صحیح بخاری شریفانبیاء علیہم السلام کا بیانAhadith 3326-3488 |
شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے
آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد کی پیدائش کے بیان میںسورۃ الرحمٰن آیت ۱۴ میں لفظ صَلْصَالٍ کے معنی ایسے گارے کے ہیں جس میں ریتی ملی ہو اور وہ اس طرح سے بجنے لگے جیسے پکی ہوئی مٹی بجتی ہے۔ بعض نے کہا صَلْصَالٍ کے معنی مُنْتِنٌ یعنی بدبودار کے ہیں۔ اصل میں یہ لفظ صَلَّ سے نکلا ہے۔ فا کلمہ مکرر کر دیا یا جیسے صَرْصَرَ سے عرب لوگ کہتے ہیں صَرَّ الْبَابُ یا صَرْصَرَ الْبَابُ جب بند کرنے سے دروازے میں سے آواز نکلے جیسے كَبْكَبْتُهُ كَبَبْتُهُ سے نکلا ہے۔ سورۃ الاعراف آیت ۱۸۹ میں لفظ فَمَرَّتْ بِهِ کا معنی چلتی پھرتی رہی، حمل کی مدت پوری کی، سورۃ الاعراف آیت ۱۲ میں لفظ أَلَّا تَسْجُدَ کا معنی أَنْ تَسْجُدَ کے ہیں۔ یعنی تجھ کو سجدہ کرنے سے کس بات نے روکا۔ لا کا لفظ یہاں زائد ہے۔ اللہ تعالیٰ کا سورۃ البقرہ میں یہ فرمانا : وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلاَئِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الأَرْضِ خَلِيفَةً اے رسول ! وہ وقت یاد کر جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا میں زمین میں ایک ( قوم کو ) جانشین بنانے والا ہوں (۲:۳۰) ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا سورۃ الطارق میں جو لَمَّا عَلَيْهَا حَافِظٌ کے الفاظ ہیں، یہاں لَمَّا إِلاَّ کے معنے میں ہے۔ یعنی کوئی جان نہیں مگر اس پر اللہ کی طرف سے ایک نگہبان مقرر ہے، سورۃ البلد میں جو فِي كَبَدٍ کا لفظ آیا ہے كَبَدٍ کے معنی سختی کے ہیں۔ اور سورۃ الاعراف میں جو رِيَاشًا کا لفظ آیا ہے رِيَاش اس کی جمع ہے یعنی مال۔یہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی تفسیر ہے دوسروں نے کہا، «الرِّيَاشُ » اور الرِّيشُ کا ایک ہی معنی ہے۔ یعنی ظاہری لباس اور سورۃ واقعہ میں جو تُمْنُونَ کا لفظ آیا ہے اس کے معنی النُّطْفَةُ کے ہیں جو تم عورتوں کے رحم میں (جماع کر کے) ڈالتے ہو۔ اور سورۃ الطارق میں ہے إِنَّهُ عَلَى رَجْعِهِ لَقَادِرٌ مجاہد نے کہا اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ اللہ منی کو پھر ذکر میں لوٹا سکتا ہے (اس کو فریابی نے وصل کیا، اکثر لوگوں نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ اللہ آدمی کے لوٹانے یعنی قیامت میں پیدا کرنے پر قادر ہے) اور سورۃ السجدہ میں كُلُّ شَيْءٍ خَلَقَهُ کا معنی یہ ہے کہ ہر چیز کو اللہ نے جوڑے جوڑے بنایا ہے۔ آسمان زمین کا جوڑ ہے (جن آدمی کا جوڑ ہے، سورج چاند کا جوڑ ہے۔) اور طاق اللہ کی ذات ہے جس کا کوئی جوڑ نہیں ہے۔ سورۃ التین میں ہے فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ یعنی اچھی صورت اچھی خلقت میں ہم نے انسان کو پیدا کیا۔ أَسْفَلَ سَافِلِينَ إِلاَّ مَنْ آمَنَ یعنی پھر آدمی کو ہم نے پست سے پست تر کر دیا (دوزخی بنا دیا) مگر جو ایمان لایا۔ سورۃ العصر میں لَفِي خُسْرٍکا معنی گمراہی میں پھر ایمان والوں کو مستثنیٰ کیا۔ فرمایا إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا ا سورۃ والصافات میں لاَزِبٍ کے معنی لاَزِمٌ (یعنی چمٹتی ہوئی لیس دار) سورۃ الواقعہ آیت ۶۱ میں الفاظ وَنُنشِئَكُمْ فِي مَا لَا تَعْلَمُونَ یعنی جونسی صورت میں ہم چاہیں تم کو بنا دیں۔ سورۃ البقرہ میں نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ یعنی فرشتوں نے کہا کہ ہم تیری بڑائی بیان کرتے ہیں۔ ابوالعالیہ نے کہا اسی سورۃ میں جو ہے فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ وہ کلمات یہ ہیں رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا اسی سورۃ میں فَأَزَلَّهُمَا کا معنی یعنی ان کو ڈگمگا دیا پھسلا دیا۔ اسی سورۃ میں ہے يَتَسَنَّهْ یعنی بگڑا تک نہیں۔ اسی سے سورۃ محمد میں آسِنٌ یعنی بگڑا ہوا (بدبودار پانی) اسی سے سورۃ الحجر میں لفظ الْمَسْنُونُ ہے یعنی بدلی ہوئی بدبودار۔ (اسی سورۃ میں) حَمَإٍ کا لفظ ہے جو حَمْأَةٍ کی جمع ہے یعنی بدبودار کیچڑ سورۃ الاعراف میں لفظ يَخْصِفَانِ کے معنی یعنی دونوں آدم اور حواء نے بہشت کے پتوں کو جوڑنا شروع کر دیا۔ ایک پر ایک رکھ کر اپنا ستر چھپانے لگے۔ لفظ سَوْآتُهُمَا سے مراد شرمگاہ ہیں۔ لفظ «مَتَاعٌ إِلَى حِينٍ میں الْحِينُ سے قیامت مراد ہے، عرب لوگ ایک گھڑی سے لے کر بے انتہا مدت تک کو الْحِينُ کہتے ہیں۔ قَبِيلُهُ سے مراد شیطان کا گروہ جس میں وہ خود ہے۔ حدیث نمبر ۳۳۲۶ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا االلہ پاک نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو ان کو ساٹھ ہاتھ لمبا بنایا پھر فرمایا کہ جا اور ان ملائکہ کو سلام کر، دیکھنا کن لفظوں میں وہ تمہارے سلام کا جواب دیتے ہیں کیونکہ وہی تمہارا اور تمہاری اولاد کا طریقہ سلام ہو گا۔ آدم علیہ السلام (گئے اور) کہا، السلام علیکم فرشتوں نے جواب دیا، السلام علیک ورحمۃ اللہ۔ انہوں نے ورحمۃ اللہ کا جملہ بڑھا دیا، پس جو کوئی بھی جنت میں داخل ہو گا وہ آدم علیہ السلام کی شکل اور قامت پر داخل ہو گا، آدم علیہ السلام کے بعد انسانوں میں اب تک قد چھوٹے ہوتے رہے۔ حدیث نمبر ۳۳۲۷ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سب سے پہلا گروہ جو جنت میں داخل ہو گا ان کی صورتیں ایسی روشن ہوں گی جیسے چودھویں کا چاند روشن ہوتا ہے، پھر جو لوگ اس کے بعد داخل ہوں گے وہ آسمان کے سب سے زیادہ روشن ستارے کی طرح چمکتے ہوں گے۔ نہ تو ان لوگوں کو پیشاب کی ضرورت ہو گی نہ پاخانہ کی، نہ وہ تھوکیں گے نہ ناک سے آلائش نکالیں گے۔ ان کے کنگھے سونے کے ہوں گے اور ان کا پسینہ مشک کی طرح ہو گا۔ ان کی انگیٹھیوں میں خوشبودار عود جلتا ہو گا، یہ نہایت پاکیزہ خوشبودار عود ہو گا۔ ان کی بیویاں بڑی آنکھوں والی حوریں ہوں گی۔ سب کی صورتیں ایک ہوں گی۔ یعنی اپنے والد آدم علیہ السلام کے قد و قامت پر ساٹھ ساٹھ ہاتھ اونچے ہوں گے۔ حدیث نمبر ۳۳۲۸ راوی: ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہما ام سلیم رضی اللہ عنہا نے عرض کیا، یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ حق بات سے نہیں شرماتا، تو کیا اگر عورت کو احتلام ہو تو اس پر بھی غسل ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ہاں بشرطیکہ وہ تری دیکھ لے۔“ ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو اس بات پر ہنسی آ گئی اور فرمانے لگیں، کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”(اگر ایسا نہیں ہے) تو پھر بچے میں (ماں کی) مشابہت کہاں سے آتی ہے۔ حدیث نمبر ۳۳۲۹ راوی: انس رضی اللہ عنہ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ تشریف لانے کی خبر ملی تو وہ آپ کی خدمت میں آئے اور کہا کہ میں آپ سے تین چیزوں کے بارے میں پوچھوں گا۔ جنہیں نبی کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ قیامت کی سب سے پہلی علامت کیا ہے؟ وہ کون سا کھانا ہے جو سب سے پہلے جنتیوں کو کھانے کے لیے دیا جائے گا؟ اور کس چیز کی وجہ سے بچہ اپنے باپ کے مشابہ ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام نے ابھی ابھی مجھے آ کر اس کی خبر دی ہے۔ اس پر عبداللہ نے کہا کہ ملائکہ میں تو یہی تو یہودیوں کے دشمن ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کی سب سے پہلی علامت ایک آگ کی صورت میں ظاہر ہو گی جو لوگوں کو مشرق سے مغرب کی طرف ہانک لے جائے گی، سب سے پہلا کھانا جو اہل جنت کی دعوت کے لیے پیش کیا جائے گا، وہ مچھلی کی کلیجی پر جو ٹکڑا ٹکا رہتا ہے وہ ہو گا اور بچے کی مشابہت کا جہاں تک تعلق ہے تو جب مرد عورت کے قریب جاتا ہے اس وقت اگر مرد کی منی پہل کر جاتی ہے تو بچہ اسی کی شکل و صورت پر ہوتا ہے۔ اگر عورت کی منی پہل کر جاتی ہے تو پھر بچہ عورت کی شکل و صورت پر ہوتا ہے۔ (یہ سن کر) عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ بول اٹھے ”میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔“ پھر عرض کیا، یا رسول اللہ! یہود انتہا کی جھوٹی قوم ہے۔ اگر آپ کے دریافت کرنے سے پہلے میرے اسلام قبول کرنے کے بارے میں انہیں علم ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مجھ پر ہر طرح کی تہمتیں دھرنی شروع کر دیں گے۔ چنانچہ کچھ یہودی آئے اور عبداللہ رضی اللہ عنہ گھر کے اندر چھپ کر بیٹھ گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا تم لوگوں میں عبداللہ بن سلام کون صاحب ہیں؟ سارے یہودی کہنے لگے وہ ہم میں سب سے بڑے عالم اور سب سے بڑے عالم کے صاحب زادے ہیں۔ ہم میں سب سے زیادہ بہتر اور ہم میں سب سے بہتر کے صاحب زادے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا، اگر عبداللہ مسلمان ہو جائیں تو پھر تمہارا کیا خیال ہو گا؟ انہوں نے کہا، اللہ تعالیٰ انہیں اس سے محفوظ رکھے۔ اتنے میں عبداللہ رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے اور کہا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے سچے رسول ہیں۔ اب وہ سب ان کے متعلق کہنے لگے کہ ہم میں سب سے بدترین اور سب سے بدترین کا بیٹا ہے، وہیں وہ ان کی برائی کرنے لگے۔ حدیث نمبر ۳۳۳۰ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا کہ اگر قوم بنی اسرائیل نہ ہوتی تو گوشت نہ سڑا کرتا اور اگر حواء نہ ہوتیں تو عورت اپنے شوہر سے دغا نہ کرتی۔ حدیث نمبر ۳۳۳۱ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عورتوں کے بارے میں میری وصیت کا ہمیشہ خیال رکھنا، کیونکہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے۔ پسلی میں بھی سب سے زیادہ ٹیڑھا اوپر کا حصہ ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص اسے بالکل سیدھی کرنے کی کوشش کرے تو انجام کار توڑ کے رہے گا اور اگر اسے وہ یونہی چھوڑ دے گا تو پھر ہمیشہ ٹیڑھی ہی رہ جائے گی۔ پس عورتوں کے بارے میں میری نصیحت مانو، عورتوں سے اچھا سلوک کرو۔ حدیث نمبر ۳۳۳۲ راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا اور آپ سچوں کے سچے تھے کہ انسان کی پیدائش اس کی ماں کے پیٹ میں پہلے چالیس دن تک پوری کی جاتی ہے۔ پھر وہ اتنے ہی دنوں تک علقة یعنی غلیظ اور جامد خون کی صورت میں رہتا ہے۔ پھر اتنے ہی دنوں کے لیے مضغة (گوشت کا لوتھڑا) کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ پھر (چوتھے چلہ میں) اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ کو چار باتوں کا حکم دے کر بھیجتا ہے۔ پس وہ فرشتہ اس کے عمل، اس کی مدت زندگی، روزی اور یہ کہ وہ نیک ہے یا بد، کو لکھ لیتا ہے۔ اس کے بعد اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔ پس انسان (زندگی بھر) دوزخیوں کے کام کرتا رہتا ہے۔ اور جب اس کے اور دوزخ کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر سامنے آتی ہے اور وہ جنتیوں کے کام کرنے لگتا ہے اور جنت میں چلا جاتا ہے۔ اسی طرح ایک شخص جنتیوں کے کام کرتا رہتا ہے اور جب اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر سامنے آتی ہے اور وہ دوزخیوں کے کام شروع کر دیتا ہے اور وہ دوزخ میں چلا جاتا ہے۔ حدیث نمبر ۳۳۳۳ راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے ماں کے رحم کے لیے ایک فرشتہ مقرر کر دیا ہے وہ فرشتہ عرض کرتا ہے، اے رب! یہ نطفة ہے، اے رب یہ مضغة ہے۔ اے رب! یہ علقة ہے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ اسے پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو فرشتہ پوچھتا ہے اے رب! یہ مرد ہے یا اے رب! یہ عورت ہے، اے رب! یہ بد ہے یا نیک؟ اس کی روزی کیا ہے؟ اور مدت زندگی کتنی ہے؟ چنانچہ اسی کے مطابق ماں کے پیٹ ہی میں سب کچھ فرشتہ رکھ لیتا ہے۔ حدیث نمبر ۳۳۳۴ راوی: انس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کہ اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) اس شخص سے پوچھے گا جسے دوزخ کا سب سے ہلکا عذاب کیا گیا ہو گا۔ اگر دنیا میں تمہاری کوئی چیز ہوتی تو کیا تو اس عذاب سے نجات پانے کے لیے اسے بدلے میں دے سکتا تھا؟ وہ شخص کہے گا کہ جی ہاں اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جب تو آدم کی پیٹھ میں تھا تو میں نے تجھ سے اس سے بھی معمولی چیز کا مطالبہ کیا تھا (روز ازل میں) کہ میرا کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرانا، لیکن (جب تو دنیا میں آیا تو) اسی شرک کا عمل اختیار کیا۔ حدیث نمبر ۳۳۳۵ راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب بھی کوئی انسان ظلم سے قتل کیا جاتا ہے تو آدم علیہ السلام کے سب سے پہلے بیٹے (قابیل) کے نامہ اعمال میں بھی اس قتل کا گناہ لکھا جاتا ہے۔ کیونکہ قتل ناحق کی بنا سب سے پہلے اسی نے قائم کی تھی۔ روحوں کے جتھے ہیں جھنڈ کے جھنڈحدیث نمبر ۳۳۳۶ راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے ”روحوں کے جھنڈ کے جھنڈ الگ الگ تھے۔ پھر وہاں جن روحوں میں آپس میں پہچان تھی ان میں یہاں بھی محبت ہوتی ہے اور جو وہاں غیر تھیں یہاں بھی وہ خلاف رہتی ہیں۔“ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ اور ہم نے نوح کو ان کی قوم کے پاس اپنا رسول بنا کر بھیجا “ (۱۱:۲۵) ابن عباس رضی اللہ عنہما نے قرآن مجید کی اسی سورۃ ہود آیت ۲۷ میں بَادِيَ الرَّأْيِ کے متعلق کہا کہ وہ چیز ہمارے سامنے ظاہر ہو۔ آیت ۴۴ میں أَقْلِعِي یعنی روک لے ٹھہر جا اور آیت ۴۰ میں وَفَارَ التَّنُّورُ یعنی پانی اس تنور میں سے ابل پڑا اور عکرمہ نے کہا کہ التَّنُّورُ بمعنی سطح زمین کے ہے اور مجاہد نے کہا کہ الْجُودِيُّ جزیرہ کا ایک پہاڑ ہے۔ دجلہ و فرات کے بیچ میں اور سورۃ مؤمن میں لفظ دَأْبٌ بمعنی حال ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان: إِنَّا أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ أَنْ أَنْذِرْ قَوْمَكَ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ... بیشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا کہ اپنی قوم کو ڈرا ، اس سے پہلے کہ ان پر ایک درد ناک عذاب آ جائے ...آخر سورت تک حدیث نمبر ۳۳۳۷ راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں خطبہ سنانے کھڑے ہوئے۔ پہلے اللہ تعالیٰ کی، اس کی شان کے مطابق ثنا بیان کی، پھر دجال کا ذکر فرمایا اور فرمایا کہ میں تمہیں دجال کے فتنے سے ڈراتا ہوں اور کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی قوم کو اس سے نہ ڈرایا ہو۔ نوح علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو اس سے ڈرایا تھا۔ لیکن میں تمہیں اس کے بارے میں ایک ایسی بات بتاتا ہوں جو کسی نبی نے بھی اپنی قوم کو نہیں بتائی تھی، تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ دجال کانا ہو گا اور اللہ تعالیٰ اس عیب سے پاک ہے۔ اور سورۃ یونس میں فرمانا: وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ نُوحٍ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقَامِي وَتَذْكِيرِي بِآيَاتِ اللَّهِ ... مِنَ الْمُسْلِمِينَ. اے رسول! نوح کی خبر ان پر تلاوت کر، جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ اے قوم! اگر میرا یہاں ٹھہرنا اور اللہ تعالیٰ کی آیات کو تمہارے سامنے بیان کرنا تمہیں زیادہ ناگوار گزرتا ہے .... (۱۰:۷۱)۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد مِنَ الْمُسْلِمِينَ.تک۔ حدیث نمبر ۳۳۳۸ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیوں نہ میں تمہیں دجال کے متعلق ایک ایسی بات بتا دوں جو کسی نبی نے اپنی قوم کو اب تک نہیں بتائی۔ وہ کانا ہو گا اور جنت اور جہنم جیسی چیز لائے گا۔ پس جسے وہ جنت کہے گا درحقیقت وہی دوزخ ہو گی اور میں تمہیں اس کے فتنے سے اسی طرح ڈراتا ہوں، جیسے نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو ڈرایا تھا۔ حدیث نمبر ۳۳۳۹ راوی: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (قیامت کے دن) نوح علیہ السلام بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ دریافت فرمائے گا، کیا (میرا پیغام) تم نے پہنچا دیا تھا؟ نوح علیہ السلام عرض کریں گے میں نے تیرا پیغام پہنچا دیا تھا۔ اے رب العزت! اب اللہ تعالیٰ ان کی امت سے دریافت فرمائے گا، کیا (نوح علیہ السلام نے) تم تک میرا پیغام پہنچا دیا تھا؟ وہ جواب دیں گے نہیں، ہمارے پاس تیرا کوئی نبی نہیں آیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نوح علیہ السلام سے دریافت فرمائے گا، اس کے لیے آپ کی طرف سے کوئی گواہی بھی دے سکتا ہے؟ وہ عرض کریں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی امت (کے لوگ میرے گواہ ہیں) چنانچہ ہم اس بات کی شہادت دیں گے کہ نوح علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کا پیغام اپنی قوم تک پہنچایا تھا اور یہی مفہوم اللہ جل ذکرہ کے اس ارشاد کا ہے وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ اور اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط بنایا ‘ تاکہ تم لوگوں پر گواہی دو۔ (۲:۱۴۳) وَسَطًا کے معنی درمیانی کے ہیں۔ حدیث نمبر ۳۳۴۰ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک دعوت میں شریک تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دستی کا گوشت پیش کیا گیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت مرغوب تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دستی کی ہڈی کا گوشت دانتوں سے نکال کر کھایا۔ پھر فرمایا کہ میں قیامت کے دن لوگوں کا سردار ہوں گا۔ تمہیں معلوم ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) تمام مخلوق کو ایک چٹیل میدان میں جمع کرے گا؟ اس طرح کہ دیکھنے والا سب کو ایک ساتھ دیکھ سکے گا۔ آواز دینے والے کی آواز ہر جگہ سنی جا سکے گی اور سورج بالکل قریب ہو جائے گا۔ ایک شخص اپنے قریب کے دوسرے شخص سے کہے گا، دیکھتے نہیں کہ سب لوگ کیسی پریشانی میں مبتلا ہیں؟ اور مصیبت کس حد تک پہنچ چکی ہے؟ کیوں نہ کسی ایسے شخص کی تلاش کی جائے جو اللہ پاک کی بارگاہ میں ہم سب کی شفاعت کے لیے جائے۔ کچھ لوگوں کا مشورہ ہو گا کہ دادا آدم علیہ السلام اس کے لیے مناسب ہیں۔ چنانچہ لوگ ان کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے، اے باوا آدم! آپ انسانوں کے دادا ہیں۔ اللہ پاک نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا تھا، اپنی روح آپ کے اندر پھونکی تھی، ملائکہ کو حکم دیا تھا اور انہوں نے آپ کو سجدہ کیا تھا اور جنت میں آپ کو (پیدا کرنے کے بعد) ٹھہرایا تھا۔ آپ اپنے رب کے حضور میں ہماری شفاعت کر دیں۔ آپ خود ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ ہم کس درجہ الجھن اور پریشانی میں مبتلا ہیں۔ وہ فرمائیں گے کہ (گناہ گاروں پر) اللہ تعالیٰ آج اس درجہ غضبناک ہے کہ کبھی اتنا غضبناک نہیں ہوا تھا اور نہ آئندہ کبھی ہو گا اور مجھے پہلے ہی درخت (جنت) کے کھانے سے منع کر چکا تھا لیکن میں اس فرمان کو بجا لانے میں کوتاہی کر گیا۔ آج تو مجھے اپنی ہی پڑی ہے نفسی نفسی تم لوگ کسی اور کے پاس جاؤ۔ ہاں، نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ چنانچہ سب لوگ نوح علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے، اے نوح علیہ السلام! آپ (آدم علیہ السلام کے بعد) روئے زمین پر سب سے پہلے نبی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو عبدشکور کہہ کر پکارا ہے۔ آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ آج ہم کیسی مصیبت و پریشانی میں مبتلا ہیں؟ آپ اپنے رب کے حضور میں ہماری شفاعت کر دیجئیے۔ وہ بھی یہی جواب دیں گے کہ میرا رب آج اس درجہ غضبناک ہے کہ اس سے پہلے کبھی ایسا غضبناک نہیں ہوا تھا اور نہ کبھی اس کے بعد اتنا غضبناک ہو گا۔ آج تو مجھے خود اپنی ہی فکر ہے۔ نفسی نفسی تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جاؤ چنانچہ وہ لوگ میرے پاس آئیں گے۔ میں (ان کی شفاعت کے لیے) عرش کے نیچے سجدے میں گر پڑوں گا۔ پھر آواز آئے گی، اے محمد! سر اٹھاؤ اور شفاعت کرو، تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی۔ مانگو تمہیں دیا جائے گا۔ حدیث نمبر ۳۳۴۱ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ القمر کی آیت ۱۵ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ مشہور قرآت کے مطابق (ادغام کے ساتھ) تلاوت فرمائی تھی۔ اللہ تعالیٰ کا سورۃ الصافات میں فرمانوَإِنَّ إِلْيَاسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ ... وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الآخِرِينَ اور بیشک الیاس رسولوں میں سے تھا ، جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ تم ( اللہ کو چھوڑ کر بتوں کی عبادت کرنے سے ) ڈرتے کیوں نہیں ہو ؟ تم بعل ( بت ) کی تو عبادت کرتے ہو اور سب سے اچھے پیدا کرنے والے کی عبادت کو چھوڑتے ہو ۔ اللہ ہی تمہارا رب ہے اور تمہارے باپ دادوں کا بھی ، لیکن ان کی قوم نے انہیں جھٹلایا ۔ پس بیشک وہ سب لوگ ( عذاب کے لیے ) حاضر کئے جائیں گے ۔ سوائے اللہ کے ان بندوں کے جو مخلص تھے اور ہم نے بعد میں آنے والی امتوں میں ان کا ذکر خیر چھوڑا ہے (۳۷:۱۲۳،۱۲۹) حدیث نمبر ۳۳۴۲ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الآخِرِينَ کے متعلق کہا کہ بھلائی کے ساتھ انہیں یاد کیا جاتا رہے گا۔ سلامتی ہو الیاسین پر، بیشک ہم اسی طرح مخلصین کو بدلہ دیتے ہیں۔ بیشک وہ ہمارے مخلص بندوں میں سے تھا۔ ابن عباس اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ الیاس، ادریس علیہ السلام کا نام تھا۔ ادریس علیہ السلام کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا فرماناوَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا اور ہم نے ان کو بلند مکان ( آسمان ) پر اٹھا لیا تھا (۱۹:۵۷) ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میرے گھر کی چھت کھولی گئی۔ میرا قیام ان دنوں مکہ میں تھا۔ پھر جبرائیل علیہ السلام اترے اور میرا سینہ چاک کیا اور اسے زمزم کے پانی سے دھویا۔ اس کے بعد سونے کا ایک طشت لائے جو حکمت اور ایمان سے لبریز تھا، اسے میرے سینے میں انڈیل دیا۔ پھر میرا ہاتھ پکڑ کر آسمان کی طرف لے کر چلے، جب آسمان دنیا پر پہنچے تو جبرائیل علیہ السلام نے آسمان کے داروغہ سے کہا کہ دروازہ کھولو، پوچھا کہ کون صاحب ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں جبرائیل، جواب دیا کہ میرے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، پوچھا کہ انہیں لانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا۔ جواب دیا کہ ہاں، اب دروازہ کھلا، جب ہم آسمان پر پہنچے تو وہاں ایک بزرگ سے ملاقات ہوئی، کچھ انسانی روحیں ان کے دائیں طرف تھیں اور کچھ بائیں طرف، جب وہ دائیں طرف دیکھتے تو ہنس دیتے اور جب بائیں طرف دیکھتے تو رو پڑتے۔ انہوں نے کہا خوش آمدید، نیک نبی، نیک بیٹے! میں نے پوچھا، جبرائیل! یہ صاحب کون بزرگ ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ یہ آدم علیہ السلام ہیں اور یہ انسانی روحیں ان کے دائیں اور بائیں طرف تھیں ان کی اولاد بنی آدم کی روحیں تھیں ان کے جو دائیں طرف تھیں وہ جنتی تھیں اور جو بائیں طرف تھیں وہ دوزخی تھیں، اسی لیے جب وہ دائیں طرف دیکھتے تو مسکراتے اور جب بائیں طرف دیکھتے تو روتے تھے، پھر جبرائیل علیہ السلام مجھے اوپر لے کر چڑھے اور دوسرے آسمان پر آئے، اس آسمان کے داروغہ سے بھی انہوں نے کہا کہ دروازہ کھولو، انہوں نے بھی اسی طرح کے سوالات کئے جو پہلے آسمان پر ہو چکے تھے، پھر دروازہ کھولا، ذیلی راوی انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابوذر رضی اللہ عنہ نے تفصیل سے بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف آسمانوں پر ادریس، موسیٰ، عیسیٰ اور ابراہیم علیہم السلام کو پایا، لیکن انہوں نے ان انبیاء کرام کے مقامات کی کوئی تخصیص نہیں کی، صرف اتنا کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آدم علیہ السلام کو آسمان دنیا (پہلے آسمان پر) پایا اور ابراہیم علیہ السلام کو چھٹے پر اور انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر جب جبرائیل علیہ السلام، ادریس علیہ السلام کے پاس سے گزرے تو انہوں نے کہا خوش آمدید، نیک نبی، نیک بھائی، میں نے پوچھا کہ یہ کون صاحب ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ ادریس علیہ السلام ہیں، پھر میں عیسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا، انہوں نے بھی کہا خوش آمدید نیک نبی، نیک بھائی، میں نے پوچھا یہ کون صاحب ہیں؟ تو بتایا کہ عیسیٰ علیہ السلام۔ پھر ابراہیم علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے فرمایا کہ خوش آمدید نیک نبی اور نیک بیٹے، میں نے پوچھا یہ کون صاحب ہیں؟ جواب دیا کہ یہ ابراہیم علیہ السلام ہیں، ابن شہاب سے زہری نے بیان کیا اور مجھے ایوب بن حزم نے خبر دی کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما اور ابوحیہ انصاری رضی اللہ عنہم بیان کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : پھر مجھے اوپر لے کر چڑھے اور میں اتنے بلند مقام پر پہنچ گیا جہاں سے قلم کے لکھنے کی آواز صاف سننے لگی تھی، ابوبکر بن حزم نے بیان کیا اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر اللہ تعالیٰ نے پچاس وقت کی نمازیں مجھ پر فرض کیں۔ میں اس فریضہ کے ساتھ واپس ہوا اور جب موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے پوچھا کہ آپ کی امت پر کیا چیز فرض کی گئی ہے؟ میں نے جواب دیا کہ پچاس وقت کی نمازیں ان پر فرض ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ اپنے رب کے پاس واپس جائیں، کیونکہ آپ کی امت میں اتنی نمازوں کی طاقت نہیں ہے، چنانچہ میں واپس ہوا اور رب العالمین کے دربار میں مراجعت کی، اس کے نتیجے میں اس کا ایک حصہ کم کر دیا گیا، پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا اور اس مرتبہ بھی انہوں نے کہا کہ اپنے رب سے پھر مراجعت کریں پھر انہوں نے اپنی تفصیلات کا ذکر کیا کہ رب العالمین نے ایک حصہ کی پھر کمی کر دی، پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا اور انہیں خبر کی، انہوں نے کہا کہ آپ اپنے رب سے مراجعت کریں، کیونکہ آپ کی امت میں اس کی بھی طاقت نہیں ہے، پھر میں واپس ہوا اور اپنے رب سے پھر مراجعت کی، اللہ تعالیٰ نے اس مرتبہ فرما دیا کہ نمازیں پانچ وقت کی کر دی گئیں اور ثواب پچاس نمازوں کا ہی باقی رکھا گیا، ہمارا قول بدلا نہیں کرتا۔ پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انہوں نے اب بھی اسی پر زور دیا کہ اپنے رب سے آپ کو پھر مراجعت کرنی چاہئے۔ لیکن میں نے کہا کہ مجھے اللہ پاک سے باربار درخواست کرتے ہوئے اب شرم آتی ہے۔ پھر جبرائیل علیہ السلام مجھے لے کر آگے بڑھے اور سدرۃ المنتہیٰ کے پاس لائے جہاں مختلف قسم کے رنگ نظر آئے، جنہوں نے اس درخت کو چھپا رکھا تھا میں نہیں جانتا کہ وہ کیا تھے۔ اس کے بعد مجھے جنت میں داخل کیا گیا تو میں نے دیکھا کہ موتی کے گنبد بنے ہوئے ہیں اور اس کی مٹی مشک کی طرح خوشبودار تھی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ هُودًا قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ ” اور قوم عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی ہود کو ( نبی بنا کر ) بھیجا انہوں نے کہا ، اے قوم ! اللہ کی عبادت کرو “(۷:۶۵) اور سورۃ الاحقاف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا إِذْ أَنْذَرَ قَوْمَهُ بِالأَحْقَافِ ہود علیہ السلام نے اپنی قوم کو احقاف یعنی ریت کے میدانوں میں ڈرایا (۴۶:۲۱) اللہ تعالیٰ کے ارشاد كَذَلِكَ نَجْزِي الْقَوْمَ الْمُجْرِمِينَ یوں ہی ہم بدلہ دیتے ہیں مجرم قوموں کو (۴۶:۲۱،۲۵) اس باب میں عطاء ابن ابی رباح اور سلیمان بن یسار نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ اللہ تعالیٰ نے ( سورۃ الحاقہ میں ) فرمایا وَأَمَّا عَادٌ فَأُهْلِكُوا بِرِيحٍ صَرْصَرٍشَدِيدَةٍ ” لیکن قوم عاد ، تو انہیں ایک نہایت تیز تند آندھی سے ہلاک کیا گیا ، جو بڑی غضبناک تھی ۔ (۶۹:۶) ابن عیینہ نے آیت کے لفظ)عاتية کی تشریح میں کہا کہ ( عتت على الخزان یعنی وہ اپنے داروغہ فرشتوں کے قابو سے باہر ہو گئی جسے اللہ نے ان پر متواتر سات رات اور آٹھ دن تک مسلط کیا آیت میں لفظ حسوما بمعنی متتابعة ہے یعنی وہ پے در پے چلتی رہی (ایک منٹ بھی نہیں رکی) پس اگر تو اس وقت موجود ہوتا تو اس قوم کو وہاں یوں گرا ہوا دیکھتا کہ گویا وہ کھوکھلی کھجوروں کے تنے پڑے ہیں، سو کیا تجھ کو ان میں سے کوئی بھی بچا ہوا نظر آتا ہے۔ حدیث نمبر ۳۳۴۳ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”(غزوہ خندق کے موقع پر) پروا ہوا سے میری مدد کی گئی اور قوم عاد پچھوا ہوا سے ہلاک کر دی گئی تھی۔“ حدیث نمبر ۳۳۴۴ راوی: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ علی رضی اللہ عنہ نے (یمن سے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ سونا بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چار آدمیوں میں تقسیم کر دیا، اقرع بن حابس حنظلی ثم المجاشعی، عیینہ بن بدر فزاری، زید طائی بنی نبہان والے اور علقمہ بن علاثہ عامری بنو کلاب والے، اس پر قریش اور انصار کے لوگوں کو غصہ آیا اور کہنے لگے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کے بڑوں کو تو دیا لیکن ہمیں نظر انداز کر دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں صرف ان کے دل ملانے کے لیے انہیں دیتا ہوں (کیونکہ ابھی حال ہی میں یہ لوگ مسلمان ہوئے ہیں) پھر ایک شخص سامنے آیا، اس کی آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں، کلے پھولے ہوئے تھے، پیشانی بھی اٹھی ہوئی، ڈاڑھی بہت گھنی تھی اور سر منڈا ہوا تھا۔ اس نے کہا اے محمد! اللہ سے ڈرو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر میں ہی اللہ کی نافرمانی کروں گا تو پھر اس کی فرمانبرداری کون کرے گا؟ اللہ تعالیٰ نے مجھے روئے زمین پر دیانت دار بنا کر بھیجا ہے۔ کیا تم مجھے امین نہیں سمجھتے؟ اس شخص کی اس گستاخی پر ایک صحابی نے اس کے قتل کی اجازت چاہی، میرا خیال ہے کہ یہ خالد بن ولید تھے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس سے روک دیا، پھر وہ شخص وہاں سے چلنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس شخص کی نسل سے یا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ) اس شخص کے بعد اسی کی قوم سے ایسے لوگ جھوٹے مسلمان پیدا ہوں گے، جو قرآن کی تلاوت تو کریں گے، لیکن قرآن مجید ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، دین سے وہ اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتاہے، یہ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے، اگر میری زندگی اس وقت تک باقی رہے تو میں ان کو اس طرح قتل کروں گا جیسے قوم عاد کا (عذاب الٰہی سے) قتل ہوا تھا کہ ایک بھی باقی نہ بچا۔ حدیث نمبر ۳۳۴۵ راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ آیت «فهل من مدكر» کی تلاوت فرما رہے تھے۔ یاجوج و ماجوج کا بیانسورۃ الکہف میں فرمایا قالوا يا ذا القرنين إن يأجوج ومأجوج مفسدون في الأرض وہ لوگ کہنے لگے۔ اے ذوالقرنین! یاجوج اور ماجوج لوگ ملک میں بہت فساد مچا رہے ہیں۔(۱۸:۹۴) اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا وَيَسۡـَٔلُونَكَ عَن ذِى ٱلۡقَرۡنَيۡنِۖ قُلۡ سَأَتۡلُواْ عَلَيۡكُم...فَأَتۡبَعَ سَبَبً اور آپ سے (اے رسول) ذوالقرنین (بادشاہ) کے متعلق یہ لوگ پوچھتے ہیں۔ (آپ فرما دیں کہ) ان کا قصہ میں ابھی تمہارے سامنے بیان کرتا ہوں ہم نے اسے زمین کی حکومت دی تھی اور ہم نے اس کو ہر طرح کا سامان عطا فرمایا تھا پھر وہ ایک سمت چل نکلا .(۱۸:۸۳،۸۴) اللہ تعالیٰ کے ارشاد ائتوني زبر الحديد ”تم لوگ میرے پاس لوہے کی چادریں لاؤ، تک۔ زبر کا واحد زبرة ہے اور زبرة ٹکڑے کو کہتے ہیں ”یہاں تک کہ جب اس نے ان دونوں پہاڑوں کے برابر دیوار اٹھا دی۔(۱۸:۹۶) صدفين سے پہاڑ مراد ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بين الصدفين کی تفسیر میں منقول ہے)اور السدين الصدفين کی دوسری قرآت بھی الجبلين (دو پہاڑ) کے معنی میں ہے۔ خرجا بمعنی محصول اجرت، أفرغ عليه قطرا کے معنی ہیں کہ میں اس پر پگھلا ہوا سیسہ ڈال دوں قطر کے معنی بعض نے لوہے (پگھلے ہوئے سے) کئے ہیں اور بعض نے پیتل سے، ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس کا معنی تانبا بتایا ہے۔ يظهروه بمعنی يعلوه ، أطعت له سے استفعال کا صیغہ ہے۔ اسی لیے أسطاع يسطيع يستطيع بھی پڑھتے ہیں عرب کے لوگ اسی سے بولتے ہیں ناقة دكاء جس سے مراد وہ اونٹ ہے جس کی کوہان نہ ہو۔ اور الدكداك من الأرض کی مثال وہ زمین جو ہموار ہو کر سخت ہو گئی ہو، اونچی نہ ہو قتادہ نے کہا کہ حدب کے معنی ٹیلہ کے ہیں۔ ذوالقرنین نے (عملہ سے) کہا کہ اب اس دیوار کو آگ سے دھونکو یہاں تک کہ جب اسے آگ بنا دیا تو کہا اب میرے پاس پگھلا ہوا سیسہ تانبا لاؤ تو میں اس پر ڈال دوں پھر قوم یاجوج و ماجوج کے لوگ (اس سد کے بعد) اس پر چڑھ نہ سکے اور یاجوج ماجوج اس میں سوراخ بھی نہ کر سکے۔ ذوالقرنین نے کہا کہ یہ میرے پروردگار کی ایک رحمت ہے پھر جب میرے پروردگار کا مقررہ وعدہ آ پہنچے گا تو وہ اس دیوار کو دكا یعنی زمین کے ساتھ ملا دے گا، اور میرے رب کا وعدہ برحق ہے اور اس روز ہم ان کو اس طرح چھوڑ دیں گے کہ بعض ان کا بعض سے گڈ مڈ ہو جائے گا۔ یہاں تک کہ جب یاجوج ماجوج کو کھول دیا جائے گا اور وہ ہر بلندی سے دوڑ پڑیں گے۔ ایک صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں نے اس دیوار کو دھاری دار چادر کی طرح دیکھا ہے جس کی ایک دھاری سرخ ہے اور ایک کالی ہے، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا واقعی تم نے اس کو دیکھا ہے۔ حدیث نمبر ۳۳۴۶ راوی: زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے یہاں تشریف لائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ گھبرائے ہوئے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں، ملک عرب میں اس برائی کی وجہ سے بربادی آ جائے گی جس کے دن قریب آنے کو ہیں، آج یاجوج ماجوج نے دیوار میں اتنا سوراخ کر دیا ہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انگوٹھے اور اس کے قریب کی انگلی سے حلقہ بنا کر بتلایا۔ ام المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے سوال کیا: یا رسول اللہ! کیا ہم اس کے باوجود ہلاک کر دئیے جائیں گے کہ ہم میں نیک لوگ بھی موجود ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب فسق و فجور بڑھ جائے گا (تو یقیناً بربادی ہو گی)۔ حدیث نمبر ۳۳۴۷ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اللہ پاک نے یاجوج ماجوج کی دیوار سے اتنا کھول دیا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں سے نوے کا عدد بنا کر بتلایا۔“ حدیث نمبر ۳۳۴۸ راوی: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) فرمائے گا، اے آدم! آدم علیہ السلام عرض کریں گے میں اطاعت کے لیے حاضر ہوں، مستعد ہوں، ساری بھلائیاں صرف تیرے ہی ہاتھ میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا، جہنم میں جانے والوں کو (لوگوں میں سے الگ) نکال لو۔ آدم علیہ السلام عرض کریں گے۔ اے اللہ! جہنمیوں کی تعداد کتنی ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ہر ایک ہزار میں سے نو سو ننانوے۔ اس وقت (کی ہولناکی اور وحشت سے) بچے بوڑھے ہو جائیں گے اور ہر حاملہ عورت اپنا حمل گرا دے گی۔ اس وقت تم (خوف و دہشت سے) لوگوں کو مدہوشی کے عالم میں دیکھو گے، حالانکہ وہ بیہوش نہ ہوں گے۔ لیکن اللہ کا عذاب بڑا ہی سخت ہو گا۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ ایک شخص ہم میں سے کون ہو گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں بشارت ہو، وہ ایک آدمی تم میں سے ہو گا اور ایک ہزار دوزخی یاجوج ماجوج کی قوم سے ہوں گے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، مجھے امید ہے کہ تم (امت مسلمہ) تمام جنت والوں کے ایک تہائی ہو گے۔ پھر ہم نے اللہ اکبر کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ تم تمام جنت والوں کے آدھے ہو گے پھر ہم نے اللہ اکبر کہا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (محشر میں) تم لوگ تمام انسانوں کے مقابلے میں اتنے ہو گے جتنے کسی سفید بیل کے جسم پر ایک سیاہ بال، یا جتنے کسی سیاہ بیل کے جسم پر ایک سفید بال ہوتا ہے۔ اور اللہ نے ابراہیم کو خلیل بنایااللہ تعالیٰ کا سورۃ نساء میں فرمان : وَٱتَّخَذَ ٱللَّهُ إِبۡرَٲهِيمَ خَلِيلاً۬ اور اللہ نے ابراہیم کو خلیل بنایا (۴:۱۲۵) اور سورۃ نحل میں اللہ تعالیٰ کا فرمان: إِنَّ إِبۡرَٲهِيمَ كَانَ أُمَّةً۬ قَانِتً۬ا بیشک ابراہیم ایک امت تھے، اللہ تعالیٰ کے مطیع و فرماں بردار، ایک طرف ہونے والے ۔ (۱۶:۱۲۰) اور سورۃ التوبہ میں اللہ تعالیٰ کا فرمان : إِنَّ إِبۡرَٲهِيمَ لَأَوَّٲهٌ حَلِيمٌ۬ بیشک ابراہیم نہایت نرم طبیعت اور بڑے ہی بردبار تھے۔(۹:۱۱۴) ابومیسرہ (عمرو بن شرحبیل) نے کہا کہ أواه حبشی زبان میں لرحيم کے معنی میں ہے۔ حدیث نمبر ۳۳۴۹ راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تم لوگ حشر میں ننگے پاؤں، ننگے جسم اور بن ختنہ اٹھائے جاؤ گے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی كَمَا بَدَأۡنَآ أَوَّلَ خَلۡقٍ۬ نُّعِيدُهُ ۥۚ وَعۡدًا عَلَيۡنَآۚ إِنَّا كُنَّا فَـٰعِلِينَ جیسا کہ ہم نے پیدا کیا تھا پہلی مرتبہ، ہم ایسے ہی لوٹائیں گے۔ یہ ہماری طرف سے ایک وعدہ ہے جس کو ہم پورا کر کے رہیں گے (۲۱:۱۰۴) اور انبیاء میں سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام کو کپڑا پہنایا جائے گا اور میرے اصحاب میں سے بعض کو جہنم کی طرف لے جایا جائے گا تو میں پکار اٹھوں گا کہ یہ تو میرے اصحاب ہیں، میرے اصحاب! لیکن مجھے بتایا جائے گا کہ آپ کی وفات کے بعد ان لوگوں نے پھر کفر اختیار کر لیا تھا۔ اس وقت میں بھی وہی جملہ کہوں گا جو نیک بندے (عیسیٰ علیہ السلام) کہیں گے مَا قُلۡتُ لَهُمۡ إِلَّا مَآ أَمَرۡتَنِى بِهِۦۤ ۔۔۔فَإِنَّكَ أَنتَ ٱلۡعَزِيزُ ٱلۡحَكِيمُ وہ یہ کہ تم خدا کی عبادت کرو اور جو میرے تمہارا سب کا پروردگار ہے۔اور جب تک میں ان میں رہا ان (کے حالات) کی خبر رکھتا رہا۔ جب تو نے مجھے دنیا سے اٹھا لیا تو تو ان کا نگران تھا۔اور تو ہرچیز سے خبردار ہے۔ اگر تو انکو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر بخش دے تو (تیری مہربانی ہے) بےشک تو غالب (اور) حکمت والا ہے ۔ (۵:۱۱۷،۸) حدیث نمبر ۳۳۵۰ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابراہیم علیہ السلام اپنے والد آذر سے قیامت کے دن جب ملیں گے تو ان کے (والد کے) چہرے پر سیاہی اور غبار ہو گا۔ ابراہیم علیہ السلام کہیں گے کہ کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ میری مخالفت نہ کیجئے۔ وہ کہیں گے کہ آج میں آپ کی مخالفت نہیں کرتا۔ ابراہیم علیہ السلام عرض کریں گے کہ اے رب! تو نے وعدہ فرمایا تھا کہ مجھے قیامت کے دن رسوا نہیں کرے گا۔ آج اس رسوائی سے بڑھ کر اور کون سی رسوائی ہو گی کہ میرے والد تیری رحمت سے سب سے زیادہ دور ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے جنت کافروں پر حرام قرار دی ہے۔ پھر کہا جائے گا کہ اے ابراہیم! تمہارے قدموں کے نیچے کیا چیز ہے؟ وہ دیکھیں گے تو ایک ذبح کیا ہوا جانور خون میں لتھڑا ہوا وہاں پڑا ہو گا اور پھر اس کے پاؤں پکڑ کر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ حدیث نمبر ۳۳۵۱ راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ میں داخل ہوئے تو اس میں ابراہیم علیہ السلام اور مریم علیہما السلام کی تصویریں دیکھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قریش کو کیا ہو گیا؟ حالانکہ انہیں معلوم ہے کہ فرشتے کسی ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویریں رکھی ہوں، یہ ابراہیم علیہ السلام کی تصویر ہے اور وہ بھی پانسہ پھینکتے ہوئے۔ حدیث نمبر ۳۳۵۲ راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بیت اللہ میں تصویریں دیکھیں تو اندر اس وقت تک داخل نہ ہوئے جب تک وہ مٹا نہ دی گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام کی تصویریں دیکھیں کہ ان کے ہاتھوں میں تیر (پانسے کے) تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ ان پر بربادی لائے۔ واللہ ان حضرات نے کبھی تیر نہیں پھینکے۔“ حدیث نمبر ۳۳۵۳ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ابوہریرہ نے کہ عرض کیا گیا یا رسول اللہ! سب سے زیادہ شریف کون ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو۔“ صحابہ نے عرض کیا کہ ہم آپ سے اس کے متعلق نہیں پوچھتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”پھر اللہ کے نبی یوسف بن نبی اللہ بن نبی اللہ بن خلیل اللہ (سب س ے زیادہ شریف ہیں)“ صحابہ نے کہا کہ ہم اس کے متعلق بھی نہیں پوچھتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اچھا عرب کے خاندانوں کے متعلق تم پوچھنا چاہتے ہو۔ سنو جو جاہلیت میں شریف تھے اسلام میں بھی وہ شریف ہیں جب کہ دین کی سمجھ انہیں آ جائے۔“ حدیث نمبر ۳۳۵۴ راوی: سمرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”آج کی رات میرے پاس (خواب میں) دو فرشتے (جبرائیل و میکائیل علیہما السلام) آئے۔ پھر یہ دونوں فرشتے مجھے ساتھ لے کر ایک لمبے قد کے بزرگ کے پاس گئے، وہ اتنے لمبے تھے کہ ان کا سر میں نہیں دیکھ پاتا تھا اور یہ ابراہیم علیہ السلام تھے۔“ حدیث نمبر ۳۳۵۵ راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما آپ کے سامنے لوگ دجال کا تذکرہ کر رہے تھے کہ اس کی پیشانی پر لکھا ہوا ہو گا ”کافر“ یا (یوں لکھا ہوا ہو گا) ”ک ف ر“ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے یہ حدیث نہیں سنی تھی۔ البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ یہ حدیث بیان فرمائی : ابراہیم علیہ السلام (کی شکل و وضع معلوم کرنے) کے لیے تم اپنے صاحب کو دیکھ سکتے ہو اور موسیٰ علیہ السلام کا بدن گٹھا ہوا، گندم گوں، ایک سرخ اونٹ پر سوار تھے۔ جس کی نکیل کھجور کی چھال کی تھی۔ جیسے میں انہیں اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں کہ وہ اللہ کی بڑائی بیان کرتے ہوئے وادی میں اتر رہے ہیں۔ حدیث نمبر ۳۳۵۶a راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ابراہیم علیہ السلام نے اسی (۸۰) سال کی عمر میں بسولے سے ختنہ کیا۔“ حدیث نمبر ۳۳۵۶b شعیب نے خبر دی، کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا، پھر یہی حدیث نقل کی لیکن پہلی روایت میں قدوم بہ تشدید دال ہے اور اس میں قدوم بہ تخفیف دال ہے۔ دونوں کے معنی ایک ہی ہیں۔ یعنی بسولہ (جو بڑھیوں کا ایک مشہور ہتھیار ہوتا ہے اسے بسوہ بھی کہتے ہیں) حدیث نمبر ۳۳۵۷ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ابراہیم علیہ السلام نے توریہ تین مرتبہ کے سوا اور کبھی نہیں کیا۔“ حدیث نمبر ۳۳۵۸ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کیا کہ ابراہیم علیہ السلام نے تین مرتبہ جھوٹ بولا تھا، دو ان میں سے خالص اللہ عزوجل کی رضا کے لیے تھے۔ ایک تو ان کا فرمانا (بطور توریہ کے) کہ ”میں بیمار ہوں“ اور دوسرا ان کا یہ فرمانا کہ ”بلکہ یہ کام تو ان کے بڑے (بت) نے کیا ہے۔ اور بیان کیا کہ ایک مرتبہ ابراہیم علیہ السلام اور سارہ علیہا السلام ایک ظالم بادشاہ کی حدود سلطنت سے گزر رہے تھے۔ بادشاہ کو خبر ملی کہ یہاں ایک شخص آیا ہوا ہے اور اس کے ساتھ دنیا کی ایک خوبصورت ترین عورت ہے۔ بادشاہ نے ابراہیم علیہ السلام کے پاس اپنا آدمی بھیج کر انہیں بلوایا اور سارہ علیہا السلام کے متعلق پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ میری بہن ہیں۔ پھر آپ سارہ علیہا السلام کے پاس آئے اور فرمایا کہ اے سارہ! یہاں میرے اور تمہارے سوا اور کوئی بھی مؤمن نہیں ہے اور اس بادشاہ نے مجھ سے پوچھا تو میں نے اس سے کہہ دیا کہ تم میری (دینی اعتبار سے) بہن ہو۔ اس لیے اب تم کوئی ایسی بات نہ کہنا جس سے میں جھوٹا بنوں۔ پھر اس ظالم نے سارہ کو بلوایا اور جب وہ اس کے پاس گئیں تو اس نے ان کی طرف ہاتھ بڑھانا چاہا لیکن فوراً ہی پکڑ لیا گیا۔ پھر وہ کہنے لگا کہ میرے لیے اللہ سے دعا کرو (کہ اس مصیبت سے نجات دے) میں اب تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ چنانچہ انہوں نے اللہ سے دعا کی اور وہ چھوڑ دیا گیا۔ لیکن پھر دوسری مرتبہ اس نے ہاتھ بڑھایا اور اس مرتبہ بھی اسی طرح پکڑ لیا گیا، بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت اور پھر کہنے لگا کہ اللہ سے میرے لیے دعا کرو، میں اب تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ سارہ علیہا السلام نے دعا کی اور وہ چھوڑ دیا گیا۔ اس کے بعد اس نے اپنے کسی خدمت گار کو بلا کر کہا کہ تم لوگ میرے پاس کسی انسان کو نہیں لائے ہو، یہ تو کوئی سرکش جن ہے (جاتے ہوئے) سارہ علیہ السلام کے لیے اس نے ہاجرہ علیہا السلام کو خدمت کے لیے دیا۔ جب سارہ آئیں تو ابراہیم علیہ السلام کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ آپ نے ہاتھ کے اشارہ سے ان کا حال پوچھا۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے کافر یا (یہ کہا کہ) فاجر کے فریب کو اسی کے منہ پر دے مارا اور ہاجرہ علیہا السلام کو خدمت کے لیے دیا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے بني ماء السماء. (اے آسمانی پانی کی اولاد! یعنی اہل عرب) تمہاری والدہ یہی (ہاجرہ علیہا السلام) ہیں۔ حدیث نمبر ۳۳۵۹ راوی: ام شریک رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گرگٹ کو مارنے کا حکم دیا تھا اور فرمایا کہ اس نے ابراہیم علیہ السلام کی آگ پر پھونکا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ نساء میں ) فرمان کہ ” اور اللہ نے ابراہیم کو خلیل بنایاحدیث نمبر ۳۳۶۰ راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جب یہ آیت اتری الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم ”جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان میں کسی قسم کے ظلم کی ملاوٹ نہ کی۔“ تو ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم میں ایسا کون ہو گا جس نے اپنی جان پر ظلم نہ کیا ہو گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ واقعہ وہ نہیں جو تم سمجھتے ہو۔ جس نے اپنے ایمان کے ساتھ ظلم کی ملاوٹ نہ کی۔ (میں ظلم سے مراد) شرک ہے کیا تم نے لقمان علیہ السلام کی اپنے بیٹے کو یہ نصیحت نہیں سنی کہ يَـٰبُنَىَّ لَا تُشۡرِكۡ بِٱللَّهِۖإِنَّ ٱلشِّرۡكَ لَظُلۡمٌ عَظِيمٌ۬ اے بیٹے! اللہ کے ساتھ شریک نہ کرنا، بیشک شرک بہت ہی بڑا ظلم ہے۔ (۳۱:۱۳) سورۃ الصافات میں جو لفظ يَزِفُّونَ وارد ہوا ہے، اس کے معنی ہیں دوڑ کر چلے۔ حدیث نمبر ۳۳۶۱ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، انس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک مرتبہ گوشت پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اولین و آخرین کو ایک ہموار اور وسیع میدان میں جمع کرے گا، اس طرح کہ پکارنے والا سب کو اپنی بات سنا سکے گا اور دیکھنے والا سب کو ایک ساتھ دیکھ سکے گا (کیونکہ یہ میدان ہموار ہو گا، زمین کی طرح گول نہ ہو گا) اور لوگوں سے سورج بالکل قریب ہو جائے گا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شفاعت کا ذکر کیا کہ لوگ ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے کہ آپ روئے زمین پر اللہ کے نبی اور خلیل ہیں۔ ہمارے لیے اپنے رب کے حضور میں شفاعت کیجئے، پھر انہیں اپنے جھوٹ (توریہ) یاد آ جائیں گے اور کہیں گے کہ آج تو مجھے اپنی ہی فکر ہے۔ تم لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ حدیث نمبر ۳۳۶۲ راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ اسماعیل علیہ السلام کی والدہ (ہاجرہ علیہا السلام) پر رحم کرے، اگر انہوں نے جلدی نہ کی ہوتی (اور زمزم کے پانی کے گرد منڈیر نہ بناتیں) تو آج وہ ایک بہتا ہوا چشمہ ہوتا۔“ حدیث نمبر ۳۳۶۳ راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے اسماعیل اور ان کی والدہ ہاجرہ علیہا السلام اسماعیل علیہ السلام کو لے کر مکہ کی سر زمین کی طرف آئے۔ ہاجرہ علیہا السلام اسماعیل علیہ السلام کو دودھ پلاتی تھیں۔ ان کے ساتھ ایک پرانی مشک تھی۔ ابن عباس نے اس حدیث کو مرفوع نہیں کیا۔ حدیث نمبر ۳۳۶۴ راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما عورتوں میں کمر پٹہ باندھنے کا رواج اسماعیل علیہ السلام کی والدہ (ہاجرہ علیہا السلام) سے چلا ہے۔ سب سے پہلے انہوں نے کمر پٹہ اس لیے باندھا تھا تاکہ سارہ علیہا السلام ان کا سراغ نہ پائیں (وہ جلد بھاگ جائیں) پھر انہیں اور ان کے بیٹے اسماعیل کو ابراہیم (علیہما السلام) ساتھ لے کر مکہ میں آئے، اس وقت ابھی وہ اسماعیل علیہ السلام کو دودھ پلاتی تھیں۔ ابراہیم علیہ السلام نے دونوں کو کعبہ کے پاس ایک بڑے درخت کے پاس بٹھا دیا جو اس جگہ تھا جہاں اب زمزم ہے۔ مسجد کی بلند جانب میں۔ ان دنوں مکہ میں کوئی انسان نہیں تھا۔ اس لیے وہاں پانی نہیں تھا۔ ابراہیم علیہ السلام نے ان دونوں کو وہیں چھوڑ دیا اور ان کے لیے ایک چمڑے کے تھیلے میں کھجور اور ایک مشک میں پانی رکھ دیا۔ پھر ابراہیم علیہ السلام (اپنے گھر کے لیے) روانہ ہوئے۔ اس وقت اسماعیل علیہ السلام کی والدہ ان کے پیچھے پیچھے آئیں اور کہا کہ اے ابراہیم! اس خشک جنگل میں جہاں کوئی بھی آدمی اور کوئی بھی چیز موجود نہیں، آپ ہمیں چھوڑ کر کہاں جا رہے ہیں؟ انہوں نے کئی دفعہ اس بات کو دہرایا لیکن ابراہیم علیہ السلام ان کی طرف دیکھتے نہیں تھے۔ آخر ہاجرہ علیہا السلام نے پوچھا کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے؟ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ ہاں۔ اس پر ہاجرہ علیہا السلام بول اٹھیں کہ پھر اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت کرے گا، وہ ہم کو ہلاک نہیں کرے گا۔ چنانچہ وہ واپس آ گئیں اور ابراہیم علیہ السلام روانہ ہو گئے۔ جب وہ ثنیہ پہاڑی پر پہنچے جہاں سے وہ دکھائی نہیں دیتے تھے تو ادھر رخ کیا، جہاں اب کعبہ ہے (جہاں پر ہاجرہ اور اسماعیل علیہما السلام کو چھوڑ کر آئے تھے) پھر آپ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر یہ دعا کی رَّبَّنَآ إِنِّىٓ أَسۡكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِى ... لَعَلَّهُمۡ يَشۡكُرُونَ اے پروردگار ! میں نے اپنی اولاد میدان (مکّہ) میں جہاں کھیتی نہیں تیرے عزت (وادب) والے گھر کے پاس لا بسائی ہے۔ اے پروردگار تاکہ یہ نماز پڑھیں۔ تو لوگوں کے دلوں کو ایسا کر دے کہ ان کی طرف جھکے رہیں اور ان کو میووں سے روزی دے تاکہ (تیرا) شکر کریں۔ ادھر اسماعیل علیہ السلام کی والدہ ان کو دودھ پلانے لگیں اور خود پانی پینے لگیں۔ آخر جب مشک کا سارا پانی ختم ہو گیا تو وہ پیاسی رہنے لگیں اور ان کے لخت جگر بھی پیاسے رہنے لگے۔ وہ اب دیکھ رہی تھیں کہ سامنے ان کا بیٹا (پیاس کی شدت سے) پیچ و تاب کھا رہا ہے یا (کہا کہ) زمین پر لوٹ رہا ہے۔ وہ وہاں سے ہٹ گئیں کیونکہ اس حالت میں بچے کو دیکھنے سے ان کا دل بے چین ہوتا تھا۔ صفا پہاڑی وہاں سے نزدیک تر تھی۔ وہ (پانی کی تلاش میں) اس پر چڑھ گئیں اور وادی کی طرف رخ کر کے دیکھنے لگیں کہ کہیں کوئی انسان نظر آئے لیکن کوئی انسان نظر نہیں آیا، وہ صفا سے اتر گئیں اور جب وادی میں پہنچیں تو اپنا دامن اٹھا لیا (تاکہ دوڑتے وقت نہ الجھیں) اور کسی پریشان حال کی طرح دوڑنے لگیں پھر وادی سے نکل کر مروہ پہاڑی پر آئیں اور اس پر کھڑی ہو کر دیکھنے لگیں کہ کہیں کوئی انسان نظر آئے لیکن کوئی نظر نہیں آیا۔ اس طرح انہوں نے سات چکر لگائے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (صفا اور مروہ کے درمیان) لوگوں کے لیے دوڑنا اسی وجہ سے مشروع ہوا۔ (ساتویں مرتبہ) جب وہ مروہ پر چڑھیں تو انہیں ایک آواز سنائی دی، انہوں نے کہا، خاموش! یہ خود اپنے ہی سے وہ کہہ رہی تھیں اور پھر آواز کی طرف انہوں نے کان لگا دئیے۔ آواز اب بھی سنائی دے رہی تھی پھر انہوں نے کہا کہ تمہاری آواز میں نے سنی۔ اگر تم میری کوئی مدد کر سکتے ہو تو کرو۔ کیا دیکھتی ہیں کہ جہاں اب زمزم (کا کنواں) ہے، وہیں ایک فرشتہ موجود ہے۔ فرشتے نے اپنی ایڑی سے زمین میں گڑھا کر دیا، یا یہ کہا کہ اپنے بازو سے، جس سے وہاں پانی ابل آیا۔ ہاجرہ نے اسے حوض کی شکل میں بنا دیا اور اپنے ہاتھ سے اس طرح کر دیا (تاکہ پانی بہنے نہ پائے) اور چلو سے پانی اپنے مشکیزہ میں ڈالنے لگیں۔ جب وہ بھر چکیں تو وہاں سے چشمہ پھر ابل پڑا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ! ام اسماعیل پر رحم کرے، اگر زمزم کو انہوں نے یوں ہی چھوڑ دیا ہوتا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چلو سے مشکیزہ نہ بھرا ہوتا تو زمزم ایک بہتے ہوئے چشمے کی صورت میں ہوتا۔ بیان کیا کہ پھر ہاجرہ علیہ السلام نے خود بھی وہ پانی پیا اور اپنے بیٹے کو بھی پلایا۔ اس کے بعد ان سے فرشتے نے کہا کہ اپنے برباد ہونے کا خوف ہرگز نہ کرنا کیونکہ یہیں اللہ کا گھر ہو گا، جسے یہ بچہ اور اس کا باپ تعمیر کریں گے اور اللہ اپنے بندوں کو ضائع نہیں کرتا، اب جہاں بیت اللہ ہے، اس وقت وہاں ٹیلے کی طرح زمین اٹھی ہوئی تھی۔ سیلاب کا دھارا آتا اور اس کے دائیں بائیں سے زمین کاٹ کر لے جاتا۔ اس طرح وہاں کے دن و رات گزرتے رہے اور آخر ایک دن قبیلہ جرہم کے کچھ لوگ وہاں سے گزرے یا (آپ نے یہ فرمایا کہ) قبیلہ جرہم کے چند گھرانے مقام کداء (مکہ کا بالائی حصہ) کے راستے سے گزر کر مکہ کے نشیبی علاقے میں انہوں نے پڑاؤ کیا (قریب ہی) انہوں نے منڈلاتے ہوئے کچھ پرندے دیکھے، ان لوگوں نے کہا کہ یہ پرندہ پانی پر منڈلا رہا ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے جب بھی ہم اس میدان سے گزرے ہیں یہاں پانی کا نام و نشان بھی نہ تھا۔ آخر انہوں نے اپنا ایک آدمی یا دو آدمی بھیجے۔ وہاں انہوں نے واقعی پانی پایا چنانچہ انہوں نے واپس آ کر پانی کی اطلاع دی۔ اب یہ سب لوگ یہاں آئے۔ راوی نے بیان کیا کہ اسماعیل علیہ السلام کی والدہ اس وقت پانی پر ہی بیٹھی ہوئی تھیں۔ ان لوگوں نے کہا کہ کیا آپ ہمیں اپنے پڑوس میں پڑاؤ ڈالنے کی اجازت دیں گی۔ ہاجرہ علیہ السلام نے فرمایا کہ ہاں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ پانی پر تمہارا کوئی حق نہیں ہو گا۔ انہوں نے اسے تسلیم کر لیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اب ام اسماعیل کو پڑوسی مل گئے۔ انسانوں کی موجودگی ان کے لیے دلجمعی کا باعث ہوئی۔ ان لوگوں نے خود بھی یہاں قیام کیا اور اپنے قبیلے کے دوسرے لوگوں کو بھی بلوا لیا اور وہ سب لوگ بھی یہیں آ کر ٹھہر گئے۔ اس طرح یہاں ان کے کئی گھرانے آ کر آباد ہو گئے اور بچہ (اسماعیل علیہ السلام جرہم کے بچوں میں) جوان ہوا اور ان سے عربی سیکھ لی۔ جوانی میں اسماعیل علیہ السلام ایسے خوبصورت تھے کہ آپ پر سب کی نظریں اٹھتی تھیں اور سب سے زیادہ آپ بھلے لگتے تھے۔ چنانچہ جرہم والوں نے آپ کی اپنے قبیلے کی ایک لڑکی سے شادی کر دی۔ پھر اسماعیل علیہ السلام کی والدہ (ہاجرہ علیہا السلام) کا انتقال ہو گیا)۔ اسماعیل علیہ السلام کی شادی کے بعد ابراہیم علیہ السلام یہاں اپنے چھوڑے ہوئے خاندان کو دیکھنے آئے۔ اسماعیل علیہ السلام گھر پر نہیں تھے۔ اس لیے آپ نے ان کی بیوی سے اسماعیل علیہ السلام کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ روزی کی تلاش میں کہیں گئے ہیں۔ پھر آپ نے ان سے ان کی معاش وغیرہ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ حالت اچھی نہیں ہے، بڑی تنگی سے گزر اوقات ہوتی ہے۔ اس طرح انہوں نے شکایت کی۔ ابراہیم علیہ السلام نے ان سے فرمایا کہ جب تمہارا شوہر آئے تو ان سے میرا سلام کہنا اور یہ بھی کہنا کہ وہ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل ڈالیں۔ پھر جب اسماعیل علیہ السلام واپس تشریف لائے تو جیسے انہوں نے کچھ انسیت سی محسوس کی اور دریافت فرمایا، کیا کوئی صاحب یہاں آئے تھے؟ ان کی بیوی نے بتایا کہ ہاں ایک بزرگ اس اس شکل کے یہاں آئے تھے اور آپ کے بارے میں پوچھ رہے تھے، میں نے انہیں بتایا (کہ آپ باہر گئے ہوئے ہیں) پھر انہوں نے پوچھا کہ تمہاری گزر اوقات کا کیا حال ہے؟ تو میں نے ان سے کہا کہ ہماری گزر اوقات بڑی تنگی سے ہوتی ہے۔ اسماعیل علیہ السلام نے دریافت کیا کہ انہوں نے تمہیں کچھ نصیحت بھی کی تھی؟ ان کی بیوی نے بتایا کہ ہاں مجھ سے انہوں نے کہا تھا کہ آپ کو سلام کہہ دوں اور وہ یہ بھی کہہ گئے ہیں کہ آپ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل دیں۔ اسماعیل علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ بزرگ میرے والد تھے اور مجھے یہ حکم دے گئے ہیں کہ میں تمہیں جدا کر دوں، اب تم اپنے گھر جا سکتی ہو۔ چنانچہ اسماعیل علیہ السلام نے انہیں طلاق دے دی اور بنی جرہم ہی میں ایک دوسری عورت سے شادی کر لی۔ جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور رہا، ابراہیم علیہ السلام ان کے یہاں نہیں آئے۔ پھر جب کچھ دنوں کے بعد وہ تشریف لائے تو اس مرتبہ بھی اسماعیل علیہ السلام اپنے گھر پر موجود نہیں تھے۔ آپ ان کی بیوی کے یہاں گئے اور ان سے اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے لیے روزی تلاش کرنے گئے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام نے پوچھا تم لوگوں کا حال کیسا ہے؟ آپ نے ان کی گزر بسر اور دوسرے حالات کے متعلق پوچھا، انہوں نے بتایا کہ ہمارا حال بہت اچھا ہے، بڑی فراخی ہے، انہوں نے اس کے لیے اللہ کی تعریف و ثنا کی۔ ابراہیم علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ تم لوگ کھاتے کیا ہو؟ انہوں نے بتایا کہ گوشت! آپ نے دریافت کیا فرمایا کہ پیتے کیا ہو؟ بتایا کہ پانی! ابراہیم علیہ السلام نے ان کے لیے دعا کی، اے اللہ ان کے گوشت اور پانی میں برکت نازل فرما۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان دنوں انہیں اناج میسر نہیں تھا۔ اگر اناج بھی ان کے کھانے میں شامل ہوتا تو ضرور آپ اس میں بھی برکت کی دعا کرتے۔ صرف گوشت اور پانی کی خوراک میں ہمیشہ گزارہ کرنا مکہ کے سوا اور کسی زمین پر بھی موافق نہیں پڑتا۔ ابراہیم علیہ السلام نے (جاتے ہوئے) اس سے فرمایا کہ جب تمہارے شوہر واپس آ جائیں تو ان سے میرا سلام کہنا اور ان سے کہہ دینا کہ وہ اپنے دروازے کی چوکھٹ باقی رکھیں۔ جب اسماعیل علیہ السلام تشریف لائے تو پوچھا کہ کیا یہاں کوئی آیا تھا؟ انہوں نے بتایا کہ جی ہاں ایک بزرگ، بڑی اچھی شکل و صورت کے آئے تھے۔ بیوی نے آنے والے بزرگ کی تعریف کی پھر انہوں نے مجھ سے آپ کے متعلق پوچھا (کہ کہاں ہیں؟) اور میں نے بتا دیا، پھر انہوں نے پوچھا کہ تمہاری گزر بسر کا کیا حال ہے۔ تو میں نے بتایا کہ ہم اچھی حالت میں ہیں۔ اسماعیل علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ کیا انہوں نے تمہیں کوئی وصیت بھی کی تھی؟ انہوں نے کہا جی ہاں، انہوں نے آپ کو سلام کہا تھا اور حکم دیا تھا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ کو باقی رکھیں۔ اسماعیل علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ بزرگ میرے والد تھے، چوکھٹ تم ہو اور آپ مجھے حکم دے گئے ہیں کہ میں تمہیں اپنے ساتھ رکھوں۔ پھر جتنے دنوں اللہ تعالیٰ کو منظور رہا، کے بعد ابراہیم علیہ السلام ان کے یہاں تشریف لائے تو دیکھا کہ اسماعیل زمزم کے قریب ایک بڑے درخت کے سائے میں (جہاں ابراہیم انہیں چھوڑ گئے تھے) اپنے تیر بنا رہے ہیں۔ جب اسماعیل علیہ السلام نے ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا تو ان کی طرف کھڑے ہو گے اور جس طرح ایک باپ اپنے بیٹے کے ساتھ اور بیٹا اپنے باپ کے ساتھ محبت کرتا ہے وہی طرز عمل ان دونوں نے بھی ایک دوسرے کے ساتھ اختیار کیا۔ پھر ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا، اسماعیل اللہ نے مجھے ایک حکم دیا ہے۔ اسماعیل علیہ السلام نے عرض کیا، آپ کے رب نے جو حکم آپ کو دیا ہے آپ اسے ضرور پورا کریں۔ انہوں نے فرمایا اور تم بھی میری مدد کر سکو گے؟ عرض کیا کہ میں آپ کی مدد کروں گا۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اسی مقام پر اللہ کا ایک گھر بناؤں اور آپ نے ایک اور اونچے ٹیلے کی طرف اشارہ کیا کہ اس کے چاروں طرف! کہا کہ اس وقت ان دونوں نے بیت اللہ کی بنیاد پر عمارت کی تعمیر شروع کی۔ اسماعیل علیہ السلام پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے اور ابراہیم علیہ السلام تعمیر کرتے جاتے تھے۔ جب دیواریں بلند ہو گئیں تو اسماعیل یہ پتھر لائے اور ابراہیم علیہ السلام کے لیے اسے رکھ دیا۔ اب ابراہیم علیہ السلام اس پتھر پر کھڑے ہو کر تعمیر کرنے لگے۔ اسماعیل علیہ السلام پتھر دیتے جاتے تھے اور یہ دونوں یہ دعا پڑھتے جاتے تھے۔ ہمارے رب! ہماری یہ خدمت تو قبول کر بیشک تو بڑا سننے والا اور جاننے والا ہے۔ فرمایا کہ یہ دونوں تعمیر کرتے رہے اور بیت اللہ کے چاروں طرف گھوم گھوم کر یہ دعا پڑھتے رہے۔ اے ہمارے رب! ہماری طرف سے یہ خدمت قبول فرما۔ بیشک تو بڑا سننے والا بہت جاننے والا ہے۔ حدیث نمبر ۳۳۶۵ راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کیا کہ ابراہیم علیہ السلام اور ان کی بیوی (سارہ علیہ السلام) کے درمیان جو کچھ جھگڑا ہونا تھا جب وہ ہوا تو آپ اسماعیل علیہ السلام اور ان کی والدہ (ہاجرہ علیہ السلام) کو لے کر نکلے، ان کے ساتھ ایک مشکیزہ تھا۔ جس میں پانی تھا، اسماعیل علیہ السلام کی والدہ اسی مشکیزہ کا پانی پیتی رہیں اور اپنا دودھ اپنے بچے کو پلاتی رہیں۔ جب ابراہیم مکہ پہنچے تو انہیں ایک بڑے درخت کے پاس ٹھہرا کر اپنے گھر واپس جانے لگے۔ اسماعیل علیہ السلام کی والدہ ان کے پیچھے پیچھے آئیں۔ جب مقام کداء پر پہنچے تو انہوں نے پیچھے سے آواز دی کہ اے ابراہیم! ہمیں کس پر چھوڑ کر جا رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ اللہ پر! ہاجرہ علیہ السلام نے کہا کہ پھر میں اللہ پر خوش ہوں۔ بیان کیا کہ پھر ہاجرہ اپنی جگہ پر واپس چلی آئیں اور اسی مشکیزے سے پانی پیتی رہیں اور اپنا دودھ اپنے بچے کو پلاتی رہیں جب پانی ختم ہو گیا تو انہوں نے سوچا کہ ادھر ادھر دیکھنا چاہئے، ممکن ہے کہ کوئی آدمی نظر آ جائے۔ راوی نے بیان کیا کہ یہی سوچ کر وہ صفا (پہاڑی) پر چڑھ گئیں اور چاروں طرف دیکھا کہ شاید کوئی نظر آ جائے لیکن کوئی نظر نہ آیا۔ پھر جب وادی میں اتریں تو دوڑ کر مروہ تک آئیں۔ اسی طرح کئی چکر لگائے، پھر سوچا کہ چلوں ذرا بچے کو تو دیکھوں کس حالت میں ہے۔ چنانچہ آئیں اور دیکھا تو بچہ اسی حالت میں تھا (جیسے تکلیف کے مارے) موت کے لیے تڑپ رہا ہو۔ یہ حال دیکھ کر ان سے صبر نہ ہو سکا، سوچا چلوں دوبارہ دیکھوں ممکن ہے کہ کوئی آدمی نظر آ جائے، آئیں اور صفا پہاڑ پر چڑھ گئیں اور چاروں طرف نظر پھیر پھیر کر دیکھتی رہیں لیکن کوئی نظر نہ آیا۔ اس طرح ہاجرہ علیہ السلام نے سات چکر لگائے پھر سوچا، چلوں دیکھوں بچہ کس حالت میں ہے؟ اسی وقت انہیں ایک آواز سنائی دی۔ انہوں نے (آواز سے مخاطب ہو کر) کہا کہ اگر تمہارے پاس کوئی بھلائی ہے تو میری مدد کرو۔ وہاں جبرائیل علیہ السلام موجود تھے۔ انہوں نے اپنی ایڑی سے یوں کیا (اشارہ کر کے بتایا) اور زمین ایڑی سے کھودی۔ راوی نے بیان کیا کہ اس عمل کے نتیجے میں وہاں سے پانی پھوٹ پڑا۔ ام اسماعیل ڈریں۔ (کہیں یہ پانی غائب نہ ہو جائے) پھر وہ زمین کھودنے لگیں۔ راوی نے بیان کیا کہ ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر وہ پانی کو یوں ہی رہنے دیتیں تو پانی زمین پر بہتا رہتا۔ غرض ہاجرہ علیہ السلام زمزم کا پانی پیتی رہیں اور اپنا دودھ اپنے بچے کو پلاتی رہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ اس کے بعد قبیلہ جرہم کے کچھ لوگ وادی کے نشیب سے گزرے۔ انہیں وہاں پرند نظر آئے۔ انہیں یہ کچھ خلاف عادت معلوم ہوا۔ انہوں نے آپس میں کہا کہ پرندہ تو صرف پانی ہی پر (اس طرح) منڈلا سکتا ہے۔ ان لوگوں نے اپنا آدمی وہاں بھیجا۔ اس نے جا کر دیکھا تو واقعی وہاں پانی موجود تھا۔ اس نے آ کر اپنے قبیلے والوں کو خبر دی تو یہ سب لوگ یہاں آ گئے اور کہا کہ اے ام اسماعیل! کیا ہمیں اپنے ساتھ رہنے کی یا (یہ کہا کہ) اپنے ساتھ قیام کرنے کی اجازت دیں گی؟ پھر ان کے بیٹے (اسماعیل علیہ السلام) بالغ ہوئے اور قبیلہ جرہم ہی کی ایک لڑکی سے ان کا نکاح ہو گیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ پھر ابراہیم علیہ السلام کو خیال آیا اور انہوں نے اپنی اہلیہ (سارہ علیہا السلام) سے فرمایا کہ میں جن لوگوں کو (مکہ میں) چھوڑ آیا تھا ان کی خبر لینے جاؤں گا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ پھر ابراہیم علیہ السلام مکہ تشریف لائے اور سلام کر کے دریافت فرمایا کہ اسماعیل کہاں ہیں؟ ان کی بیوی نے بتایا کہ شکار کے لیے گئے۔ انہوں نے فرمایا کہ جب وہ آئیں تو ان سے کہنا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل ڈالیں۔ جب اسماعیل علیہ السلام آئے تو ان کی بیوی نے واقعہ کی اطلاع دی۔ اسماعیل علیہ السلام نے فرمایا کہ تمہیں ہو (جسے بدلنے کے لیے ابراہیم علیہ السلام کہہ گئے ہیں) اب تم اپنے گھر جا سکتی ہو۔ بیان کیا کہ پھر ایک مدت کے بعد دوبارہ ابراہیم علیہ السلام کو خیال ہوا اور انہوں نے اپنی بیوی سے فرمایا کہ میں جن لوگوں کو چھوڑ آیا ہوں انہیں دیکھنے جاؤں گا۔ راوی نے بیان کیا کہ ابراہیم علیہ السلام تشریف لائے اور دریافت فرمایا کہ اسماعیل کہاں ہیں؟ ان کی بیوی نے بتایا کہ شکار کے لیے گئے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آپ ٹھہرئیے اور کھانا تناول فرما لیجئے۔ ابراہیم علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ تم لوگ کھاتے پیتے کیا ہو؟ انہوں نے بتایا کہ گوشت کھاتے ہیں اور پانی پیتے ہیں۔ آپ نے دعا کی کہ اے اللہ! ان کے کھانے اور ان کے پانی میں برکت نازل فرما۔ بیان کیا کہ ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کی برکت اب تک چلی آ رہی ہے۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر (تیسری بار) ابراہیم علیہ السلام کو ایک مدت کے بعد خیال ہوا اور اپنی اہلیہ سے انہوں نے کہا کہ جن کو میں چھوڑ آیا ہوں ان کی خبر لینے مکہ جاؤں گا۔ چنانچہ آپ تشریف لائے اور اس مرتبہ اسماعیل علیہ السلام سے ملاقات ہوئی، جو زمزم کے پیچھے اپنے تیر ٹھیک کر رہے تھے۔ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا، اے اسماعیل! تمہارے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں یہاں اس کا ایک گھر بناؤں، بیٹے نے عرض کیا کہ پھر آپ اپنے رب کا حکم بجا لائیے۔ انہوں نے فرمایا اور مجھے یہ بھی حکم دیا ہے کہ تم اس کام میں میری مدد کرو۔ عرض کیا کہ میں اس کے لیے تیار ہوں۔ یا اسی قسم کے اور الفاظ ادا کئے۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر دونوں باپ بیٹے اٹھے۔ ابراہیم علیہ السلام دیواریں اٹھاتے تھے اور اسماعیل علیہ السلام انہیں پتھر لا لا کر دیتے تھے اور دونوں یہ دعا کرتے جاتے تھے۔ اے ہمارے رب! ہماری طرف سے یہ خدمت قبول کر۔ بیشک تو بڑا سننے والا، بہت جاننے والا ہے۔ راوی نے بیان کیا کہ آخر جب دیوار بلند ہو گئی اور بزرگ (ابراہیم علیہ السلام) کو پتھر (دیوار پر) رکھنے میں دشواری ہوئی تو وہ مقام (ابراہیم) کے پتھر پر کھڑے ہوئے اور اسماعیل علیہ السلام ان کو پتھر اٹھا اٹھا کر دیتے جاتے اور ان حضرات کی زبان پر یہ دعا جاری تھی۔ اے ہمارے رب! ہماری طرف سے اسے قبول فرما لے۔ بیشک تو بڑا سننے والا بہت جاننے والا ہے۔ حدیث نمبر ۳۳۶۶ راوی: ابوذر رضی اللہ عنہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! سب سے پہلے روئے زمین پر کون سی مسجد بنی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسجد الحرام۔ پھر میں نے عرض کیا اور اور اس کے بعد؟ فرمایا کہ مسجد الاقصیٰ (بیت المقدس) میں نے عرض کیا، ان دونوں کی تعمیر کے درمیان کتنا فاصلہ رہا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چالیس سال۔ پھر فرمایا اب جہاں بھی تجھ کو نماز کا وقت ہو جائے وہاں نماز پڑھ لے۔ بڑی فضیلت نماز پڑھنا ہے۔ حدیث نمبر ۳۳۶۷ راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد پہاڑ کو دیکھ کر فرمایا کہ یہ پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم اس سے محبت رکھتے ہیں۔ اے اللہ! ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کو حرمت والا شہر قرار دیا تھا اور میں مدینہ کے دو پتھریلے علاقے کے درمیانی علاقے کے حصے کو حرمت والا قرار دیتا ہوں۔ حدیث نمبر ۳۳۶۸ راوی: عائشہ رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تمہیں معلوم نہیں کہ جب تمہاری قوم نے کعبہ کی (نئی) تعمیر کی تو کعبہ کی ابراہیمی بنیاد کو چھوڑ دیا۔“ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! پھر آپ ابراہیمی بنیادوں کے مطابق دوبارہ اس کی تعمیر کیوں نہیں کر دیتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تمہاری قوم کا زمانہ کفر سے قریب نہ ہوتا (تو میں ایسا ہی کرتا) عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جب کہ یہ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے تو میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں رکنوں کے، جو حجر اسود کے قریب ہیں، بوسہ لینے کو صرف اسی وجہ سے چھوڑا تھا کہ بیت اللہ ابراہیم علیہ السلام کی بنیاد پر نہیں بنا ہے (یہ دونوں رکن آگے ہٹ گئے ہیں) حدیث نمبر ۳۳۶۹ راوی: ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم آپ پر کس طرح درود بھیجا کریں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یوں کہا کرو اللهم صل على محمد وأزواجه وذريته، كما صليت على آل إبراهيم، وبارك على محمد وأزواجه وذريته، كما باركت على آل إبراهيم، إنك حميد مجيد. ”اے اللہ! رحمت نازل فرما محمد پر اور ان کی بیویوں پر اور ان کی اولاد پر جیسا کہ تو نے رحمت نازل فرمائی ابراہیم پر اور اپنی برکت نازل فرما محمد پر اور ان کی بیویوں اور اولاد پر جیسا کہ تو نے برکت نازل فرمائی آل ابراہیم پر۔ بیشک تو انتہائی خوبیوں والا اور عظمت والا ہے۔“ حدیث نمبر ۳۳۷۰ راوی: عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ ایک مرتبہ کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے میری ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کیوں نہ تمہیں (حدیث کا) ایک تحفہ پہنچا دوں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا۔ میں نے عرض کیا جی ہاں مجھے یہ تحفہ ضرور عنایت فرمائیے۔ انہوں نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا یا رسول اللہ! ہم آپ پر اور آپ کے اہل بیت پر کس طرح درود بھیجا کریں؟ اللہ تعالیٰ نے سلام بھیجنے کا طریقہ تو ہمیں خود ہی سکھا دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یوں کہا کرو اللهم صل على محمد، وعلى آل محمد، كما صليت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميد مجيد، اے اللہ! اپنی رحمت نازل فرما محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جیسا کہ تو نے اپنی رحمت نازل فرمائی ابراہیم پر اور آل ابراہیم علیہ السلام پر۔ بیشک تو بڑی خوبیوں والا اور بزرگی والا ہے۔ اللهم بارك على محمد، وعلى آل محمد، كما باركت على إبراهيم، وعلى آل إبراهيم، إنك حميد مجيد". اے اللہ! برکت نازل فرما محمد پر اور آل محمد پر جیسا کہ تو نے برکت نازل فرمائی ابراہیم پر اور آل ابراہیم پر۔ بیشک تو بڑی خوبیوں والا اور بڑی عظمت والا ہے۔ حدیث نمبر ۳۳۷۱ راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے لیے پناہ طلب کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ تمہارے بزرگ دادا (ابراہیم علیہ السلام) بھی ان کلمات کے ذریعہ اللہ کی پناہ اسماعیل اور اسحاق علیہ السلام کے لیے مانگا کرتے تھے۔ أعوذ بكلمات الله التامة من كل شيطان وهامة، ومن كل عين لامة میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کے پورے پورے کلمات کے ذریعہ ہر ایک شیطان سے اور ہر زہریلے جانور سے اور ہر نقصان پہنچانے والی نظر بد سے اور اللہ تعالیٰ کا فرمان :وَنَبِّئۡهُمۡ عَن ضَيۡفِ إِبۡرَٲهِيمَ اور انہیں ابراہیم کے مہمانوں کے بارے میں خبر دیں (۱۵:۵۱) وَلَكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي فرمایا صرف میں اس لیے چاہتا ہوں کہ میرے دل کو اور زیادہ اطمینان ہو جائے۔ (۲:۲۶۰) حدیث نمبر ۳۳۷۲ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہم ابراہیم علیہ السلام کے مقابلے میں شک کرنے کے زیادہ مستحق ہیں جب کہ انہوں نے کہا تھا کہ میرے رب! مجھے دکھا کہ تو مردوں کو کس طرح زندہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہا کیا تم ایمان نہیں لائے ‘ انہوں نے عرض کیا کہ کیوں نہیں ‘ لیکن یہ صرف اس لیے تاکہ میرے دل کو اور زیادہ اطمینان ہو جائے۔ اور اللہ لوط علیہ السلام پر رحم کر کہ وہ زبردست رکن (یعنی اللہ تعالیٰ) کی پناہ لیتے تھے اور اگر میں اتنی مدت تک قید خانے میں رہتا جتنی مدت تک یوسف علیہ السلام رہے تھے تو میں بلانے والے کے بات ضرور مان لیتا۔ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان : وَٱذۡكُرۡ فِى ٱلۡكِتَـٰبِ إِسۡمَـٰعِيلَۚإِنَّهُ ۥ كَانَ صَادِقَ ٱلۡوَعۡدِ وَكَانَ رَسُولاً۬ نَّبِيًّ۬ا اور مذکور (ذکر) کر کتاب میں اسماعیل کا۔وہ تھا وعدے کا سچا اور تھا رسول نبی۔ (۴۵:۱۹) حدیث نمبر ۳۳۷۳ راوی: سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ اسلم کی ایک جماعت سے گزرے جو تیر اندازی میں مقابلہ کر رہی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے بنو اسماعیل! تیر اندازی کئے جاؤ کیونکہ تمہارے بزرگ دادا بھی تیرانداز تھے اور میں بنو فلاں کے ساتھ ہوں۔ راوی نے بیان کیا کہ یہ سنتے ہی دوسرے فریق نے تیر اندازی بند کر دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا بات ہوئی ‘ تم لوگ تیر کیوں نہیں چلاتے؟ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! جب آپ فریق مقابل کے ساتھ ہو گئے تو اب ہم کس طرح تیر چلا سکتے ہیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مقابلہ جاری رکھو ‘ میں تم سب کے ساتھ ہوں۔ اسحاق بن ابراہیم علیہ السلام کا بیاناس باب میں ابن عمر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔ یعقوب علیہ السلام کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا سورۃ البقرہ میں یوں فرمانا : أَمۡ كُنتُمۡ شُہَدَآءَ إِذۡ حَضَرَ يَعۡقُوبَ ٱلۡمَوۡتُ... إِلَـٰهً۬ا وَٲحِدً۬ا وَنَحۡنُ لَهُ ۥ مُسۡلِمُونَ کیا تم حاضر تھے جس وقت پہنچی یعقوب کو موت، جب کہا اپنے بیٹوں کو، تم کیا پُوجو گے بعد میرے؟ بولے، ہم بندگی کریں گے تیرے رب اور تیرے باپ دادوں کے رب کو، ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسحٰق، وہی ایک رب۔ اور ہم اسی کے حکم پر ہیں۔ حدیث نمبر ۳۳۷۴ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا سب سے زیادہ شریف کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو سب سے زیادہ متقی ہو ‘ وہ سب سے زیادہ شریف ہے۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہمارے سوال کا مقصد یہ نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر سب سے زیادہ شریف یوسف نبی اللہ بن نبی اللہ (یعقوب) بن نبی اللہ (اسحاق) بن خلیل اللہ (ابراہیم علیہ السلام) تھے۔ صحابہ نے عرض کیا ہمارے سوال کا مقصد یہ بھی نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم لوگ عرب کے شرفاء کے بارے میں پوچھنا چاہتے ہو؟ صحابہ نے عرض کیا کہ جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر جاہلیت میں جو لوگ شریف اور اچھے عادات و اخلاق کے تھے وہ اسلام لانے کے بعد بھی شریف اور اچھے سمجھے جائیں گے جب کہ وہ دین کی سمجھ بھی حاصل کریں۔ لوط علیہ السلام کا بیاناللہ تعالیٰ کا سورۃ النمل میں فرمانا : وَلُوطًا إِذۡ قَالَ لِقَوۡمِهِۦۤ أَتَأۡتُونَ ٱلۡفَـٰحِشَةَ ... فَسَآءَ مَطَرُ ٱلۡمُنذَرِينَ ہم نے لوط کو بھیجا ، انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ تم جانتے ہوئے بھی کیوں فحش کام کرتے ہو ۔ تم آخر کیوں عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی شہوت بجھاتے ہو ، کچھ نہیں تم محض جاہل لوگ ہو ، اس پر ان کی قوم کا جواب اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوا کہ انہوں نے کہا ، آل لوط کو اپنی بستی سے نکال دو ۔ یہ لوگ بڑے پاک باز بنتے ہیں ۔ پس ہم نے لوط کو اور ان کے تابعداروں کو نجات دی سوا ان کی بیوی کے ۔ ہم نے اس کے متعلق فیصلہ کر دیا تھا کہ وہ عذاب والوں میں باقی رہنے والی ہو گی اور ہم نے ان پر پتھروں کی بارش برسائی ۔ پس ڈرائے ہوئے لوگوں پر بارش کا عذاب بڑا ہی سخت تھا (۲۷:۵۴،۵۸) حدیث نمبر ۳۳۷۵ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ لوط علیہ السلام کی مغفرت فرمائے کہ وہ زبردست رکن (یعنی اللہ) کی پناہ میں گئے تھے۔ سورۃ الحجر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فَلَمَّا جَآءَ ءَالَ لُوطٍ ٱلۡمُرۡسَلُونَ ۔ قَالَ إِنَّكُمۡ قَوۡمٌ۬ مُّنڪَرُونَ پھر جب آل لوط کے پاس ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے آئے تو لوط نے کہا کہ تم لوگ تو کسی انجان ملک والے معلوم ہوتے ہو (۱۵:۶۱،۶۲) سورۃ والذاریات میں موسیٰ علیہ السلام کے ذکر میں بِرُكْنِهِ سے مراد وہ لوگ ہیں جو فرعون کے ساتھ تھے کیونکہ وہ اس کے قوت بازو تھے سورۃ ہود میں وَلَا تَرۡكَنُوٓاْکا معنی مت جھکو سورۃ ہود میں فَأَنْكَرَهُمْ وَنَكِرَهُمْ وَاسْتَنْكَرَهُمْ کا ایک ہی معنی ہے سورۃ ہود میں يُهْرَعُونَ کا معنی دوڑتے ہیں سورۃ الحجر میں دَابِرٌ کے معنی آخر دم ہے سورۃ الحجر میں صَيْحَةٌ کا معنی ہلاکت سورۃ الحجر میں لِلْمُتَوَسِّمِينَ کا معنی دیکھنے والوں کے لیے سورۃ الحجر میں لَبِسَبِيلٍ کا معنی راستے کے ہیں (یعنی راستے میں)۔ حدیث نمبر ۳۳۷۶ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فهل من مدكر پڑھا تھا۔ قوم ثمود اور صالح علیہ السلام کا بیاناللہ پاک کا سورۃ الاعراف میں فرمانا وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ہم نے ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح علیہ السلام کو بھیجا (۷:۷۳) سورۃ الحجر آیت ۸۰ میں جو فرمایا كَذَّبَ أَصْحَابُ الْحِجْرِ حجر والوں نے پیغمبروں کو جھٹلایا۔ حجر ثمود والوں کا شہر تھا لیکن سورۃ الانعام آیت ۱۳۸ میں جو حَرْثٌ حِجْرٌ آیا ہے وہاں حِجْرٌ کے معنی حرام اور ممنوع کے ہیں۔ عرب لوگ کہتے ہیں حِجْرٌ مَحْجُورٌ یعنی حرام و ممنوع اور حِجْرٌ عمارت کو بھی کہتے ہیں اور جس زمین کو گھیر لیا جائے (دیوار یا باڑ سے) اسی سے خانہ کعبہ کے حطیم کو حِجْرٌ کہتے ہیں۔ حِجْرٌ مَحْطُومٍ سے نکلا ہے مَحْطُومٍ کے معنی ٹوٹا ہوا۔ پہلے وہ کعبہ کے اندر تھا اس کو توڑ کر باہر کر دیا اس لیے مَحْطُومٍ کہنے لگے)جیسے قتيل مقتول سے ‘ اور مادبان گھوڑی کو بھی۔ حِجْرٌ کے معنی عقل کے بھی ہیں جیسے وَحِجًى . کے معنی بھی عقل کے ہیں سورۃ الفجر میں ہے هَلۡ فِى ذَٲلِكَ قَسَمٌ۬ لِّذِى حِجۡرٍ اور جْرُ الْيَمَامَةِ فَحجاج اور یمن کے بیچ میں ایک مقام کا نام ہے۔ حدیث نمبر ۳۳۷۷ راوی: عبداللہ بن زمعہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا (خطبہ کے دوران) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قوم کا ذکر کیا جنہوں نے اونٹنی کو ذبح کر دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (اللہ کی قسم بھیجی ہوئی) اس (اونٹنی) کو ذبح کرنے والا قوم کا ایک بہت ہی باعزت آدمی (قیدار نامی) تھا ‘ جیسے ہمارے زمانے میں ابوزمعہ (اسود بن مطلب) ہے۔ حدیث نمبر ۳۳۷۸ راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حجر (ثمود کی بستی) میں غزوہ تبوک کے لیے جاتے ہوئے پڑاؤ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو حکم فرمایا کہ یہاں کے کنوؤں کا پانی نہ پینا اور نہ اپنے برتنوں میں ساتھ لینا۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا کہ ہم نے تو اس سے اپنا آٹا بھی گوندھ لیا ہے اور پانی اپنے برتنوں میں بھی رکھ لیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ گندھا ہوا آٹا پھینک دیا جائے اور ابوذر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ جس نے آٹا اس پانی سے گوندھ لیا ہو (وہ اسے پھینک دے)۔ حدیث نمبر ۳۳۷۹ راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ثمود کی بستی حجر میں پڑاؤ کیا تو وہاں کے کنوؤں کا پانی اپنے برتنوں میں بھر لیا اور آٹا بھی اس پانی سے گوندھ لیا۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ جو پانی انہوں نے اپنے برتنوں میں بھر لیا ہے اسے انڈیل دیں اور گندھا ہوا آٹا جانوروں کو کھلا دیں۔ اس کی بجائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ حکم دیا کہ اس کنویں سے پانی لیں جس سے صالح علیہ السلام کی اونٹنی پانی پیا کرتی تھی۔ حدیث نمبر ۳۳۸۰ راوی: عبداللہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مقام حجر سے گزرے تو فرمایا ان لوگوں کی بستی میں جنہوں نے ظلم کیا تھا نہ داخل ہو ‘ لیکن اس صورت میں کہ تم روتے ہوئے ہو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم پر وہی عذاب آ جائے جو ان پر آیا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر چہرہ مبارک پر ڈال لی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت کجاوے پر تشریف رکھتے تھے۔ حدیث نمبر ۳۳۸۱ راوی: ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تمہیں ان لوگوں کی بستی سے گزرنا پڑے جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا تو روتے ہوئے گزرو۔ کہیں تمہیں بھی وہ عذاب آ نہ پکڑے جس میں یہ ظالم لوگ گرفتار کئے گئے تھے۔ سورہ البقرہ میں فرمایا : أَمْ كُنْتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ کیا تم حاضر تھے جس وقت پہنچی یعقوب کو موت (۲:۱۳۳) حدیث نمبر ۳۳۸۲ راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شریف بن شریف بن شریف بن شریف ‘ یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم علیہ السلام تھے۔ یوسف علیہ السلام کا بیاناللہ تعالیٰ نے فرمایا : لَقَدْ كَانَ فِي يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آيَاتٌ لِلسَّائِلِينَ بیشک یوسف اور ان کے بھائیوں کے واقعات میں پوچھنے والوں کیلئے قدرت کی بہت سی نشانیاں ہیں (۱۲:۷) حدیث نمبر ۳۳۸۳ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ سب سے زیادہ شریف آدمی کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو اللہ کا خوف زیادہ رکھتا ہو۔ صحابہ نے عرض کیا کہ ہمارے سوال کا مقصد یہ نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر سب سے زیادہ شریف اللہ کے نبی یوسف بن نبی اللہ بن نبی اللہ بن خلیل اللہ ہیں۔ صحابہ نے عرض کیا کہ ہمارے سوال کا مقصد یہ بھی نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ عرب کے خانوادوں کے بارے میں پوچھنا چاہتے ہو۔ دیکھو! لوگوں کی مثال کانوں کی سی ہے (کسی کان میں سے اچھا مال نکلتا ہے کسی میں سے برا) جو لوگ تم میں سے زمانہ جاہلیت میں شریف اور بہتر اخلاق کے تھے وہی اسلام کے بعد بھی اچھے اور شریف ہیں بشرطیکہ وہ دین کی سمجھ حاصل کریں۔ حدیث نمبر ۳۳۸۴ راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (مرض الموت میں) ان سے فرمایا ابوبکر سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں ‘ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ وہ بہت نرم دل ہیں ‘ آپ کی جگہ جب کھڑے ہوں گے تو ان پر رقت طاری ہو جائے گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دوبارہ یہی حکم دیا۔ لیکن انہوں نے بھی دوبارہ یہی عذر بیان کیا ‘ شعبہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری یا چوتھی مرتبہ فرمایا کہ تم تو یوسف علیہ السلام کی ساتھ والیاں ہو۔ (ظاہر میں کچھ باطن میں کچھ) ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہو نماز پڑھائیں۔ حدیث نمبر ۳۳۸۵ راوی: والد ابوبردہ بن ابی موسیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار پڑے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکر سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نہایت نرم دل انسان ہیں لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ یہی حکم فرمایا اور انہوں نے بھی وہی عذر دہرایا۔ آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان سے کہو نماز پڑھائیں۔ تم تو یوسف کی ساتھ والیاں ہو۔ (ظاہر کچھ باطن کچھ) چنانچہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں امامت کی اور حسین بن علی جعفی نے زائدہ سے رجل رقيق. کے الفاظ نقل کئے کہ ابوبکر نرم دل آدمی ہیں۔ حدیث نمبر ۳۳۸۶ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی اللهم أنج عياش بن أبي ربيعة، اللهم أنج سلمة بن هشام، اللهم أنج الوليد بن الوليد اے اللہ! عیاش بن ابی ربیعہ کو نجات دے ‘ اے اللہ! سلمہ بن ہشام کو نجات دے ‘ اے اللہ! ولید بن ولید کو نجات دے ‘ اللهم أنج المستضعفين من المؤمنين، اللهم اشدد وطأتك على مضر، اللهم اجعلها سنين كسني يوسف اے اللہ تمام ضعیف اور کمزور مسلمانوں کو نجات دے۔ اے اللہ! قبیلہ مضر کو سخت گرفت میں پکڑ لے۔ اے اللہ! یوسف علیہ السلام کے زمانے کی سی قحط سالی ان (ظالموں) پر نازل فرما۔ حدیث نمبر ۳۳۸۷ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ لوط علیہ السلام پر رحم فرمائے کہ وہ زبردست رکن (یعنی اللہ تعالیٰ) کی پناہ لیتے تھے اور اگر میں اتنی مدت تک قید رہتا جتنی یوسف علیہ السلام رہے تھے اور پھر میرے پاس (بادشاہ کا آدمی) بلانے کے لیے آتا تو میں فوراً اس کے ساتھ چلا جاتا۔ حدیث نمبر ۳۳۸۸ راوی: مسروق میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی والدہ ام رومان رضی اللہ عنہا سے عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں جو بہتان تراشا گیا تھا اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی کہ ایک انصاریہ عورت ہمارے یہاں آئی اور کہا کہ اللہ فلاں (مسطح بن اثاثہ) کو تباہ کر دے اور وہ اسے تباہ کر بھی چکا انہوں نے بیان کیا کہ میں نے کہا آپ یہ کیا کہہ رہی ہیں انہوں نے بتایا کہ اسی نے تو یہ جھوٹ مشہور کیا ہے۔ پھر انصاریہ عورت نے (عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت کا سارا) واقعہ بیان کیا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے (اپنی والدہ سے) پوچھا کہ کون سا واقعہ؟ تو ان کی والدہ نے انہیں واقعہ کی تفصیل بتائی۔ عائشہ نے پوچھا کہ کیا یہ قصہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی معلوم ہو گیا ہے؟ ان کی والدہ نے بتایا کہ ہاں۔ یہ سنتے ہی عائشہ رضی اللہ عنہا بیہوش ہو کر گر پڑیں اور جب ہوش آیا تو جاڑے کے ساتھ بخار چڑھا ہوا تھا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور دریافت فرمایا کہ انہیں کیا ہوا؟ میں نے کہا کہ ایک بات ان سے ایسی کہی گئی تھی اور اسی کے صدمے سے ان کو بخار آ گیا ہے۔ پھر عائشہ رضی اللہ عنہا اٹھ کر بیٹھ گئیں اور کہا اللہ کی قسم! اگر میں قسم کھاؤں جب بھی آپ لوگ میری بات نہیں مان سکتے اور اگر کوئی عذر بیان کروں تو اسے بھی تسلیم نہیں کر سکتے۔ بس میری اور آپ لوگوں کی مثال یعقوب علیہ السلام اور ان کے بیٹوں کی سی ہے (کہ انہوں نے اپنے بیٹوں کی من گھڑت کہانی سن کر فرمایا تھا کہ) جو کچھ تم کہہ رہے ہو میں اس پر اللہ ہی کی مدد چاہتا ہوں۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لے گئے اور اللہ تعالیٰ کو جو کچھ منظور تھا وہ نازل فرمایا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی خبر عائشہ رضی اللہ عنہا کو دی تو انہوں نے کہا کہ اس کے لیے میں صرف اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کسی اور کا نہیں۔ حدیث نمبر ۳۳۸۹ راوی: عروہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے آیت کے متعلق پوچھا حتى إذا استيأس الرسل وظنوا أنهم قد كذبوا (تشدید کے ساتھ) ہے یا كذبوا (بغیر تشدید کے) یعنی یہاں تک کہ جب انبیاء ناامید ہو گئے اور انہیں خیال گزرنے لگا کہ انہیں جھٹلا دیا گیا تو اللہ کی مدد پہنچی تو انہوں نے کہا کہ (یہ تشدید کے ساتھ ہے اور مطلب یہ ہے کہ) ان کی قوم نے انہیں جھٹلایا تھا۔ میں نے عرض کیا کہ پھر معنی کیسے بنیں گے ‘ پیغمبروں کو یقین تھا ہی کہ ان کی قوم انہیں جھٹلا رہی ہے۔ پھر قرآن میں لفظ ظن. گمان اور خیال کے معنی میں استعمال کیوں کیا گیا؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اے چھوٹے سے عروہ! بیشک ان کو تو یقین تھا میں نے کہا تو شاید اس آیت میں بغیر تشدید کے كذبوا ہو گا یعنی پیغمبر یہ سمجھے کہ اللہ نے جو ان کی مدد کا وعدہ کیا تھا وہ غلط تھا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: معاذاللہ! انبیاء اپنے رب کے ساتھ بھلا ایسا گمان کر سکتے ہیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا مراد یہ ہے کہ پیغمبروں کے تابعدار لوگ جو اپنے مالک پر ایمان لائے تھے اور پیغمبروں کی تصدیق کی تھی ان پر جب مدت تک اللہ کی آزمائش رہی اور مدد آنے میں دیر ہوئی اور پیغمبر لوگ اپنی قوم کے جھٹلانے والوں سے ناامید ہو گئے (سمجھے کہ اب وہ ایمان نہیں لائیں گے) اور انہوں نے یہ گمان کیا کہ جو لوگ ان کے تابعدار بنے ہیں وہ بھی ان کو جھوٹا سمجھنے لگیں گے ‘ اس وقت اللہ کی مدد آن پہنچی۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ استيأسوا ، افتعلو کے وزن پر ہے جو يئست. منه سے نکلا ہے۔ اى من يوسف. سورۃ یوسف کی آیت کا ایک جملہ ہے یعنی زلیخا یوسف علیہ السلام سے ناامید ہو گئی۔ لا تيأسوا من روح الله (۸۷:۱۲) یعنی اللہ سے امید رکھو ناامید نہ ہو۔ حدیث نمبر ۳۳۹۰ راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شریف بن شریف بن شریف بن شریف یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم علیہم السلام ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان: وَأَيُّوبَ إِذْ نَادَى رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ اور ایوب کو یاد کرو جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے بیماری نے آ گھیرا ہے اور تو أرحم الراحمين ہے (۲۱:۸۳) سورۃ ص میں اركض برجلك بمعنی اضرب (یعنی اپنا پاؤں زمین پر مار) سورۃ انبیاء میں يركضون بمعنی يعدون (، یعنی دوڑتے ہیں)۔ حدیث نمبر ۳۳۹۱ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایوب علیہ السلام ننگے غسل کر رہے تھے کہ سونے کی ٹڈیاں ان پر گرنے لگیں۔ وہ ان کو اپنے کپڑے میں جمع کرنے لگے۔ ان کے پروردگار نے ان کو پکارا کہ اے ایوب! جو کچھ تم دیکھ رہے ہو (سونے کی ٹڈیاں) کیا میں نے تمہیں اس سے بےپروا نہیں کر دیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ صحیح ہے ‘ اے رب العزت! لیکن تیری برکت سے میں کس طرح بےپروا ہو سکتا ہوں۔ سورۃ مریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مُوسَى إِنَّهُ كَانَ مُخْلِصًا وَكَانَ رَسُولاً نَبِيًّا وَنَادَيْنَاهُ مِنْ جَانِبِ الطُّورِ الأَيْمَنِ وَقَرَّبْنَاهُ نَجِيًّا اور یاد کرو کتاب میں موسیٰ علیہ السلام کو کہ وہ چنا ہوا بندہ ، رسول و نبی تھا اور ہم نے طور کی داہنی طرف سے انہیں آواز دی اور سرگوشی کے لیے انہیں نزدیک بلایا وَوَهَبۡنَا لَهُ ۥ مِن رَّحۡمَتِنَآ أَخَاهُ هَـٰرُونَ نَبِيًّ۬ا اور بخشا ہم نے اسکو اپنی مہر (رحمت) سے بھائی اس کا ہارون نبی۔(۱۹:۵۱،۵۳) واحد ‘ تثنیہ اور جمع سب کے لیے لفظ نجي. بولا جاتا ہے۔ نجي سورۃ یوسف میں ہے۔ خلصوا نجيا. یعنی اکیلے میں جا کر مشورہ کرنے لگے (اگر نجي. کا لفظ مفرد کے لیے استعمال ہوا ہو تو) اس کی جمع أنجية ہو گی۔ سورۃ المجادلہ میں لفظ يتناجون بھی اسی سے نکلا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وَقَالَ رَجُلٌ۬ مُّؤۡمِنٌ۬ مِّنۡ ءَالِ فِرۡعَوۡنَ ... إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَہۡدِى مَنۡ هُوَ مُسۡرِفٌ۬ كَذَّابٌ۬ اوربولا ایک مرد ایمان دار فرعون کے لوگوں میں، جو چھپاتا تھا اپنا ایمان،کیا مارے ڈالتے ہو ایک مرد کو اس پر کہ کہتا ہے میرا رب اﷲ ہے، اور لایا ہے تم پاس کھلی نشانیاں تمہارے رب کی۔ اور اگر وہ جھوٹا ہو گا تو اس پر پڑے گا اس کا جھوٹ۔اور اگر وہ سچا ہو گا تو تم پر پڑے گا کوئی وعدہ، جو دیتا ہے،بیشک اﷲ راہ نہیں دیتا اس کو جو ہو بے لحاظ جھوٹا۔ (۴۰:۲۸) حدیث نمبر ۳۳۹۲ راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (غار حراء سے) ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس لوٹ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل دھڑک رہا تھا۔ خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں، وہ نصرانی ہو گئے تھے اور انجیل کو عربی میں پڑھتے تھے۔ ورقہ نے پوچھا کہ آپ کیا دیکھتے ہیں؟ آپ نے انہیں بتایا تو انہوں نے کہا کہ یہی ہیں وہ ناموس جنہیں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے پاس بھیجا تھا اور اگر میں تمہارے زمانے تک زندہ رہا تو میں تمہاری پوری مدد کروں گا۔ ناموس محرم راز کو کہتے ہیں جو ایسے راز سے بھی آگاہ ہو جو آدمی دوسروں سے چھپائے۔ اللہ تعالیٰ کا سورۃ طہٰ میں فرمانا : وَهَلۡ أَتَٮٰكَ حَدِيثُ مُوسَىٰٓ ... إِنَّكَ بِٱلۡوَادِ ٱلۡمُقَدَّسِ طُوً۬ى اور پہنچی ہے تجھ کو بات موسیٰ کی؟ جب اس نے دیکھی ایک آگ تو کہا اپنے گھر والوں کو، ٹھہرو! میں نے دیکھی ہے ایک آگ،شاید لے آؤں تم پاس اس میں سے سلگا کر، یا پاؤں اس آگ پر راہ کا پتا۔ پھر جب پہنچا آگ پاس، آواز آئی اے موسیٰ! میں ہوں تیرا رب، سو اتار اپنی پاپوشیں (جوتیاں) ،تُو ہے پاک میدان طویٰ میں۔ (۲۰:۹،۱۲) سورۃ طہٰ میں آنَسْتُ کے معنی میں نے آگ دیکھی (تم یہاں ٹھہرو) میں اس میں سے ایک چنگاری تمہارے پاس لے آؤں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ‘ الْمُقَدَّسُ کا معنی مبارک۔ طُوًى اس وادی کا نام تھا جہاں اللہ پاک نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام فرمایا تھا۔ (۲۰:۲۱) سِيرَتَهَا یعنی پہلی حالت پر۔ النُّهَى یعنی پرہیزگاری۔ (۲۰:۵۴) بِمَلْكِنَا یعنی اپنے اختیار سے۔ (۲۰:۸۷) هَوَى یعنی بدبخت ہوا۔ (۲۰:۱۸) فَارِغًا یعنی موسیٰ کے سوا اور کوئی خیال دل میں نہ رہا۔ (۲۸:۱۰) رِدْءًا یعنی فریاد رس یا مددگار۔ (۲۸:۳۴) مُغِيثًا أَوْ مُعِينًادونوں طرح قرآت ہے۔ (۲۸:۲۰) يَتَشَاوَرُونَ یعنی مشورہ کرتے ہیں۔ وَالْجِذْوَةُ
یعنی لکڑی کا ایک موٹا ٹکڑا جس میں سے آگ کا شعلہ نہ نکلے (صرف اس کے
منہ پر آگ روشن ہو)۔
(۲۸:۳۵) سنشد عضدك یعنی تیری مدد کریں گے۔ جب تو کسی چیز کو زور دے گویا تو نے اس کو عَضُدً بازو دیا۔ (۲۰:۳۱) یہ سب تفسیریں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہیں اوروں نے کہا عُقْدَةٌ کا معنی یہ ہے کہ زبان سے کوئی حرف یہاں تک کہ ت یا ف بھی نہ نکل سکے۔ أَزْرِي یعنی پیٹھ فَيُسْحِتَكُمْ یعنی تم کو ہلاک کرے۔ (۲۰:۶۱) الْمُثْلَى ، الْأَمْثَلِ کی مونث ہے، یعنی تمہارا دین خراب کرنا چاہتے ہیں۔س(۲۰:۶۴)عرب لوگ کہتے ہیں خُذْ الْمُثْلَى خُذْ الْأَمْثَلَ. یعنی اچھی روش ‘ اچھا طریقہ سنبھال۔ ثُمَّ ائْتُوا صَفًّا یعنی قطار باندھ کر آؤ۔ (۲۰:۶۷)عرب لوگ کہتے ہیں آج تو صف میں گیا یا نہیں یعنی نماز کے مقام پر۔ فَأَوْجَسَ یعنی موسیٰ کا دل دھڑکنے لگا خِيفَةً کی اصل خوفة تھی واؤ کی بوجہ كسره ما قبل کے ی سے بدل دیا گیا۔(۲۰:۶۷) فِي جُذُوعِ النَّخْلِ یعنی عَلَى جُذُوعِ النخل ۔(۲۰:۷۱) خَطْبُكَ یعنی تیرا حال۔ (۲۰:۹۵) مِسَاسَ مصدر ہے ماسه مِسَاسًا سے۔ لا مساس یعنی تجھ کو نہ چھوئے ‘ نہ تو کسی کو چھوئے۔ (۲۰:۹۷) لَنَنْسِفَنَّهُ یعنی ہم اس کو راکھ کر کے دریا میں اڑا دیں گے۔ (۲۰:۹۷) لا تضحي ضحى سے ہے، یعنی گرمی قُصِّيهِ یعنی اس کے پیچھے پیچھے چلی جا ۔ (۲۸:۱۱) کبھی قصص کا معنی کہنا اور بیان کرنا بھی آتا ہے۔ (سورۃ یوسف میں) اسی سے نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ ہے۔ (۱۲:۳) لفظ عَنْ جُنُبٍ اور وَعَنْ جَنَابَةٍ وَعَنِ اجْتِنَابٍ سب کا معنی ایک ہی ہے، یعنی دور سے۔(۲۸:۱۱) مجاہد رحمہ اللہ نے کہا : عَلَى قَدَرٍ یعنی وعدے پر (۲۰:۴۰) وَلا تَنِيَا یعنی سستی نہ کرو (۲۰:۴۲) يَبَسًا یعنی خشک (۲۰:۷۷) مِنْ زِينَةِ الْقَوْمِ یعنی زیور میں سے جو بنی اسرائیل نے فرعون والوں سے مانگ کر لیے تھے، فَقَذَ فْتُهَا یعنی میں نے اس کو ڈال دیا، أَلْقَى یعنی بنایا۔ ۔(۲۰:۸۷) فَنَسِيَ اس کا مطلب یہ ہے کہ سامری اور اس کے لوگ کہتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام نے غلطی کی جو اس بچھڑے کو خدا نہ سمجھ کر دوسری جگہ چل دیا۔ (۲۰:۸۸) أَنْ لَا يَرْجِعَ إِلَيْهِمْ، قَوْلًا یعنی وہ بچھڑا ان کی بات کا جواب نہیں دے سکتا تھا۔ (۲۰:۸۹) حدیث نمبر ۳۳۹۳ راوی: مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس رات کے متعلق بیان کیا جس میں آپ کو معراج ہوا کہ جب آپ پانچویں آسمان پر تشریف لے گئے تو وہاں ہارون علیہ السلام سے ملے۔ جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ ہارون علیہ السلام ہیں ‘ انہیں سلام کیجئے۔ میں نے سلام کیا تو انہوں نے جواب دیتے ہوئے فرمایا: خوش آمدید ‘ صالح بھائی اور صالح نبی۔ اللہ تعالیٰ کا سورۃ طہٰ میں فرمان اور کیا تجھ کو موسیٰ کا واقعہ معلوم ہوا ہے اور سورۃ نساء میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیاحدیث نمبر ۳۳۹۴ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات کی کیفیت بیان کی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج ہوا کہ میں نے موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ ایک دبلے پتلے سیدھے بالوں والے آدمی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ قبیلہ شنوہ میں سے ہوں اور میں نے عیسیٰ علیہ السلام کو بھی دیکھا ‘ وہ میانہ قد اور نہایت سرخ و سفید رنگ والے تھے۔ ایسے تروتازہ اور پاک و صاف کہ معلوم ہوتا تھا کہ ابھی غسل خانہ سے نکلے ہیں اور میں ابراہیم علیہ السلام سے ان کی اولاد میں سب سے زیادہ مشابہ ہوں۔ پھر دو برتن میرے سامنے لائے گئے۔ ایک میں دودھ تھا اور دوسرے میں شراب تھی۔ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ دونوں چیزوں میں سے آپ کا جو جی چاہے پیجئے۔ میں نے دودھ کا پیالہ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اسے پی گیا۔ مجھ سے کہا گیا کہ آپ نے فطرت کو اختیار کیا (دودھ آدمی کی پیدائشی غذا ہے) اگر اس کے بجائے آپ نے شراب پی ہوتی تو آپ کی امت گمراہ ہو جاتی۔ حدیث نمبر ۳۳۹۵ راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی شخص کو یوں نہ کہنا چاہئے کہ میں یونس بن متی سے بہتر ہوں ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام ان کے والد کی طرف منسوب کر کے لیا۔ حدیث نمبر ۳۳۹۶ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام گندم گوں اور دراز قد تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے قبیلہ شنوہ کے کوئی صاحب ہوں اور فرمایا کہ عیسیٰ علیہ السلام گھنگریالے بال والے اور میانہ قد کے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے داروغہ جہنم مالک کا بھی ذکر فرمایا اور دجال کا بھی۔ حدیث نمبر ۳۳۹۷ راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں موسیٰ علیہ السلام کا ان سے زیادہ قریب ہوں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اس دن کا روزہ رکھنا شروع کیا اور صحابہ کو بھی اس کا حکم فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان: وَوَٲعَدۡنَا مُوسَىٰ ثَلَـٰثِينَ لَيۡلَةً۬ وَأَتۡمَمۡنَـٰهَا بِعَشۡرٍ۬ ... تُبۡتُ إِلَيۡكَ وَأَنَا۟ أَوَّلُ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ اور ہم نے موسیٰ سے تیس رات کا وعدہ کیا پھر اس میں دس راتوں کا اور اضافہ کر دیا اور اس طرح ان کے رب کی میعاد چالیس راتیں پوری کر دیں ۔ اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا کہ میری غیر موجودگی میں میری قوم میں میرے خلیفہ رہو ۔ اور ان کے ساتھ نرم رویہ رکھنا اور مفسدوں کے راستے پر مت چلنا ۔ پھر جب موسیٰ ہمارے ٹھہرائے ہوئے وقت پر ( ایک چلہ کے ) بعد آئے اور ان کے رب نے ان سے گفتگو کی تو انہوں نے عرض کیا : میرے پروردگار ! مجھے اپنا دیدار کرا کہ میں تجھ کو دیکھ لوں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم مجھے ہرگز نہ دیکھ سکو گے لیکن دیکھتا رہ پہاڑ کی طرف، جو وہ ٹھہرا اپنی جگہ، تو آگے(ضرور) تو دیکھے گامجھ کو۔ پھر جب تجلی ظاہر ہوئی رب اسکا پہاڑ کی طرف ، کیا اسکو ڈھا کر برابر (ریزہ ریزہ) اور گر پڑا موسیٰ بے ہوش ۔ پھر جب ہوش میں آیا، بولا،تیری ذات پاک ہے، میں نے توبہ کی تیرے پاس، اور میں (ہوں) سب سے پہلے یقین لایا۔ (۷:۱۴۲،۱۴۳) عرب لوگ بولتے ہیں دَكَّهُ یعنی اسے ہلا دیا۔ اسی سے ہے سورۃ الحاقہ آیت ۴۱ میں فَدُكَّتَا دَكَّةً۬ وَٲحِدَةً۬تثنیہ کا صیغہ اس طرح درست ہوا کہ یہاں پہاڑوں کو ایک چیز فرض کیا اور زمین کو ایک چیز ‘ قاعدے کے موافق یوں ہونا تھا فَدُكِكْنَ بصیغہ جمع۔ اس کی مثال وہ ہے جو سورۃ انبیاء آیت ۳۰میں ہے أَنَّ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا اور یوں نہیں فرمایا كُنَّ رَتْقًا به صیغہ جمع (حالانکہ قیاس یہی چاہتا تھا) رتق کے معنی جڑے ہوئے ملے ہوئے۔ وَأُشْرِبُوا (جو سورۃ البقرہ آیت ۹۳ میں ہے) اس شرب سے نکلا ہے جو رنگنے کے معنوں میں آتا ہے جیسے عرب لوگ کہتے ہیں ثَوْبٌ مُشَرَّبٌ یعنی رنگا ہوا کپڑا فَانْبَجَسَتْ تو پھُوٹ نکلے سورۃ الاعراف میں آیت ۱۶۰ نَتَقۡنَا کا معنی ہم سے اٹھا لیا۔ سورۃ الاعراف میں آیت ۱۷۱ حدیث نمبر ۳۳۹۸ راوی: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن سب لوگ بیہوش ہو جائیں گے ‘ پھر سب سے پہلے میں ہوش میں آؤں گا اور دیکھوں گا کہ موسیٰ علیہ السلام عرش کے پایوں میں سے ایک پایہ تھامے ہوئے ہیں۔ اب مجھے یہ معلوم نہیں کہ وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آ گئے ہوں گے یا (بیہوش ہی نہیں کئے گئے ہوں گے بلکہ) انہیں کوہ طور کی بے ہوشی کا بدلہ ملا ہو گا۔ حدیث نمبر ۳۳۹۹ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر بنی اسرائیل نہ ہوتے (سلویٰ کا گوشت جمع کر کے نہ رکھتے) تو گوشت کبھی نہ سڑتا۔ اور اگر حوا نہ ہوتیں (یعنی آدم علیہ السلام سے دغا نہ کرتیں) تو کوئی عورت اپنے شوہر کی خیانت کبھی نہ کرتی۔ ( سورۃ الاعراف میں ) طوفان سے مراد سیلاب کا طوفان ہے بکثرت اموات کو بھی طوفان کہتے ہیں۔ الْقُمَّلُ اس چیچڑی کو کہتے ہیں جو چھوٹی جوں کے مشابہ ہوتی ہے۔ حَقِيقٌ بمعنی حق لازم۔ سورة الأعراف آیت ۱۰۵ سُقِطَ بمعنی نادم ہوا۔ جو شخص شرمندہ ہوتا ہے اس کے لیے عرب لوگ کہتے ہیں سُقِطَ فِي يَدِهِ. تو (گویا) وہ اپنے ہاتھ میں گر پڑا۔ سورة الأعراف آیت ۱۴۹ خضر علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کے واقعاتحدیث نمبر ۳۴۰۰ راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما حر بن قیس فزاری رضی اللہ عنہ سے صاحب موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ان کا اختلاف ہوا۔ پھر ابی بن کعب رضی اللہ عنہ وہاں سے گزرے تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں بلایا اور کہا کہ میرا اپنے ان ساتھی سے صاحب موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اختلاف ہو گیا ہے جن سے ملاقات کے لیے موسیٰ علیہ السلام نے راستہ پوچھا تھا ‘ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے ان کے بارے میں کچھ سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ جی ہاں ‘ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا تھا کہ موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کی ایک جماعت میں تشریف رکھتے تھے کہ ایک شخص نے ان سے پوچھا ‘ کیا آپ کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں جو اس تمام زمین پر آپ سے زیادہ علم رکھنے والا ہو؟ انہوں نے فرمایا کہ نہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل کی کہ کیوں نہیں ‘ ہمارا بندہ خضر ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے ان تک پہنچنے کا راستہ پوچھا تو انہیں مچھلی کو اس کی نشانی کے طور پر بتایا گیا اور کہا گیا کہ جب مچھلی گم ہو جائے (تو جہاں گم ہوئی ہو وہاں) واپس آ جانا وہیں ان سے ملاقات ہو گی۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام دریا میں (سفر کے دوران) مچھلی کی برابر نگرانی کرتے رہے۔ پھر ان سے ان کے رفیق سفر نے کہا کہ آپ نے خیال نہیں کیا جب ہم چٹان کے پاس ٹھہرے تو میں مچھلی کے متعلق آپ کو بتانا بھول گیا تھا اور مجھے شیطان نے اسے یاد رکھنے سے غافل رکھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ اسی کی تو ہمیں تلاش ہے چنانچہ یہ بزرگ اسی راستے سے پیچھے کی طرف لوٹے اور خضر علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ان دونوں کے ہی وہ حالات ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کی کتاب میں بیان فرمایا ہے۔ حدیث نمبر ۳۴۰۱ راوی: سعید بن جبیر میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے عرض کیا کہ نوف بکالی یہ کہتا ہے کہ موسیٰ ‘ صاحب خضر بنی اسرائیل کے موسیٰ نہیں ہیں بلکہ وہ دوسرے موسیٰ ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ دشمن اللہ نے بالکل غلط بات کہی ہے۔ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہوئے ہم سے بیان کیا کہ موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو کھڑے ہو کر خطاب فرما رہے تھے کہ ان سے پوچھا گیا کون سا شخص سب سے زیادہ علم والا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ میں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان پر عتاب فرمایا کیونکہ انہوں علم کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا کہ کیوں نہیں میرا ایک بندہ ہے جہاں دو دریا آ کر ملتے ہیں وہاں رہتا ہے اور تم سے زیادہ علم والا ہے۔ انہوں نے عرض کیا: اے رب العالمین! میں ان سے کس طرح مل سکوں گا؟ سفیان نے (اپنی روایت میں یہ الفاظ) بیان کئے کہ اے رب! وكيف لي به اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایک مچھلی پکڑ کر اسے اپنے تھیلے میں رکھ لینا ‘ جہاں وہ مچھلی گم ہو جائے بس میرا بندہ وہیں تم کو ملے گا۔ بعض دفعہ راوی نے بجائے فهو ثم کے فهو ثم کہا۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام نے مچھلی لے لی اور اسے ایک تھیلے میں رکھ لیا۔ پھر وہ اور ایک ان کے رفیق سفر یوشع بن نون روانہ ہوئے ‘ جب یہ چٹان پر پہنچے تو سر سے ٹیک لگالی ‘ موسیٰ علیہ السلام کو نیند آ گئی اور مچھلی تڑپ کر نکلی اور دریا کے اندر چلی گئی اور اس نے دریا میں اپنا راستہ بنا لیا۔ اللہ تعالیٰ نے مچھلی سے پانی کے بہاؤ کو روک دیا اور وہ محراب کی طرح ہو گئی ‘ انہوں نے واضح کیا کہ یوں محراب کی طرح۔ پھر یہ دونوں اس دن اور رات کے باقی حصے میں چلتے رہے ‘ جب دوسرا دن آیا تو موسیٰ علیہ السلام نے اپنے رفیق سفر سے فرمایا کہ اب ہمارا کھانا لاؤ کیونکہ ہم اپنے سفر میں بہت تھک گئے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے اس وقت تک کوئی تھکان محسوس نہیں کی تھی جب تک وہ اس مقررہ جگہ سے آگے نہ بڑھ گئے جس کا اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا تھا۔ ان کے رفیق نے کہا کہ دیکھئیے تو سہی جب چٹان پر اترے تھے تو میں مچھلی (کے متعلق کہنا) آپ سے بھول گیا اور مجھے اس کی یاد سے شیطان نے غافل رکھا اور اس مچھلی نے تو وہیں (چٹان کے قریب) دریا میں اپنا راستہ عجیب طور پر بنا لیا تھا۔ مچھلی کو تو راستہ مل گیا اور یہ دونوں حیران تھے۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ یہی وہ جگہ تھی جس کی تلاش میں ہم نکلے ہیں۔ چنانچہ یہ دونوں اسی راستے سے پیچھے کی طرف واپس ہوئے اور جب اس چٹان پر پہنچے تو وہاں ایک بزرگ اپنا سارا جسم ایک کپڑے میں لپیٹے ہوئے موجود تھے۔ موسیٰ علیہ السلام نے انہیں سلام کیا اور انہوں نے جواب دیا پھر کہا کہ تمہارے خطے میں سلام کا رواج کہاں سے آ گیا؟ موسیٰ علیہ اسلام نے فرمایا کہ میں موسیٰ ہوں۔ انہوں نے پوچھا ‘ بنی اسرائیل کے موسیٰ؟ فرمایا کہ جی ہاں۔ میں آپ کی خدمت میں اس لیے حاضر ہوا ہوں کہ آپ مجھے وہ علم نافع سکھا دیں جو آپ کو سکھایا گیا ہے۔ انہوں نے فرمایا: اے موسیٰ! میرے پاس اللہ کا دیا ہوا ایک علم ہے اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ علم سکھایا ہے اور آپ اس کو نہیں جانتے۔ اسی طرح آپ کے پاس اللہ کا دیا ہوا ایک علم ہے اللہ تعالیٰ نے آپ کو سکھایا ہے اور میں اسے نہیں جانتا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: کیا میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں انہوں نے کہا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکیں گے اور واقعی آپ ان کاموں کے بارے میں صبر کر بھی کیسے سکتے ہیں جو آپ کے علم میں نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد إمرا تک آخر موسیٰ اور خضر علیہم السلام دریا کے کنارے کنارے چلے۔ پھر ان کے قریب سے ایک کشتی گزری۔ ان حضرات نے کہا کہ انہیں بھی کشتی والے کشتی پر سوار کر لیں۔ کشتی والوں نے خضر علیہ السلام کو پہچان لیا اور کوئی مزدوری لیے بغیر ان کو سوار کر لیا۔ جب یہ حضرات اس پر سوار ہو گئے تو ایک چڑیا آئی اور کشتی کے ایک کنارے بیٹھ کر اس نے پانی میں اپنی چونچ کو ایک یا دو مرتبہ ڈالا۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا: اے موسیٰ! میرے اور آپ کے علم کی وجہ سے اللہ کے علم میں اتنی بھی کمی نہیں ہوئی جتنی اس چڑیا کے دریا میں چونچ مارنے سے دریا کے پانی میں کمی ہوئی ہو گی۔ اتنے میں خضر علیہ السلام نے کلہاڑی اٹھائی اور اس کشتی میں سے ایک تختہ نکال لیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے جو نظر اٹھائی تو وہ اپنی کلہاڑی سے تختہ نکال چکے تھے۔ اس پر موسیٰ علیہ السلام بول پڑے کہ یہ آپ نے کیا کیا؟ جن لوگوں نے ہمیں بغیر کسی اجرت کے سوار کر لیا انہیں کی کشتی پر آپ نے بری نظر ڈالی اور اسے چیر دیا کہ سارے کشتی والے ڈوب جائیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ نے نہایت ناگوار کام کیا۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا: کیا میں نے آپ سے پہلے ہی نہیں کہہ دیا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ (یہ بے صبری اپنے وعدہ کو بھول جانے کی وجہ سے ہوئی ‘ اس لیے) آپ اس چیز کا مجھ سے مؤاخذہ نہ کریں جو میں بھول گیا تھا اور میرے معاملے میں تنگی نہ فرمائیں۔ یہ پہلی بات موسیٰ علیہ السلام سے بھول کر ہوئی تھی پھر جب دریائی سفر ختم ہوا تو ان کا گزر ایک بچے کے پاس سے ہوا جو دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ خضر علیہ السلام نے اس کا سر پکڑ کر اپنے ہاتھ سے (دھڑ سے) جدا کر دیا۔ سفیان نے اپنے ہاتھ سے (جدا کرنے کی کیفیت بتانے کے لیے) اشارہ کیا جیسے وہ کوئی چیز توڑ رہے ہوں۔ اس پر موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ نے ایک جان کو ضائع کر دیا۔ کسی دوسری جان کے بدلے میں بھی یہ نہیں تھا۔ بلاشبہ آپ نے ایک برا کام کیا۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا: کیا میں نے آپ سے پہلے ہی نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: اچھا اس کے بعد اگر میں نے آپ سے کوئی بات پوچھی تو پھر آپ مجھے ساتھ نہ لے چلئے گا، بیشک آپ میرے بارے میں حد عذر کو پہنچ چکے ہیں۔ پھر یہ دونوں آگے بڑھے اور جب ایک بستی میں پہنچے تو بستی والوں سے کہا کہ وہ انہیں اپنا مہمان بنا لیں ‘ لیکن انہوں نے انکار کیا۔ پھر اس بستی میں انہیں ایک دیوار دکھائی دی جو بس گرنے ہی والی تھی۔ خضر علیہ السلام نے اپنے ہاتھ سے یوں اشارہ کیا۔ سفیان نے (کیفیت بتانے کے لیے) اس طرح اشارہ کیا جیسے وہ کوئی چیز اوپر کی طرف پھیر رہے ہوں۔ میں نے سفیان سے مائل کا لفظ صرف ایک مرتبہ سنا تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ یہ لوگ تو ایسے تھے کہ ہم ان کے یہاں آئے اور انہوں نے ہماری میزبانی سے بھی انکار کیا۔ پھر ان کی دیوار آپ نے ٹھیک کر دی ‘ اگر آپ چاہتے تو اس کی اجرت ان سے لے سکتے تھے۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ بس یہاں سے میرے اور آپ کے درمیان جدائی ہو گئی جن باتوں پر آپ صبر نہیں کر سکتے ‘ میں ان کی تاویل و توجیہ اب تم پر واضح کر دوں گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہماری تو خواہش یہ تھی کہ موسیٰ علیہ السلام صبر کرتے اور اللہ تعالیٰ تکوینی واقعات ہمارے لیے بیان کرتا۔ سفیان نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام پر رحم کرے ‘ اگر انہوں نے صبر کیا ہوتا تو ان کے (مزید واقعات) ہمیں معلوم ہوتے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے (جمہور کی قرآت ودرائهم کے بجائے) أمامهم ملك يأخذ كل سفينة صالحة غصب پڑھا ہے۔ اور وہ بچہ (جس کی خضر علیہ السلام نے جان لی تھی) کافر تھا اور اس کے والدین مؤمن تھے۔ حدیث نمبر ۳۴۰۲ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خضر علیہ السلام کا یہ نام اس وجہ سے ہوا کہ وہ ایک سوکھی زمین (جہاں سبزی کا نام بھی نہ تھا) پر بیٹھے۔ لیکن جوں ہی وہ وہاں سے اٹھے تو وہ جگہ سرسبز ہو کر لہلہانے لگی۔ حدیث نمبر ۳۴۰۳ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بنی اسرائیل کو حکم ہوا تھا کہ بیت المقدس میں سجدہ و رکوع کرتے ہوئے داخل ہوں اور یہ کہتے ہوئے کہ یا اللہ! ہم کو بخش دے۔ لیکن انہوں نے اس کو الٹا کیا اور اپنے چوتڑوں کے بل گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے اور یہ کہتے ہوئے حبة في شعرة (یعنی بالیوں میں دانے خوب ہوں) داخل ہوئے۔ حدیث نمبر ۳۴۰۴ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام بڑے ہی شرم والے اور بدن ڈھانپنے والے تھے۔ ان کی حیاء کی وجہ سے ان کے بدن کو کوئی حصہ بھی نہیں دیکھا جا سکتا تھا۔ بنی اسرائیل کے جو لوگ انہیں اذیت پہنچانے کے درپے تھے ‘ وہ کیوں باز رہ سکتے تھے ‘ ان لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ اس درجہ بدن چھپانے کا اہتمام صرف اس لیے ہے کہ ان کے جسم میں عیب ہے یا کوڑھ ہے یا ان کے خصیتین بڑھے ہوئے ہیں یا پھر کوئی اور بیماری ہے۔ ادھر اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہوا کہ موسیٰ علیہ السلام کی ان کی ہفوات (blunders)سے پاکی دکھلائے۔ ایک دن موسیٰ علیہ السلام اکیلے غسل کرنے کے لیے آئے ایک پتھر پر اپنے کپڑے (اتار کر) رکھ دیئے۔ پھر غسل شروع کیا۔ جب فارغ ہوئے تو کپڑے اٹھانے کے لیے بڑھے لیکن پتھر ان کے کپڑوں سمیت بھاگنے لگا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا اٹھایا اور پتھر کے پیچھے دوڑے۔ یہ کہتے ہوئے کہ پتھر! میرا کپڑا دیدے۔ آخر بنی اسرائیل کی ایک جماعت تک پہنچ گئے اور ان سب نے آپ کو ننگا دیکھ لیا ‘ اللہ کی مخلوق میں سب سے بہتر حالت میں اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کی تہمت سے ان کی برأت کر دی۔ اب پتھر بھی رک گیا اور آپ نے کپڑا اٹھا کر پہنا۔ پھر پتھر کو اپنے عصا سے مارنے لگے۔ اللہ کی قسم اس پتھر پر موسیٰ علیہ السلام کے مارنے کی وجہ سے تین یا چار یا پانچ جگہ نشان پڑ گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: يَـٰٓأَيُّہَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَكُونُواْ كَٱلَّذِينَ ءَاذَوۡاْ مُوسَىٰ فَبَرَّأَهُ ٱللَّهُ مِمَّا قَالُواْۚوَكَانَ عِندَ ٱللَّهِ وَجِيہً۬ا اے ایمان والو! تم مت ہو ویسے، جنہوں نے ستایا موسیٰ کو،پھر بے عیب دکھایا انکو اﷲ نے اُن کے کہنے سےاور تھا اﷲ کے ہاں آبرو رکھتا۔ (۳۳:۶۹) تم ان کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے موسیٰ علیہ السلام کو اذیت دی تھی ‘ پھر ان کی تہمت سے اللہ تعالیٰ نے انہیں بری قرار دیا اور وہ اللہ کی بارگاہ میں بڑی شان والے اور عزت والے تھے۔ میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ حدیث نمبر ۳۴۰۵ راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ مال تقسیم کیا ‘ ایک شخص نے کہا کہ یہ ایک ایسی تقسیم ہے جس میں اللہ کی رضا جوئی کا کوئی لحاظ نہیں کیا گیا۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کو اس کی خبر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہوئے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر غصے کے آثار دیکھے۔ پھر فرمایا ‘ اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام پر رحم فرمائے ‘ ان کو اس سے بھی زیادہ تکلیف دی گئی تھی مگر انہوں نے صبر کیا۔ وہ اپنے کچھ بتوں پر جمے بیٹھے تھے (۷:۱۳۸)اور اسی سورت میں مُتَبَّرٌ کے معنی تباہی ‘ نقصان (۷:۱۳۹) ۔ وليتبرو کا معنی خراب کریں ۔ ما علو کا معنی جس جگہ حکومت پائیں ‘ غالب ہوں۔(۱۷:۷) حدیث نمبر ۳۴۰۶ راوی: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما (ایک مرتبہ) ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (سفر میں) پیلو کے پھل توڑنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو سیاہ ہوں انہیں توڑو ‘ کیونکہ وہ زیادہ لذیذ ہوتا ہے۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: کیا آپ نے کبھی بکریاں چرائی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ البقرہ میں فرمانا ) وہ وقت یاد کرو جب موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ ایک گائے ذبح کرو آخر آیت تک (۲:۶۷)بوالعالیہ نے کہا کہ (قرآن مجید میں لفظ) الْعَوَانُ نوجوان اور بوڑھے کے درمیان کے معنی میں ہے۔ فَاقِعٌ بمعنی صاف۔ _ـ(۲:۶۹) لا ذَلُولٌ یعنی جسے کام نے نڈھال اور لاغر نہ کر دیا ہو۔ ((۲:۷۱) تُثِيرُ الْأَرْضَ یعنی وہ اتنی کمزور نہ ہو کہ زمین نہ جوت سکے اور نہ کھیتی باڑی کے کام کی ہو۔ (۲:۷۱) مُسَلَّمَةٌ یعنی صحیح سالم اور عیوب سے پاک ہو۔ (۲:۷۱) لا شِيَةَ یعنی داغی (نہ ہو)۔ صفراء اگر تم چاہو تو اس کے معنی سیاہ کے بھی ہو سکتے ہیں اور زرد کے بھی جیسے جمالة صفر میں ہے۔ (۷۷:۳۳) فَادَّارَأْتُمْ سب معنی فاختلفتم تم نے اختلاف کیا۔(۲:۷۱) مزید معلومات کے لیے ان مقامات قرآن کا مطالعہ ضروری ہے جہاں یہ الفاظ آئے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام کی وفات اور ان کے بعد کے حالات کا بیان/p>حدیث نمبر ۳۴۰۷ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے پاس ملک الموت کو بھیجا۔ جب ملک الموت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئے تو انہوں نے انہیں چانٹا مارا (کیونکہ وہ انسان کی صورت میں آیا تھا) ملک الموت ‘ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں واپس ہوئے اور عرض کیا کہ تو نے اپنے ایک ایسے بندے کے پاس مجھے بھیجا جو موت کے لیے تیار نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دوبارہ ان کے پاس جاؤ اور کہو کہ اپنا ہاتھ کسی بیل کی پیٹھ پر رکھیں، ان کے ہاتھ میں جتنے بال اس کے آ جائیں ان میں سے ہر بال کے بدلے ایک سال کی عمر انہیں دی جائے گی ملک الموت دوبارہ آئے اور اللہ تعالیٰ کا فیصلہ سنایا موسیٰ علیہ السلام بولے: اے رب! پھر اس کے بعد کیا ہو گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پھر موت ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا کہ پھر ابھی کیوں نہ آ جائے۔ پھر موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ بیت المقدس سے مجھے اتنا قریب کر دیا جائے کہ (جہاں ان کی قبر ہو وہاں سے) اگر کوئی پتھر پھینکے تو وہ بیت المقدس تک پہنچ سکے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں وہاں موجود ہوتا تو بیت المقدس میں ‘ میں تمہیں ان کی قبر دکھاتا جو راستے کے کنارے پر ہے ‘ ریت کے سرخ ٹیلے سے نیچے۔ حدیث نمبر ۳۴۰۸ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مسلمانوں کی جماعت کے ایک آدمی اور یہودیوں میں سے ایک شخص کا جھگڑا ہوا۔ مسلمان نے کہا کہ اس ذات کی قسم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری دنیا میں برگذیدہ بنایا ‘ قسم کھاتے ہوئے انہوں نے یہ کہا۔ اس پر یہودی نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے موسیٰ علیہ السلام کو ساری دنیا میں برگزیدہ بنایا۔ اس پر مسلمان نے اپنا ہاتھ اٹھا کر یہودی کو تھپڑ مار دیا۔ وہ یہودی ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور اپنے اور مسلمان کے جھگڑے کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی موقع پر فرمایا کہ مجھے موسیٰ علیہ السلام پر ترجیح نہ دیا کرو۔ لوگ قیامت کے دن بیہوش کر دئیے جائیں گے اور سب سے پہلے میں ہوش میں آؤں گا پھر دیکھوں گا کہ موسیٰ علیہ السلام عرش کا پایہ پکڑے ہوئے کھڑے ہیں۔ اب مجھے معلوم نہیں کہ وہ بھی بیہوش ہونے والوں میں تھے اور مجھ سے پہلے ہی ہوش میں آ گئے یا انہیں اللہ تعالیٰ نے بیہوش ہونے والوں میں ہی نہیں رکھا تھا۔ حدیث نمبر ۳۴۰۹ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا موسیٰ اور آدم علیہم السلام نے آپس میں بحث کی۔ موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا کہ آپ آدم ہیں جنہیں ان کی لغزش نے جنت سے نکالا۔ آدم علیہ السلام بولے اور آپ موسیٰ علیہ السلام ہیں کہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت اور اپنے کلام سے نوازا ‘ پھر بھی آپ مجھے ایک ایسے معاملے پر ملامت کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے بھی پہلے مقدر کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چنانچہ آدم علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام پر غالب آ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جملہ دو مرتبہ فرمایا۔ حدیث نمبر ۳۴۱۰ راوی: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا میرے سامنے تمام امتیں لائی گئیں اور میں نے دیکھا کہ ایک بہت بڑی جماعت آسمان کے کناروں پر چھائی ہوئی ہے۔ پھر بتایا گیا کہ یہ اپنی قوم کے ساتھ موسیٰ علیہ السلام ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وَضَرَبَ ٱللَّهُ مَثَلاً۬ لِّلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱمۡرَأَتَ فِرۡعَوۡنَ ... وَصَدَّقَتۡ بِكَلِمَـٰتِ رَبِّہَا وَكُتُبِهِۦوَكَانَتۡ مِنَ ٱلۡقَـٰنِتِينَ اﷲ نے بتائی ایک کہاوت ایمان والوں کو عورت فرعون کی، جب بولی اے رب! بنا میرے واسطے اپنے پاس ایک گھر بہشت میں اور بچا نکال (مجھ کو فرعون سے، اور اس کے کام سے،اور بچا نکال مجھ کو ظالم لوگوں سے۔ اور (مثال) مریم بیٹی عمران کی، جس نے روکی اپنی شہوت کی جگہ،پھر ہم نے پھونک دی اس میں ایک اپنی طرف کی جان (روح)، اور سچ جانی (اس نے) اپنے رب کی باتیں اور اس کی کتابیں اور تھی بندگی کرنے والوں میں۔ (۶۶:۱۱،۱۲) حدیث نمبر ۳۴۱۱ راوی: ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مردوں میں تو بہت سے کامل لوگ اٹھے لیکن عورتوں میں فرعون کی بیوی آسیہ اور مریم بنت عمران علیہما السلام کے سوا اور کوئی کامل نہیں پیدا ہوئی ‘ ہاں عورتوں پر عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت ایسی ہے جیسے تمام کھانوں پر ثرید کی فضیلت ہے۔ قارون کا بیانإِنَّ قَارُونَ كَانَ مِنْ قَوْمِ مُوسَى بیشک قارون ، موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں سے تھا (۲۸:۷۶) َنُوءُ بمعنی لتثقل یعنی بھاری ہوتی تھیں۔ (۲۸:۷۶) ابن عباس رضی اللہ عنہما نے أُولِي الْقُوَّةِ کی تفسیر میں کہا کہ اس کی کنجیوں کو لوگوں کی ایک طاقتور جماعت بھی نہ اٹھا پاتی تھی۔ ۲۸:۷۶) الْفَرِحِينَ بمعنی الْمَرِحِينَ اترانے والے۔ ۲۸:۷۶) ويكأن أَلَمْ تَرَ أَنَّ کی طرح ہے۔(۲۸:۸۲) للَّهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقْدِرُ یعنی کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ جس کے لیے چاہتا ہے رزق میں فراخی کر دیتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگی کر دیتا ہے۔(۱۲:۲۶) اس بیان میں کہ وَإِلَىٰ مَدۡيَنَ أَخَاهُمۡ شُعَيۡبٗا (۲۹:۳۶) سے اہل مدین مراد ہیں کیونکہ مدین ایک شہر تھا بحر قلزم پراس کی مثال جیسے سورۃ یوسف میں فرمایا وَسْـَٔلِ ٱلْقَرْيَةَ ٱلَّتِى كُنَّا فِيهَا وَٱلْعِيرَ ٱلَّتِىٓ ، یعنی بستی والوں سے اور قافلہ والوں پوچھ لے ۔ (۱۲:۸۲) ظِهْرِيًّا یعنی ادھر ادھر پھر کر نہیں دیکھتے۔ (۱۳:۹۲) عرب لوگ جب ان کا کام نہ نکلے تو کہتے ہیں ظَهَرْتَ حَاجَتِي یا جَعَلْتَنِي ظِهْرِيًّا تو نے میرا کام پس پشت ڈال دیا ‘ یا مجھ کو پس پشت کر دیا۔ الظِّهْرِيُّ اس جانور یا ظرف کو کہتے ہیں جس کو تو اپنی قوت بڑھانے کے لیے ساتھ رکھے مَكَانَتُهُمْ وَمَكَانُهُمْ دونوں کا ایک ہی معنی ہے۔(۳۶:۶۷) كَأَن لَّمۡ يَغۡنَوۡاْ فِيہَآۗ زندہ نہیں رہے تھے۔ وہاں بسے ہی نہ تھے (۱۱:۹۵) سورۃ الاعراف میں ءَاسَىٰ رنجیدہ ہوں ‘ غم کروں ‘ (۷:۹۳) امام حسن بصری نے کہا سورۃ ہود میں کافروں کا جو یہ قول نقل کیا۔ إِنَّكَ لَأَنتَ ٱلۡحَلِيمُ ٱلرَّشِيدُ تو یہ کافروں نے ٹھٹھے کے طور پر کہا تھا۔ (۱۱:۸۷) مجاہد نے کہا سورۃ الشعراء میں لَيْكَةُ سے مراد الْأَيْكَةُ ہے یعنی جھاڑی میں۔(۲۶:۱۷۶) يَوۡمِ ٱلظُّلَّةِۚ یعنی جس دن عذاب ایک سائبان کی شکل میں نمودار ہوا (ابر، بادل میں سے آگ برسی)۔ (۲۶:۱۸۹) یونس علیہ السلام کا بیانسورۃ الصافات میں اللہ تعالیٰ کے اس قول کا بیان وَإِنَّ يُونُسَ لَمِنَ ٱلۡمُرۡسَلِينَ ... فَـَٔامَنُواْفَمَتَّعۡنَـٰهُمۡ إِلَىٰ حِينٍ۬ بلاشبہ یونس یقیناً رسولوں میں سے تھا ا... تو ہم نے ان ہیں ایک وقت تک فائدہ دیا (۳۷:۱۳۹،۱۴۸) مجاہد نے کہا: مُلِيمٌ۬ گنہگار۔ (۳۷:۱۴۲) ٱلۡمَشۡحُونِ بوجھل بھری ہوئی۔ (۳۷:۱۴۰) فَلَوۡلَآ أَنَّهُ ۥ كَانَ مِنَ ٱلۡمُسَبِّحِينَ پھر اگر نہ ہوتا کہ وہ تھا یاد کرتا پاک ذات کو۔(۳۷:۱۴۳) فَنَبَذۡنَـٰهُ بِٱلۡعَرَآءِ کا معنی روئے زمین۔ (۳۷:۱۴۵) يَقۡطِينٍ۬ وہ درخت جو اپنی جڑ پر کھڑا نہیں رہتا جیسے کدو وغیرہ۔ (۳۷:۱۴۶) وَأَرۡسَلۡنَـٰهُ إِلَىٰ مِاْئَةِ أَلۡفٍ أَوۡ يَزِيدُونَ ۔ فَـَٔامَنُواْفَمَتَّعۡنَـٰهُمۡ إِلَىٰ حِينٍ۬ اور بھیجا اس کو لاکھ آدمیوں پر یا زیادہ۔ پھر وہ یقین لائے، پھر ہم نے ان کو برتنے (فائدہ) دیا ایک وقت تک۔ (۳۷:۱۴۷-۸) سورہن میں فرمایا مَكْظُومٌ جو كَظِيمٌ کے معنی میں ہے یعنی مغموم رنجیدہ۔ حدیث نمبر ۳۴۱۲ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص میرے متعلق یہ نہ کہے کہ میں یونس علیہ السلام سے بہتر ہوں۔ مسدد نے یونس بن متی علیہ السلام کے لفظ بڑھا کر روایت کیا۔ حدیث نمبر ۳۴۱۳ راوی: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”کسی شخص کے لیے مناسب نہیں کہ مجھے یونس بن متی سے بہتر قرار دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے والد کی طرف منسوب کر کے ان کا نام لیا تھا۔“ حدیث نمبر ۳۴۱۴ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ لوگوں کو ایک یہودی اپنا سامان دکھا رہا تھا لیکن اسے اس کی جو قیمت لگائی گئی اس پر وہ راضی نہ تھا۔ اس لیے کہنے لگا کہ ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ کو تمام انسانوں میں برگزیدہ قرار دیا۔ یہ لفظ ایک انصاری صحابی نے سن لیے اور کھڑے ہو کر انہوں نے ایک تھپڑ اس کے منہ پر مارا اور کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابھی ہم میں موجود ہیں اور تو اس طرح قسم کھاتا ہے کہ اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ علیہ السلام کو تمام انسانوں میں برگزیدہ قرار دیا۔ اس پر وہ یہودی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: اے ابوالقاسم! میرا مسلمانوں کے ساتھ امن اور صلح کا عہد و پیمان ہے۔ پھر فلاں شخص کا کیا حال ہو گا جس نے میرے منہ پر چانٹا مارا ہے ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صحابی سے دریافت فرمایا کہ تم نے اس کے منہ پر کیوں چانٹا مارا؟ انہوں نے وجہ بیان کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصے ہو گئے اس قدر کہ غصے کے آثار چہرہ مبارک پر نمایاں ہو گئے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے انبیاء میں آپس میں ایک کو دوسرے پر فضیلت نہ دیا کرو، جب صور پھونکا جائے گا تو آسمان و زمین کی تمام مخلوق پر بے ہوشی طاری ہو جائے گی ‘ سوا ان کے جنہیں اللہ تعالیٰ چاہے گا۔ پھر دوسری مرتبہ صور پھونکا جائے گا اور سب سے پہلے مجھے اٹھایا جائے گا ‘ لیکن میں دیکھوں گا کہ موسیٰ علیہ السلام عرش کو پکڑے ہوئے کھڑے ہوں گے ‘ اب مجھے معلوم نہیں کہ یہ انہیں طور کی بے ہوشی کا بدلا دیا گیا ہو گا یا مجھ سے بھی پہلے ان کی بے ہوشی ختم کر دی گئی ہو گی۔ اور میں تو یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ کوئی شخص یونس بن متی سے بہتر ہے۔حدیث نمبر ۳۴۱۵ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کسی شخص کے لیے یہ کہنا لائق نہیں کہ میں یونس بن متی سے افضل ہوں۔“ اللہ تعالیٰ کا سورۃ الاعراف میں یہ فرمانا : وَسۡـَٔلۡهُمۡ عَنِ ٱلۡقَرۡيَةِ ٱلَّتِى ڪَانَتۡ حَاضِرَةَ ٱلۡبَحۡرِ إِذۡ يَعۡدُونَ فِى ٱلسَّبۡتِ ... فَلَمَّا عَتَوۡاْ عَن مَّا نُہُواْ عَنۡهُ قُلۡنَا لَهُمۡ كُونُواْ قِرَدَةً خَـٰسِـِٔينَ اور پوچھ اِن سے احوال اس بستی کا کہ تھی کنارے دریا کے،جب حد سے بڑھنے لگے ہفتے کے حکم میں، جب آنے لگیں ان پاس مچھلیاں ہفتے کے دن پانی کے اُوپر،جس دن ہفتہ نہ ہو نہ آئیں۔ یوں ہم آزمانے لگے اُ نکو، اس واسطے کہ بے حکم (نافرمان) تھے۔ اور جب بولا ایک فرقہ ان میں، کیوں نصیحت کرتے ہو ایک لوگوں، کہ اﷲ چاہتا ہے اُنکو ہلاک کرے یا اُنکو عذاب کرے سخت؟ بولے، الزام اتارنے کو تمہارے رب کے آگے اور شاید وہ ڈریں۔پھر جب بھول گئے جو ان کو سمجھایا تھا، بچا لیا ہم نے جو منع کرتے تھے بُرے کام سے، اور پکڑا گنہگاروں کو بُرے عذاب میں، بدلہ اُن کی بے حکمی کا۔پھر جب بڑھنے لگے جس کام سے منع ہوا تھا، ہم نے حکم کیا کہ ہو جاؤ بندر پھٹکارے۔ (۷:۱۶۳-۶) شَوَارِعَ شُرَّعًا پانی پر تیرتی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : وَآتَيْنَا دَاوُدَ زَبُورًا اور دی ہم نے داؤد کو زبور “ (۴:۱۶۳) الزبر بمعنی الكتب اس کا واحد زبور ہے۔ زبرت بمعنی كتبت میں نے لکھا۔ اور بیشک ہم نے داؤد کو اپنے پاس سے فضل دیا (اور ہم نے کہا تھا کہ) اے پہاڑ! ان کے ساتھ تسبیح پڑھا کر۔ (۳۴:۱۰) مجاہد رحمہ اللہ نے کہا کہ أَوِّبِى مَعَهُکے معنی اس کے ساتھ رہو ہے۔ اور پرندوں کو بھی ہم نے ان کے ساتھ تسبیح پڑھنے کا حکم دیا اور لوہے کو ان کے لیے نرم کر دیا تھا کہ اس سے زرہیں بنائیں۔ (۳۴:۱۰) سَـٰبِغَـٰتٍ۬ کے معنی الدُّرُوعَ کے ہیں یعنی زرہیں۔ وَقَدِّرۡ فِى ٱلسَّرۡدِ کا معنی ہیں۔اور بنانے میں ایک خاص انداز رکھ (یعنی زرہ کی) کیلوں اور حلقے کے بنانے میں۔ کیلوں کو اتنا باریک بھی نہ کر کہ ڈھیلی ہو جائیں اور نہ اتنی بڑی ہوں کہ حلقہ ٹوٹ جائے اور اچھے عمل کرو۔ بیشک تم جو بھی عمل کرو گے میں اسے دیکھ رہا ہوں۔(۳۴:۱۱) حدیث نمبر ۳۴۱۶ راوی: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ کسی شخص کے لئے یہ کہنا لائق نہیں کہ میں حضرت یونس بن متی سے افضل ہوں ۔ حدیث نمبر ۳۴۱۷ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا داؤد علیہ السلام کے لیے قرآن (یعنی زبور) کی قرآت بہت آسان کر دی گئی تھی۔ چنانچہ وہ اپنی سواری پر زین کسنے کا حکم دیتے اور زین کسی جانے سے پہلے ہی پوری زبور پڑھ لیتے تھے اور آپ صرف اپنے ہاتھوں کی کمائی کھاتے تھے۔ حدیث نمبر ۳۴۱۸ راوی: عبداللہ بن عمرو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی کہ میں نے کہا ہے کہ اللہ کی قسم ‘ جب تک میں زندہ رہوں گا ‘ دن میں روزے رکھوں گا اور رات بھر عبادت کیا کروں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ کیا تمہیں نے یہ کہا ہے کہ اللہ کی قسم جب تک زندہ رہوں گا دن بھر روزے رکھوں گا اور رات بھر عبادت کروں گا؟ میں نے عرض کیا جی ہاں میں نے یہ جملہ کہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اسے نبھا نہیں سکو گے ‘ اس لیے روزہ بھی رکھا کرو اور بغیر روزے کے بھی رہا کرو اور رات میں عبادت بھی کیا کرو اور سویا بھی کرو۔ ہر مہینے میں تین دن روزہ رکھا کرو ‘ کیونکہ ہر نیکی کا بدلہ دس گنا ملتا ہے اس طرح روزہ کا یہ طریقہ بھی (ثواب کے اعتبار سے) زندگی بھر کے روزے جیسا ہو جائے گا۔ میں نے کہا کہ میں اس سے افضل طریقہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ پھر ایک دن روزہ رکھا کرو اور دو دن بغیر روزے کے رہا کرو۔ میں نے عرض کیا کہ میں اس سے بھی افضل طریقے کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر ایک دن روزہ رکھا کرو اور ایک دن بغیر روزہ کے رہا کرو۔ داؤد علیہ السلام کے روزے کا طریقہ بھی یہی تھا اور یہی سب سے افضل طریقہ ہے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اس سے بھی افضل طریقے کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس سے افضل اور کوئی طریقہ نہیں۔ حدیث نمبر ۳۴۱۹ راوی: عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کیا میری یہ خبر صحیح ہے کہ تم رات بھر عبادت کرتے ہو اور دن بھر (روزانہ) روزہ رکھتے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن تم اسی طرح کرتے رہے تو تمہاری آنکھیں کمزور ہو جائیں گی اور تمہارا جی اکتا جائے گا۔ ہر مہینے میں تین روزے رکھا کرو کہ یہی (ثواب کے اعتبار سے) زندگی بھر کا روزہ ہے ‘ یا زندگی بھر کے روزے کی طرح ہے۔ میں نے عرض کیا کہ میں اپنے میں محسوس کرتا ہوں ‘ راوی مسعر نے بیان کیا کہ آپ کی مراد قوت سے تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر داؤد علیہ السلام کے روزے کی طرح روزے رکھا کرو۔ وہ ایک دن روزے رکھا کرتے اور ایک دن بغیر روزے کے رہا کرتے تھے اور دشمن سے مقابلہ کرتے تو میدان سے بھاگا نہیں کرتے تھے۔ داؤد علیہ السلام کا بیاناللہ تعالیٰ نے سورۃ بنی اسرائیل میں فرمایا : اس کی بارگاہ میں سب سے پسندیدہ نماز داؤد علیہ السلام کی نماز ہے اور سب سے پسندیدہ روزہ داؤد علیہ السلام کا روزہ ہے۔ وہ (ابتدائی) آدھی رات میں سویا کرتے اور ایک تہائی رات میں عبادت کیا کرتے تھے۔ پھر جب رات کا چھٹا حصہ باقی رہ جاتا تو سویا کرتے۔ اسی طرح ایک دن روزہ رکھا کرتے اور ایک دن بغیر روزے کے رہا کرتے۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی اسی کے متعلق کہا تھا کہ جب بھی سحر کے وقت میرے یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم موجود رہے تو سوئے ہوئے ہوتے تھے۔ حدیث نمبر ۳۴۲۰ راوی: عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا اللہ تعالیٰ کے نزدیک روزے کا سب سے پسندیدہ طریقہ داؤد علیہ السلام کا طریقہ تھا۔ آپ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن بغیر روزے کے رہتے تھے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے نزدیک نماز کا سب سے زیادہ پسندیدہ طریقہ داؤد علیہ السلام کی نماز کا طریقہ تھا ‘ آپ آدھی رات تک سوتے اور ایک تہائی حصے میں عبادت کیا کرتے تھے ‘ پھر بقیہ چھٹے حصے میں بھی سوتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان: إِنَّا سَخَّرۡنَا ٱلۡجِبَالَ مَعَهُ ۥ يُسَبِّحۡنَ بِٱلۡعَشِىِّ وَٱلۡإِشۡرَاقِ ہم نے تابع کئے پہاڑ،اس کے ساتھ پاکی بولتے (تسبیح کرتے) شام کو اور صبح کو۔ وَٱلطَّيۡرَ مَحۡشُورَةً۬ۖ كُلٌّ۬ لَّهُ ۥۤ أَوَّابٌ۬ اور اڑتے جانور جمع ہو کر۔سب تھے اس کے آگے رجوع (تابع)رہتے۔ وَشَدَدۡنَا مُلۡكَهُ ۥوَءَاتَيۡنَـٰهُ ٱلۡحِكۡمَةَ وَفَصۡلَ ٱلۡخِطَابِ اور زور دیا (مستحکم کی) ہم نے اسکی سلطنت کو، اور دی اسکو تدبیر اور فیصلہ بات کا۔ (۳۸:۱۸،۲۰) مجاہد نے کہا کہ فَصۡلَ ٱلۡخِطَابِ سے مراد فیصلے کی سوجھ بوجھ ہے۔ وَلا تُشْطِطْ یعنی بے انصافی نہ کر اور ہمیں سیدھی راہ بتا۔ (۳۸:۲۲) یہ شخص میرا بھائی ہے اس کے پاس ننانوے نَعۡجَةً۬ (دنبیاں) ہیں۔ (۳۸:۲۳) عورت کے لیے بھی نَعۡجَةً۬ کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور نَعۡجَةً۬ بکری کو بھی کہتے ہیں اور میرے پاس صرف ایک دنبی ہے ‘ سو یہ کہتا ہے وہ بھی مجھ کو دے ڈال۔ یہ أَكۡفِلۡنِيہَا زكرياء کی طرح ہے بمعنی ضمه اور گفتگو میں مجھے دباتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان: قَالَ لَقَدۡ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعۡجَتِكَ إِلَىٰ نِعَاجِهِۦ... وَظَنَّ دَاوُ ۥدُ أَنَّمَا فَتَنَّـٰهُ داؤد علیہ السلام نے کہا اس نے تیری دنبی اور اپنی دنبیوں میں ملانے کی درخواست کر کے واقعی تجھ پر ظلم کیا اور اکثر ساجھی یوں ہی ایک دوسرے کے اوپر ظلم کیا کرتے ہیں۔ مگر جو یقین لائے اور کام کئے اچھے، اور تھوڑے ہیں ویسے۔ اور خیال میں آیا داؤد کے کہ ہم نے اسکو جانچا(آزمایا ہے) ، (۳۸:۲۴) ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کفَتَنَّـٰهُ کے معنی ہیں ہم نے ان کا امتحان کیا۔ عمر رضی اللہ عنہ اس کی قرآت التَّاءِ کی تشدید کے ساتھ فَتَّنَّاهُ کیا کرتے تھے۔ فَٱسۡتَغۡفَرَ رَبَّهُ ۥ وَخَرَّ رَاكِعً۬ا وَأَنَابَ سو انہوں نے اپنے پروردگار کے سامنے توبہ کی اور وہ جھک پڑے اور رجوع ہوئے۔ (۳۸:۲۴) حدیث نمبر ۳۴۲۱ راوی: مجاہد میں نے عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا، کیا میں سورۃ ص میں سجدہ کیا کروں؟ تو انہوں نے آیت وَمِن ذُرِّيَّتِهِۦ دَاوُ ۥدَ وَسُلَيۡمَـٰنَ تلاوت کی فَبِهُدَٮٰهُمُ ٱقۡتَدِهۡۗ (۴:۸۴-۹۰)تک نیز انہوں نے کہا کہ تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں میں سے تھے جنہیں انبیاء علیہم السلام کی اقتداء کا حکم تھا۔ حدیث نمبر ۳۴۲۲ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ سورۃ ص کا سجدہ ضروری نہیں، لیکن میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سورۃ میں سجدہ کرتے دیکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس قول کا بیان: وَوَهَبۡنَا لِدَاوُ ۥدَ سُلَيۡمَـٰنَۚ نِعۡمَ ٱلۡعَبۡدُۖ إِنَّهُ ۥۤ أَوَّابٌ اور ہم نے داؤد کو سلیمان ( بیٹا ) عطا فرمایا ، وہ بہت اچھا بندہ تھا ، بیشک وہ بہت رجوع کرنے والا تھا (۳۸:۳۰) بہت ہی رجوع ہونے والا اور توجہ کرنے والا۔ سلیمان کا یہ کہنا وَهَبۡ لِى مُلۡكً۬ا لَّا يَنۢبَغِى لِأَحَدٍ۬ مِّنۢ بَعۡدِىٓ ۖمالک مجھ کو ایسی بادشاہت دے کہ میرے سوا کسی کو میسر نہ ہو۔(۳۸:۳۵) اور اللہ تعالیٰ کا فرمان: وَٱتَّبَعُواْ مَا تَتۡلُواْ ٱلشَّيَـٰطِينُ عَلَىٰ مُلۡكِ سُلَيۡمَـٰنَۖ اور یہ لوگ پیچھے لگ گئے اس علم کے جو سلیمان کی بادشاہت میں شیطان پڑھا کرتے تھے۔(۲:۱۰۲) اور سورۃ سبا میں فرمایا : وَلِسُلَيۡمَـٰنَ ٱلرِّيحَ غُدُوُّهَا شَہۡرٌ۬ وَرَوَاحُهَا شَہۡرٌ۬ۖ اور سلیمان کے آگے باؤ (ہوا) ، صبح کی منزل ایک مہینے کی راہ اور شام کی منزل ایک مہینہ۔(۳۴:۱۲) (ہم نے) سلیمان علیہ السلام کے لیے ہوا کو (تابع) کر دیا کہ اس کی صبح کی منزل مہینہ بھر کی ہوتی اور اس کی شام کی منزل مہینہ بھر کی ہوتی اور وَأَسَلۡنَا لَهُ ۥ عَيۡنَ ٱلۡقِطۡرِۖ اور بہا دیا ہم نے اس کے واسطے چشمہ پگھلتے تانبے کا ۔(۳۴:۱۲) قطر یعنی ہم نے ان کے لیے لوہے کا چشمہ بہا دیا وأسلنا له عين القطر بمعنی وأذبنا له عين الحديد ہے اور وَمِنَ ٱلۡجِنِّ مَن يَعۡمَلُ بَيۡنَ يَدَيۡهِ بِإِذۡنِ رَبِّهِۖۦ... يَعۡمَلُونَ لَهُ ۥ مَا يَشَآءُ مِن مَّحَـٰرِيبَ اور جنات میں کچھ وہ تھے جو ان کے آگے ان کے پروردگار کے حکم سے خوب کام کرتے تھے۔ اور جو کوئی پھرے ان میں ہمارے حکم سے چکھائیں ہم اس کو آگ کی مار۔بناتے اس کے واسطے جو چاہتا قلعے (۳۴:۱۲,۱۳) مجاہد نے کہا کہ مَّحَـٰرِيبَ وہ عمارتیں جو محلوں سے کم ہوں۔ وَتَمَـٰثِيلَ وَجِفَانٍ۬ كَٱلۡجَوَابِ وَقُدُورٍ۬ رَّاسِيَـٰتٍۚ ٱعۡمَلُوٓاْ ءَالَ دَاوُ ۥدَ شُكۡرً۬اۚ وَقَلِيلٌ۬ مِّنۡ عِبَادِىَ ٱلشَّكُورُ اور تصویریں،اور لگن جیسے تالاب اور دیگیں چولھوں پر جمیں۔ کام کرو داؤد کے گھر والو! حق مان کر۔ اور تھوڑے ہیں میرے بندوں میں حق ماننے (شکر کرنے) والے۔(۳۴:۱۳) تَمَـٰثِيلَ تصویریں اور لگن اور جَوَابِ یعنی حوض جیسے اونٹوں کے لیے حوض ہوا کرتے ہیں۔ اور (بڑی بڑی) جمی ہوئی دیگیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان: فَلَمَّا قَضَيۡنَا عَلَيۡهِ ٱلۡمَوۡتَ مَا دَلَّهُمۡ عَلَىٰ مَوۡتِهِۦۤ ۔۔۔ فِى ٱلۡعَذَابِ ٱلۡمُهِينِ پھر جب ہم نے ان پر موت کا حکم جاری کر دیا تو کسی چیز نے ان کی موت کا پتہ نہ دیا بجز ایک زمین کے کیڑے (دیمک) کے کہ وہ ان کے عصا کو کھاتا رہا، سو جب وہ گر پڑے تب جنات نے جانا کہ وہ مر گئے۔ کہ اگر خبر رکھتے ہوتے غیب کی، نہ رہتے ذلت کی تکلیف میں۔ (۳۴:۱۴) فَقَالَ إِنِّىٓ أَحۡبَبۡتُ حُبَّ ٱلۡخَيۡرِ عَن ذِكۡرِ رَبِّى حَتَّىٰ تَوَارَتۡ بِٱلۡحِجَابِ تو بولا میں نے چاہی محبت مال کی اپنے رب کی یاد سے۔ یہاں تک کہ چھُپ گیا اوٹ میں۔ رُدُّوهَا عَلَىَّۖ فَطَفِقَ مَسۡحَۢا بِٱلسُّوقِ وَٱلۡأَعۡنَاقِ پھیر (واپس) لاؤ ان کو میرے پاس۔پھر لگا جھاڑنے پنڈلیاں اور گردنیں۔ (۳۸:۳۲) الأصفاد بمعنی الوثاق بیڑیاں زنجیریں۔ مجاہد نے کہا کہ ٱلصَّـٰفِنَـٰتُ صفن الفرس سے مشتق ہے، اس وقت بولتے ہیں جب گھوڑا ایک پاؤں اٹھا کر کھر کی نوک پر کھڑا ہو جائے، ٱلۡجِيَادُ یعنی دوڑنے میں تیز۔(۳۸:۳۱) ، جَسَدً۬ا بمعنی شیطان، (۳۸:۳۴) (جو سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی پہن کر ان کی کرسی پر بیٹھ گیا تھا) رُخَآءً نرمی سے، خوشی سے۔ حَيۡثُ أَصَابَ یعنی جہاں وہ جانا چاہتے۔ (۳۸:۳۶) فَٱمۡنُنۡ أعط. کے معنی میں ہے، جس کو چاہے دے بغیر حساب بغیر کسی تکلیف کے، بے حرج۔ (۳۸:۳۹) حدیث نمبر ۳۴۲۳ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک سرکش جن کل رات میرے سامنے آ گیا تاکہ میری نماز خراب کر دے لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر قدرت دے دی اور میں نے اسے پکڑ لیا۔ پھر میں نے چاہا کہ اسے مسجد کے کسی ستون سے باندھ دوں کہ تم سب لوگ بھی دیکھ سکو۔ لیکن مجھے اپنے بھائی سلیمان علیہ السلام کی دعا یاد آ گئی کہ یا اللہ! مجھے ایسی سلطنت دے جو میرے سوا کسی کو میسر نہ ہو۔ اس لیے میں نے اسے نامراد واپس کر دیا۔ عفريت سرکش کے معنی میں ہے، خواہ انسانوں میں سے ہو یا جنوں میں سے۔ حدیث نمبر ۳۴۲۴ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سلیمان بن داؤد علیہما السلام نے کہا کہ آج رات میں اپنی ستر بیویوں کے پاس جاؤں گا اور ہر بیوی ایک شہسوار جنے گی جو اللہ کے راستے میں جہاد کرے گا۔ ان کے ساتھی نے کہا ان شاءاللہ، لیکن انہوں نے نہیں کہا۔ چنانچہ کسی بیوی کے یہاں بھی بچہ پیدا نہیں ہوا، صرف ایک کے یہاں ہوا اور اس کی بھی ایک جانب بیکار تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر سلیمان علیہ السلام ان شاءاللہ کہہ لیتے (تو سب کے یہاں بچے پیدا ہوتے) اور اللہ کے راستے میں جہاد کرتے۔ شعیب اور ابن ابی الزناد نے بجائے ستر کےنوے کہا ہے اور یہی بیان زیادہ صحیح ہے۔ حدیث نمبر ۳۴۲۵ راوی: ابوذر رضی اللہ عنہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یا رسول اللہ! سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی تھی؟ فرمایا کہ مسجد الحرام! میں نے سوال کیا، اس کے بعد کون سی؟ فرمایا کہ مسجد الاقصیٰ۔ میں نے سوال کیا اور ان دونوں کی تعمیر کا درمیانی فاصلہ کتنا تھا؟ فرمایا کہ چالیس سال۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس جگہ بھی نماز کا وقت ہو جائے فوراً نماز پڑھ لو۔ تمہارے لیے تمام روئے زمین مسجد ہے۔ حدیث نمبر ۳۴۲۶ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری اور تمام انسانوں کی مثال ایک ایسے شخص کی سی ہے جس نے آگ روشن کی ہو۔ پھر پروانے اور کیڑے مکوڑے اس میں گرنے لگے ہوں۔ حدیث نمبر ۳۴۲۷ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو عورتیں تھیں اور دونوں کے ساتھ دونوں کے بچے تھے۔ اتنے میں ایک بھیڑیا آیا اور ایک عورت کے بچے کو اٹھا لے گیا۔ ان دونوں میں سے ایک عورت نے کہا بھیڑیا تمہارے بیٹے کو لے گیا ہے اور دوسری نے کہا کہ تمہارے بیٹے کو لے گیا ہے۔ دونوں داؤد علیہ السلام کے یہاں اپنا مقدمہ لے گئیں۔ آپ نے بڑی عورت کے حق میں فیصلہ کر دیا۔ اس کے بعد وہ دونوں سلیمان بن داؤد علیہ السلام کے یہاں آئیں اور انہیں اس جھگڑے کی خبر دی۔ انہوں نے فرمایا کہ اچھا چھری لاؤ۔ اس بچے کے دو ٹکڑے کر کے دونوں کے درمیان بانٹ دوں۔ چھوٹی عورت نے یہ سن کر کہا: اللہ آپ پر رحم فرمائے ایسا نہ کیجئے، میں نے مان لیا کہ اسی بڑی کا لڑکا ہے۔ اس پر سلیمان علیہ السلام نے اس چھوٹی کے حق میں فیصلہ کیا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے سكين کا لفظ اسی دن سنا، ورنہ ہم ہمیشہ (چھری کے لیے) مدية. کا لفظ بولا کرتے تھے۔ ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی اللہ تعالیٰ کے اس قول کا بیان : وَلَقَدۡ ءَاتَيۡنَا لُقۡمَـٰنَ ٱلۡحِكۡمَةَ أَنِ ٱشۡكُرۡ لِلَّهِۚ ... إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخۡتَالٍ۬ فَخُورٍ۬ اور ہم نے دی ہے لقمان کو عقلمندی، کہ حق مان (شُکر بجا لا) اﷲ کا۔اور جو کوئی حق مانے (شُکر بجا لائے) اﷲ کا تو مانے (شُکر بجا لائے) گا اپنے بھلے کو۔ اور جو کوئی منکر ہو گا تو اﷲ بے پرواہ ہے سب خوبیوں سراہا۔ اور جب کہا لقمان ے اپنے بیٹے کو ، جب اس کو سمجھانے لگا، اے بیٹے شریک نہ ٹھہرائیو اﷲ کا۔بیشک شریک بنانا بڑی بے انصافی ہے۔ اور ہم نے تقید (تاکید) کیا انسان کو اُس کے ماں باپ کے واسطے، پیٹ میں رکھا اس کو اس کی ماں نے تھک تھک کر،اور دودھ چھڑانا ہے اس کا دو برس میں،کہ حق مان میرا، اور اپنے ماں باپ کا،آخر مجھی تک(لوٹ کر) آنا ہے۔ اور اگر وہ دونوں تجھ سے اڑیں (دباؤ ڈالیں) اس پر کہ شریک مان میرا جو تجھ کو معلوم نہیں، تو اُن کا کہا نہ مان، اور ساتھ دے ان کا دُنیا میں دستور (معروف طریقے)سے۔اور راہ چل اس کی، جو رجوع ہوا میری طرف۔ پھر میری طرف ہے تم کو پھر (لوٹ کر) آنا، پھر میں جتاؤں گا تم کو، جو کچھ تم کرتے تھے۔ اے بیٹے!اگر کوئی چیز ہو برابر رائی کے دانے کے، پھر رہی ہو کسی پتھر میں یا آسمانوں میں یا زمین میں، لا حاضر کرے اسکو اﷲ۔بیشک اﷲ چھپے جانتا ہے ،خبردار۔ اے بیٹے کھڑی رکھ (قائم کر) نماز، اور سکھلا بھلی بات، اور منع کر برائی سے،اور سہار (صبر کر) جو تجھ پر پڑے۔ بیشک یہ ہیں ہمت کے کام۔ اور اپنے گال نہ پھیلا لوگوں کی طرف، اور مت چل زمین پر اِتراتا، بیشک اﷲ کو نہیں بھاتا (پسند آتا) کوئی اِتراتا بُرائیاں کرتا۔ (۳۱:۱۲,۱۸) ولا تصعر یعنی اپنا چہرہ نہ پھیر۔ حدیث نمبر ۳۴۲۸ راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جب آیت الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان میں ظلم کی ملاوٹ نہیں کی (۶:۸۲) ۔ نازل ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے عرض کیا ہم میں ایسا کون ہو گا جس نے اپنے ایمان میں ظلم نہیں کیا ہو گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی لَا تُشۡرِكۡ بِٱللَّهِۖ إِنَّ ٱلشِّرۡكَ لَظُلۡمٌ عَظِيمٌ۬ عظيم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرا۔ بیشک شرک ہی ظلم عظیم ہے۔ (۳۱:۱۳) حدیث نمبر ۳۴۲۹ راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جب آیت الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان میں ظلم کی ملاوٹ نہیں کی (۶:۸۲) ۔ نازل ہوئی تو مسلمانوں پر بڑا شاق گزرا اور انہوں نے عرض کیا ہم میں کون ایسا ہو سکتا ہے جس نے اپنے ایمان کے ساتھ ظلم کی ملاوٹ نہ کی ہو گی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا یہ مطلب نہیں، ظلم سے مراد آیت میں شرک ہے۔ کیا تم نے نہیں سنا کہ لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے سے کہا تھا اسے نصیحت کرتے ہوئے کہ اے بیٹے! اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرا، بیشک شرک بڑا ہی ظلم ہے۔(۳۱:۱۳) بستی والوں کی مثالسورہ یٰس میں اللہ فرماتا ہے: وَٱضۡرِبۡ لَهُم مَّثَلاً أَصۡحَـٰبَ ٱلۡقَرۡيَةِ اور ان کے سامنے بستی والوں کی مثال بیان کر (۳۶:۱۳) فَعَزَّزۡنَا کے معنی میں مجاہد نے کہا کہ ہم نے انہیں قوت پہنچائی۔(۳۶:۱۳) عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ طَـٰٓٮِٕرُكُم کے معنی تمہاری مصیبتیں ہیں۔(۳۶:۱۹) زکریا علیہ السلام کا بیاناللہ تعالیٰ نے سورۃ مریم میں فرمایا : ذِكۡرُ رَحۡمَتِ رَبِّكَ عَبۡدَهُ ۥ زَڪَرِيَّآ ... لَّهُ ۥ مِن قَبۡلُ سَمِيًّ۬ا یہ مذکور (ذکر) ہے تیرے رب کی مہر (رحمت) کا اپنے بندے زکریا پر۔جب پکارا اپنے رب کو چھپی پکار(چپکے چپکے) ۔ بولا، اے رب میرے! بوڑھی ہو گئیں ہڈیاں اور ڈیگ (بھڑک) نکلی سرسے بڑھاپے کی(سفیدی) ،اور تجھ سے مانگ کر اے رب! میں محروم نہیں رہا۔ اور میں ڈرتا ہوں بھائی بندوں سے اپنے پیچھے، اور عورت میری بانجھ ہے،سو بخش مجھ کو اپنے پاس سے ایک کام اُٹھانے وال(وارث) ۔ جو میری جگہ بیٹھے، اور یعقوب کی اولاد کے، اور کر اسکو، اے رب! من مانت(پسندیدہ) ۔ اے زکریا! ہم تجھ کو خوشی سنائیں ایک لڑکے کی جس کا نام یحییٰ۔نہیں کیا ہم نے پہلے اس نام کا کوئی۔(۱۹:۲،۷) ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رضي ، مرضي کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ عتي بمعنی عصي ہے۔ عت يعتو سے مشتق ہے۔ زکریا علیہ السلام بولے : قَالَ رَبِّ أَنَّىٰ يَكُونُ لِى غُلَـٰمٌ۬ وَڪَانَتِ ٱمۡرَأَتِى عَاقِرً۬ا... أَلَّا تُكَلِّمَ ٱلنَّاسَ ثَلَـٰثَ لَيَالٍ۬ سَوِيًّ۬ا بولا، اے رب! کہاں سے ہو گا مجھ کو لڑکا اور میری عورت بانجھ ہے،اور میں بوڑھا ہو گیا یہاں تک کہ اکڑ گیا۔ کہا یوں ہی! فرمایا تیرے رب نے، وہ مجھ پر آسان ہے،اور تجھ کو بنایا میں نے پہلے سے، اور تُو نہ تھا کچھ چیز۔ بولا اے رب! ٹھہرا (مقرر کر) دے مجھ کو کچھ نشانی،فرمایا تیری نشانی یہ کہ بات نہ کرے تو لوگوں سے تین رات تک (حالانکہ تُو ہے) چنگا بھلا۔(۱۹:۲-۷) سَوِيًّ۬ا بمعنی صحيح ہے۔ فَخَرَجَ عَلَىٰ قَوۡمِهِۦ مِنَ ٱلۡمِحۡرَابِ فَأَوۡحَىٰٓ إِلَيۡہِمۡ أَن سَبِّحُواْ بُكۡرَةً۬ وَعَشِيًّ۬ا پھر نکلا اپنے لوگوں پاس حُجرے سے تو اشارے سے کہا انکو، کہ یاد کرو(اﷲ کو) صبح و شام۔ (۱۹:۱۱) فَأَوۡحَىٰٓ بمعنی فأشار اس نے اشارہ کیا ۔ يَـٰيَحۡيَىٰ خُذِ ٱلۡڪِتَـٰبَ بِقُوَّةٍ۬ۖ ... يَوۡمَ وُلِدَ وَيَوۡمَ يَمُوتُ وَيَوۡمَ يُبۡعَثُ حَيًّ۬ا اے یحییٰ اٹھا (تھام) لے کتاب زور (مضبوطی) سے۔اور دیا (نواز) ہم نے اس کو حکم کرنا لڑکپن میں۔ اور شوق دیا اپنی طرف سے اور ستھرائی، اور تھا پرہیزگار۔اور نیکی کرتا اپنے ماں باپ سے، اور نہ تھا زبردست بے حکم۔ اور سلام ہے اس پر، جس دن پیدا ہوا اور جس دن مرے، اور جس دن اٹھ کھڑا ہو جی کر۔ (۱۹:۱۲-۱۵) حَفِيًّا بمعنی لطيف ۔ عَاقِرًا مذکر اور مونث دونوں کے لیے آتا ہے۔ حدیث نمبر ۳۴۳۰ راوی: مالک بن صعصعہ رضی اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج کے متعلق بیان فرمایا کہ پھر آپ اوپر چڑھے اور دوسرے آسمان پر تشریف لے گئے۔ پھر دروازہ کھولنے کے لیے کہا۔ پوچھا گیا: کون ہیں؟ کہا کہ جبرائیل علیہ السلام۔ پوچھا گیا: آپ کے ساتھ کون ہیں؟ کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔ پوچھا گیا: کیا انہیں لانے کے لیے بھیجا، کہا کہ جی ہاں۔ پھر جب میں وہاں پہنچا تو عیسیٰ اور یحییٰ علیہما السلام وہاں موجود تھے۔ یہ دونوں نبی آپس میں خالہ زاد بھائی ہیں۔ جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ یحییٰ اور عیسیٰ علیہما السلام ہیں۔ انہیں سلام کیجئے۔ میں نے سلام کیا، دونوں نے جواب دیا اور کہا خوش آمدید نیک بھائی اور نیک نبی۔ عیسیٰ علیہ السلام اور مریم علیہا السلام کا بیاناور اللہ تعالیٰ کا سورۃ مریم میں ارشاد: وَٱذۡكُرۡ فِى ٱلۡكِتَـٰبِ مَرۡيَمَ إِذِ ٱنتَبَذَتۡ مِنۡ أَهۡلِهَا مَكَانً۬ا شَرۡقِيًّ۬ا اور اس کتاب میں مریم کا ذکر کر جب وہ اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر ایک شرقی مکان میں چلی گئیں (۱۹:۱۶) اور فرمایا: إِذۡ قَالَتِ ٱلۡمَلَـٰٓٮِٕكَةُ يَـٰمَرۡيَمُ إِنَّ ٱللَّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ۬ (اور وہ وقت یاد کر) جب فرشتوں نے کہا کہ اے مریم! اللہ تجھ کو خوشخبری دے رہا ہے، اپنی طرف ایک کلمہ کی۔ (۳:۴۵) اور فرمایا: إِنَّ ٱللَّهَ ٱصۡطَفَىٰٓ ءَادَمَ وَنُوحً۬ا وَءَالَ إِبۡرَٲهِيمَ ... إِنَّ ٱللَّهَ يَرۡزُقُ مَن يَشَآءُ بِغَيۡرِ حِسَابٍ ابیشک اللہ نے آدم اور نوح اور آل عمران کو تمام جہاں پر برگزیدہ بنایا۔ کہ اولاد تھے ایک دوسرے کی، اور اﷲ سنتا جانتا ہے۔ جب بولی عورت عمران کی، کہاے رب!میں نے نذر کیا تیری جو کچھ میرے پیٹ میں ہے آزاد ( ہو گا تیرے نام پر ) سو تو مجھ سے قبول کر۔تو ہے اصل سنتا جانتا۔ پھر جب اس کو جنی( پیدا کی ) ، بولی، اے رب! میں نے یہ لڑکی جنی ۔ اور اﷲ کو بہتر معلوم ہے جو کچھ جنی۔ اور ( کوئی ) بیٹا نہ ہو جیسے وہ بیٹی۔ اور میں نے اس کا نام رکھا مریم، اور میں تیری پناہ میں دیتی ہوں اسکو اور اسکی اولاد کو شیطان مردود سے۔ اور میں نے اس کا نام رکھا مریم، اور میں تیری پناہ میں دیتی ہوں اسکو اور اسکی اولاد کو شیطان مردود سے۔ پھر قبول کیا اسکو اسکے رب نے، اچھی طرح قبول کرنا اور بڑھایا اسکو اچھی طرح بڑھانا ، اور سپرد کیا زکریا کو۔ جس وقت آتا اُس پاس زکریا حجرے میں، پاتا اس پاس کچھ کھانا،بولا، اے مریم! کہاں سے آیا تجھ کو یہ؟ کہنے لگی، یہ اﷲ کے پاس سے۔اﷲ رزق دیتا ہے جس کو چاہے بے حساب ۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ آل عمران سے مراد ایماندار لوگ مراد ہیں جو عمران کی اولاد میں ہوں جیسے آل إبراهيم اور آل ياسين اور آل محمد صلى الله عليه وسلم سے وہی لوگ مراد ہیں جو مؤمن ہوں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ابراہیم علیہ السلام کے نزدیک والے وہی لوگ ہیں جو ان کی راہ پر چلتے ہیں یعنی جو مؤمن موحد ہیں۔ آل کا لفظ اصل میں أهل.تھا۔ آل يعقوب یعنی أهل يعقوب. (ھ کو ہمزہ سے بدل دیا) تصغیر میں پھر اصل کی طرف لے جاتے ہیں تب أهيل. کہتے ہیں۔ حدیث نمبر ۳۴۳۱ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر ایک بنی آدم جب پیدا ہوتا ہے تو پیدائش کے وقت شیطان اسے چھوتا ہے اور بچہ شیطان کے چھونے سے زور سے چیختا ہے۔ سوائے مریم اور ان کے بیٹے عیسیٰ علیہما السلام کے۔ پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اس کی وجہ مریم علیہما السلام کی والدہ کی دعا ہے کہ اے اللہ!میں اسے (مریم کو) اور اس کی اولاد کو شیطان رجیم سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وَإِذۡ قَالَتِ ٱلۡمَلَـٰٓٮِٕڪَةُ يَـٰمَرۡيَمُ إِنَّ ٱللَّهَ ٱصۡطَفَٮٰكِ ... وَمَا ڪُنتَ لَدَيۡهِمۡ إِذۡ يَخۡتَصِمُونَ اور ( وہ وقت یاد کر ) جب فرشتوں نے کہا کہ اے مریم بیشک اللہ نے تجھ کو برگزیدہ کیا ہے اور پلیدی سے پاک کیا ہے اور تجھ کو دنیا جہاں کی عورتوں کے مقابلہ میں برگزیدہ کیا ۔ اے مریم! اپنے رب کی عبادت کرتی رہ اور سجدہ کرتی رہ اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرتی رہ، یہ (واقعات) غیب کی خبروں میں سے ہیں جو ہم تیرے اوپر وحی کر رہے ہیں اور تو ان لوگوں کے پاس نہیں تھا جب وہ اپنے قلم ڈال رہے تھے کہ ان میں سے کون مریم کو پالے اور تو نہ اس وقت ان کے پاس تھا جب وہ آپس میں اختلاف کر رہے تھے۔(۳:۴۲،۴۴) يَكۡفُلُ يضم کے معنی میں بولتے ہیں، یعنی ملا لے۔ كفله یعنی ضمه ملا لیا (بعض قراتوں میں) تخفیف کے ساتھ ہے۔ یہ وہ کفالت ہے جو قرضوں وغیرہ میں کی جاتی ہے یعنی ضمانت وہ دوسرا معنی ہے۔ حدیث نمبر ۳۴۳۲ راوی: علی رضی اللہ عنہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ مریم بنت عمران (اپنے زمانہ میں) سب سے بہترین خاتون تھیں اور اس امت کی سب سے بہترین خاتون خدیجہ ہیں (رضی اللہ عنہا)۔ اللہ تعالیٰ کا سورۃ آل عمران میں فرمانا : إِذۡ قَالَتِ ٱلۡمَلَـٰٓٮِٕكَةُ يَـٰمَرۡيَمُ إِنَّ ٱللَّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ۬ مِّنۡهُٱ ...فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ ۥ كُن فَيَكُونُ جب فرشتوں نے کہا اے مریم ! اﷲ تجھ کو بشارت دیتا ہے ایک اپنے حکم کی،جس کا نام مسیح عیسیٰ، مریم کا بیٹا، مرتبے والا دنیا میں، اور آخرت میں، اور نزدیک والوں میں۔ اور باتیں کرے گا لوگوں سے جب ماں کی گود میں ہو گا، اور جب پوری عمر کا ہو گا اور نیک بختوں میں ہے۔ بولی، اے رب! کہاں سے ہو گا مجھ کو لڑکا؟ اور مجھ کو ہاتھ نہیں لگایا کسی آدمی نے۔ کہا، اسی طرح اﷲ پیدا کرتا ہے جو چاہے ،جب حکم کرتا ہے ایک کام کو، تو یہی کہتا ہے اسکو کہ’ ہو‘ وہ ہوجاتا ہے۔ (۳:۴۵،۴۷) يُبَشِّرُكِ اور ويبشرك (مزید اور مجرد) دونوں کے ایک معنی ہیں۔ (۳:۴۵) وَجِيهً۬ا کا معنی شریف۔ (۳:۴۵) ابراہیم نخعی نے کہا المَسِيحُ صديق. کو کہتے ہیں۔ مجاہد نے کہا وَڪَهۡلاً۬ کا معنی برباد بڑھاپا۔ أَكْمَهُ جو دن کو دیکھے، پر رات کو نہ دیکھے۔ یہ مجاہد کا قول ہے۔ اوروں نے کہا أَكْمَهُ کے معنی مادر زاد اندھے کے ہیں۔ حدیث نمبر ۳۴۳۳ راوی: ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورتوں پر عائشہ کی فضیلت ایسے ہے جیسے تمام کھانوں پر ثرید کی۔ مردوں میں سے تو بہت سے کامل ہو گزرے ہیں لیکن عورتوں میں مریم بنت عمران اور فرعون کی بیوی آسیہ کے سوا اور کوئی کامل پیدا نہیں ہوئی۔ حدیث نمبر ۳۴۳۴ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اونٹ پر سوار ہونے والیوں (عربی خواتین) میں سب سے بہترین قریشی خواتین ہیں۔ اپنے بچے پر سب سے زیادہ محبت و شفقت کرنے والی اور اپنے شوہر کے مال و اسباب کی سب سے بہتر نگراں و محافظ۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ یہ حدیث بیان کرنے کے بعد کہتے تھے کہ مریم بنت عمران اونٹ پر کبھی سوار نہیں ہوئی تھیں۔ اللہ تعالیٰ کا سورۃ النساء میں فرمانا: يَـٰٓأَهۡلَ ٱلۡڪِتَـٰبِ لَا تَغۡلُواْ فِى دِينِڪُمۡ ... ۗ وَكَفَىٰ بِٱللَّهِ وَڪِيلاً۬ اے اہل کتاب ! اپنے دین میں غلو ( سختی اور تشدد ) نہ کرو اور اللہ تعالیٰ کی نسبت وہی بات کہو جو سچ ہے ۔ مسیح عیسیٰ بن مریم تو بس اللہ کے ایک پیغمبر ہی ہیں اور اس کا ایک کلمہ جسے اللہ نے مریم تک پہنچا دیا اور ایک روح ہے اس کی طرف سے ۔ پس اللہ اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لاؤ اور یہ نہ کہو کہ رب تین ہیں ، اس سے باز آ جاؤ ۔ تمہارے حق میں یہی بہتر ہے ۔ اللہ تو بس ایک ہی معبود ہے ، وہ پاک ہے اس سے کہ اسے کے بیٹا ہو ۔ اس کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور اللہ ہی کا کار ساز ہونا کافی ہے (۴:۱۷۱) ابو عبید نے بیان کیا کہ كَلِمَتُهُ سے مراد اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو گیا اور دوسروں نے کہا کہ وَرُوحٌ مِنْهُ سے مراد یہ ہے کہ اللہ نے انہیں زندہ کیا اور اور روح ڈالی اور یہ نہ کہو کہ رب تین ہیں۔ (۴:۱۷۱) حدیث نمبر ۳۴۳۵ راوی: عبادہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ وحدہ لا شریک ہے اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں اور یہ کہ عیسیٰ علیہ السلام اس کے بندے اور رسول ہیں اور اس کا کلمہ ہیں، جسے پہنچا دیا تھا اللہ نے مریم تک اور ایک روح ہیں اس کی طرف سے اور یہ کہ جنت حق ہے اور دوزخ حق ہے تو اس نے جو بھی عمل کیا ہو گا (آخر) اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا۔ اور جنادہ نے اور اپنی روایت میں یہ زیادہ کیا (ایسا شخص) جنت کے آٹھ دروازوں میں سے جس سے چاہے (داخل ہو گا)۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ مریم میں فرمایا : وَٱذۡكُرۡ فِى ٱلۡكِتَـٰبِ مَرۡيَمَ إِذِ ٱنتَبَذَتۡ مِنۡ أَهۡلِهَا مَكَانً۬ا شَرۡقِيًّ۬ا ( اس ) کتاب میں مریم کا ذکر کر جب وہ اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر ایک پورب رخ مکان میں چلی گئی (۱۹:۱۶) لفظ ٱنتَبَذَتۡ نبذ سے نکلا ہے جیسے یونس علیہ السلام کے قصے میں فرمایا نبذناه یعنی ہم نے ان کو ڈال دیا۔ شرقيا پورب رخ (یعنی مسجد سے یا ان کے گھر سے پورب کی طرف) (۱۹:۱۶) فَأَجَاءَهَا کے معنی اس کو لاچار اور بے قرار کر دیا۔ (۱۹:۲۳) قَصِيًّا دور۔(۱۹:۲۲) نَسْيًا ناچیز۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ایسا ہی کہا۔ دوسروں نے کہا النِّسْيُ کہتے ہیں حقیر چیز کو ۔ (۱۹:۲۳) سَرِيًّا سریانی زبان میں چھوٹی نہر کو کہتے ہیں۔ (۱۹:۲۴) تَسْقُطْ گرے گا۔(۱۹:۲۵) فَرِيًّا بڑا یا برا۔ (۱۹:۲۷) ابووائل نے کہا کہ مریم یہ سمجھی کہ پرہیزگار وہی ہوتا ہے جو عقلمند ہوتا ہے۔ جب انہوں نے کہا (جبرائیل علیہ السلام کو ایک جوان مرد کی شکل میں دیکھ کر) اگر تو پرہیزگار ہے اللہ سے ڈرتا ہے۔ حدیث نمبر ۳۴۳۶ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : گود میں تین بچوں کے سوا اور کسی نے بات نہیں کی۔ - اول عیسیٰ علیہ السلام - دوسرے کا واقعہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک بزرگ تھے، نام جریج تھا۔ وہ نماز پڑھ رہے تھے کہ ان کی ماں نے انہیں پکارا۔ انہوں نے۔ (اپنے دل میں) کہا کہ میں والدہ کا جواب دوں یا نماز پڑھتا رہوں؟ اس پر ان کی والدہ نے (غصہ ہو کر) بددعا کی: اے اللہ! اس وقت تک اسے موت نہ آئے جب تک یہ زانیہ عورتوں کا منہ نہ دیکھ لے۔ جریج اپنے عبادت خانے میں رہا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ان کے سامنے ایک فاحشہ عورت آئی اور ان سے بدکاری چاہی لیکن انہوں نے (اس کی خواہش پوری کرنے سے) انکار کیا۔ پھر ایک چرواہے کے پاس آئی اور اسے اپنے اوپر قابو دے دیا اس سے ایک بچہ پیدا ہوا۔ اور اس نے ان پر یہ تہمت دھری کہ یہ جریج کا بچہ ہے۔ ان کی قوم کے لوگ آئے اور ان کا عبادت خانہ توڑ دیا، انہیں نیچے اتار کر لائے اور انہیں گالیاں دیں۔ پھر انہوں نے وضو کر کے نماز پڑھی، اس کے بعد بچے کے پاس آئے اور اس سے پوچھا کہ تیرا باپ کون ہے؟ بچہ (اللہ کے حکم سے) بول پڑا کہ چرواہا ہے اس پر (ان کی قوم شرمندہ ہوئی اور) کہا ہم آپ کا عبادت خانہ سونے کا بنائیں گے۔ لیکن انہوں نے کہا ہرگز نہیں، مٹی ہی کا بنے گا - تیسرا واقعہ اور ایک بنی اسرائیل کی عورت تھی، اپنے بچے کو دودھ پلا رہی تھی۔ قریب سے ایک سوار نہایت عزت والا اور خوش پوش گزرا۔ اس عورت نے دعا کی: اے اللہ! میرے بچے کو بھی اسی جیسا بنا دے لیکن بچہ (اللہ کے حکم سے) بول پڑا کہ اے اللہ! مجھے اس جیسا نہ بنانا۔ پھر اس کے سینے سے لگ کر دودھ پینے لگا۔پھر ایک باندی اس کے قریب سے لے جائی گئی (جسے اس کے مالک مار رہے تھے) تو اس عورت نے دعا کی کہ اے اللہ! میرے بچے کو اس جیسا نہ بنانا۔ بچے نے پھر اس کا پستان چھوڑ دیا اور کہا کہ اے اللہ! مجھے اسی جیسا بنا دے۔ اس عورت نے پوچھا۔ ایسا تو کیوں کہہ رہا ہے؟ بچے نے کہا کہ وہ سوار ظالموں میں سے ایک ظالم شخص تھا اور اس باندی سے لوگ کہہ رہے تھے کہ تم نے چوری کی اور زنا کیا حالانکہ اس نے کچھ بھی نہیں کیا تھا۔ حدیث نمبر ۳۴۳۷ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس رات میری معراج ہوئی، میں نے موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات کی تھی۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا حلیہ بیان کیا وہ .... میرا خیال ہے کہ معمر نے کہا .... دراز قامت اور سیدھے بالوں والے تھے جیسے قبیلہ شنوہ کے لوگ ہوتے ہیں۔ آپ نے بیان کیا کہ میں نے عیسیٰ علیہ السلام سے بھی ملاقات کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا بھی حلیہ بیان فرمایا کہ درمیانہ قد اور سرخ و سپید تھے، جیسے ابھی ابھی غسل خانے سے باہر آئے ہوں اور میں نے ابراہیم علیہ السلام سے بھی ملاقات کی تھی اور میں ان کی اولاد میں ان سے سب سے زیادہ مشابہ ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس دو برتن لائے گئے، ایک میں دودھ تھا اور دوسرے میں شراب۔ مجھ سے کہا گیا کہ جو آپ کا جی چاہے لے لو۔ میں نے دودھ کا برتن لے لیا اور پی لیا۔ اس پر مجھ سے کہا گیا کہ فطرت کی آپ نے راہ پا لی، یا فطرت کو آپ نے پا لیا۔ اس کے بجائے اگر آپ شراب کا برتن لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہو جاتی۔ حدیث نمبر ۳۴۳۸ راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے عیسیٰ، موسیٰ اور ابراہیم علیہم السلام کو دیکھا۔ عیسیٰ علیہ السلام نہایت سرخ گھونگھریالے بال والے اور چوڑے سینے والے تھے اور موسیٰ علیہ السلام گندم گوں دراز قامت اور سیدھے بالوں والے تھے جیسے کوئی قبیلہ زط کا آدمی ہو۔ حدیث نمبر ۳۴۳۹ راوی: عبداللہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن لوگوں کے سامنے دجال کا ذکر کیا اور فرمایا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کانا نہیں ہے، لیکن دجال داہنی آنکھ سے کانا ہو گا، اس کی آنکھ اٹھے ہوئے انگور کی طرح ہو گی۔ حدیث نمبر ۳۴۴۰ راوی: عبداللہ رضی اللہ عنہ اور میں نے رات کعبہ کے پاس خواب میں ایک گندمی رنگ کے آدمی کو دیکھا جو گندمی رنگ کے آدمیوں میں شکل کے اعتبار سے سب سے زیادہ حسین و جمیل تھا۔ اس کے سر کے بال شانوں تک لٹک رہے تھے، سر سے پانی ٹپک رہا تھا اور دونوں ہاتھ دو آدمیوں کے شانوں پر رکھے ہوئے وہ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ میں نے پوچھا یہ کون بزرگ ہیں؟ تو فرشتوں نے بتایا کہ یہ مسیح ابن مریم ہیں۔ اس کے بعد میں نے ایک شخص کو دیکھا، سخت اور مڑے ہوئے بالوں والا جو داہنی آنکھ سے کانا تھا۔ اسے میں نے ابن قطن سے سب سے زیادہ شکل میں ملتا ہوا پایا، وہ بھی ایک شخص کے شانوں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھے ہوئے بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا۔ میں نے پوچھا، یہ کون ہیں؟ فرشتوں نے بتایا کہ یہ دجال ہے۔ اس روایت کی متابعت عبیداللہ نے نافع سے کی ہے۔ حدیث نمبر ۳۴۴۱ راوی: سالم سے ان کے والد نے بیان کیا اللہ کی قسم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں یہ نہیں فرمایا تھا کہ وہ سرخ تھے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ میں نے خواب میں ایک مرتبہ بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے اپنے کو دیکھا، اس وقت مجھے ایک صاحب نظر آئے جو گندمی رنگ لٹکے ہوئے بال والے تھے، دو آدمیوں کے درمیان ان کا سہارا لیے ہوئے اور سر سے پانی صاف کر رہے تھے۔ میں نے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ تو فرشتوں نے جواب دیا کہ آپ ابن مریم علیہما السلام ہیں۔ اس پر میں نے انہیں غور سے دیکھا تو مجھے ایک اور شخص بھی دکھائی دیا جو سرخ، موٹا، سر کے بال مڑے ہوئے اور داہنی آنکھ سے کانا تھا، اس کی آنکھ ایسی دکھائی دیتی تھی جیسے اٹھا ہوا انار ہو، میں نے پوچھا یہ کون ہے؟ تو فرشتوں نے بتایا کہ یہ دجال ہے۔ اس سے شکل و صورت میں ابن قطن بہت زیادہ مشابہ تھا۔ زہری نے کہا کہ یہ قبیلہ خزاعہ کا ایک شخص تھا جو جاہلیت کے زمانہ میں مر گیا تھا۔ حدیث نمبر ۳۴۴۲ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ میں ابن مریم علیہما السلام سے دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ قریب ہوں، انبیاء علاتی بھائیوں کی طرح ہیں اور میرے اور عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے۔ حدیث نمبر ۳۴۴۳ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں عیسیٰ بن مریم علیہما السلام سے اور لوگوں کی بہ نسبت زیادہ قریب ہوں، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور انبیاء علیہم السلام علاتی بھائیوں (کی طرح) ہیں۔ ان کے مسائل میں اگرچہ اختلاف ہے لیکن دین سب کا ایک ہی ہے۔ حدیث نمبر ۳۴۴۴ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام نے ایک شخص کو چوری کرتے ہوئے دیکھا پھر اس سے دریافت فرمایا: تو نے چوری کی ہے؟ اس نے کہا ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں۔ عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں اللہ پر ایمان لایا اور میری آنکھوں کو دھوکا ہوا۔ حدیث نمبر ۳۴۴۵ راوی: عمر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے میرے مرتبے سے زیادہ نہ بڑھاؤ جیسے عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کو نصاریٰ نے ان کے رتبے سے زیادہ بڑھا دیا ہے۔ میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں، اس لیے یہی کہا کرو (میرے متعلق) کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ حدیث نمبر ۳۴۴۶ راوی: ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا: - اگر کوئی شخص اپنی لونڈی کو اچھی طرح ادب سکھلائے اور پورے طور پر اسے دین کی تعلیم دے۔ پھر اسے آزاد کر کے اس سے نکاح کر لے تو اسے دوگنا ثواب ملتا ہے - اور وہ شخص جو پہلے عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان رکھتا تھا، پھر مجھ پر ایمان لایا تو اسے بھی دوگنا ثواب ملتا ہے - اور وہ غلام جو اپنے رب کا بھی ڈر رکھتا ہے اور اپنے آقا کی بھی اطاعت کرتا ہے تو اسے بھی دوگنا ثواب ملتا ہے۔ حدیث نمبر ۳۴۴۷ راوی: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن تم لوگ ننگے پاؤں، ننگے بدن اور بغیر ختنہ کے اٹھائے جاؤ گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی يَوۡمَ نَطۡوِى ٱلسَّمَآءَ ڪَطَىِّ ۚ ... إِنَّا كُنَّا فَـٰعِلِينَ جس دن ہم لپیٹ لیں آسمان کو جیسے لپیٹتے ہیں طومار (دفتر) میں کاغذ۔ جیسا سرے (ابتدا) سے بنایا پہلی بار، پھر اس کو دہرا دیں گے۔ وعدہ ضرور ہو چکا ہے ہم پر، ہم کو کرنا۔ (۱۰۴:۲۱) پھر سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام کو کپڑا پہنایا جائے گا۔ پھر میرے اصحاب کو دائیں (جنت کی) طرف لے جایا جائے گا۔ لیکن کچھ کو بائیں (جہنم کی) طرف لے جایا جائے گا۔ میں کہوں گا کہ یہ تو میرے اصحاب ہیں لیکن مجھے بتایا جائے گا کہ جب آپ ان سے جدا ہوئے تو اسی وقت انہوں نے ارتداد اختیار کر لیا تھا۔ میں اس وقت وہی کہوں گا جو عبد صالح عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام نے کہا تھا وَكُنتُ عَلَيۡہِمۡ شَہِيدً۬ا مَّا دُمۡتُ فِيہِمۡۖ ... أَنتَ ٱلۡعَزِيزُ ٱلۡحَكِيمُ جب تک میں ان میں موجود تھا ان کی نگرانی کرتا رہا لیکن جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو تو ہی ان کا نگہبان ہے اور تو ہر چیز پر نگہبان ہے۔ اگر تُو اُن کو عذاب کرے تو وہ بندے تیرے ہیں۔اور اگر انکو معاف کرے تو تُو ہی ہے زبردست حکمت والا۔ محمد بن یوسف نے بیان کیا کہ ابوعبداللہ سے روایت ہے اور ان سے قبیصہ نے بیان کیا کہ یہ وہ مرتدین ہیں جنہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں کفر اختیار کیا تھا اور جن سے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جنگ کی تھی۔ عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کا آسمان سے اترناحدیث نمبر ۳۴۴۸ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، وہ زمانہ قریب ہے کہ عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام تمہارے درمیان ایک عادل حاکم کی حیثیت سے نازل ہوں گے۔ وہ صلیب کو توڑ دیں گے، سور کو مار ڈالیں گے اور جزیہ موقوف کر دیں گے۔ اس وقت مال کی اتنی کثرت ہو جائے گی کہ کوئی اسے لینے والا نہیں ملے گا۔ اس وقت کا ایک سجدہ دنيا وما فيه سے بڑھ کر ہو گا۔ پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو وَإِن مِّنۡ أَهۡلِ ٱلۡكِتَـٰبِ إِلَّا لَيُؤۡمِنَنَّ بِهِۦ قَبۡلَ مَوۡتِهِۦۖوَيَوۡمَ ٱلۡقِيَـٰمَةِ يَكُونُ عَلَيۡہِمۡ شَہِيدً۬ا اور کوئی اہل کتاب ایسا نہیں ہو گا جو عیسیٰ کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہوں گے۔ (۴:۱۵۹) حدیث نمبر ۳۴۴۹ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارا اس وقت کیا حال ہو گا جب عیسیٰ ابن مریم تم میں اتریں گے تم نماز پڑھ رہے ہو گے اور تمہارا امام تم ہی میں سے ہو گا۔ بنی اسرائیل کے واقعات کا بیانحدیث نمبر ۳۴۵۰ راوی: ربعی بن حراش عقبہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے کہا، کیا آپ وہ حدیث ہم سے نہیں بیان کریں گے جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی؟ انہوں نے کہا کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا تھا کہ جب دجال نکلے گا تو اس کے ساتھ آگ اور پانی دونوں ہوں گے لیکن لوگوں کو جو آگ دکھائی دے گی وہ ٹھنڈا پانی ہو گا اور لوگوں کو جو ٹھنڈا پانی دکھائی دے گا تو وہ جلانے والی آگ ہو گی۔ اس لیے تم میں سے جو کوئی اس کے زمانے میں ہو تو اسے اس میں گرنا چاہئے جو آگ ہو گی کیونکہ وہی انتہائی شیریں اور ٹھنڈا پانی ہو گا۔ حدیث نمبر ۳۴۵۱ راوی: حذیفہ رضی اللہ عنہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا تھا : پہلے زمانے میں ایک شخص کے پاس ملک الموت ان کی روح قبض کرنے آئے تو ان سے پوچھا گیا کوئی اپنی نیکی تمہیں یاد ہے؟ انہوں نے کہا کہ مجھے تو یاد نہیں پڑتی۔ ان سے دوبارہ کہا گیا کہ یاد کرو! انہوں نے کہا کہ مجھے کوئی اپنی نیکی یاد نہیں، سوا اس کے کہ میں دنیا میں لوگوں کے ساتھ خرید و فروخت کیا کرتا تھا اور لین دین کیا کرتا تھا، جو لوگ خوشحال ہوتے انہیں تو میں (اپنا قرض وصول کرتے وقت) مہلت دیا کرتا تھا اور تنگ ہاتھ والوں کو معاف کر دیا کرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اسی پر جنت میں داخل کیا۔ حدیث نمبر ۳۴۵۲ راوی: حذیفہ رضی اللہ عنہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا : ایک شخص کی موت کا جب وقت آ گیا اور وہ اپنی زندگی سے بالکل مایوس ہو گیا تو اس نے اپنے گھر والوں کو وصیت کی کہ جب میری موت ہو جائے تو میرے لیے بہت ساری لکڑیاں جمع کرنا اور ان میں آگ لگا دینا۔ جب آگ میرے گوشت کو جلا چکے اور آخری ہڈی کو بھی جلا دے تو ان جلی ہوئی ہڈیوں کو پیس ڈالنا اور کسی تند ہوا والے دن کا انتظار کرنا اور (ایسے کسی دن) میری راکھ کو دریا میں بہا دینا۔ اس کے گھر والوں نے ایسا ہی کیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کی راکھ کو جمع کیا اور اس سے پوچھا ایسا تو نے کیوں کروایا تھا؟ اس نے جواب دیا کہ تیرے ہی خوف سے اے اﷲ! اللہ تعالیٰ نے اسی وجہ سے اس کی مغفرت فرما دی۔ عقبہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے آپ کو یہ فرماتے سنا تھا کہ یہ شخص کفن چور تھا۔ حدیث نمبر ۳۴۵۳،۵۴ راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا اور ابن عباس رضی اللہ عنہما جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نزع کی حالت طاری ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی چادر چہرہ مبارک پر باربار ڈال لیتے پھر جب شدت بڑھتی تو اسے ہٹا دیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی حالت میں فرمایا تھا، اللہ کی لعنت ہو یہود و نصاریٰ پر کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس امت کو ان کے کئے سے ڈرانا چاہتے تھے۔ حدیث نمبر ۳۴۵۵ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بنی اسرائیل کے انبیاء ان کی سیاسی رہنمائی بھی کیا کرتے تھے، جب بھی ان کا کوئی نبی ہلاک ہو جاتا تو دوسرے ان کی جگہ آ موجود ہوتے، لیکن یاد رکھو میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ ہاں میرے نائب ہوں گے اور بہت ہوں گے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ ان کے متعلق آپ کا ہمیں کیا حکم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے پہلے جس سے بیعت کر لو، بس اسی کی وفاداری پر قائم رہو اور ان کا جو حق ہے اس کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ ان سے قیامت کے دن ان کی رعایا کے بارے میں سوال کرے گا۔ حدیث نمبر ۳۴۵۶ راوی: ابوسعید رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم لوگ پہلی امتوں کے طریقوں کی قدم بقدم پیروی کرو گے یہاں تک کہ اگر وہ لوگ کسی ساہنہ کے سوراخ میں داخل ہوئے تو تم بھی اس میں داخل ہو گے۔ ہم نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ کی مراد پہلی امتوں سے یہود و نصاریٰ ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر کون ہو سکتا ہے؟ حدیث نمبر ۳۴۵۷ راوی: انس رضی اللہ عنہ نماز کے لیے اعلان کے طریقے پر بحث کرتے وقت صحابہ نے آگ اور ناقوس کا ذکر کیا، لیکن بعض نے کہا کہ یہ تو یہود و نصاریٰ کا طریقہ ہے۔ آخر بلال رضی اللہ عنہ کو حکم ہوا کہ اذان میں (کلمات) دو دو دفعہ کہیں اور تکبیر میں ایک ایک دفعہ۔ حدیث نمبر ۳۴۵۸ عائشہ رضی اللہ عنہا کوکھ پر ہاتھ رکھنے کو ناپسند کرتی تھیں اور فرماتی تھیں کہ اس طرح یہود کرتے ہیں۔ حدیث نمبر ۳۴۵۹ راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمہارا زمانہ پچھلی امتوں کے مقابلے میں ایسا ہے جیسے عصر سے مغرب تک کا وقت ہے، تمہاری مثال یہود و نصاریٰ کے ساتھ ایسی ہے جیسے کسی شخص نے کچھ مزدور لیے اور کہا کہ میرا کام آدھے دن تک کون ایک ایک قیراط کی اجرت پر کرے گا؟ یہود نے آدھے دن تک ایک ایک قیراط کی مزدوری پر کام کرنا طے کر لیا۔ پھر اس شخص نے کہا کہ آدھے دن سے عصر کی نماز تک میرا کام کون شخص ایک ایک قیراط کی مزدوری پر کرے گا۔ اب نصاریٰ ایک ایک قیراط کی مزدوری پر آدھے دن سے عصر کے وقت تک مزدوری کرنے پر تیار ہو گئے۔ پھر اس شخص نے کہا کہ عصر کی نماز سے سورج ڈوبنے تک دو دو قیراط پر کون شخص میرا کام کرے گا؟ تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ وہ تمہیں ہو جو دو دو قیراط کی مزدوری پر عصر سے سورج ڈوبنے تک کام کرو گے۔ تم آگاہ رہو کہ تمہاری مزدوری دگنی ہے۔ یہود و نصاریٰ اس فیصلہ پر غصہ ہو گئے اور کہنے لگے کہ کام تو ہم زیادہ کریں اور مزدوری ہمیں کو کم ملے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا کیا میں نے تمہیں تمہارا حق دینے میں کوئی کمی کی ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پھر یہ میرا فضل ہے، میں جسے چاہوں زیادہ دوں۔ حدیث نمبر ۳۴۶۰ راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے سنا انہوں نے کہا اللہ تعالیٰ فلاں کو تباہ کرے۔ انہیں کیا معلوم نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا یہود پر اللہ کی لعنت ہو، ان کے لیے چربی حرام ہوئی تو انہوں نے اسے پگھلا کر بیچنا شروع کر دیا۔ حدیث نمبر ۳۴۶۱ راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرا پیغام لوگوں کو پہنچاؤ! اگرچہ ایک ہی آیت ہو اور بنی اسرائیل کے واقعات تم بیان کر سکتے ہو، ان میں کوئی حرج نہیں اور جس نے مجھ پر قصداً جھوٹ باندھا تو اسے اپنے جہنم کے ٹھکانے کے لیے تیار رہنا چاہئے۔ حدیث نمبر ۳۴۶۲ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہود و نصاریٰ داڑھی وغیرہمیں خضاب نہیں لگاتے، تم لوگ اس کے خلاف طریقہ اختیار کرو یعنی خضاب لگایا کرو۔ حدیث نمبر ۳۴۶۳ راوی: جندب بن عبداللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پچھلے زمانے میں ایک شخص (کے ہاتھ میں) زخم ہو گیا تھا اور اسے اس سے بڑی تکلیف تھی، آخر اس نے چھری سے اپنا ہاتھ کاٹ لیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خون بہنے لگا اور اسی سے وہ مر گیا پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے بندے نے خود میرے پاس آنے میں جلدی کی اس لیے میں نے بھی جنت کو اس پر حرام کر دیا۔ بنی اسرائیل کے ایک کوڑھی اور ایک نابینا اور ایک گنجے کا بیانحدیث نمبر ۳۴۶۴ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بنی اسرائیل میں تین شخص تھے، ایک کوڑھی، دوسرا اندھا اور تیسرا گنجا، اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ ان کا امتحان لے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے پاس ایک فرشتہ بھیجا۔ فرشتہ پہلے کوڑھی کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں سب سے زیادہ کیا چیز پسند ہے؟ اس نے جواب دیا کہ اچھا رنگ اور اچھی چمڑی کیونکہ مجھ سے لوگ پرہیز کرتے ہیں۔ فرشتے نے اس پر اپنا ہاتھ پھیرا تو اس کی بیماری دور ہو گئی اور اس کا رنگ بھی خوبصورت ہو گیا اور چمڑی بھی اچھی ہو گئی۔ فرشتے نے پوچھا کس طرح کا مال تم زیادہ پسند کرو گے؟ اس نے کہا کہ اونٹ! یا اس نے گائے کہی، اسحاق بن عبداللہ کو اس سلسلے میں شک تھا کہ کوڑھی اور گنجے دونوں میں سے ایک نے اونٹ کی خواہش کی تھی اور دوسرے نے گائے کی۔ چنانچہ اسے حاملہ اونٹنی دی گئی اور کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں برکت دے گا، پھر فرشتہ گنجے کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں کیا چیز پسند ہے؟ اس نے کہا کہ عمدہ بال اور موجودہ عیب میرا ختم ہو جائے کیونکہ لوگ اس کی وجہ سے مجھ سے پرہیز کرتے ہیں۔ فرشتے نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس کا عیب جاتا رہا اور اس کے بجائے عمدہ بال آ گئے۔ فرشتے نے پوچھا، کس طرح کا مال پسند کرو گے؟ اس نے کہا کہ گائے! بیان کیا کہ فرشتے نے اسے حاملہ گائے دے دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ اس میں برکت دے گا۔ پھر اندھے کے پاس فرشتہ آیا اور کہا کہ تمہیں کیا چیز پسند ہے؟ اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ مجھے آنکھوں کی روشنی دیدے تاکہ میں لوگوں کو دیکھ سکوں۔ فرشتے نے ہاتھ پھیرا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی بینائی اسے واپس دے دی۔ پھر پوچھا کہ کس طرح کا مال تم پسند کرو گے؟ اس نے کہا کہ بکریاں! فرشتے نے اسے حاملہ بکری دے دی۔ پھر تینوں جانوروں کے بچے پیدا ہوئے، یہاں تک کہ کوڑھی کے اونٹوں سے اس کی وادی بھر گئی، گنجے کی گائے بیل سے اس کی وادی بھر گئی اور اندھے کی بکریوں سے اس کی وادی بھر گئی۔ پھر دوبارہ فرشتہ اپنی اسی پہلی شکل میں کوڑھی کے پاس آیا اور کہا کہ میں ایک نہایت مسکین و فقیر آدمی ہوں، سفر کا تمام سامان و اسباب ختم ہو چکا ہے اور اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی سے حاجت پوری ہونے کی امید نہیں، لیکن میں تم سے اسی ذات کا واسطہ دے کر جس نے تمہیں اچھا رنگ اور اچھا چمڑا اور مال عطا کیا، ایک اونٹ کا سوال کرتا ہوں جس سے سفر کو پورا کر سکوں۔ اس نے فرشتے سے کہا کہ میرے ذمہ حقوق اور بہت سے ہیں۔ فرشتہ نے کہا، غالباً میں تمہیں پہچانتا ہوں، کیا تمہیں کوڑھ کی بیماری نہیں تھی جس کی وجہ سے لوگ تم سے گھن کھاتے تھے۔ تم ایک فقیر اور قلاش تھے۔ پھر تمہیں اللہ تعالیٰ نے یہ چیزیں عطا کیں؟ اس نے کہا کہ یہ ساری دولت تو میرے باپ دادا سے چلی آ رہی ہے۔ فرشتے نے کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تمہیں اپنی پہلی حالت پر لوٹا دے۔ پھر فرشتہ گنجے کے پاس اپنی اسی پہلی صورت میں آیا اور اس سے بھی وہی درخواست کی اور اس نے بھی وہی کوڑھی والا جواب دیا۔ فرشتے نے کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی پہلی حالت پر لوٹا دے۔ اس کے بعد فرشتہ اندھے کے پاس آیا، اپنی اسی پہلی صورت میں اور کہا کہ میں ایک مسکین آدمی ہوں، سفر کے تمام سامان ختم ہو چکے ہیں اور سوا اللہ تعالیٰ کے کسی سے حاجت پوری ہونے کی توقع نہیں۔ میں تم سے اس ذات کا واسطہ دے کر جس نے تمہیں تمہاری بینائی واپس دی ہے، ایک بکری مانگتا ہوں جس سے اپنے سفر کی ضروریات پوری کر سکوں۔ اندھے نے جواب دیا کہ واقعی میں اندھا تھا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل سے بینائی عطا فرمائی اور واقعی میں فقیر و محتاج تھا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے مالدار بنایا۔ تم جتنی بکریاں چاہو لے سکتے ہو، اللہ کی قسم جب تم نے اللہ کا واسطہ دیا ہے تو جتنا بھی تمہارا جی چاہے لے جاؤ، میں تمہیں ہرگز نہیں روک سکتا۔ فرشتے نے کہا کہ تم اپنا مال اپنے پاس رکھو، یہ تو صرف امتحان تھا اور اللہ تعالیٰ تم سے راضی اور خوش ہے اور تمہارے دونوں ساتھیوں سے ناراض ہے۔ اصحاب کہف کا بیانسورۃ الکہف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : أَمۡ حَسِبۡتَ أَنَّ أَصۡحَـٰبَ ٱلۡكَهۡفِ وَٱلرَّقِيمِ كَانُواْ مِنۡ ءَايَـٰتِنَا عَجَبًا اے پیغمبر ! کیا تو سمجھا کہ کہف اور رقیم ہماری قدرت کی نشانیوں میں عجیب تھے (۱۸:۹) كَہفِ پہاڑ میں جو درہ ہو۔ (۱۸:۹) رَّقِيمِ کے معنی لکھی ہوئی کتاب۔ مرقوم کے معنی بھی لکھی ہوئی۔ (۱۸:۹) وَرَبَطۡنَا عَلَىٰ قُلُوبِهِمۡ ہم نے ان کے دلوں میں صبر ڈالا۔ شَطَطًا ظلم اور زیادتی۔(۱۸:۱۴) بِٱلۡوَصِيدِ ۚکے معنی لگن اور صحن، اس کی جمع وصائد اور وصد آتی ہے۔ وصيد دروازے کو بھی کہتے ہیں۔ (دہلیز) کو مؤصدة جو سورۃ ہمزہ میں ہے یعنی بند دروازہ لگی ہوئی عرب لوگ کہتے ہیں۔ آصد الباب اور أوصد الباب یعنی دروازہ بند کیا۔ (۱۸:۱۸) بَعَثۡنَـٰهُمۡ ہم نے ان کو زندہ کر دیا۔ أَزْكَى یعنی زیادہ سونے والا یا پاکیزہ خوش مزا یا سست۔ (۱۸:۱۹) فَضَرَبَ اللَّهُ عَلَى آذَانِهِمْ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو سلا دیا۔ مجاہد نے کہا تَّقۡرِضُہُمۡ یعنی چھوڑ دیتا ہے، کترا جاتا ہے۔ (۱۸:۱۷) رَجۡمَۢا بِٱلۡغَيۡبِ ۖیعنی بے دلیل محض گمان اٹکل پچو۔ (۱۸:۲۳) سورۃ الکہف میں ان جوانوں کا تفصیلی ذکر موجود ہے۔ حدیث نمبر ۳۴۶۵ راوی: ابن عمر رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : پچھلے زمانے میں (بنی اسرائیل میں سے) تین آدمی کہیں راستے میں جا رہے تھے کہ اچانک بارش نے انہیں آ لیا۔ وہ تینوں پہاڑ کے ایک کھوہ (غار) میں گھس گئے (جب وہ اندر چلے گئے) تو غار کا منہ بند ہو گیا۔ اب تینوں آپس میں یوں کہنے لگے کہ اللہ کی قسم ہمیں اس مصیبت سے اب تو صرف سچائی ہی نجات دلائے گی۔ بہتر یہ ہے کہ اب ہر شخص اپنے کسی ایسے عمل کو بیان کر کے دعا کرے جس کے بارے میں اسے یقین ہو کہ وہ خالص اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے لیے کیا تھا۔ چنانچہ ایک نے اس طرح دعا کی۔ اے اللہ! تجھ کو خوب معلوم ہے کہ میں نے ایک مزدور رکھا تھا جس نے ایک فرق (تین صاع) چاول کی مزدوری پر میرا کام کیا تھا لیکن وہ شخص (غصہ میں آ کر) چلا گیا اور اپنے چاول چھوڑ گیا۔ پھر میں نے اس ایک فرق چاول کو لیا اور اس کی کاشت کی۔ اس سے اتنا کچھ ہو گیا کہ میں نے پیداوار میں سے گائے بیل خرید لیے۔ اس کے بہت دن بعد وہی شخص مجھ سے اپنی مزدوری مانگنے آیا۔ میں نے کہا کہ یہ گائے بیل کھڑے ہیں ان کو لے جا۔ اس نے کہا کہ میرا تو صرف ایک فرق چاول تم پر ہونا چاہیے تھا۔ میں نے اس سے کہا یہ سب گائے بیل لے جا کیونکہ اسی ایک فرق کی آمدنی ہے۔ آخر وہ گائے بیل لے کر چلا گیا۔ پس اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ ایمانداری میں نے صرف تیرے ڈر سے کی تھی تو، تو غار کا منہ کھول دے۔ چنانچہ اسی وقت وہ پتھر کچھ ہٹ گیا۔ پھر دوسرے نے اس طرح دعا کی۔ اے اللہ! تجھے خوب معلوم ہے کہ میرے ماں باپ جب بوڑھے ہو گئے تو میں ان کی خدمت میں روزانہ رات میں اپنی بکریوں کا دودھ لا کر پلایا کرتا تھا۔ ایک دن اتفاق سے میں دیر سے آیا تو وہ سو چکے تھے۔ ادھر میرے بیوی اور بچے بھوک سے بلبلا رہے تھے لیکن میری عادت تھی کہ جب تک والدین کو دودھ نہ پلا لوں، بیوی بچوں کو نہیں دیتا تھا مجھے انہیں بیدار کرنا بھی پسند نہیں تھا اور چھوڑنا بھی پسند نہ تھا (کیونکہ یہی ان کا شام کا کھانا تھا اور اس کے نہ پینے کی وجہ سے وہ کمزور ہو جاتے) پس میں ان کا وہیں انتظار کرتا رہا یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ پس اگر تیرے علم میں بھی میں نے یہ کام تیرے خوف کی وجہ سے کیا تھا تو تو ہماری مشکل دور کر دے۔ اس وقت وہ پتھر کچھ اور ہٹ گیا اور اب آسمان نظر آنے لگا۔ پھر تیسرے شخص نے یوں دعا کی۔ اے اللہ! میری ایک چچا زاد بہن تھی جو مجھے سب سے زیادہ محبوب تھی۔ میں نے ایک بار اس سے صحبت کرنی چاہی، اس نے انکار کیا مگر اس شرط پر تیار ہوئی کہ میں اسے سو اشرفی لا کر دے دوں۔ میں نے یہ رقم حاصل کرنے کے لیے کوشش کی۔ آخر وہ مجھے مل گئی تو میں اس کے پاس آیا اور وہ رقم اس کے حوالے کر دی۔ اس نے مجھے اپنے نفس پر قدرت دے دی۔ جب میں اس کے دونوں پاؤں کے درمیان بیٹھ چکا تو اس نے کہا کہ اللہ سے ڈر اور مہر کو بغیر حق کے نہ توڑ۔ میں (یہ سنتے ہی) کھڑا ہو گیا اور سو اشرفی بھی واپس نہیں لی۔ پس اگر تیرے علم میں بھی میں نے یہ عمل تیرے خوف کی وجہ سے کیا تھا تو، تو ہماری مشکل آسان کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی مشکل دور کر دی اور وہ تینوں باہر نکل آئے۔ حدیث نمبر ۳۴۶۶ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک عورت اپنے بچے کو دودھ پلا رہی تھی کہ ایک سوار ادھر سے گزرا، وہ اس وقت بھی بچے کو دودھ پلا رہی تھی (سوار کی شان دیکھ کر) عورت نے دعا کی: اے اللہ! میرے بچے کو اس وقت تک موت نہ دینا جب تک کہ اس سوار جیسا نہ ہو جائے۔ اسی وقت (بقدرت الہٰی) بچہ بول پڑا۔ اے اللہ! مجھے اس جیسا نہ کرنا۔ اور پھر وہ دودھ پینے لگا۔ اس کے بعد ایک عورت کو ادھر سے لے جایا گیا، اسے لے جانے والے اسے گھسیٹ رہے تھے اور اس کا مذاق اڑا رہے تھے۔ ماں نے دعا کی: اے اللہ! میرے بچے کو اس عورت جیسا نہ کرنا، لیکن بچے نے کہا کہ اے اللہ! مجھے اسی جیسا بنا دینا پھر تو ماں نے پوچھا، ارے یہ کیا معاملہ ہے؟ اس بچے نے بتایا کہ سوار تو کافر و ظالم تھا اور عورت کے متعلق لوگ کہتے تھے کہ تو زنا کراتی ہے تو وہ جواب دیتی حسبي الله اللہ میرے لیے کافی ہے، وہ میری پاک دامنی جانتا ہے لوگ کہتے کہ تو چوری کرتی ہے تو وہ جواب دیتی حسبي الله اللہ میرے لیے کافی ہے اور وہ میری پاک دامنی جانتا ہے۔ حدیث نمبر ۳۴۶۷ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ایک کتا ایک کنویں کے چاروں طرف چکر کاٹ رہا تھا جیسے پیاس کی شدت سے اس کی جان نکل جانے والی ہو کہ بنی اسرائیل کی ایک زانیہ عورت نے اسے دیکھ لیا۔ اس عورت نے اپنا موزہ اتار کر کتے کو پانی پلایا اور اس کی مغفرت اسی عمل کی وجہ سے ہو گئی۔ حدیث نمبر ۳۴۶۸ راوی: حمید بن عبدالرحمٰن معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما ایک سال جب وہ حج کے لیے گئے ہوئے تھے تو منبرنبوی پر کھڑے ہو کر انہوں نے پیشانی کے بالوں کا ایک کچھا لیا جو ان کے چوکیدار کے ہاتھ میں تھا اور فرمایا: اے مدینہ والو! تمہارے علماء کدھر گئے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح (بال جوڑنے کی) ممانعت فرمائی تھی اور فرمایا تھا کہ بنی اسرائیل پر بربادی اس وقت آئی جب (شریعت کے خلاف) ان کی عورتوں نے اس طرح بال سنوارنے شروع کر دیئے تھے۔ حدیث نمبر ۳۴۶۹ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا گزشتہ امتوں میں محدث لوگ ہوا کرتے تھے اور اگر میری امت میں کوئی ایسا ہے تو وہ عمر بن خطاب ہیں۔ حدیث نمبر ۳۴۷۰ راوی: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جس نے ننانوے خون ناحق کئے تھے پھر وہ نادم ہو کرمسئلہ پوچھنے نکلا۔ وہ ایک درویش کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کیا اس گناہ سے توبہ قبول ہونے کی کوئی صورت ہے؟ درویش نے جواب دیا کہ نہیں۔ یہ سن کر اس نے اس درویش کو بھی قتل کر دیا اور سو خون پورے کر دئیے پھر وہ (دوسروں سے) پوچھنے لگا۔ آخر اس کو ایک درویش نے بتایا کہ فلاں بستی میں چلا جا وہ آدھے راستے بھی نہیں پہنچا تھا کہ اس کی موت واقع ہو گئی۔ مرتے مرتے اس نے اپنا سینہ اس بستی کی طرف جھکا دیا۔ آخر رحمت کے فرشتوں اور عذاب کے فرشتوں میں باہم جھگڑا ہوا۔کہ کون اسے لے جائےلیکن اللہ تعالیٰ نے اس نصرہ نامی بستی کو جہاں وہ توبہ کے لیے جا رہا تھا حکم دیا کہ اس کی نعش سے قریب ہو جائے اور دوسری بستی کو جہاں سے وہ نکلا تھا حکم دیا کہ اس کی نعش سے دور ہو جا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا کہ اب دونوں کا فاصلہ دیکھو اورجب ناپا تواس بستی کو جہاں وہ توبہ کے لیے جا رہا تھاایک بالشت نعش سے نزدیک پایا اس لیے وہ بخش دیا گیا۔ حدیث نمبر ۳۴۷۱ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز پڑھی پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا ایک شخص (بنی اسرائیل کا) اپنی گائے ہانکے لیے جا رہا تھا کہ وہ اس پر سوار ہو گیا اور پھر اسے مارا۔ اس گائے نے بقدرت الہیٰ کہا کہ ہم جانور سواری کے لیے نہیں پیدا کئے گئے۔ ہماری پیدائش تو کھیتی کے لیے ہوئی ہے۔ لوگوں نے کہا سبحان اللہ! گائے بات کرتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اس بات پر ایمان لاتا ہوں اور ابوبکر اور عمر بھی۔ حالانکہ یہ دونوں وہاں موجود بھی نہیں تھے۔ اسی طرح ایک شخص اپنی بکریاں چرا رہا تھا کہ ایک بھیڑیا آیا اور ریوڑ میں سے ایک بکری اٹھا کر لے جانے لگا۔ ریوڑ والا دوڑا اور اس نے بکری کو بھیڑئیے سے چھڑا لیا۔ اس پر بھیڑیا بقدرت الہیٰ بولا، آج تو تم نے مجھ سے اسے چھڑا لیا لیکن درندوں والے دن میں قرب قیامت اسے کون بچائے گا جس دن میرے سوا اور کوئی اس کا چرواہا نہ ہو گا؟ لوگوں نے کہا، سبحان اللہ! بھیڑیا باتیں کرتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تو اس بات پر ایمان لایا اور ابوبکر و عمر بھی حالانکہ وہ دونوں اس وقت وہاں موجود نہ تھے۔ حدیث نمبر ۳۴۷۲ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک شخص نے دوسرے شخص سے مکان خریدا اور مکان کے خریدار کو اس مکان میں ایک گھڑا ملا جس میں سونا تھا جس سے وہ مکان اس نے خریدا تھا اس سے اس نے کہا بھائی گھڑا لے جا۔ کیونکہ میں نے تم سے گھر خریدا ہے سونا نہیں خریدا تھا۔ لیکن پہلے مالک نے کہا کہ میں نے گھر کو ان تمام چیزوں سمیت تمہیں بیچ دیا تھا جو اس کے اندر موجود ہوں۔ یہ دونوں ایک تیسرے شخص کے پاس اپنا مقدمہ لے گئے۔ فیصلہ کرنے والے نے ان سے پوچھا کیا تمہارے کوئی اولاد ہے؟ اس پر ایک نے کہا کہ میرے ایک لڑکا ہے اور دوسرے نے کہا کہ میری ایک لڑکی ہے۔ فیصلہ کرنے والے نے ان سے کہا کہ لڑکے کا لڑکی سے نکاح کر دو اور سونا انہیں پر خرچ کر دو اور خیرات بھی کر دو۔ حدیث نمبر ۳۴۷۳ راوی: اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ طاعون ایک عذاب ہے جو پہلے بنی اسرائیل کے ایک گروہ پر بھیجا گیا تھا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ ایک گزشتہ امت پر بھیجا گیا تھا۔ اس لیے جب کسی جگہ کے متعلق تم سنو کہ وہاں طاعون پھیلا ہوا ہے تو وہاں نہ جاؤ۔ لیکن اگر کسی ایسی جگہ یہ وبا پھیل جائے جہاں تم پہلے سے موجود ہو تو وہاں سے مت نکلو۔ ابوالنضر نے کہا یعنی بھاگنے کے سوا اور کوئی غرض نہ ہو تو مت نکلو۔ حدیث نمبر ۳۴۷۴ راوی: ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے طاعون کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ ایک عذاب ہے، اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا ہے بھیجتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کو مؤمنوں کے لیے رحمت بنا دیا ہے۔ اگر کسی شخص کی بستی میں طاعون پھیل جائے اور وہ صبر کے ساتھ اللہ کی رحمت سے امید لگائے ہوئے وہیں ٹھہرا رہے کہ ہو گا وہی جو اللہ تعالیٰ نے قسمت میں لکھا ہے تو اسے شہید کے برابر ثواب ملے گا۔ حدیث نمبر ۳۴۷۵ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا مخزومیہ خاتون فاطمہ بنت اسودجس نے غزوہ فتح کے موقع پر چوری کر لی تھی، اس کے معاملہ نے قریش کو فکر میں ڈال دیا۔ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس معاملہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کون کرے! آخر یہ طے پایا کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت عزیز ہیں۔ ان کے سوا اور کوئی اس کی ہمت نہیں کر سکتا۔ چنانچہ اسامہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں کچھ کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اے اسامہ! کیا تو اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں مجھ سے سفارش کرتا ہے؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور خطبہ دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پچھلی بہت سی امتیں اس لیے ہلاک ہو گئیں کہ جب ان کا کوئی شریف آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور اگر کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے اور اللہ کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی چوری کرے تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں۔ حدیث نمبر ۳۴۷۶ راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ میں نے ایک صحابی عمرو بن العاص کو قرآن مجید کی ایک آیت پڑھتے سنا۔ وہی آیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے خلاف قرآت کے ساتھ میں سن چکا تھا، اس لیے میں انہیں ساتھ لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ واقعہ بیان کیا لیکن میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر اس کی وجہ سے ناراضی کے آثار دیکھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم دونوں اچھا پڑھتے ہو۔ آپس میں اختلاف نہ کیا کرو۔ تم سے پہلے لوگ اسی قسم کے جھگڑوں سے تباہ ہو گئے۔ حدیث نمبر ۳۴۷۷ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا میں گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت دیکھ رہا ہوں۔ آپ بنی اسرائیل کے ایک نبی کا واقعہ بیان کر رہے تھے کہ ان کی قوم نے انہیں مارا اور خون آلود کر دیا۔ لیکن وہ نبی خون صاف کرتے جاتے اور یہ دعا کرتے اللهم اغفر لقومي کہ اے اللہ! میری قوم کی مغفرت فرما۔ یہ لوگ جانتے نہیں ہیں۔ حدیث نمبر ۳۴۷۸ راوی: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گزشتہ امتوں میں ایک آدمی کو اللہ تعالیٰ نے خوب دولت دی تھی۔ جب اس کی موت کا وقت آیا تو اس نے اپنے بیٹوں سے پوچھا میں تمہارے حق میں کیسا باپ ثابت ہوا؟ بیٹوں نے کہا کہ آپ ہمارے بہترین باپ تھے۔ اس شخص نے کہا لیکن میں نے عمر بھر کوئی نیک کام نہیں کیا۔ اس لیے جب میں مر جاؤں تو مجھے جلا ڈالنا، پھر میری ہڈیوں کو پیس ڈالنا اور (راکھ کو) کسی سخت آندھی کے دن ہوا میں اڑا دینا۔ بیٹوں نے ایسا ہی کیا۔ لیکن اللہ پاک نے اسے جمع کیا اور پوچھا کہ تو نے ایسا کیوں کیا؟ اس شخص نے عرض کیا کہ پروردگار تیرے ہی خوف سے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے سایہ رحمت میں جگہ دی۔ حدیث نمبر ۳۴۷۹ راوی: حذیفہ رضی اللہ عنہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا تھا کہ ایک شخص کی موت کا وقت جب قریب ہوا اور وہ زندگی سے بالکل ناامید ہو گیا تو اپنے گھر والوں کو وصیت کی کہ جب میری موت ہو جائے تو پہلے میرے لیے بہت سی لکڑیاں جمع کرنا اور اس سے آگ جلانا۔ جب آگ میرے جسم کو خاکستر بنا چکے اور صرف ہڈیاں باقی رہ جائیں تو ہڈیوں کو پیس لینا اور کسی سخت گرمی کے دن میں یا (یوں فرمایا کہ) سخت ہوا کے دن مجھ کو ہوا میں اڑا دینا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے جمع کیا اور پوچھا کہ تو نے ایسا کیوں کیا تھا؟ اس نے کہا کہ تیرے ہی ڈر سے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے اس کو بخش دیا۔ حدیث نمبر ۳۴۸۰ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایک شخص لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا اور اپنے نوکروں کو اس نے یہ کہہ رکھا تھا کہ جب تم کسی کو مفلس پاؤ (جو میرا قرض دار ہو) تو اسے معاف کر دیا کرو۔ ممکن ہے اللہ تعالیٰ بھی ہمیں معاف فرما دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب وہ اللہ تعالیٰ سے ملا تو اللہ نے اسے بخش دیا۔ حدیث نمبر ۳۴۸۱ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایک شخص بہت گناہ کیا کرتا تھا جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو اپنے بیٹوں سے اس نے کہا کہ جب میں مر جاؤں تو مجھے جلا ڈالنا پھر میری ہڈیوں کو پیس کر ہوا میں اڑا دینا اللہ کی قسم! اگر میرے رب نے مجھے پکڑ لیا تو مجھے اتنا سخت عذاب کرے گا جو پہلے کسی کو بھی اس نے نہیں کیا ہو گا۔ جب وہ مر گیا تو (اس کی وصیت کے مطابق) اس کے ساتھ ایسا ہی کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم فرمایا کہ اگر ایک ذرہ بھی کہیں اس کے جسم کا تیرے پاس ہے تو اسے جمع کر کے لا۔ زمین حکم بجا لائی اور وہ بندہ اب (اپنے رب کے سامنے) کھڑا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے دریافت فرمایا: تو نے ایسا کیوں کیا؟ اس نے عرض کیا: اے رب! تیرے ڈر کی وجہ سے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے اس کی مغفرت کر دی۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے سوا دوسرے صحابہ نے اس حدیث میں لفظ خشيتك کے بدل مخافتك کہا ہے (دونوں لفظوں کا مطلب ایک ہی ہے)۔ حدیث نمبر ۳۴۸۲ راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بنی اسرائیل کیایک عورت کو ایک بلی کی وجہ سے عذاب دیا گیا تھا جسے اس نے قید کر رکھا تھا جس سے وہ بلی مر گئی تھی اور اس کی سزا میں وہ عورت دوزخ میں گئی۔ جب وہ عورت بلی کو باندھے ہوئے تھی تو اس نے اسے کھانے کے لیے کوئی چیز نہ دی، نہ پینے کے لیے اور نہ اس نے بلی کو چھوڑا ہی کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے ہی کھا لیتی۔ حدیث نمبر ۳۴۸۳ راوی: ابومسعود عقبہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لوگوں نے اگلے پیغمبروں کے کلام جو پائے ان میں یہ بھی ہے کہ جب تجھ میں حیاء نہ ہو تو پھر جو جی چاہے کر۔ حدیث نمبر ۳۴۸۴ راوی: ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگلے پیغمبروں کے کلام میں سے لوگوں نے جو پایا یہ بھی ہے کہ جب تجھ میں حیاء نہ ہو پھر جو جی چاہے کر۔ حدیث نمبر ۳۴۸۵ راوی: ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک شخص تکبر کی وجہ سے اپنا تہبند زمین سے گھسیٹتا ہوا جا رہا تھا کہ اسے زمین میں دھنسا دیا اور اب وہ قیامت تک یوں ہی زمین میں دھنستا چلا جائے گا۔ حدیث نمبر ۳۴۸۶ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہم (دنیا میں) تمام امتوں کے آخر میں آئے لیکن (قیامت کے دن) تمام امتوں سے آگے ہوں گے۔ صرف اتنا فرق ہے کہ انہیں پہلے کتاب دی گئی اور ہمیں بعد میں ملی اور یہی وہ (جمعہ کا) دن ہے جس کے بارے میں لوگوں نے اختلاف کیا۔ یہودیوں نے تو اسے اس کے دوسرے دن (ہفتہ کو) کر لیا اور نصاریٰ نے تیسرے دن (اتوار کو)۔ حدیث نمبر ۳۴۸۷ پس ہر مسلمان کو ہفتے میں ایک دن (یعنی جمعہ کے دن) تو اسے جسم اور سر کو دھو لینا لازم ہے۔ حدیث نمبر ۳۴۸۸ راوی: سعید بن مسیب آپ نے بیان کیا کہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے مدینہ کے اپنے آخری سفر میں ہمیں خطاب فرمایا اور (خطبہ کے دوران) آپ نے بالوں کا ایک گچھا نکالا اور فرمایا، میں سمجھتا ہوں کہ یہودیوں کے سوا اور کوئی اس طرح نہ کرتا ہو گا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بال سنوارنے کا نام الزور (فریب و جھوٹ) رکھا ہے۔ آپ کی مراد وصال في الشعر. سے تھی۔ یعنی بالوں میں جوڑ لگانے سے تھی (جیسے اکثر عورتیں مصنوعی بالوں میں جوڑ کیا کرتی ہیں) |
© Copy Rights:Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,Lahore, PakistanEnail: cmaj37@gmail.com |
Visits wef Nov 2024 |