صحیح بخاری شریف

ایمان کا بیان

Ahadith 8-58

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے


نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے

اور ایمان کا تعلق قول اور فعل ہر دو سے ہے اور وہ بڑھتا ہے اور گھٹتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

”تاکہ ان کے پہلے ایمان کے ساتھ ایمان میں اور زیادتی ہو۔“سورۃ الفتح: ۴

 ہم نے ان کو ہدایت میں اور زیادہ بڑھا دیا۔سورۃ الکہف: ۱۳

جو لوگ سیدھی راہ پر ہیں ان کو اللہ اور ہدایت دیتا ہے ۔سورۃ مریم: ۷۶

جو لوگ ہدایت پر ہیں اللہ نے اور زیادہ ہدایت دی اور ان کو پرہیزگاری عطا فرمائی ۔سورۃ محمد: ۱۷

 جو لوگ ایماندار ہیں ان کا ایمان اور زیادہ ہوا۔سورۃ المدثر: ۳۱

 اس سورۃ نے تم میں سے کس کا ایمان بڑھا دیا؟ فی الواقع جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کا ایمان اور زیادہ ہو گیا۔ سورۃ التوبہ۱۲۴

اور فرمایا :

 منافقوں نے مؤمنوں سے کہا کہ تمہاری بربادی کے لیے لوگ بکثرت جمع ہو رہے ہیں، ان کا خوف کرو۔ پس یہ بات سن کر ایمان والوں کا ایمان اور بڑھ گیا اور ان کے منہ سے یہی نکلا ۔ سورۃ آل عمران: ۱۷۳

حَسۡبُنَا ٱللَّهُ وَنِعۡمَ ٱلۡوَڪِيلُ

 اور فرمایا :

ان کا اور کچھ نہیں بڑھا، ہاں ایمان اور اطاعت کا شیوہ ضرور بڑھ گیا۔ سورۃ الاحزاب: ۲۲

 اور حدیث میں وارد ہوا:

 اللہ کی راہ میں محبت رکھنا اور اللہ ہی کے لیے کسی سے دشمنی کرنا ایمان میں داخل ہے۔ (رواہ ابوداؤد عن ابی امامہ)

 اور خلیفہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے عدی بن عدی کو لکھا تھا کہ ایمان کے اندر کتنے ہی فرائض، عقائد اور حدود ہیں اور مستحب و مسنون باتیں ہیں جو سب ایمان میں داخل ہیں۔ پس جو ان سب کو پورا کرے اس نے اپنا ایمان پورا کر لیا اور جو پورے طور پر ان کا لحاظ رکھے نہ ان کو پورا کرے اس نے اپنا ایمان پورا نہیں کیا۔ پس اگر میں زندہ رہا تو ان سب کی تفصیلی معلومات تم کو بتلاؤں گا تاکہ تم ان پر عمل کرو اور اگر میں مر ہی گیا تو مجھ کو تمہاری صحبت میں زندہ رہنے کی خواہش بھی نہیں۔

اور ابراہیم علیہ السلام کا قول قرآن مجید میں وارد ہوا ہے:

 لیکن میں چاہتا ہوں کہ میرے دل کو تسلی ہو جائے۔ سورۃ البقرۃ: ۲۶۰

 اور معاذ رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ ایک صحابی (اسود بن بلال نامی) سے کہا تھا کہ ہمارے پاس بیٹھو تاکہ ایک گھڑی ہم ایمان کی باتیں کر لیں۔

اور عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا تھا کہ یقین پورا ایمان ہے اور صبر آدھا ایمان ہے۔ (رواہ الطبرانی)

 اور عبداللہ بن عمر ؓ کا قول ہے :

بندہ تقویٰ کی اصل حقیقت یعنی کہنہ کو نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ جو بات دل میں کھٹکتی ہو اسے بالکل چھوڑ نہ دے۔

 اور مجاہد رحمہ اللہ نے آیت کریمہ شَرَعَ لَكُم مِّنَ ٱلدِّينِ مَا وَصَّىٰ بِهِۦ نُوحً۬ا  (۴۲:۱۳) کی تفسیر میں فرمایا :

اس نے تمہارے لیے دین کا وہی راستہ ٹھہرایا جو نوح علیہ السلام کے لیے ٹھہرایا تھا

اس کا مطلب یہ ہے کہ اے محمد! ہم نے تم کو اور نوح کو ایک ہی دین کے لیے وصیت کی ہے

 اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت کریمہ شِرۡعَةً۬ وَمِنۡهَاجً۬ا (۵:۴۸)کے متعلق فرمایا :

 اس سے سبیل سیدھا راستہ اور سنت (نیک طریقہ) مراد ہے۔

اس بات کا بیان کہ تمہاری دعائیں تمہارے ایمان کی علامت ہیں

اور سورۃ الفرقان کی آیت میں لفظ دُعَآؤُڪُمۡ‌ (۲۵:۷۷) کے بارے میں فرمایا :

ايمانکم اس سے تمہارا ایمان مراد ہے۔

حدیث نمبر ۸

راوی: عبداللہ بن عمر ؓ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم کی گئی ہے۔

- اول گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بیشک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں

- اور نماز قائم کرنا

- اور زکوٰۃ ادا کرنا

- اور حج کرنا

-  اور رمضان کے روزے رکھنا۔

ایمان کے کاموں کا بیان

اور اللہ پاک کے اس فرمان کی تشریح کہ نیکی یہی نہیں ہے کہ تم )نماز میں( اپنا منہ پورب یا پچھم کی طرف کر لو بلکہ اصلی نیکی تو اس انسان کی ہے جو اللہ )کی ذات و صفات( پر یقین رکھے اور قیامت کو برحق مانے اور فرشتوں کے وجود پر ایمان لائے اور آسمان سے نازل ہونے والی کتاب کو سچا تسلیم کرے۔ اور جس قدر نبی رسول دنیا میں تشریف لائے ان سب کو سچا تسلیم کرے۔ اور وہ شخص مال دیتا ہو اللہ کی محبت میں اپنے )حاجت مند( رشتہ داروں کو اور )نادار ( یتیموں کو اور دوسرے محتاج لوگوں کو اور )تنگ دست(مسافروں کو اور )لاچاری( میں سوال کرنے والوں کو اور )قیدی اور غلاموں کی( گردن چھڑانے میں اور نماز کی پابندی کرتا ہو اور زکوٰۃ ادا کرتا ہو اور اپنے وعدوں کو پورا کرنے والے جب وہ کسی امر کی بابت وعدہ کریں۔ اور وہ لوگ جو صبر و شکر کرنے والے ہیں تنگ دستی میں اور بیماری میں اور )معرکہ(جہاد میں یہی لوگ وہ ہیں جن کو سچا مؤمن کہا جا سکتا ہے اور یہی لوگ درحقیقت پرہیزگار ہیں۔

 یقیناً ایمان والے کامیاب ہو گئے۔ جو اپنی نمازوں میں خشوع خضوع کرنے والے ہیں اور جو لغو باتوں سے برکنار رہنے والے ہیں اور وہ جو زکوٰۃ سے پاکیزگی حاصل کرنے والے ہیں۔ اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں سوائے اپنی بیویوں اور لونڈیوں سے کیونکہ ان کے ساتھ صحبت کرنے میں ان پر کوئی الزام نہیں۔ ہاں جو ان کے علاوہ )زنا یا لواطت یا مشت زنی وغیرہ سے( شہوت رانی کریں ایسے لوگ حد سے نکلنے والے ہیں۔ اور جو لوگ اپنی امانت و عہد کا خیال رکھنے والے ہیں اور جو اپنی نمازوں کی کامل طور پر حفاظت کرتے ہیں یہی لوگ جنت الفردوس کی وراثت حاصل کر لیں گے پھر وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

حدیث نمبر۹

راوی: ابوہریرہ ؓ

جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

ایمان کی ساٹھ سے کچھ اوپر شاخیں ہیں۔ اور حیاء (شرم)بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔

مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دیگر مسلمان بچے رہیں (کوئی تکلیف نہ پائیں )

حدیث نمبر ۱۰

راوی: عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ  

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

- مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان بچے رہیں

- اور مہاجر وہ ہے جو ان کاموں کو چھوڑ دے جن سے اللہ نے منع فرمایا۔

کون سا اسلام افضل ہے ؟

راوی: ابوموسیٰ ؓ  

لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ! کون سا اسلام افضل ہے؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

وہ جس کے ماننے والے مسلمانوں کی زبان اور ہاتھ سے سارے مسلمان سلامتی میں رہیں۔

کھانا کھلانا ( بھوکے ناداروں کو ) بھی اسلام میں داخل ہے

حدیث نمبر ۱۲

راوی: عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ

ایک دن ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا اسلام بہتر ہے؟  فرمایا :

تم کھانا کھلاؤ، اور جس کو پہچانو اس کو بھی اور جس کو نہ پہچانو اس کو بھی، الغرض سب کو سلام کرو۔

ایمان میں داخل ہے کہ مسلمان جو اپنے لیے پسند کرے وہی چیز اپنے بھائی کے لیے پسند کرئے

حدیث نمبر ۱۳

 راوی: انس ؓ  

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

تم میں سے کوئی شخص ایماندار نہ ہو گا جب تک اپنے بھائی کے لیے وہ نہ چاہے جو اپنے نفس کے لیے چاہتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھنا بھی ایمان میں داخل ہے

حدیث نمبر ۱۴

راوی: ابوہریرہ ؓ

 بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،

قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ تم میں سے کوئی بھی ایماندار نہ ہو گا جب تک میں اس کے والد اور اولاد سے بھی زیادہ اس کا محبوب نہ بن جاؤں۔

حدیث نمبر ۱۵

راوی:  انس ؓ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

تم میں سے کوئی شخص ایماندار نہ ہو گا جب تک اس کے والد اور اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ اس کے دل میں میری محبت نہ ہو جائے۔

ایمان کی مٹھاس کے بیان میں

حدیث نمبر ۱۶

راوی:  انس ؓ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین خصلتیں ایسی ہیں کہ جس میں یہ پیدا ہو جائیں اس نے ایمان کی مٹھاس کو پا لیا۔

-  اول یہ کہ اللہ اور اس کا رسول اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب بن جائیں،

- دوسرے یہ کہ وہ کسی انسان سے محض اللہ کی رضا کے لیے محبت رکھے۔

- تیسرے یہ کہ وہ کفر میں واپس لوٹنے کو ایسا برا جانے جیسا کہ آگ میں ڈالے جانے کو برا جانتا ہے۔

انصار کی محبت ایمان کی نشانی ہے

حدیث نمبر ۱۷

راوی:  انس ؓ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

انصار سے محبت رکھنا ایمان کی نشانی ہے اور انصار سے کینہ رکھنا نفاق کی نشانی ہے۔

حدیث نمبر ۱۸

راوی: عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ

جو بدر کی لڑائی میں شریک تھے اور لیلۃالعقبہ کے (بارہ) نقیبوں میں سے تھے۔ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت جب آپ کے گرد صحابہ کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی فرمایا کہ مجھ سے بیعت کرو اس بات پر کہ

- اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو گے،  

- چوری نہ کرو گے،

-  زنا نہ کرو گے،

- اپنی اولاد کو قتل نہ کرو گے

-  اور نہ عمداً کسی پر کوئی ناحق بہتان باندھو گے

- اور کسی بھی اچھی بات میں (اللہ کی) نافرمانی نہ کرو گے۔

جو کوئی تم میں (اس عہد کو)پورا کرے گا تو اس کا ثواب اللہ کے ذمے ہے اور جو کوئی ان (بری باتوں) میں سے کسی کا ارتکاب کرے اور اسے دنیا میں (اسلامی قانون کے تحت) سزا دے دی گئی تو یہ سزا اس کے (گناہوں کے) لیے بدلا ہو جائے گی اور جو کوئی ان میں سے کسی بات میں مبتلا ہو گیا اور اللہ نے اس کے )گناہ( کو چھپا لیا تو پھر اس کا )معاملہ( اللہ کے حوالہ ہے، اگر چاہے معاف کرے اور اگر چاہے سزا دیدے۔

عبادہ کہتے ہیں کہ پھر ہم سب نے ان) سب باتوں( پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کر لی۔

فتنوں سے دور بھاگنا ( بھی ) دین ( ہی ) میں شامل ہے

حدیث نمبر ۱۹

راوی: ابو سعید خدری

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

وہ وقت قریب ہے جب مسلمان کا(سب سے) عمدہ مال اس کی بکریاں ہوں گی۔ جن کے پیچھے وہ پہاڑوں کی چوٹیوں اور برساتی وادیوں میں اپنے دین کو بچانے کے لیے بھاگ جائے گا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی تفصیل کہ میں تم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو جانتا ہوں

اور اس بات کا ثبوت کہ ”معرفت “دل کا فعل ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ”لیکن (اللہ) گرفت کرے گا اس پر جو تمہارے دلوں نے کیا ہو گا۔“

حدیث نمبر ۲۰

راوی: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو کسی کام کا حکم دیتے تو وہ ایسا ہی کام ہوتا جس کے کرنے کی لوگوں میں طاقت ہوتی

(اس پر)صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم لوگ تو آپ جیسے نہیں ہیں (آپ تو معصوم ہیں) اور آپ کی اللہ پاک نے اگلی پچھلی سب لغزشیں معاف فرما دی ہیں۔ (اس لیے ہمیں اپنے سے کچھ زیادہ عبادت کرنے کا حکم فرمائیے )

(یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوئے حتیٰ کہ خفگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک سے ظاہر ہونے لگی۔ پھر فرمایا :

 بیشک میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں اور تم سب سے زیادہ اسے جانتا ہوں۔ (پس تم مجھ سے بڑھ کر عبادت نہیں کر سکتے)۔

جو آدمی کفر کی طرف واپسی کو آگ میں گرنے کے برابر سمجھے ، تو اس کی یہ روش بھی ایمان میں داخل ہے

حدیث نمبر ۲۱

راوی : انس ؓ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس شخص میں یہ تین باتیں ہوں گی وہ ایمان کا مزہ پالے گا،

- ایک یہ کہ وہ شخص جسے اللہ اور اس کا رسول ان کے ماسوا سے زیادہ عزیز ہوں

- اور دوسرے یہ کہ جو کسی بندے سے محض اللہ ہی کے لیے محبت کرے

-  اور تیسری بات یہ کہ جسے اللہ نے کفر سے نجات دی ہو، پھر دوبارہ کفر اختیار کرنے کو وہ ایسا برا سمجھے جیسا آگ میں گر جانے کو برا جانتا ہے۔

ایمان والوں کا عمل میں ایک دوسرے سے بڑھ جانا ) عین ممکن ہے(

حدیث نمبر ۲۲

راوی: ابو سعید خدری ؓ

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جب جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں داخل ہو جائیں گے۔ اللہ پاک فرمائے گا، جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر (بھی)ایمان ہو، اس کو بھی دوزخ سے نکال لو۔ تب (ایسے لوگ) دوزخ سے نکال لیے جائیں گے اور وہ جل کر کوئلے کی طرح سیاہ ہو چکے ہوں گے۔ پھر زندگی کی نہر میں یا بارش کے پانی میں ڈالے جائیں گے۔

 (یہاں راوی کو شک ہو گیا ہے کہ کون سا لفظ استعمال کیا)

اس وقت وہ دانے کی طرح اگ آئیں گے جس طرح ندی کے کنارے دانے اگ آتے ہیں۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ دانہ زردی مائل پیچ در پیچ نکلتا ہے۔

حدیث نمبر ۲۳

راوی: ابو سعید خدری ؓ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ایک وقت سو رہا تھا، میں نے خواب میں دیکھا کہ لوگ میرے سامنے پیش کیے جا رہے ہیں اور وہ کرتے پہنے ہوئے ہیں۔ کسی کا کرتہ سینے تک ہے اور کسی کا اس سے نیچا ہے۔ (پھر)میرے سامنے عمر بن الخطاب لائے گئے۔ ان (کے بدن) پر (جو) کرتا تھا۔ اسے وہ گھسیٹ رہے تھے۔ (یعنی ان کا کرتہ زمین تک نیچا تھا)

صحابہؓ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! اس کی کیا تعبیر ہے؟

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (اس سے)دین مراد ہے۔

شرم و حیاء بھی ایمان سے ہے

 حدیث نمبر ۲۴

راوی: عبداللہ بن عمر ؓ

 ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری شخص کے پاس سے گزرے اس حال میں کہ وہ اپنے ایک بھائی سے کہہ رہے تھے کہ تم اتنی شرم کیوں کرتے ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انصاری سے فرمایا:

 اس کو اس کے حال پر رہنے دو کیونکہ حیاء بھی ایمان ہی کا ایک حصہ ہے۔

اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تفسیر میں

 اگر وہ ( کافر ) توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو ( یعنی ان سے جنگ نہ کرو )

حدیث نمبر ۲۵

راوی : ابن عمر ؓ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مجھے (اللہ کی طرف سے) حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے جنگ کروں اس وقت تک کہ وہ اس بات کا اقرار کر لیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز ادا کرنے لگیں اور زکوٰۃ دیں، جس وقت وہ یہ کرنے لگیں گے تو مجھ سے اپنے جان و مال کو محفوظ کر لیں گے، سوائے اسلام کے حق کے۔

 (رہا ان کے دل کا حال تو) ان کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔

اس شخص کے قول کی تصدیق میں جس نے کہا ہے کہ ایمان عمل ( کا نام ) ہے

کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَتِلۡكَ ٱلۡجَنَّةُ ٱلَّتِىٓ أُورِثۡتُمُوهَا بِمَا كُنتُمۡ تَعۡمَلُونَ  (۴۳:۷۲)

اور یہ جنت ہے اپنے عمل کے بدلے میں تم جس کے مالک ہوئے ہو۔

اور بہت سے اہل علم حضرات ارشاد باری تعالیٰ  فَوَرَبِّكَ لَنَسۡـَٔلَنَّهُمۡ أَجۡمَعِينَ  ـ ‏ عَمَّا كَانُواْ يَعۡمَلُونَ  (۱۵:۹۲ـ۹۳)کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ یہاں عمل سے مراد لا إله إلا الله کہنا ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :

عمل کرنے والوں کو اسی جیسا عمل کرنا چاہئے۔

حدیث نمبر ۲۶

راوی:  ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کون سا عمل سب سے افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا

کہا گیا، اس کے بعد کون سا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اللہ کی راہ میں جہاد کرنا

 کہا گیا، پھر کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

حج مبرور۔

جب حقیقی اسلام پر کوئی نہ ہو بلکہ محض ظاہر طور پر مسلمان بن گیا ہو یا قتل کے خوف سے

تو ( لغوی حیثیت سے اس پر ) مسلمان کا اطلاق درست ہے

جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

قَالَتِ ٱلۡأَعۡرَابُ ءَامَنَّا قُل لَّمۡ تُؤۡمِنُواْوَلَـٰكِن قُولُوٓاْ أَسۡلَمۡنَا (۴۹:۱۴)

جب دیہاتیوں نے کہا کہ ہم ایمان لے آئے آپ کہہ دیجیئے کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ یہ کہو کہ ظاہر طور پر مسلمان ہو گئے۔

 لیکن اگر ایمان حقیقتاً حاصل ہو تو وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے ارشاد :

إِنَّ ٱلدِّينَ عِندَ ٱللَّهِ ٱلۡإِسۡلَـٰمُ‌ (۳:۱۹)

بیشک دین اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے) کا مصداق ہے)۔

آیات شریفہ میں لفظ ايمان اور اسلام ایک ہی معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔

حدیث نمبر ۲۷

راوی: سعد رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند لوگوں کو کچھ عطیہ دیا اور میں وہاں موجود تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے ایک شخص کو کچھ نہ دیا۔ حالانکہ وہ ان میں مجھے سب سے زیادہ پسند تھا۔ میں نے کہا: یا رسول اللہ! آپ نے فلاں کو کچھ نہ دیا حالانکہ میں اسے مؤمن گمان کرتا ہوں۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مؤمن یا مسلمان؟

میں تھوڑی دیر چپ رہ کر پھر پہلی بات دہرانے لگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دوبارہ وہی جواب دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

 اے سعد! باوجود یہ کہ ایک شخص مجھے زیادہ عزیز ہے (پھر بھی میں اسے نظر انداز کر کے) کسی اور دوسرے کو اس خوف کی وجہ سے یہ مال دے دیتا ہوں کہ (وہ اپنی کمزوری کی وجہ سے اسلام سے پھر جائے اور) اللہ اسے آگ میں اوندھا ڈال دے۔

سلام پھیلانا بھی اسلام میں داخل ہے

عمار نے کہا کہ جس نے تین چیزوں کو جمع کر لیا اس نے سارا ایمان حاصل کر لیا۔

- اپنے نفس سے انصاف کرنا،

-  سلام کو عالم میں پھیلانا

- اور تنگ دستی کے باوجود راہ اللہ میں خرچ کرنا۔

حدیث نمبر ۲۸

راوی: عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ

ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کون سا اسلام بہتر ہے؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

تو کھانا کھلائے اور ہر شخص کو سلام کرے خواہ اس کو تو جانتا ہو یا نہ جانتا ہو۔

خاوند کی ناشکری کے بیان میں اور ایک کفر کا ( اپنے درجہ میں ) دوسرے کفر سے کم ہونے کے بیان میں

حدیث نمبر ۲۹

اس حدیث کو ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، وہ امام مالک سے، وہ زید بن اسلم سے، وہ عطاء بن یسار سے، وہ

راوی: عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 مجھے دوزخ دکھلائی گئی تو اس میں زیادہ تر عورتیں تھیں جو کفر کرتی ہیں۔

کہا گیا یا رسول اللہ! کیا وہ اللہ کے ساتھ کفر کرتی ہیں؟

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

 خاوند کی ناشکری کرتی ہیں۔ اور احسان کی ناشکری کرتی ہیں۔ اگر تم عمر بھر ان میں سے کسی کے ساتھ احسان کرتے رہو۔ پھر تمہاری طرف سے کبھی کوئی ان کے خیال میں ناگواری کی بات ہو جائے تو فوراً کہہ اٹھے گی کہ میں نے کبھی بھی تجھ سے کوئی بھلائی نہیں دیکھی۔

گناہ جاہلیت کے کام ہیں

اور گناہ کرنے والا گناہ سے کافر نہیں ہوتا۔ ہاں اگر شرک کرے تو کافر ہو جائے گا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوذرؓ سے فرمایا تھا  تو ایسا آدمی ہے جس میں جاہلیت کی بو آتی ہے۔(اس برائی کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کافر نہیں کہا)

اور اللہ نے سورۃ نساء میں فرمایا ہے:

إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَغۡفِرُ أَن يُشۡرَكَ بِهِۦوَيَغۡفِرُ مَا دُونَ ذَٲلِكَ لِمَن يَشَآءُ (۴:۴۸)‌

بیشک اللہ شرک کو نہیں بخشے گا اور اس کے علاوہ جس گناہ کو چاہے وہ بخش دے۔

حدیث نمبر ۳۰

راوی: معرور ؓ

راوی بیان فرماتا ہے کہ میں ابوذرؓ سے ربذہ میں ملا وہ ایک جوڑا پہنے ہوئے تھے اور ان کا غلام بھی جوڑا پہنے ہوئے تھا۔ میں نے اس کا سبب دریافت کیا تو کہنے لگے کہ میں نے ایک شخص یعنی غلام کو برا بھلا کہا تھا اور اس کی ماں کی غیرت دلائی (یعنی گالی دی) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ معلوم کر کے مجھ سے فرمایا :

اے ابوذر!

تو نے اسے ماں کے نام سے غیرت دلائی، بیشک تجھ میں ابھی کچھ زمانہ جاہلیت کا اثر باقی ہے۔ (یاد رکھو)ماتحت لوگ تمہارے بھائی ہیں۔ اللہ نے (اپنی کسی مصلحت کی بنا پر) انہیں تمہارے قبضے میں دے رکھا ہے تو جس کے ماتحت اس کا کوئی بھائی ہو تو

- اس کو بھی وہی کھلائے جو آپ کھاتا ہے

- اور وہی کپڑا اسے پہنائے جو آپ پہنتا ہے

-  اور ان کو اتنے کام کی تکلیف نہ دو کہ ان کے لیے مشکل ہو جائے

- اور اگر کوئی سخت کام ڈالو تو تم خود بھی ان کی مدد کرو۔

اور اگر ایمان والوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان دونوں کے درمیان صلح کرا دو

اور اللہ نے سورۃ الحجرات میں فرمایا:

وَإِن طَآٮِٕفَتَانِ مِنَ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ ٱقۡتَتَلُواْ فَأَصۡلِحُواْ بَيۡنَہُمَا‌ (۴۹:۹)

اور اگر ایمانداروں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو

اس آیت میں اللہ نے اس گناہ کبیرہ قتل و غارت کے باوجود ان لڑنے والوں کو مؤمن ہی کہا ہے۔

حدیث نمبر ۳۱

راوی:  احنف بن قیسؓ

 راوی کہتا ہے کہ میں اس شخص (علی رضی اللہ عنہ) کی مدد کرنے کو چلا۔ راستے میں مجھ کو ابوبکرہؓ ملے۔ پوچھا کہاں جاتے ہو؟

میں نے کہا، اس شخص (علی رضی اللہ عنہ)کی مدد کرنے کو جاتا ہوں۔

 ابوبکرہؓ نے کہا اپنے گھر کو لوٹ جاؤ۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے :

جب دو مسلمان اپنی اپنی تلواریں لے کر بھڑ جائیں تو قاتل اور مقتول دونوں دوزخی ہیں۔

 میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! قاتل تو خیر (ضرور دوزخی ہونا چاہیے) مقتول کیوں؟

فرمایا  وہ بھی اپنے ساتھی کو مار ڈالنے کی حرص رکھتا تھا۔

(موقع پاتا تو وہ اسے ضرور قتل کر دیتا دل کے عزم صمیم پر وہ دوزخی ہوا)۔

بعض ظلم بعض سے ادنیٰ ہیں

حدیث نمبر ۳۲

راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

جب سورۃ الانعام کی یہ آیت اتری ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَلَمۡ يَلۡبِسُوٓاْ إِيمَـٰنَهُم بِظُلۡمٍ (۶:۸۲)  جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان میں گناہوں کی آمیزش نہیں کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے کہا یا رسول اللہ! یہ تو بہت ہی مشکل ہے۔ ہم میں کون ایسا ہے جس نے گناہ نہیں کیا۔ تب اللہ پاک نے سورۃ لقمان کی یہ آیت اتاری:

إِنَّ ٱلشِّرۡكَ لَظُلۡمٌ عَظِيمٌ۬   (۳۱:۱۳)

بیشک شرک بڑا ظلم ہے۔

منافق کی نشانیوں کے بیان میں

حدیث نمبر ۳۳

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

منافق کی علامتیں تین ہیں۔

- جب بات کرے جھوٹ بولے،

- جب وعدہ کرے اس کے خلاف کرے

- اور جب اس کو امین بنایا جائے تو خیانت کرے۔

حدیث نمبر ۳۴

راوی: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 چار عادتیں جس کسی میں ہوں تو وہ خالص منافق ہے اور جس کسی میں ان چاروں میں سے ایک عادت ہو تو وہ (بھی) نفاق ہی ہے، جب تک اسے نہ چھوڑ دے۔ (وہ یہ ہیں)

- جب اسے امین بنایا جائے تو )امانت میں( خیانت کرے

-  اور بات کرتے وقت جھوٹ بولے

-  اور جب )کسی سے(عہد کرے تو اسے پورا نہ کرے

- اور جب )کسی سے( لڑے تو گالیوں پر اتر آئے۔

شب قدر کی بیداری ( اور عبادت گزاری ) بھی ایمان ( ہی میں داخل ) ہے

حدیث نمبر ۳۵

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 جو شخص شب قدر ایمان کے ساتھ محض ثواب آخرت کے لیے ذکر و عبادت میں گزارے، اس کے گزشتہ گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔

جہاد بھی جزو ایمان ہے

حدیث نمبر ۳۶

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

 جو شخص اللہ کی راہ میں )جہاد کے لیے(نکلا، اللہ اس کا ضامن ہو گیا۔ )اللہ تعالیٰ فرماتا ہے( اس کو میری ذات پر یقین اور میرے پیغمبروں کی تصدیق نے )اس سرفروشی کے لیے گھر سے( نکالا ہے۔ )میں اس بات کا ضامن ہوں( کہ یا تو اس کو واپس کر دوں ثواب اور مال غنیمت کے ساتھ، یا )شہید ہونے کے بعد( جنت میں داخل کر دوں )رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا( اور اگر میں اپنی امت پر )اس کام کو( دشوار نہ سمجھتا تو لشکر کا ساتھ نہ چھوڑتا اور میری خواہش ہے کہ اللہ کی راہ میں مارا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر مارا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر مارا جاؤں۔

رمضان شریف کی راتوں میں نفلی قیام کرنا بھی ایمان ہی میں سے ہے

حدیث نمبر ۳۷

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 جو کوئی رمضان میں ایمان رکھ کر اور ثواب کے لیے عبادت کرے اس کے اگلے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔

خالص نیت کے ساتھ رمضان کے روزے رکھنا ایمان کا جزو ہیں

حدیث نمبر ۳۸

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جس نے رمضان کے روزے ایمان اور خالص نیت کے ساتھ رکھے اس کے پچھلے گناہ بخش دیئے گئے۔

اس بیان میں کہ دین آسان ہے

جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ کو سب سے زیادہ وہ دین پسند ہے جو سیدھا اور سچا ہو۔ اور یقیناً وہ دین اسلام ہے سچ ہے۔

 إِنَّ ٱلدِّينَ عِندَ ٱللَّهِ ٱلۡإِسۡلَـٰمُ‌ (۳:۱۹)

حدیث نمبر ۳۹

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

بیشک دین آسان ہے اور جو شخص دین میں سختی اختیار کرے گا تو دین اس پر غالب آ جائے گا (اور اس کی سختی نہ چل سکے گی) پس (اس لیے) اپنے عمل میں پختگی اختیار کرو۔ اور جہاں تک ممکن ہو میانہ روی برتو اور خوش ہو جاؤ (کہ اس طرز عمل سے تم کو دارین کے فوائد حاصل ہوں گے) اور صبح اور دوپہر اور شام اور کسی قدر رات میں (عبادت سے) مدد حاصل کرو۔

(نماز پنج وقتہ بھی مراد ہو سکتی ہے کہ پابندی سے ادا کرو۔)

نماز ایمان کا جزو ہے

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے

وَمَا كَانَ ٱللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَـٰنَكُمۡ‌ (۲:۱۴۳)

اللہ تمہارے ایمان کو ضائع کرنے والا نہیں۔

 یعنی تمہاری وہ نمازیں جو تم نے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے پڑھی ہیں، قبول ہیں۔

حدیث نمبر ۴۰

راوی:  براء بن عازب رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو پہلے اپنی ننہال میں اترے، جو انصار تھے۔ اور وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سولہ یا سترہ ماہ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش تھی کہ آپ کا قبلہ بیت اللہ کی طرف ہو (جب بیت اللہ کی طرف نماز پڑھنے کا حکم ہو گیا) تو سب سے پہلی نماز جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کی طرف پڑھی عصر کی نماز تھی۔ وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لوگوں نے بھی نماز پڑھی،

پھر آپ کے ساتھ نماز پڑھنے والوں میں سے ایک آدمی نکلا اور اس کا مسجد (بنی حارثہ) کی طرف گزر ہوا تو وہ لوگ رکوع میں تھے۔ وہ بولا کہ میں اللہ کی گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی ہے۔ (یہ سن کر) وہ لوگ اسی حالت میں بیت اللہ کی طرف گھوم گئے اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرتے تھے، یہود اور عیسائی خوش ہوتے تھے مگر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کی طرف منہ پھیر لیا تو انہیں یہ امر ناگوار ہوا۔

براء  یہ بھی فرماتے ہیں:

قبلہ کی تبدیلی سے پہلے کچھ مسلمان انتقال کر چکے تھے۔ تو ہمیں یہ معلوم نہ ہو سکا کہ ان کی نمازوں کے بارے میں کیا کہیں۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی  

 وَمَا كَانَ ٱللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَـٰنَكُمۡ‌ (۲:۱۴۳)۔

آدمی کے اسلام کی خوبی (کے درجات کیا ہیں )

حدیث نمبر ۴۱

راوی: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

 جب (ایک)بندہ مسلمان ہو جائے اور اس کا اسلام عمدہ ہو (یقین و خلوص کے ساتھ ہو) تو اللہ اس کے گناہ کو جو اس نے اس (اسلام لانے) سے پہلے کیا معاف فرما دیتا ہے اور اب اس کے بعد کے لیے بدلا شروع ہو جاتا ہے (یعنی)ایک نیکی کے عوض دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک(ثواب) اور ایک برائی کا اسی برائی کے مطابق (بدلا دیا جاتا ہے) مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اس برائی سے بھی درگزر کرے۔ (اور اسے بھی معاف فرما دے۔ یہ بھی اس کے لیے آسان ہے)

حدیث نمبر ۴۲

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

تم میں سے کوئی شخص جب اپنے اسلام کو عمدہ بنا لے (یعنی نفاق اور ریا سے پاک کر لے) تو ہر نیک کام جو وہ کرتا ہے اس کے عوض دس سے لے کر سات سو گنا تک نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور ہر برا کام جو کرتا ہے تو وہ اتنا ہی لکھا جاتا ہے ۔

اللہ کو دین ( کا ) وہ ( عمل ) سب سے زیادہ پسند ہے جس کو پابندی سے کیا جائے

حدیث نمبر ۴۳

راوی: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن میرے  پاس آئے، اس وقت ایک عورت میرے پاس بیٹھی تھی، آپ نے دریافت کیا یہ کون ہے؟

میں نے عرض کیا، فلاں عورت اور اس کی نمازکا ذکر کیا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

ٹھہر جاؤ  تم پر اتنا ہی عمل واجب ہے جتنے عمل کی تمہارے اندر طاقت ہے۔ اللہ کی قسم! (ثواب دینے سے) اللہ نہیں اکتاتا، مگر تم (عمل کرتے کرتے) اکتا جاؤ گے، اور اللہ کو دین (کا) وہی عمل زیادہ پسند ہے جس کی ہمیشہ پابندی کی جا سکے۔ (اور انسان بغیر اکتائے اسے انجام دے)۔

ایمان کی کمی اور زیادتی کے بیان میں

اور اللہ تعالیٰ کے اس قول کی(تفسیر)کا بیان:

فَأَمَّا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ فَزَادَتۡهُمۡ إِيمَـٰنً۬ا  (۹:۱۲۴)

” اور ہم نے انہیں ہدایت میں زیادتی دی “

اور دوسری آیت کی تفسیر میں کہ :

وَيَزۡدَادَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ إِيمَـٰنً۬ا (۷۴:۳۱)

اور اہل ایمان کا ایمان زیادہ ہو جائے

پھر یہ بھی فرمایا:

ٱلۡيَوۡمَ أَكۡمَلۡتُ لَكُمۡ دِينَكُمۡ  (۵:۳)

آج کے دن میں نے تمہارا دین مکمل کر دیا

 کیونکہ جب کمال میں سے کچھ باقی رہ جائے تو اسی کو کمی کہتے ہیں۔

حدیث نمبر ۴۴

راوی: انسؓ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جس شخص نے  لا إله إلا الله  کہہ لیا اور اس کے دل میں جو برابر بھی (ایمان) ہے تو وہ (ایک نہ ایک دن) دوزخ سے ضرور نکلے گا اور دوزخ سے وہ شخص (بھی)ضرور نکلے گا جس نے کلمہ پڑھا اور اس کے دل میں گیہوں کے دانہ برابر خیر ہے اور دوزخ سے وہ (بھی)نکلے گا جس نے کلمہ پڑھا اور اس کے دل میں اک ذرہ برابر بھی خیر ہے۔

حدیث نمبر ۴۵

راوی:  عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ

ایک یہودی نے ان سے کہا کہ اے امیرالمؤمنین! تمہاری کتاب (قرآن)میں ایک آیت ہے جسے تم پڑھتے ہو۔ اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اس (کے نزول کے) دن کو یوم عید بنا لیتے۔

 آپ نے پوچھا وہ کون سی آیت ہے؟

اس نے جواب دیا سورۃ المائدہ کی یہ آیت :

ٱلۡيَوۡمَ أَكۡمَلۡتُ لَكُمۡ دِينَكُمۡ وَأَتۡمَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ نِعۡمَتِى وَرَضِيتُ لَكُمُ ٱلۡإِسۡلَـٰمَ دِينً۬ا (۵:۳)

آج میں نے تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی اور تمہارے لیے دین اسلام پسند کیا

عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم اس دن اور اس مقام کو (خوب) جانتے ہیں جب یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی (اس وقت) آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات میں جمعہ کے دن کھڑے ہوئے تھے۔

زکوٰۃ دینا اسلام میں داخل ہے

اور اللہ پاک نے فرمایا ـ

وَمَآ أُمِرُوٓاْ إِلَّا لِيَعۡبُدُواْ ٱللَّهَ مُخۡلِصِينَ لَهُ ٱلدِّينَ حُنَفَآءَ وَيُقِيمُواْ ٱلصَّلَوٰةَ وَيُؤۡتُواْ ٱلزَّكَوٰةَ‌ۚ وَذَٲلِكَ دِينُ ٱلۡقَيِّمَةِ (۹۸:۵) 

حالانکہ ان کافروں کو یہی حکم دیا گیا کہ خالص اللہ ہی کی بندگی کی نیت سے ایک طرف ہو کر اسی اللہ کی عبادت کریں

 اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور یہی پختہ دین ہے ۔

حدیث نمبر ۴۶

راوی: طلحہ بن عبیداللہ ؓ

نجد والوں میں ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، سر پریشان یعنی بال بکھرے ہوئے تھے، ہم اس کی آواز کی بھنبھناہٹ سنتے تھے اور ہم سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ یہاں تک کہ وہ نزدیک آن پہنچا، جب معلوم ہوا کہ وہ اسلام کے بارے میں پوچھ رہا ہے۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام دن رات میں پانچ نمازیں پڑھنا ہے،

 اس نے کہا بس اس کے سوا تو اور کوئی نماز مجھ پر نہیں۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں مگر تو نفل پڑھے (تو اور بات ہے)

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور رمضان کے روزے رکھنا۔

اس نے کہا اور تو کوئی روزہ مجھ پر نہیں ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں مگر تو نفل روزے رکھے(تو اور بات ہے)

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے زکوٰۃ کا بیان کیا۔

 وہ کہنے لگا کہ بس اور کوئی صدقہ مجھ پر نہیں ہے۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں مگر یہ کہ تو نفل صدقہ دے (تو اور بات ہے)

پھر وہ شخص پیٹھ موڑ کر چلا۔ یوں کہتا جاتا تھا، قسم اللہ کی میں نہ اس سے بڑھاؤں گا نہ گھٹاؤں گا،

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہ سچا ہے تو اپنی مراد کو پہنچ گیا۔

جنازے کے ساتھ جانا ایمان میں داخل ہے

حدیث نمبر ۴۷

راوی: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

جو کوئی ایمان رکھ کر اور ثواب کی نیت سے کسی مسلمان کے جنازے کے ساتھ جائے اور نماز اور دفن سے فراغت ہونے تک اس کے ساتھ رہے تو وہ دو قیراط ثواب لے کر لوٹے گا ہر قیراط اتنا بڑا ہو گا جیسے احد کا پہاڑ، اور جو شخص جنازے پر نماز پڑھ کر دفن سے پہلے لوٹ جائے تو وہ ایک قیراط ثواب لے کر لوٹے گا۔

مؤمن کو ڈرنا چاہیے کہ کہیں اس کے اعمال مٹ نہ جائیں اور اس کو خبر تک نہ ہو

اور ابراہیم تیمی نے کہا میں نے اپنے گفتار اور کردار کو جب ملایا، تو مجھ کو ڈر ہوا کہ کہیں میں شریعت کے جھٹلانے والے سے نہ ہو جاؤں

 اور ابن ابی ملیکہ نے کہا کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تیس صحابہ سے ملا، ان میں سے ہر ایک کو اپنے اوپر نفاق کا ڈر لگا ہوا تھا، ان میں کوئی یوں نہیں کہتا تھا کہ میرا ایمان جبرائیل و میکائیل کے ایمان جیسا ہے

 اور حسن بصری سے منقول ہے، نفاق سے وہی ڈرتا ہے جو ایماندار ہوتا ہے اور اس سے نڈر وہی ہوتا ہے جو منافق ہے۔

اس باب میں آپس کی لڑائی اور گناہوں پر اڑے رہنے اور توبہ نہ کرنے سے بھی ڈرایا گیا ہے۔ کیونکہ اللہ پاک نے سورۃ آل عمران میں فرمایا:

وَلَمۡ يُصِرُّواْ عَلَىٰ مَا فَعَلُواْ وَهُمۡ يَعۡلَمُونَ (۳:۱۳۵)

اور اپنے برے کاموں پر جان بوجھ کر وہ اڑا نہیں کرتے ۔

حدیث نمبر ۴۸

راوی: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

 مسلمان کو گالی دینے سے آدمی فاسق ہو جاتا ہے اور مسلمان سے لڑنا کفر ہے۔

حدیث نمبر ۴۹

راوی: عبادہ بن صامت ؓ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرے سے نکلے، لوگوں کو شب قدر بتانا چاہتے تھے (وہ کون سی رات ہے) اتنے میں دو مسلمان آپس میں لڑ پڑے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

میں تو اس لیے باہر نکلا تھا کہ تم کو شب قدر بتلاؤں اور فلاں فلاں آدمی لڑ پڑے تو وہ میرے دل سے اٹھا لی گئی اور شاید اسی میں کچھ تمہاری بہتری ہو۔ (تو اب ایسا کرو کہ) شب قدر کو رمضان کی ستائیسویں، انتیسویں و پچیسویں رات میں ڈھونڈا کرو۔

جبرائیل علیہ السلام کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایمان ، اسلام ، احسان اور قیامت کے علم کے بارے میں پوچھنا

اور اس کے جواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان فرمانا پھر آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ جبرائیل علیہ السلام تھے جو تم کو دین کی تعلیم دینے آئے تھے۔ یہاں آپ نے ان تمام باتوں کو(جو جبرائیل علیہ السلام کے سامنے بیان کی گئی تھیں) دین ہی قرار دیا

 اور ان باتوں کے بیان میں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان سے متعلق عبدالقیس کے وفد کے سامنے بیان فرمائی تھی

 اور اللہ پاک کے اس ارشاد کی تفصیل میں کہ جو کوئی اسلام کے علاوہ کوئی دوسرا دین اختیار کرے گا وہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا۔

حدیث نمبر ۵۰

راوی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

 ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں تشریف فرما تھے کہ آپ کے پاس ایک شخص آیا اور پوچھنے لگا کہ ایمان کسے کہتے ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پاک کے وجود اور اس کی وحدانیت پر ایمان لاؤ اور اس کے فرشتوں کے وجود پر اور اس (اللہ)کی ملاقات کے برحق ہونے پر اور اس کے رسولوں کے برحق ہونے پر اور مرنے کے بعد دوبارہ اٹھنے پر ایمان لاؤ۔

 پھر اس نے پوچھا کہ اسلام کیا ہے؟

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر جواب دیا کہ اسلام یہ ہے کہ تم خالص اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ اور نماز قائم کرو۔ اور زکوٰۃ فرض ادا کرو۔ اور رمضان کے روزے رکھو۔

 پھر اس نے احسان کے متعلق پوچھا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا احسان یہ کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اگر یہ درجہ نہ حاصل ہو تو پھر یہ تو سمجھو کہ وہ تم کو دیکھ رہا ہے۔

 پھر اس نے پوچھا کہ قیامت کب آئے گی۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے بارے میں جواب دینے والا پوچھنے والے سے کچھ زیادہ نہیں جانتا (البتہ)میں تمہیں اس کی نشانیاں بتلا سکتا ہوں۔ وہ یہ ہیں :

-  جب لونڈی اپنے آقا کو جنے گی

- اور جب سیاہ اونٹوں کے چرانے والے )دیہاتی لوگ ترقی کرتے کرتے( مکانات کی تعمیر میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کریں گے

- یاد رکھوقیامت کا علم ان پانچ چیزوں میں ہے جن کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔  پھر آپ نے یہ آیت پڑھی

 إِنَّ ٱللَّهَ عِندَهُ ۥ عِلۡمُ ٱلسَّاعَةِ (۳۱:۳۴)  

اللہ ہی کو قیامت کا علم ہے کہ وہ کب ہو گی

پھر وہ پوچھنے والا پیٹھ پھیر کر جانے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے واپس بلا کر لاؤ۔ لوگ دوڑ پڑے مگر وہ کہیں نظر نہیں آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ جبرائیل تھے جو لوگوں کو ان کا دین سکھانے آئے تھے۔

امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام باتوں کو ایمان ہی قرار دیا ہے۔

حدیث نمبر ۵۱

راوی: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ

 مجھے ابوسفیان بن حرب نے خبر دی کہ ہرقل(روم کے بادشاہ)نے ان سے کہا۔ میں نے تم سے پوچھا تھا کہ اس رسول کے ماننے والے بڑھ رہے ہیں یا گھٹ رہے ہیں۔ تو نے جواب میں بتلایا کہ وہ بڑھ رہے ہیں۔(ٹھیک ہے) ایمان کا یہی حال رہتا ہے یہاں تک کہ وہ پورا ہو جائے

 اور میں نے تجھ سے پوچھا تھا کہ کوئی اس کے دین میں آ کر پھر اس کو برا جان کر پھر جاتا ہے؟

 تو نے کہا۔ نہیں، اور ایمان کا یہی حال ہے۔ جب اس کی خوشی دل میں سما جاتی ہے تو پھر اس کو کوئی برا نہیں سمجھ سکتا۔

اس شخص کی فضیلت کے بیان میں جو اپنا دین قائم رکھنے کے لیے گناہ سے بچ گیا

حدیث نمبر ۵۲

راوی: نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ

میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے:

 حلال کھلا ہوا ہے اور حرام بھی کھلا ہوا ہے اور ان دونوں کے درمیان بعض چیزیں شبہ کی ہیں جن کو بہت لوگ نہیں جانتے (کہ حلال ہیں یا حرام) پھر جو کوئی شبہ کی چیزوں سے بھی بچ گیا اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا اور جو کوئی ان شبہ کی چیزوں میں پڑ گیا اس کی مثال اس چرواہے کی ہے جو (شاہی محفوظ) چراگاہ کے آس پاس اپنے جانوروں کو چرائے۔ وہ قریب ہے کہ کبھی اس چراگاہ کے اندر گھس جائے (اور شاہی مجرم قرار پائے)

سن لو ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے۔ اللہ کی چراگاہ اس کی زمین پر حرام چیزیں ہیں۔(پس ان سے بچو اور)سن لو بدن میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو گا سارا بدن درست ہو گا اور جہاں بگڑا سارا بدن بگڑ گیا۔ سن لو وہ ٹکڑا آدمی کا دل ہے۔

مال غنیمت سے پانچواں حصہ ادا کرنا بھی ایمان سے ہے

حدیث نمبر ۵۳

راوی: ابوجمرہ ؓ

میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھا کرتا تھا وہ مجھ کو خاص اپنے تخت پر بٹھاتے (ایک دفعہ)کہنے لگے کہ تم میرے پاس مستقل طور پر رہ جاؤ میں اپنے مال میں سے تمہارا حصہ مقرر کر دوں گا۔ تو میں دو ماہ تک ان کی خدمت میں رہ گیا۔

پھر کہنے لگے کہ عبدالقیس کا وفد جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ نے پوچھا کہ یہ کون سی قوم کے لوگ ہیں یا یہ وفد کہاں کا ہے؟

 انہوں نے کہا کہ ربیعہ خاندان کے لوگ ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مرحبا اس قوم کو یا اس وفد کو نہ ذلیل ہونے والے نہ شرمندہ ہونے والے (یعنی ان کا آنا بہت خوب ہے)

 وہ کہنے لگے اے اللہ کے رسول! ہم آپ کی خدمت میں صرف ان حرمت والے مہینوں میں آ سکتے ہیں کیونکہ ہمارے اور آپ کے درمیان مضر کے کافروں کا قبیلہ آباد ہے۔ پس آپ ہم کو ایک ایسی قطعی بات بتلا دیجئیے جس کی خبر ہم اپنے پچھلے لوگوں کو بھی کر دیں جو یہاں نہیں آئے اور اس پر عمل درآمد کر کے ہم جنت میں داخل ہو جائیں اور انہوں نے آپ سے اپنے برتنوں کے بارے میں بھی پوچھا۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو چار باتوں کا حکم دیا اور چار قسم کے برتنوں کو استعمال میں لانے سے منع فرمایا۔ ان کو حکم دیا کہ

ایک اکیلے اللہ پر ایمان لاؤ۔

 پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ جانتے ہو ایک اکیلے اللہ پر ایمان لانے کا مطلب کیا ہے؟

 انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی کو معلوم ہے۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

 اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی مبعود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سچے رسول ہیں

 اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا اور مال غنیمت سے جو ملے اس کا پانچواں حصہ (مسلمانوں کے بیت المال میں)داخل کرنا ۔

اور چار برتنوں کے استعمال سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو منع فرمایا۔

- سبز لاکھی مرتبان سے

-  اور کدو کے بنائے ہوئے برتن سے،

-  لکڑی کے کھودے ہوئے برتن سے،

- اور روغنی برتن سے

اور فرمایا کہ ان باتوں کو حفظ کر لو اور ان لوگوں کو بھی بتلا دینا جو تم سے پیچھے ہیں اور یہاں نہیں آئے ہیں۔

اس بات کے بیان میں کہ عمل بغیر نیت اور خلوص کے صحیح نہیں ہوتے اور ہر آدمی کو وہی ملے گا جو نیت کرے

تو عمل میں ایمان، وضو، نماز، زکوٰۃ، حج، روزہ اور سارے احکام آ گئے اور سورۃ بنی اسرائیل میں اللہ نے فرمایا:

قُلۡ ڪُلٌّ۬ يَعۡمَلُ عَلَىٰ شَاكِلَتِهِۦ (۱۷:۸۴)

اے پیغمبر! کہہ دیجیئے کہ ہر کوئی اپنے طریق یعنی اپنی نیت پر عمل کرتا ہے

 اور )اسی وجہ سے( آدمی اگر ثواب کی نیت سے اللہ کا حکم سمجھ کر اپنے گھر والوں پر خرچ کر دے تو اس میں بھی اس کو صدقہ کا ثواب ملتا ہے

 اور جب مکہ فتح ہو گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اب ہجرت کا سلسلہ ختم ہو گیا لیکن جہاد اور نیت کا سلسلہ باقی ہے۔

حدیث نمبر ۵۴

راوی: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

عمل نیت ہی سے صحیح ہوتے ہیں (یا نیت ہی کے مطابق ان کا بدلا ملتا ہے) اور ہر آدمی کو وہی ملے گا جو نیت کرے گا۔ پس جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی رضا کے لیے ہجرت کرے اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہو گی اور جو کوئی دنیا کمانے کے لیے یا کسی عورت سے شادی کرنے کے لیے ہجرت کرے گا تو اس کی ہجرت ان ہی کاموں کے لیے ہو گی۔

حدیث نمبر ۵۵

 راوی: عبداللہ بن مسعود ؓ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جب آدمی ثواب کی نیت سے اپنے اہل و عیال پر خرچ کرے پس وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہے۔

حدیث نمبر ۵۶

راوی: سعد بن ابی وقاص

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 بیشک تو جو کچھ خرچ کرے اور اس سے تیری نیت اللہ کی رضا حاصل کرنی ہو تو تجھ کو اس کا ثواب ملے گا۔ یہاں تک کہ اس پر بھی جو تو اپنی بیوی کے منہ میں ڈالے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ

 دین سچے دل سے اللہ کی فرمانبرداری اور اسکے رسول اور مسلمان حاکموں اور تمام مسلمانوں کی خیر خواہی کا نام ہے

اور اللہ نے سورۃ التوبہ میں فرمایا کہ إِذَا نَصَحُواْ لِلَّهِ وَرَسُولِهِۦ (۹:۹۱)جب وہ اللہ اور اس کے رسول کی خیر خواہی میں رہیں۔

حدیث نمبر ۵۷

راوی: جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے اور ہر مسلمان کی خیر خواہی کرنے پر بیعت کی۔

حدیث نمبر ۵۸

 راوی: زیاد بن علاقہ

میں نے جریر بن عبداللہؓ سے سنا ۔جس دن مغیرہ بن شعبہ (حاکم کوفہ)کا انتقال ہوا تو وہ خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے اور اللہ کی تعریف اور خوبی بیان کی اور کہا تم کو اکیلے اللہ کا ڈر رکھنا چاہیے اس کا کوئی شریک نہیں اور تحمل اور اطمینان سے رہنا چاہیے اس وقت تک کہ کوئی دوسرا حاکم تمہارے اوپر آئے اور وہ ابھی آنے والا ہے۔

پھر فرمایا کہ اپنے مرنے والے حاکم کے لیے دعائے مغفرت کرو کیونکہ وہ (مغیرہ) بھی معافی کو پسند کرتا تھا

پھر کہا کہ اس کے بعد تم کو معلوم ہونا چاہیے کہ میں ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے عرض کیا کہ میں آپ سے اسلام پر بیعت کرتا ہوں

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ہر مسلمان کی خیر خواہی کے لیے شرط کی،

 پس میں نے اس شرط پر آپ سے بیعت کر لی (پس) اس مسجد کے رب کی قسم کہ میں تمہارا خیرخواہ ہوں پھر استغفار کیا اور منبر سے اتر آئے۔

***********



© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Enail: cmaj37@gmail.com

Visits wef Nov 2024

website counters