صحیح بخاری شریف

جہاد کا بیان

احادیث ۳۰۹  

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


جہاد کی فضیلت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات کے بیان میں

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا

إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ ... لِحُدُودِ اللَّهِ ۗ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ

 اﷲ نے خرید لی مسلمانوں سے ان کی جان اور مال، اس قیمت پر کہ اُن کو بہشت ہے۔لڑتے ہیں اﷲ کی راہ میں، پھر مارتے ہیں اور مرتے ہیں۔

وعدہ ہو چکا اس کے ذمہ پر سچا، توریت اور انجیل اور قرآن میں۔

اور کون ہے قول کا پورا اﷲ سے زیادہ؟ سو خوشیاں کرو اس معاملت پر، جو تم نے کی ہے اُس سے۔ اور یہی ہے بڑی مراد ملنی۔

توبہ کرنے والے، بندگی کرنے والے، شکر کرنے والے، بے تعلق رہنے والے، رکوع کرنے والے، سجدہ کرنے والے،

حکم کرنے والے نیک بات کو اور منع کرنے والے بُری بات سے، اور تھامنے والے حدیں باندھی اﷲ کی۔اور (جنت کی) خوشخبری سنا ایمان والوں کو۔(۹:۱۱۱،۱۱۲)

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ اللہ کی حدوں سے مراد اس کے احکام کی اطاعت ہے۔

حدیث نمبر ۲۷۸۵

راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ دین کے کاموں میں کون سا عمل افضل ہے؟

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  وقت پر نماز پڑھنا۔

میں نے پوچھا اس کے بعد؟

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنا۔

میں نے پوچھا اور اس کے بعد؟

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔

پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ سوالات نہیں کئے ‘ ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح ان کے جوابات عنایت فرماتے۔

حدیث نمبر ۲۷۸۳

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : فتح مکہ کے بعد اب ہجرت (فرض) نہیں رہی البتہ جہاد اور نیت بخیر کرنا اب بھی باقی ہیں اور جب تمہیں جہاد کے لیے بلایا جائے تو نکل کھڑے ہوا کرو۔

حدیث نمبر ۲۷۸۴

عائشہ رضی اللہ عنہا (ام المؤمنین) نے  پوچھا یا رسول اللہ! ہم سمجھتے ہیں کہ جہاد افضل اعمال میں سے ہے پھر ہم (عورتیں) بھی کیوں نہ جہاد کریں؟

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لیکن سب سے افضل جہاد مقبول حج ہے جس میں گناہ نہ ہوں۔

حدیث نمبر ۲۷۸۵

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

ایک صاحب (نام نامعلوم) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسا عمل بتا دیجئیے جو ثواب میں جہاد کے برابر ہو۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسا کوئی عمل میں نہیں پاتا۔

 پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اتنا کر سکتے ہو کہ جب مجاہد (جہاد کے لیے) نکلے تو تم اپنی مسجد میں آ کر برابر نماز پڑھنی شروع کر دو اور (نماز پڑھتے رہو اور درمیان میں) کوئی سستی اور کاہلی تمہیں محسوس نہ ہو، اسی طرح روزے رکھنے لگو اور کوئی دن بغیر روزے کے نہ گزرے۔

 ان صاحب نے عرض کیا بھلا ایسا کون کر سکتا ہے؟

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجاہد کا گھوڑا جب رسی میں بندھا ہوا زمین (پر پاؤں) مارتا ہے تو اس پر بھی اس کے لیے نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔

سب لوگوں میں افضل وہ شخص ہے جو اللہ کی راہ میں اپنی جان اور مال سے جہاد کرے

اور اللہ نے سورۃ صف میں فرمایا

يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ .... ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ‏‏‏‏

اے ایمان والو! کیا میں تم کو بتاؤں ایک ایسی تجارت جو تم کو نجات دلائے دکھ دینے والے عذاب سے

‘ وہ یہ کہ ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے ‘ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم سمجھو ‘

اگر تم نے یہ کام انجام دیئے تو اللہ تعالیٰ معاف کر دے گا تمہارے گناہ اور داخل کرے گا تم کو ایسے باغوں میں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی

اور بہترین مکانات تم کو عطا کئے جائیں گے ‘ جنات عدن میں یہ بڑی بھاری کامیابی ہے۔ (۶۱:۱۰۔۱۲)

حدیث نمبر ۲۷۸۶

راوی: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ

عرض کیا گیا یا رسول اللہ! کون شخص سب سے افضل ہے؟

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  وہ مؤمن جو اللہ کے راستے میں اپنی جان اور مال سے جہاد کرے۔

صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا اس کے بعد کون؟

 فرمایا  وہ مؤمن جو پہاڑ کی کسی گھاٹی میں رہنا اختیار کرے ‘ اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتا ہو اور لوگوں کو چھوڑ کر اپنی برائی سے ان کو محفوظ رکھے۔

حدیث نمبر ۲۷۸۷

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ

اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی مثال۔۔۔۔ اور اللہ تعالیٰ اس شخص کو خوب جانتا ہے جو (خلوص دل کے ساتھ صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے) اللہ کے راستے میں جہاد کرتا ہے۔۔۔۔ اس شخص کی سی ہے جو رات میں برابر نماز پڑھتا رہے اور دن میں برابر روزے رکھتا رہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے راستے میں جہاد کرنے والے کیلئے اس کی ذمہ داری لے لی ہے کہ اگر اسے شہادت دے گا تو اسے بے حساب و کتاب جنت میں داخل کرے گا یا پھر زندہ و سلامت (گھر) ثواب اور مال غنیمت کے ساتھ واپس کرے گا۔

جہاد اور شہادت کے لیے مرد اور عورت دونوں کا دعا کرنا

اور عمر رضی اللہ عنہ نے دعا کی تھی کہ اے اللہ! مجھے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر (مدینہ طیبہ) میں شہادت کی موت عطا فرمانا۔

حدیث نمبر ۲۷۸۸،۸۹

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام حرام رضی اللہ عنہا کے یہاں تشریف لے جایا کرتے تھے (یہ انس رضی اللہ عنہ کی خالہ تھیں جو عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں) ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کھانا پیش کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر سے جوئیں نکالنے لگیں ‘ اس عرصے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے ‘ جب بیدار ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے تھے۔

 ام حرام رضی اللہ عنہا نے بیان کیا میں نے پوچھا یا رسول اللہ! کس بات پر آپ ہنس رہے ہیں؟

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے اس طرح پیش کئے گئے کہ وہ اللہ کے راستے میں غزوہ کرنے کے لیے دریا کے بیچ میں سوار اس طرح جا رہے ہیں جس طرح بادشاہ تخت پر ہوتے ہیں یا جیسے بادشاہ تخت رواں پر سوار ہوتے ہیں

یہ شک اسحاق  ذیلی راوی کو تھا۔

انہوں  نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ دعا فرمایئے کہ اللہ مجھے بھی انہیں میں سے کر دے ‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا فرمائی

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر رکھ کر سو گئے ‘ اس مرتبہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو مسکرا رہے تھے۔

انہوں  نے پوچھا یا رسول اللہ! کس بات پر آپ ہنس رہے ہیں؟

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے اس طرح پیش کئے گئے کہ وہ اللہ کی راہ میں غزوہ کے لیے جا رہے ہیں پہلے کی طرح ‘ اس مرتبہ بھی فرمایا

انہوں  نے عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ سے میرے لیے دعا کیجئے کہ مجھے بھی انہیں میں سے کر دے۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ تو سب سے پہلی فوج میں شامل ہو گی (جو بحری راستے سے جہاد کرے گی)

چنانچہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ام حرام رضی اللہ عنہا نے بحری سفر کیا پھر جب سمندر سے باہر آئیں تو ان کی سواری نے انہیں نیچے گرا دیا اور اسی حادثہ میں ان کی وفات ہو گئی۔

حدیث نمبر ۲۷۹۰

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور نماز قائم کرے اور رمضان کے روزے رکھے تو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ وہ جنت میں داخل کرے گا خواہ اللہ کے راستے میں وہ جہاد کرے یا اسی جگہ پڑا رہے جہاں پیدا ہوا تھا۔

صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا ہم لوگوں کو اس کی بشارت نہ دے دیں۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں سو درجے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے راستے میں جہاد کرنے والوں کے لیے تیار کئے ہیں ‘ ان کے دو درجوں میں اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان و زمین میں ہے۔ اس لیے جب اللہ تعالیٰ سے مانگنا ہو تو فردوس مانگو کیونکہ وہ جنت کا سب سے درمیانی حصہ اور جنت کے سب سے بلند درجے پر ہے۔

 یحییٰ بن صالح نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں یوں کہا کہ اس کے اوپر پروردگار کا عرش ہے اور وہیں سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں۔

محمد بن فلیح نے اپنے والد سے وفوقه عرش الرحمٰن  ہی کی روایت کی ہے۔

حدیث نمبر ۲۷۹۱

راوی: سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

میں نے رات میں دو آدمی دیکھے جو میرے پاس آئے پھر وہ مجھے لے کر ایک درخت پر چڑھے اور اس کے بعد مجھے ایک ایسے مکان میں لے گئے جو نہایت خوبصورت اور بڑا پاکیزہ تھا، ایسا خوبصورت مکان میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ان دونوں نے کہا کہ یہ گھر شہیدوں کا ہے۔

اللہ کے راستے میں صبح و شام چلنے کی اور جنت میں ایک کمان برابر جگہ کی فضیلت

حدیث نمبر ۲۷۹۲

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

اللہ کے راستے میں گزرنے والی ایک صبح یا ایک شام دنیا سے اور جو کچھ دنیا میں ہے سب سے بہتر ہے۔

حدیث نمبر ۲۷۹۳

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جنت میں ایک (کمان) ہاتھ جگہ دنیا کی ان تمام چیزوں سے بہتر ہے جن پر سورج طلوع اور غروب ہوتا ہے۔

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

اللہ کے راستے میں ایک صبح یا ایک شام چلنا ان سب چیزوں سے بہتر ہے جن پر سورج طلوع اور غروب ہوتا ہے۔

حدیث نمبر ۲۷۹۴

حدیث نمبر ۲۷۹۴

راوی: سہل بن سعد رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

اللہ کے راستے میں گزرنے والی ایک صبح و شام دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے سب سے بڑھ کر ہے۔

بڑی آنکھ والی حوروں کا بیان ، ان کی صفات جن کو دیکھ کر آنکھ حیران ہوگی

يَحَارُ فِيهَا الطَّرْفُ شَدِيدَةُ سَوَادِ الْعَيْنِ شَدِيدَةُ بَيَاضِ الْعَيْنِ

جن کی آنکھوں کی پتلی خوب سیاہ ہو گی اور سفیدی بھی بہت صاف ہو گی

 اور  سورۃ الدخان میں ‏‏‏‏ وَزَوَّجْنَاهُمْ‏‏‏‏ کے معنی أَنْكَحْنَاهُمْ کے ہیں۔ (۴۴:۵۴)

حدیث نمبر ۲۷۹۵

راوی: نس بن مالک رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

کوئی بھی اللہ کا بندہ جو مر جائے اور اللہ کے پاس اس کی کچھ بھی نیکی جمع ہو وہ پھر دنیا میں آنا پسند نہیں کرتا گو اس کی ساری دنیا اور جو کچھ اس میں ہے سب کچھ مل جائے مگر شہید پھر دنیا میں آنا چاہتا ہے کہ جب وہ (اللہ تعالیٰ کے) یہاں شہادت کی فضیلت کو دیکھے گا تو چاہے گا کہ دنیا میں دوبارہ آئے اور پھر قتل ہو (اللہ تعالیٰ کے راستے میں)۔

حدیث نمبر ۲۷۹۶

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بیان کرتے تھے

 اللہ کے راستے میں ایک صبح یا ایک شام بھی گزار دینا دنیا اور جو کچھ اس میں ہے، سب سے بہتر ہے اور کسی کے لیے جنت میں ایک ہاتھ کے برابر جگہ بھی  سے بہتر ہے

اور اگر جنت کی کوئی عورت زمین کی طرف جھانک بھی لے تو زمین و آسمان اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ منور ہو جائیں اور خوشبو سے معطر ہو جائیں۔ اس کے سر کا دوپٹہ بھی دنیا اور اس کی ساری چیزوں سے بڑھ کر ہے۔

شہادت کی آرزو کرنا

حدیث نمبر ۲۷۹۷

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا،

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر مسلمانوں کے دلوں میں اس سے رنج نہ ہوتا کہ میں ان کو چھوڑ کر جہاد کے لیے نکل جاؤں اور مجھے خود اتنی سواریاں میسر نہیں ہیں کہ ان سب کو سوار کر کے اپنے ساتھ لے چلوں تو میں کسی چھوٹے سے چھوٹے ایسے لشکر کے ساتھ جانے سے بھی نہ رکتا جو اللہ کے راستے میں غزوہ کے لیے جا رہا ہوتا۔

 اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میری تو آرزو ہے کہ میں اللہ کے راستے میں قتل کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں اور پھر زندہ کیا جاؤں پھر قتل کیا جاؤں اور پھر زندہ کیا جاؤں اور پھر قتل کر دیا جاؤں۔

حدیث نمبر ۲۷۹۸

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

فوج کا جھنڈا اب زید نے اپنے ہاتھ میں لیا اور وہ شہید کر دیئے گئے پھر جعفر نے لے لیا اور وہ بھی شہید کر دیئے گئے پھر عبداللہ بن رواحہ نے لے لیا اور وہ بھی شہید کر دیئے گئے اور اب کسی ہدایت کا انتظار کئے بغیر خالد بن ولید نے جھنڈا اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اور ان کے ہاتھ پر اسلامی لشکر کو فتح ہوئی۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

اور ہمیں کوئی اس کی خوشی بھی نہیں تھی کہ یہ لوگ جو شہید ہو گئے ہیں ہمارے پاس زندہ رہتے کیونکہ وہ بہت عیش و آرام میں چلے گئے ہیں۔

 ایوب نے بیان کیا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ”انہیں کوئی اس کی خوشی بھی نہیں تھی کہ ہمارے ساتھ زندہ رہتے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔“

اگر کوئی شخص جہاد میں سواری سے گر کر مر جائے تو اس کا شمار بھی مجاہدین میں ہو گا ، اس کی فضیلت

اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد سورۃ نساء میں

مَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهَاجِرًا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ

جو شخص اپنے گھر سے اللہ اور رسول کی طرف ہجرت کی نیت کر کے نکلے اور پھر راستے ہی میں اس کی وفات ہو جائے تو اللہ پر اس کا اجر (ہجرت کا) واجب ہو گیا۔ (۴:۱۰۰)

آیت میں  وَقَعَ کے معنی وَجَبَ  کے ہیں۔

حدیث نمبر ۲۷۹۹،۲۸۰۰

راوی: ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا

ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے قریب ہی سو گئے۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو مسکرا رہے تھے، میں عرض کیا کہ آپ کس بات پر ہنس رہے ہیں؟

 فرمایا میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے پیش کئے گئے جو غزوہ کرنے کے لیے اس بہتے دریا پر سوار ہو کر جا رہے تھے جیسے بادشاہ تخت پر چڑھتے ہیں۔

 میں نے عرض کیا پھر آپ میرے لیے بھی دعا کر دیجئیے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی انہیں میں سے بنا دے۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا فرمائی۔

پھر دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے اور پہلے ہی کی طرح اس مرتبہ بھی کیا (بیدار ہوتے ہوئے مسکرائے)

ام حرام رضی اللہ عنہا نے پہلے ہی کی طرح اس مرتبہ بھی عرض کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی جواب دیا۔

 ام حرام رضی اللہ عنہا نے عرض کیا آپ دعا کر دیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی انہیں میں سے بنا دے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم سب سے پہلے لشکر کے ساتھ ہو گی

چنانچہ وہ اپنے شوہر عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسلمانوں کے سب سے پہلے بحری بیڑے میں شریک ہوئیں معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں غزوہ سے لوٹتے وقت جب شام کے ساحل پر لشکر اترا تو ام حرام رضی اللہ عنہا کے قریب ایک سواری لائی گئی تاکہ اس پر سوار ہو جائیں لیکن جانور نے انہیں گرا دیا اور اسی میں ان کا انتقال ہو گیا۔

جس کو اللہ کی راہ میں تکلیف پہنچے ( یعنی اس کے کسی عضو کو صدمہ ہو )

حدیث نمبر ۲۸۰۱

راوی: انس رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو سلیم کے (۷۰) ستر آدمی (جو قاری تھے) بنو عامر کے یہاں بھیجے۔ جب یہ سب حضرات (بئرمعونہ پر) پہنچے تو میرے ماموں حرام بن ملحان رضی اللہ عنہ نے کہا میں (بنو سلیم کے یہاں) آگے جاتا ہوں اگر مجھے انہوں نے اس بات کا امن دے دیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں ان تک پہنچاؤں تو  بہتر ورنہ تم لوگ میرے قریب تو ہو ہی۔

چنانچہ وہ ان کے یہاں گئے اور انہوں نے امن بھی دے دیا۔

ابھی وہ قبیلہ کے لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سنا ہی رہے تھے کہ قبیلہ والوں نے اپنے ایک آدمی (عامر بن طفیل) کو اشارہ کیا اور اس نے آپ رضی اللہ عنہ کے جسم پر برچھا پیوست کر دیا جو آرپار ہو گیا۔ اس وقت ان کی زبان سے نکلا اللہ اکبر میں کامیاب ہو گیا کعبہ کے رب کی قسم!

اس کے بعد قبیلہ والے حرام رضی اللہ عنہ کے دوسرے ساتھیوں کی طرف (جو ستر کی تعداد میں تھے) بڑھے اور سب کو قتل کر دیا۔ البتہ ایک صاحب جو لنگڑے تھے ‘ پہاڑ پر چڑھ گئے۔

ہمام (ذیلی راوی حدیث) نے بیان کیا میں سمجھتا ہوں کہ ایک اور ان کے ساتھ (پہاڑ پر چڑھے تھے) (عمر بن امیہ ضمری)

اس کے بعد جبرائیل علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ آپ کے ساتھی اللہ تعالیٰ سے جا ملے ہیں پس اللہ خود بھی ان سے خوش ہے اور انہیں بھی خوش کر دیا ہے۔

 اس کے بعد ہم (قرآن کی دوسری آیتوں کے ساتھ یہ آیت بھی) پڑھتے تھے

بَلِّغُوا قَوْمَنَا أَنْ قَدْ لَقِينَا رَبَّنَا فَرَضِيَ عَنَّا وَأَرْضَانَا،

ہماری قوم کے لوگوں کو یہ پیغام پہنچا دو کہ ہم اپنے رب سے آ ملے ہیں ‘ پس ہمارا رب خود بھی خوش ہے اور ہمیں بھی خوش کر دیا ہے۔

 اس کے بعد یہ آیت منسوخ ہو گئی ‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چالیس دن تک صبح کی نماز میں قبیلہ رعل ‘ ذکوان ‘ بنی لحیان اور بنی عصیہ کے لیے بددعا کی تھی جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی تھی۔

حدیث نمبر ۲۸۰۲

راوی: جندب بن سفیان رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی لڑائی کے موقع پر موجود تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی زخمی ہو گئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگلی سے مخاطب ہو کر فرمایا تیری حقیقت ایک زخمی انگلی کے سوا کیا ہے اور جو کچھ ملا ہے اللہ کے راستے میں ملا ہے۔

جو اللہ کے راستے میں زخمی ہوا ؟ اس کی فضیلت کا بیان

حدیث نمبر ۲۸۰۳

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جو شخص بھی اللہ کے راستے میں زخمی ہوا اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ اس کے راستے میں کون زخمی ہوا ہے ‘ وہ قیامت کے دن اس طرح سے آئے گا کہ اس کے زخموں سے خون بہہ رہا ہو گا ‘ رنگ تو خون جیسا ہو گا لیکن اس میں خوشبو مشک جیسی ہو گی۔

 اللہ تعالیٰ کا فرمان

هَلْ تَرَبَّصُونَ بِنَا إِلاَّ إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ

 اے پیغمبر ! ان کافروں سے کہہ دو تم ہمارے لیے کیا انتظار کرتے ہو ، ہمارے لیے تو دونوں میں سے ( شہادت یا فتح ) کوئی بھی ہو اچھا ہی ہے (۹:۵۲)

اور لڑائی ڈول ہے کبھی ادھر کبھی ادھر  

حدیث نمبر ۲۸۰۴

راوی: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما

 انہیں ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ ہرقل نے ان سے کہا تھا میں نے تم سے پوچھا تھا کہ ان کے یعنی (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ساتھ تمہاری لڑائیوں کا کیا انجام رہتا ہے تو تم نے بتایا کہ لڑائی ڈولوں کی طرح ہے ‘ کبھی ادھر کبھی ادھر یعنی کبھی لڑائی کا انجام ہمارے حق میں ہوتا ہے اور کبھی ان کے حق میں۔

 انبیاء کا بھی یہی حال ہوتا ہے کہ ان کی آزمائش ہوتی رہتی ہے (کبھی فتح اور کبھی ہار سے) لیکن انجام انہیں کے حق میں اچھا ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد

مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلاً

مؤمنوں میں کچھ وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے اس وعدہ کو سچ کر دکھایا جو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے کیا تھا ،

پس ان میں کچھ تو ایسے ہیں جو ( اللہ کے راستے میں شہید ہو کر ) اپنا عہد پورا کر چکے اور کچھ ایسے ہیں جو انتظار کر رہے ہیں اور اپنے عہد سے وہ پھرے نہیں ہیں  (۳۳:۲۳)

حدیث نمبر ۲۸۰۵

راوی: انس رضی اللہ عنہ

 میرے چچا انس بن نضر رضی اللہ عنہ بدر کی لڑائی میں حاضر نہ ہو سکے ‘ اس لیے انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں پہلی لڑائی ہی سے غائب رہا جو آپ نے مشرکین کے خلاف لڑی لیکن اگر اب اللہ تعالیٰ نے مجھے مشرکین کے خلاف کسی لڑائی میں حاضری کا موقع دیا تو اللہ تعالیٰ دیکھ لے گا کہ میں کیا کرتا ہوں۔

 پھر جب احد کی لڑائی کا موقع آیا اور مسلمان بھاگ نکلے تو انس بن نضر نے کہا کہ اے اللہ! جو کچھ مسلمانوں نے کیا میں اس سے معذرت کرتا ہوں اور جو کچھ ان مشرکین نے کیا ہے میں اس سے بیزار ہوں۔ پھر وہ آگے بڑھے (مشرکین کی طرف) تو سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے سامنا ہوا۔ ان سے انس بن نضر رضی اللہ عنہ نے کہا اے سعد بن معاذ! میں تو جنت میں جانا چاہتا ہوں اور نضر (ان کے باپ) کے رب کی قسم میں جنت کی خوشبو احد پہاڑ کے قریب پاتا ہوں۔

 سعد رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! جو انہوں نے کر دکھایا اس کی مجھ میں ہمت نہ تھی۔

 انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اس کے بعد جب انس بن نضر رضی اللہ عنہ کو ہم نے پایا تو تلوار نیزے اور تیر کے تقریباً اسی زخم ان کے جسم پر تھے وہ شہید ہو چکے تھے مشرکوں نے ان کے اعضاء کاٹ دئیے تھے اور کوئی شخص انہیں پہچان نہ سکا تھا ‘ صرف ان کی بہن انگلیوں سے انہیں پہچان سکی تھیں۔

 انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہم سمجھتے ہیں  کہ یہ آیت ان کے اور ان جیسے مؤمنین کے بارے میں نازل ہوئی تھی کہ

مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ  

”مؤمنوں میں کچھ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے اس وعدے کو سچا کر دکھایا جو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے کیا تھا۔“ آخر آیت تک۔ (۳۳:۲۳)

حدیث نمبر ۲۸۰۶

انہوں نے بیان کیا کہ انس بن نضر رضی اللہ عنہ کی ایک بہن ربیع نامی رضی اللہ عنہا نے کسی خاتون کے آگے کے دانت توڑ دیئے تھے ‘ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے قصاص لینے کا حکم دیا۔

 انس بن نضر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ نبی بنایا ہے (قصاص میں) ان کے دانت نہ ٹوٹیں گے۔

 چنانچہ مدعی تاوان لینے پر راضی ہو گئے اور قصاص کا خیال چھوڑ دیا ‘

اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے کچھ بندے ہیں کہ اگر وہ اللہ کا نام لے کر قسم کھا لیں تو اللہ خود ان کی قسم پوری کر دیتا ہے۔

حدیث نمبر ۲۸۰۷

راوی: زید بن ثابت رضی اللہ عنہ

جب قرآن مجید کو ایک مصحف (کتابی) کی صورت میں جمع کیا جانے لگا تو میں نے سورۃ الاحزاب کی ایک آیت نہیں پائی جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے برابر آپ کی تلاوت کرتے ہوئے سنتا رہا تھا جب میں نے اسے تلاش کیا تو) صرف خزیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کے یہاں وہ آیت مجھے ملی۔ یہ خزیمہ رضی اللہ عنہ وہی ہیں جن کی اکیلے کی گواہی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں کی گواہی کے برابر قرار دیا تھا۔ وہ آیت یہ تھی

مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ

مؤمنوں میں سے کچھ مرد ایسے ہیں جنہوں نے وہ بات سچ کہی جس پر انہوں نے اللہ سے عہد کیا۔ (۳۳:۲۳)

جنگ سے پہلے کوئی نیک عمل کرنا

اور ابودرداء رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم لوگ اپنے (نیک) اعمال کی بدولت جنگ کرتے ہو

اور اللہ تعالیٰ کا  سورۃ صف میں یہ ارشاد

يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ ... كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَرْصُوصٌ ‏‏‏‏

اے لوگو! جو ایمان لا چکے ہو ایسی باتیں کیوں کہتے ہو جو خود نہیں کرتے اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑے غصے کی بات ہے کہ تم وہ کہو جو خود نہ کرو ‘

بیشک اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کے راستے میں صف بنا کر ایسے جم کر لڑتے ہیں جیسے سیسہ پلائی ہوئی ٹھوس دیوار ہوں۔ (۶۱:۲۔۴)

حدیث نمبر ۲۸۰۸

راوی: براء بن عازب رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک صاحب زرہ پہنے ہوئے حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! میں پہلے جنگ میں شریک ہو جاؤں یا پہلے اسلام لاؤں۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پہلے اسلام لاؤ پھر جنگ میں شریک ہونا۔

 چنانچہ وہ پہلے اسلام لائے اور اس کے بعد جنگ میں شہید ہوئے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عمل کم کیا لیکن اجر بہت پایا۔

کسی کو اچانک نامعلوم تیر لگا اور اس تیر نے اسے مار دیا ، اس کی فضیلت کا بیان

حدیث نمبر ۲۸۰۹

راوی: انس بن مالک

ام الربیع بنت براء رضی اللہ عنہا جو حارثہ بن سراقہ رضی اللہ عنہ کی والدہ تھیں ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا، اے اللہ کے نبی! حارثہ کے بارے میں بھی آپ مجھے کچھ بتائیں۔

حارثہ رضی اللہ عنہ بدر کی لڑائی میں شہید ہو گئے تھے ‘ انہیں نامعلوم سمت سے ایک تیر آ کر لگا تھا۔ کہ اگر وہ جنت میں ہے تو صبر کر لوں اور اگر کہیں اور ہے تو اس کے لیے روؤں دھوؤں۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ام حارثہ! جنت کے بہت سے درجے ہیں اور تمہارے بیٹے کو فردوس اعلیٰ میں جگہ ملی ہے۔

جس شخص نے اس ارادہ سے جنگ کی کہ اللہ تعالیٰ ہی کا کلمہ بلند رہے ، اس کی فضیلت

حدیث نمبر ۲۸۱۰

راوی: ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ

ایک صحابی (لاحق بن ضمیرہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ایک شخص جنگ میں شرکت کرتا ہے غنیمت حاصل کرنے کے لیے ایک شخص جنگ میں شرکت کرتا ہے ناموری کے لیے ‘ ایک شخص جنگ میں شرکت کرتا ہے تاکہ اس کی بہادری کی دھاک بیٹھ جائے تو ان میں سے اللہ کے راستے میں کون لڑتا ہے؟

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اس ارادہ سے جنگ میں شریک ہوتا ہے کہ اللہ ہی کا کلمہ بلند رہے ‘ صرف وہی اللہ کے راستہ میں لڑتا ہے۔

جس کے قدم اللہ کے راستے میں غبار آلود ہوئے اس کا ثواب

اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد سورۃ براۃ میں

مَا كَانَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ وَمَنْ حَوْلَهُمْ مِنَ الْأَعْرَابِ ... إِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ

 نہ چاہیئے مدینے والوں کو، اور جو انکے گرد گنوار ہیں، کہ(چھوڑ کر پیچھے) رہ جائیں رسول اﷲ کے (کا) ساتھ، اور نہ یہ کہ اپنی جان کو چاہیں زیادہ اس کی جان سے۔

یہ اس واسطے کہ نہ کہیں پیاس کھینچتے ہیں نہ محنت اور نہ بھوک اﷲ کی راہ میں،اور نہ پاؤں پھیرتے ہیں کہیں جس سے خفا ہوں کافر،اور چھینتے ہیں دشمن سے کچھ چیز، مگر لکھا جاتا ہے اس پر انکو نیک عمل۔

تحقیق اﷲ نہیں کھوتا حق نیکی والوں کا۔ (۹:۱۲۰)

حدیث نمبر ۲۸۱۱

راوی: ابوعبس رضی اللہ عنہ   (آپ کا نام عبدالرحمٰن بن جبیر ہے )

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جس بندے کے بھی قدم اللہ کے راستے میں غبار آلود ہو گئے ‘ انہیں (جہنم کی) آگ چھوئے؟ (یہ نا ممکن ہے)۔

اللہ کے راستے میں جن لوگوں پر گرد پڑی ہو ان کی گرد پونچھنا

حدیث نمبر ۲۸۱۲

راوی: عکرمہ

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان سے اور (اپنے صاحبزادے) علی بن عبداللہ سے فرمایا تم دونوں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں جاؤ اور ان سے احادیث نبوی سنو۔

چنانچہ ہم حاضر ہوئے ‘ اس وقت ابوسعید رضی اللہ عنہ اپنے (رضاعی) بھائی کے ساتھ باغ میں تھے اور باغ کو پانی دے رہے تھے ‘ جب آپ نے ہمیں دیکھا تو (ہمارے پاس) تشریف لائے اور (چادر اوڑھ کر) گوٹ مار کر بیٹھ گئے ‘

اس کے بعد بیان فرمایا ہم مسجد نبوی کی اینٹیں (ہجرت نبوی کے بعد تعمیر مسجد کیلئے) ایک ایک کر کے ڈھو رہے تھے لیکن عمار رضی اللہ عنہ دو دو اینٹیں لا رہے تھے ‘ اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ادھر سے گزرے اور ان کے سر سے غبار کو صاف کیا پھر فرمایا

افسوس! عمار کو ایک باغی جماعت مارے گی ‘ یہ تو انہیں اللہ کی (اطاعت کی) طرف دعوت دے رہا ہو گا لیکن وہ اسے جہنم کی طرف بلا رہے ہوں گے۔

جنگ اور گرد غبار کے بعد غسل کرنا

حدیث نمبر ۲۸۱۳

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب جنگ خندق سے (فارغ ہو کر) واپس آئے اور ہتھیار رکھ کر غسل کرنا چاہا تو جبرائیل علیہ السلام آئے ‘ ان کا سر غبار سے اٹا ہوا تھا۔ جبرائیل علیہ السلام نے کہا آپ نے ہتھیار اتار دیئے ‘ اللہ کی قسم میں نے تو ابھی تک ہتھیار نہیں اتارے ہیں۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا تو پھر اب کہاں کا ارادہ ہے؟

 انہوں نے فرمایا ادھر اور بنو قریظہ کی طرف اشارہ کیا۔

عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو قریظہ کے خلاف لشکر کشی کی۔

ان شہیدوں کی فضیلت جن کے بارے میں ان آیات کا نزول ہوا

وَلاَ تَحْسِبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا ... وَأَنَّ اللَّهَ لاَ يُضِيعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِينَ

وہ لوگ جو اللہ کے راستے میں قتل کر دئیے گئے انہیں ہرگز مردہ مت خیال کرو بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں ( وہ جنت میں ) رزق پاتے رہتے ہیں ،

ان ( نعمتوں ) سے بےحد خوش ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا کی ہیں

اور جو لوگ ان کے بعد والوں میں سے ابھی ان سے نہیں جا ملے ان کی خوشیاں منا رہے ہیں کہ وہ بھی ( شہید ہوتے ہی ) بے ڈر اور بے غم ہو جائیں گے ۔

وہ لوگ خوش ہو رہے ہیں اللہ کے انعام اور فضل پر اور اس پر کہ اللہ ایمان والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا  (۳:۱۶۹۔۱۷۱)

حدیث نمبر ۲۸۱۴

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

اصحاب بئرمعونہ (رضی اللہ عنہم) کو جن لوگوں نے قتل کیا تھا ان پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیس دن تک صبح کی نماز میں بددعا کی تھی۔ یہ رعل ‘ ذکوان اور عصیہ قبائل کے لوگ تھے جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی تھی۔

 جو (۷0 قاری) صحابہ بئرمعونہ کے موقع پر شہید کر دئیے گئے تھے ‘ ان کے بارے میں قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی تھی جسے ہم مدت تک پڑھتے رہے تھے بعد میں آیت منسوخ ہو گئی تھی

اس آیت کا ترجمہ یہ ہے

 ہماری قوم کو پہنچا دو کہ ہم اپنے رب سے آ ملے ہیں ‘ ہمارا رب ہم سے راضی ہے اور ہم اس سے راضی ہیں۔

حدیث نمبر ۲۸۱۵

راوی: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما

آپ بیان کرتے تھے کہ کچھ صحابہ نے جنگ احد کے دن صبح کے وقت شراب پی

ذیلی راوی حدیث  (سفیان) سے پوچھا گیا کیا اسی دن کے آخری حصے میں (ان کی شہادت ہوئی) تھی جس دن انہوں نے شراب پی تھی؟

تو انہوں نے جواب دیا کہ حدیث میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

شہیدوں پر فرشتوں کا سایہ کرنا

حدیث نمبر ۲۸۱۶

راوی: جابر رضی اللہ عنہ

میرے والد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لائے گئے (احد کے موقع پر) اور کافروں نے ان کے ناک کان کاٹ ڈالے تھے ‘ ان کی نعش نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھی گئی تو میں نے آگے بڑھ کر ان کا چہرہ کھولنا چاہا لیکن میری قوم کے لوگوں نے مجھے منع کر دیا

پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رونے پیٹنے کی آواز سنی (تو دریافت فرمایا کہ کس کی آواز ہے؟)

لوگوں نے بتایا کہ عمرو کی لڑکی ہیں (شہید کی بہن) یا عمرو کی بہن ہیں (شہید کی چچی شک راوی کو تھا)

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں رو رہی ہیں یا (آپ نے فرمایا کہ) روئیں نہیں ملائکہ برابر ان پر اپنے پروں کا سایہ کئے ہوئے ہیں۔

امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے صدقہ سے پوچھا کیا حدیث میں یہ بھی ہے کہ (جنازہ) اٹھائے جانے تک تو انہوں نے بتایا کہ سفیان نے بعض اوقات یہ الفاظ بھی حدیث میں بیان کئے تھے۔

 شہید کا دوبارہ دنیا میں واپس آنے کی آرزو کرنا

حدیث نمبر ۲۸۱۷

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 کوئی شخص بھی ایسا نہ ہو گا جو جنت میں داخل ہونے کے بعد دنیا میں دوبارہ آنا پسند کرے ‘ خواہ اسے ساری دنیا مل جائے سوائے شہید کے۔ اس کی یہ تمنا ہو گی کہ دنیا میں دوبارہ واپس جا کر دس مرتبہ اور قتل ہو (اللہ کے راستے میں) کیونکہ وہ شہادت کی عزت وہاں دیکھتا ہے۔

جنت کا تلواروں کی چمک کے نیچے ہونا

اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہمیں ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کا یہ پیغام دیا ہے کہ ہم میں سے جو بھی (اللہ کے راستے میں) قتل کیا جائے ‘ وہ سیدھا جنت میں جائے گ

ا اور عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا ہمارے مقتول جنتی اور ان کے (کفار کے) مقتول دوزخی نہیں ہیں؟

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کیوں نہیں۔

حدیث نمبر ۲۸۱۸

عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے عمر بن عبیداللہ کو لکھا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے یقین جانو جنت تلواروں کے سائے کے نیچے ہے۔

 اس روایت کی متابعت اویسی نے ابن ابی الزناد کے واسطہ سے کی ان سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا۔

جو جہاد کرنے کے لیے اللہ سے اولاد مانگے اس کی فضیلت

حدیث نمبر ۲۸۱۹

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سلیمان بن داؤد علیہما السلام نے فرمایا آج رات اپنی سو یا (راوی کو شک تھا) ننانوے بیویوں کے پاس جاؤں گا اور ہر بیوی ایک ایک شہسوار جنے گی جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کریں گے۔

 ان کے ساتھی نے کہا کہ إِنْ شَاءَ اللَّهُ بھی کہہ لیجئے لیکن انہوں نے إِنْ شَاءَ اللَّهُ نہیں کہا۔ چنانچہ صرف ایک بیوی حاملہ ہوئیں اور ان کے بھی آدھا بچہ پیدا ہوا۔

 اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے اگر سلیمان علیہ السلام اس وقت  اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے اگر سلیمان علیہ السلام اس وقت إِنْ شَاءَ اللَّهُ کہہ لیتے تو (تمام بیویاں حاملہ ہوتیں اور) سب کے یہاں ایسے شہسوار بچے پیدا ہوتے جو اللہ کے راستے میں جہاد کرتے۔کہہ لیتے تو (تمام بیویاں حاملہ ہوتیں اور) سب کے یہاں ایسے شہسوار بچے پیدا ہوتے جو اللہ کے راستے میں جہاد کرتے۔

جنگ کے موقع پر بہادری اور بزدلی کا بیان

حدیث نمبر ۲۸۲۰

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ حسین (خوبصورت) سب سے زیادہ بہادر اور سب سے زیادہ فیاض تھے ‘

مدینہ طیبہ کے تمام لوگ (ایک رات) خوف زدہ تھے (آواز سنائی دی تھی اور سب لوگ اس کی طرف بڑھ رہے تھے) لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ایک گھوڑے پر سوار سب سے آگے تھے (جب واپس ہوئے تو) فرمایا اس گھوڑے کو (دوڑنے میں) ہم نے سمندر (بھپرا ہوا) پایا۔

جنگ کے موقع پر بہادری اور بزدلی کا بیان

حدیث نمبر ۲۸۲۱

راوی: محمد بن جبیر

مجھے جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہے تھے، آپ کے ساتھ اور بہت سے صحابہ بھی تھے۔ وادی حنین سے واپس تشریف لا رہے تھے کہ کچھ (بدو) لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لپٹ گئے۔ بالآخر آپ کو مجبوراً ایک ببول کے درخت کے پاس جانا پڑا۔ وہاں آپ کی چادر مبارک ببول کے کانٹے میں الجھ گئی تو ان لوگوں نے اسے لے لیا (تاکہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں کچھ عنایت فرمائیں تو چادر واپس کریں)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں کھڑے ہو گئے اور فرمایا میری چادر مجھے دے دو ‘ اگر میرے پاس درخت کے کانٹوں جتنے بھی اونٹ بکریاں ہوتیں تو میں تم میں تقسیم کر دیتا ‘ مجھے تم بخیل نہیں پاؤ گے اور نہ جھوٹا اور نہ بزدل پاؤ گے۔

بزدلی سے اللہ کی پناہ مانگنا

حدیث نمبر ۲۸۲۲

راوی: عمرو بن میمون اودی

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنے بچوں کو یہ کلمات دعائیہ اس طرح سکھاتے تھے جیسے معلم بچوں کو لکھنا سکھاتا ہے اور فرماتے تھے

اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْجُبْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أُرَدَّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ،

اے اللہ! بزدلی سے میں تیری پناہ مانگتا ہوں ‘ اس سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ عمر کے سب سے ذلیل حصے (بڑھاپے) میں پہنچا دیا جاؤں

 ‏‏‏‏‏‏وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الدُّنْيَا، ‏‏‏‏‏‏وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ

 اور تیری پناہ مانگتا ہوں میں دنیا کے فتنوں سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب سے۔

پھر میں نے یہ حدیث جب مصعب بن سعد سے بیان کی تو انہوں نے بھی اس کی تصدیق کی۔

حدیث نمبر ۲۸۲۳

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے

اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْكَسَلِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْجُبْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْهَرَمِ،

اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں عاجزی اور سستی سے ‘ بزدلی اور بڑھاپے کی ذلیل حدود میں پہنچ جانے سے

 ‏‏‏‏‏‏وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا، ‏‏‏‏‏‏وَالْمَمَاتِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ

اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں زندگی اور موت کے فتنوں سے اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب سے۔

جو شخص اپنی لڑائی کے کارنامے بیان کرے ، اس کا بیان

اس باب میں ابوعثمان نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔

حدیث نمبر ۲۸۲۴

راوی: سائب بن یزید رضی اللہ عنہ

میں طلحہ بن عبیداللہ ‘ سعد بن ابی وقاص ‘ مقداد بن اسود اور عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہم کی صحبت میں بیٹھا ہوں لیکن میں نے کسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتے نہیں سنا۔ البتہ طلحہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ وہ احد کی جنگ کے متعلق بیان کیا کرتے تھے۔

جہاد کے لیے نکل کھڑا ہونا واجب ہے اور جہاد کی نیت رکھنے کا واجب ہونا

ِ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد سورۃ التوبہ میں

انْفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالًا وَجَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ ...  وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ

نکل پڑو ہلکے ہو یا بھاری اور اپنے مال سے اور اپنی جان سے اللہ کی راہ میں جہاد کرو ‘ یہ بہتر ہے تمہارے حق میں اگر تم جانو ‘

اگر کچھ مال آسانی سے مل جانے والا ہوتا اور سفر بھی معمولی ہوتا تو یہ لوگ (منافقین)، اے پیغمبر! ضرور آپ کے ساتھ ہو لیتے

لیکن ان کو تو (تبوک) کا سفر ہی دور دراز معلوم ہوا اور یہ لوگ اب اللہ کی قسم کھائیں گے۔“ کہ اگر ہم طاقت رکھتے تو تمہارے ساتھ ضرور نکلتے

 وہ اپنے آپ کو ہلاک کر رہے ہیں اور اللہ جانتا ہے بیشک وہ ضرور جھوٹے ہیں۔ (۹:۴۱،۴۲)

 اور اللہ کا ارشاد

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ ... وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

 اے ایمان والو! کیا ہوا ہے تم کو؟ جب کہئے کوچ کرو اﷲ کی راہ میں، ڈھے جاتے ہو زمین پر۔کیا ریجھے دنیا کی زندگی پر آخرت چھوڑ کر؟

سو کچھ نہیں دنیا کا برتنا، آخرت کے حساب میں، مگر تھوڑا۔ اگر نہ نکلو گے، تم کو دےگا (اﷲ) دُکھ کی مار،اور بدل لائے گا وہ لوگ تمہارے سوا اور کچھ نہ بگاڑو گے اس کا۔

اور اﷲ سب چیز پر قادر ہے۔ (۹:۳۸،۳۹)

 عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے (پہلی آیت کی تفسیر میں) منقول ہے کہ جدا جدا ٹکڑیاں بنا کر جہاد کے لیے نکلو، کہا جاتا ہے کہ «ثبات» (جمع) «ثبة‏» ہے۔

حدیث نمبر ۲۸۲۵

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما  

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا تھا مکہ فتح ہونے کے بعد (اب مکہ سے مدینہ کے لیے) ہجرت باقی نہیں ہے ‘ لیکن خلوص نیت کے ساتھ جہاد اب بھی باقی ہے اس لیے تمہیں جہاد کے لیے بلایا جائے تو نکل کھڑے ہو۔

 کافر اگر کفر کی حالت میں مسلمان کو مارے پھر مسلمان ہو جائے ، اسلام پر مضبوط رہے اور اللہ کی راہ میں مارا جائے تو اس کی فضیلت کا بیان

حدیث نمبر ۲۸۲۶

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(قیامت کے دن) اللہ تعالیٰ ایسے دو آدمیوں پر ہنس دے گا کہ ان میں سے ایک نے دوسرے کو قتل کیا تھا اور پھر بھی دونوں جنت میں داخل ہو گئے۔ پہلا وہ جس نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا وہ شہید ہو گیا‘ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے قاتل کو توبہ کی توفیق دی اور وہ بھی اللہ کی راہ میں شہید ہوا۔ اس طرح دونوں قاتل و مقتول بالآخر جنت میں داخل ہو گئے۔

حدیث نمبر ۲۸۲۷

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر میں ٹھہرے ہوئے تھے اور خیبر فتح ہو چکا تھا، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرا بھی (مال غنیمت میں) حصہ لگائیے۔ سعید بن العاص کے ایک لڑکے (ابان بن سعید رضی اللہ عنہ) نے کہا یا رسول اللہ! ان کا حصہ نہ لگائیے۔

 اس پر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بولے کہ یہ شخص تو ابن قوتل (نعمان بن مالک رضی اللہ عنہ) کا قاتل ہے۔

ابان بن سعید رضی اللہ عنہ نے کہا کتنی عجیب بات ہے کہ یہ جانور (یعنی ابوہریرہ ا) بھی تو پہاڑ کی چوٹی سے بکریاں چراتے چراتے یہاں آ گیا ہے اور ایک مسلمان کے قتل کا مجھ پر الزام لگاتا ہے۔ اس کو یہ خبر نہیں کہ جسے اللہ تعالیٰ نے میرے ہاتھوں سے (شہادت) عزت دی اور مجھے اس کے ہاتھوں سے ذلیل ہونے سے بچا لیا (اگر اس وقت میں مارا جاتا) تو دوزخی ہوتا ‘

عنبسہ (ذیلی راوی)نے بیان کیا کہ اب مجھے یہ نہیں معلوم کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا بھی حصہ لگایا یا نہیں۔

جہاد کو ( نفلی روزوں پر ) مقدم رکھنا

حدیث نمبر ۲۸۲۸

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

 ابوطلحہ زید بن سہیل رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جہاد میں شرکت کے خیال سے (نفلی روزے نہیں رکھتے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پھر میں نے انہیں عیدالفطر اور عید الاضحی کے سوا روزے کے بغیر نہیں دیکھا۔

 اللہ کی راہ میں مارے جانے کے سوا شہادت کی اور بھی سات قسمیں ہیں

حدیث نمبر ۲۸۲۹

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

شہید پانچ قسم کے ہوتے ہیں۔

- طاعون میں ہلاک ہونے والا ‘

- پیٹ کی بیماری میں ہلاک ہونے والا ‘

- ڈوب کر مرنے والا ‘

- دب کر مر جانے والا

-  اور اللہ کے راستے میں شہادت پانے والا۔

حدیث نمبر ۲۸۳۰

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

طاعون کی موت ہر مسلمان کے لیے شہادت کا درجہ رکھتی ہے۔

اللہ تعالیٰ کا  سورۃ نساء میں یہ فرمانا

لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ... وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا

برابر نہیں (گھر) بیٹھنے والے مسلمان جن کو بدن کا نقصان نہیں، اور لڑنے والے اﷲ کی راہ میں اپنے مال سے اور جان سے۔

اﷲ نے بڑائی (فضیلت) دی لڑنے والوں کو اپنے مال اور جان سے۔ ان پر جو بیٹھتے ہیں، درجہ میں۔اور سب کو وعدہ دیا اﷲ نے خوبی (بھلائی) کا۔

اور زیادہ کیا اﷲ نے لڑنے والوں کو بیٹھنے والوں سے، بڑے ثواب میں۔بہت درجوں میں اپنے ہاں کے، اور بخشش میں اور مہربانی میں،اور اﷲ ہے بخشنے والا مہربان۔ (۴:۹۵،۹۶)

حدیث نمبر ۲۸۳۱

راوی: براء بن عازب رضی اللہ عنہ

جب آیت  لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ  نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ (جو کاتب وحی تھے) کو بلایا ‘

آپ ایک چوڑی ہڈی ساتھ لے کر حاضر ہوئے اور اس آیت کو لکھا ا

ور ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نے جب اپنے نابینا ہونے کی شکایت کی تو آیت یوں نازل ہوئی لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَر ۔

حدیث نمبر ۲۸۳۲

راوی: سہل بن سعد زہری رضی اللہ عنہ

میں مروان بن حکم (خلیفہ اور اس وقت کے امیر مدینہ) کو مسجد نبوی میں بیٹھے ہوئے دیکھا تو ان کے قریب گیا اور پہلو میں بیٹھ گیا اور پھر انہوں نے ہمیں خبر دی کہ زید بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ نے انہیں خبر دی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے آیت لکھوائی

لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ    

انہوں نے بیان کیا پھر عبداللہ ابن مکتوم رضی اللہ عنہ آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مجھ سے آیت مذکورہ لکھوا رہے تھے، انہوں نے کہا یا رسول اللہ! اگر مجھ میں جہاد کی طاقت ہوتی تو میں جہاد میں شریک ہوتا۔ وہ نابینا تھے ‘ اس پر اللہ تبارک تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل کی۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران میری ران پر تھی میں نے آپ پر وحی کی شدت کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران کا اتنا بوجھ محسوس کیا کہ مجھے ڈر ہو گیا کہ کہیں میری ران پھٹ نہ جائے۔ اس کے بعد وہ کیفیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ختم ہو گئی اور اللہ عزوجل نے فقط غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ  نازل فرمایا۔

کافروں سے لڑتے وقت صبر کرنا

حدیث نمبر ۲۸۳۳

راوی: سالم بن ابی النضر

عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے (عمر بن عبیداللہ کو) لکھا تو میں نے وہ تحریر پڑھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جب تمہاری کفار سے مڈبھیڑ ہو تو صبر سے کام لو۔

مسلمانوں کو ( محارب ) کافروں سے لڑنے کی رغبت دلانا

اور اللہ تعالیٰ کا فرمان سورۃ الانفال میں حَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَال ”اے رسول! مسلمانوں کو کافروں سے لڑنے کا شوق دلاؤ۔

حدیث نمبر ۲۸۳۴

راوی: انس رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میدان خندق کی طرف تشریف لے گئے (غزوہ خندق کے شروع ہونے سے کچھ پہلے جب خندق کی کھدائی ہو رہی تھی) ‘ آپ نے دیکھا کہ مہاجرین اور انصار رضوان اللہ علیہم اجمعین سردی کی سختی کے باوجود صبح ہی صبح خندق کھودنے میں مصروف ہیں ‘ ان کے پاس غلام بھی نہیں تھے جو ان کی اس کھدائی میں مدد کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تھکن اور بھوک کو دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی ”اے اللہ! زندگی تو پس آخرت ہی کی زندگی ہے پس انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما۔“

یعنی درحقیقت جو مزہ ہے آخرت کا ہے مزہ۔۔۔ بخش دے انصار اور پردیسیوں کو اے اللہ۔۔۔

 صحابہ نے اس کے جواب میں کہا ”ہم وہ ہیں جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر اس وقت تک جہاد کرنے کا عہد کیا ہے جب تک ہماری جان میں جان ہے۔“ اپنے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بیعت ہم نے کی جب تلک ہے زندگی۔۔۔ لڑتے رہیں گے ہم سدا۔

خندق کھودنے کا بیان

حدیث نمبر ۲۸۳۵

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

(جب تمام عرب کے مدینہ منورہ پر حملہ کا خطرہ ہوا تو) مدینہ کے اردگرد مہاجرین و انصار خندق کھودنے میں مشغول ہو گئے ‘ مٹی اپنی پشت پر لاد لاد کر اٹھاتے اور (یہ رجز) پڑھتے جاتے

ہم وہ ہیں جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر اس وقت تک جہاد کے لیے بیعت کی ہے جب تک ہماری جان میں جان ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس رجز کے جواب میں یہ دعا فرماتے

اے اللہ! آخرت کی خیر کے سوا اور کوئی خیر نہیں ‘ پس تو انصار اور مہاجرین کو برکت عطا فرما۔

حدیث نمبر ۲۸۳۶

راوی: براء بن عازب رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (خندق کھودتے ہوئے مٹی) اٹھا رہے تھے اور فرما رہے تھے کہ ”(اے اللہ!) اگر تو نہ ہوتا تو ہمیں ہدایت نصیب نہ ہوتی۔“

یعنی تو ہدایت گر نہ ہوتا تو نہ ملتی ہم کو راہ۔

حدیث نمبر ۲۸۳۷

راوی: براء بن عازب رضی اللہ عنہ

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غزوہ احزاب (خندق) کے موقع پر دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مٹی (خندق کھودنے کی وجہ سے جو نکلتی تھی) خود ڈھو رہے تھے۔ مٹی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیٹ کی سفیدی چھپ گئی تھی اور یہ شعر کہہ رہے تھے

لَوْلَا أَنْتَ مَا اهْتَدَيْنَا وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَا فَأَنْزِل السَكِينَةً عَلَيْنَا

اے اللہ اگر تو نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے اور ہم نہ صدقہ دیتے، اور نہ نماز پڑھتے، پس تو ہم پر سکینت نازل فرما،

وَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَيْنَا إِنَّ الْأُلَى قَدْ بَغَوْا عَلَيْنَا إِذَا أَرَادُوا فِتْنَةً أَبَيْنَا

 اور جب ہم دشمن سے مقابلہ کریں، تو ہمیں ثابت قدم رکھ، بے شک ان لوگوں نے ہم پر ظلم کیا ہے، جب یہ کوئی فساد کرنا چاہتے ہیں تو ہم ان کی بات میں نہیں آتے۔

جو شخص کسی معقول عذر کی وجہ سے جہاد میں شریک نہ ہو سکا

حدیث نمبر ۲۸۳۸

انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ساتھ غزوہ تبوک سے واپس ہوئے۔

حدیث نمبر ۲۸۳۹

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک غزوہ (تبوک) پر تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کچھ لوگ مدینہ میں ہمارے پیچھے رہ گئے ہیں لیکن ہم کسی بھی گھاٹی یا وادی میں (جہاد کے لیے) چلیں وہ ثواب میں ہمارے ساتھ ہیں کہ وہ صرف عذر کی وجہ سے ہمارے ساتھ نہیں آ سکے۔

جہاد میں روزے رکھنے کی فضیلت

حدیث نمبر ۲۸۴۰

راوی: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ

میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ‘ آپ فرماتے تھے کہ جس نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں (جہاد کرتے ہوئے) ایک دن بھی روزہ رکھا اللہ تعالیٰ اسے جہنم سے ستر سال کی مسافت کی دوری تک دور کر دے گا۔

 اللہ کی راہ ( جہاد ) میں خرچ کرنے کی فضیلت کا بیان

حدیث نمبر ۲۸۴۱

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے اللہ کے راستے میں ایک جوڑا (کسی چیز کا) خرچ کیا تو اسے جنت کے داروغہ بلائیں گے۔ جنت کے ہر دروازے کا داروغہ (اپنی طرف) بلائے گا کہ اے فلاں! اس دروازے سے آ،

س پر ابوبکر رضی اللہ عنہ بولے۔ یا رسول اللہ! پھر اس شخص کو کوئی خوف نہیں رہے گا۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے امید ہے کہ تم بھی انہیں میں سے ہو گے۔

حدیث نمبر ۲۸۴۲

راوی: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا میرے بعد تم پر دنیا کی جو برکتیں کھول دی جائیں گی ‘ میں تمہارے بارے میں ان سے ڈر رہا ہوں کہ (کہیں تم ان میں مبتلا نہ ہو جاؤ) اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کی رنگینیوں کا ذکر فرمایا۔ پہلے دنیا کی برکات کا ذکر کیا پھر اس کی رنگینیوں کو بیان فرمایا ‘

اتنے میں ایک صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! کیا بھلائی، برائی پیدا کر دے گی۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گئے۔ ہم نے سمجھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ سب لوگ خاموش ہو گئے جیسے ان کے سروں پر پرندے ہوں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرہ مبارک سے پسینہ صاف کیا اور دریافت فرمایا سوال کرنے والا کہاں ہے؟

 کیا یہ بھی (مال اور دنیا کی برکات) خیر ہے؟

 تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی جملہ دہرایا پھر فرمایا

دیکھو بہار کے موسم میں جب ہری گھاس پیدا ہوتی ہے ‘ وہ جانور کو مار ڈالتی ہے یا مرنے کے قریب کر دیتی ہے مگر وہ جانور بچ جاتا ہے جو ہری ہری دوب چرتا ہے ‘ کوکھیں بھرتے ہی سورج کے سامنے جا کھڑا ہوتا ہے۔ لید ‘ گوبر ‘ پیشاب کرتا ہے پھر اس کے ہضم ہو جانے کے بعد اور چرتا ہے ‘

اسی طرح یہ مال بھی ہرا بھرا اور شیریں ہے اور مسلمان کا وہ مال کتنا عمدہ ہے جسے اس نے حلال طریقوں سے جمع کیا ہو اور پھر اسے اللہ کے راستے میں (جہاد کے لیے) یتیموں کے لیے مسکینوں کے لیے وقف کر دیا ہو لیکن جو شخص ناجائز طریقوں سے جمع کرتا ہے تو وہ ایک ایسا کھانے والا ہے جو کبھی آسودہ نہیں ہوتا اور وہ مال قیامت کے دن اس کے خلاف گواہ بن کر آئے گا۔

جو شخص غازی کا سامان تیار کر دے یا اس کے پیچھے اس کے گھر والوں کی خبرگیری کرے ، اس کی فضیلت

حدیث نمبر ۲۸۴۳

راوی: زید بن خالد رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جس شخص نے اللہ کے راستے میں غزوہ کرنے والے کو ساز و سامان دیا تو وہ (گویا) خود غزوہ میں شریک ہوا اور جس نے خیر خواہانہ طریقہ پر غازی کے گھر بار کی نگرانی کی تو وہ (گویا) خود غزوہ میں شریک ہوا۔

حدیث نمبر ۲۸۴۴

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں اپنی بیویوں کے سوا اور کسی کے گھر نہیں جایا کرتے تھے مگر ام سلیم کے پاس جاتے۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب اس کے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اس پر رحم آتا ہے، اس کا بھائی (حرام بن ملحان) میرے کام میں شہید کر دیا گیا۔

جنگ کے موقع پر خوشبو ملنا

حدیث نمبر ۲۸۴۵

راوی: موسیٰ بن انس

جنگ یمامہ کا وہ ذکر کر رہے تھے ‘ بیان کیا کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے یہاں گئے ‘ انہوں نے اپنی ران کھول رکھی تھی اور خوشبو لگا رہے تھے۔

انس رضی اللہ عنہ نے کہا چچا! اب تک آپ جنگ میں کیوں تشریف نہیں لائے؟

انہوں نے جواب دیا کہ بیٹے ابھی آتا ہوں اور وہ پھر خوشبو لگانے لگے پھر (کفن پہن کر تشریف لائے اور بیٹھ گئے) مراد صف میں شرکت سے ہے)

انس رضی اللہ عنہ نے گفتگو کرتے ہوئے مسلمانوں کی طرف سے کچھ کمزوری کے آثار کا ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا کہ ہمارے سامنے سے ہٹ جاؤ تاکہ ہم کافروں سے دست بدست لڑیں ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم ایسا کبھی نہیں کرتے تھے۔ (یعنی پہلی صف کے لوگ ڈٹ کر لڑتے تھے کمزوری کا ہرگز مظاہرہ نہیں ہونے دیتے تھے) تم نے اپنے دشمنوں کو بہت بری چیز کا عادی بنا دیا ہے (تم جنگ کے موقع پر پیچھے ہٹ گئے) وہ حملہ کرنے لگے۔

اس حدیث کو حماد نے ثابت سے اور انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا۔

 دشمنوں کی خبر لانے والے دستہ کی فضیلت

حدیث نمبر ۲۸۴۶

راوی: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ خندق کے دن فرمایا دشمن کے لشکر کی خبر میرے پاس کون لا سکتا ہے؟

(دشمن سے مراد یہاں بنو قریظہ تھے)

زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ پھر پوچھا دشمن کے لشکر کی خبریں کون لا سکے گا؟

اس مرتبہ بھی زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں۔

 اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر نبی کے حواری (سچے مددگار) ہوتے ہیں اور میرے حواری (زبیر) ہیں۔

کیا جاسوسی کے لیے کسی ایک شخص کو بھیجا جا سکتا ہے ؟

حدیث نمبر ۲۸۴۷

راوی: جابر بن عبداللہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو (بنی قریظہ کی طرف خبر لانے کے لیے) دعوت دی۔

(ذیلی راوی) صدقہ (امام بخاری رحمہ اللہ کے استاد) نے کہا کہ میرا خیال ہے یہ غزوہ خندق کا واقعہ ہے۔

 تو زبیر رضی اللہ عنہ نے اس پر لبیک کہا

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلایا اور زبیر رضی اللہ عنہ نے لبیک کہا

پھر تیسری بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلایا اور اس مرتبہ بھی زبیر رضی اللہ عنہ نے لبیک کہا۔

 اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر نبی کے حواری ہوتے ہیں اور میرے حواری زبیر بن عوام ہیں۔

دو آدمیوں کا مل کر سفر کرنا

حدیث نمبر ۲۸۴۸

راوی: مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ

جب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں سے وطن کے لیے واپس لوٹے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا ایک میں تھا اور دوسرے میرے ساتھی ‘ (ہر نماز کے وقت) اذان پکارنا اور اقامت کہنا اور تم دونوں میں جو بڑا ہو وہ نماز پڑھائے۔

قیامت تک گھوڑے کی پیشانی کے ساتھ خیر و برکت بندھی ہوئی ہے

حدیث نمبر ۲۸۴۹

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”قیامت تک گھوڑے کی پیشانی کے ساتھ خیر و برکت وابستہ رہے گی (کیونکہ اس سے جہاد میں کام لیا جاتا رہے گا)۔“

حدیث نمبر ۲۸۵۰

راوی: عروہ بن جعد رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”قیامت تک گھوڑے کی پیشانی کے ساتھ خیر و برکت بندھی رہے گی۔“

حدیث نمبر ۲۸۵۱

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”گھوڑے کی پیشانی میں برکت بندھی ہوئی ہے۔“

مسلمانوں کا امیر عادل ہو یا ظالم اس کی قیادت میں جہاد ہمیشہ ہوتا رہے گا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ”گھوڑے کی پیشانی میں قیامت تک خیر و برکت قائم رہے گی۔“

حدیث نمبر ۲۸۵۲

راوی: عروہ بارقی رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”خیر و برکت قیامت تک گھوڑے کی پیشانی کے ساتھ بندھی رہے گی یعنی آخرت میں ثواب اور دنیا میں مال غنیمت ملتا رہے گا۔“

جو شخص جہاد کی نیت سے ( گھوڑا پالے )

اللہ تعالیٰ کے ارشاد وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ کی تعمیل میں (۸:۶۰)

حدیث نمبر ۲۸۵۳

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جس شخص نے اللہ تعالیٰ پر ایمان کے ساتھ اور اس کے وعدہ ثواب کو جانتے ہوئے اللہ کے راستے میں (جہاد کے لیے) گھوڑا پالا تو اس گھوڑے کا کھانا، پینا اور اس کا پیشاب و لید سب قیامت کے دن اس کی ترازو میں ہو گا اور سب پر اس کو ثواب ملے گا۔

گھوڑوں اور گدھوں کا نام رکھنا

حدیث نمبر ۲۸۵۴

راوی: عبداللہ بن ابی قتادہ اور ان سے ان کے باپ نے  بیان کیا

وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (صلح حدیبیہ کے موقع پر) نکلے۔ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ پیچھے رہ گئے تھے۔ ان کے دوسرے تمام ساتھی تو محرم تھے لیکن انہوں نے خود احرام نہیں باندھا تھا۔ ان کے ساتھیوں نے ایک گورخر دیکھا۔

ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے اس پر نظر پڑنے سے پہلے ان حضرات کی نظر اگرچہ اس پر پڑی تھی لیکن انہوں نے اسے چھوڑ دیا تھا لیکن ابوقتادہ رضی اللہ عنہ اسے دیکھتے ہی اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے، ان کے گھوڑے کا نام جرادہ تھا، اس کے بعد انہوں نے ساتھیوں سے کہا کہ کوئی ان کا کوڑا اٹھا کر انہیں دیدے (جسے لیے بغیر وہ سوار ہو گئے تھے)

ان لوگوں نے اس سے انکار کیا (محرم ہونے کی وجہ سے) اس لیے انہوں نے خود ہی لے لیا اور گورخر پر حملہ کر کے اس کی کونچیں کاٹ دیں انہوں نے خود بھی اس کا گوشت کھایا اور دوسرے ساتھیوں نے بھی کھایا

پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ جب یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہو لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا اس کا گوشت تمہارے پاس بچا ہوا باقی ہے؟

 ابوقتادہ نے کہا کہ ہاں اس کی ایک ران ہمارے ساتھ باقی ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی وہ گوشت کھایا۔

گھوڑے کا نام جرادہ تھا، (اس سے باب کا مطلب ثابت ہوا)۔

حدیث نمبر ۲۸۵۵

راوی: سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ

 ہمارے باغ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک گھوڑا رہتا تھا جس کا نام لحیف تھا۔

حدیث نمبر ۲۸۵۶

راوی: معاذ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس گدھے پر سوار تھے، میں اس پر آپ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔ اس گدھے کا نام عفیر تھا۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  اے معاذ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حق اپنے بندوں پر کیا ہے؟

 اور بندوں کا حق اللہ تعالیٰ پر کیا ہے؟“

میں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

- اللہ کا حق اپنے بندوں پر یہ ہے کہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں

- اور بندوں کا حق اللہ تعالیٰ پر یہ ہے کہ جو بندہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو اللہ اسے عذاب نہ دے۔“

میں نے کہا یا رسول اللہ! کیا میں اس کی لوگوں کو بشارت نہ دے دوں؟

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”لوگوں کو اس کی بشارت نہ دو ورنہ وہ خالی اعتماد کر بیٹھیں گے۔ (اور نیک اعمال سے غافل ہو جائیں گے)۔“

حدیث نمبر ۲۸۵۷

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ  

(ایک رات) مدینہ میں کچھ خطرہ سا محسوس ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارا (ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا جو آپ کے عزیز تھے) گھوڑا منگوایا، گھوڑے کا نام مندوب تھا۔

 پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  خطرہ تو ہم نے کوئی نہیں دیکھا البتہ اس گھوڑے کو ہم نے سمندر (بہت تیز) پایا ہے۔

 اس بیان میں کہ بعض گھوڑے منحوس ہوتے ہیں

حدیث نمبر ۲۸۵۸

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ”نحوست صرف تین چیزوں میں ہوتی ہے۔ گھوڑے میں، عورت میں اور گھر میں۔“

حدیث نمبر ۲۸۵۹

راوی: سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

نحوست اگر ہوتی تو وہ گھوڑے، عورت اور مکان میں ہوتی۔

گھوڑے کے رکھنے والے تین طرح کے ہوتے ہیں

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً

اور گھوڑے، خچر اور گدھے (اللہ تعالیٰ نے پیدا کئے) تاکہ تم ان پر سوار بھی ہوا کرو اور زینت بھی رہے۔ (۱۶:۸)

حدیث نمبر ۲۸۶۰

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گھوڑے کے مالک تین طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ بعض لوگوں کے لیے وہ باعث اجر و ثواب ہیں، بعضوں کے لیے وہ صرف پردہ ہیں اور بعضوں کے لیے وبال جان ہیں۔

 جس کے لیے گھوڑا اجر و ثواب کا باعث ہے یہ وہ شخص ہے جو اللہ کے راستے میں جہاد کی نیت سے اسے پالتا ہے پھر جہاں خوب چری ہوتی ہے یا (یہ فرمایا کہ) کسی شاداب جگہ اس کی رسی کو خوب لمبی کر کے باندھتا ہے (تاکہ چاروں طرف چر سکے) تو گھوڑا اس کی چری کی جگہ سے یا اس شاداب جگہ سے اپنی رسی میں بندھا ہوا جو کچھ بھی کھاتا پیتا ہے مالک کو اس کی وجہ سے نیکیاں ملتی ہیں اور اگر وہ گھوڑا اپنی رسی تڑا کر ایک زغن یا دو زغن لگائے تو اس کی لید اور اس کے قدموں کے نشانوں میں بھی مالک کے لیے نیکیاں ہیں اور اگر وہ گھوڑا نہر سے گزرے اور اس میں سے پانی پی لے تو اگرچہ مالک نے پانی پلانے کا ارادہ نہ کیا ہو پھر بھی اس سے اسے نیکیاں ملتی ہیں،

 دوسرا شخص وہ ہے جو گھوڑے کو فخر، دکھاوے اور اہل اسلام کی دشمنی میں باندھتا ہے تو یہ اس کے لیے وبال جان ہے

 اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گدھوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ پر اس جامع اور منفرد آیت کے سوا ان کے متعلق اور کچھ نازل نہیں ہوا

فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ ‏‏‏‏ ۔ ‏‏‏‏ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ ‏‏‏‏

جو کوئی ایک ذرہ برابر بھی نیکی کرے گا اس کا بدلہ پائے گا اور جو کوئی ذرہ برابر برائی کرے گا اس کا بدلہ پائے گا۔ (۹۹:۷،۸)

جہاد میں دوسرے کے جانور کو مارنا

حدیث نمبر ۲۸۶۱

راوی: ابوالمتوکل ناجی (علی بن داود)

میں جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنا ہے، ان میں سے مجھ سے بھی کوئی حدیث بیان کیجئے۔

انہوں نے بیان فرمایا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا۔جب (مدینہ منورہ) دکھائی دینے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اپنے گھر جلدی جانا چاہے وہ جا سکتا ہے۔

جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر ہم آگے بڑھے۔ میں اپنے ایک سیاہی مائل سرخ اونٹ بےداغ پر سوار تھا دوسرے لوگ میرے پیچھے رہ گئے، میں اسی طرح چل رہا تھا کہ اونٹ رک گیا (تھک کر)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جابر! اپنا اونٹ تھام لے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کوڑے سے اونٹ کو مارا، اونٹ کود کر چل نکلا

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا یہ اونٹ بیچو گے؟

میں نے کہا ہاں!

جب مدینہ پہنچے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ مسجد نبوی میں داخل ہوئے تو میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا اور ”بلاط“ کے ایک کونے میں، میں نے اونٹ کو باندھ دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یہ آپ کا اونٹ ہے۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور اونٹ کو گھمانے لگے اور فرمایا کہ اونٹ تو ہمارا ہی ہے، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند اوقیہ سونا مجھے دلوایا اور دریافت فرمایا تم کو قیمت پوری مل گئی۔

میں نے عرض کیا جی ہاں۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب قیمت اور اونٹ (دونوں ہی) تمہارے ہیں۔

سخت سرکش جانور اور نر گھوڑے کی سواری کرنا

اور راشد بن سعد تابعی نے بیان کیا کہ صحابہ نر گھوڑے کی سواری پسند کیا کرتے تھے کیونکہ وہ دوڑتا بھی تیز ہے اور بہادر بھی بہت ہوتا ہے۔

حدیث نمبر ۲۸۶۲

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

 مدینہ میں (ایک رات) کچھ خوف اور گھبراہٹ ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا ایک گھوڑا مانگ لیا۔ اس گھوڑے کا نام ”مندوب“ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر سوار ہوئے اور واپس آ کر فرمایا کہ خوف کی تو کوئی بات ہم نے نہیں دیکھی البتہ یہ گھوڑا کیا ہے دریا ہے!

 ( غنیمت کے مال سے ) گھوڑے کا حصہ کیا ملے گا

حدیث نمبر ۲۸۶۳

 ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مال غنیمت سے) گھوڑے کے دو حصے لگائے تھے اور اس کے مالک کا ایک حصہ۔

امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ عربی اور ترکی گھوڑے سب برابر ہیں کیونکہ اللہ نے فرمایا وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا ”اور گھوڑوں، خچروں اور گدھوں کو سواری کے لیے بنایا  (۱۶:۸)

اور ہر سوار کو ایک ہی گھوڑے کا حصہ دیا جائے گا (گو اس کے پاس کئی گھوڑے ہوں)۔

 اگر کوئی لڑائی میں دوسرے کے جانور کو کھینچ کر چلائے

حدیث نمبر ۲۸۶۴

راوی: ابواسحاق

ایک شخص نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا حنین کی لڑائی میں آپ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر چلے گئے تھے؟

براء رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ پر ثابت قدم رہے۔

 ہوازن کے لوگ (جن سے اس لڑائی میں مقابلہ تھا) بڑے تیرانداز تھے، جب ہمارا ان سے سامنا ہوا تو شروع میں ہم نے حملہ کر کے انہیں شکست دے دی، پھر مسلمان مال غنیمت پر ٹوٹ پڑے اور دشمن نے تیروں کی ہم پر بارش شروع کر دی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ سے نہیں ہٹے۔ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سفید خچر پر سوار تھے، ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ اس کی لگام تھامے ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ شعر فرما رہے تھے

أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبْ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ

میں نبی ہوں اس میں جھوٹ کا کوئی دخل نہیں، میں عبدالمطلب کی اولاد ہوں۔

جانور پر رکاب یا غرز لگانا

حدیث نمبر ۲۸۶۵

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنا پائے مبارک  غرز  (رکاب) میں ڈالا اور اونٹنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر سیدھی اٹھ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد ذوالحلیفہ کے پاس لبیک کہا (احرام باندھا)۔

گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار ہونا

حدیث نمبر ۲۸۶۶

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر جس پر زین نہیں تھی، سوار ہو کر صحابہ سے آگے نکل گئے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن مبارک میں تلوار لٹک رہی تھی۔

سست رفتار گھوڑے پر سوار ہونا

حدیث نمبر ۲۸۶۷

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

ایک مرتبہ (رات میں) اہل مدینہ کو دشمن کا خطرہ ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ایک گھوڑے (مندوب) پر سوار ہوئے، گھوڑا سست رفتار تھا یا (راوی نے یوں کہا کہ) اس کی رفتار میں سستی تھی، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس ہوئے تو فرمایا کہ ہم نے تو تمہارے اس گھوڑے کو دریا پایا (یہ بڑا ہی تیز رفتار ہے) چنانچہ اس کے بعد کوئی گھوڑا اس سے آگے نہیں نکل سکتا تھا۔

گھوڑ دوڑ کا بیان

حدیث نمبر ۲۸۶۸

راوی: ابن عمر رضی اللہ عنہما

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیار کئے ہوئے گھوڑوں کی دوڑ مقام حفیاء سے ثنیۃ الوداع تک کرائی تھی اور جو گھوڑے تیار نہیں کئے گئے تھے ان کی دوڑ ثنیۃ الوداع سے مسجد زریق تک کرائی تھی۔

ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ گھوڑ دوڑ میں شریک ہونے والوں میں میں بھی تھا۔

 سفیان ثوری نے بیان کیا کہ حفیاء سے ثنیۃ الوداع تک پانچ میل کا فاصلہ ہے اور ثنیۃ الوداع سے مسجد بنی زریق صرف ایک میل کے فاصلے پر ہے۔

گھوڑ دوڑ کے لیے گھوڑوں کو تیار کرنا

حدیث نمبر ۲۸۶۹

راوی: عبداللہ رضی اللہ عنہما

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان گھوڑوں کی دوڑ کرائی تھی جنہیں تیار نہیں کیا گیا تھا اور دوڑ کی حد ثنیۃ الوداع سے مسجد بنی زریق رکھی تھی اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بھی اس میں شرکت کی تھی۔

ابوعبداللہ نے کہا کہ أَمَدًا (حدیث میں) حد اور انتہا کے معنی میں ہے۔ قرآن مجید میں ہے فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ یعنی ”پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی“ جو اسی معنی میں ہے۔

تیار کئے ہوئے گھوڑوں کی دوڑ کی حد کہاں تک ہو

حدیث نمبر ۲۸۷۰

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان گھوڑوں کی دوڑ کرائی جنہیں تیار کیا گیا تھا۔ یہ دوڑ مقام حفیاء سے شروع کرائی اور ثنیۃ الوداع اس کی آخری حد تھی

بواسحاق ذیلی راوی نے بیان کیا کہ  میں نے ابوموسیٰ سے پوچھا اس کا فاصلہ کتنا تھا؟ تو انہوں نے بتایا کہ چھ یا سات میل

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان گھوڑوں کی بھی دوڑ کرائی جنہیں تیار نہیں کیا گیا تھا۔ ایسے گھوڑوں کی دوڑ ثنیۃ الوداع سے شروع ہوئی اور حد مسجد بنی زریق تھی۔ میں نے پوچھا اس میں کتنا فاصلہ تھا؟ انہوں نے کہا کہ تقریباً ایک میل۔

 ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی دوڑ میں شرکت کرنے والوں میں تھے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کا بیان

ہم سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ رضی اللہ عنہ کو قصواء (نامی اونٹنی) پر اپنے پیچھے بٹھایا تھا۔

 مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قصواء نے سرکشی نہیں کی ہے۔

حدیث نمبر ۲۸۷۱

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کا نام عضباء تھا۔

حدیث نمبر ۲۸۷۲

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اونٹنی تھی جس کا نام عضباء تھا۔ کوئی اونٹنی اس سے آگے نہیں بڑھتی تھی یا حمید نے یوں کہا وہ پیچھے رہ جانے کے قریب نہ ہوتی پھر ایک دیہاتی ایک نوجوان ایک قوی اونٹ پر سوار ہو کر آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی سے ان کا اونٹ آگے نکل گیا۔

مسلمانوں پر یہ بڑا شاق گزرا لیکن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

اللہ تعالیٰ برحق ہے کہ دنیا میں جو چیز بھی بلند ہوتی ہے (کبھی کبھی) اسے وہ گراتا بھی ہے۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سفید خچر کا بیان

اس کا ذکر انس رضی اللہ عنہ نے اپنی حدیث میں کیا

اور ابو حمید ساعدی نے کہا کہ ایلہ کے بادشاہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک سفید خچر تحفہ میں بھجوایا تھا۔

حدیث نمبر ۲۸۷۳

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (وفات کے بعد) سوا اپنے سفید خچر کے، اپنے ہتھیار اور اس زمین کے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیرات کر دی تھی اور کوئی چیز نہیں چھوڑی تھی۔

حدیث نمبر ۲۸۷۴

براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے کہ ان سے ایک شخص نے پوچھا اے ابوعمارہ! کیا آپ لوگوں نے (مسلمانوں کے لشکر نے) حنین کی لڑائی میں پیٹھ پھیر لی تھی؟ انہوں نے فرمایا کہ نہیں اللہ گواہ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیٹھ نہیں پھیری تھی البتہ جلد باز لوگ (میدان سے) بھاگ پڑے تھے (اور وہ لوٹ میں لگ گئے تھے) قبیلہ ہوازن نے ان پر تیر برسانے شروع کر دئیے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سفید خچر پر سوار تھے اور ابوسفیان بن حارث اس کی لگام تھامے ہوئے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے «أنا النبي لا كذب أنا ابن عبد المطلب‏"‏» میں نبی ہوں جس میں جھوٹ کا کوئی دخل نہیں۔ میں عبدالمطلب کی اولاد ہوں۔

عورتوں کا جہاد کیا ہے

حدیث نمبر ۲۸۷۵

راوی: ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا

میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جہاد کی اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارا جہاد حج ہے۔

حدیث نمبر ۲۸۷۶

عائشہ بنت طلحہ سے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے واسطہ سے ہے (اس میں ہے کہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی ازواج مطہرات نے جہاد کی اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حج بہت ہی عمدہ جہاد ہے۔

دریا میں سوار ہو کر عورت کا جہاد کرنا

حدیث نمبر ۲۸۷۷،۷۸

راوی:  انس رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ام حرام بنت ملحان کے یہاں تشریف لے گئے اور ان کے یہاں تکیہ لگا کر سو گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم (اٹھے تو) مسکرا رہے تھے۔

 ام حرام نے پوچھا یا رسول اللہ! آپ کیوں ہنس رہے تھے؟

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ میری امت کے کچھ لوگ اللہ کے راستے میں (جہاد کے لیے) سبز سمندر پر سوار ہو رہے ہیں ان کی مثال (دنیا یا آخرت میں) تخت پر بیٹھے ہوئے بادشاہوں کی سی ہے۔

انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ سے دعا فرما دیجئیے کہ اللہ مجھے بھی ان میں سے کر دے۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اے اللہ! انہیں بھی ان لوگوں میں سے کر دے

پھر دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹے اور (اٹھے) تو مسکرا رہے تھے۔ انہوں نے اس مرتبہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہی سوال کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پہلی ہی وجہ بتائی۔

 انہوں نے پھر عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کر دیجئیے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی ان میں سے کر دے،

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سب سے پہلے لشکر میں شریک ہو گی اور یہ کہ بعد والوں میں تمہاری شرکت نہیں ہے۔

 انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر آپ نے (ام حرام نے) عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے ساتھ نکاح کر لیا اور بنت قرظ معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیوی کے ساتھ انہوں نے دریا کا سفر کیا۔ پھر جب واپس ہوئیں اور اپنی سواری پر چڑھیں تو اس نے ان کی گردن توڑ ڈالی۔ وہ اس سواری سے گر گئیں اور (اسی میں) ان کی وفات ہوئی۔

 آدمی جہاد میں اپنی ایک بیوی کو لے جائے ایک کو نہ لے جائے ( یہ درست ہے )

حدیث نمبر ۲۸۷۹

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے جانا چاہتے (جہاد کے لیے) تو اپنی ازواج میں قرعہ ڈالتے اور جس کا نام نکل آتا انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔

 ایک غزوہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے درمیان قرعہ اندازی کی تو اس مرتبہ میرا نام آیا اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئی، یہ پردے کا حکم نازل ہونے کے بعد کا واقعہ ہے۔

عورتوں کا جنگ کرنا اور مردوں کے ساتھ لڑائی میں شرکت کرنا

حدیث نمبر ۲۸۸۰

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

احد کی لڑائی کے موقع پر مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے جدا ہو گئے تھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ بنت ابی بکر اور ام سلیم رضی اللہ عنہا (انس رضی اللہ عنہ کی والدہ) کو دیکھا کہ یہ اپنے ازار سمیٹے ہوئے تھیں اور (تیز چلنے کی وجہ سے) پانی کے مشکیزے چھلکاتی ہوئی لیے جا رہی تھیں

اور ابومعمر کے علاوہ جعفر بن مہران نے بیان کیا کہ مشکیزے کو اپنی پشت پر ادھر سے ادھر جلدی جلدی لیے پھرتی تھیں اور قوم کو اس میں سے پانی پلاتی تھیں، پھر واپس آتی تھیں اور مشکیزوں کو بھر کر لے جاتی تھیں اور قوم کو پانی پلاتی تھیں، میں ان کے پاؤں کی پازیبیں دیکھ رہا تھا۔

حدیث نمبر ۲۸۸۱

راوی: ثعلبہ بن ابی مالک

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مدینہ کی خواتین میں کچھ چادریں تقسیم کیں۔ ایک نئی چادر بچ گئی تو بعض حضرات نے جو آپ کے پاس ہی تھے کہا یا امیرالمؤمنین! یہ چادر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی کو دے دیجئیے، جو آپ کے گھر میں ہیں۔

 ان کی مراد (آپ کی بیوی) ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہ سے تھی

لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ام سلیط اس کی زیادہ مستحق ہیں۔ یہ ام سلیط رضی اللہ عنہا ان انصاری خواتین میں سے تھیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ احد کی لڑائی کے موقع پر ہمارے لیے مشکیزے (پانی کے) اٹھا کر لاتی تھیں۔

جہاد میں عورتیں زخمیوں کی مرہم پٹی کر سکتی ہیں

حدیث نمبر ۲۸۸۲

راوی: ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا

ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (غزوہ میں) شریک ہوتے تھے، مسلمان فوجیوں کو پانی پلاتیں تھیں زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں اور جو لوگ شہید ہو جاتے انہیں مدینہ اٹھا کر لاتیں تھیں۔

زخمیوں اور شہیدوں کو عورتیں لے کر جا سکتی ہیں

حدیث نمبر ۲۸۸۳

راوی: ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا

ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد میں شریک ہوتیں تھیں مجاہد مسلمانوں کو پانی پلاتیں، ان کی خدمت کرتیں اور زخمیوں اور شہیدوں کو اٹھا کر مدینہ لے جاتیں تھیں۔

( مجاہدین کے ) جسم سے تیر کا کھینچ کر نکالنا

حدیث نمبر ۲۸۸۴

راوی: ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ

ابوعامر رضی اللہ عنہ کے گھٹنے میں تیر لگا تو میں ان کے پاس پہنچا۔ انہوں نے فرمایا کہ اس تیر کو کھینچ کر نکال لو میں نے کھینچ لیا تو اس سے خون بہنے لگا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حادثہ کی اطلاع دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان کے لیے) دعا فرمائی

اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِعُبَيْدٍ أَبِي عَامِرٍ

 اے اللہ! عبید ابوعامر کی مغفرت فرما۔

اللہ کے راستے میں جہاد میں پہرہ دینا کیسا ہے ؟

حدیث نمبر ۲۸۸۵

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک رات) بیداری میں گزاری، مدینہ پہنچنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کاش! میرے اصحاب میں سے کوئی نیک مرد ایسا ہوتا جو رات بھر ہمارا پہرہ دیتا!“

ابھی یہی باتیں ہو رہی تھیں کہ ہم نے ہتھیار کی جھنکار سنی۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا ”یہ کون صاحب ہیں؟“

(آنے والے نے) کہا میں ہوں سعد بن ابی وقاص، آپ کا پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔

 پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوئے۔ ان کے لیے دعا فرمائی اور آپ سو گئے۔

حدیث نمبر ۲۸۸۶

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

اشرفی کا بندہ، روپے کا بندہ، چادر کا بندہ، کمبل کا بندہ ہلاک ہوا کہ اگر اسے کچھ دے دیا جائے تب تو خوش ہو جاتا ہے اور اگر نہیں دیا جائے تو ناراض ہو جاتا ہے۔

اللہ کے راستے میں جہاد میں پہرہ دینا کیسا ہے ؟

حدیث نمبر ۲۸۸۷

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

اشرفی کا بندہ اور روپے کا بندہ اور کمبل کا بندہ تباہ ہوا، اگر اس کو کچھ دیا جائے تب تو خوش جب نہ دیا جائے تو غصہ ہو جائے، ایسا شخص تباہ سرنگوں ہوا۔ اس کو کانٹا لگے تو اللہ کرے پھر نہ نکلے۔

مبارک کا مستحق ہے وہ بندہ جو اللہ کے راستے میں (غزوہ کے موقع پر) اپنے گھوڑے کی لگام تھامے ہوئے ہے، اس کے سر کے بال پراگندہ ہیں اور اس کے قدم گرد و غبار سے اٹے ہوئے ہیں، اگر اسے چوکی پہرے پر لگا دیا جائے تو وہ اپنے اس کام میں پوری تندہی سے لگا رہے اور اگر لشکر کے پیچھے (دیکھ بھال کے لیے) لگا دیا جائے تو اس میں بھی پوری تندہی اور فرض شناسی سے لگا رہے۔ (اگرچہ زندگی میں غربت کی وجہ سے اس کی کوئی اہمیت بھی نہ ہو کہ) اگر وہ کسی سے ملاقات کی اجازت چاہے تو اسے اجازت بھی نہ ملے اور اگر کسی کی سفارش کرے تو اس کی سفارش بھی قبول نہ کی جائے۔

جہاد میں خدمت کرنے کی فضیلت کا بیان

حدیث نمبر ۲۸۸۸

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

میں جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا تو وہ میری خدمت کرتے تھے حالانکہ عمر میں وہ مجھ سے بڑے تھے، جریر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے ہر وقت انصار کو ایک ایسا کام کرتے دیکھا (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت) کہ جب ان میں سے کوئی مجھے ملتا ہے تو میں اس کی تعظیم و اکرام کرتا ہوں۔

حدیث نمبر ۲۸۸۹

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر (غزوہ کے موقع پر) گیا، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس ہوئے اور احد پہاڑ دکھائی دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ وہ پہاڑ ہے جس سے ہم محبت کرتے ہیں اور وہ ہم سے محبت کرتا ہے۔

 اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے مدینہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا۔ اے اللہ! میں اس کے دونوں پتھریلے میدانوں کے درمیان کے خطے کو حرمت والا قرار دیتا ہوں، جس طرح ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرمت والا شہر قرار دیا تھا، اے اللہ! ہمارے صاع اور ہمارے مد میں برکت عطا فرما۔

حدیث نمبر ۲۸۹۰

راوی: انس رضی اللہ عنہ

 ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (ایک سفر میں) تھے۔ کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم روزے سے تھے اور کچھ نے روزہ نہیں رکھا تھا۔ موسم گرمی کا تھا، ہم میں زیادہ بہتر سایہ جو کوئی کرتا، اپنا کمبل تان لیتا۔ خیر جو لوگ روزے سے تھے وہ کوئی کام نہ کر سکے تھے اور جن حضرات نے روزہ نہیں رکھا تھا تو انہوں نے ہی اونٹوں کو اٹھایا (پانی پلایا) اور روزہ داروں کی خوب خوب خدمت بھی کی۔ اور (دوسرے تمام) کام کئے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”آج اجر و ثواب کو روزہ نہ رکھنے والے لوٹ کر لے گئے۔“

اس شخص کی فضیلت جس نے سفر میں اپنے ساتھی کا سامان اٹھا دیا

حدیث نمبر ۲۸۹۱

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

روزانہ انسان کے ہر ایک جوڑ پر صدقہ لازم ہے

- اور اگر کوئی شخص کسی کی سواری میں مدد کرے کہ اس کو سہارا دے کر اس کی سواری پر سوار کرا دے یا اس کا سامان اس پر اٹھا کر رکھ دے تو یہ بھی صدقہ ہے۔

-  اچھا اور پاک لفظ بھی (زبان سے نکالنا) صدقہ ہے۔

-  ہر قدم جو نماز کے لیے اٹھتا ہے وہ بھی صدقہ ہے

- اور (کسی مسافر کو) راستہ بتا دینا بھی صدقہ ہے۔

 اللہ کے راستے میں سرحد پر ایک دن پہرہ دینا کتنا بڑا ثواب ہے

اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

اے ایمان والو صبر کرو اور مقابلہ کے وقت مضبوط رہو اور لگے رہو اور الله سے ڈرتے رہو تاکہ تم نجات پاؤ (۳:۲۰۰)

حدیث نمبر ۲۸۹۲

راوی: سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

اللہ کے راستے میں دشمن سے ملی ہوئی سرحد پر ایک دن کا پہرہ  الدُّنْيَا وَمَا عَلَيْهَا   سے بڑھ کر ہے

جنت میں کسی کے لیے ایک کوڑے جتنی جگہ الدُّنْيَا وَمَا عَلَيْهَا سے بڑھ کر ہے

اور جو شخص اللہ کے راستے میں شام کو چلے یا صبح کو تو وہ الدُّنْيَا وَمَا عَلَيْهَا  سے بہتر ہے۔“

اگر کسی بچے کو خدمت کے لیے جہاد میں ساتھ لے جائے

حدیث نمبر ۲۸۹۳

راوی:  انس بن مالک رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اپنے بچوں میں سے کوئی بچہ میرے ساتھ کر دو جو خیبر کے غزوے میں میرے کام کر دیا کرے، جب کہ میں خیبر کا سفر کروں۔

ابوطلحہ اپنی سواری پر اپنے پیچھے بٹھا کر مجھے (انس رضی اللہ عنہ کو) لے گئے، میں اس وقت ابھی لڑکا تھا۔ بالغ ہونے کے قریب۔ جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہیں قیام فرماتے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتا۔ اکثر میں سنتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کرتے۔

اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْهَمِّ، ‏‏‏‏‏‏وَالْحَزَنِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَجْزِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْكَسَلِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْبُخْلِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْجُبْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَضَلَعِ الدَّيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَغَلَبَةِ الرِّجَالِ

اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں غم، عاجزی، سستی، بخل، بزدلی، قرض داری کے بوجھ اور ظالم کے اپنے اوپر غلبہ سے،

آخر ہم خیبر پہنچے اور جب اللہ تعالیٰ نے خیبر کے قلعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے صفیہ بنت حی بن اخطب رضی اللہ عنہا کے جمال (ظاہری و باطنی) کا ذکر کیا گیا ان کا شوہر (یہودی) لڑائی میں کام آ گیا تھا اور وہ ابھی دلہن ہی تھیں (اور چونکہ قبیلہ کے سردار کی لڑکی تھیں) اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان کا اکرام کرنے کے لیے کہا) انہیں اپنے لیے پسند فرما لیا۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ساتھ لے کر وہاں سے چلے۔ جب ہم سدا الصبہاء پر پہنچے تو وہ حیض سے پاک ہوئیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے خلوت کی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حیس (کھجور، پنیر اور گھی سے تیار کیا ہوا ایک کھانا) تیار کرا کر ایک چھوٹے سے دستر خوان پر رکھوایا اور مجھ سے فرمایا کہ اپنے آس پاس کے لوگوں کو دعوت دے دو اور یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ نکاح کا ولیمہ تھا۔

 آخر ہم مدینہ کی طرف چلے، انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفیہ رضی اللہ عنہا کی وجہ سے اپنے پیچھے (اونٹ کے کوہان کے اردگرد) اپنی عباء سے پردہ کئے ہوئے تھے (سواری پر جب صفیہ رضی اللہ عنہا سوار ہوتیں) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹ کے پاس بیٹھ جاتے اور اپنا گھٹنا کھڑا رکھتے اور صفیہ رضی اللہ عنہا اپنا پاؤں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنے پر رکھ کر سوار ہو جاتیں۔

اس طرح ہم چلتے رہے اور جب مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد پہاڑ کو دیکھا اور فرمایا یہ پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم اس سے محبت رکھتے ہیں، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف نگاہ اٹھائی اور فرمایا: اے اللہ! میں اس کے دونوں پتھریلے میدانوں کے درمیان کے خطے کو حرمت والا قرار دیتا ہوں جس طرح ابراہیم علیہ السلام نے مکہ معظمہ کو حرمت والا قرار دیا تھا اے اللہ! مدینہ کے لوگوں کو ان کی مد اور صاع میں برکت دیجئیے!

جہاد کے لیے سمندر میں سفر کرنا

حدیث نمبر ۲۸۹۴

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

ان سے ام حرام رضی اللہ عنہا نے یہ واقعہ بیان کیا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن ان کے گھر تشریف لا کر قیلولہ فرمایا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو ہنس رہے تھے۔

انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ! کس بات پر آپ ہنس رہے ہیں؟

 فرمایا مجھے اپنی امت میں ایک ایسی قوم کو (خواب میں دیکھ کر) خوشی ہوئی جو سمندر میں (غزوہ کے لیے) اس طرح جا رہے تھے جیسے بادشاہ تخت پر بیٹھے ہوں۔

میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ سے دعا کیجئے کہ مجھے بھی وہ ان میں سے کر دے۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم بھی ان میں سے ہو۔

 اس کے بعد پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے اور جب بیدار ہوئے تو پھر ہنس رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرتبہ بھی وہی بات بتائی۔ ایسا دو یا تین دفعہ ہوا۔

 میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ مجھے بھی ان میں سے کر دے۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سب سے پہلے لشکر کے ساتھ ہو گی

وہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں اور وہ ان کو (اسلام کے سب سے پہلے بحری بیڑے کے ساتھ) غزوہ میں لے گئے، واپسی میں سوار ہونے کے لیے اپنی سواری سے قریب ہوئیں (سوار ہوتے ہوئے یا سوار ہونے کے بعد) گر پڑیں جس سے آپ کی گردن ٹوٹ گئی اور شہادت کی موت پائی۔

لڑائی میں کمزور ناتواں ( جیسے عورتیں ، بچے ، اندھے ، معذور اور مساکین ) اور نیک لوگوں سے مدد چاہنا

اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ مجھ کو ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ مجھ سے قیصر (ملک روم) نے کہا کہ میں نے تم سے پوچھا کہ امیر لوگوں نے ان (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) کی پیروی کی ہے یا کمزور غریب طبقہ والوں نے؟

 تم نے بتایا کہ کمزور غریب طبقے نے (ان کی اتباع کی ہے) اور انبیاء کا پیروکار یہی طبقہ ہوتا ہے۔

حدیث نمبر ۲۸۹۵

راوی: مصعب ابن سعد

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ انہیں دوسرے بہت سے صحابہ پر (اپنی مالداری اور بہادری کی وجہ سے) فضیلت حاصل ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

تم لوگ صرف اپنے کمزور معذور لوگوں کی دعاؤں کے نتیجہ میں اللہ کی طرف سے مدد پہنچائے جاتے ہو اور ان ہی کی دعاؤں سے رزق دئیے جاتے ہیں۔

حدیث نمبر ۲۸۹۶

راوی: سعید خدری رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ مسلمانوں کی فوج کی فوج جہاں پر ہوں گی جن میں پوچھا جائے گا کہ کیا فوج میں کوئی ایسے بزرگ بھی ہیں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اٹھائی ہو، کہا جائے گا کہ ہاں تو ان سے فتح کی دعا کرائی جائے گی۔

پھر ایک ایسا زمانہ آئے گا اس وقت اس کی تلاش ہو گی کہ کوئی ایسے بزرگ مل جائیں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی صحبت اٹھائی ہو، (یعنی تابعی) ایسے بھی بزرگ مل جائیں گے اور ان سے فتح کی دعا کرائی جائے گی

 اس کے بعد ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ پوچھا جائے گا کہ کیا تم میں کوئی ایسے بزرگ ہیں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے شاگردوں کی صحبت اٹھائی ہو کہا جائے گا کہ ہاں اور ان سے فتح کی دعا کرائی جائے گی۔

قطعی طور پر یہ نہ کہا جائے کہ فلاں شخص شہید ہے

حدیث نمبر ۲۸۹۷

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ کون اس کے راستے میں جہاد کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ کون اس کے راستے میں زخمی ہوتا ہے۔

حدیث نمبر ۲۸۹۸

راوی: سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی (اپنے اصحاب کے ہمراہ احد یا خیبر کی لڑائی میں) مشرکین سے مڈبھیڑ ہوئی اور جنگ چھڑ گئی، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم (اس دن لڑائی سے فارغ ہو کر) اپنے پڑاؤ کی طرف واپس ہوئے اور مشرکین اپنے پڑاؤ کی طرف تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فوج کے ساتھ ایک شخص تھا، لڑائی لڑنے میں ان کا یہ حال تھا کہ مشرکین کا کوئی آدمی بھی اگر کسی طرف نظر آ جاتا تو اس کا پیچھا کر کے وہ شخص اپنی تلوار سے اسے قتل کر دیتا۔

سہل رضی اللہ عنہ نے اس کے متعلق کہا کہ آج جتنی سرگرمی کے ساتھ فلاں شخص لڑا ہے، ہم میں سے کوئی بھی شخص اس طرح نہ لڑ سکا۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ لیکن وہ شخص دوزخی ہے۔

مسلمانوں میں سے ایک شخص نے (اپنے دل میں کہا اچھا میں اس کا پیچھا کروں گا (دیکھوں) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کیوں دوزخی فرمایا ہے)

بیان کیا کہ وہ اس کے ساتھ ساتھ دوسرے دن لڑائی میں موجود رہا، جب کبھی وہ کھڑا ہو جاتا تو یہ بھی کھڑا ہو جاتا اور جب وہ تیز چلتا تو یہ بھی اس کے ساتھ تیز چلتا۔ بیان کیا کہ آخر وہ شخص زخمی ہو گیا زخم بڑا گہرا تھا۔ اس لیے اس نے چاہا کہ موت جلدی آ جائے اور اپنی تلوار کا پھل زمین پر رکھ کر اس کی دھار کو سینے کے مقابلہ میں کر لیا اور تلوار پر گر کر اپنی جان دے دی۔

 اب وہ صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا بات ہوئی؟

 انہوں نے بیان کیا کہ وہی شخص جس کے متعلق آپ نے فرمایا تھا کہ وہ دوزخی ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر یہ آپ کا فرمان بڑا شاق گزرا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ تم سب لوگوں کی طرف سے میں اس کے متعلق تحقیق کرتا ہوں۔ چنانچہ میں اس کے پیچھے ہو لیا۔ اس کے بعد وہ شخص سخت زخمی ہوا اور چاہا کہ جلدی موت آ جائے۔ اس لیے اس نے اپنی تلوار کا پھل زمین پر رکھ کر اس کی دھار کو اپنے سینے کے مقابل کر لیا اور اس پر گر کر خود جان دے دی۔

 اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک آدمی زندگی بھر بظاہر اہل جنت کے سے کام کرتا ہے حالانکہ وہ اہل دوزخ میں سے ہوتا ہے اور ایک آدمی بظاہر اہل دوزخ کے کام کرتا ہے حالانکہ وہ اہل جنت میں سے ہوتا ہے۔

تیر اندازی کی ترغیب دلانے کے بیان میں

اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد  سورۃ الانفال میں

وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ‏‏‏‏

اور ان (کافروں) کے مقابلے کے لیے جس قدر بھی تم سے ہو سکے سامان تیار رکھو، قوت سے اور پلے ہوئے گھوڑوں سے، جس کے ذریعہ سے تم اپنا رعب رکھتے ہو اللہ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں پر۔ (۸:۶۰)

حدیث نمبر ۲۸۹۹

راوی: سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قبیلہ بنو اسلم کے چند لوگوں پر گزر ہوا جو تیر اندازی کی مشق کر رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسماعیل علیہ السلام کے بیٹو! تیر اندازی کرو کہ تمہارے بزرگ دادا اسماعیل علیہ السلام بھی تیرانداز تھے۔ ہاں! تیر اندازی کرو، میں بنی فلاں (ابن الاورع رضی اللہ عنہ) کی طرف ہوں۔

 بیان کیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک فریق کے ساتھ ہو گئے تو (مقابلے میں حصہ لینے والے) دوسرے ایک فریق نے ہاتھ روک لیے۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا بات پیش آئی، تم لوگوں نے تیر اندازی بند کیوں کر دی؟

 دوسرے فریق نے عرض کیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک فریق کے ساتھ ہو گئے تو بھلا ہم کس طرح مقابلہ کر سکتے ہیں۔

 اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا تیر اندازی جاری رکھو میں تم سب کے ساتھ ہوں۔

حدیث نمبر ۲۹۰۰

راوی: حمزہ بن ابی اسید  سے ان کے والد نے بیان کیا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کی لڑائی کے موقع پر جب ہم قریش کے مقابلہ میں صف باندھے ہوئے کھڑے ہو گئے تھے اور وہ ہمارے مقابلہ میں تیار تھے، فرمایا کہ اگر (حملہ کرتے ہوئے) قریش تمہارے قریب آ جائیں تو تم لوگ تیر اندازی شروع کر دینا تاکہ وہ پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوں۔

برچھے سے ( مشق کرنے کے لیے ) کھیلنا

حدیث نمبر ۲۹۰۱

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

حبشہ کے کچھ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حراب (چھوٹے نیزے) کا کھیل دکھلا رہے تھے کہ عمر رضی اللہ عنہ آ گئے اور کنکریاں اٹھا کر انہیں ان سے مارا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”عمر انہیں کھیل دکھانے دو۔“

علی بن مدینی نے یہ بیان زیادہ کیا کہ ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، انہیں معمر نے خبر دی کہ مسجد میں (یہ صحابہ رضی اللہ عنہم اپنے کھیل کا مظاہرہ کر رہے تھے)۔

 ڈھال کا بیان اور جو اپنے ساتھی کی ڈھال کو استعمال کرے اس کا بیان

حدیث نمبر ۲۹۰۲

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

ابوطلحہ رضی اللہ عنہ اپنی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آڑ ایک ہی ڈھال سے کر رہے تھے اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ بڑے اچھے تیرانداز تھے۔ جب وہ تیر مارتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سر اٹھا کر دیکھتے کہ تیر کہاں جا کر گرا ہے۔

حدیث نمبر ۲۹۰۳

راوی: سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ

جب احد کی لڑائی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک پر توڑا گیا اور چہرہ مبارک خون آلود ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے کے دانت شہید ہو گئے تو علی رضی اللہ عنہ ڈھال میں بھربھر کر پانی باربار لا رہے تھے اور فاطمہ رضی اللہ عنہا زخم کو دھو رہی تھیں۔ جب انہوں نے دیکھا کہ خون پانی سے اور زیادہ نکل رہا ہے تو انہوں نے ایک چٹائی جلائی اور اس کی راکھ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخموں پر لگا دیا، جس سے خون آنا بند ہو گیا۔

حدیث نمبر ۲۹۰۴

راوی: عمر رضی اللہ عنہ

بنونضیر کے باغات وغیرہ ان اموال میں سے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بغیر لڑے دے دیا تھا۔ مسلمانوں نے ان کے حاصل کرنے کے لیے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے تو یہ اموال خاص طور سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے تھے جن میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات کو سالانہ نفقہ کے طور پر بھی دے دیتے تھے اور باقی ہتھیار اور گھوڑوں پر خرچ کرتے تھے تاکہ اللہ کے راستے میں (جہاد کے لیے) ہر وقت تیاری رہے۔

حدیث نمبر ۲۹۰۵

راوی: علی رضی اللہ عنہ

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے بعد میں نے کسی کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنا کہ آپ نے خود کو ان پر صدقے کیا ہو۔ میں نے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ”تیر برساؤ (سعد) تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔“

ڈھال کے بیان میں

حدیث نمبر ۲۹۰۶

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں تشریف لائے تو دو لڑکیاں میرے پاس جنگ بعاث کے گیت گا رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بستر پر لیٹ گئے اور چہرہ مبارک دوسری طرف کر لیا

اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ آ گئے اور آپ نے مجھے ڈانٹا کہ یہ شیطانی گانا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں!

لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ انہیں گانے دو،

پھر جب ابوبکر رضی اللہ عنہ دوسری طرف متوجہ ہو گئے تو میں نے ان لڑکیوں کو اشارہ کیا اور وہ چلی گئیں۔

حدیث نمبر ۲۹۰۷

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

عید کے دن سوڈان کے کچھ صحابہ ڈھال اور حراب کا کھیل دکھا رہے تھے، اب یا میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی فرمایا کہ تم بھی دیکھنا چاہتی ہو؟

 میں نے کہا جی ہاں۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کر لیا، میرا چہرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ پر تھا (اس طرح میں پیچھے پردے سے کھیل کو بخوبی دیکھ سکتی تھی) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: خوب بنوارفدہ!

جب میں تھک گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بس؟

میں نے کہا جی ہاں،

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر جاؤ۔

تلواروں کی حمائل اور تلوار کا گلے میں لٹکانا

حدیث نمبر ۲۹۰۸

راوی: انس رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ خوبصورت اور سب سے زیادہ بہادر تھے۔ ایک رات مدینہ پر (ایک آواز سن کر) بڑا خوف چھا گیا تھا، سب لوگ اس آواز کی طرف بڑھے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے آگے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی واقعہ کی تحقیق کی۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ایک گھوڑے پر سوار تھے جس کی پشت ننگی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن سے تلوار لٹک رہی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ ڈرو مت۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم نے تو گھوڑے کو سمندر کی طرح تیز پایا ہے یا یہ فرمایا کہ گھوڑا جیسے سمندر ہے۔

تلوار کی آرائش کرنا

حدیث نمبر ۲۹۰۹

راوی: ابوامامہ باہلی

ایک قوم (صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین) نے بہت سی فتوحات کیں اور ان کی تلواروں کی آرائش سونے چاندی سے نہیں ہوئی تھی بلکہ اونٹ کی پشت کا چمڑہ، سیسہ اور لوہا ان کی تلواروں کے زیور تھے۔

جس نے سفر میں دوپہر کے آرام کے وقت اپنی تلوار درخت سے لٹکائی

حدیث نمبر ۲۹۱۰

راوی: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما

آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نجد کے اطراف میں ایک غزوہ میں شریک تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد سے واپس ہوئے تو آپ کے ساتھ یہ بھی واپس ہوئے۔ راستے میں قیلولہ کا وقت ایک ایسی وادی میں ہوا جس میں ببول کے درخت بکثرت تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وادی میں پڑاؤ کیا اور صحابہ پوری وادی میں (درخت کے سائے کے لیے) پھیل گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک ببول کے نیچے قیام فرمایا اور اپنی تلوار درخت پر لٹکا دی۔

 ہم سب سو گئے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پکارنے کی آواز سنائی دی، دیکھا گیا تو ایک بدوی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس نے غفلت میں میری ہی تلوار مجھ پر کھینچ لی تھی اور میں سویا ہوا تھا، جب بیدار ہوا تو ننگی تلوار اس کے ہاتھ میں تھی۔ اس نے کہا مجھ سے تمہیں کون بچائے گا؟

میں نے کہا کہ اللہ! تین مرتبہ (میں نے اسی طرح کہا اور تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر گئی)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعرابی کو کوئی سزا نہیں دی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے (پھر وہ خود متاثر ہو کر اسلام لایا)۔

خود پہننا ( لوہے کا ٹوپ جس سے میدان جنگ میں سر کا بچاؤ کیا جاتا تھا )

حدیث نمبر ۲۹۱۱

راوی: سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ

ان سے احد کی لڑائی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زخمی ہونے کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے بتلایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر زخم آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے کے دانت ٹوٹ گئے تھے اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک پر ٹوٹ گئی تھی۔ (جس سے سر پر زخم آئے تھے) فاطمہ رضی اللہ عنہا خون دھو رہی تھیں اور علی رضی اللہ عنہ پانی ڈال رہے تھے۔

جب فاطمہ رضی اللہ عنہا نے دیکھا کہ خون برابر بڑھتا ہی جا رہا ہے تو انہوں نے ایک چٹائی جلائی اور اس کی راکھ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخموں پر لگا دیا جس سے خون بہنا بند ہو گیا۔

کسی کی موت پر اس کے ہتھیار وغیرہ توڑنے درست نہیں

حدیث نمبر ۲۹۱۲

راوی: عمرو بن حارث رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (وفات کے بعد) اپنے ہتھیار ایک سفید خچر اور ایک قطعہ اراضی جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے ہی صدقہ کر چکے تھے کے سوا اور کوئی چیز نہیں چھوڑی تھی۔

 دوپہر کے وقت درختوں کا سایہ حاصل کرنے کے لیے فوجی لوگ امام سے جدا ہو کر ( متفرق درختوں کے سائے تلے ) پھیل سکتے ہیں

حدیث نمبر ۲۹۱۳

راوی: جابر رضی اللہ عنہ

آپ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک لڑائی میں شریک تھے۔ ایک ایسے جنگل میں جہاں ببول کے درخت بکثرت تھے۔ قیلولہ کا وقت ہو گیا، تمام صحابہ سائے کی تلاش میں (پوری وادی میں متفرق درختوں کے نیچے) پھیل گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک درخت کے نیچے قیام فرمایا۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلوار (درخت کے تنے سے) لٹکا دی تھی اور سو گئے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک اجنبی موجود تھا۔

 اس اجنبی نے کہا کہ اب تمہیں مجھ سے کون بچائے گا؟

پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز دی اور جب صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شخص نے میری ہی تلوار مجھ پر کھینچ لی تھی اور مجھ سے کہنے لگا تھا کہ اب تمہیں میرے ہاتھ سے کون بچا سکے گا؟

میں نے کہا اللہ (اس پر وہ شخص خود ہی دہشت زدہ ہو گیا) اور تلوار نیام میں کر لی، اب یہ بیٹھا ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی سزا نہیں دی تھی۔

بھالوں ( نیزوں ) کا بیان

اور ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کیا جاتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

میری روزی میرے نیزے کے سائے کے نیچے مقدر کی گئی ہے اور جو میری شریعت کی مخالفت کرے اس کے لیے ذلت اور خواری کو مقدر کیا گیا ہے۔

حدیث نمبر ۲۹۱۴

راوی: ابوقتادہ رضی اللہ عنہ

آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے (صلح حدیبیہ کے موقع پر) مکہ کے راستے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ جو احرام باندھے ہوئے تھے، لشکر سے پیچھے رہ گئے۔ خود قتادہ رضی اللہ عنہ نے ابھی احرام نہیں باندھا تھا۔ پھر انہوں نے ایک گورخر دیکھا اور اپنے گھوڑے پر (شکار کرنے کی نیت سے) سوار ہو گئے، اس کے بعد انہوں نے اپنے ساتھیوں سے (احرام باندھے ہوئے تھے) کہا کہ کوڑا اٹھا دیں انہوں نے اس سے انکار کیا، پھر انہوں نے اپنا نیزہ مانگا اس کے دینے سے انہوں نے انکار کیا، آخر انہوں نے خود اسے اٹھایا اور گورخر پر جھپٹ پڑے اور اسے مار لیا۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے بعض نے تو اس گورخر کا گوشت کھایا اور بعض نے اس کے کھانے سے (احرام کے عذر کی بنا پر) انکار کیا۔ پھر جب یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے تو اس کے متعلق مسئلہ پوچھا۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو ایک کھانے کی چیز تھی جو اللہ نے تمہیں عطا کی۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لڑائی میں زرہ پہننا

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ”خالد بن ولید نے تو اپنی زرہیں اللہ کے راستے میں وقف کر رکھی ہیں (پھر اس سے زکاۃ کا مانگنا بیجا ہے)۔“

حدیث نمبر ۲۹۱۵

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (بدر کے دن) دعا فرما رہے تھے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک خیمہ میں تشریف فرما تھے، کہ اے اللہ! میں تیرے عہد اور تیرے وعدے کا واسطہ دے کر فریاد کرتا ہوں۔ اے اللہ! اگر تو چاہے تو آج کے بعد تیری عبادت نہ کی جائے گی۔

اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ لیا اور عرض کیا: بس کیجئے اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کے حضور میں دعا کی حد کر دی ہے۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت زرہ پہنے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو زبان مبارک پر یہ آیت تھی

سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ ‏‏‏‏ أ ‏‏‏‏ بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ أَدْهَى وَأَمَرُّ

جماعت (مشرکین) جلد ہی شکست کھا کر بھاگ جائے گی اور پیٹھ دکھانا اختیار کرے گی اور قیامت کے دن کا ان سے وعدہ ہے اور قیامت کا دن بڑا ہی بھیانک اور تلخ ہو گا۔ (۵۴:۴۵،۴۶)

حدیث نمبر ۲۹۱۶

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زرہ ایک یہودی کے پاس تیس صاع جو کے بدلے میں رہن رکھی ہوئی تھی۔

 اور یعلیٰ نے بیان کیا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا کہ لوہے کی زرہ (تھی)

اور معلیٰ نے بیان کیا، ان سے عبدالواحد نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوہے کی ایک زرہ رہن رکھی تھی۔

حدیث نمبر ۲۹۱۷

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  

بخیل (جو زکوٰۃ نہیں دیتا) اور زکوٰۃ دینے والے (سخی) کی مثال دو آدمیوں جیسی ہے، دونوں لوہے کے کرتے (زرہ) پہنے ہوئے ہیں، دونوں کے ہاتھ گردن سے بندھے ہوئے ہیں زکوٰۃ دینے والا (سخی) جب بھی زکوٰۃ کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا کرتہ اتنا کشادہ ہو جاتا ہے کہ زمین پر چلتے میں گھسٹتا جاتا ہے لیکن جب بخیل صدقہ کا ارادہ کرتا ہے تو اس کی زرہ کا ایک ایک حلقہ اس کے بدن پر تنگ ہو جاتا ہے اور اس طرح سکڑ جاتا ہے کہ اس کے ہاتھ اس کی گردن سے جڑ جاتے ہیں۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ”پھر بخیل اسے ڈھیلا کرنا چاہتا ہے لیکن وہ ڈھیلا نہیں ہوتا۔“

سفر میں اور لڑائی میں چغہ پہننے کا بیان

حدیث نمبر ۲۹۱۸

راوی: مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس ہوئے تو میں پانی لے کر خدمت میں حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم شامی جبہ پہنے ہوئے تھے۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور اپنے چہرہ پاک کو دھویا۔ اس کے بعد (ہاتھ دھونے کے لیے) آستین چڑھانے کی کوشش کی لیکن آستین تنگ تھی اس لیے ہاتھوں کو نیچے سے نکالا پھر انہیں دھویا اور سر کا مسح کیا اور دونوں موزوں ہر دو کا بھی مسح کیا۔

لڑائی میں حریر یعنی خالص ریشمی کپڑا پہننا

حدیث نمبر ۲۹۱۹

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن بن عوف اور زبیر رضی اللہ عنہما کو خارش کے مرض کی وجہ سے ریشمی کرتہ پہننے کی اجازت دے دی تھی، جو ان دونوں کو لاحق ہو گئی تھی جو اس مرض میں مفید ہے۔

حدیث نمبر ۲۹۲۰

راوی: انس رضی اللہ عنہ

عبدالرحمٰن بن عوف اور زبیر بن عوام رضی اللہ عنہما نے  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جوؤں کی شکایت کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ریشمی کپڑے کے استعمال کی اجازت دے دی، پھر میں نے جہاد میں انہیں ریشمی کپڑا پہنے ہوئے دیکھا۔

حدیث نمبر ۲۹۲۱

راوی: انس رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن بن عوف اور زبیر بن عوام رضی اللہ عنہما کو ریشمی کپڑے پہننے کی اجازت دے دی تھی۔

حدیث نمبر ۲۹۲۲

راوی: انس رضی اللہ عنہ

(نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے) رخصت دی تھی یا (یہ بیان کیا کہ) رخصت دی گئی تھی، ان دونوں حضرات کو خارش کی وجہ سے جو ان کو لاحق ہو گئی تھی۔

چھری کا استعمال کرنا درست ہے

حدیث نمبر ۲۹۲۳

راوی: جعفر بن عمرو بن امیہ  سے ان کے والد نے بیان کیا

میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شانے کا گوشت (چھری سے) کاٹ کر کھا رہے تھے، پھر نماز کے لیے اذان ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی لیکن وضو نہیں کیا۔

 نصاریٰ سے لڑنے کی فضیلت کا بیان

حدیث نمبر ۲۹۲۴

راوی: عمیر بن اسود عنسی

وہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ کا قیام ساحل حمص پر اپنے ہی ایک مکان میں تھا اور آپ کے ساتھ (آپ کی بیوی) ام حرام رضی اللہ عنہا بھی تھیں۔

عمیر نے بیان کیا کہ ہم سے ام حرام رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میری امت کا سب سے پہلا لشکر جو دریائی سفر کر کے جہاد کے لیے جائے گا، اس نے (اپنے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت) واجب کر لی۔

 ام حرام رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے کہا تھا یا رسول اللہ! کیا میں بھی ان کے ساتھ ہوں گی؟

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، تم بھی ان کے ساتھ ہو گی۔

 پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے پہلا لشکر میری امت کا جو قیصر (رومیوں کے بادشاہ) کے شہر (قسطنطنیہ) پر چڑھائی کرے گا ان کی مغفرت ہو گی۔

 میں نے کہا میں بھی ان کے ساتھ ہوں گی یا رسول اللہ!

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں۔

 یہودیوں سے لڑائی ہونے کا بیان

حدیث نمبر ۲۹۲۵

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

(ایک دور آئے گا جب) تم یہودیوں سے جنگ کرو گے۔ (اور وہ شکست کھا کر بھاگتے پھریں گے) کوئی یہودی اگر پتھر کے پیچھے چھپ جائے گا تو وہ پتھر بھی بول اٹھے گا کہ اے اللہ کے بندے! یہ یہودی میرے پیچھے چھپا بیٹھا ہے اسے قتل کر ڈال۔

حدیث نمبر ۲۹۲۶

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک یہودی سے تمہاری جنگ نہ ہو لے گی اور وہ پتھر بھی اس وقت (اللہ تعالیٰ کے حکم سے) بول اٹھیں گے جس کے پیچھے یہودی چھپا ہوا ہو گا کہ اے مسلمان! یہ یہودی میری آڑ لے کر چھپا ہوا ہے اسے قتل کر ڈالو۔

 ترکوں سے جنگ کا میدان

حدیث نمبر ۲۹۲۷

راوی: عمرو بن تغلب رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ تم ایسی قوم سے جنگ کرو گے جو بالوں کی جوتیاں پہنے ہوں گے (یا ان کے بال بہت لمبے ہوں گے)

اور قیامت کی ایک نشانی یہ ہے کہ ان لوگوں سے لڑو گے جن کے منہ چوڑے چوڑے ہوں گے گویا ڈھالیں ہیں چمڑا جمی ہوئی (یعنی بہت موٹے منہ والے ہوں گے)۔

حدیث نمبر ۲۹۲۸

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک تم ترکوں سے جنگ نہ کر لو گے، جن کی آنکھیں چھوٹی ہوں گی، چہرے سرخ ہوں گے، ناک موٹی پھیلی ہوئی ہو گی، ان کے چہرے ایسے ہوں گے جیسے تہہ بند چمڑا لگی ہوئی ہوتی ہ

ے اور قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک تم ایک ایسی قوم سے جنگ نہ کر لو گے جن کے جوتے بال کے بنے ہوئے ہوں گے۔

 ان لوگوں سے لڑائی کا بیان جو بالوں کی جوتیاں پہنتے ہوں گے

حدیث نمبر ۲۹۲۹

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک تم ایک ایسی قوم سے لڑائی نہ کر لو گے جن کے جوتے بالوں کے ہوں گے اور قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک تم ایک ایسی قوم سے جنگ نہ کر لو گے جن کے چہرے تہہ شدہ ڈھالوں جیسے ہوں گے۔

سفیان نے بیان کیا کہ اس میں ابوالزناد نے اعرج سے اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ زیادہ نقل کیا کہ ان کی آنکھیں چھوٹی ہوں گی، ناک موٹی، چہرے ایسے ہوں گے جیسے تہہ بہ تہہ چمڑہ لگی ڈھال ہوتی ہے۔

 ہار جانے کے بعد امام کا سواری سے اترنا اور بچے کھچے لوگوں کی صف باندھ کر اللہ سے مدد مانگنا

حدیث نمبر ۲۹۳۰

راوی: ابواسحاق

میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا، ان سے ایک صاحب نے پوچھا تھا کہ ابوعمارہ! کیا آپ لوگوں نے حنین کی لڑائی میں فرار اختیار کیا تھا؟

براء رضی اللہ عنہ نے کہا نہیں اللہ کی قسم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پشت ہرگز نہیں پھیری تھی۔ البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں جو نوجوان تھے بے سروسامان جن کے پاس نہ زرہ تھی، نہ خود اور کوئی ہتھیار بھی نہیں لے گئے تھے، انہوں نے ضرور میدان چھوڑ دیا تھا کیونکہ مقابلہ میں ہوازن اور بنو نصر کے بہترین تیرانداز تھے کہ کم ہی ان کا کوئی تیر خطا جاتا۔ چنانچہ انہوں نے خوب تیر برسائے اور شاید ہی کوئی نشانہ ان کا خطا ہوا ہو (اس دوران میں مسلمان) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر جمع ہو گئے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سفید خچر پر سوار تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچیرے بھائی ابوسفیان بن حارث ابن عبدالمطلب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کی لگام تھامے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سواری سے اتر کر اللہ تعالیٰ سے مدد کی دعا مانگی۔ پھر فرمایا:

میں نبی ہوں اس میں غلط بیانی کا کوئی شائبہ نہیں، میں عبدالمطلب کی اولاد ہوں۔“

مشرکین کے لیے شکست اور زلزلے کی بددعا کرنا

حدیث نمبر ۲۹۳۱

راوی: علی رضی اللہ عنہ

غزوہ احزاب (خندق) کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مشرکین کو) یہ بددعا دی کہ اے اللہ! ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے۔ انہوں نے ہم کو صلوٰۃ وسطیٰ (عصر کی نماز) نہیں پڑھنے دی

(یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت فرمایا) جب سورج غروب ہو چکا تھا اور عصر کی نماز قضاء ہو گئی تھی۔

حدیث نمبر ۲۹۳۲

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (صبح کی) دعائے قنوت میں (دوسری رکعت کے رکوع کے بعد) یہ دعا پڑھتے تھے

اللَّهُمَّ أَنْجِ سَلَمَةَ بْنَ هِشَامٍ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ أَنْجِ الْوَلِيدَ بْنَ الْوَلِيدِ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ أَنْجِ عَيَّاشَ بْنَ أَبِي رَبِيعَةَ، ‏‏‏‏‏‏

اللَّهُمَّ أَنْجِ الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ اشْدُدْ وَطْأَتَكَ عَلَى مُضَرَ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ سِنِينَ كَسِنِي يُوسُفَ

اے اللہ سلمہ بن ہشام کو نجات دے، ولید بن ولید کو نجات دے، اے اللہ! عیاش بن ابی ربیعہ کو نجات دے، اے اللہ! تمام کمزور مسلمانوں کو نجات دے۔

اے اللہ! مضر پر اپنا سخت عذاب نازل کر۔ اے اللہ ایسا قحط نازل کر جیسا یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں پڑا تھا۔

حدیث نمبر ۲۹۳۳

راوی: عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ

غزوہ احزاب کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی تھی

اللَّهُمَّ مُنْزِلَ الْكِتَابِ سَرِيعَ الْحِسَابِ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ اهْزِمْ الْأَحْزَابَ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ اهْزِمْهُمْ وَزَلْزِلْهُمْ

اے اللہ! کتاب کے نازل کرنے والے (قیامت کے دن) حساب بڑی سرعت سے لینے والے، اے اللہ! مشرکوں اور کفار کی جماعتوں کو شکست دے۔ اے اللہ! انہیں شکست دے اور انہیں جھنجھوڑ کر رکھ دے۔

حدیث نمبر ۲۹۳۴

راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے سائے میں نماز پڑھ رہے تھے، ابوجہل اور قریش کے بعض دوسرے لوگوں نے کہا کہ اونٹ کی اوجھڑی لا کر کون ان پر ڈالے گا؟ مکہ کے کنارے ایک اونٹ ذبح ہوا تھا (اور اسی کی اوجھڑی لانے کے واسطے) ان سب نے اپنے آدمی بھیجے اور وہ اس اونٹ کی اوجھڑی اٹھا لائے اور اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر (نماز پڑھتے ہوئے) ڈال دیا۔ اس کے بعد فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر سے اس گندگی کو ہٹایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت یہ بددعا کی

اللهم عليك بقريش،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ اللهم عليك بقريش،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ اللهم عليك بقريش ‏"‏‏.‏ لأبي جهل بن هشام،‏‏‏‏

‏‏‏‏ وعتبة بن ربيعة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وشيبة بن ربيعة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ والوليد بن عتبة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وأبى بن خلف،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وعقبة بن أبي معيط‏.‏

اے اللہ! قریش کو پکڑ، اے اللہ! قریش کو پکڑ، ابوجہل بن ہشام، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، ابی بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط سب کو پکڑ لے۔

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا چنانچہ میں نے ان سب کو جنگ بدر میں بدر کے کنوئیں میں دیکھا کہ سب کو قتل کر کے اس میں ڈال دیا گیا تھا۔

ابواسحاق نے کہا کہ میں ساتویں شخص کا (جس کے حق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بددعا کی تھی نام) بھول گیا اور یوسف بن ابی اسحاق نے کہا کہ ان سے ابواسحاق نے (سفیان کی روایت میں ابی بن خلف کی بجائے) امیہ بن خلف بیان کیا اور شعبہ نے کہا کہ امیہ یا ابی (شک کے ساتھ ہے) لیکن صحیح امیہ ہے۔

حدیث نمبر ۲۹۳۵

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

بعض یہودی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور کہا  السام عليك‏  (تم پر موت آئے)

میں نے ان پر لعنت بھیجی۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  کیا بات ہوئی؟  

میں نے کہا کیا انہوں نے ابھی جو کہا تھا آپ نے نہیں سنا؟

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  کیا اور تم نے نہیں سنا کہ میں نے اس کا کیا جواب دیا وعليكم  یعنی تم پر بھی وہی آئے

(یعنی میں نے کوئی برا لفظ زبان سے نہیں نکالا صرف ان کی بات ان ہی پر لوٹا دی)۔

مسلمان اہل کتاب کو دین کی بات بتلائے یا ان کو قرآن سکھائے ؟

حدیث نمبر ۲۹۳۶

راوی: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (روم کے بادشاہ) قیصر کو (خط) لکھا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی لکھا تھا کہ اگر تم نے (اسلام کی دعوت سے) منہ موڑا تو (اپنے گناہ کے ساتھ) ان کاشتکاروں کا بھی گناہ تم پر پڑے گا (جن پر تم حکمرانی کر رہے ہو)۔

مشرکین کا دل ملانے کے لیے ان کی ہدایت کی دعا کرنا

حدیث نمبر ۲۹۳۷

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! قبیلہ دوس کے لوگ سرکشی پر اتر آئے ہیں اور اللہ کا کلام سننے سے انکار کرتے ہیں۔ آپ ان پر بددعا کیجئے!

بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا کہ اب دوس کے لوگ برباد ہو جائیں گے۔

لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 اللهم اهد دوسا وائت بهم

 اے اللہ! دوس کے لوگوں کو ہدایت دے اور انہیں (دائرہ اسلام میں) کھینچ لا۔

یہود اور نصاریٰ کو کیوں کر دعوت دی جائے اور کس بات پر ان سے لڑائی کی جائے

اور ایران اور روم کے بادشاہوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خطوط لکھنا اور لڑائی سے پہلے اسلام کی دعوت دینا۔

حدیث نمبر ۲۹۳۸

راوی: انس رضی اللہ عنہ

ہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شاہ روم کو خط لکھنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ وہ لوگ کوئی خط اس وقت تک قبول نہیں کرتے جب تک وہ سربمہر نہ ہو، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چاندی کی انگوٹھی بنوائی۔ گویا دست مبارک پر اس کی سفیدی میری نظروں کے سامنے ہے۔ اس انگوٹھی پر  محمد رسول اللہ  کھدا ہوا تھا۔

حدیث نمبر ۲۹۳۹

راوی: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا خط کسریٰ کے پاس بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایلچی سے) یہ فرمایا تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خط کو بحرین کے گورنر کو دے دیں، بحرین کا گورنر اسے کسریٰ کے دربار میں پہنچا دے گا۔

جب کسریٰ نے مکتوب مبارک پڑھا تو اسے اس نے پھاڑ ڈالا۔

مجھے یاد ہے کہ سعید بن مسیب نے بیان کیا تھا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر بددعا کی تھی کہ وہ بھی پارہ پارہ ہو جائے (چنانچہ ایسا ہی ہوا)۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ( غیر مسلموں کو ) اسلام کی طرف دعوت دینا اور اس بات کی دعوت کہ وہ اللہ کو چھوڑ کر باہم ایک دوسرے کو اپنا رب نہ بنائیں

ور اللہ تعالیٰ کا ارشاد

مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُؤْتِيَهُ اللَّهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ ... وَبِمَا كُنتُمْ تَدْرُسُونَ

 کسی بشر کا کام نہیں کہ اﷲ اس کو دے کتاب اور حکم اور پیغمبر کرے،

پھر وہ کہے لوگوں کو تم میرے بندے ہو اﷲ کو چھوڑ کر، لیکن تم ربّی (اﷲ والے) ہو جاؤ، جیسے تھے تم کتاب سکھاتے، اور جیسے تھے تم پڑھتے۔  (۳:۷۹)

حدیث نمبر ۲۹۴۰

راوی: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیصر کو ایک خط لکھا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اسلام کی دعوت دی تھی۔ دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکتوب دے کر بھیجا اور انہیں حکم دیا کہ مکتوب بصریٰ کے گورنر کے حوالہ کر دیں وہ اسے قیصر تک پہنچا دے گا۔

جب فارس کی فوج (اس کے مقابلے میں) شکست کھا کر پیچھے ہٹ گئی تھی (اور اس کے ملک کے مقبوضہ علاقے واپس مل گئے تھے) تو اس انعام کے شکرانہ کے طور پر جو اللہ تعالیٰ نے (اس کا ملک اسے واپس دے کر) اس پر کیا تھا ابھی قیصر حمص سے ایلیاء (بیت المقدس) تک پیدل چل کر آیا تھا۔

 جب اس کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک پہنچا اور اس کے سامنے پڑھا گیا تو اس نے کہا کہ اگر ان کی (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی) قوم کا کوئی شخص یہاں ہو تو اسے تلاش کر کے لاؤ تاکہ میں اس رسول کے متعلق اس سے کچھ سوالات کروں۔

حدیث نمبر ۲۹۴۱

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

مجھے ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ قریش کے ایک قافلے کے ساتھ وہ ان دنوں شام میں مقیم تھے۔ یہ قافلہ اس دور میں یہاں تجارت کی غرض سے آیا تھا جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور کفار قریش میں باہم صلح ہو چکی تھی۔ (صلح حدیبیہ) ابوسفیان نے کہا کہ قیصر کے آدمی کی ہم سے شام کے ایک مقام پر ملاقات ہوئی اور وہ مجھے اور میرے ساتھیوں کو اپنے (قیصر کے دربار میں بیت المقدس) لے کر چلا پھر جب ہم ایلیاء (بیت المقدس) پہنچے تو قیصر کے دربار میں ہماری بازیابی ہوئی۔ اس وقت قیصر دربار میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے سر پر تاج تھا اور روم کے امراء اس کے اردگرد تھے، اس نے اپنے ترجمان سے کہا کہ ان سے پوچھو کہ جنہوں نے ان کے یہاں نبوت کا دعویٰ کیا ہے نسب کے اعتبار سے ان سے قریب ان میں سے کون شخص ہے؟

ابوسفیان نے بیان کیا کہ میں نے کہا میں نسب کے اعتبار سے ان کے زیادہ قریب ہوں۔

 قیصر نے پوچھا تمہاری اور ان کی قرابت کیا ہے؟

 میں نے کہا (رشتے میں) وہ میرے چچازاد بھائی ہوتے ہیں، اتفاق تھا کہ اس مرتبہ قافلے میں میرے سوا بنی عبد مناف کا اور آدمی موجود نہیں تھا۔

قیصر نے کہا کہ اس شخص (ابوسفیان رضی اللہ عنہ) کو مجھ سے قریب کر دو اور جو لوگ میرے ساتھ تھے اس کے حکم سے میرے پیچھے قریب میں کھڑے کر دئیے گئے۔ اس کے بعد اس نے اپنے ترجمان سے کہا کہ اس شخص (ابوسفیان) کے ساتھیوں سے کہہ دو کہ اس سے میں ان صاحب کے بارے میں پوچھوں گا جو نبی ہونے کے مدعی ہیں، اگر یہ ان کے بارے میں کوئی جھوٹ بات کہے تو تم فوراً اس کی تکذیب کر دو۔

ابوسفیان نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم! اگر اس دن اس بات کی شرم نہ ہوتی کہ کہیں میرے ساتھی میری تکذیب نہ کر بیٹھیں تو میں ان سوالات کے جوابات میں ضرور جھوٹ بول جاتا جو اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کئے تھے، لیکن مجھے تو اس کا خطرہ لگا رہا کہ کہیں میرے ساتھی میری تکذیب نہ کر دیں۔ اس لیے میں نے سچائی سے کام لیا۔

 اس کے بعد اس نے اپنے ترجمان سے کہا اس سے پوچھو کہ تم لوگوں میں ان صاحب ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا نسب کیسا سمجھا جاتا ہے؟

 میں نے بتایا کہ ہم میں ان کا نسب بہت عمدہ سمجھا جاتا ہے۔

 اس نے پوچھا اچھا یہ نبوت کا دعویٰ اس سے پہلے بھی تمہارے یہاں کسی نے کیا تھا؟

میں نے کہا کہ نہیں۔

اس نے پوچھا کیا اس دعویٰ سے پہلے ان پر کوئی جھوٹ کا الزام تھا؟

میں نے کہا کہ نہیں،

اس نے پوچھا ان کے باپ دادوں میں کوئی بادشاہ گزرا ہے؟

میں نے کہا نہیں۔

 اس نے پوچھا تو اب بڑے امیر لوگ ان کی اتباع کرتے ہیں یا کمزور اور کم حیثیت کے لوگ؟

میں نے کہا کہ کمزور اور معمولی حیثیت کے لوگ ہی ان کے (زیادہ تر ماننے والے ہیں)

اس نے پوچھا کہ اس کے ماننے والوں کی تعداد بڑھتی رہتی ہے یا گھٹتی جا رہی ہے؟

میں نے کہا جی نہیں تعداد برابر بڑھتی جا رہی ہے۔

 اس نے پوچھا کوئی ان کے دین سے بیزار ہو کر اسلام لانے کے بعد پھر بھی گیا ہے کیا؟

میں نے کہا کہ نہیں، اس نے پوچھا انہوں نے کبھی وعدہ خلافی بھی کی ہے؟

 میں نے کہا کہ نہیں لیکن آج کل ہمارا ان سے ایک معاہدہ ہو رہا ہے اور ہمیں ان کی طرف سے معاہدہ کی خلاف ورزی کا خطرہ ہے۔

ابوسفیان نے کہا کہ پوری گفتگو میں سوا اس کے اور کوئی ایسا موقع نہیں ملا جس میں میں کوئی ایسی بات (جھوٹی) ملا سکوں جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین ہو۔ اور اپنے ساتھیوں کی طرف سے بھی جھٹلانے کا ڈر نہ ہو۔

اس نے پھر پوچھا کیا تم نے کبھی ان سے لڑائی کی ہے یا انہوں نے تم سے جنگ کی ہے؟

میں نے کہا کہ ہاں،

اس نے پوچھا تمہاری لڑائی کا کیا نتیجہ نکلتا ہے؟

میں نے کہا لڑائی میں ہمیشہ کسی ایک گروہ نے فتح نہیں حاصل کی۔ کبھی وہ ہمیں مغلوب کر لیتے ہیں اور کبھی ہم انہیں،

 اس نے پوچھا وہ تمہیں کن کاموں کا حکم دیتے ہیں؟

 کہا ہمیں وہ اس کا حکم دیتے ہیں کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کریں اور اس کا کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائیں، ہمیں ان بتوں کی عبادت سے منع کرتے ہیں جن کی ہمارے باپ دادا عبادت کیا کرتے تھے، نماز، صدقہ، پاک بازی و مروت، وفاء، عہد اور امانت کے ادا کرنے کا حکم دیتے ہیں۔

جب میں اسے یہ تمام باتیں بتا چکا تو اس نے اپنے ترجمان سے کہا، ان سے کہو کہ میں نے تم سے ان صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب کے متعلق دریافت کیا تو تم نے بتایا کہ وہ تمہارے یہاں صاحب نسب اور شریف سمجھے جاتے ہیں اور انبیاء بھی یوں ہی اپنی قوم کے اعلیٰ نسب میں پیدا کئے جاتے ہیں۔

میں نے تم سے یہ پوچھا تھا کہ کیا نبوت کا دعویٰ تمہارے یہاں اس سے پہلے بھی کسی نے کیا تھا تم نے بتایا کہ ہمارے یہاں ایسا دعویٰ پہلے کسی نے نہیں کیا تھا، اس سے میں یہ سمجھا کہ اگر اس سے پہلے تمہارے یہاں کسی نے نبوت کا دعویٰ کیا ہوتا تو میں یہ بھی کہہ سکتا تھا کہ یہ صاحب بھی اسی دعویٰ کی نقل کر رہے ہیں جو اس سے پہلے کیا جا چکا ہے۔

 میں نے تم سے دریافت کیا کہ کیا تم نے دعویٰ نبوت سے پہلے کبھی ان کی طرف جھوٹ منسوب کیا تھا، تم نے بتایا کہ ایسا کبھی نہیں ہوا۔ اس سے میں اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ ممکن نہیں کہ ایک شخص جو لوگوں کے متعلق کبھی جھوٹ نہ بول سکا ہو وہ اللہ کے متعلق جھوٹ بول دے۔

میں نے تم سے دریافت کیا کہ ان کے باپ دادوں میں کوئی بادشاہ تھا، تم نے بتایا کہ نہیں۔ میں نے اس سے یہ فیصلہ کیا کہ اگر ان کے باپ دادوں میں کوئی بادشاہ گزرا ہوتا تو میں یہ بھی کہہ سکتا تھا کہ (نبوت کا دعویٰ کر کے) وہ اپنے باپ دادا کی سلطنت حاصل کرنا چاہتے ہیں،

 میں نے تم سے دریافت کیا کہ ان کی اتباع قوم کے بڑے لوگ کرتے ہیں یا کمزور اور بے حیثیت لوگ، تم نے بتایا کہ کمزور غریب قسم کے لوگ ان کی تابعداری کرتے ہیں اور یہی گروہ انبیاء کی (ہر دور میں) اطاعت کرنے والا رہا ہے۔

میں نے تم سے پوچھا کہ ان تابعداروں کی تعداد بڑھتی رہتی ہے یا گھٹتی بھی ہے؟ تم نے بتایا کہ وہ لوگ برابر بڑھ ہی رہے ہیں، ایمان کا بھی یہی حال ہے، یہاں تک کہ وہ مکمل ہو جائے،

میں نے تم سے دریافت کیا کہ کیا کوئی شخص ان کے دین میں داخل ہونے کے بعد کبھی اس سے پھر بھی گیا ہے؟ تم نے کہا کہ ایسا کبھی نہیں ہوا، ایمان کا بھی یہی حال ہے جب وہ دل کی گہرائیوں میں اتر جائے تو پھر کوئی چیز اس سے مؤمن کو ہٹا نہیں سکتی۔

میں نے تم سے دریافت کیا کہ کیا انہوں نے وعدہ خلافی بھی کی ہے؟ تم نے اس کا بھی جواب دیا کہ نہیں، انبیاء کی یہی شان ہے کہ وہ وعدہ خلافی کبھی نہیں کرتے۔

میں نے تم سے دریافت کیا کہ کیا تم نے کبھی ان سے یا انہوں نے تم سے جنگ بھی کی ہے؟ تم نے بتایا کہ ایسا ہوا ہے اور تمہاری لڑائیوں کا نتیجہ ہمیشہ کسی ایک ہی کے حق میں نہیں گیا۔ بلکہ کبھی تم مغلوب ہوئے ہو اور کبھی وہ۔ انبیاء کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے وہ امتحان میں ڈالے جاتے ہیں لیکن انجام انہیں کا بہتر ہوتا ہے۔

میں نے تم سے دریافت کیا کہ وہ تم کو کن کاموں کا حکم دیتے ہیں؟ تم نے بتایا کہ وہ ہمیں اس کا حکم دیتے ہیں کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور تمہیں تمہارے ان معبودوں کی عبادت سے منع کرتے ہیں جن کی تمہارے باپ دادا عبادت کیا کرتے تھے۔ تمہیں وہ نماز، صدقہ، پاک بازی، وعدہ وفائی اور اداء امانت کا حکم دیتے ہیں،

 اس نے کہا کہ ایک نبی کی یہی صفت ہے میرے بھی علم میں یہ بات تھی کہ وہ نبی مبعوث ہونے والے ہیں۔ لیکن یہ خیال نہ تھا کہ تم میں سے وہ مبعوث ہوں گے، جو باتیں تم نے بتائیں اگر وہ صحیح ہیں تو وہ دن بہت قریب ہے جب وہ اس جگہ پر حکمراں ہوں گے جہاں اس وقت میرے دونوں قدم موجود ہیں، اگر مجھے ان تک پہنچ سکنے کی توقع ہوتی تو میں ان کی خدمت میں حاضر ہونے کی پوری کوشش کرتا اور اگر میں ان کی خدمت میں موجود ہوتا تو ان کے پاؤں دھوتا۔

 ابوسفیان نے بیان کیا کہ اس کے بعد قیصر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک طلب کیا اور وہ اس کے سامنے پڑھا گیا اس میں لکھا ہوا تھا

 شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا ہی مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔ یہ خط ہے محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول کی طرف سے روم کے بادشاہ ہرقل کی طرف، اس شخص پر سلامتی ہو جو ہدایت قبول کر لے۔ امابعد میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں۔ اسلام قبول کرو، تمہیں بھی سلامتی و امن حاصل ہو گی اور اسلام قبول کرو اللہ تمہیں دہرا اجر دے گا (ایک تمہارے اپنے اسلام کا اور دوسرا تمہاری قوم کے اسلام کا جو تمہاری وجہ سے اسلام میں داخل ہو گی) لیکن اگر تم نے اس دعوت سے منہ موڑ لیا تو تمہاری رعایا کا گناہ بھی تم پر ہو گا۔ اور اے اہل کتاب! ایک ایسے کلمہ پر آ کر ہم سے مل جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان ایک ہی ہے یہ کہ ہم اللہ کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کریں نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائیں اور نہ ہم میں سے کوئی اللہ کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو پروردگار بنائے اب بھی اگر تم منہ موڑتے ہو تو اس کا اقرار کر لو کہ (اللہ تعالیٰ کا واقعی) فرمان بردار ہم ہی ہیں۔

ابوسفیان نے بیان کیا کہ جب ہرقل اپنی بات پوری کر چکا تو روم کے سردار اس کے اردگرد جمع تھے، سب ایک ساتھ چیخنے لگے اور شور و غل بہت بڑھ گیا۔ مجھے کچھ پتہ نہیں چلا کہ یہ لوگ کیا کہہ رہے تھے۔ پھر ہمیں حکم دیا گیا اور ہم وہاں سے نکال دئیے گئے۔ جب میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ وہاں سے چلا آیا اور ان کے ساتھ تنہائی ہوئی تو میں نے کہا کہ ابن ابی کبشہ (مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے) کا معاملہ بہت آگے بڑھ چکا ہے، ”بنو الاصفر “ (رومیوں) کا بادشاہ بھی اس سے ڈرتا ہے،

 ابوسفیان نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم! مجھے اسی دن سے اپنی ذلت کا یقین ہو گیا تھا اور برابر اس بات کا بھی یقین رہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور غالب ہوں گے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں بھی اسلام داخل کر دیا۔ حالانکہ (پہلے) میں اسلام کو برا جانتا تھا۔

حدیث نمبر ۲۹۴۲

راوی: سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی لڑائی کے دن فرمایا تھا کہ اسلامی جھنڈا میں ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں دوں گا جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ فتح عنایت فرمائے گا۔

 اب سب اس انتظار میں تھے کہ دیکھئیے جھنڈا کسے ملتا ہے،

جب صبح ہوئی تو سب سرکردہ لوگ اسی امید میں رہے کہ کاش! انہیں کو مل جائے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: علی کہاں ہیں؟

عرض کیا گیا کہ وہ آنکھوں کے درد میں مبتلا ہیں،

 آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے انہیں بلایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا لعاب دہن مبارک ان کی آنکھوں میں لگا دیا اور فوراً ہی وہ اچھے ہو گئے۔ جیسے پہلے کوئی تکلیف ہی نہ رہی ہو۔

علی رضی اللہ عنہ نے کہا ہم ان (یہودیوں سے) اس وقت تک جنگ کریں گے جب تک یہ ہمارے جیسے (مسلمان) نہ ہو جائیں۔

لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابھی ٹھہرو پہلے ان کے میدان میں اتر کر انہیں تم اسلام کی دعوت دے لو اور ان کے لیے جو چیز ضروری ہیں ان کی خبر کر دو (پھر وہ نہ مانیں تو لڑنا) اللہ کی قسم! اگر تمہارے ذریعہ ایک شخص کو بھی ہدایت مل جائے تو یہ تمہارے حق میں سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔

حدیث نمبر ۲۹۴۳

راوی:  انس رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی قوم پر چڑھائی کرتے تو اس وقت تک کوئی اقدام نہ فرماتے جب تک صبح نہ ہو جاتی، جب صبح ہو جاتی اور اذان کی آواز سن لیتے تو رک جاتے اور اگر اذان کی آواز سنائی نہ دیتی تو صبح ہونے کے بعد حملہ کرتے۔ چنانچہ خیبر میں بھی ہم رات میں پہنچے تھے۔

حدیث نمبر ۲۹۴۴

راوی: انس رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ہمارے ساتھ مل کر غزوہ کرتے تھے۔

حدیث نمبر ۲۹۴۵

راوی: انس رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں خیبر تشریف لے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ جب کسی قوم تک رات کے وقت پہنچتے تو صبح سے پہلے ان پر حملہ نہیں کرتے تھے۔

جب صبح ہوئی تو یہودی اپنے پھاوڑے اور ٹوکرے لے کر باہر (کھیتوں میں کام کرنے کے لیے) نکلے۔ جب انہوں نے اسلامی لشکر کو دیکھا تو چیخ پڑے محمد واللہ محمد لشکر سمیت آ گئے۔

 پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ کی ذات سب سے بڑی ہے۔ اب خیبر تو خراب ہو گیا کہ جب ہم کسی قوم کے میدان میں مجاہدانہ اتر آتے ہیں تو (کفر سے) ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح منحوس ہو جاتی ہے۔

حدیث نمبر ۲۹۴۶

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک جنگ کرتا رہوں یہاں تک کہ وہ اس کا اقرار کر لیں کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں، پس جس نے اقرار کر لیا کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں تو اس کی جان اور مال ہم سے محفوظ ہے سوا اس حق کے جس کی بناء پر قانوناً اس کی جان و مال زد میں آئے اور اس کا حساب اللہ کے ذمہ ہے۔

لڑائی کا مقام چھپانا ( دوسرا مقام بیان کرنا ) اور جمعرات کے دن سفر کرنا

حدیث نمبر ۲۹۴۷

راوی: عبداللہ بن کعب رضی اللہ عنہ

 کعب رضی اللہ عنہ (جب نابینا ہو گئے تھے) کے ساتھ ان کے دوسرے صاحبزادوں میں یہی عبداللہ انہیں لے کر راستے میں ان کے آگے آگے چلتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اصول یہ تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی غزوہ کا ارادہ کرتے تو (مصلحت کے لیے) دوسرا مقام بیان کرتے (تاکہ دشمن کو خبر نہ ہو)۔

حدیث نمبر ۲۹۴۸

راوی: عبداللہ بن کعب بن مالک

کعب بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے تھے کہ ایسا کم اتفاق ہوتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی جہاد کا قصد کریں اور وہی مقام بیان فرما کر اس کو نہ چھپائیں۔

کعب بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے تھے کہ ایسا کم اتفاق ہوتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی جہاد کا قصد کریں اور وہی مقام بیان فرما کر اس کو نہ چھپائیں۔

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک کو جانے لگے تو چونکہ یہ غزوہ بڑی سخت گرمی میں ہونا تھا، لمبا سفر تھا اور جنگلوں کو طے کرنا تھا اور مقابلہ بھی بہت بڑی فوج سے تھا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے صاف صاف فرما دیا تھا تاکہ دشمن کے مقابلہ کے لیے پوری تیاری کر لیں چنانچہ (غزوہ کے لیے) جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جانا تھا (یعنی تبوک) اس کا آپ نے صاف اعلان کر دیا تھا۔

حدیث نمبر ۲۹۴۹

راوی: عبدالرحمٰن بن کعب بن مالک

کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ کم ایسا ہوتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی سفر میں جمعرات کے سوا اور کسی دن نکلیں۔

حدیث نمبر ۲۹۵۰

راوی: کعب بن مالک رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک کے لیے جمعرات کے دن نکلے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمعرات کے دن سفر کرنا پسند فرماتے تھے۔

ظہر کی نماز کے بعد سفر کرنا

حدیث نمبر ۲۹۵۱

راوی: انس رضی اللہ عنہ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ظہر چار رکعت پڑھی پھر عصر کی نماز ذوالحلیفہ میں دو رکعت پڑھی اور میں نے سنا کہ صحابہ حج اور عمرہ دونوں کا لبیک ایک ساتھ پکار رہے تھے۔

مہینہ کے آخری دنوں میں سفر کرنا

کریب  سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (حجۃ الوداع کے لیے) مدینہ سے اس وقت نکلے جب ذی قعدہ کے پانچ دن باقی تھے اور چار ذی الحجہ کو مکہ پہنچ گئے تھے۔

حدیث نمبر ۲۹۵۲

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

مدینہ سے (حجۃ الوداع کے لیے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم اس وقت نکلے جب ذی قعدہ کے پانچ دن باقی تھے۔ ہفتہ کے دن ہمارا مقصد حج کے سوا اور کچھ بھی نہ تھا۔ جب ہم مکہ سے قریب ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ جس کے ساتھ قربانی کا جانور نہ ہو جب وہ بیت اللہ کے طواف اور صفا اور مروہ کی سعی سے فارغ ہو جائے تو احرام کھول دے۔ (پھر حج کے لیے بعد میں احرام باندھے)

عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ دسویں ذی الحجہ کو ہمارے یہاں گائے کا گوشت آیا،

میں نے پوچھا کہ گوشت کیسا ہے؟ تو بتایا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے جو گائے قربانی کی ہے یہ اسی کا گوشت ہے۔

یحییٰ نے بیان کیا کہ میں نے اس کے بعد اس حدیث کا ذکر قاسم بن محمد سے کیا تو انہوں نے بتایا کہ قسم اللہ کی! عمرہ بنت عبدالرحمٰن نے تم سے یہ حدیث ٹھیک ٹھیک بیان کی ہے۔

 رمضان کے مہینے میں سفر کرنا

حدیث نمبر ۲۹۵۳

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (فتح مکہ کے لیے مدینہ سے) رمضان میں نکلے اور روزے سے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقام کدید پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے افطار کیا۔

سفر شروع کرتے وقت مسافر کو رخصت کرنا

حدیث نمبر ۲۹۵۴

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک فوج میں بھیجا اور ہدایت فرمائی کہ اگر فلاں فلاں دو قریشی (ہبا بن اسود اور نافع بن عبد عمر) جن کا آپ نے نام لیا تم کو مل جائیں تو انہیں آگ میں جلا دینا۔

 ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے رخصت ہونے کی اجازت کے لیے حاضر ہوئے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تمہیں پہلے ہدایت کی تھی کہ فلاں فلاں قریشی اگر تمہیں مل جائیں تو انہیں آگ میں جلا دینا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ آگ کی سزا دینا اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے لیے سزاوار نہیں ہے۔ اس لیے اگر وہ تمہیں مل جائیں تو انہیں قتل کر دینا (آگ میں نہ جلانا)۔

 امام ( بادشاہ یا حاکم ) کی اطاعت کرنا

حدیث نمبر ۲۹۵۵

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

(خلیفہ وقت کے احکام) سننا اور انہیں بجا لانا (ہر مسلمان کے لیے) واجب ہے، جب تک کہ گناہ کا حکم نہ دیا جائے۔ اگر گناہ کا حکم دیا جائے تو پھر نہ اسے سننا چاہئے اور نہ اس پر عمل کرنا چاہئے۔

 امام ( بادشاہ اسلام ) کے ساتھ ہو کر لڑنا اور اس کے زیر سایہ اپنا ( دشمن کے حملوں سے ) بچاؤ کرنا

حدیث نمبر ۲۹۵۶

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ ہم لوگ گو دنیا میں سب سے پیچھے آئے لیکن (آخرت میں) جنت میں سب سے آگے ہوں گے۔

حدیث نمبر ۲۹۵۷

اور اسی سند کے ساتھ روایت ہے

جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی، اس نے میری نافرمانی کی۔

 امام کی مثال ڈھال جیسی ہے کہ اس کے پیچھے رہ کر اس کی آڑ میں (یعنی اس کے ساتھ ہو کر) جنگ کی جاتی ہے۔ اور اسی کے ذریعہ (دشمن کے حملہ سے) بچا جاتا ہے، پس اگر امام تمہیں اللہ سے ڈرتے رہنے کا حکم دے اور انصاف کرے اس کا ثواب اسے ملے گا، لیکن اگر بے انصافی کرے گا تو اس کا وبال اس پر ہو گا۔

لڑائی سے نہ بھاگنے پر اور بعضوں نے کہا مر جانے پر بیعت کرنا

اور بعض نے کہا کہ موت پر (بیعت کی) کیوں کہ اللہ پاک نے سورۃ الفتح میں فرمایا

‏‏‏‏لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ‏‏‏‏

بیشک اللہ مسلمانوں سے راضی ہو چکا ہے جب وہ درخت (شجرۃ رضوان) کے نیچے تیرے ہاتھ پر بیعت کر رہے تھے۔ (۴۸:۱۸)

حدیث نمبر ۲۹۵۸

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

(صلح حدیبیہ کے بعد) جب ہم دوسرے سال پھر آئے، تو ہم میں سے (جنہوں نے صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی) دو شخص بھی اس درخت کی نشان دہی پر متفق نہیں ہو سکے۔ جس کے نیچے ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی اور یہ صرف اللہ کی رحمت تھی۔

 جویریہ نے کہا، میں نے نافع سے پوچھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے کس بات پر بیعت کی تھی، کیا موت پر لی تھی؟ فرمایا کہ نہیں، بلکہ صبر و استقامت پر بیعت لی تھی۔

حدیث نمبر ۲۹۵۹

عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حرہ کی لڑائی کے زمانہ میں ایک صاحب ان کے پاس آئے اور کہا کہ عبداللہ بن حنظلہ لوگوں سے (یزید کے خلاف) موت پر بیعت لے رہے ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب میں موت پر کسی سے بیعت نہیں کروں گا۔

حدیث نمبر ۲۹۶۰

راوی: سلمہ بن الاکوع ن

(حدیبیہ کے موقع پر) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔ پھر ایک درخت کے سائے میں آ کر کھڑا ہو گیا۔ جب لوگوں کا ہجوم کم ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا، ابن الاکوع کیا بیعت نہیں کرو گے؟

میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! میں تو بیعت کر چکا ہوں۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، دوبارہ اور بھی! چنانچہ میں نے دوبارہ بیعت کی

(یزید بن ابی عبیداللہ کہتے ہیں کہ) میں نے سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ سے پوچھا، ابومسلم اس دن آپ حضرات نے کس بات پر بیعت کی تھی؟

 کہا کہ موت پر۔

حدیث نمبر ۲۹۶۱

راوی: انس رضی اللہ عنہ

سے سنا۔ آپ بیان کرتے تھے کہ انصار خندق کھودتے ہوئے (غزوہ خندق کے موقع پر) کہتے تھے

نَحْنُ الَّذِينَ بَايَعُوا مُحَمَّدَا عَلَى الْجِهَادِ مَا حَيِينَا أَبَدَا فَأَجَابَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

 ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے جہاد پر بیعت کی ہے ہمیشہ کے لیے، جب تک ہمارے جسم میں جان ہے۔

نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے  انہیں جواب دیا

 اللَّهُمَّ لَا عَيْشَ إِلَّا عَيْشُ الْآخِرَهْ فَأَكْرِمْ الْأَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَهْ

اے اللہ ! آخرت کی زندگی کے سوا کوئی زندگی نہیں ہے تو  بخثش دے انصار اور ھ ہجرت کرنے والوں کو

حدیث نمبر ۲۹۶۲،۶۳

راوی: مجاشع بن مسعود سلمی رضی اللہ عنہ

میں اپنے بھائی کے ساتھ (فتح مکہ کے بعد) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور عرض کیا کہ ہم سے ہجرت پر بیعت لے لیجئے۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہجرت تو (مکہ کے فتح ہونے کے بعد، وہاں سے) ہجرت کر کے آنے والوں پر ختم ہو گئی۔

میں نے عرض کیا، پھر آپ ہم سے کس بات پر بیعت لیں گے؟

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام اور جہاد پر۔

بادشاہ اسلامی کی اطاعت لوگوں پر واجب ہے جہاں تک وہ طاقت رکھیں

حدیث نمبر ۲۹۶۴

راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

میرے پاس ایک شخص آیا، اور ایسی بات پوچھی کہ میری کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ اس کا جواب کیا دوں۔ اس نے پوچھا، مجھے یہ مسئلہ بتائیے کہ ایک شخص بہت ہی خوش اور ہتھیار بند ہو کر ہمارے امیروں کے ساتھ جہاد کے لیے جاتا ہے۔ پھر وہ امیر ہمیں ایسی چیزوں کا مکلف قرار دیتے ہیں کہ ہم ان کی طاقت نہیں رکھتے۔

میں نے کہا، اللہ کی قسم! میری کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ تمہاری بات کا جواب کیا دوں، البتہ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں) تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی بھی معاملہ میں صرف ایک مرتبہ حکم کی ضرورت پیش آتی تھی اور ہم فوراً ہی اسے بجا لاتے تھے،

 یہ یاد رکھنے کی بات ہے کہ تم لوگوں میں اس وقت تک خیر رہے گی جب تک تم اللہ سے ڈرتے رہو گے، اور اگر تمہارے دل میں کسی معاملہ میں شبہ پیدا ہو جائے (کہ کیا چاہئے یا نہیں) تو کسی عالم سے اس کے متعلق پوچھ لو تاکہ تشفی ہو جائے، وہ دور بھی آنے والا ہے کہ کوئی ایسا آدمی بھی (جو صحیح صحیح مسئلے بتا دے) تمہیں نہیں ملے گا۔

اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں! جتنی دنیا باقی رہ گئی ہے وہ وادی کے اس پانی کی طرح ہے جس کا صاف اور اچھا حصہ تو پیا جا چکا ہے اور گدلا حصہ باقی رہ گیا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دن ہوتے ہی اگر جنگ نہ شروع کر دیتے تو سورج کے ڈھلنے تک لڑائی ملتوی رکھتے

حدیث نمبر ۲۹۶۵

راوی: عمر بن عبیداللہ کے غلام سالم ابی النضر

 عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہما نے انہیں خط لکھا اور میں نے اسے پڑھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بعض دنوں میں جن میں آپ جنگ کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتظار کرتے یہاں تک کہ سورج ڈھل جاتا (پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لڑائی شروع کرتے)۔

حدیث نمبر ۲۹۶۶

اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

لوگو! دشمن کے ساتھ جنگ کی خواہش اور تمنا دل میں نہ رکھا کرو، بلکہ اللہ تعالیٰ سے امن و عافیت کی دعا کیا کرو، البتہ جب دشمن سے مڈبھیڑ ہو ہی جائے تو پھر صبر و استقامت کا ثبوت دو، یاد رکھو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے،

 اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں دعا کی

اللَّهُمَّ مُنْزِلَ الْكِتَابِ، ‏‏‏‏‏‏وَمُجْرِيَ السَّحَابِ، ‏‏‏‏‏‏وَهَازِمَ الْأَحْزَابِ اهْزِمْهُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَانْصُرْنَا عَلَيْهِمْ

اے اللہ! کتاب کے نازل کرنے والے، بادل بھیجنے والے، احزاب (دشمن کے دستوں) کو شکست دینے والے، انہیں شکست دے اور ان کے مقابلے میں ہماری مدد کر۔

اگر کوئی جہاد میں سے لوٹنا چاہے یا جہاد میں نہ جانا چاہے تو امام سے اجازت لے

اللہ تعالیٰ  نے سورۃ نور میں فرمایا:

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ...إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ

 ایمان والے وہ ہیں جو یقین لائے ہیں اﷲ پر اور اسکے رسول پر،اور جب ہوتے ہیں اسکے ساتھ کسی جمع ہونے کے کام میں، تو چلے نہیں جاتے جب تک اس سے پروانگی (اجازت) نہ لیں۔

جو لوگ تجھ سے پروانگی (اجازت) لیتے ہیں، وہی ہیں جو مانتے ہیں اﷲ کو اور اس کے رسول کو۔

پھر جب پروانگی مانگیں تجھ سے اپنے کسی کام کو تو دے پروانگی جس کو ان میں تُو چاہے،اور معافی مانگ ان کے واسطے اﷲ سے، اﷲ بخشنے والا ہے مہربان۔ (۲۴:۶۲)

حدیث نمبر ۲۹۶۷

راوی: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما

میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ (جنگ تبوک) میں شریک تھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیچھے سے آ کر میرے پاس تشریف لائے۔ میں اپنے پانی لادنے والے ایک اونٹ پر سوار تھا۔ چونکہ وہ تھک چکا تھا، اس لیے آہستہ آہستہ چل رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ جابر! تمہارے اونٹ کو کیا ہو گیا ہے؟

میں نے عرض کیا کہ تھک گیا ہے۔

جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیچھے گئے اور اسے ڈانٹا اور اس کے لیے دعا کی۔ پھر تو وہ برابر دوسرے اونٹوں کے آگے آگے چلتا رہا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، اپنے اونٹ کے متعلق کیا خیال ہے؟

 میں نے کہا کہ اب اچھا ہے۔ آپ کی برکت سے ایسا ہو گیا ہے۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر کیا اسے بیچو گے؟

انہوں نے بیان کیا کہ میں شرمندہ ہو گیا، کیونکہ ہمارے پاس پانی لانے کو اس کے سوا اور کوئی اونٹ نہیں رہا تھا۔ مگر میں نے عرض کیا، جی ہاں!

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر بیچ دے۔ چنانچہ میں نے وہ اونٹ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیچ دیا اور یہ طے پایا کہ مدینہ تک میں اسی پر سوار ہو کر جاؤں گا۔

بیان کیا کہ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! میری شادی ابھی نئی ہوئی ہے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے (آگے بڑھ کر اپنے گھر جانے کی) اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت عنایت فرما دی۔ اس لیے میں سب سے پہلے مدینہ پہنچ آیا۔

جب ماموں سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھ سے اونٹ کے متعلق پوچھا۔ جو معاملہ میں کر چکا تھا اس کی انہیں اطلاع دی۔ تو انہوں نے مجھے برا بھلا کہا۔ (ایک اونٹ تھا تیرے پاس وہ بھی بیچ ڈالا اب پانی کس پر لائے گا)

جب میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا تھا کہ کنواری سے شادی کی ہے یا بیوہ سے؟

میں نے عرض کیا تھا بیوہ سے اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ باکرہ سے کیوں نہ کی، وہ بھی تمہارے ساتھ کھیلتی اور تم بھی اس کے ساتھ کھیلتے۔ (کیونکہ جابر رضی اللہ عنہ بھی ابھی کنوارے تھے)

میں نے کہا یا رسول اللہ! میرے باپ کی وفات ہو گئی ہے یا (یہ کہا کہ) وہ (احد) میں شہید ہو چکے ہیں اور میری چھوٹی چھوٹی بہنیں ہیں۔ اس لیے مجھے اچھا نہیں معلوم ہوا کہ انہیں جیسی کسی لڑکی کو بیاہ کے لاؤں، جو نہ انہیں ادب سکھا سکے نہ ان کی نگرانی کر سکے۔ اس لیے میں نے بیوہ سے شادی کی تاکہ وہ ان کی نگرانی کرے اور انہیں ادب سکھائے۔

 انہوں نے بیان کیا، پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچے تو صبح کے وقت میں اسی اونٹ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس اونٹ کی قیمت عطا فرمائی اور پھر وہ اونٹ بھی واپس کر دیا۔

مغیرہ راوی رحمہ اللہ نے کہا کہ ہمارے نزدیک بیع میں یہ شرط لگانا اچھا ہے کچھ برا نہیں۔

نئی نئی شادی ہونے کے باوجود جنہوں نے جہاد کیا

اس باب میں جابر رضی اللہ عنہ کی روایت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے ہے (جو مذکور ہوئی)۔

شب زفاف کے بعد ہی جس نے فوراً جہاد میں شرکت کو پسند کیا

اس بارے میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے موجود ہے۔

خوف اور دہشت کے وقت ( حالات معلوم کرنے کے لیے ) امام کا آگے بڑھنا

حدیث نمبر ۲۹۶۸

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

مدینہ میں ایک دفعہ کچھ دہشت پھیل گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ایک گھوڑے پر سوار ہو کر (حالات معلوم کرنے کے لیے سب سے آگے تھے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم نے تو کوئی بات نہیں دیکھی۔ البتہ اس گھوڑے کو ہم نے دوڑنے میں دریا کی روانی جیسا تیز پایا ہے

خوف کے موقع پر جلدی سے گھوڑے کو ایڑ لگانا

حدیث نمبر ۲۹۶۹

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

(مدینہ میں) لوگوں میں دہشت پھیل گئی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ایک گھوڑے پر جو بہت سست تھا، سوا ر ہوئے اور تنہا ایڑ لگاتے ہوئے آگے بڑھے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم بھی آپ کے پیچھے سوار ہو کر نکلے۔

 اس کے بعد واپسی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خوفزدہ ہونے کی کوئی بات نہیں ہے، البتہ یہ گھوڑا دریا ہے۔ اس دن کے بعد پھر وہ گھوڑا (دوڑ وغیرہ کے موقع پر) کبھی پیچھے نہیں رہا۔

کسی کو اجرت دے کر اپنے طرف سے جہاد کرانا اور اللہ کی راہ میں سواری دینا

مجاہد نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے سامنے جہاد میں شرکت کا ارادہ ظاہر کیا تو انہوں نے فرمایا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ میں بھی اس مد میں اپنا کچھ مال خرچ کر کے تمہاری مدد کروں۔

میں نے عرض کیا کہ اللہ کا دیا ہوا میرے پاس کافی ہے۔ لیکن انہوں نے فرمایا کہ تمہاری سرمایہ داری تمہارے لیے ہے۔ میں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ اس طرح میرا مال بھی اللہ کے راستے میں خرچ ہو جائے۔

عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ بہت سے لوگ اس مال کو (بیت المال سے) اس شرط پر لے لیتے ہیں کہ وہ جہاد میں شریک ہوں گے لیکن پھر وہ جہاد نہیں کرتے۔ اس لیے جو شخص یہ حرکت کرے گا تو ہم اس کے مال کے زیادہ مستحق ہیں اور ہم اس سے وہ مال جو اس نے (بیت المال سے) لیا ہے واپس وصول کر لیں گے۔ طاؤس اور مجاہد نے فرمایا کہ اگر تمہیں کوئی چیز اس شرط کے ساتھ دی جائے کہ اس کے بدلے میں تم جہاد کے لیے نکلو گے۔ تو تم اسے جہاں جی چاہے خرچ کر سکتے ہو۔ اور اپنے اہل و عیال کی ضروریات میں بھی لا سکتے ہو (مگر شرط کے مطابق جہاد میں شرکت ضروری ہے)۔

حدیث نمبر ۲۹۷۰

راوی: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ

میں نے اللہ کے راستے میں (جہاد کے لیے) اپنا ایک گھوڑا ایک شخص کو سواری کے لیے دے دیا تھا۔ پھر میں نے دیکھا کہ (بازار میں) وہی گھوڑا بک (فروخت ہو) رہا ہے۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا میں اسے خرید سکتا ہوں؟

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس گھوڑے کو تم نہ خریدو اور اپنا صدقہ (خواہ خرید کر ہی ہو) واپس نہ لو۔

حدیث نمبر ۲۹۷۱

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

آپ نے اللہ کے راستے میں اپنا ایک گھوڑا سواری کے لیے دے دیا تھا۔ پھر انہوں نے دیکھا کہ وہی گھوڑا بک (فروخت ہو) رہا ہے۔ اپنے گھوڑے کو انہوں نے خریدنا چاہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اسے نہ خریدو۔ اور اس طرح اپنے صدقہ کو واپس نہ لو۔

b

حدیث نمبر ۲۹۷۲

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

اگر میری امت پر یہ امر مشکل نہ گزرتا تو میں کسی سریہ (یعنی مجاہدین کا ایک چھوٹا سا دستہ جس کی تعداد زیادہ سے زیادہ چالیس ہو) کی شرکت بھی نہ چھوڑتا۔ لیکن میرے پاس سواری کے اتنے اونٹ نہیں ہیں کہ میں ان کو سوار کر کے ساتھ لے چلوں اور یہ مجھ پر بہت مشکل ہے کہ میرے ساتھی مجھ سے پیچھے رہ جائیں۔ میری تو یہ خوشی ہے کہ اللہ کے راستے میں میں جہاد کروں، اور شہید کیا جاؤں۔ پھر زندہ کیا جاؤں، پھر شہید کیا جاؤں اور پھر زندہ کیا جاؤں۔

جو شخص مزدوری لے کر جہاد میں شریک ہو

امام حسن بصری اور ابن سیرین نے کہا کہ مال غنیمت میں سے مزدور کو بھی حصہ دیا جائے گا۔

 عطیہ بن قیس نے ایک گھوڑا (مال غنیمت کے حصے کے) نصف کی شرط پر لیا۔ گھوڑے کے حصہ میں (فتح کے بعد مال غنیمت سے) چار سو دینار آئے۔ عطیہ نے دو سو دینار خود رکھ لیے اور دو سو گھوڑے کے مالک کو دے دئیے۔

حدیث نمبر ۲۹۷۳

راوی: یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ

 میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ تبوک میں شریک تھا اور ایک جوان اونٹ میں نے سواری کے لیے دیا تھا، میرے خیال میں میرا یہ عمل، تمام دوسرے اعمال کے مقابلے میں سب سے زیادہ قابل بھروسہ تھا۔ (کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہو گا)

میں نے ایک مزدور بھی اپنے ساتھ لے لیا تھا۔ پھر وہ مزدور ایک شخص (خود یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ) سے لڑ پڑا اور ان میں سے ایک نے دوسرے کے ہاتھ میں دانت سے کاٹ لیا۔ دوسرے نے جھٹ جو اپنا ہاتھ اس کے منہ سے کھینچا تو اس کے آگے کا دانت ٹوٹ گیا۔ وہ شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں فریادی ہوا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ کھینچنے والے پر کوئی تاوان نہیں فرمایا بلکہ فرمایا کہ کیا تمہارے منہ میں وہ اپنا ہاتھ یوں ہی رہنے دیتا تاکہ تم اسے چبا جاؤ جیسے اونٹ چباتا ہے۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کا بیان

حدیث نمبر ۲۹۷۴

راوی: ثعلبہ بن ابی مالک قرظی

قیس بن سعد انصاری رضی اللہ عنہ نے، جو جہاد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علمبردار تھے، جب حج کا ارادہ کیا تو (احرام باندھنے سے پہلے) کنگھی کی۔

حدیث نمبر ۲۹۷۵

راوی: سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ

غزوہ خیبر کے موقع پر علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہیں آئے تھے۔ ان کی آنکھوں میں تکلیف تھی۔ پھر انہوں نے کہا کہ کیا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد میں شریک نہ ہوں گا؟ چنانچہ وہ نکلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملے۔ اس رات کی شام کو جس کی صبح کو خیبر فتح ہوا ہے

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اسلامی پرچم اس شخص کو دوں گا یا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ) کل اسلامی پرچم اس شخص کے ہاتھ میں ہو گا جسے اللہ اور اس کے رسول اپنا محبوب رکھتے ہیں۔ یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے۔ اور اللہ اس شخص کے ہاتھ پر فتح فرمائے گا۔

پھر علی رضی اللہ عنہ بھی آ گئے۔ حالانکہ ان کے آنے کی ہمیں کوئی امید نہ تھی۔ (کیونکہ وہ آشوب چشم میں مبتلا تھے) لوگوں نے کہا کہ یہ علی رضی اللہ عنہ بھی آ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھنڈا انہیں کو دیا۔ اور اللہ نے انہیں کے ہاتھ پر فتح فرمائی۔

حدیث نمبر ۲۹۷۶

راوی: نافع بن جبیر

میں نے سنا کہ عباس رضی اللہ عنہ، زبیر رضی اللہ عنہ سے کہہ رہے تھے کہ کیا یہاں پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو پرچم نصب کرنے کا حکم فرمایا تھا؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ ایک مہینے کی راہ سے اللہ نے میرا رعب ( کافروں کے دلوں میں ) ڈال کر میری مدد کی ہے

اور اللہ تعالیٰ کا فرمان

سَنُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُوا الرُّعْبَ بِمَا أَشْرَكُوا بِاللَّهِ

عنقریب ہم ان لوگوں کے دلوں کو مرعوب کر دیں گے جنہوں نے کفر کیا ہے۔ اس لیے کہ انہوں نے اللہ کے ساتھ شرک کیا ہے! (۳:۱۵۱)

جابر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے یہ حدیث روایت کی ہے۔

حدیث نمبر ۲۹۷۷

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ مجھے جامع کلام (جس کی عبارت مختصر اور فصیح و بلیغ ہو اور معنی بہت وسیع ہوں) دے کر بھیجا گیا ہے اور رعب کے ذریعہ میری مدد کی گئی ہے۔ میں سویا ہوا تھا کہ زمین کے خزانوں کی کنجیاں میرے پاس لائی گئیں اور میرے ہاتھ پر رکھ دی گئیں۔ ا

بوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو (اپنے رب کے پاس) جا چکے۔ اور (جن خزانوں کی وہ کنجیاں تھیں) انہیں اب تم نکال رہے ہو۔

حدیث نمبر ۲۹۷۸

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما  

انہیں ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک جب شاہ روم ہرقل کو ملا تو) اس نے اپنا آدمی انہیں تلاش کرنے کے لیے بھیجا۔ یہ لوگ اس وقت ایلیاء میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ آخر (طویل گفتگو کے بعد) اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک منگوایا۔ جب وہ پڑھا جا چکا تو اس کے دربار میں ہنگامہ برپا ہو گیا (چاروں طرف سے) آواز بلند ہونے لگی۔ اور ہمیں باہر نکال دیا گیا۔

 جب ہم باہر کر دئیے گئے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابن ابی کبشہ (مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے) کا معاملہ تو اب بہت آگے بڑھ چکا ہے۔ یہ ملک بنی اصفر (قیصر روم) بھی ان سے ڈرنے لگا ہے۔

سفر جہاد میں توشہ ( خرچ وغیرہ ) ساتھ رکھنا

اور اللہ تعالیٰ کا فرمان

‏‏‏‏وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى‏‏‏‏.

اپنے ساتھ توشہ لے جایا کرو پس بیشک عمدہ ترین توشہ تقویٰ ہے۔ (۲:۱۹۷)

حدیث نمبر ۲۹۷۹

راوی:  اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی ہجرت کا ارادہ کیا تو میں نے (والد ماجد سیدنا) ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر آپ کے لیے سفر کا ناشتہ تیار کیا تھا۔

 انہوں نے بیان کیا کہ جب آپ کے ناشتے اور پانی کو باندھنے کے لیے کوئی چیز نہیں ملی، تو میں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ بجز میرے کمر بند کے اور کوئی چیز اسے باندھنے کے لیے نہیں ہے۔ تو انہوں نے فرمایا کہ پھر اسی کے دو ٹکڑے کر لو۔ ایک سے ناشتہ باندھ دینا اور دوسرے سے پانی،

چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا، اور اسی وجہ سے میرا نام ”ذات النطاقین“ (دو کمر بندوں والی) پڑ گیا۔

حدیث نمبر ۲۹۸۰

راوی: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ

ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قربانی کا گوشت بطور توشہ مدینہ لے جایا کرتے تھے (یہ لے جانا بطور توشہ ہوا کرتا تھا، اس سے آپ کا مطلب ثابت ہوا)۔

حدیث نمبر ۲۹۸۱

راوی: سوید بن نعمان

خیبر کی جنگ کے موقع پر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئے تھے۔ جب لشکر مقام صہباء پر پہنچا جو خیبر کا نشیبی علاقہ ہے تو لوگوں نے عصر کی نماز پڑھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا منگوایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ستو کے سوا اور کوئی چیز نہیں لائی گئی اور ہم نے وہی ستو کھایا اور پیا۔

 اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کلی کی۔ ہم نے بھی کلی کی اور نماز پڑھی۔

حدیث نمبر ۲۹۸۲

راوی: سلمہ رضی اللہ عنہ

جب لوگوں کے پاس زاد راہ ختم ہونے لگا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لوگ اپنے اونٹ ذبح کرنے کی اجازت لینے حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی۔ اتنے میں عمر رضی اللہ عنہ سے ان کی ملاقات ہوئی۔ اس اجازت کی اطلاع انہیں بھی ان لوگوں نے دی۔

عمر رضی اللہ عنہ نے سن کر کہا، ان اونٹوں کے بعد پھر تمہارے پاس باقی کیا رہ جائے گا (کیونکہ انہیں پر سوار ہو کر اتنی دور دراز کی مسافت بھی تو طے کرنی تھی) اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا، یا رسول اللہ! لوگ اگر اپنے اونٹ بھی ذبح کر دیں گے۔ تو پھر اس کے بعد ان کے پاس باقی کیا رہ جائے گا؟

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر لوگوں میں اعلان کر دو کہ (اونٹوں کو ذبح کرنے کے بجائے) اپنا بچا کچھا توشہ لے کر یہاں آ جائیں۔

(سب لوگوں نے جو کچھ بھی ان کے پاس کھانے کی چیز باقی بچ گئی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لا کر رکھ دی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی اور اس میں برکت ہوئی۔ پھر سب کو ان کے برتنوں کے ساتھ آپ نے بلایا۔ سب نے بھربھر کر اس میں سے لیا۔

 اور جب سب لوگ فارغ ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔

 توشہ اپنے کندھوں پر لاد کر خود لے جانا

حدیث نمبر ۲۹۸۳

راوی: وہب بن کیسان

 جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم (ایک غزوہ پر) نکلے۔ ہماری تعداد تین سو تھی، ہم اپنا راشن اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے تھے۔ آخر ہمارا توشہ جب (تقریباً) ختم ہو گیا، تو ایک شخص کو روزانہ صرف ایک کھجور کھانے کو ملنے لگی۔

 ایک شاگرد نے پوچھا، اے ابوعبداللہ! (جابر رضی اللہ عنہ) ایک کھجور سے بھلا ایک آدمی کا کیا بنتا ہو گا؟

انہوں نے فرمایا کہ اس کی قدر ہمیں اس وقت معلوم ہوئی جب ایک کھجور بھی باقی نہیں رہ گئی تھی۔

 اس کے بعد ہم دریا پر آئے تو ایک ایسی مچھلی ملی جسے دریا نے باہر پھینک دیا تھا۔ اور ہم اٹھارہ دن تک خوب جی بھر کر اسی کو کھاتے رہے۔

عورت کا اپنے بھائی کے پیچھے ایک ہی اونٹ پر سوار ہونا

حدیث نمبر ۲۹۸۴

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

انہوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! آپ کے اصحاب حج اور عمرہ دونوں کر کے واپس جا رہے ہیں اور میں صرف حج کر پائی ہوں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر جاؤ (عمرہ کر آؤ) عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ (عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھائی) تمہیں اپنی سواری کے پیچھے بٹھا لیں گے۔

چنانچہ آپ نے عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ تنعیم سے (احرام باندھ کر) عائشہ رضی اللہ عنہا کو عمرہ کرا لائیں۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عرصہ میں مکہ کے بالائی علاقہ پر ان کا انتظار کیا۔ یہاں تک کہ وہ آ گئیں۔

حدیث نمبر ۲۹۸۵

راوی: عبدالرحمٰن بن ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہما

مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ اپنی سواری پر اپنے پیچھے عائشہ رضی اللہ عنہا کو بٹھا کر لے جاؤں اور تنعیم سے (احرام باندھ کر) انہیں عمرہ کرا لاؤں۔

جہاد اور حج کے سفر میں دو آدمیوں کا ایک سواری پر بیٹھنا

حدیث نمبر ۲۹۸۶

راوی: انس رضی اللہ عنہ

 میں ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کی سواری پر ان کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔ تمام صحابہ حج اور عمرہ دونوں ہی کے لیے ایک ساتھ لبیک کہہ رہے تھے۔

ایک گدھے پر دو آدمیوں کا سوار ہونا

حدیث نمبر ۲۹۸۷

راوی: اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے پر اس کی پالان رکھ کر سوار ہوئے۔ جس پر ایک چادر بچھی ہوئی تھی اور اسامہ رضی اللہ عنہ کو آپ نے اپنے پیچھے بٹھا رکھا تھا۔

حدیث نمبر ۲۹۸۸

راوی: نافع

انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے بالائی علاقے سے اپنی سواری پر تشریف لائے۔ اسامہ رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری پر پیچھے بٹھا دیا تھا اور آپ کے ساتھ بلال رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ اور عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ بھی جو کعبہ کے کلید بردار تھے۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد الحرام میں اپنی سواری بٹھا دی اور عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ بیت اللہ الحرام کی کنجی لائیں۔

 انہوں نے کعبہ کا دروازہ کھول دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اندر داخل ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسامہ، بلال اور عثمان رضی اللہ عنہم بھی تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کافی دیر تک اندر ٹھہرے رہے۔ اور جب باہر تشریف لائے تو صحابہ نے (اندر جانے کے لیے) ایک دوسرے سے آگے ہونے کی کوشش کی

سب سے پہلے اندر داخل ہونے والے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما تھے۔ انہوں نے بلال رضی اللہ عنہ کو دروازے کے پیچھے کھڑا پایا اور ان سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کہاں پڑھی ہے؟

 انہوں نے اس جگہ کی طرف اشارہ کیا جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی تھی۔

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ مجھے یہ پوچھنا یاد نہیں رہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی رکعتیں پڑھی تھیں۔

جو رکاب پکڑ کر کسی کو سواری پر چڑھا دے یا کچھ ایسی ہی مدد کرے اس ا ثواب

حدیث نمبر ۲۹۸۹

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

انسان کے ہر ایک جوڑ پر صدقہ لازم ہوتا ہے۔ ہر دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے۔

- پھر اگر وہ انسانوں کے درمیان انصاف کرے تو یہ بھی ایک صدقہ ہے

-  اور ک/سی کو سواری کے معاملے میں اگر مدد پہنچائے، اس طرح پر کہ اسے اس پر سوار کرائے یا اس کا سامان اٹھا کر رکھ دے تو یہ بھی ایک صدقہ ہے

- اور اچھی بات منہ سے نکالنا بھی ایک صدقہ ہے

- اور ہر قدم جو نماز کے لیے اٹھتا ہے وہ بھی صدقہ ہے

- اور اگر کوئی راستے سے کسی تکلیف دینے والی چیز کو ہٹا دے تو وہ بھی ایک صدقہ ہے۔

مصحف یعنی لکھا ہوا قرآن شریف لے کر دشمن کے ملک میں جانا منع ہے

اور محمد بن بشر سے اسی طرح مروی ہے۔ وہ عبیداللہ سے روایت کرتے ہیں، وہ نافع سے وہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے

اور عبیداللہ کے ساتھ اس حدیث کو محمد بن اسحاق نے بھی نافع سے، انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے

اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کے ساتھ دشمنوں کے علاقے میں سفر کیا، حالانکہ وہ سب حضرات قرآن مجید کے عالم تھے۔

حدیث نمبر ۲۹۹۰

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمن کے علاقے میں قرآن مجید لے کر جانے سے منع فرمایا تھا۔

جنگ کے وقت نعرہ تکبیر بلند کرنا

حدیث نمبر ۲۹۹۱

راوی:  انس رضی اللہ عنہ

صبح ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خیبر میں داخل تھے۔ اتنے میں وہاں کے رہنے والے (یہودی) پھاوڑے اپنی گردنوں پر لیے ہوئے نکلے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو (مع آپ کے لشکر کے) دیکھا تو چلا اٹھے کہ یہ محمد لشکر کے ساتھ (آ گئے) محمد لشکر کے ساتھ، محمد لشکر کے ساتھ! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) چنانچہ وہ سب بھاگ کر قلعہ میں پناہ گزیں ہو گئے۔

 اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور نعرہ تکبیر بلند فرمایا، ساتھ ہی ارشاد ہوا کہ خیبر تو تباہ ہو چکا۔ کہ جب کسی قوم کے آنگن میں ہم اتر آتے ہیں تو ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح بری ہو جاتی ہے۔

 اور انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم کو گدھے مل گئے، اور ہم نے انہیں ذبح کر کے پکانا شروع کر دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی نے یہ پکارا کہ اللہ اور اس کے رسول تمہیں گدھے کے گوشت سے منع کرتے ہیں۔ چنانچہ ہانڈیوں میں جو کچھ تھا سب الٹ دیا گیا۔

بہت چلا کر تکبیر کہنا منع ہے

حدیث نمبر ۲۹۹۲

راوی: ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ

ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ جب ہم کسی وادی میں اترتے تو  لا إله إلا الله  اور  الله اكبر  کہتے اور ہماری آواز بلند ہو جاتی اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

کسی نشیب کی جگہ میں اترتے وقت سبحان اللہ کہنا

کسی نشیب کی جگہ میں اترتے وقت سبحان اللہ کہنا

حدیث نمبر ۲۹۹۳

راوی: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما

جب ہم (کسی بلندی پر) چڑھتے، تو  الله اكبر   کہتے اور جب (کسی نشیب میں) اترتے تو  سبحان الله  کہتے تھے۔

جب بلندی پر چڑھے تو اللہ اکبر کہنا

حدیث نمبر ۲۹۹۴

راوی: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما

جب ہم (کسی بلندی پر) چڑھتے، تو  الله اكبر   کہتے اور جب (کسی نشیب میں) اترتے تو  سبحان الله  کہتے تھے۔

حدیث نمبر ۲۹۹۵

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حج یا عمرہ سے واپس ہوتے جہاں تک میں سمجھتا ہوں یوں کہا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد سے لوٹتے، تو جب بھی آپ کسی بلندی پر چڑھتے یا (نشیب سے) کنکریلے میدان میں آتے تو تین مرتبہ الله اكبر   کہتے۔ پھر فرماتے

لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، ‏‏‏‏‏‏

اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں وہ ایک ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ ملک اس کا ہے اور تمام تعریفیں اسی کے لیے ہیں اور وہ ہر کام پر قدرت رکھتا ہے۔

آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ سَاجِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ

ہم واپس ہو رہے ہیں توبہ کرتے ہوئے، عبادت کرتے ہوئے۔ اپنے رب کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوتے اور اس کی حمد پڑھتے ہوئے،

صَدَقَ اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏وَعْدَهُ وَنَصَرَ عَبْدَهُ وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ،

اللہ نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا اور اپنے بندے کی مدد کی اور تنہا (کفار کی) تمام جماعتوں کو شکست دے دی۔

صالح نے کہا کہ میں نے سالم بن عبداللہ سے پوچھا کیا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے لفظ آيِبُونَ  کے بعد  إن شاء الله  نہیں کہا تھا

تو انہوں نے بتایا کہ نہیں۔

مسافر کو اس عبادت کا جو وہ گھر میں رہ کر کیا کرتا تھا ثواب ملنا ( گو وہ سفر میں نہ کر سکے )

حدیث نمبر ۲۹۹۶

راوی:  ابراہیم ابواسماعیل سکسکی

 انہوں نے کہا کہ میں نے ابوبردہ بن ابی موسیٰ سے سنا، وہ اور یزید بن ابی کبشہ ایک سفر میں ساتھ تھے اور یزید سفر کی حالت میں بھی روزہ رکھا کرتے تھے۔

 ابوبردہ نے کہا کہ میں نے (اپنے والد) ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے بارہا سنا۔ و وہ کہا کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب بندہ بیمار ہوتا ہے یا سفر کرتا ہے تو اس کے لیے ان تمام عبادات کا ثواب لکھا جاتا ہے جنہیں اقامت یا صحت کے وقت یہ کیا کرتا تھا۔

 اکیلے سفر کرنا

حدیث نمبر ۲۹۹۷

راوی: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک کام کے لیے) غزوہ خندق کے موقع پر صحابہ کو پکارا، تو زبیر رضی اللہ عنہ نے اس کے لیے کہا کہ میں حاضر ہوں۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو پکارا، اور اس مرتبہ بھی زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے کو پیش کیا،

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پکارا اور پھر زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے آپ کو پیش کیا،

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر فرمایا کہ ہر نبی کے حواری ہوتے ہیں اور میرے حواری زبیر ہیں۔

سفیان نے کہا کہ حواری کے معنی معاون، مددگار کے ہیں (یا وفادار محرم راز کو حواری کہا گیا ہے)۔

حدیث نمبر ۲۹۹۸

راوی: ابن عمر رضی اللہ عنہما

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  کہ جتنا میں جانتا ہوں، اگر لوگوں کو بھی اکیلے سفر (کی برائیوں) کے متعلق اتنا علم ہوتا تو کوئی سوار رات میں اکیلا سفر نہ کرتا۔

سفر میں تیز چلنا

ابوحمید نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”میں مدینہ جلدی پہنچنا چاہتا ہوں اس لیے اگر کوئی شخص میرے ساتھ جلدی چلنا چاہے تو چلے۔“

حدیث نمبر ۲۹۹۹

راوی: ہشام کو ان کے والد نے بیان کیا

اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجۃ الوداع کے سفر کی رفتار کے متعلق پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کس کس چال پر چلتے،

اسامہ رضی اللہ عنہ نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذرا تیز چلتے جب فراخ جگہ پاتے تو سواری کو دوڑا دیتے۔

حدیث نمبر ۳۰۰۰

راوی:  زید بن اسلم

ان کے والد نے بیان کیا کہ میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ مکہ کے راستے میں تھا، اتنے میں ان کو صفیہ بنت ابی عبید رضی اللہ عنہا (ان کی بیوی) کے متعلق سخت بیماری کی خبر ملی۔ چنانچہ آپ نے تیز چلنا شروع کر دیا اور جب (سورج غروب ہونے کے بعد) شفق ڈوب گئی تو آپ سواری سے اترے اور مغرب اور عشاء کی نماز ملا کر پڑھی،

پھر کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیزی کے ساتھ سفر کرنا چاہتے تو مغرب میں تاخیر کر کے دونوں نمازیں (مغرب اور عشاء) ایک ساتھ ادا فرماتے۔

حدیث نمبر ۳۰۰۱

راوی:ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

سفر کیا ہے گویا عذاب کا ایک ٹکڑا ہے، آدمی کی نیند، کھانے پینے سب میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔ اس لیے جب مسافر اپنا کام پورا کر لے تو اسے جلدی گھر واپس آ جانا چاہئے۔

 اگر اللہ کی راہ میں سواری کے لیے گھوڑا دے پھر اس کو بکتا پائے ؟

حدیث نمبر ۳۰۰۲

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک گھوڑا اللہ کے راستے میں سواری کے لیے دے دیا تھا، پھر انہوں نے دیکھا کہ وہی گھوڑا فروخت ہو رہا ہے۔ انہوں نے چاہا کہ اسے خرید لیں۔ لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب تم اسے نہ خریدو، اور اپنے صدقہ کو واپس نہ پھیرو۔

حدیث نمبر ۳۰۰۳

راوی: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ

میں نے اللہ کے راستے میں ایک گھوڑا سواری کے لیے دیا، اور جسے دیا تھا وہ اسے بیچنے لگا۔ یا (آپ نے یہ فرمایا تھا کہ) اس نے اسے بالکل کمزور کر دیا تھا۔ اس لیے میرا ارادہ ہوا کہ میں اسے واپس خرید لوں، مجھے یہ خیال تھا کہ وہ شخص سستے داموں پر اسے بیچ دے گا۔

 میں نے اس کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جب پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ گھوڑا تمہیں ایک درہم میں مل جائے پھر بھی اسے نہ خریدنا۔ کیونکہ اپنے ہی صدقہ کو واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو اپنی قے کو خود ہی چاٹتا ہے۔

ماں باپ کی اجازت لے کر جہاد میں جانا

حدیث نمبر ۳۰۰۴

راوی: عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما

ایک صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جہاد میں شرکت کی اجازت چاہی۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا  کیا تمہارے ماں باپ زندہ ہیں؟

 انہوں نے کہا کہ جی ہاں!

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  پھر انہیں میں جہاد کرو۔ (یعنی ان کو خوش رکھنے کی کوشش کرو)۔

اونٹوں کی گردن میں گھنٹی وغیرہ جس سے آواز نکلے لٹکانا کیسا ہے ؟

حدیث نمبر ۳۰۰۵

راوی: ابوبشیر انصاری رضی اللہ عنہ

وہ ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ عبداللہ (عبداللہ بن ابی بکر بن حزم راوی حدیث) نے کہا کہ میرا خیال ہے ابوبشیر نے کہا کہ لوگ اپنی خواب گاہوں میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ایک قاصد (زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ) یہ اعلان کرنے کے لیے بھیجا کہ جس شخص کے اونٹ کی گردن میں تانت کا گنڈا ہو یا یوں فرمایا کہ گنڈا (ہار) ہو وہ اسے کاٹ ڈالے۔

ایک شخص اپنا نام مجاہدین میں لکھوا دے پھر اس کی عورت حج کو جانے لگے یا اور کوئی عذر پیش آئے تو اس کو اجازت دی جا سکتی ہے ( کہ جہاد میں نہ جائے )

حدیث نمبر ۳۰۰۶

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی مرد کسی (غیر محرم) عورت کے ساتھ تنہائی میں نہ بیٹھے اور کوئی عورت اس وقت تک سفر نہ کرے جب تک اس کے ساتھ کوئی اس کا محرم نہ ہو۔

 اتنے میں ایک صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا ‘ یا رسول اللہ! میں نے فلاں جہاد میں اپنا نام لکھوا دیا ہے اور ادھر میری بیوی حج کے لیے جا رہی ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تو بھی جا اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کر۔

جاسوسی کا بیان

اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ الممتحنہ میں فرمایا

تتخذوا عدوي وعدوكم أولياء‏

مسلمانو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔

لفظ جاسوس تجسس سے نکلا ہے یعنی کسی بات کو کھود کر نکالنا۔

حدیث نمبر ۳۰۰۷

راوی: عبیداللہ بن ابی رافع

میں نے علی رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ آپ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے، زبیر اور مقداد بن اسود (رضی اللہ عنہم) کو ایک مہم پر بھیجا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم لوگ روضہ خاخ (جو مدینہ سے بارہ میل کے فاصلہ پر ایک جگہ کا نام ہے) پر پہنچ جاؤ تو وہاں ایک بڑھیا عورت تمہیں اونٹ پر سوار ملے گی اور اس کے پاس ایک خط ہو گا ‘ تم لوگ اس سے وہ خط لے لینا۔

 ہم روانہ ہوئے اور ہمارے گھوڑے ہمیں تیزی کے ساتھ لیے جا رہے تھے۔ آخر ہم روضہ خاخ پر پہنچ گئے اور وہاں واقعی ایک بوڑھی عورت موجود تھی جو اونٹ پر سوار تھی۔ ہم نے اس سے کہا کہ خط نکال۔

 اس نے کہا کہ میرے پاس تو کوئی خط نہیں۔

لیکن جب ہم نے اسے دھمکی دی کہ اگر تو نے خط نہ نکالا تو تمہارے کپڑے ہم خود اتار دیں گے۔

 اس پر اس نے اپنی گندھی ہوئی چوٹی کے اندر سے خط نکال کر دیا ‘ اور ہم اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئے ‘ اس کا مضمون یہ تھا ‘ حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مشرکین مکہ کے چند آدمیوں کی طرف ‘ اس میں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض بھیدوں کی خبر دی تھی۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے حاطب! یہ کیا واقعہ ہے؟

انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے بارے میں عجلت سے کام نہ لیجئے۔ میری حیثیت (مکہ میں) یہ تھی کہ قریش کے ساتھ میں نے رہنا سہنا اختیار کر لیا تھا ‘ ان سے رشتہ ناتہ میرا کچھ بھی نہ تھا۔ آپ کے ساتھ جو دوسرے مہاجرین ہیں ان کی تو مکہ میں سب کی رشتہ داری ہے اور مکہ والے اسی وجہ سے ان کے عزیزوں کی اور ان کے مالوں کی حفاظت و حمایت کریں گے مگر مکہ والوں کے ساتھ میرا کوئی نسبی تعلق نہیں ہے ‘ اس لیے میں نے سوچا کہ ان پر کوئی احسان کر دوں جس سے اثر لے کر وہ میرے بھی عزیزوں کی مکہ میں حفاظت کریں۔ میں نے یہ کام کفر یا ارتداد کی وجہ سے ہرگز نہیں کیا ہے اور نہ اسلام کے بعد کفر سے خوش ہو کر۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن کر فرمایا کہ حاطب نے سچ کہا ہے۔

عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! اجازت دیجئیے میں اس منافق کا سر اڑا دوں ‘

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”نہیں ‘ یہ بدر کی لڑائی میں (مسلمانوں کے ساتھ مل کر) لڑے ہیں اور تمہیں معلوم نہیں ‘ اللہ تعالیٰ مجاہدین بدر کے احوال (موت تک کے) پہلے ہی سے جانتا تھا ‘ اور وہ خود ہی فرما چکا ہے کہ تم جو چاہو کرو میں تمہیں معاف کر چکا ہوں۔“

 قیدیوں کو کپڑے پہنانا

حدیث نمبر ۳۰۰۸

راوی: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما

بدر کی لڑائی سے قیدی (مشرکین مکہ) لائے گئے۔ جن میں عباس (رضی اللہ عنہ) بھی تھے۔ ان کے بدن پر کوئی کپڑا نہیں تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے قمیص تلاش کروائی۔ (وہ لمبے قد کے تھے) اس لیے عبداللہ بن ابی (منافق) کی قمیص ہی ان کے بدن پر آ سکی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں وہ قمیص پہنا دی۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (عبداللہ بن ابی کی موت کے بعد) اپنی قمیص اتار کر اسے پہنائی تھی۔

 ابن عیینہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو اس کا احسان تھا ‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ اسے ادا کر دیں۔

اس شخص کی فضیلت جس کے ہاتھ پر کوئی شخص اسلام لائے

حدیث نمبر ۳۰۰۹

راوی: سہل بن سعد انصاری رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی لڑائی کے دن فرمایا  کہ کل میں ایسے شخص کے ہاتھ میں اسلامی جھنڈا دوں گا جس کے ہاتھ پر اسلامی فتح حاصل ہو گی ‘ جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے اور جس سے اللہ اور اس کا رسول بھی محبت رکھتے ہیں۔

رات بھر سب صحابہ کے ذہن میں یہی خیال رہا کہ دیکھئیے کہ کسے جھنڈا ملتا ہے۔ جب صبح ہوئی تو ہر شخص امیدوار تھا ‘ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا  علی کہاں ہیں؟

عرض کیا گیا کہ ان کی آنکھوں میں درد ہو گیا ہے۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا مبارک تھوک ان کی آنکھوں میں لگا دیا۔ اور اس سے انہیں صحت ہو گئی ‘ کسی قسم کی بھی تکلیف باقی نہ رہی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کو جھنڈا عطا فرمایا۔

 علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کیا میں ان لوگوں سے اس وقت تک نہ لڑوں جب تک یہ ہمارے ہی جیسے یعنی مسلمان نہ ہو جائیں۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہدایت فرمائی کہ یوں ہی چلا جا۔ جب ان کی سرحد میں اترے تو انہیں اسلام کی دعوت دینا اور انہیں بتانا کہ (اسلام کے ناطے) ان پر کون کون سے کام ضروری ہیں۔ اللہ کی قسم! اگر تمہارے ذریعہ اللہ ایک شخص کو بھی مسلمان کر دے تو یہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔

 قیدیوں کو زنجیروں میں باندھنا

حدیث نمبر ۳۰۱۰

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

ایسے لوگوں پر اللہ کو تعجب ہو گا ‘ جو جنت میں بیڑیوں سمیت داخل ہوں گے

(یعنی مسلمانوں نے کافروں کو پکڑ کر بیڑیوں میں قید کر دیا پھر وہ مسلمان ہو گئے تو اللہ تعالیٰ ان کو اسلام کی وجہ سے جنت میں داخل کر دے گا تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں پر تعجب کریں گے کہ یہ لوگ اپنے کفر کی وجہ سے پابہ زنجیر ہوئے اور اسلام لا کر جنت میں داخل ہو گئے۔)

 یہود یا نصاریٰ مسلمان ہو جائیں تو ان کے ثواب کا بیان

حدیث نمبر ۳۰۱۱

راوی: ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  کہ تین طرح کے آدمی ایسے ہیں جنہیں دوگنا ثواب ملتا ہے۔

- اول وہ شخص جس کی لونڈی ہو ‘ وہ اسے تعلیم دے اور تعلیم دینے میں اچھا طریقہ اختیار کرے ‘ اسے ادب سکھائے اور اس میں اچھے طریقے سے کام لے ‘ پھر اسے آزاد کر کے اس سے شادی کر لے تو اسے دہرا اجر ملے گا۔

- دوسرا وہ مؤمن جو اہل کتاب میں سے ہو کہ پہلے (اپنے نبی پر ایمان لایا تھا) پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ایمان لایا تو اسے بھی دہرا اجر ملے گا ‘

- تیسرا وہ غلام جو اللہ تعالیٰ کے حقوق کی بھی ادائیگی کرتا ہے اور اپنے آقا کے ساتھ بھی بھلائی کرتا ہے۔

اس کے بعد شعبی (ذیلی راوی حدیث) نے کہا کہ میں نے تمہیں یہ حدیث بلا کسی محنت و مشقت کے دے دی ہے۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب اس سے بھی کم حدیث کے لیے مدینہ منورہ تک کا سفر کرنا پڑتا تھا۔

 اگر ( لڑنے والے ) کافروں پر رات کو چھاپہ ماریں اور بغیر ارادہ کے عورتیں ، بچے بھی زخمی ہو جائیں تو پھر کچھ قباحت نہیں ہے

قرآن مجید کی سورۃ الاعراف میں لفظ بَيَاتًا اور سورۃ النمل میں لفظ لَنُبَيِّتَنَّهُ اور سورۃ نساء میں لفظ يُبَيِّتُ  آیا ہے۔ ان سب لفظوں کا وہی مادہ ہے جو  يبيتون  کا ہے، مراد سب سے رات کا وقت ہے۔

حدیث نمبر ۳۰۱۲

راوی: صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مقام ابواء یا مقام ودان میں میرے پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ مشرکین کے جس قبیلے پر شب خون مارا جائے گا کیا ان کی عورتوں اور بچوں کو بھی قتل کرنا درست ہو گا؟

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ بھی انہیں میں سے ہیں ا

ور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ فرما رہے تھے اللہ اور اس کے رسول کے سوا اور کسی کی چراگاہ نہیں ہے۔

حدیث نمبر ۳۰۱۳

زہری سے روایت ہے کہ انہوں نے عبیداللہ سے سنا بواسطہ ابن عباس رضی اللہ عنہما اور ان سے صعب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ‘ اور صرف  بچوں کا ذکر کیا ‘

سفیان نے کہا کہ عمرو ہم سے حدیث بیان کرتے تھے۔ ان سے ابن شہاب ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے، (سفیان نے) بیان کیا کہ پھر ہم نے حدیث خود زہری (ابن شہاب) سے سنی۔ انہوں نے بیان کیا کہ مجھے عبیداللہ نے خبر دی، انہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اور انہیں صعب رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”(مشرکین کی عورتوں اور بچوں کے متعلق کہ) وہ بھی انہیں میں سے ہیں۔“

زہری کے واسطہ سے جس طرح عمرو نے بیان کیا تھا کہ  هم من آبائهم  وہ بھی انہیں کے باپ دادوں کی نسل ہیں۔ زہری نے خود ہم سے ان الفاظ کے ساتھ بیان نہیں کیا یعنی هم من آبائهم   نہیں کہا بلکہ  هم منهم  کہا۔

جنگ میں بچوں کا قتل کرنا کیسا ہے ؟

حدیث نمبر ۳۰۱۴

راوی: عبداللہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک غزوہ (غزوہ فتح) میں ایک عورت مقتول پائی گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں اور بچوں کے قتل پر انکار کا اظہار فرمایا۔

جنگ میں عورتوں کا قتل کرنا کیسا ہے ؟

حدیث نمبر ۳۰۱۵

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

 ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کسی غزوے میں مقتول پائی گئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرمایا

اللہ کے عذاب ( آگ ) سے کسی کو عذاب نہ کرنا

حدیث نمبر ۳۰۱۶

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک مہم پر روانہ فرمایا اور یہ ہدایت فرمائی کہ اگر تمہیں فلاں اور فلاں مل جائیں تو انہیں آگ میں جلا دینا ‘

پھر جب ہم نے روانگی کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تمہیں حکم دیا تھا کہ فلاں اور فلاں کو جلا دینا۔ لیکن آگ ایک ایسی چیز ہے جس کی سزا صرف اللہ تعالیٰ ہی دے سکتا ہے۔ اس لیے اگر وہ تمہیں ملیں تو انہیں قتل کرنا (آگ میں نہ جلانا)۔

 اللہ کے عذاب ( آگ ) سے کسی کو عذاب نہ کرنا

حدیث نمبر ۳۰۱۷

راوی: عکرمہ

علی رضی اللہ عنہ نے ایک قوم کو (جو عبداللہ بن سبا کی متبع تھی اور علی رضی اللہ عنہ کو اپنا رب کہتی تھی) جلا دیا تھا۔

 جب یہ خبر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو ملی تو آپ نے کہا کہ اگر میں ہوتا تو کبھی انہیں نہ جلاتا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ کے عذاب کی سزا کسی کو نہ دو ‘ البتہ میں انہیں قتل ضرور کرتا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو شخص اپنا دین تبدیل کر دے اسے قتل کر دو۔

قیدیوں کو مفت احسان رکھ کر چھوڑ دو یا فدیہ لے کر

فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً

پھر یا احسان کرو پیچھے (اسکے بعد) اور یا چھڑوائی (فدیہ) لو، (۴۷:۴)

اس باب میں ثمامہ کی حدیث ہے

اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد :

مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَكُونَ لَهُ أَسْرَىٰ حَتَّىٰ يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ

نبی کے لیے مناسب نہیں کہ قیدی اپنے پاس رکھے۔ جب تک کافروں کا خوب ستیاناس نہ کر دے۔ (۸:۶۷)

اگر کوئی مسلمان کافر کی قید میں ہو تو اس کا خون کرنا یا کافروں سے دغا اور فریب کر کے اپنے تئیں چھڑا لینا جائز ہے

اس باب میں مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔

اگر کوئی مشرک کسی مسلمان کو آگ سے جلا دے تو کیا اسے بھی بدلہ میں جلایا جا سکتا ہے ؟

حدیث نمبر ۳۰۱۸

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

قبیلہ عکل کے آٹھ آدمیوں کی جماعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں (اسلام قبول کرنے کو) حاضر ہوئی لیکن مدینہ کی آب و ہوا انہیں موافق نہیں آئی ‘ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارے لیے (اونٹ کے) دودھ کا انتظام کر دیجئیے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہارے لیے دودھ نہیں دے سکتا ‘ تم (صدقہ کے) اونٹوں میں چلے جاؤ۔ ان کا دودھ اور پیشاب پیؤ‘ تاکہ تمہاری صحت ٹھیک ہو جائے۔

وہ لوگ وہاں سے چلے گئے اور ان کا دودھ اور پیشاب پی کر تندرست ہو گئے تو چرواہے کو قتل کر دیا ‘ اور اونٹوں کو اپنے ساتھ لے کر بھاگ نکلے اور اسلام لانے کے بعد کفر کیا ‘

ایک شخص نے اس کی خبر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی ‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تلاش کے لیے سوار دوڑائے ‘ دوپہر سے پہلے ہی وہ پکڑ کر لائے گئے۔ ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے گئے۔ پھر آپ کے حکم سے ان کی آنکھوں میں سلائی گرم کر کے پھیر دی گئی اور انہیں حرہ (مدینہ کی پتھریلی زمین) میں ڈال دیا گیا۔ وہ پانی مانگتے تھے لیکن انہیں نہیں دیا گیا۔ یہاں تک کہ وہ سب مر گئے۔ (ایسا ہی انہوں نے اونٹوں کے چرانے والوں کے ساتھ کیا تھا ‘ جس کا بدلہ انہیں دیا گیا)

ابوقلابہ نے کہا کہ انہوں نے قتل کیا تھا ‘ چوری کی تھی ‘ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ کی تھی اور زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش کی تھی۔

حدیث نمبر ۳۰۱۹

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ ایک چیونٹی نے ایک نبی (عزیر یا موسیٰ علیہ السلام) کو کاٹ لیا تھا۔ تو ان کے حکم سے چیونٹیوں سے سارے گھر جلا دئیے گئے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کے پاس وحی بھیجی کہ اگر تمہیں ایک چیونٹی نے کاٹ لیا تھا تو تم نے ایک ایسی خلقت کو جلا کر خاک کر دیا جو اللہ کی تسبیح بیان کرتی تھی۔

حربی کافروں کے ) گھروں اور باغوں کو جلانا

حدیث نمبر ۳۰۲۰

راوی: جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ

مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  کہ ذوالخلصہ کو (برباد کر کے) مجھے راحت کیوں نہیں دے دیتے۔

یہ ذوالخلصہ قبیلہ خثعم کا ایک بت خانہ تھا اور اسے  كعبة اليمانية  کہتے تھے۔

 انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں قبیلہ احمس کے ایک سو پچاس سواروں کو لے کر چلا۔ یہ سب حضرات بڑے اچھے گھوڑ سوار تھے۔ لیکن میں گھوڑے کی سواری اچھی طرح نہیں کر پاتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینے پر (اپنے ہاتھ سے) مارا ‘ میں نے انگشت ہائے مبارک کا نشان اپنے سینے پر دیکھا۔ فرمایا: اے اللہ! گھوڑے کی پشت پر اسے ثبات عطا فرما ‘ اور اسے دوسروں کو ہدایت کی راہ دکھانے والا اور خود ہدایت یافتہ بنا ‘

اس کے بعد جریر رضی اللہ عنہ روانہ ہوئے ‘ اور ذوالخلصہ کی عمارت کو گرا کر اس میں آگ لگا دی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر بھجوائی۔

جریر رضی اللہ عنہ کے قاصد (ابو ارطاۃ حصین بن ربیعہ) نے خدمت نبوی میں حاضر ہو کر عرض کیا اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے۔ میں اس وقت تک آپ کی خدمت میں حاضر نہیں ہوا ‘ جب تک ہم نے ذوالخلصہ کو ایک خالی پیٹ والے اونٹ کی طرح نہیں بنا دیا ‘ یا (انہوں نے کہا) خارش والے اونٹ کی طرح (مراد ویرانی سے ہے)

جریر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ احمس کے سواروں اور قبیلوں کے تمام لوگوں کے لیے پانچ مرتبہ برکتوں کی دعا فرمائی۔

حدیث نمبر ۳۰۲۱

 ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہود) بنو نضیر کے کھجور کے باغات جلوا دیئے تھے۔

( حربی ) مشرک سو رہا ہو تو اس کا مار ڈالنا درست ہے

حدیث نمبر ۳۰۲۲

راوی: براء بن عازب رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے چند آدمیوں کو ابورافع (یہودی) کو قتل کرنے کے لیے بھیجا ‘ ان میں سے ایک صاحب (عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ) آگے چل کر اس قلعہ کے اندر داخل ہو گئے۔ انہوں نے بیان کیا کہ اندر جانے کے بعد میں اس مکان میں گھس گیا ‘ جہاں ان کے جانور بندھا کرتے تھے۔ بیان کیا کہ انہوں نے قلعہ کا دروازہ بند کر لیا ‘ لیکن اتفاق کہ ان کا ایک گدھا ان کے مویشیوں میں سے گم تھا۔ اس لیے اسے تلاش کرنے کے لیے باہر نکلے۔ (اس خیال سے کہ کہیں پکڑا نہ جاؤں) نکلنے والوں کے ساتھ میں بھی باہر آ گیا ‘ تاکہ ان پر یہ ظاہر کر دوں کہ میں بھی تلاش کرنے والوں میں سے ہوں ‘ آخر گدھا انہیں مل گیا ‘ اور وہ پھر اندر آ گئے۔

میں بھی ان کے ساتھ اندر آ گیا اور انہوں نے قلعہ کا دروازہ بند کر لیا ‘ رات کا وقت تھا ‘ کنجیوں کا گچھا انہوں نے ایک ایسے طاق میں رکھا ‘ جسے میں نے دیکھ لیا تھا۔ جب وہ سب سو گئے تو میں نے چابیوں کا گچھا اٹھایا اور دروازہ کھول کر ابورافع کے پاس پہنچا۔ میں نے اسے آواز دی ‘ ابورافع! اس نے جواب دیا اور میں فوراً اس کی آواز کی طرف بڑھا اور اس پر وار کر بیٹھا۔ وہ چیخنے لگا تو میں باہر چلا آیا۔ اس کے پاس سے واپس آ کر میں پھر اس کے کمرہ میں داخل ہوا ‘ گویا میں اس کی مدد کو پہنچا تھا۔ میں نے پھر آواز دی ابورافع! اس مرتبہ میں نے اپنی آواز بدل لی تھی، اس نے کہا کہ کیا کر رہا ہے، تیری ماں برباد ہو۔

میں نے پوچھا، کیا بات پیش آئی؟

وہ کہنے لگا ‘ نہ معلوم کون شخص میرے کمرے میں آ گیا ‘ اور مجھ پر حملہ کر بیٹھا ہے ‘

 پھر قلعہ کی ایک سیڑھی پر میں آیا تاکہ اس سے نیچے اتر جاؤں مگر میں اس پر سے گر گیا ‘ اور میرے پاؤں میں موچ آ گئی ‘ پھر جب میں اپنے ساتھیوں کے پاس آیا تو میں نے ان سے کہا کہ میں تو اس وقت تک یہاں سے نہیں جاؤں گا جب تک اس کی موت کا اعلان خود نہ سن لوں۔ چنانچہ میں وہیں ٹھہر گیا۔ اور میں نے رونے والی عورتوں سے ابورافع حجاز کے سوداگر کی موت کا اعلان بلند آواز سے سنا۔

 انہوں نے کہا کہ پھر میں وہاں سے اٹھا ‘ اور مجھے اس وقت کچھ بھی درد معلوم نہیں ہوا ‘ پھر ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی بشارت دی۔

حدیث نمبر ۳۰۲۳

راوی: براء بن عازب رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے چند آدمیوں کو ابورافع کے پاس (اسے قتل کرنے کے لیے) بھیجا تھا۔ چنانچہ رات میں عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ اس کے قلعہ میں داخل ہوئے اور اسے سوتے ہوئے قتل کیا۔

 دشمن سے مڈبھیڑ ہونے کی آرزو نہ کرنا

حدیث نمبر ۳۰۲۴

راوی: عبیداللہ کے غلام سالم ابوالنضر

میں عمر بن عبیداللہ کا منشی تھا۔ سالم نے بیان کیا کہ جب وہ خوارج سے لڑنے کے لیے روانہ ہوئے تو انہیں عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہما کا خط ملا۔ میں نے اسے پڑھا تو اس میں انہوں نے لکھا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لڑائی کے موقع پر انتظار کیا ‘ پھر جب سورج ڈھل گیا۔

حدیث نمبر ۳۰۲۵

تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ”اے لوگو! دشمن سے لڑائی بھڑائی کی تمنا نہ کرو ‘ بلکہ اللہ سے سلامتی مانگو۔ ہاں! جب جنگ چھڑ جائے تو پھر صبر کئے رہو اور ڈٹ کر مقابلہ کرو اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے میں ہے۔“

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں دعا کی

اللَّهُمَّ مُنْزِلَ الْكِتَابِ وَمُجْرِيَ السَّحَابِ وَهَازِمَ الْأَحْزَابِ اهْزِمْهُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَانْصُرْنَا عَلَيْهِمْ

اے اللہ! کتاب (قرآن) کے نازل فرمانے والے ‘ اے بادلوں کے چلانے والے! اے احزاب (یعنی کافروں کی جماعتوں کو غزوہ خندق کے موقع پر) شکست دینے والے! ہمارے دشمن کو شکست دے اور ان کے مقابلے میں ہماری مدد کر۔

اور موسیٰ بن عقبہ نے کہا کہ مجھ سے سالم ابوالنضر نے بیان کیا کہ میں عمر بن عبیداللہ کا منشی تھا۔ ان کے پاس عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہما کا خط آیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ”دشمن سے لڑائی لڑنے کی تمنا نہ کرو۔

حدیث نمبر ۳۰۲۶

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

دشمن سے لڑنے بھڑنے کی تمنا نہ کرو ‘ ہاں! اگر جنگ شروع ہو جائے تو پھر صبر سے کام لو۔

لڑائی مکر و فریب کا نام ہے

حدیث نمبر ۳۰۲۷

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

کسریٰ (ایران کا بادشاہ) برباد و ہلاک ہو گیا ‘ اب اس کے بعد کوئی کسریٰ نہیں آئے گا۔ اور قیصر (روم کا بادشاہ) بھی ہلاک و برباد ہو گیا ‘ اور اس کے بعد (شام میں) کوئی قیصر باقی نہیں رہ جائے گا۔ اور ان کے خزانے اللہ کے راستے میں تقسیم ہوں گے۔

حدیث نمبر ۳۰۲۸

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑائی کو مکر اور فریب فرمایا۔

حدیث نمبر ۳۰۲۹

راوی:  ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

لڑائی کیا ہے؟ ایک چال ہے۔

حدیث نمبر ۳۰۳۰

راوی: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا  کہ جنگ تو ایک چالبازی کا نام ہے۔

جنگ میں جھوٹ بولنا ( مصلحت کیلئے ) درست ہے

حدیث نمبر ۳۰۳۱

راوی: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  کہ کعب بن اشرف کا کام کون تمام کرے گا؟ وہ اللہ اور اس کے رسول کو بہت اذیتیں پہنچا چکا ہے۔

محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا آپ مجھے اجازت بخش دیں گے کہ میں اسے قتل کر آؤں؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  ہاں۔

 راوی نے بیان کیا کہ پھر محمد بن مسلمہ کعب یہودی کے پاس آئے اور اس سے کہنے لگے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ہمیں تھکا دیا ‘ اور ہم سے آپ زکوٰۃ مانگتے ہیں۔

 کعب نے کہا کہ قسم اللہ کی! ابھی کیا ہے ابھی اور مصیبت میں پڑو گے۔

 محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اس پر کہنے لگے کہ بات یہ ہے کہ ہم نے ان کی پیروی کر لی ہے۔ اس لیے اس وقت تک اس کا ساتھ چھوڑنا ہم مناسب بھی نہیں سمجھتے جب تک ان کی دعوت کا کوئی انجام ہمارے سامنے نہ آ جائے۔

 غرض محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اس سے اسی طرح باتیں کرتے رہے۔ آخر موقع پا کر اسے قتل کر دیا۔

جنگ میں حربی کافر کو اچانک دھوکے سے مار ڈالنا

حدیث نمبر ۳۰۳۲

راوی: جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  کہ کعب بن اشرف کے لیے کون ہمت کرتا ہے؟

محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کیا میں اسے قتل کر دوں؟

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں!

انہوں نے عرض کیا کہ پھر آپ مجھے اجازت دیں (کہ میں جو چاہوں جھوٹ سچ کہوں)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”میری طرف سے اس کی اجازت ہے۔

اگر کسی سے فساد یا شرارت کا اندیشہ ہو تو اس سے مکر و فریب کر سکتے ہیں

حدیث نمبر ۳۰۳۳

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابن صیاد (یہودی بچے) کی طرف جا رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بھی تھے (ابن صیاد کے عجیب و غریب احوال کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود تحقیق کرنا چاہتے تھے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی گئی تھی کہ ابن صیاد اس وقت کھجوروں کی آڑ میں موجود ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں پہنچے تو شاخوں کی آڑ میں چلنے لگے۔ (تاکہ وہ آپ کو دیکھ نہ سکے)

ابن صیاد اس وقت ایک چادر اوڑھے ہوئے چپکے چپکے کچھ گنگنا رہا تھا ‘ اس کی ماں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیا اور پکار اٹھی کہ اے ابن صیاد! یہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آ پہنچے ‘ وہ چونک اٹھا ‘

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر یہ اس کی خبر نہ کرتی تو وہ کھولتا (یعنی اس کی باتوں سے اس کا حال کھل جاتا)۔

جنگ میں شعر پڑھنا اور کھائی کھودتے وقت آواز بلند کرنا

اس باب میں سہل اور انس رضی اللہ عنہما نے احادیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہیں اور یزید بن ابی عبید نے سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے بھی اس باب میں ایک حدیث روایت کی ہے۔

حدیث نمبر ۳۰۳۴

راوی: براء بن عازب رضی اللہ عنہ

میں نے دیکھا کہ غزوہ احزاب میں (خندق کھودتے ہوئے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود مٹی اٹھا رہے تھے۔ یہاں تک کہ سینہ مبارک کے بال مٹی سے اٹ گئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے (جسم مبارک پر) بال بہت گھنے تھے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کا یہ شعر پڑھ رہے تھے

اللَّهُمَّ لَوْلَا أَنْتَ مَا اهْتَدَيْنَا وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَا فَأَنْزِلَنْ سَكِينَةً عَلَيْنَا

اے اللہ! اگر تیری ہدایت نہ ہوتی تو ہم کبھی سیدھا راستہ نہ پاتے ‘ نہ صدقہ کر سکتے اور نہ نماز پڑھتے۔اب تو، یا اللہ! ہمارے دلوں کو سکون اور اطمینان عطا فرما ‘

وَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَيْنَا إِنَّ الْأَعْدَاءَ قَدْ بَغَوْا عَلَيْنَا إِذَا أَرَادُوا فِتْنَةً أَبَيْنَا

اور اگر (دشمنوں سے مڈبھیڑ ہو جائے تو ہمیں ثابت قدم رکھ ‘ دشمنوں نے ہمارے اوپر زیادتی کی ہے۔ جب بھی وہ ہم کو فتنہ فساد میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں تو ہم انکار کرتے ہیں۔

 آپ یہ شعر بلند آواز سے پڑھ رہے تھے۔

جو گھوڑے پر اچھی طرح نہ جم سکتا ہو ( اس کے لیے دعا کرنا )

حدیث نمبر ۳۰۳۵

راوی: جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ

جب سے میں اسلام لایا ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پردہ کے ساتھ) مجھے (اپنے گھر میں داخل ہونے سے) کبھی نہیں روکا اور جب بھی آپ مجھ کو دیکھتے ‘ خوشی سے آپ مسکرانے لگتے۔

حدیث نمبر ۳۰۳۶

ایک دفعہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں شکایت کی کہ میں گھوڑے کی پیٹھ پر اچھی طرح نہیں جم پاتا ہوں ‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینے پر اپنا دست مبارک مارا ‘ اور دعا کی

اللَّهُمَّ ثَبِّتْهُ وَاجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا

اے اللہ! اسے گھوڑے پر جما دے اور دوسروں کو سیدھا راستہ بتانے والا بنا دے اور خود اسے بھی سیدھے راستے پر قائم رکھ۔

بوریا جلا کر زخم کی دوا کرنا اور عورت کا اپنے باپ کے چہرے سے خون دھونا اور ڈھال میں پانی بھربھر کر لانا

حدیث نمبر ۳۰۳۷

سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے شاگردوں نے پوچھا کہ (جنگ احد میں) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زخموں کا علاج کس دوا سے کیا گیا تھا؟

سہل نے اس پر کہا کہ اب صحابہ میں کوئی شخص بھی ایسا زندہ موجود نہیں ہے جو اس کے بارے میں مجھ سے زیادہ جانتا ہو۔

علی رضی اللہ عنہ اپنی ڈھال میں پانی بھربھر کر لا رہے تھے اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے خون کو دھو رہی تھیں۔ اور ایک بوریا جلایا گیا تھا اور آپ کے زخموں میں اسی کی راکھ کو بھر دیا گیا تھا۔

جنگ میں جھگڑا اور اختلاف کرنا مکروہ ہے اور جو سردار لشکر کی نافرمانی کرے ، اس کی سزا کا بیان

اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانفال میں فرمایا

‏‏‏‏وَلاَ تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ‏‏‏‏

آپس میں پھوٹ نہ پیدا کرو کہ اس سے تم بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ (۸:۴۶)

قتادہ نے کہا کہ آیت میں  ريح  سے مراد لڑائی سے۔

حدیث نمبر ۳۰۳۸

راوی: بوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ

سعید بن ابی بردہ نے ‘ ان سے ان کے باپ نے اور ان سے ان کے دادا انے کہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ اور ابوموسیٰ کو یمن بھیجا ‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر یہ ہدایت فرمائی تھی کہ (لوگوں کے لیے) آسانی پیدا کرنا ‘ انہیں سختیوں میں مبتلا نہ کرنا ‘ ان کو خوش رکھنا ‘ نفرت نہ دلانا ‘ اور تم دونوں آپس میں اتفاق رکھنا ‘ اختلاف نہ پیدا کرنا۔

حدیث نمبر ۳۰۳۹

راوی: براء بن عازب رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ احد کے موقع پر (تیر اندازوں کے) پچاس آدمیوں کا افسر عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کو بنایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تاکید کر دی تھی کہ اگر تم یہ بھی دیکھ لو کہ پرندے ہم پر ٹوٹ پڑے ہیں۔ پھر بھی اپنی جگہ سے مت ہٹنا ‘ جب تک میں تم لوگوں کو کہلا نہ بھیجوں۔ اسی طرح اگر تم یہ دیکھو کہ کفار کو ہم نے شکست دے دی ہے اور انہیں پامال کر دیا ہے پھر بھی یہاں سے نہ ٹلنا ‘ جب میں تمہیں خود بلا نہ بھیجوں۔

 پھر اسلامی لشکر نے کفار کو شکست دے دی۔ براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ‘ کہ اللہ کی قسم! میں نے مشرک عورتوں کو دیکھا کہ تیزی کے ساتھ بھاگ رہی تھیں۔ ان کے پازیب اور پنڈلیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ اور وہ اپنے کپڑوں کو اٹھائے ہوئے تھیں۔

عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں نے کہا ‘ کہ غنیمت لوٹو ‘ اے قوم! غنیمت تمہارے سامنے ہے۔ تمہارے ساتھی غالب آ گئے ہیں۔ اب ڈر کس بات کا ہے۔

 اس پر عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ کیا جو ہدایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی ‘ تم اسے بھول گئے؟ لیکن وہ لوگ اسی پر اڑے رہے کہ دوسرے اصحاب کے ساتھ غنیمت جمع کرنے میں شریک رہیں گے۔

جب یہ لوگ (اکثریت) اپنی جگہ چھوڑ کر چلے آئے تو ان کے منہ کافروں نے پھیر دیئے ‘ اور (مسلمانوں کو) شکست زدہ پا کر بھاگتے ہوئے آئے ‘ یہی وہ گھڑی تھی (جس کا ذکر سورۃ آل عمران میں ہے کہ) ”

وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ فِي أُخْرَاكُمْ

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم کو پیچھے کھڑے ہوئے بلا رہے تھے (۳:۱۵۳)

 اس سے یہی مراد ہے۔

 اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بارہ صحابہ کے سوا اور کوئی بھی باقی نہ رہ گیا تھا۔ آخر ہمارے ستر آدمی شہید ہو گئے۔

 بدر کی لڑائی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کے ساتھ مشرکین کے ایک سو چالیس آدمیوں کا نقصان کیا تھا ‘ ستر ان میں سے قیدی تھے اور ستر مقتول ‘ (جب جنگ ختم ہو گئی تو ایک پہاڑ پر کھڑے ہو کر) ابوسفیان نے کہا کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کے ساتھ موجود ہیں؟

تین مرتبہ انہوں نے یہی پوچھا۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دینے سے منع فرما دیا تھا۔

پھر انہوں نے پوچھا ‘ کیا ابن ابی قحافہ (ابوبکر رضی اللہ عنہ) اپنی قوم میں موجود ہیں؟

یہ سوال بھی تین مرتبہ کیا ‘

پھر پوچھا ابن خطاب (عمر رضی اللہ عنہ) اپنی قوم میں موجود ہیں؟

یہ بھی تین مرتبہ پوچھا ‘

پھر اپنے ساتھیوں کی طرف مڑ کر کہنے لگے کہ یہ تینوں قتل ہو چکے ہیں اس پر عمر رضی اللہ عنہ سے نہ رہا گیا اور آپ بول پڑے کہ اے اللہ کے دشمن! اللہ گواہ ہے کہ تو جھوٹ بول رہا ہے جن کے تو نے ابھی نام لیے تھے وہ سب زندہ ہیں اور ابھی تیرا برا دن آنے والا ہے۔

 ابوسفیان نے کہا اچھا! آج کا دن بدر کا بدلہ ہے۔ اور لڑائی بھی ایک ڈول کی طرح ہے (کبھی ادھر کبھی ادھر) تم لوگوں کو اپنی قوم کے بعض لوگ مثلہ کئے ہوئے ملیں گے۔ میں نے اس طرح کا کوئی حکم (اپنے آدمیوں کو) نہیں دیا تھا ‘ لیکن مجھے ان کا یہ عمل برا بھی نہیں معلوم ہوا۔ اس کے بعد وہ فخر یہ رجز پڑھنے لگا ‘ ہبل (بت کا نام) بلند رہے۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ اس کا جواب کیوں نہیں دیتے۔

صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا ہم اس کے جواب میں کیا کہیں یا رسول اللہ؟

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہو کہ اللہ سب سے بلند اور سب سے بڑا بزرگ ہے۔

ابوسفیان نے کہا ہمارا مددگار عزیٰ (بت) ہے اور تمہارا کوئی بھی نہیں،

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جواب کیوں نہیں دیتے،

صحابہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! اس کا جواب کیا دیا جائے؟

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کہو کہ اللہ ہمارا حامی ہے اور تمہارا حامی کوئی نہیں۔

 اگر رات کے وقت دشمن کا ڈر پیدا ہو ( تو چاہئے کہ حاکم اس کی خبر لے )

حدیث نمبر ۳۰۴۰

راوی: انس رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ حسین ‘ سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ بہادر تھے۔ انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ رات کے وقت اہل مدینہ گھبرا گئے تھے ‘ کیونکہ ایک آواز سنائی دی تھی۔ پھر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ایک گھوڑے پر جس کی پیٹھ ننگی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حقیقت حال معلوم کرنے کے لیے تنہا اطراف مدینہ میں سب سے آگے تشریف لے گئے۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس آ کر صحابہ رضی اللہ عنہم سے ملے تو تلوار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن میں لٹک رہی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ‘ گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تو اسے دریا کی طرح پایا۔ (تیز دوڑنے میں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ گھوڑے کی طرف تھا۔

دشمن کو دیکھ کر بلند آواز سے یا صباحاہ پکارنا تاکہ لوگ سن لیں اور مدد کو آئیں

حدیث نمبر ۳۰۴۱

راوی: سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ

میں مدینہ منورہ سے غابہ (شام کے راستے میں ایک مقام) جا رہا تھا ‘ غابہ کی پہاڑی پر ابھی میں پہنچا تھا کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کا ایک غلام (رباح) مجھے ملا۔ میں نے کہا ‘ کیا بات پیش آئی؟

کہنے لگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دودہیل اونٹنیاں (دودھ دینے والیاں) چھین لی گئیں ہیں۔

میں نے پوچھا کس نے چھینا ہے؟

بتایا کہ قبیلہ غطفان اور قبیلہ فزارہ کے لوگوں نے۔

پھر میں نے تین مرتبہ بہت زور سے چیخ کر ”یا صباحاہ ‘ یا صباحاہ“ کہا۔ اتنی زور سے کہ مدینہ کے چاروں طرف میری آواز پہنچ گئی۔ اس کے بعد میں بہت تیزی کے ساتھ آگے بڑھا ‘ اور ڈاکوؤں کو جا لیا ‘ اونٹنیاں ان کے ساتھ تھیں ‘ میں نے ان پر تیر برسانا شروع کر دیا ‘ اور کہنے لگا ‘ میں اکوع کا بیٹا سلمہ ہوں اور آج کا دن کمینوں کی ہلاکت کا دن ہے۔ آخر اونٹنیاں میں نے ان سے چھڑا لیں ‘

ابھی وہ لوگ پانی نہ پینے پائے تھے اور انہیں ہانک کر واپس لا رہا تھا کہ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مجھ کو مل گئے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ڈاکو پیاسے ہیں اور میں نے مارے تیروں کے پانی بھی نہیں پینے دیا۔ اس لیے ان کے پیچھے کچھ لوگوں کو بھیج دیں۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ اے ابن الاکوع! تو ان پر غالب ہو چکا اب جانے دے ‘ درگزر کر وہ تو اپنی قوم میں پہنچ گئے جہاں ان کی مہمانی ہو رہی ہے۔

حملہ کرتے وقت یوں کہنا اچھا لے میں فلاں کا بیٹا ہوں

سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے ڈاکوؤں پر تیر چلائے اور کہا ‘ لے میں اکوع کا بیٹا ہوں۔

حدیث نمبر ۳۰۴۲

راوی: ابواسحاق

انہوں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے پوچھا تھا ‘ اے ابوعمارہ! کیا آپ لوگ حنین کی جنگ میں واقعی فرار ہو گئے تھے؟

 ابواسحاق نے کہا میں سن رہا تھا ‘ براء رضی اللہ عنہ نے یہ جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن اپنی جگہ سے بالکل نہیں ہٹے تھے۔ ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب آپ کے خچر کی لگام تھامے ہوئے تھے ‘ جس وقت مشرکین نے آپ کو چاروں طرف سے گھیر لیا تو آپ سواری سے اترے اور (تنہا میدان میں آ کر) فرمانے لگے میں اللہ کا نبی ہوں ‘ اس میں بالکل جھوٹ نہیں۔ میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔

 براء نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ بہادر اس دن کوئی بھی نہیں تھا۔

 اگر کافر لوگ ایک مسلمان کے فیصلے پر راضی ہو کر اپنے قلعے سے اتر آئیں ؟

حدیث نمبر ۳۰۴۳

راوی: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ

 جب بنو قریظہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی ثالثی کی شرط پر ہتھیار ڈال کر قلعہ سے اتر آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں (سعد رضی اللہ عنہ کو) بلایا۔ آپ وہیں قریب ہی ایک جگہ ٹھہرے ہوئے تھے (کیونکہ زخمی تھے)

سعد رضی اللہ عنہ گدھے پر سوار ہو کر آئے ‘ جب وہ آپ کے قریب پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ اپنے سردار کی طرف کھڑے ہو جاؤ (اور ان کو سواری سے اتارو)

آخر آپ اتر کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آ کر بیٹھ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان لوگوں (بنو قریظہ کے یہودی) نے آپ کی ثالثی کی شرط پر ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ (اس لیے آپ ان کا فیصلہ کر دیں)

انہوں نے کہا کہ پھر میرا فیصلہ یہ ہے کہ ان میں جتنے آدمی لڑنے والے ہیں ‘ انہیں قتل کر دیا جائے ‘ اور ان کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔

 قیدی کو قتل کرنا اور کسی کو کھڑا کر کے نشانہ بنانا

حدیث نمبر ۳۰۴۴

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے دن جب شہر میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک پر خود تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب اسے اتار رہے تھے تو ایک شخص (ابوبرزہ اسلمی) نے آ کر آپ کو خبر دی کہ ابن خطل (اسلام کا بدترین دشمن) کعبہ کے پردے سے لٹکا ہوا ہے۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے وہیں قتل کر دو۔

اپنے تئیں قید کرا دینا اور جو شخص قید نہ کرائے اس کا حکم اور قتل کے وقت دو رکعت نماز پڑھنا

حدیث نمبر ۳۰۴۵

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس صحابہ کی ایک جماعت کفار کی جاسوسی کے لیے بھیجی ‘ اس جماعت کا امیر عاصم بن عمر بن خطاب کے نانا عاصم بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کو بنایا اور جماعت روانہ ہو گئی۔ جب یہ لوگ مقام ھداۃ پر پہنچے جو عسفان اور مکہ کے درمیان میں ہے تو قبیلہ ہذیل کی ایک شاخ بنولحیان کو کسی نے خبر دے دی اور اس قبیلہ کے دو سو تیر اندازوں کی جماعت ان کی تلاش میں نکلی ‘ یہ سب صحابہ کے نشانات قدم سے اندازہ لگاتے ہوئے چلتے چلتے آخر ایک ایسی جگہ پر پہنچ گئے جہاں صحابہ نے بیٹھ کر کھجوریں کھائی تھیں ‘ جو وہ مدینہ منورہ سے اپنے ساتھ لے کر چلے تھے۔ پیچھا کرنے والوں نے کہا کہ یہ (گٹھلیاں) تو یثرب (مدینہ) کی (کھجوروں کی) ہیں اور پھر قدم کے نشانوں سے اندازہ کرتے ہوئے آگے بڑھنے لگے۔ آخر عاصم رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے جب انہیں دیکھا تو ان سب نے ایک پہاڑ کی چوٹی پر پناہ لی ‘

مشرکین نے ان سے کہا کہ ہتھیار ڈال کر نیچے اتر آؤ ‘ تم سے ہمارا عہد و پیمان ہے۔ ہم کسی شخص کو بھی قتل نہیں کریں گے۔

عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ مہم کے امیر نے کہا کہ میں تو آج کسی صورت میں بھی ایک کافر کی پناہ میں نہیں اتروں گا۔ اے اللہ! ہماری حالت سے اپنے نبی کو مطلع کر دے۔

 اس پر ان کافروں نے تیر برسانے شروع کر دئیے اور عاصم رضی اللہ عنہ اور سات دوسرے صحابہ کو شہید کر ڈالا باقی تین صحابی ان کے عہد و پیمان پر اتر آئے، یہ خبیب انصاری رضی اللہ عنہ ابن دثنہ رضی اللہ عنہ اور ایک تیسرے صحابی (عبداللہ بن طارق بلوی رضی اللہ عنہ) تھے۔

جب یہ صحابی ان کے قابو میں آ گئے تو انہوں نے اپنی کمانوں کے تانت اتار کر ان کو ان سے باندھ لیا ‘ عبداللہ بن طارق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم! یہ تمہاری پہلی غداری ہے۔ میں تمہارے ساتھ ہرگز نہ جاؤں گا ‘ بلکہ میں تو انہیں کا اسوہ اختیار کروں گا ‘ ان کی مراد شہداء سے تھی۔

مگر مشرکین انہیں کھنچنے لگے اور زبردستی اپنے ساتھ لے جانا چاہا جب وہ کسی طرح نہ گئے تو ان کو بھی شہید کر دیا۔ اب یہ خبیب اور ابن دثنہ رضی اللہ عنہما کو ساتھ لے کر چلے اور ان کو مکہ میں لے جا کر بیچ دیا۔ یہ جنگ بدر کے بعد کا واقعہ ہے۔

 خبیب رضی اللہ عنہ کو حارث بن عامر بن نوفل بن عبد مناف کے لڑکوں نے خرید لیا، خبیب رضی اللہ عنہ نے ہی بدر کی لڑائی میں حارث بن عامر کو قتل کیا تھا۔ آپ ان کے یہاں کچھ دنوں تک قیدی بن کر رہے،

 حارث کی بیٹی زینب رضی اللہ عنہا نے خبر دی

جب (ان کو قتل کرنے کے لیے) لوگ آئے تو زینب سے انہوں نے موئے زیر ناف مونڈنے کے لیے استرا مانگا۔ انہوں نے استرا دے دیا،

زینب نے بیان کیا پھر انہوں نے میرے ایک بچے کو اپنے پاس بلا لیا ‘ جب وہ ان کے پاس گیا تو میں غافل تھی ‘ زینب نے بیان کیا کہ پھر جب میں نے اپنے بچے کو ان کی ران پر بیٹھا ہوا دیکھا اور استرا ان کے ہاتھ میں تھا ‘ تو میں اس بری طرح گھبرا گئی کہ خبیب رضی اللہ عنہ بھی میرے چہرے سے سمجھ گئے انہوں نے کہا ‘ تمہیں اس کا خوف ہو گا کہ میں اسے قتل کر ڈالوں گا ‘ یقین کرو میں کبھی ایسا نہیں کر سکتا۔

 اللہ کی قسم! کوئی قیدی میں نے خبیب سے بہتر کبھی نہیں دیکھا۔ اللہ کی قسم! میں نے ایک دن دیکھا کہ انگور کا خوشہ ان کے ہاتھ میں ہے اور وہ اس میں سے کھا رہے ہیں۔ حالانکہ وہ لوہے کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے اور مکہ میں پھلوں کا موسم بھی نہیں تھا۔ کہا کرتی تھیں کہ وہ تو اللہ تعالیٰ کی روزی تھی جو اللہ نے خبیب رضی اللہ عنہ کو بھیجی تھی۔

پھر جب مشرکین انہیں حرم سے باہر لائے ‘ تاکہ حرم کے حدود سے نکل کر انہیں شہید کر دیں تو خبیب رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ مجھے صرف دو رکعت نماز پڑھ لینے دو۔ انہوں نے ان کو اجازت دے دی۔ پھر خبیب رضی اللہ عنہ نے دو رکعت نماز پڑھی اور فرمایا ‘ اگر تم یہ خیال نہ کرنے لگتے کہ میں (قتل سے) گھبرا رہا ہوں تو میں ان رکعتوں کو اور لمبا کرتا۔ اے اللہ! ان ظالموں سے ایک ایک کو ختم کر دے، (پھر یہ اشعار پڑھے)

جبکہ میں مسلمان ہونے کی حالت میں قتل کیا جا رہا ہوں ‘ تو مجھے کسی قسم کی بھی پرواہ نہیں ہے۔ خواہ اللہ کے راستے میں مجھے کسی پہلو پر بھی پچھاڑا جائے،

یہ صرف اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہے اور اگر وہ چاہے تو اس جسم کے ٹکڑوں میں بھی برکت دے سکتا ہے جس کی بوٹی بوٹی کر دی گئی ہو۔

 آخر حارث کے بیٹے (عقبہ) نے ان کو شہید کر دیا۔

 خبیب رضی اللہ عنہ سے ہی ہر اس مسلمان کے لیے جسے قید کر کے قتل کیا جائے (قتل سے پہلے) دو رکعتیں مشروع ہوئی ہیں۔

ادھر حادثہ کے شروع ہی میں عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ (مہم کے امیر) کی دعا اللہ تعالیٰ نے قبول کر لی تھی کہ اے اللہ! ہماری حالت کی خبر اپنے نبی کو دیدے) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو وہ سب حالات بتا دیئے تھے جن سے یہ مہم دو چار ہوئی تھی۔ کفار قریش کے کچھ لوگوں کو جب معلوم ہوا کہ عاصم شہید کر دیئے گئے تو انہوں نے نے ان کی لاش کے لیے اپنے آدمی بھیجے تاکہ ان کی جسم کا کوئی ایسا حصہ کاٹ لائیں جس سے ان کی شناخت ہو سکتی ہو۔

 عاصم رضی اللہ عنہ نے بدر کی جنگ میں کفار قریش کے ایک سردار (عقبہ بن ابی معیط) کو قتل کیا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے بھڑوں کا ایک چھتہ عاصم کی نعش پر قائم کر دیا انہوں نے قریش کے آدمیوں سے عاصم کی لاش کو بچا لیا اور وہ ان کے بدن کا کوئی ٹکڑا نہ کاٹ سکے۔

( مسلمان ) قیدیوں کو آزاد کرانا

اس بارے میں ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے۔

حدیث نمبر ۳۰۴۶

راوی: ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

- قیدی کو چھڑایا کرو

- بھوکے کو کھلایا کرو

- بیمار کی عیادت کرو۔

حدیث نمبر ۳۰۴۷

راوی: ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ

میں نے علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا ‘ آپ حضرات (اہل بیت) کے پاس کتاب اللہ کے سوا اور بھی کوئی وحی ہے؟

 آپ نے اس کا جواب دیا۔ اس ذات کی قسم! جس نے دانے کو (زمین) چیر کر (نکالا) اور جس نے روح کو پیدا کیا ‘ مجھے تو کوئی ایسی وحی معلوم نہیں (جو قرآن میں نہ ہو) البتہ سمجھ ایک دوسری چیز ہے ‘ جو اللہ کسی بندے کو قرآن میں عطا فرمائے (قرآن سے طرح طرح کے مطالب نکالے) یا جو اس ورق میں ہے۔

میں نے پوچھا ‘ اس ورق میں کیا لکھا ہے؟

 انہوں نے بتلایا کہ دیت کے احکام اور قیدی کا چھڑانا اور مسلمان کا کافر کے بدلے میں نہ مارا جانا (یہ مسائل اس ورق میں لکھے ہوئے ہیں اور بس)۔

مشرکین سے فدیہ لینا

حدیث نمبر ۳۰۴۸

راوی:  انس بن مالک رضی اللہ ع

انصار کے بعض لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی اور عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ ہمیں اس کی اجازت دے دیں کہ ہم اپنے بھانجے عباس بن عبدالمطلب کا فدیہ معاف کر دیں ‘ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کے فدیہ میں سے ایک درہم بھی نہ چھوڑو۔

حدیث نمبر ۳۰۴۹

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

اور ابراہیم بن طہمان نے بیان کیا ‘ ان سے عبدالعزیز بن صہیب نے اور ان سے نے بیان کیا کہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بحرین کا خراج آیا تو عباس رضی اللہ عنہ خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! اس مال سے مجھے بھی دیجئیے کیونکہ (بدر کے موقع پر) میں نے اپنا اور عقیل دونوں کا فدیہ ادا کیا تھا۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”پھر آپ لے لیں“

چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ان کے کپڑے میں نقدی کو بندھوا دیا۔

حدیث نمبر ۳۰۵۰

راوی: جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ

وہ بدر کے قیدیوں کو چھڑانے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے (وہ ابھی اسلام نہیں لائے تھے) انہوں نے بیان کیا کہ میں نے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب کی نماز میں سورۃ الطور پڑھی۔

اگر حربی کافر مسلمانوں کے ملک میں بے امان چلا آئے تو اس کا مار ڈالنا درست ہے

حدیث نمبر ۳۰۵۱

راوی: سلمہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سفر میں مشرکوں کا ایک جاسوس آیا۔ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ ہوازن کے لیے تشریف لے جا رہے تھے) وہ جاسوس صحابہ کی جماعت میں بیٹھا ‘ باتیں کیں ‘ پھر وہ واپس چلا گیا ‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے تلاش کر کے مار ڈالو۔

 چنانچہ اسے (سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے) قتل کر دیا ‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ہتھیار اور اوزار قتل کرنے والے کو دلوا دئیے۔

 ذمی کافروں کو بچانے کے لیے لڑنا ، ان کا غلام لونڈی نہ بنانا

حدیث نمبر ۳۰۵۲

راوی: عمرو بن میمون

عمر رضی اللہ عنہ نے (وفات سے تھوڑی دیر پہلے) فرمایا کہ میں اپنے بعد آنے والے خلیفہ کو اس کی وصیت کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا (ذمیوں سے) جو عہد ہے اس کو وہ پورا کرے اور یہ کہ ان کی حمایت میں ان کے دشمنوں سے جنگ کرے اور ان کی طاقت سے زیادہ کوئی بوجھ ان پر نہ ڈالا جائے۔

ذمیوں کی سفارش اور ان سے کیسا معاملہ کیا جائے

حدیث نمبر ۳۰۵۳

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

جمعرات کے دن ‘ اور معلوم ہے جمعرات کا دن کیا ہے؟ پھر آپ اتنا روئے کہ کنکریاں تک بھیگ گئیں۔

 آخر آپ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری میں شدت اسی جمعرات کے دن ہوئی تھی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ قلم دوات لاؤ ‘ تاکہ میں تمہارے لیے ایک ایسی کتاب لکھوا جاؤں کہ تم (میرے بعد اس پر چلتے رہو تو) کبھی گمراہ نہ ہو سکو ا

س پر صحابہ میں اختلاف ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نبی کے سامنے جھگڑنا مناسب نہیں ہے۔

صحابہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (بیماری کی شدت سے) ہیں۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا ‘ اب مجھے میری حالت پر چھوڑ دو ‘ میں جس حال میں اس وقت ہوں وہ اس سے بہتر ہے جو تم کرانا چاہتے ہو۔

 آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے وقت تین وصیتیں فرمائی تھیں۔ یہ مشرکین کو جزیرہ عرب سے باہر کر دینا۔ دوسرے یہ کہ وفود سے ایسا ہی سلوک کرتے رہنا ‘ جیسے میں کرتا رہا (ان کی خاطرداری ضیافت وغیرہ) اور تیسری ہدایت میں بھول گیا۔

 اور یعقوب بن محمد نے بیان کیا کہ میں نے مغیرہ بن عبدالرحمٰن سے جزیرہ عرب کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہا مکہ ‘ مدینہ ‘ یمامہ اور یمن (کا نام جزیرہ عرب) ہے۔

 اور یعقوب نے کہا کہ عرج سے تہامہ شروع ہوتا ہے (عرج مکہ اور مدینہ کے راستے میں ایک منزل کا نام ہے)۔

وفود سے ملاقات کے لیے اپنے آپ کو آراستہ کرنا

حدیث نمبر ۳۰۵۴

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ بازار میں ایک ریشمی جوڑا فروخت ہو رہا ہے۔ پھر اسے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے اور عرض کیا یا رسول اللہ! یہ جوڑا آپ خرید لیں اور عید اور وفود کی ملاقات پر اس سے اپنی زیبائش فرمایا کریں۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ ان لوگوں کا لباس ہے جن کا (آخرت میں) کوئی حصہ نہیں یا (آپ نے یہ جملہ فرمایا) اسے تو وہی لوگ پہن سکتے ہیں جن کا (آخرت میں) کوئی حصہ نہیں۔

پھر اللہ نے جتنے دنوں چاہا عمر رضی اللہ عنہ خاموش رہے۔ پھر جب ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پاس ایک ریشمی جبہ بھیجا تو عمر رضی اللہ عنہ اسے لے کر خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے تو یہ فرمایا تھا کہ یہ ان کا لباس ہے جن کا (آخرت میں) کوئی حصہ نہیں ‘ یا (عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کی بات اس طرح دہرائی کہ) اسے وہی لوگ پہن سکتے ہیں جن کا (آخرت میں) کوئی حصہ نہیں۔ اور پھر آپ نے یہی میرے پاس ارسال فرما دیا۔

 اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (میرے بھیجنے کا مقصد یہ تھا کہ) تم اسے بیچ لو ‘ یا (فرمایا کہ) اس سے اپنی کوئی ضرورت پوری کر سکو۔

بچے پر اسلام کس طرح پیش کیا جائے

حدیث نمبر ۳۰۵۵

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صحابہ کی ایک جماعت جن میں عمر رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے ‘ ابن صیاد (یہودی لڑکا) کے یہاں جا رہی تھی۔ آخر بنو مغالہ (ایک انصاری قبیلے) کے ٹیلوں کے پاس بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے اسے ان لوگوں نے پا لیا ‘ ابن صیاد بالغ ہونے کے قریب تھا۔ اسے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا) پتہ نہیں ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس کے قریب پہنچ کر) اپنا ہاتھ اس کی پیٹھ پر مارا ‘ اور فرمایا کیا تو اس کی گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔

 ابن صیاد نے آپ کی طرف دیکھا ‘ پھر کہنے لگا۔ ہاں! میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ان پڑھوں کے نبی ہیں۔

اس کے بعد اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟

 آپ نے اس کا جواب (صرف اتنا) دیا کہ میں اللہ اور اس کے (سچے) انبیاء پر ایمان لایا۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا ‘ تو کیا دیکھتا ہے؟

اس نے کہا کہ میرے پاس ایک خبر سچی آتی ہے تو دوسری جھوٹی بھی۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ حقیقت حال تجھ پر مشتبہ ہو گئی ہے۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا ”اچھا میں نے تیرے لیے اپنے دل میں ایک بات سوچی ہے (بتا وہ کیا ہے؟)“

ابن صیاد بولا کہ دھواں،

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ذلیل ہو ‘ کمبخت! تو اپنی حیثیت سے آگے نہ بڑھ سکے گا۔“

عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ‘ یا رسول اللہ! مجھے اجازت ہو تو میں اس کی گردن مار دوں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اگر یہ وہی (دجال) ہے تو تم اس پر قادر نہیں ہو سکتے اور اگر دجال نہیں ہے تو اس کی جان لینے میں کوئی خیر نہیں۔“

حدیث نمبر ۳۰۵۶

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

(ایک مرتبہ) ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کھجور کے باغ میں تشریف لائے جس میں ابن صیاد موجود تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم باغ میں داخل ہو گئے تو کھجور کے تنوں کی آڑ لیتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھنے لگے۔ آپ چاہتے یہ تھے کہ اسے آپ کی موجودگی کا احساس نہ ہو سکے اور آپ اس کی باتیں سن لیں۔

 ابن صیاد اس وقت اپنے بستر پر ایک چادر اوڑھے پڑا تھا اور کچھ گنگنا رہا تھا۔ اتنے میں اس کی ماں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیا کہ آپ کھجور کے تنوں کی آڑ لے کر آگے آ رہے ہیں اور اسے آگاہ کر دیا کہ اے صاف! یہ اس کا نام تھا۔ ابن صیاد یہ سنتے ہی اچھل پڑا۔

 ابن صیاد اس وقت اپنے بستر پر ایک چادر اوڑھے پڑا تھا اور کچھ گنگنا رہا تھا۔ اتنے میں اس کی ماں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیا کہ آپ کھجور کے تنوں کی آڑ لے کر آگے آ رہے ہیں اور اسے آگاہ کر دیا کہ اے صاف! یہ اس کا نام تھا۔ ابن صیاد یہ سنتے ہی اچھل پڑا۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ اگر اس کی ماں نے اسے یوں ہی رہنے دیا ہوتا تو حقیقت کھل جاتی۔

حدیث نمبر ۳۰۵۷

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو خطاب فرمایا ‘ آپ نے اللہ تعالیٰ کی ثناء بیان کی ‘ جو اس کی شان کے لائق تھی۔ پھر دجال کا ذکر فرمایا ‘ اور فرمایا :

میں بھی تمہیں اس کے (فتنوں سے) ڈراتا ہوں ‘ کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی قوم کو اس کے فتنوں سے نہ ڈرایا ہو ‘ نوح علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو اس سے ڈرایا تھا لیکن میں اس کے بارے میں تم سے ایک ایسی بات کہوں گا جو کسی نبی نے اپنی قوم سے نہیں کہی ‘ اور وہ بات یہ ہے کہ دجال کانا ہو گا اور اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہود سے یوں فرمانا کہ اسلام لاؤ تو ( دنیا اور آخرت میں ) سلامتی پاؤ گے

مقبری نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اس حدیث کو نقل کیا ہے۔

اگر کچھ لوگ جو دارالحرب میں مقیم ہیں اسلام لے آئیں اور وہ مال و جائیداد منقولہ و غیر منقولہ کے مالک ہیں تو وہ ان ہی کی ہو گی

حدیث نمبر ۳۰۵۸

راوی: اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما

میں نے حجۃ الوداع کے موقع پر عرض کیا ‘ یا رسول اللہ! کل آپ (مکہ میں) کہاں قیام فرمائیں گے؟

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! عقیل نے ہمارے لیے کوئی گھر چھوڑا ہی کب ہے۔ پھر فرمایا کہ کل ہمارا قیام حنیف بن کنانہ کے مقام محصب میں ہو گا ‘ جہاں پر قریش نے کفر پر قسم کھائی تھی۔

 واقعہ یہ ہوا تھا کہ بنی کنانہ اور قریش نے (یہیں پر) بنی ہاشم کے خلاف اس بات کی قسمیں کھائی تھیں کہ ان سے خرید و فروخت کی جائے اور نہ انہیں اپنے گھروں میں آنے دیں۔ زہری نے کہا کہ خیف وادی کو کہتے ہیں۔

حدیث نمبر ۳۰۵۹

راوی: اسلم

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ہنی نامی اپنے ایک غلام کو (سرکاری) چراگاہ کا حاکم بنایا ‘ تو انہیں یہ ہدایت کی ‘

اے ہنی! مسلمانوں سے اپنے ہاتھ روکے رکھنا (ان پر ظلم نہ کرنا) اور مظلوم کی بددعا سے ہر وقت بچتے رہنا ‘ کیونکہ مظلوم کی دعا قبول ہوتی ہے۔

 اور ہاں ابن عوف اور ابن عفان اور ان جیسے (امیر صحابہ) کے مویشیوں کے بارے میں تجھے ڈرتے رہنا چاہئے۔ (یعنی ان کے امیر ہونے کی وجہ سے دوسرے غریبوں کے مویشیوں پر چراگاہ میں انہیں مقدم نہ رکھنا) کیونکہ اگر ان کے مویشی ہلاک بھی ہو جائیں گے تو یہ رؤسا اپنے کھجور کے باغات اور کھیتوں سے اپنی معاش حاصل کر سکتے ہیں۔

لیکن گنے چنے اونٹوں اور گنی چنی بکریوں کا مالک (غریب) کہ اگر اس کے مویشی ہلاک ہو گئے ‘ تو وہ اپنے بچوں کو لے کر میرے پاس آئے گا ‘ اور فریاد کرے گا: یا امیرالمؤمنین! یا امیرالمؤمنین! تو کیا میں انہیں چھوڑ دوں گا (یعنی ان کو پالنا) تمہارا باپ نہ ہو؟ اس لیے (پہلے ہی سے) ان کیلئے چارے اور پانی کا انتظام کر دینا میرے لیے اس سے زیادہ آسان ہے کہ میں ان کیلئے سونے چاندی کا انتظام کروں

 اور اللہ کی قسم! وہ (اہل مدینہ) یہ سمجھتے ہوں گے کہ میں نے ان کے ساتھ زیادتی کی ہے کیونکہ یہ زمینیں انہیں کی ہیں۔ انہوں نے جاہلیت کے زمانہ میں اس کے لیے لڑائیاں لڑیں ہیں اور اسلام لانے کے بعد بھی ان کی ملکیت کو بحال رکھا گیا ہے۔

اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر وہ اموال (گھوڑے وغیرہ) نہ ہوتے جن پر جہاد میں لوگوں کو سوار کرتا ہوں تو ان کے علاقوں میں ایک بالشت زمین کو بھی میں چراگاہ نہ بناتا۔

خلیفہ اسلام کی طرف سے مردم شماری کرانا

حدیث نمبر ۳۰۶۰

راوی: حذیفہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جو لوگ اسلام کا کلمہ پڑھ چکے ہیں ان کے نام لکھ کر میرے پاس لاؤ۔“

چنانچہ ہم نے ڈیڑھ ہزار مردوں کے نام لکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کئے اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا ہماری تعداد ڈیڑھ ہزار ہو گئی ہے۔ اب ہم کو کیا ڈر ہے۔ لیکن تم دیکھ رہے ہو کہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد) ہم فتنوں میں اس طرح گھر گئے کہ اب مسلمان تنہا نماز پڑھتے ہوئے بھی ڈرنے لگا ہے۔

 ہم سے عبدان نے بیان کیا ‘ ان سے ابوحمزہ نے اور ان سے اعمش نے (مذکورہ بالا سند کے ساتھ) کہ ہم نے پانچ سو مسلمانوں کی تعداد لکھی (ہزار کا ذکر اس روایت میں نہیں ہوا) اور ابومعاویہ نے (اپنی روایت میں) یوں بیان کیا ‘ کہ چھ سو سے سات سو تک۔

حدیث نمبر ۳۰۶۱

راوی: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما

ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! میرا نام فلاں جہاد میں جانے کے لیے لکھا گیا ہے۔ ادھر میری بیوی حج کرنے جا رہی ہے۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر جا اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کر آ۔

 اللہ تعالیٰ کبھی اپنے دین کی مدد ایک فاجر شخص سے بھی کرا لیتا ہے

حدیث نمبر ۳۰۶۲

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

 ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں موجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کے متعلق جو اپنے کو مسلمان کہتا تھا ‘ فرمایا کہ یہ شخص دوزخ والوں میں سے ہے

۔ جب جنگ شروع ہوئی تو وہ شخص (مسلمانوں کی طرف) بڑی بہادری کے ساتھ لڑا اور وہ زخمی بھی ہو گیا۔

 صحابہ نے عرض کیا ‘ یا رسول اللہ! جس کے متعلق آپ نے فرمایا تھا کہ وہ دوزخ میں جائے گا۔ آج تو وہ بڑی بے جگری کے ساتھ لڑا ہے اور (زخمی ہو کر) مر بھی گیا ہے۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اب بھی وہی جواب دیا کہ جہنم میں گیا۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ‘ کہ ممکن تھا کہ بعض لوگوں کے دل میں کچھ شبہ پیدا ہو جاتا۔ لیکن ابھی لوگ اسی غور و فکر میں تھے کہ کسی نے بتایا کہ ابھی وہ مرا نہیں ہے۔ البتہ زخم کاری ہے۔ پھر جب رات آئی تو اس نے زخموں کی تاب نہ لا کر خودکشی کر لی۔

 جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اکبر! میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسولہوں۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا ‘ اور انہوں نے لوگوں میں اعلان کر دیا کہ مسلمان کے سوا جنت میں کوئی اور داخل نہیں ہو گا اور اللہ تعالیٰ کبھی اپنے دین کی امداد کسی فاجر شخص سے بھی کرا لیتا ہے۔

جو شخص میدان جنگ میں جبکہ دشمن کا خوف ہو امام کے کسی نئے حکم کے بغیر امیر لشکر بن جائے

حدیث نمبر ۳۰۶۳

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مدینہ میں) غزوہ موتہ کے موقع پر خطبہ دیا ‘ (جب کہ مسلمان سپاہی موتہ کے میدان میں داد شجاعت دے رہے تھے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب اسلامی عَلم (جھنڈا) زید بن حارثہ نے سنبھالا اور انہیں شہید کر دیا گیا، پھر جعفر نے عَلم اپنے ہاتھ میں اٹھا لیا اور وہ بھی شہید کر دیئے گئے۔ اب عبداللہ بن رواحہ نے عَلم تھاما ‘ یہ بھی شہید کر دیئے گئے۔ آخر خالد بن ولید نے کسی نئی ہدایت کے بغیر اسلامی عَلم اٹھا لیا ہے۔ اور ان کے ہاتھ پر فتح حاصل ہو گئی ‘ اور میرے لیے اس میں کوئی خوشی کی بات نہیں تھی یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ کہ ان کے لیے کوئی خوشی کی بات نہیں تھی کہ وہ (شہداء) ہمارے پاس زندہ ہوتے۔ (کیونکہ شہادت کے بعد وہ جنت میں عیش کر رہے ہیں)

اور انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔

مدد کے لیے فوج روانہ کرنا

حدیث نمبر ۳۰۶۴

راوی: انس رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رعل ‘ ذکوان ‘ عصیہ اور بنو لحیان قبائل کے کچھ لوگ آئے اور یقین دلایا کہ وہ لوگ اسلام لا چکے ہیں اور انہوں نے اپنی کافر قوم کے مقابل امداد اور تعلیم و تبلیغ کے لیے آپ سے مدد چاہی۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ستر انصاریوں کو ان کے ساتھ کر دیا۔

 انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ‘ کہ ہم انہیں قاری کہا کرتے تھے۔ وہ لوگ دن میں جنگل سے لکڑیاں جمع کرتے اور رات میں نماز پڑھتے رہتے۔

 یہ حضرات ان قبیلہ والوں کے ساتھ چلے گئے ‘ لیکن جب بئرمعونہ پر پہنچے تو انہیں قبیلہ والوں نے ان صحابہ کے ساتھ دغا کی اور انہیں شہید کر ڈالا۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینہ تک (نماز میں) قنوت پڑھی اور رعل و ذکوان اور بنو لحیان کے لیے بددعا کرتے رہے۔

 قتادہ نے کہا کہ ہم سے انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ (ان شہداء کے بارے میں) قرآن مجید میں ہم یہ آیت یوں پڑھتے رہے

”ہاں! ہماری قوم (مسلم) کو بتا دو کہ ہم اپنے رب سے جا ملے۔ اور وہ ہم سے راضی ہو گیا ہے اور ہمیں بھی اس نے خوش کیا ہے۔“

پھر یہ آیت منسوخ ہو گئی تھی۔

جس نے دشمن پر فتح پائی اور پھر تین دن تک ان کے ملک میں ٹھہرا رہا

حدیث نمبر ۳۰۶۵

راوی:  ابوطلحہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کسی قوم پر فتح حاصل ہوتی، تو میدان جنگ میں تین رات قیام فرماتے۔

سفر میں اور جہاد میں مال غنیمت کو تقسیم کرنا

ور رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم ذوالحلیفہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ‘ ہم کو بکریاں اور اونٹ غنیمت میں ملے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر قرار دے کر تقسیم کی تھی۔

حدیث نمبر ۳۰۶۶

راوی: انس رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام جعرانہ سے ‘ جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ حنین کا مال غنیمت تقسیم کیا تھا ‘ عمرہ کا احرام باندھا تھا۔

 کسی مسلمان کا مال مشرکین لوٹ کر لے جائیں پھر ( مسلمانوں کے غلبہ کے بعد ) وہ مال اس مسلمان کو مل گیا

حدیث نمبر ۳۰۶۷

راوی: نافع

ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ان کا ایک گھوڑا بھاگ گیا تھا اور دشمنوں نے اس کو پکڑ لیا تھا۔ پھر مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہوا تو ان کا گھوڑا انہیں واپس کر دیا گیا۔ یہ واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک کا ہے۔

 اسی طرح ان کے ایک غلام نے بھاگ کر روم میں پناہ حاصل کر لی تھی۔ پھر جب مسلمانوں کو اس ملک پر غلبہ حاصل ہوا تو خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے ان کا غلام انہیں واپس کر دیا۔ یہ واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کا ہے۔

کسی مسلمان کا مال مشرکین لوٹ کر لے جائیں پھر ( مسلمانوں کے غلبہ کے بعد ) وہ مال اس مسلمان کو مل گیا

حدیث نمبر ۳۰۶۸

راوی: نافع

ابن عمر رضی اللہ عنہما کا ایک غلام بھاگ کر روم کے کافروں میں مل گیا تھا۔ پھر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں (اسلامی لشکر نے) اس پر فتح پائی اور خالد رضی اللہ عنہ نے وہ غلام انکو واپس کر دیا۔

 اور یہ کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا ایک گھوڑا بھاگ کر روم پہنچ گیا تھا۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو جب روم پر فتح ہوئی ‘ تو انہوں نے یہ گھوڑا بھی عبداللہ کو واپس کر دیا تھا۔

حدیث نمبر ۳۰۶۹

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

جس دن اسلامی لشکر کی مڈبھیڑ (رومیوں سے) ہوئی تو وہ ایک گھوڑے پر سوار تھے۔ سالار فوج ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف سے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے۔ پھر گھوڑے کو دشمنوں نے پکڑ لیا ‘ لیکن جب انہیں شکست ہوئی تو خالد رضی اللہ عنہ نے گھوڑا عبداللہ رضی اللہ عنہ کو واپس کر دیا۔

فارسی یا اور کسی بھی عجمی زبان میں بولنا

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا

‏‏‏‏وَاخْتِلاَفُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ‏‏‏‏،

(اللہ کی نشانیوں میں) تمہاری زبان اور رنگ کا اختلاف بھی ہے۔  (۳۰:۲۲)

 ‏‏‏‏وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلاَّ بِلِسَانِ قَوْمِهِ‏‏‏‏

ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا ‘ لیکن یہ کہ وہ اپنی قوم کا ہم زبان ہوتا تھا۔  (۱۴:۴)

حدیث نمبر ۳۰۷۰

راوی: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما

میں نے (جنگ خندق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھوکا پا کر چپکے سے) عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم نے ایک چھوٹا سا بکری کا بچہ ذبح کیا ہے۔ اور ایک صاع جو کا آٹا پکوایا ہے۔ اس لیے آپ دو چار آدمیوں کو ساتھ لے کر تشریف لائیں۔

 لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بآواز بلند فرمایا ”اے خندق کھودنے والو! جابر نے دعوت کا کھانا تیار کر لیا ہے۔ آؤ چلو ‘ جلدی چلو۔“

حدیث نمبر ۳۰۷۱

راوی: ام خالد بنت خالد بن سعید رضی اللہ عنہ

میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے والد کے ساتھ حاضر ہوئی ‘ میں اس وقت ایک زرد رنگ کی قمیص پہنے ہوئے تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا ”سنہ سنہ “

عبداللہ نے کہا یہ لفظ حبشی زبان میں عمدہ کے معنے میں بولا جاتا ہے۔ ا

نہوں نے بیان کیا کہ پھر میں مہر نبوت کے ساتھ (جو آپ کے پشت پر تھی) کھیلنے لگی تو میرے والد نے مجھے ڈانٹا ‘ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے مت ڈانٹو ‘

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام خالد کو (درازی عمر کی) دعا دی کہ اس قمیص کو خوب پہن اور پرانی کر ‘ پھر پہن اور پرانی کر ‘ اور پھر پہن اور پرانی کر ‘

عبداللہ نے کہا کہ چنانچہ یہ قمیص اتنے دنوں تک باقی رہی کہ زبانوں پر اس کا چرچا آ گیا۔

حدیث نمبر ۳۰۷۲

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے صدقہ کی کھجور میں سے (جو بیت المال میں آئی تھی) ایک کھجور اٹھا لی اور اپنے منہ کے قریب لے گئے۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فارسی زبان کا یہ لفظ کہہ کر روک دیا کہ  كخ كخ  کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہم صدقہ نہیں کھایا کرتے ہیں۔

مال غنیمت میں سے تقسیم سے پہلے کچھ چرا لینا

اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ آل عمران میں فرمایا :

يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ

اور جو کوئی خیانت کرے گا وہ قیامت میں اسے لے کر آئے گا۔  (۳:۱۶۱)

حدیث نمبر ۳۰۷۳

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطاب فرمایا اور غلول (خیانت) کا ذکر فرمایا ‘

اس جرم کی ہولناکی کو واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ میں تم میں کسی کو بھی قیامت کے دن اس حالت میں نہ پاؤں کہ اس کی گردن پر بکری لدی ہوئی ہو اور وہ چلا رہی ہو یا اس کی گردن پر گھوڑا لدا ہوا ہو اور وہ چلا رہا ہو اور وہ شخص مجھ سے کہے کہ یا رسول اللہ! میری مدد فرمائیے۔

 لیکن میں یہ جواب دے دوں کہ میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ میں تو (اللہ کا پیغام) تم تک پہنچا چکا تھا۔

 اور اس کی گردن پر اونٹ لدا ہوا ہو اور چلا رہا ہو اور وہ شخص کہے کہ یا رسول اللہ! میری مدد فرمائیے۔

لیکن میں یہ جواب دے دوں کہ میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا ‘ میں اللہ کا پیغام تمہیں پہنچا چکا تھا ‘

یا (وہ اس حال میں آئے کہ) وہ اپنی گردن پر سونا ‘ چاندی ‘ اسباب لادے ہوئے ہو اور وہ مجھ سے کہے کہ یا رسول اللہ! میری مدد فرمایئے ‘ لیکن میں اس سے یہ کہہ دوں کہ میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا ‘ میں اللہ تعالیٰ کا پیغام تمہیں پہنچا چکا تھا۔

یا اس کی گردن پر کپڑے کے ٹکڑے ہوں جو اسے حرکت دے رہے ہوں اور وہ کہے کہ یا رسول اللہ! میری مدد کیجئے اور میں کہہ دوں کہ میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا ‘ میں تو (اللہ کا پیغام) پہلے ہی پہنچا چکا تھا۔

 اور ایوب سختیانی نے بھی ابوحیان سے روایت کیا ہے گھوڑا لادے دیکھوں جو ہنہنا رہا ہو۔

مال غنیمت میں سے ذرا سی چوری کر لینا

اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے باب کی حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ روایت نہیں کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چرانے والے کا اسباب جلا دیا تھا اور یہ زیادہ صحیح ہے اس روایت سے جس میں جلانے کا ذکر ہے۔

حدیث نمبر ۳۰۷۴

راوی: عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامان و اسباب پر ایک صاحب مقرر تھے ‘ جن کا نام کرکرہ تھا۔ ان کا انتقال ہو گیا ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ تو جہنم میں گیا۔

صحابہ انہیں دیکھنے گئے تو ایک عباء جسے خیانت کر کے انہوں نے چھپا لیا تھا ان کے یہاں ملی۔

مال غنیمت کے اونٹ بکریوں کو تقسیم سے پہلے ذبح کرنا مکروہ ہے

حدیث نمبر ۳۰۷۵

راوی: ا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ

عبایہ بن رفاعہ نے اور ان سے ان کے دادنے بیان کیا کہ

مقام ذوالحلیفہ میں ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑاؤ کیا۔ لوگ بھوکے تھے۔ ادھر غنیمت میں ہمیں اونٹ اور بکریاں ملی تھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لشکر کے پیچھے حصے میں تھے۔ لوگوں نے (بھوک کے مارے) جلدی کی ہانڈیاں چڑھا دیں۔ بعد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ان ہانڈیوں کو اوندھا دیا گیا پھر آپ نے غنیمت کی تقسیم شروع کی دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر رکھا اتفاق سے مال غنیمت کا ایک اونٹ بھاگ نکلا۔ لشکر میں گھوڑوں کی کمی تھی۔ لوگ اسے پکڑنے کے لیے دوڑے لیکن اونٹ نے سب کو تھکا دیا۔ آخر ایک صحابی (خود رافع رضی اللہ عنہ) نے اسے تیر مارا۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اونٹ جہاں تھا وہیں رہ گیا۔

 اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان (پالتو) جانوروں میں بھی جنگلی جانوروں کی طرح بعض دفعہ وحشت ہو جاتی ہے۔ اس لیے اگر ان میں سے کوئی قابو میں نہ آئے تو اس کے ساتھ ایسا ہی کرو۔

عبایہ کہتے ہیں کہ میرے دادا (رافع رضی اللہ عنہ) نے خدمت نبوی میں عرض کیا ‘ کہ ہمیں امید ہے یا (یہ کہا کہ) خوف ہے کہ کل کہیں ہماری دشمن سے مڈبھیڑ نہ ہو جائے۔ ادھر ہمارے پاس چھری نہیں ہے۔ تو کیا ہم بانس کی کھپچیوں سے ذبح کر سکتے ہیں؟

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو چیز خون بہا دے اور ذبح کرتے وقت اس پر اللہ تعالیٰ کا نام بھی لیا گیا ہو ‘ تو اس کا گوشت کھانا حلال ہے۔ البتہ وہ چیز (جس سے ذبح کیا گیا ہو) دانت اور ناخن نہ ہونا چاہئے۔ تمہارے سامنے میں اس کی وجہ بھی بیان کرتا ہوں دانت تو اس لیے نہیں کہ وہ ہڈی ہے اور ناخن اس لیے نہیں کہ وہ حبشیوں کی چھری ہیں۔

 فتح کی خوشخبری دینا

حدیث نمبر ۳۰۷۶

راوی: جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ

مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ذی الخلصہ (یمن کے کعبے) کو تباہ کر کے مجھے کیوں خوش نہیں کرتے۔“ یہ ذی الخلصہ (یمن کے قبیلہ) خثعم کا بت کدہ تھا (کعبے کے مقابل بنایا تھا) جسے کعبۃ الیمانیہ کہتے تھے۔ چنانچہ میں (اپنے قبیلہ) احمس کے ڈیڑھ سو سواروں کو لے کر تیار ہو گیا۔ یہ سب اچھے شہسوار تھے۔

پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں گھوڑے پر اچھی طرح سے جم نہیں پاتا تو آپ نے میرے سینے پر (دست مبارک) مارا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کا نشان اپنے سینے پر دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر یہ دعا دی  اللهم ثبته واجعله هاديا مهديا ‏"‏‏.‏ فانطلق إليها فكسرها وحرقها  ”اے اللہ! اسے گھوڑے پر جما دے اور اسے صحیح راستہ دکھانے والا بنا دے اور خود اسے بھی راہ پایا ہوا کر دے۔“

پھر جریر رضی اللہ عنہ مہم پر روانہ ہوئے اور ذی الخلصہ کو توڑ کر جلا دیا اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں خوشخبری بھجوائی جریر رضی اللہ عنہ کے قاصد (حسین بن ربیعہ) نے (خدمت نبوی میں) حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ! اس ذات پاک کی قسم جس نے آپ کو سچا پیغمبر بنا کر مبعوث فرمایا میں اس وقت تک آپ کی خدمت میں حاضر نہیں ہوا جب تک وہ بت کدہ جل کر ایسا (سیاہ) نہیں ہو گیا جیسا خارش والا بیمار اونٹ سیاہ ہوا کرتا ہے۔

 یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ احمس کے سواروں اور ان کے پیدل جوانوں کے لیے پانچ مرتبہ برکت کی دعا فرمائی مسدد نے اس حدیث میں یوں کہا ذی الخلصہ خثعم قبیلے میں ایک گھر تھا۔

( فتح اسلام کی ) خوشخبری دینے والے کو انعام دینا

اور کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے جب انہیں توبہ کے قبول ہونے کی خوشخبری سنائی گئی تو خوشخبری سنانے والے کو دو کپڑے انعام دیئے تھے۔

فتح مکہ کے بعد وہاں سے ہجرت کرنے کی ضرورت نہیں رہی

حدیث نمبر ۳۰۷۷

راوی: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا ”اب ہجرت (مکہ سے مدینہ کے لیے) باقی نہیں رہی ‘ البتہ حسن نیت اور جہاد باقی ہے۔ اس لیے جب تمہیں جہاد کے لیے بلایا جائے تو فوراً نکل جاؤ۔“

حدیث نمبر ۳۰۷۸،۷۹

راوی: مجاشع بن مسعود رضی اللہ عنہ

مجاشع اپنے بھائی مجالد بن مسعود رضی اللہ عنہ کو لے کر خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یہ مجالد ہیں۔ آپ سے ہجرت پر بیعت کرنا چاہتے ہیں۔

 لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فتح مکہ کے بعد اب ہجرت باقی نہیں رہی۔ ہاں میں اسلام پر ان سے بیعت لے لوں گا۔

فتح مکہ کے بعد وہاں سے ہجرت کرنے کی ضرورت نہیں رہی

حدیث نمبر ۳۰۸۰

راوی: عطا

میں عبید بن عمیر کے ساتھ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس وقت آپ ثبیر پہاڑ کے قریب قیام فرما تھیں۔ آپ نے ہم سے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ پر فتح دی تھی ‘ اسی وقت سے ہجرت کا سلسلہ ختم ہو گیا تھا (ثبیر مشہور پہاڑ ہے)۔

 ذمی یا مسلمان عورتوں کے ضرورت کے وقت بال دیکھنا درست ہے اس طرح ان کا ننگا کرنا بھی جب وہ اللہ کی نافرمانی کریں

حدیث نمبر ۳۰۸۱

راوی: سعد بن عبیدہ

ابی عبدالرحمٰن نے اور وہ عثمانی تھے ‘ انہوں نے عطیہ سے کہا ‘ جو علوی تھے ‘ کہ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تمہارے صاحب (علی رضی اللہ عنہ) کو کس چیز سے خون بہانے پر جرات ہوئی ‘ میں نے خود ان سے سنا ‘ وہ بیان کرتے تھے کہ مجھے اور زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا۔ اور ہدایت فرمائی کہ روضہ خاخ پر جب تم پہنچو ‘ تو انہیں ایک عورت (سارہ نامی) ملے گی۔ جسے حاطب ابن بلتعہ رضی اللہ عنہ نے ایک خط دے کر بھیجا ہے (تم وہ خط اس سے لے کر آؤ) چنانچہ جب ہم اس باغ تک پہنچے ہم نے اس عورت سے کہا خط لا۔

 اس نے کہا کہ حاطب رضی اللہ عنہ نے مجھے کوئی خط نہیں دیا۔

 ہم نے اس سے کہا کہ خط خود بخود نکال کر دیدے ورنہ (تلاشی کے لیے) تمہارے کپڑے اتار لیے جائیں گے۔ تب کہیں اس نے خط اپنے نیفے میں سے نکال کر دیا۔

 (جب ہم نے وہ خط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا ‘ تو) آپ نے حاطب رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا انہوں نے (حاضر ہو کر) عرض کیا۔ یا رسول اللہ! میرے بارے میں جلدی نہ فرمائیں! اللہ کی قسم! میں نے نہ کفر کیا ہے اور نہ میں اسلام سے ہٹا ہوں ‘ صرف اپنے خاندان کی محبت نے اس پر مجبور کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب (مہاجرین) میں کوئی شخص ایسا نہیں جس کے رشتہ دار وغیرہ مکہ میں نہ ہوں۔ جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ ان کے خاندان والوں اور ان کی جائیداد کی حفاظت نہ کراتا ہو۔ لیکن میرا وہاں کوئی بھی آدمی نہیں ‘ اس لیے میں نے چاہا کہ ان مکہ والوں پر ایک احسان کر دوں ‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کی بات کی تصدیق فرمائی۔

 عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے مجھے اس کا سر اتارنے دیجئیے یہ تو منافق ہو گیا ہے۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں کیا معلوم! اللہ تعالیٰ اہل بدر کے حالات سے خوب واقف تھا اور وہ خود اہل بدر کے بارے میں فرما چکا ہے کہ ”جو چاہو کرو۔ “

 عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے مجھے اس کا سر اتارنے دیجئیے یہ تو منافق ہو گیا ہے۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں کیا معلوم! اللہ تعالیٰ اہل بدر کے حالات سے خوب واقف تھا اور وہ خود اہل بدر کے بارے میں فرما چکا ہے کہ ”جو چاہو کرو۔ “

ابوعبدالرحمٰن نے کہا، علی رضی اللہ عنہ کو اسی ارشاد نے (کہ تم جو چاہو کرو، خون ریزی پر) دلیر بنا دیا ہے۔

غازیوں کے استقبال کو جانا ( جب وہ جہاد سے لوٹ کر آئیں )

حدیث نمبر ۳۰۸۲

راوی: ابن ابی ملیکہ

عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے کہا ‘ تمہیں وہ قصہ یاد ہے جب میں اور تم اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما تینوں آگے جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے تھے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد سے واپس آ رہے تھے)

عبداللہ بن جعفر نے کہا ‘ ہاں یاد ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کو اپنے ساتھ سوار کر لیا تھا ‘ اور تمہیں چھوڑ دیا تھا۔

حدیث نمبر ۳۰۸۳

راوی: سائب بن یزید رضی اللہ عنہ

(جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک سے واپس تشریف لا رہے تھے تو) ہم سب بچے ثنیۃ الوداع تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کرنے گئے تھے۔

جہاد سے واپس ہوتے ہوئے کیا کہے

حدیث نمبر ۳۰۸۴

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (جہاد سے) واپس ہوتے تو تین بار اللہ اکبر کہتے ‘ اور یہ دعا پڑھتے

آيِبُونَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَائِبُونَ عَابِدُونَ حَامِدُونَ لِرَبِّنَا سَاجِدُونَ

ان شاءاللہ ہم اللہ کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ ہم توبہ کرنے والے ہیں۔ اپنے رب کی عبادت کرنے والے ہیں۔ اس کی تعریف کرنے والے اور اس کے لیے سجدہ کرنے والے ہیں۔

صَدَقَ اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏وَعْدَهُ وَنَصَرَ عَبْدَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ

اللہ نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا ‘ اپنے بندے کی مدد کی ‘ اور کافروں کے لشکر کو اسی اکیلے نے شکست دے دی۔

حدیث نمبر ۳۰۸۵

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

(غزوہ بنو لحیان میں جو 6 ھ میں ہوا) عسفان سے واپس ہوتے ہوئے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ آپ اپنی اونٹنی پر سوار تھے اور آپ نے سواری پر پیچھے (ام المؤمنین) صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا کو بٹھایا تھا۔ اتفاق سے آپ کی اونٹنی پھسل گئی اور آپ دونوں گر گئے۔

یہ حال دیکھ کر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ بھی فوراً اپنی سواری سے کود پڑے اور کہا ‘ یا رسول اللہ! اللہ مجھے آپ پر قربان کرے ‘ کچھ چوٹ تو نہیں لگی؟

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پہلے عورت کی خبر لو۔

ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے ایک کپڑا اپنے چہرے پر ڈال لیا ‘ پھر صفیہ رضی اللہ عنہا کے قریب آئے اور وہی کپڑا ان کے اوپر ڈال دیا۔

 اس کے بعد دونوں کی سواری درست کی ‘ جب آپ سوار ہو گئے تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چاروں طرف جمع ہو گئے۔ پھر جب مدینہ دکھائی دینے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا پڑھی

آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ

ہم اللہ کی طرف واپس ہونے والے ہیں۔ توبہ کرنے والے ‘ اپنے رب کی عبادت کرنے والے اور اس کی حمد پڑھنے والے ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا برابر پڑھتے رہے یہاں تک کہ مدینہ میں داخل ہو گئے۔

حدیث نمبر ۳۰۸۶

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

وہ اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری پر پیچھے بٹھا رکھا تھا۔ راستے میں اتفاق سے آپ کی اونٹنی پھسل گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم گر گئے اور ام المؤمنین بھی گر گئیں۔

 ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے یوں کہا کہ میں سمجھتا ہوں ‘ انہوں نے اپنے آپ کو اونٹ سے گرا دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ کر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اللہ مجھے آپ پر قربان کرے کوئی چوٹ تو آپ کو نہیں آئی؟

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں لیکن تم عورت کی خبر لو۔ چنانچہ انہوں نے ایک کپڑا اپنے چہرے پر ڈال لیا ‘ پھر ام المؤمنین کی طرف بڑھے اور وہی کپڑا ان پر ڈال دیا۔ اب ام المؤمنین کھڑی ہو گئیں۔ پھر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے آپ دونوں کے لیے اونٹنی کو مضبوط کیا۔ تو آپ سوار ہوئے اور سفر شروع کیا۔

جب مدینہ منورہ کے سامنے پہنچ گئے یا راوی نے یہ کہا کہ جب مدینہ دکھائی دینے لگا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا پڑھی

آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ

ہم اللہ کی طرف واپس ہونے والے ہیں۔ توبہ کرنے والے ‘ اپنے رب کی عبادت کرنے والے اور اس کی حمد پڑھنے والے ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا برابر پڑھتے رہے ‘ یہاں تک کی مدینہ میں داخل ہو گئے۔

سفر سے واپسی پر نفل نماز ( بطور نماز شکر ادا کرنا )

حدیث نمبر ۳۰۸۷

راوی: جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما

میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا۔ جب ہم مدینہ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پہلے مسجد میں جا اور دو رکعت (نفل) نماز پڑھ۔

حدیث نمبر ۳۰۸۸

راوی: عبداللہ بن کعب اور عبیداللہ بن کعب رضی اللہ عنہما

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب دن چڑھے سفر سے واپس ہوتے تو بیٹھنے سے پہلے مسجد میں جا کر دو رکعت نفل نماز پڑھتے تھے۔

مسافر جب سفر سے لوٹ کر آئے تو لوگوں کو کھانا کھلائے ( دعوت کرے )

اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما (جب سفر سے واپس آتے تو) ملاقاتیوں کے آنے کی وجہ سے روزہ نہیں رکھتے تھے۔

حدیث نمبر ۳۰۸۹

راوی: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے (غزوہ تبوک یا ذات الرقاع سے) تو اونٹ یا گائے ذبح کی (راوی کو شبہ ہے)

معاذ عنبری نے (اپنی روایت میں) کچھ زیادتی کے ساتھ کہا۔ ان سے شعبہ نے بیان کیا ‘ ان سے

محارب بن دثار   نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے اونٹ خریدا تھا۔ دو اوقیہ اور ایک درہم یا (راوی کو شبہ ہے کہ دو اوقیہ) دو درہم میں۔ جب آپ مقام صرار پر پہنچے تو آپ نے حکم دیا اور گائے ذبح کی گئی اور لوگوں نے اس کا گوشت کھایا۔ پھر جب آپ مدینہ منورہ پہنچے تو مجھے حکم دیا کہ پہلے مسجد میں جا کر دو رکعت نماز پڑھوں ‘ اس کے بعد مجھے میرے اونٹ کی قیمت وزن کر کے عنایت فرمائی۔

حدیث نمبر ۳۰۹۰

راوی: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما

میں سفر سے واپس مدینہ پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ مسجد میں جا کر دو رکعت نفل نماز پڑھوں ‘

صرار (مدینہ منورہ سے تین میل کے فاصلے پر مشرق میں) ایک جگہ کا نام ہے۔


© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Email: cmaj37@gmail.com

Visits wef 2019


website hit counter