صحیح بخاری شریفمحرم کے روکے جانے اور شکار کا بدلہ دینے کا بیانAhadith 1806-1820 |
شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے
محرم کے روکے جانے اور شکار کا بدلہ دینے کے بیان میںاور اللہ تعالیٰ نے فرمایا فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ وَلا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ پس تم اگر روک دیئے جاؤ تو جو قربانی میسر ہو وہ مکہ بھیجو اور اپنے سر اس وقت تک نہ منڈاؤ (یعنی احرام نہ کھولو) جب تک قربانی کا جانور اپنے ٹھکانے (یعنی مکہ پہنچ کر ذبح نہ ہو جائے) (۲:۱۹۶) اور عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ نے کہا کہ جو چیز بھی روکے اس کا یہی حکم ہے۔ اگر عمرہ کرنے والے کو راستے میں روک دیا گیا تو ( وہ کیا کرے )حدیث نمبر ۱۸۰۶ راوی: نافع عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فساد کے زمانہ میں عمرہ کرنے کے لیے جب مکہ جانے لگے تو آپ نے فرمایا کہ اگر مجھے کعبہ شریف پہنچنے سے روک دیا گیا تو میں بھی وہی کام کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم لوگوں نے کیا تھا، چنانچہ آپ نے بھی صرف عمرہ کا احرام باندھا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حدیبیہ کے سال صرف عمرہ کا احرام باندھا تھا۔ حدیث نمبر ۱۸۰۷ راوی: سالم بن عبداللہ جن دنوں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما پر حجاج کی لشکر کشی ہو رہی تھی تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے لوگوں نے کہا (کیونکہ آپ مکہ جانا چاہتے تھے) کہ اگر آپ اس سال حج نہ کریں تو کوئی نقصان نہیں کیونکہ ڈر اس کا ہے کہ کہیں آپ کو بیت اللہ پہنچنے سے روک نہ دیا جائے۔ آپ بولے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئے تھے اور کفار قریش ہمارے بیت اللہ تک پہنچنے میں حائل ہو گئے تھے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قربانی نحر کی اور سر منڈا لیا، عبداللہ نے کہا کہ میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے بھی ان شاءاللہ عمرہ اپنے پر واجب قرار دے لیا ہے۔ میں ضرور جاؤں گا اور اگر مجھے بیت اللہ تک پہنچنے کا راستہ مل گیا تو طواف کروں گا، لیکن اگر مجھے روک دیا گیا تو میں بھی وہی کام کروں گا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا، میں اس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھا چنانچہ آپ نے ذو الحلیفہ سے عمرہ کا احرام باندھا پھر تھوڑی دور چل کر فرمایا کہ حج اور عمرہ تو ایک ہی ہیں، اب میں بھی تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے عمرہ کے ساتھ حج بھی اپنے اوپر واجب قرار دے لیا ہے، آپ نے حج اور عمرہ دونوں سے ایک ساتھ فارغ ہو کر ہی دسویں ذی الحجہ کو احرام کھولا اور قربانی کی۔ آپ فرماتے تھے کہ جب تک حاجی مکہ پہنچ کر ایک طواف زیارت نہ کر لے پورا احرام نہ کھولنا چاہئے۔ حدیث نمبر ۱۸۰۸ راوی: نافع عبداللہ رضی اللہ عنہ کے کسی بیٹے نے ان سے کہا تھا کاش آپ اس سال رک جاتے (تو اچھا ہوتا اسی اوپر والے واقعہ کی طرف اشارہ ہے)۔ حدیث نمبر ۱۸۰۹ راوی: ابن عباس رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب حدیبیہ کے سال مکہ جانے سے روک دیئے گئے تو آپ نے حدیبیہ ہی میں اپنا سر منڈوایا اور ازواج مطہرات کے پاس گئے اور قربانی کو نحر کیا، پھر آئندہ سال ایک دوسرا عمرہ کیا۔ حج سے روکے جانے کا بیانحدیث نمبر ۱۸۱۰ راوی: سالم ابن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے کیا تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کافی نہیں ہے کہ اگر کسی کو حج سے روک دیا جائے، ہو سکے تو وہ بیت اللہ کا طواف کر لے اور صفا اور مروہ کی سعی، پھر وہ ہر چیز سے حلال ہو جائے، یہاں تک کہ وہ دوسرے سال حج کر لے پھر قربانی کرے، اگر قربانی نہ ملے تو روزہ رکھے، رک جانے کے وقت سر منڈوانے سے پہلے قربانی کرناحدیث نمبر ۱۸۱۱ راوی: مسور رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (صلح حدیبیہ کے موقع پر) قربانی سر منڈوانے سے پہلے کی تھی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحاب کو بھی اسی کا حکم دیا تھا۔ حدیث نمبر ۱۸۱۲ راوی: نافع عبداللہ اور سالم نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے گفتگو کی، (کہ وہ اس سال مکہ نہ جائیں) تو انہوں نے فرمایا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عمرہ کا احرام باندھ کر گئے تھے اور کفار قریش نے ہمیں بیت اللہ سے روک دیا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قربانی کو نحر کیا اور سر منڈایا۔ جس نے کہا کہ روکے گئے شخص پر قضاء ضروری نہیںابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ قضاء اس صورت میں واجب ہوتی ہے جب کوئی حج میں اپنی بیوی سے جماع کر کے نیت حج کو توڑ ڈالے لیکن کوئی اور عذر پیش آ گیا یا اس کے علاوہ کوئی بات ہوئی تو وہ حلال ہوتا ہے، قضاء اس پر ضروری نہیں اور اگر ساتھ قربانی کا جانور تھا اور وہ محصر ہوا اور حرم میں اسے نہ بھیج سکا تو اسے نحر کر دے، (جہاں پر بھی قیام ہو) یہ اس صورت میں جب قربانی کا جانور (قربانی کی جگہ) حرم شریف میں بھیجنے کی اسے طاقت نہ ہو لیکن اگر اس کی طاقت ہے تو جب تک قربانی وہاں ذبح نہ ہو جائے احرام نہیں کھول سکتا۔ امام مالک نے کہا کہ (محصر) خواہ کہیں بھی ہو اپنی قربانی وہیں نحر کر دے اور سر منڈا لے۔ اس پر قضاء بھی لازم نہیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضوان اللہ علیہم نے حدیبیہ میں بغیر طواف اور بغیر قربانی کے بیت اللہ تک پہنچے ہوئے نحر کیا اور سر منڈایا اور وہ ہر چیز سے حلال ہو گئے، پھر کسی نے ذکر نہیں کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو بھی قضاء کا یا کسی بھی چیز کے دہرانے کا حکم دیا ہو اور حدیبیہ حد حرم سے باہر ہے۔ حدیث نمبر ۱۸۱۳ راوی: نافع فتنہ کے زمانہ میں جب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مکہ کے ارادے سے چلے تو فرمایا کہ اگر مجھے بیت اللہ تک پہنچے سے روک دیا گیا تو میں بھی وہی کام کروں گا جو (حدیبیہ کے سال) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا تھا۔ آپ نے عمرہ کا احرام باندھا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حدیبیہ کے سال عمرہ ہی کا احرام باندھا تھا۔ پھر آپ نے کچھ غور کر کے فرمایا کہ عمرہ اور حج تو ایک ہی ہے، اس کے بعد اپنے ساتھیوں سے بھی یہی فرمایا کہ یہ دونوں تو ایک ہی ہیں۔ میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ عمرہ کے ساتھ اب حج بھی اپنے لیے میں نے واجب قرار دیے لیا ہے پھر (مکہ پہنچ کر) آپ نے دونوں کے لیے ایک ہی طواف کیا۔ آپ کا خیال تھا کہ یہ کافی ہے اور آپ قربانی کا جانور بھی ساتھ لے گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان : فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ اگر تم میں کوئی بیمار ہو یا اس کے سر میں ( جوؤں کی ) کوئی تکلیف ہو تو اسے روزے یا صدقے یا قربانی کا فدیہ دینا چاہئے (۲:۱۹۶) یعنی اسے اختیار ہے اور اگر روزہ رکھنا چاہے تو تین دن روزہ رکھے یعنی اسے اختیار ہے اور اگر روزہ رکھنا چاہے تو تین دن روزہ رکھے۔ حدیث نمبر ۱۸۱۴ راوی: کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا، غالباً جوؤں سے تم کو تکلیف ہے، انہوں نے کہا کہ جی ہاں یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اپنا سر منڈا لے اور تین دن کے روزے رکھ لے یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلا دے یا ایک بکری ذبح کر۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ” یا صدقہ “ ( دیا جائے ) یہ صدقہ چھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہےحدیث نمبر ۱۸۱۵ راوی: کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ میں میرے پاس آ کر کھڑے ہوئے تو جوئیں میرے سر سے برابر گر رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ جوئیں تو تمہارے لیے تکلیف دہ ہیں۔ میں نے کہا جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر سر منڈا لے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف یہ لفظ فرمایا کہ منڈا لے۔ انہوں نے بیان کیا کہ یہ آیت میرے ہی بارے میں نازل ہوئی تھی کہ ”اگر تم میں کوئی مریض ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو“ (۲:۱۹۶) آخر آیت تک، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین دن کے روزے رکھ لے یا ایک فرق غلہ سے چھ مسکینوں کو کھانا دے یا جو میسر ہو اس کی قربانی کر دے۔ فدیہ میں ہر فقیر کو آدھا صاع غلہ دیناحدیث نمبر ۱۸۱۶ راوی: عبداللہ بن معقل میں کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، میں نے ان سے فدیہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ (قرآن شریف کی آیت) اگرچہ خاص میرے بارے میں نازل ہوئی تھی لیکن اس کا حکم تم سب کے لیے ہے۔ ہوا یہ کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا تو جوئیں سر سے میرے چہرے پر گر رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ دیکھ کر فرمایا) میں نہیں سمجھتا تھا کہ تمہیں اتنی زیادہ تکلیف ہو گی یا (آپ نے یوں فرمایا کہ) میں نہیں سمجھتا تھا کہ جہد (مشقت) تمہیں اس حد تک ہو گی، کیا تجھ میں بکری (بطور فدیہ) دینے کی طاقت ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تین دن کے روزے رکھ یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلا، ہر مسکین کو آدھا صاع کھلانا۔ قرآن مجید میں نسك سے مراد بکری ہےحدیث نمبر ۱۸۱۷ راوی: کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا تو جوئیں ان کے چہرے پر گر رہی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا ان جوؤں سے تمہیں تکلیف ہے؟ انہوں نے کہا کہ جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ اپنا سر منڈا لیں۔ وہ اس وقت حدیبیہ میں تھے۔ (صلح حدیبیہ کے سال) اور کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ حدیبیہ ہی میں رہ جائیں گے بلکہ سب کی خواہش یہ تھی کہ مکہ میں داخل ہوں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فدیہ کا حکم نازل فرمایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ چھ مسکینوں کو ایک فرق (یعنی تین صاع غلہ) تقسیم کر دیا جائے یا ایک بکری کی قربانی کرے یا تین دن کے روزے رکھے۔ حدیث نمبر ۱۸۱۸ کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا تو جوئیں ان کے چہرہ پر گر رہی تھی، پھر یہی حدیث بیان کی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ( سورۃ البقررہ میں ) کہ حج میں شہوت کی باتیں نہیں کرنی چاہئے (۲:۱۹۷)حدیث نمبر ۱۸۱۹ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے اس گھر (کعبہ) کا حج کیا اور اس میں نہ رفث یعنی شہوت کی بات منہ سے نکالی اور نہ کوئی گناہ کا کام کیا تو وہ اس دن کی طرح واپس ہو گا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ( سورۃ البقرہ میں ) کہ حج میں گناہ اور جھگڑا نہ کرنا چاہئے (۲:۱۹۷)حدیث نمبر ۱۸۲۰ راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اس گھر کا حج کیا اور نہ شہوت کی فحش باتیں کیں، نہ گناہ کیا تو وہ اس دن کی طرح واپس ہو گا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔ |
© Copy Rights:Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,Lahore, PakistanEnail: cmaj37@gmail.com |
Visits wef Nov 2024 |