صحیح بخاری شریف

قرآن پاک کی تفسیرکا بیان

Ahadith 4474-4977

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


سورۃ فاتحہ کی تفسیر

أُمَّ ، ماں کو کہتے ہیں۔ أُمَّ الْكِتَابِ اس سورۃ کا نام اس لئے  رکھا گیا ہے کہ قرآن مجید میں اسی سے کتابت کی ابتداء ہوتی ہے اور نماز میں بھی قرأت اسی سے شروع کی جاتی ہے۔

 اور ‏‏‏‏‏‏الدِّينُ بدلہ کے معنی میں ہے۔ خواہ اچھائی میں ہو یا برائی میں جیسا کہ بولتے ہیں كَمَا تَدِينُ تُدَانُ   جیسا کرو گے ویسا بھرو گے ۔ مجاہد نے کہا کہ الدِّينُ حساب کے معنیٰ میں ہے جبکہ مَدِينِينَ بمعنی مُحَاسَبِينَ ہے یعنی حساب کئے گئے۔

حدیث نمبر  ۴۴۷۴

راوی: ابوسعید بن معلی رضی اللہ عنہ

 میں مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اسی حالت میں بلایا، میں نے کوئی جواب نہیں دیا پھر بعد میں، میں نے حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ! میں نماز پڑھ رہا تھا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے تم سے نہیں فرمایا ہے اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ (۸:۲۴) اللہ اور اس کے رسول جب تمہیں بلائیں تو ہاں میں جواب دو۔

 پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ آج میں تمہیں مسجد سے نکلنے سے پہلے ایک ایسی سورت کی تعلیم دوں گا جو قرآن کی سب سے بڑی سورت ہے۔ پھر آپ نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور جب آپ باہر نکلنے لگے تو میں نے یاد دلایا کہ آپ نے مجھے قرآن کی سب سے بڑی سورت بتانے کا وعدہ کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ یہی وہ سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے جو مجھے عطا کیا گیا ہے۔

غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ

نہ وہ جن پر غصّہ ہوا، اور بہکنے والے۔(۱:۷)

حدیث نمبر  ۴۴۷۵

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب امام غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ (۱:۷)کہے تو تم آمِينَ کہو کیونکہ جس کا یہ کہنا ملائکہ کے کہنے کے ساتھ ہو جائے اس کی تمام پچھلی خطائیں معاف ہو جاتی ہیں۔

سورۃ البقرہ کی تفسیر

وَعَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَاءَ كُلَّهَا

اور سکھائے آدم کو نام سارے (۲:۳۱)

حدیث نمبر  ۴۴۷۶

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  مؤمنین  قیامت  کے دن پریشان ہو کر جمع ہوں گے اور آپس میں کہیں گے، بہتر یہ تھا کہ اپنے رب کے حضور میں آج کسی کو ہم اپنا سفارشی بناتے۔ چنانچہ سب لوگ آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہونگے اور عرض کریں گے کہ آپ انسانوں کے باپ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے بنایا۔ آپ کے لئے  فرشتوں کو سجدہ کا حکم دیا اور آپ کو ہر چیز کے نام سکھائے۔ آپ ہمارے لئے  اپنے رب کے حضور میں سفارش کر دیں تاکہ آج کی مصیبت سے ہمیں نجات ملے۔ آدم علیہ السلام کہیں گے، میں اس کے لائق نہیں ہوں، وہ اپنی لغزش کو یاد کریں گے اور ان کو پروردگار کے حضور میں جانے سے شرم آئے گی۔ کہیں گے کہ تم لوگ نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ وہ سب سے پہلے نبی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے میرے بعد زمین والوں کی طرف مبعوث کیا تھا۔

سب لوگ نوح علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے۔ وہ بھی کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں اور وہ اپنے رب سے اپنے سوال کو یاد کریں گے جس کے متعلق انہیں کوئی علم نہیں تھا۔ ان کو بھی شرم آئے گی اور کہیں گے کہ اللہ کے خلیل علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ لوگ ان کی خدمت میں حاضر ہوں گے لیکن وہ بھی یہی کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں، موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ، ان سے اللہ تعالیٰ نے کلام فرمایا تھا اور تورات دی تھی۔ لوگ ان کے پاس آئیں گے لیکن وہ بھی عذر کر دیں گے کہ مجھ میں اس کی جرأت نہیں۔ ان کو بغیر کسی حق کے ایک شخص کو قتل کرنا یاد آ جائے گا اور اپنے رب کے حضور میں جاتے ہوئے شرم دامن گیر ہو گی۔ کہیں گے تم عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ، وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول، اس کا کلمہ اور اس کی روح ہیں لیکن عیسیٰ علیہ السلام بھی یہی کہیں گے کہ مجھ میں اس کی ہمت نہیں، تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ، وہ اللہ کے مقبول بندے ہیں اور اللہ نے ان کے تمام اگلے اور پچھلے گناہ معاف کر دئیے ہیں۔

 چنانچہ لوگ میرے پاس آئیں گے، میں ان کے ساتھ جاؤں گا اور اپنے رب سے اجازت چاہوں گا۔ مجھے اجازت مل جائے گی، پھر میں اپنے رب کو دیکھتے ہی سجدہ میں گر پڑوں گا اور جب تک اللہ چاہے گا میں سجدہ میں رہوں گا، پھر مجھ سے کہا جائے گا کہ اپنا سر اٹھاؤ اور جو چاہو مانگو، تمہیں دیا جائے گا، جو چاہو کہو تمہاری بات سنی جائے گی۔ شفاعت کرو، تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی۔

میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور اللہ کی وہ حمد بیان کروں گا جو مجھے اس کی طرف سے سکھائی گئی ہو گی۔ اس کے بعد شفاعت کروں گا اور میرے لئے  ایک حد مقرر کر دی جائے گی۔ میں انہیں جنت میں داخل کراؤں گا۔

 چوتھی مرتبہ جب میں واپس آؤں گا تو عرض کروں گا کہ جہنم میں ان لوگوں کے سوا اور کوئی اب باقی نہیں رہا جنہیں قرآن نے ہمیشہ کے لئے  جہنم میں رہنا ضروری قرار دے دیا ہے۔

 ابوعبداللہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ قرآن کی رُو سے دوزخ میں قید رہنے سے مراد وہ لوگ ہیں جنکے لئے کہا گیا ہے۔ کہ وہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔

مجاہد نے کہا إِلَى شَيَاطِينِهِمْ سے ان کے دوست منافق اور مشرک مراد ہیں۔ مُحِيطٌ بِالْكَافِرِينَ کے معنی اللہ کافروں کو اکٹھا کرنے والا ہے۔ عَلَى الْخَاشِعِينَ میں خَاشِعِينَ سے مراد پکے ایماندار ہیں۔    بِقُوَّةٍ  یعنی اس پر عمل کر کے قوت سے یہی مراد ہے۔

 ابوالعالیہ نے کہا   مَرَضٌ سے شك مراد ہے۔ صبغة سے دین مراد ہے۔ خَلْفَهَا یعنی پچھلے لوگوں کے لئے  عبرت جو باقی رہی۔ وَمَا خَلْفَهَا  کا معنی اس میں سفیدی نہیں

اور ابوالعالیہ کے سوا نے کہا   يَسُومُونَكُمْ  کا معنی تم پر اٹھاتے تھے یا تم کو ہمیشہ تکلیف پہنچاتے تھے۔ اور سورۃ الکہف میں الْوَلَايَةُ  بفتح واؤ ہے جس کے معنی الرُّبُوبِيَّةُ یعنی خدائی کے ہیں۔ اور بکسر واؤ اس کے معنی سرداری کے ہیں۔

 بعض لوگوں نے کہا جن جن اناجوں کو لوگ کھاتے ہیں ان کو فُومٌ کہتے ہیں۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس کو ثوم پڑھا ہے یعنی لہسن کے معنی میں لیا ہے۔ فادارأتم  کا معنی تم نے آپس میں جھگڑا کیا۔ قتادہ نے کہا فَبَاءُوا یعنی لوٹ گئے اور قتادہ کے سوا دوسرے شخص ابو عبیدہ نے کہا   يَسْتَفْتِحُونَ  کا معنی مدد مانگتے تھے۔ شَرَوْا کے معنی بیجا۔ لفظ رَاعِنَا ، الرُّعُونَةِ  سے نکلا ہے۔ عرب لوگ جب کسی کو احمق بناتے تو اس کو لفظ رَاعِنًا سے پکارتے۔  

لَا يَجْزِي  کچھ کام نہ آئے گی۔ ابْتَلَى کے معنی آزمایا جانچا۔ خُطُوَاتِ  لفظ خَطْوِ  بمعنی قدم کی جمع ہے۔

فَلاَ تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ

سو نہ ٹھہراؤ اﷲ کے برابر کوئی، اور تم جانتے ہو۔(۲:۲۲)

حدیث نمبر  ۴۴۷۷

راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، اللہ کے نزدیک کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟

فرمایا اور یہ کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو برابر ٹھہراؤ حالانکہ اللہ ہی نے تم کو پیدا کیا ہے۔ میں نے عرض کیا یہ تو واقعی سب سے بڑا گناہ ہے،

پھر اس کے بعد کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟

فرمایا یہ کہ تم اپنی اولاد کو اس خوف سے مار ڈالو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائیں گے۔

میں نے پوچھا اور اس کے بعد؟ فرمایا یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی عورت سے زنا کرو۔

وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ وَأَنْزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَى ... وَلَكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ

اور تم پر ہم نے بادل کا سایہ کیا ، اور تم پر ہم نے من و سلویٰ اتارا اور کہا کہ کھاؤ ان پاکیزہ چیزوں کو جو ہم نے تمہیں عطا کی ہیں ،

ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا تھا بلکہ انہوں نے نے خود اپنے نفسوں پر ظلم کیا۔ (۲:۵۷)

آیت مذکورہ کی تفسیر میں مجاہد نے کہا کہ الْمَنُّ ایک درخت کا گوند تھا اور ‏‏‏‏‏‏وَالسَّلْوَى پرندے تھے۔

حدیث نمبر  ۴۴۷۸

راوی: سعید بن زید رضی اللہ عنہما

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا   الْكَمْأَةُ  یعنی کھنبی بھی الْمَنُّ کی قسم ہے اور اس کا پانی آنکھ کی دوا ہے۔

وَإِذْ قُلْنَا ادْخُلُوا هَذِهِ الْقَرْيَةَ ... وَسَنَزِيدُ الْمُحْسِنِينَ

اور جب ہم نے کہا کہ اس بستی میں داخل ہو جاؤ اور پوری کشادگی کے ساتھ جہاں چاہو اپنا رزق کھاؤ اور دروازے سے جھکتے ہوئے داخل ہونا ،

یوں کہتے ہوئے کہ اے اللہ ! ہمارے گناہ معاف کر دے تو ہم تمہارے گناہ معاف کر دیں گے اور خلوص کے ساتھ عمل کرنے والوں کے ثواب میں ہم زیادتی کریں گے ۔(۲:۵۸)

لفظ رَغَدًا کے معنی بہت فراخ کے ہیں ۔

حدیث نمبر  ۴۴۷۹

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بنی اسرائیل کو یہ حکم ہوا تھا کہ شہر کے دروازے میں جھکتے ہوئے داخل ہوں اور حِطَّةٌ  کہتے ہوئے یعنی اے اللہ! ہمارے گناہ معاف کر دے۔ لیکن وہ الٹے چوتڑوں کے بل گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے اور کلمہ حِطَّةٌ  کو بھی بدل دیا اور کہا کہ حِطَّةٌ حَبَّةٌ فِي شَعَرَةٍ یعنی دل لگی کے طور پر کہنے لگے کہ دانہ بال کے اندر ہونا چاہیے۔

مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَى قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّهِ

جو کوئی ہو گا دشمن جبریل کا، سو اس نے تو اُتارا ہے یہ کلام، تیرے دل پر اﷲ کے حکم سے، (۲:۹۷)

عکرمہ نے کہا کہ الفاظ جَبْرَ ، وَمِيكَ، وَسَرَافِ تینوں کے معنی بندہ کے ہیں اور لفظ   إِيلِ عبرانی زبان میں الله‏ کے معنی میں ہے۔

حدیث نمبر  ۴۴۸۰

راوی: انس رضی اللہ عنہ

 جب عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ جو یہود کے بڑے عالم تھے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ تشریف لانے کی خبر سنی تو وہ اپنے باغ میں پھل توڑ رہے تھے۔ وہ اسی وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میں آپ سے ایسی تین چیزوں کے متعلق پوچھتا ہوں، جنہیں نبی کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ بتلائیے!

قیامت  کی نشانیوں میں سب سے پہلی نشانی کیا ہے؟

اہل جنت کی دعوت کے لئے  سب سے پہلے کیا چیز پیش کی جائے گی؟

بچہ کب اپنے باپ کی صورت میں ہو گا اور کب اپنی ماں کی صورت پر؟

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے ابھی جبرائیل نے آ کر ان کے متعلق بتایا ہے۔ عبداللہ بن سلام بولے جبرائیل علیہ السلام نے! فرمایا ہاں، عبداللہ بن سلام نے کہا کہ وہ تو یہودیوں کے دشمن ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت کی

مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَى قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّهِ  (۲:۹۷)

اور ان کے سوالات کے جواب میں فرمایا،

- قیامت  کی سب سے پہلی نشانی ایک آگ ہو گی جو انسانوں کو مشرق سے مغرب کی طرف جمع کر لائے گی۔

- اہل جنت کی دعوت میں جو کھانا سب سے پہلے پیش کیا جائے گا وہ مچھلی کے جگر کا بڑھا ہوا حصہ ہو گا

- اور جب مرد کا پانی عورت کے پانی پر غلبہ کر جاتا ہے تو بچہ باپ کی شکل پر ہوتا ہے اور جب عورت کا پانی مرد کے پانی پر غلبہ کر جاتا ہے تو بچہ ماں کی شکل پر ہوتا ہے۔

 عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ بول اٹھے أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔

پھر عرض کی یا رسول اللہ! یہودی بڑی بہتان باز قوم ہے، اگر اس سے پہلے کہ آپ میرے متعلق ان سے کچھ پوچھیں، انہیں میرے اسلام کا پتہ چل گیا تو مجھ پر بہتان تراشیاں شروع کر دیں گے۔

 بعد میں جب یہودی آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ عبداللہ تمہارے یہاں کیسے آدمی سمجھے جاتے ہیں؟

وہ کہنے لگے، ہم میں سب سے بہتر اور ہم میں سب سے بہتر کے بیٹے! ہمارے سردار اور ہمارے سردار کے بیٹے ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ اسلام لے آئیں پھر تمہارا کیا خیال ہو گا؟

کہنے لگے، اللہ تعالیٰ اس سے انہیں پناہ میں رکھے۔ اتنے میں عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے ظاہر ہو کر کہا أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے سچے رسول ہیں۔

اب وہی یہودی ان کے بارے میں کہنے لگے کہ یہ ہم میں سب سے بدتر ہے اور سب سے بدتر شخص کا بیٹا ہے اور ان کی توہین شروع کر دی۔

عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا:یا رسول اللہ! یہی وہ چیز تھی جس سے میں ڈرتا تھا۔

مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا

جو موقوف منسوخ کرتے ہیں ہم کوئی آیت یا بھلا دیتے ہیں تو پہنچاتے ہیں اس سے بہتر یا اس کے برابر (۲:۱۰۶)

حدیث نمبر  ۴۴۸۱

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، ہم میں سب سے بہتر قاری قرآن ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ہیں اور ہم میں سب سے زیادہ علی رضی اللہ عنہ میں قضاء یعنی فیصلے کرنے کی صلاحیت ہے۔ اس کے باوجود ہم ابی رضی اللہ عنہ کی اس بات کو تسلیم نہیں کرتے جو ابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جن آیات کی بھی تلاوت سنی ہے، میں انہیں نہیں چھوڑ سکتا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے  مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا  کہ ہم نے جو آیت بھی منسوخ کی یا اسے بھلایا تو پھر اس سے اچھی آیت لائے۔

قَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا سُبْحَانَهُ  

اور کہتے ہیں، اﷲ رکھتا ہے اولاد، وہ سب سے نرالا (۲:۱۱۶)

حدیث نمبر  ۴۴۸۲

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے، ابن آدم نے مجھے جھٹلایا حالانکہ اس کے لئے  یہ مناسب نہ تھا۔ اس نے مجھے گالی دی، حالانکہ اس کے لئے  یہ مناسب نہ تھا۔ اس کا مجھے جھٹلانا تو یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ میں اسے دوبارہ زندہ کرنے پر قادر نہیں ہوں اور اس کا مجھے گالی دینا یہ ہے کہ میرے لئے  اولاد بتاتا ہے، میری ذات اس سے پاک ہے کہ میں اپنے لئے  بیوی یا اولاد بناؤں۔

وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى

اور کر رکھو، جہاں کھڑا ہوا ابراہیم، نماز  (۲:۱۲۵)

حدیث نمبر  ۴۴۸۳

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

عمر رضی اللہ عنہ فرمایا، تین مواقع پر اللہ تعالیٰ کے نازل ہونے والے حکم سے میری رائے نے پہلے ہی موافقت کی یا میرے رب نے تین مواقع پر میری رائے کے موافق حکم نازل فرمایا۔

میں نے عرض کیا تھا کہ یا رسول اللہ! کیا اچھا ہوتا کہ آپ مقام ابراہیم کو طواف کے بعد نماز پڑھنے کی جگہ بناتے تو بعد میں یہی آیت نازل ہوئی۔

اور میں نے عرض کیا تھا کہ یا رسول اللہ! آپ کے گھر میں اچھے اور برے ہر طرح کے لوگ آتے ہیں۔ کیا اچھا ہوتا کہ آپ امہات المؤمنین کو پردہ کا حکم دے دیتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت حجاب پردہ کی آیت نازل فرمائی۔

 اور مجھے بعض ازواج مطہرات سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خفگی کی خبر ملی۔ میں نے ان کے یہاں گیا اور ان سے کہا کہ تم باز آ جاؤ، ورنہ اللہ تعالیٰ تم سے بہتر بیویاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے  بدل دے گا۔ بعد میں ازواج مطہرات میں سے ایک کے ہاں گیا تو وہ مجھ سے کہنے لگیں کہ عمر! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنی ازواج کو اتنی نصیحتیں نہیں کرتے جتنی تم انہیں کرتے رہتے ہو۔ آخر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی

عَسَى رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَكُنَّ أَنْ يُبْدِلَهُ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِنْكُنَّ مُسْلِمَاتٍ  

کوئی تعجب نہ ہونا چاہئیے اگر اس نبی کا رب تمہیں طلاق دلا دے اور دوسری مسلمان بیویاں تم سے بہتر بدل دے۔ آخر آیت تک۔ (۶۶:۵)

وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ

اور جب اٹھانے لگا ابراہیم بنیادیں اس گھر کی اور اسمٰعیل۔ تو دعا کرتے جاتے تھے اے رب قبول کر ہم سے۔ تو ہی ہے اصل سنتا جانتا۔ (۲:۱۲۷)

قَوَاعِد کا واحد قَاعِدَةٌ، آتا ہے اور عورتوں کے بارے میں جب لفظ قَوَاعِد بولتے ہیں تو اس کا واحد قاعد‏ آتا ہے۔

حدیث نمبر  ۴۴۸۴

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھتی نہیں ہو کہ جب تمہاری قوم قریش نے کعبہ کی تعمیر کی تو ابراہیم علیہ السلام کی بنیادوں سے اسے کم کر دیا۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! پھر آپ ابراہیم علیہ السلام کی بنیادوں کے مطابق پھر سے کعبہ کی تعمیر کیوں نہیں کروا دیتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تمہاری قوم ابھی نئی نئی کفر سے نکلی نہ ہوتی تو میں ایسا ہی کرتا ۔

 عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا، عائشہ رضی اللہ عنہا نےجو  کہا کہ میں نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو رکنوں کا جو حطیم کے قریب ہیں طواف کے وقت چھونا اسی لئے  چھوڑا تھا کہ بیت اللہ کی تعمیر ابراہیم علیہ السلام کی بنیاد کے مطابق مکمل نہیں تھی۔

قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا  

تم کہو، ہم نے یقین کیا اﷲ کو اور جو اترا ہم پر (۲:۱۳۶)

حدیث نمبر  ۴۴۸۵

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

 اہل کتاب یہودی توراۃ کو خود عبرانی زبان میں پڑھتے ہیں لیکن مسلمانوں کیلئے  اس کی تفسیر عربی میں کرتے ہیں۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو اور نہ تکذیب کرو بلکہ یہ کہا کرو

 قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا

ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس چیز پر جو ہماری طرف نازل کی گئی ہے۔(۲:۱۳۶)

سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلاَّهُمْ عَنْ ... مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ

بہت جلد بیوقوف لوگ کہنے لگیں گے کہ مسلمانوں کو ان کے پہلے قبلہ سے کس چیز نے پھیر دیا ،

آپ کہہ دیں کہ اللہ ہی کے لئے  سب مشرق و مغرب ہے اور اللہ جسے چاہتا ہے سیدھی راہ کی طرف ہدایت کر دیتا ہے ۔ (۲:۱۴۲)

حدیث نمبر  ۴۴۸۶

راوی: براء بن عازب رضی اللہ عنہ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے سولہ یا سترہ مہینے تک نماز پڑھی لیکن آپ چاہتے تھے کہ آپ کا قبلہ بیت اللہ کعبہ ہو جائے آخر ایک دن اللہ کے حکم سے آپ نے عصر کی نماز بیت اللہ کی طرف رخ کر کے پڑھی اور آپ کے ساتھ بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی پڑھی۔ جن صحابہ نے یہ نماز آپ کے ساتھ پڑھی تھی، ان میں سے ایک صحابی مدینہ کی ایک مسجد کے قریب سے گزرے۔ اس مسجد میں لوگ رکوع میں تھے، انہوں نے اس پر کہا کہ میں اللہ کا نام لے کر گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی ہے، تمام نمازی اسی حالت میں بیت اللہ کی طرف پھر گئے۔

 اس کے بعد لوگوں نے کہا کہ جو لوگ کعبہ کے قبلہ ہونے سے پہلے انتقال کر گئے، ان کے متعلق ہم کیا کہیں۔ ان کی نمازیں قبول ہوئیں یا نہیں؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئ

 وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ  

اللہ ایسا نہیں کہ تمہاری عبادات کو ضائع کرے، بیشک اللہ اپنے بندوں پر بہت بڑا مہربان اور بڑا رحیم ہے۔(۲:۱۴۲)

وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا

اور اسی طرح ہم نے تم کو اُمت وسط یعنی اُمت عادل بنایا ، تاکہ تم لوگوں پرگواہ رہو اور رسول تم پر گواہ رہیں۔ (۲:۱۴۳)

حدیث نمبر  ۴۴۸۷

راوی: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت  کے دن نوح علیہ السلام کو بلایا جائے گا۔ وہ عرض کریں گے  اللہ رب العزت فرمائے گا، کیا تم نے میرا پیغام پہنچا دیا تھا؟ نوح علیہ السلام عرض کریں گے کہ میں نے پہنچا دیا تھا، پھر ان کی اُمت سے پوچھا جائے گا، کیا انہوں نے تمہیں میرا پیغام پہنچا دیا تھا؟ وہ لوگ کہیں گے کہ ہمارے یہاں کوئی ڈرانے والا نہیں آیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا نوح علیہ السلام سے کہ آپ کے حق میں کوئی گواہی بھی دے سکتا ہے؟ وہ کہیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی اُمت میری گواہ ہے۔

چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت ان کے حق میں گواہی دے گی کہ انہوں نے پیغام پہنچا دیا تھا اور رسول یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اُمت کے حق میں گواہی دیں گے کہ انہوں نے سچی گواہی دی ہے یہی مراد ہے اللہ کے اس ارشاد سے

 وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا

اور اسی طرح ہم نے تم کو اُمت وسط بنایا تاکہ تم لوگوں کے لئے  گواہی دو اور رسول تمہارے لئے  گواہی دیں۔ (۲:۱۴۳)

آیت میں لفظ   وَسَط کے معنی عادل، منصف، بہتر کے ہیں۔

وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنْتَ عَلَيْهَا إِلاَّ لِنَعْلَمَ ...  إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ

اور جس قبلہ پر آپ اب تک تھے ، اسے تو ہم نے اسی لئے  رکھا تھا کہ ہم جان لیں رسول کی اتباع کرنے والے کو ، الٹے پاؤں واپس چلے جانے والوں میں سے ،

یہ حکم بہت بھاری ہے مگر ان لوگوں پر نہیں جنہیں اللہ نے راہ دکھا دی ہے اور اللہ ایسا نہیں کہ ضائع ہو جانے دے ، تمہارے ایمان یعنی پہلی نمازوں کو اور اللہ تو لوگوں پر بڑا مہربان ہے ۔(۲:۱۴۳)

حدیث نمبر ۴۴۸۸

راوی: ابن عمر رضی اللہ عنہما

لوگ مسجد قباء میں صبح کی نماز پڑھ ہی رہے تھے کہ ایک صاحب آئے اور انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل کیا ہے کہ آپ نماز میں کعبہ کی طرف منہ کریں، لہٰذا آپ لوگ بھی کعبہ کی طرف رخ کر لیں۔ سب نمازی اسی وقت کعبہ کی طرف پھر گئے۔

 قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ  …وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ

ہم دیکھتے ہیں پھر جانا تیرا منہ آسمان میں۔سو البتہ پھیر دیں گے تجھ کو جس قبلے کی طرف تُو راضی ہے۔ اب پھیر منہ اپنا طرف مسجد الحرام کے۔ اور جس جگہ تم ہوا کرو پھیرو منہ اسی طرف۔

اور جن کو ملی ہے کتاب، البتہ جانتے ہیں کہ یہی ٹھیک ہے انکے رب کی طرف سے۔ اور اﷲ بےخبر نہیں ان کاموں سے جو کرتے ہیں۔(۲:۱۴۴)

حدیث نمبر ۴۴۸۹

راوی: انس رضی اللہ عنہ

میرے سوا ان صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف نماز پڑھی تھی اور کوئی اب زندہ نہیں رہا۔

وَلَئِنْ أَتَيْتَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ …إِنَّكَ إِذًا لَمِنَ الظَّالِمِينَ

اور اگر تُو لائے کتاب والوں پاس ساری نشانیاں، نہ چلیں گے تیرے قبلے پر۔اور تُو نہ مانے ان کا قبلہ۔اور نہ ان میں ایک مانتا ہے دوسرے کا قبلہ۔

اور کبھی تُو چلا ان کی پسند پر، بعد اس علم کے جو تجھ کو پہنچا۔تو بیشک تُو بھی ہے بے انصافوں میں۔(۲:۱۴۵)

حدیث نمبر ۴۴۹۰

راوی: ابن عمر رضی اللہ عنہما

 لوگ مسجد قباء میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک صاحب وہاں آئے اور کہا کہ رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل ہوا ہے کہ نماز میں کعبہ کی طرف منہ کریں، پس آپ لوگ بھی اب کعبہ کی طرف رخ کر لیں۔ لوگوں کا منہ اس وقت شام بیت المقدس کی طرف تھا، اسی وقت لوگ کعبہ کی طرف پھر گئے۔

الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ ...  فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ

جن کو ہم نے دی ہے کتاب، پہچانتے ہیں یہ بات، جیسے پہچانتے ہیں اپنے بیٹوں کو۔

اور ایک فرقہ ان میں چھپاتے ہیں حق کو جان کر۔حق وہی جو تیرا رب کہے، پھر تُو نہ ہو شک لانے والا۔ (۲:۱۴۶،۷)

حدیث نمبر ۴۴۹۱

راوی: ابن عمر رضی اللہ عنہما

 لوگ مسجد قباء میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک صاحب مدینہ سے آئے اور کہا کہ رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل ہوا ہے اور آپ کو حکم ہوا ہے کہ کعبہ کی طرف منہ کر لیں۔ اس لئے  آپ لوگ بھی کعبہ کی طرف پھر جائیں۔ اس وقت ان کا منہ شام کی طرف تھا۔ چنانچہ سب نمازی کعبہ کی طرف پھر گئے۔

وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ أَيْنَمَا تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللَّهُ جَمِيعًا إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

اور ہر کسی کو ایک طرف ہے، کہ منہ کرتا ہے اس طرف، سو تم سبقت چاہو نیکیوں میں۔ جس جگہ تم ہو گے، کر لائے گا اﷲ اکٹھا۔ بیشک اﷲ ہر چیز کر سکتا ہے۔ (۲:۱۴۸)

حدیث نمبر ۴۴۹۲

راوی: براء بن عازب رضی اللہ عنہ

 ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سولہ یا سترہ مہینے تک بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں کعبہ کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا۔

وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِنَّهُ لَلْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ

باباور آپ جس جگہ سے بھی باہر نکلیں نماز میں اپنا منہ مسجد الحرام کی طرف موڑ لیا کریں اور یہ حکم آپ کے پروردگار کی طرف سے بالکل حق ہے اور اللہ اس سے بےخبر نہیں ، جو تم کر رہے ہو ۔( ۲:۱۴۹)

لفظ   شطره  کے معنی قبلہ کی طرف کے ہیں۔

حدیث نمبر ۴۴۹۳

راوی: ابن عمر رضی اللہ عنہما

 لوگ قباء میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک صاحب آئے اور کہا کہ رات قرآن نازل ہوا ہے اور کعبہ کی طرف منہ کر لینے کا حکم ہوا ہے۔ اس لئے  آپ لوگ بھی کعبہ کی طرف منہ کر لیں اور جس حالت میں ہیں، اسی طرح اس کی طرف متوجہ ہو جائیں یہ سنتے ہی تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کعبہ کی طرف متوجہ ہو گئے۔

 اس وقت لوگوں کا منہ شام کی طرف تھا۔

وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ …وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ

اور جہاں سے تُو نکلے منہ کر طرف مسجد الحرام کے۔اور جس جگہ تم ہوا کرو منہ کرو اُسی کی طرف، کہ نہ رہے لوگوں کو تم سے جھگڑنے کی جگہ۔

مگر جو ان میں بے انصاف ہیں سو اُن سے مت ڈرو، اور مجھ سے ڈرو۔اور اس واسطے کہ پُورا کروں تم پر فضل اپنا، اور شاید تم راہ پاؤ۔(۲:۱۵۰)

حدیث نمبر ۴۴۹۴

راوی: ابن عمر رضی اللہ عنہما

 ابھی لوگ مسجد قباء میں صبح کی نماز پڑھ ہی رہے تھے کہ ایک آنے والے صاحب آئے اور کہا کہ رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل ہوا ہے اور آپ کو کعبہ کی طرف منہ کرنے کا حکم ہوا ہے۔ اس لئے  آپ لوگ بھی اسی طرف منہ کر لیں۔ وہ لوگ شام کی طرف منہ کر کے نماز پڑھ رہے تھے لیکن اسی وقت کعبہ کی طرف پھر گئے۔

إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ  ... فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ

صفا اور مروہ بیشک اللہ کی یادگار چیزوں میں سے ہیں ، پس جو کوئی بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے اس پر کوئی گناہ نہیں کہ ان دونوں کے درمیان سعی کرے

 اور جو کوئی خوشی سے اور کوئی نیکی زیادہ کرے سو اللہ تو بڑا قدر دان ، بڑا ہی علم رکھنے والا ہے۔ (۲:۱۵۸)

شَعَائِرِ کے معنی علامات کے ہیں۔ اس کا واحد شَعِيرَةٌ‏‏‏‏ ہے۔

حدیث نمبر ۴۴۹۵

راوی: عروہ

 میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا ان دنوں میں نوعمر تھ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس ارشاد کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے

 إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا

صفا اور مروہ بیشک اللہ کی یادگار چیزوں میں سے ہیں۔ پس جو کوئی بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ ان دونوں کے درمیان آمدورفت یعنی سعی کرے۔  (۲:۱۵۸)

میرا خیال ہے کہ اگر کوئی ان کی سعی نہ کرے تو اس پر بھی کوئی گناہ نہیں ہونا چاہئیے۔

 عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ہرگز نہیں جیسا کہ تمہارا خیال ہے۔ اگر مسئلہ یہی ہوتا تو پھر واقعی ان کے سعی نہ کرنے میں کوئی گناہ نہ تھا۔ لیکن یہ آیت انصار کے بارے میں نازل ہوئی تھی اسلام سے پہلے انصار منات بت کے نام سے احرام باندھتے تھے، یہ بت مقام قدید میں رکھا ہوا تھا اور انصار صفا اور مروہ کی سعی کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ جب اسلام آیا تو انہوں نے سعی کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ہے:

إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا

صفا اور مروہ بیشک اللہ کی یادگار چیزوں میں سے ہیں۔ پس جو کوئی بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ ان دونوں کے درمیان آمدورفت یعنی سعی کرے۔ (۲:۱۵۸)

حدیث نمبر ۴۴۹۶

راوی: عاصم بن سلیمان

انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے صفا اور مروہ کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ اسے ہم جاہلیت کے کاموں میں سے سمجھتے تھے۔ جب اسلام آیا تو ہم ان کی سعی سے رک گئے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی

إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا

صفا اور مروہ بیشک اللہ کی یادگار چیزوں میں سے ہیں۔ پس جو کوئی بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ ان دونوں کے درمیان آمدورفت یعنی سعی کرے۔ (۲:۱۵۸)

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْدَادًا

اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو بھی اس کا شریک بنائے ہوئے ہیں (۲:۱۶۵)

لفظ أَنْدَادًا بمعنی أضدادا جس کا واحد ند ہے۔

حدیث نمبر ۴۴۹۷

راوی: عبداللہ رضی اللہ عنہ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کلمہ ارشاد فرمایا اور میں نے ایک اور بات کہی۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اس حالت میں مر جائے کہ وہ اللہ کے سوا اوروں کو بھی اس کا شریک ٹھہراتا رہا ہو تو وہ جہنم میں جاتا ہے اور میں نے یوں کہا کہ جو شخص اس حالت میں مرے کہ اللہ کا کسی کو شریک نہ ٹھہراتا رہا تو وہ جنت میں جاتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ … فَمَنِ اعْتَدَى بَعْدَ ذَلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ

اے ایمان والو! حکم ہوا تم پر بدلا برابر مارے گیؤں میں۔صاحب کے بدلے صاحب، اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت۔

یہ آسانی ہوئی تمہارے رب کی طرف سے، اور مہربانی۔پھر جو کوئی زیادتی کرے بعد اسکے تو اس کو دُکھ کی مار ہے۔ (۲:۱۷۸ )

اور عُفِيَ بمعنی ترك ( چھوڑنا) ہے۔

حدیث نمبر ۴۴۹۸

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

بنی اسرائیل میں قصاص یعنی بدلہ تھا لیکن دیت نہیں تھی۔ اس لئے  اللہ تعالیٰ نے اس اُمت سے کہا کہ تم پر مقتولوں کے باب میں قصاص فرض کیا گیا، آزاد کے بدلے میں آزاد اور غلام کے بدلے میں غلام اور عورت کے بدلے میں عورت، ہاں جس کسی کو اس کے فریق مقتول کی طرف سے کچھ معافی مل جائے۔ تو معافی سے مراد یہی دیت قبول کرنا ہے۔ سو مطالبہ معقول اور نرم طریقہ سے ہو اور مطالبہ کو اس فریق کے پاس خوبی سے پہنچایا جائے۔ یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے رعایت اور مہربانی ہے۔ یعنی اس کے مقابلہ میں جو تم سے پہلی امتوں پر فرض تھا۔ سو جو کوئی اس کے بعد بھی زیادتی کرے گا، اس کے لئے  آخرت میں درد ناک عذاب ہو گا۔ زیادتی سے مراد یہ ہے کہ دیت بھی لے لی اور پھر اس کے بعد قتل بھی کر دیا۔

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کتاب اللہ کا حکم قصاص کا ہے۔

حدیث نمبر ۴۵۰۰

راوی: انس رضی اللہ عنہ

میری پھوپھی ربیع نے ایک لڑکی کے دانت توڑ دئیے، پھر اس لڑکی سے لوگوں نے معافی کی درخواست کی لیکن اس لڑکی کے قبیلے والے معافی دینے کو تیار نہیں ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور قصاص کے سوا اور کسی چیز پر راضی نہیں تھے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصاص کا حکم دے دیا۔ اس پر انس بن نضر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا ربیع رضی اللہ عنہا کے دانت توڑ دئیے جائیں گے، نہیں، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے، ان کے دانت نہ توڑے جائیں گے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انس! کتاب اللہ کا حکم قصاص کا ہی ہے۔

 پھر لڑکی والے راضی ہو گئے اور انہوں نے معاف کر دیا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کچھ اللہ کے بندے ایسے ہیں کہ اگر وہ اللہ کا نام لے کر قسم کھائیں تو اللہ ان کی قسم پوری کر ہی دیتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ

اے ایمان والوں ! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسا کہ ان لوگوں پر فرض کئے گئے تھے جو تم سے پہلے ہو گزرے ہیں تاکہ تم متقی بن جاؤ ۔(۲:۱۸۳)

حدیث نمبر ۴۵۰۱

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

عاشوراء کے دن جاہلیت میں ہم روزہ رکھتے تھے لیکن جب رمضان کے روزے نازل ہو گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کا جی چاہے عاشوراء کا روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے۔

حدیث نمبر ۴۵۰۲

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

 عاشوراء کا روزہ رمضان کے روزوں کے حکم سے پہلے رکھا جاتا تھا۔ پھر جب رمضان کے روزوں کا حکم نازل ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کا جی چاہے عاشوراء کا روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے۔

حدیث نمبر ۴۵۰۳

راوی: عبداللہ رضی اللہ عنہ

 اشعث ان کے یہاں آئے، وہ اس وقت کھانا کھا رہے تھے، اشعث نے کہا کہ آج تو عاشوراء کا دن ہے۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ان دنوں میں عاشوراء کا روزہ رمضان کے روزوں کے نازل ہونے سے پہلے رکھا جاتا تھا لیکن جب رمضان کے روزے کا حکم نازل ہوا تو یہ روزہ چھوڑ دیا گیا۔ آؤ تم بھی کھانے میں شریک ہو جاؤ۔

حدیث نمبر ۴۵۰۴

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

عاشوراء کے دن قریش زمانہ جاہلیت میں روزے رکھتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس دن روزہ رکھتے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی اس کے رکھنے کا حکم دیا، لیکن جب رمضان کے روزوں کا حکم نازل ہوا تو رمضان کے روزے فرض ہو گئے اور عاشوراء کے روزہ کی فرضیت باقی نہیں رہی۔ اب جس کا جی چاہے اس دن بھی روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے۔

أَيَّامًا مَعْدُودَاتٍ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا ... خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ

یہ روزے گنتی کے چند دنوں میں رکھنے ہیں ، پھر تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو اس پر دوسرے دنوں کا گن رکھنا ہے اور جو لوگ اسے مشکل سے برداشت کر سکیں

ان کے ذمہ فدیہ ہے جو ایک مسکین کا کھانا ہے اور جو کوئی خوشی خوشی نیکی کرے اس کے حق میں بہتر ہے اور اگر تم علم رکھتے ہو تو بہتر تمہارے حق میں یہی ہے کہ تم روزے رکھو۔ (۲:۱۸۴)

عطا بن ابی رباح نے کہا کہ ہر بیماری میں روزہ نہ رکھنا درست ہے۔ جیسا کہ عام طور پر اللہ تعالیٰ نے خود ارشاد فرمایا ہے۔

 اور امام حسن بصری اور ابراہیم نخعی نے کہا کہ دودھ پلانے والی یا حاملہ کو اگر اپنی یا اپنے بیٹے کی جان کا خوف ہو تو وہ افطار کر لیں اور پھر اس کی قضاء کر لیں لیکن بوڑھا ضعیف شخص جب روزہ نہ رکھ سکے تو وہ فدیہ دے۔

 انس بن مالک رضی اللہ عنہ بھی جب بوڑھے ہو گئے تھے تو وہ ایک سال یا دو سال رمضان میں روزانہ ایک مسکین کو روٹی اور گوشت دیا کرتے تھے اور روزہ چھوڑ دیا تھا۔

 اکثر لوگوں نے اس آیت میں   يطيقونه  پڑھا ہے جو  اطاق يطيق  سے ہے ۔

حدیث نمبر ۴۵۰۵

راوی: عطاء

انہوں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا وہ یوں قرأت کر رہے تھے   وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ تفعیل سے فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ ۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہے۔ اس سے مراد بہت بوڑھا مرد یا بہت بوڑھی عورت ہے۔ جو روزے کی طاقت نہ رکھتی ہو، انہیں چاہئیے کہ ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں۔

فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ

پس تم میں سے جو کوئی اس مہینے کو پائے اسے چاہئیے کہ وہ مہینے بھر روزے رکھے ۔ (۲:۱۸۵)

حدیث نمبر ۴۵۰۶

راوی: نافع

 ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ انھوں نے یوں قرأت کی فِدْيَةٌ بغیر تنوین طَعَامُ مَسَاكِينَ۔ بتلایا کہ یہ آیت منسوخ ہے۔

حدیث نمبر ۴۵۰۷

راوی: سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ

 جب یہ آیت نازل ہوئی وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ ‏ تو جس کا جی چاہتا تھا روزہ چھوڑ دیتا تھا اور اس کے بدلے میں فدیہ دے دیتا تھا۔ یہاں تک کہ اس کے بعد والی آیت نازل ہوئی اور اس نے پہلی آیت کو منسوخ کر دیا۔

أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ  ... وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ

جائز کر دیا گیا ہے تمہارے لئے  روزوں کی رات میں اپنی بیویوں سے مشغول ہونا ، وہ تمہارے لئے  لباس ہیں اور تم ان کے لئے  لباس ہو ،

 اللہ کو خبر ہو گئی کہ تم اپنے کو خیانت میں مبتلا کرتے رہتے تھے ، پس اس نے تم پر رحمت سے توجہ فرمائی اور تم کو معاف کر دیا ،

سو اب تم ان سے ملو ملاؤ اور اسے تلاش کرو ، جو اللہ نے تمہارے لئے  لکھ دیا ہے ۔ (۲:۱۸۷)

حدیث نمبر ۴۵۰۸

راوی: براء بن عازب رضی اللہ عنہ

جب رمضان کے روزے کا حکم نازل ہوا تو مسلمان پورے رمضان میں اپنی بیویوں کے قریب نہیں جاتے تھے اور کچھ لوگوں نے اپنے کو خیانت میں مبتلا کر لیا تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی

 عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُونَ أَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنْكُمْ

اللہ نے جان لیا کہ تم اپنے کو خیانت میں مبتلا کرتے رہتے تھے۔ پس اس نے تم پر رحمت سے توجہ فرمائی اور تم کو معاف کر دیا۔(۲:۱۸۷)

وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى ... لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ

کھاؤ اور پیو جب تک کہ تم پر صبح کی سفید دھاری رات کی سیاہ دھاری سے ممتاز نہ ہو جائے ، پھر روزے کو رات ہونے تک پورا کرو

 اور بیویوں سے اس حال میں صحبت نہ کرو جب تم اعتکاف کئے ہو مسجدوں میں۔

یہ حدیں باندھی ہیں اﷲ کی، سو ان کے نزدیک نہ جاؤ۔  اس طرح بیان کرتا ہے اﷲ اپنی آیتیں لوگوں کو، شاید وہ بچتے رہیں۔(۲:۱۸۷)

حدیث نمبر ۴۵۰۹

راوی: عامر شعبی

عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے ایک سفید دھاگا اور ایک سیاہ دھاگا لیا اور سوتے ہوئے اپنے ساتھ رکھ لی ۔ جب رات کا کچھ حصہ گزر گیا تو انہوں نے اسے دیکھا، وہ دونوں میں تمیز نہیں ہوئی۔ جب صبح ہوئی تو عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے اپنے تکئے کے نیچے سفید و سیاہ دھاگے رکھے تھے اور کچھ نہیں ہو تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر بطور مذاق کے فرمایا کہ پھر تو تمہارا تکیہ بہت لمبا چوڑا ہو گا کہ صبح کا سفیدی خط اور سیاہ خط اس کے نیچے آ گیا تھا۔

حدیث نمبر ۴۵۱۰

راوی: عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ

 میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آیت میں الْخَيْطُ الأَبْيَضُ اور الْخَيْطِ الأَسْوَدِ سے کیا مراد ہے؟ کیا ان سے مراد دو دھاگے ہیں؟

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری کھوپڑی پھر تو بڑی لمبی چوڑی ہو گی۔ اگر تم نے رات کو دو دھاگے دیکھے ہیں۔ پھر فرمایا کہ ان سے مراد رات کی سیاہی اور صبح کی سفیدی ہے۔

حدیث نمبر ۴۵۱۱

راوی: سہل بن سعد رضی اللہ عنہ

جب یہ آیت نازل ہوئی کہ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ  اور مِنَ الْفَجْرِ کے الفاظ ابھی نازل نہیں ہوئے تھے تو کئی لوگ جب روزہ رکھنے کا ارادہ کرتے تو اپنے دونوں پاؤں میں سفید اور سیاہ دھاگا باندھ لیتے اور پھر جب تک وہ دونوں دھاگے صاف دکھائی دینے نہ لگ جاتے برابر کھاتے پیتے رہتے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مِنَ الْفَجْرِ کے الفاظ اتارے تب ان کو معلوم ہوا کہ کالے دھاگے سے رات اور سفید دھاگے سے دن مراد ہے۔

وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا  ... وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

اور یہ تو کوئی بھی نیکی نہیں کہ تم گھروں میں ان کی پچھلی دیوار کی طرف سے آؤ ، البتہ نیکی یہ ہے کہ کوئی شخص تقویٰ اختیار کرے

 اور گھروں میں ان کے دروازوں سے آؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم فلاح پا جاؤ ۔(۲:۱۸۹)

حدیث نمبر ۴۵۱۲

راوی: براء بن عازب رضی اللہ عنہ

 جب لوگ جاہلیت میں احرام باندھ لیتے تو گھروں میں پیچھے کی طرف سے چھت پر چڑھ کر داخل ہوتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی

وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَى وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا  

اور یہ نیکی نہیں ہے کہ تم گھروں میں ان کے پیچھے کی طرف سے آؤ، البتہ نیکی یہ ہے کہ کوئی شخص تقویٰ اختیار کرے اور گھروں میں ان کے دروازوں سے آؤ۔(۲:۱۸۹)

وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ فَإِنِ انْتَهَوْا فَلاَ عُدْوَانَ إِلاَّ عَلَى الظَّالِمِينَ

ان کافروں سے لڑو ، یہاں تک کہ فتنہ شرک باقی نہ رہ جائے اور دین اللہ ہی کے لئے  رہ جائے ، سو اگر وہ باز آ جائیں تو سختی کسی پر بھی نہیں بجز اپنے حق میں ظلم کرنے والوں کے ۔ (۲:۱۹۳)

حدیث نمبر ۴۵۱۳

راوی: نافع

 ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس ابن زبیر رضی اللہ عنہما کے فتنے کے زمانہ میں جب ان پر حجاج ظالم نے حملہ کیا اور مکہ کا محاصرہ کی دو آدمی علاء بن عرار اور حبان سلمی آئے اور کہا کہ لوگ آپس میں لڑ کر تباہ ہو رہے ہیں۔ آپ عمر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں پھر آپ کیوں خاموش ہیں؟ اس فساد کو رفع کیوں نہیں کرتے؟ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میری خاموشی کی وجہ صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے کسی بھی بھائی مسلمان کا خون مجھ پر حرام قرار دیا ہے۔ اس پر انہوں نے کہا  کیا اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد نہیں فرمایا ہے

وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ  

اور ان سے لڑو یہاں تک کہ فساد باقی نہ رہے۔

ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ہم قرآن کے حکم کے مطابق لڑے ہیں، یہاں تک کہ فتنہ یعنی شرک و کفر باقی نہیں رہا اور دین خالص اللہ کے لئے  ہو گیا، لیکن تم لوگ چاہتے ہو کہ تم اس لئے  لڑو کہ فتنہ اور فساد پیدا ہو اور دین اسلام ضعیف ہو، کافروں کو جیت ہو اور اللہ کے برخلاف دوسروں کا حکم سنا جائے۔

حدیث نمبر ۴۵۱۴

راوی: نافع

 ایک شخص حکیم ابن عمر رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ اے ابوعبدالرحمٰن! تم کو کیا ہو گیا ہے کہ تم ایک سال حج کرتے ہو اور ایک سال عمرہ اور اللہ عزوجل کے راستے میں جہاد میں شریک نہیں ہوتے۔ آپ کو خود معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاد کی طرف کتنی رغبت دلائی ہے۔

 ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میرے بھتیجے! اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔

- اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا،

- پانچ وقت کی نماز پڑھنا،

- رمضان کے روزے رکھنا،

- زکٰوۃ دینا اور

- حج کرنا۔

انہوں نے کہا اے ابا عبدالرحمٰن! کتاب اللہ میں جو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کیا آپ کو وہ معلوم نہیں ہے

وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا فَإِنْ بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الأُخْرَى فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّى تَفِيءَ إِلَى أَمْرِ اللَّهِ  

مسلمانوں کی دو جماعتیں اگر آپس میں جنگ کریں تو ان میں صلح کراؤ۔ پھر اگر چڑھا جائے ایک ان میں دوسرے پر تو لڑو اس چڑھائی والے سے، جب تک پھر آوے رجوع لائے اﷲ کے حکم پر،(۴۹:۹)

 اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ  کہ ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ فساد باقی نہ رہے۔

 ابن عمر رضی اللہ عنہما بولے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ہم یہ فرض انجام دے چکے ہیں اس وقت مسلمان بہت تھوڑے تھے، کافروں کا ہجوم تھا تو کافر لوگ مسلمانوں کا دین خراب کرتے تھے، کہیں مسلمانوں کو مار ڈالتے، کہیں تکلیف دیتے یہاں تک کہ مسلمان بہت ہو گئے فتنہ جاتا رہا۔

حدیث نمبر ۴۵۱۵

پھر اس شخص نے پوچھا اچھا یہ تو کہو کہ عثمان اور علی رضی اللہ عنہما کے بارے میں تمہارا کیا اعتقاد ہے۔

انہوں نے کہا عثمان رضی اللہ عنہ کا قصور اللہ نے معاف کر دیا لیکن تم اس معافی کو اچھا نہیں سمجھتے ہو۔

اب رہے علی رضی اللہ عنہ تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور آپ کے داماد تھے اور ہاتھ کے اشارے سے بتلایا کہ یہ دیکھو ان کا گھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے ملا ہوا ہے۔

وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلاَ تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ

اور اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہو اور اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں سے ہلاکت میں نہ ڈالو اور اچھے کام کرتے رہو ، اللہ اچھے کام کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔ (۲:۱۹۵)

حدیث نمبر ۴۵۱۶

راوی: ابووائل

 حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ آیت

وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلاَ تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ

اور اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہو اور اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں سے ہلاکت میں نہ ڈالو۔

اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔

فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ

لیکن اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو ، اس پر ایک مسکین کا کھلانا بطور فدیہ ضروری ہے ۔ (۲:۱۹۶)

حدیث نمبر ۴۵۱۷

راوی: عبداللہ بن معقل

میں کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اس مسجد میں حاضر ہوا، ان کی مراد کوفہ کی مسجد سے تھی اور ان سے روزے کے فدیہ کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ مجھے احرام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لوگ لے گئے اور جوئیں سر سے میرے چہرے پر گر رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا خیال یہ نہیں تھا کہ تم اس حد تک تکلیف میں مبتلا ہو گئے ہو تم کوئی بکری نہیں مہیا کر سکتے؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں۔ فرمایا، پھر تین دن کے روزے رکھ لو یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلا دو، ہر مسکین کو آدھا صاع کھانا کھلانا اور اپنا سر منڈوا لو۔

 کعب رضی اللہ عنہ نے کہا تو یہ آیت خاص میرے بارے میں نازل ہوئی تھی اور اس کا حکم تم سب کے لئے  عام ہے۔

فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ

تو پھر جو شخص حج کو عمرہ کے ساتھ ملا کر فائدہ اٹھائے ۔ (۲:۱۹۶)

حدیث نمبر ۴۵۱۸

راوی: عمران بن حصین رضی اللہ عنہما

حج میں تمتع کا حکم قرآن میں نازل ہوا اور ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمتع کے ساتھ حج کیا، پھر اس کے بعد قرآن نے اس سے نہیں روکا اور نہ اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا، یہاں تک کہ آپ کی وفات ہو گئی لہٰذا تمتع اب بھی جائز ہے ۔ یہ تو ایک صاحب نے اپنی رائے سے جو چاہا کہہ دیا ہے۔

لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلاً مِنْ رَبِّكُمْ

کچھ گناہ نہیں تم پر کہ تلاش کرو فضل اپنے رب کا۔(۲:۱۹۸)

حدیث نمبر ۴۵۱۹

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

 عکاظ، مجنہ اور ذوالمجاز زمانہ جاہلیت کے بازار میلے تھے، اس لئے اسلام کے بعد موسم حج میں صحابہ رضی اللہ عنہم نے وہاں کاروبار کو برا سمجھا تو آیت نازل ہوئی لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلاً مِنْ رَبِّكُمْ کہ تمہیں اس بارے میں کوئی حرج نہیں کہ تم اپنے پروردگار کے یہاں سے تلاش معاش کرو۔ یعنی موسم حج میں تجارت کے لئے  مذکورہ منڈیوں میں جاؤ۔

ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ

پھر تم بھی وہاں جا کر لوٹ آؤ جہاں سے لوگ لوٹ آتے ہیں۔ (۲:۱۹۹)

حدیث نمبر ۴۵۲۰

راوی: عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا

قریش اور ان کے طریقے کی پیروی کرنے والے عرب حج کے لئے مزدلفہ میں ہی وقوف کیا کرتے تھے، اس کا نام انہوں الحمس رکھا تھا اور باقی عرب عرفات کے میدان میں وقوف کرتے تھے۔ پھر جب اسلام آیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ آپ عرفات میں آئیں اور وہیں وقوف کریں اور پھر وہاں سے مزدلفہ آئیں۔ آیت ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ سے یہی مراد ہے۔

حدیث نمبر ۴۵۲۱

راوی: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما

 جو کوئی تمتع کرے عمرہ کر کے احرام کھول ڈالے وہ جب تک حج کا احرام نہ باندھے بیت اللہ کا نفل طواف کرتا رہے۔ جب حج کا احرام باندھے اور عرفات جانے کو سوار ہو تو حج کے بعد جو قربانی ہو سکے وہ کرے، اونٹ ہو یا گائے یا بکری۔ ان تینوں میں سے جو ہو سکے اگر قربانی میسر نہ ہو تو تین روزے حج کے دنوں میں رکھے عرفہ کے دن سے پہلے اگر آخری روزہ عرفہ کے دن آ جائے تب بھی کوئی قباحت نہیں۔ شہر مکہ سے چل کر عرفات کو جائے وہاں عصر کی نماز سے رات کی تاریکی ہونے تک ٹھہرے، پھر عرفات سے اس وقت لوٹے جب دوسرے لوگ لوٹیں اور سب لوگوں کے ساتھ رات مزدلفہ میں گزارے اور اللہ کی یاد، تکبیر اور تہلیل بہت کرتا رہے صبح ہونے تک۔ صبح کو لوگوں کے ساتھ مزدلفہ سے منیٰ کو لوٹے جیسے اللہ نے فرمایا ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ  یعنی کنکریاں مارنے تک اسی طرح اللہ کی یاد اور تکبیر و تہلیل کرتے رہو۔

وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ

اور کچھ ان میں ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ! ہم کو دنیا میں بہتری دے اور آخرت میں بھی بہتری دے اور ہم کو دوزخ کے عذاب سے بچائیو۔ (۲:۲۰۱)

حدیث نمبر ۴۵۲۲

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرتے تھے:

اللَّهُمَّ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ

اے پروردگار! ہمارے! ہم کو دنیا میں بھی بہتری دے اور آخرت میں بھی بہتری اور ہم کو دوزخ کے عذاب سے بچائیو۔

وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ

حالانکہ وہ بہت ہی سخت قسم کا جھگڑالو ہے ۔ (۲:۲۰۴)

حدیث نمبر ۴۵۲۳

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ شخص وہ ہے جو سخت جھگڑالو ہو۔

أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ ... أَلَآ إِنَّ نَصۡرَ ٱللَّهِ قَرِيبٌ۬  

کیا تم یہ گمان رکھتے ہو کہ جنت میں داخل ہو جاؤ گے ، حالانکہ ابھی تم کو ان لوگوں جیسے حالات پیش نہیں آئے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں ،

 انہیں تنگی اور سختی پیش آئی ۔ یہاں تک کہ کہنے لگا رسول، اور جو اسکے ساتھ ایمان لائے، کب آئے گی مدد اﷲ کی؟ سُن رکھو! مدد اﷲ کی نزدیک ہے۔(۲:۲۱۴)

حدیث نمبر ۴۵۲۴

راوی: ابن ابی ملیکہ

بیان کرتے ہیں  کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سورۃ یوسف کی آیت حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوا (۱۲:۱۱۰) میں كُذِبُوا  کو ذال کی تخفیف کے ساتھ قرأت کیا کرتے تھے۔ آیت کا جو مفہوم وہ مراد لے سکتے تھے لیا، اس کے بعد یوں تلاوت کرتے

حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ أَلا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ ۔  

پھر میری ملاقات عروہ بن زبیر سے ہوئی، تو میں نے ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی تفسیر کا ذکر کیا۔

حدیث نمبر ۴۵۲۵

انھوں نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا تو کہتی تھیں اللہ کی پناہ! پیغمبر، تو جو وعدہ اللہ نے ان سے کیا ہے اس کو سمجھتے ہیں کہ وہ مرنے سے پہلے ضرور پورا ہو گا۔ بات یہ کہ ہے پیغمبروں کی آزمائش برابر ہوتی رہی ہے۔ مدد آنے میں اتنی دیر ہوئی کہ پیغمبر ڈر گئے۔ ایسا نہ ہو ان کی اُمت کے لوگ ان کو جھوٹا سمجھ لیں تو عائشہ رضی اللہ عنہا اس آیت سورۃ یوسف کو یوں پڑھتی توَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوا  (۱۲:۱۱۰) ذال کی تشدید کے ساتھ ۔

نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ …وَٱعۡلَمُوٓاْ أَنَّڪُم مُّلَـٰقُوهُ‌ۗ وَبَشِّرِ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ  

تمہاری بیویاں تمہاری کھیتی ہیں ، سو تم اپنے کھیت میں آؤ جس طرح سے چاہو اور اپنے حق میں آخرت کے لئے  کچھ نیکیاں کرتے رہو  

اور ڈرتے رہو اﷲ سے، اور جان رکھو کہ تم کو اس سے ملنا ہے۔ اور خوشخبری سُنا ایمان والوں کو۔ (۲:۲۲۳)

حدیث نمبر ۴۵۲۶

راوی: نافع

جب ابن عمر رضی اللہ عنہما قرآن پڑھتے تو اور کوئی لفظ زبان پر نہیں لاتے یہاں تک کہ تلاوت سے فارغ ہو جاتے۔ ایک دن میں قرآن مجید لے کر ان کے سامنے بیٹھ گیا اور انہوں نے سورۃ البقرہ کی تلاوت شروع کی۔ جب اس آیت نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ  پر پہنچے تو فرمایا، معلوم ہے یہ آیت کس کے بارے میں نازل ہوئی تھی؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں،

فرمایا کہ فلاں فلاں چیز یعنی عورت سے پیچھے کی طرف سے جماع کرنے کے بارے میں نازل ہوئی تھی اور پھر تلاوت کرنے لگے۔

حدیث نمبر ۴۵۲۷

راوی: نافع

 ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ آیت فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ سو تم اپنے کھیت میں آؤ جس طرح چاہو۔ کے بارے میں فرمایا کہ پیچھے سے بھی آ سکتا ہے۔

حدیث نمبر ۴۵۲۸

راوی: جابر رضی اللہ عنہ

 یہودی کہتے تھے کہ اگر عورت سے ہمبستری کے لئے  کوئی پیچھے سے آئے گا تو بچہ بھینگا پیدا ہو گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی

نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ  

تمہاری بیویاں تمہاری کھیتی ہیں، سو اپنے کھیت میں آؤ جدھر سے چاہو۔

وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ

اور جب تم عورتوں کو طلاق دے چکو اور پھر وہ اپنی مدت کو پہنچ چکیں تو تم انہیں اس سے مت روکو کہ وہ اپنے پہلے شوہر سے پھر نکاح کر لیں۔ (۲:۲۳۲)

حدیث نمبر ۴۵۲۹

راوی: حسن

معقل بن یسار رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میری ایک بہن تھیں۔ ان کے شوہر نے طلاق دے دی تھی لیکن جب عدت گزر گئی اور طلاق بائن ہو گئی تو انہوں نے پھر ان کے لئے  پیغام نکاح بھیجا۔ معقل رضی اللہ عنہ نے اس پر انکار کیا، مگر عورت چاہتی تھی تو یہ آیت نازل ہوئی

فَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ

تم انہیں اس سے مت روکو کہ وہ اپنے پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کریں۔

وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ ... وَٱللَّهُ بِمَا تَعۡمَلُونَ خَبِيرٌ۬  

اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ بیویاں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن تک روکے رکھیں۔

 پھر جب پہنچ چکیں اپنی عدّت کو، تو تم پر نہیں گناہ، جو وہ اپنے حق میں کریں موافق دستور کے۔اور اﷲ کو تمہارے کام کی خبر ہے۔ (۲:۲۳۴)

يَعْفُونَ بمعنی يَهَبْنَ یعنی ہبہ کر دیں، بخش دیں۔

حدیث نمبر ۴۵۳۰

راوی: عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما

میں نے آیت وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا  یعنی اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جاتے ہیں اور بیویاں چھوڑ جاتے ہیں۔ کے متعلق عثمان رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ اس آیت کو دوسری آیت نے منسوخ کر دیا ہے۔ اس لئے  آپ اسے مصحف میں نہ لکھیں یا یہ کہا کہ نہ رہنے دیں۔ اس پر عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بیٹے! میں قرآن ک کوئی حرف اس کی جگہ سے نہیں ہٹا سکتا۔

حدیث نمبر ۴۵۳۱

راوی: مجاہد

 فرمایا آیت وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جاتے ہیں اور بیویاں چھوڑ جاتے ہیں۔ کے بارے میں زمانہ جاہلیت کی طرح کہ عدت یعنی چار مہینے دس دن کی تھی جو شوہر کے گھر عورت کو گزارنی ضروری تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی

وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً ... فِي مَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ مِنْ مَعْرُوفٍ

اور جو لوگ تم میں سے وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں ان کو چاہیے کہ اپنی بیویوں کے حق میں نفع اٹھانے کی وصیت کر جائیں کہ وہ ایک سال تک گھر سے نہ نکالی جائیں،

لیکن اگر وہ خود نکل جائیں تو کوئی گناہ تم پر نہیں۔ اگر وہ دستور کے موافق اپنے لئے  کوئی کام کریں۔ (۲:۲۴۰)

فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کے لئے  سات مہینے اور بیس دن وصیت کے قرار دیئے کہ اگر وہ اس مدت میں چاہے تو اپنے لئے  وصیت کے مطابق شوہر کے گھر میں ہی ٹھہرے اور اگر چاہے تو کہیں اور چلی جائے کہ اگر ایسی عورت کہیں اور چلی جائے تو تمہارے حق میں کوئی گناہ نہیں۔ پس عدت کے ایام تو وہی ہیں جنہیں گزارنا اس پر ضروری ہے یعنی چار مہینے دس دن ۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا، اس آیت نے اس رسم کو منسوخ کر دیا کہ عورت اپنے خاوند کے گھر والوں کے پاس عدت گزارے۔ اس آیت کی رو سے عورت کو اختیار ملا جہاں چاہے وہاں عدت گزارے اور اللہ پاک کے قول غَيْرَ إِخْرَاجٍ  کا یہی مطلب ہے۔

 عطا نے کہا، عورت اگر چاہے تو اپنے خاوند کے گھر والوں میں عدت گزارے اور خاوند کی وصیت کے موافق اسی کے گھر میں رہے اور اگر چاہے تو وہاں سے نکل جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا فَلا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِي مَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ مِنْ مَعْرُوفٍ اگر وہ نکل جائیں تو دستور کے موافق اپنے حق میں جو بات کریں اس میں کوئی گناہ تم پر نہ ہو گا۔

عطاء نے کہا کہ پھر میراث کا حکم نازل ہوا جو سورۃ نساء میں ہے اور اس نے عورت کے لئے گھر میں رکھنے کے حکم کو منسوخ قرار دیا۔ اب عورت جہاں چاہے عدت گزار سکتی ہے۔ اسے مکان کا خرچہ دینا ضروری نہیں۔

 ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ اس آیت نے صرف شوہر کے گھر میں عدت کے حکم کو منسوخ قرار دیا ہے۔ اب وہ جہاں چاہے عدت گزار سکتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد غَيْرَ إِخْرَاجٍ  وغیرہ سے ثابت ہے۔

حدیث نمبر ۴۵۳۲

راوی: محمد بن سیرین

 میں انصار کی ایک مجلس میں حاضر ہوا۔ بڑے بڑے انصاری وہاں موجود تھے اور عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ بھی موجود تھے۔ میں نے وہاں سبیعہ بنت حارث کے باب سے متعلق عبداللہ بن عتبہ کی حدیث کا ذکر کیا۔ عبدالرحمٰن نے کہا لیکن عبداللہ بن عتبہ کے چچا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ایسا نہیں کہتے تھے۔ میں نے کہا کہ پھر تو میں نے ایک ایسے بزرگ عبداللہ بن عتبہ کے متعلق جھوٹ بولنے میں دلیری کی ہے کہ جو کوفہ میں ابھی زندہ موجود ہیں۔

میری آواز بلند ہو گئی تھی۔ پھر جب میں باہر نکلا تو راستے میں مالک بن عامر یا مالک بن عوف سے ملاقات ہو گئی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ جس عورت کے شوہر کا انتقال ہو جائے اور وہ حمل سے ہو تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ اس کی عدت کے متعلق کیا فتویٰ دیتے تھے؟

انہوں نے کہا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ تم لوگ اس حاملہ پر سختی کے متعلق کیوں سوچتے ہو اس پر آسانی نہیں کرتے اس کو لمبی عدت کا حکم دیتے ہو۔ چھوٹی سورۃ الطلاق لمبی سورۃ نساء کے بعد نازل ہوئی ہے۔

حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاَةِ الْوُسْطَى

سب ہی نمازوں کی حفاظت رکھو اور درمیانی نماز کی پابندی خاص طور پر لازم پکڑو ۔(۲:۲۳۸)

حدیث نمبر ۴۵۳۳

راوی: علی رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خندق کے موقع پر فرمایا تھا، ان کفار نے ہمیں درمیانی نماز نہیں پڑھنے دی، یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا، اللہ ان کی قبروں اور گھروں کو یا ان کے پیٹوں کو آگ سے بھر دے۔

وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ

اور کھڑے رہو اﷲ کے آگے ادب سے۔(۲:۲۳۸)

قَانِتِينَ بمعنی مُطِيعِينَ یعنی فرمانبردار

حدیث نمبر ۴۵۳۴

راوی: زید بن ارقم رضی اللہ عنہ

پہلے ہم نماز پڑھتے ہوئے بات بھی کر لیا کرتے تھے، کوئی بھی شخص اپنے دوسرے بھائی سے اپنی کسی ضرورت کے لئے  بات کر لیتا تھا۔ یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی

حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاَةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ

سب ہی نمازوں کی پابندی رکھو اور خاص طور پر بیچ والی نماز کی اور اللہ کے سامنے فرماں برداروں کی طرح کھڑے ہوا کرو۔

اس آیت کے ذریعہ ہمیں نماز میں چپ رہنے کا حکم دیا گیا۔

فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالاً أَوْ رُكْبَانًا فَإِذَا أَمِنْتُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَمَا عَلَّمَكُمْ مَا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ

پھر اگر تم کو ڈر ہو، تو پیادہ پڑھ لو یا سوار۔ پھر جس وقت چین پاؤ تو یاد کرو اﷲ کو، جیسا تم کو سکھایا ہے جو تم نہ جانتے تھے۔(۲:۲۳۹)

حدیث نمبر ۴۵۳۵

راوی: نافع

جب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے نماز خوف کے متعلق پوچھا جاتا تو وہ فرماتے کہ امام مسلمانوں کی ایک جماعت کو لے کر خود آگے بڑھے اور انہیں ایک رکعت نماز پڑھائے۔ اس دوران میں مسلمانوں کی دوسری جماعت ان کے اور دشمن کے درمیان میں رہے۔ یہ لوگ نماز میں ابھی شریک نہ ہوں،

پھر جب امام ان لوگوں کو ایک رکعت پڑھا چکے جو پہلے اس کے ساتھ تھے تو اب یہ لوگ پیچھے ہٹ جائیں اور ان کی جگہ لے لیں، جنہوں نے اب تک نماز نہیں پڑھی ہے، لیکن یہ لوگ سلام نہ پھیریں۔

اب وہ لوگ آگے بڑھیں جنہوں نے نماز نہیں پڑھی ہے اور امام انہیں بھی ایک رکعت نماز پڑھائے، اب امام دو رکعت پڑھ چکنے کے بعد نماز سے فارغ ہو چکا۔ پھر دونوں جماعتیں جنہوں نے الگ الگ امام کے ساتھ ایک ایک رکعت نماز پڑھی تھی اپنی باقی ایک ایک رکعت ادا کر لیں۔ جبکہ امام اپنی نماز سے فارغ ہو چکا ہے۔ اس طرح دونوں جماعتوں کی دو دو رکعت پوری ہو جائیں گی۔

 لیکن اگر خوف اس سے بھی زیادہ ہے تو ہر شخص تنہا نماز پڑھ لے، پیدل ہو یا سوار، قبلہ کی طرف رخ ہو یا نہ ہو۔

 نافع نے بیان کیا، کہ مجھ کو یقین ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ باتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر ہی بیان کی ہیں۔

وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا

اور جو لوگ تم میں مر جائیں اور چھوڑ جائیں عورتیں۔(۲:۲۴۰)

حدیث نمبر ۴۵۳۶

راوی: ابن زبیر رضی اللہ عنہما

میں  نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ سورۃ البقرہ کی آیت کو دوسری آیت نے منسوخ کر دیا ہے۔

وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لِأَزْوَاجِهِمْ مَتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ

اور جو لوگ تم میں مر جائیں اور چھوڑ جائیں عورتیں۔وصیحت کر دیں اپنی عورتوں کے واسطے خرچ دینا ایک برس، نہ نکال دینا۔

اس کو آپ نے مصحف میں کیوں لکھوایا، چھوڑ کیوں نہیں دیا؟ انہوں نے کہا میرے بھتیجے! میں کسی آیت کو اس کے ٹھکانے سے بدلنے والا نہیں۔

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَى

اس وقت کو یاد کرو ، جب ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا کہ اے میرے رب ! مجھے دکھا دے کہ تو مُردوں کو کس طرح زندہ کرے گا ۔(۲:۲۶۰)

حدیث نمبر ۴۵۳۷

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شک کرنے کا ہمیں ابراہیم علیہ السلام سے زیادہ حق ہے، جب انہوں نے عرض کیا تھا کہ اے میرے رب! مجھے دکھا دے کہ تو مردوں کو کس طرح زندہ کرے گا، اللہ کی طرف سے ارشاد ہوا، کیا تجھ کو یقین نہیں ہے؟ عرض کی یقین ضرور ہے، لیکن میں نے یہ درخواست اس لئے  کی ہے کہ میرے دل کو اور اطمینان حاصل ہو جائے۔

أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَنْ تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَأَعْنَابٍ …كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ

بھلا خوش لگتا ہے تم میں کسی کو کہ ہوئے اس کا ایک باغ کھجور اور انگور کا،نیچے اس کے بہتی ہیں ندیاں، اس کو وہاں حاصل سب طرح کا میوہ،

 اور اس پر بڑھاپا پڑا، اور اس کے اولاد ہیں ضعیف ناتواں ،تب پڑا اس باغ پر بگولا، جس میں آگ تھی، تو وہ جل گیا۔ یُوں سمجھاتا ہے اﷲ تم کو آیتیں، شاید تم دھیان کرو۔ (۲:۲۶۶)

حدیث نمبر ۴۵۳۸

راوی: عبید بن عمیر

أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَنْ تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ

کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کا ایک باغ ہو۔

سب نے کہا کہ اللہ زیادہ جاننے والا ہے۔ یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ بہت خفا ہو گئے اور کہا، صاف جواب دیں کہ آپ لوگوں کو اس سلسلے میں کچھ معلوم ہے یا نہیں۔

 ابن عباس رضی اللہ عنہما نے عرض کیا امیرالمؤمنین! میرے دل میں ایک بات آتی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا بیٹے! تمہیں کہو اور اپنے کو حقیر نہ سمجھو۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے عرض کیا کہ اس میں عمل کی مثال بیان کی گئی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا، کیسے عمل کی؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے عرض کیا کہ عمل کی۔

 عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ ایک مالدار شخص کی مثال ہے جو اللہ کی اطاعت میں نیک عمل کرتا رہتا ہے۔ پھر اللہ شیطان کو اس پر غالب کر دیتا ہے، وہ گناہوں میں مصروف ہو جاتا ہے اور اس کے اگلے نیک اعمال سب غارت ہو جاتے ہیں۔

لاَ يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا

وہ لوگوں سے چمٹ کر نہیں مانگتے ۔ (۲:۲۷۳)

عرب لوگ أَلْحَفَ , وَأَلَحَّ اور أَحْفَانِي بِالْمَسْأَلَةِ  جب کہتے ہیں کہ کوئی گڑگڑا کر پیچھے لگ کر سوال کرے۔

  فَيُحْفِكُمْ کے معنی تمہیں مشقت میں ڈال دے، نہ تھکا دے۔

حدیث نمبر ۴۵۳۹

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسکین وہ نہیں ہے جسے ایک یا دو کھجور، ایک یا دو لقمے در بدر لئے  پھریں، بلکہ مسکین وہ ہے جو مانگنے سے بچتا رہے اور اگر تم دلیل چاہو تو قرآن سے اس آیت کو پڑھ ل

و لاَ يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا

وہ لوگوں سے چمٹ کر نہیں مانگتے۔

وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا

اور اﷲ نے حلال کیا سودا اور حرام کیا سُود ۔(۲:۲۷۵)

حدیث نمبر ۴۵۴۰

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

 جب سود کے سلسلے میں سورۃ البقرہ کی آخری آیتیں نازل ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پڑھ کر لوگوں کو سنایا اور اس کے بعد شراب کی تجارت بھی حرام قرار پائی۔

يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا

اللہ سود کو مٹاتا ہے ۔  (۲:۲۷۶)

لفظ يَمْحَقُ بمعنی يُذْهِبُهُ کے ہے یعنی مٹا دیتا ہے اور دور کر دیتا ہے۔

حدیث نمبر ۴۵۴۱

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

جب سورۃ البقرہ کی آخری آیتیں نازل ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور مسجد میں انہیں پڑھ کر سنایا اس کے بعد شراب کی تجارت حرام ہو گئی۔

فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ

تو خبردار ہو جاؤ لڑنے کو ۔ (۲:۲۷۹)

 لفظ فَأْذَنُوا بمعنی فَاعْلَمُوا ہے یعنی جان لو ، آگاہ ہو جاؤ

حدیث نمبر ۴۵۴۲

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

جب سورۃ البقرہ کی آخری آیتیں نازل ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مسجد میں پڑھ کر سنایا اور شراب کی تجارت حرام قرار دی گئی۔

وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ  وَأَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ

اگر مقروض تنگ دست ہے تو اس کے لئے  آسانی مہیا ہونے تک مہلت دینا بہتر ہے اور اگر تم اس کا قرض معاف ہی کر دو تو تمہارے حق میں یہ اور بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو ۔ (۲:۲۸۰)

حدیث نمبر ۴۵۴۳

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

جب سورۃ البقرہ کی آخری آیات نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور ہمیں پڑھ کر سنایا پھر شراب کی تجارت حرام کر دی۔

وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ

اور اس دن سے ڈرتے رہو جس دن تم سب کو اللہ کی طرف واپس جانا ہے ۔ (۲:۲۸۱)

حدیث نمبر ۴۵۴۴

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

آخری آیت جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی وہ سود کی آیت تھی۔

وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ ... وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

اور جو خیال تمہارے دلوں کے اندر چھپا ہوا ہے اگر تم اس کو ظاہر کر دو یا اسے چھپائے رکھو ہر حال میں اللہ اس کا حساب تم سے لے گا ،

پھر جسے چاہے بخش دے گا اور جسے چاہے عذاب کرے گا اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے ۔(۲:۲۸۴)

حدیث نمبر ۴۵۴۵

راوی: ابن عمر رضی اللہ عنہما

 آیت وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ  اورجو کچھ تمہارے نفسوں کے اندر ہے اگر تم ان کو ظاہر کر ویا چھپائے رکھو۔ آخر تک منسوخ ہو گئی تھی۔

آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ

پیغمبر ایمان لائے اس پر جو ان پر اللہ کی طرف سے نازل ہوا ۔(۲:۲۸۵)

حدیث نمبر ۴۵۴۶

راوی: مروان اصفر

انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی نے، کہا کہ وہ ابن عمر رضی اللہ عنہما ہیں۔ انہوں نے آیت وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ (۲:۲۸۴ )کے متعلق بتلایا کہ اس آیت کو اس کے بعد کی آیت لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا  (۲:۲۸۶) نے منسوخ کر دیا ہے۔

سورۃ آل عمران کی تفسیر

الفاظ تُقَاةٌ ، وَتَقِيَّةٌ  دونوں کا معنی ایک ہے یعنی بچاؤ کرنا۔

صِرٌّ  کا معنی بَرْدٌ  یعنی سرد ٹھنڈک۔

شَفَا حُفْرَةٍ‏‏‏‏ کا معنی گڑھے کا کنارہ، جیسے کچے کنویں کا کنارہ ہوتا ہے۔

تُبَوِّئُ یعنی تو لشکر کے مقامات، پڑاؤ تجویز کرتا تھا، مورچے بنانا مراد ہیں۔

مسومين، مسوم اس کو کہتے ہیں جس پر کوئی نشانی ہو، مثلاً پشم یا اور کوئی نشانی۔

رِبِّيُّونَ جمع ہے اس کا واحد رِبِّيٌّ ہے یعنی اللہ والا۔

تَحُسُّونَهُمْ  ان کو قتل کر کے جڑ پیڑ سے اکھاڑتے ہو۔

غُزًّا لفظ   غَازٍ کی جمع ہے یعنی جہاد کرنے والا۔   نَكْتُبُ کا معنی ہم کو یاد رہے گا۔

نُزُلًا کا معنی ثواب کے ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ لفظ نُزُلًا اسم مفعول کے معنی میں ہو یعنی اللہ کی طرف سے اتارا گیا جیسے کہتے ہیں أَنْزَلْتُهُ میں نے اس کو اتارا۔

مجاہد نے کہا وَالْخَيْلُ الْمُسَوَّمَةُ  کا معنی موٹے موٹے اچھے اچھے گھوڑے ۔

 سعید بن جبیر نے کہا  وَحَصُورًا اس شخص کو کہتے ہیں جو عورتوں کی طرف مطلق مائل نہ ہو۔

 عکرمہ نے کہا  مِنْ فَوْرِهِمْ  کا معنی بدر کے دن غصے اور جوش سے۔

 مجاہد نے کہا يُخْرِجُ الْحَيَّ  یعنی نطفہ بے جان ہوتا ہے اس سے جاندار پیدا ہوتا ہے۔

الْإِبْكَارُ ‏‏‏‏ صبح سویرے۔ وَالْعَشِيُّ کے معنی سورج ڈھلے سے ڈوبنے تک جو وقت ہوتا ہے اسے عشي کہتے ہیں۔

مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ

بعض اس میں محکم آیتیں ہیں اور بعض متشابہ ہیں۔ (۳:۷)

مجاہد نے کہا  مُحْكَمَاتٌ سے حلال و حرام کی آیتیں مراد ہیں۔ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ  کا مطلب یہ ہے کہ دوسری آیتیں جو ایک دوسری سے ملتی جلتی ہیں۔ ایک کی ایک تصدیق کرتی ہے،  جیسے یہ آیات ہیں

وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلا الْفَاسِقِينَ  (۲:۲۶)  

 وَيَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لا يَعْقِلُونَ (۱۰:۱۰۰)

 وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى وَآتَاهُمْ تَقْوَاهُمْ  (۴۷:۱۷)  

ان تینوں آیتوں میں کسی حلال و حرام کا بیان نہیں ہے تو متشابہ ٹھہریں۔

زَيْغٌ  کا معنی شک۔ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ میں فتنہ سے مراد متشابہات کی پیروی کرنا، ان کے مطلب کا کھوج کرنا ہے۔

وَالرَّاسِخُونَ  یعنی جو لوگ پختہ علم والے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لے آئے یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہیں۔

حدیث نمبر ۴۵۴۷

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی:

هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ  ...  وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ

وہی ہے جس نے اتاری تجھ پر کتاب، اس میں بعضی آیتیں پکی محکمات ہیں،سو جڑ بنیاد ہیں کتاب کی، اور دوسری ہیں کئی طرف ملتی متشابہات ،

سو جن کے دل پھرے ہوئے ہیں، وہ لگتے پیچھے پڑے ہیں ان کی ڈھب والیوں سے متشابہ کے ، تلاش کرتے ہیں گمراہی، اور تلاش کرتے ہیں

انکی کُل بیٹھانی حقیقت و ماہیّت ، اور ان کی کُل حقیقت و ماہیّت کوئی نہیں جانتا سوا اﷲ کے، اور جو مضبوط علم والے ہیں،

سو کہتے ہیں، ہم اس پر یقین لائے، سب کچھ ہمارے رب کی طرف سے ہے۔ اور سمجھائے وہی، سمجھتے ہیں جن کو عقل ہے۔ (۳:۷)

عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو متشابہ آیتوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہوں تو یاد رکھو کہ یہ وہی لوگ ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے آیت بالا میں ذکر فرمایا ہے۔ اس لئے  ان سے بچتے رہو۔

وَإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

مریم علیہا السلام کی ماں نے کہا اے رب ! میں اس مریم کو اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں ۔ (۳:۳۶)

حدیث نمبر ۴۵۴۸

راوی: سعید بن مسیب

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو شیطان اسے پیدا ہوتے ہی چھوتا ہے، جس سے وہ بچہ چلاتا ہے، سوا مریم اور ان کے بیٹے عیسیٰ علیہ السلام کے۔

 پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو وَإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ (۳:۳۶) یہ کلمہ مریم علیہ السلام کی ماں نے کہا تھا، اللہ نے ان کی دعا قبول کی اور مریم اور عیسیٰ علیہما السلام کو شیطان کے ہاتھ لگانے سے بچا لیا۔

‏إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًاوَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ...

جو لوگ خرید کرتے ہیں اﷲ کے اقرار پر، اور اپنی قسموں پر تھوڑا مول، اور ان کو کچھ حصہ نہیں آخرت میں،

 اور نہ بات کریگا اُن سے اﷲ، اور نہ نگاہ کرے گا انکی طرف قیامت کے دن، اور نہ سنوارے پاک کرے گا ان کو، اور ان کو دکھ کی مار دردناک عذاب ہے۔(۳:۷۷)

حدیث نمبر ۴۵۴۹ - ۴۵۵۰

راوی: ابووائل

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے اس لئے  قسم کھائی کہ کسی مسلمان کا مال جھوٹ بول کر وہ  مار لے تو جب وہ اللہ سے ملے گا، اللہ تعالیٰ اس پر نہایت ہی غصہ ہو گا، پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کے اس فرمان کی تصدیق میں یہ آیت نازل کی: ‏

‏إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًاوَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ...

جو لوگ خرید کرتے ہیں اﷲ کے اقرار پر، اور اپنی قسموں پر تھوڑا مول، اور ان کو کچھ حصہ نہیں آخرت میں،

 اور نہ بات کریگا اُن سے اﷲ، اور نہ نگاہ کرے گا انکی طرف قیامت کے دن، اور نہ سنوارے پاک کرے گا ان کو، اور ان کو دکھ کی مار دردناک عذاب ہے۔(۳:۷۷)

ابووائل نے بیان کیا کہ اشعث بن قیس کندی رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور پوچھا ابوعبدالرحمٰن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے آپ لوگوں سے کوئی حدیث بیان کی ہے؟ ہم نے بتایا کہ ہاں، اس طرح سے حدیث بیان کی ہے۔

اشعث رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ یہ آیت تو میرے ہی بارے میں نازل ہوئی تھی۔ میرے ایک چچا کے بیٹے کی زمین میں میرا ایک کنواں تھا ہم دونوں کا اس بارے میں جھگڑا ہوا اور مقدمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوا تو آپ نے مجھ سے فرمایا کہ تو گواہ پیش کر یا پھر اس کی قسم پر فیصلہ ہو گا۔ میں نے کہا پھر تو یا رسول اللہ وہ جھوٹی قسم کھا لے گا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص جھوٹی قسم اس لئے  کھائے کہ اس کے ذریعہ کسی مسلمان کا مال لے اور اس کی نیت بری ہو تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حالت میں ملے گا کہ اللہ اس پر نہایت ہی غضبناک ہو گا۔

حدیث نمبر ۴۵۵۱

راوی: عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ

ایک شخص نے بازار میں سامان بیچتے ہوئے قسم کھائی کہ فلاں شخص اس سامان کا اتنا روپیہ دے رہا تھا، حالانکہ کسی نے اتنی قیمت نہیں لگائی تھی، بلکہ اس کا مقصد یہ تھا کہ اس طرح کسی مسلمان کو وہ دھوکا دے کر اسے ٹھگ لے تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی:

‏إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًاوَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ...

جو لوگ خرید کرتے ہیں اﷲ کے اقرار پر، اور اپنی قسموں پر تھوڑا مول، اور ان کو کچھ حصہ نہیں آخرت میں،

 اور نہ بات کریگا اُن سے اﷲ، اور نہ نگاہ کرے گا انکی طرف قیامت کے دن، اور نہ سنوارے پاک کرے گا ان کو، اور ان کو دکھ کی مار دردناک عذاب ہے۔(۳:۷۷)

حدیث نمبر ۴۵۵۲

راوی: ابن ابی ملیکہ

دو عورتیں کسی گھر یا حجرہ میں بیٹھ کر موزے بنایا کرتی تھیں۔ ان میں سے ایک عورت باہر نکلی اس کے ہاتھ میں موزے سینے کا سوا چبھو دیا گیا تھا۔ اس نے دوسری عورت پر دعویٰ کیا۔ یہ مقدمہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آیا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر صرف دعویٰ کی وجہ سے لوگوں کا مطالبہ مان لیا جانے لگے تو بہت سوں کا خون اور مال برباد ہو جائے گا۔

جب گواہ نہیں ہے تو دوسری عورت کو جس پر یہ الزام ہے، اللہ سے ڈراؤ اور اس کے سامنے یہ آیت پڑھو إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ  چنانچہ جب لوگوں نے اسے اللہ سے ڈرایا تو اس نے اقرار کر لیا۔(۳:۷۷)

 ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، قسم مدعیٰ علیہ پر ہے۔ اگر وہ جھوٹی قسم کھا کر کسی کا مال ہڑپ کرے گا تو اس کو اس وعید کا مصداق قرار دیا جائے گا جو آیت میں بیان کی گئی ہے۔

قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَنْ لاَ نَعْبُدَ إِلاَّ اللَّهَ

آپ کہہ دیں کہ اے کتاب والو ! ایسے قول کی طرف آ جاؤ جو ہم میں تم میں برابر ہے ، وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کریں۔ (۳:۶۴)

سَوَاءٍ  کے معنی ایسی بات ہے جسے ہم اور تم دونوں تسلیم کرتے ہیں جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے۔

حدیث نمبر ۴۵۵۳

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

مجھ سے ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا  کہ جس مدت میں میرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان صلح صلح حدیبیہ کے معاہدہ کے مطابق تھی، میں سفر تجارت پر شام میں گیا ہوا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خط ہرقل کے پاس پہنچا۔ دحیہ الکلبی رضی اللہ عنہ وہ خط لائے تھے اور عظیم بصریٰ کے حوالے کر دیا تھا اور ہرقل کے پاس اسی سے پہنچا تھا۔

ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہرقل نے پوچھا کیا ہمارے حدود سلطنت میں اس شخص کی قوم کے بھی کچھ لوگ ہیں جو نبی ہونے کا دعویدار ہے؟ درباریوں نے بتایا کہ جی ہاں موجود ہیں۔ پھر مجھے قریش کے چند دوسرے آدمیوں کے ساتھ بلایا گیا۔ ہم ہرقل کے دربار میں داخل ہوئے اور اس کے سامنے ہمیں بٹھا دیا گیا۔ اس نے پوچھا، تم لوگوں میں اس شخص سے زیادہ قریبی کون ہے جو نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے؟ میں نے کہا کہ میں زیادہ قریب ہوں۔ اب درباریوں نے مجھے بادشاہ کے بالکل قریب بٹھا دیا اور میرے دوسرے ساتھیوں کو میرے پیچھے بٹھا دیا۔ اس کے بعد ترجمان کو بلایا اور اس سے ہرقل نے کہا کہ انہیں بتاؤ کہ میں اس شخص کے بارے میں تم سے کچھ سوالات کروں گا، جو نبی ہونے کا دعویدار ہے، اگر یہ یعنی ابوسفیان رضی اللہ عنہ جھوٹ بولے تو تم اس کے جھوٹ کو ظاہر کر دینا۔

 ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا بیان تھا کہ اللہ کی قسم! اگر مجھے اس کا خوف نہ ہوتا کہ میرے ساتھی کہیں میرے متعلق جھوٹ بولنا نقل نہ کر دیں تو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ضرور جھوٹ بولتا۔ پھر ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا کہ اس سے پوچھو کہ جس نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے وہ اپنے نسب میں کیسے ہیں؟ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ ان کا نسب ہم میں بہت ہی عزت والا ہے۔ اس نے پوچھا کیا ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ بھی ہوا ہے؟ میں نے کہا، نہیں۔ اس نے پوچھا، تم نے دعویٰ نبوت سے پہلے کبھی ان پر جھوٹ کی تہمت لگائی تھی؟ میں نے کہا نہیں۔ پوچھا ان کی پیروی معزز لوگ زیادہ کرتے ہیں یا کمزور؟ میں نے کہا کہ قوم کے کمزور لوگ زیادہ ہیں۔ اس نے پوچھا، ان کے ماننے والوں میں زیادتی ہوتی رہتی ہے یا کمی؟ میں نے کہا کہ نہیں بلکہ زیادتی ہوتی رہتی ہے۔ پوچھا کبھی ایسا بھی کوئی واقعہ پیش آیا ہے کہ کوئی شخص ان کے دین کو قبول کرنے کے بعد پھر ان سے بدگمان ہو کر ان سے پھر گیا ہو؟ میں نے کہا ایسا بھی کبھی نہیں ہوا۔ اس نے پوچھا، تم نے کبھی ان سے جنگ بھی کی ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں۔ اس نے پوچھا، تمہاری ان کے ساتھ جنگ کا کیا نتیجہ رہا؟ میں نے کہا کہ ہماری جنگ کی مثال ایک ڈول کی ہے کہ کبھی ان کے ہاتھ میں اور کبھی ہمارے ہاتھ میں۔ اس نے پوچھا، کبھی انہوں نے تمہارے ساتھ کوئی دھوکا بھی کیا؟ میں نے کہا کہ اب تک تو نہیں کیا، لیکن آج کل بھی ہمارا ان سے ایک معاہدہ چل رہا ہے، نہیں کہا جا سکتا کہ اس میں ان کا طرز عمل کیا رہے گا۔

 ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم! اس جملہ کے سوا اور کوئی بات میں اس پوری گفتگو میں اپنی طرف سے نہیں ملا سکا، پھر اس نے پوچھا اس سے پہلے بھی یہ دعویٰ تمہارے یہاں کسی نے کیا تھا؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ اس کے بعد ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا، اس سے کہو کہ میں نے تم سے نبی کے نسب کے بارے میں پوچھا تو تم نے بتایا کہ وہ تم لوگوں میں باعزت اور اونچے نسب کے سمجھے جاتے ہیں، انبیاء کا بھی یہی حال ہے۔ ان کی بعثت ہمیشہ قوم کے صاحب حسب و نسب خاندان میں ہوتی ہے اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا کوئی ان کے باپ دادوں میں بادشاہ گزرا ہے، تو تم نے اس کا انکار کیا میں اس سے اس فیصلہ پر پہنچا کہ اگر ان کے باپ دادوں میں کوئی بادشاہ گزرا ہوتا تو ممکن تھا کہ وہ اپنی خاندانی سلطنت کو اس طرح واپس لینا چاہتے ہوں اور میں نے تم سے ان کی اتباع کرنے والوں کے متعلق پوچھا کہ آیا وہ قوم کے کمزور لوگ ہیں یا اشراف، تو تم نے بتایا کہ کمزور لوگ ان کی پیروی کرنے والوں میں زیادہ ہیں۔ یہی طبقہ ہمیشہ سے انبیاء کی اتباع کرتا رہا ہے اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا تم نے دعویٰ نبوت سے پہلے ان پر جھوٹ کا کبھی شبہ کیا تھا، تو تم نے اس کا بھی انکار کیا۔ میں نے اس سے یہ سمجھا کہ جس شخص نے لوگوں کے معاملہ میں کبھی جھوٹ نہ بولا ہو، وہ اللہ کے معاملے میں کس طرح جھوٹ بول دے گا اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ ان کے دین کو قبول کرنے کے بعد پھر ان سے بدگمان ہو کر کوئی شخص ان کے دین سے کبھی پھرا بھی ہے، تو تم نے اس کا بھی انکار کیا۔ ایمان کا یہی اثر ہوتا ہے جب وہ دل کی گہرائیوں میں اتر جائے۔ میں نے تم سے پوچھا تھا کہ ان کے ماننے والوں کی تعداد بڑھتی رہتی ہے یا کم ہوتی ہے، تو تم نے بتایا کہ ان میں اضافہ ہی ہوتا ہے، ایمان کا یہی معاملہ ہے، یہاں تک کہ وہ کمال کو پہنچ جائے۔ میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا تم نے کبھی ان سے جنگ بھی کی ہے؟ تو تم نے بتایا کہ جنگ کی ہے اور تمہارے درمیان لڑائی کا نتیجہ ایسا رہا ہے کہ کبھی تمہارے حق میں اور کبھی ان کے حق میں۔ انبیاء کا بھی یہی معاملہ ہے، انہیں آزمائش میں ڈالا جاتا ہے اور آخر انجام انہیں کے حق میں ہوتا ہے اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ اس نے تمہارے ساتھ کبھی خلاف عہد بھی معاملہ کیا ہے تو تم نے اس سے بھی انکار کیا۔ انبیاء کبھی عہد کے خلاف نہیں کرتے اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا تمہارے یہاں اس طرح کا دعویٰ پہلے بھی کسی نے کیا تھا تو تم نے کہا کہ پہلے کسی نے اس طرح کا دعویٰ نہیں کیا، میں اس سے اس فیصلے پر پہنچا کہ اگر کسی نے تمہارے یہاں اس سے پہلے اس طرح کا دعویٰ کیا ہوتا تو یہ کہا جا سکتا تھا کہ یہ بھی اسی کی نقل کر رہے ہیں۔

پھر ہرقل نے پوچھا وہ تمہیں کن چیزوں کا حکم دیتے ہیں؟ میں نے کہا نماز، زکوٰۃ، صلہ رحمی اور پاکدامنی کا۔ آخر اس نے کہا کہ جو کچھ تم نے بتایا ہے اگر وہ صحیح ہے تو یقیناً وہ نبی ہیں اس کا علم تو مجھے بھی تھا کہ ان کی نبوت کا زمانہ قریب ہے لیکن یہ خیال نہ تھا کہ وہ تمہاری قوم میں ہوں گے۔ اگر مجھے ان تک پہنچ سکنے کا یقین ہوتا تو میں ضرور ان سے ملاقات کرتا اور اگر میں ان کی خدمت میں ہوتا تو ان کے قدموں کو دھوتا اور ان کی حکومت میرے ان دو قدموں تک پہنچ کر رہے گی۔

 ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط منگوایا اور اسے پڑھا، اس میں یہ لکھا ہوا تھا، اللہ، رحمٰن، رحیم کے نام سے شروع کرتا ہوں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عظیم روم ہرقل کی طرف، سلامتی ہو اس پر جو ہدایت کی اتباع کرے۔ امابعد! میں تمہیں اسلام کی طرف بلاتا ہوں، اسلام لاؤ تو سلامتی پاؤ گے اور اسلام لاؤ تو اللہ تمہیں دوہرا اجر دے گا۔ لیکن تم نے اگر منہ موڑا تو تمہاری رعایا کے کفر کا بار بھی سب تم پر ہو گا اور   تُو کہہ، اے کتاب والو! آؤ ایک سیدھی بات پر جو یکساں ہے ہمارے تمہارے درمیان کی، کہ بندگی نہ کریں گے مگر اﷲ کو، اور شریک نہ ٹھہرائیں اس کی کوئی چیز، اور نہ پکڑیں آپس میں ایک ایک کو رب، سوا اﷲ کے۔ پھر اگر وہ قبول نہ رکھیں تو کہہ، شاہد رہو، کہ ہم تو صرف اﷲ کے حکم کے تابع ہیں۔ (۳:۶۴)

جب ہرقل خط پڑھ چکا تو دربار میں بڑا شور برپا ہو گیا اور پھر ہمیں دربار سے باہر کر دیا گیا۔ باہر آ کر میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابن ابی کبشہ کا معاملہ تو اب اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ ملک بنی الاصفر ہرقل بھی ان سے ڈرنے لگا۔ اس واقعہ کے بعد مجھے یقین ہو گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غالب آ کر رہیں گے اور آخر اللہ تعالیٰ نے اسلام کی روشنی میرے دل میں بھی ڈال ہی دی۔ذیلی راوی  زہری نے کہا کہ پھر ہرقل نے روم کے سرداروں کو بلا کر ایک خاص کمرے میں جمع کیا، پھر ان سے کہا اے رومیو! کیا تم ہمیشہ کے لئے  اپنی فلاح اور بھلائی چاہتے ہو اور یہ کہ تمہارا ملک تمہارے ہی ہاتھ میں رہے اگر تم ایسا چاہتے ہو تو اسلام قبول کر لو یہ سنتے ہی وہ سب وحشی جانوروں کی طرح دروازے کی طرف بھاگے، دیکھا تو دروازہ بند تھا، پھر ہرقل نے سب کو اپنے پاس بلایا کہ انہیں میرے پاس لاؤ اور ان سے کہا کہ میں نے تو تمہیں آزمایا تھا کہ تم اپنے دین میں کتنے پختہ ہو، اب میں نے اس چیز کا مشاہدہ کر لیا جو مجھے پسند تھی۔ چنانچہ سب درباریوں نے اسے سجدہ کیا اور اس سے راضی ہو گئے۔

لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ۚ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ

ہر گز نہ پہنچو گے نیکی کی حد کو، جب تک نہ خرچ کرو کچھ ایک، جس سے محبت رکھتے ہو۔ اور جو چیز خرچ کرو گے، سو اﷲ کو معلوم ہے۔(۳:۹۲)

حدیث نمبر ۴۵۵۴

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

مدینہ میں ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس انصار میں سب سے زیادہ کھجوروں کے درخت تھے اور بیرحاء کا باغ اپنی تمام جائیداد میں انہیں سب سے زیادہ عزیز تھا۔ یہ باغ مسجد نبوی کے سامنے ہی تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس میں تشریف لے جاتے اور اس کے میٹھے اور عمدہ پانی کو پیتے، پھر جب آیت لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ جب تک تم اپنی عزیز ترین چیزوں کو نہ خرچ کرو گے نیکی کے مرتبہ کو نہ پہنچ سکو گے (۳:۹۲) ۔ نازل ہوئی تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ اٹھے اور عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تک تم اپنی عزیز چیزوں کو خرچ نہ کرو گے نیکی کے مرتبہ کو نہ پہنچ سکو گے اور میرا سب سے زیادہ عزیز مال بیرحاء ہے اور یہ اللہ کی راہ میں صدقہ ہے۔ اللہ ہی سے میں اس کے ثواب و اجر کی توقع رکھتا ہوں، پس یا رسول اللہ! جہاں آپ مناسب سمجھیں اسے استعمال کریں۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خوب یہ فانی ہی دولت تھی، یہ فانی ہی دولت تھی۔ جو کچھ تم نے کہا ہے وہ میں نے سن لیا اور میرا خیال ہے کہ تم اپنے عزیز و اقرباء کو اسے دے دو۔

ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں ایسا ہی کروں گا، یا رسول اللہ! چنانچہ انہوں نے وہ باغ اپنے عزیزوں اور اپنے ناطہٰ والوں میں بانٹ دیا۔

حدیث نمبر ۴۵۵۵

پھر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے وہ باغ حسان اور ابی رضی اللہ عنہما کو دے دیا تھا۔ میں ان دونوں سے ان کا زیادہ قریبی تھا لیکن مجھے نہیں دیا۔

قُلْ فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوهَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ

تو آپ کہہ دیں کہ توریت لاؤ اور اسے پڑھو اگر تم سچے ہو۔ (۳:۹۳)

حدیث نمبر ۴۵۵۶

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

 کچھ یہودی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے قبیلہ کے ایک مرد اور ایک عورت کو لے کر آئے، جنہوں نے زنا کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا اگر تم میں سے کوئی زنا کرے تو تم اس کو کیا سزا دیتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہم اس کا منہ کالا کر کے اسے مارتے پیٹتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا توریت میں رجم کا حکم نہیں ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہم نے توریت میں رجم کا حکم نہیں دیکھا۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ بولے کہ تم جھوٹ بول رہے ہو، توریت لاؤ اور اسے پڑھو، اگر تم سچے ہو۔

 جب توریت لائی گئی تو ان کے ایک بہت بڑے مدرس نے جو انہیں توریت کا درس دیا کرتا تھا، آیت رجم پر اپنی ہتھیلی رکھ لی اور اس سے پہلے اور اس کے بعد کی عبارت پڑھنے لگا اور آیت رجم نہیں پڑھتا تھا۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے اس کے ہاتھ کو آیت رجم سے ہٹا دیا اور اس سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ جب یہودیوں نے دیکھا تو کہنے لگے کہ یہ آیت رجم ہے۔پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور ان دونوں کو مسجد نبوی کے قریب ہی جہاں جنازے لا کر رکھے جاتے تھے، رجم کر دیا گیا۔ میں نے دیکھا کہ اس عورت کا ساتھی عورت کو پتھر سے بچانے کے لئے  اس پر جھک جھک پڑتا تھا۔

كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ

تم لوگ بہترین اُمت ہو جو لوگوں کے لئے  پیدا کی گئی ہو تم نیک کاموں کا حکم کرتے ہو ، برے کاموں سے روکتے ہو ۔ (۳:۱۱۰)

حدیث نمبر ۴۵۵۷

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

 آیت كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تم لوگ لوگوں کے لئے  سب لوگوں سے بہتر ہو اور کہا ان کو گردنوں میں زنجیریں ڈال کر لڑائی میں گرفتار کر کے لاتے ہو پھر وہ اسلام میں داخل ہو جاتے ہیں۔

إِذْ هَمَّتْ طَائِفَتَانِ مِنْكُمْ أَنْ تَفْشَلاَ

جب تم میں سے دو جماعتیں اس کا خیال کر بیٹھی تھیں کہ وہ بزدل ہو کر ہمت ہار بیٹھیں۔(۳:۱۲۲)

حدیث نمبر ۴۵۵۸

راوی: جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما

 یہ آیت ہمارے ہی بارے میں نازل ہوئی تھی، جب ہم سے دو جماعتیں اس کا خیال کر بیٹھی تھیں کہ ہمت ہار دیں، درآں حالیکہ اللہ دونوں کا مددگار تھا۔ہم دو جماعتیں بنو حارثہ اور بنو سلمہ تھے۔ حالانکہ اس آیت میں ہمارے بودے پن کا ذکر ہے، مگر ہم کو یہ پسند نہیں کہ یہ آیت نہ اترتی کیونکہ اس میں یہ مذکور ہے کہ اللہ ان دونوں گروہوں کا مددگار سر پرست ہے۔

لَيْسَ لَكَ مِنَ الأَمْرِ شَيْءٌ

تیرا اختیار کچھ نہیں،   کہ یہ ہدایت کیوں نہیں قبول کرتے اللہ جسے چاہے اسے ہدایت ملتی ہے ۔ (۳:۱۲۸ )

حدیث نمبر ۴۵۵۹

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی دوسری رکعت کے رکوع سے سر اٹھا کر یہ بددعا کی۔ اے اللہ! فلاں، فلاں اور فلاں کافر پر لعنت کر۔ یہ بددعا آپ نے سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ‏‏‏‏‏‏ اور رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ کے بعد کی تھی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری

 لَيْسَ لَكَ مِنَ الأَمْرِ شَيْءٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ

تیرا اختیار کچھ نہیں، سارا اختیار اﷲ پاس ہے یا اُن کو توبہ دے یا ا نکو عذاب کرے، کہ وہ نا حق پر ظالم ہیں۔ (۳:۱۲۸ )

حدیث نمبر ۴۵۶۰

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی پر بددعا کرنا چاہتے یا کسی کے لئے  دعا کرنا چاہتے تو رکوع کے بعد کرتے،‏‏‏‏ ‏‏‏‏‏‏ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ ککے بعد۔

بعض اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا بھی کی

اے اللہ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام اور عیاش بن ابی ربیعہ کو نجات دے، اے اللہ! مضر والوں کو سختی کے ساتھ پکڑ لے اور ان میں ایسی قحط سالی لا، جیسی یوسف علیہ السلام کے زمانے میں ہوئی تھی۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم بلند آواز سے یہ دعا کرتے اور آپ نماز فجر کی بعض رکعت میں یہ دعا کرتے۔

اے اللہ، فلاں اور فلاں کو اپنی رحمت سے دور کر دے۔ عرب کے چند خاص قبائل کے حق میں آپ یہ بددعا کرتے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آیت نازل کی

لَيْسَ لَكَ مِنَ الأَمْرِ شَيْءٌ

آپ کو اس امر میں کوئی دخل نہیں۔(۳:۱۲۸ )

وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ فِي أُخْرَاكُمْ

اور رسول تم کو پکارتے تھے تمہارے پیچھے سے ۔ (۳:۱۵۳)

 ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا دو سعادتوں میں سے ایک سعادت فتح اور دوسری شہادت ہے۔

حدیث نمبر ۴۵۶۱

راوی: براء بن عازب رضی اللہ عنہ

احد کی لڑائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیر اندازوں کے پیدل دستے پر عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کو افسر مقرر کیا تھا، پھر بہت سے مسلمانوں نے پیٹھ پھیر لی، آیت میں اسی کی طرف اشارہ ہے، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بارہ صحابیوں کے سوا اور کوئی موجود نہ تھا۔

وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ فِي أُخْرَاكُمْ

اور رسول تم کو پکار رہے تھے تمہارے پیچھے سے (۳:۱۵۳) ۔

ثُمَّ أَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ بَعْدِ الْغَمِّ أَمَنَةً نُعَاسًا

پھر تم پر اتاری تنگی کے بعد اُونگھ، (۳:۱۵۴)

حدیث نمبر ۴۵۶۲

راوی: ابوطلحہ رضی اللہ عنہ

احد کی لڑائی میں جب ہم صف باندھے کھڑے تھے تو ہم پر غنودگی طاری ہو گئی ۔ کیفیت یہ ہو گئی تھی کہ نیند سے میری تلوار ہاتھ سے باربار گرتی اور میں اسے اٹھاتا۔

الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا مِنْهُمْ وَاتَّقَوْا أَجْرٌ عَظِيمٌ

جن لوگوں نے اللہ اور اسکے رسول کی دعوت کو قبول کر لیا بعد اسکے کہ انہیں زخم پہنچ چکا تھا ، ان میں سے جو نیک اور متقی ہیں انکے لئے  بہت بڑا ثواب ہے ۔ (۳:۱۷۲)

الْقَرْحُ یعنی الْجِرَاحُ، زخم۔ اسْتَجَابُوا یعنی أَجَابُوا، انہوں نے قبول کیا۔

إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ} الَّذِينَ ... وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ

جن کو کہا لوگوں نے کہ انہوں نے جمع کی بہت اسباب تمہارے مقابلے کو، سو تم ان سے ڈر کرو، پھر ان کو زیادہ آیا ایمان۔اور بولے بس ہے ہم کو اﷲ اور کیا خوب کار ساز ہے۔ (۳:۱۷۳)

حدیث نمبر ۴۵۶۳

 کلمہ حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ (۳:۱۷۳) ابراہیم علیہ السلام نے کہا تھا، اس وقت جب ان کو آگ میں ڈالا گیا تھا اور یہی کلمہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت کہا تھا جب لوگوں نے مسلمانوں کو ڈرانے کے لئے  کہا تھا کہ لوگوں یعنی قریش نے تمہارے خلاف بڑا سامان جنگ اکٹھا کر رکھا ہے، ان سے ڈرو لیکن اس بات نے ان مسلمانوں کا جوش ایمان اور بڑھا دیا اور یہ مسلمان بولے کہ ہمارے لئے  اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کام بنانے والا ہے۔

حدیث نمبر ۴۵۶۴

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

جب ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا تو آخری کلمہ جو آپ کی زبان مبارک سے نکلا ‏‏‏‏‏‏ حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ  تھا یعنی میری مدد کے لئے  اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کام بنانے والا ہے۔

وَلاَ يَحْسِبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ… وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ

اور جو لوگ کہ اس مال میں بخل کرتے رہتے ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دے رکھا ہے ، وہ ہرگز یہ نہ سمجھیں کہ یہ مال ان کے حق میں اچھا ہے ، نہیں ، بلکہ ان کے حق میں بہت برا ہے ،

یقیناً قیامت کے دن انہیں اس کا طوق بنا کر پہنایا جائے گا ، جس میں انہوں نے بخل کیا تھا اور آسمانوں اور زمین کا اللہ ہی مالک ہے اور جو تم کرتے ہو اللہ اس سے خبردار ہے ۔ (۳:۱۸۰)

حدیث نمبر ۴۵۶۵

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور پھر اس نے اس کی زکٰوۃ نہیں ادا کی تو آخرت میں اس کا مال نہایت زہریلے سانپ بن کر جس کی آنکھوں کے اوپر دو نقطے ہوں گے۔ اس کی گردن میں طوق کی طرح پہنا دیا جائے گا۔ پھر وہ سانپ اس کے دونوں جبڑوں کو پکڑ کر کہے گا کہ میں ہی تیرا مال ہوں، میں ہی تیرا خزانہ ہوں، پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی

وَلاَ يَحْسِبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ

اور جو لوگ کہ اس مال میں بخل کرتے ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دے رکھا ہے، وہ یہ نہ سمجھیں کہ یہ مال ان کے حق میں بہتر ہے(۳:۱۸۰) …

وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا

اور یقیناً تم لوگ بہت سی دل دکھانے والی باتیں ان سے سنو گے جنہیں تم سے پہلے کتاب مل چکی ہے اور ان سے بھی سنو گے جو مشرک ہیں۔ (۳:۱۸۶)

حدیث نمبر ۴۵۶۶

راوی: اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے کی پشت پر فدک کی بنی ہوئی ایک موٹی چادر رکھنے کے بعد سوار ہوئے اور مجھے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم  کو اپنے پیچھے بٹھایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنو حارث بن خزرج میں سعد بن عبادہ رضی اللہ کی مزاج پرسی کے لئے  تشریف لے جا رہے تھے۔ یہ جنگ بدر سے پہلے کا واقعہ ہے۔ راستہ میں ایک مجلس سے آپ گزرے جس میں عبداللہ بن ابی ابن سلول منافق بھی موجود تھا، یہ عبداللہ بن ابی کے ظاہری اسلام لانے سے بھی پہلے کا قصہ ہے۔

مجلس میں مسلمان اور مشرکین یعنی بت پرست اور یہودی سب ہی طرح کے لوگ تھے، انہیں میں عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ سواری کی ٹاپوں سے گرد اڑی اور مجلس والوں پر پڑی تو عبداللہ بن ابی نے چادر سے اپنی ناک بند کر لی اور بطور تحقیر کہنے لگا کہ ہم پر گرد نہ اڑاؤ، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی قریب پہنچ گئے اور انہیں سلام کیا، پھر آپ سواری سے اتر گئے اور مجلس والوں کو اللہ کی طرف بلایا اور قرآن کی آیتیں پڑھ کر سنائیں۔ اس پر عبداللہ بن ابی ابن سلول کہنے لگا، جو کلام آپ نے پڑھ کر سنایا ہے، اس سے عمدہ کوئی کلام نہیں ہو سکتا۔ اگرچہ یہ کلام بہت اچھا، پھر بھی ہماری مجلسوں میں آ آ کر آپ ہمیں تکلیف نہ دیا کریں، اپنے گھر بیٹھیں، اگر کوئی آپ کے پاس جائے تو اسے اپنی باتیں سنایا کریں۔ یہ سن کر عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے کہا، ضرور یا رسول اللہ! آپ ہماری مجلسوں میں تشریف لایا کریں، ہم اسی کو پسند کرتے ہیں۔

اس کے بعد مسلمان، مشرکین اور یہودی آپس میں ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے لگے اور قریب تھا کہ فساد اور لڑائی تک کی نوبت پہنچ جاتی لیکن آپ نے انہیں خاموش اور ٹھنڈا کر دیا اور آخر سب لوگ خاموش ہو گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر سوار ہو کر وہاں سے چلے آئے اور سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے یہاں تشریف لے گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے بھی اس کا ذکر کیا کہ سعد! تم نے نہیں سنا، ابوحباب، آپ کی مراد عبداللہ بن ابی ابن سلول سے تھی، کیا کہہ رہا تھا؟ اس نے اس طرح کی باتیں کی ہیں۔ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ اسے معاف فرما دیں اور اس سے درگزر کر دیں۔ اس ذات کی قسم! جس نے آپ پر کتاب نازل کی ہے اللہ نے آپ کے ذریعہ وہ حق بھیجا ہے جو اس نے آپ پر نازل کیا ہے۔ اس شہر مدینہ کے لوگ پہلے اس پر متفق ہو چکے تھے کہ اس عبداللہ بن ابی کو تاج پہنا دیں اور شاہی عمامہ اس کے سر پر باندھ دیں لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اس حق کے ذریعہ جو آپ کو اس نے عطا کیا ہے، اس باطل کو روک دیا تو اب وہ چڑ گیا ہے اور اس وجہ سے وہ معاملہ اس نے آپ کے ساتھ کیا جو آپ نے ملاحظہ فرمایا ہے۔ آپ نے اسے معاف کر دیا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم مشرکین اور اہل کتاب سے درگزر کیا کرتے تھے اور ان کی اذیتوں پر صبر کیا کرتے تھے۔ اسی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی

اور یقیناً تم بہت سی دل آزاری کی باتیں ان سے بھی سنو گے، جنہیں تم سے پہلے کتاب مل چکی ہے اور ان سے بھی جو مشرک ہیں اور اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو یہ بڑے عزم و حوصلہ کی بات ہے ۳:۱۸۶  

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا

بہت سے اہل کتاب تو دل ہی سے چاہتے ہیں کہ تمہیں ایمان لے آنے کے بعد پھر سے کافر بنا لیں، حسد کی راہ سے جو ان کے دلوں میں ہے۔ آخر آیت تک ۲:۱۰۹ ۔

 جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ کفار کو معاف کر دیا کرتے تھے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کے ساتھ جنگ کی اجازت دے دی اور جب آپ نے غزوہ بدر کیا تو اللہ تعالیٰ کی منشا کے مطابق قریش کے کافر سردار اس میں مارے گئے تو عبداللہ بن ابی ابن سلول اور اس کے دوسرے مشرک اور بت پرست ساتھیوں نے آپس میں مشورہ کر کے ان سب نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام پر بیعت کر لی اور ظاہراً اسلام میں داخل ہو گئے۔

لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَيُحِبُّونَ…وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

تو نہ سمجھ کہ جو لوگ خوش ہوتے ہیں اپنے کئے پراور تعریف چاہتے ہیں بن کئے پر، سو نہ جان کہ وہ خلاص ہیں عذاب سے۔ اور ان کو دُکھ کی مار ہے۔(۳:۱۸۸)

حدیث نمبر ۴۵۶۷

راوی: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں چند منافقین ایسے تھے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جہاد کے لئے  تشریف لے جاتے تو یہ مدینہ میں پیچھے رہ جاتے اور پیچھے رہ جانے پر بہت خوش ہوا کرتے تھے لیکن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس آتے تو عذر بیان کرتے اور قسمیں کھا لیتے بلکہ ان کو ایسے کام پر تعریف ہونا پسند آتا جس کو انہوں نے نہ کیا ہوتا اور بعد میں چکنی چیڑی باتوں سے اپنی بات بنانا چاہتے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی پر یہ آیت  اتاری ۔

لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَيُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُ وا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا فَلَا تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِنَ الْعَذَابِ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ۔

حدیث نمبر ۴۵۶۸

راوی: علقمہ بن وقاص

مروان بن حکم نے جب وہ مدینہ کے امیر تھے اپنے دربان سے کہا کہ رافع! ابن عباس رضی اللہ عنہما کے یہاں جاؤ اور ان سے پوچھو کہ آیت لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ کی رو سے تو ہم سب کو عذاب ہونا چاہیئے کیونکہ ہر ایک آدمی ان نعمتوں پر جو اس کو ملی ہیں، خوش ہے اور یہ چاہتا ہے کہ جو کام اس نے کیا نہیں اس پر بھی اس کی تعریف ہو۔

 ابورافع نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے جا کر پوچھا، تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا، تم مسلمانوں سے اس آیت کا کیا تعلق! یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو بلایا تھا اور ان سے ایک دین کی بات پوچھی تھی۔ جو ان کی آسمانی کتاب میں موجود تھی انہوں نے اصل بات کو تو چھپایا اور دوسری غلط بات بیان کر دی، پھر بھی اس بات کے خواہشمند رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوال کے جواب میں جو کچھ انہوں نے بتایا ہے اس پر ان کی تعریف کی جائے اور ادھر اصل حقیقت کو چھپا کر بھی بڑے خوش تھے۔ پھر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس آیت کی تلاوت کی

 وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ

اور وہ وقت یاد کرو جب اللہ نے اہل کتاب سے عہد لیا تھا کہ کتاب کو پوری ظاہر کر دینا لوگوں پر،  

لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَيُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُ وا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا

جو لوگ اپنے کرتوتوں پر خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو کام نہیں کئے ہیں، ان پر بھی ان کی تعریف کی جائے۔(۳:۱۸۷،۸۸)

إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ

بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات دن کے اختلاف ہونے میں عقلمندوں کے لئے  بہت سی نشانیاں ہیں۔ (۳:۱۹۰)

اخْتِلَافِ سے رات و دن کا گھٹنا بڑھنا مراد ہے ، جو موسمی اثرات سے ہوتا رہتا ہے ، یہ سب قدرت الٰہی کے نمونے ہیں۔

حدیث نمبر ۴۵۶۹

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

میں ایک رات اپنی خالہ اُم المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر رہ گیا۔ پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیوی میمونہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھوڑی دیر تک بات چیت کی پھر سو گئے۔ جب رات کا تیسرا حصہ باقی رہا تو آپ اٹھ کر بیٹھ گئے اور آسمان کی طرف نظر کی اور یہ آیت تلاوت کی:

إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ

بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات دن کے اختلاف ہونے میں عقلمندوں کے لئے  بہت سی نشانیاں ہیں۔ (۳:۱۹۰)

اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور وضو کیا اور مسواک کی، پھر گیارہ رکعتیں تہجد اور وتر پڑھیں۔ جب بلال رضی اللہ عنہ نے فجر کی اذان دی تو آپ نے دو رکعت فجر کی سنت پڑھی اور باہر مسجد میں تشریف لائے اور فجر کی نماز پڑھائی۔

الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ … سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ

وہ جو یاد کرتے ہیں اﷲ کو کھڑے اور بیٹھے اور کروٹ پر لیٹے،اور دھیان کرتے ہیں آسمان اور زمین کی پیدائش میں

اے رب ہمارے! تُو نے یہ عبث نہیں بنایا۔ تُو پاک ہے عیب سے، سو ہم کو بچا دوزخ کے عذاب سے۔(۳:۱۹۱)

حدیث نمبر ۴۵۷۰

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

میں ایک رات اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے یہاں سو گیا، ارادہ یہ تھا کہ آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز دیکھوں گا۔ میری خالہ نے آپ کے لئے  گدا بچھا دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے طول میں لیٹ گئے پھر جب آخری رات میں بیدار ہوئے تو چہرہ مبارک پر ہاتھ پھیر کر نیند کے آثار دور کئے۔

 پھر سورۃ آل عمران کی آخری دس آیات پڑھیں، اس کے بعد آپ ایک مشکیزے کے پاس آئے اور اس سے پانی لے کر وضو کیا اور نماز پڑھنے کے لئے  کھڑے ہو گئے۔ میں بھی کھڑا ہو گیا اور جو کچھ آپ نے کیا تھا وہی سب کچھ میں نے بھی کیا اور آپ کے پاس آ کر آپ کے بازو میں میں بھی کھڑا ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سر پر اپنا دایاں ہاتھ رکھا اور میرے کان کو شفقت سے پکڑ کر ملنے لگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت تہجد کی نماز پڑھی، پھر دو رکعت نماز پڑھی، پھر دو رکعت نماز پڑھی، پھر دو رکعت نماز پڑھی، پھر دو رکعت نماز پڑھی، پھر دو رکعت نماز پڑھی، پھر وتر کی نماز پڑھی۔

رَبَّنَا إِنَّكَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ أَخْزَيْتَهُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ

اے ہمارے رب ! تو نے جسے دوزخ میں داخل کر دیا ، اسے تو نے واقعی ذلیل و رسوا کر دیا اور ظالموں کا کوئی بھی مددگار نہیں ہے ۔ (۳:۱۹۲)

حدیث نمبر ۴۵۷۱

راوی: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما

ایک رات وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں رہ گئے جو ان کی خالہ تھیں۔ انہوں نے کہا کہ میں بستر کے عرض میں لیٹا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی بیوی طول میں لیٹے، پھر آپ سو گئے اور آدھی رات میں یا اس سے تھوڑی دیر پہلے یا بعد میں آپ بیدار ہوئے اور چہرہ پر ہاتھ پھیر کر نیند کو دور کیا۔ پھر سورۃ آل عمران کی آخری دس آیتوں کی تلاوت کی۔اس کے بعد آپ اٹھ کر مشکیزے کے قریب گئے جو لٹکا ہوا تھا۔ اس کے پانی سے آپ نے وضو بہت ہی اچھی طرح سے پورے آداب کے ساتھ کیا اور نماز پڑھنے کے لئے  کھڑے ہو گئے۔ میں نے بھی آپ ہی کی طرح وضو وغیرہ کیا اور نماز کے لئے  آپ کے بازو میں جا کر کھڑا ہو گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا داہنا ہاتھ میرے سر پر رکھا اور اسی ہاتھ سے بطور شفقت میرا کان پکڑ کر ملنے لگے، پھر آپ نے دو رکعت نماز پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی اور پھر دو رکعت پڑھی اور آخر میں وتر کی نماز پڑھی۔ اس سے فارغ ہو کر آپ لیٹ گئے، پھر جب مؤذن آیا تو آپ اٹھے اور دو ہلکی فجر کی سنت رکعتیں پڑھیں اور نماز فرض کے لئے  باہر تشریف مسجد میں لے گئے اور صبح کی نماز پڑھائی۔

رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي لِلإِيمَانِ… وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ

اے رب ہمارے ہم نے سنا کہ پکارنے والا پکارتا ہے ایمان لانے کو، کہ ایمان لاؤ اپنے رب پر، سو ہم ایمان لائے،

اے رب ہمارے اب بخش گناہ ہمارے اور اتار ہماری برائیاں اور موت دے ہم کو نیک لوگوں کے ساتھ۔(۳:۱۹۳)

حدیث نمبر ۴۵۷۲

راوی: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما

آپ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر رہ گئے۔ میمونہ رضی اللہ عنہا ان کی خالہ تھیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں بستر کے عرض میں لیٹ گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی بیوی طول میں لیٹے، پھر آپ سو گئے اور آدھی رات میں یا اس سے تھوڑی دیر پہلے یا تھوڑی دیر بعد آپ جاگے اور بیٹھ کر چہرہ پر نیند کے آثار دور کرنے کے لئے  ہاتھ پھیرنے لگے اور سورۃ آل عمران کی آخری دس آیات پڑھیں۔اس کے بعد آپ مشکیزہ کے پاس گئے جو لٹکا ہوا تھا، اس سے تمام آداب کے ساتھ آپ نے وضو کیا، پھر نماز کے لئے  کھڑے ہوئے۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں بھی اٹھا اور میں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح وضو وغیرہ کیا اور جا کر آپ کے بازو میں کھڑا ہو گیا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا داہنا ہاتھ میرے سر پر رکھا اور شفقت سے میرے داہنے کان کو پکڑ کر ملنے لگے۔ پھر آپ نے دو رکعت نماز پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی اور آخر میں انہیں وتر بنایا، پھر آپ لیٹ گئے اور جب مؤذن آپ کے پاس آیا تو آپ اٹھے اور دو ہلکی رکعتیں پڑھ کر باہر مسجد میں تشریف لے گئے اور صبح کی نماز پڑھائی۔

سورۃ نساء کی تفسیر

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ قرآن مجید کی آیت يَسْتَنْكِفُ، يَسْتَكْبِرُ کے معنی میں ہے۔ قِوَامًا یعنی جس پر تمہارے گزران کی بنیاد قائم ہے۔ ‏‏‏‏‏‏ لَهُنَّ سَبِيلًا یعنی شادی شدہ کے لئے  رجم اور کنوارے کے لئے  کوڑے کی سزا ہے جب وہ زنا کریں ۔

اور دوسرے لوگوں نے کہا آیت میں مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ سے مراد دو دو تین تین اور چار چار ہیں۔ اہل عرب رُبَاعَ  سے آگے اس وزن سے تجاوز نہیں کرتے۔

وَإِنْ خِفْتُمْ أَنْ لاَ تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى

باب: اور اگر ڈرو کہ انصاف نہ کرو گے یتیم لڑکیوں کے حق میں، (۴:۳)

حدیث نمبر ۴۵۷۳

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

 ایک آدمی کی پرورش میں ایک یتیم لڑکی تھی، پھر اس نے اس سے نکاح کر لیا، اس یتیم لڑکی کی ملکیت میں کھجور کا ایک باغ تھا۔ اسی باغ کی وجہ سے یہ شخص اس کی پرورش کرتا رہا حالانکہ دل میں اس سے کوئی خاص لگاؤ نہ تھا۔ اس سلسلے میں یہ آیت اتری

 وَإِنْ خِفْتُمْ أَنْ لاَ تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى

اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیموں کے حق میں انصاف نہ کر سکو گے۔(۴:۳)

ذیلی راوی ہشام بن یوسف نے کہا میں سمجھتا ہوں، ابن جریج ذیلی راوی نے یوں کہا یہ لڑکی اس درخت اور دوسرے مال اسباب میں اس مرد کی حصہ دار تھی۔

حدیث نمبر ۴۵۷۴

راوی: عروہ بن زبیر

انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے آیت وَإِنْ خِفْتُمْ أَنْ لاَ تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى  کا مطلب پوچھا۔ انہوں نے کہا میرے بھانجے اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک یتیم لڑکی اپنے ولی کی پرورش میں ہو اور اس کی جائیداد کی حصہ دار ہو ترکے کی رو سے اس کا حصہ ہو اب اس ولی کو اس کی مالداری خوبصورتی پسند آئے۔ اس سے نکاح کرنا چاہے پر انصاف کے ساتھ پورا مہر جتنا مہر اس کو دوسرے لوگ دیں، نہ دینا چاہے، تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں لوگوں کو ایسی یتیم لڑکیوں کے ساتھ جب تک ان کا پورا مہر انصاف کے ساتھ نہ دیں، نکاح کرنے سے منع فرمایا اور ان کو یہ حکم دیا کہ تم دوسری عورتوں سے جو تم کو بھلی لگیں نکاح کر لو۔ یتیم لڑکی کا نقصان نہ کرو ۔

عروہ نے کہا عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی تھیں، اس آیت کے اترنے کے بعد لوگوں نے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں مسئلہ پوچھا، اس وقت اللہ نے یہ آیت وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ  (۴:۱۲۷) اتاری۔

عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا دوسری آیت میں یہ جو فرمایا وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ  (۴:۱۲۷) یعنی وہ یتیم لڑکیاں جن کا مال و جمال کم ہو اور تم ان کے ساتھ نکاح کرنے سے نفرت کرو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تم ان یتیم لڑکیوں سے جن کا مال و جمال کم ہو نکاح کرنا نہیں چاہتے تو مال اور جمال والی یتیم لڑکیوں سے بھی جن سے تم کو نکاح کرنے کی رغبت ہے نکاح نہ کرو، مگر جب انصاف کے ساتھ ان کا مہر پورا ادا کرو۔

وَمَنْ كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُوا عَلَيْهِمْ وَكَفَى بِاللَّهِ حَسِيبًا

اور جو کوئی محتاج ہے، تو کھائے موافق دستور کے، پھر جب ان کو حوالے کرو اُن کے مال، تو  گواہ کر لو اس پر اور اﷲ بس کافی ہے حساب سمجھنے لینے والا۔(۴:۶)

حدیث نمبر ۴۵۷۵

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

 اللہ تعالیٰ کے ارشاد وَمَنْ كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ وَمَنْ كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ بلکہ جو شخص خوشحال ہو وہ اپنے کو بالکل روکے رکھے۔ البتہ جو شخص نادار ہو وہ واجبی طور پر کھا سکتا ہے (۴:۶) ۔ کے بارے میں فرمایا کہ یہ آیت یتیم کے بارے میں اتری ہے کہ اگر ولی نادار ہو تو یتیم کی پرورش اور دیکھ بھال کی اجرت میں وہ واجبی طور پر یتیم کے مال میں سے کچھ کھا سکتا ہے بشرطیکہ نیت میں فساد نہ ہو ۔

وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُو الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينُ فَارْزُقُوهُمْ مِنْهُوَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَعْرُوفًا

اور جب تقسیم ورثہ کے وقت کچھ عزیز قرابت دار اور بچے اور یتیم اور مسکین لوگ موجود ہوں تو ان کو بھی کچھ دے دیا کرو اور کہو ان کو بات معقول۔(۴:۸)

حدیث نمبر ۴۵۷۶

راوی: عکرمہ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُو الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينُ اور جب تقسیم کے وقت عزیز و اقارب اور یتیم اور مسکین موجود ہوں (۴:۸) ۔ کے متعلق فرمایا کہ یہ محکم ہے، منسوخ نہیں ہے۔

يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ

اللہ تمہیں تمہاری اولاد کی میراث کے بارے میں وصیت کرتا ہے ، (۴:۱۱)

حدیث نمبر ۴۵۷۷

راوی: جابر رضی اللہ عنہ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ قبیلہ بنو سلمہ تک پیدل چل کر میری عیادت کے لئے  تشریف لائے۔ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ مجھ پر بے ہوشی طاری ہے، اس لئے  آپ نے پانی منگوایا اور وضو کر کے اس کا پانی مجھ پر چھڑکا، میں ہوش میں آ گیا، پھر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کا کیا حکم ہے، میں اپنے مال کا کیا کروں؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی

يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ  

اللہ تمہیں تمہاری اولاد کی میراث کے بارے میں حکم دیتا ہے۔(۴:۱۱)

وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ

اور تمہارے لئے  اس مال کا آدھا حصہ ہے جو تمہاری بیویاں چھوڑ جائیں جبکہ ان کے اولاد نہ ہو۔ (۴:۱۲)

حدیث نمبر ۴۵۷۸

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

 ابتداء اسلام میں میت کا سارا مال اولاد کو ملتا تھا، البتہ والدین کو وہ ملتا جو میت ان کے لئے  وصیت کر جائے، پھر اللہ تعالیٰ نے جیسا مناسب سمجھا اس میں نسخ کر دیا۔ چنانچہ اب مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصہ کے برابر ہے اور میت کے والدین یعنی ان دونوں میں ہر ایک کے لئے  اس مال کا چھٹا حصہ ہے۔ بشرطیکہ میت کے کوئی اولاد ہو، لیکن اگر اس کے کوئی اولاد نہ ہو، بلکہ اس کے والدین ہی اس کے وارث ہوں تو اس کی ماں کا ایک تہائی حصہ ہو گا اور بیوی کا آٹھواں حصہ ہو گا، جبکہ اولاد ہو، لیکن اگر اولاد نہ ہو تو چوتھائی ہو گا اور شوہر کا آدھا حصہ ہو گا، جبکہ اولاد نہ ہو لیکن اگر اولاد ہو تو چوتھائی ہو گا۔

لاَ يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا…  وَيَجۡعَلَ ٱللَّهُ فِيهِ خَيۡرً۬ا ڪَثِيرً۬ا

اے ایمان والو! حلال نہیں تم کو کہ میراث میں لے لو عورتوں کو زبردستی۔ اور نہ اُن پر دباؤ ڈالوکہ لے لو اُن سے کچھ اپنا دیا، مگر کہ وہ کریں بے حیائی صریح۔

اور گذران برتاؤ کرو عورتوں کے ساتھ معقول۔ پھر اگر وہ تم کو نہ بھائیں نا پسند ہو ، تو شاید تم کو نہ بھائے نا پسند ہو ایک چیز اور اﷲ اس میں رکھے بہت خوبی۔(۴:۱۹)

ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ لَا تَعْضُلُوهُنَّ کے معنی یہ ہیں کہ ان پر جبر و قہر نہ کرو، ‏‏‏‏‏‏حُوبًا یعنی گناہ۔ ‏‏‏‏‏‏تَعُولُوا یعنی تَمِيلُوا، جھکو تم۔ لفظ النِّحْلَةُ مہر کے لئے  آیا ہے۔

حدیث نمبر ۴۵۷۹

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

 ‏‏‏‏‏‏يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا وَلا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ

 اے ایمان والو! تمہارے لئے  جائز نہیں کہ تم عورتوں کے زبردستی مالک ہو جاؤ اور نہ انہیں اس غرض سے قید رکھو کہ تم نے انہیں جو کچھ دے رکھا ہے اس کا کچھ حصہ وصول کر لو، (۴:۱۹)

انہوں نے بیان کیا کہ جاہلیت میں کسی عورت کا شوہر مر جاتا تو شوہر کے رشتہ دار اس عورت کے زیادہ مستحق سمجھے جاتے۔ اگر انہیں میں سے کوئی چاہتا تو اس سے شادی کر لیتا، یا پھر وہ جس سے چاہتے اسی سے اس کی شادی کرتے اور چاہتے تو نہ بھی کرتے، اس طرح عورت کے گھر والوں کے مقابلہ میں بھی شوہر کے رشتہ دار اسکے زیادہ مستحق سمجھے جاتے، اسی پر یہ آیت نازل ہوئی۔

وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ

اور جو مال والدین اور قرابت دار چھوڑ جائیں اس کے لئے  ہم نے وارث ٹھہرا دیئے ہیں۔ (۴:۳۳)

معمر نے کہا کہ مَوَالِيَ سے مراد اس کے اولیاء اور وارث ہیں۔ وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ سے وہ لوگ مراد ہیں جن کو قسم کھا کر اپنا وارث بناتے تھے یعنی حلیف۔ اور مَوْلَى  کے کئی معانی آئے ہیں، چچا کا بیٹا، غلام، لونڈی کا مالک، جو اس پر احسان کرے، اس کو آزاد کرے، خود غلام، جو آزاد کیا جائے، مالک، دین کا پیشوا۔

حدیث نمبر ۴۵۸۰

راوی: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما

 بیان کیا کہ آیت میں وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ سے مراد وارث ہیں اور   وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ  کی تفسیر یہ ہے کہ شروع میں جب مہاجرین مدینہ آئے تو قرابت داروں کے علاوہ انصار کے وارث مہاجرین بھی ہوتے تھے۔ اس بھائی چارہ کی وجہ سے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین اور انصار کے درمیان کرایا تھا، پھر جب یہ آیت نازل ہوئی کہ وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ  تو پہلا طریقہ منسوخ ہو گیا۔

 پھر بیان کیا کہ وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ سے وہ لوگ مراد ہیں، جن سے دوستی اور مدد اور خیر خواہی کی قسم کھا کر عہد کیا جائے۔ لیکن اب ان کے لئے  میراث کا حکم منسوخ ہو گیا مگر وصیت کا حکم رہ گیا۔

إِنَّ اللَّهَ لاَ يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ

بیشک اللہ ایک ذرہ برابر بھی کسی پر ظلم نہیں کرے گا ،  (۴:۴۰)

مِثْقَالَ ذَرَّةٍ سے ذرہ برابر مراد ہے

حدیث نمبر ۴۵۸۱

راوی: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ

کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ! کیا قیامت  کے دن ہم اپنے رب کو دیکھ سکیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، کیا سورج کو دوپہر کے وقت دیکھنے میں تمہیں کوئی دشواری ہوتی ہے، جبکہ اس پر بادل بھی نہ ہو؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ نہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور کیا چودھویں رات کے چاند کو دیکھنے میں تمہیں کچھ دشواری پیش آتی ہے، جبکہ اس پر بادل نہ ہو؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ نہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بس اسی طرح تم بلا کسی دقت اور رکاوٹ کے اللہ تعالیٰ کو دیکھو گے۔

قیامت  کے دن ایک منادی ندا کرے گا کہ ہر اُمت اپنے جھوٹے معبودوں کے ساتھ حاضر ہو جائے۔ اس وقت اللہ کے سوا جتنے بھی بتوں اور پتھروں کی پوجا ہوتی تھی، سب کو جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔ پھر جب وہی لوگ باقی رہ جائیں گے جو صرف اللہ کی پوجا کیا کرتے تھے، خواہ نیک ہوں یا گنہگار اور اہل کتاب کے کچھ لوگ، تو پہلے یہود کو بلایا جائے گا اور پوچھا جائے گا کہ تم اللہ کے سو کس کی پوجا کرتے تھے؟ وہ عرض کریں گے کہ عزیر ابن اللہ کی، اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا لیکن تم جھوٹے تھے، اللہ نے نہ کسی کو اپنی بیوی بنایا اور نہ بیٹا، اب تم کیا چاہتے ہو؟ وہ کہیں گے، ہمارے رب! ہم پیاسے ہیں، ہمیں پانی پلا دے۔ انہیں اشارہ کیا جائے گا کہ کیا ادھر نہیں چلتے۔ چنانچہ سب کو جہنم کی طرف لے جایا جائے گا۔ وہاں چمکتی ریت پانی کی طرح نظر آئے گی، بعض بعض کے ٹکڑے کئے دے رہی ہو گی۔ پھر سب کو آگ میں ڈال دیا جائے گا۔

 پھر نصاریٰ کو بلایا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا کہ تم کس کی عبادت کیا کرتے تھے؟ وہ کہیں گے کہ ہم مسیح ابن اللہ کی عبادت کرتے تھے۔ ان سے بھی کہا جائے گا کہ تم جھوٹے تھے۔ اللہ نے کسی کو بیوی اور بیٹا نہیں بنایا، پھر ان سے پوچھا جائے گا کہ کیا چاہتے ہو؟ اور ان کے ساتھ یہودیوں کی طرح برتاؤ کیا جائے گا۔

یہاں تک کہ جب ان لوگوں کے سوا اور کوئی باقی نہ رہے گا جو صرف اللہ کی عبادت کرتے تھے، خواہ وہ نیک ہوں یا گنہگار، تو ان کے پاس ان کا رب ایک صورت میں جلوہ گر ہو گا، جو پہلی صورت سے جس کو وہ دیکھ چکے ہوں گے، ملتی جلتی ہو گی یہ وہ صورت نہ ہو گی اب ان سے کہا جائے گا۔ اب تمہیں کس کا انتظار ہے؟ ہر اُمت اپنے معبودوں کو ساتھ لے کر جا چکی، وہ جواب دیں گے کہ ہم دنیا میں جب لوگوں سے جنہوں نے کفر کیا تھ جدا ہوئے تو ہم ان میں سب سے زیادہ محتاج تھے، پھر بھی ہم نے ان کا ساتھ نہیں دیا اور اب ہمیں اپنے سچے رب کا انتظار ہے جس کی ہم دنیا میں عبادت کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تمہارا رب میں ہی ہوں۔ اس پر تمام مسلمان بول اٹھیں گے کہ ہم اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے، دو یا تین مرتبہ یوں کہیں گے ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنے والے نہیں ہیں۔

فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلاَءِ شَهِيدًا

سو اس وقت کیا حال ہو گا جب ہم ہر اُمت سے ایک ایک گواہ حاضر کریں گے اور ان لوگوں پر تجھ کو بطور گواہ پیش کریں گے۔ (۴:۴۱)

حدیث نمبر ۴۵۸۲

راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

مجھ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ۔ میں نے عرض کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو میں پڑھ کے سناؤں؟ وہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی نازل ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں دوسرے سے سننا چاہتا ہوں۔ چنانچہ میں نے آپکو سورۃ نساء سنانی شروع کی، جب میں فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلاَءِ شَهِيدًا   (۴:۴۱) پر پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ٹھہر جاؤ۔ میں نے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔

وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ … فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ ۗ

اور اگر تم مریض ہو یا سفر میں، یا آیا ہے کوئی شخص تم میں جائے ضرور سے، یا لگے مباشرت کی  ہو عورتوں سے،  

پھر نہ پایا پانی تو ارادہ کر زمین پاک تیمُّم کا، پھر ملو اپنے منہ کو اور ہاتھوں کو۔(۴:۴۳)

حدیث نمبر ۴۵۸۳

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

مجھ سے اسماء رضی اللہ عنہا کا ایک ہار گم ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند صحابہ رضی اللہ عنہم کو اسے تلاش کرنے کے لئے  بھیجا۔ ادھر نماز کا وقت ہو گیا، نہ لوگ وضو سے تھے اور نہ پانی موجود تھا۔ اس لئے  وضو کے بغیر نماز پڑھی گئی اس پر اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت نازل کی۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ

ے ایمان والو! حکم مانو اﷲ کا، اور حکم مانو رسول کا، اور جو اختیار والے ہیں تم میں، (۴:۵۹)

حدیث نمبر ۴۵۸۴

راوی: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ

اللہ کی اطاعت کرو اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اور اپنے میں سے حاکموں کی۔(۴:۵۹)

عبداللہ بن حذافہ بن قیس بن عدی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک مہم پر بطور افسر کے روانہ کیا تھا۔

فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ …قَضَيۡتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسۡلِيمً۬ا

تیرے رب کی قسم ! یہ لوگ ہرگز ایماندار نہ ہوں گے جب تک یہ لوگ اس جھگڑے میں جو ان کے آپس میں ہوں ، تجھ کو اپنا حکم نہ بنا لیں ،

پھر تیرے فیصلے کو برضا و رغبت تسلیم نہ کر لیں۔ (۴:۶۵)

حدیث نمبر ۴۵۸۵

راوی: عروہ بن زبیر

زبیر رضی اللہ عنہ کا ایک انصاری صحابی سے مقام حرہ کی ایک نالی کے بارے میں جھگڑا ہو گیا کہ اس سے کون اپنے باغ کو پہلے سینچنے کا حق رکھتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زبیر! پہلے تم اپنے باغ سینچ لو پھر اپنے پڑوسی کو جلد پانی دے دینا۔ اس پر اس انصاری صحابی نے کہا یا رسول اللہ! اس لئے  کہ یہ آپ کے پھوپھی زاد بھائی ہیں؟ یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  زبیر! اپنے باغ کو سینچو اور پانی اس وقت تک روکے رکھو کہ منڈیر تک بھر جائے، پھر اپنے پڑوسی کے لئے  اسے چھوڑو۔ پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاری کے ساتھ اپنے فیصلے میں رعایت رکھی تھی لیکن اس مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر رضی اللہ عنہ کو صاف طور پر ان کا پورا حق دے دیا کیونکہ انصاری نے ایسی بات کہی تھی جس سے آپ کا غصہ ہونا قدرتی تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پہلے فیصلہ میں دونوں کے لئے  رعایت رکھی تھی۔

 زبیر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرا خیال ہے، یہ آیات اسی سلسلے میں نازل ہوئی تھیں

فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ ۔۔۔قَضَيۡتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسۡلِيمً۬ا

تیرے پروردگار کی قسم ہے کہ یہ لوگ ایماندار نہ ہوں گے جب تک یہ اس جھگڑے میں جو ان کے آپس میں ہوں آپ کو حکم نہ بنا لیں

 اور آپ کے فیصلے کو کھلے دل کے ساتھ برضا و رغبت تسلیم کرنے کے لئے  تیار نہ ہوں۔(۴:۶۵)

فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ

سو ان کے ساتھ ہیں جن کو اﷲ نے نوازا  یعنی نبی اور صدّیق اور شہید اور نیک بخت۔ (۴:۶۹)

حدیث نمبر ۴۵۸۶

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو نبی مرض الموت میں بیمار ہوتا ہے تو اسے دنیا اور آخرت کا اختیار دیا جاتا ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مرض الموت میں جب آواز گلے میں پھنسنے لگی تو میں نے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے

مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ

ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ نے انعام کیا ہے یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ۔ (۴:۶۹)  

اس لئے  میں سمجھ گئی کہ آپ کو بھی اختیار دیا گیا ہے ۔

وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ

اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں جہاد نہیں کرتے اور ان لوگوں کی مدد کے لئے  نہیں لڑتے جو کمزور ہیں ، مردوں ، عورتوں اور لڑکوں میں سے ۔ (۴:۷۵)

حدیث نمبر ۴۵۸۷

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

انہوں نے کہا کہ میں اور میری والدہ الْمُسْتَضْعَفِينَ کمزوروں میں سے تھے۔

حدیث نمبر ۴۵۸۸

راوی: ابن ابی ملیکہ

 ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ   (۴:۷۵) کی تلاوت کی اور فرمایا کہ میں اور میری والدہ بھی ان لوگوں میں سے تھیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے معذور رکھا تھا۔

فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ وَاللَّهُ أَرْكَسَهُمْ بِمَا كَسَبُوا

تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم منافقین کے بارے میں دو گروہ ہو گئے ہو حالانکہ اللہ نے ان کے کرتوتوں کے باعث انہیں الٹا پھیر دیا۔ (۴:۸۸)

حدیث نمبر ۴۵۸۹

راوی: زید بن ثابت رضی اللہ عنہ

زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے آیت فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِاور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم منافقین کے بارے میں دو فریق ہو گئے ہو۔ (۴:۸۸) کے بارے میں فرمایا کہ کچھ لوگ منافقین جو اوپر سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، جنگ احد میں آپ چھوڑ کر واپس چلے آئے تو ان کے بارے میں مسلمانوں کی دو جماعتیں ہو گئیں۔ ایک جماعت تو یہ کہتی تھی کہ یا رسول اللہ! ان منافقین سے قتال کیجئے اور ایک جماعت یہ کہتی تھی کہ ان سے قتال نہ کیجئے۔ اس پر یہ آیت اتری

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ مدینہ طيبة ہے۔ یہ خباثت کو اس طرح دور کر دیتا ہے جیسے آگ چاندی کی میل کچیل کو دور کر دیتی ہے۔

وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِنَ الأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ

اور انہیں جب کوئی بات امن یا خوف کی پہنچتی ہے تو یہ اسے پھیلا دیتے ہیں۔(۴:۸۳)

أَذَاعُوا  کا معنی مشہور کر دیتے ہیں۔

يَسْتَنْبِطُونَهُ  نکال لیتے ہیں۔

  حَسِيبًا کا معنی کافی ہے۔

   ‏‏‏‏‏‏إِلَّا إِنَاثًا سے بے جان چیزیں مراد ہیں پتھر مٹی وغیرہ۔

  مَرِيدًا کا معنی شریر۔

  ‏‏‏‏‏‏فَلَيُبَتِّكُنَّ ، بَتَّكَهُ ، سے نکلا ہے یعنی اس کو کاٹ ڈالو۔

  قِيلًا اور قَوْلًا دونوں کے ایک ہی معنی ہیں۔ طَبَعَ  کا معنی مہر کر دی۔

وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ

اور جو کوئی کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کر دے تو اس کی سزا جہنم ہے ۔(۴:۹۳)

حدیث نمبر ۴۵۹۰

راوی: سعید بن جبیر

 انہوں نے بیان کیا کہ علماء کوفہ کا اس آیت کے بارے میں اختلاف ہو گیا تھا۔ چنانچہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں اس کے لئے  سفر کر کے گیا اور ان سے اس کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے فرمایا کہ یہ آیت وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے اس کی سزا دوزخ ہے۔ (۴:۹۳) نازل ہوئی اور اس باب کی یہ سب سے آخری آیت ہے اسے کسی آیت نے منسوخ نہیں کیا ہے۔

وَلاَ تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَى إِلَيْكُمُ السَّلاَمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا

اور جو تمہیں سلام کرے اسے یہ نہ کہہ دیا کرو کہ تو تو مسلمان ہی نہیں۔ (۴:۹۴)

السِّلْمُ وَالسَّلَمُ وَالسَّلَامُ سب کا ایک ہی معنی ہے۔

حدیث نمبر ۴۵۹۱

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

آیت وَلاَ تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَى إِلَيْكُمُ السَّلاَمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا اور جو تمہیں سلام کرتا ہو اسے یہ مت کہہ دیا کرو کہ تو تو مؤمن ہی نہیں ہے۔(۴:۹۴) کے بارے میں فرمایا کہ ایک صاحب مرداس نامی اپنی بکریاں چرا رہے تھے، ایک مہم پر جاتے ہوئے کچھ مسلمان انہیں ملے تو انہوں نے کہا السلام علیکم لیکن مسلمانوں نے بہانہ خور جان کر انہیں قتل کر دیا اور ان کی بکریوں پر قبضہ کر لیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی تھی ۔

عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا اس سے اشارہ انہیں بکریوں کی طرف تھا۔ بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے السلام‏ قرأت کی ہے، مشہور قرأت بھی یہی ہے۔

لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ

ایمان والوں میں سے بلا عذر گھروں میں بیٹھ رہنے والے اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جان سے جہاد کرنے والے برابر نہیں ہو سکتے ۔ (۴:۹۵)

حدیث نمبر ۴۵۹۲

راوی: زید بن ثابت رضی اللہ عنہ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے یہ آیت لکھوائی

لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ

مسلمانوں میں سے گھر بیٹھ رہنے والے اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جان سے جہاد کرنے والے برابر نہیں ہو سکتے۔(۴:۹۵)

ابھی آپ یہ آیت لکھوا ہی رہے تھے کہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ آ گئے اور عرض کیا اللہ کی قسم! یا رسول اللہ! اگر میں جہاد میں شرکت کر سکتا تو یقیناً جہاد کرتا۔ وہ اندھے تھے۔ اس کے بعد اللہ نے اپنے رسول پر وحی اتاری۔ آپ کی ران میری ران پر تھی شدت وحی کی وجہ سے اس کا مجھ پر اتنا بوجھ پڑا کہ مجھے اپنی ران کے پھٹ جانے کا اندیشہ ہو گیا۔ آخر یہ کیفیت ختم ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ کے الفاظ اور نازل کئے۔

حدیث نمبر ۴۵۹۳

راوی: براء بن عازب رضی اللہ عنہ

جب آیت لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ  نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو کتابت کے لئے  بلایا اور انہوں نے وہ آیت لکھ دی۔ پھر عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے اور اپنے نابینا ہونے کا عذر پیش کیا، تو اللہ تعالیٰ نے غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ کے الفاظ اور نازل کئے۔

حدیث نمبر ۴۵۹۴

راوی: براء بن عازب رضی اللہ عنہ

جب آیت لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کہ فلاں یعنی زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو بلاؤ۔ وہ اپنے ساتھ دوات اور تختی یا شانہ کی ہڈی لے کر حاضر ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لکھو  لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ  ۔ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے موجود تھے، عرض کیا یا رسول اللہ! میں نابینا ہوں۔ چنانچہ وہیں اس طرح آیت نازل ہوئ

ی لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ۔(۴:۹۵)

حدیث نمبر ۴۵۹۵

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

انہوں نے خبر دی کہ لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ سے اشارہ ہے ان لوگوں کی طرف جو بدر میں شریک تھے اور جنہوں نے بلا کسی عذر کے بدر کی لڑائی میں شرکت نہیں کی تھی، وہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔

إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلاَئِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ … قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا

بیشک ان لوگوں کی جان جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کر رکھا ہے ۔ جب فرشتے قبض کرتے ہیں تو ان سے کہتے ہیں کہ تم کس کام میں تھے ،

وہ بولیں گے ہم اس ملک میں بے بس کمزور تھے ، فرشتے کہیں گے کہ کیا اللہ کی سر زمین فراخ نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے ۔ (۴:۹۷)

حدیث نمبر ۴۵۹۶

راوی: محمد بن عبدالرحمٰن ابوالاسود

اہل مدینہ کو جب مکہ میں ابن زبیر رضی اللہ عنہما کی خلافت کا دور تھ شام والوں کے خلاف ایک فوج نکالنے کا حکم دیا گیا۔ اس فوج میں میرا نام بھی لکھا گیا تو ابن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام عکرمہ سے میں ملا اور انہیں اس صورت حال کی اطلاع کی۔ انہوں نے بڑی سختی کے ساتھ اس سے منع کیا اور فرمایا کہ مجھے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی تھی کہ کچھ مسلمان مشرکین کے ساتھ رہتے تھے اور اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ان کی زیادتی کا سبب بنتے، پھر تیر آتا اور وہ سامنے پڑ جاتے تو انہیں لگ جاتا اور اس طرح ان کی جان جاتی یا تلوار سے غلطی میں انہیں قتل کر دیا جاتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی

إِلاَّ الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ لاَ يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلاَ يَهْتَدُونَ سَبِيلاً

سوائے ان لوگوں کے جو مردوں اور عورتوں بچوں میں سے کمزور ہیں کہ نہ کوئی تدبیر ہی کر سکتے ہیں اور نہ کوئی راہ پاتے ہیں کہ ہجرت کر سکیں۔(۴:۹۸)

حدیث نمبر ۴۵۹۷

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

انہوں نے إِلاَّ الْمُسْتَضْعَفِينَ کے متعلق فرمایا کہ میری ماں بھی ان ہی لوگوں میں تھیں جنہیں اللہ نے معذور رکھا تھا۔

فَأُولَئِكَ عَسَى اللَّهُ أَنْ يَعْفُوَ عَنْهُمْ وَكَانَ اللَّهُ عَفُوًّا غَفُورًا

تو یہ لوگ ایسے ہیں کہ اللہ انہیں معاف کر دے گا اور اللہ تو بڑا ہی معاف کرنے والا اور بخش دینے والا ہے ۔ (۴:۹۹)

حدیث نمبر ۴۵۹۸

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز میں رکوع سے اٹھتے ہوئے سمع الله لمن حمده‏‏‏.‏ کہا اور پھر سجدہ میں جانے سے پہلے یہ دعا کی

اے اللہ! عیاش بن ابی ربیعہ کو نجات دے۔ اے اللہ! سلمہ بن ہشام کو نجات دے۔ اے اللہ! ولید بن ولید کو نجات دے۔ اے اللہ کمزور مومنوں کو نجات دے۔ اے اللہ! کفار مضر کو سخت سزا دے۔ اے اللہ انہیں ایسی قحط سالی میں مبتلا کر جیسی یوسف علیہ السلام کے زمانے میں قحط سالی آئی تھی۔

وَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِنْ كَانَ بِكُمْ أَذًى مِنْ مَطَرٍ أَوْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَنْ تَضَعُوا أَسْلِحَتَكُمْ

اور تمہارے لئے  اس میں کوئی حرج نہیں کہ اگر تمہیں بارش سے تکلیف ہو رہی ہو یا تم بیمار ہو تو اپنے ہتھیار اتار کر رکھ دو ۔ (۴:۱۰۲)

حدیث نمبر ۴۵۹۹

راوی: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما

انہوں نے آیت إِنْ كَانَ بِكُمْ أَذًى مِنْ مَطَرٍ أَوْ كُنْتُمْ مَرْضَى  کے متعلق  بتلایا کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ زخمی ہو گئے تھے ان سے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔

وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ وَمَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ فِي يَتَامَى النِّسَاءِ

لوگ آپ سے عورتوں کے بارے میں مسئلہ معلوم کرتے ہیں ،

آپ کہہ دیں کہ اللہ تمہیں عورتوں کی بابت حکم دیتا ہے اور وہ حکم وہی ہے جو تم کو قرآن مجید میں ان یتیم لڑکیوں کے حق میں سنایا جاتا ہے جن کو تم پورا حق نہیں دیتے ۔ (۴:۱۲۷)

حدیث نمبر ۴۶۰۰

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ یہ آیت ایسے شخص کے بارے میں نازل ہوئی کہ اگر اس کی پرورش میں کوئی یتیم لڑکی ہو اور وہ اس کا ولی اور وارث بھی ہو اور لڑکی اس کے مال میں بھی حصہ دار ہو۔ یہاں تک کہ کھجور کے درخت میں بھی۔ اب وہ شخص خود اس لڑکی سے نکاح کرنا چاہے، کیونکہ اسے یہ پسند نہیں کہ کسی دوسرے سے اس کا نکاح کر دے کہ وہ اس کے اس مال میں حصہ دار بن جائے، جس میں لڑکی حصہ دار تھی، اس وجہ سے اس لڑکی کا کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ ہونے دے تو ایسے شخص کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی تھی۔

وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا

اور اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی طرف سے ظلم زیادتی یا بے رغبتی کا خوف ہو تو ان کو باہمی صلح کر لینے میں کوئی گناہ نہیں کیونکہ صلح بہتر ہے ۔ (۴:۱۲۸)

حدیث نمبر ۴۶۰۱

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

عائشہ رضی اللہ عنہا نے آیت وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًااور کسی عورت کو اپنے شوہر کی طرف سے زیادتی یا بے رغبتی کا خوف ہو کے متعلق کہا کہ ایسا مرد جس کے ساتھ اس کی بیوی رہتی ہے، لیکن شوہر کو اس کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں، بلکہ وہ اسے جدا کر دینا چاہتا ہے، اس پر عورت کہتی ہے کہ میں اپنی باری اور اپنا نان نفقہ معاف کر دیتی ہوں تم مجھے طلاق نہ دو تو ایسی صورت کے متعلق یہ آیت اسی باب میں اتری۔

إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرَكِ الأَسْفَلِ

بلا شک منافقین دوزخ کے سب سے نچلے درجہ میں ہوں گے ۔ (۴:۱۴۵)

اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ الدَّرَكِ الأَسْفَلِ سے مراد جہنم کا سب سے نچلا درجہ ہے اور سورۃ الانعام میں نَفَقًا بمعنی سَرَبًا یعنی سرنگ مراد ہے۔

حدیث نمبر ۴۶۰۲

راوی: اسود

 ہم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے حلقہ درس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور ہمارے پاس کھڑے ہو کر سلام کیا۔ پھر کہا نفاق میں وہ جماعت مبتلا ہو گئی جو تم سے بہتر تھی۔ اس پر اسود بولے، سبحان اللہ، اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرَكِ الأَسْفَلِ کہ منافق دوزخ کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مسکرانے لگے اور حذیفہ رضی اللہ عنہ مسجد کے کونے میں جا کر بیٹھ گئے۔

اس کے بعد عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اٹھ گئے اور آپ کے شاگرد بھی اِدھر اُدھر چلے گئے۔ پھر حذیفہ رضی اللہ عنہ نے مجھ پر کنکری پھینکی یعنی مجھ کو بلای میں حاضر ہو گیا تو کہا کہ مجھے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ہنسی پر حیرت ہوئی حالانکہ جو کچھ میں نے کہا تھا اسے وہ خوب سمجھتے تھے۔ یقیناً نفاق میں ایک جماعت کو مبتلا کیا گیا تھا جو تم سے بہتر تھی، اس لئے  کہ پھر انہوں نے توبہ کر لی اور اللہ نے بھی ان کی توبہ قبول کر لی۔

إِنَّآ أَوۡحَيۡنَآ إِلَيۡكَ كَمَآ أَوۡحَيۡنَآ إِلَىٰ نُوحٍ۬ وَٱلنَّبِيِّـۧنَ مِنۢ بَعۡدِهِۦ‌ۚ وَأَوۡحَيۡنَآ إِلَىٰٓ إِبۡرَٲهِيمَ وَإِسۡمَـٰعِيلَ وَإِسۡحَـٰقَ وَيَعۡقُوبَ وَٱلۡأَسۡبَاطِ

یقیناً ہم نے آپ کی طرف وحی بھیجی ایسی ہی وحی جیسی ہم نے نوح اور ان کے بعد والے نبیوں کی طرف بھیجی تھی اور یونس اور ہارون اور سلیمان پر ۔ (۴:۱۶۳)

حدیث نمبر ۴۶۰۳

راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  کسی کے لئے  مناسب نہیں کہ مجھے یونس بن متی سے بہتر کہے۔

حدیث نمبر ۴۶۰۴

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص یہ کہتا ہے میں یونس بن متی سے بہتر ہوں اس نے جھوٹ کہا۔

يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلاَلَةِ … وَهُوَ يَرِثُهَا إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهَا وَلَدٌ

لوگ آپ سے کلالہ کے بارے میں فتویٰ پوچھتے ہیں ، آپ کہہ دیں کہ اللہ تمہیں خود کلالہ کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ اگر کوئی ایسا شخص مر جائے کہ اسکے کوئی اولاد نہ ہو

اور اس کے ایک بہن ہو تو اس سے بہن کو اس کے ترکہ کا آدھا ملے گا اور وہ مرد وارث ہو گا اس بہن کے کل ترکہ کا اگر اس بہن کے کوئی اولاد نہ ہو ۔ (۴:۱۷۶)

حدیث نمبر ۴۶۰۵

راوی: براء بن عازب رضی اللہ عنہ

 سب سے آخر میں جو سورت نازل ہوئی وہ سورۃ برأت  ہے اور احکام میراث کے سلسلے میں سب سے آخر میں جو آیت نازل ہوئی وہ يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلاَلَةِ ہے۔

سورۃ المائدہ کی تفسیر

حُرُمٌ ، حَرَامٌ ‏‏‏‏ کی جمع ہے یعنی احرام باندھے ہوئے ہو ۔

فَبِمَا نَقْضِهِمْ ، سے یہ مراد ہے کہ اللہ نے جو حکم ان کو دیا تھا کہ بیت المقدس میں داخل ہو جاؤ وہ نہیں بجا لائے۔

تَبُوءُ یعنی تو میرا گناہ اٹھا لے گا۔   دَائِرَةٌ کے معنی زمانہ کی گردش۔

الْإِغْرَاءُ  کا معنی مسلط کرنا، ڈال دینا۔ أُجُورَهُنَّ  یعنی ان کے مہر۔

المهيمن کا معنی امانتدار نگہبان قرآن گویا اگلی آسمانی کتابوں کا محافظ ہے۔

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ

آج میں نے تمہارے دین کو کامل کر دیا۔ (۵:۳)

حدیث نمبر ۴۶۰۶

راوی: طارق بن شہاب

یہودیوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ لوگ ایک ایسی آیت کی تلاوت کرتے ہیں کہ اگر ہمارے یہاں وہ نازل ہوئی ہوتی تو ہم جس دن وہ نازل ہوئی ہوتی اس دن عید منایا کرتے۔

عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، میں خوب اچھی طرح جانتا ہوں کہ یہ آیت الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ کہاں اور کب نازل ہوئی تھی اور جب عرفات کے دن نازل ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہاں تشریف رکھتے تھے۔ اللہ کی قسم! ہم اس وقت میدان عرفات میں تھے۔

 سفیان ثوری ذیلی راوی نے کہا کہ مجھے شک ہے کہ وہ جمعہ کا دن تھا یا اور کوئی دوسرا دن۔

فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا

پھر اگر تم کو پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کر لیا کرو ۔(۵:۶)

تَيَمَّمُوا یعنی تَعَمَّدُوا اسی لئے  آتا ہے یعنی قصد کرو۔ آمِّينَ  یعنی عَامِدِينَ  قصد کرنے والے۔

أَمَّمْتُ ‏‏‏‏ اور تَيَمَّمْتُ ‏‏‏‏ ایک ہی معنی میں ہے۔

 ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ لَمَسْتُمْ وَتَمَسُّوهُنَّ وَاللَّاتِي دَخَلْتُمْ بِهِنَّ ‏‏‏‏ اور وَالْإِفْضَاءُ سب کے معنی عورت سے ہمبستری کرنے کے ہیں۔

حدیث نمبر ۴۶۰۷

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

 ایک سفر میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے۔ جب ہم مقام بیداء یا ذات الجیش تک پہنچے تو میرا ہار گم ہو گیا۔ اس لئے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تلاش کروانے کے لئے  وہیں قیام کیا اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قیام کیا۔ وہاں کہیں پانی نہیں تھا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ بھی پانی نہیں تھا۔ لوگ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے، ملاحظہ نہیں فرماتے، عائشہ رضی اللہ عنہا نے کیا کر رکھا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہیں ٹھہرا لیا اور ہمیں بھی، حالانکہ یہاں کہیں پانی نہیں ہے اور نہ کسی کے پاس پانی ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ میرے یہاں آئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سر مبارک میری ران پر رکھ کر سو گئے تھے اور کہنے لگے تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اور سب کو روک لیا، حالانکہ یہاں کہیں پانی نہیں ہے اور نہ کسی کے ساتھ پانی ہے۔

 عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مجھ پر بہت خفا ہوئے اور جو اللہ کو منظور تھا مجھے کہا، سنا اور ہاتھ سے میری کوکھ میں کچوکے لگائے۔ میں نے صرف اس خیال سے کوئی حرکت نہیں کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میری ران پر اپنا سر رکھے ہوئے تھے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور صبح تک کہیں پانی کا نام و نشان نہیں تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت اتاری تو اسید بن حضیر نے کہا کہ آل ابی بکر! یہ تمہاری کوئی پہلی برکت نہیں ہے۔ بیان کیا کہ پھر ہم نے وہ اونٹ اٹھایا جس پر میں سوار تھی تو ہار اسی کے نیچے مل گیا۔

حدیث نمبر ۴۶۰۸

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

 میرا ہار مقام بیداء میں گم ہو گیا تھا۔ ہم مدینہ واپس آ رہے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہیں اپنی سواری روک دی اور اتر گئے، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سر مبارک میری گود میں رکھ کر سو رہے تھے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اندر آ گئے اور میرے سینے پر زور سے ہاتھ مار کر فرمایا کہ ایک ہار کے لئے  تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو روک لیا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آرام کے خیال سے میں بےحس و حرکت بیٹھی رہی حالانکہ مجھے تکلیف ہوئی تھی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے اور صبح کا وقت ہوا اور پانی کی تلاش ہوئی لیکن کہیں پانی کا نام و نشان نہ تھا۔ اسی وقت یہ آیت اتری يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ (۵:۶)…

 اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے کہا اے آل ابی بکر! تمہیں اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لئے  باعث برکت بنایا ہے۔ یقیناً تم لوگوں کے لئے  باعث برکت ہو۔ تمہارا ہار گم ہوا اللہ نے اس کی وجہ سے تیمم کی آیت نازل فرما دی جو قیامت  تک مسلمانوں کے لئے  آسانی اور برکت ہے۔

فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلاَ إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ

سو آپ خود اور آپ کا رب جہاد کرنے چلے جاؤ اور آپ دونوں ہی لڑو بھڑو ، ہم تو اس جگہ بیٹھے رہیں گے ۔ (۵:۲۴)

حدیث نمبر ۴۶۰۹

راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

 جنگ بدر کے موقع پر مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ نے کہا تھا یا رسول اللہ! ہم آپ سے وہ بات نہیں کہیں گے جو بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے کہی تھی

فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلاَ إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ

آپ خود اور آپ کے خدا چلے جائیں اور آپ دونوں لڑ بھڑ لیں (۵:۲۴) ۔

ہم تو یہاں سے ٹلنے کے نہیں۔ نہیں! آپ چلئے، ہم آپ کے ساتھ جان دینے کو حاضر ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی اس بات سے خوشی ہوئی۔

إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ …وَأَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلَافٍ أَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِ

یہی سزا ہے انکی جو لڑائی کرتے ہیں اﷲ سے اور اس کے رسول سے، اور دوڑتے ہیں ملک میں، فساد کرنے کو،

کہ اُن کو قتل کریئے یا سولی چڑھایئے، یا کاٹیئے اُن کے ہاتھ اور پاؤں مقابل کا، یا دُور کریے نکال دیئے جائیں اُس ملک سے۔(۵:۳۳)

يُحَارِبُونَ سے کفر کرنا مراد ہے۔

حدیث نمبر ۴۶۱۰

راوی: ابوقلابہ

وہ امیرالمؤمنین عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ خلیفہ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے مجلس میں قسامت کا ذکر آ گی لوگوں نے کہا کہ قسامت میں قصاص لازم ہو گا۔ آپ سے پہلے خلفاء راشدین نے بھی اس میں قصاص لیا ہے۔ پھر عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ ابوقلابہ کی طرف متوجہ ہوئے وہ پیچھے بیٹھے ہوئے تھے اور پوچھا عبداللہ بن زید تمہاری کیا رائے ہے، یا یوں کہا کہ ابوقلابہ! آپ کی کیا رائے ہے؟ میں نے کہا کہ مجھے تو کوئی ایسی صورت معلوم نہیں ہے کہ اسلام میں کسی شخص کا قتل جائز ہو، سوا اس کے کہ کسی نے شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کیا ہو، یا ناحق کسی کو قتل کیا ہو، یا پھر اللہ اور اس کے رسول سے لڑا ہو مرتد ہو گیا ہو ۔ اس پر عنبسہ نے کہا کہ ہم سے انس رضی اللہ عنہ نے اس طرح حدیث بیان کی تھی۔ ابوقلابہ بولے کہ مجھ سے بھی انہوں نے یہ حدیث بیان کی تھی۔

بیان کیا کہ کچھ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام پر بیعت کرنے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہمیں اس شہر مدینہ کی آب و ہوا موافق نہیں آئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ ہمارے یہ اونٹ چرنے جا رہے ہیں تم بھی ان کے ساتھ چلے جاؤ اور ان کا دودھ اور پیشاب پیؤ کیونکہ ان کے مرض کا یہی علاج تھ چنانچہ وہ لوگ ان اونٹوں کے ساتھ چلے گئے اور ان کا دودھ اور پیشاب پیا۔ جس سے انہیں صحت حاصل ہو گئی۔

اس کے بعد انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کو پکڑ کر قتل کر دیا اور اونٹ لے کر بھاگے۔ اب ایسے لوگوں سے بدلہ لینے میں کیا تامل ہو سکتا تھا۔ انہوں نے ایک شخص کو قتل کیا اور اللہ اور اس کے رسول سے لڑے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خوفزدہ کرنا چاہا۔

 عنبسہ نے اس پر کہا سبحان اللہ! میں نے کہا، کیا تم مجھے جھٹلانا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ نہیں یہی حدیث انس رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بھی بیان کی تھی۔ میں نے اس پر تعجب کیا کہ تم کو حدیث خوب یاد رہتی ہے۔ ابوقلابہ نے بیان کیا کہ عنبسہ نے کہا، اے شام والو! جب تک تمہارے یہاں ابوقلابہ یا ان جیسے عالم موجود رہیں گے، تم ہمیشہ اچھے رہو گے۔

وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ

اور زخموں میں قصاص ہے ۔ (۵:۴۵)

حدیث نمبر ۴۶۱۱

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

ربیع نے جو انس رضی اللہ عنہ کی پھوپھی تھیں، انصار کی ایک لڑکی کے آگے کے دانت توڑ دیئے۔ لڑکی والوں نے قصاص چاہا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی قصاص کا حکم دیا۔

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے چچا انس بن نضر رضی اللہ عنہ نے کہا نہیں اللہ کی قسم! ان کا دانت نہ توڑ ا جائے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انس! لیکن کتاب اللہ کا حکم قصاص ہی کا ہے۔ پھر لڑکی والے معافی پر راضی ہو گئے اور دیت لینا منظور کر لیا۔

 اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے بہت سے بندے ایسے ہیں کہ اگر وہ اللہ کا نام لے کر قسم کھا لیں تو اللہ ان کی قسم سچی کر دیتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ

اے رسول! پہنچا جو تجھ کو اُترا تیرے رب سے۔(۵:۶۷)

حدیث نمبر ۴۶۱۲

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

جو شخص بھی تم سے یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو کچھ نازل کیا تھا، اس میں سے آپ نے کچھ چھپا لیا تھا، تو وہ جھوٹا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے

يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ

اے پیغمبر! جو کچھ آپ پر آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل ہوا ہے، یہ آپ لوگوں تک پہنچا دیں۔ (۵:۶۷)

لاَ يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ

اللہ تم سے تمہاری فضول قسموں پر پکڑ نہیں کرتا۔ (۵:۸۹)

حدیث نمبر ۴۶۱۳

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

آیت لاَ يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ اللہ تم سے تمہاری فضول قسموں پر پکڑ نہیں کرتا۔ کسی کے اس طرح قسم کھانے کے بارے میں نازل ہوئی تھی کہ نہیں، اللہ کی قسم، ہاں اللہ کی قسم!۔

حدیث نمبر ۴۶۱۴

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

ان کے والد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنی قسم کے خلاف کبھی نہیں کیا کرتے تھے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ نے قسم کے کفارہ کا حکم نازل کر دیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اب اگر اس کے یعنی جس کے لئے  قسم کھا رکھی تھی سوا دوسری چیز مجھے اس سے بہتر معلوم ہوتی ہے تو میں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی رخصت پر عمل کرتا ہوں اور وہی کام کرتا ہوں جو بہتر ہوتا ہے۔

لاَ تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكُمْ

اے ایمان والو ! اپنے اوپر ان پاک چیزوں کو جو اللہ نے تمہارے لئے  حلال کی ہیں از خود حرام نہ کر لو ۔ (۵:۸۷)

حدیث نمبر ۴۶۱۵

راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہو کر جہاد کیا کرتے تھے اور ہمارے ساتھ ہماری بیویاں نہیں ہوتی تھیں۔ اس پر ہم نے عرض کیا کہ ہم اپنے آپ کو خصی کیوں نہ کر لیں۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے روک دیا اور اس کے بعد ہمیں اس کی اجازت دی کہ ہم کسی عورت سے کپڑے یا کسی بھی چیز کے بدلے میں نکاح کر سکتے ہیں۔ پھر عبداللہ رضی اللہ عنہ نے یہ آیت پڑھی

لاَ تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكُمْ

اے ایمان والو! اپنے اوپر ان پاکیزہ چیزوں کو حرام نہ کرو جو اللہ نے تمہارے لئے  جائز کی ہیں۔(۵:۸۷)

إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالأَنْصَابُ وَالأَزْلاَمُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ

شراب اور جوا اور بت اور پانسے یہ سب گندی چیزیں ہیں بلکہ یہ شیطانی کام ہیں۔ (۵:۹۰)

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ الأَزْلاَمُ سے مراد وہ تیر ہیں جن سے وہ اپنے کاموں میں فال نکالتے تھے۔ کافر ان سے اپنی قسمت کا حال دریافت کیا کرتے تھے۔ ‏‏‏‏‏‏النُّصُبُ بیت اللہ کے چاروں طرف بت ۳۶۰ کی تعداد میں کھڑے کئے ہوئے تھے جن پر وہ قربانی کیا کرتے تھے۔

حدیث نمبر ۴۶۱۶

راوی: ابن عمر رضی اللہ عنہما

 جب شراب کی حرمت نازل ہوئی تو مدینہ میں اس وقت پانچ قسم کی شراب استعمال ہوتی تھی لیکن انگوری شراب کا استعمال نہیں ہوتا تھا وہ بھی حرام قرار پائی ۔

حدیث نمبر ۴۶۱۷

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

ہم لوگ تمہاری فَضِيخَ  کھجور سے بنائی ہوئی شراب کے سوا اور کوئی شراب استعمال نہیں کرتے تھے، یہی جس کا نام تم نے فَضِيخَ  رکھ رکھا ہے میں کھڑا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو پلا رہا تھا اور فلاں اور فلاں کو، کہ ایک صاحب آئے اور کہا تمہیں کچھ خبر بھی ہے؟ لوگوں نے پوچھا کیا بات ہے؟ انہوں نے بتایا کہ شراب حرام قرار دی جا چکی ہے۔ فوراً ہی ان لوگوں نے کہاانس رضی اللہ عنہ اب ان شراب کے مٹکوں کو بہا دو۔

انہوں نے بیان کیا کہ ان کی اطلاع کے بعد ان لوگوں نے اس میں سے ایک قطرہ بھی نہ مانگا اور نہ پھر اس کا استعمال کیا۔

حدیث نمبر ۴۶۱۸

راوی: جابر رضی اللہ عنہ

غزوہ احد میں بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم نے صبح صبح شراب پی تھی اور اسی دن وہ سب شہید کر دیئے گئے تھے۔ اس وقت شراب حرام نہیں ہوئی تھی اس لئے  وہ گنہگار نہیں ٹھہرے ۔

حدیث نمبر ۴۶۱۹

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر پر کھڑے فرما رہے تھے۔ امابعد!

اے لوگو! جب شراب کی حرمت نازل ہوئی تو وہ پانچ چیزوں سے تیار کی جاتی تھی۔ انگور، کھجور، شہد، گیہوں اور جَو سے اور شراب ہر وہ پینے کی چیز ہے جو عقل کو زائل کر دے۔

لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ …وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ

جو لوگ ایمان لائے اور کام نیک کئے، ان پر نہیں گناہ جو کچھ پہلے کھا چکے، جب آگے ڈرے اور ایمان لائے اور عمل نیک کئے، پھر ڈرے اور یقین کیا، پھر ڈرے اور نیکی کی، اور اﷲ چاہتا ہے نیکی والوں کو۔(۵:۹۳)

حدیث نمبر ۴۶۲۰

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

 میں صحابہ کی ایک جماعت کو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے گھر شراب پلا رہا تھا کہ شراب کی حرمت نازل ہوئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منادی کو حکم دیا اور انہوں نے اعلان کرنا شروع کیا۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا  باہر جا کے دیکھو یہ آواز کیسی ہے۔ بیان کیا کہ میں باہر آیا اور کہا کہ ایک منادی اعلان کر رہا ہے کہ خبردار ہو جاؤ، شراب حرام ہو گئی ہے۔ یہ سنتے ہی انہوں نے مجھ کو کہا کہ جاؤ اور شراب بہا دو۔  

راوی نے بیان کیا، مدینہ کی گلیوں میں شراب بہنے لگی۔ ان دنوں فَضِيخَ  شراب استعمال ہوتی تھی۔ بعض لوگوں نے شراب کو جو اس طرح بہتے دیکھا تو کہنے لگے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں نے شراب سے اپنا پیٹ بھر رکھا تھا اور اسی حالت میں انہیں قتل کر دیا گیا ہے۔

پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی

لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا

جو لوگ ایمان رکھتے ہیں اور نیک کام کرتے رہتے ہیں، ان پر اس چیز میں کوئی گناہ نہیں جس کو انہوں نے کھا لیا۔

لاَ تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ

اے لوگو ! ایسی باتیں نبی سے مت پوچھو کہ اگر تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں وہ باتیں ناگوار گزریں۔(۵:۱۰۱)

حدیث نمبر ۴۶۲۱

راوی: انس رضی اللہ عنہ

ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا خطبہ دیا کہ میں نے ویسا خطبہ کبھی نہیں سنا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کچھ میں جانتا ہوں اگر تمہیں بھی معلوم ہوتا تو تم ہنستے کم اور روتے زیادہ۔ بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنے چہرے چھپا لئے ، باوجود ضبط کے ان کے رونے کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ ایک صحابی نے اس موقع پر پوچھا میرے والد کون ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فلاں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی

لاَ تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ کہ ایسی باتیں مت پوچھو کہ اگر تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار گزریں۔

حدیث نمبر ۴۶۲۲

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

بعض لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مذاقاً سوالات کیا کرتے تھے۔ کوئی شخص یوں پوچھتا کہ میرا باپ کون ہے؟ کسی کی اگر اونٹنی گم ہو جاتی تو وہ یہ پوچھتے کہ میری اونٹنی کہاں ہو گی؟ ایسے ہی لوگوں کے لئے  اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی

لاَ تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ کہ ایسی باتیں مت پوچھو کہ اگر تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار گزریں۔

 یہاں تک کہ پوری آیت پڑھ کر سنائی۔

مَا جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ وَلاَ سَائِبَةٍ وَلاَ وَصِيلَةٍ وَلاَ حَامٍ

اللہ نے نہ بحیرہ کو مقرر کیا ہے ، نہ سائبہ کو اور نہ وصیلہ کو اور نہ حام کو ۔ (۵:۱۰۳)

حدیث نمبر ۴۶۲۳

راوی: سعید بن مسیب

بَحِيرَةٍ  اس اونٹنی کو کہتے تھے جس کا دودھ بتوں کے لئے  روک دیا جاتا اور کوئی شخص اس کے دودھ کو دوہنے کا مجاز نہ سمجھا جاتا اور سَائِبَةٍ اس اونٹنی کو کہتے تھے جسے وہ اپنے دیوتاؤں کے نام پر آزاد چھوڑ دیتے اور اس سے باربرداری و سواری وغیرہ کا کام نہ لیتے۔

سعید راوی نے بیان کیا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے عمرو بن عامر خزاعی کو دیکھا کہ وہ اپنی آنتوں کو جہنم میں گھسیٹ رہا تھا، اس نے سب سے پہلے سانڈ چھوڑنے کی رسم نکالی تھی۔

 اور وَصِيلَةٍ اس جوان اونٹنی کو کہتے تھے جو پہلی مرتبہ مادہ بچہ جنتی اور پھر دوسری مرتبہ بھی مادہ ہی جنتی، اسے بھی وہ بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے تھے لیکن اسی صورت میں جبکہ وہ برابر دو مرتبہ مادہ بچہ جنتی اور اس درمیان میں کوئی نر بچہ نہ ہوتا۔ اور حَامٍ وہ نر اونٹ جو مادہ پر شمار سے کئی دفعہ چڑھتا اس کے نطفے سے دس بچے پیدا ہو جاتے جب وہ اتنی صحبتیں کر چکتا تو اس کو بھی بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے اور بوجھ لادنے سے معاف کر دیتے نہ سواری کرتے اس کا نام حَامٍ رکھتے ۔

حدیث نمبر ۴۶۲۴

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے جہنم کو دیکھا کہ اس کے بعض حصے بعض دوسرے حصوں کو کھائے جا رہے ہیں اور میں نے عمرو بن عامر خزاعی کو دیکھا کہ وہ اپنی آنتیں اس میں گھسیٹا پھر رہا تھا۔ یہی وہ شخص ہے جس نے سب سے پہلے سانڈ چھوڑنے کی رسم ایجاد کی تھی۔

وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ

اور میں ان پر گواہ رہا جب تک میں ان کے درمیان موجود رہا ، پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا جب سے تو ہی ان پر نگراں ہے اور تو تو ہر چیز پر گواہ ہے ۔ (۵:۱۱۷)

حدیث نمبر ۴۶۲۵

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور فرمایا کہ اے لوگو! تم اللہ کے پاس جمع کئے جاؤ گے، ننگے پاؤں ننگے جسم اور بغیر ختنہ کے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی

كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ

جس طرح ہم نے اول بار پیدا کرنے کے وقت ابتداء کی تھی، اسی طرح اسے دوبارہ زندہ کر دیں گے، ہمارے ذمہ وعدہ ہے، ہم ضرور اسے کر کے ہی رہیں گے۔ آخر آیت تک۔(۲۱:۱۰۴)

 پھر فرمایا قیامت  کے دن تمام مخلوق میں سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام کو کپڑا پہنایا جائے گا۔

 ہاں اور میری اُمت کے کچھ لوگوں کو لایا جائے گا اور انہیں جہنم کی بائیں طرف لے جایا جائے گا۔ میں عرض کروں گا، میرے رب! یہ تو میرے امتی ہیں؟ مجھ سے کہا جائے گا، آپ کو نہیں معلوم ہے کہ انہوں نے آپ کے بعد نئی نئی باتیں شریعت میں نکالی تھیں۔ اس وقت میں بھی وہی کہوں گا جو عبد صالح عیسیٰ علیہ السلام نے کہا ہو گا

 وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ  

میں ان کا حال دیکھتا رہا جب تک میں ان کے درمیان رہا، پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا جب سے تو ہی ان پر نگراں ہے۔

 مجھے بتایا جائے گا کہ آپ کی جدائی کے بعد یہ لوگ دین سے پھر گئے تھے۔(۵:۱۱۷)

إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

تو اگر انہیں عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو بھی تو زبردست حکمت والا ہے ۔ (۵:۱۱۸)

حدیث نمبر ۴۶۲۶

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں قیامت  کے دن جمع کیا جائے گا اور کچھ لوگوں کو جہنم کی طرف لے جایا جائے گا۔ اس وقت میں وہی کہوں گا جو نیک بندے نے کہا ہو گا

وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ … أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ میں ان کا حال دیکھتا رہا جب تک میں ان کے درمیان رہا …  تُو ہی ہے زبردست حکمت والا۔ (۵:۱۱۷،۸)

سورۃ انعام

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا:

ثُمَّ لَمْ تَكُنْ فِتْنَتُهُمْ   پھر ان کا اور کوئی عذر نہ ہو گا۔

مَعْرُوشَاتٍ  کا معنی ٹٹیوں پر چڑھائے ہوئے جیسے انگور وغیرہ جن کی بیل ہوتی ہے ۔

حَمُولَةً  کا معنی بوجھ لادنے کے جانور۔

وَلَلَبَسْنَا کا معنی ہم شبہ ڈال دیں گے۔

يَنْأَوْنَ کا معنی دور ہو جاتے ہیں۔

تُبْسَلُ کا معنی رسوا کیا جائے۔ أُبْسِلُوا رسوا کئے گئے۔

بَاسِطُو أَيْدِيهِمْ میں الْبَسْطُ کے معنی مارنا۔

اسْتَكْثَرْتُمْ یعنی تم نے بہتوں کو گمراہ کیا۔

‏‏‏‏ جَعَلُوا لِلَّهِ مِنْ ثَمَرَاتِهِمْ وَمَالِهِمْ نَصِيبًا یعنی انہوں نے اپنے پھلوں اور مالوں میں اللہ کا ایک حصہ اور شیطان اور بتوں کا ایک حصہ ٹھہرایا۔

أَ أَكِنَّةً ، كِنَانٌ کی جمع ہے یعنی پردہ۔

أَمَّا اشْتَمَلَتْ یعنی کیا مادوں کی پیٹ میں نر مادہ نہیں ہوتے پھر تم ایک کو حرام ایک کو حلال کیوں بناتے ہو۔

مَسْفُوحًا یعنی بہایا گیا خون۔

صَدَفَ کا معنی منہ پھیرا۔

أُبْلِسُوا کا معنی ناامید ہوئے۔ فاذاهم مبلسون میں اور أبسلوا‏ بما كسبوا میں یہ معنی ہے کہ ہلاکت کے لئے  سپرد کئے گئے۔

سَرْمَدًا کا معنی ہمیشہ۔

اسْتَهْوَتْهُ کا معنی گمراہ کیا۔

تَمْتَرُونَ کا معنی شک کرتے ہو۔

وَقْرٌ کا معنی بوجھ جس سے کان بہرا ہو ۔ اور الْوِقْرُ بکسرہ واؤ معنی بوجھ جو جانور پر لادا جائے۔

أَسَاطِيرُ ، أُسْطُورَةٌ اور إِسْطَارَةٌ کی جمع ہے یعنی واہیات اور لغو باتیں۔

ا الْبَأْسَاءُ ، بَأْسِ سے نکلا ہے یعنی سخت مایوس سے یعنی تکلیف اور محتاجی نیز بُؤْسِ سے بھی آتا ہے اور محتاج۔

جَهْرَةً کھلم کھلا۔

مَلَكُوتٌ  سے ملك یعنی سلطنت مراد ہے۔ جیسے رَهَبُوتٍ اور رَحَمُوتٍ مثل ہے رَهَبُوتٍ یعنی ڈر۔ رَحَمُوتٍ مہربانی سے بہتر ہے اور کہتے ہیں تیرا ڈرایا جانا بچہ پر مہربانی کرنے سے بہتر ہے۔

وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لاَ يَعْلَمُهَا إِلاَّ هُوَ

اور اس ہی کے پاس ہیں غیب کے خزانے ، انہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ (۶:۵۹)

حدیث نمبر ۴۶۲۷

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غیب کے خزانے پانچ ہیں۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے۔  

إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ ... إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ

بیشک اللہ ہی کو قیامت  کی خبر ہے اور وہی جانتا ہے کہ رحموں میں کیا ہے اور کوئی بھی نہیں جان سکتا کہ وہ کل کیا عمل کرے گا

اور نہ کوئی یہ جان سکتا ہے کہ وہ کس زمین پر مرے گا، بیشک اللہ ہی علم والا ہے، خبر رکھنے والا ہے۔(۳۱:۳۴)

قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِكُمْ…انْظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ

تُو کہہ، اسی کو قدرت ہے کہ بھیجے تم پر عذاب اوپر سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے،یا ٹھہرائے تم کو کئی فرقے کر کر اور چکھائے ایک کو لڑائی ایک کی۔ دیکھ! کس پھیر گھماؤ سے ہم کہتے ہیں باتیں شاید وہ سمجھیں۔(۶:۶۵)

يَلْبِسَكُمْ کا معنی ملا دے خلط ملط کر دے، یہ الِالْتِبَاسِ، سے نکلا ہے۔ ‏‏‏‏‏‏شِيَعًا یعنی فِرَقًا گروہ گروہ فرقے فرقے۔

حدیث نمبر ۴۶۲۸

راوی: جابر رضی اللہ عنہ

قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِكُمْ نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ! میں تیرے منہ کی پناہ مانگتا ہوں۔

پھر یہ اترا أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یا اللہ! میں تیرے منہ کی پناہ مانگتا ہوں۔

پھر یہ اترا أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُمْ بَأْسَ بَعْضٍ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ پہلے عذابوں سے ہلکا یا آسان ہے۔

وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ

جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم سے خلط ملط نہیں کیا۔  (۶:۸۲)

یہاں ظلم سے شرک مراد ہے

حدیث نمبر ۴۶۲۹

راوی: عبداللہ رضی اللہ عنہ

جب آیت وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ نازل ہوئی صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا، ہم میں کون ہو گا جس کا دامن ظلم سے پاک ہو۔ اس یہ آیت اتری

 إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ  

 بیشک شرک ظلم عظیم ہے۔(۳۱:۱۳)

وَيُونُسَ وَلُوطًا وَكُلاًّ فَضَّلْنَا عَلَى الْعَالَمِينَ

اور یونس اور لوط علیہما السلام کو اور ان میں سے سب کو ہم نے جہاں والوں پر فضیلت دی تھی۔ (۶:۸۶)

حدیث نمبر ۴۶۳۰

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی کے لئے  مناسب نہیں کہ مجھے یونس بن متی علیہ السلام سے بہتر بتائے۔

حدیث نمبر ۴۶۳۱

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی شخص کے لئے  جائز نہیں کہ مجھے یونس بن متی علیہ السلام سے بہتر بتائے۔

أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ

یہی وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی تھی ، سو آپ بھی ان کی ہدایت کی پیروی کریں۔(۶:۹۰)

حدیث نمبر ۴۶۳۲

راوی: مجاہد

میں  نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا کیا سورۃ ص میں سجدہ ہے؟

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بتلایا، ہاں۔ پھر آپ نے آیت وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ سے فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ  (۶:۸۴،۹۰) تک پڑھی اور کہا کہ داؤد علیہ السلام بھی ان انبیاء میں شامل ہیں جن کا ذکر آیت میں ہوا ہے ۔

مجاہد نے بیان کیا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا، تو انہوں نے کہا تمہارے نبی بھی ان میں سے ہیں جنہیں اگلے انبیاء کی اقتداء کا حکم دیا گیا ہے۔

وَعَلَى الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمْنَا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ …وَإِنَّا لَصَادِقُونَ

اور یہود پر ہم نے حرام کیا تھا ہر ناخن والا، اور گائے اور بکری میں سے حرام کی اُنکی چربی،مگر جو لگی ہو پشت پر یا آنت میں، یا ملی ہو ہڈی کے ساتھ۔

یہ ہم نے اُن کو سزا دی تھی انکی شرارت پر، اور ہم سچ کہتے ہیں۔(۶:۱۴۶)

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ كُلَّ ذِي ظُفُرٍ سے مراد اونٹ اور شتر مرغ ہیں۔ لفظ الْحَوَايَا  بمعنی اوجھڑی کے ہے۔

حدیث نمبر ۴۶۳۳

راوی: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ یہودیوں کو غارت کرے، جب اللہ تعالیٰ نے ان پر مردہ جانوروں کی چربی حرام کر دی تو اس کا تیل نکال کر اسے بیچنے اور کھانے لگے۔

وَلاَ تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ

اور نزدیک نہ ہو بے حیائی کے کام سے، جو کھلا ہو اس میں اور جو چھپا۔(۶:۱۵۱)

حدیث نمبر ۴۶۳۴

راوی: ابووائل

عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا

اللہ سے زیادہ اور کوئی غیرت مند نہیں، یہی وجہ ہے کہ اس نے بےحیائیوں کو حرام قرار دیا ہے۔ خواہ وہ ظاہر ہوں خواہ پوشیدہ اور اللہ کو اپنی تعریف سے زیادہ اور کوئی چیز پسند نہیں، یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنی خود مدح کی ہے۔

عمرو بن مرہ نے بیان کیا کہ میں نے پوچھا آپ نے یہ حدیث خود عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سنی تھی انہوں نے بیان کیا کہ ہاں، میں نے پوچھا اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے حدیث بیان کی تھی؟ کہا کہ ہاں۔

وَكِيلٌ سے مراد حفیظ اور اس پر نگران یا اس کو گھیرنے والا۔

قُبُلًا ، قَبِيلٍکی جمع ہے یعنی عذاب کی قسمیں۔ قَبِيلٍ  ایک ایک قسم۔

زُخْرُفَ  لغو اور بیکار چیز یا بات جس کو ظاہر میں آراستہ پیراستہ کریں۔ زُخْرُفَ ‏ الْقَوْل چکنی چپڑی باتیں ۔

حَرْثٌ حِجْرٌ یعنی روکی گئی۔

حِجْرٌ کہتے ہیں حرام اور ممنوع کو۔ اسی سے ہے حِجْرٌ مَحْجُورٌ اور حِجْرٌ عمارت کو بھی کہتے ہیں اور مادہ گھوڑیوں کو بھی اور عقل کو بھی حِجْرٌ اور حِجًى کہتے ہیں اور أَمَّا الْحِجْرُ میں ثمود کی بستی والے مراد ہیں اور جس زمین کو تو روک دے اس میں کوئی آنے اور جانور چرانے نہ پائے اس کو بھی حِجْرٌ  کہتے ہیں۔ اسی سے خانہ کعبہ کے حَطِيمُ  کو حِجْرٌ کہتے ہیں۔ حَطِيمُ ، مَحْطُومٍ کے معنوں میں ہے جیسے قَتِيلٍ ، مَقْتُولٍ کے معنی میں اب رہا یمامہ کا حِجْرٌ تو وہ ایک مقام کا نام ہے۔

هَلُمَّ شُهَدَاءَكُمُ،هَلُمَّ اہل حجاز کی بولی میں واحد تثنیہ اور جمع سب کے لئے  بولا جاتا ہے۔(۶:۱۵۰)

لاَ يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا

کسی شخص کو اس کا ایمان فائدہ نہ دے گا ۔ (۶:۱۵۸)

حدیث نمبر ۴۶۳۵

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس وقت تک قیامت  قائم نہ ہو گی، جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہو لے۔ جب لوگ اسے دیکھیں گے تو ایمان لائیں گے لیکن یہ وہ وقت ہو گا جب کسی ایسے شخص کو اس کا ایمان کوئی نفع نہ دے گا جو پہلے سے ایمان نہ رکھتا ہو۔

حدیث نمبر ۴۶۳۶

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت  اس وقت تک قائم نہ ہو گی، جب تک سورج مغرب سے نہ طلوع ہو لے۔ جب مغرب سے سورج طلوع ہو گا اور لوگ دیکھ لیں گے تو سب ایمان لائیں گے لیکن یہ وقت ہو گا جب کسی کو اس کا ایمان نفع نہ دے گا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی۔

سورۃ اعراف

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا:

  رِيَاشًا سے مال اسباب مراد ہے۔

لَا يُحِبُّ، ‏‏‏‏‏‏الْمُعْتَدِينَ میں معتدي سے دعا میں حد سے بڑھ جانے والے مراد ہیں۔

عَفَوْا کا معنی بہت ہو گئے ان کے مال زیادہ ہوئے۔

الْفَتَّاحُ کہتے ہیں فیصلہ کرنے والے کو۔ افْتَحْ بَيْنَنَا ہمارا فیصلہ کر۔

نَتَقْنَا اٹھایا۔ انْبَجَسَتْ پھوٹ نکلے۔

مُتَبَّرٌ تباہی نقصان۔

آسَى غم کھاؤں۔ تَأْسَ غم نہ کھا۔

 اوروں نے کہا:

مَا مَنَعَكَ أَنْ لَا تَسْجُدَ میں لَا زائد ہے۔ یعنی تجھے سجدہ کرنے سے کس بات نے روکا

يَخْصِفَانِ مِنْ وَرَقِ الْجَنَّةِ اانہوں نے بہشت کے پتوں کا دونا بنا لیا یعنی بہشت کے پتے اپنے اوپر جوڑ لئے تاکہ ستر نظر نہ آئے ۔

سَوْآتِهِمَا سے شرمگاہ مراد ہے۔

وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ میں حِينٍ سے قیامت  مراد ہے۔ عرب کے محاورے میں حِينٍ ایک ساعت سے لے کے بے انتہا مدت کو کہہ سکتے ہیں۔

الرِّيَاشُ اور الرِّيشُ کے معنی ایک ہیں یعنی ظاہری لباس۔

قَبِيلُهُ اس کی ذات والے شیطان جن میں سے وہ خود بھی ہے۔ ادَّارَكُوا اکٹھا ہو جائیں گے

 آدمی اور جانور سب کے سوراخ یا مساموں کو سُمُومً کہتے ہیں اس کا مفرد سَمٌّ یعنی آنکھ کے سوراخ، نتھنے، منہ، کان، پاخانہ کا مقام، پیشاب کا مقام۔

غَوَاشٍ غلاف جس سے ڈھانپے جائیں گے۔

نُشُرًا متفرق، نَكِدًا تھوڑا۔

يَغْنَوْا جیئے یا بسے۔ حَقِيقٌ حق واجب۔

اسْتَرْهَبُوهُمْ ، الرَّهْبَةِ سے نکلا ہے یعنی ڈرایا۔ تَلَقَّفُ لقمہ کرنے لگا نگلنے لگ ۔

طَائِرُهُمْ ان کا نصیبہ حصہ طوفان سیلاب، کبھی موت کی کثرت کو بھی طوفان کہتے ہیں۔

الْقُمَّلُ چچڑیاں چھوٹی جوؤں کی طرح۔

عُرُوشٌ اور عَرِيشٌ عمارت،

سُقِطَ جب کوئی شرمندہ ہوتا ہے تو کہتے ہیں سُقِطَ فِي يَدِهِ ۔

الْأَسْبَاطُ بنی اسرائیل کے خاندان قبیلے

يَعْدُونَ فِي السَّبْتِ ہفتہ کے دن حد سے بڑھ جاتے تھے اسی سے ہے تَعْدُ یعنی حد سے بڑھ جائے۔

شُرَّعًا پانی کے اوپر تیرتے ہوئے۔

بَئِيسٍ سخت۔ أَخْلَدَ بیٹھ رہا، پیچھے ہٹ گیا۔

سَنَسْتَدْرِجُهُمْ یعنی جہاں سے ان کو ڈر نہ ہو گا ادھر سے ہم آئیں گے جیسے اس آیت میں ہے فَأَتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوا یعنی اللہ کا عذاب ادھر سے آ پہنچا جدھر سے گمان نہ تھا۔

مِنْ جِنَّةٍ یعنی جنون دیوانگی

فَمَرَّتْ بِهِ برابر پیٹ رہا، اس نے پیٹ کی مدت پوری کی

يَنْزَغَنَّكَ گدگدائے پھسلائے۔

طَيْفٌ ‏‏‏‏ اور طَائِفٌ شیطان کی طرف سے جو اترے یعنی وسوسہ آئے۔ دونوں کا معنی ایک ہے

يَمُدُّونَهُمْ ان کو اچھا کر دکھلاتے ہیں

وَخِيفَةً کا معنی خوف، ڈر خِيفَةً ، الْإِخْفَاءِ ‏‏‏‏ سے ہے یعنی چپکے چپکے

وَالْآصَالُ ، أَصِيلٌ ‏‏‏‏ کی جمع ہے وہ وقت جو عصر سے مغرب تک ہوتا ہے جیسے اس آیت میں ہے بُكْرَةً وَأَصِيلًا ۔

قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ

آپ کہہ دیں کہ میرے پروردگار نے بےحیائی کے کاموں کو حرام کیا ہے ، ان میں سے جو ظاہر ہوں ان کو بھی اور جو چھپے ہوئے ہوں ان کو بھی ۔ (۷:۳۳)

حدیث نمبر ۴۶۳۷

راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ سے زیادہ اور کوئی غیرت مند نہیں ہے۔ اسی لئے  اس نے بےحیائیوں کو حرام کیا خواہ ظاہر میں ہوں یا پوشیدہ اور اللہ سے زیادہ اپنی مدح کو پسند کرنے والا اور کوئی نہیں، اسی لئے  اس نے اپنے نفس کی خود تعریف کی ہے۔

وَلَمَّا جَاءَ مُوسَى لِمِيقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ … قَالَ سُبْحَانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ

اور جب موسیٰ ہمارے مقرر کردہ وقت پر کوہ طور پر آ گئے اور ان سے ان کے رب نے کلام کیا ، موسیٰ بولے ، اے میرے رب ! مجھے تو اپنا دیدار کرا دے کہ میں تجھ کو ایک نظر دیکھ لوں

اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتے ، البتہ تم اس پہاڑ کی طرف دیکھو ، سو اگر یہ اپنی جگہ پر قائم رہا تو تم مجھ کو بھی دیکھ سکو گے ،

پھر جب ان کے رب نے پہاڑ پر اپنی تجلی ڈالی تو تجلی نے پہاڑ کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور موسیٰ بیہوش ہو کر گر پڑے ،

پھر جب انہیں ہوش آیا تو بولے اے رب ! تو پاک ہے ، میں تجھ سے معافی طلب کرتا ہوں اور میں سب سے پہلا ایمان لانے والا ہوں ۔(۷:۱۴۳)

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا أَرِنِي ، أَعْطِنِي کے معنی میں ہے کہ دے تو مجھ کو، یعنی اپنا دیدار عطا کر۔

حدیث نمبر ۴۶۳۸

راوی: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ

ایک یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس کے منہ پر کسی نے طمانچہ مارا تھا۔ اس نے کہا اے محمد! آپ کے انصاری صحابہ میں سے ایک شخص نے مجھے طمانچہ مارا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں بلاؤ۔ لوگوں نے انہیں بلایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا تم نے اسے طمانچہ کیوں مارا ہے؟ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں یہودیوں کی طرف سے گزرا تو میں نے سنا کہ یہ کہہ رہا تھا۔ اس ذات کی قسم! جس نے موسیٰ علیہ السلام کو تمام انسانوں پر فضیلت دی۔ میں نے کہا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی۔ مجھے اس کی بات پر غصہ آ گیا اور میں نے اسے طمانچہ مار دیا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ مجھے انبیاء پر فضیلت نہ دیا کرو۔ قیامت  کے دن تمام لوگ بیہوش کر دیئے جائیں گے۔ سب سے پہلے میں ہوش میں آؤں گا لیکن میں موسیٰ علیہ السلام کو دیکھوں گا کہ وہ عرش کا ایک پایہ پکڑے کھڑے ہوں گے اب مجھے نہیں معلوم کہ وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آ گئے یا طور کی بے ہوشی کا انہیں بدلہ دیا گیا۔

ہم نے تمہارے کھانے کے لئے الْمَنَّ وَالسَّلْوَى  اتارا

قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا …  وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ

تُو کہہ، لوگو! میں رسول ہوں اﷲ کا، تم سب کی طرف،جسکی حکومت ہے آسمان اور زمین میں۔ کسی کی بندگی نہیں سوائے اسکے ،جِلاتا زندگی دیتا ہے اور مارتا ہے،

سو مانو اﷲ کو، اور اس کے بھیجے نبی اُمّی کو، جو خود بھی یقین کرتا ہے اﷲ پر، اور اس کے سب کلام پر ، اوراسکے تابع ہو پیروی کرو ، شاید تم راہ ہدایت پاؤ۔(۷:۱۵۸)

حدیث نمبر ۴۶۳۹

راوی: سعید بن زید رضی اللہ عنہما

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کھنبی الْمَنِّ، میں سے ہے اور اس کا پانی آنکھوں کے لئے  شفاء ہے۔

قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا … وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ

اے نبی ! آپ کہہ دیں کہ اے انسانو ! بیشک میں اللہ کا سچا رسول ہوں ، تم سب کی طرف اسی اللہ کا جس کی حکومت آسمانوں اور زمین میں ہے ۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہی جلاتا اور وہی مارتا ہے ،

سو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے امی رسول و نبی پر جو خود ایمان رکھتا ہے اللہ اور اس کی باتوں پر اور اس کی پیروی کرتے رہو تاکہ تم ہدایت پا جاؤ ۔ (۷:۱۶۱)

حدیث نمبر ۴۶۴۰

راوی: ابودرداء رضی اللہ عنہ

 ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے درمیان کچھ بحث سی ہو گئی تھی۔ عمر رضی اللہ عنہ ابوبکر رضی اللہ عنہ پر غصہ ہو گئے اور ان کے پاس سے آنے لگے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی ان کے پیچھے پیچھے ہو گئے، معافی مانگتے ہوئے۔ لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں معاف نہیں کیا اور گھر پہنچ کر اندر سے دروازہ بند کر لیا۔ اب ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔

ہم لوگ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے یہ صاحب یعنی ابوبکر رضی اللہ عنہ لڑ آئے ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ بھی اپنے طرز عمل پر نادم ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلے اور سلام کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب بیٹھ گئے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سارا واقعہ بیان کیا۔ ابودرداء رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ آپ بہت ناراض ہوئے۔

ادھر ابوبکر رضی اللہ عنہ باربار یہ عرض کرتے کہ یا رسول اللہ! واقعی میری ہی زیادتی تھی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم لوگ مجھے میرے ساتھی سے جدا کرنا چاہتے ہو؟ کیا تم لوگ میرے ساتھی کو مجھ سے جدا کرنا چاہتے ہو؟ جب میں نے کہا تھا کہ اے انسانو! بیشک میں اللہ کا رسول ہوں، تم سب کی طرف، تو تم لوگوں نے کہا کہ تم جھوٹ بولتے ہو، اس وقت ابوبکر نے کہا تھا کہ آپ سچے ہیں۔

ابوعبداللہ نے کہا غَامَرَ کے معنی حدیث میں یہ ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھلائی میں سبقت کی ہے۔

وَقُولُوا حِطَّةٌ

اور کہتے جاؤ کہ یا اللہ ! گناہوں سے ہماری توبہ ہے

خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ

خوب کر معاف درگزر کرنا، اور کہہ نیک کام کو اور کنارہ کر جاہلوں سے۔۷:۱۹۹

حدیث نمبر ۴۶۴۱

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بنی اسرائیل سے کہا گیا تھا

وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَقُولُوا حِطَّةٌ نَغْفِرْ لَكُمْ خَطَايَاكُمْ

دروازے میں عاجزی سے جھکتے ہوئے داخل ہو اور کہتے جاؤ کہ توبہ ہے، تو ہم تمہاری خطائیں معاف کر دیں گے،(۲:۵۸)

لیکن انہوں نے حکم بدل ڈالا۔ چوتڑوں کے بل گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے اور یہ کہا کہ حَبَّةٌ فِي شَعَرَةٍ یعنی ہم کو بالیوں میں دانہ چاہیئے۔(۲:۵۸)

خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ

اے نبی ! معافی اختیار کر اور نیک کاموں کا حکم دیتے رہو اور جاہلوں سے منہ موڑیو۔  (۷:۱۹۹)

الْعُرْفِ، الْمَعْرُوفُ کے معنی میں ہے جس کے معنی نیک کاموں کے ہیں۔

حدیث نمبر ۴۶۴۲

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

 عیینہ بن حصن بن حذیفہ نے اپنے بھتیجے حر بن قیس کے یہاں آ کر قیام کیا۔ حر، ان چند خاص لوگوں میں سے تھے جنہیں عمر رضی اللہ عنہ اپنے بہت قریب رکھتے تھے ۔ جو لوگ قرآن مجید کے زیادہ عالم اور قاری ہوتے عمر رضی اللہ عنہ کی مجلس میں انہیں کو زیادہ نزدیکی حاصل ہوتی تھی اور ایسے لوگ آپ کے مشیر ہوتے۔ اس کی کوئی قید نہیں تھی کہ وہ عمر رسیدہ ہوں یا نوجوان۔

 عیینہ نے اپنے بھتیجے سے کہا کہ تمہیں اس امیر کی مجلس میں بہت نزدیکی حاصل ہے۔ میرے لئے  بھی مجلس میں حاضری کی اجازت لے دو۔ حر بن قیس نے کہا کہ میں آپ کے لئے  بھی اجازت مانگوں گا۔ چنانچہ انہوں نے عیینہ کے لئے  بھی اجازت مانگی اور عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں مجلس میں آنے کی اجازت دے دی۔ مجلس میں جب وہ پہنچے تو کہنے لگے اے خطاب کے بیٹے! اللہ کی قسم! نہ تو تم ہمیں مال ہی دیتے ہو اور نہ عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرتے ہو۔

عمر رضی اللہ عنہ کو ان کی اس بات پر بڑا غصہ آیا اور آگے بڑھ ہی رہے تھے کہ حر بن قیس نے عرض کیا یا امیرالمؤمنین! اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے خطاب کر کے فرمایا ہے

خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ

معافی اختیار کر اور نیک کام کا حکم دے اور جاہلوں سے کنارہ کش ہو جایا کیجئے۔ اور یہ بھی جاہلوں میں سے ہیں۔ (۷:۱۹۹)

اللہ کی قسم! کہ جب حر نے قرآن مجید کی تلاوت کی تو عمر رضی اللہ عنہ بالکل ٹھنڈے پڑ گئے اور کتاب اللہ کے حکم کے سامنے آپ کی یہی حالت ہوتی تھی۔

حدیث نمبر ۴۶۴۳

راوی: عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما

آیت خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ معافی اختیار کیجئے اور نیک کام کا حکم دیتے رہئیے۔ لوگوں کے اخلاق کی اصلاح کے لئے  ہی نازل ہوئی ہے۔

حدیث نمبر ۴۶۴۴

راوی: عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما

اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ لوگوں کے اخلاق ٹھیک کرنے کے لئے  درگزر اختیار کریں یا کچھ ایسا ہی کہا۔

سورۃ الانفال

يَسْأَلُونَكَ عَنِ الأَنْفَالِ قُلِ الأَنْفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ

یہ لوگ آپ سے غنیمتوں کے بارے میں سوال کرتے ہیں ، آپ کہہ دیں کہ غنیمتیں اللہ کی ملک ہیں پھر رسول کی ، پس اللہ سے ڈرتے رہو اور آپس کی اصلاح کرو ۔ (۸:۱)

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ الأَنْفَالِ کے معنی غنیمتیں ہیں۔

 قتادہ نے کہا کہ لفظ   ريحكم سے لڑائی مراد ہے یعنی اگر تم آپس میں نزاع کرو گے تو لڑائی میں تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی ۔ لفظ نافلة عطیہ کے معنی میں بولا جاتا ہے۔

حدیث نمبر ۴۶۴۵

راوی: سعید بن جبیر

میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سورۃ الانفال کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے بتلایا کہ غزوہ بدر میں نازل ہوئی تھی۔

الشوكة کا معنی دھار نوک۔ مردفين‏ کے معنی فوج در فوج۔

کہتے ہیں ردفني وأردفني یعنی میرے بعد آیا۔

  ذلكم فذوقوه ذوقوا‏ کا معنی یہ ہے کہ یہ عذاب اٹھاؤ اس کا تجربہ کرو، منہ سے چکھنا مراد نہیں ہے۔

  فيركمه‏ کا معنی اس کا جمع کرے۔ شرد‏ کا معنی جدا کر دے یا سخت سزا دے ۔

  جنحوا‏ کے معنی طلب کریں۔ يثخن‏ کا معنی غالب ہوا

اور مجاہد نے کہا مكاء‏ کا معنی انگلیاں منہ پر رکھنا۔ تصدية‏ سیٹی بجانا۔ يثبتوك‏ تاکہ تجھ کو قید کر لیں۔

إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لاَ يَعْقِلُونَ

باب: آیت کی تفسیر بدترین حیوانات اللہ کے نزدیک وہ بہرے ، گونگے لوگ ہیں جو ذرا بھی عقل نہیں رکھتے ۔ ۸:۲۲

حدیث نمبر ۴۶۴۶

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

 آیت إن شر الدواب عند الله الصم البكم الذين لا يعقلون‏ بدترین حیوانات اللہ کے نزدیک وہ بہرے گونگے ہیں جو عقل سے ذرا کام نہیں لیتے۔ بنو عبدالدار کے کچھ لوگوں کے بارے میں اتری تھی۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ ... بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ

اے ایمان والو ! اللہ اور رسول کی آواز پر لبیک کہو جبکہ وہ رسول تم کو تمہاری زندگی بخشنے والی چیز کی طرف بلائیں

اور جان لو کہ اللہ حائل ہو جاتا ہے انسان اور اس کے دل کے درمیان اور یہ کہ تم سب کو اسی کے پاس اکٹھا ہونا ہے ۔ (۸:۲۴)

استجيبوا‏ ، أجيبوا ‏‏‏‏ ‏‏‏‏ یعنی قبول کرو، جواب دو۔

، لما يحييكم‏ ، لما يصلحكمیعنی اس چیز کے لئے  جو تمہاری اصلاح کرتی ہے تم کو درست کرتی ہے۔ جس کے ذریعہ تم کو دائمی زندگی ملے گی۔

حدیث نمبر ۴۶۴۷

راوی: ابوسعید بن معلی رضی اللہ عنہ

میں نماز پڑھ رہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پکارا۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں نہ پہنچ سکا بلکہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ آنے میں دیر کیوں ہوئی؟ کیا اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم نہیں دیا ہے يا أيها الذين آمنوا استجيبوا لله وللرسول إذا دعاكم کہ اے 2ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی آواز پر لبیک کہو، جبکہ وہ یعنی رسول تم کو بلائیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسجد سے نکلنے سے پہلے میں تمہیں قرآن کی عظیم ترین سورۃ سکھاؤں گا۔ تھوڑی دیر بعد آپ باہر تشریف لے جانے لگے تو میں نے آپ کو یاد دلایا۔

انہوں نے بیان کیا وہ سورۃ فاتحہ الحمد لله رب العالمين ہے جس میں سات آیتیں ہیں جو ہر نماز میں مکرر پڑھی جاتی ہیں۔

وَإِذْ قَالُوا اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ هَذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ

"اے نبی ! ان کو وہ وقت بھی یاد دلاؤ جب ان کافروں نے کہا تھا کہ اے اللہ ! اگر یہ کلام تیری طرف سے واقعی برحق ہے ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے

یا پھر کوئی اور ہی عذاب درد ناک لے آ" (۸:۳۲)

ابن عیینہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے لفظ مطرا بارش کا استعمال قرآن میں عذاب ہی کے لئے  کیا ہے، عرب اسے غيث کہتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان ينزل الغيث من بعد ما قنطوا میں ہے۔

حدیث نمبر ۴۶۴۸

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

ابوجہل نے کہا تھا کہ اے اللہ! اگر یہ کلام تیری طرف سے واقعی حق ہے تو ہم پر آسمانوں سے پتھر برسا دے یا پھر کوئی اور ہی عذاب درد ناک لے آ! تو اس پر یہ آیات اتریں۔

وما كان الله ليعذبهم وأنت فيهم ... وَلَـٰكِنَّ أَڪۡثَرَهُمۡ لَا يَعۡلَمُونَ  

حالانکہ اللہ ایسا نہیں کرے گا کہ انہیں عذاب دے، اس حال میں کہ آپ ان میں موجود ہوں اور نہ اللہ ان پر عذاب لائے گا اس حال میں کہ وہ استغفار کر رہے ہوں۔

ان لوگوں کے لئے  کیا وجہ کہ اللہ ان پر عذاب ہی سرے سے نہ لائے درآں حالیکہ وہ مسجد الحرام سے روکتے ہیں اور اسکو اختیار والے نہیں۔اسکے اختیار والے وہی ہیں جو پرہیزگار ہیں، لیکن وہ اکثر خبر نہیں رکھتے۔(۸:۳۳،۳۴)

وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ

ور اللہ ایسا نہیں کرے گا کہ انہیں عذاب کرے اس حال میں کہ اے نبی ! آپ ان میں موجود ہوں اور نہ اللہ ان پر عذاب لائے گا اس حالت میں کہ وہ استغفار کر رہے ہوں(۸:۳۳)

حدیث نمبر ۴۶۴۹

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

ابوجہل نے کہا تھا کہ اے اللہ! اگر یہ کلام تیری طرف سے واقعی حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا پھر کوئی اور ہی عذاب لے آ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی

وما كان الله ليعذبهم وأنت فيهم ... وَلَـٰكِنَّ أَڪۡثَرَهُمۡ لَا يَعۡلَمُونَ  

حالانکہ اللہ ایسا نہیں کرے گا کہ انہیں عذاب دے، اس حال میں کہ آپ ان میں موجود ہوں اور نہ اللہ ان پر عذاب لائے گا اس حال میں کہ وہ استغفار کر رہے ہوں۔

ان لوگوں کے لئے  کیا وجہ کہ اللہ ان پر عذاب ہی سرے سے نہ لائے درآں حالیکہ وہ مسجد الحرام سے روکتے ہیں اور اسکو اختیار والے نہیں۔اسکے اختیار والے وہی ہیں جو پرہیزگار ہیں، لیکن وہ اکثر خبر نہیں رکھتے۔(۸:۳۳،۳۴)

وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ

اور ان سے لڑو ، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہ جائے (۸:۳۹)

حدیث نمبر ۴۶۵۰

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

ایک شخص حبان یا علاء بن عرار نامی نے پوچھا ابوعبدالرحمٰن! آپ نے قرآن کی یہ آیت نہیں سنی وإن طائفتان من المؤمنين اقتتلوا‏ کہ جب مسلمانوں کی دو جماعتیں لڑنے لگیں الخ، اس آیت کے بموجب تم علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما دونوں سے کیوں نہیں لڑتے جیسے اللہ نے فرمایا فقاتلوا التي تبغيإ ۔ انہوں نے کہا میرے بھتیجے! اگر میں اس آیت کی تاویل کر کے مسلمانوں سے نہ لڑوں تو یہ مجھ کو اچھا معلوم ہوتا ہے بہ نسبت اس کے کہ میں اس آیت ومن يقتل مؤمنا متعمدا‏ کی تاویل کروں۔ وہ شخص کہنے لگا اچھا اس آیت کو کیا کرو گے جس میں مذکور ہے وقاتلوهم حتى لا تكون فتنة‏ کہ ان سے لڑو تاکہ فتنہ باقی نہ رہے اور سارا دین اللہ کا ہو جائے۔

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا واہ، واہ یہ لڑائی تو ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں کر چکے، اس وقت مسلمان بہت تھوڑے تھے اور مسلمان کو اسلام اختیار کرنے پر تکلیف دی جاتی۔ قتل کرتے، قید کرتے یہاں تک کہ اسلام پھیل گیا۔ مسلمان بہت ہو گئے اب فتنہ جو اس آیت میں مذکور ہے وہ کہاں رہا۔

 جب اس شخص نے دیکھا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کسی طرح لڑائی پر اس کے موافق نہیں ہوتے تو کہنے لگا اچھا بتلاؤ علی رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں تمہارا کیا اعتقاد ہے؟

انہوں نے کہا ہاں یہ کہو تو سنو، علی اور عثمان رضی اللہ عنہما کے بارے میں اپنا اعتقاد بیان کرتا ہوں۔ عثمان رضی اللہ عنہ کا جو قصور تم بیان کرتے ہو کہ وہ جنگ احد میں بھاگ نکلے تو اللہ نے ان کا یہ قصور معاف کر دیا مگر تم کو یہ معافی پسند نہیں جب تو اب تک ان پر قصور لگاتے جاتے ہو اور علی رضی اللہ عنہ تو سبحان اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور آپ داماد بھی تھے اور ہاتھ سے اشارہ کر کے بتلایا یہ ان کا گھر ہے جہاں تم دیکھ رہے ہو۔

حدیث نمبر ۴۶۵۱

راوی: سعید بن جبیر

ابن عمر رضی اللہ عنہما ہمارے پاس تشریف لائے، تو ایک صاحب نے ان سے پوچھا کہ مسلمانوں کے باہمی فتنہ اور جنگ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ان سے پوچھا تمہیں معلوم بھی ہے فتنہ کیا چیز ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین سے جنگ کرتے تھے اور ان میں ٹھہر جانا ہی فتنہ تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگ تمہاری ملک و سلطنت کی خاطر جنگ کی طرح نہیں تھی۔

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ ... الَّذِينَ كَفَرُوا بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لاَ يَفْقَهُونَ

اے نبی ! مومنوں کو قتال پر آمادہ کیجئے ، اگر تم میں سے بیس آدمی بھی صبر کرنے والے ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب آ جائیں گے

اور اگر تم میں سے سو ہوں گے تو ایک ہزار کافروں پر غالب آ جائیں گے اس لئے  کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو کچھ نہیں سمجھتے (۸:۶۵)

حدیث نمبر ۴۶۵۲

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

جب یہ آیت نازل ہوئی إن يكن منكم عشرون صابرون يغلبوا مائتين‏ ‏ کہ اگر تم میں سے بیس آدمی بھی صبر کرنے والے ہوں تو وہ دو سو پر غالب آ جائیں گے۔ تو مسلمانوں کے لئے  فرض قرار دے دیا گیا کہ ایک مسلمان دس کافروں کے مقابلے سے نہ بھاگے اور کئی مرتبہ سفیان ثوری ذیلی راوی نے یہ بھی کہا کہ بیس دو سو کے مقابلے سے نہ بھاگیں۔

پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری الآن خفف الله عنكم‏ اب اللہ نے تم پر تخفیف کر دی۔ اس کے بعد یہ فرض قرار دیا کہ ایک سو، دو سو کے مقابلے سے نہ بھاگیں۔

سفیان ثوری ذیلی راوی نے ایک مرتبہ اس زیادتی کے ساتھ روایت بیان کی کہ آیت نازل ہوئی

حرض المؤمنين على القتال إن يكن منكم عشرون صابرون‏

اے نبی مومنوں کو قتال پر آمادہ کرو۔ اگر تم میں سے بیس آدمی صبر کرنے والے ہوں گے۔

سفیان ثوری نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن شبرمہ کوفہ کے قاضی نے بیان کیا کہ میرا خیال ہے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں بھی یہی حکم ہے۔

الآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضُعْفًا۔۔۔وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ

اب اللہ نے تم پر تخفیف کر دی اور معلوم کر لیا کہ تم میں کمزوری آ گئی ہے اللہ تعالیٰ کے ارشاد والله مع الصابرين تک (۸:۶۶)

حدیث نمبر ۴۶۵۳

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

جب یہ آیت اتری إن يكن منكم عشرون صابرون يغلبوا مائتين‏ کہ اگر تم میں سے بیس آدمی بھی صبر کرنے والے ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب آ جائیں گے۔ تو مسلمانوں پر سخت گزرا کیونکہ اس آیت میں ان پر یہ فرض قرار دیا گیا تھا کہ ایک مسلمان دس کافروں کے مقابلے سے نہ بھاگے۔ اس لئے  اس کے بعد تخفیف کی گئی۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا

الآن خفف الله عنكم وعلم أن فيكم ضعفا فإن يكن منكم مائة صابرة يغلبوا مائتين‏

اب اللہ نے تم سے تخفیف کر دی اور معلوم کر لیا کہ تم میں جوش کی کمی ہے۔ سو اب اگر تم میں صبر کرنے والے ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب آ جائیں گے۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ تعداد کی اس کمی سے اتنی ہی مسلمانوں کے صبر میں کمی ہو گئی۔

سورۃ برأت  کی تفسیر

وليجة‏ وہ چیز جو کسی دوسری چیز کے اندر داخل کی جائے یہاں مراد بھیدی ہے ۔

الشقة‏ سفر یا دور دراز راستہ۔

خبال کے معنی فساد اور خبال موت کو بھی کہتے ہیں۔

ولا تفتني‏ یعنی مجھ کو مت جھڑک، مجھ پر خفا مت ہو۔

  كَرها‏ اور كُرها‏ دونوں کا معنی ایک ہے یعنی زبردستی ناخوشی سے۔

مدخلا‏ گھس بیٹھنے کا مقام مثلا سرنگ وغیرہ ۔

يجمحون‏ دوڑتے جائیں۔

  مؤتفكات‏ یہ ائتفكت انقلبت بها الأرض‏.‏ سے نکلا ہے یعنی اس کی زمین الٹ دی گئی۔

  أهوى‏ یعنی اس کو ایک گڑھے میں دھکیل دیا۔

عدن‏ کا معنی ہمیشگی کے ہیں۔ عرب لوگ بولتے ہیں عدنت بأرض یعنی میں اس سر زمین میں رہ گیا۔ اس سے معدن کا لفظ نکلا ہے۔ جس کا معنی سونے یا چاندی یا کسی اور دھات کی کان کے ہیں ۔ معدن صدق‏.‏ یعنی اس سر زمین میں جہاں سچائی اگتی ہے۔

  الخوالف ، خالف کی جمع ہے۔ خالف وہ جو مجھ کو چھوڑ کر پیچھے بیٹھ رہا۔ اسی سے ہے یہ حدیث يخلفه في الغابرين یعنی جو لوگ میت کے بعد باقی رہ گئے تو ان میں اس کا قائم مقام بن یعنی ان کا محافظ اور نگہبان ہو ۔ اور الخوالف سے عورتیں مراد ہیں اس صورت میں یہ يخلفه کی جمع ہو گی جیسے فاعلة کی جمع فواعل آتی ہے ۔ اگر خالف مذکر کی جمع ہو تو یہ شاذ ہو گی ایسے مذکر کی زبان عرب میں دو ہی جمعه آتی ہیں جیسے فارس اور فوارس اور هالك اور هوالك‏ ۔

الخيرات‏ ، خيرة کی جمع ہے۔ یعنی نیکیاں بھلائیاں۔

مرجئون‏ ڈھیل میں دیئے گئے۔

  الشفا کہتے ہیں شفير کو یعنی کنارہ۔

 الجرف وہ زمین جو ندی نالوں کے بہاؤ سے کھد جاتی ہے۔

هار‏ گرنے والی اسی سے ہے تهورت البئر یعنی کنواں گر گیا۔

  لأواه‏ یعنی خدا کے خوف سے اور ڈر سے آہ و زاری کرنے والا جیسے شاعر مشقب عبدى کہتا ہے۔

بَرَاءَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى الَّذِينَ عَاهَدْتُمْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ

اعلان بیزاری ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ان مشرکین سے جن سے تم نے عہد کر رکھا ہے اور اب عہد کو انہوں نے توڑ دیا ہے (۹:۱)

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ أذن اس شخص کو کہتے ہیں جو ہر بات سن لے اس پر یقین کر لے۔

  تطهرهم اور تزكيهم بها کے ایک معنی ہیں۔ قرآن مجید میں ایسے مترادف الفاظ بہت ہیں۔

الزكاة کے معنی بندگی اور اخلاص کے ہیں۔

  لا يؤتون الزكاة کے معنی یہ کہ کلمہ لا إله إلا الله کی گواہی نہیں دیتے۔

يضاهون ای يشبهون یعنی اگلے کافروں کی سی بات کرتے ہیں۔

حدیث نمبر ۴۶۵۴

راوی: براء بن عازب رضی اللہ عنہ

سب سے آخر میں یہ آیت نازل ہوئی تھی يستفتونك قل الله يفتيكم في الكلالة‏ اور سب سے آخر میں سورۃ برأت  نازل ہوئی۔

فَسِيحُوا فِي الأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ وَأَنَّ اللَّهَ مُخْزِي الْكَافِرِينَ

اے مشرکو ! زمین میں چار ماہ چل پھر لو اور جان لو کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے ، بلکہ اللہ ہی کافروں کو رسوا کرنے والا ہے۔(۹:۲ )

سِيحُوا یعنی سِيرُوا یعنی چلو پھرو

حدیث نمبر ۴۶۵۵

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس حج کے موقع پر جس کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں امیر بنایا تھ مجھے بھی اعلان کرنے والوں میں رکھا تھا، جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم نحر میں اس لئے  بھیجا تھا کہ اعلان کر دیں کہ آئندہ سال سے کوئی مشرک حج کرنے نہ آئے اور کوئی شخص بیت اللہ کا طواف ننگے ہو کر نہ کرے۔

حمید بن عبدالرحمٰن ذیلی راوی نے کہا کہ پھر اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو پیچھے سے بھیجا اور انہیں سورۃ برأت  کے احکام کے اعلان کرنے کا حکم دیا۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا، چنانچہ ہمارے ساتھ علی رضی اللہ عنہ نے بھی یوم نحر ہی میں سورۃ برأت  کا اعلان کیا اور اس کا کہ آئندہ سال سے کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ کوئی ننگے ہو کر طواف کرے۔

وَأَذَانٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الأَكْبَرِ ... وَبَشِّرِ الَّذِينَ كَفَرُوا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ

اور اعلان کیا جاتا ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے لوگوں کے سامنے بڑے حج کے دن کہ اللہ اور اس کا رسول مشرکوں سے بیزار ہیں ، پھر بھی اگر تم توبہ کر لو تو تمہارے حق میں بہتر ہے

اور اگر تم منہ پھیرتے ہی رہے تو جان لو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو اور کافروں کو عذاب درد ناک کی خوشخبری سنا دیجئیے۔ (۹:۳ )

آذَنَهُمْ أَعْلَمَهُمْ یعنی ان کو آگاہ کیا ۔

حدیث نمبر ۴۶۵۶

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حج کے موقع پر جس کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں امیر بنایا تھ مجھ کو ان اعلان کرنے والوں میں رکھا تھا جنہیں آپ نے یوم نحر میں بھیجا تھا۔ منیٰ میں یہ اعلان کرنے کے لئے  کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کرنے نہ آئے اور نہ کوئی شخص بیت اللہ کا طواف ننگا ہو کر کرے۔

 حمید بن عبدالرحمٰن ذیلی راوی نے کہا کہ پھر پیچھے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور انہیں حکم دیا کہ سورۃ برأت  کا اعلان کر دیں۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ علی رضی اللہ عنہ نے ہمارے ساتھ منیٰ کے میدان میں دسویں تاریخ میں سورۃ برأت  کا اعلان کیا اور یہ کہ کوئی مشرک آئندہ سال سے حج کرنے نہ آئے اور نہ کوئی بیت اللہ کا طواف ننگا ہو کر کرے۔

إِلاَّ الَّذِينَ عَاهَدْتُمْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ  

مگر جن مشرکوں سے تم کو عہد تھا،(۹:۴ )

حدیث نمبر ۴۶۵۷

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس حج کے موقع پر جس کا انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر بنایا تھا۔ حجۃ الوداع سے ایک سال پہلے ۹ ھ میں انہیں بھی ان اعلان کرنے والوں میں رکھا تھا جنہیں لوگوں میں آپ نے یہ اعلان کرنے کے لئے  بھیجا تھا کہ آئندہ سال سے کوئی مشرک حج کرنے نہ آئے اور نہ کوئی بیت اللہ کا طواف ننگا ہو کر کرے۔

 حمید بن عبدالرحمٰن ذیلی راوی نے کہا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یوم نحر بڑے حج کا دن ہے۔

فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ إِنَّهُمْ لاَ أَيْمَانَ لَهُمْ

کفر کے سرداروں سے جہاد کرو عہد توڑ دینے کی صورت میں اب ان کی قسمیں باطل ہو چکی ہیں۔(۹:۱۲)

حدیث نمبر ۴۶۵۸

راوی: زید بن وہب

ہم حذیفہ بن یمان کی خدمت میں حاضر تھے۔ انہوں نے کہا یہ آیت جن لوگوں کے بارے میں اتری ان میں سے اب صرف تین شخص باقی ہیں، اسی طرح منافقوں میں سے بھی اب چار شخص باقی ہیں۔

اتنے میں ایک دیہاتی کہنے لگا آپ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں، ہمیں ان لوگوں کے متعلق بتائیے کہ ان کا کیا حشر ہو گا جو ہمارے گھروں میں چھید کر کے اچھی چیزیں چرا کر لے جاتے ہیں؟ ا

نہوں نے کہا کہ یہ لوگ فاسق بدکار ہیں۔ ہاں ان منافقوں میں چار کے سوا اور کوئی باقی نہیں رہا ہے اور ایک تو اتنا بوڑھا ہو چکا ہے کہ اگر ٹھنڈا پانی پیتا ہے تو اس کی ٹھنڈ کا بھی اسے پتہ نہیں چلتا۔

وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلاَ يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ

اے نبی اور جو لوگ سونا اور چاندی زمین میں گاڑ کر رکھتے ہیں اور اس کو اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے ! آپ انہیں ایک درد ناک عذاب کی خبر سنا دیں۔ (۹:۳۴)

حدیث نمبر ۴۶۵۹

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

بیان کیا کہ  انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ تمہارا خزانہ جس میں زکوٰۃ نہ دی گئی ہو قیامت  کے دن گنجے ناگ کی شکل اختیار کرے گا۔

حدیث نمبر ۴۶۶۰

راوی: زید بن وہب

میں مقام ربذہ میں ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اس جنگل میں آپ نے کیوں قیام کو پسند کیا؟

 فرمایا کہ ہم شام میں تھے۔ مجھ میں اور وہاں کے حاکم معاویہ رضی اللہ عنہ میں اختلاف ہو گیا میں نے یہ آیت پڑھی

وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلاَ يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ

اے نبی اور جو لوگ سونا اور چاندی زمین میں گاڑ کر رکھتے ہیں اور اس کو اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے ! آپ انہیں ایک درد ناک عذاب کی خبر سنا دیں۔ (۹:۳۴)

تو معاویہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ یہ آیت ہم مسلمانوں کے بارے میں نہیں ہے جب وہ زکوٰۃ دیتے رہیں بلکہ اہل کتاب کے بارے میں ہے۔

فرمایا کہ میں نے اس پر کہا کہ یہ ہمارے بارے میں بھی ہے اور اہل کتاب کے بارے میں بھی ہے۔

يَوْمَ يُحْمَى عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ ... فَذُوقُوا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُونَ

اس دن کو یاد کرو جس دن سونے چاندی کو دوزخ کی آگ میں تپایا جائے گا ، پھر اس سے جنہوں نے اس خزانے کی زکوٰۃ نہیں ادا کی ان کی پیشانیوں کو اور انکے پہلوؤں کو اور ان کی پشتوں کو داغا جائے گا ۔

اور ان سے کہا جائے گا یہی ہے وہ مال جسے تم نے اپنے واسطے جمع کر رکھا تھا سو اب اپنے جمع کرنے کا مزہ چکھو ۔(۹:۳۵ )

حدیث نمبر ۴۶۶۱

راوی: خالد بن اسلم

ہم عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ نکلے تو انہوں نے کہا کہ یہ مذکورہ بالا آیت زکوٰۃ کے حکم سے پہلے نازل ہوئی تھی۔ پھر جب زکوٰۃ کا حکم ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ سے مالوں کو پاک کر دیا۔

إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ

بیشک مہینوں کا شمار اللہ کے نزدیک کتاب الٰہی میں بارہ ہی مہینے ہیں ، جس روز سے کہ اس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا اور ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں ۔ (۹:۳۶)

قیم بمعنی القائم جس کے معنی درست اور سیدھے کے ہیں ۔

حدیث نمبر ۴۶۶۲

راوی: ابوبکرہ نفیع بن حارث رضی اللہ عنہ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے خطبے میں فرمایا کہ دیکھو زمانہ پھر اپنی پہلی اسی ہیئت پر آ گیا ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا تھا۔ سال بارہ مہینے کا ہوتا ہے، ان میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں۔ تین تو لگاتار یعنی ذی قعدہ، ذی الحجۃ اور محرم اور چوتھا رجب مضر جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان میں پڑتا ہے۔

ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ

جب کہ دو میں سے ایک وہ تھے دونوں غار میں تھے جب وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھا کہ فکر نہ کر اللہ پاک ہمارے ساتھ ہے ۔(۹:۴۰)

معنا یعنی ہمارا محافظ اور مددگار ہے۔

سكينة ، فعيلة کے وزن پر سكون سے نکلا ہے۔

حدیث نمبر ۴۶۶۳

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

 مجھ سے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں غار ثور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ میں نے کافروں کے پاؤں دیکھے جو ہمارے سر پر کھڑے ہوئے تھے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ گھبرا گئے اور بولے یا رسول اللہ! اگر ان میں سے کسی نے ذرا بھی قدم اٹھائے تو وہ ہم کو دیکھ لے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو کیا سمجھتا ہے ان دو آدمیوں کو کوئی نقصان پہنچا سکے گ جن کے ساتھ تیسرا اللہ تعالیٰ ہو۔

حدیث نمبر ۴۶۶۴

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

 جب میرا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے اختلاف ہو گیا تھا تو میں نے کہا کہ ان کے والد زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ تھے، ان کی والدہ اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا تھیں، ان کی خالہ عائشہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ ان کے نانا ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے اور ان کی دادی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی صفیہ رضی اللہ عنہا تھیں۔

حدیث نمبر ۴۶۶۵

راوی: بن ابی ملیکہ

مجھ سے عبداللہ بن محمد جعفی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یحییٰ ابن معین نے بیان کیا، کہا ہم سے حجاج بن محمد نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا کہ

 ابن عباس اور ابن زبیر رضی اللہ عنہم کے درمیان بیعت کا جھگڑا پیدا ہو گیا تھا۔ میں صبح کو ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا آپ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے جنگ کرنا چاہتے ہیں، اس کے باوجود کہ اللہ کے حرم کی بےحرمتی ہو گی؟

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا معاذاللہ! یہ تو اللہ تعالیٰ نے ابن زبیر اور بنو امیہ ہی کے مقدر میں لکھ دیا ہے کہ وہ حرم کی بےحرمتی کریں۔ اللہ کی قسم! میں کسی صورت میں بھی اس بےحرمتی کے لئے  تیار نہیں ہوں۔

 ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ لوگوں نے مجھ سے کہا تھا کہ ابن زبیر سے بیعت کر لو۔ میں نے ان سے کہا کہ مجھے ان کی خلافت کو تسلیم کرنے میں کیا تامل ہو سکتا ہے، ان کے والد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حواری تھے، آپ کی مراد زبیر بن عوام سے تھی۔ ان کے نانا صاحب غار تھے، اشارہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف تھا۔ ان کی والدہ صاحب نطاقین تھیں یعنی اسماء رضی اللہ عنہا۔ ان کی خالہ ام المؤمنین تھیں، مراد عائشہ رضی اللہ عنہا سے تھی۔ ان کی پھوپھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ تھیں، مراد خدیجہ رضی اللہ عنہا سے تھی۔

ابن عباس کی مراد ان باتوں سے یہ تھی کہ وہ بہت سی خوبیوں کے مالک ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی ان کی دادی ہیں، اشارہ صفیہ رضی اللہ عنہا کی طرف تھا۔ اس کے علاوہ وہ خود اسلام میں ہمیشہ صاف کردار اور پاک دامن رہے اور قرآن کے عالم ہیں اور اللہ کی قسم! اگر وہ مجھ سے اچھا برتاؤ کریں تو ان کو کرنا ہی چاہئے وہ میرے بہت قریب کے رشتہ دار ہیں اور اگر وہ مجھ پر حکومت کریں تو خیر حکومت کریں وہ ہمارے برابر کے عزت والے ہیں۔ لیکن عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے تو تویت، اسامہ اور حمید کے لوگوں کو ہم پر ترجیح دی ہے۔ ان کی مراد مختلف قبائل یعنی بنو اسد، بنو تویت، بنو اسامہ اور بنو اسد سے تھی۔ ادھر ابن ابی العاص بڑی عمدگی سے چل رہا ہے یعنی عبدالملک بن مروان مسلسل پیش قدمی کر رہا ہے اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے اس کے سامنے دم دبا لی ہے۔

حدیث نمبر ۴۶۶۶

راوی: ابن ابی ملیکہ

 ہم ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے کہا کہ ابن زبیر پر تمہیں حیرت نہیں ہوتی۔ وہ اب خلافت کے لئے  کھڑے ہو گئے ہیں تو میں نے ارادہ کر لیا کہ ان کے لئے  محنت مشقت کروں گا کہ ایسی محنت اور مشقت میں نے ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے لئے  بھی نہیں کی۔ حالانکہ وہ دونوں ان سے ہر حیثیت سے بہتر تھے۔ میں نے لوگوں سے کہا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی کی اولاد میں سے ہیں۔ زبیر رضی اللہ عنہ کے بیٹے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے نواسے، خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھائی کے بیٹے، عائشہ رضی اللہ عنہا کی بہن کے بیٹے۔ لیکن عبداللہ بن زبیر نے کیا کیا وہ مجھ سے غرور کرنے لگے۔ انہوں نے نہیں چاہا کہ میں ان کے خاص مصاحبوں میں رہوں اپنے دل میں کہ مجھ کو ہرگز یہ گمان نہ تھا کہ میں تو ان سے ایسی عاجزی کروں گا اور وہ اس پر بھی مجھ سے راضی نہ ہوں گے۔ خیر اب مجھے امید نہیں کہ وہ میرے ساتھ بھلائی کریں گے جو ہونا تھا وہ ہوا اب بنی امیہ جو میرے چچا زاد بھائی ہیں اگر مجھ پر حکومت کریں تو یہ مجھ کو اوروں کے حکومت کرنے سے زیادہ پسند ہے۔

وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ

نیز ان نومسلموں کا بھی حق ہے جن کی دلجوئی منظور ہے۔ (۹:۶۰)

مجاہد نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان نو مسلم لوگوں کو کچھ دے دلا کر ان کی دلجوئی فرمایا کرتے تھے۔

حدیث نمبر ۴۶۶۷

راوی: ابو سعید خدریؓ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ مال آیا تو آپ نے چار آدمیوں میں اسے تقسیم کر دیا۔ جو نو مسلم تھے اور فرمایا کہ میں یہ مال دے کر ان کی دلجوئی کرنا چاہتا ہوں اس پر بنو تمیم ک ایک شخص بولا کہ آپ نے انصاف نہیں کیا۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شخص کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو دین سے باہر ہو جائیں گے۔

ٱلَّذِينَ يَلۡمِزُونَ ٱلۡمُطَّوِّعِينَ مِنَ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ فِى ٱلصَّدَقَـٰتِ

 وہ جو طعن کرتے ہیں دل کھول کر، خیرات کرنے والے مسلمانوں کو، (۹:۷۹)

يَلْمِزُونَ کا معنی عیب لگاتے ہیں، طعنہ مارتے ہیں۔

حدیث نمبر ۴۶۶۸

راوی: ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ

جب ہمیں خیرات کرنے کا حکم ہوا تو ہم مزدوری پر بوجھ اٹھاتے اور اس کی مزدوری صدقہ میں دے دیتے چنانچہ ابوعقیل اسی مزدوری سے آدھا صاع خیرات لے کر آئے اور ایک دوسرے صحابی عبدالرحمٰن بن عوف اس سے زیادہ لائے۔ اس پر منافقوں نے کہا کہ اللہ کو اس یعنی عقیل کے صدقہ کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور اس دوسرے عبدالرحمٰن بن عوف نے تو محض دکھاوے کے لئے  اتنا بہت سا صدقہ دیا ہے۔ چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی:

ٱلَّذِينَ يَلۡمِزُونَ ٱلۡمُطَّوِّعِينَ مِنَ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ فِى ٱلصَّدَقَـٰتِ وَٱلَّذِينَ لَا يَجِدُونَ إِلَّا جُهۡدَهُمۡ

کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو صدقات کے بارے میں نفل صدقہ دینے والے مسلمانوں پر طعن کرتے ہیں اور خصوصاً ان لوگوں پر جنہیں بجز ان کی محنت مزدوری کے کچھ نہیں ملتا...(۹:۷۹)

حدیث نمبر ۴۶۶۹

راوی: ابومسعود انصاری

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صدقہ کی ترغیب دیتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ مزدوری کر کے لاتے اور بڑی مشکل سے ایک مد کا صدقہ کر سکتے لیکن آج انہیں میں بعض ایسے ہیں جن کے پاس لاکھوں درہم ہیں۔ غالباً ان کا اشارہ خود اپنی طرف تھا حماد نے کہا ہاں سچ ہے ۔

اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لاَ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً

اے نبی ! آپ ان کے لئے  استغفار کریں یا نہ کریں اگر آپ ان کے لئے  ستر مرتبہ بھی استغفار کریں گے جب بھی اللہ انہیں نہیں بخشے گا (۹:۸۰)

حدیث نمبر ۴۶۷۰

راوی: ابن عمر رضی اللہ عنہما

جب عبداللہ بن ابی منافق کا انتقال ہوا تو اس کے لڑکے عبداللہ بن عبداللہ جو پختہ مسلمان تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ اپنی قمیص ان کے والد کے کفن کے لئے  عنایت فرما دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قمیص عنایت فرمائی۔

 پھر انہوں نے عرض کی کہ آپ نماز جنازہ بھی پڑھا دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز جنازہ پڑھانے کے لئے  بھی آگے بڑھ گئے۔ اتنے میں عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن پکڑ لیا اور عرض کیا یا رسول اللہ! اس کی نماز جنازہ پڑھانے جا رہے ہیں، جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے منع بھی فرما دیا ہے۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے فرمایا ہے

اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لاَ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً

اے نبی ! آپ ان کے لئے  استغفار کریں یا نہ کریں اگر آپ ان کے لئے  ستر مرتبہ بھی استغفار کریں گے جب بھی اللہ انہیں نہیں بخشے گا (۹:۸۰)

اس لئے  میں ستر مرتبہ سے بھی زیادہ استغفار کروں گا۔ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ زیادہ استغفار کرنے سے معاف کر دے

عمر رضی اللہ عنہ بولے لیکن یہ شخص تو منافق ہے۔

 ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا و

وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰٓ أَحَدٍ۬ مِّنۡہُم مَّاتَ أَبَدً۬ا وَلَا تَقُمۡ عَلَىٰ قَبۡرِهِۦۤ‌ۖ

اور ان میں سے جو کوئی مر جائے اس پر کبھی بھی نماز نہ پڑھئے اور نہ اس کی قبر پر کھڑا ہوئیے۔ (۹:۸۴)

حدیث نمبر ۴۶۷۱

راوی: عمر رضی اللہ عنہ

جب عبداللہ بن ابی ابن سلول کی موت ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لئے  کہا گیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھانے کے لئے  کھڑے ہوئے تو میں جلدی سے خدمت نبوی میں پہنچا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ ابن ابی منافق کی نماز جنازہ پڑھانے لگے حالانکہ اس نے فلاں فلاں دن اس اس طرح کی باتیں اسلام کے خلاف کی تھیں؟

 عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں اس کی کہی ہوئی باتیں ایک ایک کر کے پیش کرنے لگا۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبسم کر کے فرمایا کہ عمر! میرے پاس سے ہٹ جاؤ اور صف میں جا کے کھڑے ہو جاؤ ۔ میں نے اصرار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اختیار دیا گیا ہے۔ اس لئے  میں نے اس کے لئے  استغفار کرنے اور اس کی نماز جنازہ پڑھانے ہی کو پسند کیا، اگر مجھے یہ معلوم ہو جائے کہ ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کرنے سے اس کی مغفرت ہو جائے گی تو میں ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کروں گا۔

 بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی اور واپس تشریف لائے، تھوڑی دیر ابھی ہوئی تھی کہ سورۃ برأت  کی دو آیتیں نازل ہوئیں

وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰٓ أَحَدٍ۬ مِّنۡہُم مَّاتَ أَبَدً۬ا ... وَمَاتُواْ وَهُمۡ فَـٰسِقُونَ  

 اور نماز نہ پڑھ ان میں کسی پر، جو مر جائے کبھی، اور نہ کھڑا ہو اسکی قبر پر۔وہ منکر ہوئے اﷲ سے اور اسکے رسول سے، اور مرے ہیں بے حکم(کہ وہ سرکش تھے) ۔(۹:۸۴)

وَلاَ تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلاَ تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ

اے نبی ! اگر ان میں سے کوئی مر جائے تو آپ اس پر کبھی بھی نماز جنازہ نہ پڑھئیے اور نہ اس کی دعائے مغفرت کے لئے قبر پر کھڑے ہوئیے ،(۹:۸۴)

حدیث نمبر ۴۶۷۳

راوی: ابن عمر رضی اللہ عنہما

جب عبداللہ بن ابی کا انتقال ہوا تو اس کے بیٹے عبداللہ بن عبداللہ بن ابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنا کرتہ عنایت فرمایا اور فرمایا کہ اس کرتے سے اسے کفن دیا جائے پھر آپؐ اس پر نماز پڑھانے کے لئے  کھڑے ہوئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کا دامن پکڑ لیا اور عرض کیا آپ اس پر نماز پڑھانے کے لئے  تیار ہو گئے حالانکہ یہ منافق ہے، اللہ تعالیٰ بھی آپ کو ان کے لئے  استغفار سے منع کر چکا ہے۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے۔ یا  راوی نے خيرني کی جگہ لفظ أخبرني نقل کیا ہے۔

 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے

اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لاَ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً

اے نبی ! آپ ان کے لئے  استغفار کریں یا نہ کریں اگر آپ ان کے لئے  ستر مرتبہ بھی استغفار کریں گے جب بھی اللہ انہیں نہیں بخشے گا (۹:۸۰)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ستر مرتبہ سے بھی زیادہ استغفار کروں گا۔

عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نماز پڑھی اور ہم نے بھی ان کے ساتھ پڑھی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری:

وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰٓ أَحَدٍ۬ مِّنۡہُم مَّاتَ أَبَدً۬ا ... وَمَاتُواْ وَهُمۡ فَـٰسِقُونَ  

 اور نماز نہ پڑھ ان میں کسی پر، جو مر جائے کبھی، اور نہ کھڑا ہو اسکی قبر پر۔وہ منکر ہوئے اﷲ سے اور اسکے رسول سے، اور مرے ہیں بے حکم(کہ وہ سرکش تھے) ۔(۹:۸۴)

سَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ ... بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ

عنقریب یہ لوگ تمہارے سامنے جب تم ان کے پاس واپس لوٹو گے اللہ کی قسم کھائیں گے تاکہ تم ان کو ان کی حالت پر چھوڑے رہو ،

سو تم ان کو ان کی حالت پر چھوڑے رہو بیشک یہ گندے ہیں اور ان کا ٹھکا نا دوزخ ہے ، بدلہ میں ان افعال کے جو وہ کرتے رہے ہیں۔ (۹:۹۵)

حدیث نمبر ۴۶۷۳

راوی: عبداللہ بن کعب بن مالک

بیان کیا کہ انہوں نے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے ان کے غزوہ تبوک میں شریک نہ ہو سکنے کا واقعہ سنا۔ انہوں نے بتلایا، اللہ کی قسم! ہدایت کے بعد اللہ نے مجھ پر اتنا بڑا اور کوئی انعام نہیں کیا جتنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سچ بولنے کے بعد ظاہر ہوا تھا کہ اس نے مجھے جھوٹ بولنے سے بچایا، ورنہ میں بھی اسی طرح ہلاک ہو جاتا جس طرح دوسرے لوگ جھوٹی معذرتیں بیان کرنے والے ہلاک ہوئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں وحی نازل کی تھی

سَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ ... بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ

عنقریب یہ لوگ تمہارے سامنے جب تم ان کے پاس واپس لوٹو گے اللہ کی قسم کھائیں گے تاکہ تم ان کو ان کی حالت پر چھوڑے رہو ،

سو تم ان کو ان کی حالت پر چھوڑے رہو بیشک یہ گندے ہیں اور ان کا ٹھکا نا دوزخ ہے ، بدلہ میں ان افعال کے جو وہ کرتے رہے ہیں۔ (۹:۹۵)

وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِهِمْ خَلَطُوا عَمَلاً صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا عَسَى اللَّهُ أَنْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ

اور کچھ اور لوگ ہیں جنہوں نے اپنے گناہوں کا اقرار کر لیا ، انہوں نے ملے جلے عمل کئے کچھ بھلے اور کچھ برے قریب ہے کہ اللہ ان پر نظر رحمت فرمائے ، بیشک اللہ بہت ہی بڑا بخشش کرنے والا اور بہت ہی بڑا مہر بان ہے۔ (۹:۱۰۲)

حدیث نمبر ۴۶۷۴

راوی: سمرہ بن جندب

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا کہ رات خواب میں میرے پاس دو فرشتے آئے اور مجھے اٹھا کر ایک شہر میں لے گئے جو سونے اور چاندی کی اینٹوں سے بنایا گیا تھا، وہاں ہمیں ایسے لوگ ملے جن کا آدھا بدن نہایت خوبصورت، اتنا کہ کسی دیکھنے والے نے ایسا حسن نہ دیکھا ہو گا اور بدن کا دوسرا آدھا حصہ نہایت بدصورت تھا، اتنا کہ کسی نے بھی ایسی بدصورتی نہیں دیکھی ہو گی۔ دونوں فرشتوں نے ان لوگوں سے کہا جاؤ اور اس نہر میں غوطہٰ لگاؤ۔ وہ گئے اور نہر میں غوطہٰ لگا آئے۔ جب وہ ہمارے پاس آئے تو ان کی بدصورتی جاتی رہی اور اب وہ نہایت خوبصورت نظر آتے تھے ۔

پھر فرشتوں نے مجھ سے کہا کہ یہ جنت عدن ہے اور آپ کا مکان یہیں ہے۔ جن لوگوں کو ابھی آپ نے دیکھا کہ جسم کا آدھا حصہ خوبصورت تھا اور آدھا بدصورت، تو یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے دنیا میں اچھے اور برے سب کام کئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کر دیا تھا۔

مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ

نبی اور جو لوگ ایمان لائے ، ان کے لئے  اجازت نہیں کہ وہ مشرکوں کے لئے  بخشش کی دعا کریں اگرچہ وہ ان کے قرابت دار ہوں جبکہ ان پر ظاہر ہو جائے کہ وہ دوزخی ہیں۔(۹:۱۱۳)

حدیث نمبر ۴۶۷۵

راوی: مسیب بن حزن

جب ابوطالب کے انتقال کا وقت ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے، اس وقت وہاں ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بیٹھے ہوئے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ آپ ایک بار زبان سے کلمہ لا الہٰ الا اللہ کہہ دیجئیے میں اسی کو آپ کی نجات کے لئے  وسیلہ بنا کر اللہ کی بارگاہ میں پیش کر لوں گا۔

اس پر ابوجہل اور عبداللہ ابی امیہ کہنے لگے ابوطالب! کیا آپ عبدالمطلب کے دین سے پھر جاؤ گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ اب میں آپ کے لئے  برابر مغفرت کی دعا مانگتا رہوں گا جب تک مجھے اس سے روک نہ دیا جائے، تو یہ آیت نازل ہوئی:

مَا كَانَ لِلنَّبِىِّ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَن يَسۡتَغۡفِرُو ... أَنَّہُمۡ أَصۡحَـٰبُ ٱلۡجَحِيمِ  

نبی اور ایمان والوں کے لئے  جائز نہیں کہ وہ مشرکوں کے لئے  بخشش کی دعا کریں۔ اگرچہ وہ مشرکین رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔ جب ان پر یہ ظاہر ہو چکے کہ وہ یقیناً اہل دوزخ سے ہیں۔(۹:۱۱۳ )

لَقَدْ تَابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالأَنْصَارِ ...إِنَّهُ بِهِمْ رَءُوفٌ رَحِيمٌ

بیشک اللہ نے نبی پر مہاجرین و انصار پر رحمت فرمائی ، وہ لوگ جنہوں نے نبی کا ساتھ تنگی کے وقت جنگ تبوک میں دیا ، بعد اس کے کہ ان میں سے ایک گروہ کے دلوں میں کچھ تزلزل پیدا ہو گیا تھا ۔

پھر اللہ نے ان لوگوں پر رحمت کے ساتھ توجہ فرما دی ، بیشک وہ ان کے حق میں بڑا ہی شفیق بڑا ہی رحم کرنے والا ہے ۔ (۹:۱۱۷ )

حدیث نمبر ۴۶۷۶

راوی: عبداللہ بن کعب

ان کے والد کعب بن مالک رضی اللہ عنہ جب نابینا ہو گئے تو ان کے بیٹوں میں یہی ان کو راستے میں ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے کعب بن مالک سے ان کے واقعہ کے سلسلے میں سنا جس کے بارے میں آیت وعلى الثلاثة الذين خلفوا‏ نازل ہوئی تھی۔ آپ نے آخر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تھا کہ اپنی توبہ کے قبول ہونے کی خوشی میں اپنا تمام مال اللہ اور اس کے رسول کے راستے میں خیرات کرتا ہوں۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں اپنا کچھ تھوڑا مال اپنے پاس ہی رہنے دو۔ یہ تمہارے حق میں بھی بہتر ہے۔

وَعَلَى الثَّلاَثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا حَتَّى إِذَا ... إِنَّ اللَّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ

اور ان تینوں پر بھی اللہ نے توجہ فرمائی جن کا مقدمہ پیچھے کو ڈال دیا گیا تھا ، یہاں تک کہ جب زمین ان پر باوجود اپنی فراخی کے تنگ ہونے لگی اور وہ خود اپنی جانوں سے تنگ آ گئے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ

اللہ سے کہیں پناہ نہیں مل سکتی بجز اسی کی طرف کے ، پھر اس نے ان پر رحمت سے توجہ فرمائی تاکہ وہ بھی توبہ کر کے رجوع کریں ۔ بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا بڑا ہی مہربان ہے ۔(۹:۱۱۸ )

حدیث نمبر ۴۶۷۷

راوی: عبداللہ

میں نے اپنے والد کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا وہ ان تین صحابہ میں سے تھے جن کی توبہ قبول کی گئی تھی۔ انہوں نے بیان کیا کہ دو غزووں، غزوہ عسرت یعنی غزوہ تبوک اور غزوہ بدر کے سوا اور کسی غزوے میں کبھی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جانے سے نہیں رکا تھا۔

 انہوں نے بیان کیا چاشت کے وقت جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ سے واپس تشریف لائے تو میں نے سچ بولنے کا پختہ ارادہ کر لیا اور آپ کا سفر سے واپس آنے میں معمول یہ تھا کہ چاشت کے وقت ہی آپ مدینہ پہنچتے تھے اور سب سے پہلے مسجد میں تشریف لے جاتے اور دو رکعت نماز پڑھتے بہرحال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے اور میری طرح عذر بیان کرنے والے دو اور صحابہ سے دوسرے صحابہ کو بات چیت کرنے سے منع کر دیا۔ ہمارے علاوہ اور بھی بہت سے لوگ جو ظاہر میں مسلمان تھے اس غزوے میں شریک نہیں ہوئے لیکن آپ نے ان میں سے کسی سے بھی بات چیت کی ممانعت نہیں کی تھی۔ چنانچہ لوگوں نے ہم سے بات چیت کرنا چھوڑ دیا۔ میں اسی حالت میں ٹھہرا رہا۔

معاملہ بہت طول پکڑتا جا رہا تھا۔ ادھر میری نظر میں سب سے اہم معاملہ یہ تھا کہ اگر کہیں اس عرصہ میں میں مر گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ پر نماز جنازہ نہیں پڑھائیں گے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو جائے تو افسوس لوگوں کا یہی طرز عمل میرے ساتھ پھر ہمیشہ کے لئے  باقی رہ جائے گا، نہ مجھ سے کوئی گفتگو کرے گا اور نہ مجھ پر نماز جنازہ پڑھے گا۔ آخر اللہ تعالیٰ نے ہماری توبہ کی بشارت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس وقت نازل کی جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں تشریف رکھتے تھے۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا مجھ پر بڑا احسان و کرم تھا اور وہ میری مدد کیا کرتی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ام سلمہ! کعب کی توبہ قبول ہو گئی۔ انہوں نے عرض کیا۔ پھر میں ان کے یہاں کسی کو بھیج کر یہ خوشخبری نہ پہنچوا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ خبر سنتے ہی لوگ جمع ہو جائیں گے اور ساری رات تمہیں سونے نہیں دیں گے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز پڑھنے کے بعد بتایا کہ اللہ نے ہماری توبہ قبول کر لی ہے۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ خوشخبری سنائی تو آپ کا چہرہ مبارک منور ہو گیا جیسے چاند کا ٹکڑا ہو اور غزوہ میں نہ شریک ہونے والے دوسرے لوگوں سے جنہوں نے معذرت کی تھی اور ان کی معذرت قبول بھی ہو گئی تھی۔ ہم تین صحابہ کا معاملہ بالکل مختلف تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری توبہ قبول ہونے کے متعلق وحی نازل کی، لیکن جب ان دوسرے غزوہ میں شریک نہ ہونے والے لوگوں کا ذکر کیا، جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جھوٹ بولا تھا اور جھوٹی معذرت کی تھی تو اس درجہ برائی کے ساتھ کیا کہ کسی کا بھی اتنی برائی کے ساتھ ذکر نہ کیا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

يَعۡتَذِرُونَ إِلَيۡكُمۡ إِذَا رَجَعۡتُمۡ إِلَيۡہِمۡ‌ۚ ... وَسَيَرَى ٱللَّهُ عَمَلَكُمۡ وَرَسُولُهُ ۥ

یہ لوگ تمہارے سب کے سامنے عذر پیش کریں گے، جب تم ان کے پاس واپس جاؤ گے تو آپ کہہ دیں کہ بہانے نہ بناؤ ہم ہرگز تمہاری بات نہ مانیں گے!

بیشک ہم کو اللہ تمہاری خبر دے چکا ہے اور عنقریب اللہ اور اس کا رسول تمہارا عمل دیکھ لیں گے۔ (۹:۹۴)

أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ

اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرتے رہو اور سچے لوگوں کے ساتھ رہا کرو ۔ (۹:۱۱۹ )

حدیث نمبر ۴۶۷۸

راوی: عبداللہ بن کعب بن مالک

وہ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر چلتے تھے۔ جب وہ نابینا ہو گئے تھے عبداللہ نے بیان کیا کہ میں نے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ غزوہ تبوک میں اپنی غیر حاضری کا قصہ بیان کر رہے تھے، کہا کہ اللہ کی قسم! سچ بولنے کا جتنا عمدہ پھل اللہ تعالیٰ نے مجھے دیا، کسی کو نہ دیا ہو گا۔ جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے میں نے اس بارے میں سچی بات کہی تھی، اس وقت سے آج تک کبھی جھوٹ کا ارادہ بھی نہیں کیا اور اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل کی تھی :

لَقَدْ تَابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالأَنْصَارِ ...إِنَّهُ بِهِمْ رَءُوفٌ رَحِيمٌ

بیشک اللہ نے نبی پر مہاجرین و انصار پر رحمت فرمائی ، وہ لوگ جنہوں نے نبی کا ساتھ تنگی کے وقت جنگ تبوک میں دیا ، بعد اس کے کہ ان میں سے ایک گروہ کے دلوں میں کچھ تزلزل پیدا ہو گیا تھا ۔

پھر اللہ نے ان لوگوں پر رحمت کے ساتھ توجہ فرما دی ، بیشک وہ ان کے حق میں بڑا ہی شفیق بڑا ہی رحم کرنے والا ہے ۔ (۹:۱۱۷ )

جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ

بیشک تمہارے پاس ایک رسول آئے ہیں جو تمہاری ہی جنس میں سے ہیں ، جو چیز تمہیں نقصان پہنچاتی ہے وہ انہیں بہت گراں گزرتی ہے ،

وہ تمہاری بھلائی کے انتہائی حریص ہیں اور ایمان والوں کے حق میں تو بڑے ہی شفیق اور مہربان ہیں ۔(۹:۱۲۸ )

رَءُوفٌ ، رأفة سے نکلا ہے

حدیث نمبر ۴۶۷۹

راوی: زید بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کاتب وحی

جب ۱۱ ھ میں یمامہ کی لڑائی میں جو مسلیمہ کذاب سے ہوئی تھی بہت سے صحابہ مارے گئے تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مجھے بلایا، ان کے پاس عمر رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہا، عمر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور کہا کہ جنگ یمامہ میں بہت زیادہ مسلمان شہید ہو گئے ہیں اور مجھے خطرہ ہے کہ کفار کے ساتھ لڑائیوں میں یونہی قرآن کے علماء اور قاری شہید ہوں گے اور اس طرح بہت سا قرآن ضائع ہو جائے گا۔ اب تو ایک ہی صورت ہے کہ آپ قرآن کو ایک جگہ جمع کرا دیں اور میری رائے تو یہ ہے کہ آپ ضرور قرآن کو جمع کرا دیں۔

 ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس پر میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا، ایسا کام میں کس طرح کر سکتا ہوں جو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، اللہ کی قسم! یہ تو محض ایک نیک کام ہے۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ مجھ سے اس معاملہ پر بات کرتے رہے اور آخر میں اللہ تعالیٰ نے اس خدمت کے لئے  میرا بھی سینہ کھول دیا اور میری بھی رائے وہی ہو گئی جو عمر رضی اللہ عنہ کی تھی۔ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ وہیں خاموش بیٹھے ہوئے تھے۔

پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا تم جوان اور سمجھدار ہو ہمیں تم پر کسی قسم کا شبہ بھی نہیں اور تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی لکھا بھی کرتے تھے، اس لئے  تم ہی قرآن مجید کو جابجا سے تلاش کر کے اسے جمع کر دو۔ اللہ کی قسم! کہ اگر ابوبکر رضی اللہ عنہ مجھ سے کوئی پہاڑ اٹھا کے لے جانے کے لئے  کہتے تو یہ میرے لئے  اتنا بھاری نہیں تھا جتنا قرآن کی ترتیب کا حکم۔ میں نے عرض کیا آپ لوگ ایک ایسے کام کے کرنے پر کس طرح آمادہ ہو گئے، جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا تھا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا اللہ کی قسم! یہ ایک نیک کام ہے۔

 پھر میں ان سے اس مسئلہ پر گفتگو کرتا رہا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس خدمت کے لئے  میرا بھی سینہ کھول دیا۔ جس طرح ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کا سینہ کھولا تھا۔ چنانچہ میں اٹھا اور میں نے کھال، ہڈی اور کھجور کی شاخوں سے جن پر قرآن مجید لکھا ہوا تھا، اس دور کے رواج کے مطابق قرآن مجید کو جمع کرنا شروع کر دیا اور لوگوں کے جو قرآن کے حافظ تھے حافظہ سے بھی مدد لی اور سورۃ التوبہ کی دو آیتیں خزیمہ انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس مجھے ملیں۔ ان کے علاوہ کسی کے پاس مجھے نہیں ملی تھی۔ وہ آیتیں یہ تھیں   

جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ

بیشک تمہارے پاس ایک رسول آئے ہیں جو تمہاری ہی جنس میں سے ہیں ، جو چیز تمہیں نقصان پہنچاتی ہے وہ انہیں بہت گراں گزرتی ہے ،

 وہ تمہاری بھلائی کے انتہائی حریص ہیں اور ایمان والوں کے حق میں تو بڑے ہی شفیق اور مہربان ہیں ۔(۹:۱۲۸ )

پھر مصحف جس میں قرآن مجید جمع کیا گیا تھا، ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس رہا، آپ کی وفات کے بعد عمر رضی اللہ عنہ کے پاس محفوظ رہا، پھر آپ کی وفات کے بعد آپ کی صاحبزادی ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس محفوظ رہ ۔

سورۃ یونس کی تفسیر

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ فاختلط کا معنی یہ ہے کہ پانی برسنے کی وجہ سے زمین سے ہر قسم کا سبزہ اگا۔ یعنی عیسائی کہتے ہیں کہ اللہ نے ایک بیٹا بنا رکھا ہے۔ سبحان اللہ، وہ بےنیاز ہے ۔

اور زید بن اسلم نے کہا کہ أن لهم قدم صدق‏ سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں۔ اور مجاہد نے بیان کیا کہ اس سے بھلائی مراد ہے۔

تلك آيات‏ میں تلك جو حاضر کے لئے  ہے مراد اس سے غائب ہے۔ یعنی یہ قرآن کی نشانیاں ہیں، اسی طرح اس آیت۔ حتى إذا كنتم في الفلك وجرين بهم‏ میں بهم‏ سے بكم‏.‏ مراد ہے یعنی غائب سے حاضر مراد ہے۔

د عواهم‏ ای دعاؤهم‏ ان کی دعا أحيط بهم‏ یعنی ہلاکت و بربادی کے قریب آ گئے، جیسے أحاطت به خطيئته یعنی گناہوں نے اس کو سب طرف سے گھیر لیا۔

  فاتبعهم اور وأتبعهم کے ایک معنی ہیں۔

  عدوا‏ ، عدوان‏.‏ سے نکلا ہے۔

 آیت يعجل الله للناس الشر استعجالهم بالخير‏ کے متعلق مجاہد نے کہا کہ اس سے مراد غصہ کے وقت آدمی کا اپنی اولاد اور اپنے مال کے متعلق یہ کہنا کہ اے اللہ! اس میں برکت نہ فرما اور اس کو اپنی رحمت سے دور کر دے تو بعض اوقات ان کی یہ دعا نہیں لگتی کیونکہ ان کی تقدیر کا فیصلہ پہلے ہی ہو چکا ہوتا ہے اور بعض اوقات جس پر بددعا کی جاتی ہے، وہ ہلاک و برباد ہو جاتے ہیں۔

   للذين أحسنوا الحسنى‏ ‏ میں مجاہد نے کہا زيادة‏ سے مغفرت اور اللہ کی رضا مندی مراد ہے دوسرے لوگوں نے کہا وزيادة‏ سے اللہ کا دیدار مراد ہے۔

الكبرياء‏ سے سلطنت اور بادشاہی مراد ہے۔

وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ ... وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ

اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر کے پار کر دیا ، پھر فرعون اور اس کے لشکر نے ظلم کرنے کے ارادہ سے ان کا پیچھا کیا ۔ وہ سب سمندر میں ڈوب گئے

اور فرعون بھی ڈوبنے لگا تو وہ بولا میں ایمان لاتا ہوں کہ کوئی خدا نہیں سوائے اس کے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں بھی مسلمان ہوتا ہوں۔ ۱(۱۰:۹۰)

ننجيك بمعنی نلقيك ۔

على نجوة من الأرض میں نجوة بمعنی وهو النشز المكان المرتفع یعنی ہم تیری لاش کو نجوة اونچی جگہ پر ڈال دیں گے جس کو سب دیکھیں اور عبرت حاصل کریں۔

حدیث نمبر ۴۶۸۰

راوی: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہود عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ اسی دن موسیٰ علیہ السلام کو فرعون پر فتح ملی تھی۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام کے ہم ان سے بھی زیادہ مستحق ہیں اس لئے  تم بھی روزہ رکھو۔

سورۃ ہود کی تفسیر

ابومیسرہ عمرو بن شرحبیل نے کہا الأواه ‏‏‏‏ حبشی زبان میں مہربان، رحم دل کو کہتے ہیں۔

اور ابن عباس نے کہا بادئ الرأي کا معنی جو ہم کو ظاہر ہوا۔

 اور مجاہد نے کہا جودي ایک پہاڑ ہے اس جزیرے میں جو دجلہ اور فرات کے بیچ میں موصل کے قریب ہے۔

اور امام حسن بصری نے کہ ا إنك لأنت الحليم یہ کافروں نے شعیب کو ٹھٹھے کی راہ سے کہا تھا۔

اور ابن عباس نے کہا أقلعي ‏‏‏‏ کے معنی تھم جا۔ عصيب کے معنی سخت۔ لا جرم کا معنی کیوں نہیں یعنی ضروری ہے ۔ وفار التنور کا معنی پانی پھوٹ نکلا۔

عکرمہ نے کہا تنور سطح زمین کو کہتے ہیں۔

أَلاَ إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ ... إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ

خبردار ہو ، وہ لوگ جو اپنے سینوں کو دہرا کئے دیتے ہیں ، تاکہ اپنی باتیں اللہ سے چھپا سکیں وہ غلطی پر ہیں ، اللہ سینے کے بھیدوں سے واقف ہے ۔

خبردار رہو ! وہ لوگ جس وقت چھپنے کے لئے  اپنے کپڑے لپیٹتے ہیں اس وقت بھی وہ جانتا ہے جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں ،

بیشک وہ ان کے دلوں کے اندر کی باتوں سے خوب خبردار ہے (۱۱:۵)

عکرمہ کے سوا اور لوگوں نے کہا کہ حاق کا معنی اتر پڑا اسی سے ہے يحيق ينزل اترتا ہے۔

انه ليوس كفور میں يوس کا معنی ناامید ہونا۔ جو بروزن فعول ہے۔ یہ يئست سے نکلا ہے

اور مجاہد نے کہا لا تبتئس کا معنی غم نہ کھا يثنون صدورهم کا مطلب یہ ہے کہ حق بات میں شک و شبہ کرتے ہیں۔

  ليستخفوا منه یعنی اگر ہو سکے تو اللہ سے چھپا لیں۔

حدیث نمبر ۴۶۸۱

راوی: محمد بن عباد بن جعفر

 انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا کہ آپ آیت کی قرأت اس طرح کرتے تھے ألا إنهم تثنوني صدورهم‏ میں نے ان سے آیت کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ اس میں حیاء کرتے تھے کہ کھلی ہوئی جگہ میں حاجت کے لئے  بیٹھنے میں، آسمان کی طرف ستر کھولنے میں، اس طرح صحبت کرتے وقت آسمان کی طرف کھولنے میں پروردگار سے شرماتے۔

حدیث نمبر ۴۶۸۲

راوی: محمد بن عباد بن جعفر

 ابن عباس رضی اللہ عنہما اس طرح قرأت کرتے تھے ألا إنهم تثنوني صدورهم‏

محمد بن عباد نے پوچھا اے ابو العباس! تثنوني صدورهم‏ کا کیا مطلب ہے؟

بتلایا کہ کچھ لوگ اپنی بیوی سے ہمبستری کرنے میں حیاء کرتے اور خلاء کے لئے  بیٹھتے ہوئے بھی حیاء کرتے تھے۔ انہیں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی کہ ألا إنهم تثنوني صدورهم‏ ۔

حدیث نمبر ۴۶۸۳

راوی: عمرو بن دینار

 ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت کی قرأت اس طرح کی تھی ألا إنهم يثنون صدورهم ليستخفوا منه ألا حين يستغشون ثيابهم

اور عمرو بن دینار کے علاوہ اوروں نے بیان کیا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ يستغشون‏ یعنی اپنے سر چھپا لیتے ہیں۔ سيء بهم‏ یعنی اپنی قوم سے وہ بدگمان ہوا۔ وضاق بهم‏ یعنی اپنے مہمانوں کو دیکھ کر وہ بدگمان ہوا کہ ان کی قوم انہیں بھی پریشان کرے گی۔ بقطع من الليل‏ یعنی رات کی سیاہی میں

اور مجاہد نے کہا أنيب‏ کے معنی میں رجوع کرتا ہوں متوجہ ہوتا ہوں ۔

وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ

اللہ کا عرش پانی پر تھا (۱۱:۷)

حدیث نمبر ۴۶۸۴

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بندو! میری راہ میں خرچ کرو تو میں بھی تم پر خرچ کروں گا

 اور فرمایا، اللہ کا ہاتھ بھرا ہوا ہے۔ رات اور دن مسلسل کے خرچ سے بھی اس میں کم نہیں ہوتا

اور فرمایا تم نے دیکھا نہیں جب سے اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے، مسلسل خرچ کئے جا رہا ہے لیکن اس کے ہاتھ میں کوئی کمی نہیں ہوئی، اس کا عرش پانی پر تھا اور اس کے ہاتھ میں میزان عدل ہے جسے وہ جھکاتا اور اٹھاتا رہتا ہے۔

  اعتراك‏ باب افتعال سے ہے عروته سے یعنی میں نے اس کو پکڑ پایا اسی سے ہے۔

  يعروه مضارع کا صیغہ اور اعتراني آخذ بناصيتها‏ یعنی اس کی حکومت اور قبضہ قدرت میں ہیں۔

  عنيد ، عنود اور عاند سب کے معنی ایک ہی ہیں یعنی سرکش مخالف اور یہ جبار کی تاکید ہے۔

  استعمركم‏ تم کو بسایا، آباد کیا۔ عرب لوگ کہتے ہیں أعمرته الدار فهى عمرى یعنی یہ گھر میں نے اس کو عمر بھر کے لئے  دے ڈالا۔

نكرهم‏ ، أنكرهم اور استنكرهم سب کے ایک ہی معنی ہیں۔ یعنی ان کو پردیسی سمجھا۔

حميد ، فعيل کے وزن پر ہے بمعنی محمود میں سراہا گیا اور مجيد‏ ، ماجد‏‏ کے معنی میں ہے یعنی کرم کرنے وال ۔

سجيل اور سجين دونوں کے معنی سخت اور بڑا کے ہیں۔

  لام اور نون بہنیں ہیں ایک دوسرے سے بدلی جاتی ہیں ۔ تمیم بن مقبل شاعر کہتا ہے:

بعضے پیدل دن دھاڑے خود پر ضرب لگاتے ہیں ایسی ضرب جس کی سختی کے لئے  بڑے بڑے پہلوان اپنے شاگردوں کو وصیت کیا کرتے ہیں۔

وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا

اور مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا

وإلى مدين یعنی مدین والوں کی طرف کیونکہ مدین ایک شہر کا نام ہے جسے دوسری جگہ فرمایا واسأل القرية یعنی گاؤں والوں سے پوچھ۔ واسأل العير یعنی قافلہ والوں سے پوچھ۔

  وراءكم ظهريا یعنی پس پشت ڈال دیا اس کی طرف التفات نہ کیا۔ جب کوئی کسی کا مقصد پورا نہ کرے تو عرب لوگ کہتے ہیں ظهرت بحاجتي اور جعلتني ظهريا اس جگہ ظهري کا معنی وہ جانور یا برتن ہے جس کو تو اپنے کام کے لئے  ساتھ رکھے۔

أراذلنا ہمارے میں سے کمینے لوگ۔

إجرام ، أجرمت کا مصدر ہے یا جرمت ثلاثى مجرد۔

فلك اور فلك جمع اور مفرد دونوں کے لئے  آتا ہے۔ ایک کشتی اور کئی کشتیوں کو بھی کہتے ہیں۔

  مجراها کشتی کا چلنا یہ أجريت کا مصدر ہے۔ اسی طرح مرساها ، أرسيت کا مصدر ہے یعنی میں نے کشتی تھما لی لنگر کر دی بعضوں نے مرساها بفتح میم پڑھا ہے رست سے۔ اسی طرح مجراها بھی جرت سے ہے۔ بعضوں نے مجريها ، مرسيها یعنی اللہ اس کو چلانے والا ہے اور وہی اس کا تھمانے والا ہے یہ معنوں میں مفعول کے ہیں۔

راسيات کے معنی جمی ہوئی کے ہیں۔

وَيَقُولُ الأَشْهَادُ هَؤُلاَءِ الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى رَبِّهِمْ أَلاَ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ  

اور کہیں گے گواہی والے، یہی ہیں جنہوں نے جھوٹ بولا اپنے رب پر۔ سن لو! پھٹکار ہے اﷲ کی بے انصاف لوگوں پر۔(۱۱:۱۸)

الأَشْهَادُ ، شاهد کی جمع ہے جیسے صاحب کی جمع أصحاب ہے۔

حدیث نمبر ۴۶۸۵

راوی: صفوان بن محرز

 ابن عمر رضی اللہ عنہما طواف کر رہے تھے کہ ایک شخص نام نامعلوم آپ کے سامنے آیا اور پوچھا اے ابوعبدالرحمٰن! یا یہ کہا کہ اے ابن عمر! کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشی کے متعلق کچھ سنا ہے جو اللہ تعالیٰ مؤمنین سے قیامت  کے دن کرے گا ۔

انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ مؤمن اپنے رب کے قریب لایا جائے گا۔

اور ہشام نے يدنو المؤمن بجائے يدنى المؤمن کہ مطلب ایک ہی ہے۔

یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا ایک جانب اس پر رکھے گا اور اس کے گناہوں کا اقرار کرائے گا کہ فلاں گناہ تجھے یاد ہے؟ بندہ عرض کرے گا، یاد ہے، میرے رب! مجھے یاد ہے، دو مرتبہ اقرار کرے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے دنیا میں تمہارے گناہوں کو چھپائے رکھا اور آج بھی تمہاری مغفرت کروں گا۔ پھر اس کی نیکیوں کا دفتر لپیٹ دیا جائے گا۔

 لیکن دوسرے لوگ یا یہ کہا کہ کفار تو ان کے متعلق محشر میں اعلان کیا جائے گا کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا تھا۔

وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَى وَهِيَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِيمٌ شَدِيدٌ

اور تیرے پروردگار کی پکڑ اسی طرح ہے جب وہ بستی والوں کو پکڑتا ہے جو اپنے اوپر ظلم کرتے رہتے ہیں ، بیشک اس کی پکڑ بڑی دکھ دینے والی اور بڑی ہی سخت ہے (۱۱:۱۰۲)

الرفد المرفود مدد جو دی جائے انعام جو مرحمت ہو ۔

عرب لوگ کہتے ہیں رفدته یعنی میں نے اس کی مدد کی۔

  تركنوا کا معنی جھکو، مائل ہو۔

فلولا كان یعنی کیوں نہ ہوئے۔

  أترفوا ہلاک کئے گئے۔

 ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا زفير زور کی آواز کو اور شهيق پست آواز کو کہتے ہیں۔

حدیث نمبر ۴۶۸۶

راوی: ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ظالم کو چند روز دنیا میں مہلت دیتا رہتا ہے لیکن جب پکڑتا ہے تو پھر نہیں چھوڑتا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی

وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَى وَهِيَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِيمٌ شَدِيدٌ

اور تیرے پروردگار کی پکڑ اسی طرح ہے، جب وہ بستی والوں کو پکڑتا ہے۔ جو اپنے اوپر ظلم کرتے رہتے ہیں، بیشک اس کی پکڑ بڑی تکلیف دینے والی اور بڑی ہی سخت ہے۔(۱۱:۱۰۲)

وَأَقِمِ الصَّلاَةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ

اور تم نماز قائم کرو ، دن کے دونوں سروں پر اور رات کے کچھ حصوں میں ، بیشک نیکیاں مٹا دیتی ہیں بدیوں کو ، یہ ایک نصیحت ہے نصیحت ماننے والوں کے لئے ۔ (۱۱:۱۱۴)

زُلَفًا یعنی گھڑی گھڑی اسی سے مزدلفة ہے۔ کیونکہ لوگ وہاں وقفہ وقفہ سے آتے رہتے ہیں اور زلف منزلوں کو بھی کہتے ہیں۔ زلفى کا لفظ جو سورۃ ص میں ہے جیسے قربى یعنی نزدیکی۔ ازدلفوا کا معنی جمع ہو گئے۔ أزلفنا متعدی ہے۔ یعنی ہم نے جمع کیا۔

 ایک شخص کسی غیر عورت کو ہاتھ سے چھونے یا صرف بوسہ دے دینے کا مرتکب ہو گیا تھا اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔

حدیث نمبر ۴۶۸۷

راوی: ابن مسعود رضی اللہ عنہ

ایک شخص نے کسی غیر عورت کو بوسہ دے دیا اور پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے اپنا گناہ بیان کیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی

وَأَقِمِ الصَّلاَةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ

اور تم نماز قائم کرو ، دن کے دونوں سروں پر اور رات کے کچھ حصوں میں ، بیشک نیکیاں مٹا دیتی ہیں بدیوں کو ، یہ ایک نصیحت ہے نصیحت ماننے والوں کے لئے ۔ (۱۱:۱۱۴)

 ان صاحب نے عرض کیا یہ آیت صرف میرے ہی لئے  ہے کہ نیکیاں بدیوں کو مٹا دیتی ہیں ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اُمت کے ہر انسان کے لئے  ہے جو اس پر عمل کرے۔

سورۃ یوسف کی تفسیر

مجاہد نے کہا متكأ ‏ کا معنی لأترج اور خود فضیل   ذیلی راوی نے بھی کہا کہ متكأ‏ حبشی زبان میں لأترج کو کہتے ہیں۔

مجاہد نے کہا متكأ ‏ وہ چیز جو چھری سے کاٹی جائے میوہ ہو یا ترکاری ۔

 اور قتادہ نے کہا ذو علم‏ کا معنی اپنے علم پر عمل کرنے والا۔

 اور سعید بن جبیر نے کہا صواع ایک ماپ ہے جس کو مكوك الفارسي بھی کہتے ہیں یہ ایک گلاس کی طرح کا ہوتا ہے جس کے دونوں کنارے مل جاتے ہیں۔ عجم کے لوگ اس میں پانی پیا کرتے ہیں۔

 اور ابن عباس نے کہا لو لا ان تفندون‏ اگر تم مجھ کو جاہل نہ کہو۔

 دوسرے لوگوں نے کہا غيابة وہ چیز جو دوسری چیز کو چھپائے غائب کر دے اور جب کچا کنواں جس کی بندش نہ ہوئی ہو۔

وما انت بمؤمن لنا‏ ا‏ یعنی تو ہماری بات سچ ماننے والا نہیں۔

أشده وہ عمر جو زمانہ انحطاط سے پہلے ہو تیس سے چالیس برس تک ۔ عرب بولا کرتے ہیں بلغ أشده وبلغوا أشدهم یعنی اپنی جوانی کی عمر کو پہنچا یا پہنچے۔ بعضوں نے کہا اشد ، شد کی جمع ہے۔

  متكأ مسند، تکیہ جس پر تو پینے کھانے یا باتیں کرنے کے لئے  ٹیکا دے۔ اور جس نے یہ کہا کہ متكأ ، لأترج کو کہتے ہیں اس نے غلط کہا۔ عربی زبان میں متكأ کے معنی لأترج کے بالکل نہیں آئے ہیں جب اس شخص سے جو متكأ کے معنی لأترج کہتا ہے اصل بیان کی گئی کہ متكأ مسند یا تکیہ کو کہتے ہیں تو وہ اس سے بھی بدتر ایک بات کہنے لگا کہ یہ لفظ المتك ساكنة التاء ہے۔ حالانکہ متك عربی زبان میں عورت کی شرمگاہ کو کہتے ہیں۔ جہاں عورت کو ختنہ کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ عورت کو عربی زبان میں متكأ متك والی کہتے ہیں اور آدمی کو متكأ کا پیٹ کہتے ہیں۔ اگر بالفرض زلیخا نے لأترج بھی منگوا کر عورتوں کو دیا ہو گا تو مسند تکیہ کے بعد دیا ہو گا۔

  شعفها یعنی اس کے دل کے شغاف غلاف میں اس کی محبت سما گئی ہے۔ بعضوں نے شعفها عین مہملہ سے پڑھا ہے وہ مشعوف سے نکلا ہے۔

أصب‏ کا معنی مائل ہو جاؤں گا جھک پڑوں گا۔

أضغاث أحلام‏ پریشان خواب جس کی کچھ تعبیر نہ دی جا سکے۔ اصل میں أضغاث ، ضغث کی جمع ہے یعنی ایک مٹھی بھر گھاس تنکے وغیرہ اس سے ہے سورۃ ص میں خذ بيدك ضغثا‏ یعنی اپنے ہاتھ میں سینکوں کا ایک مٹھا لے۔ اور أضغاث أحلام‏ میں ضغث کے یہ معنی مراد نہیں ہیں۔ بلکہ پریشان خواب مراد ہے۔

نمير‏ ، ميرة سے نکلا ہے اس کے معنی کھانے کے ہیں۔

  ونزداد كيل بعير‏ یعنی ایک اونٹ کا بوجھ اور زیادہ لائیں گے۔

أوى إليه‏ اپنے سے ملا لیا۔ اپنے پاس بیٹھا لیا۔

  سقاية ایک ماپ تھا جس سے غلہ ماپتے تھے ۔

  تفتأ‏ ہمیشہ رہو گے۔

  فلما استياسوا جب ناامید ہو گئے۔

ولا تياسوا من روح الله اللہ سے امید رکھو اس کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔

خلصوا نجيا الگ جا کر مشورہ کرنے لگے۔ نجي کا معنی مشورہ کرنے والا۔ اس کی جمع انجية بھی آئی ہے اس سے بنا ہے يتنا جون یعنی مشورہ کر رہے ہیں۔ نجي مفرد کا صیغہ ہے اور تثنیہ اور جمع میں نجي اور انجية دونوں مستعمل ہیں۔

حرضا‏ یعنی رنج و غم تجھ کو گلا ڈالے گا۔

  تحسسوا‏ یعنی خبر لو، لو لگاؤ، تلاش کرو۔

مزجاة‏ تھوڑی پونجی۔

غاشية من عذاب الله‏ ‏ اللہ کا عام عذاب جو سب کو گھیر لے۔

وَيُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَعَلَى آلِ يَعْقُوبَ كَمَا أَتَمَّهَا عَلَى أَبَوَيْكَ مِنْ قَبْلُ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ

اور اپنا انعام تمہارے اوپر اور اولاد یعقوب پر پورا کرے گا جیسا کہ وہ اسے اس سے پہلے پورا کر چکا ہے ، تمہارے باپ دادا ابراہیم اور اسحاق پر (۱۲:۶)

حدیث نمبر ۴۶۸۸

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کریم بن کریم بن کریم بن کریم یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم تھے۔ علیہم الصلٰوۃ والسلام ۔

لَقَدْ كَانَ فِي يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آيَاتٌ لِلسَّائِلِينَ  

البتہ ہیں یوسف کے مذکور میں اور بھائیوں کے، نشانیاں پُوچھنے والوں کو۔(۱۲:۷ )

حدیث نمبر ۴۶۸۹

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے سوال کیا کہ انسانوں میں کون سب سے زیادہ شریف ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے زیادہ شریف وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو۔

 صحابہ نے عرض کیا کہ ہمارے سوال کا مقصد یہ نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر سب سے زیادہ شریف یوسف علیہ السلام ہیں نبي الله ابن نبي الله ابن نبي الله ابن خليل الله ۔

صحابہ نے عرض کیا کہ ہمارے سوال کا یہ بھی مقصد نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا، عرب کے خاندانوں کے متعلق تم معلوم کرنا چاہتے ہو؟

صحابہ نے عرض کیا جی ہاں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاہلیت میں جو لوگ شریف سمجھے جاتے تھے، اسلام لانے کے بعد بھی وہ شریف ہیں، جبکہ دین کی سمجھ بھی انہیں حاصل ہو جائے۔

قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ أَمْرًا

یعقوب نے کہا ، تم نے اپنے دل سے خود ایک جھوٹی بات گھڑ لی ہے ۔ (۱۲:۱۸)

سَوَّلَتْ ‏‏‏‏ کا معنی تمہارے دلوں نے ایک من گھڑت بات کو اپنے لئے  اچھا سمجھ لیا ہے۔

حدیث نمبر ۴۶۹۰

راوی: ابن شہاب۔ عبیداللہ بن عبداللہ

انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہما کے اس واقعہ کے متعلق سنا جس میں تہمت لگانے والوں نے ان پر تہمت لگائی تھی اور پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی پاکی نازل کی۔ ان تمام لوگوں نے مجھ سے اس قصہ کا کچھ کچھ ٹکڑا بیان کیا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ اگر تم بَری ہو تو عنقریب اللہ تعالیٰ تمہاری پاکی نازل کر دے گا لیکن اگر تو آلودہ ہو گئی ہے تو اللہ سے مغفرت طلب کر اور اس کے حضور میں توبہ کر۔

عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے اس پر کہا اللہ کی قسم! میری اور آپ کی مثال یوسف علیہ السلام کے والد جیسی ہے اور انہیں کی کہی ہوئی بات میں بھی دہراتی ہوں کہ فَصَبۡرٌ۬ جَمِيلٌ۬ وَٱللَّهُ ٱلۡمُسۡتَعَانُ عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ  سو صبر کرنا ہی اچھا ہے اور تم جو کچھ بیان کرتے ہو اس پر اللہ ہی مدد کرے گا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی پاکی میں سورۃ النور کی إن الذين جاءوا بالإفك‏ سے آخر تک دس آیات اتاریں۔

حدیث نمبر ۴۶۹۱

راوی: ام رومان رضی اللہ عنہا وہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی والدہ

میں اور عائشہ بیٹھے ہوئے تھے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بخار چڑھ گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غالباً یہ ان باتوں کی وجہ ہوا ہو گا جن کا چرچا ہو رہا ہے۔ ام رومان رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ جی ہاں۔ اس کے بعد عائشہ رضی اللہ عنہا بیٹھ گئیں اور کہا کہ میری اور آپ لوگوں کی مثال یعقوب علیہ السلام اور ان کے بیٹوں جیسی ہے اور آپ لوگ جو کچھ بیان کرتے ہو اس پر اللہ ہی مدد کرے۔

وَرَاوَدَتْهُ الَّتِي هُوَ فِي بَيْتِهَا عَنْ نَفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الأَبْوَابَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ

اور جس عورت کے گھر میں وہ تھے وہ اپنا مطلب نکالنے کو انہیں پھسلانے لگی اور دروازے بند کر لئے  اور بولی کہ بس آ جا ۔(۱۲:۲۳ )

اور عکرمہ نے کہا هيت لك حورانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی آ جاہے۔ سعید بن جبیر نے بھی یہی کہا ہے۔

حدیث نمبر ۴۶۹۲

راوی: ابووائل

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے هيت لك پڑھا اور کہا کہ جس طرح ہمیں یہ لفظ سکھایا گیا ہے۔ اسی طرح ہم پڑھتے ہیں۔

مثواه‏ یعنی اس کا ٹھکانا، درجہ۔

ألفيا‏ یعنی پایا اسی سے ہے۔ ألفوا آباءهم‏ اور ألفينا‏ دوسری آیتوں میں اور ابن مسعود سے سورۃ الصافات میں بل عجبت ويسخرون‏ منقول ہے۔

حدیث نمبر ۴۶۹۳

راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

قریش نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے میں تاخیر کی تو آپ نے ان کے حق میں بددعا کی کہ اے اللہ! ان پر یوسف علیہ السلام کے زمانہ کا سا قحط نازل فرما۔ چنانچہ ایسا قحط پڑا کہ کوئی چیز نہیں ملتی تھی اور وہ ہڈیوں کے کھانے پر مجبور ہو گئے تھے۔ لوگوں کی اس وقت یہ کیفیت تھی کہ آسمان کی طرف نظر اٹھا کے دیکھتے تھے تو بھوک و پیاس کی شدت سے دھواں سا نظر آتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين‏ تو آپ انتظار کیجئے اس روز کا جب آسمان کی طرف ایک نظر آنے والا دھواں پیدا ہو۔

اور فرمایا إنا كاشفو العذاب قليلا إنكم عائدون‏ بیشک ہم اس عذاب کو ہٹا لیں گے اور تم بھی اپنی پہلی حالت پر لوٹ آؤ گے۔

ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ عذاب سے یہی قحط کا عذاب مراد ہے کیونکہ آخرت کا عذاب کافروں سے ٹلنے والا نہیں ہے۔

فَلَمَّا جَاءَهُ الرَّسُولُ قَالَ ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ ... إِذْ رَاوَدْتُنَّ يُوسُفَ عَنْ نَفْسِهِ قُلْنَ حَاشَى لِلَّهِ

پھر جب قاصد ان کے پاس پہنچا تو یوسف علیہ السلام نے کہا کہ اپنے آقا کے پاس واپس جا اور اس سے پوچھ کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ چھری سے زخمی کر لئے  تھے ۔

بیشک میرا رب ان عورتوں کے فریب سے خوب واقف ہے بادشاہ نے کہا اے عورتو ! تمہارا کیا واقعہ ہے جب تم نے یوسف علیہ السلام سے اپنا مطلب نکالنے کی خواہش کی تھی ،

وہ بولیں حاشاللہ ! ہم نے یوسف علیہ السلام میں کوئی عیب نہیں دیکھا۔(۱۲:۵۰،۵۱)

حاش وحاشا الف کے ساتھ اس کا معنی پاکی بیان کرنا اور استثناء کرنا۔

حصحص کا معنی کھل گیا۔

حدیث نمبر ۴۶۹۶

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ لوط علیہ السلام پر اپنی رحمت نازل فرمائے کہ انہوں نے ایک زبردست سہارے کی پناہ لینے کے لئے  کہا تھا اور اگر میں قید خانے میں اتنے دنوں تک رہ چکا ہوتا جتنے دن یوسف علیہ السلام رہے تھے تو بلانے والے کی بات رد نہ کرتا اور ہم کو تو ابراہیم علیہ السلام کے بہ نسبت شک ہونا زیادہ سزاوار ہے۔ جب اللہ پاک نے ان سے فرمایا

أَوَلَمْ تُؤْمِن قَالَ بَلَىٰ وَلَٰكِن لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِيکہ کیا تجھ کو یقین نہیں؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں یقین تو ہے پر میں چاہتا ہوں کہ اور اطمینان ہو جائے۔(۲:۲۶۰)

حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ

یہاں تک کہ جب پیغمبر مایوس ہو گئے کہ افسوس ہم لوگوں کی نگاہوں میں جھوٹے ہوئے ... (۱۲:۱۱۰)

حدیث نمبر ۴۶۹۵

راوی: عروہ بن زبیر

 ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا عروہ نے ان سے آیت حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ ‏ کے متعلق پوچھا تھا۔

عروہ نے بیان کیا کہ میں نے پوچھا تھا آیت میں كذبوا تخفیف کے ساتھ یا كذبوا تشدیدکے ساتھ اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ كذبوا تشدید کے ساتھ اس پر میں نے ان سے کہا کہ انبیاء تو یقین کے ساتھ جانتے تھے کہ ان کی قوم انہیں جھٹلا رہی ہے۔ پھر ظنوا سے کیا مراد ہے، انہوں نے کہا اپنی زندگی کی قسم بیشک پیغمبروں کو اس کا یقین تھا۔ میں نے کہا كذبوا تخفیف ذال کے ساتھ پڑھیں تو کیا قباحت ہے۔

 انہوں نے کہا معاذاللہ! کہیں پیغمبر اپنے پروردگار کی نسبت ایسا گمان کر سکتے ہیں۔

میں نے کہا اچھا اس آیت کا مطلب کیا ہے؟ انہوں نے کہا مطلب یہ ہے کہ پیغمبروں کو جن لوگوں نے مانا ان کی تصدیق کی جب ان پر ایک مدت دراز تک آفت اور مصیبت آتی رہی اور اللہ کی مدد آنے میں دیر ہوئی اور پیغمبر ان کے ایمان لانے سے ناامید ہو گئے جنہوں نے ان کو جھٹلایا تھا اور یہ گمان کرنے لگے کہ جو لوگ ایمان لائے ہیں اب وہ بھی ہم کوجھوٹا سمجھنے لگیں گے، اس وقت اللہ کی مدد آن پہنچی۔

حدیث نمبر ۴۶۹۶

راوی: عروہ بن زبیر

میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا ہو سکتا ہے یہ كذبوا تخفیف ذال کے ساتھ ہو تو انہوں نے فرمایا، معاذاللہ! پھر وہی حدیث بیان کی جو اوپر گزری۔

سورۃ الرعد کی تفسیر

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا كباسط كفيه‏ یہ مشرک کی مثال ہے جو اللہ کے سوا دوسروں کی پوجا کرتا ہے جیسے پیاسا آدمی پانی کا تصور کر کے دور سے پانی کی طرف ہاتھ بڑھائے اور اس کو نہ لے سکے۔

دوسرے لوگوں نے کہا سخر‏ا کے معنی تابعدار کیا، مسخر کیا۔

متجاورات‏ ایک دوسرے سے ملے ہوئے، قریب قریب۔

  المثلات‏ ، مثلة کی جمع ہے یعنی جوڑا اور مشابہ۔ اور دوسری آیت میں ہے إلا مثل أيام الذين خلوا‏ مگر مشابہ دنوں ان لوگوں کے جو پہلے گزر گئے بمقدار‏ یعنی اندازے سے، جوڑ سے۔

  معقبات‏ نگہبان فرشتے جو ایک دوسرے کے بعد باری باری آتے رہتے ہیں، اسی سے عقيب‏  کا لفظ نکلا ہے۔ عرب لوگ کہتے ہیں عقبت في إثره یعنی میں اس کے نشان قدم پر پیچھے پیچھے گیا۔

  المحال عذاب۔

  كباسط كفيه إلى الماء‏ جو دونوں ہاتھ بڑھا کر پانی لینا چاہے۔

  رابيا‏ ، ربا ، يربو سے نکلا ہے یعنی بڑھنے والا یا اوپر تیرنے والا۔

المتاع جس چیز سے تو فائدہ اٹھائے اس کو کام میں لائے۔

جفاء‏ ، أجفأت القدر سے نکلا ہے یعنی ہانڈی نے جوش مارا جھاگ اوپر آ گیا پھر جب ہانڈی ٹھنڈی ہوتی ہے تو پھین جھاگ بیکار سوکھ کر فنا ہو جاتاہے۔ حق باطل سے اسی طرح جدا ہو جاتا ہے۔

  المهاد‏ بچھونا۔

يدرءون‏ دھکیلتے ہیں، دفع کرتے ہیں یہ درأته سے نکلا ہے یعنی میں نے اس کو دور کیا، دفع کر دیا۔

  سلام عليكم‏ یعنی فرشتے مسلمانوں کو کہتے جائیں گے تم سلامت رہو۔

وإليه متاب‏ میں اسی کی درگاہ میں توبہ کرتا ہوں۔

أفلم ييأس‏ کیا انہوں نے نہیں جانا۔

قارعة‏ آفت، مصیبت۔

  فأمليت‏ میں نے ڈھیلا چھوڑا، مہلت دی یہ لفظ ملي اور ملاوة ‏‏‏‏ سے نکلا ہے۔ اسی سے نکلا ہے جو جبرائیل کی حدیث میں ہے۔ فلبثت مليا یا قرآن میں ہے

واهجرنى مليا اور کشادہ لمبی زمین کو ملا کہتے ہیں۔

  أشق‏ ، افعل التفصيل کا صیغہ ہے مشقت سے یعنی بہت سخت۔

  معقب‏ لا معقب‏ لحكمه میں یعنی نہیں بدلنے والا

اور مجاہد نے کہا متجاورات‏ کا معنی یہ ہے کہ بعضے قطعے عمدہ قابل زراعت ہیں بعض خراب شور کھارے ہیں۔

صنوان‏ وہ کھجور کے درخت جن کی جڑ ملی ہوئی ہو ایک ہی جڑ پر کھڑے ہوں ۔

غير صنوان‏ الگ الگ جڑ پر سب ہی ایک پانی سے اگتے ہیں ایک ہی ہوا سے ایک ہی زمین میں آدمیوں کی بھی یہی مثال ہے کوئی اچھا کوئی برا حالانکہ سب ایک باپ آدم کی اولاد ہیں۔

  السحاب الثقال وہ بادل جن میں پانی بھرا ہوا ہو اور وہ پانی کے بوجھ سے بھاری بھر کم ہوں۔

  كباسط كفيه‏ یعنی اس شخص کی طرح جو دور سے ہاتھ پھیلا کر پانی کو زبان سے بلائے، ہاتھ سے اس کی طرف اشارہ کرے اس صورت میں پانی کبھی اس کی طرف نہیں آئے گا۔

سالت أودية بقدرها‏ یعنی نالے اپنے انداز سے بہتے ہیں یعنی پانی بھر کر

  زبدا ، رابيا‏ سے مراد بہتے پانی کا پھین جھاگ زبد مثله سے لو ہے، زیورات وغیرہ کا پھین جھاگ مراد ہے۔

لفظ معقبات سے مراد یہ ہے کہ رات کے فرشتے الگ اور دن کے الگ ہیں۔

اللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ أُنْثَى وَمَا تَغِيضُ الأَرْحَامُ

یعنی اللہ کو علم ہے اس کا جو کچھ کسی مادہ کے حمل میں ہوتا ہے اور جو کچھ ان کے رحم میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے ۔(۱۳:۸ )

غيض ای نقص کم کیا گیا۔

اللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ أُنْثَى وَمَا تَغِيضُ الأَرْحَامُ

اللہ کو علم ہے اس کا جو کچھ کسی مادہ کے حمل میں ہوتا ہے اور جو کچھ ان کے رحم میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ (۱۳:۸ )

حدیث نمبر ۴۶۹۷

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غیب کی پانچ کنجیاں ہیں جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

- اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا ہونے والا ہے،

- اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ عورتوں کے رحم میں کیا کمی بیشی ہوتی رہتی ہے،

- اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ بارش کب برسے گی،

-  کوئی شخص نہیں جانتا کہ اس کی موت کہاں ہو گی ا

- ور اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ قیامت  کب قائم ہو گی۔

سورۃ ابراہیم کی تفسیر

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا هاد‏ کا معنی بلانے والا، ہدایت کرنے والا نبی و رسول مراد ہیں ۔

 اور مجاہد نے کہا صديد ‏‏‏‏ کا معنی پیپ اور لہو۔

اور سفیان بن عیینہ نے کہ اذكروا نعمة الله عليكم‏ کا معنی یہ ہے کہ اللہ کی جو نعمتیں تمہارے پاس ہیں ان کو یاد کرو اور جو جو اگلے واقعات اس کی قدرت کے ہوئے ہیں

اور مجاہد نے کہا من كل ما سألتموه‏ کا معنی یہ ہے کہ جن جن چیزوں کی تم نے رغبت کی

  يبغونها عوجا‏ اس میں کجی پیدا کرنے کی تلاش کرتے رہتے ہیں۔

وإذ تأذن ربكم‏ جب تمہارے مالک نے تم کو خبردار کر دیا جتلا دیا۔

ردوا أيديهم في أفواههم‏ یہ عرب کی زبان میں ایک مثل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا جو حکم ہوا تھا اس سے باز رہے، بجا نہ لائے۔

مقامي‏ وہ جگہ جہاں اللہ پاک اس کو اپنے سامنے کھڑا کرے گا۔

من ورائه‏ سامنے سے۔

  لكم تبعا‏ ، تبع ، تابع کی جمع ہے جیسے غيب ، غائب کی۔

يستصرخه اس کی فریاد سنتا ہے دونوں صراخ سے نکلے ہیں صراخ کا معنی فریاد ۔

ولا خلال‏ ، خاللته کا مصدر ہے اور خلة کی جمع بھی ہو سکتا ہے یعنی اس دن دوستی نہ ہو گی یا دوستیاں نہ ہوں گی

اجتثت‏ جڑ سے اکھاڑ لیا گیا۔

كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ تُؤْتِي أُكْلَهَا كُلَّ حِينٍ  

ایک بات ستھری(کلمۂ طیبہ) ، جیسے ایک درخت ستھرا، اسکی جڑ مضبوط ہے، اور ٹہنی آسمان میں۔لاتا ہے پھل اپنا ہر وقت پر (۱۴:۲۴، ۲۵)

حدیث نمبر ۴۶۹۸

راوی: ابن عمر رضی اللہ عنہما

ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا اچھا مجھ کو بتلاؤ تو وہ کون سا درخت ہے جو مسلمان کی مانند ہے جس کے پتے نہیں گرتے، ہر وقت میوہ دے جاتا ہے؟

ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں میرے دل میں آیا وہ کھجور کا درخت ہے مگر میں نے دیکھا کہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما بیٹھے ہوئے ہیں انہوں نے جواب نہیں دیا تو مجھ کو ان بزرگوں کے سامنے کلام کرنا اچھا معلوم نہیں ہوا۔

جب ان لوگوں نے کچھ جواب نہیں دیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی فرمایا وہ کھجور کا درخت ہے۔

جب ہم اس مجلس سے کھڑے ہوئے تو میں نے اپنے والد عمر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا بابا جان! اللہ کی قسم! میرے دل میں آیا تھا کہ میں کہہ دوں وہ کھجور کا درخت ہے۔ انہوں نے کہا پھر تو نے کہہ کیوں نہ دیا۔ میں نے کہا آپ لوگوں نے کوئی بات نہیں کی میں نے آگے بڑھ کر بات کرنا مناسب نہ جانا۔ انہوں نے کہا واہ اگر تو اس وقت کہہ دیتا تو مجھ کو اتنے اتنے لال لال اونٹ ک مال ملنے سے بھی زیادہ خوشی ہوتی۔

يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ

یعنی اللہ ایمان والوں کو اس کی پکی بات کی برکت سے مضبوط رکھتا ہے ، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ (۱۴:۲۷ )

حدیث نمبر ۴۶۹۹

راوی: براء بن عازب رضی اللہ عنہ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان سے جب قبر میں سوال ہو گا تو وہ گواہی دے گا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد يثبت الله الذين آمنوا بالقول الثابت في الحياة الدنيا وفي الآخرة‏ اللہ ایمان والوں کی اس پکی بات کی برکت سے مضبوط رکھتا ہے، دنیوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی کا یہی مطلب ہے۔

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُوا نِعْمَةَ اللَّهِ كُفْرًا

آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے اللہ کی نعمت کے بدلے کفر کیا۔ (۱۴:۲۸ )

ألم تر کا معنی ألم تعلم یعنی کیا تو نے نہیں جانا۔

ألم تر كيف ، ألم تر إلى الذين خرجوا میں ہے۔

  البوار ای الهلاك ۔ بورا کا معنی ہلاکت ہے جو بار يبور کا مصدر ہے۔ قوما بورا کے معنی ہلاک ہونے والی قوم کے ہیں۔

حدیث نمبر ۴۷۰۰

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

آیت ألم تر إلى الذين بدلوا نعمة الله كفرا‏ میں کفار سے اہل مکہ مراد ہیں۔

سورۃ الحجر کی تفسیر

مجاہد نے کہا صراط على مستقيم‏ کا معنی سچا راستہ جو اللہ تک پہنچتا ہے۔ اللہ کی طرف جاتا ہے

  لبإمام مبين یعنی کھلے راستے پر۔

 اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا لعمرك‏ کا معنی یعنی تیری زندگی کی قسم۔ قوم منكرون‏ لوط نے ان کو اجنبی پردیسی سمجھا۔

 دوسرے لوگوں نے کہا كتاب معلوم کا معنی معین میعاد۔

  لوما تاتينا کیوں ہمارے پاس نہیں لاتا۔

شيع ‏‏‏‏ امتیں اور کبھی دوستوں کو بھی شيع ‏‏‏‏ کہتے ہیں

 اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا يهرعون کا معنی دوڑتے، جلدی کرتے۔

للمتوسمين ‏‏‏‏ دیکھنے والوں کے لئے ۔

  سكرت ‏‏‏‏ ڈھانکی گئیں۔

  بروجا ، برج یعنی سورج چاند کی منزلیں۔

لواقح ، ملاقح کے معنی میں ہے جو ملفحة کی جمع یعنی حاملہ کرنے والی۔

حما ، حماة کی جمع ہے بدبودار کیچڑ۔

مسنون قالب میں ڈھالی گئی۔

لا توجل مت ڈر۔

دابر اخر دم ۔

  لبامام مبين امام، وہ شخص جس کی تو پیروی کرے اس سے راہ پائے۔

  الصيحة ہلاکت کے معنی میں ہے۔

إِلاَّ مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَأَتْبَعَهُ شِهَابٌ مُبِينٌ

ہاں مگر کوئی بات چوری چھپے سن بھاگے تو اس کے پیچھے ایک جلتا ہوا انگارہ لگ جاتا ہے۔ (۱۵:۱۸)

حدیث نمبر ۴۷۰۱

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کوئی فیصلہ فرماتا ہے تو ملائکہ عاجزی سے اپنے پر مارنے لگتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد میں ہے کہ جیسے کسی صاف چکنے پتھر پر زنجیر کے مارنے سے آواز پیدا ہوتی ہے

اور علی بن عبداللہ المدینی نے بیان کیا کہ سفیان بن عیینہ کے سوا اور راویوں نے صفوان کے بعد ينفذهم ذلك جس سے ان پر دہشت طاری ہوتی ہے کے الفاظ کہے ہیں۔

 پھر اللہ پاک اپنا حکم فرشتوں تک پہنچا دیتا ہے، جب ان کے دلوں پر سے ڈر جاتا رہتا ہے تو دوسرے دور والے فرشتے نزدیک والے فرشتوں سے پوچھتے ہیں پروردگار نے کیا حکم صادر فرمایا۔ نزدیک والے فرشتے کہتے ہیں بجا ارشاد فرمایا اور وہ اونچا ہے بڑا۔ فرشتوں کی یہ باتیں چوری سے بات اڑانے والے شیطان پا لیتے ہیں۔ یہ بات اڑانے والے شیطان اوپر تلے رہتے ہیں ایک پر ایک ۔ سفیان ذیلی راوی نے اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیاں کھول کر ایک پر ایک کر کے بتلایا کہ اس طرح شیطان اوپر تلے رہ کر وہاں جاتے ہیں۔

 پھر بھی کبھی ایسا ہوتا ہے۔ فرشتے خبر پا کر آگ کا شعلہ پھینکتے ہیں وہ بات سننے والے کو اس سے پہلے جلا ڈالتا ہے کہ وہ اپنے پیچھے والے کو وہ بات پہنچا دے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ شعلہ اس تک نہیں پہنچتا اور وہ اپنے نیچے والے شیطان کو وہ بات پہنچا دیتا ہے، وہ اس سے نیچے والے کو اس طرح وہ بات زمین تک پہنچا دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ زمین تک آ پہنچتی ہے۔

 کبھی سفیان ذیلی راوی نے یوں کہ پھر وہ بات نجومی کے منہ پر ڈالی جاتی ہے۔ وہ ایک بات میں سو باتیں جھوٹ اپنی طرف سے ملا کر لوگوں سے بیان کرتا ہے۔ کوئی کوئی بات اس کی سچ نکلتی ہے تو لوگ کہنے لگتے ہیں دیکھو اس نجومی نے فلاں دن ہم کو یہ خبر دی تھی کہ آئندہ ایسا ایسا ہو گا اور ویسا ہی ہوا۔ اس کی بات سچ نکلی۔ یہ وہ بات ہوتی ہے جو آسمان سے چرائی گئی تھی۔

حدیث نمبر ۴۷۰۱ - b

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

 جب اللہ پاک کوئی حکم دیتا ہے اور ساحر کے بعد اس روایت میں كاهن ‏ کا لفظ زیادہ کیا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب اللہ پاک کوئی حکم دیتا ہے اور اس روایت میں على فم الساحر‏ کا لفظ ہے۔

وَلَقَدْ كَذَّبَ أَصْحَابُ الْحِجْرِ الْمُرْسَلِينَ

اور بالیقین حجر والوں نے بھی ہمارے رسولوں کو جھٹلایا۔ (۱۵:۸۰)

حدیث نمبر ۴۷۰۲

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحاب حجر کے متعلق فرمایا تھا کہ اس قوم کی بستی سے جب گزرنا ہی پڑ گیا ہے تو روتے ہوئے گزرو اور اگر روتے ہوئے نہیں گزر سکتے تو پھر اس میں نہ جاؤ۔ کہیں تم پر بھی وہی عذاب نہ آئے جو ان پر آیا تھا۔

وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ

اور تحقیق ہم نے آپ کو وہ سات آیتیں دی ہیں جو باربار پڑھی جاتی ہیں اور وہ قرآن عظیم ہے۔ (۱۵:۸۷)

حدیث نمبر ۴۷۰۳

راوی: ابوسعید بن معلی رضی اللہ عنہ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے میں اس وقت نماز پڑھ رہا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا۔ میں نماز سے فارغ ہونے کے بعد خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ فوراً ہی کیوں نہ آئے؟ عرض کیا کہ نماز پڑھ رہا تھا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا اللہ نے تم لوگوں کو حکم نہیں دیا ہے کہ اے ایمان والو! جب اللہ اور اس کے رسول تمہیں بلائیں تو لبیک کہو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیوں نہ آج میں تمہیں مسجد سے نکلنے سے پہلے قرآن کی سب سے عظیم سورت بتاؤں۔ پھر آپ بتانے سے پہلے مسجد سے باہر تشریف لے جانے کے لئے  اٹھے تو میں نے بات یاد دلائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سورۃ فاتحہ الحمد لله رب العالمين‏ یہی سبع مثانی ہے اور یہی قرآن عظیم ہے جو مجھے دیا گیا ہے۔

حدیث نمبر ۴۷۰۴

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ام القرآن یعنی سورۃ فاتحہ ہی سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے۔

الَّذِينَ جَعَلُوا الْقُرْآنَ عِضِينَ

جنہوں نے قرآن کے ٹکڑے ٹکڑے کر رکھے ہیں (۱۵:۹۱)

المقتسمين‏ سے وہ کافر مراد ہیں جنہوں نے رات کو جا کر قسم کھائی تھی کہ صالح پیغمبر کی اونٹنی کو مار ڈالیں گے۔ اسی سے لا أقسم‏ نکلا ہے کہ میں قسم کھاتا ہوں۔ بعضوں نے اسے لأقسم‏.‏ پڑھا ہے لام تاکید سے اسی سے ہے۔

  قاسمهما‏ یعنی ابلیس نے آدم و حواء علیہما السلام کے سامنے قسم کھائی لیکن آدم و حواء نے قسم نہیں کھائی تھی۔

مجاہد نے کہا کہ تقاسموا بالله لنبيتنه میں تقاسموا کا معنی یہ ہے کہ صالح پیغمبر کو رات کو جا کر مار ڈالنے کی انہوں نے قسم کھائی تھی۔

حدیث نمبر ۴۷۰۵

راوی: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما

 آیت الذين جعلوا القرآن عضين‏ جنہوں نے قرآن کے ٹکڑے کر رکھے ہیں کے متعلق کہا کہ اس سے مراد اہل کتاب ہیں کہ انہوں نے قرآن کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے۔

حدیث نمبر ۴۷۰۶

راوی: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما

آیت كما أنزلنا على المقتسمين‏ میں سے یہود و نصاریٰ مراد ہیں کچھ قرآن انہوں نے مانا کچھ نہ مانا۔

وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ

 اور بندگی کر اپنے رب کی، جب تک پہنچے تجھ کو یقین۔۔ (۱۵:۹۹)

سالم نے کہا کہ امر اليقين سے مراد موت ہے۔

سورۃ النحل کی تفسیر

نزل به الروح الأمين‏ میں روح الأمين‏ سے روح القدس‏ جبرائیل مراد ہیں۔

في ضيق‏ عرب لوگ کہتے ہیں أمر ضيق اور ضيق جیسے هين اور وهين اور لين اور ولين اور ميت اور وميت‏.‏ ۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا في تقلبهم‏ کا معنی ان کے اختلاف میں۔

 اور مجاہد نے کہا تميد کا معنی جھک جائے، الٹ جائے۔

  مفرطون‏ کا معنی بھلائے گئے۔

 دوسرے لوگوں نے کہا فإذا قرأت القرآن فاستعذ بالله‏ اس آیت میں عبارت آگے پیچھے ہو گئی ہے۔ کیونکہ اعوذ بالله‏ قرأت سے پہلے پڑھنا چاہئے۔ لاستعاذة کے معنی اللہ سے پناہ مانگنا۔

اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا تسيمون کا معنی چراتے ہو۔

  شاكلة اپنے اپنے طریق پر۔

قصد السبيل‏ سچے راستے کا بیان کرنا۔

  الدفء ہر وہ چیز جس سے گرمی حاصل کی جائے، سردی دفع ہو۔

  تريحون‏ شام کو لاتے ہو۔

تسرحون صبح کو چرانے لے جاتے ہو۔

  بشق‏ تکلیف اٹھا کر محنت مشقت سے۔

على تخوف‏ نقصان کر کے۔

  وان لكم في الأنعام لعبرة‏ میں الأنعام ، نعم کی جمع ہے۔ مذکر مؤنث دونوں کو الأنعام اور نعم کہتے ہیں۔

سرابيل‏ تقيكم الحر‏ میں سرابيل‏ سے کُرتے اور سرابيل تقيكم بأسكم‏ میں سرابيل سے زرہیں مراد ہیں۔

دخلا بينكم‏ جو ناجائز بات ہو اس کو دخل‏کہتے ہیں۔ جیسے دخل‏.‏ یعنی خیانت ۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا حفدة‏ آدمی کی اولاد۔

السكر نشے آور مشروب جو حرام ہے۔

  رزق الحسنا جس کو اللہ نے حلال کیا۔

  أنكاثا‏ ٹکڑے ٹکڑے یہ ایک عورت کا ذکر ہے اس کا نام خرقاء تھا جو مکہ میں رہتی تھی وہ دن بھر سوت کاتتی پھر توڑ توڑ کر پھینک دیتی۔

 ابن مسعود نے کہا لأمة کا معنی لوگوں کو اچھی باتیں سکھانے والا اور قانت کے معنی مطيع‏ اور فرمانبردار کے ہیں۔

وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ

اور تم میں سے بعض کو نکمی عمر کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے۔ (۱۶:۷۰)  

حدیث نمبر ۴۷۰۷

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کیا کرتے تھے:

أعوذ بك من البخل والكسل،‏‏‏‏ وأرذل العمر،‏‏‏‏ وعذاب القبر،‏‏‏‏ وفتنة الدجال،‏‏‏‏ وفتنة المحيا والممات ‏‏‏

اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں بخل سے، سستی سے، ارذل عمر سے نکمی اور خراب عمر ۸۰ یا ۹۰ سال کے بعد عذاب قبر سے، دجال کے فتنے سے اور زندگی اور موت کے فتنے سے۔

سورۃ بنی اسرائیل کی تفسیر

حدیث نمبر ۴۷۰۸

راوی: عبدالرحمٰن بن یزید

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے سورۃ بنی اسرائیل، سورۃ الکہف اور سورۃ مریم کے متعلق کہا کہ یہ اول درجہ کی عمدہ نہایت فصیح و بلیغ سورتیں ہیں اور میری پرانی یاد کی ہوئی

فسينغضون‏ کے متعلق ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اپنے سر ہلائیں گے اور دوسرے لوگوں نے کہا کہ یہ نغضت سنك سے نکلا ہے یعنی تیرا دانت ہل گیا۔

وَقَضَيْنَا إِلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ

ہم نے بنی اسرائیل کو مطلع کر دیا تھا کہ آئندہ وہ فساد کریں گے ۔ (۱۷:۴)

قضاء کے کئی معانی آئے ہیں۔ جیسے آیت وقضى ربك‏ ان لا تعبدوا میں یہ معنی ہے کہ اللہ نے حکم دیا اور فیصلہ کرنے کے بھی معنی ہیں جیسے آیت إن ربك يقضي بينهم‏ میں ہے اور پیدا کرنے کے بھی معنی میں ہے جیسے فقضاهن سبع سموات‏ میں ہے۔

  نفيرا‏ وہ لوگ جو آدمی کے ساتھ لڑنے کو نکلیں۔

وليتبروا‏ ما علوا‏ یعنی جن شہروں سے غالب ہوں ان کو تباہ کریں۔

حصيرا‏ قید خانہ، جیل حق واجب ہوا۔

ميسورا‏ نرم، ملائم۔

  خطئا‏ گناہ یہ اسم ہے خطئت ‏‏‏‏ سے اور خطئا‏ بالفتح مصدر ہے یعنی گناہ کرنا۔ خطئت ‏‏‏‏ بکسر طاء ا‏‏‏‏ اور اخطات دونوں کا ایک ہی معنی ہے یعنی میں نے قصور کیا غلطی کی۔

لن تخرق‏‏ تو زمین کو طے نہیں کر سکے گا۔ کیونکہ زمین بہت بڑی ہے

نجوى‏ مصدر ہے۔ ناجيت ‏‏‏‏ سے یہ ان لوگوں کی صفت بیان کی ہے۔ یعنی آپس میں مشورہ کرتے ہیں۔

  رفاتا‏ ٹوٹے ہوئے ریزہ ریزہ۔

واستفزز‏ دیوانہ کر دے گمراہ کر دے۔

  بخيلك‏ اپنے سواروں سے۔

رجل پیادے اس کا مفرد راجل ہے جیسے صاحب کی جمع صحب اور تاجر کی جمع تجر‏‏ ہے۔

حاصبا‏ آندھی۔ حاصب اس کو بھی کہتے ہیں جو آندھی اڑا کر لائے ریت کنکر وغیرہ اسی سے ہے حصب جهنم‏ یعنی جو جہنم میں ڈالا جائے گا وہی جہنم کا حصب ہے۔ عرب لوگ کہتے ہیں حصب في الأرض زمین میں گھس گیا یہ حصب ، حصباء سے نکلا ہے۔ حصباء پتھروں سنگریزوں کو کہتے ہیں۔

تارة‏ ایک بار۔ اس کی جمع تيرة اور تارات آتی ہے۔

  لأحتنكن‏ ان کو تباہ کر دوں گا، جڑ سے کھود ڈالوں گا۔ عرب لوگ کہتے ہیں احتنك فلان ما عند فلان یعنی اس کو جتنی باتیں معلوم تھیں وہ سب اس نے معلوم کر لیں کوئی بات باقی نہ رہی۔

طائره‏ اس کا نصیبہ

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا قرآن میں جہاں جہاں سلطان کا لفظ آیا ہے اس کا معنی دلیل اور حجت ہے۔

  ولي من الذل‏ یعنی اس نے کسی سے اس لئے  دوستی نہیں کی ہے کہ وہ اس کو ذلت سے بچائے۔

أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ

جو لے گیا اپنے بندے کو راتوں رات ادب والی مسجد (مسجد ِحرام) سے (۱۷:۱)

حدیث نمبر ۴۷۰۹

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

معراج کی رات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیت المقدس میں دو پیالے پیش کئے گئے ایک شراب کا اور دوسرا دودھ کا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کو دیکھا پھر دودھ کا پیالہ اٹھا لیا۔ اس پر جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ تمام حمد اس اللہ کے لئے  ہے جس نے آپ کو فطرت اسلام کی ہدایت کی۔ اگر آپ شراب کا پیالہ اٹھا لیتے تو آپ کی اُمت گمراہ ہو جاتی۔

حدیث نمبر ۴۷۱۰

راوی: جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب قریش نے مجھ کو واقعہ معراج کے سلسلہ میں جھٹلایا تو میں کعبہ کے مقام حجر میں کھڑا ہوا تھا اور میرے سامنے پورا بیت المقدس کر دیا گیا تھا۔ میں اسے دیکھ دیکھ کر اس کی ایک ایک علامت بیان کرنے لگا۔

قاصفا‏ وہ آندھی جو ہر چیز کو تباہ کر دے۔

وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ

اور ہم نے عزت دی ہے آدم کی اولاد کو، (۱۷:۷۰)

كرمنا‏ اور أكرمنا دونوں کے ایک ہی معنی ہیں۔

ضعف الحياة‏ زندگی کا عذاب۔

  ضعف الممات موت کا عذاب۔

خلافك‏ اور خلفك دونوں قرأتیں ہیں دونوں کے ایک معنی ہیں یعنی تمہارے بعد۔

 نأى‏ کے معنی دور ہوا۔

  شاكلته‏ اپنے راستے پر یا اپنی زینت پر یہ شكل سے نکلا ہے یعنی جوڑ اور شبیہ۔

صرفنا‏ سامنے لائے بیان کئے۔

  قبيلا‏ آنکھوں کے سامنے روبرو بعضوں نے کہا یہ قابلة سے نکلا ہے جس کے معنی دائی، جنانے والی کے ہیں۔ کیونکہ وہ بھی جناتے وقت عورت کے مقابل ہوتی ہے اس کا بچہ قبول کرتی ہے یعنی سنبھالتی ہے۔

الإنفاق‏ کے معنی مفلس ہو جانا۔ کہتے ہیں أنفق الرجل جب وہ مفلس ہو جائے اور نفق الشىء جب کوئی چیز تمام ہو جائے۔ قتورا‏ کے معنی بخیل۔

أذقان‏ ، ذقن‏ کی جمع ہے جہاں دونوں جبڑے ملتے ہیں یعنی ٹھڈی۔

مجاہد نے کہا موفورا‏ وافرا کے معنی میں ہے یعنی پورا

تبيعا‏ بدلہ لینے والا۔

 اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا لا تبذر کا معنی یہ ہے کہ ناجائز کاموں میں اپنا پیسہ مت خرچ کر

  ابتغاء رحمة‏ روزی کی تلاش میں

مثبورا‏ کے معنی ملعون کے ہیں۔

لا تقف‏ مت کہہ

فجاسوا‏ قصد کیا۔

يزجي الفلك کے معنی چلاتا ہے۔

  يخرون للأذقان‏ کے معنی منہ کے بل گر پڑتے ہیں سجدہ کرتے ہیں ۔

إِذَا أَرَدْنَا أَنْ نُهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا  

 اور جب ہم نے چاہا کہ کھپا (ہلاک کر) دیں کوئی بستی، حکم بھیجا اسکے عیش کرنے والوں کو، (۱۷:۱۶)

حدیث نمبر ۴۷۱۱

راوی: عبداللہ

جب کسی قبیلہ کے لوگ بڑھ جاتے تو زمانہ جاہلیت میں ہم ان کے متعلق کہا کرتے تھے کہ أمر بنو فلان‏‏ یعنی فلاں کا خاندان بہت بڑھ گی ۔

ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ إِنَّهُ كَانَ عَبْدًا شَكُورًا

ان لوگوں کی نسل والو ! جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ کشتی میں سوار کیا تھا ، وہ نوح بیشک بڑا ہی شکر گزار بندہ تھا۔(۱۷:۳)

حدیث نمبر ۴۷۱۲

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گوشت لایا گیا اور دست کا حصہ آپ کو پیش کیا گیا۔ تو آپ نے اپنے دانتوں سے اسے ایک بار نوچا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دست کا گوشت بہت پسند تھا۔

 پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت  کے دن میں سب لوگوں کا سردار ہوں گا تمہیں معلوم بھی ہے یہ کون سا دن ہو گا؟ اس دن دنیا کے شروع سے قیامت  کے دن تک کی ساری خلقت ایک چٹیل میدان میں جمع ہو گی کہ ایک پکارنے والے کی آواز سب کے کانوں تک پہنچ سکے گی اور ایک نظر سب کو دیکھ سکے گی۔ سورج بالکل قریب ہو جائے گا اور لوگوں کی پریشانی اور بےقراری کی کوئی حد نہ رہے گی جو برداشت سے باہر ہو جائے گی۔ لوگ آپس میں کہیں گے، دیکھتے نہیں کہ ہماری کیا حالت ہو گئی ہے۔ کیا ایسا کوئی مقبول بندہ نہیں ہے جو اللہ پاک کی بارگاہ میں تمہاری شفاعت کرے؟

بعض لوگ بعض سے کہیں گے کہ آدم علیہ السلام کے پاس چلنا چاہئے۔ چنانچہ سب لوگ آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے آپ انسانوں کے پردادا ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور اپنی طرف سے خصوصیت کے ساتھ آپ میں روح پھونکی۔ فرشتوں کو حکم دیا اور انہوں نے آپ کو سجدہ کیا اس لئے  آپ رب کے حضور میں ہماری شفاعت کر دیں، آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم کس حال کو پہنچ چکے ہیں۔ آدم علیہ السلام کہیں گے کہ میرا رب آج انتہائی غضبناک ہے۔ اس سے پہلے اتنا غضبناک وہ کبھی نہیں ہوا تھا اور نہ آج کے بعد کبھی اتنا غضب ناک ہو گا اور رب العزت نے مجھے بھی درخت سے روکا تھا لیکن میں نے اس کی نافرمانی کی، پس نفسی، نفسی، نفسی مجھ کو اپنی فکر ہے تم کسی اور کے پاس جاؤ۔ ہاں نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ۔

 چنانچہ سب لوگ نوح علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے، اے نوح! آپ سب سے پہلے پیغمبر ہیں جو اہل زمین کی طرف بھیجے گئے تھے اور آپ کو اللہ نے شکر گزار بندہ عبد شکور کا خطاب دیا۔ آپ ہی ہمارے لئے  اپنے رب کے حضور میں شفاعت کر دیں، آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم کس حالت کو پہنچ گئے ہیں۔ نوح علیہ السلام بھی کہیں گے کہ میرا رب آج اتنا غضبناک ہے کہ اس سے پہلے کبھی اتنا غضبناک نہیں تھا اور نہ آج کے بعد کبھی اتنا غضبناک ہو گا اور مجھے ایک دعا کی قبولیت کا یقین دلایا گیا تھا جو میں نے اپنی قوم کے خلاف کر لی تھی۔ نفسی، نفسی، نفسی آج مجھ کو اپنے ہی نفس کی فکر ہے تم میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ، ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ۔

سب لوگ ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے، اے ابراہیم! آپ اللہ کے نبی اور اللہ کے خلیل ہیں روئے زمین میں منتخب، آپ ہماری شفاعت کیجئے، آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں کہ ہم کس حالت کو پہنچ چکے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام بھی کہیں گے کہ آج میرا رب بہت غضبناک ہے؟ اتنا غضبناک نہ وہ پہلے ہوا تھا اور نہ آج کے بعد ہو گا اور میں نے تین جھوٹ بولے تھے راوی ابوحیان نے اپنی روایت میں تینوں کا ذکر کیا ہے۔ نفسی، نفسی، نفسی مجھ کو اپنے نفس کی فکر ہے۔ میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ۔ ہاں موسیٰ علیہ السلام پاس کے جاؤ۔

 سب لوگ موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے اے موسیٰ! آپ اللہ کے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی طرف سے رسالت اور اپنے کلام کے ذریعہ فضیلت دی۔ آپ ہماری شفاعت اپنے رب کے حضور میں کریں، آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ ہم کس حالت کو پہنچ چکے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام کہیں گے کہ آج اللہ تعالیٰ بہت غضبناک ہے، اتنا غضبناک کہ وہ نہ پہلے کبھی ہوا تھا اور نہ آج کے بعد کبھی ہو گا اور میں نے ایک شخص کو قتل کر دیا تھا، حالانکہ اللہ کی طرف سے مجھے اس کا کوئی حکم نہیں ملا تھا۔ نفسی، نفسی، نفسی بس مجھ کو آج اپنی فکر ہے، میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ۔ ہاں عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ۔

سب لوگ عیسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے۔ اے عیسیٰ! آپ اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں جسے اللہ نے مریم علیہا السلام پر ڈالا تھا اور اللہ کی طرف سے روح ہیں، آپ نے بچپن میں ماں کی گود ہی میں لوگوں سے بات کی تھی، ہماری شفاعت کیجئے، آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ ہماری کیا حالت ہو چکی ہے۔ عیسیٰ بھی کہیں گے کہ میرا رب آج اس درجہ غضبناک ہے کہ نہ اس سے پہلے کبھی اتنا غضبناک ہوا تھا اور نہ کبھی ہو گا اور آپ کسی لغزش کا ذکر نہیں کریں گے صرف اتنا کہیں گے، نفسی، نفسی، نفسی میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ۔ ہاں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ۔

 سب لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے، اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ اللہ کے رسول اور سب سے آخری پیغمبر ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیئے ہیں، اپنے رب کے دربار میں ہماری شفاعت کیجئے۔ آپ خود ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ ہم کس حالت کو پہنچ چکے ہیں۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آخر میں آگے بڑھوں گا اور عرش تلے پہنچ کر اپنے رب عزوجل کے لئے  سجدہ میں گر پڑوں گا، پھر اللہ تعالیٰ مجھ پر اپنی حمد اور حسن ثناء کے دروازے کھول دے گا کہ مجھ سے پہلے کسی کو وہ طریقے اور وہ محامد نہیں بتائے تھے۔ پھر کہا جائے گا، اے محمد! اپنا سر اٹھایئے، مانگئے آپ کو دیا جائے گا۔ شفاعت کیجئے، آپ کی شفاعت قبول ہو جائے گی۔

اب میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور عرض کروں گا۔ اے میرے رب! میری امت، اے میرے رب! میری اُمت پر کرم کر،

 کہا جائے گا اے محمد! اپنی اُمت کے ان لوگوں کو جن پر کوئی حساب نہیں ہے، جنت کے داہنے دروازے سے داخل کیجئے ویسے انہیں اختیار ہے، جس دروازے سے چاہیں دوسرے لوگوں کے ساتھ داخل ہو سکتے ہیں۔

پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ جنت کے دروازے کے دونوں کناروں میں اتنا فاصلہ ہے جتنا مکہ اور حمیر میں ہے یا جتنا مکہ اور بصریٰ میں ہے۔

وَآتَيْنَا دَاوُدَ زَبُورًا

اور ہم نے داود کو زبور دی۔ (۱۷:۵۵)

حدیث نمبر ۴۷۱۳

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ داؤد علیہ السلام پر زبور کی تلاوت آسان کر دی گئی تھی۔ آپ گھوڑے پر زین کسنے کا حکم دیتے اور اس سے پہلے کہ زین کسی جا چکے، تلاوت سے فارغ ہو جاتے تھے۔

قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِهِ فَلاَ يَمْلِكُونَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنْكُمْ وَلاَ تَحْوِيلاً

آپ کہئے تم جن کو اللہ کے سوا معبود قرار دے رہے ہو ، ذرا ان کو پکارو تو سہی ، سو نہ وہ تمہاری کوئی تکلیف ہی دور کر سکتے ہیں اور نہ وہ اسے بدل ہی سکتے ہیں (۱۷:۵۶)

حدیث نمبر ۴۷۱۴

راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

آیت إلى ربهم الوسيلة‏ کا شان نزول یہ ہے کہ کچھ لوگ جنوں کی عبادت کرتے تھے، لیکن وہ جِن بعد میں مسلمان ہو گئے اور یہ مشرک کم بخت ان ہی کی پرستش کرتے جاہلی شریعت پر قائم رہے۔

اور  روایت میں یوں ہے کہ اس آیت قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُمْ کا شان نزول یہ ہے آخر تک۔

أُولَئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمِ الْوَسِيلَةَ

یہ لوگ جن کو یہ مشرکین پکار رہے ہیں وہ خود ہی اپنے پروردگار کا تقرب تلاش کر رہے ہیں۔ (۱۷:۵۷)

حدیث نمبر ۴۷۱۵

راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

آیت الذين يدعون يبتغون إلى ربهم الوسيلة‏ کی تفسیر میں کہا کہ کچھ جِن ایسے تھے جن کی آدمی پرستش کیا کرتے تھے پھر وہ جِن مسلمان ہو گئے۔

وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلاَّ فِتْنَةً لِلنَّاسِ

یعنی معراج کی رات میں ہم نے جو جو مناظر دکھلائے تھے ، ان کو ہم نے ان لوگوں کی آزمائش کا سبب بنا دیا۔ (۱۷:۶۰)

حدیث نمبر ۴۷۱۶

راوی: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما

آیت وما جعلنا الرؤيا التي أريناك إلا فتنة للناس‏ میں رؤيا سے آنکھ کا دیکھنا مراد ہے بیداری میں نہ کہ خواب میں یعنی وہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شب معراج میں دکھایا گیا اور شجرة الملعونة‏ سے تھوہڑ کا درخت مراد ہے۔

إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا

یعنی بیشک صبح کی نماز فرشتوں کی حاضری کا وقت ہے۔ (۱۷:۷۸)

مجاہد نے کہا کہ قُرْآنَ الْفَجْرِ سے مرادفجر کی نماز ہے۔

حدیث نمبر ۴۷۱۷

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تنہا نماز پڑھنے کے مقابلے میں جماعت سے نماز پڑھنے کی فضیلت پچیس گنا زیادہ ہے اور صبح کی نماز میں رات کے اور دن کے فرشتے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔

 ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھو وقرآن الفجر إن قرآن الفجر كان مشهودا‏ یعنی فجر میں قرأت قرآن زیادہ کیا کرو کیونکہ یہ نماز فرشتوں کی حاضری کا وقت ہے۔

عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا

قریب ہے کہ آپ کا پروردگار آپ کو مقام محمود میں اٹھائے گا۔ (۱۷:۷۹)

حدیث نمبر ۴۷۱۸

راوی: ابن عمر رضی اللہ عنہما

قیامت  کے دن امتیں گروہ در گروہ چلیں گی۔ ہر اُمت اپنے نبی کے پیچھے ہو گی اور انبیاء سے کہے گی کہ اے فلاں! ہماری شفاعت کرو مگر وہ سب ہی انکار کر دیں گے آخر شفاعت کے لئے  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوں گے تو یہی وہ دن ہے جب اللہ تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام محمود عطا فرمائے گا۔

حدیث نمبر ۴۷۱۹

راوی: جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے اذان سن کر یہ دعا پڑھی تو اس کے لئے  قیامت  کے دن میری شفاعت ضروری ہو گی۔

اللهم رب هذه الدعوة التامة والصلاة القائمة،‏‏‏‏ آت محمدا الوسيلة والفضيلة،‏‏‏‏ وابعثه مقاما محمودا الذي وعدته،

‏ اے اللہ! اس کامل پکار کے رب اور کھڑی ہونے والی نماز کے رب! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قرب اور فضیلت عطا فرما اور انہیں مقام محمود پر کھڑا کیجؤ۔ جس کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے۔

وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا

اور آپ کہہ دیں کہ حق اب تو غالب آ ہی گیا اور باطل مٹ ہی گیا ، بیشک باطل تو مٹنے والا ہی تھا (۱۷:۸۱)

يَزْهَقُ کے معنی ہلاک ہوا۔

حدیث نمبر ۴۷۲۰

راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں فتح کے بعد داخل ہوئے تو کعبہ کے چاروں طرف تین سو ساٹھ بت تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ کی لکڑی سے ایک کو ٹکراتے جاتے اور پڑھتے جاتے

جاء الحق وزهق الباطل إن الباطل كان زهوقا‏ ، جاء الحق وما يبدئ الباطل وما يعيد‏

حق آیا اور جھوٹ نابود ہوا بیشک جھوٹ نابود ہونے والا ہی تھا۔

وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ

اور آپ سے یہ لوگ روح کی بابت پوچھتے ہیں۔ (۱۷:۸۵)

حدیث نمبر ۴۷۲۱

راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک کھیت میں حاضر تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت کھجور کے ایک تنے پر ٹیک لگائے ہوئے تھے کہ کچھ یہودی اس طرف سے گزرے۔ کسی یہودی نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا کہ ان سے روح کے بارے میں پوچھو۔ ان میں سے کسی نے اس پر کہا ایسا کیوں کرتے ہو؟ دوسرا یہودی بولا۔ کہیں وہ کوئی ایسی بات نہ کہہ دیں، جو تم کو ناپسند ہو۔ رائے اس پر ٹھہری کہ روح کے بارے میں پوچھنا ہی چاہئے۔ چنانچہ انہوں نے آپ سے اس کے بارے میں سوال کیا۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر کے لئے  خاموش ہو گئے اور ان کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ میں سمجھ گیا کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اتر رہی ہے۔ اس لئے  میں وہیں کھڑا رہا۔ جب وحی ختم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی

وَيَسۡـَٔلُونَكَ عَنِ ٱلرُّوحِ‌ۖ قُلِ ٱلرُّوحُ مِنۡ أَمۡرِ رَبِّى وَمَآ أُوتِيتُم مِّنَ ٱلۡعِلۡمِ إِلَّا قَلِيلاً۬  

اور یہ آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ آپ کہہ دیں کہ روح میرے پروردگار کے حکم ہی سے ہے اور تمہیں علم تو تھوڑا ہی دیا گیا ہے۔(۱۷:۸۵)

وَلاَ تَجْهَرْ بِصَلاَتِكَ وَلاَ تُخَافِتْ بِهَا

اور آپ نماز میں نہ تو بہت پکار کر پڑھیں اور نہ بالکل چپکے ہی چپکے پڑھیں۔(۱۷:۱۱۰)

حدیث نمبر ۴۷۲۲

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

 اللہ تعالیٰ کے ارشاد ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت بها‏ اور آپ نماز میں نہ تو بہت پکار کر پڑھئے اور نہ بالکل چپکے ہی چپکے کے متعلق فرمایا کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں کافروں کے ڈر سے چھپے رہتے تو اس زمانہ میں جب آپ اپنے صحابہ کے ساتھ نماز پڑھتے تو قرآن مجید کی تلاوت بلند آواز سے کرتے، مشرکین سنتے تو قرآن کو بھی گالی دیتے اور اس کے نازل کرنے والے اور اس کے لانے والے کو بھی۔

اسی لئے  اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے کہا کہ آپ نماز نہ تو بہت پکار کر پڑھیں یعنی قرأت خوب جہر کے ساتھ نہ کریں کہ مشرکین سن کر گالیاں دیں اور نہ بالکل چپکے ہی چپکے کہ آپ کے صحابہ بھی نہ سن سکیں، بلکہ درمیانی آواز میں پڑھا کریں۔

حدیث نمبر ۴۷۲۳

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

یہ آیت دعا کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے۔

سورۃ الکہف کی تفسیر

مجاہد نے کہا تقرضهم‏ کا معنی ان کو چھوڑ دیتا تھا، کترا جاتا تھا۔

  وكان له ثمر‏ میں ثمر‏ سے مراد سونا روپیہ ہے۔ دوسروں نے کہا ثمر ‏ یعنی پھل کی جمع ہے۔

  باخع‏ کا معنی ہلاک کرنے والا۔

  أسفا‏ نداُمت اور رنج سے۔

كهف پہاڑ کا کھوہ یا غار۔

  الرقيم کے معنی لکھا ہوا بمعنی مرقوم یہ اسم مفعول کا صیغہ ہے رقم سے۔

ربطنا على قلوبهم‏ ہم نے ان کے دلوں میں صبر ڈالا جیسے سورۃ قصص میں ہے۔ لولا أن ربطنا على قلبها‏ وہاں بھی صبر کے معنی ہیں ۔

  شططا‏ حد سے بڑھ جانا۔

  مرفقا جس چیز پر تکیہ لگائے۔

  تزاور زور سے نکلا ہے یعنی جھک جاتا تھا اسی سے ازور ہے بہت جھکنے والا۔

  فجوة کشادہ جگہ اس کی جمع فجوات اور فجاء آتی ہے جیسے زكوة کی جمع زكاء ہے۔

اور وصيدا آنگن، صحن اس کی جمع وصائد اور وصد ہے۔ بعضوں نے کہا وصيد کے معنی دروازہ۔ مؤصدة‏ کے معنی بند کی ہوئی عرب لوگ کہتے ہیں آصد الباب یعنی اس نے دروازہ بند کر دیا۔

  بعثناهم‏ ہم نے ان کو زندہ کیا کھڑا کر دیا۔

  أزكى‏ طعاما اور أوصد الباب یعنی جو بستی کی اکثر خوراک ہے یا جو کھانا خوب حلال کا ہو، خوب پک کر بڑھ گیا ہو۔

  أكلها اس کا میوہ، یہ ابن عباس نے کہا ہے۔

  ولم تظلم‏ میوہ کم نہیں ہوا۔ اور سعید بن جبیر نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا۔

  رقيم وہ ایک تختی ہے سیسے کی اس پر اس وقت کے حاکم نے اصحاب کہف کے نام لکھ کر اپنے خزانے میں ڈال دی تھی۔

  فضرب الله على آذانهم اللہ نے ان کے کان بند کر دیئے۔ ان پر پردہ ڈال دی وہ سو گئے۔ ابن عباس کے سوا اور لوگوں نے کہا۔

  موئلا‏ وال يئل سے نکلا ہے۔ یعنی نجات پائے اور مجاہد نے کہا موئل محفوظ مقام۔

 لا يستطيعون سمعا‏ کے معنی وہ عقل نہیں رکھتے۔

وَكَانَ الإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلاً

اور انسان سب چیز سے بڑھ کر جھگڑالو ہے (۱۸:۵۴)

حدیث نمبر ۴۷۲۴

راوی: علی رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت ان کے اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر آئے اور فرمایا۔ تم لوگ تہجد کی نماز نہیں پڑھتے ...

  رجما بالغيب‏ یعنی سنی سنائی اور ان کو خود کچھ علم نہیں۔

 فرطا‏ ندامت ، شرمندگی۔

  سرادقها‏ یعنی قناتوں کی طرح سب طرف سے ان کو آگ گھیر لے گی جیسے کوٹھری کو سب طرف سے خیمے گھیر لیتے ہیں۔

يحاوره‏ ، محاورة سے نکلا ہے یعنی گفتگو کرنا، تکرار کرنا۔

  لكنا هو الله ربي‏ اصل میں لكن أنا هو الله ربي تھا أنا کا ہمزہ حذف کر کے نون کو نون میں ادغام کر دیا لكنا ہو گیا۔

خلالهما نهرا یعنی بينهما ان کے بیچ میں۔

  زلقا چکنا، صاف جس پر پاؤں پھسلے جمے نہیں ۔

  هنالك الولاية‏ ، ولايت‏ ، ولي کا مصدر ہے۔

  عقبا‏ ، عاقبت اسی طرح عقبى اور عقبة سب کا ایک ہی معنی ہے یعنی آخرت۔

قبلا اور قبلا اور قبلا تینوں طرح پڑھا ہے یعنی سامنے آنا۔

ليدحضوا‏ ، دحض سے نکلا ہے یعنی پھسلانا مطلب یہ ہے کہ حق بات کو ناحق کریں ۔

وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِفَتَاهُ لاَ أَبْرَحُ حَتَّى أَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ أَوْ أَمْضِيَ حُقُبًا

 اور جب کہا موسیٰ نے اپنے جوان (خادم) کو،میں نہ ہٹوں گا جب تک نہ پہنچہں دو دریا کے ملاپ (سنگم) تک، یا چلتا جاؤں قرنوں (برسوں) ۔(۱۸:۶۰)

لفظ حقباء کے معنی زمانہ، اس کی جمع أحقاب آتی ہے بعضوں نے کہا کہ ایک حقب ستر یا اسی سال کا ہوتا ہے ۔

حدیث نمبر ۴۷۲۵

راوی: سعید بن جبیر

 میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا نوف بکالی کہتا ہے جو کعب احبار کا رہیب تھ کہ جن موسیٰ کی خضر کے ساتھ ملاقات ہوئی تھی وہ بنی اسرائیل کے رسول موسیٰ کے علاوہ دوسرے ہیں۔ یعنی موسیٰ بن میثا بن افراثیم بن یوسف بن یعقوب ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا دشمن خدا نے غلط کہا۔

 مجھ سے ابی بن کعب نے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا:

آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو وعظ سنانے کے لئے  کھڑے ہوئے تو ان سے پوچھا گیا کہ انسانوں میں سب سے زیادہ علم کسے ہے؟

انہوں نے فرمایا کہ مجھے۔

 اس پر اللہ تعالیٰ نے ان پر غصہ کیا کیونکہ انہوں نے علم کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں کیا تھا۔

اللہ تعالیٰ نے انہیں وحی کے ذریعہ بتایا کہ دو دریاؤں فارس اور روم کے سنگم پر میرا ایک بندہ ہے جو تم سے زیادہ علم رکھتا ہے۔

موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا اے رب! میں ان تک کیسے پہنچ پاؤں گا؟

 اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ اپنے ساتھ ایک مچھلی لے لو اور اسے ایک زنبیل میں رکھ لو، وہ جہاں گم ہو جائے زندہ ہو کر دریا میں کود جائے بس میرا وہ بندہ وہیں ملے گا

چنانچہ آپ نے مچھلی لی اور زنبیل میں رکھ کر روانہ ہوئے۔ آپ کے ساتھ آپ کے خادم یوشع بن نون بھی تھے۔ جب یہ دونوں چٹان کے پاس آئے تو سر رکھ کر سو گئے، ادھر مچھلی زنبیل میں تڑپی اور اس سے نکل گئی اور اس نے دریا میں اپنا راستہ پا لیا۔ مچھلی جہاں گری تھی اللہ تعالیٰ نے وہاں پانی کی روانی کو روک دیا اور پانی ایک طاق کی طرح اس پر بن گیا یہ حال یوشع اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے پھر جب موسیٰ علیہ السلام بیدار ہوئے تو یوشع ان کو مچھلی کے متعلق بتانا بھول گئے۔ اس لئے  دن اور رات کا جو حصہ باقی تھا اس میں چلتے رہے، دوسرے دن موسیٰ علیہ السلام نے اپنے خادم سے فرمایا کہ اب کھانا لاؤ، ہم کو سفر نے بہت تھکا دیا ہے۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام اس وقت تک نہیں تھکے جب تک وہ اس مقام سے نہ گزر چکے جس کا اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا تھا۔ اب ان کے خادم نے کہا آپ نے نہیں دیکھا جب ہم چٹان کے پاس تھے تو مچھلی کے متعلق بتانا بھول گیا تھا اور صرف شیطانوں نے یاد رہنے نہیں دیا۔ اس نے تو عجیب طریقہ سے اپنا راستہ بنا لیا تھا۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مچھلی نے تو دریا میں اپنا راستہ لیا اور موسیٰ اور ان کے خادم کو مچھلی کا جو نشان پانی میں اب تک موجود تھ دیکھ کر تعجب ہوا۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ وہی جگہ تھی جس کی تلاش میں ہم تھے، چنانچہ دونوں حضرات پیچھے اسی راستہ سے لوٹے۔ بیان کیا کہ دونوں حضرات پیچھے اپنے نقش قدم پر چلتے چلتے آخر اس چٹان تک پہنچ گئے وہاں انہوں نے دیکھا کہ ایک صاحب خضر علیہ السلام کپڑے میں لپٹے ہوئے وہاں بیٹھے ہیں۔

موسیٰ علیہ السلام نے انہیں سلام کیا۔ خضر علیہ السلام نے کہا تم کون ہو تمہارے ملک میں سلام کہاں سے آ گیا۔

موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں موسیٰ ہوں۔

پوچھا بنی اسرائیل کے موسیٰ؟ فرمایا کہ جی ہاں۔ آپ کے پاس اس غرض سے حاضر ہوا ہوں تاکہ جو ہدایت کا علم آپ کو حاصل ہے وہ مجھے بھی سکھا دیں۔

خضر علیہ السلام نے فرمایا، موسیٰ! آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک خاص علم ملا ہے جسے آپ نہیں جانتے، اسی طرح آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو علم ملا ہے وہ میں نہیں جانتا۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ان شاءاللہ آپ مجھے صابر پائیں گے اور میں کسی معاملے میں آپ کے خلاف نہیں کروں گا۔

خضر علیہ السلام نے فرمایا، اچھا اگر آپ میرے ساتھ چلیں تو کسی چیز کے متعلق سوال نہ کریں یہاں تک کہ میں خود آپ کو اس کے متعلق بتا دوں گا۔

اب یہ دونوں سمندر کے کنارے کنارے روانہ ہوئے اتنے میں ایک کشتی گزری، انہوں نے کشتی والوں سے بات کی کہ انہیں بھی اس پر سوار کر لیں۔ کشتی والوں نے خضر علیہ السلام کو پہچان لیا اور کسی کرایہ کے بغیر انہیں سوار کر لیا۔ جب یہ دونوں کشتی پر بیٹھ گئے تو خضر علیہ السلام نے کلہاڑے سے کشتی کا ایک تختہ نکال ڈالا۔ اس پر موسیٰ علیہ السلام نے دیکھا تو خضر علیہ السلام سے کہا کہ ان لوگوں نے ہمیں بغیر کسی کرایہ کے اپنی کشتی میں سوار کر لیا تھا اور آپ نے انہیں کی کشتی چیر ڈالی تاکہ سارے مسافر ڈوب جائیں۔ بلاشبہ آپ نے یہ بڑا ناگوار کام کیا ہے۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا، کیا میں نے آپ سے پہلے ہی نہ کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا جو بات میں بھول گیا تھا اس پر مجھے معاف کر دیں اور میرے معاملہ میں تنگی نہ کریں۔

بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، یہ پہلی مرتبہ موسیٰ علیہ السلام نے بھول کر انہیں ٹوکا تھا۔

راوی نے بیان کیا کہ اتنے میں ایک چڑیا آئی اور اس نے کشتی کے کنارے بیٹھ کر سمندر میں ایک مرتبہ اپنی چونچ ماری تو خضر علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ میرے اور آپ کے علم کی حیثیت اللہ کے علم کے مقابلے میں اس سے زیادہ نہیں ہے جتنا اس چڑیا نے اس سمندر کے پانی سے کم کیا ہے۔

 پھر یہ دونوں کشتی سے اتر گئے، ابھی وہ سمندر کے کنارے چل ہی رہے تھے کہ خضر علیہ السلام نے ایک بچہ کو دیکھا جو دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ آپ نے اس بچے کا سر اپنے ہاتھ میں دبایا اور اسے گردن سے اکھاڑ دیا اور اس کی جان لے لی۔ موسیٰ علیہ السلام اس پر بولے، آپ نے ایک بےگناہ کی جان بغیر کسی جان کے بدلے کے لے لی، یہ آپ نے بڑا ناپسند کام کیا۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ میں تو پہلے ہی کہہ چکا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے۔

 سفیان بن عیینہ راوی حدیث نے کہا اور یہ کام تو پہلے سے بھی زیادہ سخت تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے آخر اس مرتبہ بھی معذرت کی کہ اگر میں نے اس کے بعد پھر آپ سے سوال کیا تو آپ مجھے ساتھ نہ رکھئے گا۔ آپ میرا باربار عذر سن چکے ہیں اس کے بعد میرے لئے  بھی عذر کا کوئی موقع نہ رہے گ

پھر دونوں روانہ ہوئے، یہاں تک کہ ایک بستی میں پہنچے اور بستی والوں سے کہا کہ ہمیں اپنا مہمان بنا لو، لیکن انہوں نے میزبانی سے انکار کیا، پھر انہیں بستی میں ایک دیوار دکھائی دی جو بس گرنے ہی والی تھی۔ بیان کیا کہ دیوار جھک رہی تھی۔ خضر علیہ السلام کھڑے ہو گئے اور دیوار اپنے ہاتھ سے سیدھی کر دی۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ ان لوگوں کے یہاں ہم آئے اور ان سے کھانے کے لئے  کہا، لیکن انہوں نے ہماری میزبانی سے انکار کیا، اگر آپ چاہتے تو دیوار کے اس سیدھا کرنے کے کام پر اجرت لے سکتے تھے۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ بس اب میرے اور آپ کے درمیان جدائی ہے، اللہ تعالیٰ کے ارشاد ذلك تأويل ما لم تسطع عليه صبرا‏ تک۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ہم تو چاہتے تھے کہ موسیٰ نے صبر کیا ہوتا تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے اور واقعات ہم سے بیان کرتا۔

 سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تلاوت کرتے تھے جس میں خضر علیہ السلام نے اپنے کاموں کی وجہ بیان کی ہے کہ کشتی والوں کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر اچھی کشتی کو چھین لیا کرتا تھا اور اس کی بھی آپ تلاوت کرتے تھے کہ اور وہ غلام جس کی گردن خضر علیہ السلام نے توڑ دی تھی تو وہ اللہ کے علم میں کافر تھا اور اس کے والدین مؤمن تھے۔

فَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَيْنِهِمَا نَسِيَا حُوتَهُمَا فَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ

اور جب وہ دونوں دو دریاؤں کے ملاپ کی جگہ پر پہنچے تو دونوں اپنی مچھلی بھول گئے ، مچھلی نے دریا میں اپنا راستہ بنا لیا  (۱۸:۶۱)

سربا راستہ يسرب به فتحتين یعنی مذہب طریق، اسی سے ہے سارب بالنهار یعنی دن میں راستہ چلنے والا۔

حدیث نمبر ۴۷۲۶

راوی: سعید بن جبیر

انہوں نے کہا ہم ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں ان کے گھر حاضر تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ دین کی باتیں مجھ سے کچھ پوچھو۔ میں نے عرض کیا  اے ابوعباس! اللہ آپ پر مجھے قربان کرے کوفہ میں ایک واعظ شخص نوف نامی نوف بکالی ہے اور وہ کہتا ہے کہ موسیٰ، خضر علیہ السلام سے ملنے والے وہ نہیں تھے جو بنی اسرائیل کے پیغمبر موسیٰ علیہ السلام ہوئے ہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ مجھ سے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

موسیٰ علیہ السلام اللہ کے رسول تھے ایک دن آپ نے لوگوں بنی اسرائیل کو ایسا وعظ فرمایا کہ لوگوں کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے اور دل پسیج گئے تو آپ واپس جانے کے لئے  مڑے۔ اس وقت ایک شخص نے ان سے پوچھا  اے اللہ کے رسول! کیا دنیا میں آپ سے بڑا کوئی عالم ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں، اس پر اللہ نے موسیٰ علیہ السلام پر عتاب نازل کیا، کیونکہ انہوں نے علم کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں کی تھی۔ ان کو یوں کہنا چاہئے تھا کہ اللہ ہی جانتا ہے ۔

 ان سے کہا گیا کہ ہاں تم سے بھی بڑا عالم ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا، اے پروردگار! وہ کہاں ہے۔ اللہ نے فرمایا جہاں فارس اور روم کے دو دریا ملے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا اے پروردگار! میرے لئے  ان کی کوئی نشانی ایسی بتلا دے کہ میں ان تک پہنچ جاؤں۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا، جہاں تم سے مچھلی تمہاری زنبیل سے چل دے وہیں وہ ملیں گے

اور یعلیٰ نے حدیث اس طرح بیان کی کہ ایک مردہ مچھلی ساتھ لے لو، جہاں اس مچھلی میں جان پڑ جائے وہیں وہ ملیں گے

موسیٰ علیہ السلام نے مچھلی ساتھ لے لی اور اسے ایک زنبیل میں رکھ لیا۔ آپ نے اپنے ساتھی یوشع سے فرمایا کہ میں بس تمہیں اتنی تکلیف دیتا ہوں کہ جب یہ مچھلی زنبیل سے نکل کر چل دے تو مجھے بتانا۔ انہوں نے عرض کیا کہ یہ کون سی بڑی تکلیف ہے۔ اسی کی طرف اشارہ ہے اللہ تعالیٰ کے ارشاد وإذ قال موسى لفتاه‏ میں وہ فتي رفیق سفر یوشع ابن نون تھے۔

بیان کیا کہ پھر موسیٰ علیہ السلام ایک چٹان کے سایہ میں ٹھہر گئے جہاں نمی اور ٹھنڈ تھی۔ اس وقت مچھلی تڑپی اور دریا میں کود گئی۔ موسیٰ علیہ السلام سو رہے تھے اس لئے  یوشع نے سوچا کہ آپ کو جگانا نہ چاہئے۔ لیکن جب موسیٰ علیہ السلام بیدار ہوئے تو مچھلی کا حال کہنا بھول گئے۔ اسی عرصہ میں مچھلی تڑپ کر پانی میں چلی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے مچھلی کی جگہ پانی کے بہاؤ کو روک دیا اور مچھلی کا نشان پتھر پر جس پر سے گئی تھی بن گیا۔

بیدار ہونے کے بعد موسیٰ علیہ السلام باقی دن اور باقی رات چلتے رہے۔ آخر کہنے لگے۔ ہمیں اب اس سفر میں تھکن ہو رہی ہے۔ ان کے خادم نے عرض کیا۔ اللہ نے آپ کی تھکن کو دور کر دیا ہے اور مچھلی زندہ ہو گئی ہے ۔

 پھر موسیٰ علیہ السلام اور یوشع دونوں واپس لوٹے اور خضر علیہ السلام سے ملاقات ہوئی خضر علیہ السلام دریا کے بیچ میں ایک چھوٹے سے سبز زین پوش پر تشریف رکھتے تھے۔ اور وہ اپنے کپڑے سے تمام جسم لپیٹے ہوئے تھے۔ کپڑے کا ایک کنارہ ان کے پاؤں کے نیچے تھا اور دوسرا سر کے تلے تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے پہنچ کو سلام کیا تو خضر علیہ السلام نے اپنا چہرہ کھولا اور کہا، میری اس زمین میں سلام کا رواج کہاں سے آ گیا۔ آپ کون ہیں؟ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں موسیٰ ہوں۔

پوچھا، موسیٰ بنی اسرائیل؟ فرمایا کہ ہاں! پوچھا، آپ کیوں آئے ہیں؟ فرمایا کہ میرے آنے کا مقصد یہ ہے کہ جو ہدایت کا علم آپ کو اللہ نے دیا ہے وہ مجھے بھی سکھا دیں۔ اس پر خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ موسیٰ کیا آپ کے لئے  یہ کافی نہیں ہے اس کا پورا سیکھنا آپ کے لئے  مناسب نہیں ہے۔ اسی طرح آپ کو جو علم حاصل ہے اس کا پورا سیکھنا میرے لئے  مناسب نہیں۔ اس عرصہ میں ایک چڑیا نے اپنی چونچ سے دریا کا پانی لیا تو خضر علیہ السلام نے فرمایا اللہ کی قسم! میرا اور آپ کا علم اللہ کے علم کے مقابلے میں اس سے زیادہ نہیں ہے۔ جتنا اس چڑیا نے دریا کا پانی اپنی چونچ میں لیا ہے۔

 کشتی پر چڑھنے کے وقت انہوں نے چھوٹی چھوٹی کشتیاں دیکھیں جو ایک کنارے والوں کو دوسرے کنارے پر لے جا کر چھوڑ آتی تھیں۔ کشتی والوں نے خضر علیہ السلام کو پہچان لیا اور کہا کہ یہ اللہ کے صالح بندے ہیں ہم ان سے کرایہ نہیں لیں گے۔ لیکن خضر علیہ السلام نے کشتی میں شگاف کر دیئے اور اس میں تختوں کی جگہ کیلیں گاڑ دیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا آپ نے اس لئے  اسے پھاڑ ڈالا کہ اس کے مسافروں کو ڈبو دیں۔ بلاشبہ آپ نے ایک بڑا ناگوار کام کیا ہے۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا میں نے پہلے ہی نہ کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے۔

 موسیٰ علیہ السلام کا پہلا سوال تو بھولنے کی وجہ سے تھا لیکن دوسرا بطور شرط تھا اور تیسرا قصداً انہوں نے کیا تھا۔

 موسیٰ علیہ السلام نے اس پہلے سوال پر کہا کہ جو میں بھول گیا اس پر مجھ سے مؤاخذہ نہ کیجئے اور میرے معاملہ میں تنگی نہ کیجئے۔

 پھر انہیں ایک بچہ ملا تو خضر علیہ السلام نے اسے قتل کر دیا۔ خضر علیہ السلام کو چند بچے ملے جو کھیل رہے تھے آپ نے ان میں سے ایک بچہ کو پکڑا جو کافر اور چالاک تھا اور اسے لٹا کر چھری سے ذبح کر دیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا، آپ نے بلا کسی خون کے ایک بےگناہ جان کو جس نے کہ برا کام نہیں کیا تھا، قتل کر ڈالا۔

 پھر وہ دونوں بزرگ آگے بڑھے تو ایک دیوار پر نظر پڑی جو بس گرنے ہی والی تھی۔ خضر علیہ السلام نے اسے ٹھیک کر دیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر آپ چاہتے تو اس پر اجرت لے سکتے تھے۔

بادشاہ کا نام ہدد بن بدد نقل کرتے ہیں اور جس بچہ کو خضر علیہ السلام نے قتل کیا تھا اس کا نام لوگ جیسور بیان کرتے ہیں۔ وہ بادشاہ ہر نئی کشتی کو زبردستی چھین لیا کرتا تھا۔ اس لئے  میں نے چاہا کہ جب یہ کشتی اس کے سامنے سے گزرے تو اس کے اس عیب کی وجہ سے اسے نہ چھینے۔ جب کشتی والے اس بادشاہ کی سلطنت سے گزر جائیں گے تو وہ خود اسے ٹھیک کر لیں گے اور اسے کام میں لاتے رہیں گے۔

اور جس بچہ کو قتل کر دیا تھ تو اس کے والدین مؤمن تھے اور وہ بچہ اللہ کی تقدیر میں کافر تھا۔ اس لئے  ہمیں ڈر تھا کہ کہیں بڑا ہو کر وہ انہیں بھی کفر میں مبتلا نہ کر دے کہ اپنے لڑکے سے انتہائی محبت انہیں اس کے دین کی اتباع پر مجبور کر دے۔ اس لئے  ہم نے چاہا کہ اللہ اس کے بدلے میں انہیں کوئی نیک اور اس سے بہتر اولاد دے۔

 وأقرب رحما یعنی اس کے والدین اس بچہ پر جو اب اللہ تعالیٰ انہیں دے گا پہلے سے زیادہ بہتر مہربان ہوں جسے خضر علیہ السلام نے قتل کر دیا ہے۔ سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ان والدین کو اس بچے کے بدلے ایک لڑکی دی گئی تھی۔

فَلَمَّا جَاوَزَا قَالَ لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَاءَنَا ... وَٱتَّخَذَ سَبِيلَهُ ۥ فِى ٱلۡبَحۡرِ عَجَبً۬ا

پس جب وہ دونوں اس جگہ سے آگے بڑھ گئے تو موسیٰ نے اپنے ساتھی سے فرمایا کہ ہمارا کھانا لاؤ سفر سے ہمیں اب تو تھکن ہونے لگی ہے

بولا وہ دیکھا تُو نے جب ہم نے جگہ پکڑی(ٹھہرے تھے) اس پتھر پاس، سو میں بھول گیا مچھلی۔

اور مجھ کو بھلایا شیطان ہی نے، کہ اس کا مذکور کروں۔اور وہ کر (بن) گئی اپنی راہ دریا میں عجب طرح۔ (۱۸:۶۲،۶۳ )

لفظ صنعا عمل کے معنی میں ہے۔

  حولا بمعنی پھر جانا۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا یہی تو وہ چیز تھی جو ہم چاہتے تھے۔ چنانچہ وہ دونوں الٹے پاؤں واپس لوٹے۔

إمرا کا معنی عجیب بات۔ نكرا کا بھی یہی معنی ہے۔

  ينقض اور ينقاض ‏‏‏‏ دونوں کا ایک ہی معنی ہے جیسے کہتے ہیں تنقاض السن یعنی دانت گر رہا ہے۔

لتخذت اور واتخذت دونوں روایتیں ہیں دونوں کا معنی ایک ہیں۔

  رحما ، رحم سے نکلا ہے جس کے معنی بہت رحمت تو یہ مبالغہ ہے رحمت کا اور ہم سمجھتے ہیں یا لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ رحم سے نکلا ہے۔ اسی لئے  مکہ کو أم رحم کہتے ہیں کیونکہ وہاں پروردگار کی رحمت اترتی ہے۔

حدیث نمبر ۴۷۲۷

راوی: سعید بن جبیر

میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے عرض کیا  نوف بکالی کہتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام جو اللہ کے نبی تھے وہ نہیں ہیں جنہوں نے خضر علیہ السلام سے ملاقات کی تھی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا، دشمن خدا نے غلط بات کہی ہے۔

ابی بن کعب نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو وعظ کرنے کے لئے  کھڑے ہوئے تو ان سے پوچھا گیا کہ سب سے بڑا عالم کون شخص ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر غصہ کیا، کیونکہ انہوں نے علم کی نسبت اللہ کی طرف نہیں کی تھی اور ان کے پاس وحی بھیجی کہ ہاں، میرے بندوں میں سے ایک بندہ دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ پر ہے اور وہ تم سے بڑا عالم ہے۔

موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا اے پروردگار! ان تک پہنچنے کا طریقہ کیا ہو گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایک مچھلی زنبیل میں ساتھ لے لو۔ پھر جہاں وہ مچھلی گم ہو جائے وہیں انہیں تلاش کرو۔

بیان کیا کہ موسیٰ علیہ السلام نکل پڑے اور آپ کے ساتھ آپ کے رفیق سفر یوشع بن نون بھی تھے۔ مچھلی ساتھ تھی۔ جب چٹان تک پہنچے تو وہاں ٹھہر گئے۔ موسیٰ علیہ السلام اپنا سر رکھ کر وہیں سو گئے، اس چٹان کی جڑ میں ایک چشمہ تھا، جسے حیات کہا جاتا تھا۔ جس چیز پر بھی اس کا پانی پڑ جاتا وہ زندہ ہو جاتی تھی۔ اس مچھلی پر بھی اس کا پانی پڑا تو اس کے اندر حرکت پیدا ہو گئی اور وہ اپنی زنبیل سے نکل کر دریا میں چلی گئی۔ موسیٰ علیہ السلام جب بیدار ہوئے تو انہوں نے اپنے ساتھی سے فرمایا ہمارا ناشتہ لاؤ ۔ بیان کیا کہ سفر میں موسیٰ علیہ السلام کو اس وقت تک کوئی تھکن نہیں ہوئی جب تک وہ مقررہ جگہ سے آگے نہیں بڑھ گئے۔ رفیق سفر یوشع بن نون نے اس پر کہا ‏ آپ نے دیکھا جب ہم چٹان کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے تو میں مچھلی کے متعلق کہنا بھول گیا ۔

 بیان کیا کہ پھر وہ دونوں الٹے پاؤں واپس لوٹے۔ دیکھا کہ جہاں مچھلی پانی میں گری تھی وہاں اس کے گزرنے کی جگہ طاق کی سی صورت بنی ہوئی ہے۔ مچھلی تو پانی میں چلی گئی تھی لیکن یوشع بن نون کو اس طرح پانی کے رک جانے پر تعجب تھا۔

 جب چٹان پر پہنچے تو دیکھا کہ ایک بزرگ کپڑے میں لپٹے ہوئے وہاں موجود ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے انہیں سلام کیا تو انہوں نے فرمایا کہ تمہاری زمین میں سلام کہاں سے آ گیا؟ آپ نے فرمایا کہ میں موسیٰ ہوں۔ پوچھا بنی اسرائیل کے موسیٰ؟ فرمایا کہ جی ہاں! موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا کیا آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں تاکہ جو ہدایت کا علم اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیا ہے وہ آپ مجھے بھی سکھا دیں۔ خضر علیہ السلام نے جواب دیا کہ آپ کو اللہ کی طرف سے ایسا علم حاصل ہے جو میں نہیں جانتا اور اسی طرح مجھے اللہ کی طرف سے ایسا علم حاصل ہے جو آپ نہیں جانتے۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا، لیکن میں آپ کے ساتھ رہوں گا۔ خضر علیہ السلام نے اس پر کہا کہ اگر آپ کو میرے ساتھ رہنا ہی ہے تو پھر مجھ سے کسی چیز کے متعلق نہ پوچھئے گا، میں خود آپ کو بتاؤں گا۔

چنانچہ دونوں حضرات دریا کے کنارے روانہ ہوئے، ان کے قریب سے ایک کشتی گزری تو خضر علیہ السلام کو کشتی والوں نے پہچان لیا اور اپنی کشتی میں ان کو بغیر کرایہ کے چڑھا لیا دونوں کشتی میں سوار ہو گئے۔ بیان کیا کہ اسی عرصہ میں ایک چڑیا کشتی کے کنارے آ کے بیٹھی اور اس نے اپنی چونچ کو دریا میں ڈالا تو خضر علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا کہ میرا، آپ کا اور تمام مخلوقات کا علم اللہ کے علم کے مقابلہ میں اس سے زیادہ نہیں ہے جتنا اس چڑیا نے اپنی چونچ میں دریا کا پانی لیا ہے۔

بیان کیا کہ پھر یکدم جب خضر علیہ السلام نے بسولا اٹھایا اور کشتی کو پھاڑ ڈالا تو موسیٰ علیہ السلام اس طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا ان لوگوں نے ہمیں بغیر کسی کرایہ کے اپنی کشتی میں سوار کر لیا تھا اور آپ نے اس کا بدلہ یہ دیا ہے کہ ان کی کشتی ہی چیر ڈالی تاکہ اس کے مسافر ڈوب مریں۔ بلاشبہ آپ نے بڑا نا مناسب کام کیا ہے۔

پھر وہ دونوں آگے بڑھے تو دیکھا کہ ایک بچہ جو بہت سے دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، خضر نے اس کا سر پکڑا اور کاٹ ڈالا۔ اس پر موسیٰ علیہ السلام بول پڑے کہ آپ نے بلا کسی خون و بدلہ کے ایک معصوم بچے کی جان لے لی، یہ تو بڑی بری بات ہے۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا، میں نے آپ سے پہلے ہی نہیں کہہ دیا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے،

اللہ تعالیٰ کے ارشاد پس اس بستی والوں نے ان کی میزبانی سے انکار کیا، پھر اس بستی میں انہیں ایک دیوار دکھائی دی جو بس گرنے ہی والی تھی۔ خضر علیہ السلام نے اپنا ہاتھ یوں اس پر پھیرا اور اسے سیدھا کر دیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ہم اس بستی میں آئے تو انہوں نے ہماری میزبانی سے انکار کیا اور ہمیں کھانا بھی نہیں دیا اگر آپ چاہتے تو اس پر اجرت لے سکتے تھے۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا بس یہاں سے اب میرے اور آپ کے درمیان جدائی ہے اور میں آپ کو ان کاموں کی وجہ بتاؤں گا جن پر آپ صبر نہیں کر سکے تھے۔

 اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ کاش موسیٰ علیہ السلام نے صبر کیا ہوتا اور اللہ تعالیٰ ان کے سلسلے میں اور واقعات ہم سے بیان کرتا۔

قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالأَخْسَرِينَ أَعْمَالاً

کیا ہم تم کو خبر دیں ان بدبختوں کے متعلق جو اپنے اعمال کے اعتبار سے سراسر گھاٹے میں ہیں (۱۸:۱۰۳ )

حدیث نمبر ۴۷۲۸

راوی: مصعب بن سعد بن ابی وقاص

 میں نے اپنے والد سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے آیت قل هل ننبئكم بالأخسرين أعمالا‏  کے متعلق سوال کیا کہ ان سے کون لوگ مراد ہیں؟ کیا ان سے خوارج مراد ہیں؟

انہوں نے کہا کہ نہیں، اس سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں۔ یہود نے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کی اور نصاریٰ نے جنت کا انکار کیا اور کہا کہ اس میں کھانے پینے کی کوئی چیز نہیں ملے گی اور خوارج وہ ہیں جنہوں نے اللہ کے عہد و میثاق کو توڑا سعد رضی اللہ عنہ انہیں فاسق کہا کرتے تھے۔

أُولَئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ وَلِقَائِهِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ

یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کی نشانیوں کو اور اس کی ملاقات کو جھٹلایا ، پس ان کے تمام نیک اعمال الٹے برباد ہو گئے (۱۸:۱۰۵ )

حدیث نمبر ۴۷۲۹

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلاشبہ قیامت  کے دن ایک بہت بھاری بھر کم موٹا تازہ شخص آئے گا لیکن وہ اللہ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی کوئی قدر نہیں رکھے گا اور فرمایا کہ پڑھو

فَلَا نُقِيمُ لَهُمۡ يَوۡمَ ٱلۡقِيَـٰمَةِ وَزۡنً۬ا

قیامت  کے دن ہم ان کا کوئی وزن نہ کریں گے۔ (۱۸:۱۰۵ )

سورۃ کھٰیٰعص کی تفسیر

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا أبصر بهم وأسمع یہ اللہ فرماتا ہے آج کے دن یعنی دنیا میں نہ تو کافر سنتے ہیں نہ دیکھتے ہیں بلکہ کھلی ہوئی گمراہی میں ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ أسمع بهم وأبصر‏ یعنی کافر قیامت  کے دن خوب سنتے اور خوب دیکھتے ہوں گے مگر اس وقت کا سننا دیکھنا کچھ فائدہ نہ دے گا ۔

  لأرجمنك‏ میں تجھ پر گالیوں کا پتھراؤ کروں گا۔

 لفظ رئيا‏ کے معنی منظر، دکھاوا

 اور ابووائل شقیق بن سلمہ نے کہا مریم علیہا السلام جانتی تھیں کہ جو پرہیزگار ہوتا ہے وہ صاحب عقل ہوتا ہے۔ اسی لئے  انہوں نے کہا میں تجھ سے اللہ کی پناہ چاہتی ہوں اگر تو پرہیزگار ہے۔

اور سفیان بن عیینہ نے کہا تؤزهم أزا‏ کا معنی یہ ہے کہ شیطان کافروں کو گناہوں کی طرف گھسیٹتے ہیں۔

مجاہد نے کہا إدا‏ کے معنی کج اور ٹیڑھی، غلط بات یا کج اور ٹیڑھی باتیں ۔

 ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا وردا‏ کے معنی پیاسے کے ہیں اور أثاثا‏ کے معنی مال اسباب۔

  إدا‏ بڑی بات۔

  ركزا‏ ہلکی، پست آواز۔

  غيا‏ نقصان، ٹوٹا۔

  بكيا‏ ، باكى کی جمع ہے یعنی رونے والے۔

  صليا‏ مصدر ہے۔ صلي ، يصلى ‏‏‏‏ باب

  سمع ، يسمع سے یعنی جلنا۔

  ندي‏ اور لنادي دونوں کے معنی مجلس کے ہیں۔

وَأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ

اے رسول ! ان کافروں کو حسرت ناک دن سے ڈرائیے (۱۹:۳۹ )  

حدیث نمبر ۴۷۳۰

راوی: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت  کے دن موت ایک چتکبرے مینڈھے کی شکل میں لائی جائے گی۔ ایک آواز دینے والا فرشتہ آواز دے گا کہ اے جنت والو! تمام جنتی گردن اٹھا اٹھا کر دیکھیں گے، آواز دینے والا فرشتہ پوچھے گا۔ تم اس مینڈھے کو بھی پہچانتے ہو؟ وہ بولیں گے کہ ہاں، یہ موت ہے اور ان سے ہر شخص اس کا ذائقہ چکھ چکا ہو گا۔ پھر اسے ذبح کر دیا جائے گا اور آواز دینے والا جنتیوں سے کہے گا کہ اب تمہارے لئے  ہمیشگی ہے، موت تم پر کبھی نہ آئے گی اور اے جہنم والو! تمہیں بھی ہمیشہ اسی طرح رہنا ہے، تم پر بھی موت کبھی نہیں آئے گی۔

 پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت کی

وَأَنذِرۡهُمۡ يَوۡمَ ٱلۡحَسۡرَةِ إِذۡ قُضِىَ ٱلۡأَمۡرُوَهُمۡ فِى غَفۡلَةٍ۬ وَهُمۡ لَا يُؤۡمِنُونَ

اور انہیں حسرت کے دن سے ڈرا دو۔ جبکہ اخیر فیصلہ کر دیا جائے گا اور یہ لوگ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں یعنی دنیادار لوگ اور ایمان نہیں لاتے۔(۱۹:۳۹ )  

وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلاَّ بِأَمْرِ رَبِّكَ

ہم فرشتے نہیں اترتے مگر تیرے رب کے حکم سے (۱۹:۶۴ )

حدیث نمبر ۴۷۳۱

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام سے  فرمایا جیسا کہ اب آپ ہماری ملاقات کو آیا کرتے ہیں، اس سے زیادہ آپ ہم سے ملنے کے لئے  کیوں نہیں آیا کرتے؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی

وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمۡرِ رَبِّكَ ‌ۖلَهُ ۥ مَا بَيۡنَ أَيۡدِينَا وَمَا خَلۡفَنَا وَمَا بَيۡنَ ذَٲلِكَ‌ۚ

ہم فرشتے نازل نہیں ہوتے بجز آپ کے پروردگار کے حکم کے، اسی کی ملک ہے جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو کچھ ہمارے پیچھے ہے۔

أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ بِآيَاتِنَا وَقَالَ لأُوتَيَنَّ مَالاً وَوَلَدًا

بھلا تم نے اس شخص کو بھی دیکھا جو ہماری آیتوں سے کفر کرتا ہے (۱۹:۷۷)

حدیث نمبر ۴۷۳۲

راوی: خباب بن ارت رضی اللہ عنہ

میں عاص بن وائل سہمی کے پاس اپنا حق مانگنے گیا تو وہ کہنے لگا کہ جب تک تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کفر نہیں کرو گے میں تمہیں مزدوری نہیں دوں گا۔ میں نے اس پر کہا کہ یہ کبھی نہیں کر سکتا۔ یہاں تک کہ تم مرنے کے بعد پھر زندہ کئے جاؤ۔

 اس پر وہ بولا، کیا مرنے کے بعد پھر مجھے زندہ کیا جائے گا؟ میں نے کہا ہاں، ضرور، کہنے لگا کہ پھر وہاں بھی میرے پاس مال اولاد ہو گی اور میں وہیں تمہاری مزدوری بھی دے دوں گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی

أَفَرَءَيۡتَ ٱلَّذِى ڪَفَرَ بِـَٔايَـٰتِنَا وَقَالَ لَأُوتَيَنَّ مَالاً۬ وَوَلَدًا

بھلا آپ نے اس شخص کو بھی دیکھا جو ہماری نشانیوں سے کفر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے مال اور اولاد مل کر رہیں گے۔(۱۹:۷۷)

أَطَّلَعَ الْغَيْبَ أَمِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمَنِ عَهْدًا

کیا وہ غیب پر آگاہ ہوتا ہے یا اس نے خدائے رحمن سے کوئی عہد نامہ حاصل کر لیا ہے (۱۹:۷۸)

حدیث نمبر ۴۷۳۳

راوی: خباب بن ارت رضی اللہ عنہ

میں مکہ میں لوہار تھا اور عاص بن وائل سہمی کے لئے  میں نے ایک تلوار بنائی تھی۔ میری مزدوری باقی تھی اس لئے  ایک دن میں اس کو مانگنے آیا تو کہنے لگا کہ اس وقت تک نہیں دوں گا جب تک تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پھر نہیں جاؤ گے۔

میں نے کہا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہرگز نہیں پھروں گا یہاں تک کہ اللہ تجھے مار دے اور پھر زندہ کر دے اور وہ کہنے لگا کہ جب اللہ تعالیٰ مجھے مار کر دوبارہ زندہ کر دے گا تو میرے پاس اس وقت بھی مال و اولاد ہو گی۔ اور اسی وقت تم اپنی مزدوری مجھ سے لے لینا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی

أَفَرَءَيۡتَ ٱلَّذِى ڪَفَرَ بِـَٔايَـٰتِنَا ... أَطَّلَعَ ٱلۡغَيۡبَ أَمِ ٱتَّخَذَ عِندَ ٱلرَّحۡمَـٰنِ عَهۡدً۬ا

بھلا تو نے اس شخص کو بھی دیکھا جو ہماری آیتوں کا انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے تو مال و اولاد مل کر ہی رہیں گے

تو کیا یہ غیب پر مطلع ہو گیا ہے یا اس نے خدائے رحمن سے کوئی وعدہ لے لیا ہے۔ (۱۹:۷۷،۷۸)

عهد‏ کا معنی مضبوط اقرار۔

كَلاَّ سَنَكْتُبُ مَا يَقُولُ وَنَمُدُّ لَهُ مِنَ الْعَذَابِ مَدًّا

ہرگز نہیں ہم اس کا کہا ہوا اس کے اعمال نامے میں لکھ لیتے ہیں اور ہم اس کو عذاب میں بڑھاتے ہی چلے جائیں گے (۱۷:۷۹ )

حدیث نمبر ۴۷۳۴

راوی: خباب بن ارت رضی اللہ عنہ

 میں زمانہ جاہلیت میں لوہاری کا کام کرتا تھا اور عاص بن وائل پر میرا کچھ قرض تھا۔ بیان کیا کہ میں اس کے پاس اپنا قرض مانگنے گیا تو وہ کہنے لگا کہ جب تک تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار نہیں کرتے، تمہاری مزدوری نہیں مل سکتی۔

میں نے اس پر جواب دیا کہ اللہ کی قسم! میں ہرگز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار نہیں کر سکتا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تجھے مار دے اور پھر تجھے دوبارہ زندہ کر دے۔

عاص کہنے لگا کہ پھر مرنے تک مجھ سے قرض نہ مانگو۔ مرنے کے بعد جب میں زندہ رہوں گا تو مجھے مال و اولاد بھی ملیں گے اور اس وقت تمہارا قرض ادا کر دوں گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی

أَفَرَءَيۡتَ ٱلَّذِى ڪَفَرَ بِـَٔايَـٰتِنَا وَقَالَ لَأُوتَيَنَّ مَالاً۬ وَوَلَدًا (۱۹:۷۷)

وَنَرِثُهُ مَا يَقُولُ وَيَأْتِينَا فَرْدًا

اور اس کی کہی ہوئی باتوں کے ہم ہی وارث ہیں اور وہ ہمارے پاس تنہا آئے گا (۱۹:۸۰)

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ آیت میں لفظ الجبال هدا کا مطلب یہ ہے کہ پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر گر جائیں گے۔

حدیث نمبر ۴۷۳۵

راوی: خباب بن ارت رضی اللہ عنہ

 میں پہلے لوہار تھا اور عاص بن وائل پر میرا قرض چاہئے تھا۔ میں اس کے پاس تقاضا کرنے گیا تو کہنے لگا کہ جب تک تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ پھر جاؤ گے تمہارا قرض نہیں دوں گا، میں نے کہا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین سے ہرگز نہیں پھروں گا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تجھے مار دے اور پھر زندہ کر دے۔

اس نے کہا کیا موت کے بعد میں دوبارہ زندہ کیا جاؤں گا پھر تو مجھے مال و اولاد بھی مل جائیں گے اور اسی وقت تمہارا قرض بھی ادا کر دوں گا۔

راوی نے بیان کیا کہ اس کے متعلق آیت نازل ہوئی

أَفَرَءَيۡتَ ٱلَّذِى ڪَفَرَ بِـَٔايَـٰتِنَا ... وَنَرِثُهُ ۥ مَا يَقُولُ وَيَأۡتِينَا فَرۡدً۬ا

بھلا تم نے اس شخص کو بھی دیکھا جو ہماری آیتوں کا انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے تو مال اور اولاد مل کر رہیں گے،

تو کیا یہ غیب پر آگاہ ہو گیا ہے۔ یا اس نے خدائے رحمٰن سے کوئی عہد کر لیا ہے؟ ہرگز نہیں، البتہ ہم اس کا کہا ہوا بھی لکھ لیتے ہیں اور اس کے لئے  عذاب بڑھاتے ہی چلے جائیں گے

اور اس کی کہی ہوئی کے ہم ہی مالک ہوں گے اور وہ ہمارے پاس اکیلا آئے گا۔(۱۹:۷۷،۸۰)

سورۃ طہٰ کی تفسیر

سعید بن جبیر اور ضحاک بن مزاحم نے کہا حبشی زبان میں لفظ طه‏ کے معنی اے مرد کے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جس کی زبان سے کوئی حرف نہ نکل سکے یا رک رک کر نکلے تو اس کی زبان میں عقدة‏.‏ گرہ ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کی دعا واحلل عقدة من لساني میں یہی اشارہ ہے

أزري‏ کے معنی میری پیٹھ۔

  فيسحتكم‏ کے معنی تم کو ہلاک کر دے۔

لفظ المثلى‏ ، الأمثل کا مؤنث ہے یعنی تمہارا دین۔ عرب لوگ کہتے ہیں مثلى‏ اچھی بات کرے۔

  خذ الأمثل ‏ یعنی بہتر بات لے۔

ثم ائتوا صفا‏ عرب لوگ کہتے ہیں کیا آج تو صف میں گیا تھا؟ یعنی نماز کے مقام میں جہاں جمع ہو کر نماز پڑھتے ہیں جیسے عیدگاہ وغیرہ ۔

فأوجس‏ دل میں سہم گیا۔

  خيفة اصل میں خوفة تھا واؤ بہ سبب کسرہ ما قبل یاء ہو گیا۔

  في جذوع‏ النخل کھجور کی شاخوں پر في علي کے معنی میں ہے۔

خطبك‏ یعنی تیرا کیا حال ہے، تو نے یہ کام کیوں کیا۔

  مساس‏ مصدر ہے۔ ماسه ، مساسا‏ ‏ سے یعنی چھونا۔

لننسفنه‏ بکھیر ڈالیں گے یعنی جلا کر راکھ کو دریا میں بہا دیں گے۔

قاعا‏ وہ زمین جس کے اوپر پانی چڑھ آئے یعنی صاف ہموار میدان ۔

صفصفا ہموار زمین۔

اور مجاہد نے کہا من زينة القوم ‏ سے وہ زیور مراد ہے جو بنی اسرائیل نے فرعون کی قوم سے مانگ کر لیا تھا۔

  فقذفتها میں نے اس کو ڈال دیا۔

وكذالك ألقى‏ السامري یعنی سامری نے بھی اور بنی اسرائیل کی طرح اپنا زیور ڈالا۔

  فنسي‏ موسى یعنی سامری اور اس کے تابعدار لوگ کہنے لگے موسیٰ چوک گیا کہ اپنے پروردگار بچھڑے کو یہاں چھوڑ کر کوہ طور پر چلا گیا۔

  لا يرجع إليهم قولا‏ یعنی یہ نہیں دیکھتے کہ بچھڑا ان کی بات کو جواب تک نہیں دے سکتا۔

  همسا‏ پاؤں کی آہٹ۔

حشرتني أعمى‏ یعنی مجھ کو دنیا میں دلیل اور حجت معلوم ہوتی تھی یہاں تو نے بالکل مجھ کو اندھا کر کے کیوں اٹھایا۔

اور ابن عباس نے کہا لعلي اتيكم منها بقبس کے بیان میں کہ موسیٰ اور ان کے ساتھی راستہ بھول گئے تھے ادھر سردی میں مبتلا تھے کہنے لگے اگر وہاں کوئی راستہ بتانے والا ملا تو بہتر ورنہ میں تھوڑی سی آگ تمہارے تاپنے کے لئے  لے آؤں گا۔

 سفیان بن عیینہ نے اپنی تفسیر میں کہا أمثلهم‏ یعنی ان میں کا افضل اور سمجھدار آدمی۔

اور ابن عباس نے کہا هضما‏ یعنی اس پر ظلم نہ ہو گا اور اس کی نیکیوں کا ثواب کم نہ کیا جاوے گا۔

عوجا‏ نالا کھڈا۔

أمتا‏ ٹیلہ بلندی۔

سيرتها‏ الأولى یعنی اگلی حالت پر۔

  النهى‏ پرہیزگاری یا عقل۔

ضنكا‏ بدبختی۔

  هوى‏ بدبخت ہوا۔

  المقدس‏ برکت والی۔

طوىٰ‏ اس وادی کا نام تھا۔

  بملكنا‏ بہ کسرئہ میم مشہور قرأت بہ ضمہ میم ہے بعضوں نے بہ ضم میم پڑھا ہے یعنی اپنے اختیار اپنے حکم سے۔

  سوى‏ یعنی ہم میں اور تم میں برابر کے فاصلہ پر۔

  يبسا‏ خشک

علی قدر اپنے معین وقت پر جو اللہ پاک نے لکھ دیا تھا۔

لا تنيا‏ ضعیف مت بنو، یا سستی نہ کرو۔

وَاصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِي

اے موسیٰ ! میں نے تجھ کو اپنے لئے  منتخب کر لیا (۲۰:۴۱)

حدیث نمبر ۴۷۳۶

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

آدم علیہ السلام نے جواب دیا کہ آپ وہی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت کے لئے  پسند کیا اور خود اپنے لئے  پسند کیا اور آپ پر توریت نازل کی۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ جی ہاں۔

اس پر آدم علیہ السلام نے فرمایا کہ پھر آپ نے تو دیکھا ہی ہو گا کہ میری پیدائش سے پہلے ہی یہ سب کچھ میرے لئے  لکھ دیا گیا تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ جی ہاں معلوم ہے۔ چنانچہ آدم علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام پر غالب آ گئے۔

  اليم کے معنی دریا کے ہیں۔

وَلَقَدْ أَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى أَنْ أَسْرِ بِعِبَادِي ... وَأَضَلَّ فِرْعَوْنُ قَوْمَهُ وَمَا هَدَى

اور ہم نے موسیٰ کے پاس وحی بھیجی کہ میرے بندوں کو راتوں رات یہاں سے نکال کر لے جا ، پھر ان کے لئے  سمندر میں لاٹھی مار کر خشک راستہ بنا لینا

تم کو نہ پکڑے جانے کا خوف ہو گا اور نہ تم کو اور کوئی ڈر ہو گا ، پھر فرعون نے بھی اپنے لشکر سمیت ان کا پیچھا کیا تو دریا جب ان پر آ ملنے کو تھا آ ملا

اور فرعون نے تو اپنی قوم کو گمراہ ہی کیا تھا اور سیدھی راہ پر نہ لایا (۲۰:۷۷،۷۹)

حدیث نمبر ۴۷۳۷

راوی: ابن عباسؓ

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہودی عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اس دن موسیٰ علیہ السلام نے فرعون پر غلبہ پایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ پھر ہم ان کے مقابلے میں موسیٰ کے زیادہ حقدار ہیں۔ مسلمانو! تم لوگ بھی اس دن روزہ رکھو۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کی مشابہت سے بچنے کے لئے  اس کے ساتھ ایک روزہ اور ملانے کا حکم صادر فرمایا جو اب بھی مسنون ہے۔

فَلاَ يُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقَى

وہ شیطان تم کو جنت سے نہ نکلوا دے پس تم کم نصیب ہو جاؤ (۲۰:۱۱۷)

حدیث نمبر ۴۷۳۸

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام نے آدم علیہ السلام سے بحث کی اور ان سے کہا کہ آپ ہی نے اپنی غلطی کے نتیجہ میں انسانوں کو جنت سے نکالا اور مشقت میں ڈالا۔ آدم علیہ السلام بولے کہ اے موسیٰ! آپ کو اللہ نے اپنی رسالت کے لئے  پسند فرمایا اور ہم کلامی کا شرف بخشا۔ کیا آپ ایک ایسی بات پر مجھے ملامت کرتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے بھی پہلے میرے لئے  مقرر کر دیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چنانچہ آدم علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام پر بحث میں غالب آ گئے۔

حدیث نمبر ۴۷۳۹

راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

 وہ کہتے تھے کہ سورۃ بنی اسرائیل اور سورۃ کہف اور سورۃ مریم اور سورۃ طہٰ اور سورۃ انبیاء اگلی بہت فصیح سورتوں میں سے ہیں جو مکہ میں اتری تھیں اور میری پرانی یاد کی ہوئی ہیں۔

قتادہ نے کہا جذاذا‏ کا معنی ٹکڑے ٹکڑے۔

 اور حسن بصری نے کہا كل في فلك‏ یعنی ہر ایک تارہ ایک ایک آسمان میں گول گھومتا ہے، جیسے سوت کاتنے کا چرخہ۔

  يسبحون‏ یعنی گول گھومتے ہیں۔

 ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا نفشت‏ کے معنی چر گئیں۔

  يصحبون‏ کے معنی روکے جائیں گے۔ بچائے جائیں گے۔

  أمتكم أمة واحدة‏ یعنی تمہارا دین اور مذہب ایک ہی دین اور مذہب ہے۔

 اور عکرمہ نے کہا حصب‏ حبشی زبان میں جلانے کی لکڑیوں ایندھن کو کہتے ہیں۔

 اور لوگوں نے کہا لفظ أحسوا‏ کے معنی توقع پائی یہ أحسست‏ سے نکلا ہے یعنی آہٹ پائی۔

  خامدين‏ کے معنی بجھے ہوئے یعنی مرے ہوئے ۔

حصيد کے معنی جڑ سے اکھاڑا گیا، واحد اور تثنیہ اور جمع سب پر یہی لفظ بولا جاتا ہے۔

  لا يستحسرون‏ کے معنی نہیں تھکے اسی سے ہے لفظ حسير تھکا ہوا۔ اور حسرت بعيري‏ ‏ کے معنی میں نے اپنے اونٹ کو تھکا دیا۔

  عميق ‏‏‏‏ کے معنی دور دراز۔

  نكسوا‏ یہ کفر کی طرف پھیرے گئے۔

  صنعة لبوس‏ زرہیں بنانا۔

تقطعوا أمرهم‏ یعنی اختلاف کیا، جدا جدا طریقہ اختیار کیا۔

لا يسمعون حسيسها کے معنی اور لفظ حس اور جرس اور همس کے معانی ایک ہی ہیں یعنی پست آواز۔

آذناك‏ ہم نے تجھ کو آگاہ کیا عرب لوگ کہتے ہیں۔

آذنتكم‏ یعنی میں نے تم کو خبر دی تم ہم برابر ہو گئے میں نے کوئی دغا نہیں کی جب آپ مخاطب کو کسی بات کی خبر دے چکے تو آپ اور وہ دونوں برابر ہو گئے اور آپ نے اس سے کوئی دغا نہیں کی۔

اور مجاہد نے کہا لعلكم تسألون‏ کے معنی یہ ہیں شاید تم سمجھو۔

  ارتضى‏ کے معنی پسند کیا راضی ہوا۔

  التماثيل‏ کے معنی مورتیں بت۔

 السجل کے معنی خطوں کا مجموعہ دفتر۔

كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ

ہم نے انسان کو شروع میں جیسا پیدا کیا تھا اسی طرح اس کو ہم دوبارہ پھر لوٹائیں گے (۲۱:۱۰۴ )

حدیث نمبر ۴۷۴۰

راوی: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن خطبہ سنایا۔ فرمایا تم قیامت  کے دن اللہ کے سامنے ننگے پاؤں ننگے بدن بےختنہ حشر کئے جاؤ گے جیسا کہ ارشاد باری ہے كما بدأنا أول خلق نعيده وعدا علينا إنا كنا فاعلين‏ پھر سب سے پہلے قیامت  کے دن ابراہیم علیہ السلام کو کپڑے پہنائے جائیں گے۔ سن لو! میری اُمت کے کچھ لوگ لائے جائیں گے فرشتے ان کو پکڑ کر بائیں طرف والے دوزخیوں میں لے جائیں گے۔ میں عرض کروں گا پروردگار! یہ تو میرے ساتھ والے ہیں۔

 ارشاد ہو گا تم نہیں جانتے انہوں نے تمہاری وفات کے بعد کیا کیا کرتوت کئے ہیں۔ اس وقت میں وہی کہوں گا جو اللہ کے نیک بندے عیسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ میں جب تک ان لوگوں میں رہا ان کا حال دیکھتا رہا آخر آیت تک۔ ارشاد ہو گا یہ لوگ اپنی ایڑیوں کے بل اسلام سے پھر گئے جب تو ان سے جدا ہوا۔

سورۃ الحج کی تفسیر

سفیان بن عیینہ نے کہا المخبتين‏ کا معنی اللہ پر بھروسہ کرنے والے یا، اللہ کی بارگاہ میں عاجزی کرنے والے

اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت في أمنيته‏ کی تفسیر میں کہا جب پیغمبر کلام کرتا ہے اللہ کے حکم سناتا ہے تو شیطان اس کی بات میں اپنی طرف سے پیغمبر کی آواز بنا کر کچھ ملا دیتا ہے۔ پھر اللہ پاک شیطان کا ملایا ہوا مٹا دیتا ہے اور اپنی سچی آیتوں کو قائم رکھتا ہے۔

 بعضوں نے کہا أمنيته‏ سے پیغمبر کی قرأت مراد ہے۔

  إلا أماني‏ جو سورۃ البقرہ میں ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ مگر آرزوئیں۔

اور مجاہد نے کہا طبری نے اس کو وصل کی ۔ مشيد کے معنی چونہ گچ کئے گئے۔

 اوروں نے کہا يسطون‏ کا معنی یہ ہے زیادتی کرتے ہیں یہ لفظ سطوة سے نکلا ہے۔

  بعضوں نے کہا يسطون کا معنی سخت پکڑتے ہیں۔

  وهدوا إلى الطيب من القول‏ یعنی اچھی بات کا ان کو الہام کیا گیا۔

 ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا بسبب‏ کا معنی رسی جو چھت تک لگی ہو۔

  تذهل‏ کا معنی غافل ہو جائے۔

وَتَرَى النَّاسَ سُكَارَى

اور لوگ تجھے نشہ میں دکھائی دیں گے حالانکہ وہ نشہ میں نہ ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب سخت ہے (۲۲:۲)

حدیث نمبر ۴۷۴۱

راوی: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ پاک قیامت  کے دن آدم علیہ السلام سے فرمائے گا۔ اے آدم! وہ عرض کریں گے، میں حاضر ہوں اے رب! تیری فرمانبرداری کے لئے ۔ پروردگار آواز سے پکارے گا یا فرشتہ پروردگار کی طرف سے آواز دے گ اللہ حکم دیتا ہے کہ اپنی اولاد میں سے دوزخ کا جتھا نکالو۔

وہ عرض کریں گے اے پروردگار! دوزخ کا جتھا کتنا نکالوں۔ حکم ہو گا راوی نے کہا میں سمجھتا ہوں ہر ہزار آدمیوں میں نو سو ننانوے گویا ہزار میں ایک جنتی ہو گا

یہ ایسا سخت وقت ہو گا کہ پیٹ والی کا حمل گر جائے گا اور بچہ فکر کے مارے بوڑھا ہو جائے گا یعنی جو بچپن میں مرا ہو اور تو قیامت  کے دن لوگوں کو ایسا دیکھے گا جیسے وہ نشہ میں متوالے ہو رہے ہیں حالانکہ ان کو نشہ نہ ہو گا بلکہ اللہ کا عذاب ایسا سخت ہو گا یہ حدیث جو صحابہ حاضر تھے ان پر سخت گزری۔ ان کے چہرے مارے ڈر کے بدل گئے۔

اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تسلی کے لئے  فرمایا تم اتنا کیوں ڈرتے ہو اگر یاجوج ماجوج جو کافر ہیں کی نسل تم سے ملائی جائے تو ان میں سے نو سو ننانوے کے مقابل تم میں سے ایک آدمی پڑے گا۔ غرض تم لوگ حشر کے دن دوسرے لوگوں کی نسبت جو دوزخی ہوں گے ایسے ہو گے جیسے سفید بیل کے جسم پر ایک بال کالا ہوتا ہے یا جیسے کالے بیل کے جسم پر ایک دو بال سفید ہوتے ہیں اور مجھ کو امید ہے تم لوگ سارے جنتیوں کا چوتھائی حصہ ہو گے باقی تین حصوں میں اور سب امتیں ہوں گی ۔ یہ سن کر ہم نے اللہ اکبر کہا۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ تم تہائی ہو گے ہم نے پھر نعرہ تکبیر بلند کیا پھر فرمایا نہیں بلکہ آدھا حصہ ہو گے آدھے حصہ میں اور امتیں ہوں گی ہم نے پھر نعرہ تکبیر بلند کیا

وَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يَعۡبُدُ ٱللَّهَ عَلَىٰ حَرۡفٍ۬ ... ذَٲلِكَ هُوَ ٱلضَّلَـٰلُ ٱلۡبَعِيدُ 

 اور بعضا شخص ہے کہ بندگی کرتا ہے اﷲ کی کنارے پر (رہ کر) ۔پھر اگر مل گئی اس کو بھلائی، چین پکڑا اس پر۔

اور اگر مل گئی ان کو جانچ (آزمائش) پھر گیا اُلٹا اپنے منہ پر۔گنوائی دنیا اور آخرت۔یہی ہے ٹوٹا صریح(کھلا گھاٹا) ۔

 پکارتا ہے اﷲ کے سوا ایسی چیز کہ اس کا بُرا نہیں کرتی اور ایسی کہ اس کا بھلا نہیں کرتی۔یہی ہے دُور پڑنا (گُمراہ ہون) بھول کر۔(۲۲:۱۱،۱۲)

أترفناهم کے معنی ہم نے ان کی روزی کشادہ کر دی۔

حدیث نمبر ۴۷۴۲

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

آپ  نے آیت ومن الناس من يعبد الله على حرف‏ اور انسانوں میں کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو اللہ کی عبادت کنارہ پر کھڑا ہو کر کرتا ہے کے متعلق فرمایا کہ بعض لوگ مدینہ آتے اور اپنے اسلام کا اظہار کرتے اس کے بعد اگر اس کی بیوی کے یہاں لڑکا پیدا ہوتا اور گھوڑی بھی بچہ دیتی تو وہ کہتے کہ یہ دین اسلام بڑا اچھا دین ہے، لیکن اگر ان کے یہاں لڑکا نہ پیدا ہوتا اور گھوڑی بھی کوئی بچہ نہ دیتی تو کہتے کہ یہ تو برا دین ہے اس پر مذکور بالا آیت نازل ہوئی۔

هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ

یہ دو فریق ہیں ، جنہوں نے اپنے پروردگار کے بارے میں جھگڑا کیا ۔ (۲۲:۱۹ )

حدیث نمبر ۴۷۴۳

راوی: ابوذر رضی اللہ عنہ

وہ قسم کھا کر بیان کرتے تھے کہ یہ آیت هذان خصمان اختصموا في ربهم‏ یہ دو فریق ہیں، جنہوں نے اپنے پروردگار کے بارے میں جھگڑا کیا۔ حمزہ اور آپ کے دونوں ساتھیوں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ مسلمانوں کی طرف سے اور مشرکین کی طرف سے عتبہ اور اس کے دونوں ساتھیوں شیبہ اور ولید بن عتبہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی، جب انہوں نے بدر کی لڑائی میں میدان میں آ کر مقابلہ کی دعوت دی تھی۔

حدیث نمبر ۴۷۴۴

راوی: معتمر بن سلیمان

 میں نے اپنے والد سلیمان سے سنا، انہوں نے ابومجلز سے سن کر کہا کہ یہ خود ان ابومجلز کا قول ہے، ان سے قیس بن عباد نے اور ان سے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں پہلا شخص ہوں گا۔ جو رحمٰن کے حضور میں قیامت  کے دن اپنا دعویٰ پیش کرنے کے لئے  چہار زانو بیٹھوں گا۔ قیس نے کہا کہ آپ ہی لوگوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی تھی هذان خصمان اختصموا في ربهم کہ یہ دو فریق ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کے بارے میں جھگڑا کیا بیان کیا کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے بدر کی لڑائی میں دعوت مقابلہ دی تھی۔ یعنی مسلمانوں کی طرف سے علی، حمزہ اور عبیدہ رضی اللہ عنہم نے اور کفار کی طرف سے شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ نے۔

سورۃ مؤمنون کی تفسیر

سفیان بن عیینہ نے کہا سبع طرائق سے ساتوں آسمان مراد ہیں۔

  لها سابقون یعنی ان کی قسمت میں روز ازل سے سعادت اور نیک بختی لکھ دی گئی۔

  وجلة ڈرنے والے۔

 ابن عباس نے کہا هيهات هيهات کا معنی دور ہے دور ہے۔

  فاسأل العادين یعنی گننے والے فرشتوں سے جو اعمال کا حساب کرتے ہیں پوچھ لو۔

  لناكبون سیدھی راہ سے مڑ جانے والے۔

  كالحون ترش رو، بدشکل منہ بنانے والے۔

اوروں نے کہا سلالة سے مراد بچہ اور نطفہ ہے۔

  جنة اور جنون دونوں کا ایک ہی معنی ہے یعنی دیوانگی، باؤلاپن۔

غثاء پھین اور ایسی چیز جو پانی پر تیر آئے اور کام نہ آئے بلکہ پھینک دیا جائے ۔

یجأرون آواز بلند کریں گے جیسے گائے تکلیف کے وقت نکالتی ہے۔

  على أعقابكم عرب لوگ بولتے ہیں رجع على عقبيه یعنی پیٹھ پھیر کر چل دیا۔

  سامرا ، سمر ‏‏‏‏ سے نکلا ہے اس کی جمع سمار ہے، یہاں سمار جمع کے معنوں میں ہے یعنی رات کو گپ شپ کرنے والے ۔

  تسحرون جادو سے اندھے ہو رہے ہیں۔

سورۃ النور کی تفسیر

من خلاله کا معنی بادل کے پردوں کے بیچ میں سے۔

  سنا برقه اس کی بجلی کی روشنی۔

  مذعنين ، مذعن کی جمع ہے یعنی عاجزی کرنے والا۔

أشتاتا ، شتى ، شتات ، شت ‏‏‏‏ سب کے ایک ہی معنی ہیں یعنی الگ الگ

اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا سورة أنزلناها کا معنی ہم نے اس کو کھول کر بیان کیا کہ سورتوں کے مجموعہ کی وجہ سے قرآن کا نام پڑا اور سورۃ کو سورۃ اس وجہ سے کہتے ہیں کہ وہ دوسری سورۃ سے علیحدہ ہوتی ہے پھر جب ایک سورۃ دوسری کے قریب کر دی گئی تو مجموعہ کو قرآن کہنے لگے، تو یہ قرن سے نکلا ہے

اور سعد بن عیاض ثمالی نے کہا اس کو ابن شاہین نے وصل کی ۔ مشكاة کہتے ہیں طاق کو یہ حبشی زبان کا لفظ ہے۔

 اور یہ جو سورۃ قیامت  میں فرمایا ہم پر اس کا جمع کرنا اور قرآن کرنا ہے تو قرآن سے اس کا جوڑنا اور ایک ٹکڑے سے دوسرا ٹکڑا ملانا مراد ہے۔

پھر فرمایا فإذا قرأناه فاتبع قرآنه یعنی جب ہم اس کو جوڑ دیں اور مرتب کر دیں تو اس مجموعہ کی پیروی کر یعنی اس میں جس بات کا حکم ہے اس کو بجا لا اور جس کی اللہ نے ممانعت کی ہے اس سے باز رہ اور عرب لوگ کہتے ہیں اس کے شعروں کا قرآن نہیں ہے۔ یعنی کوئی مجموعہ نہیں ہے

 اور قرآن کو فرقان بھی کہتے ہیں کیونکہ وہ حق اور باطل کو جدا کرتا ہے اور عورت کے حق میں کہتے ہیں

ما قرأت بسلا قط یعنی اس نے اپنے پیٹ میں بچہ کبھی نہیں رکھا

اور کہا فرضناها تشدید سے تو معنی یہ ہو گا ہم نے اس میں مختلف فرائض نازل کئیے اور جس نے فرضناها تخفیف سے پڑھا ہے تو معنی یہ ہو گا ہم نے تم پر اور جو لوگ قیامت  تک تمہارے بعد آئیں گے ان پر فرض کیا۔

مجاہد نے کہا أو الطفل الذين لم يظهروا سے وہ کم سن بچے مراد ہیں جو کم سنی کی وجہ سے عورتوں کی شرمگاہ یا جماع سے واقف نہیں ہیں

 اور شعبی نے کہا غير أولي الإربة سے وہ مرد مراد ہیں جن کو عورتوں کی احتیاج نہ ہو۔

 اور طاؤس نے کہا اس کو عبدالرزاق نے وصل کی وہ احمق مراد ہے جس کو عورتوں کا خیال نہ ہو

 اور مجاہد نے کہا اس کو طبری نے وصل کی جن کو اپنے پیٹ کی دھن لگی ہو ان سے یہ ڈر نہ ہو کہ عورتوں کو ہاتھ لگائیں گے۔

وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ ... أَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ

اور جو لوگ اپنی بیویوں کو تہمت لگائیں اور ان کے پاس سوائے اپنے اور کوئی گواہ نہ ہو تو ان کی شہادت یہ کہ وہ مرد چار بار اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ میں سچا ہوں۔ (۲۴:۶)

حدیث نمبر ۴۷۴۵

راوی: سہل بن سعد

عویمر بن حارث بن زید بن جد بن عجلان عاصم بن عدی کے پاس آئے۔ عاصم بنی عجلان کے سردار تھے۔ انہوں نے آپ سے کہا کہ آپ لوگوں کا ایک ایسے شخص کے بارے میں کیا خیال ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو پا لیتا ہے کیا وہ اسے قتل کر دے؟ لیکن تم پھر اسے قصاص میں قتل کر دو گے! آخر ایسی صورت میں انسان کیا طریقہ اختیار کرے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھ کے مجھے بتائیے۔

چنانچہ عاصم، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! صورت مذکورہ میں خاوند کیا کرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مسائل میں سوال و جواب کو ناپسند فرمایا۔ جب عویمر نے ان سے پوچھا تو انہوں نے بتا دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مسائل کو ناپسند فرمایا ہے۔

 عویمر نے ان سے کہا کہ واللہ میں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسے پوچھوں گا۔ چنانچہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا۔ یا رسول اللہ! ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ ایک غیر مرد کو دیکھتا ہے کیا وہ اس کو قتل کر دے؟ لیکن پھر آپ قصاص میں اس کو قتل کریں گے۔ ایسی صورت میں اس کو کیا کرنا چاہئے؟

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے اور تمہاری بیوی کے بارے میں قرآن کی آیت اتاری ہے۔ پھر آپ نے انہیں قرآن کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق لعان کا حکم دیا۔ اور عویمر نے اپنی بیوی کے ساتھ لعان کیا، پھر انہوں نے کہا یا رسول اللہ! اگر میں اپنی بیوی کو روکے رکھوں تو میں ظالم ہوں گا۔ اس لئے  عویمر نے اسے طلاق دے دی۔ اس کے لعان کے بعد میاں بیوی میں جدائی کا طریقہ جاری ہو گیا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ دیکھتے رہو اگر اس عورت کے کالا، بہت کالی پتلیوں والا، بھاری سرین اور بھری ہوئی پنڈلیوں والا بچہ پیدا ہو تو میرا خیال ہے کہ عویمر نے الزام غلط نہیں لگایا ہے۔ لیکن اگر سرخ سرخ گر گٹ جیسا پیدا ہو تو میرا خیال ہے کہ عویمر نے غلط الزام لگایا ہے۔ اس کے بعد ان عورت کے جو بچہ پیدا ہوا وہ انہیں صفات کے مطابق تھا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کی تھیں اور جس سے عویمر کی تصدیق ہوتی تھی۔ چنانچہ اس لڑکے کا نسب اس کی ماں کی طرف رکھا گیا۔

وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ

اور پانچویں بار مرد یہ کہے کہ مجھ پر اللہ کی لعنت ہو اگر میں جھوٹا ہوں (۲۴:۷)

حدیث نمبر ۴۷۴۶

راوی: سہل بن سعد

 ایک صاحب یعنی عویمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! ایسے شخص کے متعلق آپ کا کیا ارشاد ہے جس نے اپنی بیوی کے ساتھ ایک غیر مرد کو دیکھا ہو کیا وہ اسے قتل کر دے؟ لیکن پھر آپ قصاص میں قاتل کو قتل کر دیں گے۔ پھر اسے کیا کرنا چاہئے؟ انہیں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے دو آیات نازل کیں جن میں لعان کا ذکر ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تمہارے اور تمہاری بیوی کے بارے میں فیصلہ کیا جا چکا ہے۔

راوی نے بیان کیا کہ پھر دونوں میاں بیوی نے لعان کیا اور میں اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا۔ پھر آپ نے دونوں میں جدائی کرا دی اور دو لعان کرنے والوں میں اس کے بعد یہی طریقہ قائم ہو گیا کہ ان میں جدائی کرا دی جائے۔ ان کی بیوی حاملہ تھیں، لیکن انہوں نے اس کا بھی انکار کر دیا۔ چنانچہ جب بچہ پیدا ہوا تو اسے ماں ہی کے نام سے پکارا جانے لگا۔

 میراث کا یہ طریقہ ہوا کہ بیٹا ماں کا وارث ہوتا ہے اور ماں اللہ کے مقرر کئے ہوئے حصہ کے مطابق بیٹے کی وارث ہوتی ہے۔

وَيَدْرَأُ عَنْهَا الْعَذَابَ أَنْ تَشْهَدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ

اور عورت سزا سے اس طرح بچ سکتی ہے کہ وہ چار دفعہ اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ بیشک وہ مرد جھوٹا ہے ، پانچویں دفعہ کہے کہ اگر وہ مرد سچا ہو تو مجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو (۲۴:۸)

حدیث نمبر ۴۷۴۷

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

ہلال بن امیہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی بیوی پر شریک بن سحماء کے ساتھ تہمت لگائی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے گواہ لاؤ ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد لگائی جائے گی۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ ایک غیر کو مبتلا دیکھتا ہے تو کیا وہ ایسی حالت میں گواہ تلاش کرنے جائے گا؟ لیکن آپ یہی فرماتے رہے کہ گواہ لاؤ، ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد جاری کی جائے گی۔

 اس پر ہلال نے عرض کیا۔ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ نبی بنا کر بھیجا ہے میں سچا ہوں اور اللہ تعالیٰ خود ہی کوئی ایسی آیت نازل فرمائے گا۔ جس کے ذریعہ میرے اوپر سے حد دور ہو جائے گی۔ اتنے میں جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے اور یہ آیت نازل ہوئی وَٱلَّذِينَ يَرۡمُونَ أَزۡوَٲجَهُمۡ وَلَمۡ يَكُن لَّهُمۡ شُہَدَآءُ إِلَّآ أَنفُسُهُمۡ ...(۲۴:۶) جس میں ایسی صورت میں لعان کا حکم ہے

جب نزول وحی کا سلسلہ ختم ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہلال کو آدمی بھیج کر بلوایا وہ آئے اور آیت کے مطابق چار مرتبہ قسم کھائی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر فرمایا کہ اللہ خوب جانتا ہے کہ تم میں سے ایک ضرور جھوٹا ہے تو کیا وہ توبہ کرنے پر تیار نہیں ہے۔ اس کے بعد ان کی بیوی کھڑی ہوئیں اور انہوں نے بھی قسم کھائی، جب وہ پانچویں پر پہنچیں اور چار مرتبہ اپنی برأت  کی قسم کھانے کے بعد، کہنے لگیں کہ اگر میں جھوٹی ہوں تو مجھ پر اللہ کا غضب ہو تو لوگوں نے انہیں روکنے کی کوشش کی اور کہا کہ اگر تم جھوٹی ہو تو اس سے تم پر اللہ کا عذاب ضرور نازل ہو گا۔

ابن عباس رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ اس پر وہ ہچکچائیں ہم نے سمجھا کہ اب وہ اپنا بیان واپس لے لیں گی۔ لیکن یہ کہتے ہوئے کہ زندگی بھر کے لئے  میں اپنی قوم کو رسوا نہیں کروں گی۔ پانچویں بار قسم کھائی۔

پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دیکھنا اگر بچہ خوب سیاہ آنکھوں والا، بھاری سرین اور بھری بھری پنڈلیوں والا پیدا ہوا تو پھر وہ شریک بن سحماء ہی کا ہو گا۔ چنانچہ جب پیدا ہوا تو وہ اسی شکل و صورت کا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کتاب اللہ کا حکم نہ آ چکا ہوتا تو میں اسے رجمی سزا دیتا۔

وَالْخَامِسَةُ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ

اور پانچویں مرتبہ یہ کہے کہ مجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو اگر وہ مرد سچا ہے (۲۴:۹)

حدیث نمبر ۴۷۴۸

راوی: ابن عمر رضی اللہ عنہما

 ایک صاحب نے اپنی بیوی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک غیر مرد کے ساتھ تہمت لگائی اور کہا کہ عورت کا حمل میرا نہیں ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے دونوں میاں بیوی نے اللہ کے فرمان کے مطابق لعان کیا۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچہ کے بارے میں فیصلہ کیا کہ وہ عورت ہی کا ہو گا اور لعان کرنے والے دونوں میاں بیوی میں جدائی کروا دی۔

إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ ... وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ مِنْهُمْ لَهُ عَذَابٌ عَظِيمٌ

بیشک جن لوگوں نے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائی ہے وہ تم میں سے ایک چھوٹا سا گروہ ہے تم اسے اپنے حق میں برا نہ سمجھو ، بلکہ یہ تمہارے حق میں بہتر ہی ہے ،

ان میں سے ہر شخص کو جس نے جتنا جو کچھ کیا تھا گناہ ہوا اور جس نے ان میں سے سب سے بڑھ کر حصہ لیا تھا اس کے لئے  سزا بھی سب سے بڑھ کر سخت ہے (۲۴:۱۱)

أفاك کے معنی جھوٹا ہے۔

حدیث نمبر ۴۷۴۹

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

والذي تولى كبره‏ یعنی اور جس نے ان میں سے سب سے بڑھ کر حصہ لیا تھا اور مراد عبداللہ بن ابی ابن سلول منافق ہے۔

لَوْلاَ إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنْفُسِهِمْ خَيْرًا ... فَأُولَئِكَ عِنْدَ اللَّهِ هُمُ الْكَاذِبُونَ

جب تم لوگوں نے یہ بری خبر سنی تھی تو کیوں نہ مسلمان مردوں اور عورتوں نے اپنی ماں کے حق میں نیک گمان کیا اور یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ تو صریح جھوٹا طوفان لگانا ہے ،

یہ بہتان باز ، نزدیک اللہ اپنے قول پر چار گواہ کیوں نہ لائے ، سو جب یہ لوگ گواہ نہیں لائے تو بس یہ لوگ اللہ کے نزدیک سر بسر جھوٹے ہی ہیں (۲۴:۱۲۔۱۳)

حدیث نمبر ۴۷۵۰

راوی: عروہ بن زبیر، سعید بن مسیب، علقمہ بن وقاص اور عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود

انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگانے کا واقعہ بیان کیا۔ یعنی جس میں تہمت لگانے والوں نے ان کے متعلق افواہ اڑائی تھی اور پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو اس سے بری قرار دیا تھا۔ ان تمام راویوں نے پوری حدیث کا ایک ایک ٹکڑا بیان کیا اور ان راویوں میں سے بعض کا بیان بعض دوسرے کے بیان کی تصدیق کرتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے بعض راوی کو بعض دوسرے کے مقابلہ میں حدیث زیادہ بہتر طریقہ پر محفوظ، یاد تھی۔

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

 جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی بیویوں میں سے کسی کو اپنے ساتھ لے جانے کے لئے  قرعہ ڈالتے جن کا نام نکل جاتا انہیں اپنے ساتھ لے جاتے۔ انہوں نے بیان کیا کہ ایک غزوہ کے موقع پر اسی طرح آپ نے قرعہ ڈالا اور میرا نام نکلا۔ میں آپ کے ساتھ روانہ ہوئی۔ یہ واقعہ پردہ کے حکم نازل ہونے کے بعد کا ہے۔ مجھے ہودج سمیت اونٹ پر چڑھا دیا جاتا اور اسی طرح اتار لیا جاتا تھا۔ یوں ہمارا سفر جاری رہا۔

پھر جب آپ اس غزوہ سے فارغ ہو کر واپس لوٹے اور ہم مدینہ کے قریب پہنچ گئے تو ایک رات جب کوچ کا حکم ہوا۔ میں قضائے حاجت کے لئے پڑاؤ سے کچھ دور گئی اور قضائے حاجت کے بعد اپنے کجاوے کے پاس واپس آ گئی۔ اس وقت مجھے خیال ہوا کہ میرا ظفار کے نگینوں کا بنا ہوا ہار کہیں راستہ میں گر گیا ہے۔ میں اسے ڈھونڈنے لگی اور اس میں اتنا محو ہو گئی کہ کوچ کا خیال ہی نہ رہا۔ اتنے میں جو لوگ میرے ہودج کو سوار کیا کرتے تھے آئے اور میرے ہودج کو اٹھا کر اس اونٹ پر رکھ دیا جو میری سواری کے لئے  تھا۔ انہوں نے یہی سمجھا کہ میں اس میں بیٹھی ہوئی ہوں۔ ان دنوں عورتیں بہت ہلکی پھلکی ہوا کرتی تھیں گوشت سے ان کا جسم بھاری نہیں ہوتا تھا کیونکہ کھانے پینے کو بہت کم ملتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب لوگوں نے ہودج کو اٹھایا تو اس کے ہلکے پن میں انہیں کوئی اجنبیت نہیں محسوس ہوئی۔ میں یوں بھی اس وقت کم عمر لڑکی تھی۔ چنانچہ ان لوگوں نے اس اونٹ کو اٹھایا اور چل پڑے۔

 مجھے ہار اس وقت ملا جب لشکر گزر چکا تھا۔ میں جب پڑاؤ پر پہنچی تو وہاں نہ کوئی پکارنے والا تھا اور نہ کوئی جواب دینے والا۔ میں وہاں جا کر بیٹھ گئی جہاں پہلے بیٹھی ہوئی تھی۔ مجھے یقین تھا کہ جلد ہی انہیں میرے نہ ہونے کا علم ہو جائے گا اور پھر وہ مجھے تلاش کرنے کے لئے  یہاں آئیں گے۔ میں اپنی اسی جگہ پر بیٹھی تھی کہ میری آنکھ لگ گئی اور میں سو گئی۔ صفوان بن معطل سلمی ثم ذکوانی لشکر کے پیچھے پیچھے آ رہے تھے تاکہ اگر لشکر والوں سے کوئی چیز چھوٹ جائے تو اسے اٹھا لیں سفر میں یہ دستور تھ رات کا آخری حصہ تھا، جب میرے مقام پر پہنچے تو صبح ہو چکی تھی۔ انہوں نے دور سے ایک انسانی سایہ دیکھا کہ پڑا ہوا ہے وہ میرے قریب آئے اور مجھے دیکھتے ہی پہچان گئے۔ پردہ کے حکم سے پہلے انہوں نے مجھے دیکھا تھا۔ جب وہ مجھے پہچان گئے تو إنا لله پڑھنے لگے۔ میں ان کی آواز پر جاگ گئی اور چہرہ چادر سے چھپا لیا۔ اللہ کی قسم! اس کے بعد انہوں نے مجھ سے ایک لفظ بھی نہیں کہا اور نہ میں نے والذي تولى كبره‏ کے سوا ان کی زبان سے کوئی کلمہ سنا۔

 اس کے بعد انہوں نے اپنا اونٹ بٹھا دیا اور میں اس پر سوار ہو گئی وہ خود پیدل اونٹ کو آگے سے کھینچتے ہوئے لے چلے۔ ہم لشکر سے اس وقت ملے جب وہ بھری دوپہر میں دھوپ سے بچنے کے لئے پڑاؤ کئے ہوئے تھے، اس تہمت میں پیش پیش عبداللہ بن ابی ابن سلول منافق تھا۔

مدینہ پہنچ کر میں بیمار پڑ گئی اور ایک مہینہ تک بیمار رہی۔ اس عرصہ میں لوگوں میں تہمت لگانے والوں کی باتوں کا برابر چرچا رہا لیکن مجھے ان باتوں کا کوئی احساس بھی نہ تھا۔ صرف ایک معاملہ سے مجھے شبہ سا ہوتا تھا کہ میں اپنی بیماری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے لطف و محبت کا اظہار نہیں دیکھتی تھی جو پہلی بیماریوں کے دنوں میں دیکھ چکی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف لاتے سلام کر کے صرف اتنا پوچھ لیتے کہ کیا حال ہے؟ اور پھر واپس چلے جاتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی طرز عمل سے شبہ ہوتا تھا لیکن صورت حال کا مجھے کوئی احساس نہیں تھا۔

 ایک دن جب بیماری سے کچھ افاقہ تھ کمزوری باقی تھی تو میں باہر نکلی میرے ساتھ ام مسطح رضی اللہ عنہا بھی تھیں ہم مناصع کی طرف گئے۔ قضائے حاجت کے لئے  ہم وہیں جایا کرتے تھے اور قضائے حاجت کے لئے  ہم صرف رات ہی کو جایا کرتے تھے۔ یہ اس سے پہلے کی بات ہے جب ہمارے گھروں کے قریب بتی الخلاء نہیں بنے تھے۔ اس وقت تک ہم قدیم عرب کے دستور کے مطابق قضائے حاجت آبادی سے دور جا کر کیا کرتے تھے۔ اس سے ہمیں بدبو سے تکلیف ہوتی تھی کہ بیت الخلاء ہمارے گھر کے قریب بنا دیئے جائیں۔

 خیر میں اور ام مسطح قضائے حاجت کے لئے  روانہ ہوئے۔ وہ ابورہم بن عبد مناف کی بیٹی تھیں اور ان کی والدہ رانطہٰ نامی صخر بن عامر کی بیٹی تھیں۔ اس طرح وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خالہ ہوتی ہیں۔ ان کے لڑکے مسطح بن اثاثہ ہیں۔ قضائے حاجت کے بعد جب ہم گھر واپس آنے لگے تو مسطح کی ماں کا پاؤں انہیں کی چادر میں الجھ کر پھسل گیا۔ اس پر ان کی زبان سے نکلا مسطح برباد ہو، میں نے کہا تم نے بری بات کہی، تم ایک ایسے شخص کو برا کہتی ہو جو غزوہ بدر میں شریک رہا ہے۔ انہوں نے کہا، واہ اس کی باتیں تو نے نہیں سنی؟ میں نے پوچھا انہوں نے کیا کہا ہے؟ پھر انہوں نے مجھے تہمت لگانے والوں کی باتیں بتائیں میں پہلے سے بیمار تھی ہی، ان باتوں کو سن کر میرا مرض اور بڑھ گیا پھر جب میں گھر پہنچی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف لائے تو آپ نے سلام کیا اور دریافت فرمایا کہ کیسی طبیعت ہے؟ میں نے عرض کیا کہ کیا آپ مجھے اپنے ماں باپ کے گھر جانے کی اجازت دیں گے؟ میرا مقصد ماں باپ کے یہاں جانے سے صرف یہ تھا کہ اس خبر کی حقیقت ان سے پوری طرح معلوم ہو جائے گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جانے کی اجازت دے دی اور میں اپنے والدین کے گھر آ گئی۔

میں نے والدہ سے پوچھا کہ یہ لوگ کس طرح کی باتیں کر رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا بیٹی صبر کرو، کم ہی کوئی ایسی حسین و جمیل عورت کسی ایسے مرد کے نکاح میں ہو گی جو اس سے محبت رکھتا ہو اور اس کی سوکنیں بھی ہوں اور پھر بھی وہ اس طرح اسے نیچا دکھانے کی کوشش نہ کریں۔

 بیان کیا کہ اس پر میں نے کہا سبحان اللہ! کیا اس طرح کا چرچا لوگوں نے بھی کر دیا؟ انہوں نے بیان کیا کہ اس کے بعد میں رونے لگی اور رات بھر روتی رہی۔ صبح ہو گئی لیکن میرے آنسو نہیں تھمتے تھے اور نہ نیند کا نام و نشان تھا۔ صبح ہو گئی اور میں روئے جا رہی تھی اسی عرصہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم کو بلایا کیونکہ اس معاملہ میں آپ پر کوئی وحی نازل نہیں ہوئی تھی۔ آپ ان سے میرے چھوڑ دینے کے لئے  مشورہ لینا چاہتے تھے۔ کیونکہ وحی اترنے میں دیر ہو گئی تھی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی کے مطابق مشورہ دیا جس کا انہیں علم تھا کہ آپ کی اہلیہ یعنی خود عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ اس تہمت سے بَری ہیں۔ اس کے علاوہ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے کتنا تعلق خاطر ہے۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ کی بیوی کے بارے میں خیر و بھلائی کے سوا اور ہمیں کسی چیز کا علم نہیں اور علی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ نے آپ پر کوئی تنگی نہیں کی ہے، عورتیں ان کے سوا اور بھی بہت ہیں، ان کی باندی بریرہ سے بھی آپ اس معاملہ میں دریافت فرما لیں۔

 عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ کو بلایا اور دریافت فرمایا بریرہ! کیا تم نے کوئی ایسی چیز دیکھی ہے جس سے تجھ کو شبہ گزرا ہو؟ انہوں نے عرض کیا، نہیں حضور! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں نے ان میں کوئی ایسی بات نہیں پائی جس پر میں عیب لگا سکوں، ایک بات ضرور ہے کہ وہ کم عمر لڑکی ہیں، آٹا گوندھنے میں بھی سو جاتی ہیں اور اتنے میں کوئی بکری یا پرندہ وغیرہ وہاں پہنچ جاتا ہے اور ان کا گوندھا ہوا آٹا کھا جاتا ہے۔

 اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور اس دن آپ نے عبداللہ بن ابی بن سلول کی شکایت کی۔ بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ممبر پر کھڑے ہو کر فرمایا کہ اے مسلمانو! ایک ایسے شخص کے بارے میں کون میری مدد کرتا ہے جس کی اذیت رسانی اب میرے گھر پہنچ گئی ہے۔ اللہ کی قسم کہ میں اپنی بیوی کو نیک پاک دامن ہونے کے سوا کچھ نہیں جانتا اور یہ لوگ جس مرد کا نام لے رہے ہیں ان کے بارے میں بھی خیر کے سوا میں اور کچھ نہیں جانتا۔ وہ جب بھی میرے گھر میں گئے تو میرے ساتھ ہی گئے ہیں۔

اس پر سعد بن معاذ انصاری رضی اللہ عنہ اٹھے اور کہا کہ یا رسول اللہ! میں آپ کی مدد کروں گا اور اگر وہ شخص قبیلہ اوس سے تعلق رکھتا ہے تو میں اس کی گردن اڑا دوں گا اور اگر وہ ہمارے بھائیوں یعنی خزرج میں کا کوئی آدمی ہے تو آپ ہمیں حکم دیں، تعمیل میں کوتاہی نہیں ہو گی۔

 راوی نے بیان کیا کہ اس کے بعد سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے، وہ قبیلہ خزرج کے سردار تھے، اس سے پہلے وہ مرد صالح تھے لیکن آج ان پر قومی حمیت غالب آ گئی تھی عبداللہ بن ابی ابن سلول منافق ان ہی کے قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا انہوں نے اٹھ کر سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے کہا: اللہ کی قسم! تم نے جھوٹ کہا ہے تم اسے قتل نہیں کر سکتے، تم میں اس کے قتل کی طاقت نہیں ہے۔ پھر اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے وہ سعد بن معاذ کے چچیرے بھائی تھے انہوں نے سعد بن عبادہ سے کہا کہ اللہ کی قسم! تم جھوٹ بولتے ہو، ہم اسے ضرور قتل کریں گے، کیا تم منافق ہو گئے ہو کہ منافقوں کی طرفداری میں لڑتے ہو؟ اتنے میں دونوں قبیلے اوس و خزرج اٹھ کھڑے ہوئے اور نوبت آپس ہی میں لڑنے تک پہنچ گئی۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ممبر پر کھڑے تھے۔ آپ لوگوں کو خاموش کرنے لگے۔ آخر سب لوگ چپ ہو گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی خاموش ہو گئے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ اس دن بھی میں برابر روتی رہی نہ آنسو تھمتا تھا اور نہ نیند آتی تھی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب دوسری صبح ہوئی تو میرے والدین میرے پاس ہی موجود تھے، دو راتیں اور ایک دن مجھے مسلسل روتے ہوئے گزر گیا تھا۔ اس عرصہ میں نہ مجھے نیند آتی تھی اور نہ آنسو تھمتے تھے۔ والدین سوچنے لگے کہ کہیں روتے روتے میرا دل نہ پھٹ جائے۔ انہوں نے بیان کیا کہ ابھی وہ اسی طرح میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور میں روئے جا رہی تھی کہ قبیلہ انصار کی ایک خاتون نے اندر آنے کی اجازت چاہی، میں نے انہیں اندر آنے کی اجازت دے دی، وہ بھی میرے ساتھ بیٹھ کر رونے لگیں۔ ہم اسی حال میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف لائے اور بیٹھ گئے۔ انہوں نے کہا کہ جب سے مجھ پر تہمت لگائی گئی تھی اس وقت سے اب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس نہیں بیٹھے تھے، آپ نے ایک مہینہ تک اس معاملہ میں انتظار کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس سلسلہ میں کوئی وحی نازل نہیں ہوئی۔

 انہوں نے بیان کیا کہ بیٹھنے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ پڑھا پھر فرمایا، امابعد! اے عائشہ! تمہارے بارے میں مجھے اس اس طرح کی خبریں پہنچی ہیں پس اگر تم بَری ہو تو اللہ تعالیٰ تمہاری برأت  خود کر دے گا۔ لیکن اگر تم سے غلطی سے گناہ ہو گیا ہے تو اللہ سے دعائے مغفرت کرو اور اس کی بارگاہ میں توبہ کرو، کیونکہ بندہ جب اپنے گناہ کا اقرار کر لیتا ہے اور پھر اللہ سے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے۔

 عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی گفتگو ختم کر چکے تو یکبارگی میرے آنسو اس طرح خشک ہو گئے جیسے ایک قطرہ بھی باقی نہ رہا ہو۔ میں نے اپنے والد ابوبکر سے کہا کہ آپ میری طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیجئیے۔ انہوں نے فرمایا کہ اللہ کی قسم! میں نہیں سمجھتا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلہ میں کیا کہنا ہے۔ پھر میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کا میری طرف سے آپ جواب دیں۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ اللہ کی قسم! مجھے نہیں معلوم کہ میں آپ سے کیا عرض کروں۔

 عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر میں خود ہی بولی میں اس وقت نوعمر لڑکی تھی، میں نے بہت زیادہ قرآن بھی نہیں پڑھا تھا میں نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں تو یہ جانتی ہوں کہ ان افواہوں کے متعلق جو کچھ آپ لوگوں نے سنا ہے وہ آپ لوگوں کے دل میں جم گیا ہے اور آپ لوگ اسے صحیح سمجھنے لگے ہیں، اب اگر میں یہ کہتی ہوں کہ میں ان تہمتوں سے بَری ہوں اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں واقعی بَری ہوں، تو آپ لوگ میری بات کا یقین نہیں کریں گے، لیکن اگر میں تہمت کا اقرار کر لوں، حالانکہ اللہ کے علم میں ہے کہ میں اس سے قطعاً بَری ہوں، تو آپ لوگ میری تصدیق کرنے لگیں گے۔ اللہ کی قسم! میرے پاس آپ لوگوں کے لئے  کوئی مثال نہیں ہے سوا یوسف کے والد کے اس ارشاد کے کہ انہوں نے فرمایا تھا فصبر جميل والله المستعان على ما تصفون‏ پس صبر ہی اچھا ہے اور تم جو کچھ بیان کرتے ہو اس پر اللہ ہی مدد کرے گا بیان کیا کہ پھر میں نے اپنا رخ دوسری طرف کر لیا اور اپنے بستر پر لیٹ گئی۔

 کہا کہ مجھے پورا یقین تھا کہ میں بَری ہوں اور اللہ تعالیٰ میری برأت  ضرور کرے گا لیکن اللہ کی قسم! مجھے اس کا وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے بارے میں ایسی وحی نازل فرمائے گا جس کی تلاوت کی جائے گی۔ میں اپنی حیثیت اس سے بہت کم تر سمجھتی تھی کہ اللہ تعالیٰ میرے بارے میں قرآن مجید کی آیت نازل فرمائے۔ البتہ مجھے اس کی توقع ضرور تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے متعلق کوئی خواب دیکھیں گے اور اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ میری برأت  کر دے گا۔

بیان کیا کہ اللہ کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی اپنی اسی مجلس میں تشریف رکھتے تھے گھر والوں میں سے کوئی باہر نہ تھا کہ آپ پر وحی کا نزول شروع ہوا اور وہی کیفیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر طاری ہوئی تھی جو وحی کے نازل ہوتے ہوئے طاری ہوتی تھی یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پسینے پسینے ہو گئے اور پسینہ موتیوں کی طرف آپ کے جسم اطہر سے ڈھلنے لگا حالانکہ سردی کے دن تھے۔ یہ کیفیت آپ پر اس وحی کی شدت کی وجہ سے طاری ہوتی تھی جو آپ پر نازل ہوتی تھی۔

 بیان کیا کہ پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کیفیت ختم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تبسم فرما رہے تھے اور سب سے پہلا کلمہ جو آپ کی زبان مبارک سے نکلا، یہ تھا کہ عائشہ! اللہ نے تمہیں بَری قرار دیا ہے۔ میری والدہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آپ کا شکر ادا کرنے کے لئے کھڑی ہو جاؤ۔

 بیان کیا کہ میں نے کہا اللہ کی قسم! میں ہرگز آپ کے سامنے کھڑی نہیں ہوں گی اور اللہ پاک کے سوا اور کسی کی تعریف نہیں کروں گی۔ اللہ تعالیٰ نے جو آیت نازل کی تھی وہ یہ تھی إِنَّ ٱلَّذِينَ جَآءُو بِٱلۡإِفۡكِ عُصۡبَةٌ۬ مِّنكُمۡ لَا تَحۡسَبُوهُ ...(۲۴:۱۱)کہ بیشک جن لوگوں نے تہمت لگائی ہے وہ تم میں سے ایک چھوٹا سے گروہ ہے مکمل دس آیتوں تک۔

جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں میری برأت  میں نازل کر دیں تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جو مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ کے اخراجات ان سے قرابت اور ان کی محتاجی کی وجہ سے خود اٹھایا کرتے تھے انہوں نے ان کے متعلق کہا کہ اللہ کی قسم! اب مسطح پر کبھی کچھ بھی خرچ نہیں کروں گا۔ اس نے عائشہ رضی اللہ عنہ پر کیسی کیسی تہمتیں لگا دی ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی

وَلَا يَأۡتَلِ أُوْلُواْ ٱلۡفَضۡلِ مِنكُمۡ وَٱلسَّعَةِ ... وَٱللَّهُ غَفُورٌ۬ رَّحِيمٌ

اور جو لوگ تم میں بزرگی اور وسعت والے ہیں، وہ قرابت والوں کو اور مسکینوں کو اور اللہ کے راستے میں ہجرت کرنے والوں کی مدد دینے سے قسم نہ کھا بیٹھیں

بلکہ چاہئے کہ ان کی لغزشوں کو معاف کرتے رہیں اور درگزر کرتے رہیں، کیا تم یہ نہیں چاہتے کہ اللہ تمہارے قصور معاف کرتا رہے، بیشک اللہ بڑا مغفرت والا، بڑا ہی رحمت والا ہے۔(۲۴:۲۲)

 ابوبکر رضی اللہ عنہ بولے، ہاں اللہ کی قسم! میری تو یہی خواہش ہے کہ اللہ تعالیٰ میری مغفرت فرما دے چنانچہ مسطح رضی اللہ عنہ کو وہ تمام اخراجات دینے لگے جو پہلے دیا کرتے تھے اور فرمایا کہ اللہ کی قسم! اب کبھی ان کا خرچ بند نہیں کروں گا۔

عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین زینب بن جحش رضی اللہ عنہا سے بھی میرے معاملہ میں پوچھا تھا۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ زینب! تم نے بھی کوئی چیز کبھی دیکھی ہے؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے کان اور میری آنکھ کو اللہ سلامت رکھے، میں نے ان کے اندر خیر کے سوا اور کوئی چیز نہیں دیکھی۔

 عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ازواج مطہرات میں وہی ایک تھیں جو مجھ سے بھی اوپر رہنا چاہتی تھیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی پرہیزگاری کی وجہ سے انہیں تہمت لگانے سے محفوظ رکھا۔ لیکن ان کی بہن حمنہ ان کے لئے  لڑی اور تہمت لگانے والوں کے ساتھ وہ بھی ہلاک ہو گئی۔

وَلَوْلاَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَفَضْتُمْ فِيهِ عَذَابٌ عَظِيمٌ

اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی تو جس شغل تہمت میں تم پڑے تھے اس میں تم پر سخت عذاب نازل ہوتا (۲۴:۱۴)

مجاہد نے کہا کہ تلقونه کا مطلب یہ ہے کہ تم ایک دوسرے سے منہ در منہ اس بات کو نقل کرنے لگے۔

 لفظ تفيضون جو سورۃ یونس میں ہے بمعنی تقولون کے ہے، اس کا معنی تم کہتے تھے۔

حدیث نمبر ۴۷۵۱

راوی: ام رومان رضی اللہ عنہا

 جب عائشہ نے تہمت کی خبر سنی تو وہ بیہوش ہو کر گر پڑی تھی۔

إِذْ تَلَقَّوْنَهُ بِأَلْسِنَتِكُمْ وَتَقُولُونَ بِأَفْوَاهِكُمْ مَا لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ وَتَحْسِبُونَهُ هَيِّنًا وَهْوَ عِنْدَ اللَّهِ عَظِيمٌ

اللہ کا بڑا بھاری عذاب تو تم کو اس وقت پکڑتا جب تم اپنی زبانوں سے تہمت کو منہ در منہ بیان کر رہے تھے

اور اپنی زبانوں سے وہ کچھ کہہ رہے تھے جس کی تمہیں کوئی تحقیق نہ تھی اور تم اسے ہلکا سمجھ رہے تھے ، حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی بات تھی (۲۴:۱۵)

حدیث نمبر ۴۷۵۲

راوی: ابن ابی ملیکہ

انہیں ابن جریج نے خبر دی کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا وہ مذکورہ بالا آیت إذ تلقونه بألسنتكم‏ جب تم اپنی زبانوں سے اسے منہ در منہ نقل کر رہے تھے پڑھ رہی تھیں۔

وَلَوْلاَ إِذْ سَمِعْتُمُوهُ قُلْتُمْ مَا يَكُونُ لَنَا أَنْ نَتَكَلَّمَ بِهَذَا سُبْحَانَكَ هَذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ

اور تم نے جب اسے سنا تھا تو کیوں نہ کہہ دیا کہ ہم کیسے ایسی بات منہ سے نکالیں پاک ہے تو یا اللہ ! یہ تو سخت بہتان ہے (۲۴:۱۶)

حدیث نمبر ۴۷۵۳

راوی: ابن ابی ملیکہ

 عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات سے تھوڑی دیر پہلے، جبکہ وہ نزع کی حالت میں تھیں، ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان کے پاس آنے کی اجازت چاہی، عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ میری تعریف نہ کرنے لگیں۔

 کسی نے عرض کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں اور خود بھی عزت دار ہیں اس لئے  آپ کو اجازت دے دینی چاہئے اس پر انہوں نے کہا کہ پھر انہیں اندر بلا لو۔

 ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان سے پوچھا کہ آپ کس حال میں ہیں؟ اس پر انہوں نے فرمایا کہ اگر میں اللہ کے نزدیک اچھی ہوں تو سب اچھا ہی اچھا ہے۔

 اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ان شاءاللہ آپ اچھی ہی رہیں گی۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ہیں اور آپ کے سوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کنواری عورت سے نکاح نہیں فرمایا اور آپ کی برأت قرآن مجید میں آسمان سے نازل ہوئی۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما کے تشریف لے جانے کے بعد آپ کی خدمت میں ابن زبیر رضی اللہ عنہما حاضر ہوئے۔ محترمہ نے ان سے فرمایا کہ ابھی ابن عباس آئے تھے اور میری تعریف کی، میں تو چاہتی ہوں کہ کاش میں ایک بھولی بسری گمنام ہوتی۔

حدیث نمبر ۴۷۵۴

راوی: قاسم بن محمد

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آنے کی اجازت چاہی۔ پھر راوی نے مذکورہ بالا حدیث کی طرح بیان کیا لیکن اس حدیث میں راوی نے لفظ نسيا منسيا ‏ کا ذکر نہیں کیا۔

يَعِظُكُمُ اللَّهُ أَنْ تَعُودُوا لِمِثْلِهِ أَبَدًا

اللہ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ خبردار پھر اس قسم کی حرکت کبھی نہ کرنا (۲۴:۱۷)

حدیث نمبر ۴۷۵۵

راوی: مسروق

 عائشہ رضی اللہ عنہا سے ملاقات کرنے کی حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی۔ میں نے عرض کیا کہ آپ انہیں بھی اجازت دیتی ہیں حالانکہ انہوں نے بھی آپ پر تہمت لگانے والوں کا ساتھ دیا تھ اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا۔ کیا انہیں اس کی ایک بڑی سزا نہیں ملی ہے۔

 سفیان نے کہا کہ ان کا اشارہ ان کے نابینا ہو جانے کی طرف تھا۔

پھر حسان نے یہ شعر پڑھا۔ عفیفہ اور بڑی عقلمند ہیں کہ ان کے متعلق کسی کو کوئی شبہ بھی نہیں گزر سکتا۔ وہ غافل اور پاکدامن عورتوں کا گوشت کھانے سے اکمل پرہیز کرتی ہیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا، لیکن تو نے ایسا نہیں کیا۔

وَيُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الآيَاتِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ

اور اللہ تم سے صاف صاف احکام بیان کرتا ہے اور اللہ بڑے علم والا بڑی حکمت والا ہے (۲۴:۱۸)

حدیث نمبر ۴۷۵۶

راوی: مسروق

حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور یہ شعر پڑھا۔

عفیفہ اور بڑی عقلمند ہیں، ان کے متعلق کسی کو شبہ بھی نہیں گزر سکتا۔

آپ غافل اور پاک دامن عورتوں کا گوشت کھانے سے کامل پرہیز کرتی ہیں۔

 اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ لیکن اے حسان! تو ایسا نہیں ہے۔

 بعد میں، میں نے عرض کیا آپ ایسے شخص کو اپنے پاس آنے دیتی ہیں؟ اللہ تعالیٰ تو یہ آیت بھی نازل کر چکا ہے وَٱلَّذِى تَوَلَّىٰ كِبۡرَهُ ۥ مِنۡہُمۡ ... کہ اور جس نے ان میں سے سب سے بڑا حصہ لیا...(۲۴:۱۱)

 عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ نابینا ہو جانے سے بڑھ کر اور کیا عذاب ہو گا، پھر انہوں نے کہا کہ حسان رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کفار کی ہجو کا جواب دیا کرتے تھے کیا یہ شرف ان کے لئے  کم ہے ۔

إِنَّ ٱلَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ ٱلۡفَـٰحِشَةُ ...أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغۡفِرَ ٱللَّهُ لَكُمۡ‌ۗوَٱللَّهُ غَفُورٌ۬ رَّحِيمٌ

یقیناً جو لوگ چاہتے ہیں کہ  مؤمنین  کے درمیان بےحیائی کا چرچا رہے ... کیا تم نہیں چاہتے کہ اﷲ تم کو معاف کرے؟اور اﷲ بخشنے والا ہے مہربان۔(۲۴:۱۹ٓ-۲۲)

تشیع بمعنی تظھر ہے یعنی ظا ہر ہو ۔

آیت کی تفسیر

اور جو لوگ تم میں بزرگی والے اور فراخ دست ہیں وہ قرابت والوں کو اور مسکینوں کو اور اللہ کے راستہ میں ہجرت کرنے والوں کو امداد دینے سے قسم نہ کھا بیٹھیں ، بلکہ ان کو چاہئے کہ وہ ان کی لغزشیں معاف کرتے رہیں اور درگزر کرتے رہیں کیا تم یہ نہیں چاہتے کہ اللہ تمہارے قصور معاف کرتا رہے ۔ بیشک اللہ بڑا مغفرت کرنے والا بڑا ہی رحمت والا ہے ۔

حدیث نمبر ۴۷۵۷

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

جب میرے متعلق ایسی باتیں کہی گئیں جن کا مجھے گمان بھی نہیں تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے معاملہ میں لوگوں کو خطبہ دینے کے لئے  کھڑے ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت کے بعد اللہ کی حمد و ثنا اس کی شان کے مطابق بیان کی، پھر فرمایا، امابعد! تم لوگ مجھے ایسے لوگوں کے بارے میں مشورہ دو جنہوں نے میری بیوی کو بدنام کیا ہے اور اللہ کی قسم! کہ میں نے اپنی بیوی میں کوئی برائی نہیں دیکھی اور تہمت بھی ایسے شخص صفوان بن معطل کے ساتھ لگائی ہے کہ اللہ کی قسم! ان میں بھی میں نے کبھی کوئی برائی نہیں دیکھی۔ وہ میرے گھر میں جب بھی داخل ہوا تو میری موجودگی ہی میں داخل ہوا اور اگر میں کبھی سفر کی وجہ سے مدینہ نہیں ہوتا تو وہ بھی نہیں ہوتا اور وہ میرے ساتھ ہی رہتے ہیں۔

 اس کے بعد سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! ہمیں حکم فرمایئے کہ ہم ایسے مردود لوگوں کی گردنیں اڑا دیں۔ اس کے بعد قبیلہ خزرج کے ایک صاحب سعد بن عبادہ کھڑے ہوئے، حسان بن ثابت کی والدہ اسی قبیلہ خزرج سے تھیں، انہوں نے کھڑے ہو کر کہا کہ تم جھوٹے ہو، اگر وہ لوگ تہمت لگانے والے قبیلہ اوس کے ہوتے تو تم کبھی انہیں قتل کرنا پسند نہ کرتے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ مسجد ہی میں اوس و خزرج کے قبائل میں باہم فساد کا خطرہ ہو گیا، اس فساد کی مجھ کو کچھ خبر نہ تھی، اسی دن کی رات میں، میں قضائے حاجت کے لئے  باہر نکلی، میرے ساتھ ام مسطح بھی تھیں۔ وہ راستے میں پھسل گئیں اور ان کی زبان سے نکلا کہ مسطح کو اللہ غارت کرے۔ میں نے کہا، آپ اپنے بیٹے کو کوستی ہیں، اس پر وہ خاموش ہو گئیں، پھر دوبارہ وہ پھسلیں اور ان کی زبان سے وہی الفاظ نکلے کہ مسطح کو اللہ غارت کرے۔ میں نے پھر کہا کہ اپنے بیٹے کو کوستی ہو، پھر وہ تیسری مرتبہ پھسلیں تو میں نے پھر انہیں ٹوکا۔ انہوں نے بتایا کہ اللہ کی قسم! میں تو تیری ہی وجہ سے اسے کوستی ہوں۔ میں نے کہا کہ میرے کس معاملہ میں انہیں آپ کوس رہی ہیں؟ بیان کیا۔ کہ اب انہوں نے طوفان کا سارا قصہ بیان کیا میں نے پوچھا، کیا واقعی یہ سب کچھ کہا گیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں، اللہ کی قسم!

پھر میں اپنے گھر گئی۔ لیکن ان واقعات کو سن کر غم کا یہ حال تھا کہ مجھے کچھ خبر نہیں کہ کس کام کے لئے  میں باہر گئی تھی اور کہاں سے آئی ہوں، ذرہ برابر بھی مجھے اس کا احساس نہیں رہا۔ اس کے بعد مجھے بخار چڑھ گیا اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ مجھے ذرا میرے والد کے گھر پہنچوا دیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ ایک بچہ کو کر دیا۔ میں گھر پہنچی تو میں نے دیکھا کہ ام رومان نیچے کے حصہ میں ہیں اور ابوبکر رضی اللہ عنہ بالاخانے میں قرآن پڑھ رہے ہیں۔ والدہ نے پوچھا بیٹی اس وقت کیسے آ گئیں۔ میں نے وجہ بتائی اور واقعہ کی تفصیلات سنائیں ان باتوں سے جتنا غم مجھ کو تھا ایسا معلوم ہوا کہ ان کو اتنا غم نہیں ہے۔

 انہوں نے فرمایا، بیٹی اتنا فکر کیوں کرتی ہو کم ہی ایسی کوئی خوبصورت عورت کسی ایسے مرد کے نکاح میں ہو گی جو اس سے محبت رکھتا ہو اور اس کی سوکنیں بھی ہوں اور وہ اس سے حسد نہ کریں اور اس میں سو عیب نہ نکالیں۔ اس تہمت سے وہ اس درجہ بالکل بھی متاثر نہیں معلوم ہوتی تھیں جتنا میں متاثر تھی۔ میں نے پوچھا والد کے علم میں بھی یہ باتیں آ گئیں ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہاں، میں نے پوچھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے؟ انہوں نے بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی علم میں سب کچھ ہے۔ میں یہ سن کر رونے لگی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی میری آواز سن لی، وہ گھر کے بالائی حصہ میں قرآن پڑھ رہے تھے، اتر کر نیچے آئے اور والدہ سے پوچھا کہ اسے کیا ہو گیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ وہ تمام باتیں اسے بھی معلوم ہو گئی ہیں جو اس کے متعلق کہی جا رہی ہیں۔ ان کی بھی آنکھیں بھر آئیں اور فرمایا: بیٹی! تمہیں قسم دیتا ہوں، اپنے گھر واپس چلی جاؤ چنانچہ میں واپس چلی آئی۔

 جب میں اپنے والدین کے گھر آ گئی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے حجرہ میں تشریف لائے تھے اور میری خادمہ بریرہ سے میرے متعلق پوچھا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ نہیں، اللہ کی قسم! میں ان کے اندر کوئی عیب نہیں جانتی، البتہ ایسا ہو جایا کرتا تھا کم عمری کی غفلت کی وجہ سے کہ آٹا گوندھتے ہوئے سو جایا کرتیں اور بکری آ کر ان کا گندھا ہوا آٹا کھا جاتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ نے ڈانٹ کر ان سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بات صحیح صحیح کیوں نہیں بتا دیتی۔ پھر انہوں نے کھول کر صاف لفظوں میں ان سے واقعہ کی تصدیق چاہی۔ اس پر وہ بولیں کہ سبحان اللہ، میں تو عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس طرح جانتی ہوں جس طرح سنار کھرے سونے کو جانتا ہے۔ اس تہمت کی خبر جب ان صاحب کو معلوم ہوئی جن کے ساتھ تہمت لگائی گئی تھی تو انہوں نے کہا کہ سبحان اللہ، اللہ کی قسم! کہ میں نے آج تک کسی غیر عورت کا کپڑا نہیں کھولا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ پھر انہوں نے اللہ کے راستے میں شہادت پائی۔

 بیان کیا کہ صبح کے وقت میرے والدین میرے پاس آ گئے اور میرے پاس ہی رہے۔ آخر عصر کی نماز سے فارغ ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لائے۔ میرے والدین مجھے دائیں اور بائیں طرف سے پکڑے ہوئے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمد و ثنا کی اور فرمایا امابعد! اے عائشہ! اگر تم نے واقعی کوئی برا کام کیا ہے اور اپنے اوپر ظلم کیا ہے تو پھر اللہ سے توبہ کرو، کیونکہ اللہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ایک انصاری خاتون بھی آ گئی تھیں اور دروازے پر بیٹھی ہوئی تھیں، میں نے عرض کی، آپ ان خاتون کا لحاظ نہیں فرماتے کہیں یہ اپنی سمجھ کے مطابق کوئی الٹی سیدھی بات باہر کہہ دیں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نصیحت فرمائی، اس کے بعد میں اپنے والد کی طرف متوجہ ہوئی اور ان سے عرض کیا کہ آپ ہی جواب دیجئیے، انہوں نے بھی یہی کہا کہ میں کیا کہوں

جب کسی نے میری طرف سے کچھ نہیں کہا تو میں نے شہادت کے بعد اللہ کی شان کے مطابق اس کی حمد و ثنا کی اور کہا امابعد! اللہ کی قسم! اگر میں آپ لوگوں سے یہ کہوں کہ میں نے اس طرح کی کوئی بات نہیں کی اور اللہ عزوجل گواہ ہے کہ میں اپنے اس دعوے میں سچی ہوں، تو آپ لوگوں کے خیال کو بدلنے میں میری یہ بات مجھے کوئی نفع نہیں پہنچائے گی، کیونکہ یہ بات آپ لوگوں کے دل میں رچ بس گئی ہے اور اگر میں یہ کہہ دوں کہ میں نے واقعتاً یہ کام کیا ہے حالانکہ اللہ خوب جانتا ہے کہ میں نے ایسا نہیں کیا ہے، تو آپ لوگ کہیں گے کہ اس نے تو جرم کا اقرار کر لیا ہے۔ اللہ کی قسم! میری اور آپ لوگوں کی مثال یوسف علیہ السلام کے والد کی سی ہے کہ انہوں نے فرمایا تھا فصبر جميل والله المستعان على ما تصفون‏ پس صبر ہی اچھا ہے اور تم لوگ جو کچھ بیان کرتے ہو اس پر اللہ ہی مدد کرے۔ میں نے ذہن پر بہت زور دیا کہ یعقوب علیہ السلام کا نام یاد آ جائے لیکن نہیں یاد آیا۔ اسی وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول شروع ہو گیا اور ہم سب خاموش ہو گئے۔

پھر آپ سے یہ کیفیت ختم ہوئی تو میں نے دیکھا کہ خوشی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک سے ظاہر ہو رہی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پسینہ سے اپنی پیشانی صاف کرتے ہوئے فرمایا کہ عائشہ! تمہیں بشارت ہو اللہ تعالیٰ نے تمہاری پاکی نازل کر دی ہے۔ بیان کیا کہ اس وقت مجھے بڑا غصہ آ رہا تھا۔ میرے والدین نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑی ہو جاؤ، میں نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑی نہیں ہوں گی نہ آپ کا شکریہ ادا کروں گی اور نہ آپ لوگوں کا شکریہ ادا کروں گی، میں تو صرف اللہ کا شکر ادا کروں گی جس نے میری برأت  نازل کی ہے۔ آپ لوگوں نے تو یہ افواہ سنی اور اس کا انکار بھی نہ کر سکے، اس کے ختم کرنے کی بھی کوشش نہیں کی۔

 عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی تھیں کہ زینب بنت جحش کو اللہ تعالیٰ نے ان کی دینداری کی وجہ سے اس تہمت میں پڑنے سے بچا لیا۔ میری بابت انہوں نے خیر کے سوا اور کوئی بات نہیں کہی، البتہ ان کی بہن حمنہ ہلاک ہونے والوں کے ساتھ ہلاک ہوئیں۔ اس طوفان کو پھیلانے میں مسطح اور حسان اور منافق عبداللہ بن ابی نے حصہ لیا تھا۔ عبداللہ بن ابی منافق ہی تو کھود کھود کر اس کو پوچھتا اور اس پر حاشیہ چڑھاتا، وہی اس طوفان کا بانی مبانی تھا۔

وهو الذي تولى كبره سے وہ اور حمنہ مراد ہیں۔

 عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے قسم کھائی کہ مسطح کو کوئی فائدہ آئندہ کبھی وہ نہیں پہنچائیں گے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی وَلَا يَأۡتَلِ أُوْلُواْ ٱلۡفَضۡلِ مِنكُمۡ‏ اور جو لوگ تم میں بزرگی والے اور فراخ دست ہیں ۔۔۔(۲۴:۲۲)،

 اس سے مراد ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں۔ وہ قرابت والوں اور مسکینوں کو اس سے مراد مسطح ہیں۔ دینے سے قسم نہ کھا بیٹھیں اللہ تعالیٰ کے ارشاد ألا تحبون أن يغفر الله لكم والله غفور رحيم‏ کیا تم یہ نہیں چاہتے کہ اللہ تمہارے قصور معاف کرتا رہے، بیشک اللہ بڑی مغفرت کرنے والا بڑا ہی مہربان ہے (۲۴:۲۲)۔ چنانچہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہاں، اللہ کی قسم! اے ہمارے رب! ہم تو اسی کے خواہشمند ہیں کہ تو ہماری مغفرت فرما۔ پھر وہ پہلے کی طرح مسطح کو جو دیا کرتے تھے وہ جاری کر دیا۔

وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ

اور ڈال لیں اپنی اوڑھنی اپنے گریبان پر۔(۲۴:۳۱)

حدیث نمبر ۴۷۵۸

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

 اللہ ان عورتوں پر رحم کرے جنہوں نے پہلی ہجرت کی تھی۔ جب اللہ تعالیٰ نے آیت وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ اور اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رہا کریں۔ تاکہ سینہ اور گلا وغیرہ نہ نظر آئے نازل کی، تو انہوں نے اپنی چادروں کو پھاڑ کر ان کے دوپٹے بنا لئے ۔

حدیث نمبر ۴۷۵۹

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

 جب یہ آیت نازل ہوئی وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ کہ اور اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رہا کریں تو انصار کی عورتوں نے اپنے تہبندوں کو دونوں کنارے سے پھاڑ کر ان کی اوڑھنیاں بنا لیں۔

سورۃ الفرقان کی تفسیر

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا هباء منثورا‏ کے معنی جو چیز ہوا اڑا کر لائے گرد و غبار وغیرہ ۔

مد الظل‏ سے وہ وقت مراد ہے جو طلوع صبح سے سورج نکلنے تک ہوتا ہے۔

  ساكنا‏ کا معنی ہمیشہ۔

  عليه دليلا‏ میں دليل سے سورج کا نکلنا مراد ہے۔

خلفة‏ سے یہ مطلب ہے کہ رات کا جو کام نہ ہو سکے وہ دن کو پورا کر سکتا ہے، دن کا جو کام نہ ہو سکے وہ رات کو پورا کر سکتا ہے۔

 اور امام حسن بصری نے کہا قرة اعین کا مطلب یہ ہے کہ ہماری بیویوں کو اور اولاد کو خدا پرست، اپنا تابعدار بنا دے۔ مؤمن کی آنکھ کی ٹھنڈک اس سے زیادہ کسی بات میں نہیں ہوتی کہ اس کا محبوب اللہ کی عبادت میں مصروف ہو۔

اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ثبورا‏ کے معنی ہلاکت خرابی۔

 اوروں نے کہا سعير کا لفظ مذکر ہے، یہ تسعر سے نکلا ہے، تسعر اور اضطرام آگ کے خوب سلگنے کو کہتے ہیں۔

  تملى عليه‏ اس کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں یہ أمليت اور أمللت سے نکلا ہے۔

  الرس ، كان کو کہتے ہیں اس کی جمع رساس آتی ہے۔

  كان بمعنی معدن ما يعبأ‏ عرب لوگ کہتے ہیں ما عبأت به شيئا یعنی میں نے اس کی کچھ پروا نہیں کی۔

  غراما‏ کے معنی ہلاکت

اور مجاہد نے کہا عتوا‏ کا معنی شرارت کے ہیں

اور سفیان بن عیینہ نے کہا عاتية‏ کا معنی یہ ہے کہ اس نے خزانہ دار فرشتوں کا کہنا نہ سنا۔

الَّذِينَ يُحْشَرُونَ عَلَى وُجُوهِهِمْ إِلَى جَهَنَّمَ أُولَئِكَ شَرٌّ مَكَانًا وَأَضَلُّ سَبِيلاً

باب: آیت کی تفسیر یعنی یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے چہروں کے بل جہنم کی طرف چلائے جائیں گے ، یہ لوگ دوزخ میں ٹھکانے کے لحاظ سے بدترین ہوں گے اور یہ راہ چلنے میں بہت ہی بھٹکے ہوئے ہیں (۲۵:۳۴)

حدیث نمبر ۴۷۶۰

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

 ایک صاحب نے پوچھا، اے اللہ کے نبی! کافر کو قیامت  کے دن اس کے چہرے کے بل کس طرح چلایا جائے گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ جس نے اسے اس دنیا میں دو پاؤں پر چلایا ہے اس پر قادر ہے کہ قیامت  کے دن اس کو اس کے چہرے کے بل چلا دے۔

قتادہ نے کہا یقیناً ہمارے رب کی عزت کی قسم! یونہی ہو گا۔

وَالَّذِينَ لاَ يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلاَ يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ وَلاَ يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا

اور جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے اور جس انسان کی جان کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے اسے وہ قتل نہیں کرتے ، مگر ہاں حق پر اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو کوئی ایسا کرے گا اسے سزا بھگتنی ہی پڑے گی (۲۵:۶۸)

أثاما کے معنی عقوبت و سزا ہے ۔

حدیث نمبر ۴۷۶۱

راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سا گناہ اللہ کے نزدیک سب سے بڑا ہے؟

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کہ تم اللہ کا کسی کو شریک ٹھہراؤ حالانکہ اسی نے تمہیں پیدا کیا ہے۔

میں نے پوچھا اس کے بعد کون سا؟

 فرمایا کہ اس کے بعد سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ تم اپنی اولاد کو اس خوف سے مار ڈالو کہ وہ تمہاری روزی میں شریک ہو گی۔

میں نے پوچھا اس کے بعد کون سا؟ فرمایا کہ اس کے بعد یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو۔

 راوی نے بیان کیا کہ یہ آیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی تصدیق کے لئے  نازل ہوئی

وَٱلَّذِينَ لَا يَدۡعُونَ مَعَ ٱللَّهِ إِلَـٰهًا ءَاخَرَ وَلَا يَقۡتُلُونَ ٱلنَّفۡسَ ٱلَّتِى حَرَّمَ ٱللَّهُ إِلَّا بِٱلۡحَقِّ وَلَا يَزۡنُونَ‌ۚ

اور جو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے اور جس انسان کی جان کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے اسے قتل نہیں کرتے مگر ہاں حق پر اور نہ وہ زنا کرتے ہیں۔ (۲۵:۶۸)

حدیث نمبر ۴۷۶۲

راوی: قاسم بن ابی بزہ

میں نے سعید بن جبیر سے پوچھا کہ اگر کوئی شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کر دے تو کیا اس کی اس گناہ سے توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔

ابن ابی بزہ نے بیان کیا کہ میں نے اس پر یہ آیت پڑھی وَلَا يَقۡتُلُونَ ٱلنَّفۡسَ ٱلَّتِى حَرَّمَ ٱللَّهُ إِلَّا بِٱلۡحَقِّ کہ اور جس جان کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے اسے قتل نہ کرتے، مگر ہاں حق کے ساتھ۔

 سعید بن جبیر نے کہا کہ میں نے بھی یہ آیت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے سامنے پڑھی تھی تو انہوں نے کہا تھا کہ مکی آیت اور مدنی آیت جو اس سلسلہ میں سورۃ نساء میں ہے اس سے اس کا حکم منسوخ ہو گیا ہے۔

حدیث نمبر ۴۷۶۳

راوی: سعید بن جبیر

اہل کوفہ کا مؤمن کے قتل کے مسئلے میں اختلاف ہوا کہ اس کے قاتل کی توبہ قبول ہو سکتی ہے یا نہیں تو میں سفر کر کے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں پہنچا تو انہوں نے کہا کہ سورۃ نساء کی آیت جس میں یہ ذکر ہے کہ جس نے کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کیا اس کی جہنم ہے۔ اس سلسلہ میں سب سے آخر میں نازل ہوئی ہے اور کسی دوسری سے منسوخ نہیں ہوئی۔

حدیث نمبر ۴۷۶۴

راوی: سعید بن جبیر

میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے فجزاؤه جهنم‏ کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے فرمایا کہ اس کی توبہ قبول نہیں ہو گی اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد ‏‏‏‏ لا يدعون مع الله إلها آخر‏ کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ یہ ان لوگوں کے متعلق ہے جنہوں نے زمانہ جاہلیت میں قتل کیا ہو۔

يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَانًا

قیامت  کے دن اس کا عذاب کئی گنا بڑھتا ہی جائے گا اور وہ اس میں ہمیشہ کے لئے  ذلیل ہو کر پڑا رہے گا (۲۵:۶۹)

حدیث نمبر ۴۷۶۵

راوی: عبدالرحمٰن بن ابزیٰ

 ابن عباس رضی اللہ عنہما سے آیت ومن يقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤه جهنم‏ اور جو کوئی کسی مؤمن کو جان کر قتل کرے اس کی سزا جہنم ہے۔ (۴:۹۳)

اور سورۃ الفرقان کی آیت ‏‏‏‏ وَلَا يَقۡتُلُونَ ٱلنَّفۡسَ ٱلَّتِى حَرَّمَ ٱللَّهُ إِلَّا بِٱلۡحَقِّ اور جس انسان کی جان مارنے کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے اسے قتل نہیں کرتے مگر ہاں حق کے ساتھ (۲۵:۶۸) إلا من تاب‏ تک، (۲۵:۷۰)

میں نے اس آیت کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو اہل مکہ نے کہا کہ پھر تو ہم نے اللہ کے ساتھ شریک بھی ٹھہرایا ہے اور ناحق ایسے قتل بھی کئے ہیں جنہیں اللہ نے حرام قرار دیا تھا اور ہم نے بدکاریوں کا بھی ارتکاب کیا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی

إِلاَّ مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلاً صَالِحًا

مگر ہاں جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک کام کرتا رہے، اللہ بہت بخشنے والا بڑا ہی مہربان ہے تک۔(۲۵:۷۰)

إِلاَّ مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلاً صَالِحًا فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا

باب: آیت کی تفسیر مگر ہاں جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک کام کرتا رہے ، سو ان کی بدیوں کو اللہ نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ تو ہے ہی بڑا بخشش کرنے والا بڑا ہی مہربان ہے (۲۵:۷۰)

حدیث نمبر ۴۷۶۶

راوی: سعید بن جبیر

 مجھے عبدالرحمٰن بن ابزیٰ نے حکم دیا کہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے دو آیتوں کے بارے میں پوچھوں یعنی ومن يقتل مؤمنا متعمدا‏ اور جس نے کسی مؤمن کو جان بوجھ کر قتل کیا۔۔۔ میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ آیت کسی چیز سے بھی منسوخ نہیں ہوئی ہے۔ اور دوسری آیت جس کے بارے میں مجھے انہوں نے پوچھنے کا حکم دیا وہ یہ تھی والذين لا يدعون مع الله إلها آخر‏ اور جو لوگ کسی معبود کو اللہ کے ساتھ نہیں پکارتے آپ نے اس کے متعلق فرمایا کہ یہ مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔

فَسَوْفَ يَكُونُ لِزَامًا

پس عنقریب یہ جھٹلانا ان کے لئے باعث وبال دوزخ بن کر رہے گا (۲۵:۷۷)

لِزَامًا یعنی ہلاکت

حدیث نمبر ۴۷۶۷

راوی: مسروق

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا قیامت  کی پانچ نشانیاں گزر چکی ہیں۔

-  دھواں اس کا ذکر آیت يوم تأتي السماء بدخان مبين میں ہے ۔

- چاند کا پھٹنا اس کا ذکر آیت اقتربت الساعة وانشق القمر میں ہے ۔

- روم کا مغلوب ہونا اس کا ذکر سورۃ غلبت الروم میں ہے ۔

-   لبطشة یعنی اللہ کی پکڑ جو بدر میں ہوئی اس کا ذکر یوم نبطش البطشة الکبرى میں ہے ۔

-  اور وبال جو قریش پر بدر کے دن آیا اس کا ذکر آیت فسوف یکون لزاما میں ہے ۔

سورۃ الشعراء کی تفسیر

مجاہد نے کہا لفظ تعبثون‏ کا معنی بناتے ہو۔

  هضيم‏ وہ چیز جو چھونے سے ریزہ ریزہ ہو جائے۔

مسحرين کا معنی جادو کئے گئے۔

  ليكة اور لأيكة جمع ہے أيكة کی اور لفظ أيكة صحیح ہے۔

  شجر یعنی درخت۔

  يوم الظلة‏ یعنی وہ دن جس میں عذاب نے ان پر سایہ کیا تھا۔

  موزون‏ کا معنی معلوم۔

  كالطود‏ یعنی پہاڑ کی طرح۔

  الشرذمة یعنی چھوٹا گروہ۔

في الساجدين‏ یعنی نمازیوں میں۔

 ابن عباس نے کہا لعلكم تخلدون‏ کا معنی یہ ہے کہ جیسے ہمیشہ دنیا میں رہو گے۔

  ريع بلند زمین جیسے ٹیلہ ريع مفرد ہے اس کی جمع ريعة‏ اور أرياع آتی ہے۔

مصانع‏ ہر عمارت کو کہتے ہیں یا اونچے اونچے محلوں کو ۔

فرهين‏ کا معنی اتراتے ہوئے خوش و خرم۔ فاتحه فارھین کا بھی یہی معنی ہے۔ بعضوں نے کہا فارهين کا معنی کاریگر ہوشیار تجربہ کار۔

  تعثوا‏ جیسے عاث ، يعيث ‏‏‏‏، عيثا‏ ، عيث ‏‏‏‏کہتے ہیں سخت فساد کرنے کو دھند مچانا ۔

  تعثوا‏ کا وہی معنی ہے یعنی سخت فساد نہ کرو۔

  خلقت جبل یعنی پیدا کیا گیا ہے۔ اسی سے جبلا , جبلا , جبلا نکلا ہے یعنی خلقت ۔

وَلاَ تُخْزِنِي يَوْمَ يُبْعَثُونَ

ابراہیم نے یہ بھی دعا کی تھی کہ یا اللہ ! مجھے رسوا نہ کرنا اس دن جب حساب کے لئے  سب جمع کئے جائیں گے (۲۶:۸۷)

حدیث نمبر ۴۷۶۸

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام اپنے والد آذر کو قیامت  کے دن گرد آلود کالا کلوٹا دیکھیں گے۔

 امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا غبرة اور قترة‏.‏ ہم معنی ہیں۔

حدیث نمبر ۴۷۶۹

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام اپنے والد سے قیامت  کے دن جب ملیں گے تو اللہ تعالیٰ سے عرض کریں گے کہ اے رب! تو نے وعدہ کیا تھا کہ تو مجھے اس دن رسوا نہیں کرے گا جب سب اٹھائے جائیں گے لیکن اللہ تعالیٰ جواب دے گا کہ میں نے جنت کو کافروں پر حرام قرار دے دیا ہے۔

وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ  

 اور ڈر سنا دے اپنے نزدیک ناتے والوں کو۔اور اپنے بازو نیچے رکھ، اُن کے واسطے جو تیرے ساتھ ہوں ایمان والے۔(۲۶:۲۱۴،۲۱۵)

واخفض جناحك یعنی اپنا بازو نرم رکھے

حدیث نمبر ۴۷۷۰

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

 جب آیت وأنذر عشيرتك الأقربين‏ اور آپ اپنے خاندانی قرابت داروں کو ڈراتے رہئیے نازل ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور پکارنے لگے۔ اے بنی فہر! اور اے بنی عدی! اور قریش کے دوسرے خاندان والو! اس آواز پر سب جمع ہو گئے اگر کوئی کسی وجہ سے نہ آ سکا تو اس نے اپنا کوئی چودھری بھیج دیا، تاکہ معلوم ہو کہ کیا بات ہے۔ ابولہب قریش کے دوسرے لوگوں کے ساتھ مجمع میں تھا۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خطاب کر کے فرمایا کہ تمہارا کیا خیال ہے، اگر میں تم سے کہوں کہ وادی میں پہاڑی کے پیچھے ایک لشکر ہے اور وہ تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو کیا تم میری بات سچ مانو گے؟ سب نے کہا کہ ہاں، ہم آپ کی تصدیق کریں گے ہم نے ہمیشہ آپ کو سچا ہی پایا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر سنو، میں تمہیں اس سخت عذاب سے ڈراتا ہوں جو بالکل سامنے ہے۔

اس پر ابولہب بولا، تجھ پر سارے دن تباہی نازل ہو، کیا تو نے ہمیں اسی لئے  اکٹھا کیا تھا۔ اسی واقعہ پر یہ آیت نازل ہوئی

تَبَّتۡ يَدَآ أَبِى لَهَبٍ۬ وَتَبَّ ، مَآ أَغۡنَىٰ عَنۡهُ مَالُهُ ۥ وَمَا ڪَسَبَ

ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ برباد ہو گیا، نہ اس کا مال اس کے کام آیا اور نہ اس کی کمائی ہی اس کے آڑے آئی۔(۱۱۱:۱,۲)

حدیث نمبر ۴۷۷۱

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

جب آیت وأنذر عشيرتك الأقربين‏ اور اپنے خاندان کے قرابت داروں کو ڈرا نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا پہاڑی پر کھڑے ہو کر آواز دی کہ اے جماعت قریش! یا اسی طرح کا اور کوئی کلمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی اطاعت کے ذریعہ اپنی جانوں کو اس کے عذاب سے بچاؤ اگر تم شرک و کفر سے باز نہ آئے تو اللہ کے ہاں میں تمہارے کسی کام نہیں آؤں گا۔

اے بنی عبد مناف! اللہ کے ہاں میں تمہارے لئے  بالکل کچھ نہیں کر سکوں گا۔

اے عباس بن عبدالمطلب! اللہ کی بارگاہ میں میں تمہارے کچھ کام نہیں آ سکوں گا۔

اے صفیہ، رسول اللہ کی پھوپھی! میں اللہ کے یہاں تمہیں کچھ فائدہ نہ پہنچا سکوں گا۔

اے فاطمہ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی! میرے مال میں سے جو چاہو مجھ سے لے لو لیکن اللہ کی بارگاہ میں، میں تمہیں کوئی فائدہ نہ پہنچا سکوں گا۔

سورۃ النمل کی تفسیر

الخبء پوشیدہ، چھپی چیز۔

  لا قبل‏ طاقت نہیں۔

الصرح کے معنی کانچ کا گارا

 اور صرح محل کو بھی کہتے ہیں اس کی جمع صروح‏ ہے۔

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ولها عرش‏ کا یہ معنی ہے کہ اس کا تخت نہایت عمدہ، اچھی کاریگری کا ہے، جو بیش قیمت ہے۔

  مسلمين‏ یعنی تابعدار ہو کر۔

  ردف‏ نزدیک آ پہنچا۔

جامدة‏ اپنی جگہ پر قائم۔

أوزعني‏ مجھ کو کر دے۔

 اور مجاہد نے کہا نكروا‏ کا معنی اس کا روپ بدل ڈالو۔

وأوتينا العلم‏ یہ سلیمان علیہ السلام کا مقولہ ہے۔

صرح پانی کا ایک حوض تھا سلیمان علیہ السلام نے اسے شیشوں سے ڈھانک دیا تھا دیکھنے سے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے پانی بھرا ہوا ہے۔

سورۃ القصص کی تفسیر

كل شىء هالك إلا وجهه‏ یعنی ہر شے فنا ہونے والی ہے، سوائے اس کی ذات کے إلا وجهه‏ سے مراد ہے بجز اس کی سلطنت کے بعض لوگوں نے اس سے مراد وہ اعمال لئے  ہیں جو اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے  کئے گئے ہوں۔ ثواب کے لحاظ سے وہ بھی فنا نہ ہوں گے

مجاہد نے کہا کہ الأنباء‏ سے دلیلیں مراد ہیں۔

إِنَّكَ لاَ تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ

جس کو تم چاہو ہدایت نہیں کر سکتے ، البتہ اللہ ہدایت دیتا ہے اسے جس کے لئے  وہ ہدایت چاہتا ہے (۲۸:۵۶)

حدیث نمبر ۴۷۷۲

راوی: مسیب بن حزن

جب ابوطالب کی وفات کا وقت قریب ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے، ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ وہاں پہلے ہی سے موجود تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چچا! آپ صرف کلمہ لا إله إلا الله پڑھ دیجئیے تاکہ اس کلمہ کے ذریعہ اللہ کی بارگاہ میں آپ کی شفاعت کروں۔

اس پر ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بولے کیا تم عبدالمطلب کے مذہب سے پھر جاؤ گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باربار ان سے یہی کہتے رہے کہ آپ صرف ایک کلمہ پڑھ لیں اور یہ دونوں بھی اپنی بات ان کے سامنے باربار دہراتے رہے کہ کیا تم عبدالمطلب کے مذہب سے پھر جاؤ گے؟ آخر ابوطالب کی زبان سے جو آخری کلمہ نکلا وہ یہی تھا کہ وہ عبدالمطلب کے مذہب پر ہی قائم ہیں۔ انہوں نے لا إله إلا الله پڑھنے سے انکار کر دیا۔

 راوی نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی قسم! میں آپ کے لئے  طلب مغفرت کرتا رہوں گا تاآنکہ مجھے اس سے روک نہ دیا جائے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل ک

مَا كَانَ لِلنَّبِىِّ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَن يَسۡتَغۡفِرُواْ لِلۡمُشۡرِڪِينَ

نبی اور ایمان والوں کے لئے  یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ مشرکین کے لئے  دعائے مغفرت کریں۔(۹:۱۱۳)

اور خاص ابوطالب کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی .

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا

إِنَّكَ لَا تَہۡدِى مَنۡ أَحۡبَبۡتَ وَلَـٰكِنَّ ٱللَّهَ يَہۡدِى مَن يَشَآءُ‌ۚ

جس کو تم چاہو ہدایت نہیں کر سکتے، البتہ اللہ ہدایت دیتا ہے اسے جس کے لئے  وہ ہدایت چاہتا ہے۔(۲۸:۵۶)

 ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا أولي القوة‏ سے یہ مراد ہے کہ کئی زور دار آدمی مل کر بھی اس کی کنجیاں نہیں اٹھا سکتے تھے۔

  لتنوء‏ کا مطلب ڈھوئی جاتی تھیں۔

فارغا‏ کا معنی یہ ہے کہ موسیٰ کی ماں کے دل میں موسیٰ کے سوا اور کوئی خاص نہیں رہا تھا۔

  الفرحين‏ کا معنی خوشی سے اتراتے ہوئے۔

  قصيه‏ یعنی اس کے پیچھے پیچھے چلی جا۔

قصص کے معنی بیان کرنے کے ہوتے ہیں جیسے سورۃ یوسف میں فرمایا نحن نقص عليك

  عن جنب‏ یعنی دور سے عن جنابة کا بھی یہی معنی ہے اور عن اجتناب کا بھی یہی ہے۔

يبطش ‏‏‏‏ بہ کسرہ طاء اور يبطش‏.‏ بہ ضمہ طاء دونوں قرأت ہیں۔

يأتمرون‏ مشورہ کر رہے ہیں۔

عدوان ، عدو او ، ر تعدي سب کا ایک ہی مفہوم ہے یعنی حد سے بڑھ جانا ظلم کرنا۔

آنس‏ کا معنی دیکھنا۔

جذوة لکڑی کا موٹا ٹکڑا جس کے سر ے پر آگ لگی ہو مگر اس میں شعلہ نہ ہو اور شهاب جو آیت اواتیکم بشهاب قبس میں ہے اس سے مراد ایسی جلتی ہوئی لکڑی جس میں شعلہ ہو۔

حيات یعنی سانپوں کی مختلف قسمیں جیسے جان، افعی، اسود وغیرہ

ردءا‏ یعنی مددگار، پشت پناہ۔

اوروں نے کہا سنشد‏ کا معنی یہ ہے کہ ہم تیری مدد کریں گے عرب لوگ کا محاورہ ہے جب کسی کو قوت دیتے ہیں تو کہتے ہیں جعلت له عضدا‏۔

مقبوحين ‏‏‏‏ کا معنی ہلاک کئے گئے۔

وصلنا‏ ہم نے اس کو بیان کیا اور پورا کیا۔

  يجبى‏ کھچے آتے ہیں۔

بطرت‏ شرارت کی۔

في أمها رسولا‏ ، أم القرى مکہ اور اس کے اطراف کو کہتے ہیں۔

تكن‏ کا معنی چھپاتی ہیں۔ عرب لوگ کہتے ہیں أكننت ‏‏‏‏ یعنی میں نے اس کو چھپا لیا۔ كننته کا بھی یہی معنی ہے۔

ويكأن الله‏ کا معنی ألم تر أن الله یعنی کیا تو نے نہیں دیکھا۔

يبسط الرزق لمن يشاء ويقدر‏ یعنی اللہ جس کو چاہتا ہے فراغت سے روزی دیتا ہے جسے چاہتا ہے تنگی سے دیتا ہے۔

إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ

جس رب نے آپ پر قرآن کو فرض یعنی نازل کیا ہے ۔۔۔(۲۸:۸۵)

حدیث نمبر ۴۷۷۳

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

آیت مذکورہ بالا میں لرادك إلى معاد‏ سے مراد ہے کہ اللہ پھر آپ کو مکہ پہنچا کر رہے گا۔

سورۃ العنکبوت کی تفسیر

مجاہد رحمہ اللہ نے کہا کہ وكانوا مستبصرين‏ کا یہ معنی ہے کہ وہ گمراہ تھے اور اپنے آپ کو ہدایت پر سمجھتے تھے اوروں نے کہا کہ حیوان مراد ہے اور اس کی واحد حيي ہے۔

  فليعلمن الله‏ میں علم سے تمیز یعنی کھول کر بتا دینا مراد ہے جیسے ليميز الله الخبيث‏ میں ہے۔

أثقالا مع أثقالهم‏ کا مطلب یعنی اپنے بوجھوں کے ساتھ دوسروں کے بوجھ بھی اٹھائیں گے۔

سورۃ الروم کی تفسیر

فلا يربویعنی جو سود پر قرض دے اس کو کچھ ثواب نہیں ملے گا۔

 مجاہد نے کہا يحبرون‏ کا معنی نعمتیں دیئے جائیں گے۔

  فلا نفسهم يمهدون‏ یعنی اپنے لئے  بسترے، بچھونے بچھاتے ہیں قبر میں یا بہشت میں ۔

الودق مینہ کو کہتے ہیں۔

ابن عباس نے کہا کہ یہ آیت هل لكم مما ملكت أيمانكم‏ اللہ پاک اور بتوں کی مثال میں اتری ہے۔ یعنی تم کیا اپنے لونڈی غلاموں سے یہ خوف کرتے ہو کہ وہ تمہارے وارث بن جائیں گے جیسے تم آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہوتے ہو۔

یعنی تم کیا اپنے لونڈی غلاموں سے یہ خوف کرتے ہو کہ وہ تمہارے وارث بن جائیں گے جیسے تم آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہوتے ہو۔

يصدعون‏ کے معنی جدا جدا ہو جائیں گے۔

فاصدع‏ کا معنی حق بات کھول کر بیان کر دے

مجاہد نے کہا السوأى‏ کا معنی برائی یعنی برائی کرنے والوں کا بدلہ برا ملے گا۔

حدیث نمبر ۴۷۷۴

راوی: مسروق

 ایک شخص نے قبیلہ کندہ میں وعظ بیان کرتے ہوئے کہا کہ قیامت  کے دن ایک دھواں اٹھے گا جس سے منافقوں کے آنکھ کان بالکل بیکار ہو جائیں گے لیکن مؤمن پر اس کا اثر صرف زکام جیسا ہو گا۔ ہم اس کی بات سے بہت گھبرا گئے۔

 پھر میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہیں ان صاحب کی یہ بات سنائی وہ اس وقت ٹیک لگائے بیٹھے تھے، اسے سن کر بہت غصہ ہوئے اور سیدھے بیٹھ گئے۔ پھر فرمایا کہ اگر کسی کو کسی بات کا واقعی علم ہے تو پھر اسے بیان کرنا چاہئے لیکن اگر علم نہیں ہے تو کہہ دینا چاہئے کہ اللہ زیادہ جاننے والا ہے۔ یہ بھی علم ہی ہے کہ آدمی اپنی لاعلمی کا اقرار کر لے اور صاف کہہ دے کہ میں نہیں جانتا۔

 اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا تھا

قُلۡ مَآ أَسۡـَٔلُكُمۡ عَلَيۡهِ مِنۡ أَجۡرٍ۬ وَمَآ أَنَا۟ مِنَ ٱلۡمُتَكَلِّفِينَ

آپ کہہ دیجئیے کہ میں اپنی تبلیغ و دعوت پر تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا اور نہ میں بناوٹ کرتا ہوں۔ (۳۸:۸۶)

اصل میں واقعہ یہ ہے کہ قریش کسی طرح اسلام نہیں لاتے تھے۔ اس لئے  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں بددعا کی کہ اے اللہ! ان پر یوسف علیہ السلام کے زمانے جیسا قحط بھیج کر میری مدد کر پھر ایسا قحط پڑا کہ لوگ تباہ ہو گئے اور مردار اور ہڈیاں کھانے لگے کوئی اگر فضا میں دیکھتا تو فاقہ کی وجہ سے اسے دھویں جیسا نظر آتا۔

پھر ابوسفیان آئے اور کہا کہ اے محمد! آپ ہمیں صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں لیکن آپ کی قوم تباہ ہو رہی ہے، اللہ سے دعا کیجئے کہ ان کی یہ مصیبت دور ہو ۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی

فَٱرۡتَقِبۡ يَوۡمَ تَأۡتِى ٱلسَّمَآءُ بِدُخَانٍ۬ مُّبِينٍ۬ ... إِنَّكُمۡ عَآٮِٕدُونَ

سو تو راہ دیکھ جس دن کو لائے آسمان دھواں صریح۔ (۴۴:۱۰) ...تم پھر وہی کرتے ہو۔(۴۴:۱۵)

ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ قحط کا یہ عذاب تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے نتیجہ میں ختم ہو گیا تھا لیکن کیا آخرت کا عذاب بھی ان سے ٹل جائے گا؟

چنانچہ قحط ختم ہونے کے بعد پھر وہ کفر سے باز نہ آئے، اس کی طرف اشارہ يوم نبطش البطشة الكبرى‏ میں ہے، یہ بطش کفار پر غزوہ بدر کے موقع پر نازل ہوئی تھی کہ ان کے بڑے بڑے سردار قتل کر دیئے گئے اور لزاما قید سے اشارہ بھی معرکہ بدر ہی کی طرف ہے

الم * غلبت الروم‏ ۔۔۔ سيغلبون‏ کا واقعہ گزر چکا ہے کہ کہ روم والوں نے فارس والوں پر فتح پالی تھی ۔

لاَ تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ

بدلنا نہیں اﷲ کے بنائے کو۔(۳۰:۳۰)

خلق الله سے اللہ کا دین مراد ہے۔ آیت ان هذا الا خلق الاولین میں خلق سے دین مراد ہے اور فطرت سے اسلام مراد ہے۔

حدیث نمبر ۴۷۷۵

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ دین فطرت پر پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے ماں باپ اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسی جانور کا بچہ صحیح سالم پیدا ہوتا ہے کیا تم نے انہیں ناک کان کٹا ہوا کوئی بچہ دیکھا ہے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی

فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۚ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ۚ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ ‏

للہ کی اس فطرت کی اتباع کرو جس پر اس نے انسان کو پیدا کیا ہے، اللہ کی بنائی ہوئی فطرت میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں، یہی سیدھا دین ہے۔(۳۰:۳۰)

سورۃ لقمان کی تفسیر

لاَ تُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ

اللہ کا شریک نہ ٹھہرا ، بیشک شرک کرنا بہت بڑا ظلم ہے (۳۱:۱۳)

حدیث نمبر ۴۷۷۶

راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

جب آیت ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَلَمۡ يَلۡبِسُوٓاْ إِيمَـٰنَهُم بِظُلۡمٍ جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کے ساتھ ظلم کی آمیزش نہیں ک ی۔ (۶:۸۲) نازل ہوئی تو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم بہت گھبرائے اور کہنے لگے کہ ہم میں کون ایسا ہو گا جس نے اپنے ایمان کے ساتھ ظلم کی ملاوٹ نہیں کی ہو گی؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آیت میں ظلم سے یہ مراد نہیں ہے۔ تم نے لقمان علیہ السلام کی وہ نصیحت نہیں سنی جو انہوں نے اپنے بیٹے کو کی تھی

إِنَّ ٱلشِّرۡكَ لَظُلۡمٌ عَظِيمٌ۬

بیشک شرک کرنا بڑا بھاری ظلم ہے۔(۳۱:۱۳)

إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ

قیامت کے واقع ہونے کی تاریخ کی خبر صرف اللہ پاک ہی کو ہے (۳۱:۳۴)

حدیث نمبر ۴۷۷۷

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن لوگوں کے ساتھ تشریف رکھتے تھے کہ ایک نیا آدمی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا یا رسول اللہ! ایمان کیا ہے؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان یہ ہے کہ تم اللہ اور اس کے فرشتوں، رسولوں اور اس کی ملاقات پر ایمان لاؤ اور قیامت  کے دن پر ایمان لاؤ۔

انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ! اسلام کیا ہے؟

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام یہ ہے کہ تنہا اللہ کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرو اور فرض زکوٰۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو۔

انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ! احسان کیا ہے؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی اس طرح عبادت کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو ورنہ یہ عقیدہ لازماً رکھو کہ اگر تم اسے نہیں دیکھتے تو وہ تمہیں ضرور دیکھ رہا ہے۔

 انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ! قیامت  کب قائم ہو گی؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس سے پوچھا جا رہا ہے خود وہ سائل سے زیادہ اس کے واقع ہونے کے متعلق نہیں جانتا۔ البتہ میں تمہیں اس کی چند نشانیاں بتاتا ہوں۔

- جب عورت ایسی اولاد جنے جو اس کے آقا بن جائیں تو یہ قیامت  کی نشانی ہے،

- جب ننگے پاؤں، ننگے جسم والے لوگ لوگوں پر حاکم ہو جائیں تو یہ قیامت  کی نشانی ہے۔

- قیامت  بھی ان پانچ چیزوں میں سے ہے جسے اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا، بیشک اللہ ہی کے پاس قیامت  کا علم ہے۔ وہی مینہ برساتا ہے اور وہی جانتا ہے کہ ماں کے رحم میں کیا ہے لڑکا یا لڑکی

پھر وہ صاحب اٹھ کر چلے گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں میرے پاس واپس بلا لاؤ۔ لوگوں نے انہیں تلاش کیا تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دوبارہ لائیں لیکن ان کا کہیں پتہ نہیں تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ صاحب جبرائیل تھے انسانی صورت میں لوگوں کو دین کی باتیں سکھانے آئے تھے۔

حدیث نمبر ۴۷۷۸

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غیب کی کنجیاں پانچ ہیں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی إن الله عنده علم الساعة

- بیشک اللہ ہی کو قیامت  کا علم ہے

- اور وہی بارش نازل کرتا ہے

-  اور وہی جانتا ہے کہ مادہ کے رحم میں نر ہے یا مادہ

-  اور کوئی نفس نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا

-  اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کہاں مرے گا۔

سورۃ تنزیل السجدہ کی تفسیر

مجاہد نے کہا کہ مهين‏ کا معنی ناتواں کمزور یا حقیر مراد مرد کا نطفہ ہے۔

 ضللنا‏ کے معنی ہم تباہ ہوئے۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا جرز وہ زمین جہاں بالکل کم بارش ہوتی ہے جس سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا یا سخت اور خشک زمین

يهد‏ کے معنی ہم بیان کرتے ہیں۔

فَلَا تَعۡلَمُ نَفۡسٌ۬ مَّآ أُخۡفِىَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعۡيُنٍ۬

کسی مؤمن کو علم نہیں جو جو سامان جنت میں ان کے لئے  پوشیدہ کر کے رکھے گئے ہیں جو ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنیں گے (۳۲:۱۷)

حدیث نمبر ۴۷۷۹

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں نے اپنے صالح اور نیک بندوں کے لئے  وہ چیزیں تیار کر رکھی ہیں جنہیں کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی کے گمان و خیال میں وہ آئی ہیں۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر چاہو تو اس آیت کو پڑھ لو فَلَا تَعۡلَمُ نَفۡسٌ۬ مَّآ أُخۡفِىَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعۡيُنٍ۬ کہ سو کسی کو نہیں معلوم جو جو سامان آنکھوں کی ٹھنڈک کا ان کے لئے  جنت میں چھپا کر رکھا گیا ہے۔

 سفیان ذیلی راوی سے پوچھا گیا کہ یہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث روایت کر رہے ہیں یا اپنے اجتہاد سے فرما رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ اگر یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے؟

حدیث نمبر ۴۷۸۰

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ میں نے اپنے نیکوکار بندوں کے لئے  وہ چیزیں تیار رکھی ہیں جنہیں کسی آنکھ نے نہ دیکھا اور کسی کان نے نہ سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا کبھی گمان و خیال پیدا ہوا۔ اللہ کی ان نعمتوں سے واقفیت اور آگاہی تو الگ رہی ان کا کسی کو گمان و خیال بھی پیدا نہیں ہو ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی

فَلَا تَعۡلَمُ نَفۡسٌ۬ مَّآ أُخۡفِىَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعۡيُنٍ۬ جَزَآءَۢ بِمَا كَانُواْ يَعۡمَلُونَ

سو کسی نفس مؤمن کو معلوم نہیں جو جو سامان آنکھوں کی ٹھنڈک کا جنت میں ان کے لئے  چھپا کر رکھا گیا ہے، یہ بدلہ ہے ان کے نیک عملوں کا جو دنیا میں کرتے رہے۔(۳۲:۱۷)

سورۃ الاحزاب کی تفسیر

مجاہد نے کہا کہ صياصيهم بمعنی قصورهم ہے جس سے ان کے قلعے محل گڑھیاں مراد ہیں۔

النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  مؤمنین  کے ساتھ خود ان کے نفس سے بھی زیادہ تعلق رکھتے ہیں (۳۳:۶)

حدیث نمبر ۴۷۸۱

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی مؤمن ایسا نہیں کہ میں خود اس کے نفس سے بھی زیادہ اس سے اور آخرت میں تعلق نہ رکھتا ہوں، اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو ٱلنَّبِىُّ أَوۡلَىٰ بِٱلۡمُؤۡمِنِينَ مِنۡ أَنفُسِہِمۡ‌ۖکہ نبی مؤمنین کے ساتھ خود ان کے نفس سے بھی زیادہ تعلق رکھتے ہے۔ (۳۳:۶)

پس جو مؤمن بھی مرنے کے بعد ترکہ مال و اسباب چھوڑے اور کوئی ان کا ولی وارث نہیں ہے اس کے عزیز و اقارب جو بھی ہوں، اس کے مال کے وارث ہوں گے، لیکن اگر کسی مؤمن نے کوئی قرض چھوڑا ہے یا اولاد چھوڑی ہے تو وہ میرے پاس آ جائیں ان کا ذمہ دار میں ہوں۔

ادْعُوهُمْ لآبَائِهِمْ

ان آزاد شدہ غلاموں کو ان کے حقیقی باپوں کی طرف منسوب کیا کرو (۳۳:۵)

حدیث نمبر ۴۷۸۲

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کئے ہوئے غلام زید بن حارثہ کو ہم ہمیشہ زید بن محمد کہہ کر پکارا کرتے تھے، یہاں تک کہ قرآن کریم میں آیت نازل ہوئی ٱدۡعُوهُمۡ لِأَبَآٮِٕهِمۡ هُوَ أَقۡسَطُ عِندَ ٱللَّ کہ انہیں ان کے باپوں کی طرف منسوب کرو کہ یہی اللہ کے نزدیک سچی اور ٹھیک بات ہے۔(۳۳:۵)

فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلاً

سو ان میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی نذر پوری کر چکے اور کچھ ان میں سے وقت آنے کا انتظار کر رہے ہیں اور انہوں نے اپنے عہد میں ذرا فرق نہیں آنے دیا  (۳۳:۲۳)

نحبه کے معنی اپنا عہد اور اقرار۔

أقطارها کے معنی کناروں سے۔

 لآتوها کے معنی قبول کر لیں شریک ہو جائیں۔

حدیث نمبر ۴۷۸۳

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

 ہمارے خیال میں یہ آیت انس بن نضر کے بارے میں نازل ہوئی تھی

مِّنَ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ رِجَالٌ۬ صَدَقُواْ مَا عَـٰهَدُواْ ٱللَّهَ عَلَيۡهِ‌ۖ

اہل ایمان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ انہوں نے اللہ سے جو عہد کیا تھا اس میں وہ سچے اترے۔(۳۳:۲۳)

حدیث نمبر ۴۷۸۴

راوی: زید بن ثابت رضی اللہ عنہ

 جب ہم قرآن مجید کو مصحف کی صورت میں جمع کر رہے تھے تو مجھے سورۃ الاحزاب کی ایک آیت کہیں لکھی ہوئی نہیں مل رہی تھی۔ میں وہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن چکا تھا۔ آخر وہ مجھے خزیمہ انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس ملی جن کی شہادت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مؤمن مردوں کی شہادت کے برابر قرار دیا تھا۔ وہ آیت یہ تھی

مِّنَ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ رِجَالٌ۬ صَدَقُواْ مَا عَـٰهَدُواْ ٱللَّهَ عَلَيۡهِ‌ۖ

اہل ایمان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ انہوں نے اللہ سے جو عہد کیا تھا اس میں وہ سچے اترے۔(۳۳:۲۳)

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلاً

اے نبی ! آپ اپنی بیویوں سے فرما دیجئیے کہ اگر تم دنیوی زندگی اور اس کی زیب و زینت کا ارادہ رکھتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ دنیوی اسباب دے دلا کر خوبی کے ساتھ رخصت کر دوں (۳۳:۲۸)

معمر نے کہا کہ تبرج یہ ہے کہ عورت اپنے حسن کا مرد کے سامنے اظہار کرے۔

سنة الله سے مراد وہ طریقہ ہے جو اللہ نے اپنے لئے  مقرر کر رکھا ہے۔

حدیث نمبر ۴۷۸۵

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج کو آپ کے سامنے رہنے یا آپ سے علیحدگی کا اختیار دیں تو آپ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھی تشریف لے گئے اور فرمایا کہ میں تم سے ایک معاملہ کے متعلق کہنے آیا ہوں ضروری نہیں کہ تم اس میں جلد بازی سے کام لو، اپنے والدین سے بھی مشورہ کر سکتی ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو جانتے ہی تھے کہ میرے والد کبھی آپ سے جدائی کا مشورہ نہیں دے سکتے۔

 عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأَزْوَاجِكَ ۔۔۔ کہ اے نبی! اپنی بیویوں سے فرما دیجئیے ۔۔۔ میں نے عرض کیا، لیکن کس چیز کے لئے  مجھے اپنے والدین سے مشورہ کی ضرورت ہے، کھلی ہوئی بات ہے کہ میں اللہ، اس کے رسول اور عالم آخرت کو چاہتی ہوں۔

وَإِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الآخِرَةَ فَإِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا

اے نبی کی بیویو ! اگر تم اللہ کو ، اس کے رسول کو اور عالم آخرت کو چاہتی ہو تو اللہ نے تم میں سے نیک عمل کرنے والیوں کے لئے  بہت بڑا ثواب تیار رکھا ہے (۳۳:۲۹)

قتادہ نے کہا کہ آیت وَٱذۡڪُرۡنَ مَا يُتۡلَىٰ فِى بُيُوتِڪُنَّ مِنۡ ءَايَـٰتِ ٱللَّهِ وَٱلۡحِڪۡمَةِۚ اور تم آیات اللہ اور اس حکمت کو یاد رکھو جو تمہارے گھروں میں پڑھ کر سنائے جاتے رہتے ہیں۔ (۳۳:۳۴)

آیات اللہ سے مراد قرآن مجید اور حکمت سے مرادسنت نبوی ہے۔

حدیث نمبر ۴۷۸۶

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوا کہ اپنی ازواج کو اختیار دیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تم سے ایک معاملہ کے متعلق کہنے آیا ہوں، ضروری نہیں کہ تم جلدی کرو، اپنے والدین سے بھی مشورہ لے سکتی ہو۔ انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تو معلوم ہی تھا کہ میرے والدین آپ سے جدائی کا کبھی مشورہ نہیں دے سکتے۔

 عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ آیت جس میں یہ حکم تھی پڑھی کہ اللہ پاک کا ارشاد ہے

يَـٰٓأَيُّہَا ٱلنَّبِىُّ قُل لِّأَزۡوَٲجِكَ ... مِنكُنَّ أَجۡرًا عَظِيمً۬ا  

 اے نبی! کہہ دے اپنی عورتوں کو،اگر تم ہو چاہتی دنیا کا جینا اور یہاں کی رونق،تو آؤ کچھ فائدہ دوں تم کو اور رخصت کروں بھلی طرح سے۔

 اور اگر تم ہو چاہتیاں اﷲ کو اور اس کے رسول کو اور آخرت کے گھر کو،تو اﷲ نے رکھ چھوڑا ہے اُن کو جو تم میں نیکی پر ہیں اجر بڑا۔(۳۳:۲۸،۲۹)

 بیان کیا کہ پھر دوسری ازواج مطہرات نے بھی وہی کہا جو میں کہہ چکی تھی۔

وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَاهُ

اے نبی ! آپ اپنے دل میں وہ بات چھپاتے رہے جس کو اللہ ظاہر کرنے والا ہی تھا اور آپ لوگوں سے ڈر رہے تھے ، حالانکہ اللہ ہی اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس سے ڈرا جائے  (۳۳:۳۷)

حدیث نمبر ۴۷۸۷

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

آیت وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِاور آپ اپنے دل میں وہ چھپاتے رہے جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا۔ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہما کے معاملہ میں نازل ہوئی تھی۔

اور جن کو آپ نے الگ کر رکھا ہو ان میں سے کسی کو پھر طلب کر لیں جب بھی آپ پر کوئی گناہ نہیں (۳۳:۵۱)

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ترجئ کا معنی پیچھے ڈال دے۔ اسی سے سورۃ الاعراف کا یہ لفظ ہے أرجئه یعنی اس کو ڈھیل میں رکھو۔

حدیث نمبر ۴۷۸۸

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

جو عورتیں اپنے نفس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے  ہبہ کرنے آتی تھیں مجھے ان پر بڑی غیرت آتی تھی۔ میں کہتی کہ کیا عورت خود ہی اپنے کو کسی مرد کے لئے  پیش کر سکتی ہے؟ پھر جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی

تُرْجِئُ مَنْ تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَنْ تَشَاءُ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكَ

اے نبی ! ان ازواج مطہرات میں سے آپ جس کو چاہیں اپنے سے دور رکھیں اور جس کو چاہیں اپنے نزدیک رکھیں

تو میں نے کہا کہ میں تو سمجھتی ہوں کہ آپ کا رب آپ کی مراد بلا تاخیر پوری کر دینا چاہتا ہے۔

حدیث نمبر ۴۷۸۹

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت کے نازل ہونے کے بعد بھی تُرۡجِى مَن تَشَآءُ مِنۡہُنَّ وَتُـٔۡوِىٓ إِلَيۡكَ مَن تَشَآ ...کہ ان میں سے آپ جس کو چاہیں اپنے سے دور رکھیں اور جن کو آپ نے الگ کر رکھا تھا ان میں سے کسی کو طلب کر لیں جب بھی آپ پر کوئی گناہ نہیں۔ اگر ازواج مطہرات میں سے کسی کی باری میں کسی دوسری بیوی کے پاس جانا چاہتے تو جن کی باری ہوتی ان سے اجازت لیتے تھے

معاذہ ذیلی راوی نے بیان کیا کہ میں نے اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ ایسی صورت میں آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا کہتی تھیں؟ انہوں نے فرمایا کہ میں تو یہ عرض کر دیتی تھی کہ یا رسول اللہ! اگر یہ اجازت آپ مجھ سے لے رہے ہیں تو میں تو اپنی باری کا کسی دوسرے پر ایثار نہیں کر سکتی۔

لاَ تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلاَّ أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ ... إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللَّهِ عَظِيمًا

اے ایمان والو ! نبی کے گھروں میں مت جایا کرو ۔ سوائے اس وقت کے جب تمہیں کھانے کے لئے آنے کی اجازت دی جائے ، ایسے طور پر کہ اس کی تیاری کے منتظر نہ بیٹھے رہو ،

البتہ جب تم کو بلایا جائے تب جایا کرو ۔ پھر جب کھانا کھا چکو تو اٹھ کر چلے جایا کرو اور وہاں باتوں میں جی لگا کر مت بیٹھے رہا کرو ۔

اس بات سے نبی کو تکلیف ہوتی ہے سودہ تمہارا لحاظ کرتے ہیں اور اللہ صاف بات کہنے سے کسی کا لحاظ نہیں کرتا

اور جب تم ان رسول کی ازواج سے کوئی چیز مانگو تو ان سے پردے کے باہر سے مانگا کرو ، یہ تمہارے اور ان کے دلوں کے پاک رہنے کا عمدہ ذریعہ ہے

اور تمہیں جائز نہیں کہ تم رسول اللہ کو کسی طرح بھی تکلیف پہنچاؤ اور نہ یہ کہ آپ کے بعد آپ کی بیویوں سے کبھی بھی نکاح کرو ، بیشک یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی بات ہے (۳۳:۵۳)

إناه کا معنی کھانا تیار ہونا پکنا یہ أنى يأني أناة سے نکلا ہے۔

 لعل الساعة تكون قريبا قیاس تو یہ تھا کہ قريبة کہتے مگر قريب کا لفظ جب مؤنث کی صفت ہو تو اسے قريبة کہتے ہیں

حدیث نمبر ۴۷۹۰

راوی: عمر رضی اللہ عنہ

 میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کے پاس اچھے برے ہر طرح کے لوگ آتے ہیں، کاش آپ ازواج مطہرات کو پردہ کا حکم دے دیں۔ اس کے بعد اللہ نے پردہ کا حکم اتارا۔

حدیث نمبر ۴۷۹۱

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تو قوم کو آپ نے دعوت ولیمہ دی، کھانا کھانے کے بعد لوگ گھر کے اندر ہی بیٹھے دیر تک باتیں کرتے رہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا گویا آپ اٹھنا چاہتے ہیں تاکہ لوگ سمجھ جائیں اور اٹھ جائیں لیکن کوئی بھی نہیں اٹھا، جب آپ نے دیکھا کہ کوئی نہیں اٹھتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تو دوسرے لوگ بھی کھڑے ہو گئے، لیکن تین آدمی اب بھی بیٹھے رہ گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب باہر سے اندر جانے کے لئے  آئے تو دیکھا کہ کچھ اب بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد وہ لوگ بھی اٹھ گئے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر خبر دی کہ وہ لوگ بھی چلے گئے ہیں تو آپ اندر تشریف لائے۔

میں نے بھی چاہا کہ اندر جاؤں، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اور میرے بیچ میں دروازہ کا پردہ گرا لیا، اس کے بعد آیت مذکورہ بال نازل ہوئی يَـٰٓأَيُّہَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَدۡخُلُواْ بُيُوتَ ٱلنَّبِىِّ ... ‏ کہ اے ایمان والو! نبی کے گھروں میں مت جایا کرو۔ ۔۔

حدیث نمبر ۴۷۹۲

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

اس آیت یعنی آیت پردہ کے شان نزول کے متعلق میں سب سے زیادہ جانتا ہوں، جب زینب رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کیا اور وہ آپ کے ساتھ آپ کے گھر ہی میں تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا تیار کروایا اور قوم کو بلایا کھانے سے فارغ ہونے کے بعد لوگ بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر جاتے اور پھر اندر آتے تاکہ لوگ اٹھ جائیں لیکن لوگ بیٹھے باتیں کرتے رہے۔

اس پر یہ آیت نازل ہوئی

يَـٰٓأَيُّہَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَدۡخُلُواْ بُيُوتَ ٱلنَّبِىِّ إِلَّآ أَن يُؤۡذَنَ لَكُمۡ إِلَىٰ طَعَامٍ غَيۡرَ نَـٰظِرِينَ إِنَٮٰهُ ... فَسۡـَٔلُوهُنَّ مِن وَرَآءِ حِجَابٍ۬ۚ

اے ایمان والو! نبی کے گھروں میں مت جایا کرو۔ سوائے اس وقت کے جب تمہیں کھانے کے لئے آنے کی اجازت دی جائے۔ ایسے طور پر کہ اس کی تیاری کے منتظر نہ رہو۔۔۔

اس کے بعد پردہ ڈال دیا گیا اور لوگ کھڑے ہو گئے۔

حدیث نمبر ۴۷۹۳

راوی: انس رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح کے بعد بطور ولیمہ گوشت اور روٹی تیار کروائی اور مجھے کھانے پر لوگوں کو بلانے کے لئے  بھیجا، پھر کچھ لوگ آئے اور کھا کر واپس چلے گئے۔ پھر دوسرے لوگ آئے اور کھا کر واپس چلے، میں بلاتا رہا۔ آخر جب کوئی باقی نہیں رہا تو میں نے عرض کیا اے اللہ کے نبی! اب تو کوئی باقی نہیں رہا جس کو میں دعوت دوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب دستر خوان اٹھا لو لیکن تین اشخاص گھر میں باتیں کرتے رہے۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکل آئے اور عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ کے سامنے جا کر فرمایا السلام علیکم اہل البیت ورحمۃ اللہ۔ انہوں نے کہا وعلیک السلام ورحمۃ اللہ، اپنی اہل کو آپ نے کیسا پایا؟ اللہ برکت عطا فرمائے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح تمام ازواج مطہرات کے حجروں کے سامنے گئے اور جس طرح عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا تھا اس طرح سب سے فرمایا اور انہوں نے بھی عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرح جواب دیا۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے تو وہ تین آدمی اب بھی گھر میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ حیاء دار تھے، آپ یہ دیکھ کر کہ لوگ اب بھی بیٹھے ہوئے ہیں عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ کی طرف پھر چلے گئے، مجھے یاد نہیں کہ اس کے بعد میں نے یا کسی اور نے آپ کو جا کر خبر کی کہ اب وہ تینوں آدمی روانہ ہو چکے ہیں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اب واپس تشریف لائے اور پاؤں چوکھٹ پر رکھا۔ ابھی آپ کا ایک پاؤں اندر تھا اور ایک پاؤں باہر کہ آپ نے پردہ گرا لیا اور پردہ کی آیت نازل ہوئی۔

حدیث نمبر ۴۷۹۴

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح پر دعوت ولیمہ کی اور گوشت اور روٹی لوگوں کو کھلائی۔ پھر امہات المؤمنین کے حجروں کی طرف گئے، جیسا کہ آپ کا معمول تھا کہ نکاح کی صبح کو آپ جایا کرتے تھے، آپ انہیں سلام کرتے اور ان کے حق میں دعا کرتے اور امہات المؤمنین بھی آپ کو سلام کرتیں اور آپ کے لئے  دعا کرتیں۔

امہات المؤمنین کے حجروں سے جب آپ اپنے حجرہ میں واپس تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ دو آدمی آپس میں گفتگو کر رہے ہیں۔ جب آپ نے انہیں بیٹھے ہوئے دیکھا تو پھر آپ حجرہ سے نکل گئے۔ ان دونوں نے جب دیکھا کہ اللہ کے نبی اپنے حجرہ سے واپس چلے گئے ہیں تو بڑی جلدی جلدی وہ اٹھ کر باہر نکل گئے۔

مجھے یاد نہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے چلے جانے کی اطلاع دی یا کسی اور نے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس آئے اور گھر میں آتے ہی دروازہ کا پردہ گرا لیا اور آیت حجاب نازل ہوئی۔

حدیث نمبر ۴۷۹۵

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

ام المؤمنین سودہ رضی اللہ عنہا پردہ کا حکم نازل ہونے کے بعد قضائے حاجت کے لئے  نکلیں وہ بہت بھاری بھر کم تھیں جو انہیں جانتا تھا اس سے پوشیدہ نہیں رہ سکتی تھیں۔ راستے میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھ لیا اور کہا کہ اے سودہ! ہاں اللہ کی قسم! آپ ہم سے اپنے آپ کو نہیں چھپا سکتیں دیکھئیے تو آپ کس طرح باہر نکلی ہیں۔

بیان کیا کہ سودہ رضی اللہ عنہا الٹے پاؤں وہاں سے واپس آ گئیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت میرے حجرہ میں تشریف رکھتے تھے اور رات کا کھانا کھا رہے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں اس وقت گوشت کی ایک ہڈی تھی۔ سودہ رضی اللہ عنہا نے داخل ہوتے ہی کہا یا رسول اللہ! میں قضائے حاجت کے لئے  نکلی تھی تو عمر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے باتیں کیں،

بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول شروع ہو گیا اور تھوڑی دیر بعد یہ کیفیت ختم ہوئی، ہڈی اب بھی آپ کے ہاتھ میں تھی۔ آپ نے اسے رکھا نہیں تھا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں اللہ کی طرف سے قضائے حاجت کے لئے  باہر جانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔

إِنْ تُبْدُوا شَيْئًا أَوْ تُخْفُوهُ ... إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدًا

اے مسلمانو ! اگر تم کسی چیز کو ظاہر کرو گے یا اسے دل میں پوشیدہ رکھو گے تو اللہ ہر چیز کو خوب جانتا ہے ،

ان رسول کی بیویوں پر کوئی گناہ نہیں ، سامنے آنے میں اپنے باپوں کے اور اپنے بیٹوں کے اور اپنے بھائیوں کے اور اپنے بھانجوں کے اور اپنی دینی بہنوں عورتوں کے اور نہ اپنی باندیوں کے

ور اللہ سے ڈرتی رہو ، بیشک اللہ ہر چیز پر اپنے علم کے لحاظ سے موجود اور دیکھنے والا ہے (۳۳:۵۴،۵۵)

حدیث نمبر ۴۷۹۶

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

پردہ کا حکم نازل ہونے کے بعد ابوالقعیس کے بھائی افلح رضی اللہ عنہ نے مجھ سے ملنے کی اجازت چاہی، لیکن میں نے کہلوا دیا کہ جب تک اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت حاصل نہ لے لوں، ان سے نہیں مل سکتی۔ میں نے سوچا کہ ان کے بھائی ابوالقعیس نے مجھے تھوڑے ہی دودھ پلایا تھا، دودھ پلانے والی تو ابوالقعیس کی بیوی تھی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ابوالقعیس کے بھائی افلح رضی اللہ عنہ نے مجھ سے ملنے کی اجازت چاہی، لیکن میں نے یہ کہلوا دیا کہ جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت نہ لے لوں ان سے ملاقات نہیں کر سکتی۔

اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے چچا سے ملنے سے تم نے کیوں انکار کر دیا۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ابوالقعیس نے مجھے تھوڑا ہی دودھ پلایا تھا، دودھ پلانے والی تو ان کی بیوی تھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انہیں اندر آنے کی اجازت دے دو وہ تمہارے چچا ہیں۔

 عروہ نے بیان کیا کہ اسی وجہ سے عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی تھیں کہ رضاعت سے بھی وہ چیز یں مثلاً نکاح وغیرہ حرام ہو جاتی ہیں جو نسب کی وجہ سے حرام ہوتی ہیں۔

إِنَّ اللَّهَ وَمَلاَئِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمً

 اﷲ اور اس کے فرشتے رحمت بھیجتے ہیں رسول پر۔اے ایمان والو! رحمت بھیجو اس پر، اور سلام بھیجو سلام کہہ کر۔(۳۳:۵۶)

ابو العالیہ نے کہا لفظ صلاة کی نسبت اگر اللہ کی طرف ہو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ نبی کی فرشتوں کے سامنے ثناء و تعریف کرتا ہے اور اگر ملائکہ کی طرف ہو تو دعا رحمت اس سے مراد لی جاتی ہے۔

 ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ آیت میں يصلون بمعنی برکت کی دعا کرنے کے ہے۔

 لنغرينك ای لنسلطنك ۔ یعنی ہم تجھ کو ضرور ان پر مسلط کر دیں گے۔

حدیث نمبر ۴۷۹۷

راوی: کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ

عرض کیا گیا یا رسول اللہ! آپ پر سلام کا طریقہ تو ہمیں معلوم ہو گیا ہے، لیکن آپ پر صلاة کا کیا طریقہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یوں پڑھا کرو

اللهم صل على محمد وعلى آل محمد،‏‏‏‏ كما صليت على آل إبراهيم،‏‏‏‏ إنك حميد مجيد،

‏‏‏‏ اللهم بارك على محمد وعلى آل محمد،‏‏‏‏ كما باركت على آل إبراهيم،‏‏‏‏ إنك حميد مجيد

حدیث نمبر ۴۷۹۸

راوی: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ

ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ پر سلام بھیجنے کا طریقہ تو ہمیں معلوم ہو گیا ہے۔ لیکن صلاة درود بھیجنے کا کیا طریقہ ہے؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یوں کہا کرو :

اللهم صل على محمد عبدك ورسولك،‏‏‏‏ كما صليت على آل إبراهيم،‏‏‏‏ وبارك على محمد وعلى آل محمد كما باركت على إبراهيم

ابوصالح نے بیان کیا کہ اور ان سے لیث بن سعد نے ان الفاظ کے ساتھ ‏‏‏‏على محمد وعلى آل محمد،‏‏‏‏ كما باركت على آل إبراهيم کے الفاظ روایت کئے ہیں۔

حدیث نمبر ۴۷۹۸ ۔ b

راوی: یزید

 انہوں نے اس طرح بیان کیا :

كما صليت على إبراهيم،‏‏‏‏ وبارك على محمد وآل محمد كما باركت على إبراهيم وآل إبراهيم

 اس روایت میں ذرا لفظوں میں کمی بیشی ہے اور ان الفاظ میں بھی یہ درود پڑھنا جائز ہے معنی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

لاَ تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَى

اے مسلمانو ! تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے موسیٰ علیہ السلام کو تکلیف پہنچائی تھی (۳۳:۶۹)

حدیث نمبر ۴۷۹۹

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام بڑے باحیاء تھے، انہیں کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے:

يَ ـٰٓأَيُّہَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَكُونُواْ كَٱلَّذِينَ ءَاذَوۡاْ مُوسَىٰ فَبَرَّأَهُ ٱللَّهُ مِمَّا قَالُواْۚ وَكَانَ عِندَ ٱللَّهِ وَجِيہً۬ا  

اے ایمان والو! ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے موسیٰ علیہ السلام کو ایذا پہنچائی تھی، سو اللہ نے انہیں بَری ثابت کر دیا اور اللہ کے نزدیک وہ بڑے عزت والے تھے۔

سورۃ سبا کی تفسیر

معاجزين‏ کے معنی آگے بڑھنے والے۔ بمعجزين‏ ہمارے ہاتھ سے نکل جانے والے۔ سبقوا‏ کے معنی ہمارے ہاتھ سے نکل گئے۔ لا يعجزون‏ ہمارے ہاتھ سے نہیں نکل سکتے۔ يسبقونا‏ ہم کو عاجز کر سکیں گے۔ بمعجزين‏ عاجز کرنے والے جیسے مشہور قرأت ہے اور معاجزين‏ جو دوسری قرأت ہے اس کا معنی ایک دوسرے پر غلبہ ڈھونڈنے والے ایک دوسرے کا عجز ظاہر کرنے والے۔

 معشار‏ کا معنی دسواں حصہ۔

 لأكل پھل۔

 باعد‏ جیسے مشہور قرأت ہے اور بعد جو ابن کثیر کی قرأت ہے دونوں کا معنی ایک ہے

 اور مجاہد نے کہا لا يعزب‏ کا معنی اس سے غائب نہیں ہوتا۔

 العرم وہ بند یا ایک لال پانی تھا جس کو اللہ پاک نے بند پر بھیجا وہ پھٹ کر گر گیا اور میدان میں گڑھا پڑ گیا۔ باغ دونوں طرف سے اونچے ہو گئے پھر پانی غائب ہو گیا۔ دونوں باغ سوکھ گئے اور یہ لال پانی بند میں سے بہہ کر نہیں آیا تھا بلکہ اللہ کا عذاب تھا جہاں سے چاہا وہاں سے بھیجا اور عمرو بن شرحبیل نے کہا عرم کہتے ہیں بند کو یمن والوں کی زبان میں۔ دوسروں نے کہا کہ عرم کے معنی نالے کے ہیں۔

 السابغات کے معنی زرہیں۔

 مجاہد نے کہا۔ يجازى کے معنی عذاب دیئے جاتے ہیں۔

 أعظكم بواحدة‏ یعنی میں تم کو اللہ کی اطاعت کرنے کی نصیحت کرتا ہوں۔

 مثنى دو دو کو۔ فرادى‏ ایک ایک کو کہتے ہیں۔

 التناوش‏ آخرت سے پھر دنیا میں آنا جو ممکن نہیں ہے ۔

 ما يشتهون‏ ان کی خواہشات مال و اولاد دنیا کی زیب و زینت۔

بأشياعهم‏ ان کی جوڑ والے دوسرے کافر۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا كالجواب‏ جیسے پانی بھرنے کے گڑھے جیسے جوبته کہتے ہیں حوض کو۔

 خمط پیلو کا درخت۔

 لأثل جھاؤ کا درخت۔

العرم سخت زور کی بارش ۔

حَتَّى إِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ

یہاں تک کہ جب ان فرشتوں کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہو جاتی ہے تو وہ آپس میں پوچھنے لگتے ہیں کہ تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا ہے

وہ کہتے ہیں کہ حق اور واقعی بات کا حکم فرمایا ہے اور وہ عالیشان ہے سب سے بڑا ہے۔ (۳۴:۲۳)

حدیث نمبر ۴۸۰۰

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ آسمان پر کسی بات کا فیصلہ کرتا ہے تو فرشتے اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کو سن کر جھکتے ہوئے عاجزی کرتے ہوئے اپنے بازو پھڑپھڑاتے ہیں۔ اللہ کا فرمان انہیں اس طرح سنائی دیتا ہے جیسے صاف چکنے پتھر پر زنجیر چلانے سے آواز پیدا ہوتی ہے۔ پھر جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہو جاتی ہے تو وہ آپس میں پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ وہ کہتے ہیں کہ حق بات کا حکم فرمایا اور وہ بہت اونچا، سب سے بڑا ہے

پھر ان کی یہی گفتگو چوری چھپے سننے والے شیطان سن بھاگتے ہیں، شیطان آسمان کے نیچے یوں نیچے اوپر ہوتے ہیں ۔ پھر وہ شیاطین کوئی ایک کلمہ سن لیتے ہیں اور اپنے نیچے والے کو بتاتے ہیں۔ اس طرح وہ کلمہ ساحر یا کاہن تک پہنچتا ہے۔ کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ اس سے پہلے کہ وہ یہ کلمہ اپنے سے نیچے والے کو بتائیں آگ کا گولا انہیں آ ڈبوچتا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جب وہ بتا لیتے ہیں تو آگ کا انگارا ان پر پڑتا ہے، اس کے بعد کاہن اس میں سو جھوٹ ملا کر لوگوں سے بیان کرتا ہے ایک بات جب اس کاہن کی صحیح ہو جاتی ہے تو ان کے ماننے والوں کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ کیا اسی طرح ہم سے فلاں دن کاہن نہیں کہا تھا، اسی ایک کلمہ کی وجہ سے جو آسمان پر شیاطین نے سنا تھا کاہنوں اور ساحروں کی بات کو لوگ سچا جاننے لگتے ہیں۔

إِنْ هُوَ إِلاَّ نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ

یہ رسول تو تم کو بس ایک سخت عذاب دوزخ کے آنے سے پہلے ڈرانے والے ہیں (۳۴:۴۶)

حدیث نمبر ۴۸۰۱

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

 ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑی پر چڑھے اور پکارا یا صباحاہ! لوگو دوڑو اس آواز پر قریش جمع ہو گئے اور پوچھا کیا بات ہے؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری کیا رائے ہے اگر میں تمہیں بتاؤں کہ دشمن صبح کے وقت یا شام کے وقت تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم میری بات کی تصدیق نہیں کرو گے؟ انہوں نے کہا کہ ہم آپ کی تصدیق کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر میں تم کو سخت ترین عذاب دوزخ سے پہلے ڈرانے والا ہوں۔

 ابولہب مردود بولا تو ہلاک ہو جا، کیا تو نے اسی لئے  ہمیں بلایا تھا۔ اس پر اللہ پاک نے آیت تبت يدا أبي لهب‏ (۱۱۱) نازل فرمائی۔

سورۃ فاطر کی تفسیر

مجاہد نے کہا قطمير گیملی کا چھاح گٹھلی کا چھلکا یا پردہ ۔

 مثقلة‏ بھاری بوجھ، لدا ہوا۔

اوروں نے کہا حرور دن کی گرمی جب سورج نکلا ہو

 اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا حرور رات کی گرمی اور سموم دن کی گرمی۔

 غرابيب‏ ، غربيب کی جمع ہے بہت کالے کالے بالکل سیاہ۔

سورۃ یٰسین کی تفسیر

اور مجاہد نے کہا کہ فعززنا‏ ای شددنا‏ یعنی ہم نے زور دیا۔

 يا حسرة على العباد‏ یعنی قیامت  کے دن کافر اس پر افسوس کریں گے یا فرشتے افسوس کریں گے کہ انہوں نے دنیا میں پیغمبروں پر ٹھٹھا مارا۔

 أن تدرك القمرکا یہ مطلب ہے کہ سورج چاند کی روشنی نہیں چھپاتا اور نہ چاند سورج کی۔

 سابق النهار‏ کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک دوسرے کے پیچھے رواں دواں ہیں۔

 نسلخ‏ ہم رات میں سے دن نکال لیتے ہیں اور دونوں چل رہے ہیں۔

 وخلقنالهم من مثله سے مراد چوپائے ہیں۔

 فكهون‏ خوش و خرم یا دل لگی کر رہے ہوں گے

جند محضرون‏ یعنی حساب کے وقت حاضر کئے جائیں گے۔

 اور عکرمہ سے منقول ہے مشحون‏ کا معنی بوجھل، لدی ہوئی۔

 ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا طائركم‏ یعنی تمہاری مصیبتیں یا تمہارا نصیبہ ۔

ينسلون‏ کا معنی نکل پڑیں گے۔

 مرقدنا‏ نکلنے کی جگہ سے خوابگاہ یعنی قبر سے ۔

أحصيناه‏ ہم نے اس کو محفوظ کر لیا ہے۔

 مكانتهم اور مكانهم دونوں کا معنی ایک ہی ہے یعنی اپنے ٹھکانوں میں، گھروں میں۔

وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ

سُورج چلا جاتا ہے اپنی ٹھہری راہ (ٹھکانے) پر۔یہ نظام ہے اس زبردست با خبر کا۔(۳۶:۳۸)

حدیث نمبر ۴۸۰۲  

راوی: ابوذر رضی اللہ عنہ

 آفتاب غروب ہونے کے وقت میں مسجد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوذر! تمہیں معلوم ہے یہ آفتاب کہاں غروب ہوتا ہے؟

میں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے

وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ

حدیث نمبر ۴۸۰۲ سُورج چلا جاتا ہے اپنی ٹھہری راہ (ٹھکانے) پر۔یہ نظام ہے اس زبردست با خبر کا۔(۳۶:۳۸)

حدیث نمبر ۴۸۰۳

راوی: ابوذر رضی اللہ عنہ

 میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کے فرمان وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا اور سورج اپنے ٹھکانے کی طرف چلتا رہتا ہے۔ کے متعلق سوال کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا ٹھکانا عرش کے نیچے ہے۔

سورۃ الصافات کی تفسیر

مجاہد نے کہا سورۃ سبا میں جو ہے ويقذفون بالغيب من مكان بعيد‏ اس کا مطلب یہ ہے کہ دور ہی سے غیب کے گولے پھینکتے رہتے ہیں۔ اور يقذفون من كل جانب‏ کا مطلب یہ ہے کہ شیطانوں پر ہر طرف سے مار پڑتی ہے۔

 ولهم عذاب واصب‏ یعنی ہمیشہ کا عذاب یا سخت عذاب ۔

 تأتوننا عن اليمين‏ کا مطلب یہ ہے کہ کافر شیطانوں سے کہیں گے تم حق بات کی طرف سے ہمارے پاس آتے تھے۔

 غول‏ کا معنی پیٹ کا درد یا سر کا درد ۔

ولا هم ينزفون‏ اور نہ ان کی عقل میں فتور آئے گا۔

 قرين‏ شیطان۔

يهرعون‏ دوڑائے جاتے ہیں۔

 يزفون‏ نزدیک نزدیک پاؤں رکھ کر دوڑ رہے ہیں۔

 وبين الجنة نسبا‏ قریش کے کافر فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں اور ان کی مائیں سردار جنوں کی بیٹیوں پریوں کو قرار دیتے تھے۔

 ولقد علمت الجنة إنهم لمحضرون‏ یعنی جنوں کو معلوم ہے کہ ان کو قیامت  کے دن حساب کے لئے  حاضر ہونا پڑے گا ا

ور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا لنحن الصافون‏ یہ فرشتوں کا قول ہے۔

صراط الجحيم‏ ، سواء الجحيم دونوں کے معنی وسط الجحيم‏ کے ہیں یعنی جہنم کے بیچوں بیچ۔

 لشوبا‏ من حمیم یعنی ان کے کھانے میں گرم کھولتے ہوئے پانی کی ملونی کی جائے گی۔

 مدحورا‏ دھتکارا ہوا۔

 بيض مكنون‏ بندھے ہوئے موتی۔

وتركنا عليه في الآخرين‏ اس کا ذکر خیر پچھلے لوگوں میں باقی رکھا۔

 يستسخرون‏ ٹھٹھا کرتے ہیں۔

 بعلا‏ کے معنی رب، معبود یمن والوں کی لغت میں ۔

اسباب سے آسمان مراد ہیں۔

وَإِنَّ يُونُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ

میں بلاشبہ یونس رسولوں میں سے تھے (۳۷:۱۳۹)

حدیث نمبر ۴۸۰۴

راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی کے لئے  مناسب نہیں کہ وہ یونس بن متی علیہ السلام سے بہتر ہونے کا دعویٰ کرے۔

حدیث نمبر ۴۸۰۵

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ میں یونس بن متی علیہ السلام سے بہتر ہوں وہ جھوٹا ہے۔

سورۃ ص کی تفسیر

حدیث نمبر ۴۸۰۶

راوی: عوام بن حوشب

میں نے مجاہد سے سورۃ ص میں سجدہ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ یہ سوال ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی کیا گیا تھا تو انہوں نے اس آیت کی تلاوت کی

أُوْلَـٰٓٮِٕكَ ٱلَّذِينَ هَدَى ٱللَّهُ‌ۖ فَبِهُدَٮٰهُمُ ٱقۡتَدِهۡ‌ۗ

یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی تھی پس آپ بھی انہی کی ہدایت کی اتباع کریں۔ (۶:۹۰)

اور ابن عباس رضی اللہ عنہما اس میں سجدہ کیا کرتے تھے۔

حدیث نمبر ۴۸۰۷

راوی: راوی: عوام بن حوشب

میں نے مجاہد سے سورۃ ص میں سجدہ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا تھا کہ اس سورت میں  آیت سجدہ کے لئے  دلیل کیا ہے؟ انہوں نے کہا کیا تم سورت انعام میں یہ نہیں پڑھتے وَمِن ذُرِّيَّتِهِۦ دَاوُ ۥدَ وَسُلَيۡمَـٰنَ ( (۶:۸۴)‏ کہ اور ان کی نسل سے داؤد اور سلیمان ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے یہ ہدایت دی تھی، سو آپ بھی ان کی ہدایت کی اتباع کریں۔

داؤد علیہ السلام بھی ان میں سے تھے جن کی اتباع کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم تھا چونکہ داؤد علیہ السلام کے سجدہ کا اس میں ذکر ہے اس لئے  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس موقع پر سجدہ کی ۔

عجاب‏ کا معنی عجیب۔

 القط کہتے ہیں کاغذ کے ٹکڑے پرچے کو یہاں نیکیوں کا پرچہ مراد ہے یا حساب کا پرچہ ۔

 اور مجاہد رحمہ اللہ نے کہا في عزة‏ کا معنی یہ ہے کہ وہ شرارت و سرکشی کرنے والے ہیں۔

الملة الآخرة‏ سے مراد قریش کا دین ہے۔

 اختلاق سے مراد جھوٹ۔

 الأسباب آسمان کے راستے، دروازے مراد ہیں۔

جند ما هنالك مهزوم‏ الایۃ سے قریش کے لوگ مراد ہیں۔

أولئك الأحزاب‏ سے اگلی امتیں مراد ہیں۔ جن پر اللہ کا عذاب اترا۔

فواق‏ کا معنی پھرنا، لوٹنا۔

عجل لنا قطنا‏ میں قط سے عذاب مراد ہے۔

 اتخذناهم سخريا‏ ہم نے ان کو ٹھٹھے میں گھیر لیا تھا۔

أتراب جوڑ والے۔

 اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا أيد کا معنی عبادت کی قوت۔

الأبصار اللہ کے کاموں کو غور سے دیکھنے والے۔

حب الخير عن ذكر ربي‏ میں عن من کے معنی میں ہے۔

 طفق مسحا‏ گھوڑوں کے پاؤں اور ایال پر محبت سے ہاتھ پھیرنا شروع کیا۔ یا بقول بعض تلوار سے ان کو کاٹنے لگے۔

 الأصفاد‏ کے معنی زنجیریں۔

هَبْ لِي مُلْكًا لاَ يَنْبَغِي لأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ

میں اور مجھے ایسی سلطنت دے کہ میرے بعد کسی کو میسر نہ ہو ، بیشک تو بہت بڑا دینے والا ہے (۳۸:۳۵)

حدیث نمبر ۴۸۰۸

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گزشتہ رات ایک سرکش جِن اچانک میرے پاس آیا، یا اسی طرح کا کلمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تاکہ میری نماز خراب کرے لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر قدرت دے دی اور میں نے سوچا کہ اسے مسجد کے ستون سے باندھ دوں تاکہ صبح کے وقت تم سب لوگ بھی اسے دیکھ سکو۔ پھر مجھ کو اپنے بھائی سلیمان علیہ السلام کی دعا یاد آ گئی

قَالَ رَبِّ ٱغۡفِرۡ لِى وَهَبۡ لِى مُلۡكً۬ا لَّا يَنۢبَغِى لِأَحَدٍ۬ مِّنۢ بَعۡدِىٓ‌ۖ

اے میرے رب! مجھے ایسی سلطنت دے کہ میرے بعد کسی کو میسر نہ ہو۔ (۳۸:۳۵)

روح نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جِن کو ذلت کے ساتھ بھگا دیا۔

وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ

میں اور نہ میں تکلف کرنے والوں سے ہوں (۳۸:۸۶)

حدیث نمبر ۴۸۰۹

راوی: مسروق

ہم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے کہا اے لوگو! جس شخص کو کسی چیز کا علم ہو تو وہ اسے بیان کرے اگر علم نہ ہو تو کہے کہ اللہ ہی کو زیادہ علم ہے کیونکہ یہ بھی علم ہی ہے کہ جو چیز نہ جانتا ہو اس کے متعلق کہہ دے کہ اللہ ہی زیادہ جاننے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کہہ دیا تھا

لۡ مَآ أَسۡـَٔلُكُمۡ عَلَيۡهِ مِنۡ أَجۡرٍ۬ وَمَآ أَنَا۟ مِنَ ٱلۡمُتَكَلِّفِينَ

آپ کہہ دیجئیے کہ میں تم سے اس قرآن یا تبلیغ وحی پر کوئی اجرت نہیں چاہتا ہوں اور نہ میں بناوٹ کرنے والا ہوں۔(۳۸:۸۶)

 اور میں دخان دھوئیں کے بارے میں بتاؤں گا جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے تاخیر کی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں بددعا کی

اللهم أعني عليهم بسبع كسبع يوسف

اے اللہ! ان پر یوسف علیہ السلام کے زمانہ کی سی قحط سالی کے ذریعہ میری مدد کر۔

چنانچہ قحط پڑا اور اتنا زبردست کہ ہر چیز ختم ہو گئی اور لوگ مردار اور چمڑے کھانے پر مجبور ہو گئے۔ بھوک کی شدت کی وجہ سے یہ حال تھا کہ آسمان کی طرف دھواں ہی دھواں نظر آتا۔ اسی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا

فَٱرۡتَقِبۡ يَوۡمَ تَأۡتِى ٱلسَّمَآءُ بِدُخَانٍ۬ مُّبِينٍ۬ 

پس انتظار کرو اس دن کا جب آسمان کھلا ہوا دھواں لائے گا جو لوگوں پر چھا جائے گا یہ درد ناک عذاب ہے۔(۴۴:۱۰)

 بیان کیا کہ پھر قریش دعا کرنے لگے

ربنا اكشف عنا العذاب إنا مؤمنون * أنى لهم الذكرى وقد جاءهم رسول مبين *

اے ہمارے رب! اس عذاب کو ہم سے ہٹا لے تو ہم ایمان لائیں گے لیکن وہ نصیحت سننے والے کہاں ہیں ان کے پاس تو رسول صاف معجزات و دلائل کے ساتھ آ چکا

ثم تولوا عنه وقالوا معلم مجنون * إنا كاشفو العذاب قليلا إنكم عائدون‏

اور وہ اس سے منہ موڑ چکے ہیں اور کہہ چکے ہیں کہ اسے تو سکھایا جا رہا ہے، یہ مجنون ہے، بیشک ہم تھوڑے دنوں کے لئے ان سے عذاب ہٹا لیں گے

یقیناً تم پھر کفر ہی کی طرف لوٹ جاؤ گے کیا قیامت  میں بھی عذاب ہٹایا جائے گا۔

 ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر یہ عذاب تو ان سے دور کر دیا گیا لیکن جب وہ دوبارہ کفر میں مبتلا ہو گئے تو جنگ بدر میں اللہ نے انہیں پکڑا۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں اسی طرف اشارہ ہے

يَوۡمَ نَبۡطِشُ ٱلۡبَطۡشَةَ ٱلۡكُبۡرَىٰٓ إِنَّا مُنتَقِمُونَ

جس دن ہم سخت پکڑ کریں گے، بلاشبہ ہم بدلہ لینے والے ہیں۔(۴۴:۱۶)

سورۃ الزمر کی تفسیر میں

مجاہد نے کہا يتقي بوجهه‏ سے یہ مراد ہے کہ منہ کے بل دوزخ میں گھسیٹا جائے گا جیسے اس آیت میں فرمایا أَفَمَن يُلۡقَىٰ فِى ٱلنَّارِ خَيۡرٌ أَم مَّن يَأۡتِىٓ ءَامِنً۬ا يَوۡمَ ٱلۡقِيَـٰمَةِ‌ۚ (۴۱:۴۰)

 ذي عوج‏ کے معنی شبہ والا۔

ورجلا سلما لرجل‏ یہ ایک مثال ہے مشرکین کے معبودان باطلہ کی اور معبود برحق کی۔

ويخوفونك بالذين من دونه‏ میں من دونه‏ سے مراد بت ہیں یعنی مشرکین اپنے جھوٹے معبودوں سے تجھ کو ڈراتے ہیں ۔

خولنا کے معنی ہم نے دیا۔

  والذي جاء بالصدق‏ سے قرآن مراد ہے اور صدق‏ سے مسلمان مراد ہے جو قیامت  کے دن پروردگار کے سامنے آ کر عرض کرے گا یہی قرآن ہے جو تو نے دنیا میں مجھ کو عنایت فرمایا تھا، میں نے اس پر عمل کیا۔

  متشاكسون‏ ، شكس سے نکلا ہے شكس بدمزاج تکراری آدمی کو کہتے ہیں جو انصاف کی بات پسند نہ کرے۔

  سلما اور سالما اچھے پورے آدمی کو کہتے ہیں۔

  اشمأزت‏ کے معنی نفرت کرتے ہیں، چڑتے ہیں۔

بمفازتهم‏ ، فوز‏ سے نکلا ہے مراد کامیابی ہے۔

حافين‏ کے معنی گردا گرد اس کے چاروں طرف۔

  متشابها‏ ، اشتباه سے نہیں بلکہ تشابه سے نکلا ہے یعنی اس کی ایک آیت دوسری آیت کی تائید و تصدیق کرتی ہے۔

يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لاَ تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ

آپ کہہ دو کہ اے میرے بندو ! جو اپنے نفسوں پر زیادتیاں کر چکے ہو ، اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہو ،

بیشک اللہ سارے گناہ بخش دے گا ، بیشک وہ بہت ہی بخشنے والا اور بڑا مہربان ہے (۳۹:۵۳)

حدیث نمبر ۴۸۱۰

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

 مشرکین میں بعض نے قتل کا گناہ کیا تھا اور کثرت سے کیا تھا۔ اسی طرح زناکاری بھی کثرت سے کرتے رہے تھے۔ پھر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کیا کہ آپ جو کچھ کہتے ہیں اور جس کی طرف دعوت دیتے ہیں یعنی اسلام یقیناً اچھی چیز ہے، لیکن ہمیں یہ بتائیے کہ اب تک ہم نے جو گناہ کئے ہیں وہ اسلام لانے سے معاف ہوں گے یا نہیں؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی

وَٱلَّذِينَ لَا يَدۡعُونَ مَعَ ٱللَّهِ إِلَـٰهًا ءَاخَرَ وَلَا يَقۡتُلُونَ ٱلنَّفۡسَ ٱلَّتِى حَرَّمَ ٱللَّهُ إِلَّا بِٱلۡحَقِّ وَلَا يَزۡنُونَ‌ۚ

ور وہ لوگ جو اللہ کے سوا اور کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور کسی بھی جان کو قتل نہیں کرتے جس کا قتل کرنا اللہ نے حرام کیا ہے، ہاں مگر حق کے ساتھ (۲۵:۶۸)

 اور یہ آیت نازل ہوئی

قُلۡ يَـٰعِبَادِىَ ٱلَّذِينَ أَسۡرَفُواْ عَلَىٰٓ أَنفُسِهِمۡ ... إِنَّهُ ۥ هُوَ ٱلۡغَفُورُ ٱلرَّحِيمُ 

آپ کہہ دیں کہ اے میرے بندو! جو اپنے نفسوں پر زیادتیاں کر چکے ہو، اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہو، بیشک اللہ سارے گناہوں کو معاف کر دے گا۔

بیشک اللہ وہ بڑا ہی بخشنے والا نہایت ہی مہربان ہے۔(۳۹:۵۳)

وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ

اور ان لوگوں نے اللہ کی قدر و عظمت نہ پہچانی جیسی کہ اس کی قدر و عظمت پہچاننی چاہئے تھی  (۳۹:۶۷)

حدیث نمبر ۴۸۱۱

راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

علماء یہود میں سے ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا اے محمد! ہم تورات میں پاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں کو ایک انگلی پر رکھ لے گا اس طرح زمین کو ایک انگلی پر، درختوں کو ایک انگلی پر، پانی اور مٹی کو ایک انگلی پر اور تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر، پھر فرمائے گا کہ میں ہی بادشاہ ہوں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس پر ہنس دیئے اور آپ کے سامنے کے دانت دکھائی دینے لگے۔ آپ کا یہ ہنسنا اس یہودی عالم کی تصدیق میں تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی

وَمَا قَدَرُواْ ٱللَّهَ حَقَّ قَدۡرِهِۦ ... سُبۡحَـٰنَهُ ۥ وَتَعَـٰلَىٰ عَمَّا يُشۡرِكُونَ  

اور ان لوگوں نے اللہ کی عظمت نہ کی جیسی عظمت کرنا چاہئے تھی اور حال یہ کہ ساری زمین اسی کی مٹھی میں ہو گی قیامت  کے دن اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوں گے

، وہ ان لوگوں کے شرک سے بالکل پاک اور بلند تر ہے۔(۳۹:۶۷)

وَٱلۡأَرۡضُ جَمِيعً۬ا قَبۡضَتُهُ ۥ يَوۡمَ ٱلۡقِيَـٰمَةِ وَٱلسَّمَـٰوَٲتُ مَطۡوِيَّـٰتُۢ بِيَمِينِهِۦ‌ۚ

اور زمین ساری ایک مٹھی ہے اسکی دن قیامت کے، اور آسمان لپٹے ہیں اسکے داہنے ہاتھ میں۔(۳۹:۶۷)

حدیث نمبر ۴۸۱۲

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ قیامت  کے دن اللہ ساری زمین کو اپنی مٹھی میں لے گا اور آسمان کو اپنے داہنے ہاتھ میں لپیٹ لے گا۔ پھر فرمائے گا أنا الملك،‏‏‏‏ أين ملوك الأرض ،‏‏‏‏ آج حکومت صرف میری ہے، دنیا کے بادشاہ آج کہاں ہیں؟

وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الأَرْضِ إِلاَّ مَنْ شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرَى فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنْظُرُونَ

اور صور پھونکا جائے گا تو سب بیہوش ہو جائیں گے جو آسمانوں اور زمین میں ہیں سوا اس کے جس کو اللہ چاہے ،

پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا تو پھر اچانک سب کے سب دیکھتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوں گے (۳۹:۶۸)

حدیث نمبر ۴۸۱۳

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آخری مرتبہ صور پھونکے جانے کے بعد سب سے پہلے اپنا سر اٹھانے والا میں ہوں گا لیکن اس وقت میں موسیٰ علیہ السلام کو دیکھوں گا کہ عرش کے ساتھ لپٹے ہوئے ہیں، اب مجھے نہیں معلوم کہ وہ پہلے ہی سے اسی طرح تھے یا دوسرے صور کے بعد مجھ سے پہلے اٹھ کر عرش الٰہی کو تھام لیں گے۔

حدیث نمبر ۴۸۱۴

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دونوں صوروں کے پھونکے جانے کا درمیانی عرصہ چالیس ہے۔

 ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگردوں نے پوچھا کیا چالیس دن مراد ہیں؟ انہوں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں

پھر انہوں نے پوچھا چالیس سال؟ اس پر بھی انہوں نے انکار کیا۔

پھر انہوں نے پوچھا چالیس مہینے؟ اس کے متعلق بھی انہوں نے کہا کہ مجھ کو خبر نہیں اور ہر چیز فنا ہو جائے گی، سوا ریڑھ کی ہڈی کے کہ اسی سے ساری مخلوق دوبارہ بنائی جائے گی۔

سورۃ المؤمن

مجاہد نے کہا حم کا معنی اللہ کو معلوم ہے جیسے دوسری سورتوں میں جو حروف مقطعات شروع میں آئے ہیں ان کے متعلق حقیقی معانی صرف اللہ ہی کو معلوم ہیں۔

بعضوں نے کہا حم قرآن یا سورت کا نام ہے جیسے شریح ابن ابی اوفی عبسی اس شعر میں کہتا ہے جبکہ نیزہ جنگ میں چلنے لگا۔ پڑھتا ہے حم پہلے پڑھنا تھا۔

  الطول کے معنی احسان اور فضل کرنا۔

  داخرين‏ کے معنی ذلیل و خوار ہو کر۔

 مجاہد نے کہا ادعوکم الی النجاة سے ایمان مراد ہے۔

  ليس له دعوة‏ یعنی بت کسی کی دعا قبول نہیں کر سکتا۔

  يسجرون‏ کے معنی وہ دوزخ کے ایندھن بنیں گے۔

تمرحون‏ کے معنی تم اتراتے تھے۔

اور علاء بن زیاد مشہور تابعی و مشہور زاہد لوگوں کو دوزخ سے ڈرا رہے تھے، ایک شخص کہنے لگا لوگوں کو اللہ کی رحمت سے مایوس کیوں کرتے ہو؟

انہوں نے کہا میں لوگوں کو اللہ کی رحمت سے ناامید کیسے کر سکتا ہوں میری کیا طاقت ہے۔ اللہ پاک تو فرماتا ہے

قُلۡ يَـٰعِبَادِىَ ٱلَّذِينَ أَسۡرَفُواْ عَلَىٰٓ أَنفُسِهِمۡ لَا تَقۡنَطُواْ مِن رَّحۡمَةِ ٱللَّهِ‌ۚ

اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا گناہ کئے اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔ (۳۹:۵۳)

اس کے ساتھ اللہ یوں بھی فرماتا ہے

وَأَنَّ ٱلۡمُسۡرِفِينَ هُمۡ أَصۡحَـٰبُ ٱلنَّارِ

 زیادتی والے وہی ہیں دوزخ کے لوگ۔۴۰:۴۳

مگر میں سمجھ گیا تمہارا مطلب یہ ہے کہ برے کام کرتے رہو اور جنت کی خوشخبری تم کو ملتی جائے۔ اللہ نے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نیکیوں پر خوشخبری دینے والا اور نافرمانوں کے لئے  دوزخ سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔

حدیث نمبر ۴۸۱۵

راوی: عروہ بن زبیر نے

میں نے عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سب سے زیادہ سخت معاملہ مشرکین نے کیا کیا تھا؟

عبداللہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے قریب نماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط آیا اس نے آپ کا شانہ مبارک پکڑ کر آپ کی گردن میں اپنا کپڑا لپیٹ دیا اور اس کپڑے سے آپ کا گلا بڑی سختی کے ساتھ گھونٹنے لگا۔ اتنے میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی آ گئے اور انہوں نے اس بدبخت کا مونڈھا پکڑ کر اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا کیا اور کہا کہ کیا تم ایک ایسے شخص کو قتل کر دینا چاہتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور وہ تمہارے رب کے پاس سے اپنی سچائی کے لئے  روشن دلائل بھی ساتھ لایا ہے۔

سورۃ حم السجدۃ کی تفسیر

طاؤس نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ائتيا طوعا‏ کا معنی خوشی سے اطاعت قبول کرو۔

قالتا أتينا طائعين‏ ہم نے خوشی خوشی اطاعت قبول کی۔

  أعطينا‏ ہم نے خوشی سے دیا۔

 اور منہال بن عمرو اسدی نے سعید بن جبیر سے روایت کیا کہ ایک شخص عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہنے لگا میں تو قرآن میں ایک کے ایک خلاف چند باتیں پاتا ہوں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ بیان کر۔ وہ کہنے لگا ایک آیت میں تو یوں ہے

فَلَآ أَنسَابَ بَيۡنَهُمۡ يَوۡمَٮِٕذٍ۬ وَلَا يَتَسَآءَلُونَ  

قیامت  کے دن ان کے درمیان کوئی رشتہ ناطہٰ باقی نہیں رہے گا اور نہ وہ باہم ایک دوسرے سے کچھ پوچھیں گے۔(۲۳:۱۰۱)

 دوسری آیت میں یوں ہے

وَأَقۡبَلَ بَعۡضُہُمۡ عَلَىٰ بَعۡضٍ۬ يَتَسَآءَلُونَ 

‏ اور قیامت  کے دن ان میں بعض بعض کی طرف متوجہ ہو کر ایک دوسرے سے پوچھیں گے۔ (۵۲:۲۵)

اس طرح دونوں آیتوں کے بیان مختلف ہیں ایک آیت میں یوں ہے

وَلَا يَكۡتُمُونَ ٱللَّهَ حَدِيثً۬ا  

وہ اللہ سے کوئی بات نہیں چھپا سکیں گے   (۴:۴۲)

دوسری آیت میں ہے قیامت  کے دن مشرکین کہیں گے رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشۡرِكِينَ ہم اپنے رب اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ہم مشرک نہیں تھے۔ (۶:۲۳) اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنا مشرک ہونا چھپائیں گے  اس طرح ان دونوں آیتوں کے بیان مختلف ہیں ایک جگہ فرمایا ا

ءَأَنتُمۡ أَشَدُّ خَلۡقًا أَمِ ٱلسَّمَآءُ بَنَٮٰهَا ۔۔۔ ۔(۷۹:۲۷) اس آیت سے ظاہر ہے کہ آسمان زمین سے پہلے پیدا ہوا۔ پھر سورۃ حم سجدہ میں فرمایا أأَٮِٕنَّكُمۡ لَتَكۡفُرُونَ بِٱلَّذِى خَلَقَ ٱلۡأَرۡضَ فِى يَوۡمَيۡ (۹:۴۱) اس سے نکلتا ہے کہ زمین آسمان سے پہلے پیدا ہوئی ہے اس طرح دونوں میں اختلاف ہے اور فرمایا وَكَانَ ٱللَّهُ غَفُورً۬ا رَّحِيمً۬ا‏ (۲۵:۷۰) بخشنے والا مہربان تھا عزيزا حكيما ، سميعا بصيرا ان کے سے نکلتا ہے کہ اللہ ان صفات سے زمانہ ماضی میں موصوف تھا، اب نہیں ہے۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب میں کہا کہ یہ جو فرمایا فلا أنساب بينهم‏ اس دن کوئی رشتہ باقی نہ رہے گا یہ اس وقت کا ذکر ہے جب پہلا صور پھونکا جائے گا اور آسمان و زمین والے سب بیہوش ہو جائیں گے اس وقت رشتہ ناطہٰ کچھ باقی نہ رہے گا، نہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے دہشت کے مارے سب نفسی نفسی پکاریں گے پھر یہ جو دوسری آیت میں ہے أقبل بعضهم على بعض ایک دوسرے کے سامنے آ کر پوچھ تاچھ کریں گے، یہ دوسری دفعہ صور پھونکے جانے کے بعد کا حال ہے جب میدان محشر میں سب دوبارہ زندہ ہوں گے اور کسی قدر ہوش ٹھکانے آئے گ اور یہ جو مشرکین کا قول نقل کیا ہے ربنا ما كنا مشركين‏ ہمارے رب کی قسم ہم مشرک نہ تھے اور دوسری جگہ فرمایا ولا يكتمون الله حديثا‏ اللہ سے وہ کوئی بات نہ چھپا سکیں گے تو بات یہ ہے کہ اللہ پاک قیامت  کے دن خالص توحید والوں کے گناہ بخش دے گا اور مشرکین آپس میں صلاح و مشورہ کریں گے کہ چلو ہم بھی چل کر دربار الٰہی میں کہیں کہ ہم مشرک نہ تھے۔ پھر اللہ پاک ان کے منہ پر مہر لگا دے گا اور ان کے ہاتھ پاؤں بولنا شروع کر دیں گے۔ اس وقت ان کو معلوم ہو جائے گا کہ اللہ سے کوئی بات چھپ نہیں سکتی اور اسی وقت کافر یہ آرزو کریں گے کہ کاش وہ دنیا میں مسلمان ہوتے

اس طرح یہ دونوں آیتیں مختلف نہیں ہیں اور یہ جو فرمایا وخلق الأرض في يومين کہ زمین کو دو دن میں پیدا کیا اس کا مطلب یہ کہ اسے پھیلایا نہیں صرف اس کا مادہ پیدا کی پھر آسمان کو پیدا کیا اور دو دن میں اس کو برابر کیا ان کے طبقات مرتب کئے اس کے بعد زمین کو پھیلایا اور اس کا پھیلانا یہ ہے کہ اس میں سے پانی نکالا، گھاس چارہ پیدا کیا، پہاڑ، جانور، اونٹ وغیرہ ٹیلے جو جو ان کے بیچ میں ہیں وہ سب پیدا کئے۔ یہ سب دو دن میں کیا۔

دحاها‏ کا مطلب یہ ہے کہ زمین دو دن میں پیدا ہوئی جیسے فرمایا وخلق الأرض في يومينتو زمین مع اپنی سب چیزوں کے چار دن میں بنی اور آسمان دو دن میں بنے اس طرح یہ اعتراض رفع ہو

اب رہا یہ فرمانا کہ وكان الله غفورا رحيما‏ میں كان کا مطلب ہے کہ اللہ پاک میں یہ صفات ازل سے ہیں اور یہ اس کے نام ہیں غفور، رحیم، عزیز، حکیم، سمیع، بصیر وغیرہ کیونکہ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے وہ حاصل کر لیتا ہے حاصل یہ ہے کہ صفات سب قدیم ہیں گو ان کے تعلقات حادث ہوں جیسے سمع الله کا قدیم سے تھا مگر تعلق سمع کا اس وقت سے ہوا جب سے آوازیں پیدا ہوئیں۔ اسی طرح اور صفات میں بھی کہیں گے اب تو قرآن میں کوئی اختلاف نہیں رہا، اختلاف کیسے ہو گا۔ قرآن مجید اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ اس کے کلام میں اختلاف نہیں ہو سکتا۔

 مجاہد نے کہا ممنون‏ کا معنی حساب ہے۔

  أقواتها‏ یعنی بارش کا اندازہ مقرر کیا کہ ہر ملک میں کتنی بارش مناسب ہے۔

فی کل سمآء امرها یعنی جو حکم اور انتظام کرنا تھ وہ ہر آسمان سے متعلق فرشتوں کو بتلا دیا۔

نحسات‏ منحوس، نامبارک۔

  وقيضنا لهم قرناء‏ کا معنی ہم نے کافروں کے ساتھ شیطان کو لگا دیا۔

تتنزل عليهم الملائكة‏ یعنی موت کے وقت ان پر فرشتے اترتے ہیں۔

  اهتزت‏ یعنی سبزی سے لہلہانے لگتی ہے۔

  وربت‏ پھول جاتی ہے، ابھر آتی ہے۔

مجاہد کے سوا اوروں نے کہا من أكمامها‏ یعنی جب پھل گابھوں سے نکلتے ہیں۔

  ليقولن هذا لي‏ یعنی یہ میرا حق ہے، میرے نیک کاموں کا بدلہ ہے۔

  سواء للسائلين‏ سب مانگنے والوں کے لئے  اس کو یکساں رکھا۔

  فهديناهم‏ سے یہ مراد ہے کہ ہم نے ان کو اچھا برا دکھلایا، بتلا دیا جیسے دوسری جگہ فرمایا وهديناه النجدين‏ سورۃ البلد میں اور سورۃ الدہر میں فرمایا هديناه السبيل‏ لیکن ہدایت کا وہ معنی سیدھے اور سچے راستے پر لگا دینا، وہ واصعاد یا اسعاد کے معنی میں ہے سورۃ الانعام أولئك الذين هدى الله فبهداهم اقتده‏ میں یہی معنی مراد ہیں۔

  يوزعون‏ روکے جائیں گے۔

  من أكمامها‏ میں كم کہتے ہیں گابھا کے چھلکے کو یہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے اوروں نے کہا انگور جب نکلتے ہیں تو اس کو بھی فور اور كفرى کہتے ہیں۔

  ولي حميم‏ قریبی دوست۔

  من محيص‏ ، حاص سے نکلا ہے حاص کے معنی نکل بھاگا، الگ ہو گیا۔

  مرية‏ بکسر میم اور مرية‏ بضم میم دونوں قرأتیں ہیں دونوں کا ایک ہی معنی شک و شبہ کے ہیں

 اور مجاہد نے کہا عملوا ما شئتم‏ میں وعید ہے۔

اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ادفع التي هي أحسن‏ سے یہ مراد ہے کہ غصے کے وقت صبر کر لو اور برائی کو معاف کر دو جب لوگ ایسے اخلاق اختیار کریں گے تو اللہ ان کو ہر آفت سے بچائے رکھے گا اور ان کے دشمن بھی عاجز ہو کر ان کے دلی دوست بن جائیں گے۔

وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَنْ يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلاَ أَبْصَارُكُمْ وَلاَ جُلُودُكُمْ وَلَكِنْ ظَنَنْتُمْ أَنَّ اللَّهَ لاَ يَعْلَمُ كَثِيرًا مِمَّا تَعْمَلُونَ

اور تم اس بات سے اپنے کو چھپا ہی نہیں سکتے تھے کہ تمہارے خلاف تمہارے کان ، تمہاری آنکھیں اور تمہاری جلدیں گواہی دیں گی ،

بلکہ تمہیں تو یہ خیال تھا کہ اللہ کو بہت سی ان چیزوں کی خبر ہی نہیں ہے جنہیں تم کرتے رہے (۴۱:۲۲)

حدیث نمبر ۴۸۱۶

راوی: ابومعمر

 ان سے ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے آیت وَمَا كُنتُمۡ تَسۡتَتِرُونَ أَن يَشۡہَدَ عَلَيۡكُمۡ سَمۡعُكُمۡ ‏ اور تم اس بات سے اپنے کو چھپا نہیں سکتے تھے کہ تمہارے کان گواہی دیں گے۔۔۔ کے متعلق کہا کہ قریش کے دو آدمی اور بیوی کی طرف سے ان کے قبیلہ ثقیب کا کوئی رشتہ دار یا ثقیف کے دو افراد تھے اور بیوی کی طرف قریش کا کوئی رشتہ دار، یہ خانہ کعبہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ان میں سے بعض نے کہا کہ کیا تمہارا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری باتیں سنتا ہو گا ایک نے کہا کہ بعض باتیں سنتا ہے۔ دوسرے نے کہا کہ اگر بعض باتیں سن سکتا ہے تو سب سنتا ہو گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی

وَمَا كُنتُمۡ تَسۡتَتِرُونَ أَن يَشۡہَدَ عَلَيۡكُمۡ سَمۡعُكُمۡ وَلَآ أَبۡصَـٰرُكُمۡ وَلَا جُلُودُكُمۡ

اور تم اس بات سے اپنے کو چھپا ہی نہیں سکتے کہ تمہارے خلاف تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں گواہی دیں گی۔ ‏ (۴۱:۲۲)

وَذَلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِي ظَنَنْتُمْ بِرَبِّكُمْ أَرْدَاكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ مِنَ الْخَاسِرِينَ  

ا وریہ وہی تمہارا خیال ہے جو رکھتے تھے اپنے رب کے حق (بارے) میں،اسی نے تم کو ہلاک کیا پھر آج رہ گئے خسارہ میں۔(۴۱:۲۳)

حدیث نمبر ۴۸۱۷

راوی: عبداللہ رضی اللہ عنہ

خانہ کعبہ کے پاس دو قریشی اور ایک ثقفی یا ایک قریشی اور دو ثقفی مرد بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے پیٹ بہت موٹے تھے لیکن عقل سے کورے۔ ایک نے ان میں سے کہا، تمہارا کیا خیال ہے کیا اللہ ہماری باتوں کو سن رہا ہے؟ دوسرے نے کہا اگر ہم زور سے بولیں تو سنتا ہے لیکن آہستہ بولیں تو نہیں سنتا۔ تیسرے نے کہا اگر اللہ زور سے بولنے پر سن سکتا ہے تو آہستہ بولنے پہ بھی ضرور سنتا ہو گا۔ اس پر یہ آیت اتری

وَمَا كُنتُمۡ تَسۡتَتِرُونَ أَن يَشۡہَدَ عَلَيۡكُمۡ سَمۡعُكُمۡ وَلَآ أَبۡصَـٰرُكُمۡ وَلَا جُلُودُكُمۡ

اور تم اس بات سے اپنے کو چھپا ہی نہیں سکتے کہ تمہارے خلاف تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں گواہی دیں گی۔ ‏ (۴۱:۲۲)

فَإِنْ يَصْبِرُوا فَالنَّارُ مَثْوًى لَهُمْ

پس یہ لوگ اگر صبر ہی کریں تب بھی دوزخ ہی ان کا ٹھکانا ہے (۴۱:۲۴)

حدیث نمبر ۴۸۱۷ ۔ b

راوی: ابومعمر

ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے پہلی حدیث کی طرح بیان کیا۔

سورۃ حم عسق کی تفسیر

ابن عباس رضی اللہ عنہما سے عقيما‏ کے معنی بانجھ منقول ہیں۔ روحا من أمرنا‏ میں روح سے قرآن مجید مراد ہے۔

 اور مجاہد نے کہا يذرؤكم فيه‏ کا مطلب یہ ہے ایک نسل کے بعد دوسری نسل پھیلاتا رہے گا۔

  لا حجة بيننا‏ یعنی اب ہم میں اور تم میں کوئی جھگڑا نہیں رہا۔

طرف خفي‏ کمزور کی نگاہ سے، دزدیدہ نظر سے۔

 اوروں نے کہا فيظللن رواكد على ظهره‏ کا مطلب یہ ہے کہ اپنے مقام پر موجوں کے تھپیڑوں سے ہلتی رہیں نہ آگے بڑھیں نہ پیچھے ہٹیں۔

  شرعوا‏ نیا دین نکالا۔

إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى

قرابتداری کی محبت کے سوا میں تم سے اور کچھ نہیں چاہتا  (۴۲:۲۳)

حدیث نمبر ۴۸۱۸

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

اللہ تعالیٰ کے ارشاد إلا المودة في القربى‏ سوا رشتہ داری کی محبت کے متعلق پوچھا گیا تو سعید بن جبیر نے فرمایا کہ آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابتداری مراد ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس پر کہا کہ تم نے جلد بازی کی۔ قریش کی کوئی شاخ ایسی نہیں جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت داری نہ ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تم سے صرف یہ چاہتا ہوں کہ تم اس قرابت داری کی وجہ سے صلہ رحمی کا معاملہ کرو جو میرے اور تمہارے درمیان میں موجود ہے۔

سورۃ زخرف کی تفسیر

مجاہد نے کہا کہ على أمة‏ کے معنی ایک امام پر یا ایک ملت پر یا ایک دین پر۔

  وقيله يا رب‏ کا معنی ہے کیا کافر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کی آہستہ باتیں اور ان کی کانا پھوسی اور ان کی گفتگو نہیں سنتے یہ تفسیر اس قرأت پر ہے جب وقیله بہ نصب لام پڑھا جائے۔ اس حالت میں وسرهم ونجواهم پر عطف ہو گا اور مشہور قرأت وقیله بہ کسر لام ہے۔ اس صورت میں یہ الساعة پر عطف ہو گا یعنی اللہ تعالیٰ ان کی گفتگو بھی جانتا ہے اور سنتا ہے ۔

 اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ولولا أن يكون الناس أمة واحدة‏ کا مطلب یہ ہے اگر یہ بات نہ ہوتی کہ سب لوگوں کو کافر ہی بنا ڈالتا تو میں کافروں کے گھروں میں چاندی کی چھتیں اور چاندی کی سیڑھیاں کر دیتا۔

معارج کے معنی سیڑھیاں، تخت وغیرہ۔

مقرنين‏ زور والے۔

  آسفونا‏ ہم کو غصہ دلایا۔

يعش‏ اندھا بن جائے۔

 مجاہد نے کہا أفنضرب عنكم الذكر‏ کا مطلب یہ ہے کہ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تم قرآن کو جھٹلاتے رہو گے اور ہم تم پر عذاب نہیں اتاریں گے تم کو ضرور عذاب ہو گ ۔

ومضى مثل الأولين‏ اگلوں کے قصے کہانیاں چل پڑیں۔

  وما کنا له مقرنين‏ یعنی اونٹ گھوڑے، خچر اور گدھوں پر ہمارا زور اور قابو نہ چل سکتا تھا۔

ينشأ في الحلية‏ سے بیٹیاں مراد ہیں، یعنی تم نے بیٹی ذات کو اللہ کی اولاد ٹھہرایا، واہ واہ کیا اچھا حکم لگاتے ہو۔

  لو شاء الرحمن ما عبدناهم‏ میں هم‏ کی ضمیر بتوں کی طرف پھرتی ہے کیونکہ آگے فرمایا ما لهم بذلك من علم‏ یعنی بتوں کو جن کو یہ پوجتے ہیں کچھ بھی علم نہیں ہے وہ تو بالکل بے جان ہیں

  في عقبه‏ اس کی اولاد میں۔

  مقترنين‏ ساتھ ساتھ چلتے ہوئے۔

سلفا‏ سے مراد فرعون کی قوم ہے۔ وہ لوگ جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں کافر ہیں ان کے پیشوا یعنی اگلے لوگ تھے۔

ومثلا‏ للاخرین یعنی پچھلوں کی عبرت اور مثال۔

يصدون‏ چلانے لگے، شور و غل کرنے لگے۔

مبرمون‏ ٹھاننے والے، قرار دینے والے۔

  أول العابدين سب سے پہلے ایمان لانے والا۔

  إنني براء مما تعبدون‏ عرب لوگ کہتے ہیں ہم تم سے براء ہیں ہم تم سے خلاء ہیں یعنی بیزار ہیں، الگ ہیں، کچھ غرض واسطہ تم سے نہیں رکھتے۔ واحد، تثنیہ، جمع، مذکر و مؤنث سب میں براء کا لفظ بولا جاتا ہے کیونکہ بريء مصدر ہے۔ اور اگر بريء پڑھا جائے جیسے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت ہے تب تو تثنیہ میں بريئان اور جمع میں بريئون‏ کہنا چاہئے۔ الزخرف کے معنی سونا۔ ملائكة يخلفون یعنی فرشتے جو ایک کے پیچھے ایک آتے رہتے ہیں۔

وَنَادَوْا يَا مَالِكُ لِيَقْضِ عَلَيْنَا رَبُّكَ

جہنمی کہیں گے اے داروغہ جہنم ! تمہارا رب ہمیں موت دیدے ، وہ کہے گا تم اسی حال میں پڑے رہو (۴۳:۷۷)

حدیث نمبر ۴۸۱۹

راوی: صفوان بن یعلیٰ

 ان کے والد نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر یہ آیت پڑھتے سنا ونادوا يا مالك ليقض علينا ربك‏ اور یہ لوگ پکاریں گے کہ اے مالک! تمہارا پروردگار ہمارا کام ہی تمام کر دے۔

 اور قتادہ نے کہا مثلا للآخرين یعنی پچھلوں کے لئے  نصیحت۔

 دوسرے نے کہا مقرنين‏ کا معنی قابو میں رکھنے والے۔ عرب لوگ کہتے ہیں فلانا فلانے کا مقرن ہے یعنی اس پر اختیار رکھتا ہے اس کو قابو میں لایا ہے ۔

أكواب وہ کوزے جن میں ٹونٹی نہ ہو بلکہ منہ کھلا ہوا ہو جہاں سے آدمی چاہے پیئے۔

  ان کان للرحمن ولد کا معنی یہ ہے کہ اس کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ اس صورت میں ان نافيه ہے

عابدين سے آنفين مراد ہے۔ یعنی سب سے پہلے میں اس سے عار کرتا ہوں۔

أول العابدين کے معنی سب سے پہلا انکار کرنے والا یعنی اگر خدا کی اولاد ثابت کرتے ہو تو میں اس کا سب سے پہلا انکاری ہوں

 اور قتادہ نے کہا في أم الكتاب‏ کا معنی یہ ہے کہ مجموعی کتاب اور اصل کتاب یعنی لوح محفوظ میں ۔

أَفَنَضۡرِبُ عَنكُمُ ٱلذِّڪۡرَ صَفۡحًا أَن ڪُنتُمۡ قَوۡمً۬ا مُّسۡرِفِينَ

کیا پھیر (چھوڑ) دیں گے ہم تمہاری طرف (بھیجیں) سے یہ سمجھوتی موڑ کر،اس سے کہ تم ہو لوگ جو حد پر نہیں رہتے۔(۴۳:۵)

مُّسۡرِفِينَسے مراد مشرکین ہیں۔ واللہ اگر یہ قرآن اٹھا لیا جاتا جب کہ ابتداء میں قریش نے اسے رد کر دیا تھا تو سب ہلاک ہو جاتے۔

  فَأَهۡلَكۡنَآ أَشَدَّ مِنۡہُم بَطۡشً۬ا وَمَضَىٰ مَثَلُ ٱلۡأَوَّلِينَ‏ (۴۳:۸) میں مثل سے عذاب مراد ہے۔

  جزءا‏ بمعنی عدلا‏ یعنی شریک۔

سورۃ الدخان کی تفسیر

مجاہد نے کہا رهوا‏ کا معنی راستہ۔

  على العالمين‏ سے مراد ان کے زمانے کے لوگ ہیں۔

  فاعتلوه‏ کے معنی ان کو دھکیل دو۔

وزوجناهم بحور‏ کا مطلب ہم نے بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں سے ان کا جوڑا ملا دیا جن کا جمال دیکھنے سے آنکھوں کو حیرت ہوتی ہے۔

  ترجمون‏ مجھ کو قتل کرو۔

  رهوا تھما ہوا۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا كالمهل‏ یعنی کالا تلچھٹ کی طرح۔

 اوروں نے کہا تبع‏ سے یمن کے بادشاہ مراد ہیں۔ ان کو تبع‏ اس لئے  کہا جاتا تھا کہ ایک کے بعد ایک بادشاہ ہوتا اور سایہ کو بھی تبع‏ کہتے ہیں کیونکہ وہ سورج کے ساتھ رہتا ہے۔

يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ

پس آپ انتظار کریں اس دن کا جب آسمان کی طرف ایک نظر آنے والا دھواں پیدا ہو (۴۴:۱۰)

قتادہ نے فرمایا کہ فارتقب ای فانتظر یعنی انتظار کیجئے۔

حدیث نمبر ۴۸۲۰

راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

قیامت  کی پانچ علامتیں گزر چکی ہیں

-   الدخان دھواں،

-   الروم غلبہ روم،

-   القمر چاند کا ٹکڑے ہونا،

-   والبطشة پکڑ اور

- واللزام‏ ہلاکت اور قید۔

يَغْشَى النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ

یعنی ان سب لوگوں پر چھا جائے گا ، یہ ایک عذاب درد ناک ہو گا (۴۴:۱۱)

حدیث نمبر ۴۸۲۱

راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

یہ قحط اس لئے  پڑا تھا کہ قریش جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول کرنے کی بجائے شرک پر جمے رہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے  ایسے قحط کی بددعا کی جیسا یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں پڑا تھا۔ چنانچہ قحط کی نوبت یہاں تک پہنچی کہ لوگ ہڈیاں تک کھانے لگے۔ لوگ آسمان کی طرف نظر اٹھاتے لیکن بھوک اور فاقہ کی شدت کی وجہ سے دھویں کے سوا اور کچھ نظر نہ آتا اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی

فَٱرۡتَقِبۡ يَوۡمَ تَأۡتِى ٱلسَّمَآءُ بِدُخَانٍ۬ مُّبِينٍ۬ ... هَـٰذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ۬ 

تو آپ انتظار کریں اس روز کا جب آسمان کی طرف نظر آنے والا دھواں پیدا ہو جو لوگوں پر چھا جائے، یہ ایک درد ناک عذاب ہو گا۔

بیان کیا کہ پھر ایک صاحب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ! قبیلہ مضر کے لئے  بارش کی دعا کیجئے کہ وہ برباد ہو چکے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مضر کے حق میں دعا کرنے کے لئے  کہتے ہو، تم بڑے جری ہو۔ آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے  دعا فرمائی اور بارش ہوئی۔ اس پر آیت إنكم عائدون‏ نازل ہوئی یعنی اگرچہ تم نے ایمان کا وعدہ کیا ہے لیکن تم کفر کی طرف پھر لوٹ جاؤ گے

چنانچہ جب پھر ان میں خوشحالی ہوئی تو شرک کی طرف لوٹ گئے اور اپنے ایمان کے وعدے کو بھلا دی اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی

يَوۡمَ نَبۡطِشُ ٱلۡبَطۡشَةَ ٱلۡكُبۡرَىٰٓ إِنَّا مُنتَقِمُونَ

جس روز ہم بڑی سخت پکڑ پکڑیں گے اس روز ہم پورا بدلہ لے لیں گے۔

اس آیت سے مراد بدر کی لڑائی ہے۔

رَّبَّنَا ٱكۡشِفۡ عَنَّا ٱلۡعَذَابَ إِنَّا مُؤۡمِنُونَ

اے رب کھول (ٹال) دے ہم سے یہ آفت، ہم یقین لاتے ہیں۔(۴۴:۱۲)

حدیث نمبر ۴۸۲۲

راوی: مسروق

میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بھی علم ہی ہے کہ تمہیں اگر کوئی بات معلوم نہیں ہے تو اس کے متعلق یوں کہہ دو کہ اللہ ہی زیادہ جاننے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ آپ اپنی قوم سے کہہ دیں کہ میں تم سے کسی اجرت کا طالب نہیں ہوں اور نہ میں بناوٹی باتیں کرتا ہوں جب قریش آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچانے اور آپ کے ساتھ معاندانہ روش میں برابر بڑھتے ہی رہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے  بددعا کی کہ اے اللہ! ان کے خلاف میری مدد ایسے قحط کے ذریعہ کر جیسا کہ یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں پڑا تھا۔ چنانچہ قحط پڑا اور بھوک کی شدت کا یہ حال ہوا کہ لوگ ہڈیاں اور مردار کھانے لگ گئے۔ لوگ آسمان کی طرف دیکھتے تھے لیکن فاقہ کی وجہ سے دھویں کے سوا اور کچھ نظر نہ آتا۔

آخر انہوں نے کہا کہ اے ہمارے پروردگار! ہم سے اس عذاب کو دور کر، ہم ضرور ایمان لے آئیں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان سے کہہ دیا تھا کہ اگر ہم نے یہ عذاب دور کر دیا تو پھر بھی تم اپنی پہلی حالت پر لوٹ آؤ گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں دعا کی اور یہ عذاب ان سے ہٹ گیا لیکن وہ پھر بھی کفر و شرک پر ہی جمے رہے، اس کا بدلہ اللہ تعالیٰ نے بدر کی لڑائی میں لیا۔ یہی واقعہ آیت يَوۡمَ تَأۡتِى ٱلسَّمَآءُ بِدُخَانٍ۬ مُّبِينٍ۬ ۔۔۔ میں بیان ہوا ہے۔

أَنَّى لَهُمُ الذِّكْرَى وَقَدْ جَاءَهُمْ رَسُولٌ مُبِينٌ

ان کو کب اس سے نصیحت ہوتی ہے حالانکہ ان کے پاس پیغمبر کھلے ہوئے دلائل کے ساتھ آ چکا ہے (۴۴:۱۳)

الذكر ، الذكرى دونوں کے ایک ہی معنی ہیں۔

حدیث نمبر ۴۸۲۳

راوی: مسروق

 میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے فرمایا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلایا اور آپ کے ساتھ سرکشی کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے  بددعا کی کہ اے اللہ! میری ان کے خلاف یوسف علیہ السلام جیسے قحط کے ذریعہ مدد فرما۔ چنانچہ قحط پڑا اور ہر چیز ختم ہو گئی۔ لوگ مردار کھانے لگے۔ کوئی شخص کھڑا ہو کر آسمان کی طرف دیکھتا تو بھوک اور فاقہ کی وجہ سے آسمان اور اس کے درمیان دھواں ہی دھواں نظر آتا۔ پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت شروع کی

فَٱرۡتَقِبۡ يَوۡمَ تَأۡتِى ٱلسَّمَآءُ بِدُخَانٍ۬ مُّبِينٍ۬ ... هَـٰذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ۬ 

تو آپ انتظار کریں اس روز کا جب آسمان کی طرف نظر آنے والا دھواں پیدا ہو جو لوگوں پر چھا جائے، یہ ایک درد ناک عذاب ہو گا۔

بیشک ہم چندے اس عذاب کو ہٹا لیں گے اور تم بھی اپنی پہلی حالت پر لوٹ آؤ گے۔

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا قیامت  کے عذاب سے بھی وہ بچ سکیں گے؟ فرمایا کہ سخت پکڑ بدر کی لڑائی میں ہوئی تھی۔

ثُمَّ تَوَلَّوۡاْ عَنۡهُ وَقَالُواْ مُعَلَّمٌ۬ مَّجۡنُونٌ

پھر اس سے پیٹھ پھیری، اور کہنے لگے سکھایا ہے باؤلا۔(۴۴:۱۴)

حدیث نمبر ۴۸۲۴

راوی: مسروق

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

قُلۡ مَآ أَسۡـَٔلُكُمۡ عَلَيۡهِ مِنۡ أَجۡرٍ۬ وَمَآ أَنَا۟ مِنَ ٱلۡمُتَكَلِّفِينَ 

پھر جب آپ نے دیکھا کہ قریش عناد سے باز نہیں آتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے  بددعا کی کہ اے اللہ! ان کے خلاف میری مدد ایسے قحط سے کر جیسا یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں پڑا تھا۔ پھر قحط پڑا اور پر چیز ختم ہو گئی۔ لوگ ہڈیاں اور چمڑے کھانے پر مجبور ہو گئے ا۔ آخر ابوسفیان آئے اور کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کی قوم ہلاک ہو چکی، اللہ سے دعا کیجئے کہ ان سے قحط کو دور کر دے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی اور قحط ختم ہو گیا۔ لیکن اس کے بعد وہ پھر کفر کی طرف لوٹ گئے۔

منصور ذیلی راوی  کی روایت میں ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين۔۔۔ عائدون‏ تو آپ اس روز کا انتظار کریں جب آسمان کی طرف ایک نظر آنے والا دھواں پیدا ہو۔ ‏۔۔ کیا آخرت کا عذاب بھی ان سے دور ہو سکے گا؟

دھواں اور سخت پکڑ اور ہلاکت گزر چکے۔ بعض نے چاند اور بعض نے غلبہ روم کا بھی ذکر کیا ہے کہ یہ بھی گزر چکا ہے۔

يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَى إِنَّا مُنْتَقِمُونَ

اس دن کو یاد کرو جب کہ ہم بڑی سخت پکڑ پکڑ یں گے ، ہم بلا شک اس دن پورا پورا بدلہ لیں گے (۴۴:۱۶)

حدیث نمبر ۴۸۲۵

راوی: عبداللہ رضی اللہ عنہ

 پانچ قرآن مجید کی پیشیں گوئیاں گزر چکی ہیں۔

- اللزام بدر کی لڑائی کی ہلاکت ، -

- الروم غلبہ روم

- البطشة سخت پکڑ ،

-   القمر چاند کے ٹکڑے ہون اور

- الدخان‏ دھواں، شدت فاقہ کی وجہ سے۔دھواں، شدت فاقہ کی وجہ سے۔

سورۃ الجاثیہ کی تفسیر

جاثية‏ یعنی خوف کی وجہ سے اہل محشر دو زانو ہوں گے۔

 مجاہد نے کہا کہ نستنسخ‏ بمعنی نكتب ہے یعنی ہم لکھ لیتے ہیں۔

  ننساكم ای نترككم ‏‏‏‏ ہم تم کو بھلا دیں گے یعنی چھوڑ دیں گے۔

وَمَا يُهْلِكُنَا إِلاَّ الدَّهْرُ

اور ہم کو تو صرف زمانہ ہی ہلاک کرتا ہے

حدیث نمبر ۴۸۲۶

راوی: سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابن آدم مجھے تکلیف پہنچاتا ہے وہ زمانہ کو گالی دیتا ہے حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں، میرے ہی ہاتھ میں سب کچھ ہے۔ میں رات اور دن کو ادلتا بدلتا رہتا ہوں۔

سورۃ الاحقاف کی تفسیر

مجاہد نے کہا تفيضون‏ کا معنی جو تم زبان سے نکالتے ہو، کہتے ہو۔

 بعضوں نے کہا أثرة اور أثرة بضم ھمزہ اور أثارة تینوں قرأت ہیں ان کا معنی باقی ماندہ علم ہے۔ حدیث پر اسی سے أثر کا لفظ بولا گیا ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا باقی ماندہ علم ہے

اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا بدعا من الرسل‏ کا یہ معنی ہے کہ میں ہی کچھ پہلا پیغمبر دنیا میں نہیں آیا۔ ا

اوروں نے کہا أرأيتم‏ الاحقاف ۴ میں ہمزہ زجر وتوبیخ کے لئے  ہے۔ یعنی اگر تمہارا دعویٰ صحیح ہو تو یہ چیزیں جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو بتاؤ انہوں نے کچھ پیدا کیا ہے؟

  احقاف قوم عاد کی زمین کا نام تھا جہاں ہود علیہ السلام مبعوث ہوئے۔ احقاف ، حقف کی جمع ہے۔ مطلق ریت کے پہاڑ کو کہتے ہیں۔ اس قوم پر بادل کے ساتھ تیز ہوا کا عذاب آیا تھا جس سے سب ہلاک ہو گئے۔

وَالَّذِي قَالَ لِوَالِدَيْهِ أُفٍّ لَكُمَا أَتَعِدَانِنِي ... فَيَقُولُ مَا هَذَا إِلاَّ أَسَاطِيرُ الأَوَّلِينَ

اور جس شخص نے اپنے ماں باپ سے کہا کہ افسوس ہے تم پر ، کیا تم مجھے یہ خبر دیتے ہو کہ میں قبر سے پھر دوبارہ نکالا جاؤں گا ، مجھ سے پہلے بہت سی امتیں گزر چکی ہیں

اور وہ دونوں والدین اللہ سے فریاد کر رہے ہیں اور اس اولاد سے کہہ رہے ہیں ارے تیری کم بختی تو ایمان لا بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے ۔

تو اس پر وہ کہتا کیا ہے کہ یہ بس اگلوں کے ڈھکوسلے ہیں (۴۶:۱۷)

حدیث نمبر ۴۸۲۷

راوی: یوسف بن ماہک

مروان کو معاویہ رضی اللہ عنہ نے حجاز کا امیر گورنر بنایا تھا۔ اس نے ایک موقع پر خطبہ دیا اور خطبہ میں یزید بن معاویہ کا باربار ذکر کیا، تاکہ اس کے والد معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد اس سے لوگ بیعت کریں۔ اس پر عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما نے اعتراضاً کچھ فرمایا۔ مروان نے کہا اسے پکڑ لو۔ عبدالرحمٰن اپنی بہن عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں چلے گئے تو وہ لوگ پکڑ نہیں سکے۔

اس پر مروان بولا کہ اسی شخص کے بارے میں قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی تھی وَالَّذِي قَالَ لِوَالِدَيْهِ أُفٍّ لَكُمَا أَتَعِدَانِنِي ‏ کہ اور جس شخص نے اپنے ماں باپ سے کہا کہ تف ہے تم پر کیا تم مجھے خبر دیتے ہو۔(۴۶:۱۷)

اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ہمارے آل ابی بکر کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے کوئی آیت نازل نہیں کی بلکہ تہمت سے میری برأت  ضرور نازل کی تھی۔

فَلَمَّا رَأَوْهُ عَارِضًا مُسْتَقْبِلَ أَوْدِيَتِهِمْ قَالُوا هَذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا بَلْ هُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُمْ بِهِ رِيحٌ فِيهَا عَذَابٌ أَلِيمٌ

پھر جب ان لوگوں نے بادل کو اپنی وادیوں کے اوپر آتے دیکھا تو بولے کہ واہ یہ تو بادل ہے جو ہم پر برسے گا ،

نہیں بلکہ یہ تو وہ ہے جس کی تم جلدی مچایا کرتے تھے ، یعنی ایک آندھی جس میں درد ناک عذاب ہے (۴۶:۲۴)

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا عارض بمعنی بادل ہے۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا عارض بمعنی بادل ہے۔

حدیث نمبر ۴۸۲۸

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

 میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی اس طرح ہنستے نہیں دیکھا کہ آپ کے حلق کا کوا نظر آ جائے بلکہ آپ تبسم فرمایا کرتے تھے، بیان کیا کہ جب بھی آپ بادل یا ہوا دیکھتے تو گھبراہٹ اور اللہ کا خوف آپ کے چہرہ مبارک سے پہچان لیا جاتا۔

حدیث نمبر ۴۸۲۹

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! جب لوگ بادل دیکھتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں کہ اس سے بارش برسے گی لیکن اس کے برخلاف آپ کو میں دیکھتی ہوں کہ آپ بادل دیکھتے ہیں تو ناگواری کا اثر آپ کے چہرہ پر نمایاں ہو جاتا ہے۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عائشہ! کیا ضمانت ہے کہ اس میں عذاب نہ ہو۔ ایک قوم عاد پر ہوا کا عذاب آیا تھا۔ انہوں نے جب عذاب دیکھا تو بولے کہ یہ تو بادل ہے جو ہم پر برسے گا۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عائشہ! کیا ضمانت ہے کہ اس میں عذاب نہ ہو۔ ایک قوم عاد پر ہوا کا عذاب آیا تھا۔ انہوں نے جب عذاب دیکھا تو بولے کہ یہ تو بادل ہے جو ہم پر برسے گا۔

سورۃ محمد کی تفسیر

أوزارها‏ اپنے گناہ دھر دیئے یہاں تک کہ مسلمان کے سوا کوئی باقی نہ رہے اکثر لوگوں نے أوزارها‏ کے معنی ہتھیاروں کے کئے ہیں ۔

عرفها‏ اس کو بیان کر دے گا، بتلا دے گا۔ ہر ایک بہشتی اپنا گھر پہچان لے گا ۔

 مجاہد نے کہا مولى الذين آمنوا‏ اس مولى سے ولی یعنی کارساز مراد ہے۔

  عزم الأمر‏ جب لڑائی کا ارادہ پکا ہو جائے۔

فلا تهنوا‏ سستی نہ کرو

اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا أضغانهم‏ کے معنی ان کا حسد کینہ۔

آسن‏ سڑا ہوا پانی جس کا رنگ یا بو یا مزہ بدل جائے۔

وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ

تم ناطہٰ رشتہ توڑ ڈالو گے (۴۷:۲۲)

حدیث نمبر ۴۸۳۰

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق پیدا کی، جب وہ اس کی پیدائش سے فارغ ہوا تو رحم نے کھڑے ہو کر رحم کرنے والے اللہ کے دامن میں پناہ لی۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے فرمایا کیا تجھے یہ پسند نہیں کہ جو تجھ کو جوڑے میں بھی اسے جوڑوں اور جو تجھے توڑے میں بھی اسے توڑ دوں۔ رحم نے عرض کیا، ہاں اے میرے رب! اللہ تعالیٰ نے فرمایا، پھر ایسا ہی ہو گا۔

 ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو

فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِن تَوَلَّيْتُمْ أَن تُفْسِدُواْ فِى ٱلْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوٓاْ أَرْحَامَكُمْ

اگر تم کنارہ کش رہو تو آیا تم کو یہ احتمال بھی ہے کہ تم لوگ دین میں فساد مچا دو گے اور آپس میں قطع تعلق کر لو گے۔(۴۷:۲۲)

حدیث نمبر ۴۸۳۱

راوی: ابوالحباب سعید بن یسار

 ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے سابقہ حدیث کی طرح بیان کیا ۔

پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تمہارا جی چاہے تو آیت فَهَلْ عَسَيْتُمْ اگر تم کنارہ کش رہو پڑھ لو۔

حدیث نمبر ۴۸۳۲

راوی: معاویہ بن مزرد

سابقہ حدیث کی طرح اور یہ کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر تمہارا جی چاہے تو آیت اگر تم کنارہ کش رہو پڑھ لو۔

سورۃ الفتح کی تفسیر

مجاہد نے کہا بورا کے معنی ہلاک ہونے والوں کے ہیں۔

 مجاہد نے یہ بھی کہا کہ سيماهم في وجوههم‏ کا مطلب یہ ہے کہ ان کے منہ پر سجدوں کی وجہ سے نرمی اور خوشنمائی ہوتی ہے

 اور منصور نے مجاہد سے نقل کیا سيما سے مراد تواضع اور عاجزی ہے۔

اخرج شطأه‏ اس نے اپنا خوشہ نکالا۔

 فاستغلظ‏ پس وہ موٹا ہو گیا۔

  سوق درخت کی نلی جس پر درخت کھڑا رہتا ہے، اس کی جڑ۔

دائرة السوء‏ جیسے کہتے ہیں رجل السوء‏‏ ۔ دائرة السوء‏ سے مراد عذاب ہے۔

  تعزروه‏ اس کی مدد کریں۔

  شطأه‏ سے بال کا پٹھا مراد۔ ایک دانہ دس یا آٹھ یا سات بالیں اگاتا ہے اور ایک دوسرے سے سہارا ملتا ہے۔

فآزره‏ سے یہی مراد ہے، یعنی اس کو زور دیا، اگر ایک ہی بالی ہوتی تو وہ ایک نلی پر کھڑی نہ رہ سکتی۔ یہ ایک مثال اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان فرمائی ہے۔ جب آپ کو رسالت ملی آپ بالکل تنہا بےیار و مددگار تھے۔ پھر اللہ پاک نے آپ کے اصحاب سے آپ کو طاقت دی جیسے دانے کو بالیوں سے طاقت ملتی ہے۔

إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا

ہم نے تجھ کو کھلی ہوئی فتح دی ہے (۴۸:۱)

حدیث نمبر ۴۸۳۳

راوی: والد زید بن اسلم

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں جا رہے تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ بھی آپ کے ساتھ تھے۔ رات کا وقت تھا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سوال کیا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر انہوں نے سوال کیا اور اس مرتبہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہیں دیا، تیسری مرتبہ بھی انہوں نے سوال کیا لیکن آپ نے جواب نہیں دیا۔

اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، عمر کی ماں اسے روئے! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تم نے تین مرتبہ سوال میں اصرار کیا، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں کسی مرتبہ جواب نہیں دیا۔

عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر میں نے اپنے اونٹ کو حرکت دی اور لوگوں سے آگے بڑھ گیا۔ مجھے خوف تھا کہ کہیں میرے بارے میں قرآن مجید کی کوئی آیت نہ نازل ہو۔ ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ ایک پکارنے والے کی آواز میں نے سنی جو مجھے ہی پکار رہا تھا۔ میں نے کہا کہ مجھے تو خوف تھا ہی کہ میرے بارے میں کوئی آیت نہ نازل ہو جائے۔ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام کیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ پر آج رات ایک سورت نازل ہوئی ہے جو مجھے اس ساری کائنات سے زیادہ عزیز ہے جس پر سورج طلوع ہوتا ہے پھر آپ نے سورۃ الفتح کی تلاوت فرمائی۔

حدیث نمبر ۴۸۳۴

راوی: انس رضی اللہ عنہ

 سورۃ الفتح صلح حدیبیہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔

حدیث نمبر ۴۸۳۵

راوی: سے عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن سورۃ الفتح خوب خوش الحانی سے پڑھی۔

معاویہ بن قرہ ذیلی راوی نے کہا کہ اگر میں چاہوں کہ تمہارے سامنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس موقع پر طرز قرأت کی نقل کروں تو کر سکتا ہوں۔

لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا

تاکہ اللہ آپ کی سب اگلی پچھلی خطائیں معاف کر دے اور آپ پر احسانات کی تکمیل کر دے اور آپ کو سیدھے راستہ پر لے چلے (۴۸:۲)

حدیث نمبر ۴۸۳۶

راوی: مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں رات بھر کھڑے رہے یہاں تک کہ آپ کے دونوں پاؤں سوج گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے تو آپ کی اگلی پچھلی تمام خطائیں معاف کر دی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں؟

حدیث نمبر ۴۸۳۷

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کی نماز میں اتنا طویل قیام کرتے کہ آپ کے قدم پھٹ جاتے۔

 عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک مرتبہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ اتنی زیادہ مشقت کیوں اٹھاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو آپ کی اگلی پچھلی خطائیں معاف کر دی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا پھر میں شکر گزار بندہ بننا پسند نہ کروں۔

عمر کے آخری حصہ میں جب طویل قیام دشوار ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر رات کی نماز پڑھتے اور جب رکوع کا وقت آتا تو کھڑے ہو جاتے اور تقریباً تیس یا چالیس آیتیں اور پڑھتے پھر رکوع کرتے۔

إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا

بیشک ہم نے آپ کو گواہی دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔(۴۸:۸)

حدیث نمبر ۴۸۳۸

راوی: عبداللہ بن عمرو بن عاص

یہ آیت جو قرآن میں ہے يا أيها النبي إنا أرسلناك شاهدا ‏ اے نبی! بیشک ہم نے آپ کو گواہی دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہی اللہ تعالیٰ نے توریت میں بھی فرمایا تھا اے نبی! بیشک ہم نے آپ کو گواہی دینے والا اور بشارت دینے والا اور ان پڑھوں عربوں کی حفاظت کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔ آپ میرے بندے ہیں اور میرے رسول ہیں۔ میں نے آپ کا نام متوکل رکھا، آپ نہ بدخو ہیں اور نہ سخت دل اور نہ بازاروں میں شور کرنے والے اور نہ وہ برائی کا بدلہ برائی سے دیں گے بلکہ معافی اور درگزر سے کام لیں گے اور اللہ ان کی روح اس وقت تک قبض نہیں کرے گا جب تک کہ وہ کج قوم عربی کو سیدھا نہ کر لیں یعنی جب تک وہ ان سے لا إله إلا الله کا اقرار نہ کرا لیں پس اس کلمہ توحید کے ذریعہ وہ اندھی آنکھوں کو اور بہرے کانوں کو اور پردہ پڑے ہوئے دلوں کو کھول دیں گے۔

هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ السَّكِينَةَ

وہ اللہ وہی تو ہے جس نے اہل ایمان کے دلوں میں سکینت سکون و اطمینان پیدا کیا  (۴۸:۴)

حدیث نمبر ۴۸۳۹

راوی: براء رضی اللہ عنہ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ رات میں سورۃ الکہف پڑھ رہے تھے۔ ان کا ایک گھوڑا جو گھر میں بندھا ہوا تھا بدکنے لگا تو وہ صحابی نکلے انہوں نے کوئی خاص چیز نہیں دیکھی وہ گھوڑا پھر بھی بدک رہا تھا۔ صبح کے وقت وہ صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور رات کا واقعہ بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ چیز جس سے گھوڑا بدکا تھ سکینت تھی جو قرآن کی وجہ سے نازل ہوئی۔

إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ

وہ وقت یاد کرو جب کہ وہ درخت کے نیچے آپ کے ہاتھ پر بیعت کر رہے تھے (۴۸:۱۸)

حدیث نمبر ۴۸۴۰

راوی: جابر رضی اللہ عنہ

 صلح حدیبیہ کے موقع پر لشکر میں ہم مسلمان ایک ہزار چار سو تھے۔

حدیث نمبر ۴۸۴۱

راوی: عبداللہ بن مغفل مزنی رضی اللہ عنہ

میں درخت کے نیچے بیعت میں موجود تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو انگلیوں کے درمیان کنکری لے کر پھینکنے سے منع فرمایا۔

حدیث نمبر ۴۸۴۲

راوی: عقبہ بن صہبان

میں نے عبداللہ بن مغفل مزنی رضی اللہ عنہ سے غسل خانہ میں پیشاب کرنے کے متعلق سنا۔ یعنی یہ کہ آپ نے اس سے منع فرمایا۔

حدیث نمبر ۴۸۴۳

راوی: ابوقلابہ

 ان سے ثابت بن ضحاک نے بیان کیا اور وہ صلح حدیبیہ کے دن درخت کے نیچے بیعت کرنے والوں میں شامل تھے۔

حدیث نمبر ۴۸۴۴

راوی: حبیب بن ثابت

میں ابووائل رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک مسئلہ پوچھنے کے لئے خوارج کے متعلق گیا، انہوں نے فرمایا کہ ہم مقام صفین میں پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے جہاں علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما کی جنگ ہوئی تھی ایک شخص نے کہا کہ آپ کا کیا خیال ہے اگر کوئی شخص کتاب اللہ کی طرف صلح کے لئے  بلائے؟ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ٹھیک ہے۔ لیکن خوارج نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے اس کے خلاف آواز اٹھائی۔

 اس پر سہل بن حنیف نے فرمایا تم پہلے اپنا جائزہ لو۔ ہم لوگ حدیبیہ کے موقع پر موجود تھے آپ کی مراد اس صلح سے تھی جو مقام حدیبیہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین کے درمیان ہوئی تھی اور جنگ کا موقع آتا تو ہم اس سے پیچھے ہٹنے والے نہیں تھے۔ لیکن صلح کی بات چلی تو ہم نے اس میں بھی صبر و ثبات کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑ اتنے میں عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ اور کیا کفار باطل پر نہیں ہیں؟ کیا ہمارے مقتولین جنت میں نہیں جائیں گے اور کیا ان کے مقتولین دوزخ میں نہیں جائیں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیوں نہیں! عمر رضی اللہ عنہ نے کہا پھر ہم اپنے دین کے بارے میں ذلت کا مظاہرہ کیوں کریں یعنی دب کر صلح کیوں کریں اور کیوں واپس جائیں، جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کا حکم فرمایا ہے۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابن خطاب! میں اللہ کا رسول ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھے کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے واپس آ گئے ان کو غصہ آ رہا تھا، صبر نہیں آیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا، اے ابوبکر! کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں ہیں؟ ابوبکر نے بھی وہی جواب دیا کہ اے ابن خطاب! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور اللہ انہیں ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔ پھر سورۃ الفتح نازل ہوئی۔

سورۃ الحجرات کی تفسیر

مجاہد نے کہا لا تقدموا‏ کا مطلب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بڑھ کر باتیں نہ کرو۔ بلکہ ادب سے قال الله وقال الرسول سنا کرو یہاں تک کہ جو حکم اللہ کو دینا ہے وہ اپنے رسول کی زبان سے تم کو پہنچائے۔

  امتحن‏ کا معنی صاف کیا، پرکھ لیا۔

لا تنابزوا‏ بالالقاب کا معنی یہ ہے کہ مسلمان ہونے کے بعد پھر اس کو کافر، یہودی یا عیسائی کہہ کر نہ پکارو۔

  لا يلتكم‏ تمہارا ثواب کچھ کم نہیں کرے گا

سورۃ الطور میں وما ألتنا س لئے  ہے کہ ہم نے ان کے عمل کا ثواب کچھ کم نہیں کیا۔

لاَ تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ

اے ایمان والو ! نبی کی آواز سے اپنی آوازوں کو اونچا نہ کیا کرو(۴۹:۲)

تشعرون کا معنی جانتے ہو اس سے لفظ شاعر نکلا ہے یعنی جاننے والا۔

حدیث نمبر ۴۸۴۵

راوی: ابن ابی ملیکہ

 قریب تھا کہ وہ سب سے بہتر افراد تباہ ہو جائیں یعنی ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما ان دونوں حضرات نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی آواز بلند کر دی تھی۔ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب بنی تمیم کے سوار آئے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے انہوں نے درخواست کی کہ ہمارا کوئی امیر بنا دیں ان میں سے ایک عمر رضی اللہ عنہ نے مجاشع کے اقرع بن حابس کے انتخاب کے لئے  کہا تھا اور دوسرے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک دوسرے کا نام پیش کیا تھا۔ اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ کا ارادہ مجھ سے اختلاف کرنا ہی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرا ارادہ آپ سے اختلاف کرنا نہیں ہے۔ اس پر ان دونوں کی آواز بلند ہو گئی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری

لاَ تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ

اے ایمان والو ! نبی کی آواز سے اپنی آوازوں کو اونچا نہ کیا کرو(۴۹:۲)

عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اتنی آہستہ آہستہ بات کرتے کہ آپ صاف سن بھی نہ سکتے تھے اور دوبارہ پوچھنا پڑتا تھا۔ انہوں نے اپنے نانا یعنی ابوبکر رضی اللہ عنہ کے متعلق اس سلسلے میں کوئی چیز بیان نہیں کی۔

حدیث نمبر ۴۸۴۶

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کو نہیں پایا۔ ایک صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں آپ کے لئے  ان کی خبر لاتا ہوں۔ پھر وہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے یہاں آئے دیکھا کہ وہ گھر میں سر جھکائے بیٹھے ہیں پوچھا کیا حال ہے؟ کہا کہ برا حال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز کے مقابلہ میں بلند آواز سے بولا کرتا تھا اب سارے نیک عمل اکارت ہوئے اور اہل دوزخ میں قرار دے دیا گیا ہوں۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے جو کچھ کہا تھا اس کی اطلاع آپ کو دی۔

 موسیٰ بن انس نے بیان کیا کہ وہ شخص اب دوبارہ ان کے لئے  ایک عظیم بشارت لے کر ان کے پاس آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ان کے پاس جاؤ اور کہو کہ تم اہل دوزخ میں سے نہیں ہو بلکہ تم اہل جنت میں سے ہو۔

إِنَّ الَّذِينَ يُنَادُونَكَ مِنْ وَرَاءِ الْحُجُرَاتِ أَكْثَرُهُمْ لاَ يَعْقِلُونَ

بیشک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارا کرتے ہیں ان میں سے اکثر عقل سے کام نہیں لیتے (۴۹:۴)

حدیث نمبر ۴۸۴۷

راوی: عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما

قبیلہ بنی تمیم کے سواروں کا وفد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ان کا امیر آپ قعقاع بن معبد کو بنا دیں اور عمر رضی اللہ عنہ نے کہا بلکہ اقرع بن حابس کو امیر بنائیں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ مقصد تو صرف میری مخالفت ہی کرنا ہے۔ عمر نے کہا کہ میں نے آپ کے خلاف کرنے کی غرض سے یہ نہیں کہا ہے۔ اس پر دونوں میں بحث چلی گئی اور آواز بھی بلند ہو گئی۔ اسی کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی

يَـٰٓأَيُّہَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تُقَدِّمُواْ بَيۡنَ يَدَىِ ٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ‌ۖ

اے ایمان والو! تم اللہ اور اس کے رسول سے پہلے کسی کام میں جلدی مت کیا کرو۔ ۔۔(۴۹:۱)

وَلَوْ أَنَّهُمْ صَبَرُوا حَتَّى تَخْرُجَ إِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ

اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ ان کی طرف خود نکل کر جاتے تو یہ صبر کرنا ان کے لئے  بہتر ہوتا (۴۹:۵)

سورۃ ق کی تفسیر

رجع بعيد‏ یعنی دنیا کی طرف پھر جانا دور از قیاس ہے۔

فروج‏ کے معنی سوراخ روزن، فرج‏ کی جمع ہے۔

  وريد حلق کی رگ۔

 اور جمل مونڈھے کی رگ۔

 مجاہد نے کہا ما تنقص الأرض‏ سے ان کی ہڈیاں مراد ہیں جن کو زمین کھا جاتی ہے۔

  تبصرة‏ کے معنی راہ دکھانا۔

  حب الحصيد‏ گیہوں کے دانے۔

باسقات‏ لمبی لمبی بال۔

  أفعيينا‏ کیا ہم اس سے عاجز ہو گئے ہیں۔

قال قرينه‏ میں قرين‏ سے شیطان ہمزاد مراد ہے جو ہر آدمی کے ساتھ لگا ہوا ہے۔

  فنقبوا‏ فى البلاد یعنی شہروں میں پھرے، دورہ کیا۔

  أو ألقى السمع‏ کا یہ مطلب ہے کہ دل میں دوسرا کچھ خیال نہ کرے، کان لگا کر سنے۔

افعيينا بالخلق الاول یعنی جب تم کو شروع میں پیدا کیا تو کیا اس کے بعد ہم عاجز بن گئے اب دوبارہ پیدا نہیں کر سکتے؟

سائق اور شهيد‏ دو فرشتے ہیں ایک لکھنے والا دوسرا گواہ۔ شهيد‏ سے مراد یہ ہے کہ دل لگا کر سنے۔

  لغوب‏ تھکن۔

مجاہد کے سوا اوروں نے کہا نضيد‏ وہ گابھا ہے، جب تک وہ پتوں کے غلاف میں چھپا رہے۔ نضيد‏ اس کو اس لئے  کہتے ہیں کہ وہ تہہ بہ تہہ ہوتا ہے جب درخت کا گابھا غلاف سے نکل آئے تو پھر اس کو نضيد‏ نہیں کہیں گے۔

 ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا يوم الخروج سے وہ دن مراد ہے جس دن قبروں سے نکلیں گے۔

وَتَقُولُ هَلْ مِنْ مَزِيدٍ

اور وہ جہنم کہے گی کہ کچھ اور بھی ہے ؟(۵۰:۳۰)

حدیث نمبر ۴۸۴۸

راوی: انس رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جہنم میں دوزخیوں کو ڈالا جائے گا اور وہ کہے گی هل من مزيد‏‏ کہ کچھ اور بھی ہے؟ یہاں تک کہ اللہ رب العزت اپنا قدم اس پر رکھے گا اور وہ کہے گی کہ بس بس۔

حدیث نمبر ۴۸۴۹

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ابوسفیان حمیری اکثر اس حدیث کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے موقوفاً ذکر کرتے تھے کہ جہنم سے پوچھا جائے گا تو بھر بھی گئی؟ وہ کہے گی هل من مزيد کہ کچھ اور بھی ہے؟ پھر اللہ تبارک تعالیٰ اپنا قدم اس پر رکھے گا اور کہے گی کہ بس بس۔

حدیث نمبر ۴۸۵۰

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت اور دوزخ نے بحث کی، دوزخ نے کہا میں متکبروں اور ظالموں کے لئے  خاص کی گئی ہوں۔ جنت نے کہا مجھے کیا ہوا کہ میرے اندر صرف کمزور اور کم رتبہ والے لوگ داخل ہوں گے۔

 اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت سے کہا کہ تو میری رحمت ہے، تیرے ذریعہ میں اپنے بندوں میں جس پر چاہوں رحم کروں اور دوزخ سے کہا کہ تو عذاب ہے تیرے ذریعہ میں اپنے بندوں میں سے جسے چاہوں عذاب دوں۔ جنت اور دوزخ دونوں بھریں گی۔ دوزخ تو اس وقت تک نہیں بھرے گی جب تک اللہ رب العزت اپنا قدم اس نہیں رکھ دے گا۔ اس وقت وہ بولے گی کہ بس بس بس! اور اس وقت بھر جائے گی اور اس کا بعض حصہ بعض دوسرے حصے پر چڑھ جائے گا اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں کسی پر ظلم نہیں کرے گا اور جنت کے لئے  اللہ تعالیٰ ایک مخلوق پیدا کرے گا ۔

وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ

اور اپنے رب کی حمد و تسبیح کرتے رہئیے سورج کے نکلنے سے پہلے اور اس کے چھپنے سے پہلے (۵۰:۳۹)

وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ

اور اپنے رب کی حمد و تسبیح کرتے رہئیے سورج کے نکلنے سے پہلے اور اس کے چھپنے سے پہلے (۵۰:۳۹)

حدیث نمبر ۴۸۵۱

راوی: جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما

ہم ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے چودہویں رات تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند کی طرف دیکھا اور پھر فرمایا کہ یقیناً تم اپنے رب کو اسی طرح دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو۔ اس کی رؤیت میں تم دھکم پیل نہیں کرو گے بلکہ بڑے اطمینان سے ایک دوسرے کو دھکا دیئے بغیر دیکھو گے اس لئے  اگر تمہارے لئے  ممکن ہو تو سورج نکلنے اور ڈوبنے سے پہلے نماز نہ چھوڑو۔ پھر آپ نے آیت کی تلاوت کی۔

وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ

اور اپنے رب کی حمد و تسبیح کرتے رہئیے سورج کے نکلنے سے پہلے اور اس کے چھپنے سے پہلے (۵۰:۳۹)

حدیث نمبر ۴۸۵۲

راوی: مجاہد

 بیان کیا، کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں تمام نمازوں کے بعد تسبیح پڑھنے کا حکم دیا تھا۔ آپ کا مقصد اللہ تعالیٰ کا ارشاد وأدبار السجود‏ کی تشریح کرنا تھا۔

سورۃ الذاریات کی تفسیر

علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ الذاريات سے مراد ہوائیں ہیں۔ ان سے غیر نے کہا کہ تذروه کا معنی یہ ہے کہ اس کو بکھیر دے یہ لفظ سورۃ الکہف میں ہے الرياح‏ کی مناسبت سے یہاں لایا گیا۔

وفي أنفسكم‏ افلا تبصرون یعنی خود تمہاری ذات میں نشانیاں ہیں کیا تم نہیں دیکھتے کہ کھانا پینا ایک راستے منہ سے ہوتا ہے لیکن وہ فضلہ بن کر دوسرے راستوں سے نکلتا ہے۔

  فراغ‏ لوٹ آیا یا چپکے سے چلا آیا۔

  فصكت‏ یعنی مٹھی باندھ کر اپنے ماتھے پر ہاتھ کو مارا۔

  الرميم زمین کی گھاس جب خشک ہو جائے اور روند دی جائے۔

  لموسعون‏ کے معنی ہم نے اس کو کشادہ اور وسیع کیا ہے۔ اور سورۃ البقرہ میں جو ہے على الموسع قدره‏ یہاں موسع کے معنی زور طاقت والا ہے۔

  زوجين‏ یعنی نر و مادہ یا الگ الگ رنگ یا الگ الگ مزے کی جیسے میٹھی کھٹی یہ دو قسمیں ہیں۔

  ففروا إلى الله‏ یعنی اللہ کی معصیت سے اس کی اطاعت کی طرف بھاگ کر آؤ۔

  إلا ليعبدون‏ یعنی جِن و انس میں جتنی بھی نیک روحیں ہیں انہیں میں نے صرف اپنی توحید کے لئے  پیدا کیا۔ بعضوں نے کہا جِنوں اور آدمیوں کو اللہ تعالیٰ نے پیدا تو اسی مقصد سے کیا تھا کہ وہ اللہ کی توحید کو مانیں لیکن کچھ نے مانا اور کچھ نے نہیں مانا۔ معتزلہ کے لئے  اس آیت میں کوئی دلیل نہیں ہے۔

  الذنوب کے معنی بڑے ڈول کے ہیں۔

 مجاہد نے فرمایا کہ ذنوبا‏ بمعنی راستہ ہے۔

 مجاہد نے کہا کہ صرة‏ کے معنی چیخنا۔

  ذنوبا‏ کے معنی راستہ اور طریق کے ہیں۔

  العقيم کے معنی جس کو بچہ نہ پیدا ہو بانجھ۔

 ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ الحبك سے آسمان کا خوبصورت برابر ہونا مراد ہے۔

في غمرة‏ یعنی اپنی گمراہی میں پڑے اوقات گزارتے ہیں۔

 اوروں نے کہا تواصوا کا معنی یہ ہے کہ یہ بھی ان کے موافق کہنے لگے۔

  مسومة‏ نشان کئے گئے۔ یہ سيما ,‏ سے نکلا ہے جس کے معنی نشانی کے ہیں۔

أدبار السجود‏ یعنی جھوٹے لعنت کئے گئے۔

سورۃ الطور کی تفسیر

قتادہ نے کہا مسطور‏ بمعنی مكتوب‏ یعنی لکھی ہوئی ہے۔

 مجاہد نے کہا الطور سریانی زبان میں پہاڑ کو کہتے ہیں

  رق منشور‏ یعنی صحیفہ کھلا ہوا ورق۔

لسقف المرفوع‏ ,یعنی آسمان۔

المسجور یعنی گرم کیا گیا۔ حسن بصری نے کہا مسجور سے مراد یہ ہے کہ سمندر میں ایک دن طغیانی آ کر اس کا سارا پانی سوکھ جائے گا اور اس میں ایک قطرہ بھی باقی نہ رہے گا۔

 مجاہد نے کہا کہ ألتناهم‏ کے معنی گھٹایا، کم کیا۔

مجاہد کے علاوہ دوسروں نے کہا کہ تمور‏ گھومے گا۔

أحلامهم‏ کے معنی ان کی عقلیں۔

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا البر‏ کے معنی مہربان۔

  كسفا‏ کے معنی ٹکڑے۔

  المنون کے معنی موت۔

  يتنازعون‏ کا معنی ایک دوسرے سے جھپٹ لیں انہیں مذاق سے یا لڑائی سے۔

حدیث نمبر ۴۸۵۳

راوی: ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا

حج کے موقع پر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میں بیمار ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر سواری پر بیٹھ کر لوگوں کے پیچھے سے طواف کرے چنانچہ میں نے طواف کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت خانہ کعبہ کے پہلو میں نماز پڑھتے ہوئے سورۃ والطور و کتاب مسطور کی تلاوت کر رہے تھے۔

حدیث نمبر ۴۸۵۴

راوی: جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ

تو میرا دل اڑنے لگا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کی نماز میں سورۃ والطور پڑھ رہے تھے۔ جب آپ سورۃ والطور کی  اس آیت پر پہنچے

أَمۡ خُلِقُواْ مِنۡ غَيۡرِ شَىۡءٍ أَمۡ هُمُ ٱلۡخَـٰلِقُونَ  ...أَمۡ عِندَهُمۡ خَزَآٮِٕنُ رَبِّكَ أَمۡ هُمُ ٱلۡمُصَۣيۡطِرُونَ 

کیا یہ لوگ بغیر کسی کے پیدا کئے پیدا ہو گئے یا یہ خود اپنے خالق ہیں؟ یا انہوں نے آسمان اور زمین کو پیدا کر لیا ہے۔

اصل یہ ہے کہ ان میں یقین ہی نہیں۔ کیا ان لوگوں کے پاس آپ کے پروردگار کے خزانے ہیں یا یہ لوگ حاکم ہیں۔(۵۲:۳۵،۷)

سورۃ النجم کی تفسیر

مجاہد نے کہا کہ ذو مرة‏ کے معنی زور دار، زبردست یعنی جبرائیل علیہ السلام ۔

قاب قوسين‏ یعنی کمان کے دونوں کنارے جہاں پر چلہ لگا رہتا ہے۔

  ضيزى‏ کے معنی ٹیڑھی، غلط تقسیم۔

وأكدى‏ اور دینا موقوف کر دیا۔

 الشعرى‏ وہ ستارہ ہے جسے مرزم الجوزاء بھی کہتے ہیں۔

الذي وفى‏ یعنی اللہ نے جو ان پر فرض کیا تھا وہ بجا لائے۔

  أزفت الآزفة‏ قیامت  قریب آ گئی۔

  سامدون‏ کے معنی کھیل کرتے ہو۔

  برطمة‏.‏ ایک کھیل کا نام ہے۔ عکرمہ نے کہا حميري زبان میں گانے کے معنی میں ہے

 اور ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نے کہا کہ أفتمارونه‏ کا معنی کیا تم اس سے جھگڑتے ہو۔ بعضوں نے یوں پڑھا ہے أفتمرونه یعنی کیا تم اس کام کا انکار کرتے ہو۔

  ما زاغ البصر‏ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چشم مبارک مراد ہے۔

  وما طغى‏ یعنی جتنا حکم تھا اتنا ہی دیکھا اس سے زیادہ نہیں بڑھے ۔

فتماروا‏ سورۃ القمر میں ہے یعنی جھٹلایا۔

 امام حسن بصری نے کہا إذا هوى‏‏ یعنی غائب ہوا اور ڈوب گیا

 اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا أغنى وأقنى‏ کا معنی یہ ہے کہ دیا اور راضی کیا۔

حدیث نمبر ۴۸۵۵

راوی: مسروق

 میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا اے ایمان والوں کی ماں! کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات میں اپنے رب کو دیکھا تھا؟

 عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا تم نے ایسی بات کہی کہ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے کیا تم ان تین باتوں سے بھی ناواقف ہو؟ جو شخص بھی تم میں سے یہ تین باتیں بیان کرے وہ جھوٹا ہے جو شخص یہ کہتا ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج میں اپنے رب کو دیکھا تھا وہ جھوٹا ہے۔

پھر انہوں نے آیت لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار وهو اللطيف الخبير‏ ... من وراء حجاب‏ تک کی تلاوت کی اور کہا کہ کسی انسان کے لئے  ممکن نہیں کہ اللہ سے بات کرے سوا اس کے کہ وحی کے ذریعہ ہو یا پھر پردے کے پیچھے سے ہو اور جو شخص تم سے کہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آنے والے کل کی بات جانتے تھے وہ بھی جھوٹا ہے۔

اس کے لئے  انہوں نے آیت وما تدري نفس ماذا تكسب غدا‏ یعنی اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ کل کیا کرے گا۔ کی تلاوت فرمائی۔ اور جو شخص تم میں سے کہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ دین میں کوئی بات چھپائی تھی وہ بھی جھوٹا ہے۔ پھر انہوں نے یہ آیت تلاوت کی يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك‏ یعنی اے رسول! پہنچا دیجئیے وہ سب کچھ جو آپ کے رب کی طرف سے آپ پر اتارا گیا ہے۔

 ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام کو ان کی اصل صورت میں دو مرتبہ دیکھا تھا۔

فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى

پھر رہ گیا فرق دو کمان کا میانہ، یا اس سے بھی نزدیک۔(۵۳:۹)

حدیث نمبر ۴۸۵۶

راوی: زر بن حبیش

 انہوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے آیت کے متعلق بیان کیا کہ ہم سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام کو ان کی اصل صورت میں دیکھا تھا ان کے چھ سو پر تھے۔

فَكَانَ قَابَ قَوۡسَيۡنِ أَوۡ أَدۡنَىٰ فَأَوۡحَىٰٓ إِلَىٰ عَبۡدِهِۦ مَآ أَوۡحَىٰ 

صرف دو کمانوں کا فاصلہ رہ گیا تھا بلکہ اور بھی کم۔ پھر اللہ نے اپنے بندہ پر وحی نازل کی جو کچھ بھی نازل کیا (۵۳:۹،۱۰)

فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى

اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کی طرف وحی کی جو بھی وحی کی (۵۳:۱۰)

حدیث نمبر ۴۸۵۷

راوی: سلیمان شیبانی

 میں نے زر بن حبیش سے اس آیت کے بارے میں پوچھا

فَكَانَ قَابَ قَوۡسَيۡنِ أَوۡ أَدۡنَىٰ فَأَوۡحَىٰٓ إِلَىٰ عَبۡدِهِۦ مَآ أَوۡحَىٰ 

صرف دو کمانوں کا فاصلہ رہ گیا تھا بلکہ اور بھی کم۔ پھر اللہ نے اپنے بندہ پر وحی نازل کی جو کچھ بھی نازل کیا (۵۳:۹،۱۰)

تو انہوں نے بیان کیا کہ ہمیں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام کو دیکھا تھا جن کے چھ سو پر تھے۔

لَقَدْ رَأَى مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَى

تحقیق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیوں کو دیکھا (۵۳:۱۸)

حدیث نمبر ۴۸۵۸

راوی: علقمہ

 ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے آیت لَقَدْ رَأَى مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَى‏ یعنی آپ نے اپنے رب کی عظیم نشانیاں دیکھیں کے متعلق بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رفرف سبز فرش کو دیکھا جس نے آسمان کے کناروں کو ڈھانپ لیا تھا۔

أَفَرَأَيْتُمُ اللاَّتَ وَالْعُزَّى

بھلا تم نے لات اور عزیٰ کو بھی دیکھا ہے (۵۳:۱۹)

حدیث نمبر ۴۸۵۹

راوی: ابوالجوزاء

مجھ سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے لات اور عزیٰ کے حال میں کہا کہ لات ایک شخص کو کہتے تھے وہ حاجیوں کے لئے  ستو گھولتا تھا۔

حدیث نمبر ۴۸۶۰

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص قسم کھائے اور کہے کہ قسم ہے لات اور عزیٰ کی تو اسے تجدید ایمان کے لئے  کہنا چاہئے لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ،اور جو شخص اپنے ساتھی سے یہ کہے کہ آؤ جوا کھیلیں تو اسے صدقہ دینا چاہئے۔

وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الأُخْرَى

اور تیسرے بت منات کے حالات بھی سنو (۵۳:۲۰)

حدیث نمبر ۴۸۶۱

راوی: عروہ

 میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ منات بت کے نام پر احرام باندھتے جو مقام مشلل میں تھا، وہ صفا اور مروہ کے درمیان حج و عمرہ میں سعی نہیں کرتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت نازل کی إن الصفا والمروة من شعائر الله‏ بیشک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے درمیان طواف کیا اور مسلمانوں نے بھی طواف کیا۔

 سفیان ذیلی راوی نے کہا کہ مناۃ مقام قدید پر مشلل میں تھا

عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ قبیلہ انصار کے کچھ لوگ منات کے نام کا احرام باندھتے تھے۔ منات ایک بت تھا جو مکہ اور مدینہ کے درمیان رکھا ہوا تھا اسلام لانے کے بعد ان لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! ہم منات کی تعظیم کے لئے  صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہیں کیا کرتے تھے۔عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یہ آیت انصار کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ اسلام سے پہلے انصار اور غسان کے لوگ منات کے نام پر احرام باندھتے تھے، پہلی حدیث کی طرح۔

عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ قبیلہ انصار کے کچھ لوگ منات کے نام کا احرام باندھتے تھے۔ منات ایک بت تھا جو مکہ اور مدینہ کے درمیان رکھا ہوا تھا اسلام لانے کے بعد ان لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! ہم منات کی تعظیم کے لئے  صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہیں کیا کرتے تھے۔

فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا

پس خاص اللہ کے لئے  سجدہ کرو اور خاص اسی کی عبادت کرو (۵۳:۶۲)

حدیث نمبر ۴۸۶۲

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ النجم میں سجدہ کیا اور آپ کے ساتھ مسلمانوں نے اور تمام مشرکوں اور جنات و انسانوں نے بھی سجدہ کیا۔

حدیث نمبر ۴۸۶۳

راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

 سب سے پہلے نازل ہونے والی سجدہ والی سورت سورۃ النجم ہے۔ بیان کیا کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تلاوت کے بعد سجدہ کیا اور جتنے لوگ آپ کے پیچھے تھے سب ہی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سجدہ کیا، سوا ایک شخص کے، میں نے دیکھا کہ اس نے اپنی ہتھیلی میں مٹی اٹھائی اور اسی پر سجدہ کر لیا۔ بعد میں بدر کی لڑائی میں میں نے اسے دیکھا کہ کفر کی حالت میں وہ قتل کیا ہوا پڑا ہے۔ وہ شخص امیہ بن خلف تھا۔

سورۃ  القمر کی تفسیر

مجاہد نے کہا مستمر‏ کا معنی جانے والا، باطل ہونے والا۔

  مزدجر‏ بے انتہا جھڑکنے والے، تنبیہ کرنے والے۔

وازدجر‏ دیوانہ بنایا گیا یا جھڑکا گی ۔

  دسر‏ کشتی کے تختے یا کیلیں یا رسیاں۔

  لمن كان كفر‏ یعنی یہ عذاب اللہ کی طرف سے بدلہ تھا اس شخص کا جس کی انہوں نے ناقدری کی تھی یعنی نوح کی۔

  كل شرب مختضر یعنی ہر فریق اپنی باری پر پانی پینے کو آئے۔

  مهطعين‏ الى الداع سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ نے کہا یعنی ڈرتے ہوئے عربی زبان میں دوڑنے کو لنسلان‏ ، خبب ، سراع‏ کہتے ہیں۔

  فتعاطى‏ یعنی ہاتھ چلایا اس کو زخمی کیا۔

كهشيم المحتظر‏ کا معنی جیسے ٹوٹی جلی ہوئی باڑ ۔

  جزاء لمن كان كفر‏ یعنی ہم نے نوح اور ان کی قوم والوں کے ساتھ جو سلوک کیا یہ اس کا بدلہ تھا جو نوح اور ان کے ایماندار ساتھ والوں کے ساتھ کافروں کی طرف سے کیا گیا تھا۔

  مستقر‏ جما رہنے والا۔

  عذاب اشر کا معنی ہے اترانا، غرور کرنا۔

وَانْشَقَّ الْقَمَرُ وَإِنْ يَرَوْا آيَةً يُعْرِضُوا

اور پھٹ گیا چاند۔اور اگر وہ دیکھیں کوئی نشانی (تو) ٹال دیں، (۵۴:۱،۲)

حدیث نمبر ۴۸۶۴

راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چاند دو ٹکڑے ہو گیا تھا ایک ٹکڑا پہاڑ کے اوپر اور دوسرا اس کے پیچھے چلا گیا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی موقع پر ہم سے فرمایا تھا کہ گواہ رہنا۔

حدیث نمبر ۴۸۶۵

راوی: عبداللہ رضی اللہ عنہ

چاند پھٹ گیا تھا اور اس وقت ہم بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ چنانچہ اس کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا کہ لوگو گواہ رہنا، گواہ رہنا۔

حدیث نمبر ۴۸۶۶

راوی: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چاند پھٹ گیا تھا۔

حدیث نمبر ۴۸۶۷

راوی: انس رضی اللہ عنہ

 مکہ والوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے معجزہ دکھانے کو کہا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں چاند کے پھٹ جانے کا معجزہ دکھایا۔

حدیث نمبر ۴۸۶۸

راوی: انس رضی اللہ عنہ

 بیان کیا کہ چاند دو ٹکڑوں میں پھٹ گیا تھا۔

تَجْرِي بِأَعْيُنِنَا جَزَاءً لِمَنْ كَانَ كُفِرَ* وَلَقَدْ تَرَكْنَاهَا آيَةً فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ

بہتی ہماری آنکھوں (نگرانی) کے سامنے، (یہ) بدلہ (تھا) اس کی طرف سے (خاطر) جس کی قدر نہ جانی تھی،

اور اس کو ہم نے رہنے دیا نشان کر، پھر کوئی ہے سوچنے (نصیحت قبول کرنے) والا۔(۵۴:۱۴،۱۵)

قتادہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کی کشتی کو باقی رکھا اور اس اُمت کے بعض پہلے بزرگوں نے اسے جودی پہاڑ پر دیکھ لیا۔

حدیث نمبر ۴۸۶۹

راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ پڑھا کرتے تھے۔

وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ

اور ہم نے آسان کیا قرآن سمجھنے کو، پھر ہے کوئی سوچنے والا (نصیحت قبول کرنے) ؟(۵۴:۱۷)

مجاہد نے کہا کہ يَسَّرْنَا کے معنی یہ کہ ہم نے اس کی قرأت اور اس کی فہم آسان کر دی۔

حدیث نمبر ۴۸۷۰

راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ ‏ سو ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا؟ پڑھا کرتے تھے۔

أَعْجَازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِي وَنُذُرِ

وہ ہلاک شدہ کافر گویا اکھڑی ہوئی کھجوروں کے تنے تھے سو دیکھو میرا عذاب اور میرا ڈرانا کیسا رہا (۵۴:۲۰،۲۱)

حدیث نمبر ۴۸۷۱

راوی: ابواسحاق

 انہوں نے ایک شخص کو اسود سے پوچھتے سنا کہ سورۃ القمر میں آیت فهل من مدكر‏ ہے یا فهل من مذكر‏ ؟

انہوں نے کہا کہ میں نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے سنا وہ فهل من مذكر‏ پڑھتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی فهل من مذكر‏ پڑھتے سنا ہے دال مہملہ سے ۔

فَكَانُوا كَهَشِيمِ الْمُحْتَظِرِ وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ

سو وہ ثمود ایسے ہو گئے جیسے کانٹوں کی باڑ جو چکنا چور ہو گئی ہو ا

ور ہم نے قرآن کو آسان کر دیا ہے ، کیا کوئی ہے قرآن مجید سے نصیحت حاصل کرنے والا ؟ جو قرآن مجید سے نصیحت حاصل کرے۔ (۵۴:۳۱،۳۲)

حدیث نمبر ۴۸۷۲

راوی: ابن مسعود رضی اللہ عنہ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فهل من مذكر‏‏ دال مہملہ سے ۔

وَلَقَدْ صَبَّحَهُمْ بُكْرَةً عَذَابٌ مُسْتَقِرٌّ فَذُوقُوا عَذَابِي وَنُذُرِ

اور صبح سویرے ہی ان پر عذاب دائمی آ پہنچا اور ان سے کہا گیا کہ پس میرے عذاب اور ڈرانے کا مزہ چکھو (۵۴:۳۸،۳۹)

حدیث نمبر ۴۸۷۳

راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فهل من مذكر‏‏ دال مہملہ سے ۔

وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا أَشْيَاعَكُمْ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ

اور ہم تمہارے جیسے لوگوں کو ہلاک کر چکے ہیں سو ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ؟ (۵۴:۵۱)

حدیث نمبر ۴۸۷۴

راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

 میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے فهل من مذكر پڑھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فهل من مذكر‏ یعنی دال مہملہ سے پڑھو ۔

سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ

کافروں کی عنقریب ساری جماعت شکست کھائے گی اور یہ سب پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے ۔ (۵۴:۴۵)

حدیث نمبر ۴۸۷۵

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جبکہ آپ بدر کی لڑائی کے دن ایک خیمے میں تھے اور یہ دعا کر رہے تھے کہ اے اللہ! میں تجھے تیرا عہد اور وعدہ نصرت یاد دلاتا ہوں۔ اے اللہ! تیری مرضی ہے اگر تو چاہے ان تھوڑے سے مسلمانوں کو بھی ہلاک کر دے پھر آج کے بعد تیری عبادت باقی نہیں رہے گی۔

پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ لیا اور عرض کیا بس یا رسول اللہ! آپ نے اپنے رب سے بہت ہی الحاح و زاری سے دعا کر لی ہے۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زرہ پہنے ہوئے چل پھر رہے تھے اور آپ خیمہ سے نکلے تو زبان مبارک پر یہ آیت تھی

سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ

کافروں کی عنقریب ساری جماعت شکست کھائے گی اور یہ سب پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے ۔ (۵۴:۴۵)

بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ أَدْهَى وَأَمَرُّ

بلکہ ان کا اصل وعدہ تو قیامت  کے دن کا ہے اور قیامت  بڑی سخت اور تلخ ترین چیز ہے ۔ (۵۴:۴۶)

أمر‏ ، مرارة سے ہے۔ جس کے معنی تلخی کے ہیں یعنی قیامت  کا دن بہت تلخ ہو گا۔

حدیث نمبر ۴۸۷۶

راوی: یوسف بن ماہک

میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر تھا۔ آپ نے فرمایا کہ جس وقت آیت بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ أَدْهَى وَأَمَرُّ لیکن ان کا اصل وعدہ تو قیامت  کے دن کا ہے اور قیامت  بڑی سخت اور تلخ چیز ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر مکہ میں نازل ہوئی تو میں بچی تھی اور کھیلا کرتی تھی۔

حدیث نمبر ۴۸۷۷

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جبکہ آپ بدر کی لڑائی کے موقع پر میدان میں ایک خیمے میں یہ دعا کر رہے تھے کہ اے اللہ! میں تجھے تیرا عہد اور وعدہ نصرت یاد دلاتا ہوں۔ اے اللہ! اگر تو چاہے کہ مسلمانوں کو فنا کر دے تو آج کے بعد پھر کبھی تیری عبادت نہیں کی جائے گی۔ اور اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ کر عرض کیا بس یا رسول اللہ! آپ اپنے رب سے خوب الحاح و زاری کے ساتھ دعا کر چکے ہیں۔

 نبی کریم اس وقت زرہ پہنے ہوئے تھے۔ آپ باہر تشریف لائے تو آپ کی زبان مبارک پر یہ آیت تھی

سَيُہۡزَمُ ٱلۡجَمۡعُ وَيُوَلُّونَ ٱلدُّبُرَ  , بَلِ ٱلسَّاعَةُ مَوۡعِدُهُمۡ وَٱلسَّاعَةُ أَدۡهَىٰ وَأَمَرُّ 

عنقریب کافروں کی یہ جماعت ہار جائے گی اور یہ سب پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔

لیکن ان کا اصل وعدہ تو قیامت  کے دن کا ہے اور قیامت  بڑی سخت اور بہت ہی کڑوی چیز ہے۔(۵۴:۴۵،۴۶)

سورۃ الرحمٰن کی تفسیر

مجاہد نے کہا بحسبان یعنی چکی کی طرح گھوم رہے ہیں۔

وأقيموا الوزن‏ کا معنی یہ ہے کہ ترازو کی زبان سیدھی رکھو یعنی برابر تولو ۔

  عصف کہتے ہیں کھیتی کی اس پیداوار سبزے کو جس کو پکنے سے پہلے کاٹ لیں یہ تو عصف کے معنی ہوئے اور یہاں ريحان سے کھیتی کے پتے اور دانے جن کو کھاتے ہیں مراد ہیں۔ اور ريحان ‏ عربوں کی زبان میں روزی کو کہتے ہیں بعضوں نے کہا خوشبودار سبزے کو بعضوں نے کہا   عصف ‏‏ وہ دانہ جن کو کھاتے ہیں اور ريحان ‏ وہ پکا غلہ جس کو کچا نہیں کھاتے۔ اوروں نے کہا عصف گیہوں کے پتے ہیں۔ ضحاک نے کہا عصف ‏.‏ بھوسا جو جانور کھاتے ہیں۔ ابو مالک غفاری تابعی نے کہا عصف کھیتی کا وہ سبزہ جو پہلے پہل اگتا ہے کسان لوگ اس کو هبور کہتے ہیں۔ مجاہد نے کہا عصف ‏.‏ گیہوں کا پتا اور ريحان روزی کا۔

  المارج آگ کی لپٹ کو زرد یا سبز جو آگ روشن کرنے پر اوپر چڑھتی ہے

بعضوں نے مجاہد سے روایت کیا ہے کہ رب المشرقين‏ ورب المغربين‏ میں مشرقين‏ سے جاڑے اور گرمی کی مشرق اور مغربين‏ سے جاڑے گرمی کی مغرب مراد ہے۔

بعضوں نے مجاہد سے روایت کیا ہے کہ رب المشرقين‏ ورب المغربين‏ میں مشرقين‏ سے جاڑے اور گرمی کی مشرق اور مغربين‏ سے جاڑے گرمی کی مغرب مراد ہے۔

لا يبغيان‏ مل نہیں جاتے۔

  المنشآت‏ وہ کشتیاں جن کا بادبان اوپر اٹھایا گیا ہو وہی دور سے پہاڑ کی طرح معلوم ہوتی ہیں اور جن کشتیوں کا بادبان نہ چڑھایا جائے ان کو المنشآت‏ نہیں کہیں گے۔

مجاہد نے کہا كالفخار یعنی جیسا ٹھیکرا بنایا جاتا ہے۔

  الشواز آگ کا شعلہ جس میں دھواں ہو۔

  فنحاس‏ پیتل جو گلا کر دوزخیوں کے سر پر ڈالا جائے گا ان کو اسی سے عذاب دیا جائے گا۔

خاف مقام ربه‏ کا یہ مطلب ہے کہ کوئی آدمی گناہ کرنے کا قصد کرے پھر اپنے پروردگار کو یاد کر کے اس سے باز آ جائے۔

  مدهامتان‏ بہت شادابی کی وجہ سے کالے یا سبز ہو رہے ہوں گے۔

  صلصالوہ گارا کیچڑ جس میں ریت ملائی جائے وہ ٹھیکری کی طرح کھنکھنانے لگے۔ بعضوں نے کہا کہ صلصالبدبودار کیچڑ، جیسے کہتے ہیں صل اللحم یعنی گوشت بدبودار ہو گیا، سڑ گیا جیسے صر الباب دروازے بند کرتے وقت آواز دی اور صرصر الباب

اور كببته‏ کو كبكبته کہتے ہیں۔

  فاكهة ونخل ورمان‏ یعنی وہاں میوہ ہو گا اور کھجور اور انار اس آیت سے بعضوں نے امام حنیفہ نے یہ نکالا ہے کہ کھجور اور انار میوہ نہیں ہیں۔ عرب لوگ تو ان دونوں کو میوؤں میں شمار کرتے ہیں اب رہا نخل اور ورمان‏ کا عطف فاكهة پر تو ایسا ہے جیسے دوسری آیت میں فرمایا حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى‏ تو پہلے سب نمازوں کی محافظت کا حکم دیا صلاة الوسطى‏‏ بھی ان میں آ گئی پھر صلاة الوسطى‏ کو عطف کر کے دوبارہ بیان کر دینا اس سے غرض یہ ہے کہ اس کا اور زیادہ خیال رکھ، ایسے ہی یہاں بھی نخل ورمان‏ ، فاكهة میں آ گئے تھے مگر ان کی عمدگی کی وجہ سے دوبارہ ان کا ذکر کیا جیسے اس آیت میں فرمایا ألم تر أن الله يسجد له من في السموات ومن في الأرض

پھر اس کے بعد فرمایا وكثير من الناس وكثير حق عليه العذاب‏ حالانکہ یہ دونوں من في السموات ومن في الأرض‏ میں آ گئے اوروں نے مجاہد یا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے سو کہا أفنان‏ کا معنی شاخیں ڈالیاں ہیں۔

وجنى الجنتين دان یعنی دونوں باغوں کا میوہ قریب ہو گا

 اور حسن بصری نے کہا فبأى آلاء‏ یعنی اس کی کون کون سی نعمتوں کو اور قتادہ نے کہا ربكما‏ میں جِن اور انسان کی طرف خطاب ہے

 اور ابودرداء نے کہا كل يوم هو في شأن‏ کا یہ مطلب ہے کسی کا گناہ بخشتا ہے، کسی کی تکلیف دور کرتا ہے، کسی قوم کو بڑھاتا ہے کسی قوم کو گھٹاتا ہے

اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا برزخ‏ سے آڑ مراد ہے۔

  لأنام الخلق نضاختان‏ خیر اور برکت سے یہاں رہتے ہیں۔

  ذو الجلال‏ بزرگی والا

مارج ‏‏‏‏ خالص انگارا جس میں دھواں نہ ہو عرب لوگ کہتے ہیں مرج الأمير رعيته یعنی حاکم نے اپنی رعیت کا خیال چھوڑ دیا یا ایک کو دوسرے ستا رہا ہے۔ لفظ مريج‏ جو سورۃ ق میں ہے۔ اس کا معنی گڈ مڈ ملا ہوا۔

  مرج‏ البحراين یعنی دونوں دریا مل گئے ہیں یہ مرجت دابتك سے نکلا ہے یعنی تو نے اپنا جانور چھوڑ دیا اس طرح رہ کر ہم عنقریب تمہارا خاتمہ کریں گے یہاں فراغت کا معنی نہیں کیونکہ اللہ پاک کو کوئی چیز دوسری چیز کی طرف خیال کرنے سے باز نہیں رکھ سکتی ہے۔ یہ ایک محاورہ ہے جو سب لوگوں میں مشہور ہے کوئی شخص بیکار ہوتا ہے اس کو فرصت ہوتی ہے لیکن ڈرانے کے لئے  دوسرے سے کہتا ہے، اچھا میں تیرے لئے  فراغت کروں گا یعنی وہ خوف جب ٹل جائے گا تو تجھ کو سزا دوں گا۔

وَمِنْ دُونِهِمَا جَنَّتَانِ

اور ان باغوں سے کم درجہ میں دو اور باغ بھی ہیں (۵۵:۶۲)

حدیث نمبر ۴۸۷۸

راوی: عبداللہ بن قیس ابوموسیٰ اشعری

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں دو باغ ہوں گے جن کے برتن اور تمام دوسری چیزیں چاندی کی ہوں گی اور دو دوسرے باغ ہوں گے جن کے برتن اور تمام دوسری چیزیں سونے کے ہوں گے اور جنت عدن سے جنتیوں کے اپنے رب کے دیدار میں کوئی چیز سوائے کبریائی کی چادر کے جو اس کے منہ پر ہو گی، حائل نہ ہو گی۔

حُورٌ مَقْصُورَاتٌ فِي الْخِيَامِ

 گوریاں  ٹھہرائی ہوئی خیموں میں۔ (۵۵:۷۲)

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا حور‏ کے معنی کالی آنکھوں والی

مجاہد نے کہا مقصورات‏ کے معنی ان کی نگاہ اور جان اپنے شوہروں پر رکی ہوئی ہو گی وہ اپنے خاوندوں کے سوا اور کسی پر آنکھ نہیں ڈالیں گی ۔

قاصرات ‏‏‏‏ کے معنی اپنے خاوند کے سوا اور کسی کی خواہشمند نہ ہو گی۔

فى الخيام کے معنی خیموں میں محفوظ ہوں گی۔

حدیث نمبر ۴۸۷۹

راوی: عبداللہ بن قیس ابوموسیٰ اشعری

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں کھوکھلے موتی کا خیمہ ہو گا، اس کی چوڑائی ساٹھ میل ہو گی اور اس کے ہر کنارے پر مسلمان کی ایک بیوی ہو گی ایک کنارے والی دوسرے کنارے والی کو نہ دیکھ سکے گی۔

حدیث نمبر ۴۸۸۰

اور مؤمن ان کے پاس باری باری جائیں گے اور دو باغ ہوں گے جن کے برتن اور تمام دوسری چیزیں چاندی کی ہوں گی اور ایسے بھی دو باغ ہوں گے جب کے برتن اور تمام دوسری چیزیں سونے کی ہوں گی۔ جنت عدن والوں کو اللہ پاک کے دیدار میں صرف ایک جلال کی چادر حائل ہو گی جو اس کے مبارک منہ پر پڑی ہو گی۔

سورۃ الواقعہ کی تفسیر

مجاہد نے کہا رجت‏ کا معنی ہلائی جائے۔

  بست‏ چور چور کئے جائیں گے اور ستو کی طرح لت پت کر دیئے جائیں گے۔

المخضود بوجھ لدے ہوئے یا جن میں کانٹا نہ ہو۔

منضود‏ ، موز کیلا۔

  عربا اپنے خاوند کی پیاری بیوی۔

  ثلة‏ اُمت گروہ۔

حموم‏ کالا دھواں۔

  يصرون‏ ہٹ دھرمی کرتے، ہمیشہ کرتے تھے۔

  الهيم پیاسے اونٹ۔

  لمغرمون‏ ٹوٹے میں آ گئے، ڈنڈ ہوا۔

روح‏ بہشت، آرام، راحت۔

  ريحان‏ رزق، روزی۔

وننشأكم‏ فيما لا تعلمون یعنی جس صورت میں ہم چاہیں تم کو پیدا کریں۔

تفكهون‏ کا معنی تعجبون تعجب کرتے جائیں۔ عربا‏ مثقلة ‏‏‏‏ یعنی ضمہ کے ساتھ عروب کی جمع جیسے صبور کی جمع صبر آتی ہے عروب خوبصورت پیاری عورت مکہ والے ایسی عورت کو عربة کہتے ہیں۔ اور مدینہ والے غنجة اور عراق والے الشكلة‏ کہتے ہیں۔

خافضة‏ ایک قوم کو نیچا دکھانے والی یعنی دوزخ میں لے جانے والی۔

  رافعة‏ ایک قوم کو بلند کرنے والے یعنی بہشت میں لے جانے والی۔

  موضونة‏ سونے سے بنے ہوئے، اسی سے نکلا ہے

وضين الناقة یعنی اونٹنی کا زیر بند تنگ ۔

كوب آبخورہ جس میں ٹونٹی اور کنڈا نہ ہو۔ اكوب جمع ہے

ابريق وہ کوزہ جس میں ٹونٹی کنڈہ ہو۔ اباريق اس کی جمع ہے۔

  مسكوب‏ بہتا ہوا، جاری۔

وفرش مرفوعة‏ اونچے بچھونے یعنی ایک کے اوپر ایک تلے اوپر بچھائے گئے۔

  مترفين‏ کا معنی آسودہ، آرام پروردہ تھے۔

  ما تمنون‏ نطفہ جو عورتوں کے رحموں میں ڈالتے ہو۔

  للمقوين‏ مسافروں کے فائدے کے لئے  یہ قي سے نکلا ہے قي کہتے ہیں بےآب و گیاہ میدان کو۔

  بمواقع النجوم‏ سے قرآن کی محکم آیتیں مراد ہیں بعضوں نے کہا تارے ڈوبنے کے مقامات۔

واقع جمع ہے، اس کا واحد موقع دونوں کا جب مضاف ہوں ایک ہی معنی ہے۔

مدهنون‏ جھٹلانے والے جیسے اس آیت میں ہے لو تدهن فيدهنون‏ فسلام لك‏ من أصحاب اليمين کا یہ معنی ہے۔ مسلم لك إنك من أصحاب اليمين یعنی یہ بات مان لی گئی ہے چاہے کہ تو داہنے ہاتھ والوں میں سے ہے تو ان کا لفظ گرا دیا گیا مگر اس کا معنی قائم رکھا گیا اس کی مثال یہ ہے کہ مثلاً کوئی کہے میں اب تھوڑی دیر میں سفر کرنے والا ہوں اور تو اس سے کہے أنت مصدق مسافر عن قليل یہاں بھی أن محذوف ہے یعنی أنت مصدق أنك مسافر عن قليل کبھی سلام کا لفظ بطور دعا کے مستعمل ہوتا ہے اگر مرفوع ہو جیسے فسقيا نصب کے ساتھ دعا کے معنوں میں آتا ہے یعنی اللہ تجھ کو سیراب کرے۔

  تورون‏ سلگاتے ہو آگ نکالتے ہو

  أوريت سے یعنی میں نے سلگایا،

  لغو، باطل، جھوٹ۔

  تأثيما‏ جھوٹ، غلط۔

وَظِلٍّ مَمْدُودٍ

اور جنت کے درختوں کا بہت ہی لمبا سایہ ہو گا (۵۶:۳۰)

حدیث نمبر ۴۸۸۱

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں ایک درخت طویل ہو گا اتنا بڑا کہ سوار اس کے سایہ میں سو سال تک چلے گا اور پھر بھی اس کا سایہ ختم نہ ہو گا اگر تمہارا جی چاہے تو اس آیت وظل ممدود‏ کی قرأت کر لو۔

سورۃ الحدید کی تفسیر

مجاہد نے کہا جعلكم مستخلفين‏ فيه‏ یعنی جس نے زمین میں تم کو بسایا، جانشین کیا، آباد کیا۔

مجاہد نے کہا جعلكم مستخلفين‏ فيه‏ یعنی جس نے زمین میں تم کو بسایا، جانشین کیا، آباد کیا۔

من الظلمات إلى النور‏ یعنی گمراہی سے ہدایت کی طرف۔

  ومنافع للناس‏ یعنی تم لوہے سے ڈھال اور ہتھیار وغیرہ بناتے ہو۔

  مولاكم‏ یعنی آگ تمہارے لئے زیادہ سزاوار ہے۔

  لئلا يعلم أهل الكتاب‏ تاکہ اہل کتاب جان لیں الا زائد ہے ۔

  الظاهر علم کی رو سے۔

الباطن علم کی رو سے۔

  أنظرونا‏ بفتح ہمزہ و کسرہ ظاء ایک قرأت ہے یعنی ہمارا انتظار کرو۔

سورۃ المجادلہ کی تفسیر

مجاہد نے کہا يحادون‏ الله‏ کا معنی اللہ کی مخالفت کرتے ہیں۔

كبتوا‏ ذلیل کئے گئے۔

استحوذ‏ غالب ہو گیا۔

سورۃ الحشر کی تفسیر

لفظ الجلاء‏ کے معنی ایک زمین سے دوسری زمین کی طرف نکال دینا جسے جلا وطنی کہتے ہیں۔

حدیث نمبر ۴۸۸۲

راوی: سعید بن جبیر

میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے سورۃ التوبہ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا یہ سورۃ التوبہ کی ہے یا فضیحت کرنے والی ہے اس سورت میں برابر یہی اترتا رہا بعض لوگ ایسے ہیں اور بعض لوگ ایسے ہیں یہاں تک کہ لوگوں کو گمان ہوا یہ سورت کسی کا کچھ بھی نہیں چھوڑے گی بلکہ سب کے بھید کھول دے گی۔

 بیان کیا کہ میں نے سورۃ الانفال کے متعلق پوچھا تو فرمایا کہ یہ جنگ بدر کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔

 بیان کیا کہ میں نے سورۃ الحشر کے متعلق پوچھا تو فرمایا کہ قبیلہ بنو نضیر کے یہود کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔

حدیث نمبر ۴۸۸۳

راوی: سعید بن جبیر

 میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سورۃ الحشر کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا بلکہ اسے سورۃ النضیر کہا۔

مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ

جو کھجوروں کے درخت تم نے کاٹے (۵۹:۵)

آیت میں لينة بمعنی نخلة ہے جس کا معنی کھجور ہے جب کہ وہ عجوہ یا برنی نہ ہو یعنی کھجور مراد ہیں۔

حدیث نمبر ۴۸۸۴

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کے کھجوروں کے درخت جلا دیئے تھے اور انہیں کاٹ ڈالا تھا۔ یہ درخت مقام بویرہ میں تھے پھر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے آیت نازل کی

مَا قَطَعۡتُم مِّن لِّينَةٍ أَوۡ تَرَڪۡتُمُوهَا قَآٮِٕمَةً عَلَىٰٓ أُصُولِهَا فَبِإِذۡنِ ٱللَّهِ وَلِيُخۡزِىَ ٱلۡفَـٰسِقِينَ

جو کھجوروں کے درخت تم نے کاٹے یا انہیں ان کی جڑوں پر قائم رہنے دیا سو یہ دونوں اللہ ہی کے حکم کے موافق ہیں اور تاکہ نافرمانوں کو ذلیل کرے۔(۵۹:۵)

مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ

اور جو کچھ اللہ نے اپنے رسول کو ان سے بطور فے دلوایا (۵۹:۷)

حدیث نمبر ۴۸۸۵

راوی: عمر رضی اللہ عنہ

بنی نضیر کے اموال کو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بغیر لڑائی کے دیا تھا۔ مسلمانوں نے اس کے لئے  گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے۔ ان اموال کا خرچ کرنا خاص طور سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں تھا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے ازواج مطہرات کا سالانہ خرچ دیتے تھے اور جو باقی بچتا تھا اس سے سامان جنگ اور گھوڑوں کے لئے  خرچ کرتے تھے تاکہ اللہ رب العزت کے راستہ میں جہاد کے موقع پر کام آئیں۔

وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ

اے مسلمانو ! اور رسول تمہیں جو کچھ دیں اسے لے لیا کرو اور جس سے آپ روکیں اس سے رک جایا کرو (۵۹:۷)

حدیث نمبر ۴۸۸۶

راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

اللہ تعالیٰ نے گودوانے والیوں اور گودنے والیوں پر لعنت بھیجی ہے چہرے کے بال اکھاڑنے والیوں اور حسن کے لئے  آگے کے دانتوں میں کشادگی کرنے والیوں پر لعنت بھیجی ہے کہ یہ اللہ کی پیدا کی ہوئی صورت میں تبدیلی کرتی ہیں۔

 عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ کلام قبیلہ بنی اسد کی ایک عورت کو معلوم ہوا جو ام یعقوب کے نام سے معروف تھی وہ آئی اور کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ نے اس طرح کی عورتوں پر لعنت بھیجی ہے؟

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا آخر کیوں نہ میں انہیں لعنت کروں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے اور جو کتاب اللہ کے حکم کے مطابق ملعون ہے۔ اس عورت نے کہا کہ قرآن مجید تو میں نے بھی پڑھا ہے لیکن آپ جو کچھ کہتے ہیں میں نے تو اس میں کہیں یہ بات نہیں دیکھی۔ انہوں نے کہا کہ اگر تم نے بغور پڑھا ہوتا تو تمہیں ضرور مل جاتا کیا تم نے یہ آیت نہیں پڑھی وَمَآ ءَاتَٮٰكُمُ ٱلرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَہَٮٰكُمۡ عَنۡهُ فَٱنتَهُواْ‌ۚ‏ کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں جو کچھ دیں لے لیا کرو اور جس سے تمہیں روک دیں، رک جایا کرو۔

 اس نے کہا کہ پڑھی ہے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چیزوں سے روکا ہے۔ اس پر عورت نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ آپ کی بیوی بھی ایسا کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اچھا جاؤ اور دیکھ لو۔ وہ عورت گئی اور اس نے دیکھا لیکن اس طرح کی ان کے یہاں کوئی معیوب چیز اسے نہیں ملی۔ پھر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر میری بیوی اسی طرح کرتی تو بھلا وہ میرے ساتھ رہ سکتی تھی؟ ہرگز نہیں۔

حدیث نمبر ۴۸۸۷

راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر کے قدرتی بالوں کے ساتھ مصنوعی بال لگانے والیوں پر لعنت بھیجی تھی۔

عبدالرحمٰن بن عابس نے کہا کہ میں نے بھی ام یعقوب نامی ایک عورت سے سنا تھا وہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ منصور کی حدیث کے مثل بیان کرتی تھی۔

وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالإِيمَانَ

اور ان لوگوں کا بھی حق ہے جو دارالسلام اور ایمان میں ان سے پہلے ہی ٹھکانا پکڑے ہوئے ہیں ، آیت میں انصار مراد ہیں ۔(۵۹:۹)

حدیث نمبر ۴۸۸۸

راوی: عمرو بن میمون

 عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے زخمی ہونے کے بعد انتقال سے پہلے فرمایا تھا میں اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کو مہاجرین اولین کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ وہ ان کا حق پہچانے اور میں اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کو انصار کے بارے میں وصیت کرتا ہوں جو دارالسلام اور ایمان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے پہلے ہی سے قرار پکڑے ہوئے ہیں یہ کہ ان میں جو نیکوکار ہیں ان کی عزت کرے اور ان کے غلط کاروں سے درگزر کرے۔

وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ

اور اپنے سے مقدم رکھتے ہیں (۵۹:۹)

الخصاصة کے معنی فاقہ کے ہیں۔

  المفلحون ہمیشہ کامیاب رہنے والے۔

  الفلاح باقی رہنا۔

حي على الفلاح بقا کی طرف جلد آؤ یعنی اس کام کی طرف جس سے حیات ابدی حاصل ہو

امام حسن بصری نے کہا لا يجيدون في صدورهم ، حاجة میں حاجت سے حسد مراد ہے۔

حدیث نمبر ۴۸۸۹

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک صاحب خود ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! میں فاقہ سے ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ازواج مطہرات کے پاس بھیجا کہ وہ آپ کی دعوت کریں لیکن ان کے پاس کوئی چیز کھانے کی نہیں تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا کوئی شخص ایسا نہیں جو آج رات اس مہمان کی میزبانی کرے؟ اللہ اس پر رحم کرے گا۔

اس پر ایک انصاری صحابی ابوطلحہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! یہ آج میرے مہمان ہیں پھر وہ انہیں اپنے ساتھ گھر لے گئے اور اپنی بیوی سے کہا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان ہیں، کوئی چیز ان سے بچا کے نہ رکھنا۔ بیوی نے کہا اللہ کی قسم میرے پاس اس وقت بچوں کے کھانے کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہے۔ انصاری صحابی نے کہا اگر بچے کھانا مانگیں تو انہیں سلا دو اور آؤ یہ چراغ بھی بجھا دو، آج رات ہم بھوکے ہی رہ لیں گے۔ بیوی نے ایسا ہی کیا۔

 پھر وہ انصاری صحابی صبح کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فلاں انصاری صحابی اور ان کی بیوی کے عمل کو پسند فرمایا۔ یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ مسکرایا پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی وَيُؤۡثِرُونَ عَلَىٰٓ أَنفُسِہِمۡ وَلَوۡ كَانَ بِہِمۡ خَصَاصَةٌ۬‌ۚ یعنی اور اپنے سے مقدم رکھتے ہیں اگرچہ خود فاقہ میں ہی ہوں۔

سورۃ الممتحنہ کی تفسیر

مجاہد نے کہا لَا تَتَّخِذُواْ عَدُوِّى وَعَدُوَّكُمۡ أَوۡلِيَآءَ کا معنی یہ ہے کہ کافروں کے ہاتھوں سے ہم کو تکلیف نہ پہنچا، وہ یوں کہنے لگیں اگر ان مسلمانوں کا دین سچا ہوتا تو یہ ہمارے ہاتھ سے مغلوب کیوں ہوتے ایسی تکلیفیں کیوں اٹھاتے۔

 بعصم الكوافر‏ سے یہ مراد ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو یہ حکم ہوا کہ ان کافر عورتوں کو چھوڑ دیں جو مکہ میں بحالت کفر رہ گئیں ہیں۔

لاَ تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بناؤ (۶۰:۱)

حدیث نمبر ۴۸۹۰

راوی: علی رضی اللہ عنہ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے، زبیر اور مقداد رضی اللہ عنہما کو روانہ کیا اور فرمایا کہ چلے جاؤ اور جب مقام خاخ کے باغ پر پہنچ جاؤ گے جو مکہ اور مدینہ کے درمیان تھ تو وہاں تمہیں ہودج میں ایک عورت ملے گی، اس کے ساتھ ایک خط ہو گا، وہ خط تم اس سے لے لینا۔

 چنانچہ ہم روانہ ہوئے ہمارے گھوڑے ہمیں تیز رفتاری کے ساتھ لے جا رہے تھے۔ آخر جب ہم اس باغ پر پہنچے تو واقعی وہاں ہم نے ہودج میں اس عورت کو پا لیا ہم نے اس سے کہا کہ خط نکال۔ اس نے کہا میرے پاس کوئی خط نہیں ہے ہم نے اس سے کہا کہ خط نکال دے ورنہ ہم تیرا سارا کپڑا اتار کر تلاشی لیں گے۔ آخر اس نے اپنی چوٹی سے خط نکالا ہم لوگ وہ خط لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔

 اس خط میں لکھا ہوا تھا کہ حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مشرکین کے چند آدمیوں کی طرف جو مکہ میں تھے اس خط میں انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تیاری کا ذکر لکھا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک بڑی فوج لے کر آتے ہیں تم اپنا بچاؤ کر لو ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا حاطب! یہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے معاملہ میں جلدی نہ فرمائیں میں قریش کے ساتھ بطور حلیف زمانہ قیام مکہ میں رہا کرتا تھا لیکن ان کے قبیلہ و خاندان سے میرا کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس کے برخلاف آپ کے ساتھ جو دوسرے مہاجرین ہیں ان کی قریش میں رشتہ داریاں ہیں اور ان کی رعایت سے قریش مکہ میں رہ جانے والے ان کے اہل و عیال اور مال کی حفاظت کرتے ہیں۔ میں نے چاہا کہ جبکہ ان سے میرا کوئی نسبی تعلق نہیں ہے تو اس موقع پر ان پر ایک احسان کر دوں اور اس کی وجہ سے وہ میرے رشتہ داروں کی مکہ میں حفاظت کریں۔ یا رسول اللہ! میں نے یہ عمل کفر یا اپنے دین سے پھر جانے کی وجہ سے نہیں کیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یقیناً انہوں نے تم سے سچی بات کہہ دی ہے۔

 عمر رضی اللہ عنہ بولے کہ یا رسول اللہ! مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن مار دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ بدر کی جنگ میں ہمارے ساتھ موجود تھے۔ تمہیں کیا معلوم، اللہ تعالیٰ بدر والوں کے تمام حالات سے واقف تھا اور اس کے باوجود ان کے متعلق فرما دیا کہ جو جی چاہے کرو کہ میں نے تمہیں معاف کر دیا۔

عمرو بن دینار نے کہا کہ حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ ہی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی تھی

ـٰٓأَيُّہَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَتَّخِذُواْ عَدُوِّى وَعَدُوَّكُمۡ أَوۡلِيَآءَ

اے ایمان والو! تم میرے دشمن اور اپنے دشمن کو دوست نہ بنا لینا۔(۶۰:۱)

 سفیان بن عیینہ نے کہا کہ مجھے اس کا علم نہیں کہ اس آیت کا ذکر حدیث میں داخل ہے یا نہیں یہ عمرو بن دینار کا قول ہے۔ ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا کہ سفیان بن عیینہ سے حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا آیت لا تتخذوا عدوي‏ انہیں کے بارے میں نازل ہوئی تھی؟ سفیان نے کہا کہ لوگوں کی روایت میں تو یونہی ہے لیکن میں نے عمرو سے حدیث یاد کی اس میں سے ایک حرف بھی میں نے نہیں چھوڑا اور میں نہیں سمجھتا کہ میرے سوا اور کسی نے اس حدیث کو عمرو سے خوب یاد رکھا ہو۔

إِذَا جَاءَكُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ

جب تمہارے پاس ایمان والی عورتیں ہجرت کر کے آئیں (۶۰:۱۰)

حدیث نمبر ۴۸۹۱

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت کے نازل ہونے کے بعد ان مؤمن عورتوں کا امتحان لیا کرتے تھے جو ہجرت کر کے مدینہ آتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا تھا يا أيها النبي إذا جاءك المؤمنات يبايعنك۔۔۔ غفور رحيم ‏ کہ اے نبی! جب آپ سے مسلمان عورتیں بیعت کرنے کے لئے  آئیں ۔۔۔

عروہ ذیلی راوی نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا چنانچہ جو عورت اس شرط آیت میں مذکور یعنی ایمان وغیرہ کا اقرار کر لیتی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس سے زبانی طور پر فرماتے کہ میں نے تمہاری بیعت قبول کر لی اور ہرگز نہیں، اللہ کی قسم! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ نے کسی عورت کا ہاتھ بیعت لیتے وقت کبھی نہیں چھوا صرف آپ ان سے زبانی بیعت لیتے تھے کہ آیت میں مذکورہ باتوں پر قائم رہنا

إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ

اے رسول ! جب ایمان والی عورتیں آپ کے پاس آئیں تاکہ وہ آپ سے بیعت کریں (۶۰:۱۲)

حدیث نمبر ۴۸۹۲

راوی: ام عطیہ رضی اللہ عنہا

ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تو آپ نے ہمارے سامنے اس آیت کی تلاوت کی أَن لَّا يُشۡرِكۡنَ بِٱللَّهِ شَيۡـًٔ۬ا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی اور ہمیں نوحہ یعنی میت پر زور زور سے رونا پیٹن کرنے سے منع فرمایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ممانعت پر ایک عورت خود ام عطیہ رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور عرض کیا کہ فلاں عورت نے نوحہ میں میری مدد کی تھی، میں چاہتی ہوں کہ اس کا بدلہ چکا آؤں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا چنانچہ وہ گئیں اور پھر دوبارہ آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔

حدیث نمبر ۴۸۹۳

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

اللہ تعالیٰ کے ارشاد وَلَا يَعۡصِينَكَ فِى مَعۡرُوفٍ۬‌ۙ یعنی اور بھلی باتوں اور اچھے کاموں میں آپ کی نافرمانی نہ کریں گی۔ کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ بھی ایک شرط تھی جسے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کے وقت عورتوں کے لئے  ضروری قرار دیا تھا۔

حدیث نمبر ۴۸۹۴

راوی: عبادہ بن صاُمت رضی اللہ عنہ

 ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم مجھ سے اس بات پر بیعت کرو گے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ گے اور نہ زنا کرو گے اور نہ چوری کرو گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ النساء کی آیتیں پڑھیں۔

پھر تم میں سے جو شخص اس شرط کو پورا کرے گا تو اس کا اجر اللہ پر ہے اور جو کوئی ان میں سے کسی شرط کی خلاف ورزی کر بیٹھا اور اس پر اسے سزا بھی مل گئی تو سزا اس کے لئے  کفارہ بن جائے گی لیکن کسی نے اپنے کسی عہد کے خلاف کیا اور اللہ نے اسے چھپا لیا تو وہ اللہ کے حوالے ہے اللہ چاہے تو اسے اس پر عذاب دے اور اگر چاہے معاف کر دے۔

حدیث نمبر ۴۸۹۵

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہارون بن معروف نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا کہ مجھے ابن جریج نے خبر دی، انہیں حسن بن مسلم نے خبر دی، انہیں طاؤس نے اور ان سے نے بیان کیا کہ

 میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر اور عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ عیدالفطر کی نماز پڑھی ہے۔ ان تمام بزرگوں نے نماز خطبہ سے پہلے پڑھی تھی اور خطبہ بعد میں دیا تھا ایک مرتبہ خطبہ سے فارغ ہونے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اترے گویا اب بھی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں، جب آپ لوگوں کو اپنے ہاتھ کے اشارے سے بٹھا رہے تھے پھر آپ صف چیرتے ہوئے آگے بڑھے اور عورتوں کے پاس تشریف لائے۔ بلال رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ تھے پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی

يَـٰٓأَيُّہَا ٱلنَّبِىُّ إِذَا جَآءَكَ ٱلۡمُؤۡمِنَـٰتُ ... بَيۡنَ أَيۡدِيہِنَّ وَأَرۡجُلِهِنَّ

اے نبی! جب مؤمن عورتیں آپ کے پاس آئیں کہ آپ سے ان باتوں پر بیعت کریں کہ اللہ کے ساتھ نہ کسی کو شریک کریں گی اور نہ چوری کریں گی اور نہ بدکاری کریں گی

اور نہ اپنے بچوں کو قتل کریں گی اور نہ بہتان لگائیں گی جسے اپنے ہاتھ اور پاؤں کے درمیان گھڑ لیں (۶۰:۱۲)

آپ نے پوری آیت آخر تک پڑھی۔

 جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم آیت پڑھ چکے تو فرمایا تم ان شرائط پر قائم رہنے کا وعدہ کرتی ہو؟ ان میں سے ایک عورت نے جواب دیا جی ہاں یا رسول اللہ! ان کے سوا اور کسی عورت نے شرم کی وجہ سے کوئی بات نہیں کہی۔ پھر عورتوں نے صدقہ دینا شروع کیا اور بلال رضی اللہ عنہ نے اپنا کپڑا پھیلا لیا۔ عورتیں بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑے میں چھلے اور انگوٹھیاں ڈالنے لگیں۔

سورۃ الصف کی تفسیر

مجاہد نے کہا من أنصاري إلى الله‏ کا معنی یہ ہے کہ میرے ساتھ ہو کر کون اللہ کی طرف جاتا ہے

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا مرصوص‏ خوب مضبوطی سے ملا ہوا، جڑا ہوا، اوروں نے کہا سیسہ ملا کر جڑا ہوا۔

مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ

عیسیٰ نے فرمایا کہ میرے بعد ایک رسول آئے گا جس کا نام احمد ہو گا (۶۱:۶)   

حدیث نمبر ۴۸۹۶

راوی: جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپؐ فرما رہے تھے کہ میرے کئی نام ہیں۔ میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں ماحی ہوں کہ جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کفر کو مٹا دے گا اور میں حاشر ہوں کہ اللہ تعالیٰ سب کو حشر میں میرے بعد جمع کرے گا اور میں عاقب ہوں۔ یعنی سب پیغمبروں کے بعد دنیا میں آنے والا ہوں۔

سورۃ الجمعہ کی تفسیر

وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ

 اور ایک اوروں کے واسطے انہی میں سے جو ابھی نہیں ملے ان میں۔(۶۲:۳)

عمر رضی اللہ عنہ نے فامضوا إلى ذكر الله پڑھا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی یاد کی طرف چلو۔

حدیث نمبر ۴۸۹۷

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ سورۃ الجمعہ کی یہ آیتیں نازل ہوئیں وَءَاخَرِينَ مِنۡہُمۡ لَمَّا يَلۡحَقُواْ بِہِمۡ‌ۚاور دوسروں کے لئے  بھی جو ابھی ان میں شامل نہیں ہوئے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہادی اور معلم ہیں

بیان کیا میں نے عرض کی یا رسول اللہ! یہ دوسرے کون لوگ ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا۔ آخر یہی سوال تین مرتبہ کیا۔ مجلس میں سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر ہاتھ رکھ کر فرمایا اگر ایمان ثریا پر بھی ہو گا تب بھی ان لوگوں یعنی فارس والوں میں سے اس تک پہنچ جائیں گے یا یوں فرمایا کہ ایک آدمی ان لوگوں میں سے اس تک پہنچ جائے گا۔

حدیث نمبر ۴۸۹۸

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کی قوم کے کچھ لوگ اسے پا لیں گے۔

وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً۔۔۔

اور جب کبھی انہوں نے اموال تجارت دیکھا ۔۔۔ (۶۲:۱۱)

حدیث نمبر ۴۸۹۹

راوی: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما

جمعہ کے دن سامان تجارت لئے  ہوئے اونٹ آئے ہم اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے انہیں دیکھ کر سوائے بارہ آدمی کے سب لوگ ادھر ہی دوڑ پڑے۔ اس پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ...وَإِذَا رَأَوۡاْ تِجَـٰرَةً أَوۡ لَهۡوًا ٱنفَضُّوٓاْ إِلَيۡہَا یعنی اور بعض لوگوں نے جب کبھی ایک سودے یا تماشے کی چیز کو دیکھا تو اس کی طرف دوڑے ہوئے پھیل گئے۔

سورۃ منافقین کی تفسیر

إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ۔۔۔

جب منافق آپ کے پاس آتے تو کہتے ہیں کہ بیشک ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ۔۔۔ (۶۳:۱)

حدیث نمبر ۴۹۰۰

راوی: زید بن ارقم رضی اللہ عنہما

 میں ایک غزوہ غزوہ تبوک میں تھا اور میں نے منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی کو یہ کہتے سنا کہ جو لوگ مہاجرین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہیں ان پر خرچ نہ کرو تاکہ وہ خود ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا ہو جائیں گے۔ اس نے یہ بھی کہا اب اگر ہم مدینہ لوٹ کر جائیں گے تو عزت والا وہاں سے ذلت والوں کو نکال باہر کرے گا۔

 میں نے اس کا ذکر اپنے چچا سعد بن عبادہ انصاری سے کیا یا عمر رضی اللہ عنہ سے اس کا ذکر کیا۔ انہوں نے اس کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا میں نے تمام باتیں آپ کو سنا دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو بلا بھیجا۔ انہوں نے قسم کھا لی کہا کہ انہوں نے اس طرح کی کوئی بات نہیں کہی تھی۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو جھوٹا سمجھا اور عبداللہ کو سچا سمجھا۔ مجھے اس کا اتنا صدمہ ہوا کہ ایسا کبھی نہ ہوا تھا۔ پھر میں گھر میں بیٹھ رہا۔

 میرے چچا نے کہا کہ میرا خیال نہیں تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری تکذیب کریں گے اور تم پر ناراض ہوں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل کی إِذَا جَآءَكَ ٱلۡمُنَـٰفِقُونَ جب منافق آپ کے پاس آتے ہیں اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلوایا اور اس سورت کی تلاوت کی اور فرمایا کہ اے زید! اللہ تعالیٰ نے تم کو سچا کر دیا ہے۔

اتَّخَذُوا أَيْمَانَهُمْ جُنَّةً} يَجْتَنُّونَ بِهَا

یعنی ان لوگوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے یعنی جس سے وہ اپنے نفاق کی پردہ پوشی کرتے ہیں (۶۳:۲)

حدیث نمبر ۴۹۰۱

راوی: زید بن ارقم رضی اللہ عنہ

میں اپنے چچا سعد بن عبادہ یا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ تھا میں نے عبداللہ بن ابی ابن سلول کو کہتے سنا کہ جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہیں ان پر خرچ مت کرو تاکہ وہ ان کے پاس سے بھاگ جائیں۔ یہ بھی کہا کہ اگر اب ہم مدینہ لوٹ کر جائیں گے تو عزت والا وہاں سے ذلیلوں کو نکال کر باہر کر دے گا۔ میں نے اس کی یہ بات چچا سے آ کر کہی اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو بلوایا انہوں نے قسم کھا لی کہ ایسی کوئی بات انہوں نے نہیں کہی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کو سچا جانا اور مجھ کو جھوٹا سمجھا۔ مجھے اس اتنا صدمہ پہنچا کہ ایسا کبھی نہیں پہنچا ہو گا پھر میں گھر کے اندر بیٹھ گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل کی

إِذَا جَآءَكَ ٱلۡمُنَـٰفِقُونَ قَالُواْ نَشۡہَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ ٱللَّهِ‌ۗ

جب آئیں تیرے پاس منافق کہیں ہم گواہی دیتے ہیں (کہ یقیناً) تو رسول ہے اﷲ کا۔(۶۳:۱)

اور آیت

لَيُخۡرِجَنَّ ٱلۡأَعَزُّ مِنۡہَا ٱلۡأَذَلَّ‌ۚ

تو عزت والا وہاں سے ذلیلوں کو نکال کر باہر کر دے گا ، (۶۳:۸)

تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلوایا اور میرے سامنے اس سورت کی تلاوت کی پھر فرمایا کہ اللہ نے تمہارے بیان کو سچا کر دیا ہے۔

ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا فَطُبِعَ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لاَ يَفْقَهُونَ

یہ اس سبب سے ہے کہ یہ لوگ ظاہر میں ایمان لے آئے پھر دلوں میں کافر ہو گئے سو ان کے دلوں میں مہر لگا دی گئی پس اب یہ نہیں سمجھتے (۶۳:۳)

حدیث نمبر ۴۹۰۲

راوی: زید بن ارقم رضی اللہ عنہ

جب عبداللہ بن ابی ابن سلول نے کہا کہ جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہیں ان پر خرچ نہ کرو یہ بھی کہا کہ اب اگر ہم مدینہ واپس گئے تو ہم سے عزت والا ذلیلوں کو نکال باہر کرے گا تو میں نے یہ خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچائی۔ اس پر کفار نے مجھے ملامت کی اور عبداللہ بن ابی نے قسم کھا لی کہ اس نے یہ بات نہیں کہی تھی پھر میں گھر واپس آ گیا اور سو گیا۔

 اس کے بعد مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے طلب فرمایا اور میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری تصدیق میں آیت نازل کر دی ہے اور یہ آیت اتری ہے

هُمُ ٱلَّذِينَ يَقُولُونَ لَا تُنفِقُواْ ...

وہی ہیں جو کہتے ہیں مت خرچ کرو اُن پر  ...

وَإِذَا رَأَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ أَجْسَامُهُمْ ... فَاحْذَرْهُمْ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ

اے نبی ! تو ان کو دیکھتا ہے تو تجھے ان کے جسم حیران کرتے ہیں ، جب وہ باتیں کرتے ہیں تو تو ان کی بات سنتا ہے گویا وہ بہت بڑی لکڑی کے کھمبے ہیں جن کے ساتھ لوگ تکیہ لگاتے ہیں ،

ہر ایک زور دار آواز کو اپنے ہی برخلاف جانتے ہیں پس تم اے نبی ! ان دشمنوں سے بچتے رہو ، ان پر اللہ کی مار ہو کہاں کو بہکے جاتے ہیں (۶۳:۴)

حدیث نمبر ۴۹۰۳

راوی: زید بن ارقم رضی اللہ عنہ

 ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر غزوہ تبوک یا بنی مصطلق میں تھے جس میں لوگوں پر بڑے تنگ اوقات آئے تھے۔ عبداللہ بن ابی نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہیں ان پر کچھ خرچ مت کرو تاکہ وہ ان کے پاس سے منتشر ہو جائیں گے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اگر ہم اب مدینہ لوٹ کر جائیں گے تو عزت والا وہاں سے ذلیلوں کو نکال باہر کرے گا۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر ان کی اس گفتگو کی اطلاع دی تو آپ نے عبداللہ بن ابی ابن سلول کو بلا کر پوچھا۔ اس نے بڑی قسمیں کھا کر کہا کہ میں نے ایسی کوئی بات نہیں کہی۔ لوگوں نے کہا کہ زید رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جھوٹ بولا ہے۔

 لوگوں کی اس طرح کی باتوں سے میں بڑا رنجیدہ ہوا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میری تصدیق فرمائی اور یہ آیت نازل ہوئی ... إِذَا جَآءَكَ ٱلۡمُنَـٰفِقُونَ یعنی جب آپ کے پاس منافق آئے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلایا تاکہ ان کے لئے  مغفرت کی دعا کریں لیکن انہوں نے اپنے سر پھیر لئے ۔

 زید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد خشب مسندة‏‏ گویا وہ بہت بڑے لکڑی کے کھمبے ہیں ان کے متعلق اس لئے  کہا گیا کہ وہ بڑے خوبصورت اور ڈیل ڈول معقول مگر دل میں منافق تھے۔

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا يَسْتَغْفِرْ لَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ لَوَّوْا رُءُوسَهُمْ وَرَأَيْتَهُمْ يَصُدُّونَ وَهُمْ مُسْتَكْبِرُونَ

اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے لئے  استغفار فرما دیں تو وہ اپنا سر پھیر لیتے ہیں اور آپ انہیں دیکھیں گے کہ تکبر کرتے ہوئے وہ کس قدر بےرخی برت رہے ہیں (۶۳:۵)

لودا کا معنی یہ ہے کہ اپنے سر ہنسی، ٹھٹھے کی راہ سے ہلانے لگے۔ بعضوں نے لودا پر تخفیف واؤ لويت سے پڑھا ہے یعنی سر پھیر لیا۔

حدیث نمبر ۴۹۰۴

راوی: زید بن ارقم رضی اللہ عنہما

ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، ان سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے اور ان سے نے بیان کیا کہ

میں نے اپنے چچا کے ساتھ تھا میں نے عبداللہ بن ابی ابن سلول کو کہتے سنا کہ جو لوگ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہیں ان پر کچھ خرچ نہ کرو تاکہ وہ منتشر ہو جائیں اور اگر اب ہم مدینہ واپس لوٹیں گے تو ہم میں سے جو عزت والے ہیں ان ذلیلوں کو نکال باہر کر دیں گے۔ میں نے اس کا ذکر اپنے چچا سے کیا اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ہی کی تصدیق کر دی تو مجھے اس کا اتنا افسوس ہوا کہ پہلے کبھی کسی بات پر نہ ہوا ہو گا، میں غم سے اپنے گھر میں بیٹھ گیا۔

 میرے چچا نے کہا کہ تمہارا کیا ایسا خیال تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں جھٹلایا اور تم پر خفا ہوئے ہیں؟ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی

إِذَا جَآءَكَ ٱلۡمُنَـٰفِقُونَ قَالُواْ نَشۡہَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ ٱللَّهِ‌ۗ

جب منافق آپ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ آپ بیشک اللہ کے رسول ہیں (۶۳:۱)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلوا کر اس آیت کی تلاوت فرمائی اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری تصدیق نازل کر دی ہے۔

سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ أَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ لَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ

ان کے لئے  برابر ہے خواہ آپ ان کے لئے  استغفار کریں یا نہ کریں اللہ تعالیٰ انہیں کسی حال میں نہیں بخشے گا ، بیشک اللہ تعالیٰ ایسے نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا (۶۳:۶)

حدیث نمبر ۴۹۰۵

راوی: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما

 ہم ایک غزوہ غزوہ تبوک میں تھے۔ مہاجرین میں سے ایک آدمی نے انصار کے ایک آدمی کو لات مار دی۔ انصاری نے کہا کہ اے انصاریو! دوڑو اور مہاجر نے کہا اے مہاجرین! دوڑو۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسے سنا اور فرمایا کیا قصہ ہے؟ یہ جاہلیت کی پکار کیسی ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ یا رسول اللہ! ایک مہاجر نے ایک انصاری کو لات سے مار دیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس طرح جاہلیت کی پکار کو چھوڑ دو کہ یہ نہایت ناپاک باتیں ہیں۔

 عبداللہ بن ابی نے بھی یہ بات سنی تو کہا اچھا اب یہاں تک نوبت پہنچ گئی۔ خدا کی قسم! جب ہم مدینہ لوٹیں گے تو ہم سے عزت والا ذلیلوں کو نکال کر باہر کر دے گا۔ اس کی خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچ گئی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے اجازت دیں کہ میں اس منافق کو ختم کر دوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو تاکہ لوگ یہ نہ کہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو قتل کرا دیتے ہیں۔

 جب مہاجرین مدینہ منورہ میں آئے تو انصار کی تعداد سے ان کی تعداد کم تھی۔ لیکن بعد میں ان مہاجرین کی تعداد زیادہ ہو گئی تھی۔

هُمُ الَّذِينَ يَقُولُونَ لاَ تُنْفِقُوا عَلَى ... وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لاَ يَفْقَهُونَ

یہی لوگ تو کہتے ہیں کہ جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہو رہے ہیں ، ان پر خرچ مت کرو ، یہاں تک کہ بھوکے رہ کر وہ آپ ہی خود تتر بتر ہو جائیں

حالانکہ اللہ ہی کے قبضے میں آسمان اور زمین کے خزانے ہیں لیکن منافقین یہ نہیں سمجھتے (۶۳:۷)

حدیث نمبر ۴۹۰۶

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

مقام حرہ میں جو لوگ شہید کر دیئے گئے تھے ان پر مجھے بڑا رنج ہوا۔ زید بن ارقم رضی اللہ عنہما کو میرے غم کی اطلاع پہنچی تو انہوں نے مجھے لکھا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ اے اللہ! انصار کی مغفرت فرما اور ان کے بیٹوں کی بھی مغفرت فرما۔

عبداللہ بن فضل کو اس میں شک تھا کہ آپ نے انصار کے بیٹوں کے بیٹوں کا بھی ذکر کیا تھا یا نہیں۔ انس رضی اللہ عنہ سے ان کی مجلس کے حاضرین میں سے کسی نے سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ زید بن ارقم رضی اللہ عنہما ہی وہ ہیں جن کے سننے کی اللہ تعالیٰ نے تصدیق کی تھی۔

يَقُولُونَ لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ ... وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لاَ يَعْلَمُونَ

منافقوں نے کہا کہ اگر ہم اب مدینہ لوٹ کر جائیں گے تو عزت والا وہاں سے ذلیلوں کو نکال کر باہر کر دے گا ،

حالانکہ عزت تو بس اللہ ہی کے لئے  اور اس کے پیغمبر کے لئے  اور ایمان والوں کے لئے  ہے البتہ منافقین علم نہیں رکھتے۔ (۶۳:۸)

حدیث نمبر ۴۹۰۷

راوی: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما

ہم ایک غزوہ میں تھے، اچانک مہاجرین کے ایک آدمی نے انصاری کے ایک آدمی کو مار دیا۔ انصار نے کہا  اے انصاریو! دوڑو اور مہاجر نے کہا اے مہاجرین! دوڑو۔ اللہ تعالیٰ نے یہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی سنایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کیا بات ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ ایک مہاجر نے ایک انصاری کو مار دیا ہے۔ اس پر انصاری نے کہا کہ اے انصاریو! دوڑو اور مہاجر نے کہا کہ اے مہاجرین! دوڑو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس طرح پکارنا چھوڑ دو کہ یہ نہایت ناپاک باتیں ہیں۔

جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو شروع میں انصار کی تعداد زیادہ تھی لیکن بعد میں مہاجرین زیادہ ہو گئے تھے۔ عبداللہ بن ابی نے کہا اچھا اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے۔ اللہ کی قسم! مدینہ واپس ہو کر عزت والے ذلیلوں کو باہر نکال دیں گے۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ! اجازت ہو تو اس منافق کی گردن اڑا دوں۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں ورنہ لوگ یوں کہیں گے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو قتل کرانے لگے ہیں۔

سورۃ التغابن کی تفسیر

علقمہ نے عبداللہ سے یہ نقل کیا کہ آیت ومن يؤمن بالله يهد قلبه‏ اور جو کوئی اللہ پر ایمان لاتا ہے اللہ اس کے دل کو نور ہدایت سے روشن کر دیتا ہے سے مراد وہ شخص ہے کہ اگر اس پر کوئی مصیبت آ پڑے تو اس پر بھی وہ راضی رہتا ہے بلکہ سمجھتا ہے کہ یہ اللہ ہی کی طرف سے ہے۔

سورۃ الطلاق کی تفسیر

مجاہد نے کہا کہ وبال أمرها‏ ای جزاء أمرها یعنی اس کے گناہ کا وبال جو سزا کی شکل میں ہے اسے بھگتنا ہو گا، وہ مراد ہے۔

حدیث نمبر ۴۹۰۸

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

 انہوں نے اپنی بیوی آمنہ بنت غفار کو جبکہ وہ حائضہ تھیں طلاق دے دی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا۔ آپ اس پر بہت غصہ ہوئے اور فرمایا کہ وہ ان سے اپنی بیوی سے رجوع کر لیں اور اپنے نکاح میں رکھیں یہاں تک کہ وہ ماہواری سے پاک ہو جائے پھر ماہواری آئے اور پھر وہ اس سے پاک ہو، اب اگر وہ طلاق دینا مناسب سمجھیں تو اس کی پاکی طہر کے زمانہ میں ان کے ساتھ ہمبستری سے پہلے طلاق دے سکتے ہیں بس یہی وہ وقت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے مردوں کو حکم دیا ہے کہ اس میں یعنی حالت طہر میں طلاق دیں۔

وَأُولاَتُ الأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا

سو حمل والیوں کی عدت ان کے بچے کا پیدا ہو جانا ہے اور جو کوئی اللہ سے ڈرے اللہ اس کے کام میں آسانی پیدا کر دے گا (۶۵:۴)

اور أولات الأحمال سے مراد ذات حمل ہے جس کے معنی حمل والی عورت ہے۔

حدیث نمبر ۴۹۰۹

راوی: ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن

 ایک شخص ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آیا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ آنے والے نے پوچھا کہ آپ مجھے اس عورت کے متعلق مسئلہ بتائیے جس نے اپنے شوہر کی وفات کے چار مہینے بعد بچہ جنا؟

 ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جس کا خاوند فوت ہو وہ عدت کی دو مدتوں میں جو مدت لمبی ہو اس کی رعایت کرے۔

ابوسلمہ نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا کہ قرآن مجید میں تو ان کی عدت کا یہ حکم ہے حمل والیوں کی عدت ان کے حمل کا پیدا ہو جانا ہے۔

 ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں بھی اس مسئلہ میں اپنے بھتیجے کے ساتھ ہوں۔ ان کی مراد ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے تھی آخر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنے غلام کریب کو ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں بھیجا یہی مسئلہ پوچھنے کے لئے ۔ ام المؤمنین نے بتایا کہ سبیعہ اسلمیہ کے شوہر سعد بن خولہ رضی اللہ عنہم شہید کر دیئے گئے تھے وہ اس وقت حاملہ تھیں شوہر کی موت کے چالیس دن بعد ان کے یہاں بچہ پیدا ہوا پھر ان کے پاس نکاح کا پیغام پہنچا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نکاح کر دیا۔ ابوالسنابل بھی ان کے پاس پیغام نکاح بھیجنے والوں میں سے تھے۔

حدیث نمبر ۴۹۱۰

راوی: محمد بن سیرین

میں ایک مجلس میں جس میں عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ بھی تھے موجود تھا۔ ان کے شاگرد ان کی بہت عزت کیا کرتے تھے۔ میں نے وہاں سبیعہ بنت الحارث کا عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے بیان کیا کہ اس پر ان کے شاگرد نے زبان اور آنکھوں کے اشارے سے ہونٹ کاٹ کر مجھے تنبیہ کی۔

 محمد بن سیرین نے بیان کیا کہ میں سمجھ گیا اور کہا کہ عبداللہ بن عتبہ کوفہ میں ابھی زندہ موجود ہیں۔ اگر میں ان کی طرف بھی جھوٹ نسبت کرتا ہوں تو بڑی جرأت کی بات ہو گی مجھے تنبیہ کرنے والے صاحب اس پر شرمندہ ہو گئے اور عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے کہا لیکن ان کے چچا تو یہ بات نہیں کرتے تھے۔

 ابن سیرین نے بیان کیا کہ پھر میں ابوعطیہ مالک بن عامر سے ملا اور ان سے یہ مسئلہ پوچھا وہ بھی سبیعہ والی حدیث بیان کرنے لگے لیکن میں نے ان سے کہا آپ نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی اس سلسلہ میں کچھ سنا ہے؟ انہوں نے بیان کیا کہ ہم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھے تو انہوں نے کہا کیا تم اس پر جس کے شوہر کا انتقال ہو گیا اور وہ حاملہ ہو۔ عدت کی مدت کو طول دے کر سختی کرنا چاہتے ہو اور رخصت و سہولت دینے کے لئے  تیار نہیں، بات یہ ہے کہ چھوٹی سورۃ نساء یعنی سورۃ الطلاق بڑی سورۃ النساء کے بعد نازل ہوئی ہے اور کہا وأولات الأحمال أجلهن أن يضعن حملهن‏ ۔۔۔  اور حمل والیوں کی عدت ان کے حمل کا پیدا ہو جانا ہے۔

سورۃ التحریم کی تفسیر

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضَاةَ أَزْوَاجِكَ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ

اے نبی ! جس چیز کو اللہ نے آپ کے لئے  حلال کیا ہے اسے آپ اپنے لئے  کیوں حرام قرار دے رہے ہیں ، محض اپنی بیویوں کی خوشی حاصل کرنے کے لئے  

حالانکہ یہ آپ کے لئے  زیبا نہیں ہے اور اللہ بڑا بخشنے والا بڑی ہی رحمت کرنے والا ہے ۔(۶۶:۱)

حدیث نمبر ۴۹۱۱

راوی: سعید بن جبیر

 ابن عباس نے کہا کہ اگر کسی نے اپنے اوپر کوئی حلال چیز حرام کر لی تو اس کا کفارہ دینا ہو گا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا لقد كان لكم في رسول الله إسوة حسنة‏ یعنی بیشک تمہارے لئے  تمہارے رسول اللہ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔

حدیث نمبر ۴۹۱۲

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے گھر میں شہد پیتے اور وہاں ٹھہرتے تھے پھر میں نے اور حفصہ رضی اللہ عنہا نے ایسے کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زینب کے یہاں سے شہد پی کر آنے کے بعد داخل ہوں تو وہ کہے کہ کیا آپ نے پیاز کھائی ہے۔ آپ کے منہ سے مغافیر کی بو آتی ہے۔ چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو منصوبہ بندی کے تحت یہی کہا گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بدبو کو بہت ناپسند فرماتے تھے۔ اس لئے  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے مغافیر نہیں کھائی ہے البتہ زینب بنت جحش کے یہاں سے شہد پیا تھا لیکن اب اسے بھی ہرگز نہیں پیؤں گا۔ میں نے اس کی قسم کھا لی ہے لیکن تم کسی سے اس کا ذکر نہ کرنا۔

تَبْتَغِي مَرْضَاةَ أَزْوَاجِكَ۔۔۔قَدْ فَرَضَ اللَّهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمَانِكُمْ

 اے نبی! تو کیوں حرام کرے جو حلال کیا اﷲ نے تجھ پر؟ چاہتا ہے رضامندی اپنی عورتوں کی۔اور اﷲ بخشنے والا ہے مہربان۔

ٹھہرا (مقرر کر) دیا اﷲ نے تم کو کھول ڈالنا اپنی قسموں کا۔اور اﷲ صاحب ہے تمہارا،اور وہی سب جانتا حکمت والا۔(۶۶:۱،۲)

حدیث نمبر ۴۹۱۳

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

ایک آیت کے متعلق عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے پوچھنے کے لئے  ایک سال تک میں تردد میں رہا، ان کا اتنا ڈر غالب تھا کہ میں ان سے نہ پوچھ سکا۔ آخر وہ حج کے لئے  گئے تو میں بھی ان کے ساتھ ہو لیا، واپسی میں جب ہم راستہ میں تھے تو رفع حاجت کے لئے  وہ پیلو کے درخت میں گئے۔ بیان کیا کہ میں ان کے انتظار میں کھڑا رہا جب وہ فارغ ہو کر آئے تو پھر میں ان کے ساتھ چلا اس وقت میں نے عرض کیا۔ امیرالمؤمنین! امہات المؤمنین میں وہ کون دو عورتیں تھیں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے  متفقہ منصوبہ بنایا تھا؟

انہوں نے بتلایا کہ حفصہ اور عائشہ رضی اللہ عنہما تھیں۔ بیان کیا کہ میں نے عرض کیا اللہ کی قسم میں یہ سوال آپ سے کرنے کے لئے  ایک سال سے ارادہ کر رہا تھا لیکن آپ کے رعب کی وجہ سے پوچھنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ایسا نہ کیا کرو جس مسئلہ کے متعلق تمہارا خیال ہو کہ میرے پاس اس سلسلے میں کوئی علم ہے تو اسے پوچھ لیا کرو، اگر میرے پاس اس کا کوئی علم ہو گا تو تمہیں بتا دیا کروں گا۔

 بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا اللہ کی قسم! جاہلیت میں ہماری نظر میں عورتوں کی کوئی عزت نہ تھی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں وہ احکام نازل کئے جو نازل کرنے تھے اور ان کے حقوق مقرر کئے جو مقرر کرنے تھے۔ بتلایا کہ ایک دن میں سوچ رہا تھا کہ میری بیوی نے مجھ سے کہا کہ بہتر ہے اگر تم اس معاملہ کا فلاں فلاں طرح کرو، میں نے کہا تمہارا اس میں کیا کام۔ معاملہ مجھ سے متعلق ہے تم اس میں دخل دینے والی کون ہوتی ہو؟ میری بیوی نے اس پر کہا خطاب کے بیٹے! تمہارے اس طرز عمل پر حیرت ہے تم اپنی باتوں کا جواب برداشت نہیں کر سکتے تمہاری لڑکی حفصہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی جواب دے دیتی ہیں ایک دن تو اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ بھی کر دیا تھا۔

یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور اپنی چادر اوڑھ کر حفصہ کے گھر پہنچے اور فرمایا بیٹی! کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کا جواب دے دیتی ہو یہاں تک کہ ایک دن تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دن بھر ناراض بھی رکھا ہے۔ حفصہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا جی ہاں، اللہ کی قسم! ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی جواب دے دیتے ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے کہا جان لو میں تمہیں اللہ کی سزا اور اس کے رسول کی سزا ناراضگی سے ڈراتا ہوں۔ بیٹی! اس عورت کی وجہ سے دھوکا میں نہ آ جانا جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت حاصل کر لی ہے۔ ان کا اشارہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف تھا

کہا کہ پھر میں وہاں سے نکل کر ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا کیونکہ وہ بھی میری رشتہ دار تھیں۔ میں نے ان سے بھی گفتگو کی انہوں نے کہا ابن خطاب! تعجب ہے کہ آپ ہر معاملہ میں دخل اندازی کرتے ہیں اور آپ چاہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی ازواج کے معاملات میں بھی دخل دیں۔ اللہ کی قسم! انہوں نے میری ایسی گرفت کی کہ میرے غصہ کو ٹھنڈا کر کے رکھ دیا، میں ان کے گھر سے باہر نکل آیا۔

 میرے ایک انصاری دوست تھے، جب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر نہ ہوتا تو وہ مجلس کی تمام باتیں مجھ سے آ کر بتایا کرتے اور جب وہ حاضر نہ ہوتے تو میں انہیں آ کر بتایا کرتا تھا۔ اس زمانہ میں ہمیں غسان کے بادشاہ کی طرف سے ڈر تھا اطلاع ملی تھی کہ وہ مدینہ پر چڑھائی کرنے کا ارادہ کر رہا ہے، اس زمانہ میں کئی عیسائی اور ایرانی بادشاہ ایسا غلط گھمنڈ رکھتے تھے کہ یہ مسلمان کیا ہیں ہم جب چاہیں گے ان کا صفایا کر دیں گے مگر یہ سارے خیالات غلط ثابت ہوئے اللہ نے اسلام کو غالب کیا۔

چنانچہ ہم کو ہر وقت یہی خطرہ رہتا تھا، ایک دن اچانک میرے انصاری دوست نے دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا کھولو! کھولو! کھولو! میں نے کہا معلوم ہوتا ہے غسانی آ گئے۔ انہوں نے کہا بلکہ اس سے بھی زیادہ اہم معاملہ پیش آ گیا ہے، وہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں سے علیحدگی اختیار کر لی ہے۔ میں نے کہا حفصہ اور عائشہ رضی اللہ عنہما کی ناک غبار آلود ہو۔

چنانچہ میں نے اپنا کپڑا پہنا اور باہر نکل آیا۔ میں جب پہنچا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بالاخانہ میں تشریف رکھتے تھے جس پر سیڑھی سے چڑھا جاتا تھا۔ نبی کریم کا ایک حبشی غلام رباح سیڑھی کے سرے پر موجود تھا، میں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرو کہ عمر بن خطاب آیا ہے اور اندر آنے کی اجازت چاہتا ہے۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ کر اپنا سارا واقعہ سنایا۔ جب میں ام سلمہ رضی اللہ عنہما کی گفتگو پر پہنچا تو آپ کو ہنسی آ گئی۔

اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کی ایک چٹائی پر تشریف رکھتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک اور اس چٹائی کے درمیان کوئی اور چیز نہیں تھی آپ کے سر کے نیچے ایک چمڑے کا تکیہ تھا۔ جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔ پاؤں کی طرف کیکر کے پتوں کا ڈھیر تھا اور سر کی طرف مشکیزہ لٹک رہا تھا۔ میں نے چٹائی کے نشانات آپ کے پہلو پر دیکھے تو رو پڑا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کس بات پر رونے لگے ہو میں نے عرض کی یا رسول اللہ! قیصر و کسریٰ کو دنیا کا ہر طرح کا آرام مل رہا ہے آپ اللہ کے رسول ہیں آپ پھر ایسی تنگ زندگی گزارتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ ان کے حصہ میں دنیا ہے اور ہمارے حصہ میں آخرت ہے۔

وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا ... قَالَ نَبَّأَنِيَ الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ

اور جب نبی نے ایک بات اپنی بیوی سے فرما دی پھر جب آپ کی بیوی نے وہ بات کسی اور بیوی کو بتا دی اور اللہ نے نبی کو اس کی خبر دی تو نبی نے اس کا کچھ حصہ بتلا دیا اور کچھ سے اعراض فرمایا ،

پھر جب نبی نے اس بیوی کو وہ بات بتلا دی تو وہ کہنے لگیں کہ آپ کو کس نے اس کی خبر دی ہے آپ نے فرمایا کہ مجھے علم رکھنے والے اور خبر رکھنے والے اللہ نے خبر دی ہے ۔ ((۶۶:۳))

اس باب میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی بھی ایک حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے۔

حدیث نمبر ۴۹۱۴

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

 میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے ایک بات پوچھنے کا ارادہ کیا اور عرض کیا امیرالمؤمنین! وہ کون دو عورتیں تھیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ستانے کے لئے  منصوبہ بنایا تھا؟ ابھی میں نے اپنی بات پوری بھی نہیں کی تھی کہ انہوں نے کہا وہ عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہما تھیں۔

إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا

اے دونوں بیویو ! اگر تم اللہ کے سامنے توبہ کر لو گی تو بہتر ہے تمہارے دل اس غلط بات کی طرف جھک گئے ہیں (۶۶:۴)

عرب لوگ کہتے ہیں صغوت ای صغوت یعنی میں جھک پڑا لتصغى جو سورۃ الانعام میں ہے جس کا معنی جھک جائیں۔

وَإِن تَظَـٰهَرَا عَلَيۡهِ فَإِنَّ ٱللَّهَ هُوَ مَوۡلَٮٰهُ وَجِبۡرِيلُ وَصَـٰلِحُ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ‌ۖ وَٱلۡمَلَـٰٓٮِٕڪَةُ بَعۡدَ ذَٲلِكَ ظَهِيرٌ  

اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں تم روز نیا حملہ کرتی رہیں تو اس کا مددگار تو اللہ ہے اور جبرائیل ہیں اور نیک مسلمان ہیں اور ان کے علاوہ فرشتے بھی مددگار ہیں۔

  ظهير کا معنی مددگار۔ تظاهرون ایک کی ایک مدد کرتے ہو۔

 مجاہد نے کہا آیت قوا أنفسكم وأهليكم کا مطلب یہ ہے کہ تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اللہ کا ڈر اختیار کرنے کی نصیحت کرو اور انہیں ادب سکھاؤ۔

حدیث نمبر ۴۹۱۵

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

 میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے ان عورتوں کے متعلق سوال کرنا چاہا جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر زور کیا تھا۔ ایک سال اسی فکر میں رہا اور مجھے کوئی موقع نہیں ملتا تھا آخر ان کے ساتھ حج کے لئے  نکلا واپسی میں جب ہم مقام ظہران میں تھے تو عمر رضی اللہ عنہ رفع حاجت کے لئے  گئے۔ پھر کہا کہ میرے لئے  وضو کا پانی لاؤ، میں ایک برتن میں پانی لایا اور ان کو وضو کرانے لگا اس وقت مجھ کو موقع ملا۔ میں نے عرض کیا امیرالمؤمنین! وہ عورتیں کون تھیں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل ایسا کیا تھا؟ ابھی میں نے اپنی بات پوری نہ کی تھی انہوں نے کہا کہ وہ عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہما تھیں۔

عَسَى رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَكُنَّ أَنْ يُبَدِّلَهُ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِنْكُنَّ مُسْلِمَاتٍ مُؤْمِنَاتٍ قَانِتَاتٍ تَائِبَاتٍ عَابِدَاتٍ سَائِحَاتٍ ثَيِّبَاتٍ وَأَبْكَارًا

اور اگر نبی تمہیں طلاق دیدے تو اس کا پروردگار تمہارے بدلے انہیں تم سے بہتر بیویاں دیدے گا ، وہ اسلام لانے والیاں ، پختہ ایمان والیاں ،

فرمانبرداری کرنے والیاں ، توبہ کرنے والیاں ، عبادت کرنے والیاں ، روزہ رکھنے والیاں ، رانڈ بیوہ بھی ہوں گی اور کنواریاں بھی ہوں گی۔ (۶۶:۵)

حدیث نمبر ۴۹۱۶

راوی: انس رضی اللہ عنہ

 عمر رضی اللہ عنہ نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غیرت دلانے کے لئے  جمع ہو گئیں تو میں نے ان سے کہا اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم طلاق دے دیں تو ان کا پروردگار تمہارے بدلے میں انہیں تم سے بہتر بیویاں دیدے گا۔ چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی عسى ربه إن طلقكن ۔۔۔

سورۃ الملک کی تفسیر

التفاوت کا معنی اختلاف، فرق

تفاوت اور تفوت دونوں کا ایک معنی ہے۔

  تميز‏ ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے۔

مناكبها‏ اس کے کناروں میں۔

  تدعون دال کی تشدید اور تدعون دال کے جزم کے ساتھ دونوں کا ایک ہی معنی ہے جیسے تذكرون‏ اور تذكرون‏ ذال کے جزم کے ساتھ کا ایک ہی معنی ہے۔

  يقبضن‏ اپنے پنکھ مارتے ہیں یا سمیٹ لیتے ہیں ۔

مجاہد نے کہا صافات‏ کے معنی اپنے بازو کھولے ہوئے۔

 نفور سے کفر اور شرارت مراد ہے۔

سورۃ ن کی تفسیر

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا يتخافتون چپکے چپکے، کانا پھوسی کرتے ہوئے۔

قتادہ نے کہا حرد کے معنی دل سے کوشش کرنا یا بخیلی یا غصہ۔

 ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا لضالون کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے باغ کی جگہ بھول گئے، بھٹک گئے اور آگے بڑھ گئے۔

صريم کے معنی صبح جو رات سے کٹ کر الگ ہو جاتی ہے یا رات جو دن سے کٹ کر الگ ہو جاتی ہے۔ صريم اس ریتی کو بھی کہتے ہیں جو ریت کے بڑے بڑے ٹیلوں سے کٹ کر الگ ہو جائے۔ صريم ، مصروم کے معنی میں ہے جیسے قتيل ، مقتول کے معنوں میں ہے۔

عُتُلٍّ بَعْدَ ذَلِكَ زَنِيمٍ

وہ کافر سخت مزاج ہے ، اس کے علاوہ بدذات بھی ہیں۔ ۶۸:۱۳

حدیث نمبر ۴۹۱۷

راوی: مجاہد

 ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت عتل بعد ذلك زنيم‏ یعنی وہ ظالم سخت مزاج ہے اس کے علاوہ حرامی بھی ہے۔ کے متعلق فرمایا کہ یہ آیت قریش کے ایک شخص کے بارے میں ہوئی تھی اس کی گردن میں نشانی تھی جیسے بکری میں نشانی ہوتی ہے کہ بعض ان میں کا کوئی عضو بڑھا ہوا ہوتا ہے۔

حدیث نمبر ۴۹۱۸

راوی: حارثہ بن وہب خزاعی رضی اللہ عنہ

میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپؐ رہے تھے کہ میں تمہیں بہشتی آدمی کے متعلق نہ بتا دوں۔ وہ دیکھنے میں کمزور ناتواں ہوتا ہے لیکن اللہ کے یہاں اس کا مرتبہ یہ ہے کہ اگر کسی بات پر اللہ کی قسم کھا لے تو اللہ اسے ضرور پوری کر دیتا ہے اور کیا میں تمہیں دوزخ والوں کے متعلق نہ بتا دوں ہر بدخو، بھاری جسم والا اور تکبر کرنے والا۔

يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ

وہ دن یاد کرو جب پنڈلی کھولی جائے گی۔ ۶۸:۴۲

حدیث نمبر ۴۹۱۹

راوی: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپؐ فرما رہے تھے کہ ہمارا رب قیامت  کے دن اپنی پنڈلی کھولے گا اس وقت ہر مؤمن مرد اور ہر مؤمنہ عورت اس کے لئے  سجدہ میں گر پڑیں گے۔ صرف وہ باقی رہ جائیں گے جو دنیا میں دکھاوے اور ناموری کے لئے  سجدہ کرتے تھے۔ جب وہ سجدہ کرنا چاہیں گے تو ان کی پیٹھ تختہ ہو جائے گی اور وہ سجدہ کے لئے  نہ مڑ سکیں گے۔

سورۃ الحاقہ کی تفسیر

عيشة راضية‏ مرضية‏ ، مرضية‏ کے معنی میں ہے یعنی پسندیدہ عیش۔

  القاضية‏ پہلی موت یعنی کاش پہلی موت جو آئی تھی اس کے بعد میں مرا ہی رہتا پھر زندہ نہ ہوتا۔

  من أحد عنه حاجزين‏ أحد کا اطلاق مفرد اور جمع دونوں پر آتا ہے۔

 ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا وتين‏ سے مراد جان کی رگ جس کے کٹنے سے آدمی مر جاتا ہے۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا طغى‏ الماء یعنی پانی بہت چڑھ گیا۔

بالطاغية‏ اپنی شرارت کی وجہ سے بعضوں نے کہا طاغيه سے آندھی مراد ہے اس نے اتنا زور کیا کہ فرشتوں کے اختیار سے باہر ہو گئی جیسے پانی نے نوح علیہ السلام کی قوم پر زور کیا تھا۔

سورۃ المعارج کی تفسیر

فصيلة نزدیک کا دادا جس کی طرف آدمی کو نسبت دی جاتی ہے۔

  شوى دونوں ہاتھ پاؤں، بدن کے کنارے، سر کی کھال اس کو شواة کہتے ہیں اور جس عضو کے کاٹنے سے آدمی مرتا نہیں ہے وہ شوىہے۔

  عزون گروہ گروہ کا مفرد عزة‏‏ ہے۔

سورۃ نوح کی تفسیر

أطوارا‏ کبھی کچھ کبھی کچھ مثلاً منی پھر گوشت کا لوتھڑا عرب لوگ کہتے ہیں عدا طوره‏ اپنے انداز سے بڑھ گیا۔

  كبار بہ تشدید باء میں كبار سے زیادہ مبالغہ ہے یعنی بہت ہی بڑا، جیسے جمیل خوبصورت، جمال بہت ہی خوبصورت غرض كبار کا معنی بڑا کبھی اس کو كبار تخفیف باء سے بھی پڑھا ہے۔ عرب لوگ کہتے ہیں حسان اور جمال تشدید سے اور حسان اور جمال تخفیف سے ۔

  ديارا‏ ، دور سے نکلا ہے۔ اس کا وزن فيعال ہے اصل میں دیوار تھ جیسے عمر رضی اللہ عنہ نے الحى القيوم‏ کو الحى القيام‏ ‏ پڑھا ہے۔ یہ قیامت  قمت‏ سے نکلا ہے تو اصل میں قيوام تھ ۔ اوروں نے کہا ديارا‏ کے معنی کسی کو تبارا‏ ہلاکت۔

 ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا مدرارا‏ ایک کے پیچھے دوسرا یعنی لگاتار بارش۔

وقارا‏ عظمت بڑائی مراد ہے۔

وَدًّا وَلاَ سُوَاعًا وَلاَ يَغُوثَ وَيَعُوقَ

ود اور سواع اور یغوث اور یعوق اور نسر (۷۱:۲۳)

حدیث نمبر ۴۹۲۰

راوی: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما

جو بت موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں پوجے جاتے تھے بعد میں وہی عرب میں پوجے جانے لگے۔ ود دومۃ الجندل میں بنی کلب کا بت تھا۔ سواع بنی ہذیل کا۔ یغوث بنی مراد کا اور مراد کی شاخ بنی غطیف کا جو وادی اجوف میں قوم سبا کے پاس رہتے تھے یعوق بنی ہمدان کا بت تھا۔ نسر حمیر کا بت تھا جو ذوالکلاع کی آل میں سے تھے۔

یہ پانچوں نوح علیہ السلام کی قوم کے نیک لوگوں کے نام تھے جب ان کی موت ہو گئی تو شیطان نے ان کے دل میں ڈالا کہ اپنی مجلسوں میں جہاں وہ بیٹھے تھے ان کے بت قائم کر لیں اور ان بتوں کے نام اپنے نیک لوگوں کے نام پر رکھ لیں چنانچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اس وقت ان بتوں کی پوجا نہیں ہوتی تھی لیکن جب وہ لوگ بھی مر گئے جنہوں نے بت قائم کئے تھے اور علم لوگوں میں نہ رہا تو ان کی پوجا ہونے لگی۔

سورۃ الجن کی تفسیر

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا لبدا کے معنی مددگار کے ہیں۔

حدیث نمبر ۴۹۲۱

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کے ساتھ سوق عکاظ مکہ اور طائف کے درمیان ایک میدان جہاں عربوں کا مشہور میلہ لگتا تھ کا قصد کیا اس زمانہ میں شیاطین تک آسمان کی خبروں کے چرا لینے میں رکاوٹ پیدا کر دی گئی تھی اور ان پر آسمان سے آگ کے انگارے چھوڑے جاتے تھے جب وہ جِن اپنی قوم کے پاس لوٹ کر آئے تو ان کی قوم نے ان سے پوچھا کہ کیا بات ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ آسمان کی خبروں میں اور ہمارے درمیان رکاوٹ کر دی گئی ہے اور ہم پر آسمان سے آگ کے انگارے برسائے گئے ہیں، انہوں نے کہا کہ آسمان کی خبروں اور تمہارے درمیان رکاوٹ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ کوئی خاص بات پیش آئی ہے۔ اس لئے  ساری زمین پر مشرق و مغرب میں پھیل جاؤ اور تلاش کرو کہ کون سی بات پیش آ گئی ہے۔ چنانچہ شیاطین مشرق و مغرب میں پھیل گئے تاکہ اس بات کا پتہ لگائیں کہ آسمان کی خبروں کی ان تک پہنچنے میں رکاوٹ پیدا کی گئی ہے وہ کس بڑے واقعہ کی وجہ سے ہے۔

 بیان کیا کہ جو شیاطین اس کھوج میں نکلے تھے ان کا ایک گروہ وادی تہامہ کی طرف بھی آ نکلا یہ جگہ مکہ معظمہ سے ایک دن کے سفر کی راہ پر ہے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منڈی عکاظ کی طرف جاتے ہوئے کھجور کے ایک باغ کے پاس ٹھہرے ہوئے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت صحابہ کے ساتھ فجر کی نماز پڑھ رہے تھے۔ جب شیاطین نے قرآن مجید سنا تو یہ اس کو سننے لگ گئے پھر انہوں نے کہا کہ یہی چیز ہے وہ جس کی وجہ سے تمہارے اور آسمان کی خبروں کے درمیان رکاوٹ پیدا ہوئی ہے۔ اس کے بعد وہ اپنی قوم کی طرف لوٹ آئے اور ان سے کہا کہ إنا سمعنا قرآنا عجبا۔۔۔ ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے جو نیکی کی راہ دکھلاتا ہے سو ہم تو اس پر ایمان لے آئے اور ہم اب اپنے پروردگار کو کسی کا ساجھی نہ بنائیں گے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل کی قل أوحي إلى أنه استمع نفر من الجن‏۔۔ ۔ آپ کہئے کہ میرے پاس وحی آئی ہے اس بات کی کہ جِنوں کی ایک جماعت نے قرآن مجید سنا یہی جِنوں کا قول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔

سورۃ المزمل کی تفسیر

مجاہد نے کہا کہ تبتل‏ کے معنی خالص اسی کا ہو جا

امام حسن بصری نے فرمایا أنكالا‏ کا معنی بیڑیاں ہیں۔ منفطر به‏ اس کے سبب سے بھاری ہو جائے گا، بھاری ہو کر پھٹ جائے گا۔

ابن عباس نے کہا كثيبا مهيلا‏ پھسلتی بہتی ریت۔

وبيلا‏ کے معنی سخت کے ہیں۔

سورۃ المدثر کی تفسیر

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا عسير‏ کا معنی سخت۔

 قسورة‏ کا معنی لوگوں کا شور و غل۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا قسورة‏ شیر کو کہتے ہیں اور ہر سخت اور زور دار چیز کو قسورة‏ کہتے ہیں۔

 مستنفرة‏ بھڑکنے والی۔

حدیث نمبر ۴۹۲۲

راوی: یحییٰ بن ابی کثیر

انہوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے پوچھا کہ قرآن مجید کی کون سی آیت سب سے پہلے نازل ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ يا أيها المدثر‏ میں نے عرض کیا کہ لوگ تو کہتے ہیں کہ اقرأ باسم ربك الذي خلق‏ سب سے پہلے نازل ہوئی۔

 ابوسلمہ نے اس پر کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے پوچھا تھا اور جو بات ابھی تم نے مجھ سے کہی وہی میں نے بھی ان سے کہی تھی لیکن جابر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ میں تم سے وہی حدیث بیان کرتا ہوں جو ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی تھی۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میں غار حرا میں ایک مدت کے لئے  خلوت نشیں تھا۔ جب میں وہ دن پورے کر کے پہاڑ سے اترا تو مجھے آواز دی گئی، میں نے اس آواز پر اپنے دائیں طرف دیکھا لیکن کوئی چیز نہیں دکھائی دی۔ پھر بائیں طرف دیکھا ادھر بھی کوئی چیز دکھائی نہیں دی، سامنے دیکھا ادھر بھی کوئی چیز نہیں دکھائی دی۔ پیچھے کی طرف دیکھا اور ادھر بھی کوئی چیز نہیں دکھائی دی۔ اب میں نے اپنا سر اوپر کی طرف اٹھایا تو مجھے ایک چیز دکھائی دی۔ پھر میں خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو اور مجھ پر ٹھنڈا پانی ڈالو۔ فرمایا کہ پھر انہوں نے مجھے کپڑا اوڑھا دیا اور ٹھنڈا پانی مجھ پر بہایا۔ فرمایا کہ پھر یہ آیت نازل ہوئی

يَـٰٓأَيُّہَا ٱلۡمُدَّثِّرُ-قُمۡ فَأَنذِرۡ-وَرَبَّكَ فَكَبِّرۡ

اے کپڑے میں لپٹنے والے! اٹھئیے پھر لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈرایئے اور اپنے پروردگار کی بڑائی بیان کیجئے۔(۷۴:۱,۳)

قُمْ فَأَنْذِرْ

 کھڑا ہو، پھر ڈر سنا (خبردار کر)،(۷۴:۲)

حدیث نمبر ۴۹۲۳

راوی: جابر عبداللہ رضی اللہ عنہما

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں غار حرا میں تنہائی اختیار کئے ہوئے تھا۔

وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ

اور اپنے رب کی بڑائی بول،(۷۴:۳)

حدیث نمبر ۴۹۲۴

راوی: یحییٰ

 میں نے ابوسلمہ سے پوچھا کہ قرآن مجید کی کون سی آیت سب سے پہلے نازل ہوئی تھی؟ فرمایا کہ يا أيها المدثر‏ میں نے کہا کہ مجھے خبر ملی ہے کہ اقرأ باسم ربك الذي خلق‏ سب سے پہلے نازل ہوئی تھی۔

 ابوسلمہ نے بیان کیا کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے پوچھا تھا کہ قرآن کی کون سی آیت سب سے پہلے نازل ہوئی تھی؟ انہوں نے فرمایا کہ يا أيها المدثر‏ اے کپڑے میں لپٹنے والے! میں نے ان سے یہی کہا تھا کہ مجھے خبر ملی ہے کہ اقرأ باسم ربك‏ سب سے پہلے نازل ہوئی تھی تو انہوں نے کہا کہ میں تمہیں وہی خبر دے رہا ہوں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے غار حرا میں تنہائی اختیار کی جب میں وہ مدت پوری کر چکا اور نیچے اتر کر وادی کے بیچ میں پہنچا تو مجھے پکارا گیا۔ میں نے اپنے آگے پیچھے دائیں بائیں دیکھا اور مجھے دکھائی دیا کہ فرشتہ آسمان اور زمین کے درمیان کرسی پر بیٹھا ہے۔ پھر میں خدیجہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو اور میرے اوپر ٹھنڈا پانی ڈالو اور مجھ پر یہ آیت نازل ہوئی

يَـٰٓأَيُّہَا ٱلۡمُدَّثِّرُ-قُمۡ فَأَنذِرۡ-وَرَبَّكَ فَكَبِّرۡ

اے کپڑے میں لپٹنے والے! اٹھئیے پھر لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈرایئے اور اپنے پروردگار کی بڑائی بیان کیجئے۔(۷۴:۱,۳)

وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ

اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھئیے (۷۴:۴)

حدیث نمبر ۴۹۲۵

راوی: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم درمیان میں وحی کا سلسلہ رک جانے کا حال بیان فرما رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں رو رہا تھا کہ میں نے آسمان کی طرف سے آواز سنی۔ میں نے اپنا سر اوپر اٹھایا تو وہی فرشتہ نظر آیا جو میرے پاس غار حرا میں آیا تھا۔ وہ آسمان و زمین کے درمیان کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ میں اس کے ڈر سے گھبرا گیا پھر میں گھر واپس آیا اور خدیجہ سے کہا کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو، مجھے کپڑا اوڑھا دو۔ انہوں نے مجھے کپڑا اوڑھا دیا پھر اللہ تعالیٰ نے آیت يا أيها المدثر۔۔۔ والرجز فاهجر‏ نازل کی۔

 یہ سورت نماز فرض کئے جانے سے پہلے نازل ہوئی تھی الرجز‏ سے مراد بت ہے۔

وَالرِّجْزَ فَاهْجُرْ

اور بتوں سے الگ رہیئے (۷۴:۵)

کہا گیا ہے کہ الرجز‏ اور الرجس عذاب کے معنی میں ہیں۔

حدیث نمبر ۴۹۲۶

راوی: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما

میں نے سنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم درمیان میں وحی کے سلسلے کے رک جانے سے متعلق بیان فرما رہے تھے کہ میں چل رہا تھا کہ میں نے آسمان کی طرف سے آواز سنی۔ اپنی نظر آسمان کی طرف اٹھا کر دیکھا تو وہی فرشتہ نظر آیا جو میرے پاس غار حرا میں آیا تھا۔ وہ کرسی پر آسمان اور زمین کے درمیان میں بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے اسے دیکھ کر اتنا ڈرا کہ زمین پر گر پڑا۔ پھر میں اپنی بیوی کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو، مجھے کپڑا اوڑھا دو! مجھے کپڑا اوڑھا دو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی يا أيها المدثر‏ سے والرجز فاهجر‏ ۔۔۔

ابوسلمہ نے بیان کیا کہ الرجز بت کے معنی میں ہے۔

پھر وحی گرم ہو گئی اور سلسلہ نہیں ٹوٹا۔

سورۃ القیامہ کی تفسیر

لاَ تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ

آپ اس کو یعنی قرآن کو جلدی جلدی لینے کے لئے  اس پر زبان نہ ہلایا جلایا کریں (۷۵:۱۶)

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ سدى یعنی بےقید، آزاد جو چاہے وہ کرے۔

 ليفجر أمامه یعنی انسان ہمیشہ گناہ کرتا رہتا اور یہی کہتا رہتا ہے کہ جلدی توبہ کر لوں گا، جلدی اچھے عمل کروں گا۔

 لا وزر ای لا حصن یعنی پناہ کے لئے  کوئی قلعہ نہیں ملے گا۔

حدیث نمبر ۴۹۲۷

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم سے موسیٰ بن ابی عائشہ نے بیان کیا اور موسیٰ ثقہ تھے، انہوں نے سعید بن جبیر سے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ

ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم سے موسیٰ بن ابی عائشہ نے بیان کیا اور موسیٰ ثقہ تھے، انہوں نے سعید بن جبیر سے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ

 جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر اپنی زبان ہلایا کرتے تھے۔

 سفیان ذیلی راوی نے کہا کہ اس ہلانے سے آپ کا مقصد وحی کو یاد کرنا ہوتا تھا۔

اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی لا تحرك به لسانك لتعجل به‏ آپ جلدی جلدی لینے کے لئے  اس پر زبان نہ ہلایا کریں، اس کا جمع کر دینا اور اس کا پڑھوا دینا، یہ ہر دو کام تو ہمارے ذمہ ہیں۔

إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ  

وہ تو ہمارا ذمہ ہے اس کو سمیٹ رکھنا (جمع کرنا) اور پڑھنا (پڑھوانا)، (۷۵:۱۷ )

حدیث نمبر ۴۹۲۸

راوی: موسیٰ بن ابی عائشہ

انہوں نے سعید بن جبیر سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد لا تحرك به لسانك‏ ... یعنی آپ قرآن کو لینے کے لئے  زبان نہ ہلایا کریں کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہونٹ ہلایا کرتے تھے اس لئے  آپ سے کہا گیا لا تحرك به لسانك‏ ... یعنی وحی پر اپنی زبان نہ ہلایا کریں، اس کا تمہارے دل میں جما دینا اور اس کا پڑھا دینا ہمارا کام ہے۔ جب ہم اس کو پڑھ چکیں یعنی جبرائیل تجھ کو سنا چکیں تو جیسا جبرائیل نے پڑھ کر سنایا تو بھی اس طرح پڑھ۔ پھر یہ بھی ہمارا ہی کام ہے کہ ہم تیری زبان سے اس کو پڑھوا دیں گے۔

فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ

پھر جب ہم اسے پڑھنے لگیں تو آپ اس کے تابع ہو جایا کریں۔ (۷۵:۱۸ )

 ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا قرأناه کے معنی یہ ہیں ہم نے اسے بیان کیا اور فاتبع کا معنی یہ کہ تم اس پر عمل کرو۔

حدیث نمبر ۴۹۲۹

راوی: سعید بن جبیر

ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد د لا تحرك به لسانك لتعجل به‏ الایۃ یعنی آپ اس کو جلدی جلدی لینے کے لئے اس پر زبان نہ ہلایا کریں کے متعلق بتلایا کہ جب جبرائیل آپ پر وحی نازل کرتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زبان اور ہونٹ ہلایا کرتے تھے اور آپ پر یہ بہت سخت گزرتا، یہ آپ کے چہرے سے بھی ظاہر ہوتا تھا۔ اس لئے  اللہ تعالیٰ نے وہ آیت نازل کی جو سورۃ لا أقسم بيوم القيامة‏ میں ہے یعنی لا تحرك به لسانك‏ ۔۔۔ یعنی آپ اس کو جلدی جلدی لینے کے لئے  اس پر زبان نہ ہلایا کریں۔ یہ تو ہمارے ذمہ ہے اس کا جمع کر دینا اور اس کا پڑھوانا، پھر جب ہم اسے پڑھنے لگیں تو آپ اس کے پیچھے یاد کرتے جایا کریں۔ یعنی جب ہم وحی نازل کریں تو آپ غور سے سنیں۔ پھر اس کا بیان کرا دینا بھی ہمارے ذمہ ہے۔ یعنی یہ بھی ہمارے ذمہ ہے کہ ہم اسے آپ کی زبانی لوگوں کے سامنے بیان کرا دیں۔

 بیان کیا کہ چنانچہ اس کے بعد جب جبرائیل علیہ السلام وحی لے کر آتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو جاتے اور جب چلے جاتے تو پڑھتے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے وعدہ کیا تھا۔

 آیت أولى لك فأولى‏ میں تهديد یعنی ڈرانا دھمکانا مراد ہے۔

سورۃ دھر کی تفسیر

هَلْ أَتَى عَلَى الإِنْسَانِ

کبھی ہوا (گزر) ہے انسان پر ایک وقت زمانے  میں،

لفظ هل أتى کا معنی آ چکا۔ هل کا لفظ کبھی تو انکار کے لئے  آتا ہے، کبھی تحقیق کے لئے قد کے معنی میں یہاں قد ہی کے معنی میں ہے۔ یعنی ایک زمانہ انسان پر ایسا آ چکا ہے کہ وہ ذکر کرنے کے قابل چیز نہ تھا، یہ وہ زمانہ ہے جب مٹی سے اس کا پتلا بنایا گیا تھا۔ اس وقت تک جب روح اس میں پھونکی گئی۔

 أمشاج‏ ملی ہوئی چیزیں یعنی مرد اور عورت دونوں کی منی اور خون اور پھٹکی اور جب کوئی چیز دوسری چیز سے ملا دی جائے تو کہتے ہیں مشيج جیسے خليط‏ یعنی ممشوج اور مخلوط بعضوں نے یوں پڑھا ہے سلاسلا وأغلالا‏ بعضوں نے سلاسلا وأغلالا‏ بغیر تنوین کے پڑھا ہے انہوں نے سلاسلا‏ کی تنوین جائز نہیں رکھی۔

 مستطير‏ اس کی برائی پھیلی ہوئی۔

 قمطرير سخت۔ عرب لوگ کہتے ہیں يوم قمطرير ويوم قماطر یعنی سخت مصیبت کا دن۔

 عبوس ، قمطرير ، قماطر، ،قصيب ان چاروں کا معنی وہ دن جس پہ سخت مصیبت آئے

معمر بن عبیدہ نے کہا شددنا أسرهم کے ‏ معنی یہ ہے کہ ہم نے ان کی خلقت خوب مضبوط کی ہے۔ عرب لوگ جس کو تو مضبوط باندھے جیسے پالان، ہودج وغیرہ اس کو مأسور‏ کہتے ہیں۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز فجر میں اکثر پہلی رکعت میں سورۃ الم سجدہ اور دوسری رکعت میں سورۃ هل أتى على الإنسان کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔

سورۃ المرسلات کی تفسیر

اور مجاہد نے کہا جمالات جہاز کی موٹی رسیاں۔

 اركعوا نماز پڑھو۔

 لا يركعون نماز نہیں پڑھتے۔

 کسی نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا یہ قرآن مجید میں اختلاف کیا ہے ایک جگہ تو فرمایا کہ کافر بات نہ کریں گے۔ دوسری جگہ یوں ہے کہ کافر قسم کھا کر کہیں گے کہ ہم دنیا میں مشرک نہ تھے۔ تیسری جگہ یوں ہے کہ ہم ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے۔ انہوں نے کہا قیامت  کے دن کافروں کے مختلف حالات ہوں گے۔ کبھی وہ بات کریں گے، کبھی ان کے منہ پر مہر کر دی جائے گی۔

حدیث نمبر ۴۹۳۰

راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور آپ پر سورۃ والمرسلات نازل ہوئی تھی اور ہم اس کو آپ کے منہ سے سیکھ رہے تھے کہ اتنے میں ایک سانپ نکل آیا۔ ہم لوگ اس کے مارنے کو بڑھے لیکن وہ بچ نکلا اور اپنے سوراخ میں گھس گیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ تمہارے شر سے بچ گیا اور تم اس کے شر سے بچ گئے۔

حدیث نمبر ۴۹۳۱

راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

 ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غار میں تھے کہ آپ پر سورۃ والمرسلات نازل ہوئی۔ ہم نے اسے آپ کے منہ سے یاد کر لیا۔ اس وحی سے آپ کے دہن مبارک کی تازگی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ اتنے میں ایک سانپ نکل پڑا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے زندہ نہ چھوڑو۔ بیان کیا کہ ہم اس کی طرف بڑھے لیکن وہ نکل گیا۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اس کے شر سے بچ گئے اور وہ تمہارے شر سے بچ گیا۔

إِنَّهَا تَرْمِي بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِ

وہ دوزخ بڑے بڑے محل جیسے آگ کے انگارے پھینکے گی (۷۷:۳۲)

حدیث نمبر ۴۹۳۲

راوی: عبدالرحمٰن بن عابس

ابن عباس رضی اللہ عنہما سے آیت إنها ترمي بشرر كالقصر یعنی وہ انگارے برسائے گی جیسے بڑے محل کے متعلق پوچھا اور انہوں نے کہا کہ ہم تین تین ہاتھ کی لکڑیاں اٹھا کر رکھتے تھے۔ ایسا ہم جاڑوں کے لئے  کرتے تھے تاکہ وہ جلانے کے کام آئیں اور ان کا نام قصر رکھتے تھے۔

كَأَنَّهُ جِمَالاَتٌ صُفْرٌ

گویا کہ وہ انگارے پیلے پیلے رنگ والے اونٹ ہیں (۷۷:۳۳ )

حدیث نمبر ۴۹۳۳

راوی: عبدالرحمٰن بن عابس

میں  نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا، آیت ترمي بشرر‏ كالقصر کے متعلق۔ آپ نے فرمایا کہ ہم تین ہاتھ یا اس سے بھی لمبی لکڑیاں اٹھا کر جاڑوں کے لئے  رکھ لیتے تھے۔ ایسی لکڑیوں کو ہم قصر ‏ کہتے تھے، كأنه جمالات صفر‏ سے مراد کشتی کی رسیاں ہیں جو جوڑ کر رکھی جائیں، وہ آدمی کی کمر برابر موٹی ہو جائیں۔

هَذَا يَوْمُ لاَ يَنْطِقُونَ

آج وہ دن ہے کہ اس میں یہ لوگ بول ہی نہیں سکیں گے (۷۷:۳۵)

حدیث نمبر ۴۹۳۴

راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غار میں تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سورۃ والمرسلات نازل ہوئی، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تلاوت کی اور میں نے اسے آپ ہی کے منہ سے یاد کر لیا۔ وحی سے آپ کی منہ کی تازگی اس وقت بھی باقی تھی کہ اتنے میں غار کی طرف ایک سانپ لپکا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے مار ڈالو۔ ہم اس کی طرف بڑھے لیکن وہ بھاگ گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ وہ بھی تمہارے شر سے اس طرح بچ نکلا جیسا کہ تم اس کے شر سے بچ گئے۔

 عمر بن حفص نے کہا مجھے یہ حدیث یاد ہے، میں نے اپنے والد سے سنی تھی، انہوں نے اتنا اور بڑھایا تھا کہ وہ غار منیٰ میں تھا۔

سورۃ عم يتساءلون کی تفسیر

مجاہد نے کہا لا يرجون حسابا‏ کا معنی یہ ہے کہ وہ اعمال کے حساب کتاب سے نہیں ڈرتے۔

لا يملكون منه خطابا‏ یعنی ڈر کے مارے اس سے بات نہ کر سکیں گے مگر جب ان کو بات کرنے کی اجازت ملے گی۔

صوابا یعنی جس نے دنیا میں سچی بات کہی تھی اس پر عمل کیا تھا۔

 ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا وهاجا‏ روشن، چمکتا ہوا۔

غساقا ، غسقت ، عيينه سے نکلا ہے یعنی اس کی آنکھ تاریک ہو گئی، اسی سے ہے۔

 يغسق لجراح یعنی زخم بہہ رہا ہے غساق، غسيق دونوں کا ایک ہی معنی ہے یعنی دوزخیوں کا خون پیپ۔

عطاء حسابا‏ پورا بدلہ عرب لوگ کہتے ہیں أعطاني ما أحسبني‏‏ یعنی مجھ کو اتنا دیا جو کافی ہو گیا۔

يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ فَتَأْتُونَ أَفْوَاجًا

وہ دن کہ جب صور پھونکا جائے گا تو تم گروہ ہو کر آؤ گے ، (۷۸:۱۸)

أفواجا کے معنی زمرا یعنی گروہ گروہ کے ہیں

حدیث نمبر ۴۹۳۵

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو صور پھونکے جانے کے درمیان چالیس فاصلہ ہو گا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگردوں نے پوچھا کیا چالیس دن مراد ہیں؟ انہوں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں پھر شاگردوں نے پوچھا کیا چالیس مہینے مراد ہیں؟ انہوں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں۔ شاگردوں نے پوچھا کیا چالیس سال مراد ہیں؟ کہا کہ مجھے معلوم نہیں۔ کہا کہ پھر اللہ تعالیٰ آسمان سے پانی برسائے گا۔ جس کی وجہ سے تمام مردے جی اٹھیں گے جیسے سبزیاں پانی سے اگ آتی ہیں۔ اس وقت انسان کا ہر حصہ گل چکا ہو گا۔ سوا ریڑھ کی ہڈی کے اور اس سے قیامت  کے دن تمام مخلوق دوبارہ بنائی جائے گی۔

سورۃ والنازعات کی تفسیر

مجاہد نے کہا الآية الكبرى‏ سے مراد موسیٰ علیہ السلام کی عصا اور ان کا ہاتھ ہے۔

عظاما ناخرة اور ناخرة دونوں طرح سے پڑھا ہے جیسے طامع و طمع و باخل و بخيل اور بعضوں نے کہا نخرة اور ناخرة میں فرق ہے۔ نخرة کہتے ہیں گلی ہوئی ہڈی کو اور ناخرة کھوکھلی ہڈی جس کے اندر ہوا جائے تو آواز نکلے

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا حافرة‏ ہماری وہ حالت جو دنیا کی زندگی میں ہے۔ اوروں نے کہا أيان مرساها‏ یعنی اس کی انتہا کہاں ہے یہ لفظ مرسى السفينة سے نکلا ہے۔ یعنی جہاں کشتی آخر میں جا کر ٹھہرتی ہے۔

حدیث نمبر ۴۹۳۶

راوی: سہل بن سعد رضی اللہ عنہ

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہا آپ اپنی بیچ کی انگلی اور انگوٹھے کے قریب والی انگلی کے اشارے سے فرما رہے تھے کہ میں ایسے وقت میں مبعوث ہوا ہوں کہ میرے اور قیامت  کے درمیان صرف ان دو کے برابر فاصلہ ہے۔

سورۃ عبس کی تفسیر

عبس‏ منہ بنایا۔

 تولى منہ پھیر لیا۔

اوروں نے کہا مطهرة‏ دوسری جگہ فرمایا لا يمسها إلا المطهرون ان کو وہی ہاتھ لگاتے ہیں جو پاک ہیں یعنی فرشتے تو محمول کی صفت حامل کی کر دی جیسے فالمدبرأت  أمرا‏ ، فالمدبرأت  سے مراد سوار ہیں جو محمول ہیں مجازا ان کے حاملوں یعنی گھوڑوں کو مدبرأت  کہہ دیا۔ والصحف مطهرة یہاں اصل میں تطهير کتابوں کی صفت ہے ان کے اٹھانے والوں یعنی فرشتوں کو بھی مطهر فرمایا۔

سفرة‏ فرشتے یہ سافر کی جمع ہے عرب لوگ کہتے ہیں سفرت بين القوم یعنی اس نے قوم کے لوگوں میں صلح کرا دی، جو فرشتے اللہ کی وحی لے کر پیغمبروں کو پہنچاتے ہیں ان کو بھی سفير قرار دیا جو لوگوں میں ملاپ کراتا ہے۔ بعضوں نے کہا سفرة‏ کے معنی لکھنے والے

تصدى‏ کے معنی غافل ہو جانا ہے۔

 مجاہد نے کہا لما يقض‏ ما امره کا معنی یہ ہے کہ آدمی کو جس بات کا حکم دیا گیا تھا وہ اس نے پورا پورا ادا نہیں کیا

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ترهقها‏ قترة کا معنی یہ ہے کہ اس پر سختی برس رہی ہو گی۔ مسفرة‏ چمکتے ہوئے۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا سفرة‏ کے معنی لکھنے والے سورۃ الجمعہ میں لفظ أسفارا‏ اسی سے ہے یعنی کتابیں۔ تلهى‏ غافل ہوتا ہے کہتے ہیں الأسفار جو کتابوں کے معنی میں ہے۔ سفربکسر سین کی جمع ہے۔

حدیث نمبر ۴۹۳۷

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شخص کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے اور وہ اس کا حافظ بھی ہے، مکرم اور نیک لکھنے والے فرشتوں جیسی ہے اور جو شخص قرآن مجید باربار پڑھتا ہے۔ پھر بھی وہ اس کے لئے  دشوار ہے تو اسے دوگنا ثواب ملے گا۔

سورۃ إذا الشمس كورت کی تفسیر

إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ

جب سُورج کی دھوپ تہہ ہو جائے، (۸۱:۱)

امام حسن بصری نے کہا سجرت‏ کا معنی یہ ہے کہ سمندر سوکھ جائیں گے، ان میں پانی کا ایک قطرہ بھی باقی نہ رہے گا۔

مجاہد نے کہا مسجور کا معنی جو سورۃ الطور میں ہے بھرا ہو

سجرت‏ کا معنی یہ ہے کہ سمندر پھوٹ کر ایک دوسرے سے مل کر ایک سمندر بن جائیں گے۔

 خنس چلنے کے مقام میں، پھر لوٹ کر آنے والے۔

 كنس ، تكنس سے نکلا ہے یعنی ہرن کی طرح چھپ چھپ جاتے ہیں۔

 تنفس‏ دن چڑھ جائے۔

 ظنين ظاء معجمہ سے یہ بھی ایک قرأت ہے یعنی تہمت لگاتا ہے اور ضنين اس کا معنی یہ ہے کہ وہ اللہ کا پیغام پہنچانے میں بخیل نہیں ہے

عمر رضی اللہ عنہ نے کہا النفوس زوجت‏ یعنی ہر آدمی کا جوڑ لگا دیا جائے گا خواہ جنتی ہو یا دوزخی پھر یہ آیت پڑھی

ٱحۡشُرُواْ ٱلَّذِينَ ظَلَمُواْ وَأَزۡوَٲجَهُمۡ

(حکم ہو گا) جمع کرو گنہگاروں کو، اور انکے جوڑوں (ساتھیوں) کو، (۳۷:۲۲)

عسعس‏جب رات پیٹھ پھیر لے یا جب رات کا اندھیرا آ پڑے۔

سورۃ إِذَا السَّمَاءُ انْفَطَرَتْکی تفسیر

إِذَا السَّمَاءُ انْفَطَرَتْ

جب آسمان چِر (پھٹ) جائے،(۸۲:۱)

ربیع بن خثیم نے کہا فجرت کے معنی بہہ نکلیں

اعمش اور عاصم نے فعدلك کو تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے۔ حجاز والوں نے فعدلك تشدید دال کے ساتھ پڑھا ہے۔ جب تشدید کے ساتھ ہو تو معنی یہ ہو گا کہ بڑی خلقت مناسب اور معتدل رکھی اور تخفیف کے ساتھ پڑھو تو معنی یہ ہو گا جس صورت میں چاہا تجھے بنا دیا خوبصورت یا بدصورت لمبا یا ٹھگنا چھوٹے قد والا۔

وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ

خرابی ہے (ناپ تول میں) گھٹانے والوں کی۔(۸۳:۱)

اور مجاہد نے کہا کہ بل ران‏ کا معنی یہ ہے کہ گناہ ان کے دل پر جم گیا۔ ثوب‏ بدلہ دیئے گئے۔

مطفف وہ ہے جو پورا ماپ تول نہ دے دغا بازی کرے ۔

حدیث نمبر ۴۹۳۸

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس دن لوگ دونوں جہان کے پالنے والے کے سامنے حساب دینے کے لئے  کھڑے ہوں گے تو کانوں کی لو تک پسینہ میں ڈوب جائیں گے۔

إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ

جب آسمان پھٹ جائے۔(۸۴:۱)

حدیث نمبر ۴۹۳۹

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔

لَتَرْكَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ

تم ضرور ہی ایک حالت سے دوسری حالت کو چڑھتے جاؤ گے (۸۴:۱۹)

حدیث نمبر ۴۹۴۰

راوی: مجاہد

 ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا لتركبن طبقا عن طبق‏ یعنی تم کو ضرور ایک حالت کے بعد دوسرے حالت پر پہنچنا ہے۔ بیان کیا کہ یہاں مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کہ آپ کو کامیابی رفتہ رفتہ حاصل ہو گی۔

سورۃ البروج کی تفسیر

مجاہد نے کہا الأخدود‏ زمین میں جو نالی کھودی جائے۔

 فتنوا‏ یعنی تکلیف دی۔

سورۃ الطارق کی تفسیر

مجاہد نے کہا ذات الرجع‏ ، ابر کی صفت ہے تو سماء سے ابر مراد ہے یعنی باربار برسنے والا۔

 ذات الصدع‏ باربار اگانے والی، پھوٹنے والی، یہ زمین کی صفت ہے۔

سورۃ الاعلیٰ کی تفسیر

حدیث نمبر ۴۹۴۱

راوی: براء بن عازب رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مہاجر صحابہ میں سب سے پہلے ہمارے پاس مدینہ تشریف لانے والے مصعب بن عمیر اور ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہما تھے۔ مدینہ پہنچ کر ان بزرگوں نے ہمیں قرآن مجید پڑھانا شروع کر دیا۔ پھر عمار، بلال اور سعد رضی اللہ عنہم آئے۔ اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیس صحابہ کو ساتھ لے کر آئے اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے میں نے کبھی مدینہ والوں کو اتنا خوش ہونے والا نہیں دیکھا تھا، جتنا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر خوش ہوئے تھے۔ بچیاں اور بچے بھی کہنے لگے تھے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں، ہمارے یہاں تشریف لائے ہیں۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ میں تشریف آوری سے پہلے ہی سبح اسم ربك الأعلى‏ اور اس جیسی اور سورتیں پڑھ لی تھیں۔

سورۃ الغاشیہ کی تفسیر

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا عاملة ناصبة‏ سے نصاریٰ مراد ہیں۔

 مجاہد نے کہ عين آنية‏ یعنی گرمی کی حد کو پہنچ گیا اس کے پینے کا وقت آن پہنچا سورۃ الرحمٰن میں حميم آن‏ کا بھی یہی معنی ہے یعنی گرمی کی حد کو پہنچ گیا۔

 لا تسمع فيها لاغية‏ وہاں گالی گلوچ نہیں سنائی دے گی۔

الضريع ایک بھاجی ہے جسے شبرق کہتے ہیں حجاز والے اس کو ضريع کہتے ہیں جب وہ سوکھ جاتی ہے یہ زہر ہے۔

بمصيطر‏ سین سے مطلقاً کڑوی بعضوں نے صاد سے پڑھا ہے بمصيطر‏ ۔

 ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا إيابهم‏ ان کا لوٹنا۔ عاملة ناصبه سے اہل بیعت مراد ہیں۔

سورۃ الفجر کی تفسیر

مجاہد نے کہا وتر سے مراد اللہ تعالیٰ ہے۔

 إرم ذات العماد‏ سے پرانی قوم عاد مراد ہے۔ عماد‏ کے معنی خیمہ کے ہیں، یہ لوگ خانہ بدوش تھے۔ جہاں پانی چارہ پاتے وہیں خیمہ لگا کر رہ جاتے۔

 سوط عذاب‏ کا معنی یہ کہ ان کو عذاب دیا گیا۔

 أكلا لما‏ سب چیز سمیٹ کر کھا جانا۔

 حبا جما‏ بہت محبت رکھنا۔

 مجاہد نے کہا اللہ نے جس چیز کو پیدا کیا وہ شفع جوڑا ہے آسمان بھی زمین کا جوڑا ہے اور وتر صرف اللہ پاک ہی ہے۔

سوط عذاب‏ یہ عرب کا ایک محاورہ ہے جو ہر ایک قسم کے عذاب کو کہتے ہیں من جملہ ان کے ایک کوڑے کا بھی عذاب ہے۔

 لبالمرصاد‏ یعنی اللہ کی طرف سب کو پھر جانا ہے۔

 لا تحاضون‏ الف کے ساتھ جیسے مشہور قرأت ہے محافظت نہیں کرتے ہو بعضوں نے متحضون پڑھا ہے یعنی حکم نہیں دیتے ہو،

المطمئنة‏ وہ نفس جو اللہ کے ثواب پر یقین رکھنے والا ہو، مؤمن، کامل الایمان۔

 امام حسن بصری نے کہا نفس‏ المطمئنة‏ وہ نفس کہ جب اللہ اس کو بلانا چاہے موت آئے تو اللہ کے پاس چین نصیب ہو، اللہ اس سے خوش ہو، وہ اللہ سے خوش ہو۔ پھر اللہ اس کی روح قبض کرنے کا حکم دے اور اس کو بہشت میں لے جائے، اپنے نیک بندوں میں شامل فرما دے۔

جابوا‏ کا معنی کریدکرید کر مکان بنانا یہ جيب سے نکلا ہے جب اس میں جيب لگائی جائے، اسی طرح عرب لوگ کہتے ہیں فلان يجوب الفلاة وہ جنگل قطع کرتا ہے

لما عرب لوگ کہتے ہیں لممته جمع میں اس کے اخیر تک پہنچ گیا۔

سورۃ لا أقسم کی تفسیر

مجاہد نے کہا بهذا البلد‏ سے مکہ مراد ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خاص تیرے لئے  یہ شہر حلال ہوا اوروں کو وہاں لڑنا گناہ ہے۔

والد‏ سے آدم، وما ولد‏ سے ان کی اولاد مراد ہے۔

 لبدا‏ بہت سارا۔

النجدين‏ دو رستے بھلے اور برے۔

مسغبة‏ بھوک۔

 متربة‏ مٹی میں پڑا رہنا مراد ہے۔

 فلا اقتحم العقبة‏ یعنی اس نے دنیا میں گھاٹی نہیں پھاندی پھر گھاٹی پھاندنے کو آگے بیان کیا۔

 برده غلام آزاد کرنا بھوک اور تکلیف کے دن بھوکوں کو کھانا کھلانا۔

سورۃ والشمس وضحاها کی تفسیر

مجاہد نے کہا کہ بطغواها‏ اپنے گناہوں کی وجہ سے۔

ولا يخاف عقباها‏ یعنی اللہ کو کسی کا ڈر نہیں کہ کوئی اس سے بدلہ لے سکے گا۔

حدیث نمبر ۴۹۴۲

راوی: عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک خطبہ میں صالح علیہ السلام کی اونٹنی کا ذکر فرمایا اور اس شخص کا بھی ذکر فرمایا جس نے اس کی کونچیں کاٹ ڈالی تھیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا إذ انبعث أشقاها‏ یعنی اس اونٹنی کو مار ڈالنے کے لئے  ایک مفسد بدبخت قدار نامی کو اپنی قوم میں ابوزمعہ کی طرح غالب اور طاقتور تھا اٹھا۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے حقوق کا بھی ذکر فرمایا کہ تم میں بعض اپنی بیوی کو غلام کی طرح کوڑے مارتے ہیں حالانکہ اسی دن کے ختم ہونے پر وہ اس سے ہمبستری بھی کرتے ہیں۔ پھر آپ نے انہیں ریاح خارج ہونے پر ہنسنے سے منع فرمایا اور فرمایا کہ ایک کام جو تم میں ہر شخص کرتا ہے اسی پر تم دوسروں پر کس طرح ہنستے ہو۔

سورۃ والليل إذا يغشى کی تفسیر

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا وكذب بالحسنى‏ سے یہ مراد ہے کہ اس کو یہ یقین نہیں کہ اللہ کی راہ میں جو خرچ کرے گا اس کا بدلہ اللہ اس کو دے گا

مجاہد نے کہا اذا تردى‏ جب مر جائے۔

 تلظى‏ وہ دوزخ کی آگ بھڑکتی شعلہ مارتی ہے۔

عبید بن عمیر نے تتلظى‏ دو تاء کے ساتھ پڑھا ہے۔

وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّى

اور قسم ہے دن کی جب وہ روشن ہو جائے (۹۲:۲)

حدیث نمبر ۴۹۴۳

راوی: علقمہ بن قیس

 عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگردوں کے ساتھ میں ملک شام پہنچا ہمارے متعلق ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے سنا تو ہم سے ملنے خود تشریف لائے اور دریافت فرمایا تم میں کوئی قرآن مجید کا قاری بھی ہے؟ ہم سے کہا جی ہاں ہے۔ دریافت فرمایا کہ سب سے اچھا قاری کون ہے؟ لوگوں نے میری طرف اشارہ کیا۔ آپ نے فرمایا کہ پھر کوئی آیت تلاوت کرو۔ میں نے والليل إذا يغشى * والنهار إذا تجلى * والذكر والأنثى‏ کی تلاوت کی۔

 ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا تم نے خود یہ آیت اپنے استاد عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی زبانی اسی طرح سنی ہے؟ میں نے کہا جی ہاں۔ انہوں نے اس پر کہا کہ میں نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی یہ آیت اسی طرح سنی ہے، لیکن یہ شام والے ہم پر انکار کرتے ہیں۔

وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالأُنْثَى

اور قسم ہے اس کی جس نے نر اور مادہ کو پیدا کیا  (۹۲:۳)

حدیث نمبر ۴۹۴۴

راوی: ابراہیم نخعی

 عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے کچھ شاگرد ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کے یہاں شام آئے انہوں نے انہیں تلاش کیا اور پا لیا۔ پھر ان سے پوچھا کہ تم میں کون عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت کے مطابق قرأت کر سکتا ہے؟

شاگروں نے کہا کہ ہم سب کر سکتے ہیں۔ پھر پوچھا کسے ان کی قرأت زیادہ محفوظ ہے؟ سب نے علقمہ کی طرف اشارہ کیا۔

انہوں نے دریافت کیا انہیں سورۃ والليل إذا يغشى‏ کی قرأت کرتے کس طرح سنا ہے؟

علقمہ نے کہا کہ والذكر والأنثى‏ بغیر خلق کے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح قرأت کرتے ہوئے سنا ہے۔ لیکن یہ لوگ یعنی شام والے چاہتے ہیں کہ وما خلق الذكر والأنثى‏ پڑھوں۔ اللہ کی قسم میں ان کی پیروی نہیں کروں گا۔

فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى

سو جس نے دیا اور اللہ سے ڈرا اور اس نے اچھی باتوں کی تصدیق کی (۹۲:۵)

حدیث نمبر ۴۹۴۵

راوی: علی رضی اللہ عنہ

ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بقیع الغرقد مدینہ منورہ کے قبرستان میں ایک جنازہ میں تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر فرمایا کہ تم میں کوئی ایسا نہیں جس کا ٹھکانا جنت یا جہنم میں لکھا نہ جا چکا ہو۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! پھر کیوں نہ ہم اپنی تقدیر پر بھروسہ کر لیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عمل کرتے رہو کہ ہر شخص کو اسی عمل کی توفیق ملتی رہتی ہے جس کے لئے  وہ پیدا کیا گیا ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت فأما من أعطى واتقى * وصدق بالحسنى‏ ۔۔۔ پڑھی۔ یعنی ہم اس کے لئے  نیک کام آسان کر دیں گے۔

وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى

اور اس نے نیک باتوں کی تصدیق کی (۹۲:۶ )

حدیث نمبر ۴۹۴۵ - b

راوی: علی رضی اللہ عنہ

ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ پھر ذیلی راوی راوی نے یہی حدیث بیان کی جو پیچھے گزری ۔

فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى

سو ہم اس کے لئے  نیک کاموں کو عمل میں لانا آسان کر دیں گے (۹۲:۷)

حدیث نمبر ۴۹۴۶

راوی: علی رضی اللہ عنہ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنازہ میں تھے، آپ نے ایک لکڑی اٹھائی اور اس سے زمین کریدتے ہوئے فرمایا کہ تم میں کوئی شخص ایسا نہیں جس کا جنت یا دوزخ کا ٹھکانا لکھا نہ جا چکا ہو۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا پھر ہم اسی پر بھروسہ نہ کر لیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عمل کرتے رہو کہ ہر شخص کو توفیق دی گئی ہے انہیں اعمال کی جن کے لئے  وہ پیدا کیا گیا ہے فأما من أعطى واتقى * وصدق بالحسنى۔۔۔‏ سو جس نے دیا اور اللہ سے ڈرا اور اچھی بات کو سچا سمجھا ۔۔۔

وَأَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنَى

اور جس نے نہ دیا، اور بے پروا رہا،(۹۲:۸)

حدیث نمبر ۴۹۴۷

راوی: علی رضی اللہ عنہ

راوی: علی رضی اللہ عنہ

ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم میں کوئی ایسا نہیں جس کا جہنم کا ٹھکانا اور جنت کا ٹھکانا لکھا نہ جا چکا ہو۔ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! پھر ہم اسی پر بھروسہ کیوں نہ کر لیں؟ فرمایا نہیں عمل کرتے رہو کیونکہ ہر شخص کو آسانی دی گئی ہے اور اس کے بعد آپ نے اس آیت کی تلاوت کی

فَأَمَّا مَنۡ أَعۡطَىٰ وَٱتَّقَىٰ  ، وَصَدَّقَ بِٱلۡحُسۡنَىٰ ، فَسَنُيَسِّرُهُ ۥ لِلۡيُسۡرَىٰ  

سو جس نے دیا اور اللہ سے ڈرا اور اچھی بات کو سچا سمجھا اس کے لئے  راحت کی چیز آسان کر دیں گے۔

وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَى

 اور جھوٹ جانا بھلی بات کو،(۹۲:۹ )

حدیث نمبر ۴۹۴۸

راوی: علی رضی اللہ عنہ

ہم بقیع الغرقد میں ایک جنازہ کے ساتھ تھے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لائے۔ آپ بیٹھ گئے اور ہم بھی آپ کے چاروں طرف بیٹھ گئے۔ آپ کے ہاتھ میں چھڑی تھی۔ آپ نے سر جھکا لیا پھر چھڑی سے زمین کو کریدنے لگے۔

 پھر فرمایا کہ تم میں کوئی شخص ایسا نہیں، کوئی پیدا ہونے والی جان ایسی نہیں جس کا جنت اور جہنم کا ٹھکانا لکھا نہ جا چکا ہو۔ یہ لکھا جا چکا ہے کہ کون نیک ہے اور کون برا ہے۔

ایک صاحب نے عرض کیا یا رسول اللہ! پھر کیا حرج ہے اگر ہم اپنی اسی تقدیر پر بھروسہ کر لیں اور نیک عمل کرنا چھوڑ دیں جو ہم میں نیک ہو گا، وہ نیکیوں کے ساتھ جا ملے گا اور جو برا ہو گا اس سے بروں کے سے اعمال ہو جائیں گے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو لوگ نیک ہوتے ہیں انہیں نیکوں ہی کے عمل کی توفیق حاصل ہوتی ہے اور جو برے ہوتے ہیں انہیں بروں ہی جیسے عمل کرنے کی توفیق ہوتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی

فَأَمَّا مَنۡ أَعۡطَىٰ وَٱتَّقَىٰ ، وَصَدَّقَ بِٱلۡحُسۡنَىٰ، فَسَنُيَسِّرُهُ ۥ لِلۡيُسۡرَىٰ

سو جس نے دیا اور اللہ سے ڈرا اور اچھی بات کو سچا سمجھا سو ہم اس کے لئے  نیک کاموں کو آسان کر دیں گے۔۹۲:۵-۷

فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَى

سو اس کو ہم سہج سہج پہنچا دیں گے سختی میں۔(۹۲:۱۰ )

حدیث نمبر ۴۹۴۹

راوی: علی رضی اللہ عنہ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنازے میں تشریف رکھتے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چیز لی اور اس سے زمین کریدنے لگے اور فرمایا، تم میں کوئی ایسا شخص نہیں جس کا جہنم کا ٹھکانا یا جنت کا ٹھکانا لکھا نہ جا چکا ہو۔

 صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! تو پھر ہم کیوں اپنی تقدیر پر بھروسہ نہ کر لیں اور نیک عمل کرنا چھوڑ دیں۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نیک عمل کرو، ہر شخص کو ان اعمال کی توفیق دی جاتی ہے جن کے لئے  وہ پیدا کیا گیا ہے جو شخص نیک ہو گا اسے نیکوں کے عمل کی توفیق ملی ہوتی ہے اور جو بدبخت ہوتا ہے اسے بدبختوں کے عمل کی توفیق ملتی ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت پڑھی

فَأَمَّا مَنۡ أَعۡطَىٰ وَٱتَّقَىٰ ، وَصَدَّقَ بِٱلۡحُسۡنَىٰ، فَسَنُيَسِّرُهُ ۥ لِلۡيُسۡرَىٰ

سو جس نے دیا اور اللہ سے ڈرا اور اچھی بات کو سچا سمجھا سو ہم اس کے لئے  نیک کاموں کو آسان کر دیں گے۔۹۲:۵-۷

سورۃ الضحیٰ کی تفسیر

مجاہد نے کہا إذا سجى‏ جب برابر ہو جائے۔ اوروں نے کہا جب اندھیری ہو جائے یا تھم جائے۔ عائلا‏ بال بچے والا، محتاج۔

حدیث نمبر ۴۹۵۰

راوی جندب بن سفیان رضی اللہ عنہ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار پڑ گئے اور دو یا تین راتوں کو تہجد کے لئے نہیں اٹھ سکے۔ پھر ایک عورت ابولہب کی عورت عوراء آئی اور کہنے لگی۔ اے محمد! میرا خیال ہے کہ تمہارے شیطان نے تمہیں چھوڑ دیا ہے۔ دو یا تین راتوں سے دیکھ رہی ہوں کہ تمہارے پاس وہ نہیں آیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی

وَٱلضُّحَىٰ - وَٱلَّيۡلِ إِذَا سَجَىٰ - مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَىٰ 

قسم ہے دن کی روشنی کی اور رات کی جب وہ قرار پکڑے کہ آپ کے پروردگار نے نہ آپ کو چھوڑا ہے اور نہ آپ سے بیزار ہوا ہے۔(۹۳:۱-۳)

مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَى

نہ رخصت کیا (چھوڑا) تجھ کو تیرے رب نے، نہ بیزار ہوا۔(۹۳:۳)

مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَىٰ تشدید اور تخفیف دونوں طرح پڑھا جا سکتا ہے اور معنی ایک ہی رہیں گے، یعنی اللہ نے تجھ کو چھوڑا نہیں ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ مفہوم یہ ہے ما تركك وما أبغضك یعنی اللہ نے تجھ کو چھوڑا نہیں ہے اور نہ وہ تیرا دشمن بنا ہے۔

حدیث نمبر ۴۹۵۱

راوی: جندب بجلی رضی اللہ عنہ

ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یا رسول اللہ! میں دیکھتی ہوں کہ آپ کے دوست جبرائیل علیہ السلام آپ کے پاس آنے میں دیر کرتے ہیں۔ اس پر آیت نازل ہوئی مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَىٰ ‏ یعنی آپ کے پروردگار نے نہ آپ کو چھوڑا ہے اور نہ آپ سے وہ بیزار ہوا ہے۔

سورۃ ألم نشرح کی تفسیر

مجاہد نے کہا وزرك‏ سے وہ باتیں مراد ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جاہلیت کے زمانہ میں صادر ہوئیں ترک اولیٰ وغیرہ ۔

 أنقض‏ کے معنی بھاری کیا۔

 مع العسر يسرا‏ سفیان بن عیینہ نے کہا اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مصیبت کے ساتھ دو نعمتیں ملتی ہیں جیسے آیت هل تربصون بنا إلا إحدى الحسنيين‏ میں مسلمانوں کے لئے  دو نیکیاں مراد ہیں اور حدیث میں ہے ایک مصیبت دو نیکیوں پر غالب نہیں آ سکتی

مجاہد نے کہا فانصب‏ یعنی اپنے پروردگار سے دعا مانگنے میں محنت اٹھا۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے انہوں نے کہا ألم نشرح‏ لك صدرك سے مراد ہے کہ ہم نے تیرا سینہ اسلام کے لئے  کھول دیا۔

سورۃ وَالتِّينِ کی تفسیر

مجاہد نے کہا کہ آیت میں وہی تین انجیر اور زیتون مشہور میوے ذکر ہوئے ہیں جنہیں لوگ کھاتے ہیں۔

 فما يكذبك‏ یعنی کیا وجہ ہے جو تو اس بات کو جھٹلائے کہ قیامت  کے دن لوگوں کو ان کے اعمال کا بدلہ ملے گا۔ گویا یوں کہا کون کہہ سکتا ہے کہ تو عذاب اور ثواب کو جھٹلانے لگے۔

حدیث نمبر ۴۹۵۲

راوی: براء بن عازب رضی اللہ عنہ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں تھے اور عشاء کی ایک رکعت میں آپ نے سورۃ والتین کی تلاوت فرمائی تھی۔

تقويم‏ کے معنی پیدائش، بناوٹ کے ہیں۔

سورۃ اقراء کی تفسیر

امام حسن بصری نے کہا کہ مصحف میں سورۃ فاتحہ کے شروع میں بسم الله الرحمٰن الرحيم لکھو اور دو سورتوں کے درمیان ایک خط کھینچ لیا کرو جس سے معلوم ہو کہ نئی سورت شروع ہوئی۔

 مجاہد نے کہا کہ ناديه‏ یعنی اپنے کنبے والوں کو۔

الزبانية‏ دوزخ کے فرشتے

معمر نے کہا الرجعى‏ لوٹ جانے کا مقام۔

 لنسفعن‏ البتہ ہم پکڑیں گے۔ اس میں نون خفیفہ ہے گویا یہ الف سے لکھا جاتا ہے یہ سفعت بيده سے نکلا ہے یعنی میں نے اس کا ہاتھ پکڑا۔

حدیث نمبر ۴۹۵۳

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت سے پہلے سچے خواب دکھائے جاتے تھے چنانچہ اس دور میں آپ جو خواب بھی دیکھ لیتے وہ صبح کی روشنی کی طرح بیداری میں نمودار ہوتا۔ پھر آپ کو تنہائی بھلی لگنے لگی۔ اس دور میں آپ غار حرا تنہا تشریف لے جاتے اور آپ وہاں تحنث کیا کرتے تھے۔ تحنث سے عبادت مراد ہے۔ آپ وہاں کئی کئی راتیں جاگتے، گھر میں نہ آتے اور اس کے لئے  اپنے گھر سے توشہ لے جایا کرتے تھے۔ پھر جب توشہ ختم ہو جاتا پھر خدیجہ رضی اللہ عنہا کے یہاں لوٹ کر تشریف لاتے اور اتنا ہی توشہ پھر لے جاتے۔

اسی حال میں آپ غار حرا میں تھے کہ دفعتاً آپ پر وحی نازل ہوئی چنانچہ فرشتہ آپ کے پاس آیا اور کہا پڑھئیے! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا کہ مجھے فرشتہ نے پکڑ لیا اور اتنا بھینچا کہ میں بےطاقت ہو گیا پھر انہوں نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھئیے! میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ انہوں نے پھر دوسری مرتبہ مجھے پکڑ کر اس طرح بھینچا کہ میں بےطاقت ہو گیا اور چھوڑنے کے بعد کہا کہ پڑھئیے! میں نے اس مرتبہ بھی یہی کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ انہوں نے تیسری مرتبہ پھر اسی طرح مجھے پکڑ کر بھینچا کہ میں بےطاقت ہو گیا اور کہا کہ پڑھئیے! پڑھئیے!

ٱقۡرَأۡ بِٱسۡمِ رَبِّكَ ٱلَّذِى خَلَقَ ... عَلَّمَ ٱلۡإِنسَـٰنَ مَا لَمۡ يَعۡلَمۡ

اپنے پروردگار کے نام کے ساتھ جس نے سب کو پیدا کیا، جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا ہے،

آپ پڑھئیے اور آپ کا رب کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعے تعلیم دی ہے (۹۶:۱-۵)

پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان پانچ آیات کو لے کر واپس گھر تشریف لائے اور گھبراہٹ سے آپ کے مونڈھے اور گردن کا گوشت پھڑک حرکت کر رہا تھا۔ آپ نے خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچ کر فرمایا کہ مجھے چادر اڑھا دو! مجھے چادر اڑھا دو! چنانچہ انہوں نے آپ کو چادر اڑھا دی۔ جب گھبراہٹ آپ سے دور ہوئی تو آپ نے خدیجہ رضی اللہ عنہا سے کہا اب کیا ہو گا مجھے تو اپنی جان کا ڈر ہو گیا ہے پھر آپ نے سارا واقعہ انہیں سنایا۔

خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا ایسا ہرگز نہ ہو گا، آپ کو خوشخبری ہو، اللہ کی قسم! اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔ اللہ کی قسم! آپ تو صلہ رحمی کرنے والے ہیں، آپ ہمیشہ سچ بولتے ہیں، آپ کمزور و ناتواں کا بوجھ خود اٹھا لیتے ہیں، جنہیں کہیں سے کچھ نہیں ملتا وہ آپ کے یہاں سے پا لیتے ہیں۔ آپ مہمان نواز ہیں اور حق کے راستے میں پیش آنے والی مصیبتوں پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔

 پھر خدیجہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر ورقہ بن نوفل کے پاس آئیں وہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے چچا اور آپ کے والد کے بھائی تھے وہ زمانہ جاہلیت میں نصرانی ہو گئے تھے اور عربی لکھ لیتے تھے جس طرح اللہ نے چاہا انہوں نے انجیل بھی عربی میں لکھی تھی۔ وہ بہت بوڑھے تھے اور نابینا ہو گئے تھے۔

 خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا چچا اپنے بھتیجے کا حال سنئیے۔ ورقہ نے کہا بیٹے! تم نے کیا دیکھا ہے؟ آپ نے سارا حال سنایا جو کچھ آپ نے دیکھا تھا۔ اس پر ورقہ نے کہا یہی وہ ناموس جبرائیل علیہ السلام ہیں جو موسیٰ علیہ السلام کے پاس آتے تھے۔ کاش میں تمہاری نبوت کے زمانہ میں جوان اور طاقتور ہوتا۔ کاش میں اس وقت تک زندہ رہ جاتا، پھر ورقہ نے کچھ اور کہا کہ جب آپ کی قوم آپ کو مکہ سے نکالے گی۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا واقعی یہ لوگ مجھے مکہ سے نکال دیں گے؟ ورقہ نے کہا ہاں، جو دعوت آپ لے کر آئے ہیں اسے جو بھی لے کر آیا تو اس سے عداوت ضرور کی گئی۔ اگر میں آپ کی نبوت کے زمانہ میں زندہ رہ گیا تو میں ضرور بھرپور طریقہ پر آپ کا ساتھ دوں گا۔ اس کے بعد ورقہ کا انتقال ہو گیا اور کچھ دنوں کے لئے  وحی کا آنا بھی بند ہو گیا۔ آپ وحی کے بند ہو جانے کی وجہ سے غمگین رہنے لگے۔

حدیث نمبر ۴۹۵۴

راوی: جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وحی کے کچھ دنوں کے لئے  رک جانے کا ذکر فرما رہے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں چل رہا تھا کہ میں نے اچانک آسمان کی طرف سے ایک آواز سنی۔ میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو وہی فرشتہ جبرائیل علیہ السلام جو میرے پاس غار حرا میں آیا تھا، آسمان اور زمین کے درمیان کرسی پر بیٹھا ہوا نظر آیا۔ میں ان سے بہت ڈرا اور گھر واپس آ کر میں نے کہا کہ مجھے چادر اڑھا دو چنانچہ گھر والوں نے مجھے چادر اڑھا دی، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی

يا أيها المدثر ... والرجز فاهجر‏

اے کپڑے میں لپٹنے والے! اٹھئیے پھر لوگوں کو ڈرایئے اور اپنے پروردگار کی بڑائی بیان کیجئے اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھیئے۔

ابوسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ الرجز جاہلیت کے بت تھے جن کی وہ پرستش کیا کرتے تھے۔

راوی نے بیان کیا کہ پھر وحی برابر آنے لگی۔

خَلَقَ الإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ

انسان کو اللہ نے خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا (۹۶:۲)

حدیث نمبر ۴۹۵۵

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

شروع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچے خواب دکھائے جانے لگے۔ پھر آپ کے پاس فرشتہ آیا اور کہا

ٱقۡرَأۡ بِٱسۡمِ رَبِّكَ ٱلَّذِى خَلَقَ ... ٱقۡرَأۡ وَرَبُّكَ ٱلۡأَكۡرَمُ

آپ پڑھئے، اپنے پروردگار کے نام کے ساتھ جس نے سب کو پیدا کیا ہے جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا ہے۔ آپ پڑھا کیجئے اور آپ کا پروردگار بڑا کریم ہے۔

اقْرَأْ وَرَبُّكَ الأَكْرَمُ

آپ پڑھا کیجئے اور آپ کا رب بڑا ہی مہربان ہے ۹۶:۳

حدیث نمبر ۴۹۵۶

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی ابتداء سچے خوابوں سے کی گئی اور کہا

ٱقۡرَأۡ بِٱسۡمِ رَبِّكَ ٱلَّذِى خَلَقَ ... ٱلَّذِى عَلَّمَ بِٱلۡقَلَمِ

آپ پڑھئے، اپنے پروردگار کے نام کی مدد سے جس نے سب کو پیدا کیا ہے، جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے بنایا۔

آپ پڑھا کیجئے اور آپ کا پروردگار بڑا کریم ہے، جس نے قلم کو ذریعہ تعلیم بنایا۔(۹۶:۱-۴)

الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ

وہ جس نے قلم کے ساتھ سکھایا (۹۶:۴)

حدیث نمبر ۴۹۵۷

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

 پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس واپس تشریف لائے اور فرمایا زملوني زملوني کہ مجھے چادر اڑھا دو، مجھے چادر اڑھا دو۔ پھر آپ نے سارا واقعہ بیان فرمایا۔

كَلاَّ لَئِنْ لَمْ يَنْتَهِ لَنَسْفَعَنْ بِالنَّاصِيَةِ نَاصِيَةٍ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍ

ہاں ہاں اگر یہ کم بخت باز نہ آیا تو ہم اسے پیشانی کے بل پکڑ کر گھسیٹیں گے جو پیشانی جھوٹ اور گناہوں میں آلودہ ہو چکی ہے ۔ (۹۶:۱۵،۱۶)

حدیث نمبر ۴۹۵۸

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

ابوجہل نے کہا تھا کہ اگر میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کعبہ کے پاس نماز پڑھتے دیکھ لیا تو اس کی گردن میں کچل دوں گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ بات پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر اس نے ایسا کیا ہوتا تو اسے فرشتے پکڑ لیتے۔

سورۃ القدر کی تفسیر

مطلع بہ فتحہ مصدر ہے طلوع کے معنوں میں اور مطلع بہ کسر لام جیسے کسائی نے پڑھا ہے وہ مقام جہاں سے سورج نکلے۔

انا أنزلناه‏ میں ضمیر قرآن کی طرف پھرتی ہے گو کہ قرآن کا ذکر اوپر نہیں آیا ہے مگر اس کی شان بڑھانے کے لئے  اضمار قبل الذکر کی أنزلناه‏ صیغہ جمع متکلم کا ہے حالانکہ اتارنے والا ایک ہی ہے یعنی اللہ پاک مگر عربی میں واحد کو جميع اور اثبات کے لئے  بہ صیغہ جمع لاتے ہیں۔

سورۃ البینہ کی تفسیر

منفكين‏ کے معنی چھوڑنے والے۔

 قيمة‏ قائم اور مضبوط حالانکہ دین مذکر ہے مگر اس کو مؤنث یعنی قيمة‏ کی طرف مضاف کیا، دین کو ملت کے معنی میں لیا جو مؤنث ہے۔

حدیث نمبر ۴۹۵۹

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابی بن کعب سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہیں سورۃ لَمۡ يَكُنِ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ پڑھ کر سناؤں۔

 ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، کیا اللہ تعالیٰ نے میرا نام بھی لیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، اس پر وہ رونے لگے۔

حدیث نمبر ۴۹۶۰

راوی: انس رضی اللہ عنہ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہیں قرآن سورۃ مۡ يَكُنِ پڑھ کر سناؤں۔

 ابی بن کعب نے عرض کیا کیا آپ سے اللہ تعالیٰ میرا نام بھی لیا ہے؟

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، اللہ تعالیٰ نے تمہارا نام بھی مجھ سے لیا ہے۔

ابی بن کعب رضی اللہ عنہ یہ سن کر رونے لگے۔

قتادہ نے بیان کیا کہ مجھے خبر دی گئی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سورۃ لَمۡ يَكُنِ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ مِنۡ أَهۡلِ ٱلۡكِتَـٰبِ‏ پڑھ کر سنائی تھی۔

حدیث نمبر ۴۹۶۱

راوی: انس بن مالک رضی اللہ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابی بن کعب سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہیں قرآن کی سورۃلَمۡ يَكُنِ پڑھ کر سناؤں۔ انہوں نے پوچھا کیا اللہ نے آپ سے میرا نام بھی لیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں۔ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بولے تمام جہانوں کے پالنے والے کے ہاں میرا ذکر ہوا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں اس پر ان کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔

سورۃ الزلزلہ کی تفسیر

فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ

سو جس نے کی ذرہ بھر بھلائی، وہ دیکھ لے گا۔(۹۹:۷)

أوحى لها أوحى إليها ، وحى لها ، وحى إليها سب کا ایک ہی معنی ہے۔

حدیث نمبر ۴۹۶۲

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گھوڑا تین طرح کے لوگ تین قسم کے پالتے ہیں۔ ایک شخص کے لئے  وہ اجر ہوتا ہے دوسرے کے لئے  وہ معافی ہے، تیسرے کے لئے  عذاب ہے۔ جس کے لئے  وہ اجر و ثواب ہے وہ شخص ہے جو اسے اللہ کے راستہ میں جہاد کی نیت سے پالتا ہے۔ چراگاہ اس کی رسی کو دراز کر دیتا ہے اور وہ گھوڑا چراگاہ یا باغ میں اپنی رسی تڑا لے اور ایک دو کوڑے پھینکنے کی دوری تک اپنی حد سے آگے بڑھ گیا تو اس کے نشانات قدم اور اس کی لید بھی مالک کے لئے  ثواب بن جاتی ہے اور اگر کسی نہر سے گزرتے ہوئے اس میں مالک کے ارادہ کے بغیر خود ہی اس نے پانی پی لیا تو یہ بھی مالک کے لئے  باعث ثواب بن جاتا ہے۔

 دوسرا شخص جس کے لئے  اس کا گھوڑا باعث معافی، پردہ بنتا ہے۔ یہ وہ شخص ہے جس نے لوگوں سے بےپرواہ رہنے اور لوگوں کے سامنے سوال کرنے سے بچنے کے لئے  اسے پالا اور اس گھوڑے کی گردن پر جو اللہ تعالیٰ کا حق ہے اور اس کی پیٹھ کو جو حق ہے اسے بھی وہ ادا کرتا رہتا ہے۔ تو گھوڑا اس کے لئے  باعث معافی، پردہ بن جاتا ہے۔

 اور جو شخص گھوڑا اپنے دروازے پر فخر اور دکھاوے اور اسلام دشمنی کی غرض سے باندھتا ہے، وہ اس کے لئے  وبال ہے۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گدھوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق مجھ پر خاص آیت سوا اس اکیلی عام اور جامع آیت کے نازل نہیں کی

فَمَن يَعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّةٍ خَيۡرً۬ا يَرَهُ ۥ - وَمَن يَعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّةٍ۬ شَرًّ۬ا يَرَهُ ۥ

جو کوئی ذرہ بھر نیکی کرے گا وہ اسے بھی لے گا دیکھ لے گا اور جو کوئی ذرہ بھر برائی کرے گا وہ اسے بھی دیکھ لے گا۔(۹۹:۷،۸)

وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ

جو کوئی ایک ذرہ برابر برائی کرے گا اسے بھی وہ دیکھ لے گا (۹۹:۸)

حدیث نمبر ۴۹۶۳

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گدھوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس اکیلی عام آیت کے سوا مجھ پر اس کے بارے میں اور کوئی خاص حکم نازل نہیں ہوا ہے

فَمَن يَعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّةٍ خَيۡرً۬ا يَرَهُ ۥ - وَمَن يَعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّةٍ۬ شَرًّ۬ا يَرَهُ ۥ

جو کوئی ذرہ بھر نیکی کرے گا وہ اسے بھی لے گا دیکھ لے گا اور جو کوئی ذرہ بھر برائی کرے گا وہ اسے بھی دیکھ لے گا۔(۹۹:۷،۸)

سورۃ والعاديات کی تفسیر

مجاہد نے کہا كنود کا معنی ناشکرا ہے۔

 فأثرن به نقعا یعنی صبح کے وقت دھول اڑاتے ہیں، گرد اٹھاتے ہیں۔

 لحب الخير یعنی مال کی قلت کی وجہ سے۔

 لشديد بخیل ہے بخیل کو لشديد کہتے ہیں۔

 حصل کے معنی جدا کیا جائے یا جمع کیا جائے۔

سورۃ القارعہ کی تفسیر

كالفراش المبثوث‏ یعنی پریشان ٹڈیوں کی طرح کی جیسے وہ ایسی حالت میں ایک دوسرے پر چڑھ جاتی ہیں یہی حال حشر کے دن انسانوں کا ہو گا کہ وہ ایک دوسرے پر گر رہے ہوں گے

 كالعهن‏ اون کی طرح رنگ برنگ۔

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے یوں پڑھا ہے الصوف‏ ‏ المنفوش یعنی دھنی ہوئی اون کی طرح اڑتے پھریں گے۔

سورۃ التکاثر کی تفسیر

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ التكاثر‏ سے مال و اولاد کا بہت ہونا مراد ہے۔

سورۃ والعصر کی تفسیر

یحییٰ بن زیاد فرا نے کہا کہ العصر سے مراد زمانہ ہے اسی کی قسم کھائی گئی ہے۔

سورۃ همزة کی تفسیر

الحطمة‏ دوزخ کا ایک نام ہے جیسے سقر اور لظى بھی اس کے ناموں میں سے ہیں۔

سورۃ الفيل کی تفسیر

مجاہد نے کہا أبابيل‏ یعنی پے در پے آنے والے جھنڈ کے جھنڈ پرندے۔

 ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا من سجيل‏ یہ لفظ فارسی کا معرب ہے یعنی سنگ پتھر اور گل مٹی مراد ہے۔

سورۃ قريش کی تفسیر

مجاہد نے کہا لإيلاف‏ قريش کا مطلب یہ ہے کہ قریش کے لوگوں کا دل سفر میں لگا دیا تھا، گرمی جاڑے کسی بھی موسم میں ان پر سفر کرنا دشوار نہ تھا اور ان کو حرم میں جگہ دے کر دشمنوں سے بےفکر کر دیا تھا۔

سفیان بن عیینہ نے کہا کہ لإيلاف‏ قريش کا معنی یہ ہے قریش پر میرے احسان کی وجہ سے۔

سورۃ ماعون کی تفسیر

مجاہد نے کہا يدع‏ کا معنی دفع کرتا ہے یعنی یتیم کو اس کا حق نہیں لینے دیتا، کہتے ہیں یہ دعوت سے نکلا ہے۔ اسی سے سورۃ الطور میں لفظ يوم يدعون‏ ہے یعنی جس دن دوزخ کی طرف اٹھائے جائیں گے،دھکیلے جائیں گے۔

ساهون‏ بھولنے والے، غافل۔

 ماعون‏ کہتے ہیں مروت کے ہر اچھے کام کو۔ بعض عرب ماعون‏ پانی کو کہتے ہیں۔ عکرمہ نے کہا ماعون‏ کا اعلیٰ درجہ زکوٰۃ دینا ہے اور ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص کچھ سامان مانگے تو اسے وہ دیدے، اس کا انکار نہ کرے۔

سورۃ الكوثر کی تفسیر

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا شانئك تیرا دشمن۔

حدیث نمبر ۴۹۶۴

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج ہوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ایک نہر پر پہنچا جس کے دونوں کناروں پر خولدار موتیوں کے ڈیرے لگے ہوئے تھے۔ میں نے پوچھا اے جبرائیل! یہ نہر کیسی ہے؟ انہوں نے بتایا کہ یہ حوض کوثر ہے جو اللہ نے آپ کو دیا ہے ۔

حدیث نمبر ۴۹۶۵

راوی: ابوعبیدہ

میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے اللہ تعالیٰ کے ارشادإِنَّآ أَعۡطَيۡنَـٰكَ ٱلۡكَوۡثَرَ یعنی ہم نے آپ کو کوثر عطا کیا ہے کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتلایا کہ یہ کوثر ایک نہر ہے جو تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بخشی گئی ہے، اس کے دو کنارے ہیں جن پر خولدار موتیوں کے ڈیرے ہیں۔ اس کے آبخورے ستاروں کی طرح ان گنت ہیں۔

حدیث نمبر ۴۹۶۶

راوی: ابوبشر

ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا اور ان سےعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کوثر کے متعلق کہ وہ خیر کثیر ہے جو اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی ہے۔

 بیان کیا کہ میں نے سعید بن جبیر سے عرض کی، لوگوں کا خیال ہے کہ اس سے جنت کی ایک نہر مراد ہے؟ سعید نے کہا کہ جنت کی نہر بھی اس خیر کثیر میں سے ایک ہے جو اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی ہے۔

سورۃ الكافرون کی تفسیر

کہا گیا ہے کہ لكم دينكم‏ سے مراد کفر ہے اور ولي دين‏ سے مراد اسلام ہے ديني نہیں کہا کیونکہ آیات کا ختم نون پر ہوا ہے۔ اس لئے  یہاں بھی یاء کو حذف کر دیا، جیسے بولتے ہیں يهدين ويشفين۔

 اوروں نے کہا کہ اب نہ تو میں تمہارے معبودوں کی عبادت کروں گا یعنی جن معبودوں کی تم اس وقت عبادت کرتے ہو اور نہ میں تمہارا یہ دین اپنی باقی زندگی میں قبول کروں گا اور نہ تم میرے معبود کی عبادت کرو گے۔ اس سے مراد کفار ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے

وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرً۬ا مِّنۡہُم مَّآ أُنزِلَ إِلَيۡكَ مِن رَّبِّكَ طُغۡيَـٰنً۬ا وَكُفۡرً۬ا‌ۚ

اور جو وحی آپ کے رب کی طرف سے ہے آپ پر نازل کی جاتی ہے۔ ان میں بہت سے لوگوں کو سرکشی اور کفر میں وہ زیادہ کر دیتی ہے۔(۵:۶۴)

سورۃ النصر کی تفسیر

حدیث نمبر ۴۹۶۷

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

آیت إِذَا جَآءَ نَصۡرُ ٱللَّهِ وَٱلۡفَتۡحُ یعنی جب اللہ کی مدد اور فتح آ پہنچی جب سے نازل ہوئی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی نماز ایسی نہیں پڑھی جس میں آپ یہ دعا نہ کرتے ہوں

سبحانك ربنا وبحمدك،‏‏‏‏ اللهم اغفر لي‏

پاک ہے تیری ذات، اے اللہ! اے ہمارے رب! اور تیرے ہی لئے  تعریف ہے۔ اے اللہ میری مغفرت فرما دے۔

حدیث نمبر ۴۹۶۸

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورۃ الفتح نازل ہونے کے بعد اپنے رکوع اور سجدوں میں بکثرت یہ دعا پڑھتے تھے

سبحانك اللهم ربنا وبحمدك،‏‏‏‏ اللهم اغفر لي

پاک ہے تیری ذات، اے اللہ! اے ہمارے رب! اور تیرے ہی لئے  تعریف ہے، اے اللہ! میری مغفرت فرما دے۔

قرآن مجید کے حکم مذکور پر اس طرح آپؐ عمل کرتے تھے۔

وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا

اور آپ اللہ کے دین میں لوگوں کو جوق در جوق داخل ہوتے ہوئے خود دیکھ رہے ہیں ((۱۱۰:۲))

حدیث نمبر ۴۹۶۹

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

عمر رضی اللہ عنہ نے بوڑھے بدری صحابہ سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد إِذَا جَآءَ نَصۡرُ ٱللَّهِ وَٱلۡفَتۡحُ یعنی جب اللہ کی مدد اور فتح آ پہنچی کے متعلق پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ اس سے اشارہ بہت سے شہروں اور ملکوں کے فتح ہونے کی طرف ہے۔

 عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ابن عباس تمہارا کیا خیال ہے؟

 ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب دیا کہ اس میں آپ کی وفات کی خبر یا ایک مثال ہے گویا آپ کی موت کی آپ کو خبر دی گئی ہے۔

فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا

اے نبی ! اب تم اپنے رب کی حمد و ثنا بیان کیا کرو اور اس سے بخشش چاہو بیشک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے (۱۱۰:۳)

تواب کے معنی بندوں کی توبہ قبول کرنے والا۔ آدمیوں میں تواب اسے کہیں گے جو گناہ سے توبہ کرے۔

حدیث نمبر ۴۹۷۰

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مجھے بوڑھے بدری صحابہ کے ساتھ مجلس میں بٹھاتے تھے۔ بعض عبدالرحمٰن بن عوف کو اس پر اعتراض ہوا، انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اسے آپ مجلس میں ہمارے ساتھ بٹھاتے ہیں، اس کے جیسے تو ہمارے بھی بچے ہیں؟ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس کی وجہ تمہیں معلوم ہے۔ پھر انہوں نے ایک دن ابن عباس رضی اللہ عنہما کو بلایا اور انہیں بوڑھے بدری صحابہ کے ساتھ بٹھایا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں سمجھ گیا کہ آپ نے مجھے انہیں دکھانے کے لئے  بلایا ہے، پھر ان سے پوچھا اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے إِذَا جَآءَ نَصۡرُ ٱللَّهِ وَٱلۡفَتۡحُ ۔۔۔ یعنی جب اللہ کی مدد اور فتح آ پہنچی بعض لوگوں نے کہا کہ جب ہمیں مدد اور فتح حاصل ہوئی تو اللہ کی حمد اور اس سے استغفار کا ہمیں آیت میں حکم دیا گیا ہے۔ کچھ لوگ خاموش رہے اور کوئی جواب نہیں دیا۔

 پھر آپ نے مجھ سے پوچھا ابن عباس! کیا تمہارا بھی یہی خیال ہے؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں۔

پوچھا پھر تمہاری کیا رائے ہے؟ میں نے عرض کی کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی طرف اشارہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہی چیز بتائی ہے اور فرمایا إِذَا جَآءَ نَصۡرُ ٱللَّهِ وَٱلۡفَتۡحُ کہ جب اللہ کی مدد اور فتح آ پہنچی یعنی پھر یہ آپ کی وفات کی علامت ہے۔ اس لئے  آپ اپنے پروردگار کی پاکی و تعریف بیان کیجئے اور اس سے بخشش مانگا کیجئے۔ بیشک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔

 عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا میں بھی وہی جانتا ہوں جو تم نے کہا۔

سورۃ لہب کی تفسیر

تباب کے معنی تباہی ٹوٹا۔

 تتبيب کے معنی تباہ کرنا۔

حدیث نمبر ۴۹۷۱

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

جب یہ آیت نازل ہوئی وَأَنذِرۡ عَشِيرَتَكَ ٱلۡأَقۡرَبِينَ   (۲۶:۲۱۴)آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئے اور اپنے گروہ کے ان لوگوں کو ڈرائیے جو مخلصین ہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور پکارا: یاصباحاہ! قریش نے کہا یہ کون ہے، پھر وہاں سب آ کر جمع ہو گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تمہارا کیا خیال ہے، اگر میں تمہیں بتاؤں کہ ایک لشکر اس پہاڑ کے پیچھے سے آنے والا ہے، تو کیا تم مجھ کو سچا نہیں سمجھو گے؟ انہوں نے کہا کہ ہمیں جھوٹ کا آپ سے تجربہ کبھی بھی نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر میں تمہیں اس سخت عذاب سے ڈراتا ہوں جو تمہارے سامنے آ رہا ہے۔

 یہ سن کر ابولہب بولا، تو تباہ ہو، کیا تو نے ہمیں اسی لئے  جمع کیا تھا؟ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے چلے آئے اور آپ پر یہ سورت نازل ہوئیتَبَّتۡ يَدَآ أَبِى لَهَبٍ۬ وَتَبَّ ... یعنی دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے ابولہب کے اور وہ برباد ہو گیا۔

تَبَّتۡ يَدَآ أَبِى لَهَبٍ۬ وَتَبَّ- مَآ أَغۡنَىٰ عَنۡهُ مَالُهُ ۥ وَمَا ڪَسَبَ

وہ ہلاک ہوا نہ اس کا مال اس کے کام آیا اور نہ جو کچھ اس نے کمایا وہ کام آیا (۱۱۱:۱،۲)

حدیث نمبر ۴۹۷۲

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

وہ ہلاک ہوا نہ اس کا مال اس کے کام آیا اور نہ جو کچھ اس نے کمایا وہ کام آیا۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بطحاء کی طرف تشریف لے گئے اور پہاڑی پر چڑھ کر پکارا۔ یا صباحاہ! قریش اس آواز پر آپ کے پاس جمع ہو گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: تمہارا کیا خیال ہے اگر میں تمہیں بتاؤں کہ دشمن تم پر صبح کے وقت یا شام کے وقت حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم میری تصدیق نہیں کرو گے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں ضرور آپ کی تصدیق کریں گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو میں تمہیں سخت عذاب سے ڈراتا ہوں جو تمہارے سامنے آ رہا ہے۔

ابولہب بولا تم تباہ ہو جاؤ۔ کیا تم نے ہمیں اسی لئے  جمع کیا تھا؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی تَبَّتۡ يَدَآ أَبِى لَهَبٍ۬ وَتَبَّ ...

سَيَصْلَى نَارًا ذَاتَ لَهَبٍ

عنقریب وہ بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہو گا (۱۱۱:۳)

حدیث نمبر ۴۹۷۳

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

 ابولہب نے کہا تھا کہ تو تباہ ہو۔ کیا تو نے ہمیں اسی لئے  جمع کیا تھا؟ اس پر یہ آیت تَبَّتۡ يَدَآ أَبِى لَهَبٍ۬ وَتَبَّ ... نازل ہوئی۔

وَامْرَأَتُهُ حَمَّالَةُ الْحَطَبِ

باب: آیت کی تفسیر اور اس کی بیوی بھی جو لکڑیوں کا گٹھا اٹھانے والی ہے (۱۱۱:۴)

مجاہد نے کہا حمالة الحطب چغل خور۔

کہتے ہیں مسد سے مراد گوگل کے درخت کی چھال ہے بعضوں نے کہا دوزخ کی رسی مراد ہے۔

اللہ تعالیٰ کے فرمان قل هو الله أحد کی تفسیر

کہا گیا ہے کہ أحد پر تنوین نہیں پڑھی جاتی بلکہ دال کو ساکن ہی پڑھنا چاہئے۔ أحد کے معنی وہ ایک ہے۔

حدیث نمبر ۴۹۷۴

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مجھے ابن آدم نے جھٹلایا حالانکہ اس کے لئے  یہ بھی مناسب نہیں تھا۔ مجھے جھٹلانا یہ ہے کہ ابن آدم کہتا ہے کہ میں اس کو دوبارہ نہیں پیدا کروں گا حالانکہ میرے لئے  دوبارہ پیدا کرنا اس کے پہلی مرتبہ پیدا کرنے سے زیادہ مشکل نہیں۔ اس کا مجھے گالی دینا یہ ہے کہ کہتا ہے کہ اللہ نے اپنا بیٹا بنایا ہے حالانکہ میں ایک ہوں۔ بےنیاز ہوں نہ میرے لئے  کوئی اولاد ہے اور نہ میں کسی کی اولاد ہوں اور نہ کوئی میرے برابر ہے۔

اللَّهُ الصَّمَدُ  

اللہ بےنیاز ہے۔ (۱۱۲:۲)

عرب لوگ سردار اور شریف کو صمد کہتے ہیں۔ ابووائل شقیق بن سلمہ نے کہا حد درجے سب سے بڑا سردار جو ہو اسے صمد کہتے ہیں۔

حدیث نمبر ۴۹۷۵

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ پاک نے فرمایا ہے کہ ابن آدم نے مجھے جھٹلایا حالانکہ اس کے لئے  یہ مناسب نہ تھا۔ اس نے مجھے گالی دی حالانکہ یہ اس کا حق نہیں تھا۔ مجھے جھٹلانا یہ ہے کہ ابن آدم کہتا ہے کہ میں اسے دوبارہ زندہ نہیں کر سکتا جیسا کہ میں نے اسے پہلی دفعہ پیدا کیا تھا۔ اس کا گالی دینا یہ ہے کہ کہتا ہے اللہ نے بیٹا بنا لیا ہے حالانکہ میں بےپرواہ ہوں، میرے ہاں نہ کوئی اولاد ہے اور نہ میں کسی کی اولاد اور نہ کوئی میرے برابر کا ہے۔

 كفؤا ، كفيئا ، كفاء ہم معنی ہیں۔

سورۃ الفلق کی تفسیر

مجاہد نے کہا کہ غاسق‏ سے رات مراد ہے۔

 غاسق‏ سے سورج کا ڈوب جانا مراد ہے۔

فرق اور فلق کے ایک ہی معنی ہیں کہتے ہیں یہ بات فرق صبح یا فلق صبح سے زیادہ روشن ہے۔ عرب لوگ وقب‏ اس وقت کہتے ہیں جب کوئی چیز بالکل کسی چیز میں گھس جائے اور اندھیرا ہو جائے۔

حدیث نمبر ۴۹۷۶

راوی: زر بن حبیش

میں  نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے معوذتین کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بیان کیا کہ یہ مسئلہ میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے جبرائیل علیہ السلام کی زبانی کہا گیا ہے کہ یوں کہئیے کہ أَعُوذُ بِرَبِّ ٱلۡفَلَقِ الخ میں نے اسی طرح کہا چنانچہ ہم بھی وہی کہتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا۔

سورۃ الناس کی تفسیر

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے وسواس‏ کے متعلق بتلایا کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے شیطان اس کو چونکا لگاتا ہے۔ اگر وہاں اللہ کا نام لیا گیا تو وہ بھاگ جاتا ہے ورنہ بچے کے دل پر جم جاتا ہے۔

حدیث نمبر ۴۹۷۷

راوی: زر

 میں نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ یا اباالمنذر! آپ کے بھائی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تو یہ کہتے ہیں کہ سورۃ معوذتین قرآن میں داخل نہیں ہیں۔ ابی بن کعب نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کو پوچھا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام کی زبانی مجھ سے یوں کہا گیا کہ ایسا کہئیے اور میں نے کہا، ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم بھی وہی کہتے ہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔



© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Enail: cmaj37@gmail.com

Visits wef Nov 2024

website counters