صحیح بخاری شریف

ظلم اور مال غصب کرنےکا بیان

Ahadith 2440-2482

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


کتاب لوگوں پر ظلم کرنے اور مال غصب کرنے کے بیان میں

اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ ابراہیم میں فرمایا

وَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غَافِلًا ... وَأَفْئِدَتُهُمْ هَوَاءٌ

اور ظالموں کے کاموں سے اللہ تعالیٰ کو غافل نہ سمجھنا۔ اور اللہ تعالیٰ تو انہیں صرف ایک ایسے دن کے لیے مہلت دے رہا ہے

جس میں آنکھیں پتھرا جائیں گی۔ اور وہ سر اوپر کو اٹھائے بھاگے جا رہے ہوں گے۔

ان کی نگاہ خود ان کی طرف نہ لوٹے گی۔ اور دلوں کے چھکے چھوٹ جائیں گے کہ عقل بالکل نہیں رہے گی (۱۴:۴۲،۴۳)

مُقْنِعِ ‏‏‏‏ اور مُقْمح دونوں کے معنے ایک ہی ہیں۔ مجاہد نے فرمایا کہ مُهْطِعِينَ  کے معنے برابر نظر ڈالنے والے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مُهْطِعِينَ کے معنی جلدی بھاگنے والا،

اور اللہ تعالیٰ کا فرمان

‏‏‏‏‏‏وَأَنْذِرِ النَّاسَ يَوْمَ يَأْتِيهِمُ الْعَذَابُ ... إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ ذُو انْتِقَامٍ ‏‏‏‏

اے محمد! لوگوں کو اس دن سے ڈراؤ جس دن ان پر عذاب آ اترے گا، جو لوگ ظلم کر چکے ہیں۔ وہ کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار! (عذاب کو) کچھ دنوں کے لیے ہم سے اور مؤخر کر دے،

تو اب کی بار ہم تیرا حکم سن لیں گے اور تیرے انبیاء کی تابعداری کریں گے۔ جواب ملے گا کیا تم نے پہلے یہ قسم نہیں کھائی تھی کہ تم پر کبھی ذوال نہیں آئے گا؟

 اور تم ان قوموں کی بستیوں میں رہ چکے ہو جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا اور تم پر یہ بھی ظاہر ہو چکا تھا کہ ہم نے ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا۔ ہم نے تمہارے لیے مثالیں بھی بیان کر دی ہیں۔

انہوں نے برے مکر اختیار کیے اور اللہ کے یہاں ان کے یہ بدترین مکر لکھ لیے گئے۔ اگرچہ ان کے مکر ایسے تھے کہ ان سے پہاڑ بھی ہل جاتے (مگر وہ سب بیکار ثابت ہوئے)

پس اللہ کے متعلق ہرگز یہ خیال نہ کرنا کہ وہ اپنے انبیاء سے کئے ہوئے وعدوں کے خلاف کرے گا۔ بلاشبہ اللہ غالب اور بدلہ لینے والا ہے۔ (۱۴:۴۴،۴۷)

ظلموں کا بدلہ کس کس طور پر لیا جائے گا

حدیث نمبر ۲۴۴۰

راوی: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جب مؤمنوں کو دوزخ سے نجات مل جائے گی تو انہیں ایک پل پر جو جنت اور دوزخ کے درمیان ہو گا روک لیا جائے گا اور وہیں ان کے مظالم کا بدلہ دے دیا جائے گا۔ جو وہ دنیا میں باہم کرتے تھے۔ پھر جب پاک صاف ہو جائیں گے تو انہیں جنت میں داخلہ کی اجازت دی جائے گی۔ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، ان میں سے ہر شخص اپنے جنت کے گھر کو اپنے دنیا کے گھر سے بھی بہتر طور پر پہچانے گا۔

اللہ تعالیٰ کا سورۃ ہود میں یہ فرمانا کہ

أَلاَ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ

 سن لو ! ظالموں پر اللہ کی پھٹکار ہے (۱۱:۱۸)

حدیث نمبر ۲۴۴۱

راوی: صفوان بن محرزمازنی

میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ہاتھ میں ہاتھ دیئے جا رہا تھا۔ کہ ایک شخص سامنے آیا اور پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے (قیامت میں اللہ اور بندے کے درمیان ہونے والی) سرگوشی کے بارے میں کیا سنا ہے؟

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ مؤمن کو اپنے نزدیک بلا لے گا اور اس پر اپنا پردہ ڈال دے گا اور اسے چھپا لے گا۔ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا کیا تجھ کو فلاں گناہ یاد ہے؟ کیا فلاں گناہ تجھ کو یاد ہے؟ و

ہ مؤمن کہے گا ہاں، اے میرے پروردگار۔

آخر جب وہ اپنے گناہوں کا اقرار کر لے گا اور اسے یقین آ جائے گا کہ اب وہ ہلاک ہوا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے دنیا میں تیرے گناہوں پر پردہ ڈالا۔ اور آج بھی میں تیری مغفرت کرتا ہوں، چنانچہ اسے اس کی نیکیوں کی کتاب دے دی جائے گی،

لیکن کافر اور منافق کے متعلق ان پر گواہ (ملائکہ، انبیاء، اور تمام جن و انس سب) کہیں گے کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار پر جھوٹ باندھا تھا۔ خبردار ہو جاؤ! ظالموں پر اللہ کی پھٹکار ہو گی۔

کوئی مسلمان کسی مسلمان پر ظلم نہ کرے اور نہ کسی ظالم کو اس پر ظلم کرنے دے

حدیث نمبر ۲۴۴۲

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

- ا ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، پس اس پر ظلم نہ کرے اور نہ ظلم ہونے دے۔

- جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرے، اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت پوری کرے گا۔

- جو شخص کسی مسلمان کی ایک مصیبت کو دور کرے، اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی مصیبتوں میں سے ایک بڑی مصیبت کو دور فرمائے گا۔

-  اور جو شخص کسی مسلمان کے عیب کو چھپائے اللہ تعالیٰ قیامت میں اس کے عیب چھپائے گا۔

ہر حال میں مسلمان بھائی کی مدد کرنا چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم

حدیث نمبر ۲۴۴۳

راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اپنے بھائی کی مدد کرو وہ ظالم ہو یا مظلوم۔

حدیث نمبر ۲۴۴۴

راوی: انس رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔

صحابہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! ہم مظلوم کی تو مدد کر سکتے ہیں۔ لیکن ظالم کی مدد کس طرح کریں؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ظلم سے اس کا ہاتھ پکڑ لو (یہی اس کی مدد ہے)۔

مظلوم کی مدد کرنا واجب ہے

حدیث نمبر ۲۴۴۵

راوی: براء بن عازب رضی اللہ عنہ

 ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سات چیزوں کا حکم فرمایا تھا اور سات ہی چیزوں سے منع بھی فرمایا تھا (جن چیزوں کا حکم فرمایا تھا ان میں) انہوں نے مریض کی عیادت، جنازے کے پیچھے چلنے، چھینکنے والے کا جواب دینے، سلام کا جواب دینے، مظلوم کی مدد کرنے، دعوت کرنے والے (کی دعوت) قبول کرنے، اور قسم پوری کرنے کا ذکر کیا۔

حدیث نمبر ۲۴۴۶

راوی: ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک مؤمن دوسرے مؤمن کے ساتھ ایک عمارت کے حکم میں ہے کہ ایک کو دوسرے سے قوت پہنچتی ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں کے اندر کیا۔

ظالم سے بدلہ لینا

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا

لا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلا مَنْ ظُلِمَ وَكَانَ اللَّهُ سَمِيعًا عَلِيمًا

اللہ تعالیٰ بری بات کے اعلان کو پسند نہیں کرتا۔ سوا اس کے جس پر ظلم کیا گیا ہو، اور اللہ تعالیٰ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ (۴:۱۴۸)

اور اللہ تعالیٰ کا فرمان

وَالَّذِينَ إِذَا أَصَابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُونَ

اور وہ لوگ کہ جن پر ظلم ہوتا ہے تو وہ اس کا بدلہ لے لیتے ہیں۔ (۲۶:۳۹)

ابراہیم نے کہا کہ سلف ذلیل ہونا پسند نہیں کرتے تھے، لیکن جب انہیں (ظالم پر) قابو حاصل ہو جاتا تو اسے معاف کر دیا کرتے تھے۔

ظالم کو معاف کر دینا

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا

إِنْ تُبْدُوا خَيْرًا أَوْ تُخْفُوهُ أَوْ تَعْفُوا عَنْ سُوءٍ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوًّا قَدِيرًا

اگر تم کھلم کھلا طور پر کوئی نیکی کرو یا پوشیدہ طور پر یا کسی کے برے معاملہ پر معافی سے کام لو، تو اللہ تعالیٰ بہت زیادہ معاف کرنے والا اور بہت بڑی قدرت والا ہے۔ (۴:۱۴۹)

سورۃ شوریٰ میں فرمایا

وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا ... يَقُولُونَ هَلْ إِلَى مَرَدٍّ مِنْ سَبِيلٍ ‏‏‏‏

اور برائی کا بدلہ اسی جیسی برائی سے بھی ہو سکتا ہے، لیکن جو معاف کر دے اور درستگی معاملہ کو باقی رکھے تو اس کا اجر اللہ تعالیٰ ہی پر ہے۔

بیشک اللہ تعالیٰ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اور جس نے اپنے پر ظلم کئے جانے کے بعد اس کا (جائز) بدلہ لیا تو ان پر کوئی گناہ نہیں ہے۔

گناہ تو ان پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین پر ناحق فساد کرتے ہیں، یہی ہیں وہ لوگ جن کو درد ناک عذاب ہو گا۔

لیکن جس شخص نے (ظلم پر) صبر کیا اور (ظالم کو) معاف کیا تو یہ نہایت ہی بہادری کا کام ہے۔

اور اے پیغمبر! تو ظالموں کو دیکھے گا جب وہ عذاب دیکھ لیں گے تو کہیں گے اب کوئی دنیا میں لوٹ جانے کی بھی صورت ہے؟ (۲۶:۴۰،۴۴

ظلم ، قیامت کے دن اندھیرے ہوں گے

حدیث نمبر ۲۴۴۷

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ظلم قیامت کے دن اندھیرے ہوں گے۔

مظلوم کی بددعا سے بچنا اور ڈرتے رہنا

حدیث نمبر ۲۴۴۸

راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو جب (عامل بنا کر) یمن بھیجا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہدایت فرمائی کہ مظلوم کی بددعا سے ڈرتے رہنا کہ اس (دعا) کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا۔

اگر کسی شخص نے دوسرے پر کوئی ظلم کیا ہو اور اس سے معاف کرائے تو کیا اس ظلم کو بیان کرنا ضروری ہے

حدیث نمبر ۲۴۴۹

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر کسی شخص کا ظلم کسی دوسرے کی عزت پر ہو یا کسی طریقہ (سے ظلم کیا ہو) تو آج ہی، اس دن کے آنے سے پہلے معاف کرا لے جس دن نہ دینار ہوں گے، نہ درہم، بلکہ اگر اس کا کوئی نیک عمل ہو گا تو اس کے ظلم کے بدلے میں وہی لے لیا جائے گا اور اگر کوئی نیک عمل اس کے پاس نہیں ہو گا تو اس کے (مظلوم) ساتھی کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی۔

ابوعبدللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ اسماعیل بن ابی اویس نے کہا سعید مقبری کا نام مقبری اس لیے ہوا کہ قبرستان کے قریب انہوں نے قیام کیا تھا۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ سعید مقبری ہی بنی لیث کے غلام ہیں۔ پورا نام سعید بن ابی سعید ہے اور (ان کے والد) ابوسعید کا نام کیسان ہے۔

جب کسی ظلم کو معاف کر دیا تو پھر واپسی کا مطالبہ باقی نہیں رہتا

حدیث نمبر ۲۴۵۰

عائشہ رضی اللہ عنہا نے  قرآن مجید کی آیت وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا "اگر کوئی عورت اپنے شوہر کی طرف سے نفرت یا اس کے منہ پھیرنے کا خوف رکھتی ہو“ (۴:۱۲۸) کے بارے میں فرمایا کہ کسی شخص کی بیوی ہے لیکن شوہر اس کے پاس زیادہ آتا جاتا نہیں بلکہ اسے جدا کرنا چاہتا ہے اس پر اس کی بیوی کہتی ہے کہ میں اپنا حق تمہیں معاف کرتی ہوں۔ اسی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔

اگر کوئی شخص دوسرے کو اجازت دے یا اس کو معاف کر دے مگر یہ بیان نہ کرے کہ کتنے کی اجازت اور معافی دی ہے

حدیث نمبر ۲۴۵۱

راوی: سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دودھ یا پانی پینے کو پیش کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں طرف ایک لڑکا تھا اور بائیں طرف بڑی عمر والے تھے۔ لڑکے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم مجھے اس کی اجازت دو گے کہ ان لوگوں کو یہ (پیالہ) دے دوں؟

 لڑکے نے کہا، نہیں اللہ کی قسم! یا رسول اللہ! آپ کی طرف سے ملنے والے حصے کا ایثار میں کسی پر نہیں کر سکتا۔ راوی نے بیان کیا کہ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ پیالہ اسی لڑکے کو دے دیا۔

اس شخص کا گناہ جس نے کسی کی زمین ظلم سے چھین لی

حدیث نمبر ۲۴۵۲

راوی: سعید بن زید رضی اللہ عنہ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کسی کی زمین ظلم سے لے لی، اسے قیامت کے دن سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا۔

حدیث نمبر ۲۴۵۳

ابوسلمہ نے بیان کیا کہ ان کے اور بعض دوسرے لوگوں کے درمیان (زمین کا) جھگڑا تھا۔ اس کا ذکر انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کیا تو انہوں نے بتلایا، ابوسلمہ! زمین سے پرہیز کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر کسی شخص نے ایک بالشت بھر زمین بھی کسی دوسرے کی ظلم سے لے لی تو سات زمینوں کا طوق (قیامت کے دن) اس کے گردن میں ڈالا جائے گا۔

حدیث نمبر ۲۴۵۴

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس شخص نے ناحق کسی زمین کا تھوڑا سا حصہ بھی لے لیا، تو قیامت کے دن اسے سات زمینوں تک دھنسایا جائے گا۔

 ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ یہ حدیث عبداللہ بن مبارک کی اس کتاب میں نہیں ہے جو خراسان میں تھی۔ بلکہ اس میں تھی جسے انہوں نے بصرہ میں اپنے شاگردوں کو املا کرایا تھا۔

جب کوئی شخص کسی دوسرے کو کسی چیز کی اجازت دیدے تو وہ اسے استعمال کر سکتا ہے

حدیث نمبر ۲۴۵۵

جبلہ نے بیان کیا کہ ہم بعض اہل عراق کے ساتھ مدینہ میں مقیم تھے۔ وہاں ہمیں قحط میں مبتلا ہونا پڑا۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کھانے کے لیے ہمارے پاس کھجور بھجوایا کرتے تھے۔ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب ہماری طرف سے گزرتے تو فرماتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر کھاتے وقت) دو کھجور کو ایک ساتھ ملا کر کھانے سے منع فرمایا ہے مگر یہ کہ تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی سے اجازت لے لے۔

حدیث نمبر ۲۴۵۶

راوی: ابومسعود رضی اللہ عنہ

انصار میں ایک صحابی جنہیں ابوشعیب رضی اللہ عنہ کہا جاتا تھا، کا ایک قصائی غلام تھا۔ ابوشعیب رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ میرے لیے پانچ آدمیوں کا کھانا تیار کر دے، کیونکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چار دیگر اصحاب کے ساتھ دعوت دوں گا۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر بھوک کے آثار دیکھے تھے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو انہوں نے بتلایا۔

 ایک اور شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بن بلائے چلا گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صاحب خانہ سے فرمایا یہ آدمی بھی ہمارے ساتھ آ گیا ہے۔ کیا اس کے لیے تمہاری اجازت ہے؟ انہوں نے کہا جی ہاں اجازت ہے۔

اللہ تعالیٰ کا  سورۃ البقرہ میں   یہ فرمانا

وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ

اور وہ بڑا سخت جھگڑالو ہے (۲:۲۰۴)

حدیث نمبر ۲۴۵۷

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ تعالیٰ کے یہاں سب سے زیادہ ناپسند وہ آدمی ہے جو سخت جھگڑالو ہو۔

حدیث نمبر ۲۴۵۸

راوی: ام سلمہ رضی اللہ عنہا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حجرے کے دروازے کے سامنے جھگڑے کی آواز سنی اور جھگڑا کرنے والوں کے پاس تشریف لائے۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ میں بھی ایک انسان ہوں۔ اس لیے جب میرے یہاں کوئی جھگڑا لے کر آتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ (فریقین میں سے) ایک فریق کی بحث دوسرے فریق سے عمدہ ہو، میں سمجھتا ہوں کہ وہ سچا ہے۔ اور اس طرح میں اس کے حق میں فیصلہ کر دیتا ہوں، لیکن اگر میں اس کو (اس کے ظاہری بیان پر بھروسہ کر کے) کسی مسلمان کا حق دلا دوں تو دوزخ کا ایک ٹکڑا اس کو دلا رہا ہوں، وہ لے لے یا چھوڑ دے۔

اس شخص کا بیان کہ جب اس نے جھگڑا کیا تو بد زبانی پر اتر آیا

حدیث نمبر ۲۴۵۹

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چار خصلتیں ایسی ہیں کہ جس شخص میں بھی وہ ہوں گی، وہ منافق ہو گا۔ یا ان چار میں سے اگر ایک خصلت بھی اس میں ہے تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے۔ یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے۔

-  جب بولے تو جھوٹ بولے،

-  جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے،

- جب معاہدہ کرے تو بے وفائی کرے

- ، اور جب جھگڑے تو بد زبانی پر اتر آئے۔

مظلوم کو اگر ظالم کا مال مل جائے تو وہ اپنے مال کے موافق اس میں سے لے سکتا ہے

اور محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے کہا اپنا حق برابر لے سکتا ہے۔ پھر انہوں نے  سورۃ النحل کی  یہ آیت پڑھی،

وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ

اگر تم بدلہ لو تو اتنا ہی جتنا تمہیں ستایا گیا ہو۔(۱۶:۱۲۶)

حدیث نمبر ۲۴۶۰

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

عتبہ بن ربیعہ کی بیٹی ہند رضی اللہ عنہا حاضر خدمت ہوئیں اور عرض کیا، یا رسول اللہ! ابوسفیان (جو ان کے شوہر ہیں وہ) بخیل ہیں۔ تو کیا اس میں کوئی حرج ہے اگر میں ان کے مال میں سے لے کر اپنے بال بچوں کو کھلایا کروں؟

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم دستور کے مطابق ان کے مال سے لے کر کھلاؤ تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

حدیث نمبر ۲۴۶۱

راوی: عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ

ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا آپ ہمیں مختلف ملک والوں کے پاس بھیجتے ہیں اور (بعض دفعہ) ہمیں ایسے لوگوں کے پاس جانا پڑتا ہے کہ وہ ہماری ضیافت تک نہیں کرتے۔ آپ کی ایسے مواقع پر کیا ہدایت ہے؟

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا، اگر تمہارا قیام کسی قبیلے میں ہو اور تم سے ایسا برتاؤ کیا جائے جو کسی مہمان کے لیے مناسب ہے تو تم اسے قبول کر لو، لیکن اگر وہ نہ کریں تو تم خود مہمانی کا حق ان سے وصول کر لو۔

چوپالوں کے بارے میں

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ بنو ساعدہ کے چوپالوں میں بیٹھے تھے۔

حدیث نمبر ۲۴۶۲

راوی: عمر رضی اللہ عنہ

جب اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے وفات دے دی تو انصار بنو ساعدہ کے  سقيفة  چوپال میں جمع ہوئے۔ میں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ ہمیں بھی وہیں لے چلئے۔ چنانچہ ہم انصار کے یہاں سقیفہ بنو ساعدہ میں پہنچے۔

کوئی شخص اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار میں لکڑی گاڑنے سے نہ روکے

حدیث نمبر ۲۴۶۳

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کوئی شخص اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار میں کھونٹی گاڑنے سے نہ روکے۔

 پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے، یہ کیا بات ہے کہ میں تمہیں اس سے منہ پھیرنے والا پاتا ہوں۔ قسم اللہ! اس کھونٹی کو تمہارے کندھوں کے درمیان گاڑ دوں گا۔

راستے میں شراب کا بہا دینا درست ہے

حدیث نمبر ۲۴۶۴

راوی: انس رضی اللہ عنہ

میں ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے مکان میں لوگوں کو شراب پلا رہا تھا۔ ان دنوں کھجور ہی کی شراب پیا کرتے تھے۔ (پھر جونہی شراب کی حرمت پر آیت قرآنی اتری) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک منادی سے ندا کرائی کہ شراب حرام ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا (یہ سنتے ہی) ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ باہر لے جا کر اس شراب کو بہا دے۔ چنانچہ میں نے باہر نکل کر ساری شراب بہا دی۔

شراب مدینہ کی گلیوں میں بہنے لگی، تو بعض لوگوں نے کہا، یوں معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ اس حالت میں قتل کر دیئے گئے ہیں کہ شراب ان کے پیٹ میں موجود تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی

لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا

وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل صالح کئے، ان پر ان چیزوں کا کوئی گناہ نہیں ہے۔ جو پہلے کھا چکے ہیں ۔ (۵:۹۳)

گھروں کے صحن کا بیان اور ان میں بیٹھنا اور راستوں میں بیٹھنا

اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر کے صحن میں ایک مسجد بنائی، جس میں وہ نماز پڑھتے اور قرآن کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ مشرکوں کی عورتوں اور بچوں کی وہاں بھیڑ لگ جاتی اور سب بہت متعجب ہوتے۔ ان دنوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام مکہ میں تھا۔

حدیث نمبر ۲۴۶۵

راوی: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا راستوں میں بیٹھنے سے بچو۔

صحابہ نے عرض کیا کہ ہم تو وہاں بیٹھنے پر مجبور ہیں۔ وہی ہمارے بیٹھنے کی جگہ ہوتی ہے کہ جہاں ہم باتیں کرتے ہیں۔

 اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہاں بیٹھنے کی مجبوری ہی ہے تو راستے کا حق بھی ادا کرو۔

صحابہ نے پوچھا اور راستے کا حق کیا ہے؟

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، نگاہ نیچی رکھنا، کسی کو ایذاء دینے سے بچنا، سلام کا جواب دینا، اچھی باتوں کے لیے لوگوں کو حکم کرنا اور بری باتوں سے روکنا۔

راستوں میں کنواں بنانا جب کہ ان سے کسی کو تکلیف نہ ہو

حدیث نمبر ۲۴۶۶

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ایک شخص راستے میں سفر کر رہا تھا کہ اسے پیاس لگی۔ پھر اسے راستے میں ایک کنواں ملا اور وہ اس کے اندر اتر گیا اور پانی پیا۔ جب باہر آیا تو اس کی نظر ایک کتے پر پڑی جو ہانپ رہا تھا اور پیاس کی سختی سے کیچڑ چاٹ رہا تھا۔ اس شخص نے سوچا کہ اس وقت یہ کتا بھی پیاس کی اتنی ہی شدت میں مبتلا ہے جس میں میں تھا۔ چنانچہ وہ پھر کنویں میں اترا اور اپنے جوتے میں پانی بھر کر اس نے کتے کو پلایا۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا یہ عمل مقبول ہوا۔ اور اس کی مغفرت کر دی گئی۔

صحابہ نے پوچھا، یا رسول اللہ کیا جانوروں کے سلسلہ میں بھی ہمیں اجر ملتا ہے؟

تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، ہر جاندار مخلوق کے سلسلے میں اجر ملتا ہے۔

راستے میں سے تکلیف دینے والی چیز کو ہٹا دینا

اونچے اور پست بالاخانوں میں چھت وغیرہ پر رہنا جائز ہے نیز جھروکے اور روشندان بنانا

حدیث نمبر ۲۴۶۷

راوی: اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے ایک بلند مکان پر چڑھے۔ پھر فرمایا، کیا تم لوگ بھی دیکھ رہے ہو جو میں دیکھ رہا ہوں کہ (عنقریب) تمہارے گھروں میں فتنے اس طرح برس رہے ہوں گے جیسے بارش برستی ہے۔

حدیث نمبر ۲۴۶۸

راوی: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما

میں ہمیشہ اس بات کا آروز مند رہتا تھا کہ عمر رضی اللہ عنہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دو بیویوں کے نام پوچھوں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے (سورۃ التحریم میں) فرمایا ہے

إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا

اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کرو (تو بہتر ہے) کہ تمہارے دل بگڑ گئے ہیں۔ (۶۶:۴)

پھر میں ان کے ساتھ حج کو گیا۔ عمر رضی اللہ عنہ راستے سے قضائے حاجت کے لیے ہٹے تو میں بھی ان کے ساتھ (پانی کا ایک) چھاگل لے کر گیا۔ پھر وہ قضائے حاجت کے لیے چلے گئے۔ اور جب واپس آئے تو میں نے ان کے دونوں ہاتھوں پر چھاگل سے پانی ڈالا۔ اور انہوں نے وضو کیا، پھر میں نے پوچھا، یا امیرالمؤمنین! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں وہ دو خواتین کون سی ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ  ”تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کرو“

انہوں نے فرمایا، ابن عباس! تم پر حیرت ہے۔ وہ تو عائشہ اور حفصہ (رضی اللہ عنہا) ہیں۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ میری طرف متوجہ ہو کر پورا واقعہ بیان کرنے لگے۔

آپ نے بتلایا کہ بنوامیہ بن زید کے قبیلے میں جو مدینہ سے ملا ہوا تھا۔ میں اپنے ایک انصاری پڑوسی کے ساتھ رہتا تھا۔ ہم دونوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری کی باری مقرر کر رکھی تھی۔ ایک دن وہ حاضر ہوتے اور ایک دن میں۔ جب میں حاضری دیتا تو اس دن کی تمام خبریں وغیرہ لاتا۔ (اور ان کو سناتا) اور جب وہ حاضر ہوتے تو وہ بھی اسی طرح کرتے۔ ہم قریش کے لوگ (مکہ میں) اپنی عورتوں پر غالب رہا کرتے تھے۔ لیکن جب ہم (ہجرت کر کے) انصار کے یہاں آئے تو انہیں دیکھا کہ ان کی عورتیں خود ان پر غالب تھیں۔ ہماری عورتوں نے بھی ان کا طریقہ اختیار کرنا شروع کر دیا۔ میں نے ایک دن اپنی بیوی کو ڈانٹا تو انہوں نے بھی اس کا جواب دیا۔ ان کا یہ جواب مجھے ناگوار معلوم ہوا۔ لیکن انہوں نے کہا کہ میں اگر جواب دیتی ہوں تو تمہیں ناگواری کیوں ہوتی ہے۔ قسم اللہ کی! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج تک آپ کو جواب دے دیتی ہیں اور بعض بیویاں تو آپ سے پورے دن اور پوری رات خفا رہتی ہیں۔

 اس بات سے میں بہت گھبرایا اور میں نے کہا کہ ان میں سے جس نے بھی ایسا کیا ہو گا وہ بہت بڑے نقصان اور خسارے میں ہے۔ اس کے بعد میں نے کپڑے پہنے اور حفصہ رضی اللہ عنہا (عمر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی اور ام المؤمنین) کے پاس پہنچا اور کہا اے حفصہ! کیا تم میں سے کوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پورے دن رات تک ناراض رہتی ہیں۔

 انہوں نے کہا کہ ہاں!

میں بول اٹھا کہ پھر تو وہ تباہی اور نقصان میں رہیں۔ کیا تمہیں اس سے امن ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خفگی کی وجہ سے (تم پر) غصہ ہو جائے اور تم ہلاک ہو جاؤ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ چیزوں کا مطالبہ ہرگز نہ کیا کرو، نہ کسی معاملہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بات کا جواب دو اور نہ آپ پر خفگی کا اظہار ہونے دو، البتہ جس چیز کی تمہیں ضرورت ہو، وہ مجھ سے مانگ لیا کرو، کسی خود فریبی میں مبتلا نہ رہنا، تمہاری یہ پڑوسن تم سے زیادہ جمیل اور نظیف ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ پیاری بھی ہیں۔ آپ کی مراد عائشہ رضی اللہ عنہا سے تھی۔

 عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، ان دنوں یہ چرچا ہو رہا تھا کہ غسان کے فوجی ہم سے لڑنے کے لیے گھوڑوں کو سم لگا رہے ہیں۔ میرے پڑوسی ایک دن اپنی باری پر مدینہ گئے ہوئے تھے۔ پھر عشاء کے وقت واپس لوٹے۔ آ کر میرا دروازہ انہوں نے بڑی زور سے کھٹکھٹایا، اور کہا کیا آپ سو گئے ہیں؟ میں بہت گھبرایا ہوا باہر آیا انہوں نے کہا کہ ایک بہت بڑا حادثہ پیش آ گیا ہے۔

 میں نے پوچھا کیا ہوا؟

کیا غسان کا لشکر آ گیا؟

انہوں نے کہا بلکہ اس سے بھی بڑا اور سنگین حادثہ، وہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی۔

یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، حفصہ تو تباہ و برباد ہو گئی۔ مجھے تو پہلے ہی کھٹکا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو جائے

(عمر رضی اللہ عنہ نے کہا) پھر میں نے کپڑے پہنے۔ صبح کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھی (نماز پڑھتے ہی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بالا خانہ میں تشریف لے گئے اور وہیں تنہائی اختیار کر لی۔

میں حفصہ کے یہاں گیا، دیکھا تو وہ رو رہی تھیں،

 میں نے کہا، رو کیوں رہی ہو؟

کیا پہلے ہی میں نے تمہیں نہیں کہہ دیا تھا؟

 کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سب کو طلاق دے دی ہے؟

انہوں نے کہا کہ مجھے کچھ معلوم نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بالاخانہ میں تشریف رکھتے ہیں۔

پھر میں باہر نکلا اور منبر کے پاس آیا۔ وہاں کچھ لوگ موجود تھے اور بعض رو بھی رہے تھے۔ تھوڑی دیر تو میں ان کے ساتھ بیٹھا رہا۔ لیکن مجھ پر رنج کا غلبہ ہوا، اور میں بالاخانے کے پاس پہنچا، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتے تھے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک سیاہ غلام سے کہا، (کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہو) کہ عمر اجازت چاہتا ہے۔

 وہ غلام اندر گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کر کے واپس آیا اور کہا کہ میں نے آپ کی بات پہنچا دی تھی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے، چنانچہ میں واپس آ کر انہیں لوگوں کے ساتھ بیٹھ گیا جو منبر کے پاس موجود تھے۔

پھر مجھ پر رنج غالب آیا اور میں دوبارہ آیا۔ لیکن اس دفعہ بھی وہی ہوا۔

پھر آ کر انہیں لوگوں میں بیٹھ گیا جو منبر کے پاس تھے۔ لیکن اس مرتبہ پھر مجھ سے نہیں رہا گیا اور میں نے غلام سے آ کر کہا، کہ عمر کے لیے اجازت چاہو۔ لیکن بات جوں کی توں رہی۔

 جب میں واپس ہو رہا تھا کہ غلام نے مجھ کو پکارا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اجازت دے دی ہے۔

میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کی چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ جس پر کوئی بستر بھی نہیں تھا۔ اس لیے چٹائی کے ابھرے ہوئے حصوں کا نشان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں پڑ گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ایک ایسے تکیے پر ٹیک لگائے ہوئے تھے جس کے اندر کھجور کی چھال بھری گئی تھی۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا اور کھڑے ہی کھڑے عرض کی، کہ کیا آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے؟

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نگاہ میری طرف کر کے فرمایا کہ نہیں۔

میں نے آپ کے غم کو ہلکا کرنے کی کوشش کی اور کہنے لگا .... اب بھی میں کھڑا ہی تھا .... یا رسول اللہ! آپ جانتے ہی ہیں کہ ہم قریش کے لوگ اپنی بیویوں پر غالب رہتے تھے، لیکن جب ہم ایک ایسی قوم میں آ گئے جن کی عورتیں ان پر غالب تھیں، پھر عمر رضی اللہ عنہ نے تفصیل ذکر کی۔

 اس بات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیئے۔

 پھر میں نے کہا میں حفصہ کے یہاں بھی گیا تھا اور اس سے کہہ آیا تھا کہ کہیں کسی خود فریبی میں نہ مبتلا رہنا۔ یہ تمہاری پڑوسن تم سے زیادہ خوبصورت اور پاک ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ محبوب بھی ہیں۔ آپ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ اس بات پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ مسکرا دیئے۔

 جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسکراتے دیکھا، تو (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس) بیٹھ گیا۔ اور آپ کے گھر میں چاروں طرف دیکھنے لگا۔ بخدا! سوائے تین کھالوں کے اور کوئی چیز وہاں نظر نہ آئی۔ میں نے کہا۔ یا رسول اللہ! آپ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیے کہ وہ آپ کی امت کو کشادگی عطا فرما دے۔ فارس اور روم کے لوگ تو پوری فراخی کے ساتھ رہتے ہیں۔ دنیا انہیں خوب ملی ہوئی ہے۔ حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت بھی نہیں کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹیک لگائے ہوئے تھے۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے خطاب کے بیٹے! کیا تمہیں ابھی کچھ شبہ ہے؟

(تو دنیا کی دولت کو اچھی سمجھتا ہے) یہ تو ایسے لوگ ہیں کہ ان کے اچھے اعمال (جو وہ معاملات کی حد تک کرتے ہیں ان کی جزا) اسی دنیا میں ان کو دے دی گئی ہے۔

(یہ سن کر) میں بول اٹھا۔ یا رسول اللہ! میرے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کیجئے۔

 تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی ازواج سے) اس بات پر علیحدگی اختیار کر لی تھی کہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے حفصہ رضی اللہ عنہ نے پوشیدہ بات کہہ دی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انتہائی خفگی کی وجہ سے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی تھی، فرمایا تھا کہ میں اب ان کے پاس ایک مہینے تک نہیں جاؤں گا۔ اور یہی موقعہ ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو متنبہ کیا تھا۔

پھر جب انتیس دن گزر گئے تو آپ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے اور انہیں کے یہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداء کی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ آپ نے تو عہد کیا تھا کہ ہمارے یہاں ایک مہینے تک نہیں تشریف لائیں گے۔ اور آج ابھی انتیسویں کی صبح ہے۔ میں تو دن گن رہی تھی۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، یہ مہینہ انتیس دن کا ہے اور وہ مہینہ انتیس ہی دن کا تھا۔

عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر وہ آیت نازل ہوئی جس میں (ازواج النبی کو) اختیار دیا گیا تھا۔ اس کی بھی ابتداء آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ ہی سے کی اور فرمایا کہ میں تم سے ایک بات کہتا ہوں، اور یہ ضروری نہیں کہ جواب فوراً دو، بلکہ اپنے والدین سے بھی مشورہ کر لو۔

عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ آپ کو یہ معلوم تھا کہ میرے ماں باپ کبھی آپ سے جدائی کا مشورہ نہیں دے سکتے۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا ... فَإِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا

 اے نبی! کہہ دے اپنی عورتوں کو، اگر تم ہو چاہتیاں دنیا کا جینا اور یہاں کی رونق،تو آؤ کچھ فائدہ دوں تم کو اور رخصت کروں بھلی طرح سے۔

اور اگر تم ہو چاہتیاں اﷲ کو اور اس کے رسول کو اور پچھلے (آخرت کے) گھر کو،تو اﷲ نے رکھ چھوڑا ہے اُن کو جو تم میں نیکی پر ہیں نیگ (اجر) بڑا۔ (۳۳:۲۸،۲۹)

میں نے عرض کیا کیا اب اس معاملے میں بھی میں اپنے والدین سے مشورہ کرنے جاؤں گی! اس میں تو کسی شبہ کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ کہ میں اللہ اور اس کے رسول اور دار آخرت کو پسند کرتی ہوں۔

 اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دوسری بیویوں کو بھی اختیار دیا اور انہوں نے بھی وہی جواب دیا جو عائشہ رضی اللہ عنہا نے دیا تھا۔

حدیث نمبر ۲۴۶۹

راوی: انس رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج کے پاس ایک مہینہ تک نہ جانے کی قسم کھائی تھی، اور (ایلاء کے واقعہ سے پہلے ۵ھ میں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک میں موچ آ گئی تھی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بالا خانہ میں قیام پذیر ہوئے تھے۔

(ایلاء کے موقع پر) عمر رضی اللہ عنہ آئے اور عرض کیا، یا رسول اللہ! کیا آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے؟

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں۔ البتہ ایک مہینے کے لیے ان کے پاس نہ جانے کی قسم کھا لی ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتیس دن تک بیویوں کے پاس نہیں گئے (اور انتیس تاریخ کو ہی چاند ہو گیا تھا) اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بالاخانے سے اترے اور بیویوں کے پاس گئے۔

مسجد کے دروازے پر جو پتھر بچھے ہوتے ہیں وہاں یا دروازے پر اونٹ باندھ دینا

حدیث نمبر ۲۴۷۰

راوی: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف رکھتے تھے۔ اس لیے میں بھی مسجد کے اندر چلا گیا۔ البتہ اونٹ بلاط کے ایک کنارے پر باندھ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ کا اونٹ حاضر ہے۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور اونٹ کے چاروں طرف ٹہلنے لگے۔ پھر فرمایا کہ قیمت بھی لے اور اونٹ بھی لے جا۔

کسی قوم کے کوڑے کے پاس ٹھہرنا اور وہاں پیشاب کرنا

حدیث نمبر ۲۴۷۱

راوی: حذیفہ رضی اللہ عنہ

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، یا یہ کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک قوم کی کوڑی پر تشریف لائے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔

اس کا ثواب جس نے شاخ یا کوئی اور تکلیف دینے والی چیز راستے سے ہٹائی

حدیث نمبر ۲۴۷۲

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ایک شخص راستے پر چل رہا تھا کہ اس نے وہاں کانٹے دار ڈالی دیکھی۔ اس نے اسے اٹھا لیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کا یہ عمل قبول کیا اور اس کی مغفرت کر دی۔

اگر عام راستہ میں اختلاف ہو اور وہاں رہنے والے کچھ عمارت بنانا چاہیں تو سات ہاتھ زمین راستہ کے لیے چھوڑ دیں

حدیث نمبر ۲۴۷۳

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا تھا جب کہ راستے (کی زمین) کے بارے میں جھگڑا ہو تو سات ہاتھ راستہ چھوڑ دینا چاہئے۔

مالک کی اجازت کے بغیر اس کا کوئی مال اٹھا لینا

اور عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا، ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کی بیعت کی تھی کہ ہم لوٹ مار نہیں کیا کریں گے۔

حدیث نمبر ۲۴۷۴

راوی: عبداللہ بن یزید انصاری رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوٹ مار کرنے اور مثلہ کرنے سے منع فرمایا تھا۔

حدیث نمبر ۲۴۷۵

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،

-  زانی مؤمن رہتے ہوئے زنا نہیں کر سکتا۔

- شراب خوار مؤمن رہتے ہوئے شراب نہیں پی سکتا۔

- چور مؤمن رہتے ہوئے چوری نہیں کر سکتا۔

- اور کوئی شخص مؤمن رہتے ہوئے لوٹ اور غارت گری نہیں کر سکتا کہ لوگوں کی نظریں اس کی طرف اٹھی ہوئی ہوں اور وہ لوٹ رہا ہو،

سعید اور ابوسلمہ کی بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بحوالہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح روایت ہے۔ البتہ ان کی روایت میں لوٹ کا تذکرہ نہیں ہے۔

صلیب کا توڑنا اور خنزیر کا مارنا

حدیث نمبر ۲۴۷۶

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک ابن مریم کا نزول ایک عادل حکمران کی حیثیت سے تم میں نہ ہو جائے۔ وہ صلیب کو توڑ دیں گے، سؤروں کو قتل کر دیں گے اور جزیہ قبول نہیں کریں گے۔ (اس دور میں) مال و دولت کی اتنی کثرت ہو جائے گی کہ کوئی قبول نہیں کرے گا۔

کیا کوئی ایسا مٹکا توڑا جا سکتا ہے یا ایسی مشک پھاڑی جا سکتی ہے جس میں شراب موجود ہو ؟

اگر کسی شخص نے بت، صلیب یا ستار یا کوئی بھی اس طرح کی چیز جس کی لکڑی سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہو توڑ دی؟

قاضی شریح رحمہ اللہ کی عدالت میں ایک ستار کا مقدمہ لایا گیا، جسے توڑ دیا تھا، تو انہوں نے اس کا بدلہ نہیں دلوایا۔

حدیث نمبر ۲۴۷۷

راوی: سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبر کے موقع پر دیکھا کہ آگ جلائی جا رہی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ آگ کس لیے جلائی جا رہی ہے؟

صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ گدھے (کا گوشت پکانے) کے لیے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ برتن (جس میں گدھے کا گوشت ہو) توڑ دو اور گوشت پھینک دو۔

 اس پر صحابہ بولے ایسا کیوں نہ کر لیں کہ گوشت تو پھینک دیں اور برتن دھو لیں۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ برتن دھو لو۔

ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) کہتے ہیں ابن ابی اویس  الحمر الأنسية  کو الف اور نون کو نصب کے ساتھ کہا کرتے تھے۔

حدیث نمبر ۲۴۷۸

راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (فتح مکہ دن جب) مکہ میں داخل ہوئے تو خانہ کعبہ کے چاروں طرف تین سو ساٹھ بت تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان بتوں پر مارنے لگے اور فرمانے لگے کہ  جاء الحق وزهق الباطل‏  ”حق آ گیا اور باطل مٹ گیا“۔

حدیث نمبر ۲۴۷۹

راوی: عائشہ رضی اللہ عنہا

میں نے اپنے حجرے کے سائبان پر ایک پردہ لٹکا دیا جس میں تصویریں بنی ہوئی تھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (جب دیکھا تو) اسے اتار کر پھاڑ ڈالا۔

پھر میں نے اس پردے سے دو گدے بنا ڈالے۔ وہ دونوں گدے گھر میں رہتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان پر بیٹھا کرتے تھے۔

جو شخص اپنا مال بچانے کے لیے لڑے

حدیث نمبر ۲۴۸۰

راوی: عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کر دیا گیا وہ شہید ہے۔

جس کسی شخص نے کسی دوسرے کا پیالہ یا کوئی اور چیز توڑ دی تو کیا حکم ہے ؟

حدیث نمبر ۲۴۸۱

راوی: انس رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ازواج مطہرات میں سے کسی ایک کے یہاں تشریف رکھتے تھے۔ امہات المؤمنین میں سے ایک نے وہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خادم کے ہاتھ ایک پیالے میں کچھ کھانے کی چیز بھجوائی۔ انہوں نے ایک ہاتھ اس پیالے پر مارا، اور پیالہ (گر کر) ٹوٹ گیا۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیالے کو جوڑا اور جو کھانے کی چیز تھی اس میں دوبارہ رکھ کر صحابہ سے فرمایا کہ کھاؤ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیالہ لانے والے (خادم) کو روک لیا اور پیالہ بھی نہیں بھیجا۔ بلکہ جب (کھانے سے) سب فارغ ہو گئے تو دوسرا اچھا پیالہ بھجوا دیا اور جو ٹوٹ گیا تھا اسے نہیں بھجوایا۔

اگر کسی نے کسی کی دیوار گرا دی تو اسے ویسی ہی بنوانی ہو گی

حدیث نمبر ۲۴۸۲

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،

 بنی اسرائیل میں ایک صاحب تھے، جن کا نام جریج تھا۔ وہ نماز پڑھ رہے تھے کہ ان کی والدہ آئیں اور انہیں پکارا۔ انہوں نے جواب نہیں دیا۔ سوچتے رہے کہ جواب دوں یا نماز پڑھوں۔

پھر وہ دوبارہ آئیں اور (غصے میں) بددعا کر گئیں، اے اللہ! اسے موت نہ آئے جب تک کسی بدکار عورت کا منہ نہ دیکھ لے۔

جریج اپنے عبادت خانے میں رہتے تھے۔ ایک عورت نے (جو جریج کے عبادت خانے کے پاس اپنی مویشی چرایا کرتی تھی اور فاحشہ تھی) کہا کہ جریج کو فتنہ میں ڈالے بغیر نہ رہوں گی۔ چنانچہ وہ ان کے سامنے آئی اور گفتگو کرنی چاہی، لیکن انہوں نے منہ پھیر لیا۔ پھر وہ ایک چرواہے کے پاس گئی اور اپنے جسم کو اس کے قابو میں دے دیا۔ آخر لڑکا پیدا ہوا۔ اور اس عورت نے الزام لگایا کہ یہ جریج کا لڑکا ہے۔

قوم کے لوگ جریج کے یہاں آئے اور ان کا عبادت خانہ توڑ دیا۔ انہیں باہر نکالا اور گالیاں دیں۔

لیکن جریج نے وضو کیا اور نماز پڑھ کر اس لڑکے کے پاس آئے۔ انہوں نے اس سے پوچھا۔ بچے! تمہار باپ کون ہے؟

بچہ (اللہ کے حکم سے) بول پڑا کہ چرواہا!

جریج نے کہا کہ میرا گھر تو مٹی ہی سے بنے گا۔(قوم خوش ہو گئی اور) کہا کہ ہم آپ کے لیے سونے کا عبادت خانہ بنوا دیں۔



© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Enail: cmaj37@gmail.com

Visits wef Nov 2024

website counters