانچ مرتبہ دودھ پینا معتبر ہے

یہ بھی یاد رہے کہ جمہور کا مذہب یہ ہے کہ یہ رضاعت دودھ چھٹنے سے پہلے یعنی دو سال کے اندر اندر کی عمر میں ہو، اس کا مفصل بیان آیت حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ (۲:۲۳۳)  کی تفسیر میں سورۃ بقرہ میں گزر چکا ہے،

پھر اس میں بھی اختلاف ہے کہ اس رضاعت کا اثر رضاعی ماں کے خاوند تک بھی پہنچے گا یا نہیں؟ تو جمہور کا اور آئمہ اربعہ کا فرمان تو یہ ہے کہ پہنچے گا اور بعض سلف کا قول ہے کہ صرف دودھ پلانے والی تک ہی رہے گا اور رضاعی باپ تک نہیں پہنچے گا اس کی تفصیل کی جگہ احکام کی بڑی بڑی کتابیں ہیں نہ کہ تفسیر

وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ

پھر فرماتا ہے ساس حرام ہے جس لڑکی سے نکاح ہوا مجرد نکاح ہونے کے سبب اس کی ماں اس پر حرام ہو گئی خواہ صحبت کرے یا نہ کرے،

 ہاں جس عورت کے ساتھ نکاح کرتا ہے اور اس کی لڑکی اس کے اگلے خاوند سے اس کے ساتھ ہے تو اگر اس سے صحبت کی تو وہ لڑکی حرام ہو گی اگر مجامعت سے پہلے ہی اس عورت کو طلاق دے دی تو وہ لڑکی اس پر حرام نہیں، اسی لئے اس آیت میں یہ قید لگائی بعض لوگوں نے ضمیر کو ساس اور اس کی پرورش کی ہوئی لڑکیوں دونوں کی طرف لوٹایا ہے

 وہ کہتے ہیں کہ ساس بھی اس وقت حرام ہوتی ہے جب اس کی لڑکی سے اس کے داماد نے خلوت کی ورنہ نہیں، صرف عقد سے نہ تو عورت کی ماں حرام ہوتی ہے نہ عورت کی بیٹی،

حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ جس شخص نے کسی لڑکی سے نکاح کیا پھر دخول سے پہلے ہی طلاق دے دی تو وہ اس کی ماں سے نکاح کر سکتا ہے جیسے کہ ربیبہ لڑکی سے اس کی ماں کو اسی طرح کی طلاق دینے کے بعد نکاح کر سکتا ہے

حضرت زید بن ثابت سے بھی یہی منقول ہے

 ایک اور روایت میں بھی آپ سے مروی ہے آپ فرماتے تھے جب وہ عورت غیر مدخولہ مر جائے اور یہ خاوند اس کی میراث لے لے تو پھر اس کی ماں کو لانا مکروہ ہے ہاں اگر دخول سے پہلے طلاق دے دی ہے تو اگر چاہے نکاح کر سکتا ہے

 حضرت ابوبکر بن کنانہ فرماتے ہیں :

میرا نکاح میرے باپ نے طائف کی ایک عورت سے کرایا ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ اس کا باپ میرا چچا فوت ہو گیا اس کی بیوی یعنی میری ساس بیوہ ہو گئی وہ بہت مالدار تھیں میرے باپ نے مجھے مشورہ دیا کہ اس لڑکی کو چھوڑ دوں اور اس کی ماں سے نکاح کر لوں

 میں نے حضرت ابن عباسؓ سے یہ مسئلہ پوچھا تو آپ نے فرمایا تمہارے لئے یہ جائز ہے

پھر میں نے حضرت ابن عمر ؓسے پوچھا تو انہوں نے فرمایا یہ جائز نہیں

میں نے اپنے والد سے ذکر کیا انہوں نے تو امیر معاویہؓ کو ہی سوال کیا حضرت امیر معاویہ ؓنے تحریر فرمایا کہ میں نہ تو حرام کو حلال کروں نہ حلال کر حرام تم جانو اور تمہارا کام تم حالت دیکھ رہے ہو معاملہ کے تمام پہلو تمہاری نگاہوں کے سامنے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی عورتیں بہت ہیں۔ غرض نہ اجازت دی نہ انکار کیا چنانچہ میرے باپ نے اپنا خیال اس کی ماں کی طرف سے ہٹا لیا

حضرت عبداللہ بن زبیر فرماتے ہیں کہ عورت کی لڑکی اور عورت کی ماں کا حکم ایک ہی ہے اگر عورت سے دخول نہ کیا ہو تو یہ دونوں حلال ہیں،

لیکن اس کی اسناد میں مبہم راوی ہے،

 حضرت مجاہد کا بھی یہی قول ہے، ابن جبیر اور حضرت ابن عباسؓ بھی اسی طرف گئے ہیں،

حضرت معاویہ ؓنے اس میں توقف فرمایا ہے

شافعیوں میں سے ابو الحسن احمد بن محمد بن صابونی سے بھی بقول رافعی یہی مروی ہے

حضرت عبداللہ بن مسعود سے بھی اسی کے مثل مروی ہے لیکن پھر آپ نے اپنے اس قول سے رجوع کر لیا ہے

طبرانی میں ہے:

قبیلہ فزارہ کی شاخ قبیلہ بنو کمخ کے ایک شخص نے ایک عورت سے نکاح کیا پھر اس کی بیوہ ماں کے حسن پر فریفتہ ہوا تو حضرت ابن مسعودؓ سے مسئلہ پوچھا کہ کیا مجھے اس کی ماں سے نکاح کرنا جائز ہے

 آپ نے فرمایا ہاں

چنانچہ اس نے اس لڑکی کو طلاق دے کر اس کی ماں سے نکاح کر لیا اس سے اولاد بھی ہوئی

پھر حضرت ابن مسعودؓ مدینہ آئے اور اس مسئلہ کی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ حلال نہیں چنانچہ آپ واپس کوفے گئے اور اس سے کہا کہ اس عورت کو الگ کر دے یہ تجھ پر حرام ہے اس نے اس فرمان کی تعمیل کی اور اسے الگ کر دیا

جمہور علماء اس طرف ہیں لڑکی تو صرف عقد نکاح سے حرام نہیں ہوتی تاوقتیکہ اس کی ماں سے مباشرت نہ کی ہو ہاں ماں صرف لڑکی کے عقد نکاح ہوتے ہی حرام ہو جاتی ہے گو مباشرت نہ ہوئی ہو،

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو دخول سے پہلے طلاق دے دے یا وہ عورت مر جائے تو اس کی ماں اس پر حلال نہیں چونکہ مبہم ہے اس لئے اسے ناپسند فرمایا،

حضرت ابن مسعود ، عمران بن حصین ، مسروق، طاؤس، عکرمہ، عطا، حسن، مکحول، ابن سیرین، قتادہ اور زہری سے بھی اسی طرح مروی ہے، چاروں اماموں ساتوں فقہاء اور جمہور علماء سلف و خلف کا یہی مذہب ہے والحمد للہ

 امام ابن جریج فرماتے ہیں ٹھیک قول انہی حضرات کا ہے جو ساس کو دونوں صورتوں میں حرام بتلاتے ہیں اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی حرمت کے ساتھ دخول کی شرط نہیں لگائی جیسے کہ لڑکی کی ماں کے لئے یہ شرط لگائی ہے پھر اس پر اجماع ہے جو ایسی دلیل ہے کہ اس کا خلاف کرنا اس وقت جائز ہی نہیں جب کہ اس پر اتفاق ہو

 اور ایک غریب حدیث میں بھی یہ مروی ہے گو اس کی سند میں کلام ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جبکہ کوئی مرد کسی عورت سے نکاح کرے اگر اس نے اس کی ماں سے نکاح کیا ہے پھر ملنے سے پہلے ہی اسے طلاق دے دی ہے تو اگر چاہے اس کی لڑکی سے نکاح کر سکتا ہے،

 گو اس حدیث کی سند کمزور ہے لیکن اس مسئلہ پر اجماع ہو چکا ہے جو اس کی صحت پر ایسا گواہ ہے جس کے بعد دوسری گواہی کی ضرورت نہیں،

وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ مِنْ نِسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُمْ بِهِنَّ

اور تمہاری وہ پرورش کردہ لڑکیاں جو تمہاری گود میں ہیں تمہاری ان عورتوں سے جن سے تم دخول کرچکے ہو

اللہ  فرماتا ہے تمہاری پرورش کی ہوئی وہ لڑکیاں جو تمہاری گود میں ہوں وہ بھی تم پر حرام ہیں بشرطیکہ تم نے ان سوتیلی لڑکیوں کی ماں سے صحبت کی ہو

 جمہور کا فرمان ہے کہ خواہ گود میں پلی ہوں حرام ہیں چونکہ عموماً ایسی لڑکیاں اپنی ماں کے ساتھ ہی ہوتی ہیں اور اپنے سوتیلے باپوں کے ہاں ہی پرورش پاتی ہیں اس لئے یہ کہہ دیا گیا ہے یہ کوئی قید نہیں جیسے اس آیت میں ہے :

وَلَا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا (۲۴:۳۳)

تمہاری جو لونڈیاں پاک دامن رہنا چاہتی ہیں انہیں دنیا کی زندگی کے فائدے کی غرض سے بدکاری پر مجبور نہ کرو

یہاں بھی یہ قید کہ اگر وہ پاکدامن رہنا چاہیں صرف بااعتبار واقعہ کے غلبہ کے ہے یہ نہیں کہ اگر وہ خود ایسی نہ ہوں تو انہیں بدکاری پر آمادہ کرو، اسی طرح اس آیت میں ہے کہ گود میں چاہے نہ ہوں پھر بھی حرام ہی ہیں۔

 بخاری و مسلم میں ہے:

 حضرت اُم حبیبہؓ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ میری بہن ابو سفیان کی لڑکی عزہ سے نکاح کر لیجئے۔

 آپ ﷺنے فرمایا کیا تم یہ چاہتی ہو؟

 اُم المؤمنین نے کہا ہاں میں آپ کو خالی تو رکھ نہیں سکتی پھر میں اس بھلائی میں اپنی بہن کو ہی کیوں نہ شامل کروں؟

 آپ ﷺنے فرمایا ان کی وہ بیٹی جو اُم سلمہ سے ہے؟

 کہا ہاں۔

 فرمایا اولاً تو وہ مجھ پر اس وجہ سے حرام ہے کہ وہ میری ربیبہ ہے جو میرے ہاں پرورش پا رہی ہے دوسری یہ کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو بھی وہ مجھ پر حرام تھیں اس لئے کہ وہ میرے دودھ شریک بھائی کی بیٹی میری بھتیجی ہیں۔ مجھے اور اس کے باپ ابو سلمہ کو ثوبیہ نے دودھ پلایا ہے۔ خبردار اپنی بیٹیاں اور اپنی بہنیں مجھ پر پیش نہ کرو،

بخاری کی روایت ہے یہ الفاظ ہیں کہ اگر میرا نکاح اُم سلمہ سے نہ ہوا ہوتا تو بھی وہ مجھ پر حلال نہ تھیں،

یعنی صرف نکاح کو آپ نے حرمت کا اصل قرار دیا، یہی مذہب چاروں اماموں ساتوں فقیہوں اور جمہور سلف و خلف کا ہے،

یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر وہ اس کے ہاں پر پرورش پاتی ہو تو بھی حرام ہے ورنہ نہیں،

حضرت مالک بن اوس بن حدثان فرماتے ہیں:

میری بیوی اولاد چھوڑ کر مر گئیں مجھے ان سے بہت محبت تھی اس وجہ سے ان کی موت کا مجھے بڑا صدمہ ہوا حضرت علیؓ سے میری اتفاقیہ ملاقات ہوئی تو آپ نے مجھے مغموم پا کر دریافت کیا کہ کیا بات ہے؟

میں نے واقعہ سنایا تو آپ نے فرمایا تجھ سے پہلے خاوند سے بھی اس کی کوئی اولاد ہے؟

میں نے کہا ہاں ایک لڑکی ہے اور وہ طائف میں رہتی ہےفرمایا پھر اس سے نکاح کر لو

میں نے قرآن کریم کی آیت پڑھی کہ پھر اس کا کیا مطلب ہوگا؟

 فرمایا یہ تو اس وقت ہے جبکہ اس نے تیرے ہاں پرورش پائی ہو اور وہ بقول تمہارے طائف میں رہتی ہے تیرے پاس ہے ہی نہیں

 گو اس کی اسناد صحیح ہے لیکن یہ قول بالکل غریب ہے،

حضرت امام مالک کا بھی یہی قول بتایا ہے، ابن حزم نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے، ہمارے شیخ حافظ ابو عبداللہ نسبی نے ہم سے کہا کہ میں نے یہ بات شیخ امام تقی الدین ابن تیمیہ کے سامنے پیش کی تو آپ نے اسے بہت مشکل محسوس کیا اور توقف فرمایا واللہ اعلم۔

حُجُورِ سے مراد گھر ہے جیسے کہ حضرت ابو عبیدہ سے مروی ہے کہ ہاں جو کنیز ملکیت میں ہو اور اس کے ساتھ اس کی لڑکی ہو اس کے بارے میں حضرت عمر ؓسے سوال ہوا کہ ایک کے بعد دوسری جائز ہو گی یا نہیں؟

 تو آپ نے فرمایا اسے پسند نہیں کرتا،

اس کی سند منقطع ہے،

حضرت ابن عباسؓ نے ایسے ہی سوال کے جواب میں فرمایا ہے ایک آیت سے یہ حلال معلوم ہوتی ہے دوسری آیت سے حرام اس لئے میں تو ایسا ہرگز نہ کروں،

 شیخ ابو عمر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ علماء میں اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں کہ کسی کو حلال نہیں کہ کسی عورت سے پھر اس کی لڑکی سے بھی اسی ملکیت کی بنا پر وطی کرے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے نکاح میں بھی حرام قرار دے دیا ہے یہ آیت ملاحظہ ہو

 اور علماء کے نزدیک ملکیت احکام نکاح کے تابع ہے مگر جو روایت حضرت عمر ؓاور حضرت ابن عباسؓ سے کی جاتی ہے لیکن آئمہ فتاویٰ اور ان کے تابعین میں سے کوئی بھی اس پر متفق نہیں۔

حضرت قتادہ فرماتے ہیں ربیبہ کی لڑکی اور اس لڑکی کی لڑکی اس طرح جس قدر نیچے یہ رشتہ چلا جائے سب حرام ہیں،

 حضرت ابو العالیہ سے بھی اسی طرح یہ روایت قتادہ مروی ہے

فَإِنْ لَمْ تَكُونُوا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ

 ہاں اگر تم نے ان سے جماع نہ کیا ہو تو تم پر کوئی گناہ نہیں

دَخَلْتُمْ بِهِنَّ سے مراد حضرت ابن عباسؓ تو فرماتے ہیں ان سے نکاح کرنا ہے

 حضرت عطا فرماتے ہیں کہ وہ رخصت کر دئیے جائیں کپڑا ہٹا دیا جائے چھیڑ ہو جائے اور ارادے سے مرد بیٹھ جائے

ابن جریج نے سوال کیا کہ اگر یہ کام عورت ہی کے گھر میں ہوا ہو

 فرمایا وہاں یہاں دونوں کا حکم ایک ہی ہے ایسا اگر ہو گیا تو اس کی لڑکی اس پر حرام ہو گئی۔

امام ابن جریر فرماتے ہیں:

 صرف خلوت اور تنہائی ہو جانے سے اس کی لڑکی کی حرمت ثابت نہیں ہوتی اگر مباشرت کرنے اور ہاتھ لگانے سے اور شہوت سے اس کے عضو کی طرف دیکھنے سے پہلے ہی طلاق دے دی ہے تو تمام کے اجماع سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ لڑکی اس پر حرام نہ ہو گی تاوقتیکہ جماع نہ ہوا ہو۔

وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ

 اور تمہارے بیٹوں کی بیویاں

پھر فرمایا تمہاری بہوئیں بھی تم پر حرام ہیں جو تمہاری اولاد کی بیویاں ہوں یعنی لے پالک لڑکوں کی بیویاں حرام نہیں، ہاں سگے لڑکے کی بیوی یعنی بہو اپنے خسر پر حرام ہے جیسے اور جگہ ہے:

فَلَمَّا قَضَى زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَراً زَوَّجْنَـكَهَا لِكَىْ لاَ يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِى أَزْوَاجِ أَدْعِيَآئِهِمْ (۳۳:۳۷)

جب زید نے اس سے اپنی حاجت پوری کر لی تو ہم نے اسے تیرے نکاح میں دے دیا تا کہ مؤمنوں پر انکے لے پالک لڑکوں کی بیویوں کے بارے میں کوئی تنگی نہ رہے

 حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ ہم سنا کرتے تھے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید کی بیوی سے نکاح کر لیا تو مکہ کے مشرکوں نے کائیں کائیں شروع کر دی اس پر یہ آیت وَحَلَـئِلُ أَبْنَآئِكُمُ اور آیت وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَآءَكُمْ أَبْنَآءَكُمْ (۳۳:۴) اور آیت مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَآ أَحَدٍ مّن رِّجَالِكُمْ  (۳۳:۴۰) نازل ہوئیں

یعنی بیشک صلبی لڑکے کی بیوی حرام ہے۔ تمہارے لئے پالک لڑکے شرعاً تمہاری اولاد کے حکم میں نہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں،

حسن بن محمد فرماتے ہیں کہ یہ آیتیں مبہم ہیں جیسے تمہارے لڑکوں کی بیویاں تمہاری ساسیں، حضرت طاؤس ابراہیم زہری اور مکحول سے بھی اسی طرح مروی ہے

 میرے خیال میں مبہم سے مراد عام ہیں۔ یعنی مدخول بہا اور غیر مدخول دونوں ہی شامل ہیں اور صرف نکاح کرتے ہی حرمت ثابت ہو جاتی ہے۔ خواہ صحبت ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو اس مسئلہ پر اتفاق ہے

 اگر کوئی شخص سوال کرے کہ رضاعی بیٹے کی حرمت کیسے ثابت ہو گی کیونکہ آیت میں تو صلبی بیٹے کا ذکر ہے تو جواب یہ ہے کہ وہ حرمت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:

 رضاعت سے وہ حرام ہے جو نسبت سے حرام ہے۔

 جمہور کا مذہب یہی ہے کہ رضاعی بیٹے کی بیوی بھی حرام ہے بعض لوگوں نے تو اس پر اجماع نقل کیا ہے۔

وَأَنْ تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًا (۲۳)

اور تمہارا دو بہنوں کا جمع کرنا۔ ہاں جو گزر چکا سو گزر چکا، یقیناً اللہ تعالیٰ بخشنے والامہربان ہے۔‏

پھر فرماتا ہے دو بہنوں کا نکاح میں جمع کرنا بھی تم پر حرام ہے اسی طرح ملکیت کی لونڈیوں کا حکم ہے کہ دو بہنوں سے ایک ہی وقت وطی حرام ہے مگر جاہلیت کے زمانہ میں جو ہو چکا اس سے ہم درگزر کرتے ہیں

 پس معلوم ہوا کہ اب یہ کام آئندہ کسی وقت جائز نہیں، جیسے اور جگہ ہے:

لَا يَذُوقُونَ فِيهَا الْمَوْتَ إِلَّا الْمَوْتَةَ الْأُولَىٰ (۴۴:۵۶)

وہاں وہ موت چکھنے کے نہیں ہاں پہلی موت جو آنی تھی سو آچکی

تو معلوم ہوا کہ اب آئندہ کبھی موت نہیں آئے گی،

 صحابہ تابعین ائمہ اور سلف و خلف کے علماء کرام کا اجماع ہے کہ دو بہنوں سے ایک ساتھ نکاح کرنا حرام ہے اور جو شخص مسلمان ہو اور اس کے نکاح میں دو بہنیں ہوں تو اسے اختیار دیا جائے گا کہ ایک کو رکھ لے اور دوسری کو طلاق دے دے اور یہ اسے کرنا ہی پڑے گا

حضرت فیروز فرماتے ہیں میں جب مسلمان ہوا تو میرے نکاح میں دو عورتیں تھیں جو آپس میں بہنیں تھیں پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ ان میں سے ایک کو طلاق دے دو (مسند احمد)

ابن ماجہ ابو داؤد اور ترمذی میں بھی یہ حدیث ہے

 ترمذی میں بھی یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان میں سے جسے چاہو ایک کو رکھ لو اور ایک کو طلاق دے دو،

 امام ترمذی اسے حسن کہتے ہیں،

ابن ماجہ میں ابو خراش کا ایسا واقعہ بھی مذکور ہے ممکن ہے کہ ضحاک بن فیروز کی کنیت ابو خراش ہو اور یہ واقعہ ایک ہی ہو اور اس کے خلاف بھی ممکن ہے

حضرت دیلمی نے رسول مقبول صلعم سے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے نکاح میں دو بہنیں ہیں آپ ﷺنے فرمایا ان سے جسے چاہو ایک کو طلاق دے دو (ابن مردویہ)

پس دیلمی سے مراد ضحاک بن فیروز ہیں رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ یمن کے ان سرداروں میں سے تھے جنہوں نے اسود عنسی متنبی ملعون کو قتل کیا

چنانچہ دو لونڈیوں کو جو آپس میں سگی بہنیں ہوں ایک ساتھ جمع کرنا ان سے وطی کرنا بھی حرام ہے، اس کی دلیل اس آیت کا عموم ہے جو بیویوں اور اور لونڈیوں پر مشتمل ہے

حضرت ابن مسعودؓ سے اس کا سوال ہوا تو آپ نے مکروہ بتایا

سائل نے کہا قرآن میں جو ہے إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ (۴:۲۴) یعنی وہ جو جن کے تمہارے دائیں ہاتھ مالک ہیں

 اس پر حضرت ابن مسعودؓ نے فرمایا تیرا اونٹ بھی تو تیرے داہنے ہاتھ کی ملکیت میں ہے

 جمہور کا قول بھی یہی مشہور ہے اور آئمہ اربعہ بھی یہی فرماتے ہیں گو بعض سلف نے اس مسئلہ میں توقف فرمایا ہے

حضرت عثمان بن عفانؓ سے جب یہ مسئلہ پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا ایک آیت اسے حلال کرتی ہے دوسری حرام میں تو اس سے منع کرتاسائل وہاں سے نکلا تو راستے میں ایک صحابیؓ سے ملاقات ہوئی اس نے ان سے بھی یہی سوال کیا

 انہوں نے فرمایا اگر مجھے کچھ اختیار ہوتا تو میں ایسا کرنے والے کو عبرت ناک سزا دیتا،

 حضرت امام مالکؒ فرماتے ہیں میرا گمان ہے کہ یہ فرمانے والے غالباً علیؓ تھے۔

حضرت زبیر بن عوامؓ سے بھی اسی کے مثل مروی ہے۔

استذکار ابن عبدالبر میں ہے کہ اس واع کے راوی قبیصہ بن ذویب نے حضرت علیؓ کا نام اس لئے نہیں لیا کہ وہ عبدالملک بن مروان کا مصاحب تھا اور ان لوگوں پر آپ کا نام بھاری پڑتا تھا

حضرت الیاس بن عامر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی ؓ سے سوال کیا کہ میری ملکیت میں دو لونڈیاں ہیں دونوں آپس میں سگی بہنیں ہیں ایک سے میں نے تعلقات قائم کر رکھے ہیں اور میرے ہاں اس سے اولاد بھی ہوئی ہے اب میرا جی چاہتا ہے کہ اس کی بہن سے جو میری لونڈی ہے اپنے تعلقات قائم کروں تو فرمائیے شریعت کا اس میں کیا حکم ہے؟

 آپ نے فرمایا پہلی لونڈی کو آزاد کر کے پھر اس کی بہن سے یہ تعلقات قائم کر سکتے ہو،

 اس نے کہا اور لوگ تو کہتے ہیں کہ میں اس کا نکاح کرا دوں پھر اس کی بہن سے مل سکتا ہوں،

حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا دیکھو اس صورت میں بھی خرابی ہے وہ یہ کہ اگر اس کا خاوند اسے طلاق دے دے یا انتقال کر جائے تو وہ پھر لوٹ کر تمہاری طرف آجائے گی، اسے تو آزاد کر دینے میں ہی سلامتی ہے،

پھر آپ نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا سنو آزاد عورتوں اور لونڈیوں کے احکام حلت و حرمت کے لحاظ سے یکساں ہیں ہاں البتہ تعداد میں فرق ہے یعنی آزاد عورتیں چار سے زیادہ جمع نہیں کر سکتے اور لونڈیوں میں کوئی تعداد کی قید نہیں اور دودھ پلائی کے رشتہ سے بھی اس رشتہ کی وہ تمام عورتیں حرام ہو جاتی ہیں جو نسل اور نسب کی وجہ سے حرام ہیں

اس کے بعد تفسیر ابن کثیر کے اصل عربی نسخے میں کچھ عبارت چھوٹی ہوئی ہے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ عبارت یوں ہو گی کہ یہ روایت ایسی ہے کہ اگر کوئی شخص مشرق سے یا مغرب سے صرف اس روایت کو سننے کے لئے سفر کر کے آئے اور سن کے جائے تو بھی اس کا سفر اس کے لئے سود مند رہے گا اور اس نے گویا بہت سستے داموں بیش بہا چیز حاصل کی۔ واللہ اعلم۔ مترجم

یہ یاد رہے کہ حضرت علیؓ سے بھی اسی طرح مروی ہی جس طرح حصرت عثمانؓ سے مروی ہے چنانچہ ابن مردونیہ میں ہے کہ آپ نے فرمایا دو لونڈیوں کو جو آپس میں بہنیں ہوں ایک ہی وقت جمع کر کے ان سے مباشرت کرنا ایک آیت سے حرام ہوتا ہے اور دوسری سے حلال

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ لونڈیاں مجھ پر میری قرابت کی وجہ سے جو ان سے ہے بعض اور لونڈیوں کو حرام کر دیتی ہیں لیکن انہیں خود آپس میں جو قرابت ہو اس سے مجھ پر حرام نہیں ہوتیں، جاہلیت والے بھی ان عورتوں کو حرام سمجھتے تھے جنہیں تم حرام سمجھتے ہو مگر اپنے باپ کی بیوی کو جو ان کی سگی ماں نہ ہو اور دو بہنوں کو ایک ساتھ ایک وقت میں نکاح میں جمع کرنا وہ حرام نہیں سمجھتے تھے لیکن اسلام نے آکر ان دونوں کو بھی حرام قرار دیا اس وجہ سے ان دونوں کی حرمت کے بیان کے ساتھ ہی فرما دیا کہ جو نکاح ہو چکے وہ ہو چکے

حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جو آزاد عورتیں حرام ہیں وہی لونڈیاں بھی حرام ہیں ہاں تعداد میں حکم ایک نہیں یعنی آزاد عورتیں چار سے زیادہ جمع نہیں کر سکتے لونڈیوں کے لئے یہ حد نہیں،

حضرت شعی بھی یہی فرماتے ہیں

 ابو عمرو فرماتے ہیں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس بارے میں جو فرمایا ہے وہی سلف کی ایک جماعت بھی کہتی ہے جن میں سے حضرت ابن عباسؓ بھی ہیں لیکن اولاً تو اس کی نقل میں خود انہی حضرات سے بہت کچھ اختلاف ہوا ہے دوسرے یہ کہ اس قول کی طرف سمجھدار پختہ کار علماء کرام نے مطلقاً توجہ نہیں فرمائی اور نہ اسے قبول کیا حجاز عراق شام بلکہ مشرق و مغرب کے تمام فقہاء اس کے خلاف ہیں سوائے ان چند کے جنہوں نے الفاظ کو دیکھ، سوچ سمجھ اور غور و خوض کئے بغیر ان سے علیحدگی اختیار کی ہے اور اس اجماع کی مخالفت کی ہے

کامل علم والوں اور سچی سمجھ بوجھ والوں کا تو اتفاق ہے کہ دو بہنوں کو جس طرح نکاح میں جمع نہیں کر سکتے دو لونڈیوں کو بھی جو آپس میں بہنیں ہوں بہ وجہ ملکیت کے ایک ساتھ نکاح میں نہیں لا سکتے

اسی طرح مسلمانوں کا اجماع ہے کہ اس آیت میں ماں بیٹی بہن وغیرہ حرام کی گئی ہیں ان سے جس طرح نکاح حرام ہے اسی طرح اگر یہ لونڈیاں بن کر ما تحتی میں ہوں تو بھی جنسی اختلاط حرام ہے

غرض نکاح اور ملکیت کے بعد کی دونوں حالتوں میں یہ سب کی سب برابر ہیں، نہ ان سے نکاح کر کے میل جول حلال نہ ملکیت کے بعد میل جول حلال

 اسی طرح ٹھیک یہی حکم ہے کہ دو بہنوں کے جمع کرنے ساس اور دوسرے خاوند سے اپنی عورت کی لڑکی ہو اس کے بارے میں خود ان کے جمہور کا بھی یہی مذہب ہے اور یہی دلیل ان چند مخالفین پر پوری سند اور کامل حجت ہے

 الغرض دو بہنوں کو ایک وقت نکاح میں رکھنا بھی حرام اور دو بہنوں کو بطور لونڈی کہہ کر ان سے ملنا جلنا بھی حرام۔

وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۖ

اور حرام کی گئی شوہر والی عورتیں مگر وہ جو تمہاری ملکیت میں آجائیں

یعنی خاوندوں والی عورتیں بھی حرام ہیں، ہاں کفار عورتیں جو میدان جنگ میں قید ہو کر تمہارے قبضے میں آئیں تو ایک حیض گزارنے کے بعد وہ تم پر حلال ہیں،

مسند احمد میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے  کہ جنگ اوطاس میں قید ہو کر ایسی عورتیں آئیں جو خاوندوں والیاں تھیں تو ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے انکی بابت سوال کیا تب یہ آیت اتری ہم پر ان سے ملنا حلال کیا گیا

 ترمذی ابن ماجہ اور صحیح مسلم وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے،طبرانی کی روایت میں ہے کہ یہ واقعہ جنگ خیبر کا ہے،

سلف کی ایک جماعت اس آیت کے عموم سے استدلال کرکے فرماتی ہے کہ لونڈی کو بیچ ڈالنا ہی اس کے خاوند کی طرف سے اسے طلاق کامل کے مترادف ہے، ابراہیم سے جب یہ مسئلہ پوچھا گیا تو آپ نے حضرت عبداللہؓ کا یہی فتویٰ بیان کیااوراسی کی تلاوت فرمائی۔

اور سند سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا :

جب کوئی خاوند والی لونڈی بیچی جائے تو اس کے جسم کا زیادہ حقدار اس کا مالک ہے،

حضرت ابی بن کعب حضرت جابر بن عبداللہ، حضرت ابن عباسؓ کا بھی یہی فتویٰ ہے کہ اس کا بکنا ہی اس کی طلاق ہے،

 ابن جریر میں ہے کہ لونڈی کی طلاقیں چھ ہیں، بیچنا بھی طلاق ہے آزاد کرنا بھی ہبہ کرنا بھی برأت کرنا بھی اور اس کے خاوند کا طلاق دینا بھی

 یہ پانچ صورتیں تو بیان ہوئیں چھٹی صورت نہ تفسیر ابن کثیر میں ہے نہ ابن جریر میں۔ مترجم

حضرت ابن المسیب فرماتے ہیں کہ خاوند والی عورتوں سے نکاح حرام ہے لیکن لونڈیاں ان کی طلاق ان کا بک جانا ہے،

حضرت معمر اور حضرت حسن بھی یہی فرماتے ہیں ان بزرگوں کا تو یہ قول ہے لیکن جمہور ان کے مخالف ہیں وہ فرماتے ہیں کہ بیچنا طلاق نہیں اس لئے کہ خریدار بیچنے والے کا نائب ہے اور بیچنے والا اس نفع کو اپنی ملکیت سے نکال کر بیچ رہا ہے، ان کی دلیل حضرت بریرہ والی حدیث ہے جو بخاری و مسلم وغیرہ میں ہے:

 ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جب انہیں خرید کر آزاد کردیا تو ان کا نکاح مغیث سے فسخ نہیں ہوا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فسخ کرنے اور باقی رکھنے کا اختیار دیا اور حضرت بریرہ ؓنے فسخ کرنے کو پسند کیا

یہ واقعہ مشہور ہے، پس اگر بک جانا ہی طلاق ہوتا جیسے ان بزرگوں کا قول ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت بریرہؓ کو ان کے بک جانے کے بعد اپنے نکاح کے باقی رکھنے نہ رکھنے کا اختیار نہ دینے، اختیار دینا نکاح کے باقی رہنے کی دلیل ہے،

تو آیت میں مراد صرف وہ عورتیں ہیں جو جہاد میں قبضہ میں آئیں واللہ اعلم۔

اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ الْمُحْصَنَاتُ سے مراد پاک دامن عورتیں ہیں یعنی عفیفہ عورتیں جو تم پر حرام ہیں جب تک کہ تم نکاح اور گواہ اور مہر اور ولی سے ان کی عصمت کے مالک نہ بن جاؤ خواہ ایک ہو خواہ دو خواہ تین خواہ چار

 ابو العالیہ اور طاؤس یہی مطلب بیان فرماتے ہیں۔ عمرؓ اور عبیدؓ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ چار سے زائد عورتیں تم پر حرام ہیں ہاں کنیزوں میں یہ گنتی نہیں۔

كِتَابَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ ۚ

 اللہ تعالیٰ نے احکام تم پر فرض کر دئیے ہیں،

پھر فرمایا کہ یہ حرمت اللہ تعالیٰ نے تم پر لکھ دی ہے یعنی چار کی پس تم اس کی کتاب کو لازم پکڑو اور اس کی حد سے آگے نہ بڑھو، اس کی شریعت اور اس کے فرائض کے پابند رہو،

 یہ بھی کہا گیا ہے کہ حرام عورتیں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ظاہر کردیں۔

وَأُحِلَّ لَكُمْ مَا وَرَاءَ ذَلِكُمْ

ان عورتوں کے سواء اور عورتیں تمہارے لئے حلال کی گئیں

پھر فرماتا ہے کہ جن عورتوں کا حرام ہونا بیان کردیا گیا ان کے علاوہ اور سب حلال ہیں،

 ایک مطلب یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان چار سے کم تم پر حلال ہیں، لیکن یہ قول دور کا قول ہے اور صحیح مطلب پہلا ہی ہے اور یہی حضرت عطا کا قول ہے،

حضرت قتادہ اس کا یہ مطلب بیان کرتے ہیں کہ اس سے مراد لونڈیاں ہیں،

 یہی آیت ان لوگوں کی دلیل ہے جو دو بہنوں کے جمع کرنے کی حلت کے قائل ہیں اور ان کی بھی جو کہتے ہیں کہ ایک آیت اسے حلال کرتی ہے اور دوسری حرام۔

أَنْ تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُمْ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ ۚ

 کہ اپنے مال کے مہر سے تم ان سے نکاح کرنا چاہو برے کام سے بچنے کے لئے نہ کہ شہوت رانی کے لئے

پھر فرمایا تم ان حلال عورتوں کو اپنے مال سے حاصل کرو چار تک تو آزاد عورتیں اور لونڈیاں بغیر تعین کے لیکن ہو بطریق شرع۔ اسی لئے فرمایا زنا کاری سے بچنے کے لئے اور صرف شہوت رانی مقصود نہیں ہونا چاہئے۔

فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ

اس لئے جن سے تم فائدہ اٹھاؤ انہیں ان کا مقرر کیا ہوا مہر دے دو

پھر فرمایا کہ جن عورتوں سے تم فائدہ اٹھاؤ ان کے اس فائدہ کے مقابلہ میں مہر دے دیا کرو، جیسے اور آیت میں ہے:

وَكَيْفَ تَأْخُذُونَهُ وَقَدْ أَفْضَى بَعْضُكُمْ إِلَى بَعْضٍ (۴:۲۱)

تم مہر کو عورتوں سے کیسے لو گے حالانکہ ایک دوسرے سے مل چکے ہو

اور فرمایا :

وَآتُواْ النَّسَاء صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً (۴:۴)

عورتوں کے مہر بخوشی دے دیا کرو

 اور جگہ فرمایا :

وَلاَ يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَأْخُذُواْ مِمَّآ ءَاتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا (۲:۲۲۹)

تم نے جو کچھ عورتوں کو دے دیا ہو اس میں سے واپس لینا تم پر حرام ہے،

اس آیت سے نکاح متعہ پر استدلال کیا ہے بیشک متعہ ابتداء اسلام میں مشروع تھا لیکن پھر منسوخ ہوگیا،

 امام شافعی اور علمائے کرام کی ایک جماعت نے فرمایا ہے کہ دو مرتبہ متعہ مباح ہوا پھر منسوخ ہوا۔

بعض کہتے ہیں اس سے بھی زیادہ بار مباح اور منسوخ ہوا، اور بعض کا قول ہے کہ صرف ایک بار مباح ہوا پھر منسوخ ہوگیا پھر مباح نہیں ہوا۔

حضرت ابن عباسؓ اور چند دیگر صحابہ سے ضرورت کے وقت اس کی اباحت مروی ہے،

حضرت امام احمد بن حنبلؒ سے بھی ایک روایت ایسی ہی مروی ہے

 ابن عباسؓ ابی بن کعب سعید بن جیبر اور سدی سے مِنْهُنَّ کے بعد الیٰ أَجَلٌ مُّسَمًّى کی قرأت مروی ہے،

مجاہد فرماتے ہیں یہ آیت نکاح متعہ کی بابت نازل ہوئی ہے، لیکن جمہور اس کے برخلاف ہیں اور اس کا بہترین فیصلہ بخاری و مسلم کی حضرت علی ؓوالی روایت کردیتی ہے جس میں ہے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر والے دن نکاح متعہ سے اور گھریلو گدھوں کے گوشت سے منع فرمادیا، اس حدیث کے الفاظ کتب احکام میں مقرر ہیں،

صحیح مسلم شریف میں حضرت سیرہ بن معبد جہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے غزوہ میں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے آپ نے ارشاد فرمایا:

 اے لوگو میں نے تمہیں عورتوں سے متعہ کرنے کی رخصت دی تھی یاد رکھو بیشک اب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسے قیامت تک کے لئے حرام کردیا ہے جس کے پاس اس قسم کی کوئی عورت ہو تو اسے چاہئے کہ اسے چھوڑ دے اور تم نے جو کچھ انہیں دے رکھا ہو اس میں سے ان سے کچھ نہ لو،

صحیح مسلم شریف کی ایک اور روایت میں ہے کہ آپ نے حجتہ الوداع میں یہ فرمایا تھا، یہ حدیث کئی الفاظ سے مروی ہے، جن کی تفصیل کی جگہ احکام کی کتابیں ہیں،

وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُمْ بِهِ مِنْ بَعْدِ الْفَرِيضَةِ ۚ

اور مہر مقرر ہونے کے بعد تم آپس کی رضامندی سے جو طے کر لو تم پر کوئی گناہ نہیں

پھر فرمایا کہ تقرر کے بعد بھی اگر تم بہ رضامندی کچھ طے کرلو تو کوئی حرج نہیں،

 اگلے جملے کو متعہ پر محمول کرنے والے تو اس کا یہ مطلب بیان کرتے ہیں کہ جب مدت مقررہ گزرجائے پھر مدت کو بڑھا لینے اور جو دیا ہو اس کے علاوہ اور کچھ دینے میں کوئی گناہ نہیں،

 سدی کہتے ہیں اگر چاہے تو پہلے کے مقرر مہر کے بعد جو دے چکا ہے وقت کے ختم ہونے سے پیشتر پھر کہہ دے کہ میں اتنی اتنی مدت کے لئے پھر متعہ کرتا ہوں پس اگر اس نے رحم کی پاکیزگی سے پہلے دن بڑھا لئے تو جب مدت پوری ہوجائے تو پھر اس کا کوئی دباؤ نہیں وہ عورت الگ ہوجائے گی اور حیض تک ٹھہر کر اپنے رحم کی صفائی کرلے گی ان دونوں میں میراث نہیں نہ یہ عورت اس مرد کی وارث نہ یہ مرد اس عورت کا،

 اور جن حضرات نے اس جملہ کو نکاح مسنون کے مہر کی کے مصداق کہا ہے ان کے نزدیک تو مطلب صاف ہے کہ اس مہر کی ادائیگی تاکیداً بیان ہو رہی ہے

جیسے فرمایا :

وَءَاتُواْ النِّسَآءَ صَدُقَـتِهِنَّ نِحْلَةً (۴:۴)

عورتوں کے مہر بخوشی دے دیا کرو

اگر مہر کے مقرر ہوجانے کے بعد عورت اپنے پورے حق کو یا تھوڑے سے حق کو چھوڑ دے صاف کر دے اس سے دست بردار ہوجائے تو میاں بیوی میں سے کسی پر کوئی گناہ نہیں،حضرت حضرمی فرماتے ہیں کہ لوگ اقرار دیتے ہیں پھر ممکن ہے کہ تنگی ہوجائے تو اگر عورت اپنا حق چھوڑ دے تو جائز ہے،

امام ابن جریر بھی اسی قول کو پسند کرتے ہیں،

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں:

 مراد یہ ہے کہ مہر کی رقم پوری پوری اس کے حوالے کردے پھر اسے بسنے اور الگ ہونے کا پورا پورا اختیار دے،

إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا (۲۴)

بیشک اللہ تعالیٰ علم والا حکمت والا ہے۔‏

 پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ علیم و حکیم ہے ان کا احکام میں جو حلت و حرمت کے متعلق ہیں جو رحمتیں ہیں اور جو مصلحتیں ہیں انہیں وہی بخوبی جانتا ہے۔

وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا أَنْ يَنْكِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِنْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ مِنْ فَتَيَاتِكُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ۚ

اور تم میں سے جس کسی کو آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کرنے کی پوری وسعت و طاقت نہ ہو وہ مسلمان لونڈیوں سے جنکے تم مالک ہو اپنا نکاح کر لو

ارشاد ہوتا ہے کہ جسے آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کرنے کی وسعت قدرت نہ ہو،

 ربیعہ فرماتے ہیں طول سے مراد قصد و خواہش یعنی لونڈی سے نکاح کی خواہش،

 ابن جریر نے اس قول کو وارد کرکے پھر اسے خود ہی توڑ دیا ہے، مطلب یہ کہ ایسے حالات میں مسلمانوں کی ملکیت میں جو لونڈیاں ہیں ان سے وہ نکاح کرلیں،

وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِكُمْ ۚ بَعْضُكُمْ مِنْ بَعْضٍ ۚ

اللہ تمہارے اعمال کو بخوبی جاننے والا ہے، تم سب آپس میں ایک ہی تو ہو

تمام کاموں کی حقیقت اللہ تعالیٰ پر واضح ہے، تم حقائق کو صرف سطحی نگاہ سے دیکھتے ہو، تم سب آزاد اور غلام ایمانی رشتے میں ایک ہو،

فَانْكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ

 اس لئے ان کے مالکوں کی اجازت سے ان سے نکاح کر لو

لونڈی کا ولی اس کا سردار ہے اس کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح منعقد نہیں ہوسکتا، اسی طرح غلام بھی اپنے سردار کی رضامندی حاصل کئے بغیر اپنا نکاح نہیں کرسکتا۔

 حدیث میں ہے:

 جو غلام بغیر اپنے آقا کی اجازت کے اپنا نکاح کرلے وہ زانی ہے،

 ہاں اگر کسی لونڈی کی مالکہ کوئی عورت ہو تو اس کی اجازت سے اس لونڈی کا نکاح وہ کرائے جو عورت کا نکاح کراسکتا ہے، کیونکہ حدیث میں ہے:

 عورت عورت کا نکاح نہ کرائے نہ عورت اپنا نکاح کرائے، وہ عورتیں زنا کار ہیں جو اپنا نکاح آپ کرتی ہیں۔

وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ

 اور قاعدہ کے مطابق ان کے مہر ان کو دے دو،

پھر فرمایا عورتوں کے مہر خوش دلی سے دے دیا کرو، گھٹا کر کم کرکے تکلیف پہنچا کر لونڈی سمجھ کر کمی کرکے نہ دو،

مُحْصَنَاتٍ غَيْرَ مُسَافِحَاتٍ وَلَا مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ ۚ

 وہ پاک دامن ہوں نہ کہ اعلانیہ بدکاری کرنے والیاں،

پھر فرماتا ہے کہ دیکھ لیا کرو یہ عورتیں بدکاری کی طرف از خود مائل نہ ہوں، نہ ایسی ہوں کہ  اگر کوئی ان کی طرف مائل ہو تو یہ جھک جائیں، یعنی نہ تو علانیہ زنا کار ہوں نہ خفیہ بدکردار ہوں کہ ادھر ادھر آشنائیاں کرتی پھریں اور چپ چاپ دوست آشنا بناتی پھریں، جو ایسی بد اطوار ہوں ان سے نکاح کرنے کو اللہ تعالیٰ منع فرما رہا ہے

فَإِذَا أُحْصِنَّ فَإِنْ أَتَيْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنَاتِ مِنَ الْعَذَابِ ۚ

 جب یہ لونڈیاں نکاح میں آ جائیں پھر اگر وہ بےحیائی کا کام کریں تو انہیں آدھی سزا ہے اس سزا سے جو آزاد عورتوں کی ہے

أُحْصِنَّ کی دوسری قرأت أَحْصَنَّ بھی ہے، کہا گیا ہے کہ دونوں کا معنی ایک ہی ہے،

یہاں أُحْصِنَّ سے مراد اسلام ہے یا نکاح والی ہوجانا ہے،

ابن ابی حاتم کی ایک مرفوع حدیث میں ہے:

 ان کا أُحْصِنَّ اسلام اور عفت ہے

 لیکن یہ حدیث منکر ہے اس میں ضعف بھی ہے اور ایک راوی کا نام نہیں، ایسی حدیث حجت کے لائق نہیں ہوتی،

دوسرا قول یعنی أُحْصِنَّ سے مراد نکاح ہے حضرت ابن عباسؓ مجاہد عکرمہ طاؤس سعید بن جبیر حسن قتادہ وغیرہ کا یہی قول ہے، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی ابو علی طبری نے اپنی کتاب ایضاح میں یہی نقل کیا ہے،

 مجاہد فرماتے ہیں لونڈی کا محصن ہونا یہ ہے کہ وہ کسی آزاد کے نکاح میں چلی جائے، اسی طرح غلام کا أُحْصِنَّ یہ ہے کہ وہ کسی آزاد مسلمہ سے نکاح کرلے،ابن عباسؓ سے بھی یہ منقول ہے، شعبی اور نخعی بھی یہی کہتے ہیں،

یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان دونوں قرأتوں کے اعتبار سے معنی بھی بدل جاتے ہیں، أُحْصِنَّ سے مراد تو نکاح ہے اور أَحْصَنَّ سے مراد اسلام ہے،

امام ابن جریر اسی کو پسند فرماتے ہیں، لیکن بظاہر مراد یہاں نکاح کرنا ہے واللہ اعلم،

اسی لئے کہ سیاق آیات کی دلالت اسی پر ہے، ایمان کا ذکر تو لفظوں میں موجود ہے بہر دو صورت جمہور کے مذہب کے مطابق آیت کے معنی میں بھی اشکال باقی ہے اس لئے کہ جمہور کا قول ہے کہ لونڈی کو زنا کی وجہ سے پچاس کوڑے لگائے جائیں گے خواہ وہ مسلمہ ہو یا کافرہ ہو شادی شدہ یا غیر شادی شدہ ہو باوجود یہ کہ آیت کے مفہوم کا تقاضا یہ ہے کہ غیر محصنہ لونڈی پر حد ہی نہ ہو، پس اس کے مختلف جوابات دیئے گئے ہیں،

جمہور کا قول ہے کہ بیشک جو بولا گیامفہوم پر مقدم ہے اس لئے ہم نے ان عام احادیث کو جن میں لونڈیوں کو حد مارنے کا بیان ہے اس آیت کے مفہوم پر مقدم کیا،

صحیح مسلم کی حدیث میں ہے :

 حضرت علیؓ نے اپنے خطبے میں فرمایا لوگو اپنی لونڈیوں پر حدیں قائم رکھو خواہ وہ محصنہ ہوں یا نہ ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنی لونڈی کے زنا پر حد مارنے کو فرمایا چونکہ وہ نفاس میں تھی اس لئے مجھے ڈر لگا کہ کہیں حد کے کوڑے لگنے سے یہ مرنہ جائے چنانچہ میں نے اس وقت اسے حد نہ لگائی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا تم نے اچھا کیا جب تک وہ ٹھیک ٹھاک نہ ہوجائے حد نہ مارنا،

مسند احمد میں ہے کہ آپ نے فرمایا جب یہ نفاس سے فارغ ہو تو اسے پچاس کوڑے لگانا۔

حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرماتے تھے :

جب تم میں سے کسی کی لونڈی زنا کرے اور زنا ظاہر ہوجائے تو اسے وہ حد مارے اور برا بھلا نہ کہے پھر اگر دوبارہ زنا کرے تو بھی حد لگائے اور ڈانٹ جھڑک نہ کرے، پھر اگر تیسری مرتبہ زنا کرے اور ظاہر ہو تو اسے بیچ ڈالے اگرچہ ایک رسی کے ٹکڑے کے بدلے ہی ہو،

 اور صحیح مسلم میں ہے کہ جب تین بار یہ فعل اس سے سرزد ہو تو چوتھی دفعہ فروخت کر ڈالے،

عبداللہ بن عیاش بن ابو ربیعہ مخزومی فرماتے ہیں کہ ہم چند قریش نوجوانوں کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے امارت کی لونڈیوں سے کئی ایک پر حد جاری کرنے کو فرمایا ہم نے انہیں زنا کی حد میں پچاس پچاس کوڑے لگائے

 دوسرا جواب ان کا ہے جو اس بات کی طرف گئے ہیں کہ لونڈی پر أُحْصِنَّ بغیر حد نہیں وہ فرماتے ہیں کہ یہ مارنا صرف بطور ادب سکھانے اور باز رکھنے کے ہے،

 ابن عباسؓ اسی طرف گئے ہیں طاؤس سعید ابو عبید داؤد ظاہری کا مذہب بھی یہی ہے ان کی بڑی دلیل مفہوم آیت ہے اور یہ شرط ہے مفہوموں میں سے ہے اور اکثر کے نزدیک یہ محض حجت ہے اس لئے ان کے نزدیک ایک عموم پر مقدم ہوسکتا ہے اور ابوہریرہ اور زید بن خالد کی حدیث جس میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ جب لونڈی زنا کرے اور وہ محصنہ نہ ہو یعنی اس کا نکاح نہ ہوا ہو تو کیا جائے؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

اگر وہ زنا کرے تو اسے حد لگاؤ پھر زنا کرے تو پھر کوڑے لگاؤ پھر بیچ ڈالو گو ایک رسی کے ٹکڑے کے قیمت پر ہی کیوں نہ بیچنا پڑے،

 راوی حدیث ابن شہاب فرماتے ہیں نہیں جانتا کہ تیسری مرتبہ کے بعد یہ فرمایا یا چوتھی مرتبہ کے بعد۔

پس اس حدیث کے مطابق وہ جواب دیتے ہیں کہ دیکھو یہاں کی حد کی مقدار اور کوڑوں کی تعداد بیان نہیں فرمائی جیسے کہ محصنہ کے بارے میں صاف فرما دیا ہے اور جیسے کہ قرآن میں مقرر طور پر فرمایا گیا کہ محصنات کی نسبت نصف حد ان پر ہے، پس آیت و حدیث میں اس طرح تطبیق دینا واجب ہوگئی واللہ اعلم۔

اس سے بھی زیادہ صراحت والی وہ روایت ہے جو سعید بن منصور نے بروایت ابن عباسؓ نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

کسی لونڈی پر حد نہیں جب تک کہ وہ أُحْصِنَّ والی نہ ہوجائے یعنی جب تک نکاح والی نہ ہوجائے پس جب خاوند والی بن جائے تو اس پر آدھی حد ہے بہ نسبت اس حد کے جو آزاد نکاح والیوں پر ہے،

یہ حدیث ابن خزیمہ میں بھی ہے لیکن وہ فرماتے ہیں اسے مرفوع کہنا خطا ہے یہ موقوف ہے یعنی حضرت ابن عباسؓ کا قول ہے،

 بیہقی میں بھی یہ روایت ہے اور آپ کا بھی یہی فیصلہ ہے اور کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ اور حضرت عمرؓ والی حدیثیں ایک واقعہ کا فیصلہ ہیں، اور حضرت ابوہریرہؓ والی حدیث دوسرے واقعہ کا فیصلہ ہیں اور حضرت ابوہریرہؓ والی حدیث کے بھی کئی جوابات ہیں

 ایک تو یہ کہ یہ محمول ہے اس لونڈی پر جو شادی شدہ ہو اس طرح ان دونوں احادیث میں تطبیق اور جمع ہوجاتی ہے

 دوسرے یہ کہ اس حدیث میں لفظ حد کسی راوی کا داخل کیا ہوا ہے اور اس کی دلیل جواب کا فقرہ ہے،

تیسرا جواب یہ ہے کہ یہ حدیث دو صحابیوں کی ہے اور وہ حدیث صرف ایک صحابی کی ہے اور ایک والی پر دو والی مقدم ہے،

 اور اسی طرح یہ حدیث نسائی میں بھی مروی ہے اور مسلم کی شرط پر اس کی سند ہے کہ حضرت عباد بن تمیم اپنے چچا سے جو بدری صحابی تھے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

 جب لونڈی زنا کرے تو اسے کوڑے لگاؤ پھر جب زنا کرے تو کوڑے مارو پھر جب زنا کرے تو کوڑے لگاؤ پھر جب زنا کرے تو بیچ دو اگرچہ ایک رسی کے ٹکڑے کے بدلے ہی بیچنا پڑے۔

چوتھا جواب یہ ہے کہ یہ بھی بعید نہیں کہ کسی راوی نے جلد کو حد خیال کرلیا ہو یا لفظ حد کا اطلاق کردیا ہو اور اس نے جلد کو حد خیال کرلیا ہو یا لفظ حد کا اطلاق تادیب کے طور پر سزا دینے پر کردیا ہو جیسے کہ لفظ حد کا اطلاق اس سزا پر بھی کیا گیا ہے جو بیمار زانی کو کھجور کا ایک خوشہ مارا گیا تھا جس میں ایک سو چھوٹی چھوٹی شاخیں تھیں، اور جیسے کہ لفظ حد کا اطلاق اس شخص پر بھی کیا گیا ہے جس نے اپنی بیوی کی اس لونڈی کے ساتھ زنا کیاجسے بیوی نے اس کے لئے حلال کردیا تھا حالانکہ اسے سو کوڑوں کا لگنا تعزیر کے طور پر صرف ایک سزا ہے جیسے کہ امام احمد سلف کا خیال ہے۔ حد حقیقی صرف یہ ہے کہ کنوارے کو سو کوڑے اور شادی شدہ ہوئے کو رجم واللہ اعلم۔

 ابن ماجہ میں حضرت سعید بن جبیر کا فرمان ہے کہ لونڈی نے جب تک نکاح نہیں کیا اسے زنا پر مارا نہ جائے،

 اس کی اسناد تو صحیح ہے لیکن معنی دو ہوسکتے ہیں ایک تو یہ کہ بالکل مارا ہی نہ جائے نہ حد نہ اور کچھ ’ تو یہ قول بالکل غریب ہے،

ممکن ہے آیت کے الفاظ پر نظر کرکے یہ فتویٰ دے دیا ہو اور حدیث نہ پہنچی ہو،

 دوسرے معنی یہ ہیں کہ حد کے طور پر نہ مارا جائے اگر یہ معنی مراد لئے جائیں تو اسکے خلاف نہیں کہ اور کوئی سزا کی جائے،

 پس یہ قیاس حضرت ابن عباسؓ وغیرہ کے فتوے کے مطابق ہوجائے گا واللہ اعلم۔

تیسرا جواب یہ ہے کہ آیت میں دلالت ہے کہ محصنہ لونڈی پر بہ نسبت آزاد عورت کے آدھی حد ہے، لیکن محصنہ ہونے سے پہلے کتاب و سنت کے عموم میں یہ بھی شامل ہے کہ اسے بھی سو کوڑے مارے جائیں جیسے اللہ کا فرمان ہے:

لزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ (۲۴:۲)

زنا کار عورت و مرد میں ہر ایک کو سو سو کوڑے لگاؤ

اور جیسے حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 میری بات لے لو میری بات سمجھ لو اللہ نے ان کے لئے راستہ نکال لیا اگر دونوں جانب غیر شادی شدہ ہیں تو سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی اور اگر دونوں طرف شادی شدہ ہیں تو سو کوڑے اور پتھروں سے رجم کردینا۔

 یہ حدیث صحیح مسلم شریف کی ہے اور اسی طرح کی اور حدیثیں بھی ہیں،

حضرت داؤد بن علی ظاہری کا یہی قول ہے لیکن یہ سخت ضعیف ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے محصنہ لونڈیوں کو بہ نسبت آزاد کے آدھے کوڑے مارنے کا عذاب بیان فرمایا یعنی پچاس کوڑے تو پھر جب تک وہ محصنہ نہ ہوں اس سے بھی زیادہ سزا کی سزا وار وہ کیسے ہوسکتی ہیں؟ حالانکہ قاعدہ شریعت یہ ہے کہ أُحْصِنَّ سے پہلے کم سزا ہے اور أُحْصِنَّ کے بعد زیادہ سزا ہے پھر اس کے برعکس کیسے صحیح ہوسکتا ہے؟

دیکھئے شارع علیہ السلام سے آپ کے صحابہ غیر شادی شدہ لونڈی کے زنا کی سزا پوچھتے ہیں اور آپ انہیں جواب دیتے ہیں کہ اسے کوڑے مارو لیکن یہ نہیں فرماتے کہ ایک سو کوڑے لگاؤ پس اگر اس کا حکم وہی ہوتا جو داؤد سمجھتے ہیں تو اسے بیان کر دینا حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر واجب تھا اس لئے کہ ان کا یہ سوال تو صرف اسی وجہ سے تھا کہ لونڈی کے شادی شدہ ہوجانے کے بعد اسے کوڑے مارنے کا بیان نہیں ورنہ اس قید کے لگانے کی کیا ضرورت تھی کہ سوال میں کہتے وہ غیر شادی شدہ ہے کیونکہ پھر تو شادی شدہ اور غیر شادی شدہ میں کوئی فرق ہی نہ رہا اگر یہ آیت اتری ہوئی نہ ہوتی لیکن چونکہ ان دونوں صورتوں میں سے ایک کا علم تو انہیں ہوچکا تھا اس لئے دوسری کی بابت سوال کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ پر درود پڑھنے کی نسبت پوچھا تو آپ نے اسے بیان فرمایا اور فرمایا سلام تو اسی طرح ہے جس طرح تم خود جانتے ہو،

 اور ایک روایت میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا فرمان يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (۳۳:۵۶) نازل ہوا اور صلوۃ و سلام آپ پر بھیجنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تو صحابہ نے کہا کہ سلام کا طریقہ اور اس کے الفاظ تو ہمیں معلوم ہیں صلوۃ کی کیفیت بیان فرمائے۔ پس ٹھیک اسی طرح یہ سوال ہے

 مفہوم آیت کا چوتھا جواب ابو ثور کا ہے جو داؤد کے جواب سے زیادہ بودا ہے، وہ فرماتے ہیں جب لونڈیاں شادی شدہ ہوجائیں تو ان کی زنا کاری کی حد ان پر آدھی ہے اس حد کی جو شادی شدہ آزاد عورتوں کی زنا کاری کی حد تو ظاہر ہے کہ آزاد عورتوں کی حد اس صورت میں رجم ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ رجم آدھا نہیں ہوسکتا تو لونڈی کو اس صورت میں رجم کرنا پڑے گا اور شادی سے پہلے اسے پچاس کوڑے لگیں گے، کیونکہ اس حالت میں آزاد عورت پر سو کوڑے ہیں۔

 پس دراصل آیت کا مطلب سمجھنے میں اس سے خطا ہوئی اور اس میں جمہور کا بھی خلاف ہے

 بلکہ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ تو فرماتے ہیں کسی مسلمان کا اس میں اختلاف ہی نہیں کہ مملوک پر زنا کی سزا میں رجم ہے ہی نہیں، اس لئے کہ آیت کی دلالت کرنی ہے کہ ان پر محصنات کا نصف عذاب ہے اور الْمُحْصَنَاتِ کے لفظ میں جو الف لام ہے وہ عہد کا ہے یعنی وہ مُحْصَنَاتِ جن کا بیان آیت کے شروع میں ہے أَنْ يَنْكِحَ الْمُحْصَنَاتِ میں گزرچکا ہے اور مراد صرف آزاد عورتیں ہیں۔ اس وقت یہاں آزاد عورتوں کا نکاح کے مسئلہ کی بحث نہیں بحث یہ ہے کہ پھر آگے چل کر ارشاد ہوتا ہے کہ ان پر زنا کاری کی جو سزا تھی اس سے آدھی سزا ان لونڈیوں پر ہے تو معلوم ہوا کہ یہ اس سزا کا ذکر ہے جو آدھی ہوسکتی ہو اور وہ کوڑے ہیں کہ سو سے آدھے پچاس رہ جائیں گے رجم یعنی سنگسار کرنا ایسی سزا ہے جس کے حصے نہیں ہوسکتے واللہ اعلم،

پھر مسند احمد میں ہے ایک واقعہ ہے جو ابو ثور کے مذہب کی پوری تردید کرتا ہے اس میں ہے کہ صفیہ لونڈی نے ایک غلام سے زناکاری کی اور اسی زنا سے بچہ ہوا جس کا دعویٰ زانی نے کیا مقدمہ حضرت عثمانؓ کے پاس پہنچا آپ نے حضرت علیؓ کو اس کا تصفیہ سونپا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس میں وہی فیصلہ کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے بچہ تو اس کا سمجھا جائے گا جس کی یہ لونڈی ہے اور زانی کو پتھر مارے جائیں گے پھر ان دونوں کو پچاس پچاس کوڑے لگائے،

یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد مفہوم سے تنبیہ ہے اعلیٰ کے ساتھ ادنیٰ پر یعنی جب کہ وہ شادی شدہ ہوں تو ان پر بہ نسبت آزاد عورتوں کے آدھی حد ہے پس ان پر رجم تو سرے سے کسی صورت میں ہے ہی نہیں نہ قبل از نکاح نہ بعد نکاح، دونوں حالتوں میں صرف کوڑے ہیں جس کی دلیل حدیث ہے،

 صاحب مصباح یہی فرماتے ہیں اور حضرت امام شافعی سے بھی اسی کو ذکر کرتے ہیں،

 امام بیہقی اپنی کتاب سنن و آثار میں بھی اسے لائے ہیں لیکن یہ قول لفظ آیت سے بہت دور ہے اس طرح کہ آدھی حد کی دلیل صرف آیت ہے اس کے سوا کچھ نہیں پس اس کے علاوہ میں آدھا ہونا کس طرح سمجھا جائے گا؟

 اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مطلب یہ ہے کہ شادی شدہ ہونے کی حالت میں صرف امام ہی حد قائم کرسکتا ہے اس لونڈی کا مالک اس حال میں اس پر حد جاری نہیں کرسکتا

 امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب میں ایک قول یہی ہے

 ہاں شادی سے پہلے اسکے مالک کو حد جاری کرنے کا اختیار ہے بلکہ حکم ہے لیکن دونوں صورتوں میں حد آدھی ہی رہے گی

 اور یہ بھی دور کی بات ہے اس لئے کہ آیت میں اس کی دلالت بھی نہیں، اگر یہ آیت نہ ہوتی تو ہم نہیں جان سکتے تھے کہ لونڈیوں کے بارے میں آدھی حد ہے اور اس صورت میں انہیں بھی عموم میں داخل کرکے پوری حد یعنی سو کوڑے اور رجم ان پر بھی جاری کرنا واجب ہوجاتا جیسے کہ عام روایتوں سے ثابت ہے،

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ لوگو اپنے ماتحتوں پر حدیں جاری کرو شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ

 اور وہ عام حدیثیں جو پہلے گزرچکی ہیں جن میں خاوندوں والی اور خاوندوں کے بغیر کوئی تفصیل نہیں،

حضرت ابوہریرہؓ کی روایت والی حدیث جس سے جمہور نے دلیل  پکڑی ہے یہ ہے کہ جب تم میں سے کسی کوئی زنا کرے اور پھر اس کا زنا ظاہر ہوجائے تو اسے چاہئے کہ اس پر حد جاری کرے اور ڈانٹ ڈپٹ نہ کرے (ملخصا)

الغرض لونڈی کی زنا کاری کی حد میں کئی قول ہیں ایک تو یہ کہ جب تک اس کا نکاح نہیں ہوا اسے پچاس کوڑے مارے جائیں گے اور نکاح ہوجانے کے بعد بھی یہی حد رہے گی اور اسے جلاوطن بھی کیا جائے گا یا نہیں؟ اس میں تین قول ہیں- ایک یہ کہ جلا وطنی ہوگی

- دوسرے یہ کہ نہ ہوگی

- تیسرے یہ کہ جلا وطنی میں آدھے سال کو ملحوظ رکھا جائے گا یعنی چھ مہینے کا دیس نکالا دیا جائے گا پورے سال کا نہیں، پورا سال آزاد عورتوں کے لئے ہے،

یہ تینوں قول امام شافعی کے مذہب میں ہیں، لیکن امام ابو حنیفہ کے نزدیک جلا وطنی تعزیر کے طور پر ہے وہ حد میں سے نہیں امام کی رائے پر موقوف ہے اگر چاہے جلا وطنی دے یا نہ دے مرد و عورت سب اسی حکم میں داخل ہیں ہاں امام مالک کے مذہب میں ہے کہ جلا وطنی صرف مردوں کے لئے ہے عورتوں پر نہیں اس لئے کہ جلا وطنی صرف اس کی حفاظت کے لئے ہے اور اگر عورت کو جلا وطن کیا گیا تو حفاظت میں سے نکل جائے گی اور مردوں یا عورتوں کے بارے میں دیس نکالے کی حدیث صرف حضرت عبادہ اور حضرت ابوہریرہ ؓسے ہی مروی ہے :

 آنحضرت ﷺ نے اس زانی کے بارے میں جس کی شادی نہیں ہوئی تھی حد مارنے اور ایک سال دیس نکالا دینے کا حکم فرمایا تھا (بخاری)

اس سے معنی مراد یہی ہے کہ اس کی حفاظت رہے اور عورت کو وطن سے نکالے جانے میں یہ حفاظت بالکل ہی نہیں ہوسکتی واللہ اعلم۔

دوسرا قول یہ ہے کہ لونڈی کو اس کی زنا کاری پر شادی کے بعد پچاس کوڑے مارے جائیں گے اور ادب دکھانے کے طور پر اسے کچھ مار پیٹ کی جائے گی لیکن اس کی کوئی مقرر گنتی نہیں

پہلے گزرچکا ہے کہ شادی سے پہلے اسے مارا نہ جائے گا جیسے حضرت سعید بن مسیب کا قول ہے لیکن اگر اس سے یہ مراد لی جائے کہ سرے سے کچھ مارنا ہی نہ چاہئے تو یہ محض تاویل ہی ہوگی ورنہ قول ثانی میں اسے داخل کیا جاسکتا ہے جو یہ ہے کہ شادی سے پہلے سو کوڑے اور شادی کے بعد پچاس جیسے کے داؤد کا قول ہے

اور یہ تمام اقوال سے بودا قول ہے اور یہ کہ شادی سے پہلے پچاس کوڑے اور شادی کے بعد رجم جیسے کہ ابو ثور کا قول ہے لیکن یہ قول بھی بودا ہے۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم بالصواب۔

ذَلِكَ لِمَنْ خَشِيَ الْعَنَتَ مِنْكُمْ ۚ

 کنیزوں سے نکاح کا یہ حکم تم میں سے ان لوگوں کے لئے ہے جنہیں گناہ اور تکلیف کا اندیشہ ہو

پھر فرمان ہے کہ لونڈیوں سے نکاح کرنا ان شرائط کی موجودگی میں جو بیان ہوئیں ان کے لئے جنہیں زنا میں واقع ہونے کا خطرہ ہو اور تجرد اس پر بہت شاق گزر رہا ہو اور اس کی وجہ سے سخت تکلیف میں ہو تو بیشک اسے پاکدامن لونڈیوں سے نکاح کرلینا جائز ہے گو اس حالت میں بھی اپنے نفس کو روکے رکھنا اور ان سے نکاح نہ کرنا بہت بہتر ہے اس لئے کہ اس سے جو اولاد ہوگی وہ اس کے مالک کے لونڈی غلام ہوگی ہاں اگر خاوند غریب ہو تو اس کی یہ اولاد اس کے آقا کی ملکیت امام شافعی کے قول قدیم کے مطابق نہ ہوگی۔

وَأَنْ تَصْبِرُوا خَيْرٌ لَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (۲۵)

اور تمہارا ضبط کرنا بہت بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا اور بڑی رحمت والا ہے ۔

پھر فرمایا اگر تم صبر کرو تو تمہارے لئے افضل ہے اور اللہ غفور و رحیم ہے،

 جمہور علماء نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ لونڈی سے نکاح جائز ہے لیکن یہ اس وقت جب آزاد عورتوں سے نکاح کرنے کی طاقت نہ ہو اور نہ ہی رکے رہنے کی طاقت ہو، بلکہ زنا واقع ہوجانے کا خوف ہو۔ کیونکہ اس میں ایک خرابی تو یہ ہے کہ اولاد غلامی میں جاتی ہے دوسرے ایک طرح ہے کہ آزاد عورت کو چھوڑ کر لونڈیوں کی طرف متوجہ ہونا۔

 ہاں جمہور کے مخالف امام ابو حنیفہؒ اور ان کے ساتھی کہتے ہیں یہ دونوں باتیں شرط نہیں بلکہ جس کے نکاح میں کوئی آزاد عورت نہ ہو اسے لونڈی سے نکاح جائز ہے وہ لونڈی خواہ مؤمنہ ہو خواہ اہل کتاب میں سے ہو۔ چاہے اسے آزاد عورت سے نکاح کرنے کی طاقت بھی ہو اور اسے بدکاری کا خوف بھی نہ ہو، اس کی بڑی دلیل یہ آیت ہے:

وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ (۵:۵)

آزاد عورتیں ان میں سے جو تم سے پہلے کتاب اللہ دئے گئے۔

پس وہ کہتے ہیں یہ آیت عام ہے جس میں آزاد اور غیر آزاد سب ہی شامل ہیں اور مُحْصَنَات سے مراد پاکدامن باعصمت عورتیں ہیں لیکن اس کی ظاہری دلالت بھی اسی مسئلہ پر ہے جو جمہور کا مذہب ہے۔ واللہ اعلم۔

يُرِيدُ اللَّهُ لِيُبَيِّنَ لَكُمْ وَيَهْدِيَكُمْ سُنَنَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَيَتُوبَ عَلَيْكُمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (۲۶)

اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تمہارے واسطے خوب کھول کر بیان کرے اور تمہیں تم سے پہلے کے (نیک) لوگوں کی راہ پر چلائے اور تمہاری توبہ قبول کرے اور اللہ تعالیٰ جاننے والا حکمت والا ہے۔‏

فرمان ہوتا ہے کہ اے مؤمنو اللہ تعالیٰ ارادہ کرچکا ہے کہ حلال و حرام تم پر کھول کھول کر بیان فرما دے جیسے کہ اس سورت میں اور دوسری سورتوں میں اس نے بیان فرمایا وہ چاہتا ہے کہ سابقہ لوگوں کی قابل تعریف راہیں تمہیں سمجھا دے تاکہ تم بھی اس کی اس شریعت پر عمل کرنے لگ جاؤ جو اس کی محبوب اور اس کی پسندیدہ ہیں

وہ چاہتا ہے کہ تمہاری توبہ قبول فرمالے جس گناہ سے جس حرام کاری سے تم توبہ کرو وہ فوراً قبول فرما لیتا ہے

وہ علم و حکمت والا ہے، اپنی شریعت اپنی اندازے اپنے کام اور اپنے فرمان میں وہ صحیح علم اور کامل حکمت رکھتا ہے،

وَاللَّهُ يُرِيدُ أَنْ يَتُوبَ عَلَيْكُمْ وَيُرِيدُ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الشَّهَوَاتِ أَنْ تَمِيلُوا مَيْلًا عَظِيمًا (۲۷)

اللہ چاہتا ہے کہ تمہاری توبہ قبول کرے اور جو لوگ خواہشات کے پیرو ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم اس سے بہت دور ہٹ جاؤ

وہ چاہتا ہے کہ تمہاری توبہ قبول کرے لیکن جوخواہش نفسانی کے پیروکار یعنی شیطانوں کے غلام یہود و نصاریٰ اور بدکاری لوگ تمہیں حق سے ہٹانا اور باطل کی طرف جھکانا چاہتے ہیں،

اللہ تعالیٰ اپنے حکم احکام میں یعنی روکنے اور ہٹانے میں، شریعت اور اندازہ مقرر کرنے میں تمہارے لئے آسانیاں چاہتا ہے اور اسی بنا پر چند شرائط کے ساتھ اس نے لونڈیوں سے نکاح کرلینا تم پر حلال کردیا۔

يُرِيدُ اللَّهُ أَنْ يُخَفِّفَ عَنْكُمْ ۚ وَخُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِيفًا (۲۸)

اللہ چاہتا ہے کہ تم سے تخفیف کر دے کیونکہ انسان کمزور پیدا ہوا ہے ۔

 انسان چونکہ پیدائشی کمزور ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے احکام میں کوئی سختی نہیں رکھی۔ یہ فی نفسہ بھی کمزور اس کے ارادے اور حوصلے بھی کمزور یہ عورتوں کے بارے میں بھی کمزور، یہاں آکر بالکل بیوقوف بن جانے والا۔

چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شب معراج میں سدرۃ المنتہیٰ سے لوٹے اور حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی تو آپ نے دریافت کیا کہ آپ پر کیا فرض کیا گیا؟

 فرمایا ہر دن رات میں پچاس نمازیں

 تو کلیم اللہ نے فرمایا واپس جائیے اور اللہ کریم سے تخفیف طلب کیجئے آپ کی اُمت میں اس کی طاقت نہیں میں اس سے پہلے لوگوں کا تجربہ کرچکا ہوں وہ اس سے بہت کم میں  گھبرا گئے تھے اور آپ کی اُمت تو کانوں آنکھوں اور دل کی کمزوری میں ان سے بھی بڑھی ہوئی ہے

چنانچہ آپ واپس گئے دس معاف کرا لائے پھر بھی یہی باتیں ہوئیں پھر گئے دس ہوئیں یہاں تک کہ آخری مرتبہ پانچ رہ گئیں۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ ۚ

اے ایمان والو! اپنے آپس کے مال ناجائز طریقہ سے مت کھاؤ مگر یہ کہ تمہاری آپس کی رضامندی سے ہو خرید وفروخت

اللہ تعالیٰ اپنے ایماندار بندوں کو ایک دوسرے کے مال باطل کے ساتھ کھانے کی ممانعت فرما رہا ہے خواہ اس کمائی کی ذریعہ سے ہو جو شرعاً حرام ہے جیسے سود خوری قمار بازی اور ایسے ہی ہر طرح کی حیلہ سازی چاہے اسے جواز کی شرعی صورت دے دی ہو اللہ کو خوب معلوم ہے کہ اصل حقیقت کیا ہے،

حضرت ابن عباسؓ سے سوال ہوتا ہے کہ ایک شخص کپڑا خریدتا ہے اور کہتا ہے اگر مجھے پسند آیا تو تو رکھ لوں گا ورنہ کپڑا اور ایک درہم واپس کر دونگا آپ نے اس آیت کی تلاوت کردی یعنی اسے باطل مال میں شامل کیا۔

حضرت عبداللہ فرماتے ہیں یہ آیت محکم ہے یعنی منسوخ نہیں نہ قیامت تک منسوخ ہوسکتی ہے،

 آپ سے مروی ہے کہ جب یہ آیت اتری تو مسلمانوں نے ایک دوسرے کے ہاں کھانا چھوڑ دیا جس پر یہ آیت لَيْسَ عَلَى الْأَعْمَى حَرَجٌ (۲۴:۶۱)اتری

 تِجَارَةً کو تِجَارَةٌ بھی پڑھا گیا ہے۔ یہ استثنا منقطع ہے گویا یوں فرمایا جارہا ہے کہ حرمت والے اسباب سے مال نہ لو ہاں شرعی طریق پر تجارت سے نفع اٹھانا جائز ہے جو خریدار اور بیچنے والے کی باہم رضامندی سے ہو۔جیسے دوسری جگہ ہے:

وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ (۶:۱۵۱)

اور جس کا خون کرنا اللہ تعالیٰ نے حرام کر دیا اس کو قتل مت کرو ہاں مگر حق کے ساتھ

اور جیسے دوسری آیت میں ہے:

لَا يَذُوقُونَ فِيهَا الْمَوْتَ إِلَّا الْمَوْتَةَ الْأُولَىٰ (۴۴:۵۶)

وہاں وہ موت چکھنے کے نہیں ہاں پہلی موت جو آنی تھی سو آچکی

 حضرت امام شافعی اس آیت سے استدلال کرکے فرماتے ہیں خرید و فروخت بغیر قبولیت کے صحیح نہیں ہوتی اس لئے کہ رضامندی کی پوری سند یہی ہے گو صرف لین دین کرلینا کبھی کبھی رضامندی پر پوری دلیل نہیں بن سکتا اور جمہور اس کے برخلاف ہیں،

 تینوں اور اماموں کا قول ہے کہ جس طرح زبانی بات چیت رضامندی کی دلیل ہے اسی طرح لین دین بھی رضامندی کی دلیل ہے۔

 بعض حضرات فرماتے ہیں کم قیمت کی معمولی چیزوں میں تو صرف دینا لینا ہی کافی ہے اور اسی طرح بیوپار کا جو طریقہ بھی ہو لیکن صحیح مذہب میں احتیاطی نظر سے تو بات چیت میں قبولیت کا ہونا اور بات ہے واللہ اعلم۔

 مجاہد فرماتے ہیں خرید و فروخت ہو یا بخشش ہو سب کے لئے حکم شامل ہے۔

ابن جریر کی مرفوع حدیث میں ہے :

تجارت ایک دوسرے کی رضامندی سے ہی لین دین کرنے کا نام ہے گویا کسی مسلمان کو جائز نہیں کہ دوسرے مسلمان کو تجارت کے نام سے دھوکہ دے،

یہ حدیث مرسل ہے

 پوری رضامندی میں مجلس کے خاتمہ تک کا اختیار بھی ہے۔

 بخاری و مسلم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 دونوں بائع مشتری جب تک جدا نہ ہوں با اختیار ہیں۔

بخاری شریف میں ہے :

جب دو شخص خرید و فروخت کریں تو دونوں کو الگ الگ ہونے تک مکمل اختیار ہوتا ہے

 اسی حدیث کے مطابق امام احمد امام شافعی اور ان کے سب ساتھیوں جمہور سلف و خلف کا بھی یہی فتویٰ ہے اور اس پوری رضامندی میں شامل ہے خرید و فروخت کے تین دن بعد تک اختیار دینا رضامندی میں شامل ہے بلکہ یہ مدت گاؤں کی رسم کے مطابق سال بھر کی بھی ہوسکتی ہے امام مالک کے نزدیک صرف لین دین سے ہی بیع صحیح ہوجاتی ہے۔

شافعی مذہب کا بھی یہی خیال ہے اور ان میں سے بعض فرماتے ہیں کہ معمولی کم قیمت چیزوں میں جنہیں لوگ بیوپار کے لئے رکھتے ہوں صرف لین دین ہی کافی ہے۔ بعض اصحاب کا اختیار سے مراد یہی ہے جیسے کہ متفق علیہ ہے۔

وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا (۲۹)

اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو یقیناً اللہ تعالیٰ تم پر نہایت مہربان ہے۔‏

پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ کے بیان کردہ حرام کاموں کا ارتکاب کرکے اور اس کی نافرمانیاں کرکے اور ایک دوسرے کا بے جا طور پر مال کھا کر اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو اللہ تم پر رحیم ہے ہر حکم اور ہر ممانعت رحمت والی ہے۔

مسند احمد میں ہے:

 حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ذات السلاسل والے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا تھا آپ فرماتے ہیں مجھے ایک رات احتلام ہوگیا سردی بہت سخت تھی یہاں تک کہ مجھے نہانے میں اپنی جان جانے کا خطرہ ہوگیا تو میں نے تیمم کرکے اپنی جماعت کو صبح کی نماز پڑھادی جب وہاں سے ہم لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں واپس حاضر ہوئے تو میں نے یہ واقعہ کہہ سنایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تونے اپنے ساتھیوں کو جنبی ہونے کی حالت میں نماز پڑھا دی؟

میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم جاڑا سخت تھا اور مجھے اپنی جان جانے کا اندیشہ تھا تو مجھے یاد پڑا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اپنے تئیں ہلاکت نہ کر ڈالو اللہ رحیم ہے پس میں نے تیمم کرکے نماز صبح پڑھا دی تو آپ ہنس دئیے اور مجھے کچھ نہ فرمایا۔

 ایک روایت میں ہے کہ اور لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ واقعہ بیان کیا تب آپ کے دریافت کرنے پر حضرت عمرو بن عاص نے عذر پیش کیا۔

بخاری و مسلم میں ہے:

 جو شخص کسی لوہے سے خودکشی کرے گا وہ قیامت تک جہنم کی آگ میں لوہے سے خود کشی کرتا رہے گا، اور جو جان بوجھ کر مرجانے کی نیت سے زہر کھالے گا وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنم کی آگ میں زہر کھاتا رہے گا

 اور روایت میں ہے کہ جو شخص اپنے تئیں جس چیز سے قتل کرے گا وہ قیامت والے دن اسی چیز سے عذاب کیا جائے گا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

تم سے پہلے کے لوگوں میں سے ایک شخص کو زخم لگے اس نے چھری سے اپنا ہاتھ کاٹ ڈالا تمام خون بہہ گیا اور وہ اسی میں مرگیا تو اللہ عزوجل نے فرمایا

میرے بندے نے اپنے تئیں فنا کرنے میں جلدی کی اسی وجہ سے میں نے اس پر جنت کو حرام کیا

وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ عُدْوَانًا وَظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِيهِ نَارًا ۚ وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا (۳۰)

اور جو شخص یہ (نافرمانیاں) سرکشی اور ظلم سے کرے گا تو عنقریب ہم اسکو آگ میں داخل کریں گے اور یہ اللہ پر آسان ہے‏

اسی لئے اللہ تعالیٰ یہاں فرماتا ہے جو شخص بھی ظلم و زیادتی کے ساتھ حرام جانتے ہوئے اس کا ارتکاب کرے دلیرانہ طور سے حرام پر کار بند رہے وہ جہنمی ہے، پس ہر عقل مند کو اس سخت تنبیہہ سے ڈرنا چاہئے دل کے کان کھول کر اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو سن کر حرام کاریوں سے اجتناب کرنا چاہئے۔

إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَنُدْخِلْكُمْ مُدْخَلًا كَرِيمًا (۳۱)

اگر تم بڑے گناہوں سے بچتے رہو گے جس سے تم کو منع کیا جاتا ہے تو ہم تمہارے چھوٹے گناہ دور کر دیں گے اور عزت و بزرگی کی جگہ داخل کریں گے۔‏

پھر فرماتا ہے کہ اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے بچتے رہو گے تو ہم تمہارے چھوٹے چھوٹے گناہ معاف فرما دیں گے اور تمہیں جنتی بنادیں گے۔

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مرفوعا ًمروی ہے:

 ہم نے نہیں دیکھا مثل اس کے جو ہمیں ہمارے رب کی طرف سے پہنچی ہے۔ پھر ہم اس کے لئے اپنے اہل و مال سے جدا نہ ہو جائیں کہ وہ ہمارے چھوٹے چھوٹے گناہوں سے در گزر فرماتا ہے سوائے کبیرہ گناہوں کے۔

پھر اس آیت کی تلاوت کی۔

 اس آیت کے متعلق بہت سی حدیثیں بھی ہیں تھوڑی بہت ہم یہاں بیان کرتے ہیں۔

مسند احمد میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 جانتے ہو جمعہ کا دن کیا ہے؟

میں نے جواب دیا کہ یہ وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے باپ کو پیدا کیا

 آپﷺ نے فرمایا مگر اب جو میں جانتا ہوں وہ بھی سن لو جو شخص اس دن اچھی طرح غسل کرکے نماز جمعہ کے لئے مسجد میں آئے اور نماز ختم ہونے تک خاموش رہے تو اس کا یہ عمل اگلے جمعہ تک کے گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے جب تک کہ وہ قتل سے بچا۔

 ابن جریر میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ سناتے ہوئے فرمایا:

 اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میری جان ہے تین مرتبہ یہی فرمایا پھر سرنیچا کرلیا ہم سب نے بھی سر نیچا کرلیا اور ہم سب رونے لگے ہمارے دل کانپنے لگے کہ اللہ جانے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کس چیز کے لئے قسم کھائی ہے اور پھر کیوں خاموشی اختیار کی ہے؟

تھوڑی دیر کے بعد آپ نے سراٹھایا اور آپ کا چہرہ بشاش تھا جس سے ہم اس قدر خوش ہوئے کہ اگر ہمیں سرخ رنگ اونٹ ملتے تو اس قدر خوش نہ ہوتے، اب آپﷺ فرمانے لگے

 جو بندہ پانچوں نمازیں پڑھے، رمضان کے روزے رکھے، زکوٰۃ ادا کرتا رہے اور سات کبیرہ گناہوں سے بچا رہے اس کے لئے جنت کے سب دروازے کھل جائیں گے اور اسے کہا جائے گا کہ سلامتی کے ساتھ اس میں داخل ہوجاؤ۔

سات کبیرہ گناہ

جن سات گناہوں کا اس میں ذکر ہے ان کی تفصیل بخاری مسلم میں اس طرح ہے

 گناہوں سے بچو جو ہلاک کرنے والے ہیں

پوچھا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون سے گناہ ہیں؟

فرمایا

- اللہ کے ساتھ شرک کرنا

-  اور جس کا قتل حرام ہو اسے قتل کرنا ہاں کسی شرعی وجہ سے اس کا خون حلال ہوگیا ہو تو اور بات ہے۔

- جادو کرنا،

- سود کھانا

-  اور یتیم کا مال کھانا

-  اور میدان جنگ سے کفار کے مقابلے میں پیٹھ دکھانا

- اور بھولی بھالی پاک دامن مسلمان عورتوں کو تہمت لگانا۔

ایک روایت میں جادو کے بدلے ہجرت کرکے پھر واپس اپنے دیس میں قیام کرلینا ہے۔

 یہ یاد رہے کہ ان سات گناہوں کو کبیرہ کہنے سے یہ مطلب نہیں کہ کبیرہ گناہ صرف یہی ہیں جیسے کہ بعض اور لوگوں کا خیال ہے جن کے نزدیک مفہوم مخالف معتبر ہے۔ دراصل یہ بہت انتہائی بےمعنی قول اور غلط اصول ہے بالخصوص اس وقت جبکہ اس کے خلاف دلائل موجود ہوں اور یہاں تو صاف لفظوں میں اور کبیرہ گناہوں کا بھی ذکر موجود ہے۔

احادیث

مستدرک حاکم میں ہے کہ حجتہ الوداع میں رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

لوگو سن لو اللہ تعالیٰ کے ولی صرف نمازی ہی ہیں جو پانچوں وقت کی فرض نمازوں کو باقاعدہ بجا لاتے ہیں جو رمضان شریف کے روزے رکھتے ہیں ثواب حاصل کرنے کی نیت رکھے اور فرض جان کر ہنسی خوشی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور ان تمام کبیرہ گناہوں سے دور رہتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے روک دیا ہے۔

 ایک شخص نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کبیرہ گناہ کیا ہیں؟

 آپ ﷺنے فرمایا

- شرک،

- قتل،

- میدان جنگ سے بھاگنا،

-  مال یتیم کھانا،

-  سود خوری،

- پاکدامنوں پر تہمت لگانا،

-  ماں باپ کی نافرمانی کرنا،

- بیت اللہ الحرام کی حرمت کو توڑنا جو زندگی اور موت میں تمہارا قبلہ ہے

 سنو جو شخص مرتے دم تک ان بڑے گناہوں سے اجتناب کرتا رہے اور نماز و زکوٰۃ کی پابندی کرتا رہے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنت میں سونے کے محلوں میں ہوگا۔

حضرت طیسلہ بن میامن فرماتے ہیں کہ مجھ سے ایک گناہ ہوگیا جو میرے نزدیک کبیرہ تھا، میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا وہ کبیرہ گناہ نہیں کبیرہ گناہ نو ہیں۔

- اللہ کے ساتھ شرک کرنا

-  کسی کو بلا وجہ مار ڈالنا،

- میدان جنگ میں دشمنان دین کو پیٹھ دکھانا،

-  پاکدامن عورتوں کو تہمت لگانا،

- سود کھانا،

- یتیم کا مال ظلم سے کھا جانا،

- مسجد حرام میں الحاد پھیلانا

-  اور ماں باپ کو نافرمانی کے سبب رلانا،

حضرت طیسلہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس بیان کے بعد بھی حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے محسوس کیا کہ خوف کم نہیں ہوا تو فرمایا کیا تمہارے دل میں جہنم کی آگ میں داخل ہونے کا ڈر اور جنت میں جانے کی چاہت ہے؟

میں نے کہا بہت زیادہ

فرمایا کیا تمہارے ماں باپ زندہ ہیں؟

میں نے کہا صرف والدہ حیات ہیں،

 فرمایا بس تم ان سے نرم کلامی سے بولا کرو اور انہیں کھانا کھلاتے رہا کرو اور ان کبیرہ گناہوں سے بچتے رہا کرو تو تم یقیناً جنت میں جاؤ گے

اور روایت میں ہے کہ حضرت طیسلہ بن علی نہدی حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے میدان عرفات میں عرفہ کے دن پیلو کے درخت تلے ملے تھے اس وقت حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے سر اور چہرے پر پانی بہا رہے تھے اس میں یہ بھی ہے کہ جب حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے تہمت لگانے کا ذکر کیا تو میں نے پوچھا کیا یہ بھی مثل قتل کے بہت بڑا گناہ ہے؟

 آپ نے فرمایا ہاں ہاں اور ان گناہوں کے ذکر میں جادو کا ذکر بھی ہے

 اور روایت میں ہے کہ میری ان کی ملاقات شام کے وقت ہوئی تھی اور میں نے ان سے کبائر کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ کبائر سات ہیں

 میں نے پوچھا کیا کیا تو فرمایا

- شرک اور تہمت لگانا

میں نے کہا کیا یہ بھی مثل خون ناحق کے ہے؟

فرمایا ہاں ہاں

-  اور کسی مؤمن کو بےسبب مار ڈالنا،

- لڑائی سے بھاگنا،

- جادو اور سود خوری،

-  مال یتیم کھانا،

- والدین کی نافرمانی

-  اور بیت اللہ میں الحاد پھیلانا جو زندگی میں اور موت میں تمہارا قبلہ ہے،

مسند احمد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جو اللہ کا بندہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے نماز قائم رکھے زکوٰۃ ادا کرے رمضان کے روزے رکھے اور کبیرہ گناہوں سے بچے وہ جنتی ہے،

 ایک شخص نے پوچھا کبائر کیا ہیں؟

 آپ ﷺنے فرمایا

-  اللہ کے ساتھ شرک کرنا

- مسلمان کو قتل کرنا

- لڑائی والے دن بھاگ کھڑا ہونا۔

 ابن مردویہ میں ہے:

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل یمن کو ایک کتاب لکھوا کر بھجوائی جس میں فرائض اور سنن کی تفصیلات تھیں دیت یعنی جرمانوں کے احکام تھے اور یہ کتاب حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ اہل یمن کو بھجوائی گئی تھی اس کتاب میں یہ بھی تھا :

- قیامت کے دن تمام کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑا کبیرہ گناہ یہ ہے کہ انسان اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرے

-  اور ایماندار شخص کا قتل بغیر حق کے

-  اور اللہ کی راہ میں جہاد کے میدان میں جا کر لڑتے ہوئے نامردی سے جان بچانے کی خاطر بھاگ کھڑا ہونا

-  اور ماں باپ کی نافرمانی کرنا

-  اور ناکردہ گناہ عورتوں پر الزام لگانا

-  اور جادو سیکھنا

- اور سود کھانا

-  اور مال یتیم برباد کرنا۔

 ایک اور روایت میں کبیرہ گناہوں کے بیان میں جھوٹی بات یا جھوٹی شہادت بھی ہے

 اور حدیث میں ہے:

 کبیرہ گناہوں کے بیان کے وقت آپ ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے لیکن جب یہ بیان فرمایا کہ جھوٹی گواہی اور جھوٹی بات اس وقت آپ تکیے سے ہٹ گئے اور بڑے زور سے اس بات کو بیان فرمایا اور بار بار اسی کو دہراتے رہے یہاں تک کہ ہم نے دل میں سوچا کاش اب آپ نہ دہرائیں۔

بخاری مسلم میں ہے :

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کونسا گناہ سب سے بڑا ہے؟b

 آپﷺ نے فرمایا کہ تو اللہ تعالیٰ کا کسی کو شریک کرے یہ جانتے ہوئے کہ تجھے صرف اسی نے پیدا کیا ہے؟

 میں نے پوچھا اس کے بعد؟

فرمایا یہ کہ تو اپنے بچے کو اس ڈر سے قتل کردے کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گا،

 میں نے پوچھا پھر کونسا گناہ بڑا ہے؟

 فرمایا یہ کہ تو اپنی پڑوسن سے بدکاری کرے

پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ سے  إِلَّا مَن تَابَ (۲۵:۶۸،۷۰) تک پڑھی

 ابن ابی حاتم میں ہے:

 حضرت عبداللہ بن عمرو بن رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد الحرام میں حطیم کے اندر بیٹھے ہوئے تھے جو ایک شخص نے شراب کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا:

 مجھ جیسا بوڑھا بڑی عمر کا آدمی اس جگہ بیٹھ کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ نہیں بول سکتا شراب کا پینا تمام گناہوں سے بڑا گناہ ہے؟ یہ کام تمام خباثتوں کی ماں ہے شرابی تارک نماز ہوتا ہے وہ اپنی ماں اور خالہ اور پھوپھی سے بھی بدکاری کرنے سے نہیں چوکتا

 یہ حدیث غریب ہے۔

 ابن مردویہ میں ہے:

 حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دوسرے بہت سے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ایک مرتبہ ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے وہاں کبیرہ گناہوں کا ذکر نکلا کہ سب سے بڑا گناہ کیا ہے؟ تو کسی کے پاس مصدقہ جواب نہ تھا اس لئے انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ کو بھیجا کہ تم جاکر حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے دریافت کر آؤ

میں گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ سب سے بڑا گناہ شراب پینا ہے

میں نے واپس آکر اس مجلس میں یہ جواب سنا دیا اس پر اہل مجلس کو تسکین نہ ہوئی اور سب حضرات اٹھ کر حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر چلے اور خود ان سے دریافت کیا تو انہوں نے بیان کیا کہ لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک واقعہ بیان کیا:

 بنی اسرائیل کے بادشاہوں میں سے ایک نے ایک شخص کو گرفتار کیا پھر اس سے کہا کہ یا تو تو اپنی جان سے ہاتھ دھو ڈال یا ان کاموں میں سے کسی ایک کو کر یعنی یا تو شراب پی یا خون ناحق کر یا زنا کر یا سؤر کا گوشت کھا

 غور و تفکر کے بعد اس نے جان جانے کے ڈر سے شراب کو ہلکی چیز سمجھ کر پینا منظور کرلیا جب شراب پی لی تو پھر نشہ میں وہ ان تمام کاموں کو کر گزرا جن سے وہ پہلے رکا تھا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واقعہ گوش گزار فرما کر ہم سے فرمایا :

جو شخص شراب پیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی نمازیں چالیس رات تک قبول نہیں فرماتا اور جو شراب پینے کی عادت میں ہی مرجائے اور اس کے مثانہ میں تھوڑی سی شراب ہو اس پر اللہ جنت کو حرام کردیتا ہے۔ اگر شراب پینے کے بعد چالیس راتوں کے اندر اندر مرے تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوتی ہے،

 یہ حدیث غریب ہے

 ایک اور حدیث میں جھوٹی قسم کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبیرہ گناہوں میں شمار فرمایا ہے (بخاری)

ابن ابی حاتم میں جھوٹی قسم کے بیان کے بعد یہ فرمان بھی ہے:

 جو شخص اللہ کی قسم کھا کر کوئی بات کہے اور اس نے مچھر کے پر برابر زیادتی کی اس کے دل میں ایک سیاہ داغ ہوجاتا ہے جو قیامت تک باقی رہتا ہے۔

 ابن ابی حاتم میں ہے:

 انسان کا اپنے ماں باپ کو گالی دینا کبیرہ گناہ ہے

 لوگوں نے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ماں باپ کو کیسے گالی دے گا؟

 آپ نے فرمایا اس طرح کہ اس نے دوسرے کے باپ کو گالی دی اس نے اس کے باپ کو اس نے اس کی ماں کو برا کہا اس نے اس کی ماں کو۔

بخاری شریف میں ہے:

 سب سے بڑا کبیرہ گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنے ماں باپ پر لعنت کرے

 لوگوں نے کہا یہ کیسے ہوسکتا ہے

 فرمایا دوسرے کے ماں باپ کو کہہ کر اپنے ماں باپ کو کہلوانا۔

صحیح حدیث میں ہے:

 مسلمان کو گالی دینا فاسق بنا دیتا ہے اور اسے قتل کرنا کفر ہے۔

 ابن ابی حاتم میں ہے :

اکبر الکبائر یعنی تمام کبیرہ گناہوں میں بڑا گناہ کسی مسلمان کی آبرو ریزی کرنا ہے اور ایک گالی کے بدلے دو گالیاں دینا ہے

 ترمذی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جس شخص نے دو نمازوں کو عذر کے بغیر جمع کیا وہ کبیرہ گناہوں کے دروازوں میں سے ایک دروازے میں گھسا۔

 ابن ابی حاتم میں ہے :

 حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کتاب جو ہمارے سامنے پڑھی گئی اس میں یہ بھی تھا کہ دو نمازوں کو بغیر شرعی عذر کے جمع کرنا کبیرہ گناہ ہے، اور لڑائی کے میدان سے بھاگ کھڑا ہونا اور لوٹ کھسوٹ کرنا بھی کبیرہ گناہ ہے، الغرض ظہر عصر یا مغرب عشاء پہلے وقت یا پچھلے وقت بغیر کسی شرعی رخصت کے جمع کرکے پڑھنا کبیرہ گناہ ہے۔ پھر جو شخص کہ بالکل ہی نہ پڑھے اس کے گناہ کا تو کیا ٹھکانہ ہے؟

چنانچہ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ بندے اور شرک کے درمیان نماز کا چھوڑ دینا ہے،

 سنن کی ایک حدیث میں ہے:

 ہم میں اور کافر میں فرق کرنے والی چیز نماز کا چھوڑ دینا ہے، جس نے اسے چھوڑا اس نے کفر کیا

اور روایت میں آپﷺ کا یہ فرمان بھی منقول ہے کہ جس نے عصر کی نماز ترک کردی اس کے اعمال غارت ہوئے

 اور حدیث میں ہے:

 جس سے عصر کی نماز فوت ہوئی گویا اس کا مال اس کا اہل و عیال بھی ہلاک ہوگئے،

 ابن ابی حاتم میں ہے:

 ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کبیرہ گناہ کیا کیا ہیں؟

 آپ ﷺنے فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا، اللہ کی نعمت اور اس کی رحمت سے ناامید ہونا اور اس خفیہ تدبیروں سے بےخوف ہوجانا اور یہ سب سے بڑا گناہ ہے

 اسی کے مثل ایک روایت بزار میں بھی مروی ہے لیکن زیادہ ٹھیک یہ ہے کہ وہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ پر موقوف ہے،

 ابن مردویہ میں ہے کہ  ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتے ہیں سب سے کبیرہ گناہ اللہ عزوجل کے ساتھ بدگمانی کرنا ہے،

یہ روایت بہت ہی غریب ہے،

 پہلے وہ حدیث بھی گزرچکی ہے جس میں ہجرت کے بعد کفرستان میں آکر بسنے کو بھی کبیرہ گناہ فرمایا ہے،

یہ حدیث ابن مردویہ میں ہے، سات کبیرہ گناہوں میں اسے بھی گنا گیا ہے لیکن اس کی اسناد میں اختلاف ہے اور اسے مرفوع کہنا بالکل غلط ہے

 ٹھیک بات وہی ہے جو تفسیر ابن جریر میں مروی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوفے کی مسجد میں ایک مرتبہ منبر پر کھڑے ہو کر لوگوں کو خطبہ سنا رہے تھے جس میں فرمایا  کہ لوگو کبیرہ گناہ سات ہیں اسے سن کر لوگ چیخ اٹھے آپ نے اسی کو پھر دہرایا پھر دہرایا پھر فرمایا تم مجھ سے ان کی تفصیل کیوں نہیں پوچھتے؟

لوگوں نے کہا امیر المؤمنین فرمائیے وہ کیا ہیں؟

آپ نے فرمایا

- اللہ کے ساتھ شرک کرنا

- جس جان کو مار ڈالنا اللہ نے حرام کیا ہے اسے مار ڈالنا

-  پاکدامن عورتوں پر تہمت لگانا

-  یتیم کا مال کھانا

- سود خوری کرنا

-  لڑائی کے دن پیٹھ دکھانا

-  اور ہجرت کے بعد پھر دارالکفر میں آبسنا۔

 راوی حدیث حضرت محمد بن سہل رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے والد حضرت سہل بن خیثمہ رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ اسے کبیرہ گناہوں میں کیسے داخل کیا تو جواب ملا کہ پیارے بچے اس سے بڑھ کر ستم کیا ہوگا؟ کہ ایک شخص ہجرت کرکے مسلمانوں میں ملے مال غنیمت میں اس کا حصہ مقرر ہوجائے مجاہدین میں اس کا نام درج کردیا جائے پھر وہ ان تمام چیزوں کو چھوڑ کر اعرابی بن جائے اور دارالکفر میں چلا جائے اور جیسا تھا ویسا ہی ہوجائے،

مسند احمد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حجتہ الوداع کے خطبہ میں فرمایا :

خبردار خبردار اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو خون ناحق سے بچو (ہاں شرعی اجازت اور چیز ہے) زنا کاری نہ کرو چوری نہ کرو۔

 وہ حدیث پہلے گزرچکی ہے جس میں ہے کہ وصیت کرنے میں کسی کو نقصان پہنچانا بھی کبیرہ گناہ ہے ابن جریر میں ہے:

 ابن جریر میں ہے:

 وہ حدیث پہلے گزرچکی ہے جس میں ہے کہ وصیت کرنے میں کسی کو نقصان پہنچانا بھی کبیرہ گناہ ہے

 ابن جریر میں ہے:

 صحابہؓ نے ایک مرتبہ کبیرہ گناہوں کو دہرایا کہ اللہ کے ساتھ شریک کرنا یتیم کا مال کھانا لڑائی سے بھاگ کھڑا ہونا، پاکدامن بےگناہ عورتوں پر تہمت لگانا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، جھوٹ بولنا، دھوکہ دینا، خیانت کرنا، جادو کرنا، سود کھانا یہ سب کبیرہ گناہ ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور اس گناہ کو کیا کہو گے؟ جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی تھوڑی قیمت پر بیچتے پھرتے ہیں آخر آیت تک آپ نے تلاوت کی۔

 اس کی اسناد میں ضعف ہے اور یہ حدیث حسن ہے، g

 اب اس بارے میں سلف صالحین رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کے جو اقوال ہیں وہ ملاحظہ ہوں،

 ابن جریر میں منقول ہے:

چند لوگوں نے مصر میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ بہت سی باتیں کتاب اللہ میں ہم ایسی پاتے ہیں کہ جن پر ہمارا عمل نہیں اس لئے ہم امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس بارے میں دریافت کرنا چاہتے ہیں،

حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا انہیں لے کر مدینہ آئے اپنے والد سے ملے آپ نے پوچھا کب آئے ہو؟

جواب دیا کہ چند دن ہوئے۔

 پوچھا اجازت سے آئے ہو؟

 اس کا بھی جواب دیا پھر اپنے ساتھ آنے والے لوگوں کا ذکر اور مقصد بیان کیا

 آپ نے فرمایا انہیں جمع کرو سبھی کو ان کے پاس لائے اور ان میں سے ہر ایک کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پوچھا تجھے اللہ اور اسلام حق کی قسم بتاؤ تم نے پورا قرآن کریم پڑھا ہے؟

 اس نے کہا ہاں

 فرمایا کیا تونے اسے اپنے دل میں محفوظ کرلیا ہے اس نے کہا نہیں اور اگر ہاں کہتا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا اسے کماحقہ دلائل سے عاجز کردیتے

پھر فرمایا کیا تم سب نے قرآن حکیم کے مفہوم کو نگاہوں میں زبان میں اور اعمال میں ڈھال لیا ہے پھر ایک ایک سے یہی سوال کیا پھر فرمایا تم عمر کو اس مشقت میں ڈالنا چاہتے ہو کہ لوگوں کو بالکل کتاب اللہ کے مطابق ہی ٹھیک ٹھاک کردے، ہمارے رب کو پہلے سے ہی ہماری خطاؤں کا علم تھا پھر آپ نے إِن تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَنُدْخِلْكُم مُّدْخَلًا كَرِيمًا (۴:۳۱) کی تلاوت کی۔ پھر فرمایا کیا اہل مدینہ کو تمہارے آنے کا مقصد معلوم ہے؟

انہوں نے کہا نہیں فرمایا اگر انہیں بھی اس کا علم ہوتا تو مجھے اس بارے میں انہیں بھی وعظ کرنا پڑتا۔

 اس کی اسناد حسن ہے اور متن بھی گو یہ روایت حسن کی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ہے جس میں انقطاع ہے لیکن پھر بھی اتنے سے نقصان پر اس کی پوری شہرت بھاری ہے۔

 ابن ابی حاتم میں ہی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتے ہیں:

 کبیرہ گناہ یہ ہیں اللہ کے ساتھ شریک کرنا، کسی کو مار ڈالنا، یتیم کا مال کھانا، پاکدامن عورتوں کو تہمت لگانا، لڑائی سے بھاگ جانا، ہجرت کے بعد دارالکفر میں قیام کرلینا، جادو کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، سود کھانا، جماعت سے جدا ہونا، خرید و فروخت کا عہد توڑ دینا،

پہلے گزرچکا ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں بڑے سے بڑا گناہ اللہ کے ساتھ شریک کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ کی وسعت رحمت سے مایوس ہونا اور اللہ کی رحمت سے ناامید ہونا ہے اور اللہ عزوجل کی پوشیدہ تدبیروں سے بےخوف ہونا ہے۔

 ابن جریر میں آپ ہی سے روایت ہے کہ سورۃ نساء کی شروع آیت سے لے کر تیس آیتوں تک کبیرہ گناہ کا بیان ہے پھر آپ نے إِن تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَنُدْخِلْكُم مُّدْخَلًا كَرِيمًا (۴:۳۱)  کی تلاوت کی،

حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتے ہیں:

 کبیرہ گناہ اللہ کے ساتھ شریک کرنا ماں باپ کو ناخوش کرنا آسودگی کے بعد کے بچے ہوئے پانی کو حاجت مندوں سے روک رکھنا اپنے پاس کے نر جانور کو کسی کی مادہ کے لئے بغیر کچھ لئے نہ دینا،

 بخاری و مسلم کی ایک مرفوع حدیث میں ہے:

 بچا ہوا پانی نہ روکا جائے اور نہ بچی ہوئی گھاس روکی جائے،

 اور روایت میں ہے :

تین قسم کے گنہگاروں کی طرف قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نظر رحمت سے نہ دیکھے گا اور نہ ہی ان کی فرد جرم ہٹائے گا بلکہ ان کے لئے درد ناک عذاب ہیں ایک وہ شخص جو جنگل میں بچے ہوئے پانی پر قبضہ کرکے مسافروں کو اس سے روکے۔

 مسند احمد میں ہے:

 جو شخص زائد پانی کو اور زائد گھاس کو روک رکھے اللہ قیامت کے دن اس پر اپنا فضل نہیں کرے گا۔

 حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں:

 کبیرہ گناہ وہ ہیں جو عورتوں سے بیعت لینے کے ذکر میں بیان ہوئے ہیں یعنی عَلَىٰ أَن لَّا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا (۶۰:۱۲) میں۔

 حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت (إِن تَجْتَنِبُوا) کو اللہ تعالیٰ کے عظیم الشان احسانوں میں بیان فرماتے ہیں اور اس پر بڑی خوشنودی کا اظہار فرماتے ہیں ۔

 ایک مرتبہ حضرت ابن عباسؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سامنے لوگوں نے کہا کبیرہ گناہ سات ہیں آپ نے کئی کئی مرتبہ فرمایا سات ہیں،

دوسری روایت میں ہے آپ نے فرمایا سات ہلکا درجہ ہے ورنہ ستر ہیں،

 ایک اور شخص کے کہنے پر آپ نے فرمایا وہ سات سو تک ہیں اور سات بہت ہی قریب ہیں ہاں یہ یاد رکھو کہ استغفار کے بعد کبیرہ گناہ کبیرہ نہیں رہتا اور اصرار اور تکرار سے صغیرہ گناہ صغیرہ نہیں رہتا،

 اور سند سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا جس گناہ پر بھی جہنم کی وعید اللہ کے غضب لعنت یا عذاب کی ہے وہ کبیرہ گناہ ہے

 اور روایت میں ہے:

 جس کام سے اللہ منع فرمادے اس کا کرنا کبیرہ گناہ ہے یعنی کام میں بھی اللہ عزوجل کی نافرمانی ہو وہ بڑا گناہ ہے

 تابعین کے اقوال

عبیدہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

 کبیرہ گناہ یہ ہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک، قتل نفس بغیر حق، میدان جہاد میں پیٹھ پھیرنا، یتیم کا مال اڑانا، سود خوری، بہتان بازی، ہجرت کے بعد وطن دوستی۔

راوی حدیث ابن عون نے اپنے استاد محمد سے پوچھا کیا جادو کبیرہ گناہ میں نہیں؟ فرمایا یہ بہتان میں آگیا، یہ لفظ بہت سی برائیوں پر مشتمل ہے،

حضرت عبید بن عمیر رحمۃ اللہ علیہ نے کبیرہ گناہوں پر آیات قرآنی بھی تلاوت کرکے سنائیں

 شرک پر:

وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ (۲۲:۳۱)

سنو! اللہ کے ساتھ شریک کرنے والا گویا آسمان سے گر پڑا، اب یا تو اسے پرندے اچک لے جائیں گے یا ہوا کسی دور دراز کی جگہ پھینک دیگی

یتیم کے مال پر:

إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَىٰ ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا (۴:۱۰)

جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں، وہ اپنے پیٹ میں آگ ہی بھر رہے ہیں

سود خوری پر:

الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ (۲:۲۷۵)

سود خور نہ کھڑے ہونگے مگر اسی طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھو کر خبطی بنا دے

بہتان پر:

وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا (۲۴:۴)

جو لوگ پاکدامن بےخبر باایمان عورتوں پر تہمت لگائیں۔

میدان جنگ سے بھاگنے پر:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبَارَ (۸:۱۵)

 اے ایمان والو! جب تم کافروں سے دو بدو مقابل ہو جاؤ، تو ان سے پشت مت پھیرنا

ہجرت کے بعد کفرستان میں قیام کرنے پر:

إِنَّ الَّذِينَ ارْتَدُّوا عَلَىٰ أَدْبَارِهِم مِّن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدَى (۴۷:۲۵)

جو لوگ اپنی پیٹھ کے بل الٹے پھر گئے اس کے بعد کہ ان کے لئے ہدایت واضح ہو چکی

قتل مؤمن پر:

وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا (۴:۹۳)

اور جو کوئی کسی مؤمن کو قصداً قتل کر ڈالے، اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا

 حضرت عطا رحمتہ اللہ علیہ سے بھی کبیرہ گناہوں کا بیان موجود ہے اور اس میں جھوٹی گواہی ہے،

حضرت مغیرہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ کہا جاتا تھا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو برا کہنا بھی کبیرہ گناہ ہے ،

 میں کہتا ہوں علماء کی ایک جماعت نے اسے کافر کہا ہے جو صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو برا کہے

حضرت امام مالک بن انس رحمتہ اللہ علیہ سے یہ مروی ہے،

 امام محمد بن سیرین رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں میں یہ باور نہیں کر سکتا کہ کسی کے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ہو اور وہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے دشمنی رکھے (ترمذی)

حضرت زید بن اسلم رحمتہ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کبائر یہ ہیں:

 اللہ کے ساتھ شرک کرنا اللہ کی آیتوں اور اس کے رسولوں سے کفر کرنا جادو کرنا اولاد کو مار ڈالنا اللہ تعالیٰ سے اولاد اور بیوی کی نسبت دینا اور اسی جیسے وہ اعمال اور وہ اقوال ہیں جن کے بعد کوئی نیکی قبول نہیں ہوتی ہاں کی ایسے گناہ ہیں جن کے ساتھ دین رہ سکتا ہے اور عمل قبول کر سکتا ہے ایسے گناہوں کو نیکی کے بدلے اللہ عزوجل معاف فرما دیتا ہے،

حضرت قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے مغفرت کا وعدہ ان سے کیا ہے جو کبیرہ گناہوں سے بچیں اور ہم سے یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کبیرہ گناہ سے بچو ٹھیک ٹھاک اور درست رہو اور خوش خبری سنو۔

مسند عبدالرزاق میں بہ سند صحیح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا :

میری شفاعت صرف متقیوں اور مؤمنوں کے لئےنہیں بلکہ وہ خطا کاروں اور گناہوں سے آلودہ لوگوں کے لئے بھی ہے۔

 اب علماء کرام کے اقوال سنئے جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ کبیرہ گناہ کسے کہتے ہیں

 بعض تو کہتے ہیں کبیرہ گناہ وہ ہے جس پر حد شرعی ہو۔

 بعض کہتے ہیں جس پر قرآن میں یا حدیث میں کسی سزاکا ذکر ہو۔

بعض کا قول ہے جس سے دین داری کم ہوتی ہو اور دیانت داری میں کمی واقع ہوتی ہو۔

قاضی ابو سعید ہروی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جس کا حرام ہونا لفظوں سے ثابت ہو اور جس نافرمانی پر کوئی حد ہو جیسے قتل وغیرہ اسی طرح ہر فریضہ کا ترک اور جھوٹی گواہی اور جھوٹی روایت اور جھوٹی قسم۔

قاضی روبانی فرماتے ہیں کبائر سات ہیں:

- بےوجہ کسی کو مار ڈالنا،

-  زنا،

- لواطت،

-  شراب نوشی،

-  چوری،

- غصب،

- تہمت

- اور ایک آٹھویں گواہی

اور اسی کے ساتھ یہ بھی شامل کئے گئے ہیں

- سود خوری،

- رمضان کے روزے کا بلا عذر ترک کر دینا،

- جھوٹی قسم ،

- قطع رحمی،

-  ماں باپ کی نافرمانی،

- جہاد سے بھاگنا،

- یتیم کا مال کھانا ،

-  ناپ تول میں خیانت کرنا

- نماز وقت سے پہلے یا وقت گزار کے بےعذر ادا کرنا،

-  مسلمان کو بےوجہ مارنا،

-  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جان کر جھوٹ باندھنا

-  آپ ﷺکے صحابیوں کو گالی دینا

- باوجود  قدرت کے بھلی باتوں کا حکم نہ کرنا

- بری باتوں سے نہ روکنا،

- قرآن سیکھ کر بھول جانا،

- جاندار چیز کو آگ سے جلانا،

- عورت کا اپنے خاوند کے پاس بےسبب نہ آنا،

-  رب کی رحمت سے ناامید ہو جانا،

-  اللہ کے مکر سے بےخوف ہو جانا،

-  اہل علم اور عاملان قرآن کی برائیاں کرنا،

-  ظہار کرنا،

-  سؤر کا گوشت کھانا،

- مردار کھانا، ہاں اگر بوجہ ضرورت اور اضطراب کے کھایا ہو تو ادویات کے مصداق ہے۔

 امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ان میں سے بعض میں توقف کی گنجائش ہے؟

 کبائر کے بارے میں بزرگان دین نے بہت سی کتابیں بھی تصنیف فرمائی ہیں ہمارے شیخ حافظ ابو عبداللہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ایک کتاب لکھی ہے جس میں ستر کبیرہ گناہ گنوائے ہیں۔

 اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ کبیرہ گناہ وہ ہے جس پر شارع علیہ السلام نے جہنم کی وعید سنائی ہے ۔ اس قسم کے گناہ ہی اگر گنے جائیں تو بہت نکلیں گے اور اگر کبیرہ گناہ ہر اس کام کو کہا جائے جس سے شارع علیہ السلام نے روک دیا ہے تو بہت ہی ہو جائیں گے ۔ واللہ اعلم

وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللَّهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ ۚ

اور اس کی آرزو نہ کرو جس کے باعث اللہ تعالیٰ نے تم سے بعض کو بعض پر بزرگی دی ہے،

حضرت اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مرد جہاد کرتے ہیں اور ہم عورتیں اس ثواب سے محروم ہیں، اسی طرح میراث میں بھی ہمیں بہ نسبت مردوں کے آدھا ملتا ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی (ترمذی)

اور روایت میں ہے کہ اس کے بعد پھر أَنِّي لَا أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ (۳:۱۹۵) اتری۔

 اور یہ بھی روایت میں ہے کہ عورتوں نے یہ آرزو کی تھی کہ کاش کہ ہم بھی مرد ہوتیں تو جہاد میں جاتیں

 اور روایت میں ہے کہ ایک عورت نے خدمت نبوی میں حاضر ہو کر کہا تھا کہ دیکھئے مرد کو دو عورتوں کے برابر حصہ ملتا ہے دو عورتوں کی شہادت مثل ایک مرد کے سمجھی جاتی ہے گو پھر اس تناسب سے عملاً ایک نیکی کی آدھی نیکی رہ جاتی ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی ،

سدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

مردوں نے کہا تھا کہ جب دوہرے حصے کے مالک ہم ہیں تو دوہرا اجر بھی ہمیں نہیں ملتا؟

اور عورتوں نے درخواست کی تھی کہ جب ہم پر جہاد فرض ہی نہیں ہمیں تو شہادت کا ثواب کیوں نہیں ملتا؟

 اس پر اللہ تعالیٰ نے دونوں کو روکا اور حکم دیا کہ میرا فضل طلب کرتے رہو۔

حضرت ابن عباسؓ سے یہ مطلب بیان کیا گیا ہے کہ انسان یہ آرزو نہ کرے کہ کاش کہ فلاں کا مال اور اولاد میرا ہوتا؟

 اس پر اس حدیث سے کوئی اشکال ثابت نہیں ہو سکتا جس میں ہے:

حسد کے قابل صرف دو ہیں ایک مالدار جو راہ اللہ اپنا مال لٹاتا ہے اور دوسرا کہتا ہے کاش کہ میرے پاس بھی مال ہوتا تو میں بھی اسی طرح فی سبیل اللہ خرچ کرتا رہتا

پس یہ دونوں اللہ تعالیٰ کے نزدیک اجر میں برابر ہیں اس لئے کہ یہ ممنوع نہیں یعنی ایسی نیکی کی حرص بری نہیں کسی نیک کام حاصل ہونے کی تمنا یا حرص کرنا محمود ہے اس کے برعکس کسی کی چیز اپنے قبضے میں لینے کی نیت کرنا ہر طرح مذموم ہے جس طرح دینی فضیلت حاصل کرنے کی حرص جائز رکھی ہے  اور دنیوی فضیلت کی تمنا ناجائز ہے

لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا اكْتَسَبُوا ۖ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا اكْتَسَبْنَ ۚ

مردوں کا اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا اور عورتوں کے لئے ان میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا

پھر فرمایا ہر ایک کو اس کے عمل کا بدلہ ملے گا خیر کے بدلے خیر اور شر کے بدلے شر اور یہ بھی مراد ہو سکتی ہے کہ ہر ایک کو اس کے حق کے مطابق ورثہ دیا جاتا ہے ،

وَاسْأَلُوا اللَّهَ مِنْ فَضْلِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا (۳۲)

اور اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگو یقیناً اللہ ہرچیز کا جاننے والا ہے۔‏

 پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ہم سے ہمارا فضل مانگتے رہا کرو آپس میں ایک دوسرے کی فضیلت کی تمنا بےسود امر ہے ہاں مجھ سے میرا فضل طلب کرو تو میں بخیل نہیں کریم ہوں وہاب ہوں دوں گا اور بہت کچھ دوں گا۔جناب رسول ﷺ فرماتے ہیں:

 لوگو اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل طلب کرو اللہ سے مانگنا اللہ کو بہت پسند ہے یاد رکھو سب سے اعلیٰ عبادت کشادگی اور وسعت و رحمت کا انتظار کرنا اور اس کی امید رکھنا ہیں اللہ علیم ہے اسے خوب معلوم ہے کہ کون دئیے جانے کے قابل ہے اور کون فقیری کے لائق ہے اور کون آخرت کی نعمتوں کا مستحق ہے اور کون وہاں کی رسوائیوں کا سزا وار ہےاسے اس کے اسباب اور اسے اس کے وسائل وہ مہیا اور آسان کر دیتا ہے۔

وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ ۚ

ماں باپ یا قرابت دار جو چھوڑ مریں اس کے وارث ہم نے ہر شخص کے لئے مقرر کر دئیے ہیں

بہت سے مفسرین سے مروی ہے کہ مَوَالِيَ سے مراد وارث ہیں بعض کہتے ہیں عصبہ مراد ہیں؟

چچا کی اولاد کو بھی مَوَالِيَ کہا جاتا ہے جیسے حضرت فضل بن عباسؓ کے شعر میں ہے۔

 پس مطلب آیت کا یہ ہوا کہ اے لوگو! تم میں سے ہر ایک کے لئے ہم نے عصبہ مقرر کر دئیے ہیں جو اس مال کے وارث ہوں گے جسے ان کے ماں باپ اور قرابتدار چھوڑ مریں

وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدًا (۳۳)

جن سے تم نے اپنے ہاتھوں معاہدہ کیا ہے انہیں ان کا حصہ دو حقیقتاً اللہ تعالیٰ ہرچیز پر حاضر ہے۔‏

اور تمہارے منہ بولے بھائی ہیں تم جن کی قسمیں کھا کر بھائی بنے ہو اور وہ تمہارے بھائی بنے ہیں انہیں ان کی میراث کا حصہ دو جیسے کہ قسموں کے وقت تم میں عہد و پیمان ہو چکا تھا ،

یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا پھر منسوخ ہو گیا اور حکم ہوا کہ جن سے عہد و پیمان ہوئے وہ نبھائے جائیں اور بھولے نہ جائیں لیکن میراث انہیں نہیں ملے گی

صحیح بخاری شریف میں حضرت ابن عباسؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:

 مَوَالِيَ سے مراد وارث ہیں اور بعد کے جملہ سے مراد یہ ہے کہ مہاجرین جب مدینہ شریف میں تشریف لائے تو یہ دستور تھا کہ ہر مہاجر اپنے انصاری بھائی بند کا وارث ہوتا اس کے ذو رحم رشتہ دار وارث نہ ہوتے پس آیت نے اس طریقے کو منسوخ قرار دیا اور حکم ہوا کہ ان کی مدد کرو انہیں فائدہ پہنچاؤ ان کی خیر خواہی کرو لیکن میراث انہیں نہیں ملے گی ہاں وصیت کر جاؤ۔

 قبل از اسلام یہ دستور تھا کہ دو شخصوں میں عہد و پیمان ہو جاتا تھا کہ میں تیرا وارث اور تو میرا وارث اسی طرح قبائل عرب عہد و پیمان کر لیتے تھے پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

جاہلیت کی قسمیں اور اس قسم کے عہد اس آیت نے منسوخ قرار دے دیئے اور فرمایا معاہدوں والوں کی بہ نسبت ذی رحم رشتہ دار کتاب اللہ کے حکم سے زیادہ ترجیح کے مستحق ہیں۔

 ایک روایت میں ہے :

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جاہلیت کی قسموں اور عہدوں کے بارے میں یہاں تک تاکید فرمائی کہ اگر مجھے سرخ اونٹ دئیے جائیں اور اس قسم کے توڑنے کو کہا جائے جو دارالندوہ میں ہوئی تھی تو میں اسے بھی پسند نہیں کرتا،

ابن جریر میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

 میں اپنے بچپنے میں اپنے ماموؤں کے ساتھ حلف طیبین میں شامل تھا میں اس قسم کو سرخ اونٹوں کے بدلے بھی توڑنا پسند نہیں کرتا

 پس یاد رہے کہ قریش و انصار میں جو تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قائم کیا تھا وہ صرف الفت و یگانگت پیدا کرنے کے لئے تھا،

لوگوں کے سوال کے جواب میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان مروی ہے کہ جاہلیت کے حلف نبھاؤ ۔ لیکن اب اسلام میں رسم حلف کالعدم قرار دے دی گئی ہے فتح مکہ والے دن بھی آپ نے کھڑے ہو کر اپنے خطبہ میں اسی بات کا اعلان فرمایا

 داؤد بن حصین رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں حضرت ام سعد بنت ربیع رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے قرآن پڑھتا تھا میرے ساتھ ان کے پوتے موسیٰ بن سعد بھی پڑھتے تھے جو حضرت ابوبکرؓ کی گود میں یتیمی کے ایام گزار رہے تھے میں نے جب اس آیت میں عَاقَدَتْ پڑھا تو مجھے میری استانی جی نے روکا اور فرمایا عَقَدَتْ پڑھو اور یاد رکھو یہ آیت حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے صاحبزادے حضرت عبدالرحمٰن  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ عبدالرحمٰن  اسلام کے منکر تھے حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قسم کھا لی کہ انہیں وارث نہ کریں گے بالآ خر جب یہ مسلمانوں کے بے انتہاحسن اعمال سے اسلام کی طرف آمادہ ہوئے اور مسلمان ہوگئے تو جناب صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم ہوا کہ انہیں ان کے ورثے کے حصے سے محروم نہ فرمائیں

 لیکن یہ قول غریب ہے اور صحیح قول پہلا ہی ہے

 الغرض اس آیت اور ان احادیث سے ان کا قول رد ہوتا ہے جو قسم اور وعدوں کی بنا پر آج بھی ورثہ پہنچنے کے قائل ہیں جیسے کہ امام ابوحنفیہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے ساتھیوں کا خیال ہے اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے بھی اس قسم کی ایک روایت ہے۔ جسے جمہور اور امام مالک اور امام شافعی سے صحیح قرار دیا ہے اور مشہور قول کی بنا پر امام احمد کا بھی اسے صحیح مانتے ہیں،

پس آیت میں ارشاد ہے کہ ہر شخص کے وارث اس کے قرابتی لوگ ہیں اور کوئی نہیں۔

 بخاری و مسلم میں ہے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :

حصہ دار وارثوں کو ان کے حصوں کے مطابق دے کر پھر جو بچ رہے تو عصبہ کو ملے اور وارث وہ ہیں جن کا ذکر فرائض کی دو آیتوں میں ہے اور جن کا  تم سے مضبوط عہد و پیمان اور قسموں کا تبادلہ ہے

 یعنی اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے کے وعدے اور قسمیں ہوں خواہ اس آیت کے اترنے کے بعد ہوں سب کا یہی حکم ہے کہ ایسے حلف برداروں کو میراث نہ ملے اور بقول حضرت ابن عباسؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کا حصہ نصرت امداد خیر خواہی اور وصیت ہے میراث نہیں آپ فرماتے ہیں:

 لوگ عہدو پیمان کر لیا کرتے تھے کہ ان میں سے جو پہلے مرے گا بعد والا اس کا وارث بنے گا پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ (۳۳:۶) نازل فرما کر حکم دیا کہ ذی رحم محرم ایک سے اولیٰ ہے البتہ اپنے دوستوں کے ساتھ حسن سلوک کرو یعنی اگر ان سے مال کا تیسرا حصہ دینے کی وصیت کر جاؤ تو جائز ہے

یہی معروف و مشہور امر اور بہت سے سلف سے بھی مروی ہے کہ یہ آیت منسوخ ہے اور ناسخ آیت وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ (۳۳:۶) والی ہے۔

حضرت سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں انہیں ان کا حصہ دو یعنی میراث۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک صاحب کو اپنا بیٹا بناتے تھے اور انہیں اپنی جائیداد کا جائز وارث قرار دیتے تھے پس اللہ تعالیٰ نے ان کا حصہ وصیت میں تو برقرار رکھا میراث کا مستحق موالی یعنی ذی رحم محرم رشتہ داروں اور عصبہ کو قرار دے دیا اور سابقہ رسم کو ناپسند فرمایا کہ صرف زبانی دعوؤں اور بنائے ہوئے بیٹوں کو ورثہ نہ دیا جائے ہاں ان کے لئے وصیت میں سے دے سکتے ہو۔

 امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں میرے نزدیک مختار قول یہ ہے کہ انہیں حصہ دو یعنی نصرت نصیحت اور معونت کا یہ نہیں کہ انہیں ان کے ورثہ کا حصہ دو تو یہ معنی کرنے سے پھر آیت کو منسوخ بتلانے کی وجہ باقی نہیں رہتی نہ یہ کہنا پڑتا ہے کہ یہ حکم پہلے تھا اب نہیں رہا۔ بلکہ آیت کی دلالت صرف اسی امر پر ہے کہ جو عہد و پیمان آپس میں امداد و اعانت کے خیر خواہی اور بھلائی کے ہوتے تھے انہیں وفا کرو پس یہ آیت محکم اور غیر منسوخ ہے

لیکن امام صاحب کے قول میں ذرا اشکال سے اس لئے کہ اس میں تو شک نہیں کہ بعض عہد و پیمان صرف نصرت و امداد کے ہی ہوتے تھے لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ بعض عہد و پیمان ورثے کے بھی ہوتے تھے جیسے کہ بہت سے سلف صالحین سے مروی ہے اور جیسے کہ ابن عباسؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تفسیر بھی گزری ہے  جس میں انہوں نے صاف فرمایا ہے کہ مہاجر انصار کا وارث ہوتا تھا اس کے قرابتی لوگ وارث نہیں ہوتے تھے نہ ذی رحم رشتہ دار وارث ہوتے تھے یہاں تک کہ یہ منسوخ ہو گیا پھر امام صاحب کیسے فرما سکتے ہیں کہ یہ آیت محکم اور غیر محکم منسوخ ہے واللہ تعالیٰ اعلم۔

الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ ۚ

مرد عورت پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے مال خرچ کئے ہیں

جناب باری ارشاد فرماتا ہے کہ مرد عورت کا حاکم رئیس اور سردار ہے ہر طرح سے اس کا محافظ و معاون ہے اسی لئے کہ مرد عورتوں سے افضل ہیں یہی وجہ ہے کہ نبوت ہمیشہ مردوں میں رہی بعینہ شرعی طور پر خلیفہ بھی مرد ہی بن سکتا ہے

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں وہ لوگ کبھی نجات نہیں پاسکتے جو اپنا والی کسی عورت کو بنائیں۔ (بخاری)

اسی طرح ہر طرح کا منصب قضا وغیرہ بھی مردوں کے لائق ہی ہیں۔

دوسری وجہ افضیلت کی یہ ہے کہ مرد عورتوں پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں جو کتاب و سنت سے ان کے ذمہ ہے مثلاً مہر نان نفقہ اور دیگر ضروریات کا پورا کرنا۔ پس مرد فی نفسہ بھی افضل ہے اور بہ اعتبار نفع کے اور حاجت براری کے بھی اس کا درجہ بڑا ہے۔ اسی بنا پر مرد کو عورت پر سردار مقرر کیا گیا جیسے اور جگہ فرمان ہے:

وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ (۲:۲۲۸)

ہاں مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے

ابن عباسؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ عورتوں کو مردوں کی اطاعت کرنی پڑے گی اس کے بال بچوں کی نگہداشت اس کے مال کی حفاظت وغیرہ اس کا کام ہے ۔

 حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

 انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی بیوی صاحبہ کو لئے ہوئے حاضر خدمت ہوئے اس عورت نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے اس خاوند نے مجھے تھپڑ مارا ہے۔ پس آپ نے بدلہ لینے کا حکم دیا ہی تھا جو یہ آیت اتری اور بدلہ نہ دلوایا گیا

 ایک اور روایت  میں ہے

ایک انصار رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی بیوی صاحبہ کو لئے ہوئے حاضر خدمت ہوئے اس عورت نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے اس خاوند نے مجھے تھپڑ مارا جس کا نشان اب تک میرے چہرے پر موجود ہے

آپ ﷺنے فرمایا اسے حق نہ تھا وہیں یہ آیت اتری کہ ادب سکھانے کے لئے مرد عورتوں پر حاکم ہیں۔ تو آپ نے فرمایا میں نے اور چاہا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اور چاہا ۔

شعبہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

 مال خرچ کرنے سے مراد مہر کا ادا کرنا ہے دیکھو اگر مرد عورت پر زنا کاری کی تہمت لگائے تو لعان کا حکم ہے اور اگر عورت اپنے مرد کی نسبت یہ بات کہے اور ثابت نہ کر سکے تو اسے کوڑے لگیں گے۔

فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّهُ ۚ

پس نیک فرمانبردار عورتیں خاوند کی عدم موجودگی میں یہ حفاظت الہٰی نگہداشت رکھنے والیاں ہیں

 پس عورتوں میں سے نیک نفس وہ ہیں جو اپنے خاوندوں کی اطاعت گزار ہوں اپنے نفس اور خاوند کے مال کی حفاظت والیاں ہوں جسے خود اللہ تعالیٰ سے محفوظ رکھنے کا حکم دیا ہے۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

 بہتر عورت وہ ہے کہ جب اس کا خاوند اس کی طرف دیکھے وہ اسے خوش کر دے اور جب حکم دے بجا لائے اور جب کہیں باہر جائے تو اپنے نفس کو برائی سے محفوظ رکھے اور اپنے خاوند کے مال کی محافظت کرے

 پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی

مسند احمد میں ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا :

جب کوئی پانچوں وقت نماز ادا کرے رمضان کے روزے رکھے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اپنے خاوند کی فرمانبرداری کرے اس سے کہا جائے گا کہ جنت کے جس دروازے سے تو چاہے جنت میں چلی جا،

وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ ۖ

 اور جن عورتوں کی نافرمانی اور بددماغی کا تمہیں خوف ہو انہیں نصیحت کرو انہیں الگ بستروں پر چھوڑ دو اور انہیں مار کی سزا دو

پھر فرمایا جن عورتوں کی سرکشی سے ڈرو یعنی جو تم سے بلند ہونا چاہتی ہو نافرمانی کرتی ہو بےپرواہی برتتی ہو دشمنی رکھتی ہو تو پہلے تو اسے زبانی نصیحت کرو ہر طرح سمجھاؤ اتار چڑھاؤ بتاؤ اللہ کا خوف دلاؤ حقوق زوجیت یاد دلاؤ اس سے کہو کہ دیکھو خاوند کے اتنے حقوق ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

 اگر میں کسی کو حکم کر سکتا کہ وہ ماسوائے اللہ تعالیٰ کے دوسرے کو سجدہ کرے تو عورت کو حکم کرتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔

وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے کیونکہ سب سے بڑا حق اس پر اسی کا ہے

بخاری شریف میں ہے:

 جب کوئی شخص اپنی بیوی کو اپنے بسترے پر بلائے اور وہ انکار کر دے تو صبح تک فرشتے اس پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں

صحیح مسلم میں ہے:

 جس رات کوئی عورت روٹھ کر اپنے خاوند کے بستر کو چھوڑے رہے تو صبح تک اللہ کی رحمت کے فرشتے اس پر لعنتیں نازل کرتے رہتے ہیں ،

تو یہاں ارشاد فرماتا ہے کہ ایسی نافرمان عورتوں کو پہلے تو سمجھاؤ بجھاؤ پھر بستروں سے الگ کرو،

 ابن عباسؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

 یعنی سلائے تو بستر ہی پر مگر خود اس سے کروٹ موڑ لے اور مجامعت نہ کرے ، بات چیت اور کلام بھی ترک کر سکتا ہے اور یہ عورت کی بڑی بھاری سزا ہے ،

بعض مفسرین فرماتے ہیں ساتھ سلانا ہی چھوڑ دے ،

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال ہوتا ہے کہ عورت کا حق اس کے میاں پر کیا ہے؟

 فرمایا یہ کہ جب تو کھا تو اسے بھی کھلا جب تو پہن تو اسے بھی پہنا اس کے منہ پر نہ مار گالیاں نہ دے اور گھر سے الگ نہ کر غصہ میں اگر تو اس سے بطور سزا بات چیت ترک کرے تو بھی اسے گھر سے نہ نکال

پھر فرمایا

 اس سے بھی اگر ٹھیک ٹھاک نہ ہو تو تمہیں اجازت ہے کہ یونہی سی ڈانٹ ڈپٹ اور مار پیٹ سے بھی راہ راست پر لاؤ۔

صحیح مسلم میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حجتہ الوداع کے خطبہ میں ہے کہ عورتوں کے بارے میں فرمایا:

 اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو وہ تمہاری خدمت گزار اور ماتحت ہیں تمہارا حق ان پر یہ ہے کہ جس کے آنے جانے سے تم خفا ہو اسے نہ آنے دیں اگر وہ ایسا نہ کریں تو انہیں یونہی سے تنبیہ بھی تم کر سکتے ہو لیکن سخت مار جو ظاہر ہو نہیں مار سکتے تم پر ان کا حق یہ ہے کہ انہیں کھلاتے پلاتے پہناتے اڑھاتے رہو۔

پس ایسی مار نہ مارنی چاہیے جس کا نشان باقی رہے جس سے کوئی عضو ٹوٹ جائے یا کوئی زخم آئے۔

 حضرت ابن عباسؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اس پر بھی اگر وہ باز نہ آئے تو فدیہ لو اور طلاق دے دو۔

 ایک حدیث میں ہے:

 حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ کی لونڈیوں کو مارو نہیں

 اسکے بعد ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے اور عرض کرنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عورتیں آپ کے اس حکم کو سن کراب مردوں پر دلیر ہو گئیں۔ اس پر حضور ﷺ نے انہیں مارنے کی اجازت دی۔

 اب مردوں کی طرف سے دھڑا دھڑ مار پیٹ شروع ہوئی اور بہت سی عورتیں شکایتیں لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئیں تو آپ نے لوگوں سے فرمایا :

سنو میرے پاس عورتوں کی فریاد پہنچی یاد رکھو تم میں سے جو اپنی عورتوں کو زدو کوب کرتے ہیں وہ اچھے آدمی نہیں ۔ (ابو داؤد وغیرہ)

حضرت اشعث رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

 ایک مرتبہ میں حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مہمان ہوا اتفاقاً اس روز میاں بیوی میں کچھ ناچاقی ہو گئی اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی بیوی صاحبہ کو مارا پھر مجھ سے فرمانے لگے اشعث تین باتیں یاد رکھ جو میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سن کر یاد رکھی ہیں

 ایک تو یہ کہ مرد سے یہ نہ پوچھا جائے گا کہ اس نے اپنی عورت کو کس بنا پر مارا؟ دوسری یہ کہ وتر پڑھے بغیر سونا مت اور اور تیسری بات راوی کے ذہن سے نکل گئی (نسائی)

فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا ۗ

 پھر اگر وہ تابعداری کریں تو ان پر راستہ تلاش نہ کرو

فرمایا اگر اب بھی عورتیں تمہاری فرمانبردار بن جائیں تو تم ان پر کسی قسم کی سختی نہ کرو نہ مارو پیٹو نہ بیزاری کا اظہار کرو۔

إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا (۳۴)

بیشک اللہ تعالیٰ بڑی بلندی اور بڑائی والا ہے۔‏

اللہ بلندیوں اور بڑائیوں والا ہے۔ یعنی اگر عورتوں کی طرف سے قصور سرزد ہوئے بغیر یا قصور کے بعد ٹھیک ہو جانے کے باوجود بھی تم نے انہیں ستایا تو یاد رکھو ان کی مدد پر ان کا انتقام لینے کے لئے اللہ تعالیٰ ہے اور یقیناً وہ بہت زورو آور زبردست ہے۔

وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا

اگر تمہیں میاں بیوی کے درمیان آپس کی ان بن کا خوف ہو تو ایک منصف مرد والوں میں اور ایک عورت کے گھر والوں میں سے مقرر کرو

اوپر اس صورت کو بیان فرمایا کہ اگر نافرمانی اور کج بحثی عورتوں کی جانب سے ہو اب یہاں اس صورت کا بیان ہو رہا ہے اگر دونوں ایک دوسرے سے نالاں ہوں تو کیا کیا جائے؟

پس علماء کرام فرماتے ہیں کہ ایسی حالت میں حاکم ثقہ سمجھدار شخص کو مقرر کرے جو یہ دیکھے کہ ظلم و ذیادتی کس طرح سے ہے؟ اس ظالم کو ظلم سے روکے،

إِنْ يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا (۳۵)

اگر یہ دونوں صلح کرنا چاہیں گے تو اللہ دونوں میں ملاپ کرا دے گا یقیناً پورے علم والا اور پوری خبر والا ہے۔‏

 اگر اس پر بھی کوئی بہتری کی صورت نہ نکلے تو عورت والوں میں سے ایک اس کی طرف سے اور مرد والوں میں سے ایک بہتر شخص اسکی جانب سے منصب مقرر کردے اور دونوں مل کر تحقیقات کریں اور جس امر میں مصلحت سمجھیں اس کا فیصلہ کر دیں یعنی خواہ الگ کرا دیں خواہ میل ملاپ کرا دیں

 لیکن شارع نے تو اسی امر کی طرف ترغیب دلائی ہے کہ جہاں تک ہو سکے کوشش کریں کہ کوئی شکل نباہ کی نکل آئے۔

 اگر ان دونوں کی تحقیق میں خاوند کی طرف سے برائی بہت ہو تو اس کی عورت کو اس سے الگ کرلیں اور اسے مجبور کریں گے کہ اپنی عادت ٹھیک ہونے تک اس سے الگ رہے اور اس کے خرچ اخراجات ادا کرتا رہے اور اگر شرارت عورت کی طرف سے ثابت ہو تو اسے نان نفقہ نہیں دلائیں اور خاوند سے ہنسی خوشی بسر کرنے پر مجبور کریں گے۔

 اسی طرح اگر وہ طلاق کا فیصلہ دیں تو خاوند کو طلاق دینی پڑے گی اگر وہ آپس میں بسنے کا فیصلہ کریں تو بھی انہیں ماننا پڑے گا،بلکہ حضرت ابن عباسؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

 اگر دونوں پنچ اس امر پر متفق ہوں گئے کہ انہیں رضامندی کے ساتھ ایک دوسرے سے اپنے تعلقات نباہنے چاہیں اور اس فیصلہ کے بعد ایک کا انتقال ہو گیا تو جو راضی تھا وہ اس کی جائیداد کا وارث بنے گا لیکن جو ناراض تھا اسے اس کا ورثہ نہیں ملے گا (ابن جریر)

ایک ایسے ہی جھگڑے میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت ابن عباسؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو منصف مقرر کیا تھا اور فرمایا تھا کہ اگر تم ان میں میل ملاپ کرانا چاہو تو میل ہو گا اور اگر جدائی کرانا چاہو تو جدائی ہو جائے گی۔

ایک روایت میں ہے:

عقیل بن ابو طالب نے فاطمہ بنت عتبہ بن ربیعہ نے نکاح کیا تو اس نے کہا تو میرے پاس آئے گا بھی اور میں ہی تیرا خرچ بھی برداشت کروں گی۔ اب یہ ہونے لگا کہ جب عقیل ان کے پاس آنا چاہتے تو وہ پوچھتی عتبہ بن ربیعہ اور شیبہ بن ربیعہ کہاں ہیں؟

 یہ فرماتے تیری بائیں جانب جہنم میں اس پر وہ بگڑ کر اپنے کپڑے ٹھیک کر لیتیں

 ایک مرتبہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آئیں اور واقعہ بیان کیا خلیفۃ المسلمین اس پر ہنسے اور حضرت ابن عباسؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کا پنچ مقرر کیا

حضرت ابن عباسؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو فرماتے تھے ان دونوں میں علیحدگی کرا دی جائے لیکن حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتے تھے بنو عبد مناف میں یہ علیحدگی میں ناپسند کرتا ہوں، اب یہ دونوں حضرات حضرت عقیل رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر آئے دیکھا تو دروازہ بند ہے اور دونوں میاں بیوی اندر ہیں یہ دونوں لوٹ گئے

مسند عبدالرزاق میں ہے:

 حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خلافت کے زمانے میں ایک میاں بیوی اپنی ناچاقی کا جھگڑا لے کر آئے اس کے ساتھ اس کی برادری کے لوگ تھے اور اس کے ہمراہ اس کے گھرانے کے لوگ بھی، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے دونوں جماعتوں میں سے ایک ایک کو چنا اور انہیں منصف مقرر کر دیا پھر دونوں پنچوں سے کہا جانتے بھی ہو تمہارا کام کیا ہے؟ تمہارا منصب یہ ہے کہ اگر چاہودونوں میں اتفاق کرا دو اور اگر چاہو تو الگ الگ کرا دو یہ سن کرعورت نے تو کہا میں اللہ تعالیٰ کے فیصلہ پر راضی ہوں خواہ ملاپ کی صورت میں ہو جدائی کی صورت میں مرد کہنے لگا مجھے جدائی نا منظور ہے

 اس پر حضرت علی ؓ نے فرمایا نہیں نہیں اللہ کی قسم تجھے دونوں صورتیں منظور کرنی پڑیں گی۔

پس علماء کا اجماع ہے کہ ایسی صورت میں ان دونوں منصفوں کو دونوں اختیار ہیں یہاں تک کہ حضرت ابراہیم نخعی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ انہیں اجتماع کا اختیار ہے تفریق کا نہیں،

حضرت امام مالک رحمتہ اللہ علیہ سے بھی یہی قول مروی ہے،

ہاں احمد ابو ثور اور داؤد کا بھی یہی مذہب ہے ان کی دلیل إِنْ يُرِيدَا إِصْلَاحًا والا جملہ ہے کہ ان میں تفریق کا ذکر نہیں،

 ہاں اگر یہ دونوں دونوں جانب سے وکیل ہیں تو بیشک ان کا حکم جمع اور تفریق دونوں میں نافذ ہو گا اس میں کسی کو پھر یہ بھی خیال رہے کہ یہ دونوں پنچ حاکم کی جانب سے مقرر ہوں گے اور فیصلہ کریں گے چاہے ان سے فریقین ناراض ہوں یا یہ دونوں میاں بیوی کی طرف سے ان کو بنائے ہوئے وکیل ہوں گے،

جمہور کا مذہب تو پہلا ہے اور دلیل یہ ہے کہ ان کا نام قرآن حکیم نے حکم رکھا ہے اور حکم کے فیصلے سے کوئی خوش یا ناخوش بہر صورت اس کا فیصلہ قطعی ہو گا آیت کے ظاہری الفاظ بھی جمہور کے ساتھ ہی ہیں،

 امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کا نیا قول یھی یہی ہے اور امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب کا بھی یہی قول ہے ،

لیکن مخالف گروہ کہتا ہے کہ اگر یہ حکم کی صورت میں ہوتے تو پھر حضرت علی ؓ اس خاوند کو کیوں فرماتےکہ جس طرح عورت نے دونوں صورتوں کو ماننے کا اقرار کیا ہے اور اسی طرح تو بھی نہ مانے تو تو جھوٹا ہے۔ واللہ اعلم۔

 امام ابن عبدالبر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں علماء کرام کا اجماع ہے کہ دونوں پنچوں کا قول جب مختلف ہو تو دوسرے کے قول کا کوئی اعتبار نہیں اور اس امر پر بھی اجماع ہے کہ یہ اتفاق کرانا چاہیں تو ان کا فیصلہ نافذ ہے

ہاں اگر وہ جدائی کرانا چاہیں تو بھی ان کا فیصلہ نافذ ہے یا نہیں؟ اس میں اختلاف ہےلیکن جمہور کا مذہب یہی ہے کہ اس میں بھی ان کا فیصلہ نافذ ہے گو انہیں وکیل نہ بنایا گیا ہو۔

وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ

اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو

اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی عبادت کا حکم دیتا ہے اور اپنی توحید کے ماننے کو فرماتا ہے اور اپنے ساتھ کسی کو شریک کرنے سے روکتا ہے اس لئے کہ جب خالق رزاق نعمتیں دینے والا تمام مخلوق پر ہر وقت اور ہر حال میں انعام کی بارش برسانے والا صرف وہی ہے تو لائق عبادت بھی صرف وہی ہوا۔

حضرت معاذ ؓ سے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں جانتے ہو اللہ تعالیٰ کا حق بندوں پر کیا ہے۔

آپ جواب دیتے ہیں اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول بہت زیادہ جاننے والے ہیں۔

آپ ﷺ نے فرمایا  یہ کہ وہ اسی کی عبادت کریں اسی کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں

پھر فرمایا جانتے ہو جب بندے یہ کریں تو ان کا حق اللہ تعالیٰ کے ذمہ کیا ہے ؟ یہ کہ انہیں وہ عذاب نہ کرے،

وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ

 اور ماں باپ کے ساتھ سلوک و احسان کرو اور رشتہ داروں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے اور قرابت دار ہمسایہ اور اجنبی ہمسائے سے

اللہ  فرماتا ہے ماں باپ کے ساتھ احسان کرتے رہو وہی تمہارے عدم سے وجود میں آنے کا سبب بنے ہیں۔

قرآن کریم کی بہت سی آیتوں میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی عبادت کے ساتھ ہی ماں باپ سے سلوک و احسان کرنے کا حکم دیا ہےجیسے فرمایا:

أَنِ اشْكُرْ لِى وَلِوَلِدَيْكَ (۳۱:۱۴)

تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کر

اور

وَقَضَى رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّـهُ وَبِالْوَلِدَيْنِ إِحْسَـناً (۱۷:۲۳)

اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے تم اس کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔

یہاں بھی یہ بیان فرما کر پھر حکم دیتا ہے کہ اپنے رشتہ داروں سے بھی سلوک و احسان کرتے رہو ۔

حدیث میں ہے:

 مسکین کو صدقہ صرف صدقہ ہی ہے لیکن قریبی رشتہ داروں کودینا صدقہ بھی ہے اور صلہ رحمی بھی ہے۔

 پھر حکم ہوتا ہے کہ یتیموں کے ساتھ بھی سلوک و احسان کرو اس لئے کہ ان کی خبر گیری کرنے والا ان کے سر پر محبت سے ہاتھ پھیرنے والا ان کے ناز ، لاڈ اٹھانے والا انہیں محبت کے ساتھ کھلانے پلانے والا ان کے سر سے اٹھ گیا ہے۔

 پھر مسکینوں کے ساتھ نیکی کرنے کا ارشاد کیا کہ وہ حاجت مند ہے ہاتھ میں محتاج ہیں ان کی ضرورتیں تم پوری کرو ان کی احتیاج تم رفع کرو ان کے کام تم کر دیا کرو۔

فقیرو مسکین کا پورا بیان سورۃ براۃ کی تفسیر میں آئے گا انشاء اللہ

پھر فرمایا اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھو ان ان کے ساتھ بھی برتاؤ اور نیک سلوک رکھو خواہ وہ قرابت دار ہوں یا نہ ہو، خواہ مسلمان یا یہودو نصرانی ہوں

یہ بھی کہا گیا ہے کہ الْجَارِ ذِي الْقُرْبَى سے مراد بیوی ہے اور الْجَارِ الْجُنُبِ سے مراد مرد رفیق سفر ہے،

پڑوسیوں کے حق میں حدیثیں

مسند احمد میں بیان ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :

مجھے حضرت جبرائیل پڑوسیوں کے بارے میں یہاں تک وصیت و نصیحت کرتے ہیں کہ مجھے گمان ہوا کہ شاید یہ پڑوسیوں کو وارث بنا دیں گے،

فرماتے ہیں بہتر ساتھی اللہ کے نزدیک وہ ہے جو ہمسایوں سے نیک سلوک میں زیادہ ہو،

 فرماتے ہیں انسان کو  نہ چاہیے کہ اپنے پڑوسی کی آسودگی بغیر خود شکم سیر ہو جائے۔

 ایک مرتبہ آپ ﷺ نے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سوال کیا زنا کے بارے میں تم کیا کہتے ہو ؟

لوگوں نے کہا وہ حرام ہے اللہ نے اور اس کے رسول سے اسے حرام کیا ہے اور قیامت تک وہ حرام ہی رہے گا،

آپ ﷺنے فرمایا سنو دس عورتوں سے زناکاری کرنے والا اس شخص کے گناہ سے کم گنہگار ہے جو اپنے پڑوسی کی عورت سے زنا کرے

پھر دریافت فرمایا تم چوری کی نسبت کیا کہتے ہو؟

 انہوں نے جواب دیا کہ اسے بھی اللہ تعالیٰ نے اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حرام کیا ہے اور وہ بھی قیامت تک حرام ہے

 آپ ﷺنے فرمایا سنو دس گھروں سے چوری کرنے والے کا گناہ اس شخص کے گناہ سے ہلکا ہے جو اپنے پڑوسی کے گھر سے کچھ چرائے،

بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے:

 حضرت ابن مسعود ؓ سوال کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟

آپ ﷺنے فرمایا یہ کہ تو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرائے حالانکہ اسی ایک نے تجھے پیدا کیا ہے

 میں نے پوچھا پھر کونسا؟

فرمایا یہ کہ تو اپنی پڑوسن سے زناکاری کرے۔

 ایک انصاری صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتے ہیں:

میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے گھر سے چلا وہاں پہنچ کر دیکھتا ہوں کہ ایک صاحب کھڑے ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی طرف متوجہ ہیں میں نے خیال کیا کہ شاید انہیں آپ سے کچھ کام ہو گا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہیں اور ان سے باتیں ہو رہی ہیں بڑی دیر ہو گئی یہاں تک کہ مجھے آپ کے تھک جانے کے خیال نے بےچین کر دیا بہت دیر کے بعد آپ لوٹے اور میرے پاس آئے میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس شخص نے تو آپ کو بڑی دیر کھڑا رکھا’ میں تو پریشان ہو گیا کہ آپ کے تو پاؤں تھک گئے ہوں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا اچھا تم نے انہیں دیکھا

میں نے کہا ہاں خوب اچھی طرح دیکھا

فرمایا جانتے ہو وہ کون تھے؟

وہ جبرائیل علیہ السلام تھے مجھے پڑوسیوں کے حقوق کی تاکید کرتے رہے یہاں تک ان کے حقوق بیان کئے کہ مجھے کھٹکا ہوا کہ غالباً آج تو پڑوسی کو وارث ٹھہرا دیں گے ( مسند احمد)

مسند عبد بن حمید میں ہے حضرت جابر بن عبداللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

ایک شخص عوالی مدینہ سے آیا اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت جبرائیل علیہ الصلوۃ والسلام اس جگہ نماز پڑھ رہے تھے جہاں جنازوں کی نماز پڑھی جاتی ہے جب آپ فارغ ہوئے تو اس شخص نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ یہ دوسرا شخص کون نماز پڑھ رہا تھا آپ نے فرمایا تم نے انہیں دیکھا؟ اس نے کہا ہاں فرمایا تو نے بہت بڑی بھلائی دیکھی یہ جبرائیل تھے مجھے پڑوسی کے بارے میں وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ عنقریب اسے وارث بنا دیں گے

 بزار میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

 پڑوسی تین قسم کے ہیں ایک حق والے یعنی ادنیٰ، دو حق والے اور تین حق والے یعنی اعلیٰ،

- ایک حق والا وہ ہے جو مشرک ہو اور اس سے رشتہ داری نہ ہو،

- دو حق والا وہ ہے جو مسلمان ہو اور رشتہ دار نہ ہو، ایک حق اسلام دوسرا حق پڑوس ،

- تین حق والا وہ ہے جو مسلمان بھی ہو پڑوسی بھی ہو اور رشتے ناتے کا بھی ہو تو حق اسلام کا حق ہمسائیگی حق صلہ رحمی تین تین حق اس کے ہوگئے۔

حدیث مسند احمد میں ہے:

 حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا کہ میرے دو پڑوسی ہیں میں ایک کو ہدیہ بھیجنا چاہتی ہوں تو کسے بھیجواؤں؟

 آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس کا دروازہ قریب ہو۔

طبرانی میں ہے:

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضو کیا لوگوں نے آپ کے وضو کے پانی کو لینا اور ملنا شروع کیا آپ نے پوچھا ایسا کیوں کرتے ہو؟

انہوں نے کہا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں

 آپ ﷺنے فرمایا جسے یہ خوش لگے کہ اللہ اور اس اس کا رسول اس سے محبت کریں تو اسے چاہئے کہ جب بات کرے سچ کرے اور جب امانت دیا جائے تو ادا کرے۔

تفسیر ابن کثیر میں یہ حدیث یہیں پر ختم ہے لیکن شاید اگلا جملہ اس کا سہواً رہ گیا ہے جس کا صحیح تعلق اس مسئلہ سے ہے وہ یہ کہ اسے چاہیے پڑوسی کے ساتھ سلوک و احسان کرے۔ مترجم

 مسند احمد میں ہے:

 قیامت کے دن سب سے پہلے جو جھگڑا اللہ کے سامنے پیش ہو گا وہ دو پڑوسیوں کا ہو گا۔

وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۗ

اور پہلو کے ساتھی سے اور راہ کے مسافر سے اور ان سے جن کے مالک تمہارے ہاتھ ہیں (غلام، کنیز)

حکم ہوتا ہے الصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ کے ساتھ سلوک کرنے کا۔

 اس سے مراد بہت سے مفسرین کے نزدیک عورت ہے اور بہت سے فرماتے ہیں مراد سفر کا ساتھی ہے

اور یہ بھی مروی ہے کہ اس سے مراد دوست اور ساتھی ہے’ عام اس سے کہ سفر میں وہ یا قیام کی حالت میں

 ابْنِ السَّبِيلِ سے مراد مہمان ہے اور یہ بھی جو سفر میں کہیں ٹھہر گیا ہو

 اگر مہمان بھی یہاں مراد لی جائے کہ سفر میں جاتے جاتے مہمان بنا تو دونوں ایک ہوگئے، اس کا پورا بیان سورۃ براۃ کی تفسیر میں آ رہا ہے انشاء اللہ تعالی۔

پھر غلاموں کے بارے میں فرمایا جا رہا ہے کہ ان کے ساتھ بھی نیک سلوک رکھو اس لئے کہ وہ غریب تمہارے ہاتھوں اسیر ہے اس پر تو تمہارا کامل اختیار ہے تو تمہیں چاہیے کہ اس پر رحم کھاؤ اور اس کی ضرورت کا اپنے امکان بھر خیال رکھو

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو اپنے آخری مرض الموت میں بھی اپنی اُمت کو اس کی وصیت فرما گئے فرماتے ہیں:

 لوگو نماز کا اور غلاموں کا خوب خیال رکھنا بار بار اسی کو فرماتے رہے یہاں تک کہ زبان رکنے لگی

 مسند کی حدیث میں ہے آپﷺ فرماتے ہیں:

 تو جو خود کھائے وہ بھی صدقہ ہے جو اپنے بچوں کو کھلائے وہ بھی صدقہ ہے جو اپنی بیوی کھلائے وہ بھی صدقہ ہے جو اپنے خادم کو کھلائے وہ بھی صدقہ ہے

 حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک مرتبہ دراوغہ سے فرمایا کہ کیا غلاموں کو تم نے انکی خوراک دے دی ؟مسلم میں ہے:

 اس نے کہا اب تک نہیں دی فرمایا جاؤ دے کر آؤ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے انسان کو یہی گناہ کافی ہے کہ جن کی خوراک کا وہ مالک ہے ان سے روک رکھے،

مسلم میں ہے:

 مملوکہ ماتحت کا حق ہے کہ اسے کھلایا پلایا پہنایا اڑھایا جائے اور اس کی طاقت سے زیادہ کام اس سے نہ لیا جائے ،

بخاری شریف میں ہے:

 جب تم میں سے کسی کا خادم اس کا کھانا لے کر آئے تو تمہیں چاہیے کہ اگر ساتھ بٹھا کر نہیں کھلاتے تو کم از کم اسے لقمہ دو لقمہ دے دو خیال کرو کہ اس نے پکانے کی گرمی اور تکلیف اٹھائی ہے

اور روایت میں ہے کہ چاہیے تو یہ کہ اسے اپنے ساتھ بٹھا کر کھلائے اور اگر کھانا کم ہو تو لقمہ دو لقمے ہی دے دیا کرو،

 آپﷺ فرماتے ہیں:

تمہارے غلام بھی تمہارے بھائی ہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہارے ماتحت کر دیا ہے پس جس کے ہاتھ تلے اس کا بھائی ہو اسے اپنے کھانے سے کھلائے اور اپنے پہننے میں سے پہنائے اور ایسا کام نہ کرے کہ وہ عاجز ہو جائے اگر کوئی ایسا ہی مشکل کام آ پڑے تو خود بھی اس کا ساتھ دے (بخاری مسلم)

إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا (۳۶)

یقیناً اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والے اور شیخی خوروں کو پسند نہیں فرماتا۔

پھر فرمایا کہ خودبین ، معجب، متکبر، خود پسند، لوگوں پر اپنی فوقیت جتانے والا، اپنے آپ کو تولنے والا اپنے تیئں دوسروں سے بہتر جاننے والا اللہ کا پسندیدہ بندہ نہیں، وہ گو اپنے آپکو بڑا سمجھے لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ ذلیل ہے لوگوں کی نظروں میں وہ حقیر ہے بھلا کتنا اندھیر ہے کہ خود تو اگر کسی سے سلوک کرے تو اپنا احسان اس پر رکھے لیکن رب کی نعمتوں کا جو اللہ تعالیٰ نے اسے دے رکھی ہیں شکر بجا نہ لائے لوگوں میں بیٹھ کر فخر کرے کہ میں اتنا بڑا آدمی ہوں میرے پاس یہ بھی ہے اور وہ بھی ہے

حضرت ابورجاہروی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں  کہ ہربدخلق متکبر اور خود پسند ہوتا ہے پھر اسی آیت کو تلاوت کیا اور فرمایا ہر ماں باپ کا نافرمان سرکش اور بد نصیب ہوتا ہے پھر آپ نے آیت وَبَرًّا بِوَالِدَتِي وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّارًا شَقِيًّا (۱۹:۳۲) پڑھی،

حضرت عوام بن حوشب رحمتہ اللہ علیہ بھی یہی فرماتے ہیں

 حضرت مطرب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ایک روایت ملی تھی میرے دل میں تمنا تھی کہ کسی وقت خود حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مل کر اس روایت کو انہی کی زبانی سنوں چنانچہ ایک مرتبہ ملاقات ہو گئی تو میں نے کہا مجھے یہ خبر ملی ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث بیان فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تین قسم کے لوگوں کو دوست رکھتا ہے اور تین قسم کے لوگوں کو ناپسند فرماتا ہے

 حضرت ابوذر ؓ نے فرمایا ہاں یہ سچ ہے میں بھلا اپنے خلیل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بہتان کیسے باندھ سکتا ہوں؟

 آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی اور فرمایا اسے تو تم کتاب اللہ میں پاتے بھی ہو،

 بنو ہجیم کا ایک شخص رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہتا ہے مجھے کچھ نصیحت کیجئے

 آپ ﷺنے فرمایا کپڑا ٹخنے سے نیچا نہ لٹکاؤ کیونکہ یہ تکبر اور خود پسندی ہے جسے اللہ ناپسند رکھتا ہے۔

الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ

جو لوگ خود بخیلی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی بخیلی کرنے کو کہتے ہیں

ارشاد ہوتا ہے کہ جو لوگ اللہ کی خوشنودی کے موقعہ پر مال خرچ کرنے سے جی چراتے ہیں مثلاً ماں باپ کو دینا قرابت داروں سے اچھا سلوک نہیں کرتے یتیم مسکین پڑوسی رشتہ دار غیر رشتہ دار پڑوسی ساتھی مسافر غلام اور ماتحت کو ان کی محتاجی کے وقت فی سبیل اللہ نہیں دیتے اتنا ہی نہیں بلکہ لوگوں کو بھی بخل اور فی سبیل اللہ خرچ نہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ حدیث شریف میں ہے:

 کونسی بیماری بخل کی بیماری سے بڑ ھ کر ہے!

 اور حدیث میں ہے:

 لوگو بخیلی سے بچو اسی نے تم سے اگلوں کو تاخت و تاراج کیا اسی کے باعث ان سے قطع رحمی اور فسق و فجور جیسے برے کام نمایاں ہوئے

وَيَكْتُمُونَ مَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ ۗ

 اللہ تعالیٰ نے جو اپنا فضل انہیں دے رکھا ہے اسے چھپا لیتے ہیں

پھر فرمایا یہ لوگ ان دونوں برائیوں کے ساتھ ہی ساتھ ایک تیسری برائی کے بھی مرتکب ہیں یعنی اللہ کی نعمتوں کو چھپاتے ہیں انہیں ظاہر نہیں کرتے نہ ان کے کھانے پینے میں وہ ظاہر ہوتی ہیں نہ پہننے اوڑھنے میں نہ دینے لینے میں

جیسے اور جگہ ہے :

إِنَّ الإِنسَـنَ لِرَبِّهِ لَكَنُودٌ ـ وَإِنَّهُ عَلَى ذَلِكَ لَشَهِيدٌ (۱۰۰:۶،۷)

انسان اپنے رب کا نا شکرا ہے اور وہ خود ہی اپنی اس حالت اور اس خصلت پر گواہ ہے

پھر فرمایا:

وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ (۱۰۰:۸)

وہ مال کی محبت میں مست ہے،

پس یہاں بھی فرمان ہے کہ اللہ کے فضل کو یہ چھپاتا رہتا ہے

وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُهِينًا (۳۷)

ہم نے ان کافروں کے لئے ذلت کی مار تیار کر رکھی ہے۔‏

پھر انہیں دھمکایا جاتا ہے کہ کافروں کے لئے ہم نے اہانت آمیز عذاب تیار کر رکھے ہیں،

 کفر کے معنی ہیں پوشیدہ رکھنا اور چھپالینا پس بخیل بھی اللہ کی نعمتوں کا چھپانے والا ان پر پردہ ڈال رکھنے والا بلکہ ان کا انکار کرنے والے قرار دیا ہے پس وہ نعمتوں کا کافر ہوا،

 حدیث میں ہے:

 اللہ جب کسی بندے پر اپنی نعمت انعام فرماتا ہے تو چاہتا ہے کہ اس کا اثر اس پر ظاہر ہو،

دعا نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہے :؎

واجعلنا شاکرین لنعمتکم رحمتہ اللہ علیہ مثنین بھا علیک قابلیھاواتھما علینا

اے اللہ ہمیں اپنی نعمتوں پر شکر گزار بنا اور ان کی وجہ سے ہمیں اپنا ثنا خوان بنا ان کا قبول کرنے والا بنا اور ان کی نعمتوں کو ہمیں بھرپور عطا فرما

بعض سلف کا قول ہے کہ یہ آیت یہودیوں کے اس بخل کے بارے میں ہے جو وہ اپنی کتاب میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات کے چھپانے میں کرتے تھے اسی لئے اس کے آخر میں ہے کہ کافروں کے لئے ذلت آمیز عذاب ہم نے تیار کر رکھے ہیں۔

 کوئی شک نہیں کہ اس آیت کا اطلاق ان پر بھی ہو سکتا ہے لیکن بظاہر یہاں مال کا بخل بیان ہو رہا ہے گو علم کا بخل بھی اس میں بطور اولیٰ داخل ہے۔ خیال کیجئے کہ بیان آیت اقرباضعفا کو مال دینے کے بارے میں ہے

 اسی طرح اگلی آیت میں ریاکاری کے طور پر فی سبیل اللہ مال دینے کی مذمت بھی بیان کی جا رہی ہے۔

وَالَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ ۗ

اور جو لوگ اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لئے خرچ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے

پہلے ان کا بیان ہوا جو ممسک اور بخیل ہیں کوڑی کوڑی کو دانتوں سے تھام رکھتے ہیں پھر ان کا بیان ہے  جو دیتے تو ہیں لیکن بد نیتی اور دنیا میں اپنی واہ واہ ہونے کی خاطر دیتے ہیں چنانچہ ایک حدیث میں ہے :

 جن تین قسم کے لوگوں سے جہنم کی آگ سلگائی جائے گی وہ یہی ریاکار ہوں گے

- ریاکار عالم

- ریاکار غازی،

-  ریا کار سخی

 ایسا سخی کہے گا باری تعالیٰ تیری ہر ہر راہ میں میں نے اپنا مال خرچ کیا تو اسے اللہ تعالیٰ کی جناب سے جواب ملے گا کہ تو جھوٹا ہے تیرا ارادہ تو صرف یہ تھا کہ تو سخی اور جواد مشہور ہو جائے سو وہ ہو چکا یعنی تیرا مقصود دنیا کی شہرت تھی وہ میں نے تجھے دنیا میں ہی دے چکا پس تیری مراد حاصل ہو چکی

 اور حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عدی بن حاتم ؓ سے فرمایا کہ تیرے باپ نے اپنی سخاوت سے جو چاہتا تھا وہ اسے مل گیا۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال ہوتا ہے کہ عبداللہ بن جدعان تو بڑا سخی تھا جس نے مساکین وفقراء کے ساتھ بڑے سلوک کئے اور نام اللہ بہت سے غلام آزاد کئے تو کیا اسے ان کا نفع نہ ملے گا؟

 آپ ﷺنے فرمایا نہیں اس سے تو عمر بھر میں ایک دن بھی نہ کہا کہ اے اللہ میرے گناہوں کو قیامت کے دن معاف فرما دینا۔

اسی لئے یہاں بھی فرماتا ہے کہ ان کا ایمان اللہ اور قیامت پر نہیں۔ ورنہ شیطان کے پھندے میں نہ پھنس جاتے اور بد کو بھلا نہ سمجھ بیٹھتے

وَمَنْ يَكُنِ الشَّيْطَانُ لَهُ قَرِينًا فَسَاءَ قَرِينًا (۳۸)

اور جس کا ہم نشین اور ساتھی شیطان ہو وہ بدترین ساتھی ہے۔‏

 یہ شیطان کے ساتھی ہیں اور شیطان ان کا ساتھی ہے ساتھی کی برائی پر ان کی برائی بھی سوچ لو عرب شاعر کہتا ہے

عن المرء لا تسال وسل عن قرینہ فکل قرین بالمقارن یقتدی

انسان کے بارے میں نہ پوچھ اس کے ساتھیوں کا حال دریافت کر لے۔ ہر ساتھی اپنے ساتھی کا ہی پیرو کار ہوتا ہے

وَمَاذَا عَلَيْهِمْ لَوْ آمَنُوا بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقَهُمُ اللَّهُ ۚ

بھلا ان کا کیا نقصان تھا اگر یہ اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان لاتے اور اللہ تعالیٰ نے جو انہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے

ارشاد فرماتا ہے کہ انہیں اللہ پر ایمان لانے اور صحیح راہ پر چلنے اور ریاکاری کو چھوڑ دینے اور اخلاص و یقین پر قائم ہو جانے سے کونسی چیز مانع ہے؟

 ان کا اس میں کیا نقصان ہے؟بلکہ سرا سر فائدہ ہے کہ ان کی عاقبت سنور جائے گی

یہ کیوں اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے سے تنگ دلی کر رہے ہیں اللہ کی محبت اور اس کی رضامندی حاصل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟

وَكَانَ اللَّهُ بِهِمْ عَلِيمًا (۳۹)

 اللہ تعالیٰ انہیں خوب جاننے والا ہے۔‏

 اللہ انہیں خوب جانتا ہے ان کی بھلی اور بری نیتوں کا اسے علم ہے اہل توفیق اور غیر اہل توفیق سب اس پر ظاہر ہیں وہ بھلوں کو عمل صالح کی توفیق عطا فرما کر اپنی خوشنودی کے کام ان سے لے کر اپنی قربت انہیں عطا فرماتا ہے اور بروں کو اپنی عالی جناب اور زبردست سرکاری سے دھکیل دیتا ہے جس سے ان کی دنیا اور آخرت برباد ہوتی ہے، عیاذ اباللہ من ذالک

إِنَّ اللَّهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ ۖ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا وَيُؤْتِ مِنْ لَدُنْهُ أَجْرًا عَظِيمًا (۴۰)

بیشک اللہ تعالیٰ ایک ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا اور اگر نیکی ہو تو اسے دوگنی کر دیتا ہے اور خاص اپنے پاس سے بڑا ثواب دیتا ہے۔‏

باری تعالیٰ رب العالمین فرماتا ہے کہ میں کسی پر ظلم نہیں کرتا، کسی کی نیکی کو ضائع نہیں کرتا، بلکہ بڑھا چڑھا کر قیامت کے روز اس کا اجر و ثواب عطا فرماؤں گا جیسے اور آیت میں ہے:

وَنَضَعُ الْمَوَزِينَ الْقِسْطَ (۲۱:۴۷)

ہم عدل کی ترازو رکھیں گے۔

 اور فرمایا کہ حضرت لقمان نے اپنے صاحبزادے سے فرمایا تھا:

يبُنَىَّ إِنَّهَآ إِن تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ فِى صَخْرَةٍ أَوْ فِى السَّمَـوَتِ أَوْ فِى الاٌّرْضِ يَأْتِ بِهَا اللَّهُ (۳۱:۱۶)

پیارے بیٹے! اگر کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر ہو پھر وہ خواہ کسی چٹان میں ہو یا آسمانوں میں ہو یا زمین میں ہو اسے اللہ تعالیٰ ضرور لائے گا

اور جگہ فرمایا:

يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتَاتاً لِّيُرَوْاْ أَعْمَـلَهُمْ ـ فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْراً يَرَهُ ـ وَمَن يَعْـمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرّاً يَرَهُ (۹۹:۶،۸)

اس دن لوگ اپنے مختلف احوال پر لوٹیں گے تاکہ انہیں ان کے اعمال دکھائے جائیں پس جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا ،

بخاری و مسلم کی شفاعت کے ذکر والی مطول حدیث میں ہے:

 پھر اللہ فرمائے گا لوٹ کر جاؤ اور جس کے دل میں رائی کے دانے برابر ایمان دیکھو اسے جہنم سے نکال لاؤ۔

پس بہت سی مخلوق جہنم سے آزاد ہو گی

حضرت ابو سعید یہ حدیث بیان فرما کر فرماتے اگر تم چاہو تو آیت قرآنی کے اس جملے کو پڑ ھ لو إِنَّ اللَّهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ

ابن ابی حاتم میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا فرمان مروی ہے:

قیامت کے دن کسی اللہ کے بندے یا بندی کو لایا جائے گا اور ایک پکارنے والا سب اہل محشر کو با آواز بلند سنا کر کہے گا یہ فلاں کا بیٹا یا بیٹی ہے اس کا نام یہ ہے جس کسی کا کوئی حق اس کے ذمہ باقی ہو آئے اور لے جائے

 اس وقت یہ حالت ہو گی کہ عورت چاہے گی کہ اس کا کوئی حق اس کے باپ پر یا ماں پر یا بھائی پر یا شوہر پر ہو تو دوڑ کر آئے اور لے رشتے ناتے کٹ جائیں گے کوئی کسی کا پر سان حال نہ ہو گا

 اللہ تعالیٰ اپنا جو حق چاہے معاف فرما دے گا لیکن لوگوں کے حقوق میں سے کوئی حق معاف نہ فرمائے گا

اسی طرح جب کوئی حقدار آئے گا تو فریق ثانی سے کہا جائے گا کہ ان کے حق ادا کر یہ کہے گا دنیا تو ختم ہو چکی آج میرے ہاتھ میں کیا ہے جو میں دوں ؟

 پس اس کے نیک اعمال لئے جائیں گے اور حقداروں کو دئیے جائیں گے اور ہر ایک کا حق اسی طرح ادا کیا جائے گا

اب یہ شخص اگر اللہ کا دوست ہے تو اس کے پاس ایک رائی کے دانے برابر نیکی بچ رہے گی جسے بڑھا چڑھا کر صرف اسی کی بنا پر اللہ تعالیٰ اسے جنت میں لے جائے گا پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی

 اور اگر وہ بندہ اللہ کا دوست نہیں ہے بلکہ بد بخت اور سرکش ہے تو یہ حال ہو گا کہ فرشتہ کہے گا کہ باری تعالیٰ اس کی سب نیکیاں ختم ہوگئیں اور ابھی حقدار باقی رہ گئے حکم ہو گا کہ ان کی برائیاں لے کر اس پر لاد دو پھر اسے جہنم واصل کرو اعاذنا اللہ منہا۔

 اس موقوف اثر کے بعض شواہد مرفوع احادیث میں بھی موجود ہیں۔

ابن ابی حاتم میں ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا فرمان ہے کہ آیت مَن جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا (۶:۱۶۰) اعراب کے بارے میں اتری ہے اس پر ان سے سوال ہوا کہ پھر مہاجرین کے بارے میں کیا ہے آپ نے فرمایا اس سے بہت ہی اچھی آیت إِنَّ اللَّهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ

حضرت سعید بن جبیر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں مشرک کے بھی عذابوں میں اس کے باعث کمی کر دی جاتی ہے ہاں جہنم سے نکلے گا تو نہیں، چنانچہ صحیح حدیث میں ہے کہ حضرت عباسؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے چچا ابو طالب کی پشت پناہ بنے ہوئے تھے آپ کو لوگوں کی ایذاؤں سے بچاتے رہتے تھے آپ کی طرف سے ان سے لڑتے تھے تو کیا انہیں کچھ نفع بھی پہنچے گا

آپﷺ نے فرمایا ہاں وہ بہت تھوڑی سی آگ میں ہے اور اگر میرا یہ تعلق نہ ہوتا تو جہنم کے نیچے کے طبقے میں ہوتا۔

 لیکن یہ بہت ممکن ہے کہ یہ فائدہ صرف ابو طالب کے لئے ہی ہو یعنی اور کفار اس حکم میں نہ ہوں اس لئے کہ مسند طیالسی کی حدیث میں ہے :

اللہ تعالیٰ مؤمن کی کسی نیکی پر ظلم نہیں کرتا دنیا میں روزی رزق وغیرہ کی صورت میں اس  کا بدلہ ملتا ہے اور آخرت میں جزا اور ثواب کی شکل میں بدلہ ملے گا۔ ہاں کافر تو اپنی نیکی دنیا میں ہی کھا جاتا ہے۔ قیامت میں اس کے پاس کوئی نیکی نہ ہو گی

 أَجْرًا عَظِيمًا سے مراد اس آیت میں جنت ہےاللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم لطف و رحم سے اپنی رضامندی عطا فرمائے اور جنت نصیب کرے۔ آمین

مسند احمد کی ایک غریب حدیث میں ہے :

حضرت ابو عثمان رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں مجھے خبر ملی کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا ہے اللہ تعالیٰ اپنے مؤمن بندے کو ایک نیکی کے بدلے ایک لاکھ نیکی کا ثواب دے گا مجھے بڑا تعجب ہوا اور میں نے کہا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مل کر ان سے خود پوچھ آؤں چنانچہ میں نے سامان سفر درست کیا اور اس روایت کی چھان بین کے لئے روانہ ہوا معلوم ہوا کہ وہ تو حج کو گئے ہیں تو میں بھی حج کی نیت سے وہاں پہنچا ملاقات ہوئی تو میں نے کہا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں نے سنا آپ نے ایسی حدیث بیان کی ہے ؟ کیا یہ سچ ہے؟

 آپ نے فرمایا کیا تمہیں تعجب معلوم ہوتا ہے ؟

 تم نے قرآن میں نہیں پڑھا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

مَّن ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً (۲:۲۴۵)

 ایسا بھی کوئی ہے جو اللہ تعالیٰ کو اچھا قرض دے پس اللہ تعالیٰ اسے بہت بڑھا چڑھا کر عطا فرمائے گا

اور دوسری آیت میں ساری دنیا کو کم کہا گیا ہے:

فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِى الاٌّخِرَةِ إِلاَّ قَلِيلٌ (۹:۳۸)

سنو! دنیا کی زندگی تو آخرت کے مقابلے میں کچھ یونہی سی ہے

اللہ تعالیٰ کی قسم میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ ایک نیکی کو بڑھا کر اسکے بدلے دو لاکھ ملیں گی۔

یہ حدیث اور طریقوں سے بھی مروی ہے،

فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا (۴۱)

پس کیا حال ہوگا جس وقت کہ ہر اُمت میں سے ایک گواہ ہم لائیں گے اور آپ کو ان لوگوں پر گواہ بنا کر لائیں گے ۔

اللہ قیامت کے دن کی سختی اور ہولناکی بیان فرما رہا ہے کہ اس دن انبیاء علیہ السلام کو بطور گواہ کے پیش کیا جائے گا

جیسے اور آیت میں ہے:

وَأَشْرَقَتِ الاٌّرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتَـبُ وَجِـىءَ بِالنَّبِيِّيْنَ وَالشُّهَدَآءِ (۳۹:۶۹)

زمین اپنے رب کے نور سے چمکنے لگے گی نامہ اعمال دئیے جائیں گے اور نبیوں اور گواہوں کو لاکھڑا کریں گے ،

صحیح بخاری شریف میں ہے:

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا مجھے کچھ قرآن پڑھ کر سناؤ

حضرت عبداللہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ کو پڑھ کر سناؤں گا آپ پر تو اترا ہی ہے

 فرمایا ہاں لیکن میرا جی چاہتا ہے کہ دوسرے سے سنوں

پس میں نے سورہ نساء کی تلاوت شروع کی پڑھتے پڑھتے جب میں نے اس آیت فَكَيْفَ کی تلاوت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بس کرو میں نے دیکھا کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔

حضرت محمد بن فضالہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتے ہیں:

 قبیلہ بنی ظفر کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آئے اور اس چٹان پر بیٹھ گئے جواب تک انکے محلے میں ہے آپ کے ساتھ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے آپ نے ایک قاری سے فرمایا قرآن پڑھو پڑھتے پڑھتے جب اس آیت فَكَيْفَ تک پہنچا تو آپ اس قدر روئے کہ دونوں رخسار اور داڑھی تر ہو گئی اور عرض کرنے لگےیا رب جو موجود ہیں ان پر تو خیر میری گواہی ہو گی لیکن جن لوگوں کو میں نے دیکھا ہی نہیں ان کی بابت کیسے؟ ( ابن ابی حاتم)

ابن جریر میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا  کہ میں ان پر گواہ ہوں جب تک کہ ان میں ہوں پس جب تو مجھے فوت کرے گا تب تو تو ہی ان پر نگہبان ہے،

ابو عبداللہ قرطبی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب تذکرہ میں باب باندھا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنی اُمت پر شہادت کے بارے میں کیا آیا ہے؟

 اس میں حضرت سعید بن مسیب رحمتہ اللہ علیہ کا یہ قول لائے ہیں کہ ہر دن صبح شام نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آپ کی اُمت کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں مع ناموں کے پاس آپس قیامت کے دن ان سب پر گواہی دیں گے پھر یہی آیت تلاوت فرمائی

لیکن اولاً تو یہ حضرت سعید کا خود کا قول ہے، دوسرے یہ کہ اس کی سند میں انقطاع ہے، اس میں ایک راوی مبہم ہے جس کا نام ہی نہیں تیسرے یہ حدیث مرفوع کر کے بیان ہی نہیں کرتے ہاں امام قرطبی رحمتہ اللہ علیہ اسے قبول کرتے ہیں وہ اس کے لانے کے بعد فرماتے ہیں کہ پہلے گزر چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے ہرچیز اور ہر جمعرات کو اعمال پیش کئے جاتے ہیں پس وہ انبیاء پر اور ماں باپ پر ہر جمعہ کو پیش کئے جاتے ہیں اور اس میں کوئی تعارض نہیں ممکن ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہر جمعہ کو بھی پیش ہوتے ہوں اور ہر دن بھی

ٹھیک یہی ہے کہ یہ بات صحت کے ساتھ ثابت نہیں واللہ اعلم۔ مترجم

يَوْمَئِذٍ يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَعَصَوُا الرَّسُولَ لَوْ تُسَوَّى بِهِمُ الْأَرْضُ

جس روز کافر اور رسول کے نافرمان آرزو کریں گے کہ کاش انہیں زمین کے ساتھ ہموار کر دیا جاتا

اللہ  فرماتا ہے کہ اس دن کافر کہے گا کاش میں کسی زمین میں سما جاؤں پھر زمین برابر ہو جائے گی۔ کافر نا قابل برداشت ہولناکیوں رسوائیوں اور ڈانٹ ڈپٹ سے گھبرا اٹھے گا، جیسے اور آیت میں ہے:

يَوْمَ يَنظُرُ الْمَرْءُ مَا قَدَّمَتْ يَدَاهُ وَيَقُولُ الْكَافِرُ يَا لَيْتَنِي كُنتُ تُرَابًا (۷۸:۴۰)

جس دن انسان اپنے آگے بھیجے ہوئے اعمال اپنی آنکھوں دیکھ لے گا اور کافر کہے گا کاش کہ میں مٹی ہو گیا ہوتا۔

وَلَا يَكْتُمُونَ اللَّهَ حَدِيثًا (۴۲)

اور اللہ تعالیٰ سے کوئی بات نہ چھپا سکیں گے

 پھر فرمایا یہ ان تمام بد افعالیوں کا اس دن اقرار کریں گے جو انہوں نے کی تھیں اور ایک چیز بھی پوشیدہ نہ رکھیں گے

 ایک شخص نے حضرت ابن عباسؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے کہا حضرت ایک جگہ تو قرآن میں ہے کہ مشرکین قیامت کے دن کہیں گےکہ

وَاللّهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِينَ (۶:۲۳)

قسم اللہ کی اپنے پروردگار کی ہم مشرک نہ تھے

 اور دوسری جگہ ہے وَلَا يَكْتُمُونَ اللَّهَ حَدِيثًا اللہ سے بات بھی نہ چھپائیں گے پھر ان دونوں آیتوں کا کیا مطلب ہے؟

 آپ نے فرمایا اس کا اور وقت ہے اس کا وقت اور ہے اور جب موحدوں کو جنت میں جاتے ہوئے دیکھیں گے تو کہیں گے آؤ تم بھی اپنے شرک کا انکار کرو کیا عجب کام چل جائے۔ پھر ان کے منہ پر مہریں لگ جائیں گی اور ہاتھ پاؤں بولنے لگیں گے اب اللہ تعالیٰ سے ایک بات بھی نہ چھپائیں گے (ابن جریر)

مسند عبدالزاق میں ہے :

 اس شخص نے آ کر کہا تھا بہت سی چیزیں مجھ پر قرآن میں مختلف نظر آ تی ہیں،

آپ نے فرمایا کیا مطلب تجھے کیا قرآن میں شک ہے؟

آپ نے فرمایا کیا مطلب تجھے کیا قرآن میں شک ہے؟

 اس نے کہا شک تو نہیں ہاں میری سمجھ میں اختلاف نظر آ رہا ہے،

آپ نے فرمایا جہاں جہاں اختلاف تجھے نظر آیا ہو ان مقامات کو پیش کر تو اس نے یہ دو آیتیں پیش کیں کہ ایک سے تو چھپانا ثابت ہوتا ہے اور دوسرے سے نہ چھپانا پایا جاتا ہے۔ تو آپ نے اسے یہ جواب دے کر دونوں آیتوں کی  تطبیق سمجھا دی۔

 ایک اور روایت میں سائل کا نام بھی آیا ہے کہ وہ حضرت نافع بن ارزق تھے

یہ بھی ہے کہ حضرت ابن عباسؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے یہ بھی فرمایا کہ شاید تم کسی ایسی مجلس سے آ رہے ہو جہاں ان کا تذکرہ ہو رہا ہو گا یا تم نے کیا ہو گا کہ میں جاتا ہوں اور ابن عباسؓ سے دریافت کرتا ہوں اگر میرا یہ گمان صحیح ہے تو تمہیں لازم ہے کہ جواب سن کر انہیں بھی جا کر سنادو پھر یہی جواب دیا۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ

اے ایمان والو! جب تم نشے میں مست ہو نماز کے قریب نہ جاؤ جب تک کہ اپنی بات کو سمجھنے نہ لگو

اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے ایمان دار بندوں کو نشے کی حالت میں نماز پڑھنے سے روک رہا ہے کیونکہ اس وقت نمازی کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہےساتھ  ہی محل نماز یعنی مسجد میں آنے سے بھی ممانعت  ہے ۔اسے بھی اور جنبی شخص کو بھی یعنی جسے نہانے کی حاجت ہو، ہاں ایسا شخص کسی کام کی وجہ سے مسجد کے ایک دروازے سے داخل ہو کر دوسرے دروازے سے نکل جائے تو جائز ہے

 نشے کی حالت میں نماز کی قریب نہ جانے کا حکم شراب کی حرمت سے پہلے تھا جیسے اس حدیث سے ظاہر ہے جو ہم نے سورہ بقرہ کی  آیت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب وہ آیت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے تلاوت کی تو آپ نے دعا مانگی کہ اے اللہ شراب کے بارے میں اور صاف صاف بیان نازل فرما  کی تفسیر میں بیان کی ہے  

پھر نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جانے کی یہ آیت اتری اس پر نمازوں کے وقت اس کا پینا لوگوں نے چھوڑ دیا اسے سن کر بھی جناب فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہی دعا مانگی تو آیت يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالأَنصَابُ وَالأَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ سے فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ (۵:۹۰،۹۱) تک نازل ہوئی جس میں شراب سے بچنے کا حکم صاف موجود ہے اسے سن کر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا ہم باز آئے۔

اسی روایت کی ایک سند میں ہے کہ جب سورۃ نساء کی یہ آیت نازل ہوئی اور نشے کے وقت نماز پڑھنے کی ممانعت ہوئی اس وقت یہ دستور تھا کہ جب نماز کھڑی ہوتی تو ایک شخص آواز لگاتا کہ کوئی نشہ والا نماز کے قریب نہ آئے،

ابن ماجہ شریف میں ہے حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

 میرے بارے میں چار آیتیں نازل ہوئی ہیں، ایک انصاری نے بہت سے لوگوں کی دعوت کی ہم سب نے خوب کھایا پیا پھر شرابیں پیں اور مخمور ہوگئے پھر آپس میں فخر جتانے لگے ایک شخص نے اونٹ کے جبڑے کی ہڈی اٹھا کر حضرت سعد کو ماری جس سے ناک پر زخم آیا اور اس کا نشان باقی رہ گیا اس وقت تک شراب کو اسلام نے حرام نہیں کیا تھا پس یہ آیت نازل ہوئی

یہ حدیث صحیح مسلم شریف میں بھی پوری مروی ہے

 ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے:

 عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے دعوت کی سب نے کھانا کھایا پھر شراب پی اور مست ہوگئے اتنے میں نماز کا وقت آ گیا ایک شخص کو امام بنایا اس نے نماز میں سورۃ الکافرون میں اس طرح پڑھا ما اعبد ما تعبدون ونحن نعبد ما تعبدون اس پر یہ آیت اتری اور نشے کی حالت میں نماز کا پڑھنا منع کیا گیا۔

یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور حسن ہے۔

ابن جریر کی روایت میں ہے:

 حضرت علی ؓ حضرت عبدالرحمٰن ؓ اور تیسرے ایک اور صاحب نے شراب پی اور حضرت عبدالرحمٰن نماز میں امام بنائے گئے اور قرآن کی قرأت خلط ملط کر دی اس پر یہ آیت اتری۔

ابو داؤد اور نسائی میں بھی یہ روایت ہے

 ابن جریر کی ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے امامت کی اور جس طرح پڑھنا چاہیے تھانہ پڑھ سکے اس پر یہ آیت نازل ہوئی

اور ایک روایت میں مروی ہے کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے امامت کرائی اور اس طرح پڑھا  قل ایھا الکافرون اعبدما تعبدما تعبدون وانتم عابدون ما اعبدو انا عابد ما عبدتم ما عبدتم لکم دینکم ولی دین، پس یہ آیت نازل ہوئی اور اس حالت میں نماز پڑھنا حرام کر دیا گیا

حضرت ابن عباسؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتے ہیں کہ شراب کی حرمت سے پہلے لوگ نشہ کی حالت میں نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے پس اس آیت سے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا گیا ( ابن جریر)

حضرت قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس کے نازل ہونے کے بعد لوگ اس سے رک گئے پھر شراب کی مطلق حرمت نازل ہوئی

حضرت ضحاک رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس سے شراب کا نشہ مراد نہیں بلکہ نیند کا خمار مراد ہے،

 امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ٹھیک یہی ہے کہ مراد اس سے شراب کا نشہ ہے اور یہاں خطاب ان سے کیا گیا ہے جو نشہ میں ہیں لیکن اتنے نشہ میں بھی نہیں کہ احکام شرع ان پر جاری ہی نہ ہو سکیں کیونکہ نشے کی ایسی حالت والا شخص مجنون کے حکم میں ہے،

بہت سے اصولی حضرات کا قول ہے کہ خطاب ان لوگوں سے ہے جو کلام کو سمجھ سکیں ایسے نشہ والوں کی طرف نہیں جو سمجھتے ہی نہیں کہ ان سے کیا کہا جا رہا ہے اس لئے کہ خطاب کا سمجھنا شرط ہے تکلیف کی

 اور کہا گیا ہے کہ گو الفاظ یہ ہیں کہ نشہ کی حالت میں نماز نہ پڑھو لیکن مراد یہ ہے کہ نشے کی چیز کھاؤ پیؤ بھی نہیں اس لئے کہ دن رات میں پانچ وقت نماز فرض ہے تو کیسے ممکن ہے کہ ایک شرابی ان پانچویں وقت نمازیں ٹھیک وقت پر ادا کر سکے حالانکہ شراب برابر پی رہا ہے واللہ اعلم

پس یہ حکم بھی اسی طرح ہو گا جس طرح یہ حکم ہے کہ ایمان والو اللہ سے ڈرتے رہو جتنا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور نہ مرنا تم مگر اس حالت میں کہ تم مسلمان ہو۔تو اس سے مراد یہ ہے کہ ایسی تیاری ہر وقت رکھو اور ایسے پاکیزہ اعمال ہر وقت کرتے رہو کہ جب تمہیں موت آئے تو اسلام پر دم نکلے

 یہ جو اس آیت میں ارشاد ہوا ہے کہ یہاں تک کہ تم معلوم کر سکو جو تم کہہ رہے ہو یہ نشہ کی حد سے یعنی نشہ کی حالت میں اس شخص کو سمجھا جائے گا نہ ہی اسے عاجزی اور خشوع خضوع حاصل ہو سکتا ہے،

 مسند احمد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

 جب تم میں سے اگر کوئی نماز میں اونگھنے لگے تو اسے چاہیے کہ وہ نماز چھوڑ کر سو جائے جب تک کہ وہ جاننے لگے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے،

بخاری اور نسائی میں بھی یہ حدیث ہے اور اس کے بعض طرق میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ ممکن ہے کہ وہ اپنے لئے استغفار کرے لیکن اس کی زبان سے اس کے خلاف نکلے۔

وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا ۚ

اور جنابت کی حالت میں جب تک کہ غسل نہ کر لو ہاں اگر راہ چلتے گزر جانے والے ہوں تو اور بات ہے

پھر فرمان ہے کہ جنبی نماز کے قریب نہ جائے جب تک غسل نہ کرلے ہاں بطور گزر جانے کے مسجد میں گزرنا جائز ہے ،

حضرت ابن عباسؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ایسی ناپاکی کی حالت میں مسجد میں جانا ناجائز ہے ہاں مسجد کے ایک طرف سے نکل جانے میں کوئی حرج نہیں مسجد میں بیٹھے نہیں اور بھی بہت سے صحابہ اور تابعین کا یہی قول ہے

 حضرت یزید بن ابو حبیب فرماتے ہیں بعض انصار جو مسجد کے گرد رہتے تھے اور جنبی ہوتے تھے گھر میں پانی نہیں ہوتا تھا اور گھر کے دروازے مسجد سے متصل تھے انہیں اجازت مل گئی کہ مسجد سے اسی حالت میں گزر سکتے ہیں۔

بخاری شریف کی ایک حدیث سے بھی یہ بات صاف طور پر ثابت ہوتی ہے کہ لوگوں کے گھروں کے دروازے مسجد میں تھے چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے آخری مرض الموت میں فرمایا تھا کہ مسجد میں جن جن لوگوں کے دروازے پڑتے ہیں سب کو بند کر دو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دروازہ رہنے دو۔

 اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ کے بعد آپ کے جانشین حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں گے تو انہیں ہر وقت اور بکثرت مسجد میں آنے جانے کی ضرورت رہے گی تاکہ مسلمانوں کے اہم امور کا فیصلہ کر سکیں اس لئے آپ نے سب کے دروازے بند کرنے اور صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دروازہ کھلا رکھنے کی ہدایت فرمائی،

بعض سنن کی اس حدیث میں بجائے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام ہے وہ بالکل غلط ہے صحیح یہی ہے جو صحیح میں ہے

 اس آیت سے اکثر ائمہ نے دلیل پکڑی ہے کہ جنبی شخص کا مسجد میں ٹھہرنا حرام ہے ہاں گزر جانا جائز ہے،اسی طرح حیض و نفاس والی عورتوں کو بھی۔

 بعض کہتے ہیں ان دونوں کا گزرنا بھی جائز نہیں ممکن ہے مسجد میں آلودگی ہو اور بعض کہتے اگر اس بات کا خوف نہ ہو  تو ان کا گزرنا بھی جائز ہے۔

صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے:

 آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا کہ مسجد سے مجھے بوریا اٹھا دو تو اُم المؤمنین نے عرض کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حیض سے ہوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تیرا حیض تیرے ہاتھ میں نہیں

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حائضہ مسجد میں آ جا سکتی ہے اور نفاس والی کے لئے بھی یہی حکم ہے۔ یہ دونوں بطور راستہ چلنے کے جا آ سکتی ہیں۔

ابو داؤد میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے:

 میں حائض اور جنبی کے لئے مسجد کو حلال نہیں کرتا ۔

 امام ابو مسلم خطابی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس حدیث کو ایک جماعت نے ضعیف کہا ہے کیونکہ افلت اس کا راوی مجہول ہے۔ لیکن ابن ماجہ میں یہ روایت ہے اس میں افلت کی جگہ معدوم ذہلی ہیں۔

 پہلی حدیث بروایت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور دوسری بروایت حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا ہے لیکن ٹھیک نام حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ہی ہے۔

 ایک اور حدیث ترمذی میں ہے جس میں ہے کہ اے علی اس مسجد میں جنبی ہونا میرے اور تیرے سوا کسی کو حلال نہیں یہ حدیث بالکل ضعیف ہے  واللہ اعلم۔

اس آیت کی تفسیر میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ جنبی شخص بغیر غسل کئے نماز نہیں پڑھ سکتا لیکن اگر وہ مسافر ہو اور پانی نہ ملے تو پانی کے ملنے تک پڑھ سکتا ہے۔

 ابن عباسؓ سعید بن جبیر اور ضحاک سے بھی یہی مروی ہے، حضرت مجاہد حسن حکم زید اور عبدالرحمٰن سے بھی اس کے مثل مروی ہے،

عبداللہ بن کثیر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ہم سنا کرتے تھے کہ یہ آیت سفر کے حکم میں ہے،

اس حدیث سے اس  مسئلہ کی شہادت بھی  ہو سکتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پاک مٹی مسلمان کی طہارت ہے گو دس سال تک پانی نہ ملے’ اور جب مل جائے تو اسے استعمال کرے یہ تیرے لئے بہتر ہے (سنن اور احمد)

امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ان دونوں قولوں میں اولیٰ قول ان ہی لوگوں کا ہے جو کہتے ہیں اس سے مراد صرف گزر جانا ہے کیونکہ جس مسافر کو جنب کی حالت میں پانی نہ ملے اس کا حکم تو آگے صاف بیان ہوا ہے پس اگر یہی مطلب یہاں بھی لیا جائے تو پھر دوسرے جملہ میں اسے لوٹانے کی ضرورت باقی نہیں رہتی

پس معنی آیت کے اب یہ ہوئے کہ ایمان والو نماز کے لئے مسجد میں نہ جاؤ جب کہ تم نشے میں ہو جب تک تم اپنی بات کو آپ نہ سمجھنے لگو

 اسی طرح جنب کی حالت میں بھی مسجد میں نہ جاؤ جب تک نہا نہ لو ہاں صرف گزر جانا جائز ہے

عَابِر کے معنی آنے جانے یعنی گزر جانے والے ہیں اس کا مصدر عبراً اور عبورًا آتا ہے جب کوئی نہر سے گزرے تو عرب کہتے ہیں عبرفلان النھر فلاں شخص نے نہر سے عبور کر لیا اسی طرح قوی اونٹنی کو جو سفر کاٹتی ہو عبرالاسفار کہتے ہیں۔

 امام ابن جریر جس قول کی تائید کرتے ہیں یہی قول جمہور کا ہے اور آیت سے ظاہر بھی یہی ہے یعنی اللہ تعالیٰ اس ناقص حالت نماز سے منع فرما رہا ہے جو مقصود نماز کے خلاف ہے اسی طرح نماز کی جگہ میں بھی ایسی حالت میں آنے کو روکتا ہے جو اس جگہ کی عظمت اور پاکیزگی کے خلاف ہے واللہ اعلم۔

پھر جو فرمایا کہ یہاں تک کہ تم غسل کر لو امام ابوحنیفہ، امام مالک اور شافعی اسی دلیل کی روشنی میں کہتے ہیں کہ جنبی کا مسجد میں ٹھہرنا حرام ہے جب تک غسل نہ کر لے یا اگر پانی نہ ملے یا پانی ہو لیکن اس کے استعمال کی قدرت نہ ہو تو تیمم کر لے۔

حضرت امام احمدرحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جب جنبی نے وضو کر لیا تو اسکا  مسجد میں ٹھہرنا جائز ہے

چنانچہ مسند احمد اور سنن سعید بن منصور میں مروی ہے کہ حضرت عطا بن یسار رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کو دیکھا کہ وہ جنبی ہوتے اور وضو کر کے مسجد میں بیٹھے رہتے واللہ اعلم۔

پھر تیمم کی اجازت کا فتویٰ دیا ہے کیونکہ آیت میں عموم ہے

 حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ایک انصاری بیمار تھے نہ تو کھڑے ہو کر وضو کر سکتے تھے نہ ان کا کوئی خادم تھا جو انہیں پانی دے انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کا ذکر کیا اس پر یہ حکم اترا

یہ روایت مرسل ہے،

 دوسری حالت میں تیمم کے جواز کی وجہ سفر ہے خواہ لمبا سفر اور خواہ چھوٹا۔

غَائِطِ کہتے ہیں نرم زمین کو یہاں اس سے کنایہ کیا گیا ہے پاخانہ پیشاب سے

 لَامَسْتُمُ کی تفسیر میں دو قول ہیں

 ایک یہ کہ مراد جماع ہے جیسے اور آیت میں ہے:

وَإِن طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ (۲:۲۳۷)

اور اگر تم عورتوں کو اس سے پہلے طلاق دے دو کہ تم نے انہیں ہاتھ نہیں لگایا ہو اور تم نے انکا مہر بھی مقرر کر دیا تو مقررہ مہر کا آدھا مہر دے دو

یہاں بھی لفظ قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ ہے

حضرت ابن عباسؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ اولاً مَسْتُمُ النِّسَاءَ سے مراد مجامعت ہے۔

حضرت علی ؓ، حضرت ابی بن کعبؓ، حضرت مجاہد ؓ، حضرت طاؤس ؓ، حضرت حسن ؓ، حضرت عبید بن عمیر ؓ،حضرت سعید بن جبیر ؓ، حضرت شعبی ؒ، حضرت قتادہ ؒ، حضرت مقاتل ؒسے بھی یہی مروی ہے۔

 سعید بن جبیر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ اس لفظ پر مذاکرہ ہوا تو چند موالی نے کہا یہ جماع نہیں اور چند عرب نے کہا جماع ہے، میں نے حضرت ابن عباسؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس کا ذکر کیا آپ نے پوچھا تم کن کے ساتھ تھے میں نے کہا موالی کے فرمایا موالی مغلوب ہوگئے لمس اور مس اور مباشرت کا معنی جماع ہے، اللہ تعالیٰ نے یہاں کنایہ کیا ہے،

 بعض اور حضرات نے اس سے مراد مطلق چھونا لیا ہے۔ خواہ جسم کے کسی حصہ کو عورت کے کسی حصہ سے ملایا جائے تو وضو کرنا پڑے گا۔

لمس سے مراد چھونا ہے۔ اور اس سے بھی وضو کرنا پڑے گا۔

 فرماتے ہیں مباشرت سے ہاتھ لگانے سے بوسہ لینے سے وضو کرنا پڑے گا۔

 لمس سے مراد چھونا ہے،

 ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی عورت کا بوسہ لینے سے وضو کرنے کے قائل تھے اور اسے لمس میں داخل جانتے تھے

عبیدہ ، ابوعثمان ثابت ابراہیم زید بھی کہتے ہیں کہ لمس سے مراد جماع کے علاوہ ہے

حضرت عبداللہ بن عمر ؓفرماتے ہیں کہ انسان کا اپنی بیوی کا بوسہ لینا اور اسے ہاتھ لگانا ملامست ہے اس سے وضو کرنا پڑے گا (موطامالک)

دار قطنی میں خود عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے لیکن دوسری روایت آپ سے اس کے خلاف بھی پائی جاتی ہے آپ باوضو تھے آپ نے اپنی بیوی کا بوسہ لیا پھر وضو نہ کیا اور نماز ادا کی۔

پس دونوں روایتوں کو صحیح ماننے کے بعد یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ آپ وضو کو مستحب جانتے تھے واللہ اعلم۔

 مطلق چھونے سے وضو کے قائل امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ اور ان کے ساتھی امام مالک رحمتہ اللہ علیہ ہیں اور مشہور امام احمد بن حنبل سے بھی یہی روایت ہے۔

 اس قول کے قائل کہتے ہیں کہ یہاں دو قرأتیں ہیں لَامَسْتُمُ اور لَمَسْتُمُ

 اور لمس کا اطلاق ہاتھ لگانے پر بھی قرآن کریم میں آیا ہے چنانچہ ارشاد ہے:

وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ كِتَابًا فِي قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوهُ بِأَيْدِيهِمْ (۶:۷)

اور اگر ہم کاغذ پر لکھا ہوا کوئی نوشتہ آپ پر نازل فرماتے پھر اس کو یہ لوگ اپنے ہاتھوں سے چھو بھی لیتے

ظاہر ہے کہ یہاں ہاتھ لگانا ہی مراد ہے

 اسی طرح حضرت ماعز بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہﷺ کا یہ فرمانا کہ شاید تم نے بوسہ لیا ہو گا ہاتھ لگایا ہو گا وہاں بھی لفظ لمست ہے۔ اور صرف ہاتھ لگانے کے معنی میں ہی ہے

 اور حدیث میں ہے:

والیدز ناھا اللمس

 ہاتھ کا زناچھونا اور ہاتھ لگانا ہے

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں بہت کم دن ایسے گزرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس آ کر بوسہ نہ لیتے ہوں یا ہاتھ نہ لگاتے ہوں۔

 بخاری ومسلم کی حدیث میں ہے:

 حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیع ملامست سے منع فرمایا یہ بھی ہاتھ لگانے کے بیع ہے پس یہ لفظ جس طرح جماع پر بولا جاتا ہے ہاتھ سے چھونے پر بھی بولا جاتا ہے شاعر کہتا ہے:

ولمست کفی کفہ اطلب الغنی

میرا ہاتھ اس کے ہاتھ سے ملا میں تونگری چاہتا تھا۔

 ایک اور روایت میں ہے:

 ایک شخص سرکار محمد میں حاضر ہو کر عرض کرتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس شخص کے بارے میں کیا فیصلہ ہے جو ایک جنبیہ عورت کے ساتھ تمام وہ کام کرتا ہے جو میاں بیوی میں ہوتے ہیں سوائے جماع کے تو آیت أَقِمِ الصَّلَاةَ نازل ہوتی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں وضو کر کے نماز ادا کر لے

 اس پر حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پوچھتے ہیں کیا یہ اسی کے لئے خاص ہے یا سب مسلمانوں کے لئے عام ہے

 آپ ﷺجواب دیتے ہیں تمام ایمان والوں کے لئے ہے،

 امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اسے زائدہ کی حدیث سے  روایت کر کے فرماتے ہیں اس کی سند متصل نہیں

امام نسائی اسے مرسلاً روایت کرتے ہیں۔

الغرض اس قول کے قائل اس حدیث سےیہ کہتے ہیں کہ اسے وضو کا حکم اسی لئے دیا کہ اس نے عورت کو چھوا تھا جماع نہیں کیا تھا۔

 اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اولاً تو یہ منقطع ہے ابن ابی لیلی اور معاذ کے درمیان ملاقات کا ثبوت نہیں

 دوسرے یہ کہ ہو سکتا ہے اسے وضو کا حکم فرض نماز کی ادائیگی کے لئے دیا ہو جیسے کہ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہا والی حدیث ہے کہ جو بندہ کوئی گناہ کرے پھر وضو کر کے دو رکعت نماز ادا کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے

یہ پوری حدیث سورۃ آل عمران میں آیت ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ (۳:۱۳۵) کی تفسیر میں گزر چکی ہے،

امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ان دونوں قولوں میں سے اولیٰ قول ان کا ہے جو کہتے ہیں کہ مراد اس سے جماع نہ کہ اور۔ کیونکہ صحیح مرفوع حدیث میں آ چکا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی کسی بیوی صاحبہ کا بوسہ لیا اور بغیر وضو کئے نماز پڑھی،

حضرت مائی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں آنحضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وضو کرتے بوسہ لیتے پھر بغیر وضو کیے نماز پڑھتے۔

حضرت حبیب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں مائی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی کسی بیوی کا بوسہ لیتے نماز کو جاتے میں نے کہا وہ آپ ہی ہوں گی تو آپ مسکرا دیں،

 اس کی سند میں کلام ہے لیکن دوسری سندوں سے بغیر وضو کیے ثابت ہے کہ اوپر کے راوی یعنی حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سننے والے حضرت عروہ بن زبیر رحمتہ اللہ علیہ ہیں

 اور روایت میں ہے کہ وضو کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرا بوسہ لیا اور پھر وضو کیے بغیر نماز ادا کی،

 حضرت ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں:

 حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بوسہ لیتے حالانکہ آپ روزے سے ہوتے پھر نہ تو روزہ جاتا نہ نیا وضو کرتے (ابن جریر)

حضرت زینت بنت خزیمہ فرماتی ہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بوسہ لینے کے بعد وضو نہ کرتے اور نماز پڑھتے

وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا

اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہواور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی کا قصد کرو

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اگر پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کر لو،

 اس سے اکثر فقہا نے استدلال کیا ہے کہ پانی نہ پانے والے کے لئے تیمم کی اجازت پانی کی تلاش کے بعد ہے۔ کتب فروع میں تلاش کی کیفیت بھی لکھی ہے

 بخاری و مسلم میں ہے :

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ الگ تھلگ ہے اور لوگوں کے ساتھ اس نے نماز جماعت کے ساتھ نہیں پڑھی تو آپ نے اس سے پوچھا تو نے لوگوں کے ساتھ نماز کیوں نہ پڑھی؟ کیا تو مسلمان نہیں؟

 اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوں تو مسلمان لیکن جنبی ہو گیا اور پانی نہ ملا

 آپ ﷺنے فرمایا پھر اس صورت میں تجھے مٹی کافی تھی۔

 تَيَمَّم کے لفظی معنی قصد کرنے کے ہیں۔ عرب کہتے ہیں تیممک اللہ بحفظہ یعنی اللہ اپنی حفاظت کے ساتھ تیرا قصد کرے ،

 امراء القیس کے شعر میں بھی یہ لفظ اسی معنی میں آیا ہے،

صَعِيدًا کے معنی میں کہا گیا ہے کہ ہر وہ چیز جو زمین میں سے اوپر کو چڑھے پس اس میں مٹی ریت درخت پتھر گھاس بھی داخل ہو جائیں گے۔

امام مالک رحمتہ اللہ علیہ کا قول یہی ہے اور کہا گیا ہے کہ جو چیز مٹی کی جنس سے ہو جیسے ریت ہڑتال اور چونا

یہ مذہب ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کا ہے

 اور یہ بھی کہا گیا کہ صرف مٹی ہے مگر یہ قول ہے حضرت امام شافعی اور امام احمد بن حنبل اور ان کے تمام ساتھیوں کا ہے

اس کی دلیل ایک تو قرآن کریم کے یہ الفاظ ہیں فَتُصْبِحَ صَعِيدًا زَلَقًا (۱۸:۴۰)  ہو جائے وہ مٹی پھسلتی

دوسری دلیل صحیح مسلم شریف کی یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

ہمیں تمام لوگوں پر تین فضیلتیں دی گئی ہیں

- ہماری صفیں مثل فرشتوں کی صفوں کے ترتیب دی گئیں

-  ہمارے لئے تمام زمین مسجد بنائی گئی

-  اور زمین کی مٹی ہمارے لئے پاک اور پاک کرنے والی بنائی گئی جبکہ ہم پانی نہ پائیں

 اور ایک سند سے بجائے تربت کے ترابت کا لفظ مروی ہے۔

پس اس حدیث میں احسان کے جتاتے وقت مٹی کی تخصیص کی گئی ، اگر کوئی اور چیز بھی وضو کے قائم مقام کام آنے والی ہوتی تو اس کا ذکر بھی ساتھ ہی کر دیتے۔

یہاں یہ لفظ طیب اسی کے معنی میں آیا ہے۔ مراد حلال ہے اور کہا گیا ہے کہ مراد پاک ہے جیسے حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

 پاک مٹی مسلمانوں کا وضو ہے گو دس سال تک پانی نہ پائے پھر جب پانی ملے تو اسے اپنے جسم سے بہائے یہ اس کے لئے بہتر ہے ،

امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اسے حسن صحیح کہتے ہیں حافظ ابو الحسن قطان رحمتہ اللہ علیہ بھی اسے صحیح کہتے ہیں

 ابن عباسؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتے ہیں سب سے زیادہ پاک مٹی کھیت کی زمین کی مٹی ہےبلکہ تفسیر ابن مردویہ میں تو اسے مرفوعاً وارد کیا ہے

فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورًا (۴۳)

اور اپنے منہ اور اپنے ہاتھ مل لو بیشک اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا، بخشنے والا ہے۔‏

پھر فرمان ہے کہ اسے اپنے چہرے پر اور ہاتھ پر ملنا کافی ہے اور اس پر اجماع ہے، لیکن کیفیت تیمم میں آئمہ کا اختلاف ہے۔

جدید مذہب شافعی یہ ہے کہ دو دفعہ کر کے منہ اور دونوں ہاتھوں کا کہنیوں تک مسح کرنا واجب ہے اس لئے کہ یدین کا اطلاق بغلوں تک اور کہنیوں تک ہوتا ہے جیسے آیت وضو میں اور اسی لفظ کا اطلاق ہوتا ہے اور مراد صرف ہتھیلیاں ہی ہوتی ہیں جیسے کہ چور کی حد کے بارے میں فرمایا:

فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا (۵:۳۸)

کہتے ہیں یہاں تیمم کے حکم میں ہاتھ کا ذکر مطلق ہے اور وضو کے حکم سے مشروط ہے اس لئے اس مطلق کو اس مشروط پر محمول کیا جائے گا کیونکہ طہوریت جامع موجود ہے

 اور بعض لوگ اس کی دلیل میں دار قطنی والی روایت پیش کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

تیمم کی دو ضربیں ہیں ایک مرتبہ ہاتھ مار کر منہ پر ملنا اور ایک مرتبہ ہاتھ مار کر دونوں کہنیوں تک ملنا،

 لیکن یہ حدیث صحیح نہیں اس لئے کہ اس کی اسناد میں ضعف ہے حدیث ثابت نہیں۔

 ابو داؤد کی ایک حدیث میں ہے:

 رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھ ایک دیوار پر مارے اور منہ پر ملے پھر دوبارہ ہاتھ مار کر اپنی دونوں بازوؤں پر ملے۔

 لیکن اس کی اسناد میں محمد بن ثابت عبدی ضعیف ہیں انہیں بعض حافظان حدیث نے ضعیف کہا ہے، اور یہی حدیث بعض ثقہ راویوں نے بھی روایت کی ہے لیکن وہ مرفوع نہیں کرتے بلکہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فعل بتاتے ہیں

 امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کی دلیل یہ حدیث بھی ہے :

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیشاب کر رہے ہیں میں نے آپ کو سلام کیا لیکن آپ نے جواب نہ دیا فارغ ہو کر آپ ایک دیوار کے پاس گئے اور اپنے دونوں ہاتھ اس پر مار کر منہ پر ملے پھر دیوار دونوں ہاتھ پر مار کر دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک ملا اور پھر میرے سلام کا جواب دیا  (ابن جریر)

یہ تو تھا امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کا جدید مذہب۔ آپ کا خیال یہ ہے کہ ضربیں تو تیمم میں دو ہیں لیکن دوسری ضرب میں ہاتھوں کو پہنچوں تک ملنا چاہیے،

تیسرا قول یہ ہے کہ صرف ایک ہی ضرب یعنی ایک ہی مرتبہ دونوں ہاتھوں کا مٹی پر مار لینا کافی ہے پھر  ان گرد آلود ہاتھوں کو منہ پر پھیر لے اور دونوں پہنچوں تک

 مسند احمد میں ہے:

 ایک شخص امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق ؓ کے پاس آیا کہ میں جنبی ہو گیا اور مجھے پانی نہ ملا تو مجھے کیا کرنا چاہیے

 آپ نے فرمایا نماز نہ پڑھنی چاہیے

 دربار میں حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی موجود تھے فرمانے لگے امیر المؤمنین کیا آپ کو یاد نہیں کہ میں اور آپ ایک لشکر میں تھے اور ہم جنبی ہوگئے تھے اور ہمیں پانی نہ ملا تو آپ نے تو نماز نہ پڑھی اور میں نے مٹی میں لوٹ پوٹ کر نماز ادا کر لی جب ہم  واپس پلٹے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہنچے تو میں نے اس واقعہ کا بیان حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا مجھے اتنا کافی تھا پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھ زمین پر مارے اور ان میں پھونک ماردی اور اپنے منہ کو ملا اور ہتھیلیوں کو ملا۔

 مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

 تیمم میں ایک ہی مرتبہ ہاتھ مارنا جو چہرے کے لئے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کے لئے ہے،

 مسند احمد میں ہے :

حضرت شقیق رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس بیٹھا ہوا تھا حضرت ابو یعلیٰ رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ اگر کوئی شخص پانی نہ پائے تو نماز نہ پڑھے

 اس پر حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کیا تمہیں یاد نہیں عمارؓ نے عمرؓ سے کیا کہا تھا’ یہ کہا تھا کہ اے عمر!جبکہ مجھے اور آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اونٹوں کے باڑے میں بھیجا تھا وہاں میں جنبی ہو گیا اور مٹی میں لوٹ پوٹ لیا واپس آ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ واقعہ بیان کیا تو آپ ہنس دئیے اور فرمایا اپنے چہرے پر ایک بار ہاتھ پھیر لئے اور ضرب ایک ہی رہی،تو حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس پر قناعت نہیں کی

 یہ سن کر حضرت ابوموسیٰ نے فرمایا پھر تم اس آیت کا کیا کرو گے جو سورہ نساء میں ہے کہ پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی کا قصد کرو

 اس کا جواب حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہ دے سکے اور فرمانے لگے سنو ہم نے لوگوں کو تیمم کی رخصت دیدی تو بہت ممکن ہے کہ پانی جب انہیں ٹھنڈا معلوم ہوگا تو وہ تیمم کرنے لگیں گے

سورۃ مائدہ میں فرمان ہے:

فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ (۵:۶)

اسے اپنے چہرے اور ہاتھ پر ملو۔

 اس سے حضرت امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے دلیل پکڑی ہے کہ تیمم کا پاک مٹی سے ہونا اور اس کا بھی غبار آلود ہونا جس سے ہاتھوں پر غبار لگے اور وہ منہ اور ہاتھ پر ملا جائے ضروری ہے جیسے کہ حضرت ابو جہم ؓ والی حدیث میں گزرا ہے۔ کہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو استنجا کرتے ہوئے دیکھا اور سلام کیا اس میں یہ بھی ہے کہ فارغ ہو کر ایک دیوار کے پاس گئے اور اپنی لکڑی سے کھرچ کر پھر ہاتھ مار کر تیمم کیا۔

پھر فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر تمہارے دین میں تنگی اور سختی کرنا نہیں چاہتا بلکہ وہ تمہیں پاک صاف کرنا چاہتا ہے اسی لئے پانی نہ پانے کے وقت مٹی کے ساتھ تیمم کر لینے کو مباح قرار دے کر تم پر اپنی نعمت کا اتمام فرمایا تاکہ تم شکر کرو۔

پس یہ اُمت اس نعمت کے ساتھ مخصوص ہے جیسے کہ بخاری و مسلم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

 مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں،

- مہینے بھر کی راہ تک میری مدد رعب سے کی گئی ہے ،

-  میرے لئے ساری زمین مسجد اور پاک کرنے والی بنائی گئی ہے میرے جس اُمتی کو جہاں نماز کا وقت آ جائے وہ وہیں پڑھ لے اس کی مسجد اور اس کا وضو وہیں اس کے پاس موجود ہے،

-  میرے لئے غنیمت کے مال حلال کیے گئے جو مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال نہ تھے،

-  مجھے شفاعت دی گئی

- تمام انبیاء صرف اپنی قوم کی طرف بھیجے جاتے رہے لیکن میں تمام دنیا کی طرف بھیجا گیا

 اور صحیح مسلم کے حوالے سے وہ حدیث بھی پہلے گزر چکی ہے کہ تمام لوگوں پر ہمیں تین فضیلتیں عنایت کی گئی ہماری صفیں فرشتوں کی صفوں کی طرح بنائی گئیں ہمارے لئے ساری زمین مسجد بنائی گئی اور اسکی مٹی وضو بنائی گئی جب کہ ہمیں پانی نہ ملے۔

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ بزرگ و برتر حکم دیتا ہے کہ اپنے چہرے اور اپنے ہاتھ پر مسح کرلو پانی نہ ملنے کے وقت

 اللہ معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے اس کی عفو و در گزر شان ہے کہ اس نے تمہارے لئے پانی نہ ملنے کے وقت تیمم کو مشروع کر کے نماز ادا کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی اگر یہ رخصت نہ ہوتی تو تم ایک گونہ مشکل میں پڑ جاتے کیونکہ اس آیت کریمہ میں نمازکو ناقص حالت میں ادا کرنا منع کیا گیا ہےمثلاً نشے کی حالات میں ہو یا جنابت کی حالت میں ہو یا بےوضو ہو تو جب تک اپنی باتیں خود سمجھنے جتنا ہوش اور باقاعدہ غسل اور شرعی طریق پر وضو نہ ہو نماز نہیں پڑھ سکتے لیکن بیماری کی حالت میں اور پانی نہ ملنے کی صورت میں غسل اور وضو کے قائم مقام تیمم کر دیا، پس اللہ تعالیٰ اس احسان پر ہم اس کے شکر گزار ہیں الحمدا للہ ۔

تیمم کی رخصت نازل ہونے کا واقعہ بھی سن لیجئے ہم اس واقعہ کو سورۃ نساء کی اس آیت کی تفسیر میں اسی لئے بیان کرتے ہیں کہ سورۃ مائدہ میں جو تیمم کی آیت ہے وہ نازل ہوئی یہ اس کے بعد کی ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ واضح ہے کہ یہ آیت شراب کی حرمت سے پہلے نازل ہوئی تھی اور شراب جنگ احد کے کچھ عرصہ کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنو نصیر کے یہودیوں کا محاصرہ کئے ہوئے تھے حرام ہوئی اور سورۃ مائدہ قرآن میں نازل ہونے والی آخری سورتوں میں سے ہے بالخصوص اس سورت کا ابتدائی حصہ لہذا مناسب یہی ہے کہ تیمم کا شان نزول یہیں بیان کیا جائے۔ اللہ نیک توفیق دے اسی کا بھروسہ ہے۔

 مسند احمد میں ہے:

 حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ایک ہار واپس کر دینے کے وعدہ پر مستعار لیاتھاوہ سفر میں کہیں گم ہو گیا’ حضور اکرم ﷺ نے اسے ڈھونڈنے کے لئے آدمی بھیجے انہیں ہار مل گیا لیکن نماز کا وقت اس کی تلاش میں فوت ہو گیا اور ان کے ساتھ پانی نہ تھا ۔ انہوں نے بےوضو نماز ادا کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچ کر اس کی شکایت کی اس پر تیمم کا حکم نازل ہوا،

حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے لگے اے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ کو جزائے خیر دے اللہ کی قسم جو تکلیف آپ کو پہنچتی ہے اس کا انجام ہم مسلمانوں کے لئے خیر ہی خیر ہوتا ہے۔

بخاری میں ہے حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں :

ہم اپنے کسی سفر میں تھے بیداء میں یا ذات الجیش میں میرا ہار ٹوٹ کر کہیں گر پڑا جسکے ڈھونڈنے کے لئے حضور ﷺ معہ قافلہ ٹھہر گئے اب نہ تو ہمارے پاس پانی تھا نہ وہاں میدان میں کہیں پانی تھا لوگ میرے والد حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پاس میری شکایتیں کرنے لگے کہ دیکھو ہم انکی وجہ سے کیسی مصیبت میں پڑ گئے چنانچہ میرے والد صاحب میرے پاس آئے اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری ران پر اپنا سر مبارک رکھ کر سو گئے تھے آتے ہی مجھے کہنے لگے تو نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اور لوگوں کو روک دیا اب نہ تو انکے پاس پانی ہے نہ یہاں اور کہیں پانی نظر آتا ہے

 الغرض مجھے خوب ڈانٹا ڈپٹا اور اللہ جانے کیا کیا کہا اور میرے پہلو میں اپنے ہاتھ سے کچو کے بھی مارتے رہے لیکن میں نے ذرا سی بھی جنبش نہ کی کہ ایسا نہ ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آرام میں خلل واقع ہو ساری رات گزر گئی صبح کو لوگ جاگے لیکن پانی نہ تھا اللہ نے تیمم کی آیت نازل فرمائی اور سب نے تیمم کیا

حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہنے لگے اے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھرانے والو یہ کچھ تمہاری پہلی ہی برکت نہیں، اب جب ہم نے اس اونٹ کو اٹھایا جس پر یہ سوار تھی تو اس کے نیچے سے ہی ہار مل گیا ۔

مسند احمد میں ہے :

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی اہلیہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہمراہ ذات الجیش سے گزرے۔ اُم المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا یمنی خر مہروں کا ہار ٹوٹ کر کہیں گر پڑا تھا اور گم ہو گیا تھا اس کی تلاش میں یہاں ٹھہر گئے ساری رات آپ کے ہم سفر مسلمانوں نے اور آپ نے یہیں گزاری صبح اٹھے تو پانی بالکل نہیں تھا پس اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر پاک مٹی سے تیمم کرکے پاکی حاصل کرنے کی رخصت کی آیت اتاریاور مسلمانوں نے حضور کے ساتھ کھڑے ہوکر زمین پر اپنے ہاتھ مارے اور جو مٹی ان سے لت پت ہوئی اسے جھاڑے بغیر اپنے چہرے پر اور اپنے ہاتھوں پر مونڈھوں تک اور ہاتھوں کے نیچے سے بغل تک مل لی۔

 ابن جریر کی روایت میں ہے:

 اس سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر سخت غصہ ہو کر گئے تھے لیکن تیمم کی رخصت کے حکم کو سن کر خوشی خوشی اپنی صاحبزادی صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آئے اور کہنے لگے تم بڑی مبارک ہو مسلمانوں کو اتنی بڑی رخصت ملی

پھر مسلمانوں نے زمین پر ایک ضرب سے چہرے ملے اور دوسری ضرب سے کہنیوں اور بغلوں تک ہاتھ لے گئے

میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اسے نہیں چلا رہا تھا بلکہ فلاں انصاری صاحب چلا رہے تھے  ابن مردویہ میں روایت ہے حضرت اسلع بن شریک رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اونٹنی کو چلا رہا تھا۔ جس پر حضور ﷺ سوار تھے جاڑوں کا موسم تھا رات کا وقت تھا سخت سردی پڑ رہی تھی اور میں جنبی ہو گیا ادھر حضور ﷺ نے کوچ کا ارادہ کیا تو میں نے اپنی اس حالت میں حضور ﷺ کی اونٹنی کو چلانا پسند نہ کیا ساتھ ہی یہ بھی خیال آیا کہ اگر سرد پانی سے نہاؤں گا تو مرجاؤں گا یا بیمار پڑ جاؤں گا تو میں نے چپکے سے ایک انصاری کو کہا کہ آپ اونٹنی کی نکیل تھام لیجئے چنانچہ وہ چلاتے رہے اور میں نے آگ سلگا کر پانی گرم کر کے غسل کیا پھر دوڑ بھاگ کر قافلہ میں پہنچ گیا آپ ﷺنے مجھے فرمایا اسلع کیا بات ہے؟اونٹنی کی چال کیسے بگڑی ہوئی ہے؟

آپ نے فرمایا یہ کیوں؟

 تو میں نے سارا واقعہ کہہ سنایا اس پر اللہ عزوجل نے آیت لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنتُمْ سُكَارَىٰ …(۴:۴۳)  نازل فرمائی

یہ روایت دوسری سند سے بھی مروی ہے۔

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ يَشْتَرُونَ الضَّلَالَةَ وَيُرِيدُونَ أَنْ تَضِلُّوا السَّبِيلَ (۴۴)

کیا تم نے نہیں دیکھا، جنہیں کتاب کا کچھ حصہ دیا گیا ہے، وہ گمراہی خریدتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی راہ سے بھٹک جاؤ۔‏

اللہ تبارک وتعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ یہودیوں کی ایک مذموم خصلت یہ بھی ہے کہ وہ گمراہی کو ہدایت پر ترجیح دیتے ہیں ، نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جو کتاب نازل ہوئی اس سے بھی روگردانی کرتے ہیں اور اللہ کا دیا ہوا جو علم ان کے پاس ہے اسے بھی پس پشت ڈال دیتے ہیں خود اپنی کتابوں میں نبی موعود کی بشارتیں پڑھتے ہیں لیکن اپنے مریدوں سے چڑھاوا لینے کے لالچ میں ظاہر نہیں کرتے بلکہ ساتھ ہی یہ چاہتے ہیں کہ خود مسلمان بھی راہ راست سے بھٹک جائیں اللہ کی کتاب کے مخالف ہو جائیں ہدایت کو اور سچے علم کو چھوڑ دیں،

وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِأَعْدَائِكُمْ ۚ وَكَفَى بِاللَّهِ وَلِيًّا وَكَفَى بِاللَّهِ نَصِيرًا (۴۵)

اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کو خوب جاننے والا ہے اور اللہ تعالیٰ کا دوست ہونا کافی ہے اور اللہ تعالیٰ کا مددگار ہونا بس ہے۔‏

اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں سے خوب با خبر ہے وہ تمہیں ان سے مطلع کر رہا ہے کہ کہیں تم ان کے دھوکے میں نہ آجاؤ۔ اللہ کی حمایت کافی ہے تم یقین رکھو کہ وہ اپنی طرف جھکنے والوں کی ضرور حمایت کرتا ہے وہ اس کا مددگار بن جاتا ہے۔

مِنَ الَّذِينَ هَادُوا يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ وَيَقُولُونَ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا

بعض یہود کلمات کو ان کی ٹھیک جگہ سے ہیر پھیر کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور نافرمانی کی

آیت لفظ مِنَ سے شروع ہوئی ہے اس میں مِنَ بیان جنس کے لئے ہے جیسے فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ (۲۲:۳۰) میں

پھر یہودیوں کے اس فرقے کی جس تحریف کا ذکر ہے اس سے مراد یہ ہے کہ وہ کلام اللہ کے مطلب کو بدل دیتے ہیں اور خلاف منشائے الہٰی تفسیر کرتے ہیں اور ان کا یہ فعل جان بوجھ کر ہوتا ہے قصداً افترا پردازی کے مرتکب ہوتے ہیں ،

وَاسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَعٍ وَرَاعِنَا لَيًّا بِأَلْسِنَتِهِمْ وَطَعْنًا فِي الدِّينِ ۚ

اور سن اس کے بغیر کہ تو سنا جائے اور ہماری رعایت کر (لیکن اس کہنے میں) اپنی زبان کو پیچ دیتے ہیں اور دین میں طعنہ دیتے ہیں

پھر کہتے ہیں کہ اے پیغمبر جو آپ نے کہا ہم نے سنا لیکن ہم ماننے کے نہیں خیال کیجئے ان کے کفر و الحاد کو دیکھئے کہ جان کر سن کر سمجھ کر کھلے لفظوں میں اپنے ناپاک خیال کا اظہار کرتے ہیں اور کہتے ہیں آپ سنئے اللہ کرے آپ نہ سنیں۔

 یا یہ مطلب کہ آپ سنئے آپ کی نہ سنی جائے

لیکن پہلا مطلب زیادہ اچھا ہےیہ کہنا ان کا بطور تمسخر اور مذاق کے تھا اور اللہ انہیں لعنت کرے

 علاوہ ازیں رَاعِنَا کہتے جس سے بظاہر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ لوگ کہتے ہیں ہماری طرف کان لگائے لیکن وہ اس لفظ سے مراد یہ لیتے تھے کہ تم بڑی رعونت والے ہو۔ اس کا پورا مطلب آیت يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَقُولُواْ رَاعِنَا وَقُولُواْ انظُرْنَا (۲:۱۰۴)  کی تفسیر میں گزر چکا ہے ،

مقصد یہ ہے کہ جو ظاہر کرتے تھے اس کے خلاف اپنی زبانوں کو موڑ کر طعن آمیز لہجہ میں کہتے اور حقیقی مفہوم میں اپنے دل میں مخفی رکھتے تھے دراصل یہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے ادبی اور گستاخی کرتے تھے

وَلَوْ أَنَّهُمْ قَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَاسْمَعْ وَانْظُرْنَا لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ وَأَقْوَمَ

اور اگر یہ لوگ کہتے کہ ہم نے سنا اور ہم نے فرمانبرداری کی آپ سنئے ہمیں دیکھئے تو یہ ان کے لئے بہت بہتر اور نہایت ہی مناسب تھا،

پس انہیں ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ان دو معنی والے الفاظ کا استعمال چھوڑ دیں اور صاف صاف کہیں کہ ہم نے سنا، مانا،آپ ہماری عرض سنئے! آپ ہماری طرف دیکھئے! یہ کہنا ہی ان کے لئے بہتر ہے اور یہی صاف سیدھی سچی اور مناسب بات ہے لیکن ان کے دل بھلائی سے دور ڈال دیئے گئے ہیں ایمان کامل طور سے ان کے دلوں میں جگہ ہی نہیں پاتا،

وَلَكِنْ لَعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُونَ إِلَّا قَلِيلًا (۴۶)

لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر سے انہیں لعنت کی ہے پس یہ بہت ہی کم ایمان لاتے ہیں۔

 اس جملے کی تفسیر بھی پہلے گزر چکی ہے مطلب یہ ہے کہ نفع دینے والا ایمان ان میں نہیں۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ آمِنُوا بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقًا لِمَا مَعَكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَطْمِسَ وُجُوهًا فَنَرُدَّهَا عَلَى أَدْبَارِهَا

اے اہل کتاب جو کچھ ہم نے نازل فرمایا جو اس کی تصدیق کرنے والا ہے جو تمہارے پاس ہے اس پر ایمان لاؤ اس سے پہلے کہ ہم چہرے بگاڑ دیں اور انہیں الٹا کر پیٹھ کی طرف کر دیں

اللہ عزوجل یہود و نصاریٰ کو حکم دیتا ہے کہ میں نے اپنی زبردست کتاب اپنے بہترین نبی کے ساتھ نازل فرمائی ہے جس میں خود تمہاری اپنی کتاب کی تصدیق بھی ہے اس پر ایمان لاؤ اس سے پہلے کہ ہم تمہاری صورتیں مسخ کر دیں یعنی منہ بگاڑ کر دیں آنکھیں بجائے ادھر کے ادھر ہو جائیں ،

 یا یہ مطلب کہ تمہارے چہرے مٹادیں آنکھیں کان ناک سب مٹ جائیں پھر یہ مسخ چہرہ بھی الٹا ہو جائے۔

یہ عذاب ان کے بد اعمال کا بدلہ ہے یہی وجہ ہے کہ یہ حق سے ہٹ کر باطل کی طرف ہدایت سے پھر کر ضلالت کی جانب بڑھے چلے جا رہے ہیں بایں ہمہ اللہ تعالیٰ انہیں احساس دلا رہے ہیں کہ اب بھی باز آ جاؤ اور اپنے سے پہلے ایسی حرکت کرنے والوں کی صورتوں کے مسخ ہونے کو یاد کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی طرح تمہارا منہ الٹ دوں گا تاکہ تمہیں پچھلے پیروں چلنا پڑے تمہاری آنکھیں گدی کی طرف کردوں اور اسی جیسی تفسیر بعض نےان  آیات میں بھی کی ہے:

إِنَّا جَعَلْنَا فِى أَعْنـقِهِمْ أَغْلَـلاً فَهِىَ إِلَى الاٌّذْقَـنِ فَهُم مُّقْمَحُونَ ـ وَجَعَلْنَا مِن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدّاً (۳۶:۸،۹)

ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال دیئے ہیں پھر وہ ٹھوڑیوں تک ہیں، جس سے انکے سر اوپر الٹ گئے ہیں  اور ہم نے ایک آڑ ان کے سامنے کر دی اور ایک آڑ ان کے پیچھے کر دی

 غرض یہ ان کی گمراہی اور ہدایت سے دور پڑ جانے کی بری مثال بیان ہوئی ہے ،

حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ مطلب یہ ہے کہ ہم تمہیں سچ مچ حق کے راستے سے ہٹا دیں اور گمراہی کی طرف متوجہ کر دیں ، ہم تمہیں کافر بنا دیں اور تمہارے چہرے بندروں جیسے کر دیں،

 ابو زید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ لوٹا دینا یہ تھا کہ ارض حجاز سے بلاد شام میں پہنچا دیا۔

یہ بھی مذکور ہے کہ اسی آیت کو سن کر حضرت کعب احبار رضی اللہ تعالیٰ عنہ مشرف بااسلام ہوئے تھے۔

ابن جریر میں ہے:

حضرت ابراہیم رحمتہ اللہ علیہ کے سامنے حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلام کا تذکرہ ہوا تو آپ نے فرمایا حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں مسلمان ہوئے یہ بیت المقدس جاتے ہوئے مدینہ میں آئے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے پاس گئے اور فرمایا اے کعب مسلمان ہو جاؤ

انہوں نے جواب دیا تم تو قرآن میں پڑھ چکے ہو کہ جنہیں توراۃ کا حامل بنایا گیا انہوں نے اسے کما حقہ قبول نہ کیا۔ ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جو بوجھ لادے ہوئے ہو اور یہ بھی تم جانتے ہو کہ میں بھی ان لوگوں میں سے ہوں جو توراۃ اٹھوائے گئے اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے چھوڑ دیا

یہ یہاں سے چل کر حمص پہنچے وہاں سنا کہ ایک شخص جو ان کے گھرانے میں سے تھا اس آیت کی تلاوت کر رہا ہے جب اس نے آیت ختم کی انہیں ڈر لگنے لگا کہ کہیں سچ مچ اس آیت کی وعید مجھ پر صادق نہ آ جائے اور میرا منہ مسخ کر پلٹ نہ جائے یہ جھٹ سے کہنے لگے یارب اسلمت میرے اللہ میں ایمان لایا۔ پھر حمص سے ہی واپس اپنے وطن یمن میں آئے اور یہاں سے اپنے تمام گھر والوں کو لے کر سارے کنبے سمیت مسلمان ہوگئے،

ابن ابی حاتم میں حضرت کعب رضی اللہ عنہ کے اسلام کا واقعہ اس طرح مروی ہے:

 ان کے استاد ابو مسلم جلیلی ان کے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے میں دیر لگانے کی وجہ سے ہر وقت انہیں ملامت کرتے رہتے تھے پھر انہیں بھیجا کہ دیکھیں کہ آپ وہی پیغمبر ہیں جن کی خوشخبری اور اوصاف توراۃ میں ہیں؟

 یہ آئے تو فرماتے ہیں جب میں مدینہ شریف پہنچا تو ایک شخص قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت کر رہا تھا کہ اے اہل کتاب ہماری نازل کردہ کتاب تمہارے پاس موجود کتاب کی تصدیق کرتی ہے بہتر ہے کہ اس پر اس سے پہلے ایمان لاؤ کہ ہم تمہارے منہ بگاڑ دیں اور انہیں الٹا کردیں۔ میں چونک اٹھا اور جلدی جلدی غسل کرنے بیٹھ گیا اور اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتا جاتا تھا کہ کہیں مجھے ایمان لانے میں دیر نہ لگ جائے اور میرا چہرہ الٹا نہ ہو جائے ۔ پھر میں بہت جلد آ کر مسلمان ہو گیا،

أَوْ نَلْعَنَهُمْ كَمَا لَعَنَّا أَصْحَابَ السَّبْتِ ۚ

یا ان پر لعنت بھجیں جیسے ہم نے ہفتے کے دن والوں پر لعنت کی

اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں یا ہم ان پر لعنت کریں جیسے کہ ہفتہ والوں پر ہم نے لعنت نازل کی یعنی جن لوگوں نے ہفتہ والے دن حیلے کے لئے شکار کھیلا حالانکہ انہیں اس کام سے منع کیا گیا تھا ج کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بندر اور سور بنا دئیے گئے

 ان کا مفصل واقعہ سورۃ اعراف میں آئے گا انشا اللہ تعالیٰ

وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًا (۴۷)

اور ہے اللہ تعالیٰ کا کام کیا گیا۔

ارشاد ہوتا ہے الہٰی کام پورے ہو کر ہی رہتے ہیں وہ جب کوئی حکم کر دے تو کوئی نہیں جو اس کی مخالفت یا ممانعت کر سکے۔

إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ ۚ

یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سواء جسے چاہے بخش دیتا ہے

پھر خبر دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شرک کئے جانے کے گناہ کو نہیں بخشتا ، یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرے کہ وہ مشرک ہو اس پر بخشش کے دروازے بند ہیں۔ اس جرم کے سوا اور گناہوں کو خواہ وہ کیسے ہی ہوں جس کے چاہے بخش دیتا ہے۔اس آیت کریمہ کے متعلق بہت سی حدیثیں ہیں ہم یہاں بقدر آسانی ذکر کرتے ہیں ۔

پہلی حدیث بحوالہ مسند احمد:

اللہ تعالیٰ کے نزدیک گناہوں کے تین دیوان ہیں،

-  ایک تو وہ جس کی اللہ تعالیٰ کچھ پرواہ نہیں کرتا

- دوسرا وہ جس میں اللہ تعالیٰ کچھ نہیں چھوڑتا۔

-  تیسرا وہ جسے اللہ تعالیٰ ہرگز نہیں بخشتا۔

پس جسے وہ بخشتا نہیں وہ شرک ہے

 اللہ عزوجل خود فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو معاف نہیں فرماتا اور جگہ ارشاد ہے جو شخص اللہ کے ساتھ شریک کر لے، اللہ اس پر جنت کو حرام کر دیتا ہے۔

 اور جس دیوان میں اللہ کے ہاں کوئی وقعت نہیں وہ بندے کا اپنی جان پر ظلم کرنا ہے اور جس کا تعلق اس سے اور اللہ کی ذات سے ہے مثلاً کسی دن کا روزہ جسے اس نے چھوڑ دیا یا نماز چھوڑ دی تو اللہ تعالیٰ اسے بخش دے گا

 اور جس دیوان (اعمالنامہ) میں سے موجود کسی فرد کو اللہ نہیں چھوڑتا وہ بندوں کے آپس میں مظالم ہیں جن کا بدلہ اور قصاص ضروری ہے۔

 دوسری حدیث بحوالہ مسند بزار۔

 الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ مطلب وہی ہے۔

تیسری حدیث بحوالہ مسند احمد ۔

ممکن ہے اللہ تعالیٰ ہر گناہ کو بخش دے مگر وہ جو کفر کی حالت میں مرا دوسرا وہ جس نے ایمان دار کو جان بوجھ کر قتل کیا۔

چوتھی حدیث بحوالہ مسند احمد۔

 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

 اے میرے بندے تو جب تک میری عبادت کرتا رہے گا اور مجھ سے نیک امید رکھے گا میں بھی تیری جتنی خطائیں ہیں انہیں معاف فرماتا رہوں گا میرے بندے اگر تو ساری زمین بھر کی خطائیں بھی لے کر میرے پاس آئے گا تو میں بھی زمین کی وسعتوں جتنی مغفرت کے ساتھ تجھ سے ملوں گا بشرطیکہ تو نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو۔

پانچویں حدیث بحوالہ مسند احمد۔

آپ ﷺنے فرمایا :

جو بندہ لا الہ الا اللہ کہے پھر اسی پر اس کا انتقال ہو وہ ضرور جنت میں جائے گا

یہ سن کر حضرت ابو ذررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دریافت کیا کہ اگر اس نے زنا اور چوری بھی کیا ہو

 آپ ﷺنے فرمایا گو اس نے زناکاری اور چوری بھی کی ہو

تین مرتبہ یہی سوال جواب ہوا۔ چوتھے سوال پر آپ نے فرمایا چاہے ابوذر کی ناک خاک آلود ہو پس حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں سے اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے یہ فرماتے ہوئے نکلے کہ چاہے ابوذر کی ناک خاک آلود ہو

 اور اس کے بعد جب کبھی آپ یہ حدیث بیان فرماتے یہ جملہ ضروری کہتے ۔

یہ حدیث دوسری سند سے قدرے زیادتی کے ساتھ بھی مروی ہے ،

 اس میں ہے حضرت ابو ذر ؓ فرماتے ہیں میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مدینہ کے میدان میں چلا جا رہا تھا احد کی طرف ہماری نگاہیں تھیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوذر میں کہا لبیک یارسول اللہ

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسنو میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو تو میں نہ چاہوں گا کہ تیسری شام کو اس میں سے کچھ بھی باقی رہ جائے بجز اس دینار کے جسے میں قرضہ چکا نے کے لئے رکھ لوں باقی تمام مال میں اس طرح راہ للہ اس کے بندوں کو دے ڈالوں اور آپ نے دائیں بائیں اور سامنے لپیں پھینکیں۔

پھر کچھ دیر ہم چلتے رہے پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے پکارا اور فرمایا

جن کے پاس یہاں زیادتی ہے وہی وہاں کمی والے ہوں گے مگر جو اس طرح اور اس طرح کرے یعنی آپ نے اپنے دائیں سامنے اور بائیں لپیں (ہتھیلیاں) بھر کر دیتے ہوئے اس عمل کی وضاحت کی،

پھر کچھ دیر چلنے کے بعد فرمایا ابوذر میں ابھی آتا ہوں تم یہیں ٹھہرو آپ تشریف لے گئے اور میری نگاہوں سے اوجھل ہوگئے اور مجھے آوازیں سنائی دینے لگیں دل بےچین ہو گیا کہ کہیں تنہائی میں کوئی دشمن آ گیا ہو میں نے قصد کیا کہ وہاں پہنچوں لیکن ساتھ ہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان یاد آ گیا کہ میں جب تک نہ آؤں تم یہیں ٹھہرے رہنا

 چنانچہ میں ٹھہرا رہا یہاں تک کہ آپ تشریف لے آئے تو میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ آوازیں کیسی آ رہی تھیں

آپ ﷺنے فرمایا میرے پاس حضرت جبرائیل آئے تھے اور فرما رہے تھے کہ آپ کی اُمت میں سے وفات پانے والا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے تو وہ جنت میں جائے گا

میں نے کہا گو زنا اور چوری بھی اس سے سرزد ہوئی ہو

تو فرمایا ہاں گو زنا اور چوری بھی ہوئی ہو،

یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے:

 حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رات کے وقت نکلا دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تنہا تشریف لے جا رہے ہیں تو مجھے خیال ہوا کہ شاید اس وقت آپ کسی کو ساتھ لے جانا نہیں چاہتے تو میں چاند کی چاندنی میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے ہو لیا آپ نے جب مڑ کر مجھے دیکھا تو پوچھا کون ہے میں نے کہا ابوذر اللہ مجھے آپ پر سے قربان کر دے تو آپ نے فرمایا آؤ میرے ساتھ چلو تھوڑی دیر ہم چلتے رہے

پھر آپ نے فرمایا زیادتی والے ہی قیامت کے دن کمی والے ہوں گے مگر وہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے مال دیا پھر وہ دائیں بائیں آگے پیچھے نیک کاموں میں خرچ کرتے رہے

 پھر کچھ دیر چلنے کے بعد آپ نے مجھے ایک جگہ بٹھا کر جس کے ارد گرد پتھر تھے فرمایا میری واپس تک یہیں بیٹھے رہو پھر آپ آگے نکل گئے یہاں تک کہ میری نظر سے پوشیدہ ہوگئے آپ کو زیادہ دیر لگ گئی پھر میں نے دیکھا کہ آپ تشریف لا رہے ہیں اور زبان مبارک سے فرماتے آ رہے ہیں گو زنا کیا ہو یا چوری کی ہو جب میرے پاس پہنچے تو میں رک نہ سکا پوچھا کہ اے نبی اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ مجھے آپ پر قربان کرے اس میدان کے کنارے آپ کس سے باتیں کر رہے تھے میں نے سنا کوئی آپ کو جواب بھی دے رہا تھا

آپ نے فرمایا وہ جبرائیلؑ تھے یہاں میرے پاس آئے اور فرمایا اپنی اُمت کو خوش خبری سنا دو کہ جو میرے اور اللہ کے ساتھ اس نے کسی کو شریک نہ کیا وہ جنتی ہو گا میں نے کہا اے جبرائیل گو اس نے چوری کی ہو اور زنا کیا ہو

 فرمایا ہاں میں نے پھر یہی سوال کیا سوال کیا جواب دیا ہاں میں نے پھر یہی فرمایا ہاں اور اگرچہ اس نے شراب پی ہو۔

 چھٹی حدیث بحوالہ مسند عبد بن حمید

 ایک شخص حضور ﷺکے پاس آیا، اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنت واجب کر دینے والی چیزیں کیا ہیں؟

آپ ﷺنے فرمایا جو شخص بغیر شرک کئے مرا اس کے لئے جنت واجب ہے اور جو شرک کرتے ہوئے مرا اس کے لئے جہنم واجب ہے ،

یہی حدیث اور طریق سے مروی ہے جس میں ہے:

 جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہ کرتا ہوا مرا اس کے لئے بخشش حلال ہے اگر اللہ چاہے اسے عذاب کرے اگر چاہے بخش دے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنے والے کو نہیں بخشتا اس کے سوا جسے چاہے بخش دے (ابن ابی حاتم)

اور سند سے مروی ہے :

 آپﷺ نے فرمایا بندے پر مغفرت ہمیشہ رہتی ہے جب تک کہ پردے نہ پڑ جائیں

 دریافت کیا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پردے پڑ جانا کیا ہے؟

فرمایا شرک، جو شخص شرک نہ کرتا ہو اور اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے اس کے لئے بخشش الہٰی حلال ہو گئی اگر چاہیے عذاب کرے اگر چاہے بخش دے پھر آپﷺ نے آیت إِنَّ اللّهَ لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ  لِمَن يَشَاء تلاوت فرمائی (مسند ابو یعلیٰ)

ساتویں حدیث بحوالہ مسند احمد۔

جو شخص مرے اللہ کے ساتھ شریک نہ کرتا ہو وہ جنت میں داخل ہو گا

آٹھویں حدیث بحوالہ مسند احمد۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مرتبہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور فرمایا تمہارے رب عزوجل نے مجھے اختیار دیا کہ میری اُمت میں سے ستر ہزار کا بےحساب جنت میں جانا پسند کروں یا اللہ تعالیٰ کے پاس جو چیز میرے لئے میری اُمت کی بابت پوشیدہ محفوظ ہے اسے قبول کرلوں ،

تو بعض صحابہ نے کہا کیا اللہ تعالیٰ آپ کے لئے یہ محفوظ چیز بچا کر بھی رکھے گا؟

 آپ یہ سن کر اندر تشریف لے گئے پھر تکبیر پڑھتے ہوئے باہر آئے اور فرمانے لگے میرے رب نے مجھے ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار کو جنت عطا کرنا مزید عطا فرمایا اور وہ پوشیدہ حصہ بھی ،

حضرت ابو ایوب انصاری ؓ جب یہ حدیث بیان فرما چکے تو حضرت ابورہم نے سوال کیا کہ وہ پوشیدہ محفوظ کیا ہے؟اس پر لوگوں نے انہیں کچھ کچھ کہنا شروع کر دیا کہ کہاں تم اور کہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے اختیار کردہ چیز؟

حضرت ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا سنو جہاں تک ہمارا گمان ہے جو گمان یقین کے قریب ہے یہ ہے کہ وہ چیز جنت میں جانا ہے ہر اس شخص کا جو سچے دل سے گواہی دے کہ اللہ ایک ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔

نویں حدیث بحوالہ ابن ابی حاتم

ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرا بھتیجا حرام سے باز نہیں آتا آپ ﷺنے فرمایا اس کی دینداری کیسی ہے ،

 کہا نمازی ہے اور توحید والا ہے

 آپ ﷺنے فرمایا جاؤ اور اس سے اس کا دین بطور ہبہ کے طلب کرو اگر انکار کرے تو اس سے خرید لو ،

 اس نے جا کر اس سے طلب کیا تو اس نے انکار کر دیا

 اس نے آ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خبر دی تو آپ نے فرمایا میں نے اسے اپنے دین پر چمٹا ہوا پایا اس پرآیت إِنَّ اللَّهَ لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَآءُنازل ہوئی۔

 دسویں حدیث بحوالہ حافظ یعلیٰ

ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کوئی حاجت یا حاجت والا نہیں چھوڑا یعنی زندگی میں سب کچھ کر چکاآپ ﷺنے فرمایا کیا تو یہ گواہی نہیں دیتا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں،

تین مرتبہ اس نے کہا ہاں

 آپﷺ نے فرمایا یہ ان سب پر غالب آ جائے گا۔

 گیارہویں حدیث بحوالہ مسند احمد ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ضخم بن جوش یمامی رحمتہ اللہ علیہ سے کہا کہ اے یمامی کسی شخص سے ہرگز یہ نہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ تجھے نہیں بخشے گا یا تجھے جنت میں داخل نہ کرے گا، یمامی رحمتہ اللہ علیہ نے کہا حضرت یہ بات تو ہم لوگ اپنے بھائیوں اور دوستوں سے بھی غصے غصے میں کہہ جاتے ہیں آپ نے فرمایا خبردار ہرگز نہ کہنا سنو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے آپ ﷺنے فرمایا

بنی اسرائیل میں دو شخص تھے ایک تو عبادت میں بہت چست چالاک اور دوسرا اپنی جان پر زیادتی کرنے والا اور دونوں میں دوستانہ اور بھائی چارہ تھا عابد بسا اوقات اس دوسرے کو کسی نہ کسی گناہ میں دیکھتا رہتا تھا اے شخص باز رہ جواب دیتا تو مجھے میرے رب پر چھوڑ دے کیا تو مجھ پر نگہبان بنا کر بھیجا گیا ہے ؟

 ایک مرتبہ عابد نے دیکھا کہ وہ پھر کسی گناہ کے کام کو کر رہا ہے جو گناہ اسے بہت بڑا معلوم ہوا تو کہا افسوس تجھ پر باز آ اس نے وہی جواب دیا تو عابد نے کہا اللہ کی قسم اللہ تجھے ہرگز نہ بخشے گا یا جنت نے دے گا

 اللہ تعالیٰ نے ان کے پاس فرشتہ بھیجا جس نے ان کی روحیں قبض کرلیں

 جب دونوں اللہ تعالیٰ کے ہاں جمع ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اس گنہگار سے فرمایا جا اور میری رحمت کی بنا پر جنت میں داخل ہو جا

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بیان فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں ابو القاسم کی جان ہے اس نے ایک کلمہ زبان سے ایسا نکال دیا جس نے اس کی دنیا اور آخرت برباد کر دی۔

 بارہویں حدیث بحوالہ طبرانی

جس نے اس بات کا یقین کر لیا کہ میں گناہوں کی بخشش پر قادر ہوں تو میں اسے بخش ہی دیتا ہوں اور کوئی پرواہ نہیں کرتا جب تک کہ وہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتے۔

تیر ہویں حدیث بحوالہ بزار، ابو یعلیٰ

جس عمل پر اللہ تعالیٰ نے ثواب کا وعدہ کیا ہے اسے تو مالک ضرور پورا فرمائے گا اور جس پر سزا کا فرمایا ہے وہ اس کے اختیار میں ہے چاہے بخش دے یا سزا دے

 حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا قاتل کے بارے میں اور یتیم کا مال کھا جانے والے کے بارے میں اور پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے والے کے بارے میں اور جھوٹی گواہی دینے والے کے بارے میں کوئی شک و شبہ ہی نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ آیت إِنَّ اللَّهَ لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَآءُ اتری اور اصحاب رسول گمراہی سے رک گئے (ابن ابی حاتم)

ابن جریر کی یہ روایت اس طرح پر ہے:

 جن گناہوں پر جہنم کا ذکر کتاب اللہ میں ہے اسے کرنے والے کے جہنمی ہونے میں ہمیں کوئی شک ہی نہیں تھا یہاں تک کہ ہم پر یہ آیت اتری جب ہم نے اسے سنا تو ہم شہادت کے لئے رک گئے اور تمام امور اللہ تعالیٰ کی طرف سونپ دئیے۔

 بزار میں آپ ہی کی ایک روایت ہے:

 کبیرہ گناہ کرنے والوں کے لئے استغفار کرنے سے ہم رکے ہوئے تھے یہاں تک کہ ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ آیت سنی اور آپ ﷺنے یہ بھی فرمایا کہ میں نے اپنی شفاعت کو اپنی اُمت میں سے کبیرہ گناہ کرنے والوں کے لئے مؤخر کر رکھا ہے

 ابو جعفر رازی کی روایت میں آپ ﷺکا یہ فرمان ہے :

جب يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ (۳۹:۵۳) نازل ہوئی یعنی اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے تم میری رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ تو ایک شخص نے کھڑے ہو کر پوچھا حضور شرک کرنے والا بھی ؟ آپ ﷺکو اس کا یہ سوال ناپسند آیا پھر آپ نے إِنَّ اللَّهَ لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ پڑھ کر سنائی ۔

سورۃ زمر کی یہ آیت مشروط ہے توبہ کے ساتھ پس جو شخص جس گناہ سے توبہ کرے اللہ اس کی طرف رجوع کرتا ہے گو بار بار کرے پس مایوس نہ ہونے کی آیت میں توبہ کی شرط ضرور ہے۔ ورنہ اس میں شرک بھی آ جائے گا اور پھر مطلب صحیح نہ ہو گا کیونکہ اس آیت میں وضاحت کے ساتھ یہاں موجود ہے کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے کی بخشش نہیں ہے، ہاں اس کے سوا جسے چاہے یعنی اگر اس نے توبہ بھی نہ کی ہو اس مطلب کے ساتھ اس آیت میں جو امید دلانے والی ہے اور زیادہ امید کی آس پیدا ہو جاتی ہے واللہ اعلم۔

وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرَى إِثْمًا عَظِيمًا (۴۸)

اور جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک مقرر کرے اس نے بہت بڑا گناہ اور بہتان باندھا۔

پھر فرماتا ہے اللہ کے ساتھ جو شرک کرے اس نے بڑے گناہ کا افترا باندھا، جیسے اور آیت میں ہے:

إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ (۳۱:۱۹)

شرک ظلم عظیم ہے

بخاری مسلم میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے فرماتے ہیں :

میں نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ سب سے بڑا گناہ کیا ہے

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں تمہیں سب سے بڑا کبیرہ گناہ بتاتا ہوں وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک کرنا ہے پھر آپ نے اسی آیت کا یہ آخری حصہ تلاوت فرمایا

پھر ماں باپ کی نافرمانی کرنا پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی کہ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ (۳۱:۱۴) میرا شکر کر اور اپنے ماں باپ کا شکریہ کر میری طرف لوٹنا ہے۔

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يُزَكُّونَ أَنْفُسَهُمْ ۚ

کیا آپ نے انہیں نہیں دیکھا جو اپنی پاکیزگی اور ستائش خود کرتے ہیں،

یہودونصاری کا قول تھا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی اولاد اور اسکے چہیتے ہیں اور کہتے تھے کہ جنت میں صرف یہود جائیں گے یا نصرانی

نَحْنُ أَبْنَاء اللّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ (۵:۱۸)

ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے دوست ہیں

لَن يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلاَّ مَن كَانَ هُوداً أَوْ نَصَارَى (۲:۱۱۱)

کہتے ہیں کہ جنت میں یہود و نصاریٰ کے سوا اور کوئی نہ جائے گا،

 ان کے اس قول کی تردید میں یہ آیت  أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ …نازل ہوئی اور یہ قول حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ کے خیال کے مطابق اس آیت کا شان نزول ہی ہے کہ یہ لوگ اپنے بچوں کو امام بناتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ بےگناہ ہے،

یہ بھی مروی ہے کہ ان کا خیال تھا کہ ہمارے جو بچے فوت ہوگئے ہیں وہ ہمارے لئے قربت اللہ کا ذریعہ ہیں ہمارے سفارشی ہیں اور ہمیں وہ بچالیں گے پس یہ آیت اتری۔

حضرت ابن عباسؓ یہودیوں کا اپنے بچوں کا آگے کرنے کا واقعہ بیان کر کے فرماتے ہیں وہ جھوٹے ہیں اللہ تعالیٰ کسی گنہگار کو بےگناہ کی وجہ سے چھوڑ نہیں دیتا، یہ کہتے تھے کہ جیسے ہمارے بچے بےخطا ہیں ایسے ہیں ہم بھی بےگناہ ہیں

 اور کہا گیا ہے کہ یہ آیت دوسروں کو بڑھی چڑھی مدح و ثنا بیان کرنے کے رد میں اتری ہے،

 صحیح مسلم شریف میں ہے:

ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم مدح کرنے والوں کے منہ مٹی سے بھر دیں ،

بخاری و مسلم میں ہے:

 آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ ایک شخص کو دوسرے کی مدح و ستائش کرتے ہوئے سن کر فرمایا افسوس تو نے اپنے ساتھی کی گردن توڑ دی

 پھر فرمایا اگر تم میں سے کسی کو ایسی ہی ضرورت کی وجہ سے کسی کی تعریف کرنی بھی ہو تو یوں کہے کہ فلاں شخص کے بارے میں میری رائے یہ ہےاللہ کے نزدیک پسندیدہ عمل یہی ہے کہ کسی کی منہ پر تعریف نہ کی جائے۔

 مسند احمد میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ جو کہے میں مؤمن ہوں وہ کافر ہے اور جو کہے کہ میں عالم ہوں وہ جاہل ہے اور جو کہے میں جنتی ہوں جہنمی ہے،

 ابن مردویہ میں آپ کے فرمان میں یہ بھی مروی ہے کہ مجھے تم پر سب سے زیادہ خوف اس بات کا ہے کہ کوئی شخص خود پسندی کرنے لگے اور اپنی سمجھ پر آپ فخر کرنے بیٹھ جائے،

مسند احمد میں ہے:

 حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت ہی کم حدیث بیان فرماتے اور بہت کم جمعہ ایسے ہوں گے جن میں آپ نے یہ چند حدیثیں نہ سنائی ہوں

- جس کے ساتھ اللہ کا ارادہ بھلائی کا ہوتا ہے اسے اپنے دین کی سمجھ عطافرماتا ہے

- اور یہ مال میٹھا اور سبز رنگ ہے جو اسے اس کے حق کے ساتھ لے گا اسے اس میں برکت دی جائے گی

- تم لوگ آپس میں ایک دوسرے کی مدح و ستائش سے پرہیز کرو اس لئے کہ یہ دوسرے پر چھری پھیرنا ہے

یہ پچھلا جملہ ان سے ابن ماجہ میں بھی مروی ہے

 حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

 انسان کے پاس ایک صبح کو اپنے دین میں سے کچھ بھی نہیں ہوتا (اس کی وجہ یہ ہوتی ہے) کہ وہ صبح کسی سے اپنا کام نکالنے کے لئے ملا، اس کی تعریف شروع کر دی اور اس کی مدح سرائی شروع کی اور قسمیں کھا کر کہنے لگا آپ ایسے ہیں اور ایسے ہیں حالانکہ نہ وہ اس کے نقصان کا مالک ہے نہ نفع کا  اور بسا ممکن ہے کہ ان تعریفی کلمات کے بعد بھی اس سے اس کا کام نہ نکلے لیکن اس نے تو اللہ تعالیٰ کو ناخوش کر دیا پھر آپ نے اسی آیت تزکیہ کی تلاوت فرمائی ۔ ابن جریر

اس کا تفصیلی بیان آیت فَلَا تُزَكُّوٓاْ أَنفُسَكُمۡ (۵۳:۳۲) کی تفسیر میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ

بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشَاءُ

بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے پاکیزہ کرتا ہے

یہاں ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہے وہ جسے چاہے پاک کر دے کیونکہ تمام چیزوں کی حقیقت اور اصلیت کا عالم وہی ہے

وَلَا يُظْلَمُونَ فَتِيلًا (۴۹)

کسی پر ایک دھاگے کے برابر ظلم نہ کیا جائے گا ۔

فرمایا کہ اللہ ایک دھاگے کے وزن کے برابر بھی کسی کی نیکی نہ چھوڑے گا،

 فَتِيل کے معنی ہیں کھجور کی گٹھلی کے درمیان کا دھاگہ

 اور مروی ہے کہ وہ دھاگہ جسے کوئی اپنی انگلیوں سے بٹ لے،

انْظُرْ كَيْفَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ ۖ وَكَفَى بِهِ إِثْمًا مُبِينًا (۵۰)

دیکھو یہ لوگ اللہ تعالیٰ پر کس طرح جھوٹ باندھتے ہیں اور یہ (حرکت) گناہ ہونے کے لئے کافی ہے

پھر فرماتا ہے ان کی افترا پردازی تو دیکھو کہ کس طرح اللہ عزوجل کی اولاد اور اس کے محبوب بننے کے دعویدار ہیں؟اور کیسی باتیں کر رہے ہیں کہ ہمیں تو صرف چند دن آگ میں رہنا ہوگا کس طرح اپنے بروں کے نیک اعمال پر اعتماد کیے بیٹھے ہیں؟ حالانکہ ایک کا عمل دوسرے کو کچھ نفع نہیں دے سکتا جیسے ارشاد ہے:

تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْ (۲:۱۳۴)

یہ ایک گروہ ہے جو گزر چکا ان کے اعمال ان کے ساتھ اور تمہارے اعمال تمہارے ساتھ

پھر فرماتا ہے ان کا یہ کھلا کذب و افترا ہی ان کے لئے کافی ہے

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ

کیا آپ نے انہیں نہیں دیکھا جنہیں کتاب کا کچھ حصہ ملا ہے؟ جو بت کا اور باطل معبود کا اعتقاد رکھتے ہیں

جِبْتِ کے معنی حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جادو اور طَاغُوت کے معنی شیطان کے مروی ہیں،

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جِبْتِ جبش کا لفظ ہے اس کے معنی شیطان کے ہیں، شرک بت اور کاہن کے معنی بھی بتائے گئے ہیں

 بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد حی بن اخطب ہے، بعض کہتے ہیں کعب بن اشرف ہے،

 ایک حدیث میں ہے فال اور پرندوں کو ڈانٹنا یعنی ان کے نام یا ان کے اڑنے یا بولنے یا ان کے نام سے شگون لینا اور زمین پر لکیریں کھینچ کر معاملہ طے کرنا یہ سب  جِبْتِ ہے،

 حسن کہتے ہیں جِبْتِ شیطان کی غنغناہٹ ہے،

طَاغُوت کی نسبت سوال کیا گیا تو فرمایا کہ یہ کاہن لوگ ہیں جن کے پاس شیطان آتے تھے

 مجاہد فرماتے ہیں انسانی صورت کے یہ شیاطین ہیں جنکے پاس لوگ اپنے جھگڑے لے کر آتے ہیں اور انہیں حاکم مانتے ہیں

حضرت امام مالک فرماتے ہیں اس سے مراد ہرچیز ہے جس کی عبادت اللہ کے سوا کی جائے

وَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا هَؤُلَاءِ أَهْدَى مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا سَبِيلًا (۵۱)

پھر فرمایا کہ ان کی جہالت بےدینی اور خود اپنی کتاب کے ساتھ کفر کی نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ کافروں کو مسلمانوں پر ترجیح اور افضلیت دیتے ہیں،

 ابن ابی حاتم میں ہے:

 حی بن اخطب اور کعب بن اشرف مکہ والوں کے پاس آئے تو اہل مکہ نے ان سے کہا تم اہل کتاب اور صاحب علم ہو بھلا بتاؤ تو تم بہتر ہیں یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

 انہوں نے کہا تم کیا ہو؟ اور وہ کیا ہیں؟

 تو اہل مکہ نے کہا ہم صلہ رحمی کرتے ہیں تیار اونٹنیاں ذبح کر کے دوسروں کو کھلاتے ہیں لسی پلاتے ہیں غلاموں کو آزاد کرتے ہیں حاجیوں کو پانی پلاتے ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو صنبور ہیں ہمارے رشتے ناتے تڑوا دئیے۔ ان کا ساتھ حاجیوں کے چوروں نے دیا جو قبیلہ غفار میں سے ہیں اب بتاؤ ہم اچھے یا وہ؟

 تو ان دونوں نے کہا تم بہتر ہو اور تم زیادہ سیدھے راستے پر ہو اس پر یہ آیت اتری

 دوسری روایت میں ہے کہ انہی کے بارے میں آیت  إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ (۱۰۸:۳) اتری ہے،

 بنو وائیل اور بنو نضیر کے چند سردار جب عرب میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف آگ لگا رہے تھے اور جنگ عظیم کی تیاری میں تھے اس قوت جب یہ قریش کے پاس آئے تو قریشیوں نے انہیں عالم و درویش جان کر ان سے پوچھا کہ بتاؤ ہمارا دین اچھا ہے یا محمد کا ؟ تو ان لوگوں نے کہا تم اچھے دین والے اور ان سے زیادہ صحیح راستے پر ہو

اس پر ہی آیت اتری اور خبر دی گئی کہ

أُولَئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ ۖ

یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے

یہ لعنتی گروہ ہے اور ان کا ممد و معاون دنیا اور آخرت میں کوئی نہیں اس لئے کہ صرف کفار کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے بطور چاپلوسی اور خوشامد کے یہ کلمات اپنی معلومات کے خلاف کہہ رہے ہیں

وَمَنْ يَلْعَنِ اللَّهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهُ نَصِيرًا (۵۲)

 اور جسے اللہ تعالیٰ لعنت کر دے تو اس کا کوئی مددگار نہ پائے گا‏

لیکن یاد رکھ لیں کہ یہ کامیاب نہیں ہو سکتے

چنانچہ یہی ہوا زبردست لشکر لے کر سارے عرب کو اپنے ساتھ ملا کر تمام تر قوت و طاقت اکٹھی کر کے ان لوگوں کو مدینہ شریف پر چڑھائی کی یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مدینہ کے اردگرد خندق کھودنی پڑی لیکن بالآخر دنیا نے دیکھ لیا ان کی ساری سازشیں ناکام ہوئیں یہ خائب و خاسر رہے، نامراد و ناکام پلٹے، دامن مراد خالی رہا بلکہ نامرادی مایوسی اور نقصان عظیم کے ساتھ لوٹنا پڑا۔ اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں کی مدد آپ کی اور اپنی قوت و عزت سے (کافروں کو) اوندھے منہ گرا دیا ، فالحمد اللہ الکبیر المتعال

أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِنَ الْمُلْكِ

کیا ان کا کوئی حصہ سلطنت میں ہے؟

یہاں بطور انکار کے سوال ہوتا ہے کہ کیا وہ ملک کے کسی حصہ کے مالک ہیں ؟

 یعنی نہیں ہیں،

فَإِذًا لَا يُؤْتُونَ النَّاسَ نَقِيرًا (۵۳)

 اگر ایسا ہو تو پھر یہ کسی کو ایک کھجور کی گٹھلی کے شگاف کے برابر بھی کچھ نہ دیں۔

پھر ان کی بخیلی بیان کی جاتی ہے کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ کسی کو ذرا سا بھی نفع پہنچانے کے روا دار نہ ہوتے خصوصاً اللہ کے اس آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اتنا بھی نہ دیتے جتنا کھجور کی گٹھلی کے درمیان کا پردہ ہوتا ہے جیسے اور آیت میں ہے:

لَّوْ أَنتُمْ تَمْلِكُونَ خَزَآئِنَ رَحْمَةِ رَبِّى إِذًا لأمْسَكْتُمْ خَشْيَةَ الإِنفَاقِ (۱۷:۱۰۰)

اگر بالفرض تم میرے رب کی رحمتوں کے خزانوں کے مالک بن جاتے تو تم اس وقت بھی اسکے خرچ ہو جانے کے خوف سے اس کو روکے رکھتے

 گو ظاہر ہے کہ وہ کم نہیں ہو سکتے تھے لیکن تمہاری کنجوسی تمہیں ڈرا دیتی اسی لئے فرما دیا کہ انسان بڑا ہی بخیل ہے،

أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَى مَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ ۖ

یا یہ لوگوں سے حسد کرتے ہیں اس پر جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے

ان کے ان بخیلانہ مزاج کے بعد ان کا حسد واضح کیا جا رہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے آل ابراہیم کو جو بنی اسرائیل سے نہیں اس لئے ان سے حسد کی آگ میں جل رہے ہیں اور لوگوں کو آپ کی تصدیق سے روک رہے ہیں ۔

ابن عباسؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یہاں النَّاسَ سے مراد ہم ہیں کوئی اور نہیں ،

فَقَدْ آتَيْنَا آلَ إِبْرَاهِيمَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَآتَيْنَاهُمْ مُلْكًا عَظِيمًا (۵۴)

پس ہم نے تو آل ابراہیم کو کتاب اور حکمت بھی دی ہے اور بڑی سلطنت بھی عطا فرمائی۔‏

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے آل ابراہیم کو جو بنی اسرائیل کے قبائل میں اولاد ابراہیم سے ہیں نبوت  دی کتاب نازل فرمائی جینے مرنے کے آداب سکھائے بادشاہت بھی دی

فَمِنْهُمْ مَنْ آمَنَ بِهِ وَمِنْهُمْ مَنْ صَدَّ عَنْهُ ۚ وَكَفَى بِجَهَنَّمَ سَعِيرًا (۵۵)

پھر ان میں سے بعض نے اس کتاب کو مانا اور بعض اس سے رک گئے اور جہنم کا جلانا کافی ہے۔‏

اس کے باوجود ان میں سے بعض تو مؤمن ہوئے اس انعام و اکرام کو مانا لیکن بعض نے خود بھی کفر کیا اور دوسرے لوگوں کو بھی اس سے روکاحالانکہ وہ بھی بنی اسرائیل ہی تھے تو جبکہ یہ اپنے والوں سے بھی منکر ہو چکے ہیں تو پھر اے نبی آخر الزمان آپ کا انکار ان سے کیا دور ہے؟جب کہ آپ ان میں سے بھی نہیں،

یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ بعض اس پر یعنی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائےاور بعض نہ لائے پس یہ کافر اپنے کفر میں بہت سخت اور نہایت پکے ہیں اور ہدایت و حق سے بہت ہی دور ہیں

پھر انہیں ان کی سزا سنائی جا رہی ہے کہ جہنم کا جلنا انہیں کافی  ہے، ان کے کفر و عناد کی ان کی تکذیب اور سرکشی کی یہ سزا کافی ہے۔

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِنَا سَوْفَ نُصْلِيهِمْ نَارًا

جن لوگوں نے ہماری آیتوں سے کفر کیا، انہیں ہم یقیناً آگ میں ڈال دیں گے

اللہ کی آیتوں کے نہ ماننے اور رسولوں سے لوگوں کو برگشتہ کرنے والوں کی سزا اور ان کے بد انجام کا ذکر ہوا انہیں اس آگ میں دھکیلا جائے گا جو انہیں چاروں طرف سے گھیرلے گی اور ان کے روم روم کو سلگا دے

كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُهُمْ بَدَّلْنَاهُمْ جُلُودًا غَيْرَهَا لِيَذُوقُوا الْعَذَابَ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَزِيزًا حَكِيمًا (۵۶)

جب ان کی کھالیں پک جائیں گی ہم ان کے سواء اور کھالیں بدل دیں گے تاکہ وہ عذاب چکھتے رہیں یقیناً اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے۔‏

اور یہی نہیں بلکہ یہ عذاب دائمی ایسا ہو گا ایک چمڑا جل گیا تو دوسرا بدل دیا جائے گا جو سفید کاغذ کی مثال ہو گا

ایک ایک کافر کی سو سو کھالیں ہوں گی ہر ہر کھال پر قسم قسم کے علیحدہ علیحدہ عذاب ہوں گے ایک ایک دن میں ستر ہزار مرتبہ کھال الٹ پلٹ ہو گی ۔یعنی کہہ دیا جائے گا کہ جلد لوٹ آئے وہ پھر لوٹ آئے گی ۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے جب اس آیت کی تلاوت ہوئی تو آپ پڑھنے والے سے دوبارہ سنانے کی فرمائش کرتے وہ دوبارہ پڑھتا تو حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں آپ کو اس کی تفسیر سناؤں ایک ایک ساعت میں سو سو بار بدلی جائے گی اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہی سنا ہے (ابن مردویہ وغیرہ)

دوسری روایت میں ہے:

 اس وقت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا تھا کہ مجھے اس آیت کی تفسیر یاد ہے میں نے اسے اسلام لانے سے پہلے پڑھا تھا آپ نے فرمایا اچھا بیان کرو اگر وہ وہی ہوئی جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی ہے تو ہم اسے قبول کریں گے ورنہ ہم اسے قابل التفات نہ سمجھیں گے تو آپ نے فرمایا ایک ساعت میں ایک سو بیس مرتبہ اس پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں نے اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے

حضرت ربیع بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں پہلی کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ ان کی کھالیں چالیس (۴۰) ہاتھ یا چھہتر (۷۶) ہاتھ ہوں گی اور ان کے پیٹ اتنے بڑے ہوں گے کہ اگر ان میں پہاڑ رکھا جائے تو سما جائے ۔ جب ان کھالوں کو آگ کھا لے گی تو اور کھالیں آ جائیں گی

ایک حدیث میں اس سے بھی زیادہ ہے۔

 مسند احمد میں ہے جہنمی جہنم میں اس قدر بڑے بڑے بنا دیئے جائیں گے کہ ان کے کان کی نوک سے کندھا سات سو سال کی راہ پر ہوگا اور ان کی کھال کی موٹائی ستر ذراع ہوگی اور کچلی مثل احد پہاڑ کے ہوں گی

 اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد کھال سے لباس ہے لیکن یہ ضعیف ہے اور ظاہر لفظ کے خلاف ہے

وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۖ

اور جو لوگ ایمان لائے اور شائستہ اعمال کئے ہم عنقریب انہیں ان جنتوں میں لے جائیں گے جنکے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، جن میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے،

اس کے مقابلوں میں نیک لوگوں کے انجام کو بیان کیا جاتا ہے

وہ جنت عدن میں ہوں گے جس کے چپے چپے پر نہریں جاری ہوں گی جہاں چاہیں انہیں لے جائیں اپنے محلات میں باغات میں راستوں میں غرض جہاں ان کے جی چاہیں وہیں وہ پاک نہریں بہنے لگیں گی ، پھر سب سے اعلیٰ لطف یہ ہے کہ یہ تمام نعمتیں ابدی اور ہمیشہ رہنے والی ہوں گی نہ ختم ہوں گی

لَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُطَهَّرَةٌ ۖ وَنُدْخِلُهُمْ ظِلًّا ظَلِيلًا (۵۷)

انکے لئے وہاں صاف ستھری بیویاں ہوں گی اور ہم انہیں گھنی چھاؤں (اور پوری راحت) میں لے جائیں گے

پھر ان کے لئے وہاں حیض و نفاس سے گندگی اور پلیدی سے، میل کچیل اور بو باس سے، رذیل صفتوں اور بےہودہ اخلاق سے پاک بیویاں ہوں گی اور گھنے لمبے چوڑے سائے ہوں گے جو بہت فرحت بخش بہت ہی سرور انگیز راحت افزا دل خوش کن ہوں گے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :

جنت میں ایک درخت ہے جس کے سائے تلے ایک سو سال تک بھی ایک سوار چلا جائے تو اس کا سایہ ختم نہ ہو یہ شجرۃ الخلد ہے (ابن جزیر)

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا

اللہ تعالیٰ تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انہیں پہنچاؤ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

جو تیرے ساتھ امانت داری کا برتاؤ کرے تو اس کی امانت ادا کر اور جو تیرے ساتھ خیانت کرے تو اس سے خیانت مت کر( مسند احمد و سنن)

آیت کے الفاظ وسیع المعنی ہیں۔ان میں اللہ تعالیٰ عزوجل کے حقوق کی ادائیگی بھی شامل ہے جیسے روزہ نماز زکوٰۃ کفارہ نذر وغیرہ،اور بندوں کے آپس کے کل حقوق بھی شامل ہیں جیسے امانت دار کا حق اسے دلوایا جائے گا یہاں تک کہ بےسینگ والی بکری کو اگر سینگوں والی بکری نے مارا ہے تو اس کا بدلہ بھی اسے دلوایا جائے گا

 حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

 شہادت کی وجہ سے تمام گناہ مٹ جاتے ہیں مگر امانت نہیں مٹنے لگی کوئی شخص اللہ کی راہ میں شہید بھی ہوا تو اسے بھی قیامت کے دن لایا جائے گا اور کہا جائے گا کہ اپنی امانت ادا کر

 وہ جواب دے گا کہ دنیا تو اب ہے نہیں میں کہاں سے اسے ادا کروں؟

فرماتے ہیں پھر وہ چیز اسے جہنم کی تہہ میں نظر آئے گی اور کہا جائے گا کہ جا اسے لے آ وہ اسے اپنے کندھے پر لاد کر لے چلے گا لیکن وہ گر پڑے گی وہ پھر اسے لینے جائے گا بس اسی عذاب میں وہ مبتلا رہے گا

 حضرت زاذان اس روایت کو سن کر حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آ کر بیان کرتے ہیں وہ کہتے ہیں میرے بھائی نے سچ کہا پھر قرآن کی اس آیت کو پڑھتے ہیں

 ابن عباسؓ فرماتے ہیں ہر نیک و بد کے لئے پر یہی حکم ہے،

 ابو العالیہ فرماتے ہیں جس چیز کا حکم دیا گیا اور جس چیز سے منع کیا گیا وہ سب امانت ہے۔

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں عورت اپنی شرم گاہ کی امانت دار ہے،

ربیع بن انس ؓ فرماتے ہیں جو جو معاملات تیرے اور دوسرے لوگوں کے درمیان ہوں وہ سب اسی میں شامل ہے،

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں اس میں یہ بھی داخل ہے کہ سلطان عید والے دن عورتوں کو خطبہ سنائے۔

 اس آیت کی شان نزول میں مروی ہے :

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ فتح کیا اور اطمینان کے ساتھ بیت اللہ شریف میں آئے تو اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر طواف کیا۔ حجرا سود کو اپنی لکڑی سے چھوتے تھے اس کے بعد عثمان بن طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جو کعبہ کی کنجی برادر تھے بلایا ان سے کنجی طلب کی انہوں نے دینا چاہی اتنے میں حضرت عباسؓ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اب یہ مجھے سونپئے تاکہ میرے گھرانے میں زمزم کا پانی پلانا اور کعبہ کی کنجی رکھنا دونوں ہی باتیں رہیں یہ سنتے ہی حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا ہاتھ روک لیا

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوبارہ طلب کی پھر وہی واقعہ ہوا

آپ نے سہ بارہ طلب کی حضرت عثمانؓ نے یہ کہہ کر دے دی کہ اللہ کی امانت آپ کو دیتا ہوں

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کعبہ کا دروازہ کھول اندر گئے وہاں جتنے بت اور تصویریں تھیں سب توڑ کر پھینک دیں حضرت ابراہیم کا بت بھی تھا جس کے ہاتھ فال کے تیر تھی آپ نے فرمایا اللہ ان مشرکین کو غارت کرے بھلا خلیل اللہ کو ان تیروں سے کیا سروکار؟

پھر ان تمام چیزوں کو برباد کر کے ان کی جگہ پانی ڈال کر ان کے نام و نشان مٹا کر آپ باہر آئے کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر آپ ﷺنے فرمایا:

کوئی معبود نہیں بجز اللہ کے وہ اکیلا ہے جس کا کوئی شریک نہیں اس نے اپنے وعدے کو سچا کیا اپنے بندے کی مدد کی اور تمام لشکروں کو اسی اکیلے نے شکست دی پھر آپ نے ایک لمبا خطبہ دیا جس میں یہ بھی فرمایا:

 جاہلیت کے تمام جھگڑے اب میرے پاؤں تلے کچل دئیے گئے خواہ مالی ہوں خواہ جانی ہوں بیت اللہ کی چوکیداری کا اور حاجیوں کو پانی پلانے کا منصب جوں کا توں باقی رہے گا اس خطبہ کو پورا کر کے آپ بیٹھے ہی تھے جو حضرت علی ؓنے آگے بڑھ کر کہا حضور چابی مجھے عنایت فرمائی جائے تاکہ بیت اللہ کی چوکیداری کا اور حاجیوں کو زمزم پلانے کا منصب دونوں یکجا ہو جائیں لیکن آپ نے انہیں نہ دی

 مقام ابراہیم کو کعبہ کے اندر سے نکال کر آپ نے کعبہ کی دیوار سے ملا کر رکھ دیا اور اوروں سے کہہ دیا کہ تمہارا قبلہ یہی ہے پھر آپ  ﷺطواف میں مشغول ہوگئے ابھی وہ چند پھیرے ہی پھرے تھے جو حضرت جبرائیلؑ نازل ہوئے اور آپ نے اپنی زبان مبارک سے اس آیت کی تلاوت شروع کی، اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میرے ماں باپ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر فدا ہوں میں نے تو اس سے پہلے آپ کو اس آیت کی تلاوت کرتے نہیں سنا

 اب آپ نے حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا اور انہیں کنجی سونپ دی اور فرمایا آج کا دن وفا کا نیکی اور سلوک کا دن ہے یہ وہی عثمان بن طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں جن کی نسل میں آج تک کعبۃ اللہ کی کنجی چلی آتی ہے

 یہ صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے درمیان اسلام لائے جب ہی خالد بن ولید اور عمرو بن عاص بھی مسلمان ہوئے تھے ان کا چچا عثمان بن طلحہ احمد کی لڑائی میں مشرکوں کے ساتھ تھا بلکہ ان کا جھنڈا بردار تھا اور وہیں بحالت کفر مارا گیا تھا۔

 الغرض مشہور تو یہی ہے کہ یہ آیت اسی بارے میں اتری ہے اب خواہ اس بارے میں نازل ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو بہرصورت اس کا حکم عام ہے جیسے حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور حضرت محمد بن حنفیہ کا قول ہے کہ ہر شخص کو دوسرے کی امانت کی ادائیگی کا حکم ہے

وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ۚ

 اور جب لوگوں کا فیصلہ کرو تو عدل اور انصاف سے فیصلہ کرو

ارشاد ہے کہ فیصلے عدل کے ساتھ کرو حاکموں کو احکم الحاکمین کا حکم ہو رہا ہے کہ کسی حالت میں عدل کا دامن نہ چھوڑو ،

 حدیث میں ہے :

اللہ حاکم کے ساتھ ہوتا ہے جب تک کہ وہ ظلم نہ کرے جب ظلم کرتا ہے تو اسے اسی کی طرف سونپ دیتا ہے ،

ایک اثر میں ہے ایک دن کا عدل چالیس سال کی عبادت کے برابر ہے،

إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا (۵۸)

یقیناً وہ بہتر چیز ہے جس کی نصیحت تمہیں اللہ تعالیٰ کر رہا ہے، بیشک اللہ تعالیٰ سنتا ہے دیکھتا ہے۔‏

 پھر فرماتا ہے یہ ادائیگی امانات کا اور عدل و انصاف کا حکم اور اسی طرح شریعت کے تمام احکام اور تمام ممنوعات تمہارے لئے بہترین اور نافع چیزیں ہیں جن کا امر پروردگار نے تمہیں دیا ہے

روایت میں ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس آیت کے آخری الفاظ پڑھتے ہوئے اپنا انگوٹھا اپنے کان میں رکھا اور شہادت کی انگلی اپنی آنکھ پر رکھی (یعنی اشارے سے سننا دیکھنا کان اور آنکھ پر انگلی رکھ کر بتا کر) فرمایا میں نے اسی طرح پڑھتے اور کرتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہے،

 راوی حدیث حضرت ابو زکریا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ہمارے استاد مضری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی طرح پڑھ کر اشارہ کر کے ہمیں بتایا اپنے داہنے ہاتھ کا انگوٹھا اپنی دائیں آنکھ پر رکھا اور اس کے پاس کی انگلی اپنے داہنے کان پر رکھی (ابن ابی حاتم)

یہ حدیث اسی طرح امام ابو داؤد نے بھی روایت کی ہے اور امام ابن حبان نے بھی اپنی صحیح میں اسے نقل کیا ہے۔ اور حاکم نے مستدرک میں اور ابن مردویہ نے اپنی تفسیر میں بھی اسے وارد کیا ہے، اس کی سند میں جو ابو یونس ہیں وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مولی ٰہیں اور ان کا نام سلیم بن جیر رحمۃ اللہ علیہ ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ ۖ

اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول ﷺ کی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔

صحیح بخاری شریف میں بروایت حضرت عبداللہ بن عباسؓ مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک چھوٹے سے لشکر میں حضرت عبداللہ بن حذافہ بن قیس کو بھیجا تھا ان کے بارے میں یہ آیت اتری ہے ،

 بخاری و مسلم میں ہے:

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا جس کی سرداری ایک انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دی ایک مرتبہ وہ لوگوں پر سخت غصہ ہوگئے اور فرمانے لگے کیا تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری فرمانبرداری کا حکم نہیں دیا؟

سب نے کہا ہاں بیشک دیا ہے، فرمانے لگے اچھا لکڑیاں جمع کرو پھر آگ منگوا کر لکڑیاں جلائیں پھر حکم دیا کہ تم اس آگ میں کود پڑو

ایک نوجوان نے کہا لوگو سنو آگ سے بچنے کے لئے ہی تو ہم نے دامن رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پناہ لی ہے تم جلدی نہ کرو جب تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ملاقات نہ ہو جائے پھر اگر آپ بھی یہی فرمائیں تو بےجھجھک اس آگ میں کود پڑھنا

 چنانچہ یہ لوگ واپس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ کہہ سنایا

آپﷺ نے فرمایا اگر تم اس آگ میں کود پڑھتے تو ہمیشہ آگ ہی میں جلتے رہتے۔ سنو فرمانبرداری صرف معروف میں ہے۔

 ابو داؤد میں ہے کہ مسلمان پر سننا اور ماننا فرض ہے جی چاہے یا طبیعت رو کے لیکن اس وقت تک کہ (اللہ تعالیٰ اور رسول کی) نافرمانی کا حکم نہ دیا جائے، جب نافرمانی کا حکم ملے تو نہ سنے نہ مانے۔

 بخاری و مسلم میں ہے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

 ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیعت لی کہ کام کے اہل سے اس کام کو نہ چھینیں۔ لیکن جب تم ان کا کھلا کفر دیکھو جس کے بارے میں تمہارے پاس کوئی واضح الہٰی دلیل بھی ہو،

بخاری شریف میں ہے:

 سنو اور اطاعت کرو اگرچہ تم پر حبشی غلام امیر بنایا گیا ہو چاہے کہ اس کا سرکشمش ہے،

 مسلم شریف میں ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں مجھے میرے خلیل ( یعنی رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے سننے کی وصیت کی اور ماننے کی اگرچہ ناقص ہاتھ پاؤں والا حبشی غلام ہی ہو،

مسلم کی ہی اور حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجتہ الوداع کے خطبہ میں فرمایا چاہے تم پر غلام عامل بنایا جائے جو تمہیں کتاب اللہ کے مطابق تمہارا ساتھ چاہے تو تم اس کی سنو اور مانو

ایک روایت میں غلام حبشی اعضاء کٹا کے الفاظ ہیں،

ابن جریر میں ہے:

 میرے بعدوالے تم سے ملیں گے  نیکوں سے نیک اور بدوں سے بد’تم کو ملیں گے تم ہر  ایک اس امر جو مطابق حق ہو اس کی  سنوور مانو اور ان کے پیچھے نمازیں پڑھتے رہو اگر وہ نیکی کریں گے  تو ان کے لئے نفع ہے اور تمہارے لئے بھی اور اگر وہ بدی کریں گے تو تمہارے لئے اچھائی ہے اور ان پر گناہوں کا بوجھ ہے ،

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ یان کرتے ہیں:

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں مسلسل لگاتار رسول آیا کرتے تھے ایک کے بعد ایک اور میرے بعد کوئی نبی نہیں مگر خلفاء بکثرت ہوں گے

 لوگوں نے پوچھا پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟

فرمایا پہلے کی بیعت پوری کرو پھر اس کے بعد آنے والے کی ان کا حق انہیں دے دو اللہ تعالیٰ ان سے ان کی رعیت کے بارے میں سوال کرنے والا ہے۔

 آپﷺ فرماتے ہیں :

جو شخص اپنے امیر کا کوئی ناپسندیدہ کام دیکھے اسے صبر کرنا چاہیے جو شخص جماعت کے بالشت بھر جدا ہو گیا پھر وہ جاہلیت کی موت مرے گا (بخاری و مسلم)

ارشاد ہے :

جو شخص اطاعت سے ہاتھ کھینچ لے وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے حجت و دلیل بغیر ملاقات کرے گا اور جو اس حالت میں مرے کہ اس کی گردن میں بیعت نہ ہو وہ جاہلیت کی موت مرے گا (مسلم)

حضرت عبدالرحمٰن رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں میں بیت اللہ شریف میں گیا دیکھا تو حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کعبہ کے سایہ میں تشریف فرما ہیں اور لوگوں کا ایک مجمع جمع ہے میں بھی اس مجلس میں ایک طرف بیٹھ گیا اس وقت حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ حدیث بیان کی فرمایا:

ایک سفر میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے ایک منزل میں اترے کوئی اپنا خیمہ ٹھیک کرنے لگا کوئی اپنے نیز سنبھالنے لگا کوئی کسی اور کام میں مشغول ہو گیا، اچانک ہم نے سنا کہ رسول کریم ﷺ فرما رہے ہیں ہر نبی پر اللہ کی طرف سے فرض ہوتا ہے کہ اپنی اُمت کو تمام نیکیاں جو وہ جانتا ہے ان کی تربیت انہیں دے اور تمام برائیوں سے جو اس کی نگاہ میں ہیں انہیں آگاہ کر دے۔

سنو میری اُمت کی عافیت کا زمانہ اول کا زمانہ ہے آخر زمانے میں بڑی بڑی بلائیں آئیں گی اور ایسے ایسے امور نازل ہوں گے جنہیں مسلمان ناپسند کریں گے اور ایک پر ایک فتنہ برپا ہو گا ایک ایسا وقت آئے گا کہ مؤمن سمجھ لے گا اسی میں میری ہلاکت ہے پھر وہ ہٹے گا۔ تو دوسرا اس سے بھی بڑا آئے گا جس میں اسے اپنی ہلاکت کا کامل یقین ہوگا بس یونہی لگا تار فتنے اور زبردست آزمائشیں اور کامل تکلیفیں آتی رہیں گی  پس جو شخص اس بات کو پسند کرے کہ جہنم سے بچ جانے اور جنت کا مستحق ہو اسے چاہیے کہ مرتے دم تک اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھے اور لوگوں سے وہ برتاؤ کرے جو خود اپنے لئے پسند کرتا ہے

سنو جس نے امام سے بیعت کر لی اس نے اپنا ہاتھ اس کے قبضہ میں اور دل کی تمنائیں اسے دے دیں۔ اور اپنے دل کا پھل دے دیا اب اسے چاہیے کہ اس کی اطاعت کرے اگر کوئی دوسرا اس سے چھیننا چاہے تو اس کی گردن اڑا دو،

عبدالرحمٰن فرماتے ہیں میں یہ سن کر قریب گیا اور کہا آپ کو میں اللہ تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کیا خود آپ نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانی سنا ہے؟

 تو آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے کان اور دل کی طرف بڑھا کر فرمایا میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنے ان دو کانوں سے سنا اور میں نے اسے اپنے اس دل میں محفوظ رکھا ہے مگر آپکے چچا زاد بھائی حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمیں ہمارے اپنے مال بطریق باطل سے کھانے اور آپس میں ایک دوسرے سے جنگ کرنے کا حکم دیتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کاموں سے ممانعت فرمائی ہے ،

 ارشاد ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ (۴:۲۹)

اے ایمان والو! اپنے آپس کے مال ناجائز طریقہ سے مت کھاؤ

اسے سن کر حضرت عبداللہ ذرا سی دیر خاموش رہے

پھر فرمایا اللہ کی اطاعت میں ان کی اطاعت کرو اور اگر اللہ کی نافرمانی کا حکم دیں تو اسے نہ مانو

اس بارے میں حدیثیں اور بھی بہت سی ہیں،اسی آیت کو تفسیر میں حضرت سدی رحمتہ اللہ علیہ سے مروی ہے:

 رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا جس کا امیر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بنایا اس لشکر میں حضرت عمار بن یاسر ؓ بھی تھے یہ لشکر جس قوم کی طرف جانا چاہتا تھاچلا رات کے وقت اس کی بستی کے پاس پہنچ کر پڑاؤ کیا ان لوگوں کو اپنے جاسوسوں سے پتہ چل گیا اور چھپ چھپ کر سب راتوں رات بھاگ کھڑے ہوئے۔ صرف ایک شخص رہ گیا اس نے اپنے گھر والوں سے کہا اور انہوں نے اس کا سب اسباب جمع کیا’ پھر رات کے اندھیرے میں خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لشکر میں آیا اور حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملا اور ان سے کہا کہ اے ابو الیقظان میں اسلام قبول کر چکا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں میری ساری قوم تمہارا آنا سن کر بھاگ گئی ہے صرف میں باقی رہ گیا ہوں تو کیا کل میرا یہ اسلام مجھے نفع دے گا؟ اگر نفع نہ دے تو میں بھی بھاگ جاؤں

حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا یقیناً یہ اسلام تمہیں نفع دے گا تم نہ بھاگو بلکہ ٹھہرے رہو

 صبح کے وقت جب حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لشکر کشی کی تو سوائے اس شخص کے وہاں کسی کو نہ پایا اسے اس کے مال سمیت گرفتار کر لیا گیا جب حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معلوم ہوا تو آپ حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور کہا اسے چھوڑ دیجئے یہ اسلام لا چکا ہے اور میری پناہ میں ہے

 حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تم کون ہو جو کسی کو پناہ دے سکو؟

 اس پر دونوں بزرگوں میں کچھ تیز کلامی ہو گئی اور قصہ بڑھا یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں سارا واقعہ بیان کیا گیا۔

آپ ﷺنے حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پناہ کو جائز قرار دیا اور فرمایا آئندہ امیر کی طرف سے پناہ نہ دینا

پھر دونوں میں کچھ تیز کلامی ہونے لگی اس پر حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور سے کہا اس ناک کٹے غلام کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ نہیں کہتے؟دیکھئے تو یہ مجھے برا بھلا کہہ رہا ہے؟

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا خالد ؓ عمار ؓ کو برا نہ کہو۔عمار ؓ کو گالیاں دینے والے کو اللہ گالیاں دے گا، عمار سے دشمنی کرنے والے سے اللہ دشمنی رکھے گا، عمار جو لعنت بھیجے گا اس پر اللہ کی لعنت نازل ہو گی

 اب تو حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لینے کے دینے پڑھ گئے حضرت عمار ؓ غصہ میں چلا رہے تھے آپ دوڑ کر ان کے پاس گئے دامن تھام لیا معذرت کی اور اپنی تقصیر معاف کرائی تب تک پیچھانہ چھوڑا جب تک کہ حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ راضی نہ ہوگئے،

 پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی

امر امارت و خلافت کے متعلق شرائط وغیرہ کا بیان آیت"وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً (۲:۳۰) کی تفسیر میں گزر چکا ہے وہاں ملاحظہ ہو۔

حضرت ابن عباسؓ سے بھی یہ رویات مروی ہے (ابن جریر اور ابن مردویہ)

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں أُولِي الْأَمْرِ سے مراد سمجھ بوجھ دین والے ہیں

یعنی علماء کی ظاہر بات تو یہ معلوم ہوتی ہے آگے حقیقی علم اللہ کو ہے کہ یہ لفظ عام ہیں امراء علماء دونوں اس سے مراد ہیں جیسے کہ پہلے گزرا  قرآن فرماتا ہے:

لَوْلَا يَنْهَاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ عَن قَوْلِهِمُ الْإِثْمَ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ (۵:۶۳)

انہیں ان کے عابد و عالم جھوٹ باتوں کے کہنے اور حرام چیزوں کے کھانے سے کیوں نہیں روکتے

 اور جگہ ہے

فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (۱۶:۴۳)

حدیث کے جاننے والوں سے پوچھ لیا کرو کہ اگر تمہیں علم نہ ہو،

صحیح حدیث میں ہے:

میری اطاعت کرنے والا اللہ کی اطاعت کرنے والا ہے اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی ہے

پس یہ ہیں احکام علماء امراء کی اطاعت کرو یعنی اس کی سنتوں پر عمل کرو اور حکم والوں کی اطاعت کرو یعنی اس چیز میں جو اللہ کی اطاعت ہو ، اللہ کے فرمان کے خلاف اگر ان کا کوئی حکم ہو تو اطاعت نہ کرنی چاہیے ایسے وقت علماء یا امراء کی ماننا حرام ہے جیسے کہ پہلی حدیث گزر چکی کہ اطاعت صرف معروف میں ہے یعنی فرمان اللہ و فرمان رسول ﷺ کے دائرے میں

 مسند احمد میں اس سے بھی زیادہ صاف حدیث ہے جس میں ہے کہ کسی کی اطاعت اللہ تعالیٰ کے فرمان کے خلاف جائز نہیں

فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ

پھر اگر کسی چیز پر اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول ﷺ کی طرف، اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے

پھر  فرمایا کہ اگر تم میں کسی بارے میں جھگڑا پڑے تو اسے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف لوٹاؤ یعنی کتاب اللہ اور سنت رسول کی طرف جیسے کہ حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ کی تفسیر ہے

پس یہاں صریح اور صاف لفظوں میں اللہ عزوجل کا حکم ہو رہا ہے کہ لوگ جس مسئلہ میں اختلاف کریں خواہ وہ مسئلہ اصول دین سے متعلق ہو خواہ فروغ دین سے متعلق اس کے تصفیہ کی صرف یہی صورت ہے کہ کتاب و سنت کو حکم مان لیا جائے جو اس میں ہو وہ قبول کیا جائے، جیسے اور آیت قرآنی میں ہے:

وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِن شَىْءٍ فَحُكْمُهُ إِلَى اللَّهِ (۴۲:۱۰)

اگر کسی چیز میں تمہارا اختلاف ہو جائے اس کا فیصلہ اللہ کی طرف ہے

پس کتاب و سنت جو حکم دے اور جس مسئلہ کی صحت کی شہادت دے وہی حق ہے باقی سب باطل ہے،

قرآن فرماتا ہے کہ حق کے بعد جو ہے ضلالت و گمراہی ہے، اسی لئے یہاں بھی اس حکم کے ساتھ ہی ارشاد ہوتا ہے اگر تم اللہ تعالیٰ پر اور قیامت پر ایمان رکھتے ہو ، یعنی اگر تم ایمان کے دعوے میں سچے ہو تو جس مسئلہ کا تمہیں علم نہ ہو یعنی جس مسئلہ میں اختلاف ہو ، جس امر میں جدا جدا آراء ہوں ان سب کا فیصلہ کتاب اللہ اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا کرو جو ان دونوں میں ہو مان لیا کرو، پس ثابت ہوا کہ جو شخص اختلافی مسائل کا تصفیہ کتاب و سنت کی طرف سے نہ لے جائے وہ اللہ پر اور قیامت پر ایمان نہیں رکھتا ۔

ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا (۵۹)

یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے۔

ارشاد ہوتا ہے کہ جھگڑوں میں اور اختلافات میں کتاب اللہ و سنت رسول کی طرف فیصلہ لانا اور ان کی طرف رجوع کرنا ہی بہتر ہے ، اور یہی نیک انجام خوش آئند ہے اور یہی اچھے بدلے دلانے والا کام ہے، بہت اچھی جزا اسی کا ثمر ہے۔

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ

کیا آپ نے انہیں نہیں دیکھا؟ جن کا دعویٰ تو یہ ہے کہ جو کچھ آپ سے پہلے اتارا گیا ہے اس پر ان کا ایمان ہے، لیکن وہ اپنے فیصلے غیر اللہ کی طرف لے جانا چاہتے ہیں

اوپر کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے دعوے کو جھٹلایا ہے جو زبانی تو اقرار کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی تمام اگلی کتابوں پر اور اس قرآن و حدیث کی طرف رجوع نہیں کرتے بلکہ کسی اور طرف لے جاتے ہیں ،

چنانچہ یہ آیت ان دو شخصوں کے بارے میں نازل ہوئی جن میں کچھ اختلاف تھا ایک تو یہودی تھا دوسرا انصاری ، یہودی تو کہتا تھا کہ چل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فیصلہ کرالیں اور انصاری کہتا تھا کعب بن اشرف کے پاس چلو

یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ آیت ان منافقوں کے بارے میں اتری ہےجو  بظاہر اپنے آپ کو مسلمان کہلاتے تھے  لیکن درپردہ احکام جاہلیت کی طرف جھکنا چاہتے تھے،

اس کے سوا اور اقوال بھی ہیں،

وَقَدْ أُمِرُوا أَنْ يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلَالًا بَعِيدًا (۶۰)

حالانکہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ شیطان کا انکار کریں، شیطان تو یہ چاہتا ہے بہکا کر دور ڈال دے۔‏

آیت اپنے حکم اور الفاظ کے اعتبار سے عام ہے ان تمام واقعات پر مشتمل ہے ہر اس شخص کی مذمت اور برائی کا اظہار کرتی ہے جو کتاب و سنت سے ہٹ کر کسی اور باطل کی طرف اپنا فیصلہ لے جائے اور یہی مراد یہاں طَاغُوت سے ہے (یعنی قرآن و حدیث کے سوا کی چیز یا شخص)

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَى مَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُودًا (۶۱)

ان سے جب کبھی کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ کلام کی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آؤ تو آپ دیکھ لیں گے کہ یہ منافق آپ سے منہ پھیر کر رکے جاتے ہیں ۔

صُدُودًا سے مراد تکبر سے منہ موڑ لینا ، جیسے اور آیت میں ہے:

وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُواْ مَآ أَنزَلَ اللَّهُ قَالُواْ بَلْ نَتَّبِعُ مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ ءَابَآءَنَا (۳۱:۲۱)

جب ان سے کہا جائے کہ اللہ کی اتاری ہوئی وحی کی فرمانبرداری کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اپنے باپ دادا کی پیروی پر ہی اڑے رہیں گے،

ایمان والوں کو جواب یہ نہیں ہوتا بلکہ ان کا جواب دوسری آیت میں اس طرح مذکور ہے:

إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُواْ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَن يَقُولُواْ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا (۲۴:۵۱)

ایمان والوں کو جب اللہ رسول کے فیصلے اور حکم کی طرف بلایا جائے تو ان کا جواب یہی ہوتا ہے کہ ہم نے سنا اور ہم نے تہہ دل سے قبول کیا،

فَكَيْفَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ ثُمَّ جَاءُوكَ يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا إِحْسَانًا وَتَوْفِيقًا (۶۲)

پھر کیا بات ہے کہ جب ان پر ان کے کرتوت کے باعث کوئی مصیبت آ پڑتی ہے تو پھر یہ آپ کے پاس آ کر اللہ تعالیٰ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ ہمارا ارادہ تو صرف بھلائی اور میل ملاپ ہی کا تھا

منافقوں کی مذمت میں بیان ہو رہا ہے کہ ان کے گناہوں کے باعث جب تکلیفیں پہنچتی ہیں اور تیری ضرورت محسوس ہوتی ہے تو دوڑے بھاگے آتے ہیں اور تمہیں خوش کرنے کے لئے عذر معذرت کرنے بیٹھ جاتے ہیں اور قسمیں کھا کر اپنی نیکی اور صلاحیت کا یقین دلانا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ کے سوا دوسروں کی طرف ان مقدمات کے لے جانے سے ہمارا مقصود صرف یہی تھا کہ ذرا دوسروں کا دل رکھا جائے آپس میں میل جول نبھ جائے ورنہ دل سے کچھ ہم ان کی اچھائی کے معتقد نہیں،

جیسے اور آیت میں بیان ہوا ہے ،

فَتَرَى الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ يُسَارِعُونَ ۔۔۔مَا أَسَرُّواْ فِي أَنْفُسِهِمْ نَادِمِينَ (۵:۵۲)

آپ دیکھیں گے کہ جن کے دلوں میں بیماری ہے وہ دوڑ دوڑ کر ان میں گھس رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں خطرہ ہے، ایسا نہ ہو کہ کوئی حادثہ ہم پر پڑ جائے

بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ فتح دے دے یا اپنے پاس سے کوئی اور چیز لائے پھر تو یہ اپنے دلوں میں چھپائی ہوئی باتوں پر (بے طرح) نادم ہونے لگیں گے۔‏

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں ابو برزہ اسلمی ایک کاہن شخص تھا، یہود اپنے بعض فیصلے اس سے کراتے تھے ایک واقعہ میں مشرکین بھی اس کی طرف دوڑے اس میں یہ آیتیں أَلَمْ تَرَ سے وَتَوْفِيقًا (۶۰،۶۲)  تک نازل ہوئیں،

أُولَئِكَ الَّذِينَ يَعْلَمُ اللَّهُ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ وَقُلْ لَهُمْ فِي أَنْفُسِهِمْ قَوْلًا بَلِيغًا (۶۳)

یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے دلوں کا بھید اللہ تعالیٰ پر بخوبی روشن ہے تو  ان سے چشم پوشی کر، انہیں نصیحت کرتے رہ اور انہیں وہ بات کہہ جو ان کے دلوں میں گھر کرنے والی ہو ۔

 اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس قسم کے لوگ یعنی منافقین کے دلوں میں جو کچھ ہے اس کا علم اللہ تعالیٰ کو کامل ہے اس پر کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی مخفی نہیں وہ ان کے ظاہر وباطن کا اسے علم ہے تو ان سے چشم پوشی کر ان کے باطنی ارادوں پر ڈانٹ ڈپٹ نہ کر ہاں انہیں نفاق اور دوسروں سے شر و فساد وابستہ رہنے سے باز رہنے کی نصیحت کر اور دل میں اترنے والی باتیں ان سے کہہ بلکہ ان کے لئے دعا بھی کر۔

وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ

ہم نے ہر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف اس لئے بھیجا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی فرمانبرداری کی جائے

مطلب یہ ہے کہ ہر زمانہ کے رسول کی تابعداری اس کی اُمت پر اللہ کی طرف سے فرض ہوتی ہے منصب رسالت یہی ہے کہ اس کے سبھی احکامات کو اللہ کے احکام سمجھا جائے،

 حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں بِإِذْنِ اللَّهِ سے یہ مراد ہے کہ اس کی توفیق اللہ تعالیٰ کے ہاتھ ہے اس کی قدرت و مشیت پر موقوف ہے،

جیسے اور آیت میں ہے:

إِذْ تَحُسُّونَهُمْ بِإِذْنِهِ (۳:۱۵۲)

جبکہ تم اس کے حکم سے انہیں کاٹ رہے تھے

یہاں بھی إِذْن سے مراد امر قدرت اور مشیت ہے یعنی اس نے تمہیں ان پر غلبہ دیا۔

وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا (۶۴)

اور اگر یہ لوگ جب انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، تیرے پاس آ جاتے

اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے اوررسول  ﷺ بھی ان کے لئے استغفار کرتے تو یقیناً یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو معاف کرنے والا مہربان پاتے۔‏

اللہ تعالیٰ عاصی اور خطاکاروں کو ارشاد فرماتا ہے کہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آ کر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرنا چاہیے اور خود رسول سے بھی عرض کرنا چاہیے کہ آپ ہمارے لئے دعائیں کیجئے جب وہ ایسا کریں گے تو یقیناً اللہ ان کی طرف رجوع کرے گا انہیں بخش دے گا اور ان پر رحم فرمائے گا

 ابو منصور صباغ نے اپنی کتاب میں جس میں مشہور قصے لکھے ہیں لکھا ہے:

 عتبی کا بیان ہے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تربت کے پاس بیٹھا ہوا تھا جبکہ ایک اعرابی آیا اور اس نے کہا اسلام علیکم یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نے قرآن کریم کی اس آیت کو سنا اور آپ کے پاس آیا ہوں تاکہ آپ کے سامنے اپنے گناہوں کا استغفار کروں اور آپ کی شفاعت طلب کروں پھر اس نے یہ اشعار پڑھے:

باخیر من دفنت بالقاع اعظمہ فطاب من طیبھن القاع والا کم

نفسی الفداء لقبر انت ساکنہ فیہ لعاف وفیہ الجودو الکرم

جن جن کی ہڈیاں میدانوں میں دفن کی گئی ہیں اور ان کی خوشبو سے وہ میدان ٹیلے مہک اٹھے ہیں اے ان تمام میں سے بہترین ہستی ،

میری جان اس قبر پر سے صدقے ہو جس کا ساکن تو ہے جس میں پارسائی سخاوت اور کرم ہے،

پھر اعرابی تو لوٹ گیا اور مجھے نیند آ گئی خواب میں کیا دیکھتا ہوں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ سے فرما رہے ہیں جا اس اعرابی کو خوش خبری سنا اللہ نے اس کے گناہ معاف فرما دئیے

یہ خیال رہے کہ نہ تو یہ کسی حدیث کی کتاب کا واقعہ ہے نہ اس کی کوئی صحیح سند ہے، بلکہ آیت کا یہ حکم حضور ﷺ کی زندگی میں ہی تھا وصال کے بعد نہیں جیسے کہ جَاءُوكَ کا لفظ بتلا رہا ہے اور مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ ہر انسان کا ہر عمل اس کی موت کے ساتھ منقطع ہو جاتا ہے واللہ اعلم۔ مترجم

فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ

سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مؤمن نہیں ہو سکتے جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں،

پھر اللہ تعالیٰ اپنی بزرگ اور مقدس ذات کی قسم کھا کر فرماتا ہے کہ کوئی شخص ایمان کی حدود میں نہیں آ سکتا جب تک کہ تمام امور میں اللہ کے اس آخر الزمان افضل تر رسول کو اپنا سچا حاکم نہ مان لے اور آپ کے ہر حکم ہر فیصلے ہر سنت اور ہر حدیث کو قابل قبول اور حق صریح تسلیم نہ کرنے لگے، دل کو اور جسم کو یکسر تابع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ بنا دے۔

غرض جو بھی ظاہر و باطن چھوٹے بڑے کل امور میں حدیث رسول ﷺ کو اصل اصول سمجھے وہی مؤمن ہے۔

ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (۶۵)

 پھر جو فیصلے تو  ان میں کر دے انسے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کرلیں ‏

پس فرمان ہے کہ تیرے احکام کو یہ کشادہ دلی سے تسلیم کرلیا کریں اپنے دل میں تنگی ترشی نہ لائیں تسلیم کلی تمام احادیث کے ساتھ رہے، نہ تو احادیث کے ماننے سے رکیں نہ انہیں بے اثر کرنے کے اسباب ڈھونڈیں نہ ان کے مرتبہ کی کسی اور چیز کو سمجھیں نہ ان کی تردید کریں نہ ان کا مقابلہ کریں نہ ان کے تسلیم کرنے میں جھگڑیں جیسے فرمان رسول ہے:

 اس کی قسم جس کے ہاتھ میری جان ہے تم میں سے کوئی صاحب ایمان نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنی خواہش کو اس چیز کا تابع نہ بنا دے جسے میں لایا ہوں،

صحیح بخاری شریف میں ہے:

حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کسی شخص سے نالیوں سے باغ میں پانی لینے کے بارے میں جھگڑا ہو پڑا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا زبیر ؓ تم پانی پلا لو اس کے بعد پانی کو انصاری کے باغ میں جانے دو

 اس پر انصاری نے کہا ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ تو آپ کے پھوپھی کے لڑکے ہیں یہ سن کر آپ کا چہرہ متغیر ہو سکتا ہے اور فرمایا زبیر تم پانی پلا لو پھر پانی کو روکے رکھو یہاں تک کہ باغ کی دیواروں تک پہنچ جائے پھر اپنے پڑوسی کی طرف چھوڑ دو

 پہلے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ایسی صورت نکالی تھی کہ جس میں حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تکلیف نہ ہو اور انصاری کشادگی ہو جائے لیکن جب انصاری نے اسے اپنے حق میں بہتر نہ سمجھا تو آپ نے حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کا پورا حق دلوایا

حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جہاں تک میرا خیال ہے یہ فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ  اسی بارے میں نازل ہوئی ہے،

مسند احمد کی ایک مرسل حدیث میں ہے کہ یہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بدری تھے

اور روایت میں ہے:

 دونوں میں جھگڑا یہ تھا کہ پانی کی نہر سے پہلے حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کھجوروں کا باغ پڑتا تھا پھر اس انصاری کا انصاری کہتے تھے کہ پانی دونوں باغوں میں ایک ساتھ آئے۔

 ابن ابی حاتم میں ہے کہ یہ دونوں دعویدار حضرت زبیر ؓ اور حضرت حاطب بن ابو بلتہ ؓ تھے آپ کا فیصلہ ان میں یہ ہوا کہ پہلے اونچے والا پانی پلا لے پھر نیچے والا۔

 دوسری ایک زیادہ غریب روایت میں شان نزول یہ مروی ہے:

 دو شخص اپنا جھگڑا لے کر دربار محمد ﷺمیں آئے آپ نے فیصلہ کر دیا لیکن جس کے خلاف فیصلہ تھا اس نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ ہمیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بھیج دیجئےآپ ﷺنے فرمایا بہت اچھا ان کے پاس چلے جاؤ

 جب یہاں آئے تو جس کے موافق فیصلہ ہوا تھا اس نے ساراہی واقعہ کہہ سنایاحضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس دوسرے سے پوچھا کیا یہ سچ ہے؟اس نے اقرار کیا

 آپ نے فرمایا اچھا تم دونوں یہاں ٹھہرو میں آتا ہوں اور فیصلہ کر دیتا ہوں تھوڑی دیر میں تلوار تانے آ گئے اور اس شخص کی جس نے کہا تھا کہ حضرت ہمیں عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بھیج دیجئے گردن اڑا دیدوسرا شخص یہ دیکھتے ہی دوڑا بھاگا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچا اور کہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرا ساتھی تو مار ڈالا گیا اور اگر میں بھی جان بچا کر بھاگ کر نہ آتا تو میری بھی خیر نہ تھی،

 آپ ﷺنے فرمایا میں عمر کو ایسا نہیں جانتا تھا کہ وہ اس جرأت کے ساتھ ایک مؤمن کا خون بہا دے گااس پر یہ آیت اتری اور اس کا خون برباد گیا اور اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بری کر دیا، لیکن یہ طریقہ لوگوں میں اس کے بعد بھی جاری نہ ہو جائے اس لئے اس کے بعد ہی یہ آیت اتری وَلَوْ أَنَّا كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ جو آگے آتی ہے ( ابن ابی حاتم)

ابن مردویہ میں بھی یہ روایت ہے جو غریب اور مرسل ہے اور ابن لہیعہ راوی ضعیف ہے واللہ اعلم۔

 دوسری سند سے مروی ہے:

دو شخص رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس اپنا جھگڑا لائے آپ نے حق والے کے حق میں ڈگری دے دی لیکن جس کے خلاف ہوا تھا اس نے کہا میں راضی نہیں ہوں

 آپ ﷺنے پوچھا تو کیا چاہتا ہے؟

 کہا یہ کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس چلیں دونوں وہاں پہنچے جب یہ واقعہ جناب صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سنا تو فرمایا تمہارا فیصلہ وہی ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا

 وہ اب بھی خوش نہ ہوا اور کہا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس چلو وہاں گئے پھر وہ ہوا جو آپ نے اوپر پڑھا (تفسیر حافظ ابو اسحاق)

وَلَوْ أَنَّا كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ أَنِ اقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ أَوِ اخْرُجُوا مِنْ دِيَارِكُمْ مَا فَعَلُوهُ إِلَّا قَلِيلٌ مِنْهُمْ ۖ

اگر ہم ان پر یہ فرض کر دیتے ہیں کہ اپنی جانوں کو قتل کر ڈالو یا اپنے گھروں سے نکل جاؤ! تو اسے ان میں سے بہت ہی کم لوگ حکم بجا لاتے

اللہ خبر دیتا ہے کہ اکثر لوگ ایسے ہیں کہ اگر انہیں ان منع کردہ کاموں کا بھی حکم دیا جاتا جنہیں وہ اس قوت سے کر رہے ہیں تو وہ ان کاموں کو بھی نہ کرتے اس لئے کہ ان کی ذلیل طبیعتیں حکم اللہ کی مخالفت پر ہی استوار ہوئی ہیں، پس اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کی خبردی ہے جو ظاہر نہیں ہوئی لیکن ہوتی تو کس طرح ہوتی ؟

 اس آیت کو سن کر ایک بزرگ نے فرمایا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمیں یہ حکم دیتا تو یقیناً ہم کر گزرتے لیکن اس کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اس سے بچالیا۔

جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ بات پہنچی تو آپ نے فرمایا بیشک میری اُمت میں ایسے ایسے لوگ بھی ہیں جن کے دلوں میں ایمان پہاڑوں سے بھی زیادہ مضبوط اور ثابت ہے۔ (ابن ابی حاتم)

اس روایت کی دوسری سند میں ہے کہ کسی ایک صحابہ رضوان اللہ علیہم نے یہ فرمایا تھا

سدی کا قول ہے کہ ایک یہودی نے حضرت ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فخریہ کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر خود ہمارا قتل بھی فرض کیا تو بھی ہم کر گزریں گے اس پر حضرت ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا واللہ اگر ہم پر یہ فرض ہوتا تو ہم بھی کر گزرتے اس پر یہ آیت اتری

 اور روایت میں ہے:

 جب یہ آیت اتری تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر یہ حکم ہوتا تو اس کے بجا لانے والوں میں ایک ابن ام عبد رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ہوتے ہیں (ابن ابی حاتم)

دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے اس آیت کو پڑھ کر حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف ہاتھ سے اشارہ کر کے فرمایا کہ یہ بھی اس پر عمل کرنے والوں میں سے ایک ہیں۔

وَلَوْ أَنَّهُمْ فَعَلُوا مَا يُوعَظُونَ بِهِ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ وَأَشَدَّ تَثْبِيتًا (۶۶)

اور اگر یہ وہی کریں جس کی انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو یقیناً یہی ان کے لئے بہتر اور زیادہ مضبوطی والا ہو  

ارشاد الہٰی ہے کہ اگر یہ لوگ ہمارے احکام بجا لاتے اور ہماری منع کردہ چیزوں اور کاموں سے رک جاتے تو یہ ان کے حق میں اس سے بہتر ہوتا

وَإِذًا لَآتَيْنَاهُمْ مِنْ لَدُنَّا أَجْرًا عَظِيمًا (۶۷)

اور تب تو انہیں ہم اپنے پاس سے بڑا ثواب دیں۔‏

وَلَهَدَيْنَاهُمْ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا (۶۸)

اور یقیناً انہیں راہ راست دکھا دیں۔‏

اور دنیا اور آخرت کی بہتر راہ کی رہنمائی کرتے

وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۚ

اور جو بھی اللہ تعالیٰ کی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کرے، وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا، جیسے نبی اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ،

پھر فرماتا ہے اور جو شخص اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام پر عمل کرے اور منع کردہ کاموں سے باز رہے اسے اللہ تعالیٰ عزت کے گھر میں لے جائے گا نبیوں کا رفیق بنائے گا اور صدیقوں کو جو مرتبے میں نبیوں کے بعد ہیں ان کا مصاحب بنائے گا شہیدوں مؤمنوں اور صالحین جن کا ظاہر باطن آراستہ ہے ان کا ہم جنس بنائے گا

وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا (۶۹)

یہ بہترین رفیق ہیں۔‏

خیال تو کرو یہ کیسے پاکیزہ اور بہترین رفیق ہے

صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں:

 میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا تھا کہ ہر نبی کو اس کے مرض کے زمانے میں دنیا میں رہنے اور آخرت میں جانے کا اختیار دیا جاتا ہے جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیمار ہوئے تو شدت نقاہت سے اٹھ نہیں سکتے تھے آواز بیٹھ گئی تھی لیکن میں نے سنا کہ آپ فرما رہے ہیں ان کا ساتھ جن پر اللہ نے انعام کیا جو نبی ہیں ، صدیق ہیں ، شہید ہیں، اور نیکو کار ہیں، یہ سن کر مجھے معلوم ہو گیا کہ اب آپ کو اختیار دیا گیا ہے ۔

یہی مطلب ہے جو دوسری حدیث میں آپ کے یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں کہ اے اللہ میں بلند و بالا رفیق کی رفاقت کا طالب ہوں یہ کلمہ آپ نے تین مرتبہ اپنی زبان مبارک سے نکالا پھر فوت ہوگئے علیہ افضل الصلوۃ والتسلیم ۔

آیت کا شان نزول

ابن جریر میں ہے:

 ایک انصاری حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے آپ نے دیکھا کہ سخت مغموم ہیں سبب دریافت کیا تو جواب ملا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہاں تو صبح شام ہم لوگ آپ کی خدمت میں آبیٹھتے ہیں دیدار بھی ہو جاتا ہے اور دو گھڑی صحبت بھی میسر ہو جاتی ہے لیکن کل قیامت کے دن تو آپ نبیوں کی اعلیٰ مجلس میں ہوں گے ہم تو آپ تک پہنچ بھی نہ سکیں گے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ جواب نہ دیا اس پر حضور جبرائیل یہ آیت لائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آدمی بھیج کر انہیں یہ خوشخبری سنا دی۔

یہی اثر مرسل سند بھی مروی ہے جو سند بہت ہی اچھی ہے

حضرت ربیع رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

 صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہا کہ یہ ظاہر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا درجہ آپ پر ایمان لانے والوں سے یقیناً بہت ہی بڑا ہے پس جب کہ جنت میں یہ سب جمع ہوں گے تو آپس میں ایک دوسرے کو کیسے دیکھیں گے اور کیسے ملیں گے ؟

پس یہ آیت اتری اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اوپر کے درجہ والے نیچے والوں کے پاس اتر آئیں گے اور پربہار باغوں میں سب جمع ہوں گے اور اللہ کے احسانات کا ذکر اور اس کی تعریفیں کریں گے اور جو چاہیں گے پائیں گے ناز و نعم سے ہر وقت رہیں گے۔

 ابن مردویہ میں ہے:

 ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ میں آپ کو اپنی جان سے اپنے اہل و عیال سے اور اپنے بچوں سے بھی زیادہ محبوب رکھتا ہوں ۔ میں گھر میں ہوتا ہوں لیکن شوق زیارت مجھے بیقرار کر دیتا ہے صبر نہیں ہو سکتا دوڑتا بھاگتا آتا ہوں اور دیدار کر کے چلا جاتا ہوں لیکن جب مجھے آپ کی اور اپنی موت یاد آتی ہے اور اس کا یقین ہے کہ آپ جنت میں نبیوں کے سب سے بڑے اونچے درجے میں ہوں گے تو ڈر لگتا ہے کہ پھر میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار سے محروم ہو جاؤں گا،آپ ﷺنے تو کوئی جواب نہیں دیا لیکن یہ آیت نازل ہوئی۔

صحیح مسلم شریف میں ہے:

 ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں رات کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں رہتا اور پانی وغیرہ لا دیا کرتا تھا ایک بار آپ نے مجھ سے فرمایا کچھ مانگ لے میں نے کہا جنت میں میں آپ کی رفاقت کا طالب ہوں

 فرمایا اس کے سوا اور کچھ؟

 میں نے کہا وہ بھی یہی

فرمایا میری رفاقت کے لئے میری مدد کر بکثرت سجدے کیا کر،

مسند احمد میں ہے:

 ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا میں اللہ کے لا شریک ہونے کی اور آپ کے رسول ہونے کی گواہی دیتا ہوں اور رمضان کے روزے رکھتا ہوں تو آپ ﷺنے فرمایا :

جو مرتے دم تک اسی پر رہے گا وہ قیامت کے دن نبیوں صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ اس طرح ہو گا پھر آپ نے اپنی دو انگلیاں اٹھا کر اشارہ کر کے بتایا۔ لیکن یہ شرط ہے کہ ماں باپ کا نافرمان نہ ہو

مسند احمد میں ہے:

 جس نے اللہ کی راہ میں ایک ہزار آیتیں پڑھیں وہ انشاء اللہ قیامت کے دن نبیوں کے صدیقوں شہیدوں اور صالحوں کے ساتھ لکھا جائے گا،

ترمذی میں ہے :

سچا امانت دار، تاجر نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہو گا،

 ان سب سے زیادہ زبردست بشارت اس حدیث میں ہے جو صحاح اور مسانید میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کی ایک زبردست جماعت ہے بتواتر مروی ہے:

 نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس شخص کے بارے میں دریافت کیا گیا جو ایک قوم سے محبت رکھتا ہے لیکن اس سے ملا نہیں تو آپ ﷺنے فرمایا :

الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَب

ہر انسان اس کے ساتھ ہو گا جس سے وہ محبت رکھتا تھا

حضرت انس ؓ فرماتے ہیں مسلمان جس قدر اس حدیث سے خوش ہوئے اتنا کسی اور چیز سے خوش نہیں ہوئی،

حضرت انس ؓ فرماتے ہیں واللہ میری محبت تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے حضرت ابوبکر ؓ سے ہے اور حضرت عمر ؓ سے ہے تو مجھے امید ہے کہ اللہ مجھے بھی انہی کے ساتھ اٹھائے گا گو میرے اعمال ان جیسے نہیں۔

یا اللہ تو ہمارے دل بھی اپنے نبی ﷺ اور ان کے چاہنے والوں کی محبت سے بھر دے اور ہمارا حشر بھی انہی کے ساتھ کر دے آمین

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :

جنتی لوگ اپنے سے بلند درجہ والے جنتیوں کو ان کے بالا خانوں میں اس طرح دیکھیں گے جیسے تم چمکتے ستارے کو مشرق یا مغرب میں دیکھتے ہو ان میں بہت کچھ فاصلہ ہو گا

 صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا یہ منزلیں تو انبیاء کرام کے لئے ہی مخصوص ہوں گی کوئی  اور وہاں تک کیسے پہنچ سکتا ہے ؟

 آپﷺ نے فرمایا کیوں نہیں اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ان منزلوں تک وہ بھی پہنچیں گے جو اللہ پر ایمان لائے رسولوں کو سچا جانا اور مانا (بخاری مسلم)

ایک حبشی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے آپﷺ فرماتے ہیں جو پوچھنا ہو پوچھو اور سمجھو

وہ کہتا ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کو صورت میں رنگ میں نبوت میں اللہ عزوجل نے ہم پر فضیلت دے رکھی ہے اگر میں بھی اس چیز پر ایمان لاؤں جس پر آپ ایمان لائے ہیں اور ان احکام کو بجا لاؤں جنہیں آپ بجا لا رہے ہیں تو کیا جنت میں آپ کا ساتھ ملے گا ؟

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں اس اللہ تعالیٰ کی قسم جس کے ہاتھ جگمگاتا ہوا نظر آئے گا ۔ لا الہ الا اللہ کہنے والے سے اللہ کا وعدہ ہے اور سبحان اللہ وبحمدہ کہنے والے کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں

 اس پر ایک اور صاحب نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب یہ حقائق ہیں تو پھر ہم کیسے ہلاک ہو سکتے ہیں؟

 تو آپ ﷺنے فرمایا ایک انسان قیامت کے دن اس قدر اعمال لے کر آئے گا اگر کسی پہاڑ پر رکھے جائیں تو وہ بھی بوجھل ہوئے لیکن ایک نعمت جو کھڑی ہو گی تو محض اس کے شکریہ میں ہی یہ اعمال کم نظر آئیں گے ہاں یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کاملہ سے اسے ڈھانک لے اور جنت دے دے اور یہ آیتیںهَلْ أَتَىٰ عَلَى الْإِنسَانِ سے وَمُلْكًا كَبِيرًا تک (۷۶:۱،۲۰)

 تو حبشی صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے لگایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا جنت میں جن جن چیزوں کو آپ کی آنکھیں دیکھیں گی میری آنکھیں بھی دیکھ سکیں گی؟

 آپﷺ نے فرمایا ہاں

 اس پر وہ حبشی فرط شوق میں روئے اور اس قدر روئے کہ اسی حالت میں فوت ہوگئے رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہ

حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے دیکھا کہ ان کی نعش مبارک کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قبر میں اتار رہے تھے

یہ روایت غریب ہے اور اس میں اصولی خامیاں بھی ہیں اس کی سند بھی ضعیف ہے۔

ذَلِكَ الْفَضْلُ مِنَ اللَّهِ ۚ وَكَفَى بِاللَّهِ عَلِيمًا (۷۰)

یہ فضل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور کافی ہے اللہ تعالیٰ جاننے والا ہے۔‏

 ارشاد الہٰی ہے یہ خاص اللہ کی عنایت اور اس کا فضل ہے اس کی رحمت سے ہی یہ اس کے قابل ہوئے نہ کہ اپنے اعمال سے ، اللہ خوب جاننے والا ہے اس بخوبی معلوم ہے کہ مستحق معلوم ہدایت و توفیق کون ہے؟

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا خُذُوا حِذْرَكُمْ فَانْفِرُوا ثُبَاتٍ أَوِ انْفِرُوا جَمِيعًا (۷۱)

اے مسلمانو! اپنے بچاؤ کا سامان لے لو پھر گروہ گروہ بن کر کوچ کرو یا سب کے سب اکھٹے ہو کر نکلو۔‏

اللہ رب العزت مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ ہر وقت اپنے بچاؤ کے اسباب تیار رکھیں ہر وقت ہتھیار بند رہیں تاکہ دشمن ان پر با آسانی کامیاب نہ ہو جائے۔ ضرورت کے ہتھیار تیار رکھیں اپنی تعداد بڑھاتے رہیں قوت مضبوط کرتے رہیں منظم مردانہ وار جہاد کے لئے بیک آواز اٹھ کھڑے ہوں چھوٹے چھوٹے لشکروں میں بٹ کر یا متحدہ فوج کی صورت میں جیسا موقعہ ہو

وَإِنَّ مِنْكُمْ لَمَنْ لَيُبَطِّئَنَّ فَإِنْ أَصَابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَالَ قَدْ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيَّ إِذْ لَمْ أَكُنْ مَعَهُمْ شَهِيدًا (۷۲)

اور یقیناً تم میں بعض وہ بھی ہیں جو پس و پیش کرتے ہیں پھر اگر تمہیں کوئی نقصان ہوتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر بڑا فضل کیا کہ میں ان کے ساتھ موجود نہ تھا۔‏

آواز سنتے ہی ہوشیار رہیں کہ منافقین کی خصلت ہے کہ خود بھی اللہ تعالیٰ کی راہ سے جی چرائیں اور دوسروں کو بھی بزدل بنائیں، جیسے عبداللہ بن ابی بن سلول سردار منافقین کا فعل تھا اللہ تعالیٰ اسے رسوا کرے اسکا کردار یہ تھا کہ اگر حکمت الٰہیہ سے مسلمانوں کو دشمنوں کے مقابلہ میں کامیابی نہ ہوتی دشمن ان پر چھا جاتا انہیں نقصان پہنچاتا ان کے آدمی شہید ہوتے تو یہ گھر بیٹھا خوشیاں مناتا اور اپنی دانائی پر اکڑتا اور اپنا اس جہاد میں شریک نہ ہونا اپنے حق میں اللہ تعالیٰ کا انعام قرار دیتا

 لیکن بےخبر یہ نہیں سمجھتا کہ جو اجر و ثواب ان مجاہدین کو ملا اس سب سے یہ بد نصیب یک لخت محروم رہا اگر یہ بھی ان میں شامل ہو یا تو غازی کا درجہ پاتا اپنے صبر کے ثواب سمیٹتا یا شہادت کے بلند مرتبے تک پہنچ جاتا،

وَلَئِنْ أَصَابَكُمْ فَضْلٌ مِنَ اللَّهِ لَيَقُولَنَّ كَأَنْ لَمْ تَكُنْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُ مَوَدَّةٌ يَا لَيْتَنِي كُنْتُ مَعَهُمْ فَأَفُوزَ فَوْزًا عَظِيمًا (۷۳)

اور اگر تمہیں اللہ تعالیٰ کا کوئی فضل مل جائے تو اس طرح کہ گویا تم میں ان میں دوستی تھی ہی نہیں کہتے ہیں کاش! میں بھی ان کے ہمراہ ہوتا تو بڑی کامیابی کو پہنچتا ۔

اور اگر مسلمان مجاہدین کا اللہ کا فضل معاون ہوتا یعنی یہ دشمنوں پر غالب آ جاتے ان کی فتح ہوتی دشمنوں کو انہوں نے پامال کیا اور مال غنیمت لونڈی غلام لے کر خیر عافیت ظفر اور نصرت کے ساتھ لوٹتے تو یہ انگاروں پر لوٹتا اور ایسے لمبے لمبے سانس لے کر ہائے وائے کرتا ہے اور اس طرح پچھتاتا ہے اور ایسے کلمات زبان سے نکالتا ہے گویا یہ دین تمہارا نہیں بلکہ اس کا دین ہے اور کہتا افسوس میں ان کے ساتھ نہ ہوا ورنہ مجھے بھی حصہ ملتا اور میں بھی لونڈی ، غلام، مال، متاع والا بن جاتا الغرض دنیا پر ریجھا ہوا اور اسی پر مٹا ہوا ہے۔

فَلْيُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يَشْرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا بِالْآخِرَةِ ۚ

پس جو لوگ دنیا کی زندگی کو آخرت کے بدلے بیچ چکے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنا چاہیے

پس اللہ کی راہ میں نکل کھڑے ہونے والے مؤمنوں کو چاہیے کہ ان سے جہاد کریں جو اپنے دین کو دنیا کے بدلے فروخت کر رہے ہیں اپنے کفر اور عدم ایمان کے باعث اپنی آخرت کو برباد کر کے دنیا بناتے ہیں۔

وَمَنْ يُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيُقْتَلْ أَوْ يَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا (۷۴)

اور جو شخص اللہ ٰ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے شہادت پالے یا غالب آ جائے، یقیناً ہم اسے بہت بڑا ثواب عنایت کرتے ہیں۔‏

 سنو!اللہ کی راہ کا مجاہد کبھی نقصان نہیں اٹھاتا اسکے دونوں ہاتھوں میں لڈو ہیں قتل کیا گیا تو اجر موجود غالب رہا تو ثواب حاضر

 بخاری مسلم میں ہے :

 اللہ کی راہ کے مجاہد کا ضامن خود اللہ عزوجل ہے یا تو اس فوت کر کے جنت میں پہنچائے گا  یا جس جگہ سے وہ چلا ہے وہیں اجر و غنیمت کے ساتھ صیح سالم واپس لائے گا فالحمد اللہ۔

وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ

بھلا کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان ناتواں مردوں، عورتوں اور ننھے ننھے بچوں کے چھٹکارے کے لئے جہاد نہ کرو؟

اللہ تعالیٰ مؤمنوں کو اپنی راہ کے جہاد کی رغبت دلاتا ہے اور فرماتا ہے کہ وہ کمزور بےبس لوگ جو مکہ میں ہیں جن میں عورتیں اور بچے بھی ہیں جو وہاں کے قیام سے اکتا گئے ہیں جن پر کفار نت نئی مصیبتیں توڑ رہے ہیں۔ جو محض بےبال و پر ہیں انہیں آزاد کراؤ،

الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ نَصِيرًا (۷۵)

جو یوں دعائیں مانگ رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ان ظالموں کی بستی سے ہمیں نجات دے

 اور ہمارے لئے خاص اپنے پاس سے حمایتی مقرر کر دے اور ہمارے لئے خاص اپنے پاس سے مددگار بنا

جو بےکس دعائیں مانگ رہے ہیں کہ اسی بستی یعنی مکہ سے ہمارا نکلنا ممکن ہو

،مکہ شریف کو اس آیت میں بھی قریہ کہا گیا ہے:

وَكَأَيِّن مِّن قَرْيَةٍ هِيَ أَشَدُّ قُوَّةً مِّن قَرْيَتِكَ الَّتِي أَخْرَجَتْكَ (۴۷:۱۳)

ہم نے کتنی بستیوں کو جو طاقت میں تیری اس بستی سے زیادہ تھیں جس سے تجھے نکالا گیا

اسی مکہ کے رہنے والے مسلمان کافروں کے ظلم کی شکایت بھی کر رہے ہیں اور ساتھ ہی اپنی دعاؤں میں کہہ رہے ہیں کہ اے رب کسی کو اپنی طرف سے ہمارا ولی اور مددگار بنا کر ہماری امداد کو بھیج۔

صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت عبداللہ بن عباسؓ انہی کمزوروں میں تھے

اور روایت میں ہے کہ آپ نےآیت وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ پڑھ کر فرمایا میں اور میری والدہ صاحبہ بھی انہی لوگوں میں سے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے معذور رکھا ۔

الَّذِينَ آمَنُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ

جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں

ارشاد ہے ایماندار اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور اس کی رضا جوئی کے لئے جہاد کرتے ہیں

وَالَّذِينَ كَفَرُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُوا أَوْلِيَاءَ الشَّيْطَانِ ۖ

 اور جن لوگوں نے کفر کیا، وہ اللہ تعالیٰ کے سوا اوروں کی راہ میں لڑتے ہیں پس تم شیطان کے دوستوں سے جنگ کرو

اور کفار اطاعت شیطان میں لڑتے ہیں تو مسلمانوں کو چاہیے کہ شیطان کے دوستوں سے جو جو اللہ کے دشمن ہیں دل کھول کر جنگ کریں

إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفًا (۷۶)

 یقین مانو کہ شیطانی حیلہ ( بالکل بودا اور) سخت کمزور ہے۔

 اور یقین مانیں کہ شیطان کے ہتھکنڈے اور اس کے مکر و فریب سب نقش برآب ہیں۔

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ قِيلَ لَهُمْ كُفُّوا أَيْدِيَكُمْ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ

کیا تم نے نہیں دیکھا جنہیں حکم کیا گیا تھا کہ اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو اور نمازیں پڑھتے رہو اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو،

واقعہ بیان ہو رہا ہے کہ ابتدائے اسلام میں جب مکہ شریف میں تھے کمزور تھے حرمت والے شہر میں تھے کفار کا غلبہ تھا یہ انہی کے شہر میں تھے وہ بکثرت تھے جنگی اسباب میں ہر طرح فوقیت رکھتے ہیں، اس لئے اس وقت اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جہاد و قتال کا حکم نہیں دیا تھا، بلکہ ان سے فرمایا تھا کہ کافروں کی ایذائیں سہتے چلے جائیں ان کی مخالفت برداشت کریں، ان کے ظلم و ستم برداشت کریں، جو احکام اللہ نازل ہو چکے ہیں ان پر عامل رہیں نماز ادا کرتے رہیں زکوٰۃ دیتے رہا کریں،

گو ان میں عموماً مال کی زیادتی بھی نہ تھی لیکن تاہم مسکینوں اور محتاجوں کے کام آنے کا اور ان کی ہمدردی کرنے کا انہیں حکم دیا گیا تھا مصلحت الہٰی کا تقاضہ یہ تھا کہ سردست یہ کفار سے نہ لڑیں بلکہ صبر و ضبط سے کام لیں

 ادھر کافی بڑی دلیری سے ان پر ستم کے پہاڑ توڑ رہے تھے ہر چھوٹے بڑے کو سخت سے سخت سزائیں دے رہے تھے، مسلمانوں کا ناک میں دم کر رکھا تھا اس لئے ان کے دل میں رہ رہ کر جوش اٹھتا تھا اور زبان سے الفاظ نکل جاتے تھے کہ اس روز مرہ کی مصیبتوں سے تو یہی بہتر ہے کہ ایک مرتبہ دل کی بھڑاس نکل جائے، دو دو ہاتھ میدان میں ہو لیں کاش کہ اللہ تعالیٰ ہمیں جہاں کا حکم دے دے، لیکن اب تک حکم نہیں ملا تھا،

جب انہیں ہجرت کی اجازت ملی اور مسلمان اپنی زمین، زر، رشتہ ، کنبے، اللہ عزوجل کے نام پر قربان کر کے اپنا دین لے کر مکہ سے ہجرت کر کے مدینے پہنچے یہاں انہیں اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کی سہولت دی امن کی جگہ دی امداد کے لئے انصار مدینہ دئیے، تعداد میں کثرت ہو گئی قوت و طاقت قدر بڑھ گئی تو اب اللہ حاکم مطلق کی طرف سے اجازت ملی کہ اپنے لڑنے والوں سے لڑو،

فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ إِذَا فَرِيقٌ مِنْهُمْ يَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْيَةِ اللَّهِ أَوْ أَشَدَّ خَشْيَةً ۚ

پھر جب انہیں جہاد کا حکم دیا گیا تو اسی وقت ان کی ایک جماعت لوگوں سے اس قدر ڈرنے لگی جیسے اللہ تعالیٰ کا ڈر ہو، بلکہ اس سے بھی زیادہ،

 جہاد کا حکم اترتے ہی بعض لوگ سٹ پٹائے، خوف زدہ ہوئے جہاد کا تصور کر کے میدان میں قتل کئے جانے کا تصور عورتوں کے رنڈاپے کا خیال، بچوں کی یتیمی کا منظر آنکھوں کے سامنے آگیا

وَقَالُوا رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَيْنَا الْقِتَالَ لَوْلَا أَخَّرْتَنَا إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ ۗ

اور کہنے لگے اے ہمارے رب! تو نے ہم پر جہاد کیوں فرض کر دیا کیوں ہمیں تھوڑی سی زندگی اور نہ جینے دیا؟

گھبراہٹ میں کہہ اٹھے کہ اے اللہ ابھی سے جہاد کیوں فرض کر دیا کچھ تو مہلت دی ہوتی۔

 اسی مضمون کو دوسری آیتوں میں اس طرح بیان کیا گیا ہے ۔

وَيَقُولُ الَّذِينَ ءَامَنُواْ لَوْلاَ نُزِّلَتْ سُورَةٌ فَإِذَآ أُنزِلَتْ سُورَةٌ مُّحْكَمَةٌ وَذُكِرَ فِيهَا الْقِتَالُ (۴۷:۲۰)

اور جو لوگ ایمان لائے اور کہتے ہیں کوئی سورت کیوں نازل نہیں کی گئی؟ پھر جب کوئی صاف مطلب والی سورت نازل کی جاتی ہے اور اس میں قتال کا ذکر کیا جاتا ہے

مختصر مطلب یہ ہے کہ ایماندار کہتے ہیں کوئی سورت کیوں نازل نہیں کی جاتی جب کوئی سورت اتاری جاتی ہے اور اس میں جہاد کا ذکر ہوتا ہے تو بیمار دل لوگ چیخ اٹھتے ہیں ٹیڑھے تیوروں سے تجھے گھورتے ہیں اور موت کی غشی والوں کی طرح اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہیں ان پر افسوس ہے

حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھی مکہ شریف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں اے نبی اللہ ہم کفر کی حالت میں ذی عزت تھے آج اسلام کی حالت میں ذلیل سمجھے جانے لگے (مطلب یہ تھا کہ آپ ﷺ کی حکم برداری ضروری ہے اور آپ ﷺ مقابلہ سے منع کرتے ہیں جن سے کفار کی جرأت بڑھ گئی ہے۔ اور وہ ہمیں ذلیل کرنے لگے ہیں تو آپ ہمیں مقابلہ کی اجازت کیوں نہیں دیتے؟)

لیکن آپ ﷺنے جواب دیا مجھے اللہ کا حکم یہی ہے کہ ہم درگزر کریں کافروں سے جنگ نہ کریں۔ پھر جب مدینہ کی طرف ہجرت ہوئی اور جہاد کے احکام نازل ہوئے تو لوگ ہچکچانے لگے اس پر یہ آیت اتری (نسائی حاکم ابن مردویہ)

سدی فرماتے ہیں صرف صلوٰۃو زکوٰۃ کا حکم ہی تھا تو تمنائیں کرتے تھے کہ جہاد فرض ہو

 جب فریضہ جہاد نازل ہوا تو کمزور دل لوگ انسانوں سے ڈرنے لگے جیسے اللہ سے ڈرنا چاہیے بلکہ اس سے بھی زیادہ کہنے لگے اے رب تو نے ہم پر جہاد کیوں فرض کیا کیوں ہمیں اپنی موت کے صحیح وقت تک فائدہ نہ اٹھانے دیا۔

قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيلٌ وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ لِمَنِ اتَّقَى وَلَا تُظْلَمُونَ فَتِيلًا (۷۷)

آپ کہہ دیجئے کہ دنیا کی سود مندی تو بہت ہی کم ہے اور پرہیزگاروں کے لئے تو آخرت ہی بہتر ہے اور تم پر ایک دھاگے کے برابر بھی ستم روانہ رکھا جائے گا۔‏

انہیں جواب ملتا کہ دنیوی نفع بالکل ناپائیدار اور بہت ہی کم ہے ہاں متقیوں کے لئے آخرت دنیا سے بہتر اور پاکیزہ تر ہے۔

حضرت مجاہد فرماتے ہیں یہ آیت یہودیوں کے بارے میں اتری ہے،

جواباً کہا گیا کہ پرہیزگاروں کا انجام آغاز سے بہت ہی اچھا ہے۔تمہیں تمہارے اعمال پورے پورے دیئے جائیں گے کامل اجر ملے گا ایک بھی نیک عمل غارت نہ کیا جائے گا ناممکن ہے کہ ایک بال برابر ظلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی پر کیا جائے۔

اس جملے میں انہیں دنیا سے بےرغبتی دلائی جا رہی ہے آخرت کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے جہاد کی رغبت دی جا رہی ہے

حضرت حسن فرماتے ہیں اللہ اس بندے پر رحم کرے جو دنیا کے ساتھ ایسا ہی رہے ساری دنیا اول سے آخرت تک اس طرح ہے جیسے کوئی سویا ہوا شخص اپنے خواب میں اپنی پسندیدہ چیز کو دیکھے لیکن آنکھ کھلتے ہیں معلوم ہو جاتا ہے کہ کچھ نہ تھا

حضرت ابو مصہر کا یہ کلام کتنا پیارا ہے

ولا خیر فی الدنیا لمن لم یکن لہ من اللہ فی دار المقام نصیب

فان تعجب الدنیا رجالا فانھا متاع قلیل والزوال قریب

یعنی اس شخص کے لئے دنیا بھلائی سے یکسر خالی ہے جسے کل آخرت کا کوئی حصہ ملنے والا نہیں۔

گودنیا کو دیکھ دیکھ کر بعض لوگ ریجھ رہے ہیں لیکن دراصل یہ یونہی سا فائدہ ہے اور وہ بھی جلد فنا ہو جانے والا۔

أَيْنَمَا تَكُونُوا يُدْرِكْكُمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنْتُمْ فِي بُرُوجٍ مُشَيَّدَةٍ ۗ

تم جہاں کہیں بھی ہو موت تمہیں آ کر پکڑے گی گو تم مضبوط قلعوں میں ہو

پھر ارشاد باری ہے کہ آخرش موت کا مزا ہر ایک چکھنا ہی ہے کوئی ذریعہ کسی کو اس سے بچا نہیں سکتا، جسے فرمان ہے:

كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ (۵۵:۲۶)

جتنے یہاں ہیں سب فانی ہیں،

 اور جگہ ارشاد ہے:

كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ (۲۱:۳۵)

ہر جاندار موت کا مزہ چکھنے والا ہے۔

فرماتا ہے:

وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّن قَبْلِكَ الْخُلْدَ (۲۱:۳۴)

آپ سے پہلے کسی انسان کو بھی ہم نے ہمیشگی نہیں دی

مقصد یہ ہے کہ خواہ جہاد کر لے یا نہ کرے ذات اللہ کے سوا موت کا مزا تو ایک نہ ایک روز ہر کسی کو چکھنا ہی پڑے گا۔ ہر ایک کا ایک وقت مقرر ہے اور ہر ایک کی موت کی جگہ معین ہے،

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت جبکہ آپ بستر مرگ پر ہیں فرماتے ہیں:

 اللہ کی قسم فلاں جگہ فلاں جگہ غرض بیسیوں لڑائیوں میں سینکڑوں معرکوں میں گیا ثابت قدمی پامردی کے ساتھ دلیرانہ جہاد کئے آؤ دیکھ لو میرے جسم کا کوئی عضو ایسا نہ پاؤ گے جہاں کوئی نہ کوئی نشان نیزے یا برچھے یا تیر یا بھالے کا تلوار اور ہتھیار کا نہ ہو لیکن چونکہ میدان جنگ میں موت نہ لکھی تھی اب دیکھو اپنے بسترے پر اپنی موت مر رہا ہوںؔ کہاں ہیں لڑائی سے جی چرانے والے نامرد میری ذات سے سبق سیکھیں۔

پھر فرمایا کہ موت کے پنجے سے بلند و بالا مضبوط اور مضبوظ قلعے اور محل بھی بچا نہیں سکتے ۔

بُرُوجٍ مُشَيَّدَةٍ سے بعض نے کہا مراد اس سے آسمان کے برج ہیں، لیکن یہ قول ضعیف ہے صحیح یہی ہے کہ مراد محفوظ مقامات ہیں یعنی کتنی ہی حفاظت موت سے کی جائے۔ لیکن وہ اپنے وقت سے آگے پیچھے نہیں ہو سکتی

زہیر کا شعر ہے کہ موت سے بھاگنے والا گو زینہ لگا کر اسباب آسمانی بھی جمع کر لے تو بھی اسے کوئی نفع نہیں پہنچ سکتا،

ابن جریر اور ابن ابی حاتم میں اس موقعہ پر ایک مطول قصہ بزبان حضرت مجاہد مروی ہے

اگلے زمانے میں ایک عورت حاملہ تھی جب اسے درد ہونے لگے اور بچی تولد ہوئی تو اس نے اپنے ملازم سے کہا کہ جاؤ کہیں سے آگ لے آؤ وہ باہر نکلا تو دیکھا کہ دروازے پر ایک شخص کھڑا ہے پوچھتا ہے کہ کیا ہوا لڑکی یا لڑکا ؟اس نے کہا لڑکی ہوئی ہے

 کہا سن یہ لڑکی ایک سو آدمیوں سے زنا کرائے گی پھر اس کے ہاں اب جو شخص ملازم ہے اسی سے اس کا نکاح ہوگا اور ایک مکڑی اس کی موت کا باعث بنے گی۔

یہ شخص یہیں سے پلٹ آیا اور آتے ہی ایک تیز چھری لے کر اس لڑکی کے پیٹ کو چیر ڈالا اور اسے مردہ سمجھ کر وہاں سے بھاگ نکلا

اس کی ماں نے یہ حال دیکھ کر اپنی بچی کے پیٹ کو ٹانکے دئیے اور علاج معالجہ شروع کیا جس سے اس کا زخم بھر گیا اب ایک زمانہ گزر گیا ادھر یہ لڑکی بلوغت کو پہنچ گئی اور تھی بھی اچھی شکل و صورت کی بدچلنی میں پڑگئی

ادھر ملازم سمندر کے راستے کہیں چلا گیا کام کاج شروع کیا اور بہت رقم پیدا کی کل مال سمیٹ کر بہت مدت بعد یہ پھر اسی اپنے گاؤں میں آ گیا ایک بڑھیا عورت کو بلا کر کہا کہ میں نکاح کرنا چاہتا ہوں گاؤں میں جو بہت خوبصورت عورت ہو اس سے میرا نکاح کرا دو، یہ عورت گئی اور چونکہ شہر بھر میں اس لڑکی سے زیادہ خوش شکل کوئی عورت نہ تھی یہیں پیغام بھیجا، منظور ہو گیا، نکاح بھی ہو گیا اور وداع ہو کر یہ اس کے ہاں آ بھی گئی دونوں میاں بیوی میں بہت محبت ہو گئی ، ایک دن ذکر اذکار میں اس عورت نے اس سے پوچھا آپ کون ہیں کہاں سے آئے ہیں یہاں کیسے آ گئے؟

اس نے اپنا تمام ماجرا بیان کر دیا کہ میں یہاں ایک عورت کے ہاں ملازم تھا اور وہاں سے اس کی لڑکی کے ساتھ یہ حرکت کرکے بھاگ گیا تھا اب اتنے برسوں کے بعد یہاں آیا ہوںتو اس لڑکی نے کہا جس کا پیٹ چیر کر تم بھاگے تھے میں وہی ہوں یہ کہہ کر اپنے اس زخم کا نشان بھی اسے دکھایاتب تو اسے یقین ہو گیا اور کہنے لگا جب تو وہی ہے تو ایک بات تیری نسبت مجھے اور بھی معلوم ہے وہ یہ کہ تو ایک سو آدمیوں سے مجھ سے پہلے مل چکی ہے

 اس نے کہا ٹھیک ہے یہ کام تو مجھ سے ہوا ہے لیکن گنتی یاد نہیں۔

 اس نے کہاکہ مجھے تیری نسبت ایک اور بات بھی معلوم ہے وہ یہ کہ تیری موت کا سبب ایک مکڑی بنے گی، خیر چونکہ مجھے تجھ سے بہت زیادہ محبت ہے میں تیرے لئے ایک بلند وبالا پختہ محل تعمیر کرادیتا ہوں اسی میں تو رہ تاکہ وہاں تک ایسے کیڑے مکوڑے پہنچ ہی نہ سکیں

چنانچہ ایسا ہی محل تیار ہوا اور یہ وہاں رہنے لگی، ایک مدت کے بعد ایک روز دونوں میاں بیوی بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک چھت پر ایک مکڑی دکھائی دی اسے دیکھتے ہیں اس شخص نے کہادیکھو آج یہاں مکڑی دکھائی دی

 عورت بولی اچھا یہ میری جان لیوا ہے ؟ تو میں اس کی جان لوں گی غلاموں کو حکم دیا کہ اسے زندہ پکڑ کر میرے سامنے لاؤ نوکر پکڑ کر لے آئے اس نے زمین پر رکھ کر اپنے پیر کے انگوٹھے سے اسے مل ڈالا اس کی جان نکل گئی لیکن اس میں سے پیپ کا ایک آدھ قطرہ اس کے انگوٹھے کے ناخن اور گوشت کے درمیان اڑ کر چپک گیا اس کا زہر چڑھا پیر سیاہ پڑ گیا اور اسی میں آخر مر گئی،

حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر جب باغی چڑھ دوڑے تو آپ نے اُمت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خیر خواہی اور ان کے اتفاق کی دعا کے بعد دو شعر پڑھے جن کا مطلب بھی یہی ہے

موت کو ٹالنے والی کوئی چیز اور کوئی حیلہ کوئی قوت اور کوئی چالاکی نہیں،

 ابن ہشام میں حضر کے بادشاہ ساطرون کو کسرفی شاپور ذوالا کناف نے جس طرح قتل کیا وہ واقعہ بھی ہم یہاں لکھتے ہیں

جب شاہ پور عراق میں تھا تو اس کے علاقہ یر ساطرون نے چڑھائی کی تھی اس کے بدلے میں جب اس نے چڑھائی کی تو یہ قلعہ بند ہو گیا دو سال تک محاصرہ رہا لیکن قلعہ فتح نہ ہو سکا ایک روز ساطرون کی بیٹی نضیرہ اپنے باپ کے قلعہ کا گشت لگا رہی تھی اچانک اس کی نظر شاہ پور پر پڑھ گئی یہ اس وقت شاہانہ پر تکلف ریشمی لباس میں تاج شاہی سر پر رکھے ہوئے تھا نضیرہ کے دل میں آیا کہ اس سے میری شادی ہو جائے تو کیا ہی اچھا ہو؟

چنانچہ اس نے خفیہ پیغام بھیجنے شروع کیے اور وعدہ ہو گیا کہ اگر یہ لڑکی اس قلعہ پر شاہ پور کا قبضہ کرا دے تو شاہ پور اس سے نکاح کر لے گی اس کا باپ ساطرون بڑا شرابی تھا اس کی ساری رات نشہ میں کٹتی تھی اس کی لڑکی نے موقعہ پا کر رات کو اپنے باپ کو نشہ میں مد ہوش دیکھ کر اس کے سرہانے سے قلعہ کے دروازے کی کنجیاں چپکے سے نکال لیں اور اپنے ایک با اعتماد غلام کے ہاتھ ساطرون تک پہنچا دیں جس سے اس نے دروازہ کھول لیا اور شہر میں قتل عام کرایا اور قابض ہو گیا

یہ بھی کہا گیا کہ اس قلعہ میں ایک جادو تھا جب تک اس طلسم کو توڑا نہ جائے قلعہ کا فتح ہونا ناممکن تھا اس لڑکی نے اس کے توڑنے کا گر اسے بتا دیا کہ ایک چت کبرا کبوتر لے کر اس کے پاؤں کسی باکرہ کے پہلے حیض کے خون سے رنگ لو پھر اس کبوتر کو چھوڑو وہ جا کر قلعہ کی دیوار پر بیٹھے تو فوراً وہ طلسم ٹوٹ جائے گا اور قلعہ کا پھاٹک کھل جائے گا

چنانچہ شاہ پور نے یہی کیا اور قلعہ فتح کر کے ساطرون کو قتل کر ڈالا تمام لوگوں کو تیغ کیا اور تمام شہر کو اجاڑ دیا اور اس لڑکی کو اپنے ہمراہ لے گیا اور اس سے نکاح کر لیا۔

 ایک رات جبکہ لڑکی نضیرہ اپنے بسترے پر لیٹی ہوئی تھی اسنے نیند نہ آ رہی تھی تلملا رہی تھی اور بےچینی سے کروٹیں بدل رہی تھی تو شاہ پور نے پوچھا کیا بات ہے اس نے کہا میرے بستر میں کچھ ہے جس سے مجھے نیند نہیں آ رہی،شمع جلائی گئی بستر ٹٹولا گیا تو گل آس کی ایک بتی نکلی شاہ پور اس نزاکت پر حیران رہ گیا کہ ایک اتنی چھوٹی سی بتی بستر میں ہونے پر اسے نیند نہیں آئی؟

پوچھا تیرے والد کے ہاں تیرے لئے کیا ہوتا تھا؟

 اس نے کہا نرم ریشم کا بسترا تھا صرف باریک نرم ریشمی لباس تھا صرف نلیوں کا گودا کھایا کرتی تھی اور صرف انگوری خالص شراب پیتی تھی۔ یہ انتظام میرے باپ نے میرے لئے کر رکھا تھا۔ یہ تھی بھی ایسی کہ اس کی پنڈلی کا گودا تک باہر سے نظر آتا تھا ۔

 ان باتوں سے شاہ پور پر ایک اور رنگ چڑھا دیا اور اس نے کہا جس باپ نے تجھے اس طرح پالا پوسا اس کے ساتھ تو نے یہ سلوک کیا کہ میرے ہاتھوں اسے قتل کرایا اس کے ملک کو تاخت و تاراج کرایا پھر مجھے تجھ سے کیا امید رکھنی چاہیے؟

 اللہ جانے میرے ساتھ تو کیا کرے؟

اسی وقت حکم دیا کہ اس کے سر کے بال گھوڑے سے باندھ دیئے جائیں اور گھوڑے کو بےلگام چھوڑ دیا جائے ، چنانچہ یہی ہوا گھوڑا بد کا بھاگا اچھلنے کودنے لگا اور اس کی ٹاپوں سے زمین پر پچھاڑیں کھاتے ہوئے اس کے جسم کا چورا چورا ہوگیا۔

چنانچہ اس واقعہ کو عرب شعراء نے نظم بھی کیا ہے

وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا هَذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ ۖ وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَقُولُوا هَذِهِ مِنْ عِنْدِكَ ۚ

اور اگر انہیں کوئی بھلائی ملتی ہے تو کہتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اگر کوئی برائی پہنچتی ہے تو کہہ اٹھتے ہیں کہ یہ تیری طرف سے ہے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر انہیں خوش حالی پھلواری اولاد و کھیتی ہاتھ لگے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر قحط سالی پڑے تنگ روزی اور موت اور کمی اولاد و مال کی اور کھیت اور باغ کی ہو تو جھٹ سے کہہ اٹھتے ہیں کہ یہ نتیجہ ہے نبی کی تابعداری کا یہ فائدہ ہے مسلمان ہونے کا  یہ پھل ہے صاحب ایمان بننے کا، فرعونی بھی اسی طرح برائیوں کو حضرت موسیٰ اور مسلمانوں سے منسوب بد شگونی لیا کرتے تھے جیسے کہ قرآن نے اس کا ذکر کیا ہے ایک آیت میں ہے:

وَمِنَ النَّاسِ مَن يَعْبُدُ اللَّهَ عَلَىٰ حَرْفٍ ۖ ۔۔۔ ذَ‌ٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ (۲۲:۱۱)

بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ ایک کنارے پر (کھڑے) ہو کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔

اگر کوئی نفع مل گیا تو دلچسپی لینے لگتے ہیں اور اگر کوئی آفت آگئی تو اسی وقت منہ پھیر لیتے ہیں انہوں نے دونوں جہان کا نقصان اٹھا لیا واقعی یہ کھلا نقصان ہے۔‏

 پس یہاں بھی ان منافقوں کی جو بظاہر مسلمان ہیں اور دل کے کھوٹے ہیں برائی بیان ہو رہی ہے۔ کہ جہاں کچھ نقصان ہوا اور بہک گئے کہ اسلام لانے کی وجہ سے ہمیں نقصان ہوا۔

سدی فرماتے ہیں کہ حَسَنَةٌ سے مراد یہاں بارشوں کا ہونا جانوروں میں زیادتی ہونا بال بچے بکثرت ہونا خوشحالی میسر آنا وغیرہ ہے

اگر یہ ہوا تو کہتے کہ یہ سب من جانب اللہ ہے اور اگر اس کے خلاف ہو تو اس بےبرکتی کا باعث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتاتے اور کہتے یہ سب تیری وجہ سے ہے یعنی ہم نے اپنے بڑوں کی راہ چھوڑ دی اور اس نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تابعداری اختیار کی اس لئے اس مصیبت میں پھنس گئے اور اس بلا میں گرفتار ہوئے

قُلْ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ ۖ

انہیں کہہ دو کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔

پس پروردگار ان کے ناپاک قول اور اس پلید عقیدے کی تردید کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے ، اس کی قضا و قدر ہر بھلے برے فاسق فاجر نیک بد مؤمن کافر پر جاری ہے، بھلائی برائی سب اس کی طرف سے ہے

بزار میں ایک غریب حدیث جو كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ  کے متعلق ہے اسے بھی سنئے :

ہم رسول اللہ ﷺکے ساتھ بیٹھے تھے کہ کچھ لوگوں کے ہمراہ ابوبکر ؓاور حضرت عمرؓ آئے ان دونوں کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں اور حضور ﷺ کے قریب آ کر دونوں صاحب بیٹھ گئے توحضور ﷺ نے دریافت کیا کہ بلند آواز گفتگو کیا ہو رہی تھی؟

 ایک شخص نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو کہہ رہے تھے  نیکیاں اور بھلائیاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور برائیاں اور بدیاں ہماری طرف سے ہیں۔

 آپ ﷺنے حضرت عمرؓ سے پوچھا کہ وہ کیا کہہ رہے تھے ؟

حضرت عمرؓنے کہا میں کہہ رہا تھا کہ دونوں باتیں اللہ جل شانہ کی طرف سے ہیں

 آپ ﷺنےفرمایا یہی بحث اول اول حضرت جبرائیل اور حضرت میکائیل  میں ہوئی تھی حضرت میکائیل وہی کہتے تھے جو ابوبکر ؓ  اور حضرت جبرائیل وہ کہہ رہے تھے جو  حضرت عمر فاروق ؓتم کہ رہے ہو۔ پس آسمان والوں میں جب اختلاف ہوا تو زمین والوں میں تو ہونا لازمی تھا، آخر حضرت اسرافیل کی طرف فیصلہ گیا اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ حسنات اور سیات دونوں اللہ مختار کل کی طرف سے ہیں، پھر آپ نے دونوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا میرا فیصلہ سنو اور یاد رکھو اگر اللہ تعالیٰ اپنی نافرمانی کے عمل کو نہ چاہتا تو ابلیس کو پیدا ہی نہ کرتا،

 لیکن شیخ الاسلام امام تقی الدین ابو العباسؓ حضرت ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ حدیث موضوع ہے اور تمام ان محدثین کا جو حدیث کی پرکھ رکھتے ہیں اتفاق ہے کہ یہ روایت گھڑی ہوئی ہے ۔

فَمَالِ هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا (۷۸)

 انہیں کیا ہوگیا ہے کہ کوئی بات سمجھنے کے بھی قریب نہیں  

 پھر ان کے اس قول کی جو محض شک و شبہ کم علمی بےوقوفی جہالت اور ظلم کی بنا پر ہے تردید کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ انہیں کیا ہو گیا ہے؟ بات سمجھنے کی قابلیت بھی ان سے جاتی رہی۔

مَا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّهِ ۖ وَمَا أَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ نَفْسِكَ ۚ

تجھے جو بھلائی ملتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور جو برائی پہنچتی ہے وہ تیرے اپنے نفس کی طرف سے ہے

پھر اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خطاب فرماتے ہیں جس سے مراد عموم ہے یعنی سب سے ہی خطاب ہے کہ تمہیں جو بھلائی پہنچتی ہے وہ اللہ کا فضل لطف رحمت اور جو برائی پہنچتی ہے وہ خود تمہاری طرف سے تمہارے اعمال کا نتیجہ ہے،جیسے اور آیت میں ہے:

وَمَآ أَصَـبَكُمْ مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُواْ عَن كَثِيرٍ (۴۲:۳۰)

جو مصیبت تمہیں پہنچتی ہے ۔ وہ تمہارے بعض اعمال کی وجہ سے اور ابھی تو اللہ تعالیٰ بہت سی بد اعمالیوں سے در گزر فرماتا رہتا ہے

فَمِنْ نَفْسِكَ سے مراد بسبب گناہ ہے یعنی شامت اعمال

 آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

جس شخص کا ذرا سا جسم کسی لکڑی سے جل جائے یا اس کا قدم پھسل جائے یا اسے ذرا سی محنت کرنی پڑے جس سے پسینہ آ جائے تو وہ بھی کسی نہ کسی گناہ پر ہوتا ہے اور ابھی تک تو اللہ تعالیٰ جن گناہوں سے چشم پوشی فرماتا ہے جنہیں معاف کر دیتا ہے وہ بہت سارے ہیں،

 اس مرسل حدیث کا مضمون ایک متصل حدیث میں بھی ہے :

حضور ﷺفرماتے ہیں اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ایمان دار کو رنج یا جو بھی تکلیف و مشقت پہنچتی ہے یہاں تک کہ جو کانٹا بھی لگتا ہے اسے اللہ تعالیٰ اس کی خطاؤں کا کفارہ بنا دیتا ہے،

 ابو صالح فرماتے ہیں مطلب اس آیت کا یہ ہے کہ جو برائی تجھے پہنچتی ہے اس کا باعث تیرا گناہ ہے ہاں اسے مقدر کرنے والا اللہ تعالیٰ آپ ہے،

حضرت مطرف بن عبداللہ فرماتے ہیں  تم تقدیر کے بارے میں کیا جانتے ہو؟ کیا تمہیں سورہ نساء کی یہ آیت کافی نہیں، پھر اس آیت کو پڑھ کر فرماتے ہیں اللہ سبحانہ کی قسم لوگ اللہ سبحانہ کی طرف سونپ نہیں دئیے گئے انہیں حکم دیئے گئے ہیں اور اسی کی طرف وہ لوٹتے ہیں

 یہ قول بہت قوی اور مضبوط ہے قدریہ اور جبریہ کی پوری تردید کرتا ہے، تفسیر اس بحث کا موضوع نہیں ،

وَأَرْسَلْنَاكَ لِلنَّاسِ رَسُولًا ۚ وَكَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا (۷۹)

ہم نے تجھے تمام لوگوں کو پیغام پہنچانے والا بنا کر بھیجا ہے اور اللہ تعالیٰ گواہ کافی ہے۔‏

 فرماتا ہے کہ تیرا کام اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شریعت کی تبلیغ کرنا ہے اس کی رضامندی اور ناراضگی کے کام کو اس کے احکام اور اس کی ممانعت کو لوگوں تک پہنچا دینا ہے، اللہ کی گواہی کافی ہے کہ اس نے تجھے رسول بنا کر بھیجا ہے، اسی طرح کی گواہی اس امر پر بھی کافی ہے کہ تو نے تبلیغ کر دی تیرے ان کے درمیان جو ہو رہا ہے کہ اسے بھی وہ مشاہدہ کر رہا ہے یہ جس طرح کفار عناد اور تکبر تیرے ساتھ برتتے ہیں اسے بھی وہ دیکھ رہا ہے۔

***********

Click Here for Part II Ayah 80-176

© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Mar 2019

free hit counter