Quran Urdu Translation

Surah Al Kahf

Shah Abdul Qadir

اردو اور عربی فونٹ ڈاؤن لوڈ کرنے کے لئے یہاں کلک کریں

شروع اﷲ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا (ہے)۔


 سراہئے (سب تعریف)اﷲ کو جس نے اتاری اپنے بندے پر کتاب اور نہ رکھی اس میں کچھ کجی (ٹیڑھا پن)۔

1

ٹھیک اتاری تا (کہ) ڈر سنائے ایک سخت آفت کا اسکی طرف سے،

اور خوشخبری دے، یقین لانے والوں کو جو کرتے ہیں نیکیاں،کہ (یقیناً) انکو اچھا نیگ (اجر) ہے۔

2

جس میں رہا کریں ہمیشہ۔

3

 اور ڈر سنائے ان کو جو کہتے ہیں اﷲ اولاد رکھتا ہے۔

4

 کچھ خبر نہیں ان کو اس بات کی، نہ انکے باپ دادوں کو۔

کیا بڑی بات ہو کر نکلتی ہے انکے منہ سے۔

سب جھوٹ ہے جو کہتے ہیں۔

5

سو کہیں تُو گھونٹ (مار) ڈالے گا اپنی جان انکے پیچھے، اگر وہ نہ مانیں گے اس بات (قرآن) کو پچتا پچتا کر( غم کر کے) ۔

6

 ہم نے بنایا ہے جو کچھ زمین پر ہے اسکی رونق، تا (کہ) جانچیں لوگوں کو، کون ان میں اچھا کرتا ہے کام۔

7

 اور ہم کو کرنا ہے جو کچھ اس پر ہے میدان چھانٹ (چٹیل بن) کر۔

8

 کیا تو خیال رکھتا ہے کہ غار اور کھوہ والے ہماری قدرتوں میں اچنبھا (عجیب) تھے۔

9

 جب جا بیٹھے وہ جوان اس کھوہ میں، پھر بولے،

اے رب! دے ہم کو اپنے پاس سے مہر (رحمت) اور بنا ہمارے کام کا بناؤ(درستی) ۔

10

پھر تھپک دیئے ہم نے اُنکے کان (سُلا دیا) اُس کھوہ میں، کئی برس گنتی کے۔

11

 پھر ہم نے اُن کو اٹھایا کہ معلوم کریں دو فرقوں میں، کس نے یاد رکھی ہے جتنی مدت وہ رہے۔

12

 ہم سنا دیں تجھ کو ان کا احوال تحقیق (ٹھیک ٹھیک) ۔

وہ کئی جوان ہیں، کہ یقین لائے اپنے رب پر اور زیادہ دی ہم نے انکو سوجھ (ہدایت) ۔

13

 اور گِرہ دی (مضبوط کر دیئے) اُنکے دل پر جب کھڑے ہوئے، پھر بولے،

ہمارا رب ہے رب آسمان و زمین کا، نہ پکاریں گے ہم اسکے سوا کسی کو ٹھاکر (معبود) ،(اگر ایسا کہیں) تو کہی ہم نے بات عقل سے دُور۔

14

یہ ہماری قوم ہے! پکڑے (بنا لئے) ہیں انہوں نے اسکے سوا اور پوجنے (معبود) ۔

کیوں نہیں لاتے ان کے واسطے کوئی سند کھلی۔

پھر اس سے گنہگار کون جس نے باندھا اﷲ پر جھوٹ۔

15

 اور جب تم نے کنارہ پکڑا ان سے اور جن کو وہ پوجتے ہیں اﷲ کے سوا، اب جا بیٹھو اُس کھوہ میں،

پھیلا دے تم پر رب تمہارا کچھ اپنی مہر(رحمت) اور بنا (آسان کر ) دے تم کو تمہارے کام کا آرام۔

16

 اور تُو دیکھے دھوپ، جب نکلتی ہے بچ جاتی ہے اُنکی کھوہ سے داہنے کو،

اور جب ڈوبتی ہے کترا جاتی ہے ان سے بائیں کو،اور وہ میدان میں ہیں اس کے۔

ہے یہ قدرتوں سے اﷲ کی۔

جسکو راہ (ہدایت) دے اﷲ وہی آئے راہ (ہدایت) پر۔

اور جس کو وہ بچلادے (بھٹکا دے) پھر تو نہ پائے اسکا کوئی رفیق راہ پر لانے والا۔

17

 اور تُو جانے وہ جاگتے ہیں اور وہ سوتے ہیں۔

 اور کروٹ دلاتے ہیں ہم ان کو داہنے اور بائیں۔

اور کتّا انکا پسار رہا اپنی باہیں چوکھٹ پر۔

اگر تُو جھانک دیکھے انکو تو پیٹھ دے کر بھاگے اُن سے اور بھر جائے تجھ (تمہارے دل) میں ان کی دہشت۔

18

 اور اسی طرح ان کو جگا دیا ہم نے کہ آپس میں لگے پوچھنے۔

ایک بولا ان میں کتنی دیر ٹھہرے تم۔

بولے ہم ٹھہرے ایک دن یا دن سے کم۔

بولے، تمہارا رب بہتر جانے جتنی دیر رہے ہو۔

اب بھیجو اپنے میں سے ایک، یہ روپیہ لے کر اپنا اس شہر کو،پھر دیکھے کونسا ستھرا کھانا، سو لا دے تم کو اس میں سے کھانا،

اور نرمی (ہوشیاری)سے جائے اور جتا (بتا) نہ دے تمہاری خبر کسی کو۔

19

 وہ لوگ اگر خبر پائیں تمہاری، پتھراؤ سے ماریں تم کو یا الٹا پھیریں تم کو اپنے دین میں،تب بھلا نہ ہو تمہارا کبھی۔

20

 اور اسی طرح خبر کھول دی ہم نے اُنکی تا (کہ) لوگ جانیں کہ وعدہ اﷲ کا ٹھیک ہے،

وہ گھڑی آنی، اس میں دھوکا (شک) نہیں۔

جب جھگڑ رہے تھے اپنی بات پر، پھر کہنے لگے، بناؤ ان پر ایک عمارت۔

ان کا رب بہتر جانے ان کو۔

بولے جنکا کام زبر تھ(جو غالب تھے) ، ہم بنا دیں گے اُن کے مکان پر عبادت خانہ۔

21

 اب یہ بھی کہیں گے وہ تین ہیں چوتھا ان کا کتّا ،

اور یہ بھی کہیں گے وہ پانچ ہیں اور چھٹا ان کا کتّا ، بن دیکھے نشانہ پتھر چلان(بے تُکی باتیں) ،

اور یہ بھی کہیں گے وہ سات ہیں اور آٹھواں ان کا کتّا ۔

تُو کہہ، میرا رب بہتر جانے اُن کی گنتی، ان کی خبر نہیں رکھتے مگر تھوڑے لوگ۔

سو تُو مت جھگڑ ان کی بات میں مگر سرسری جھگڑا۔ اور مت تحقیق کر ان کا احوال اُن میں کسی سے۔

22

 اور نہ کہیو کسی کام کو کہ میں کروں گا کل۔

23

 مگر یہ کہ اﷲ چاہے،

اور یاد کر لے اپنے رب کو جب بھول جائے،اور کہہ، امید ہے کہ میرا رب مجھ کو سجھائے، اس سے نزدیک راہ نیکی کی۔

24

 اور مدت گذری ان پر اپنی کھوہ میں تین سو برس اور اُوپر سے نو (۹) ۔

25

 تُو کہہ، اﷲ خوب جانتا ہے جتنی مدت وہ رہے۔ اُسی پاس ہیں چھپے بھید آسمان اور زمین کے۔

عجب (خوب) دیکھتا سنتا ہے۔

کوئی نہیں بندوں پر اسکے سوا مختار۔ اور نہیں شریک کرتا اپنے حکم میں کسی کو۔

26

اور پڑھ جو وحی ہوئی تجھ کو، تیرے رب سے اسکی کتاب کو۔

کوئی بدلنے والا نہیں اسکی باتیں اور کہیں نہ پائے گا تُو اسکے سوا چھپنے کی جگہ۔

27

اور تھام رکھ آپ کو اُنکے ساتھ جو پکارتے ہیں اپنے رب کو صبح اور شام، طالب ہیں اسکے منہ (رضا) کے،

اور نہ دوڑیں تیری آنکھیں ان کو چھوڑ کر تلاش میں رونق دنیا کی زندگی کی۔

اور نہ کہا مان اس کا جسکا دل غافل کیا ہم نے اپنی یاد سے،اور پیچھے لگا ہے اپنی چاؤ (خواہش) کے، اور اسکا کام ہے حد پر نہ رہنا۔

28

 اور کہہ، سچی بات ہے تمہارے رب کی طرف سے،پھر جو کوئی چاہے مانے اور جو کوئی چاہے نہ مانے۔

ہم نے رکھی ہے گنہگاروں کے واسطے آگ، جو گھیر رہی ہے ان کو اسکی قناتیں (لپٹیں) ۔

اور اگر فریاد کریں گے تو ملے گا پانی جیسا پیپ، بھون ڈالے منہ کو،

کیا بُرا پینا ہے اور کیا بُرا آرام۔

29

جو لوگ یقین لائے اور کیں نیکیاں، ہم نہیں کھوتے (ضائع کرتے) نیگ (اجر) اس کا، جس نے بھلا کیا کام۔

30

 ایسوں کو باغ ہیں بسنے کے، بہتی انکے نیچے نہریں،

پہناتے ہیں ان کو وہاں کچھ کنگن سونے کے اور پہنتے ہیں کپڑے سبز پتلے اور گاڑھے ریشم کے،

لگے بیٹھے ہیں ان میں تختوں پر۔کیا خوب بدلہ ہے اور کیا خوب آرام۔

31

 اور بتا ا ن کو کہاوت دو مَردوں کی،

بنا دیئے ہم نے ایک کو دو باغ انگور کے اور گرد انکے کھجوریں،اور رکھی دونوں کے بیچ میں کھیتی۔

32

دونوں باغ لاتے اپنا میوہ اور نہ گھٹاتے اس میں سے کچھ،

اور بہائی ہم نے ان دونوں کے بیچ نہر۔

33

 اور اسکو پھل ملا پھر بولا اپنے دوسرے سے، جب باتیں کرنے لگا اس سے،

مجھ پاس زیادہ ہے تجھ سے مال اور آبرو کے (قدرومنزلت والے، طاقتور) لوگ۔

34

 اور گیا اپنے باغ میں، اور وہ بُرا کر رہا تھا اپنی جان پر۔بولا، مجھ کو نہیں آتا خیال میں کہ خراب ہو یہ باغ کبھی۔

35

 اور مجھ کو خیال میں نہیں آتا کہ قیامت ہونی ہے۔

اور اگر کبھی پہنچایا مجھ کو میرے رب کے پاس، پاؤں گا بہتر اس سے اس طرف پہنچ کر۔

36

 کہا اس کو دوسرے نے جب بات کرنے لگا،

کیا تو منکر ہو گیا اس شخص (ذات) سے جس نے بنایا تجھ کو مٹی سے، پھر بوند سے پھر پورا کردیا تجھ کو مرد۔

37

 پر میں تو کہوں، وہی اﷲ ہے میرا رب اور نہ مانوں ساجھی (شریک) اپنے رب کا کسی کو۔

38

 اور کیوں نہ جب تو آیا تھا اپنے باغ میں کہا ہوتا؟ جو چاہا اﷲ کا، کچھ زور نہیں مگر دیا اﷲ کا۔

اگر تُو دیکھتا ہے مجھ کو کہ میں کم ہوں تجھ سے مال اور اولاد میں۔

39

 تو امید ہے کہ میرا رب دے مجھ کو تیرے باغ سے بہتر،

اور بھیج دے اس پر ایک بھبوکا (آفت) آسمان سے، پھر صبح کو رہ جائے میدان پٹپڑ(چٹیل) ۔

40

 یا صبح کو ہو رہے اسکا پانی خشک، پھر نہ سکے تُو کہ اسکو ڈھونڈ لائے۔

41

 اور سمیٹ لیا اسکا سارا پھل، پھر صبح کو رہ گیا ہاتھ نچاتا اس مال پر جو اس میں لگایا تھا،

اور وہ ڈھیا (گر) پڑا تھا اپنی چھتریوں (چھپروں) پر،

اور کہنے لگا کیا خوب تھا اگر میں ساجھی (شریک) نہ بناتا اپنے رب کا کسی کو۔

42

 اور نہ ہوئی اسکی جماعت کہ مدد کریں اسکو اﷲ کے سوا ،اور نہ ہوا وہ کہ بدلہ لے سکے۔

43

 وہاں سب اختیار ہے اﷲ سچے کا۔

اسی کا انعام بہتر ہے اور اسی کا دیا بدلہ۔

44

 اور بتا انکو کہاوت دنیا کی زندگی کی،

جیسے پانی اتارا ہم نے آسمان سے، پھر بھڑ کر نکلا اس سے زمین کا سبزہ،پھر کل کو ہو رہا چورا (بھُس) باؤ (ہوا) میں اڑتا۔

اور اﷲ کو ہے ہر چیز پر قدرت۔

45

مال اور بیٹے رونق ہیں دنیا کے جیتے۔

اور رہنے والی نیکیوں پر بہتر ہے تیرے رب کے ہاں بدلہ اور بہتر ہے توقع۔

46

 اور جس دن ہم چلائیں پہاڑ اور تُو دیکھے زمین کھل گئی،

اور گھیر بلائیں (اکھٹا کریں) ان کو، پھر نہ چھوڑیں ان میں (کسی) ایک کو۔

47

 اور سامنے لائے (پیش کئے گئے پاس) تیرے رب کے قطار کر کر(صف در صف) ۔

اور(بلاشبہ) آ پہنچے تم ہمارے پاس، جیسا ہم نے بنایا (پیدا کی) تھا تم کو پہلی بار۔

نہیں(جبکہ) تم بتاتے (سمجھتے) تھے کہ نہ ٹھہرائیں گے ہم تمہارا کوئی وعدہ(پیشی کا وقت) ۔

48

 اور رکھا جائے گا کاغذ(اعمالنامہ) ، پھر تو دیکھے گنہگار ڈرتے ہیں اسکے بیچ لکھے سے،

اور کہتے ہیں اے خرابی! کیسا ہے یہ لکھا؟نہ چھوڑے چھوٹی بات نہ بڑی بات، جو اس میں نہیں گھیری۔

اور پائیں گے جو کیا ہے سامنے۔اور تیرا رب ظلم نہ کرے گا کسی پر۔

49

 اور جب کہا ہم نے فرشتوں کو سجدہ کرو آدم کو،، تو سجدہ کر پڑے مگر ابلیس۔

تھا جِنّ کی قِسم سے سو نکل بھاگا اپنے رب کے حکم سے۔

سو اب تم ٹھہراتے ہو اسکو اور اسکی اولاد کو رفیق میرے سوا، اور وہ تمہارے دشمن ہیں۔

بُرا ہاتھ لگا بے انصافوں کو بدلہ۔

50

دکھا نہیں لیا میں نے ان کو بنانا آسمان و زمین کا اور نہ بنانا ان کا۔

اور میں وہ نہیں کہ پکڑوں (بناؤں) بہکانے والوں کو بازو (مددگار) ۔

51

 اور جس دن فرمائے گا، پکارو میرے شریکوں کو جو تم بتاتے تھے، پھر پکاریں گے،

پھر وہ جواب نہ دیں گے، اور کر دیں گے ہم انکے بیچ مرنے کے اسباب۔

52

 اور دیکھیں گے گنہگار آگ کو، پھر اٹکلیں (سمجھیں) گے کہ اُن کو پڑنا ہے اس میں،اور نہ پائیں گے اس سے راہ بدلنی(بچنے کا راستہ) ۔

53

 اور پھیر پھیر (طرح طرح سے) سمجھائی ہم نے، اس قرآن سے لوگوں کو ہر ایک کہاوت۔

اور ہے انسان سب چیز سے زیادہ جھگڑنے کو (لو) ۔

54

 اور لوگوں کو اٹکاؤ (روک) جو رہا اس سے کہ یقین لائیں جب پہنچی انکو راہ کی سوجھ (ہدایت) اور گناہ بخشوائیں اپنے رب سے،

سو یہی کہ پہنچے ان پر رسم پہلوں کی،

 یا آ کھڑا ہو ان پر عذاب سامنے۔

55

 اور ہم جو رسول بھیجتے ہیں، سو خوشی اور ڈر سنانے کو۔

اور جھگڑے لاتے ہیں منکر جھوٹے جھگڑے، کہ ڈِگا (گر) دیں اس سے سچی بات،

اور ٹھہرایا ہے میرے کلام کو، اور جو ڈر سنائے، ٹھٹھ(مذاق) ۔

56

 اور کون ظالم اس سے؟ جس کو سمجھایا اس کے رب کے کلام سے،

پھر منہ پھیرا اسکی طرف سے، اور بھول گیا جو آگے بھیج چکے ہیں اسکے ہاتھ۔

ہم نے رکھی ہے انکے دلوں پر اوٹ کہ اسکو نہ سمجھیں، اور ان کے کانوں میں بوجھ (بہرہ پن) ۔

اور جو تُو ان کو بلائے راہ پر، تو ہر گز نہ آئیں راہ پر اس وقت کبھی۔

57

 اور تیرا رب بڑا بخشنے والا ہے مہر رکھتا (رحم فرمانے وال) ۔اگر ان کو پکڑے ان کے کِئے پر، تو جلد ڈالے ان پر عذاب۔

پر اُن کا ایک وعدہ (وقت مقرر) ہے، کہیں نہ پائیں گے اس سے ورے سرکنے(بچ نکلنے) کو جگہ (راستہ) ۔

58

 اور یہ سب بستیاں جن کو ہم نے کھپا (ہلاک کر) دیا، جب ظالم ہو گئے،

اور رکھا تھا ان کے کھپنے (ہلاکت) کا ایک وعدہ (وقت مقرر) ۔

59

 اور جب کہا موسیٰ نے اپنے جوان (خادم) کو،

میں نہ ہٹوں گا جب تک نہ پہنچہں دو دریا کے ملاپ (سنگم) تک، یا چلتا جاؤں قرنوں (برسوں) ۔

60

 پھر جب پہنچے دونوں دریا کے ملاپ (سنگم) تک، بھول گئے اپنی مچھلی،پھر اس نے راہ لی دریا میں سرنگ بنا کر۔

61

پھر جب آگے چلے، کہا موسیٰ نے اپنے جوان (خادم) کو، لا ہمارے پاس ہمارا کھانا،ہم نے پائی ہے اپنے اس سفر میں تکلیف ۔

62

بولا وہ دیکھا تُو نے جب ہم نے جگہ پکڑی(ٹھہرے تھے) اس پتھر پاس، سو میں بھول گیا مچھلی۔

اور مجھ کو بھلایا شیطان ہی نے، کہ اس کا مذکور کروں۔

اور وہ کر (بن) گئی اپنی راہ دریا میں عجب طرح۔

63

کہا یہی ہے جو ہم چاہتے تھے۔پھر اُلٹے (واپس) پھرے اپنے پیر پہچانتے(نقوشِ قدم پر) ۔

64

 پھر پایا ایک بندہ ہمارے بندوں میں کا

 جس کو دی تھی (نوازا تھ) ہم نے اپنی مہر اپنے پاس (رحمتِ خاص)سے ،اور سکھایا تھا اپنے پاس سے ایک علم۔

65

 کہا اس کو موسیٰ نے،کہے تو تیرے ساتھ رہوں، اس پر کہ مجھ کو سکھا دے کچھ، جو تجھ کو سکھائی ہے بھلی راہ۔

66

 بولا تُو نہ (کر) سکے گا میرے ساتھ ٹھہرنا (صبر) ۔

67

 اور کیوں کر ٹھہرے (کرو صبر) دیکھ کر ایک چیز کو، جو تیرے قابو میں نہیں اسکی سمجھ؟

68

کہا تُو پائے گا اگر اﷲ نے چاہا مجھ کو ٹھہرنے (صبر کرنے) والا، اور نہ ٹالوں گا تیرا کوئی حکم۔

69

 بولا، پھر اگر میرے ساتھ رہتا ہے، تو مت پوچھیو مجھ سے کوئی چیز، جب تک میں شروع نہ کروں تیرے آگے اس کا مذکور۔

70

 پھر دونوں چلے۔ یہاں تک جب چڑھے ناؤ میں، اسکو پھاڑ (اس میں سوراخ کر) ڈالا۔

موسیٰ بولا، تُو نے اس کو پھاڑ (اس میں سوراخ کر) ڈالا کہ ڈبو دے اسکے لوگوں کو؟ تُو نے کی ایک چیز (حرکت) انوکھی۔

71

 بولا، میں نے نہ کہا تھا تُو نہ سکے گا میرے ساتھ ٹھہرنا (صبر) ؟

72

 کہا، مجھ کو نہ پکڑ میری بھول پر، اور نہ ڈال مجھ پر میرا کام مشکل۔

73

 پھر دونوں چلے۔ یہاں تک کہ ملے ایک لڑکے سے، اس کو مار ڈالا،

موسیٰ بولا، تُو نے مار ڈالی ایک جان ستھری (معصوم) بن بدلے کسی جان کے۔تُو نے کی ایک چیز نا معقول۔

74

بولا، میں نے تجھ کو نہ کہا تھا؟ تُو نہ سکے گا میرے ساتھ ٹھہرنا (صبر) ۔

75

 کہا، اگر تجھ سے پوچھوں کوئی چیز اسکے پیچھے (بعد) ، پھر مجھ کو ساتھ نہ رکھیو۔تُو اتار چکا میری طرف سے الزام۔

76

پھر دونوں چلے، یہاں تک کہ پہنچے ایک گاؤں کے لوگوں تک،کھانا چاہا وہاں کے لوگوں سے، وہ نہ مانے کہ ان کو مہمان رکھیں،

پھر پائی اس میں ایک دیوار گرا چاہتی تھی، اس کو سیدھا کیا۔

بولا موسیٰ اگر تُو چاہتا، لیتا اس پر مزدوری۔

77

 کہا، اب جُدائی ہے میرے تیرے بیچ۔

اب جتاتا (بتاتا) ہوں تجھ کو پھیر (حقیقت) ان باتوں کا، جس پر تُو نہ ٹھہر (صبر کر) سکا۔

78

 وہ جو کشتی تھی، سو تھی کتنے محتاجوں کی، محنت کرتے تھے دریا میں،

سو میں نے چاہا کہ اُس میں نقصان (عیب) ڈالوں، اور(کیونکہ) انکے پریتھا (آگے) ایک بادشاہ، (جو) لے لیتا ہو کشتی چھین کر۔

79

 اور جو لڑکا تھا، سو اسکے ماں باپ تھے ایمان پر،پھر ہم ڈرے کہ اُن کو عاجز (تنگ) کرے، زبردستی (سرکشی) اور کفر کر کر(سے) ۔

80

 پھر ہم نے چاہا، کہ بدلا دے اُ ن کو انکا رب، اس سے بہتر ستھرائی میں، اور لگاؤ رکھتا محبت میں۔

81

 اور وہ جو دیوار تھی، سو دو یتیم لڑکوں کی تھی، رہتے اس شہر میں،

اور اس کے نیچے مال گڑا (دبا) تھا اُن کا، اور انکا باپ تھا نیک۔

پھر چاہا تیرے رب نے کہ وہ پہنچیں اپنے زور کو(جوان ہوں) ، اور نکالیں اپنا مال گڑ(دبا ہو) ، مہربانی سے تیرے رب کی۔

اور میں نے یہ نہیں کیا اپنے حکم سے۔

یہ پھیر (حقیقت) ہے ان چیزوں کا، جن پر تُو نہ ٹھہر (صبر کر) سکا۔

82

 اور تجھ سے پوچھتے ہیں ذوالقرنین کو۔

کہہ، اب پڑھتا ہوں تمہارے آگے اس کا کچھ مذکور۔

83

 ہم نے اس کو جمایا تھا ملک میں، اور دیا تھا ہر چیز کا اسباب۔

84

پھر پیچھے پڑا ایک اسباب کے۔

85

یہاں تک کہ جب پہنچا سورج ڈوبنے کی جگہ، پایا کہ وہ ڈوبتا ہے ایک دلدل کی ندی میں،اور پائے اسکے پاس ایک لوگ۔

ہم نے کہا، اے ذوالقرنین! یا لوگوں کو تکلیف دے، اور یا رکھ ان میں خوبی(کے ساتھ اچھا رویہ) ۔

86

بولا، جو کوئی ہو گا بے انصاف سو ہم اسکو مار دیں گے،پھر الٹا (لوٹ) جائے گا اپنے رب کے پاس، وہ مار دے گا اس کو بُری مار۔

87

اور جو کوئی یقین لایا اور کیا بھلا کام، سو اس کو بدلے میں بھلائی ہے،

اور ہم کہیں گے اس کو اپنے کام میں آسانی۔

88

 پھر لگا ایک اسباب کے پیچھے۔

89

یہاں تک جب پہنچا سورج نکلنے کی جگہ،پایا کہ وہ نکلتا ہے ایک لوگوں پر، کہ نہیں بنا دی ہم نے ان کو اس سے ورے کچھ اوٹ۔

90

 یوں ہی ہے! اور ہمارے قابو میں آچکی ہے اسکے پاس کی خبر۔

91

 پھر لگا ایک اسباب کے پیچھے۔

92

یہاں تک کہ جب پہنچا دو آڑ (پہاڑوں) کے بیچ،پائے اُن سے ورے (قریب) ایک لوگ، لگتے نہیں کہ سمجھیں ایک بات۔

93

بولے اے ذوالقرنین! یہ یاجوج و ماجوج! دھوم اُٹھاتے ہیں ملک میں،

سو کہے تو ہم ٹھہرا دیں تجھ کو کچھ محصول اس پر کہ بنا دے تُو ہم میں ان میں ایک آڑ۔

94

بولا جو مقدور دی (عطا کر رکھا ہے) مجھ کو میرے رب نے وہ بہتر ہے،

سو مدد کرو میری محنت میں، بنا دوں تمہارے اور ان کے بیچ ایک دھابا (اوٹ)۔

95

 پکڑاؤ مجھ کو تختے لوہے کے۔

یہاں تک کہ جب برابر کر دیا دو پھانکوں (پاٹوں) تک پہاڑ کے، کہا، دَھونکو۔

یہاں تک جب کر دیا اس کو آگ، کہا، لاؤ میرے پاس کہ ڈالوں اس پر پگھلا تانبا۔

96

پھر نہ سکے کہ اس پر چڑھ آئیں اور نہ سکے اس میں (نقب) سوراخ کرنا۔

97

 بولا یہ ایک مہر (مہربانی) ہے میرے رب کی،پھر جب آئے وعدہ میرے رب کا، گرا دے اس کو (ریزہ ریزہ) ڈھا کر۔

اور ہے وعدہ میرے رب کا سچا۔

98

 اور چھوڑ دیں گے ہم خلق کو اس دن ایک دوسرے میں دھنستے،

اور پھونک مارے صُور میں، پھر جمع کر لائیں ہم ان کو سارے۔

99

 اور دکھا دیں ہم دوزخ اُس دن کافروں کو سامنے۔

100

جن کی آنکھوں پر پردہ پڑا تھا میری یاد سے،اور نہ سکتے تھے سننا۔

101

 اب کیا سمجھے ہیں منکر؟ کہ ٹھہرا دیں میرے بندوں کو میرے سوا حمایتی۔

ہم نے رکھی ہے دوزخ منکروں کی مہمانی۔

102

 کہہ ہم بتا دیں تم کو، کن کے کئے (اعمال) بہت اکارت (برباد) ؟

103

جن کی دوڑ بھٹک رہی ہے دنیا کی زندگی میں، اور وہ سمجھتے ہیں کہ خوب بناتے (کرتے) ہیں کام۔

104

 وہی ہیں جو منکر ہوئے اپنے رب کی نشانیوں سے اور اسکے ملنے سے، سو مٹ گئے ان کے کئے(اعمال) ،

پھر نہ کھڑی کریں گے ہم اُن کے واسطے قیامت کے دن تول۔

105

 یہ بدلہ ہے ان کا دوزخ، اس پر کہ منکر ہوئے، اور ٹھہرائیں میری باتیں اور میرے رسول ٹھٹھ(مذاق) ۔

106

 جو لوگ یقین لائے ہیں اور کئے ہیں بھلے کام، اُن کو ہیں ٹھنڈی چھاؤں کے باغ، مہمانی۔

107

رہا کریں ان میں، نہ چاہیں وہاں سے جگہ بدلنی۔

108

 تُو کہہ، اگر دریا سیاہی ہو کہ لکھے میرے رب کی باتیں،

بیشک دریا نبڑ چکے(ختم ہو جائے) ابھی نہ نبڑیں (ختم ہوں) میرے رب کی باتیں،اور اگر دوسرا بھی لا دیں ہم ویسا اسکی مدد کو۔

109

 تُو کہہ میں بھی ایک آدمی ہوں جیسے تم، حکم آتا ہے مجھ کو کہ تمہارا صاحب ایک صاحب ہے۔

پھر جس کو امید ہو ملنے کی اپنے رب سے، سو کرے کچھ کام نیک،اور ساجھا نہ رکھے اپنے رب کی بندگی میں کسی کا۔

***********

110


© Copy Rights:

Zahid Javed Rana, Abid Javed Rana,

Lahore, Pakistan

Visits wef Apr 2024 web counter